Thursday 1 June 2017

رمضان المبارک کے روزوں کے متعلق چند بنیادی مسائل




سیدنا حضرت مرز ا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سورۃ البقرہ کی آیت ۱۸۵ تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’فرماتاہے چند گنتی کے دن ہیں جن میں روزے رکھنا تم پر فرض کیا گیاہے ۔ ہاں جو تم میں سے بیمار یامسافر ہو اس کے لئے اَور دنوں میں اس تعداد کا پورا کرناضروری ہوگا۔
 ﴿اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ اور فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ﴾ کے الفاظ صاف طورپر بتاتے ہیں کہ یہ روزے جن کا حکم دیا جا رہا ہے نفلی نہیں بلکہ واجب ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ اگرکوئی بیمار یامسافر ہو تو اسے بہرحال بعد میں اس تعداد کو پورا کرنا ہوگا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب رمضان کے دنوں میں مَیں بیمار تھا یاسفر پرگیاہوا تھا تو اب رمضان کے بعدمَیں کیوں روزے رکھوں ۔جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ میں رمضان المبارک کے روزوں کا ذکرنہیں بلکہ صرف عام طورپرروزے رکھنے کا ذکر ہے وہ غلطی پر ہیں۔ اگر ان کی یہ بات صحیح ہے تو فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کاکوئی مطلب نہیں رہتا۔ اول تو یہاں اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتسے ہی معلوم ہوتاہے کہ یہاں صرف ایسے ہی روزوں کا ذکر کیا جا رہاہے جن کے لئے شریعت کی طرف سے بعض ایاّم مقرر ہیں۔ دوسرے اَیَّامًا مَّعْدُوْدَات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایاّم کسی خاص مہینہ سے متعلق ہیں ۔ پسکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ سے عام نفلی روزے مراد لینا کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتا۔
کن لوگوں پر رمضان کے روزے فرض نہیں
پھر اس بارہ میں اﷲ تعالیٰ یہ ہدایت دیتاہے کہ جو شخص بیماریا مسافر ہو اسے بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔ بلکہ اوردنوں میں اس کمی کوپورا کرناچاہئے ۔ مَیں نے اپنے تجربہ کی بنا پر یہ بات دیکھی ہے کہ رمضان کے بارہ میں مسلمانوں میں افراط و تفریط سے کام لیا جاتاہے ۔ کئی دفعہ تعلیم یافتہ لوگوں کو مَیں نے دیکھاہے کہ وہ رمضان کی برکات کے قائل ہی نہیں اور بغیر کسی بیماری یا عذر شرعی کے روزہ کے تارک ہیں ۔ اور دوسرے و ہ لوگ ہیں جو سارا اسلام روزہ ہی میں محدود سمجھتے ہیں ۔ اور ہر بیمار ، کمزور، بوڑھے ، بچے ، حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت سے بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ ضرور روزہ رکھے خواہ بیماری بڑھ جائے یا صحت کونقصان پہنچ جائے ۔ یہ دونوں افراط وتفریط میں مبتلاہیں۔
اسلام کا یہ ہرگز منشاء نہیں کہ وہ انسان کو اس راستہ سے ہٹادے جو اس کی کامیابی کا ہے۔ اگر تو شریعت چٹی ہوتی یاجرمانہ ہوتا تو پھر بیشک ہر شخص پر خواہ وہ کوئی بوجھ اٹھا سکتا یانہ اٹھاسکتا اس کا اٹھانا ضروری ہوتا ۔جیسے حکومت کی طرف سے جرمانہ کردیا جائے تواس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جس پر جرمانہ کیا گیاہے اس میں ادا کرنے کی استطاعت بھی ہے یا نہیں بلکہ جس پر جرمانہ ہواسے خواہ گھر بیچنا پڑے ، بھوکا رہنا پڑے ،جرمانہ کی رقم ادا کرنا اس کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام کے احکام چٹّی نہیں بلکہ وہ انسان کے اپنے فائدہ کے لئے ہیں اور ان پرعمل کرنے سے خود انسان کو ہی آرام میسر آتا ہے۔ اور اس کی ترقی کے راستے کھلتے ہیں۔ جن مذاہب ے شریعت کو چٹیّ قرار دیاہے ان کے ماننے والوں کے لئے تو ضروری ہے کہ خواہ کچھ ہو وہ اپنے مذہبی ا حکام کو ضرور پورا کریں ۔ لیکن جس مذہب کے احکام کی غرض محض انسانی فائدہ ہو اس میں نفع ونقصان کا موازنہ ہوتاہے اور جو صورت زیادہ مفید ہو اسے اختیار کر لیا جاتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے بعض احکام کے سلسلہ میں بعض شرائط مقر ر کر دی ہیں تا کہ اگروہ شرائط کسی میں پائی جائیں تووہ اس حکم پرعمل کرے اور اگرنہ پائی جائیں تو نہ کرے۔ یہ شرائط صرف جسمانی عبادت کے لئے ہی نہیں بلکہ مالی عبادت کے لئے بھی ہیں۔ جیسے زکوٰۃ ہے اور وطنی قربانی اور اتّصال و اتّحاد کی کوشش کے لئے بھی ہیں جیسے حج ہے ۔ اسی طرح اورجتنے مسائل اسلام سے تعلق رکھتے ہیں اورجتنے احکام فرض ہیں ان سب کے لئے یہ شرط ہے کہ جب انسان کو طاقت ہو انہیں ضرو ر ادا کرے لیکن جب اس کی طاقت سے بات بڑھ جائے تو وہ معذور ہے ۔ اگر حج انسان کے مالدار ہونے اور امن و صحت کی شرط سے مشروط ہے ۔اگر زکوٰۃ کے لئے یہ شرط ہے کہ ایک خاص مقدار میں کسی کے پاس ایسا مال ہو جو اس کی ضروریات سے ایک سال بڑھا رہے ۔ اگر نماز کے لئے یہ شرط ہے کہ جوکھڑا نہ ہو سکے بیٹھ کر اور جو بیٹھ نہ سکے لیٹ کر نماز ادا کرے تو رمضان کے لئے بھی یہ شرط ہے کہ اگر انسان مریض ہو ، خواہ اسے مرض لاحق ہو چکاہو یا ایسی حالت میں ہوجس میں روزہ رکھنا اسے یقینی طورپر مریض بنا سکتاہو جیسے حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت ہے یاایسا بوڑھا شخص ہے جس کے قویٰ میں انحطاط شروع ہو چکا ہے یا اتنا چھوٹا بچہ ہے جس کے قویٰ نشوونما پا رہے ہیں تواسے روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔
مسافر اور بیمار کا روزہ رکھنا ایساہی لغو ہے جیسے حائضہ کا روزہ رکھنا ۔ کون نہیں جانتا کہ حائضہ کاروزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں بلکہ بیوقوفی اور جہالت ہے ۔ یہی حال بیمار اور مسافر کاہے ۔ اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں ۔ اسی طر ح وہ بوڑھا جس کے قویٰ مضمحل ہو چکے ہوں اور روزہ اسے زندگی کے باقی اشغال سے محروم کردیتاہو اس لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں۔پھر وہ بچہ جس کے قویٰ نشوونما پا رہے ہیں اور آئندہ پچاس ساٹھ سال کے لئے وہ طاقت کا ذخیرہ اپنے اندر جمع کر رہا ہے اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں ہو سکتا ۔ مگر جس میں طاقت ہـے اورجو رمضان کا صحیح معنوں میں مخاطب ہے وہ اگرروزہ نہیں رکھتا توگناہ کا مرتکب ہوتاہے ۔
بچوں سے روزہ رکھوانا 
یہ امریاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیاہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کرانی چاہئے۔مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بیوقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزہ رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہوگا۔یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمرنشوونما کی ہوتی ہے ۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے اُس وقت ان کوروزہ کی مشق ضرور کروانی چاہئے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے ۔ اور ہرسال چند روزے رکھوانے چاہئیں یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہوجائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمرہے ۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی اجازت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے دی تھی ۔ اس عمر میں توصرف شوق ہوتاہے ۔ اس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگریہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمرایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہئے کہ بچوں کو جرأت دلائیں کہ وہ کچھ روزے رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں۔ اور دیکھنے والوں کوبھی اس پراعتراض نہ کرنا چاہئے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا توآئندہ نہیں رکھ سکے گا۔
