Monday 1 January 2018

بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی صداقت کے تین شاہد




30 ستمبر 1936ء کا دن یوم تبلیغ کے طور پر منایا گیا۔ اس موقع کی مناسبت سے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر مبنی ایک مضمون تحریر فرمایا۔ ذیل میں یہ مضمون ہدیۂ قارئین ہے۔ یہ مضمون انوارالعلوم جلد 13 صفحہ 463 تا 475سے لیا گیا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں:
’’انسانی کامیابی کیلئے تین چیزوں کی ضرورت ہے:
اوّل اعتقادات کی درستی کہ خیالات کی درستی کے بغیر کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی۔ خیال کی حیثیت روشنی کی ہوتی ہے اور اس کے بغیر انسان اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ 
دوسرے عمل کی درستی۔ عمل اگر درست نہ ہو تب بھی انسان کامیاب نہیں ہو سکتا۔ عمل کی مثال ہاتھ پائوں کی ہے اگرہاتھ پائوں نہ ہوں تب بھی انسان اپنی جگہ سے ہِل نہیں سکتا۔ 
تیسرے محرک۔ اگر محرک نہ ہو تب بھی انسان کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ خیالات خواہ درست ہوں‘ عمل خواہ درست ہو لیکن محرک موجود نہ ہو تو انسان کے عمل میں استقلال نہیں پیدا ہوتا۔ استقلال جذبات کی شدت سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جب جذبات کمزور ہوں تو انسان استقلال سے کام نہیں کر سکتا۔
اَب اے دوستو! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے اور آپ کے سینہ کو حق کے لئے کھولے اگر آپ غور کریں اور اپنے دل سے تعصّب کے خیالات کو دور کر دیں اور ہارجیت کی کشمکش کو نظرانداز کر دیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ بانی سلسلہ احمدیہ کے دعویٰ کے وقت بھی اور آج بھی یہ تینوں باتیں مسلمانوں سے مفقود ہیں اور صرف بانی سلسلہ احمدیہ کی بدولت یہ تینوں چیزیں جماعت احمدیہ میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں جو اس امر کا ثبوت ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ خدا تعالیٰ کے راستباز بندے تھے اور اس کی طرف سے مامور۔
اے دوستو! میں کس طرح آپ کے سامنے اپنا دل چیر کر رکھوں اور کس طرح آپ کو یقین دلائوں کہ آپ کی محبت اور آپ کی خیر خواہی میرے دل میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے اور اگر ایک طرف میرے ہر ذرّہ ٔجسم پر اللہ تعالیٰ کی محبت قبضہ کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف اسی کے حکم اور اسی کے ارشاد کے ماتحت آپ لوگوں کی خیر خواہی اور آپ کی بھلائی کی تڑپ بھی میرے جذبات میں ایک تلاطم پیدا کر رہی ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میں آپ کو دھوکا دینے کیلئے یہ سطور نہیں لکھ رہا نہ آپ کو شرمندہ کرنے کے لئے لکھ رہا ہوں اور نہ آپ پر اپنی بڑائی جتانے کے لئے لکھ رہا ہوں بلکہ میرا پیدا کرنے والا اور میرا مالک جس کے سامنے میں نے مر کر پیش ہونا ہے اس امر کا شاہد ہے کہ میں آپ کی بہتری اور بہبودی کیلئے یہ سطور لکھ رہا ہوں اور سوائے آپ کو ہلاکت سے بچانے کے میری اور کوئی غرض نہیں اور اس لئے ہی آپ سے بھی خواہش کرتا ہوں کہ آپ ٹھنڈے دل سے اس امر پر غور کریں کہ کیا یہ تینوں باتیں جو مذہب و جماعت کی ترقی کیلئے ضروری ہوتی ہیں دوسرے مسلمانوں میں موجود ہیں؟ اگر نہیں اور ہر گز نہیں تو پھر آپ غور کریں کہ میں جو آپ کو کامیابی کی راہ کی طرف بلاتا ہوں آپ کا دوست ہوں یا وہ لوگ جو آپ کو اس سے روکتے ہیں وہ آپ کے دوست ہیں؟ میں آپ کو تفصیل میں ڈالنا پسند نہیں کرتا اور ایک مختصر اشتہار میں تفصیل بیان بھی نہیں کی جا سکتی مگر میں اعتقادات میں سے صرف ایک اعتقاد کو لے لیتا ہوں اور وہ وفات مسیح ناصری علیہ السلام کا عقیدہ ہے۔
حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے جب دعویٰ کیا اُس وقت سب مسلمان خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں یہ یقین رکھتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آئندہ کسی وقت دنیا میں تشریف لائیں گے اور کافروں کو قتل کر کے اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ ہر تعلیم یافتہ آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ عقیدہ خواہ غلط ہو خواہ صحیح قوم کے خیالات اور اعمال پر کیسے گہرے اثر ڈال سکتا ہے اور مسلمانوں کی حالت کو دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے کہ ایسا ہی ہوا بھی۔
جب مرزا صاحب علیہ السلام نے یہ اعلان کیا کہ یہ عقیدہ نہایت خطرناک ہے اُس وقت صرف سرسید اور ان کے ہمنوا وفاتِ مسیح کے قائل تھے مگر اس وجہ سے نہیں کہ مسیح کا زندہ آسمان پر ہونا قرآن کریم کے خلاف ہے بلکہ اس لئے کہ یہ اَمر قانونِ قدرت کے خلاف ہے اور چونکہ سرسید قانونِ قدرت کے خلاف جسے وہ معلومہ سائنس کے مترادف خیال کرتے تھے کوئی فعل جائز نہ سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے اس عقیدہ کا بھی انکار کیا۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ مذہب سے لگائو رکھنے والوں کے لئے یہ دلیل تسلی کا موجب نہیں ہو سکتی۔ وہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو صرف اس کے ارادہ کی حد بندیوں میں رکھنے کی اجازت دے سکتے ہیںاور انسان کے محدود تجربہ کو قانونِ قدرت کا عظیم الشان نام دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب بانی سلسلہ احمدیہ نے اس دعویٰ کو پیش کیا تو سب فرقوں کی طرف سے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا اور آپ کو معجزات کا منکر اور نبوت کا منکر اور قدرتِ الٰہی کا منکر اور مسیح ناصری کی ہتک کرنے والا اور نہ معلوم کیا کیا کچھ قرار دیا گیا۔ اس واقعہ کو صرف سینتالیس سال کا عرصہ ہوا اور ان تماشوں کو دیکھنے والے لاکھوں آدمی اَب بھی موجود ہیں۔ ان سے دریافت کریں اگر آپ اس وقت پیدا نہ ہوئے تھے یا بچے تھے اور پھر سوچیں کہ مسلمانوں کے دل پر اس عقیدہ کا کتنا گہرا اثر تھا۔ بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے اعلان وفاتِ مسیح سے وہ یوں معلوم کرتے تھے کہ گویا ان کا آخری سہارا چھین لیا گیاہے لیکن آپ نے اس مخالفت کی پرواہ نہ کی اور برابر قرآن کریم، حدیث اور عقل سے اپنے دعویٰ کو ثابت کرتے چلے گئے۔ آپ نے ثابت کیا کہ:۔
(1) قرآن کریم کی نصوصِ صریحہ مسیح علیہ السلام کو وفات یافتہ قرار دیتی ہیں۔ مثلاً وہ مکالمہ جو قیامت کے دن حضرت مسیح علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوگا اور جس کا ذکر قرآن کریم میں، سورۃ  المائدۃ:118۔117 میں، ہے صاف بتاتا ہے کہ مسیحی لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے مشرک نہیں بنے۔ پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ سمجھا جائے تو ماننا پڑے گا کہ عیسائی لوگ ابھی حق پر ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی ضرورت ہی نہیں پیدا ہوئی۔
