Monday 12 June 2017

ختم نبوت کے بارے میں جماعت احمدیہ کی تشریح





8 فروری 1987ء کو منعقدہ مجلس سوال جواب میں شامل ایک غیر احمدی دوست نے سوال کیا کہ:
’’مولوی صاحبان سے یہ سُنا ہے کہ مرزاصاحب کوحضرت محمدرسول اﷲ ﷺکے بعدآخری نبی کہاجاتا ہے ۔ اِس بات کی وضاحت فرمائیں؟
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ :۔
’’…… یہ بات توہے ہی غلط کہ نعوذ باﷲ من ذالک ہم حضرت مرزاصاحب کوآخری نبی کہتے ہیں۔بالکل جھوٹ ہے۔
ہمارامسلک یہ ہے کہ زمانے کے لحاظ سے آخری ہونا کوئی فضیلت کامقام نہیں ہے۔یہ بنیادی مسلک ہے ۔ اِس پرغورہوجائے پھرباقی بات ساری سمجھ آجائے گی۔
ہم کہتے ہیں اِنسان کااِتفاقاً زمانے کے لحاظ سے بعدمیں ہونا اَورآخری ہوناکوئی فضیلت کی وجہ نہیں ۔ اَگریہ فضیلت کی وجہ ہوتوسب سے آخری اِنسان جودُنیامیں مَرے اُس کوسب سے زیادہ معزز ہونا چاہئے۔لیکن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ قیامت اشرارالنّاس پہ آئے گی۔(السنن الواردۃ فی الفتنۃ للدّانی: باب ماجاء أن السّاعۃ تقوم علٰی اشرارالنّاس۔ دلیل الفالحین للطرق ریاض الصالحین: مقدمۃ الشارح باب : باب الخوف)۔ 
سب سے زیادہ شریر لوگ ، بدمعاش اَورگندے لوگوں پرقیامت آئے گی وہ آخری ہوں گے ۔توآخری اِتّفاقاً گندا بھی ہو سکتا ہے اَوراِتّفاقاً اچھا بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن آخری ہونا فی ذاتہٖ کوئی خوبی کی بات نہیں ہے۔کلاس سے ایک آخری لڑکا نکلتا ہے اُس میں کیاخوبی ہے ؟
ہاں مضمون کے لحاظ سے آخری ہوجس کے بعد اَور کوئی نہ آتا ہو۔ مرتبہ کے لحاظ سے آخری ہو، مقام کے لحاظ سے تویہ ایک ایسی شاندار فضیلت ہے جس کادُنیامیں کوئی معقول آدمی اِنکارنہیں کرسکتا۔ توہماری بحث یہ چلتی ہے دوسرے علماء سے ۔
 ہم کہتے ہیں کہ اَگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم فضیلت کے مقام میں آخری ہیں توہم سوفیصدی متفق ہیں۔ آنحضورؐکے بعد کِسی کامقام ہی کوئی نہیں سوائے خداکے۔ اَﷲ اَورمحمدمصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم۔ اَوراِنسانی مرتبے کے لحاظ سے اَگراُونچائی کاتصوّر کریں توسب سے آخرپرحضورِاَکرم صلی اﷲ علیہ و سلم دِکھائی دیں گے ۔ اَور اَگر اَولیّت کومرتبے کے لحاظ سے پہلے سمجھیں توسب سے اَوّل بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم دِکھائی دیں گے۔ 
چنانچہ اَوّل اَورآخررسولِ اَکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کے لئے جب قرآن میں یاحدیث میں اِستعمال ہوتا ہے تو مرتبے میں اِستعمال ہوتا ہے نہ کہ زمانے میں،کیونکہ زمانے میں آپؐ اَوّل نہیں تھے۔ اُس کے باوجود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اَبھی آدم اپنی تخلیق کی مٹی میں کروٹیں بدل رہا تھا مَیں اُس وقت بھی خاتم النّبیّین تھا۔
( مسند احمدبن حنبل ؒ: حدیث عرباض بن ساریہ :حدیث نمبر16700:جلد4 صفحہ127۔ الطبعۃ الاولٰی : بیروت لبنان)
قرآنِ کریم آپ کواَوّل قرار دیتا ہے۔حضرت اِبراہیم علیہ السّلام کے لئے بھی لفظ اَوّل قرآنِ کریم اِستعمال فرماتا ہے۔ توزمانے کااَوّل توبالکل اِتّفاقی حادثات کی بات ہوتی ہے۔ مرتبے کااَوّل ہونا اَصل مقام ہے ۔ پس اَگرہمارا زور ہی اِس بات پرہے تومسیحِ موعود ؑ کوآخری کہہ کے ہم حاصل کیا کرسکتے ہیں ؟ ہم توکہتے ہی یہی ہیں کہ اِتّفاقاً آخری ہونا حقیقت میں باعثِ فضیلت ہی نہیں ہے۔
دوسرے ہم یہ کہتے ہیں کہ آخری جہاں جہاں فضیلت کے معنے رکھتا ہے وہاں وہاں ہم سو فیصدی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کوآخری مانتے ہیں ۔ مثلاًکتاب کاآخری ہونااِن معنوں میں کہ اِس کے بعد کوئی شریعت نازل نہیں ہونی ۔ حرفِ آخرہونا آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کاکہ آپ کاحکم قیامت تک نہیں ٹوٹے گا۔ حرفِ آخر اِس کواُردو میں کہتے ہیں ۔last wordانگریزی میں کہتے ہیں کہ جس کے بعد کوئی شخص ، کوئی authorityایسی نہ آسکے جواُس کے حکم کوتبدیل کردے ۔ اُس کی شریعت آخر،اُس کاحکم آخر، اُس کی سُنّت آخر، اُس کادین آخر! اِن سارے معنوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کوآخری نبی اَور خاتم النّبیّین مانتے ہیں اَوراُس کے لئے عقلی دلائل رکھتے ہیں۔
 تویہ جھوٹااِلزام ہے ہم پر،نعوذباﷲ من ذالک، بالکل جھوٹا اِلزام ہے کہ ہم آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کوفضیلت کے مقام پرآخری نہیں مانتے ۔
ہرعزّت اَور فضیلت کے مقام پرہم آنحضرت صلی اﷲ علیہ سلم کوآخری مانتے ہیں اَوراِن معنوں میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السّلام نے بارباراپنے دعوے کی وضاحت فرمائی ہے ۔فرماتے ہیں ہم نے توجو کچھ پایا ہے اُس سے پایاہے۔ ؂
سب ہم نے اُس سے پایاشاہد ہے تُوخدایا
وہ جس نے حق دِکھایا وہ مَہ لِقا یہی ہے 
کہ ہم نے توسب محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کے وسیلے سے پایا ہے اَوراَے خدا! تُوگواہ ہے اِس بات کاکہ اپنی طرف سے نہ ہم کچھ لائے ، نہ ہمیں کوئی فضیلت حاصل ہوئی اَورجس نے حق یعنی خدا دِکھایا ہے وہ محبوبِ اَزلی یہی محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم ہیں۔اَوراِسی مضمون کاشعر ہے۔ ؂
اُس نورپرفِدا ہوں اُس کاہی مَیں ہوا ہوں
وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں ،بس فیصلہ یہی ہے
……’اُس نُورپرفِدا ہوں اُس کاہی مَیں ہوا ہوں‘۔ مَیں تومحمدمصطفی ﷺکے حُسنِ اَزل پر، اُس کے نُورپرفِدا ہوچکا ہوں اَوراُسی کاہوگیا ہوں ۔ ’وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ‘۔ وہی ہیں ، مَیں ہے ہی کچھ نہیں ، میرا وجود ہی اُس کے اَندرمٹ چکا ہے کامل طورپر۔ یہ دعویٰ ہے جس کونعوذباﷲ من ذالک، گستاخی کادعویٰ اَوربرابر کی نبوّت کادعویٰ اَورمقابلے کادعویٰ بنا کرمسلمانوں کو مولوی اِشتعال دِلاتے ہیں اَوراِن بیچاروں کونہ اَپنے دین کاپتہ نہ کِسی اَورکے دین کا پتہ، اصل بات یہی ہے۔……۔
خَاتَم کے معنی
خَاتَم کامعنیٰ جواَصل لفظ ہے قرآنِ کریم میں اُس کامعنیٰ جماعت احمدیہ مختلف طریقے پر پرکھتی ہے، بتاتی ہے اُن کواَوریہ دعویٰ کرتی ہے کہ خَاتَم کے ہرمعنے پرجوثابت شدہ ہیں ہم یقین رکھتے ہیں اَورآپ نہیں رکھتے۔یہ مقابلہ کررہے ہیں ہم تومولویوں سے ۔وہ ہماری بات آپ تک پہنچنے نہیں دیتے۔ پاکستان گورنمنٹ نے ساری کتابیں ضبط کرلی ہیں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی بھی اَوراِس مضمون پرجوبھی کچھ لکھا جاتا ہے اُسے ضبط کرلیتے ہیں۔اَگرہماری بات بودی تھی، جھوٹی تھی، کھوکھلی تھی توحکومت کواپنے خرچ پرہماری باتیں لوگوں تک پہنچانی چاہئیں تھیں۔وہ روکیں کیوں ڈال رہے ہیں؟ ڈرتے ہیں۔ پتہ ہے یہ بات پہنچی تولوگ مان جائیں گے ……۔
ایک غیراحمدی مولوی صاحب سے دلچسپ گفتگو
ایک دفعہ ایک مولوی صاحب ربوہ تشریف لائے ۔ کئی دفعہ ایسا ہوا مگرایک دفعہ ایسا ہوا۔…… پُرانی بات ہے۔ مَیں خلیفہ اُس وقت نہیں تھا۔…… مَیں نے اُن سے کہا کہ آپ مجھ سے ختمِ نبوّت پہ بحث کرنے کے لئے آئے ہیں پہلے اُصول طے کرلیں۔ کہتے ہیں، کرو۔ مَیں نے کہا مَیں اِس بات پرمناظرہ کروں گاکہ ختمِ نبوّت پرمَیں کامل یقین رکھتا ہوں اَورآپ نہیں رکھتے۔ وہ تو ہڑبڑا اُٹھے۔ یہ اُلٹی بات، مَیں اِن کومجرم کرنے کے لئے آیا ہوں اَوریہ مجھے کہہ رہا ہے ، ملزم کررہا ہے کہ تم یقین نہیں رکھتے۔کہنے لگے ، کرومناظرہ !
مَیں نے کہا پہلے آپ مجھے بتائیں کہ وہ کون سا معنیٰ ہے آپ کے نزدیک جس پرآپ سمجھتے ہیں کہ مَیں یقین نہیں رکھتا اَورآپ رکھتے ہیں۔کہتے ’سب نبیوں کوختم کرنے والا‘۔ مَیں نے کہا پکّے ہوجائیں اچھی طرح اِس پہ ۔ ’پکّے پَیریں‘ کہتے ہیں ناں پنجابی میں۔ کہنے لگے پکّے پَیریں، پکّا ہوگیا اِس بات پہ۔ مَیں نے کہااَب بتائیں کِس طرح نبیوں کوختم کیا؟سب کوکیا؟ کہتے ہاں جی سب کوکیا۔ مَیں نے کہاحضرت عیسیٰ ؑ اُن میں شامل تھے؟تھوڑا ساڈرے، کہنے لگے ہاں تھے شامل۔مَیں نے کہا ختم کِس طرح کرتا ہے ایک آدمی دوسرے کو؟یاجسمانی طورپرقتل کرتا ہے یااُس کافیض ختم کرتاہے۔ تیسراتوکوئی معنیٰ نہیں ختم کا۔آپ کہتے ہیں کہ حضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و سلم سے پہلے جتنے نبی گزرے تھے وہ اَپنی موت آپ مَر گئے تھے اَورحضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے خود توقتل نہیں کیااُن کو۔test case صرف ایک باقی تھایعنی حضرت مسیحؑ، وہ اِتّفاقاً زندہ رہ گئے تھے۔اَورحضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و سلم اُن کوختم کرنے سے پہلے جسمانی معنوں میں آپ ختم ہوگئے۔اِتناشیطانی عقیدہ ہے ، اِتنا ظالمانہ عقیدہ ہے کہ آپ کے ترجمے کی رُو سے مسیحؑ خاتَم ہیں، نہ کہ حضرت محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم۔
 مَیں نے کہاآپ اَب یہ سوچئے۔ آپ پہلے پیدا ہوئے ہیں ۔( مسیحؑ بھی پہلے پیدا ہوئے ۔) آپ کاایک بیٹا آپ کے سامنے پیدا ہوتا ہے ، آپ کے سامنے فوت ہوجاتا ہے اَورآپ اُس سے چالیس سال بعدفوت ہوتے ہیں توآپ بعد میں فوت ہوئے ہیں یا وہ بعد میں فوت ہوا ہے۔پہلے بھی آپ اَوربعد میں بھی آپ۔ یہ ہے خاتمیّت!؟آپ کابیٹا آپ کے سامنے پیدا ہواچند دِن رہ کے مَرگیا وہ کہاں سے خاتَم بن گیا؟توحضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کے متعلق آپ کایہ گستاخانہ عقیدہ ہے کہ نام اُن کاخاتَم تھالیکن تھے مسیحؑ خاتَم۔ کیونکہ ایک وقت میں یہ دونبی زندہ تھے۔ایک ختم ہوگیا،(جسمانی معنیٰ جولے رہے ہیں،) اَوردوسراختم نہیں ہوا۔ وہ جاری رہا۔وہ بہت بعد میں جاکے ختم ہوگا۔ توخاتم وہ ہوگا جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کووفات پاتے دیکھ لیا،نہ کہ وہ جوپہلے مَرگیا۔
دوسرامعنٰی ہے فیض کا، فیض بند کردیا۔ مَیں نے کہاآپ بتایئے کہ جب اُمّتِ محمدیہ صلی اﷲ علیہ و سلم موت کے کنارے پہ پہنچ جائے گی، جان کنی کی حالت میں ہوگی، جب اُس کے بچنے نہ بچنے کی باتیں ہورہی ہوں گی اُس وقت کون آکے بچائے گااُس کو؟مسیحؑ آسمان سے آئے گااَوربچائے گاکہ نہیں؟کہتے ہاں۔مَیں نے کہافیض کہاں ختم ہوا اُس کا؟اُس نے توفیض جاری کردیااَپنااُمّتِ محمدیہ میں۔ محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اُمّت اُس کے زیرِاِحسان آگئی۔اَگرنہ وہ بچاتاتواُمّت ختم تھی۔ تومحسنِ اعظم کون ہوا؟فیض رَساں کون ہوا؟اَورکِس نے فیض قبول کیا؟ جس کی اُمّت کوبچانے والا باہرسے آیا وہ توہمیشہ کے لئے اُس کے زیرِاِحسان آگیا۔ اِتناظلم۔ بجائے اِس کے کہ فیض ختم کرتے، اُس کے فیض کے نیچے آپؐ آگئے؟ نعوذباﷲ من ذالک۔اَب بتایئے آپ خاتَم مانتے ہیں یامَیں خاتَم مانتا ہوں؟
کہتے نہیں ،نہیں اِس کا ایک اَورمطلب بھی ہے ۔ مطلب ذراسُنیں کیسا عجیب ہے ۔کہتے ہیں بعض دفعہ ایک ذلیل سے آدمی سے بھی فائدے اُٹھالیتے ہیں لوگ، اُس پراِحسان کرتے ہیں ۔ بادشاہ کسی سے خدمت قبول کرلیتے ہیں اَوراُن کااِحسان ہوتا ہے ۔ حضرت محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم توبادشا ہ ہیں ۔ مسیحؑ سے اُس پہ اِحسان کرکے خدمت قبول کرلی۔
 مَیں نے کہا مولوی صاحب فرضی باتوں سے بات نہیں بنے گی۔ذراغورسے اِس مضمون کوپھر سوچیں۔ ایک بادشاہ خواہ کتنا عظیم الشان بادشا ہ ہو اَگروہ بھوکا مَررہا ہوکِسی شکارمیں ، کِسی جگہ گھوم کرتوکوئی اَدنیٰ سے اَدنیٰ آدمی روٹی کاایک ٹکڑا دے کر اُس کی جان بچاتا ہے تووہ محسن بن جاتا ہے اَورہمیشہ کے لئے وہ بادشاہ اُس کے ممنونِ اِحسان ہوتا ہے ۔ کہتا ہے کہ جومانگومَیں دیتا ہوں ۔ بعض کہتے ہیں کہانیوں میں، آدھی سلطنت میں شریک کرلیتا ہوں۔ وقت پڑے پرجوخدمت کرتا ہے وہاں خدمت لینے والا زیر ِاِحسان ہوتا ہے نہ کہ خدمت کرنے والا۔وہ خدمت اَورہے کہ بادشاہ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اَورآپ ایک سبزپتہ بھی لے کے چلے جائیں توبادشاہ قبول کرتا ہے ۔ یہ تونہیں کہ اُس کواِس کافائدہ پہنچا ہے ۔وہ اِحسان کے طورپر خدمت قبول کرتا ہے ۔آپ یہ مضمون نہیں بیان کررہے ۔ آپ یہ اِیمان رکھتے ہیں کہ اَگرمسیحؑ نازل نہ ہوتواُمّتِ محمدیہ ختم ہوجائے گی ، ہلاک ہوجائے گی۔اَوراُس کوبچانے والااُمّت میں سے ایک بھی شخص نہیں۔ مہدیؔ آچکا ہے پھربھی نہیں بچی۔ پھربھی مسیح کی ضرور ت ہے اَورجب تک وہ غیرقوم کانبی نہ آئے اُس وقت تک یہ اُمّت بچتی نہیں۔ آپ کہتے ہیں یہ اِحسان ہوگیا۔اُس پراِحسان ہوگیا۔……یہ جوعقیدہ ہے ،اُمّتِ محمدیہ کوہمیشہ کے لئے ذلیل ورسوا کرنے والا عقیدہ ہے ۔اَورخاتم مسیحؑ کومانتا ہے جس کاآخری فیض دُنیانے دیکھا۔ 
اَب زمانے کے لحاظ سے بھی دیکھیں! اَگرمسیحؑ آگیا، وہ پرانا مسیحؑ آگیا تو مؤرّخ کیا لکھے گا کہ آخری رسول جس نے بنی نوع اِنسان کوعظیم الشّان فیض پہنچایاتھاوہ کون تھا؟مسیح اِبنِ مریمؑ۔ وہ آیااَوراُمّت کے دِن پھرے اَوراُمّتِ محمدیہ کوغالب کرگیاساری دُنیاپر، فیضِ عظیم عطاکرگیا۔اِس لئے خاتَم توپھروہی بنتے ہیں ۔مَیں نے کہاکہ اِن دومعنوں میں ختم کردیا۔ اَب آپ بتایئے کہ کون ہے ؟
ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ لازماً مرچکے تھے اَورہرنبی مَرچکاتھارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی بعثت کے وقت۔ اِس لئے آپؐ خاتمِ کُلتھے۔
نمبردو:ہم مانتے ہیں کہ ہرنبی کافیض بھی ختم ہوچکاتھاصرف ایک نبی کافیض جاری تھاجومحمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کافیض تھااَور قرآنِ کریم کی دوسری آیت خاتمیت کے اِس مضمون کوخود بیان کررہی ہے اَورشک سے بالا بیان کررہی ہے ۔اِس کے بعد آپ کے پاس ہم پراِلزام رکھنے کی کیا بات رہ جاتی ہے؟ وہ ہے وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا(النساء:70)۔ ختمِ نبوّت کا جواِعلان کرنے والے مولوی ہیں یہ آیت بتاتے ہی نہیں آپ کو،یہ چھپاکررکھ لیتے ہیں۔اُن کوپتہ ہے کہ یہ سامنے آئی توختمِ نبوّت کامضمون کھل جائے گا۔ ہمارا سارا دھوکہ فریب ختم ہوجائے گا۔
اِس آیت میں وہ اِعلان ہے جومَیں نے اَبھی بیان کیا ہے۔ اِس آیت کا مضمون سمجھنے سے پہلے ایک اَوربات بھی سمجھ لیں وہ بھی مَیں نے مولوی صاحب سے کی اَورآپ کے سامنے بھی رکھتاہوں کہ خاتم کواَگراِسم فاعل کے طورپرلیں، دوسروں کوختم کرنے والا ،توخودکشی کرنے والاتونہیں ناں بنے گا۔ تمام نبیوں کوختم کرنے والااَگراَپنے آپ کوبھی ختم کرلے پھرتوقصّہ ہی ختم ہوگیا۔پھرتوتعریف کی بات ہی نہ رہی۔ قاتل دوسرے کومقتول بناتا ہے ۔ ضاربِ دوسرے کومضروب بناتا ہے ۔مارنے والادوسرے کومارتا ہے ۔ جواَپنے آپ کومارنے لگ جائے وہ توپھرپاگل پن کامضمون شروع ہوجاتا ہے۔وہ توتعریف کامضمون ہی نہیں رہتا۔وہ آیت جو مَیں نے اَب پڑھی ہے اُس میں وہ جواب ہے ۔ وہ آیت بیان فرماتی ہیمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ جوکوئی بھی اَﷲ کی اَوراِس رسول کی یعنی محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اِطاعت کرے ۔ باقی سب نبیوں پراِیمان لانافرض، لیکن اِس آیت نے سب نبیوں کی اطاعت کااعلان کردیا۔ یہ نہیں فرمایامَنْ یُطِعِ الرُّسُلَ ۔ فرمایا جوکوئی بھی محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اطاعت ،اَﷲ کے بعداِس رسول کی اطاعت کرے گا۔ کیا ہوگااُس سے ؟ اَب آپ سوچیے، کیاہوناچاہئے؟کوئی جرم کیا ہے اُس نے ؟ سزاملنی چاہئے؟ کیاجواب ہے ؟ نہیں ، اِنعام ملنا چاہئے۔ جوشخص بھی اَﷲ کی اطاعت کرے ، محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اطاعت کرے ۔ آگے اِنعاموں کااَوراَنوارکادروازہ کھل جانا چاہئے۔ 
اِس سے پہلے ایک اَورسوال بھی اُٹھادیتا ہوں اُس پربھی سادہ دِل سے ، صاف دِل سے غورکرلیں۔ پہلے بھی تولوگ اَﷲ کی اَورنبیوں کی اطاعت کیا کرتے تھے۔اُن کوبھی اِنعام ملا کرتے تھے۔سب کوملتے تھے۔اَب جب اَﷲ کہہ رہا ہے کہ جواَﷲ اَوراِس نبی کی اطاعت کرے گااُس کے بعد کیا یہ اعلان ہوگا کہ اُس کوپہلوں سے کم اِنعام ملیں گے یاکم اَز کم اُتنے ملیں گے ۔اَگرکہیں گے کہ کم اِنعام ملیں گے توپتہ چلے گاکہ سب نبیوں سے کمتَرنبی آیا ہے، نعوذباﷲ من ذالک۔پہلے تمام نبیوں کی پیروی خدا کی پیروی کے بعدہرقسم کے اِنعامات کاوارث کردیتی تھی ۔ مگرقرآن یہ اِعلان کررہا ہے کہ اِس نبی کی پیروی سارے اِنعام نہیں دے گی، کچھ رکھ لے گی اَورکچھ دے گی توکیاثابت ہوگا؟اعلیٰ نبی آیا ہے یانعوذباﷲ من ذالک کمترنبی آیا ہے؟
اَب دیکھئے یہ آیت کیااعلان کرتی ہے ۔ پھرمضمون کھل جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہیمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ۔ اَب صرف یہی لوگ ہوں گے جواِنعام پانے والوں میں شمار کئے جائیں گے۔ دوسروں کافیض بنداِس کاجاری۔ اَوراِنعام پانے والے گروہ میں اَب صرف یہی لوگ شمار ہوں گے جومحمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی پیروی کریں گے۔
 اَب تشریح رہ جاتی ہے۔ باقی کون سے اِنعام؟ سارے اِنعام یاچنداِنعام؟پیروی سے ملنے والے اِنعام کیا ہیں؟ فرمایا مِنَ النَّبِیّٖنَنبیوں میں سے، وَالصِّدِّیْقِیْنَاَورصدیقوں میں سے، وَالشُّھَدَآءِ اَورشہیدوں میں سے،وَالصَّالِحِیْنَاَورصالحین میں سے، وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًایہ رفاقت ہے جوسب سے حَسین رفاقت ہے ۔اُمّتِ محمدیہ ایسے لوگوں میں شمار کی جائے جہاں نبوّت کے اِنعام بھی مل رہے ہوں، صدیقیت کے بھی مل رہے ہوں،شہادت کے بھی مل رہے ہوں، صالحیت کے بھی مل رہے ہوں۔ یہ ہے شان۔ یہ اعلان کیا ہے اِس آیت نے۔ اَورعلماء کہتے ہیں، نہیں۔ اُن سے پوچھیں توکہیں گے یہ اعلان ہے کہمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ جوشخص بھی اَﷲ اَوراِس رسول کی اِطاعت کرے گااُسے وہ سارے اِنعام نہیں ملیں گے جوپہلے نبیوں کی اطاعت سے ملا کرتے تھے۔پہلے نبیوں کی اطاعت سے نبوّت مل جایا کرتی تھی ۔ اِس نبی کی اطاعت کی فہرست سے ہم نے نبوّت کاٹ دی ہے۔ صرف صدّیق، شہیداَورصالح بنانے والانبی آیا اَوراِس کی اُمّت میں اَب کبھی نبوّت قائم نہیں ہوگی۔ یہ اعلان کررہی ہے۔اَگریہ اعلان سچا ہے توپھرمرتبہ اُونچا ہوگایاکم ہوگا؟پہلے نبی گَر،نبی آتے رہے اَب صرف کمتَردرجہ دینے والا نبی آیا ہے۔ نعوذباﷲ من ذالک۔ اِتنا گستاخانہ تصوّر ہے اَورقرآن کی آیت اِس تصوّر کوجھٹلارہی ہے۔