(2) احادیث میں صریح طور پر لکھا ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر ہمارے آقا سیدِ دو جہان سے دوگنی تھی  (  کنزالعمال جلد13 صفحہ 676 دارالکتب الاسلامی حلب)  پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ سمجھا جائے تو حضرت عیسیٰ کی عمر اِس وقت تک بھی تیس گُنے تک پہنچ جاتی ہے اور نہ معلوم آئندہ کس قدر فرق بڑھتا چلا جائے۔
(3) اگر حضرت مسیح علیہ السلام واپس تشریف لاویں تو اس سے ختمِ رسالت کا انکار کرنا پڑتا ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے نبوت کا مقام پا چکے تھے اور آپ کا پھر دوبارہ آنا ظاہر کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ختم ہو کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت سے دنیا آخری استفادہ کرے گی۔
(4) اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت مسیحؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوں گے تو اس میں حضرت مسیحؑ کی ہتک ہے کہ وہ نبوتِ مستقلہ کے مقام سے معزول ہو کر ایک اُمتی کی حیثیت سے نازل کئے جائیں گے۔
(5) اسی عقیدہ سے اُمتِ محمدیہ کی بھی ہتک ہے کہ پہلی اُمتیں تو اپنے اپنے زمانہ میں اپنے قومی فسادوں کو دُور کرنے کے لئے ایسے آدمی پیدا کر سکیں جنہوں نے ان مفاسد کو دور کیا لیکن اُمتِ محمدیہ پہلے ہی صدمہ میںایسی ناکارہ ثابت ہوگی کہ اسے اپنی امداد کے لئے باہر کی مدد کی ضرورت پیش آئے گی۔
(6) اس عقیدہ سے عیسائی مذہب کو بہت تقویت حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ مسیحی مسلمانوں کو یہ کہہ کر گمراہ کرتے ہیں کہ تمہارا رسول فوت ہو چکا ہے ہمارا مسیح زندہ ہے اور جب تمہارے رسولؐ کی اُمت گمراہ ہو جائے گی اس وقت ہمارا مسیح تمہارے عقیدہ کی رُو سے ان کے بچائو کے لئے آسمان سے نازل ہوگا۔ اب بتائو زندہ اچھا ہوتا ہے یا مُردہ اور مدد مانگنے والا بڑا ہوتا ہے یا مدد دینے والا جب کہ مدد مانگنے والے کا اس پر کوئی احسان نہ ہو۔
(7) اس عقیدہ سے مسلمانوں کی قوۃِ عملیہ جاتی رہی ہے۔ کیونکہ جب کسی قوم کو خیال ہو جائے کہ بجائے انتہائی قربانیوں سے اپنی حالت بدلنے کے اسے خود بخود کسی بیرونی مدد سے ترقی تک پہنچا دیا جائے گا تو اس کی عزیمت کمزور ہو جاتی ہے اور اس کے عمل میں ضُعف پیدا ہو جاتا ہے چنانچہ اس کا اثر مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبہ میں پایا جاتا ہے۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں ورنہ دلائل کا ایک ذخیرہ تھا جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے پیش کیا لیکن مسلمانوں نے ان دلائل پر کان نہ دھرا اور اپنی مخالفت میں بڑھتے چلے گئے۔ اب اے دوستو! آپ خود ہی غور کریں کہ کیا اوپر کے دلائل ایسے نہیں کہ جنہیں سن کر ہر درد مند کا دل اسلام کے درد سے بھر جاتا ہے اور وہ اس عقیدہ کی شناعت اور بُرائی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ گو یہ عقیدہ بظاہر معمولی معلوم ہوتا ہے لیکن اسلام اور مسلمانوں کے لئے اس میں کس قدر زہر بھرا ہوا ہے۔ پس اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس قدر بھی زور دیا درست تھا اور آپ کی یہ خدمت اسلام کی عظیم الشان خدمت تھی اور مسلمانوں پر احسان۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر اس کا اثر کیا ہوا؟ سو آپ کو معلوم ہو کہ یا تو ہر مسلمان وفاتِ مسیحؑ کے عقیدہ کی وجہ سے حضرت مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگاتا تھا یا اب اکثر تعلیم یافتہ طبقہ حضرت مسیح ناصری ؑ کو وفات یافتہ کہتا ہے اور کفر کا فتویٰ لگانے والے علماء اس مسئلہ پر بحث کرنے سے کترانے لگ گئے ہیں اور یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ یہ مسئلہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہمیں اس سے کیا کہ عیسیٰ مر گیا یا زندہ ہے۔
لیکن اے دوستو! یہ جواب درست نہیں جس طرح پہلے انہوں نے غلطی کی تھی اب بھی وہ غلطی کرتے ہیں۔ جب کہ یہ ثابت ہے کہ حیاتِ مسیح کے عقیدہ سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ قرآن کریم کے خلاف ہے اور اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے تو پھر یہ کہنا کہ ہمیں کیا مسیحؑ زندہ ہیں یا مر گئے پہلی بیوقوفی سے کم بیوقوفی نہیں کیونکہ اس کے معنی تو یہ بنتے ہیں کہ ہمیں اس سے کیا کہ قرآن کریم کے خلاف کوئی بات کہی جاتی ہے ہمیں اس سے کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے، ہمیں اس سے کیا کہ اسلام کو نقصان پہنچتا ہے۔ مگر بہرحال اس تغیر مقام سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ دل اس عقیدہ کی غلطی کو تسلیم کر چکے ہیں گو ضد اور ہٹ صفائی کے ساتھ اس کے تسلیم کرنے میں روک بن رہے ہیں۔ مگر کیا وہ لوگ اسلام کے لیڈر کہلا سکتے ہیں جو صرف اس لئے ایک ایسے عقیدہ پر پردہ ڈال رہے ہوں جو اسلام کیلئے  مُضِرّ ہے کہ اسے ردّ کرنے سے لوگوں پر یہ کُھل جائے گا کہ انہوں نے حضرت مرزا صاحب کی مخالفت میں غلطی کی تھی۔
بہرحال علماء جو رویہ چاہیں اختیار کریں ہر اک مسلمان پر اب یہ امر واضح ہو گیا ہے کہ عقائد کی جنگ میں دوسرے علماء مرزا صاحب علیہ السلام کے مقابل پر سخت شکست کھا چکے ہیں اور وہ مسئلہ جس کے بیان کرنے پر علماء نے بانی سلسلہ احمدیہ پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا آج اکثر مسلمان نوجوانوں کے دلوں میں قائم ہو چکا ہے اور یہ پہلی شہادت مرزا صاحب کی صداقت کی ہے۔
دوسری چیز جس سے انسان کو کامیابی حاصل ہوتی ہے درستی عمل ہے اور اس بارہ میں حضرت مسیح موعود    علیہ السلام کی کوششوں میں سے میں ایک کوشش کو بطور نمونہ پیش کرتا ہوں۔
جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا مسلمانوں کی عملی سُستی اور بیچارگی حد سے بڑھی ہوئی تھی‘ عوام الناس کی قوتیں مفلوج ہو رہی تھیں اور خواص عیسائیت کے حملہ سے بچنے کیلئے اس کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھا رہے تھے۔ اسلام کے خادم اپالوجسٹس APOLOGISTS)) کی صفوں میں کھڑے ان اسلامی عقائد کیلئے جنہیں یورپ ناقابلِ قبول سمجھتا تھا معذرتیں پیش کر رہے تھے۔ اُس وقت بانی سلسلہ احمدیہ نے اِن طریقوں کے خلاف احتجاج کیا، اُس وقت انہوں نے اپنی تنہا آواز کو دلیرانہ بلند کیا کہ اسلام کو معذرتوں کی ضرورت نہیں۔ اِس کا ہر حکم حکمتوں سے پُر اور اس کا ہر ارشاد صداقتوں سے معمور ہے۔ اگر یورپ کو اس کی خوبی نظر نہیں آتی تو یا وہ اندھا ہے یا ہم شمع اُس کے قریب نہیں لے گئے پس اسلام کی حفاظت کا ذریعہ معذرتیں نہیں بلکہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو یورپ تک پہنچانا ہے۔ اُس وقت جب کہ یورپ کو اسلام کا خیال بھی نہیں آ سکتا تھا انہوں نے انگریزی میں اپنے مضامین ترجمہ کروا کے یورپ میں تقسیم کرائے اورجب خدا تعالیٰ نے آپ کو جماعت عطا فرمائی تو آپ نے انہیں ہدایت کی کہ جہاد اسلام کا ایک اہم جزو ہے اور جہاد کسی وقت چھوڑا نہیں جا سکتا۔ جس طرح نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اسلام کے ایسے احکام ہیں کہ جن پر عمل کرنا ہر زمانہ میں ضروری ہے اسی طرح جہاد بھی ایسے اعمال میں سے ہے جس پر ہر زمانہ میں عمل کرنا ضروری ہے اور اسی غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے جہاد کی دو صورتیں مقرر کی ہیں‘ ایک جنگ کے ایام کیلئے اور ایک صلح کے ایام کے لئے۔ جب مسلمانوں پر کوئی قوم اس وجہ سے حملہ آور ہو کہ کیوں انہوں نے اسلام کو قبول کیا ہے اور انہیں بزور اسلام سے منحرف کرنا چاہے جیسا کہ مکہ کے لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کیا تو اُس وقت ان کیلئے یہ حکم ہے کہ تلوار کا مقابلہ تلوار سے کریں اور جب غیر مسلم لوگ تلوار کے ذریعہ سے لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے نہ روکیں تو اُس وقت بھی جہاد کا سلسلہ ختم نہیں ہو جاتا۔ اِس وقت دلیل اور تبلیغ کی تلوار چلانے کا مسلمانوں کو حکم ہے تا کہ اسلام جس طرح جنگ کے ایام میں ترقی کرے صلح کے ایام میں بھی ترقی کرے اور دونوں زمانے اس کی روشنی کے پھیلانے کا موجب ہوں اور مسلمانوں کی قوتِ عملیہ کمزور نہ ہو۔
یاد رہے کہ اس جہاد کا ثبوت قرآن کریم میں بھی پایا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے۔   فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا - (1) یعنی کفار کی باتوں کو مت مان بلکہ قرآن کریم کے ذریعہ سے ان سے جہادِ کبیر کرتا چلا جا یہاں تک کہ لوگوں کے دلوں پر فتح پالے۔
افسوس کہ مسلمانوں کی عملی طاقتیں چونکہ ماری گئی تھیں ان کے لیڈروں نے اس مسئلہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کی اور چونکہ وہ کام نہ کرنا چاہتے تھے اور یہ اقرار بھی نہ کرنا چاہتے تھے کہ وہ کام سے جی چُراتے ہیں انہوں نے یہ عجیب چال چلی کہ لوگوں میں شور مچانا شروع کر دیا کہ بانی سلسلہ احمدیہ جہاد کے منکر ہیں حالانکہ یہ سراسر بُہتان اور جھوٹ تھا۔ بانی سلسلہ احمدیہ جہاد کے منکر نہ تھے بلکہ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ جہاد باقی ارکانِ اسلام کی طرح ہر زمانہ میں ضروری ہے اور چونکہ تلوار کا جہاد ہر زمانہ میں نہیں ہو سکتا اور چونکہ جماعت کا سُست ہو جانا اس کی ہلاکت کا موجب ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاد کی دو قسمیں مقرر کی ہیں۔ جب تلوار سے اسلام پر حملہ ہو تلوار کا جہاد فرض ہے اور جب لوہے کی تلوار کا حملہ ختم ہو تو قرآن کریم کی تلوار لے کر کافروں پر حملہ کرنا ہمارا فرض ہے۔ غرض جہاد کسی وقت نہیں چھوڑا جا سکتا۔ کبھی مسلمانوں کو تلوار کے ذریعہ سے جہاد کرنا پڑے گا اور کبھی قرآن کے ذریعہ سے۔ وہ جہاد کو کسی وقت بھی چھوڑ نہیں سکتے۔
غرض یہ عجیب اور پُرلطف جنگ تھی کہ جو شخص جہاد کے لئے مسلمانوں کو بُلا رہا تھا اور جہاد کو ہر زمانہ میں فرض قرار دے رہا تھا اُسے جہاد کا منکر کہا جاتا تھا اور جو لوگ نہ تلوار اُٹھاتے تھے اور نہ قرآن کریم کا جہاد کر رہے تھے‘ انہیں جہاد کا ماننے والا قرار دیا جاتا تھا مگر ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس جنگ سے سلسلہ احمدیہ کے راستہ میں روکیں تو پیدا کی جا سکتی تھیں مگر اسلام کو کیا فائدہ تھا؟ اسلام حضرت زین العابدین کی طرح میدانِ کربلا میں بے یارومددگار پڑا تھا اور مسلمان علماء جہاد کی تائید کا دعویٰ کرتے ہوئے اسلام کے لئے جہاد کرنے والوں کا مقابلہ کر رہے تھے اور دشمنانِ اسلام کے لئے انہوں نے میدان خالی چھوڑ رکھا تھا۔