اَگراُمّتی نبی بھی بند ہے ، یہ ہے مسئلہ صرف توجہاں اُمّتیوں کاذکرکیا ہے وہاں سب سے پہلے فہرست میں نبیوں کاذکرکیوں کردیا؟مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ۔اِنعام پانے والے لوگوں میں یہ لوگ ہیں۔ اَوراِنعام پانے والے کون ہیں؟فہرست کیاشمارکی؟مِنَ النَّبِیّٖنَپہلے نبیوں کانام رکھا۔اِس لئے جماعت احمدیہ کاعقیدہ ہی سچی اطاعت کاعقیدہ ہے۔ سچے عشقِ محمد مصطفی ؑکاعقیدہ ہے اَورخالصۃً قرآنِ کریم پرمبنی ہے۔ایک اَدنیٰ بھی فساد اِس عقیدہ میں نہیں ہے۔ اَورجویہ بیان کرتے ہیں اُن میں ذراچھان بین کرکے آگے بڑھیں آپ کوفساد نظرآجائے گا۔گستاخی نظرآجائے گی۔ ……‘‘
٭……٭……٭





مکمل تحریر >>

Saturday 10 June 2017

حقیقی اسلامی پردہ



حقیقی اسلامی پردہ 
(حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے ایک انگریزی مضمون سے ترجمہ کیا گیا )
" کلکتہ کے ایک عیسائی اخبار میں ایک نہایت ہی شرمناک خط چھپاہے جس نے اسلامی دنیاکے احساسات کو سخت صدمہ پہنچایا ہے ۔کاتب خط نے اس پردہ کومدنظر رکھتے ہوئے جوکہ بعض لوگوں کاخود ساختہ ہے اور قرآن کریم کی تعلیم اور آنحضرت ﷺکاعمل کہیں بھی اس کی تائید نہیں کرتا، قرآن کریم کی تعلیم اور بانیٔ اسلام کے مقدس ذات پرنہایت غیر مہذبانہ اورشرافت سے گرے ہوئے حملے کئے ہیں ۔ ہم ہمیشہ سے ایسے دلآزار اعتراضات عیسائی صاحبان سے سنتے چلے آئے ہیں مگر غضب تویہ ہے کہ جو کچھ بھی صاحب مذکور نے ہمارے آنحضرت ﷺکی ذات اور قرآن کریم کی تعلیم کے متعلق لکھا ہے۔اس کی بنا عیسائی صاحبان نے اس نامکمل اور فاسد علم پر رکھی ہے جو ان کو اسلام کی تعلیم کے متعلق ہے۔ ہم اس ظلم کی شکایت جو انہوں نے ہمارے محبوب و مقدس آقا کی پاک ذات پر فحش اعتراض کرکے کیاہے کسی دنیوی گورنمنٹ سے نہیں کرتے۔ بلکہ ہم اپنا مقدمہ 
رب العالمین کی درگاہ میں پیش کرتے ہیں(کہ ہمارے آقا مسیح موعودؑ نے بھی ایک موقع پر یہی کہا تھا۔ میں دنیا میں مقدمات کرنے کے لئے نہیں آیا)۔
ہم اس حملہ کو جو کہ اس نے آنحضرت ﷺ پر کیاہے نظرانداز کرتے ہوئے اس کے اعتراضات کوجو اس نے پردہ پر کئے ہیں نقل کرتے ہیں۔ وہ لکھتاہے:
’’جب ہم کسی مسلمان کو پردہ کے عملی نقائص اور برائیوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو کہ اس کا نتیجہ ہیں اور اس بنیاد اور وجہ کی کمزوری کو جس پر پردہ کی تمام عمارت کھڑی ہوئی ہے ظاہر کرتے ہیں ۔ تو ہمارے سامنے قرآن کریم کو پیش کرتے ہوئے کہتاہے کہ میرے لئے یہ ناممکن ہے کہ میں اس تعلیم میں جو کہ قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ نے ہمیں دی ہے کوئی نقص نکالوں۔مگر ایک معاملہ فہم اور دوراندیش انسان پر فوراً اس دلیل کی بیہودگی ظاہر ہو جاتی ہے ۔یہ کیسا صریح ظلم ہے کہ انسانیت کے ایک طبقہ کو ان تمام حقوق اور فوائد سے محروم کر دیا جاوے جو کہ دوسرے طبقہ کو حاصل ہیں۔ دونوں طبقوں کے درمیان ایک قسم کی دیوار حائل ہے ۔ کتنی بے گناہ جانیں ہیں جو کہ اس منحوس رسم پر دہ پر عمل کرنے کے باعث قبر کا منہ دیکھ چکی ہیں۔ ان بے چاریوں کو سالہاسال تک ایک محدود جگہ میں رہنا پڑتاہے اور ان کی عمر کابہت سی حصہ اس زہریلی ہوا میں گزرتاہے جو کہ ان کی صحت کے لئے مہلک ہوتی ہے۔ میں تو جب چاہوں اور جہاں چاہوں اپنی صحت کے قیام کے لئے جا سکتاہوں ۔ میں تو تمام پبلک نمائشیں اور تھیٹر دیکھوں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ میری لڑکی یابیوی یا بہن میرے ساتھ جا سکے ؟ اس سے بڑھ کر بے ہودہ اور شرمناک تعلیم کیا ہو سکتی ہے اگر کوئی تہذیب سے گری ہوئی رسم دنیا میں ہے تو یہی رسم پردہ ہے‘‘۔
یہ ہے وہ اعتراض جو کہ پردہ پرکیا گیاہے اور اس سے ظاہر ہے کہ کیسی قابل افسوس ناواقفیت اس کو قرآن کریم کی تعلیم سے ہے ۔ وہ مذکورہ بالا پردہ کو قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرتاہے مگر تمام قرآن کریم کو چھان مارو، آنحضرت ﷺکی احادیث کو ایک ایک کرکے دیکھ جاؤ تم کوایک حدیث اور ایک آیت بھی ایسی نہیں ملے گی جو کہ ایسے پردہ کی تعلیم دیتی ہو جس کا حوالہ ہمارے عیسائی دوست نے دیاہے۔ اگراس کے خیال باطل میں کوئی ایسی آیت یا حدیث ہے توہم ڈنکے کی چوٹ سے کہتے ہیں کہ وہ اس کو دنیا کے سامنے پیش کرے۔ قرآن کریم جس پردہ کا حکم دیتاہے وہ مختصراً ذیل میں درج کیا جاتاہے۔
’’مومن مردوں کو کہہ دو کہ غض بصر سے کام لیں اور اپنے فروج کی حفاظت کریں اس طرح سے پاکیزگی قلب میں ترقی کریں گے ۔ اﷲ تعالیٰ کوعلم ہے اس کاجووہ کرتے ہیں اور اسی طرح ایمان والی عورتوں کو بھی کہہ دو کہ وہ اپنی آنکھوں کو نیچا رکھا کریں اور اپنے فروج کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کیاکریں مگر ہاں جو محبوراً ظاہر ہو اور وہ گریبانوں کو اپنی چھاتیوں پررکھیں اور اپنی زینت کو سوائے اپنے خاوند، والد ، اپنے خاوند کے والد، اپنے بیٹے یا اپنے خاوند کے لڑکوں ، اپنے بھائی ، اپنے بھتیجے ، اپنے بھانجے یا اپنی خاص عورتوں یا اپنی لونڈیوں یا ایسے مردوں سے جن کو عورتوں کی ضرورت نہیں یا ان بچوں کوجو ابھی سن بلوغت کو نہیں پہنچے کسی پر ظاہر نہ کریں۔ اور وہ چلتے وقت اپنے قدم کوزور سے زمین پر نہ ماریں تا کہ ان کی پوشیدہ زینت زیور وغیرہ ظاہرہوں اور اﷲ تعالیٰ کی طرف اپنی تمام توجہ کو لگا دو ۔ اے ایمان والو تا کہ اس کے نتیجے میں تم کوخوشی اور کامیابی حاصل ہو‘‘۔
یہ ہیں وہ احکام جن پر اسلامی پردہ کی بناہے اور ان کی مختصر تشریح یہ ہے :
۱……اس حکم کا اثر مرد وعورت دونوں پر یکساں ہے اور یہ حصۂ پردہ صرف عورتوں کے لئے مخصوص نہیں بلکہ مرد بھی اس میں شامل ہیں۔
۲……انہیں اپنے فروج کی حفاظت کرنی چاہئے ۔ اس حکم میں بھی مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔
۳…… انہیں اپنی( عام رائے یہ ہے کہ اس سے مراد ہاتھ اور چہرہ ہے ) زینت ظاہر نہیں کرنی چاہئے مگر ہاں جو محبوراً ظاہر کرنی پڑتی ہے ۔
۴……انہیں اپنے گریباں اپنی چھاتیوں پر ڈالنے چاہئیں۔
۵……چلتے ہوئے انہیں اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہیں مارنے چاہئیں تاکہ ان کے زیورات ظاہر نہ ہوں۔
یہ ہے وہ پردہ جس کا اسلام حکم دیتاہے۔ اور ہر ایک پڑھنے والے پر یہ بات واضح ہے کہ اس اسلامی پردہ میں جو کہ اوپر ذکرکیاگیاہے اس پردہ کا نشان تک نہیں پایاجاتا جس پر صاحب مذکور نے اظہار نفرت کیاہے اورجس کو اپنی کم علمی کے باعث آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کی طرف منسوب کیاہے ۔ اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ عورتوں کو قیدیوں کی طرح علیحدہ مکانوں میں رکھا جائے اور نہ ہی یہ چاہتاہے کہ وہ اپنے گھر کی چاردیواری میں ہی محبوس رہیں۔ ان کو آزادی ہے کہ وہ ضرورت کے وقت باہر جائیں اوراپناکام کریں ہاں ان کو کچھ احتیاطات کرنے کاحکم ہے جو کہ موجب ہیں پاکدامنی اور پاکیزگی کا اورجن کے مدنظر ایک نہایت ہی پاکیزہ مقصدہے اس مقصد کا ذکر اسی آیت میں ہی پایا جاتاہے جس میں احکام پر دہ مذکورہیں اور وہ یہ ہے کہ تا کہ وہ زیادہ پاکیزہ ہوں۔
پس اسلامی پردہ کا واحد مقصد دل کو تمام برے خیالات سے پاک اور محفوظ رکھنا ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ پردہ صرف عورتوں کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کا احاطہ مردوں کوبھی گھیرے ہوئے ہے کیونکہ اسلامی پردہ کے دو حصے ہیں ۔نگاہوں کو نیچا رکھنااور ہاتھ اور چہرے کے علاوہ باقی تمام زینت کو پوشیدہ رکھنا ۔
پہلے حصہ میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں اور دوسرا حصہ جیسا کہ مضمون سے ظاہر ہے صرف عورتوں کے لئے مخصوص ہے۔
اسلام کی تعلیم کی خصوصیات میں سے ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ برائی کو جڑ سے اکھیڑتا ہے یعنی جذبات کے ابھرنے کے موجبات اور مسببات کوہی بند کر تاہے۔ اسلام مسلمانوں کو صرف یہ نہیں سکھاتا کہ تم جذبات اور شہوات کامقابلہ کرو بلکہ وہ سکھاتاہے کہ تم ان باتوں سے بھی اجتناب اختیار کرو جو سبب ہوتے ہیں شہوات اور جذبات کے ابھرنے کا۔
مذکور ہ بالا اسلامی پردہ اسی اصول پر مبنی ہے اور یہی مقصد اس کے مدنظر ہے۔ اسلامی پردہ محض صفائی قلب کے لئے ہے ۔ اگر یورپ اور دوسرے عیسائی ممالک میں اس پر عمل ہوتا تو وہ برائیاں جو آجکل ………… پائی جاتی ہیں اس سے بچ جاتے اورتمام وہ برے نتائج جس کو وہ بھگت رہے ہیں اورجنہوں نے انسانی خوشنماچہروں پر ایک دھبہ لگایاہواہے اس سے محفوظ رہتے۔ یہ بھی خوب ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اسلامی پردہ عورتوں کی جائز آزادی میں مخل نہیں ہوتا۔ وہ کام کے لئے اپنے گھروں سے باہر جا سکتی ہیں۔ وہ اپنی صحت کے قیام کے لئے سیر یاکوئی اورورزش کما ل آزادی سے کر سکتی ہیں۔
اورتمام وہ باتیں جو ان کو محفوظ کرتی ہیں بشرطیکہ وہ ان کی پاکدامنی کا خون نہ کریں ان میں وہ پوری آزادی سے حصہ لے سکتی ہیں۔ وہ لیکچروں میں شامل ہو سکتی ہیں ، وہ تمام کاروبار کر سکتی ہیں، وہ بیماروں کی تیمارداری کر سکتی ہیں خواہ وہ بیمار مرد ہو یا عورت۔ وہ دوران جنگ میں بطور دایا کے کام کر سکتی ہے ۔ وہ ہر ایک با ت جو ان کی پاکدامنی کے خلاف نہیں ہے مذکورہ بالا پردہ میں رہ کر کرسکتی ہیں او ر سچ تو یہ ہے کہ اسلام میں عورتوں کو اپنی مغربی ممالک کی بہنوں سے بہت زیادہ حقوق حاصل ہیں۔مگر ان احتیاطات کے ساتھ جو کہ میں نے اوپر ذکر کر دی ہیں اور بعض وہ احتیاطیں آدمیوں پر بھی لازم ہیں۔
پس یہ احتیاطات اور قیود عورتوں کے لئے لعنت نہیں جیساکہ عیسائی صاحبان کا خیال ہے بلکہ بہت بڑی برکات کا موجب ہیں ۔ اگر یورپ اور دوسرے ممالک چاہتے ہیں کہ ان برکات کا ان کوعلم ہو اور وہ اس میں حصہ لے سکیں تو وہ ان کو ایک دفعہ آزما کر تو دیکھیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جو احتیاطات اسلام نے عورتوں کے لئے رکھی ہیں وہ واحد علاج ہیں ان برائیوں کاجس میں آج یورپ کی سوسائٹی مبتلا ہے ۔
یورپ کی نجات اسی پرموقوف ہے کہ وہ اسلامی احکام پر عمل پیرا ہو اور وہ دن دور نہیں ہیں کہ جب یورپ مجبورہوگا کہ نجات حاصل کرنے کے لئے اسلام کے سکھائے ہوئے راستہ پر قدم زن ہو۔
اسلامی تاریخ پرنظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے
 کہ وہ حد سے بڑھی ہوئی قیود کو جن میں بعض مسلمان ممالک کی عورتیں آج کل مقید ہیں ۔ آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک میں کہیں ان کانام ونشان تک نہ تھا ۔حفضہ بن سیرین جو کہ آنحضرت ﷺکے زمانہ کے بعد ہوئیں وہ فرماتی ہیں:
’’آج ہم اپنی لڑکیوں کو عید کے دن باہر جانے نہیں دیتے مگرایک عورت آئی جو کہ بنی خلف کے محل میں آ کر اتری۔ میں اس کو دیکھنے کے لئے گئی۔ اس نے مجھے بتایاکہ اس کابہنوئی آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہو کر بارہ جنگوں میں لڑا۔ چھ میں اس کی بہن اپنے خاوند کے ساتھ جنگ میں شامل تھی اور چھ میں نہیں تھی۔ اور اس عورت نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ہم جنگوں میں جایاکرتی تھیں اور بیماروں کی تیمارداری اور زخمیوں کہ مرہم پٹی کیاکرتی تھیں ۔ اس عورت نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ سے سوال کیاگیا کہ اگرایک عورت کے پاس کوئی سامان پردہ یعنی چادر وغیرہ نہ ہو تو کیا اس پر گناہ تو نہیں اگر وہ نماز کو مسجد میں چلی جاوے۔ آنحضرت ﷺ نے جواب دیا کہ اس کی دوسری بہن اس کو چادر دے دے یا دونوں ایک ہی چادر میں نماز کے لئے مسجد میں چلی جاویں۔
ربیع جو کہ معوذ بن عفرا کی صاحبزادی ہیں وہ فرماتی ہیں ۔ ہم آنحضرتﷺ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتی تھیں اور ہم اپنے مردوں کو پانی وغیرہ مہیا کرتی تھیں اور ان کی خدمت کرتی تھیں اور مُردوں اور زخمیوں کومدینہ شریف میں واپس لاتی تھیں۔
آنحضرت ﷺ کا یہ دستور العمل تھا کہ جنگ کے موقعہ پر اور دوسرے سفروں کے موقعہ پر ایک بیوی کو ضرور ساتھ لے جاتے تھے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ جو کہ آنحضرت ﷺ کی سب سے پیاری بی بی تھیں اور حضرت ام سلیمہ ؓ احدکے دن مشکوں میں پانی لا لا کرمَردوں کودیتی تھیں اور ام سلیط ؓ کی یہ ڈیوٹی تھی کہ وہ مشکوں کی مرمت کرتی تھیں ۔ فاطمۃ الزھراؓ جو کہ آنحضرت ﷺ کی سب سے پیاری صاحبزادی تھیں وہ احد کے دن آنحضرتﷺ کے زخموں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔
خلفاء الراشدین کے زمانہ میں بھی عورتیں جنگ میں شریک ہوتی تھیں جیساکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ام حرام ؓCyprus کی مہم میں شامل ہوئی تھیں اور جب جنگ سے واپس آرہی تھیں توسمندر سے پار ہو کر کنارہ پرپہنچ کر اپنے گدھے سے گر کر فوت ہوگئیں۔
عورتیں کھیل اور تماشا وغیرہ بھی دیکھ سکتی ہیں بشرطیکہ اس کھیل یاتماشا میں شرافت سے گری ہوئی کو ئی بات نہ ہو ۔ مگر اس قیوداوراحتیاطات کے ساتھ جن کی تفصیل اوپربوضاحت کی گئی ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں اپنے گھر کے دروازے پر آنحضرت ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو کر حبشی مسلمانوں کے جنگی کرتب اورکھیل کو دیکھ رہی تھی جب مسجد نبوی میں وہ کھیل رہے تھے۔ اور بعض اوقات عورتیں آکر حضرت عائشہ صدیقہ ؓکے پاس گاتی بجاتی تھیں اور آنحضرتﷺ اس کو برا نہیں مناتے تھے ۔
الغرض وہ پردہ جو اسلام نے سکھایا ہے وہ عورتوں کی صحیح آزادی میں مخل اورحارج نہیں ہوتا اور اگر یہی پردہ دوسرے مہذب ممالک میں رواج پکڑ جائے تو اس سے سوسائٹی کوبہت سے فائدے حاصل ہو سکتے ہیں اور عورتوں کی جائزآزادی بھی قائم رہ سکتی ہے۔
(ریویوآف ریلیجنز(اردو) ۔۱۹۱۹؁ء،جلد ۱۸ نمبر ۷ صفحہ ۲۳۶ تا ۲۴۳)
مکمل تحریر >>

Sunday 28 May 2017

روزہ اور رمضان سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات



روزہ اور رمضان 
فرمایا :
اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو، اورہرایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اورجس پرحج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔
     (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ15) 
رؤیت ہلال
 خدائے تعالیٰ نے احکام دین سہل و آسان کرنے کی غرض سے عوام الناس کو صاف اور سیدھا راہ بتلایا ہے اور ناحق کی دقتوں اور پیچیدہ باتوں میں نہیں ڈالا مثلاً روزہ رکھنے کیلئے یہ حکم نہیں دیا کہ تم جب تک قواعد ظنیہ نجوم کے رو سے یہ معلوم نہ کرو کہ چاند انتیس کا ہوگا یا تیس کا۔ تب تک رویت کا ہرگز اعتبار نہ کرو اور آنکھیں بند رکھو کیونکہ ظاہر ہے کہ خواہ نخواہ اعمال دقیقہ نجوم کو عوام الناس کے گلے کا ہار بنانا یہ ناحق کا حرج اور تکلیف مالایطاق ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے حسابوں کے لگانے میں بہت سی غلطیاں واقع ہوتی رہتی ہیں سو یہ بڑی سیدھی بات اور عوام کے مناسب حال ہے کہ وہ لوگ محتاج منجم و ہیئت دان نہ رہیں اور چاند کے معلوم کرنے میں کہ کس تاریخ نکلتا ہے اپنی رویت پر مدار رکھیں صرف علمی طور پر اتنا سمجھ رکھیں کہ تیس کے عدد سے تجاوز نہ کریں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقت میں عندالعقل رویت کو قیاساتِ ریاضیہ پر فوقیت ہے۔ آخر حکمائے یورپ نے بھی جب رویت کو زیادہ تر معتبر سمجھا تو اس نیک خیال کی وجہ سے بتائید قوت باصرہ طرح طرح کے آلات دوربینی و خوردبینی  ایجادکئے اور بذریعہ رویت تھوڑے ہی دنوں میں اجرام علوی و سفلی کے متعلق وہ صداقتیں معلوم کرلیں کہ جو ہندوئوں بیچاروں کو اپنی قیاسی اٹکلوں سے ہزاروں برسوں میں بھی معلوم نہیں ہوئی تھیں اب آپ نے دیکھا کہ رویت میں کیا کیا برکتیں ہیں انہیں برکتوں کی بنیاد ڈالنے کے لئے خدائے تعالیٰ نے رویت کی ترغیب دی۔ ذرہ سوچ کرکے دیکھ لو کہ اگر اہل یورپ بھی رویت کو ہندوئوں کی طرح ایک ناچیز اور بے سود خیال کرکے اور صرف قیاسی حسابوں پر جو کسی اندھیری کوٹھڑی میں بیٹھ کر لکھے گئے مدار رکھتے تو کیونکر یہ تازہ اور جدید معلومات چاند اور سورج اور نئے نئے ستاروں کی نسبت انہیں معلوم ہوجاتے سو مکرر ہم لکھتے ہیں کہ ذرا آنکھ کھول کر دیکھو کہ رویت میں کیا کیا برکات ہیں اور انجام کار کیا کیا نیک نتائج اس سے نکلتے ہیں۔
                (سرمہ چشمِ آریہ ۔ روحانی خزائن جلد2صفحہ192،193)
چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے تو کیا کریں؟
سیالکوٹ سے ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ یہاں چاند منگل کی شام کو نہیں دیکھا گیا بلکہ بدھ کو دیکھا گیا ہے (جبکہ رمضان بدھ کو شروع ہوچکا تھا۔ ناقل) اس واسطے پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا تھا۔ اب ہم کو کیا کرنا چاہئے؟   فرمایا :
’’ اس کے عوض میں ماہ رمضان کے بعد ایک اور روزہ رکھنا چاہئے۔ ‘‘ 
     (بدر 31؍اکتوبر1907ء صفحہ7) 
چاند دیکھنے کی گواہی 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان کا روزہ خود چاند دیکھ کر تو نہیں بعض غیر احمدیوں کی شہادت پر روزہ رکھ لیااور اسی دن (ہم) قادیان قریبًا ظہر کے وقت پہنچے اوریہ ذکر کیا کہ ہم نے روزہ رکھا ہوا ہے اور حضور علیہ السلام بھی مسجد میں تشریف لے آئے۔اسی وقت احادیث کی کتابیں مسجد میں ہی منگوائی گئیں اور بڑی توجہ سے غورہونا شروع ہو گیا کیونکہ قادیان میں اس روز روزہ نہیں رکھا ہوا تھا۔ اسی دوران میں ہم سے سوال ہوا کہ ’’ کیا چاند تم نے خود دیکھ کر روزہ رکھا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ’’ بعض غیراحمدیوں نے دیکھا تھا۔‘‘ ہمارے اس فقرے کے کہنے پر کہ ’’چاند غیر احمدیوں نے دیکھا تھا‘‘ کتاب کو تہہ کردیا اور فرمایا کہ ’’ ہم نے سمجھا تھا کہ تم نے خود چاند دیکھ کر روزہ رکھا ہے۔ اس لئے تحقیقات شروع کی تھی۔‘‘  
           (سیرت المہدی جلد 2صفحہ265) 
سحری میں تاخیر
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا ۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے۔ دیکھ کر فرمایا۔ آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں ؟ اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ آپ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میں نہیں۔ ہر ایک سے معلوم کرو کہ اُن کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھاناان کے لئے تیار کیا جائے ۔ پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر میں کھانا کھا چکا تھا اور اذان بھی ہو گئی تھی۔ حضور نے فرمایا کھالو۔ اذان جلد دی گئی ہے۔ اس کا خیال نہ کرو۔                            
(سیرت المہدی جلد2صفحہ127) 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۹۵ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفا ق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کرکے آخر شب میں ادا فرماتے تھے ۔ جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے یعنی   اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ سے وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم تک اوردوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قراء ت فرماتے تھے اور رکوع و سجود میں یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اکثر پڑھتے تھے۔ اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سُن سکتا تھا نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اوراس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے اذان ہوجاتی تھی اور آپ بعض اوقات اذان کے ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دراصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودار نہ ہوجائے سحری کھانا جائز ہے اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر مقرر ہے ۔ اس لئے لوگ عمومًا سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں ۔ قادیان میں چونکہ صبح کی اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور بے احتیاطی سے اس سے بھی قبل ہوجاتی ہو۔اس لئے ایسے موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اذان کا چنداں خیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبیّن تک سحری کھاتے رہتے تھے اور دراصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملہ میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اور حسابی طورپرصبح صادق کا آغاز ہواس کے ساتھ ہی کھانا ترک کر دیا جاوے بلکہ منشاء یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح کی سفیدی ظاہر ہو جاوے اس وقت کھانا چھوڑ دیا جاوے۔چنانچہ تبیّن کا لفظ اسی بات کو ظاہر کررہا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بیشک کھاتے پیتے رہا کرو۔ کیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شور نہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہوگئی ہے، صبح ہوگئی ہے اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے۔
        (سیرت المہدی جلد1صفحہ295،296) 

سحری کے وقت احتیاط کی ایک مثال 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ ماہ رمضان میں سحری کے وقت کسی شخص نے اصل وقت سے پہلے اذان دے دی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لے آئے اورفرمایا کہ میں نے دودھ کا گلاس منہ کے قریب کیا ہی تھا کہ اذان کی آواز آئی۔ اس لئے وہ گلاس مَیں نے وہیںرکھ دیا۔ کسی شخص نے عرض کی۔ کہ حضور ابھی تو کھانے پینے کا وقت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ بعد اذان کچھ کھایا جائے۔ 
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ روایت اگر درست ہے تو حضور نے اس وقت اپنی ذات کے لئے یہ احتیاط برتی ہوگی۔ ورنہ حضور کا طریق یہی تھا کہ وقت کا شمار اذان سے نہیں بلکہ سحری کے نمودار ہونے سے فرماتے تھے۔ اوراس میں بھی اس پہلو کو غلبہ دیتے تھے کہ فجر واضح طورپرظاہر ہوجاوے۔ جیسا کہ قرآنی آیت کا منشاء ہے مگر بزرگوں کا قول ہے کہ فتویٰ اور ہے اور تقویٰ اور۔   (سیرت المہدی جلد 1صفحہ520) 
 سفر میں روزہ ، حکم ہے اختیار نہیں
آپ سے دریافت کیا گیا کہ سفر کے لئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا کہ:
قرآن کریم سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ  فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍِ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَ یَّامٍِ اُخَرَ (البقرۃ : ۱۸۵) یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔اس میں امر ہے۔یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایاکہ جس کا اختیار ہو رکھ لے جس کا اختیار ہو نہ رکھے۔میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیںاس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی حرج نہیں مگر عِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرْ   کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہیے۔
اس پر مولوی نور الدین صاحبؓ نے فرمایا کہ یوں بھی توانسان کو مہینے میں کچھ روزے رکھنے چاہئیں۔
ہم اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت اقدس نے بھی فرمایاتھا کہ سفر میں تکالیف اٹھا کرجو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا۔یہ غلطی ہے۔اللہ تعالیٰ کی اطاعت امر اور نہی میں سچا ایمان ہے۔ 
                       (الحکم31جنوری  1899ء صفحہ7) 
مسافر اور مریض روزہ نہ رکھیں
حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ معلوم کر کے کہ لاہور سے شیخ محمد چٹو آئے ہیں اور احباب بھی آئے ہیں۔ محض اپنے خلق عظیم کی بناء پر باہر نکلے غرض یہ تھی کہ باہر سیر کو نکلیں گے۔ احباب سے ملاقات کی تقریب ہوگی۔ چونکہ پہلے سے لوگوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ حضرت اقدس باہر تشریف لائیں گے اس لئے اکثر احباب چھوٹی مسجد میں موجود تھے۔ جب حضرت اقدس اپنے دروازے سے باہر آئے تومعمول کے موافق خدام پر وانہ وار آپ کی طرف دوڑے ۔ آپ نے شیخ صاحب کی طرف دیکھ کر بعد سلام مسنون فرمایا:۔ 
حضرت اقدس ۔ آپ اچھی طرح سے ہیں ؟ آپ تو ہمارے پرانے ملنے والوں میں سے ہیں۔ 
بابا چٹو۔ شکر ہے۔ 
حضرت اقدس:۔ (حکیم محمد حسین قریشی کو مخاطب کر کے )یہ آپ کا فرض ہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ان کے کھانے ٹھہرنے کا پورا انتظام کردو۔ جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے کہو اور میاں نجم الدین کو تاکید کردو کہ ان کے کھانے کے لئے جو مناسب ہو اور پسند کریں وہ تیار کرے۔ 
حکیم محمد حسین :۔  بہت اچھا حضور۔ انشاء اللہ کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ 
حضرت اقدس:۔  (بابا چٹو کو خطاب کر کے ) آپ تو مسافر ہیں۔ روزہ تو نہیں رکھا ہوگا؟
بابا چٹو:۔  نہیں مجھے تو روزہ ہے میں نے رکھ لیا ہے ۔ 
حضرت اقدس:۔  اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پربھی تو عمل رکھنا چاہیے۔ میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے۔ کیوں کہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضاہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔ اس نے تو یہی حکم دیا ہے  مَنْ کَانَ مِنْکُمْْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرْ (البقرہ:۱۸۵) اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یاا یسی بیماری ہو ۔ میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں۔ چنانچہ آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں اور میں نے روزہ نہیں رکھا۔ چلنے پھرنے سے بیماری میں کچھ کمی ہوتی ہے اس لئے باہر جائوں گا۔ کیا آپ بھی چلیں گے۔ 
بابا چٹو:۔  نہیں میں تو نہیں جاسکتا۔ آپ ہو آئیں۔ یہ حکم تو بے شک ہے مگر سفر میں کوئی تکلیف نہیں پھر کیوں روزہ نہ رکھا جاوے۔ 
حضرت اقدس:۔ یہ تو آپ کی اپنی رائے ہے ۔ قرآن شریف نے تو تکلیف یا عدم تکلیف کا کوئی ذکر نہیں فرمایا اب آپ بہت بوڑھے ہوگئے ہیں۔ زندگی کا اعتبار کچھ نہیں۔ انسان کو وہ راہ اختیار کرنی چاہئے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجاوے اور صراط مستقیم مل جاوے۔ 
بابا چٹو:۔ میں تو اسی لئے آیا ہوں کہ آپ سے کچھ فائدہ اٹھائوں۔ اگر یہی راہ سچی ہے تو ایسا نہ ہو کہ ہم غفلت ہی میں مرجاویں۔ 
حضرت اقدس:۔ ہاں یہ بہت عمدہ بات ہے۔ میں تھوڑی دور ہو آئوں ۔ آپ آرام کریں۔ (یہ کہہ کر حضرت اقدس سیر کو تشریف لے گئے۔ )         (الحکم 31جنوری 1907ء صفحہ14)
بیمار اور مسافر کے روزہ رکھنے کا ذکر تھا ۔حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ شیخ ابن عربی کا قول ہے کہ اگر کوئی بیمار یا مسافر روزہ کے دنوں میں روزہ رکھ لے تو پھر بھی اسے صحت پانے پر ماہ رمضان کے گذرنے کے بعد روزہ رکھنا فرض ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے  فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍِ فَعِدَّ ۃٌ مّنْ اَیَّامٍِ اُخَرَ ( البقرۃ : ۱۸۵)جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو وہ ماہ رمضان کے بعد کے دنوں میں روزے رکھے ۔اس میں خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو مریض یا مسافر اپنی ضد سے یا اپنے دل کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے انہی ایام میں روزے رکھے تو پھر بعد میں رکھنے کی اس کو ضرورت نہیں ۔ خد تعالیٰ کا صریح حکم یہ ہے کہ وہ بعد میں روزے رکھے ۔بعد کے روزے اس پر بہر حال فرض ہیں ۔ درمیان کے روزے اگر وہ رکھے تو یہ امرز ائد ہے اور اس کے دل کی خواہش ہے ۔ اس سے خدا تعالیٰ کا وہ حکم جو بعد میں رکھنے کے متعلق ہے ٹل نہیں سکتا ۔ 
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ :۔
 جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہِ صیام میں روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے ۔خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے ۔ خدا تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حا صل کر سکتا ہے ۔ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا ہو بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہئے، مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے توا ن پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔                                                                 (بدر17اکتوبر1907ء صفحہ 7)
ظہر کے وقت روزے کھلوادئیے 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں رحمت اللہ صاحب ولد حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام لدھیانہ تشریف لائے۔ رمضان شریف کا مہینہ تھا۔۔۔۔ ہم سب غوث گڑھ سے ہی روزہ رکھ کر لدھیانہ گئے تھے۔ حضور نے والد صاحب مرحوم سے خود دریافت فرمایا، یا کسی اور سے معلوم ہوا(یہ مجھے یاد نہیں) کہ یہ سب غوث گڑھ سے آنے والے روزہ دار ہیں ۔ حضور ؑ نے فرمایا میاں عبداللہ! خدا کا حُکم جیسا روزہ رکھنے کا ہے ویسا ہی سفر میں نہ رکھنے کا ہے۔ آپ سب روزے افطار کردیں۔ ظہر کے بعد کا یہ ذکر ہے۔     (سیرت المہدی جلد2صفحہ125) 
عصر کے بعد روزہ کھلوادیا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں کوئی مہمان یہاں حضرت صاحب کے پاس آیا۔ اسے اس وقت روزہ تھا اور دن کا زیادہ حصہ گذر چکا تھا بلکہ شاید عصر کے بعد کا وقت تھا۔حضرت صاحب نے اسے فرمایاآپ روزہ کھول دیں۔ اس نے عرض کیا کہ اب تھوڑا سادن رہ گیا ہے۔ اب کیا کھولنا ہے۔ حضور ؑنے فرمایا آپ    سینہ زوری سے خدا تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے۔ جب اس نے فرمادیا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیں رکھنا چاہیے۔اس پر اس نے روزہ کھول دیا۔              (سیرت المہدی جلد1صفحہ97) 
سفر میں روزہ رکھنے پر روزہ کھلوا دیا
 حضرت منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی تحریر کرتے ہیں کہ :۔
ایک مرتبہ میں اور حضرت منشی اروڑے خان صاحب اور حضرت خان صاحب محمد خاں صاحب لدھیانہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ میں نے روزہ رکھا ہوا تھا اورمیرے رفقاء نے نہیں رکھا تھا۔ جب ہم حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو تھوڑا سا وقت غروب آفتاب میں باقی تھا۔ حضرت کو انہوں نے کہا کہ ظفر احمد نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ حضرت فوراً اندر تشریف لے گئے اور شربت کا ایک گلاس لے کر آئے اورفرمایا روزہ کھول دو۔ سفر میں روزہ نہیں چاہئے۔میں نے تعمیل ارشاد کی اوراس کے بعد بوجہ مقیم ہونے کے ہم روزہ رکھنے لگے۔ افطاری کے وقت حضرت اقدس خود تین گلاس ایک بڑے تھال میں رکھ کر لائے۔ ہم روزہ کھولنے لگے۔میں نے عرض کیا کہ حضور منشی جی کو (منشی اروڑے خاں صاحب کو) ایک گلاس میں کیا ہوتا ہے۔حضرت مسکرائے اورجھٹ اندر تشریف لے گئے۔ اور ایک بڑا لوٹا شربت کا بھر کر لائے اورمنشی جی کو پلایا۔ منشی جی یہ سمجھ کر حضرت اقدس کے ہاتھ سے شربت پی رہا ہوں پیتے رہے اور ختم کردیا۔
      (روایت حضرت منشی ظفراحمد صاحب کپورتھلوی ؓ اصحاب احمد جلد4صفحہ224نیا ایڈیشن ) 