شاید کوئی یہ کہے کہ دوسرے مسلمان بھی تو تبلیغ کرتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں  اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِہٖ (2)جہاد امام کے پیچھے ہوتا ہے بغیر امام کے نہیں اور مسلمان اِس وقت کسی امام کے ہاتھ پر جمع نہیں۔ پس اِن کی تبلیغ تو بھاگی ہوئی فوج کے افراد کی منفردانہ جنگ ہے۔ کبھی اس طرح فتح حاصل نہیں ہوتی۔ فتح تو منظم فوج کو ہوتی ہے جس کا افسر سب امور پر غور کر کے مناسب مقامات حملے کے لئے خود تجویز کرتا اور عقل اور غور سے جنگ کے محاذ کو قائم کرتا ہے۔ پس بعض افراد کی منفردانہ کوششیں جہاد نہیں کہلا سکتیں۔ 
آج اس قدر لمبے عرصہ کے تجربہ کے بعد سب دنیا دیکھ رہی ہے کہ عملی پروگرام جو بانی سلسلہ نے قائم کیا تھا وہی درست ہے پچاس سال کے شور کے بعد مسلمان تلوار کا جہاد آج تک نہیں کر سکے کفر کا فتویٰ لگانے والے مولویوں میں کسی کو آج تک تلوار پکڑنے کی توفیق نہیں ملی۔ قرآن کریم سے جہاد کرنے والے احمدیوں کو خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں فتح دی ہے۔ وہ لاکھوں آدمی اِن مولویوں کی مخالفت کے باوجود چھین کر لے گئے ہیں اور یورپ اور امریکہ اور افریقہ میں ہزار ہا آدمیوں کو جو پہلے ہمارے آقا اور مولیٰ کو گالیاں دیتے تھے حلقہ بگوشانِ اسلام میں شامل کر چکے ہیں اور وہ جو پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے تھے آج ان پر درود بھیج رہے ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تنظیم کا نتیجہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تنظیم کیوں پیدا ہوئی اور کیوں دوسروں سے تنظیم کی توفیق چِھن گئی؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ قوتِ عملیہ پیدا کرنے کا صحیح نسخہ استعمال نہیں کیا گیا۔ جس فوج کو مشق نہ کرائی جائے وہ وقت پر لڑ نہیں سکتی‘ جس قوم کو ہر وقت جہاد میں نہ لگایا جائے وہ خاص مواقع پر بھی جہاد نہیں کر سکتی پس اس معاملہ میں بھی فتح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو حاصل ہوئی اور ثابت ہو گیا کہ جس نکتہ تک آپ کا دماغ پہنچا دوسروں کا نہیں پہنچا۔ دنیا نے آپ کامقابلہ کیا اور شکست کھائی‘ آپ نے دنیا کے چیلنج کو قبول کیا اور فتح حاصل کی۔ 
تیسرا ذریعہ انسانی کامیابی کا محرکِ صحیح کا میسر آنا ہے۔ بانی سلسلہ کے دعویٰ کے وقت محرک کے بارہ میں بھی آپ میں اور دوسرے علماء میں اختلاف ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے سامنے حقیقت پیش کی کہ انسانی زندگی کا نقطۂ مرکزی محبتِ الٰہی ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندہ کا تعلق محبت کا ہے تو سزا تابع ہے انعام اور بخشش کی‘ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتدا بھی رحمت سے کی جاتی ہے اور انتہاء بھی رحمت سے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہر بندہ کو عبودیت اور بخشش کیلئے پیدا کیا ہے اور ہر بندہ کو یہ چیز نصیب ہوکر رہے گی۔ یہ جذبۂ محبت پیدا کر کے آپ نے اپنی جماعت کے دلوں میں عمل کا یہ محرک پیدا کر دیا کہ جب اللہ تعالیٰ کے ہم پر اس قدر احسانات ہیں تو ہمیں بھی اس کے جواب میں بطور اظہارِ شکریہ اس مقصود کو پورا کرنا چاہئے جس کے لئے اُس نے دنیا کو پیدا کیا ہے۔ اس محبتِ الٰہی کے جذبہ نے انہیں تمام انعامات اور تمام دیگر خواہشات سے مستغنی کر دیا ہے۔ وہ عہدوں اور جزاء کے امیدوار نہیں۔ وہ سب ماضی کو دیکھتے ہیں اور آئندہ کیلئے خدا تعالیٰ سے سودا نہیں کرنا چاہئے۔ اس محرک کے متعلق بھی علماء نے اختلاف کیا وہ محبت کے جذبہ کو کُچلنے میں لُطف محسوس کرتے تھے۔ انہیں اس امر کاشوق تھا کہ دنیا کے سب بزرگوں کو جن کا نام قرآن کریم میں مذکور نہیں جھوٹا اور فریبی کہیں‘ انہیں شوق تھا کہ وہ اپنے اور یہود کے باپ دادوں کے سوا سب کو جہنم میں دھکیل دیں‘ وہ اس امر میں مسرت حاصل کرتے تھے کہ ایک دفعہ جہنم میں دھکیل کر وہ پھر کسی کو باہر نہیں نکلنے دیں گے‘ انہیں محبتِ الٰہی کے لفظ پر اعتراض نہ تھالیکن وہ محبت پیدا کرنے کے سب ذرائع کو مٹا دینا چاہتے تھے‘ وہ خدا تعالیٰ کو ایک بھیانک شکل میں پیش کر کے کہتے تھے کہ ہمارا یہ خدا ہے‘ اب جو چاہے اس سے محبت کرے مگر کون اس خدا سے محبت کر سکتا تھا‘ نتیجہ یہ تھا کہ مسلمانوں کیلئے محرکِ حقیقی کوئی باقی نہ رہا تھا۔ چند وقتی سیاسی ضرورتیں‘ چند عارضی قومی جھگڑے انہیں کبھی عمل کی طرف مائل کر دیں تو کر دیں لیکن مستقل آگ‘ ہمیشہ رہنے والی جلن انہیں نصیب نہ تھی۔ مگر مرزا صاحب علیہ السلام نے باوجود کفر کے فتووں کے اس بات کا اعلان کیا کہ سب قوموں میں نبی گزرے ہیں‘ راستباز ظاہر ہوئے ہیں اور جس طرح موسیٰ علیہ السلام اور مسیح علیہ السلام خدا کے برگزیدہ تھے کرشن، رامچندر، بدھ، زردشت بھی خدا کے برگزیدہ تھے۔ اُس نے ہمیشہ محبت اور بخشش کا ہاتھ لوگوں کی طرف بڑھایا ہے اور آئندہ بڑھاتا رہے گا۔ نیز یہ کہ جس طرح وہ ماضی میں بخشش کا ہاتھ بلند کرتا رہا ہے آئندہ بھی وہ ایسا ہی کرے گا اور دائمی دوزخ کسی کو نہ ملے گی سب بندے آخر بخشے جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سزا بطور علاج ہوتی ہے نہ بطور ایذاء اور تکلیف دہی کے۔ آہ! علماء کا وہ غصہ دیکھنے کے قابل تھا جب انہوں نے مرزا صاحب کے یہ الفاظ سنے جس طرح سارا دن کی محنت کے بعد شکار پکڑ کر لانے والے چِڑی مار کی چِڑیاں کوئی چھوڑ دے تو وہ غصہ میں دیوانہ ہو جاتا ہے‘ اسی طرح علماء کے چہرے غصہ سے سرخ ہو گئے اور یوں معلوم ہوا جیسے کہ ان کے پکڑے ہوئے شکار مرزا صاحب نے چھوڑ دیئے ہیں۔ مگر بانی سلسلہ نے ان امور کی پرواہ نہیں کی انہوں نے خود گالیاں سنیں اور ایذائیں برداشت کیں لیکن خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کا راستہ کھول دیا اور اعمالِ مستقلہ کیلئے ایک محرک پیدا کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت احمدیہ کے اندر خدا تعالیٰ کی محبت کی وہ آگ پیدا ہو گئی جو انہیں رات دن بندوں کو خدا تعالیٰ کی طرف کھینچ کر لانے پر مجبور کر رہی ہے۔
عشق آہ! کیسا پیارا لفظ ہے۔ یہ عشق کی آگ ہمارے دلوں میں مرزا صاحب نے پیدا کر دی، عشق زبردستی نہیں پیدا ہوتا۔ عشق حُسن سے پیدا ہوتا ہے یا احسان سے۔ ہم ایک حسین یا محسن کو بدنما صورت میں پیش کر کے عشق نہیں پیدا کر سکتے۔ عشق حُسن و احسان سے ہی پیدا ہوتا ہے اور مرزا صاحب نے ہمارے سامنے خدا تعالیٰ کو جس صورت میں پیش کیا وہ حقیقی حُسن اور کامل احسان کو ظاہر کرنے والا تھا اور اس کا نتیجہ جو نکلا وہ دنیا کے سامنے موجود ہے۔ ہم دیوانے ہیں خدا تعالیٰ کے‘ ہم مجنون ہیں اس حُسن کی کان کے، فریفتہ ہیںاس احسانوں کے منبع کے، اس کی رحمتوں کی کوئی انتہاء نہیں، اس کی بخششوں کی کوئی حد نہیں، پھر ہم کیوں نہ اسے چاہیں اور کیوں اس محبت کرنے والی ہستی کی طرف دنیا کو کھینچ کر نہ لاویں۔ لوگوں کی بادشاہت ملکوں پر ہے ہماری بادشاہت دلوں پر ہے۔ لوگ علاقے فتح کرتے ہیں ہم دل فتح کرتے ہیں اور پھر انہیںنذر کے طور پر اپنے آقا کے قدموں پر لا کر ڈالتے ہیں۔ بھلا ملک فتح کرنے والے اپنے خدا کو کیا دے سکتے ہیں کیا وہ چین کا محتاج ہے یا جاپان کا؟ لیکن وہ پاک دل کا تحفہ قبول کرتا ہے، محبت کرنے والے قلب کو شکریہ سے منظور کرتا ہے۔ پس ہم وہ چیز لاتے ہیں جسے ہمارا خدا قبول کرنے کے لئے تیار ہے کیونکہ ہم اپنے لئے کچھ نہیں چاہتے بلکہ خدا تعالیٰ کیلئے چاہتے ہیں۔
اب اے دوستو! دیکھو کیسا زبردست محرک ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا کر دیا ہے۔ ہمیں اب اس سے غرض نہیں کہ ہندو مسلمان کی لڑائی ہو رہی ہے یا سکھ مسلمان کی یا عیسائی مسلمان کی، ان عارضی محرکات سے ہم آزاد ہیں۔ یہ لڑائیاں تو ختم ہو جاتی ہیں اور ساتھ ہی جوش بھی ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور عمل ختم ہو جاتا ہے۔ ہمارا محرک تو محبتِ الٰہی ہے جو کسی عارضی تغیر سے متأثر نہیں،  یہ عشق کسی وقت میں بیکار بیٹھنے نہیں دیتا اس لئے ہمارا مقام ہر وقت آگے ہے، ہماری رفتار ہر وقت تیز ہے، بڑا کام ہمارے سامنے ہے لیکن ایک بڑی بھٹی بھی ہمارے دلوں میں جل رہی ہے جو ہر وقت بانی سلسلہ کی دُوربینی اور حقیقت بینی پر شاہد ہے  اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی خَلِیْفَتِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔
اے دوستو! ہزاروں گواہ بانی سلسلہ کی سچائی کے ہیں اے دوستو! ہزاروں گواہ بانی سلسلہ کی سچائی کے ہیں لیکن یہ تین گواہ میں نے آپ کے سامنے پیش کئے ہیں اور عقملند کیلئے تو اشارہ کافی ہوتا ہے۔ پس آپ ان امور پر غور کریں اور جدھر خدا تعالیٰ کا ہاتھ اشارہ کر رہا ہے اُدھر چل پڑیں۔ یہ عمر چند روزہ ہے اور اِس دنیا کی نعمتیں زوال پذیر ہیں۔ اُس جگہ اپنا گھر بنائیں جو فنا سے محفوظ ہے اور اُس یار سے اپنا دل لگائیں جس کی محبت ہر نقص سے پاک کر دینے والی ہے۔ ایک عظیم الشان نعمت کا دروازہ آپ کے لئے کھولا گیاہے‘ اس دروازہ سے منہ موڑ کر دوسری طرف نہ جائیں کہ  بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ(3) کا ارشاد آپ کو اس سے روک رہا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر بیان کرتا ہوں کہ آپ کی ہمدردی نے مجھے اِس پیغام پر مجبور کیا ہے اور کسی نفسانی خواہش کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کی ہمدردی کی وجہ سے میں نے یہ آواز اُٹھائی ہے۔ پس ایک درد مند کی آواز سنیں اور ایک خیر خواہ کی بات پر کان دھریں کہ اس میں آپ کا بھلا ہوگا اور آپ کا دین اور دنیا دونوں اس سے سُدھر جائیں گے۔ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اسے قبول کریں اور اس راہ میں پیش آنے والی تکالیف کو عینِ راحت سمجھیں کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہی ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ 
وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
والسلام،خاکسار
مرزا محمود احمد
     امام جماعت احمدیہ‘‘
(مطبوعہ 30 ستمبر1934ء کوآپریٹوسٹیم پرنٹنگ پریس وطن بلڈنگس لاہور)(انوار العلوم جلد 13صفحہ 465 تا475)
(1) الفرقان: 53۔
(2) بخاری کتاب الجھاد والسیر باب یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِ الْاِمَامِ وَیُتَّقٰی بِہٖ،۔
(3)الحدید: 14

مکمل تحریر >>