سفر میں روزہ کھول دینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلّہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مقدمہ تھا اور اس کی ایک پیشی کے لئے موضع دھاریوال میں جانا پڑا۔ گرمی کا موسم تھا اوررمضان کا مہینہ تھا۔ بہت دوست اردگرد سے موضع دھاریوال میں گئے اور بہتوں نے روزے رکھے ہوئے تھے۔ وہاں ایک مشہور سردارنی نے جو موضع کھنڈے میں مشہور سرداروں میں سے ہے حضور کی خدمت اقدس میں دعوت کا پیغام بھیجا۔ حضور نے دعوت منظور فرمائی۔ سردارنی نے میٹھے چاول وغیرہ کی دعوت دی۔ بعض دوستوں نے حضور سے روزہ کے متعلق عرض کی ۔ فرمایا سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ چنانچہ اس وقت سب دوستوں نے روزے چھوڑدئیے۔     (سیرت المہدی جلد2صفحہ303) 
 سفر میں رخصت، ملامت کی پرواہ نہ کی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان شریف میں امرتسر میں تشریف لائے اور آپ کا لیکچر منڈوہ بابو گھنیا لعل(جس کا نام اب بندے ماترم پال ہے) میں ہوا۔ بوجہ سفر کے حضور کو روزہ نہ تھا لیکچر کے دوران مفتی فضل الرحمن صاحب نے چائے کی پیالی پیش کی۔ حضور نے توجہ نہ فرمائی پھر وہ اور آگے ہوئے ۔ پھر بھی حضور مصروفِ لیکچر رہے۔ پھر مفتی صاحب نے پیالی بالکل قریب کردی تو حضور نے لے کر چائے پی لی اس پر لوگوں نے شور مچادیا۔ یہ ہے رمضان شریف کا احترام ، روزے نہیں رکھتے اوربہت بکواس کرنا شروع کردیا۔ لیکچر بند ہوگیا اور حضور پس پردہ ہوگئے۔ گاڑی دوسرے دروازے کے سامنے لائی گئی اور حضوراس میں داخل ہوگئے۔ لوگوں نے اینٹ پتھر وغیرہ مارنے شروع کئے اوربہت ہلّڑ مچایا۔ گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیامگر حضور بخیر وعافیت قیام گاہ پر پہنچ گئے اوربعد میں سنا گیا کہ ایک غیر احمدی مولوی یہ کہتا تھا کہ ’’ اَج لوکاں نے مرزے نوں نبی بنادِتّا‘‘ یہ میں نے خود اس کے منہ سے نہیں سُنا۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کے ساتھ ہم باہر نکلے اوران کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ اینٹ پتھر مارتے ہیں۔ ذرا ٹھہر جائیں ۔ تو آپ نے فرمایا وہ گیا جس کو مارتے تھے۔ مجھے کون مارتا ہے۔ چونکہ مفتی فضل الرحمن صاحب کے چائے پیش کرنے پر یہ سب گڑبڑ ہوئی تھی۔ اس لئے سب آدمی ان کو کہتے تھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ میں نے بھی ان کو ایسا کہا۔ وہ بیچارے تنگ آگئے اور بعد میں میاں عبدالخالق صاحب مرحوم احمدی نے مجھے بتلایا کہ جب یہ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا کہ مفتی صاحب نے خواہ مخواہ لیکچر خراب کردیا تو حضور نے فرمایا: مفتی صاحب نے کوئی بُرا کام نہیں کیا، اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے فعل سے اس حکم کی اشاعت کا موقع پیدا کردیا۔ پھر تو مفتی صاحب شیر ہوگئے۔    (سیرت المہدی جلد2صفحہ147) 
مسافر کا حالتِ قیام میں روزہ رکھنا
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں : 
سوال پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے روزہ کے متعلق یہ فتویٰ دیا ہے کہ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔ 
ادھر الفضل میں میرایہ اعلان شائع کیا گیا ہے کہ احمدی احباب جو سالانہ جلسہ پر آئیں وہ یہاں آکر روزے رکھ سکتے ہیں مگر جو نہ رکھیں اور بعد میں رکھیں ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ 
اس کے متعلق اول تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا کوئی فتویٰ الفضل میں شائع نہیں ہوا ۔ ہاں ایک فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا میری روایت سے چھپا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ زمانہ خلافت کے پہلے ایام میں ،مَیں سفر میں روزہ رکھنے سے منع کیا کرتا تھا کیونکہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا تھا کہ آپ مسافر کو روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے دیکھا مرزا یعقوب بیگ صاحب رمضان میں آئے اورانہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا لیکن عصر کے وقت جبکہ وہ آئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہہ کر روزہ کھلوا دیا کہ سفر میں روزہ رکھنا ناجائز ہے۔ اس پر اتنی لمبی بحث اورگفتگو ہوئی کہ حضرت خلیفہ اولؓ نے سمجھا کہ شاید کسی کو ٹھوکر لگ جائے۔ اس لئے آپ ابن عربی کا ایک حوالہ دوسرے دن تلاش کرکے لائے کہ وہ بھی یہی کہتے ہیں۔
اس واقعہ کا مجھ پر یہ اثر تھا کہ میں سفر میں روزہ رکھنے سے روکتا تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ایک رمضان میں مولوی عبداللہ صاحب سنوری یہاں رمضان گزارنے کے لئے آئے تو انہوں نے کہا میں نے سنا ہے آپ باہر سے یہاں آنے والوں کو روزہ رکھنے سے منع کرتے ہیں مگر میری روایت ہے کہ یہاں ایک صاحب آئے اورانہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے عرض کیا کہ مجھے یہاں ٹھہرنا ہے ۔ اس دوران میں ،مَیں روزے رکھوں یا نہ رکھوں؟اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہاں آپ روزے رکھ سکتے ہیں کیونکہ قادیان احمدیوں کے لئے وطن ثانی ہے۔ گو مولوی عبداللہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے مقرب تھے مگر میں نے صرف ان کی روایت کو قبول نہ کیا اورلوگوں کی اس بارے میں شہادت لی تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام قادیان کی رہائش کے ایام میں روزہ رکھنے کی اجازت دیتے تھے۔ البتہ آنے اور جانے کے دن روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ اس وجہ سے مجھے پہلا خیال بدلنا پڑا۔پھر جب اس دفعہ رمضان میں سالانہ جلسہ آنے والا تھا اور سوال اُٹھا کہ آنے والوں کو روزہ رکھنا چاہئے یا نہیں تو ایک صاحب نے بتایاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب جلسہ رمضان میں آیا توہم نے خود مہمانوں کو سحری کھلائی تھی۔ان حالات میں جب میں نے یہاں جلسہ پر آنے والوں کو روزہ رکھنے کی اجازت دی تو یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی فتویٰ ہے۔پہلے علماء تو سفر میں روزہ رکھنا بھی جائز قراردیتے رہے ہیںاور آج کل کے سفر کو تو غیر احمدی مولوی سفر ہی نہیں قرار دیتے، لیکن حضرت مسیح موعودؑ نے سفر میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔پھر آپ نے ہی یہ بھی فرمایاکہ یہاں قادیان میں آکر روزہ رکھنا جائز ہے۔ اب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم آپ کا ایک فتویٰ تولے لیں اور دوسراچھوڑدیں۔
            (الفضل 4؍جنوری1934ء صفحہ4-3)
(اس مسئلہ پر سیرت المہدی سے بھی ایک روایت ملتی ہے)
حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریرکرتے ہیں کہ اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۳ء کاذکر ہے کہ میں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم رُڑکی سے آئے۔ چاردن کی رخصت تھی۔حضور ؑ نے پوچھا: ’’سفرمیں توروزہ نہیں تھا؟‘‘ ہم نے کہا نہیں۔ حضور ؑ نے ہمیں گلابی کمرہ رہنے کو دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا :ہم روزہ رکھیں گے۔ آپؑ نے فرمایا ’’ بہت اچھا! آ پ سفر میں ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ حضور ؑ! چند روز قیام کرناہے دل چاہتا ہے روزہ رکھوں۔ آپؑ نے فرمایا۔ ’’ اچھا!ہم آپ کو کشمیری پراٹھے کھلائیں گے۔‘ ‘ ہم نے خیال کیا کشمیری پراٹھے خدا جانے کیسے ہوں گے؟ جب سحری کا وقت ہوا اورہم تہجد و نوافل سے فار غ ہوئے اور کھانا آیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود گلابی کمرے میں تشریف لائے۔ (جو کہ مکان کی نچلی منزل میں تھا) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مکان کی اوپر والی تیسری منزل پر رہا کرتے تھے۔ ان کی بڑی اہلیہ کریم بی بی صاحبہ جن کو مولویانی کہا کرتے تھے۔ کشمیری تھیں اورپراٹھے اچھے پکایا کرتی تھیں۔ حضور ؑ نے یہ پراٹھے ان سے ہمارے واسطے پکوائے تھے۔ پراٹھے گرما گرم اوپر سے آتے تھے اورحضور علیہ السلام خود لے کر ہمارے آگے رکھتے تھے اورفرماتے تھے۔ ’’ اچھی طرح کھاؤ۔‘‘ مجھے تو شرم آتی تھی اورڈاکٹر صاحب بھی شرمسار تھے مگر ہمارے دلوں پر جو اثر حضور ؑ کی شفقت اور عنایت کا تھا اس سے روئیں روئیں میں خوشی کا لرزہ پیدا ہورہا تھا۔ اتنے میں اذان ہوگئی تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ اورکھاؤ ،ابھی بہت وقت ہے ۔‘‘ فرمایا : ’’ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرۃ:۱۸۸)اس پر لوگ عمل نہیں کرتے۔آپ کھائیں ابھی وقت بہت ہے ۔ مؤذن نے وقت سے پہلے اذان دے دی ہے۔ ‘‘ جب تک ہم کھاتے رہے حضور ؑ  کھڑے رہے اورٹہلتے رہے۔ ہر چند ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ حضورؑ تشریف رکھیں ،میں خود خادمہ سے پراٹھے پکڑلوں گا یا میری بیوی لے لیں گی مگر حضورؑ نے نہ مانا اور ہماری خاطر تواضع میں لگے رہے۔ اس کھانے میں عمدہ سالن اور دودھ سویاں وغیرہ کھانے بھی تھے۔  
      (سیرت المہدی جلد 2صفحہ202،203) 
حضرت سید محمد سرورشاہ صاحب تحریرفرماتے ہیں :۔
روزوں کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک جگہ پر تین دن سے زائد اقامت کرنی ہوتو پھر وہ روزے رکھے اور اگر تین دن سے کم اقامت کرنی ہو تو روزے نہ رکھے اور اگر قادیان میں کم دن ٹھہرنے کے باوجود روزے رکھ لے تو پھر روزے دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔    (فتاوٰی حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب رجسٹر نمبر5دارالافتاء ربوہ)
بیمار ہونے پر روزہ کھول دینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رمضان کا روزہ رکھاہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دَورہ ہوا اورہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے۔ اس وقت غروبِ آفتاب کا وقت بہت قریب تھا مگر آپ نے فورًا روزہ توڑدیا۔ آپ ہمیشہ شریعت میں سہل راستہ کو اختیارفرمایا کرتے تھے۔ 
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث میں حضرت عائشہؓ  کی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی یہی ذکر آتا ہے کہ آپ ہمیشہ دو جائز رستوں میں سے سہل رستہ کو پسند فرماتے تھے۔   (سیرت المہدی جلد1صفحہ637) 
معمولی بیماری میں روزہ رکھنے کی اجازت 
حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ :۔ 
ایک دفعہ میں نے رمضان شریف کا آخری عشرہ قادیان میں گذارا۔ ان دنوں میں حضور علیہ السلام کو تپ لرزہ یومیہ آتا تھا۔ ظہر کے بعد لرزہ سے تپ ہوجاتا تھا۔ اس لئے ظہر کے وقت حضور جماعت میں شریک ہوا کرتے تھے اور باقی نمازوں میں شریک نہیں ہوسکتے تھے۔ ظہر سے پہلے کبھی کبھی بانتظار نمازیاں بیٹھتے تھے۔میری عادت تھی کہ میں ضرور اس جگہ پہنچ جایا کرتا تھا جہاں حضور بیٹھتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں دور رہا ہوں ۔ اگر ایسا اتفاق ہوتا بھی جو صرف ایک دفعہ ہوا تو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی سامان کردیتا کہ میں قریب پہنچ جاؤں۔ غرض جب حضور ظہر کی نماز کے واسطے تشریف لاتے میں طبیعت کا حال دریافت کرتا تو فرماتے کہ سردی معلوم ہو رہی ہے۔ بعض دفعہ فرماتے کہ نماز پڑھو۔ سردی زیادہ معلوم ہورہی ہے مگر باوجود علالت کے حضور روزہ برابر رکھتے تھے ۔ ایک دن میں نے عرض کیا کہ تپ کی تکلیف ہے اور کئی دن ہوگئے ہیں۔ اگر روزہ افطار کردیا(یعنی بوقت بخار کھول یا توڑ لیا )کریں(تو بہتر ہو) فرمایا کہ روزہ کی وجہ سے کچھ تکلیف محسوس نہیں ہوتی ہے بلکہ آرام معلوم ہوتا ہے۔ بھوک پیاس کچھ معلوم نہیں ہوتی۔ رات کو البتہ کچھ زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے روزہ رکھ لیتا ہوں۔ صبح کو تپ اتر جاتا تھا تو حضور سیر کو تشریف لے جایا کرتے تھے۔(قلمی کاپی صفحہ ۵۲تا۵۴)
         (اصحابِ احمد جلد10صفحہ397،398نیا ایڈیشن روایت حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب ) 
بیماری میں روزہ کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کا معمول
حضرت مصلح موعود ؓ سے سوال پوچھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ بیماررہتے تھے کیا روزہ رکھتے تھے؟  آپؓ نے فرمایا: 
حضرت صاحب خوب روزہ رکھتے تھے مگر چونکہ آخر میں کمزور زیادہ ہو گئے تھے اورمرض میں بھی زیادتی تھی اس لئے تین سال کے روزے نہیں رکھے، یعنی ۵،۶،۷  (۱۹۰۵، ۱۹۰۶ اور ۱۹۰۷ء مراد ہے۔ ناقل)             
     (الفضل 12جون1922ء صفحہ7) 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے  حضرت والدہ صاحبہ نیبیان کیا  کہ جب حضرت مسیح موعودؑ کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا۔ دوسرا رمضان آیا تو 
آپ نے روزے رکھنے شروع کئے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دَورہ ہوا۔ اس لئے باقی چھوڑ دئیے اور فدیہ ادا کردیا۔ اس کے بعد جو رمضان آیاتو اس میں آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کردیا۔ اس کے بعدجو رمضان آیاتو آپ کا تیرھواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا۔اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادا فرماتے رہے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتدا دوروں کے زمانہ میں روز ے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضاء کیا؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں صرف فدیہ ادا کردیا تھا۔ 
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعود ؑ کو دورانِ سر اور بردِاطراف کے دورے پڑنے شروع ہوئے تو اس زمانہ میں آپ بہت کمزور ہوگئے تھے اور صحت خراب رہتی تھی اس لئے جب آپ روزے چھوڑتے تھے تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ پھر دوسرے رمضان تک ان کے پورا کرنے کی طاقت نہ پاتے تھے مگر جب اگلا رمضان آتا تو پھرشوق عبادت میں روزے رکھنے شروع فرمادیتے تھے لیکن پھر دورہ پڑتا تھا تو ترک کردیتے تھے اوربقیہ کا فدیہ ادا کردیتے تھے۔ واللّٰہ اعلم۔              (سیرت المہدی جلد1صفحہ59) 
مسافر اور مریض فدیہ دیں 
فرمایا:  اللہ تعالیٰ نے شریعت کی بناء آسانی پر رکھی ہے جو مسافر اور مریض صاحب مقدرت ہو ں ۔ ان کو چاہئے کہ روزہ کی بجائے فدیہ دے دیں ۔ فدیہ یہ ہے کہ ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔  (بدر17اکتوبر1907ء صفحہ 7)
   فدیہ دینے کی کیا غرض ہے ؟
 ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے ۔خد اتعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔پس میرے نزدیک خوب ہے کہ دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا تعالیٰ طاقت بخش دے گا۔
                        (البدر12دسمبر1902ء صفحہ52)  
فدیہ دینے سے روزہ ساقط نہیں ہوتا
 حضرت مصلح موعودؓ  تحریرفرماتے ہیں:
فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہوجاتابلکہ یہ محض اس بات کا فدیہ ہے کہ اِن مبارک ایّام میں وہ کسی جائز شرعی عذر کی بناء پر باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ عبادت ادا نہیں کرسکے۔ آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک عارضی اور ایک مستقل۔ فدیہ بشرطِ استطاعت اِن دونوں حالتوں میںدینا چاہئے۔ غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دے دے بہرحال سال دو سال یا تین سال کے بعد جب بھی اُس کی صحت اجازت دے اُسے پھر روزے رکھنے ہوں گے۔ سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اورصحت ہونے کے بعد ارادہ ہی کرتا رہا کہ آج رکھتا ہوں کل رکھتا ہوں کہ اِس دوران میں اس کی صحت پھر مستقل طورپر خراب ہوجائے۔ باقی جو بھی کھانا کھلانے کی طاقت رکھتا ہواگر وہ مریض یا مسافر ہے تو اُس کے لئے ضروری ہے کہ رمضان میں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے اور دوسرے ایّام میں روزے رکھے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مذہب تھا اور آپ ہمیشہ فدیہ بھی دیتے تھے اور بعد میں روزے بھی رکھتے تھے اور اِسی کی دوسروں کو تاکید فرمایا کرتے تھے۔                (تفسیر کبیر جلد 2صفحہ389) 
فدیہ کسے دیں؟
 سوال پیش ہوا کہ جو شخص روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو، اس کے عوض مسکین کو کھانا کھلانا چاہیئے۔ اس کھانے کی رقم قادیان کے یتیم فنڈ میں بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟ 
فرمایا:۔
    ایک ہی بات ہے خواہ اپنے شہر میں مسکین کو کھلائے یا یتیم اور مسکین فنڈ میں بھیج دے ۔ 
        (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
مزدور بھی مریض کے حکم میں ہے  
(۱) بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتاہے کہ کاشت کاروں سے جبکہ کام کی کثرت مثل تخم ریزی و درودگی ہوتی ہے ۔ ایسے ہی مزدوروں سے جن کا گذارہ مزدوری پر ہے روزہ نہیں رکھاجاتاان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟    فرمایا:۔ 
اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں۔ ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے ۔ اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتاہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے ۔ پھر جب میسر ہو رکھ لے۔ 
(۲) اور وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ (البقرۃ:۱۸۵) کی نسبت فرمایا کہ :۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ جو طاقت نہیں رکھتے ۔        (بدر26ستمبر1907ء صفحہ7) 
روزہ کس عمر سے رکھا جائے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ  فرماتے ہیں:۔ 
بارہ سال سے کم عمر کے بچے سے روزہ رکھوانا تو میرے نزدیک جرم ہے اور بارہ سال سے پندرہ سال کی عمر کے بچے کو اگر کوئی روزہ رکھواتا ہے تو غلطی کرتا ہے۔ پندرہ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور اٹھارہ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں۔ 
مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روزہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے اوربجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر روزہ کا رعب ڈالتے تھے۔
   (الفضل 11؍اپریل1925 ء صفحہ7 ) 
حضرت مصلح موعود ؓ  تحریرفرماتے ہیں ۔ 
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچّوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرورکرانی چاہئے۔ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بے وقوف چھ سات سال کے بچّوں سے روزہ رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہوگا۔ یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمر نشوونما کی ہوتی ہے ۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اورروزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے اُس وقت اُن کو روزہ کی ضرور مشق کرانی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنّت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے اور ہر سال چند روزے رکھوانے چاہئیں۔ یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہوجائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی۔ اِس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے ۔اِس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہیے کہ بچّوں کو جرأت دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں ۔ اور دیکھنے والوں کو بھی اِس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچّہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا۔ اِسی طرح بعض بچّے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچّوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں تو بتاتے ہیںکہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں ایسے بچّے روزہ کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اِس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچّہ غالبًا پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ میرے اِن الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پر ظلم کرے گا اورنہ خدا تعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا۔ اِسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچّہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اُس پر طعن کریں تو وہ اپنی جان پر ظلم کریں گے۔        (تفسیر کبیر جلد2صفحہ385) 
کم عمری میں روزہ رکھنے کی ممانعت 
حضرت نواب مبارکہ بیگم ؓصاحبہ تحریرفرماتی ہیں:۔
 قبل بلوغت کم عمری میں آپ ؑ روزہ رکھوانا پسند نہیں کرتے تھے ۔ بس ایک آدھ رکھ لیا کافی ہے۔ حضرت اماں جان نے میرا پہلا روزہ رکھوایا تو بڑی دعوتِ افطار دی تھی۔یعنی جو خواتین جماعت تھیں سب کو بلایا تھا۔اس رمضان کے بعد دوسرے یا تیسرے رمضان میں میں نے روزہ رکھ لیا اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایاکہ آج میرا روزہ پھر ہے۔ آپؑ حجرہ میں تشریف رکھتے تھے۔پاس سٹول پر دو پان لگے رکھے تھے۔غالبًا حضرت اماں جانؓ بنا کر رکھ گئی ہوں گی۔آپ نے ایک پان اُٹھاکر مجھے دیا کہ لو یہ پان کھالو۔تم کمزورہو،ابھی روزہ نہیں رکھنا۔ توڑ ڈالو روزہ۔میں نے پان تو کھالیامگر آپ سے کہاکہ صالحہ (یعنی ممانی جان مرحومہ چھوٹے ماموں جان کی اہلیہ محترمہ)نے بھی رکھا ہے۔اُن کا بھی تڑوادیں۔فرمایا بلاؤ اس کو ابھی۔میں بُلا لائی۔وہ آئیں تو اُن کو بھی دوسرا پان اُٹھاکر دیا اورفرمایا لو یہ کھالو۔تمہارا روزہ نہیں ہے ۔ میری عمر دس سال کی ہوگی غالبًا۔                    (تحریراتِ مبارکہ صفحہ227،228) 
شوّال کے چھ روزوں کا التزام 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جوانی کا ذکرفرمایاکرتے تھے کہ اس زمانہ میں مجھ کو معلوم ہوا یا فرمایا اشارہ ہوا کہ اس راہ میں ترقی کرنے کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں۔ فرماتے تھے پھر میں نے چھ ماہ لگاتار روزے رکھے اور گھر میں یا باہر کسی شخص کو معلوم نہ تھا کہ میں روزہ رکھتا ہوں۔ صبح کا کھاناجب گھر سے آتا تھا تو میں کسی حاجتمند کو دے دیتا تھااور شام کا خود کھالیتا تھا۔ میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ آخر عمر میں بھی آپ نفلی روزے رکھتے تھے یا نہیں؟والدہ صاحبہ نے کہاکہ آخر عمر میں بھی آپ روزے رکھا کرتے تھے۔ خصوصًا شوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے۔ اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے۔ہاں مگر آخری دو تین سالوں میں بوجہ ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ سکتے تھے۔ (خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب البریہ میں حضرت صاحب نے روزوں کا زمانہ آٹھ نو ماہ بیان کیا ہے۔)
                           (سیرت المہدی جلد 1صفحہ14) 
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ  فرماتے ہیں:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ شوال کے مہینے میں عید کا دن گزرنے کے بعد چھ روزے رکھتے تھے۔ اس طریق کا احیاء ہماری جماعت کا فرض ہے۔
ایک دفعہ حضرت صاحب نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ تمام قادیان میں عید کے بعد چھ دن تک رمضان ہی کی طرح اہتمام تھا۔ آخر میں چونکہ حضرت صاحب کی عمر زیادہ ہو گئی تھی اور بیمار بھی رہتے تھے اس لئے دو تین سال آپ نے روزے نہیں رکھے۔ جن لوگوں کو علم نہ ہو وہ سُن لیں اورجو غفلت میں ہوں ہوشیار ہوجائیں کہ سوائے ان کے جو بیمار اور کمزور ہونے کی وجہ سے معذور ہیں۔ چھ روزے رکھیں۔ اگر مسلسل نہ رکھ سکیں تو وقفہ ڈال کر بھی رکھ سکتے ہیں۔ 
                                                                 (الفضل 8جون 1922ء صفحہ7)
روزہ کی حالت میں آئینہ دیکھنا 
 حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں۔ فرمایا: 
’’جائز ہے ۔‘‘ 
      (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
روزہ کی حالت میں سر یا داڑھی کو تیل لگانا
حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ حالت ِ روزہ میں سر کو یا داڑھی کوتیل لگانا جائز ہے یا نہیں؟  فرمایا:
’’جائز ہے ۔‘‘         (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
روزہ کی حالت میںآنکھ میں دوائی ڈالنا
حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کی آنکھ بیمار ہوتو اس میں دوائی ڈالنی جائز ہے یا نہیں؟  فرمایا: 
’’ یہ سوا ل ہی غلط ہے ۔ بیمار کے واسطے روزہ رکھنے کا حکم نہیں۔ ‘‘
       (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
روزہ دارکاخوشبو لگانا
 سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو خوشبو لگانا جائز ہے یا نہیں ؟  فرمایا: 
’’جائز ہے ۔ ‘‘
        (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
روزہ دار کا آنکھوں میں سرمہ ڈالنا
سوال پیش ہوا کہ روزہ دار آنکھوں میں سرمہ ڈالے یا نہ ڈالے ؟
 فرمایا: 
’’مکروہ ہے اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے ۔ رات کو سرمہ لگا سکتاہے ۔‘‘  
       (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
نمازِ تراویح
اکمل صاحب آف گولیکی نے بذریعہ تحریر حضرت سے دریافت کیا کہ رمضان شریف میں   رات کو اُٹھنے اورنماز پڑھنے کی تاکید ہے لیکن عمومًا محنتی، مزدور، زمیندار لوگ جو ایسے اعمال کے بجالانے میں غفلت دکھاتے ہیں اگر اوّل شب میں ان کو گیارہ رکعت تراویح بجائے آخر شب کے پڑھا دی جائیں تو کیا یہ جائز ہوگا۔ 
حضرت اقدس ؑ نے جواب میں فرمایا
’’کچھ حرج نہیں ، پڑھ لیں۔ ‘‘ 
   (بدر 18؍اکتوبر1906ء صفحہ4) 
تراویح کی رکعات 
تراویح کے متعلق عرض ہوا کہ جب یہ تہجد ہے تو بیس رکعات پڑھنے کی نسبت کیاا رشاد ہے کیونکہ تہجد تو مع وتر گیارہ یا تیرہ رکعت ہے ۔ فرمایا:
 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دائمی تو وہی آٹھ رکعات ہے اور آپ تہجد کے وقت ہی پڑھا کرتے تھے اوریہی افضل ہے مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے رات کے اوّل حصے میں اُسے پڑھا۔ بیس رکعات بعد میں پڑھی گئیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت وہی تھی جو پہلے بیان ہوئی۔ 
 (بدر مؤرخہ 6فروری 1908ء صفحہ7) 
  تراویح دراصل نماز تہجد ہی ہے 
ایک صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں خط لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ سفر میں نماز کس طرح پڑھنی چاہیے اور تراویح کے متعلق کیا حکم ہے ؟  فرمایا : 
’’سفر میں دو گانہ سنت ہے ۔تروایح بھی سنت ہے پڑھا کریں اور کبھی گھر میں تنہائی میں پڑھ لیں کیونکہ تراویح دراصل تہجد ہے کوئی نئی نماز نہیں ۔ وتر جس طرح پڑھتے ہو بیشک پڑھو ۔‘‘
         (بدر26دسمبر1907ء صفحہ6)
نماز تراویح میں غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر لقمہ دینا
رمضان شریف میں تراویح کے لئے کسی غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر حافظ کو بتلانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی  ؓ نے فرمایا:
میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ اس کے متعلق نہیں دیکھا۔ اس پر مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے جائز قراردیا ہے۔ 
فرمایا :  جائز ہے تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے اوراس کے لئے یہ انتظام بھی ہوسکتا ہے کہ ایک ہی شخص تمام تراویح میں بیٹھ کر نہ سنتا رہے بلکہ چار آدمی دو دو رکعت کے لئے سنیں اس طرح ان کی بھی چھ چھ رکعتیں ہو جائیں گی۔
عرض کیا گیا فقہ اس صورت کو جائز ٹھہراتی ہے؟فرمایا:
 اصل غرض تو یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن کریم سننے کی عادت ڈالی جائے اور حضرت مسیح موعود  علیہ السلام کا یہ فتویٰ تو ضرورت اور مجبوری کی وجہ سے ہے جیسے کوئی کھڑا ہوکر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر ہی پڑھ لے اوربیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر پڑھ لے یا جس طرح کسی شخص کے کپڑے کو غلاظت لگی ہو اوروہ اسے دھو نہ سکے تو اسی طرح نماز پڑھ لے، یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ضرورت کی بات ہے۔                                           
  (الفضل21؍فروری1930ء صفحہ 12 ) 
بے خبری میں کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا
خط سے سوال پیش ہوا کہ میں بوقتِ سحر بماہ رمضان اندر بیٹھا ہوا بے خبری سے کھاتا پیتا رہا۔ جب باہر نکل کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سفیدی ظاہر ہوگئی ہے۔ کیا وہ روزہ میرے اوپر رکھنا لازم ہے یا نہیں؟  فرمایا : 
’’ بے خبری میں کھایا پیا تو اس پر اس روزہ کے بدلہ میں دوسرا روزہ لازم نہیں آتا۔ ‘‘ 
      (الحکم 24فروری 1907ء صفحہ14) 
رسول اللہ  ﷺ کے وصال کے دن روزہ رکھنا
سوا ل : کیا آنحضرت ؐ کے وصال کے دن روزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں؟  فرمایا:
’’ ضروری نہیں۔  ‘‘
      (بدر 14مارچ1907ء صفحہ5) 
 کیامحرم کے روزے ضروری ہیں ؟
سوا ل پیش ہوا کہ محرم کے پہلے دس دن کاروزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں؟  فرمایا: 
’’ضروری نہیں ہے۔ ‘‘
     (بدر 14مارچ1907ء صفحہ5) 
اعتکاف
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعود ؑ  کو اعتکاف بیٹھتے نہیں دیکھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بھی مجھ سے یہی بیان کیا ہے۔    
    (سیرت المہدی جلد1صفحہ62)
اعتکاف کے دوران بات چیت کرنا
سوال: جب آدمی اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کاروبار کے متعلق بات کرسکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: سخت ضرورت کے سبب کرسکتا ہے اوربیمار کی عیادت کے لئے اورحوائج ضروری کے واسطے باہر جاسکتا ہے ۔    
   (بدر 21فروری 1907ء صفحہ5) 
اعتکاف کے متعلق بعض ہدایات 
 ڈاکٹر عباداللہ صاحب امرتسر اور خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر (جو دونوں معتکف تھے) کو مخاطب کرکے فرمایا :
 اعتکاف میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان اندر ہی بیٹھا رہے اوربالکل کہیں آئے جائے ہی نہ۔ چھت پر دھوپ ہوتی ہے وہاں جاکر آپ بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے اورہر ایک ضروری بات کرسکتے ہیں۔ ضروری امور کا خیال رکھنا چاہئے اور یوں تو ہر ایک کام (مومن کا) عبادت ہی ہوتا ہے ۔                        (البدر2جنوری 1903ء صفحہ74 ) 
اعتکاف چھوڑ کر مقدمہ کی پیشی پر جانے کو ناپسند فرمایا  
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ  تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے زمانہ میں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اعتکاف بیٹھے مگر اعتکاف کے دِنوں میں ہی ان کو کسی مقدمہ میں پیشی کے واسطے باہر جانا پڑ گیا۔ چنانچہ وہ اعتکاف توڑ کر عصر کے قریب یہاں سے جانے لگے تو حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ کو مقدمہ میں جانا تھا تو اعتکاف بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی؟     
        (سیرت المہدی جلد1صفحہ97) 

انتخاب از کتاب فقہ المسیح شریعت کے اصول اور فقہی مسائل سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات
مکمل تحریر >>