اسی طرح بعض بچے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں ۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں توبتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں ۔ مَیں سمجھتاہوں کہ ایسے بچے روزوں کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچہ غالباً پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتاہے۔ لیکن اگروہ میرے ان الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پرظلم کرے گا اور نہ خداتعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پرآپ ظلم کرے گا ۔ اسی طرح اگرکوئی چھوٹی عمرکابچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ ا س پرطعن کریں تو وہ اپنی جان پرظلم کریں گے ۔
روزہ کے بارہ میں افراط و تفریط
بہرحال ان باتوں میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جہاں شریعت روکتی ہے وہاں رک جاناچاہئے اور جہاں حکم دیتی ہے وہاں عمل کرنا چاہئے۔مگر مسلمان اس وقت اعتدال کو ترک کر بیٹھے ہیں ۔ ان میں یا تو وہ لوگ ہیں جو روزہ ہی نہیں رکھتے اور یا وہ لوگ ہیں جوروزہ کے ایسے پابند ہیں کہ بیماری اور سفر میں بھی اسے ضرور ی سمجھتے ہیں اور بعض تو اس میں ایسی شدت اختیارکر لیتے ہیں کہ وہ چھوٹے بچوں سے بھی روزہ رکھواتے ہیں اوراگروہ توڑنا چاہیں توتوڑنے نہیں دیتے ۔ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں کہ سات سات آٹھ آٹھ سال کے بچوں نے روزے رکھے توماں باپ نے ان کی نگرانی کی کہ وہ روزہ توڑ نہ دیں یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔ بے شک روزہ کاادب و احترام ان کے دلوں میں پیدا کرنا ضروری ہے اور انہیں بتاناچاہئے کہ اگروہ سارا دن روزہ نہیں رکھ سکتے توروزہ رکھیں ہی نہیں لیکن یہ کہ اگر وہ رکھ لیں تو پھرتوڑیں نہیں خواہ مرنے لگیں، نہایت ظالمانہ فعل ہے اور اسلا م کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔
غرض ایک طرف تو مسلمانوں میں ایسے لوگ ہیں جو روزہ کے بارہ میں اس قدر سختی کرتے ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو روزوں کی ضرورت ہی کے قائل نہیں بالخصوص تعلیمیافتہ طبقہ اسی خیال کا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں مَیں نے اخبارات میں پڑھا تھا کہ ایک شخص ٹرکی یا مصر سے یہاں آیا ۔ وہ تقریریں کرتا پھرتا تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اس زمانہ میں ہوتے تو ضرور روزہ کی شکل بدل دیتے ۔ اس لئے ہمیں بھی بدل دینی چاہئے کیونکہ وہ زمانہ اَور تھا اور یہ اَور ہے۔ اور اس کی صورت وہ یہ پیش کرتا تھا کہ روزہ کی حالت میں روٹی نہ کھائی جائی بلکہ صرف کچھ کیک اور بسکٹ وغیرہ کھا لئے جائیں ۔ غرض ایک طبقہ افراط کی طرف چلا گیاہے تو دوسرا تفریط کی طرف۔ حالانکہ اسلام ایک وسطی مذہب ہے اور وہ جہاں بیمار اور مسافر کو اجازت دیتاہے کہ وہ بیماری اور سفرکی حالت میں روزہ نہ رکھیں وہاں ہر بالغ اور باصحت مسلمان پر یہ واجب قرار دیتاہے کہ وہ رمضان کے روزے رکھے اور ان مبارک ایام کواﷲ تعالیٰ کی عبادت اور تسبیح و تحمید اور قرآن کریم کی تلاوت اور دعاؤں اور ذکرالٰہی میں بسر کرے تا کہ اسے اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔
بہرحال روزہ کے بارہ میں شریعت نے نہایت تاکید کی ہے اور جہاں اس کے متعلق حد سے زیادہ تشدد ناجائز ہے وہاں حد سے زیادہ نرمی بھی ناجائز ہے۔ پس نہ تو اتنی سختی کرنی چاہئے کہ جان تک چلی جائے اورنہ اتنی نرمی اختیار کرنی چاہئے کہ شریعت کے احکام کی ہتک ہو اور ذمہ داری کوبہانوں سے ٹال دیا جائے ۔ مَیں نے دیکھا ہے کئی لوگ محض کمزوری کے بہانہ کی وجہ سے روزے نہیں رکھتے اوربعض توکہہ دیتے ہیں کہ اگرروزہ رکھا جائے تو پیچش ہو جاتی ہے ۔ حالانکہ روزہ چھوڑنے کے لئے یہ کوئی کافی وجہ نہیں کہ پیچش ہوجایاکرتی ہے ۔ جب تک پیچش نہ ہو انسان کے لئے روزہ رکھنا ضروری ہے ۔ جب پیچش ہو جائے تو پھربے شک چھوڑ دے۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں روزہ رکھنے سے ضعف ہو جاتاہے۔ مگریہ بھی کوئی دلیل نہیں ۔صرف اس ضعف کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہے جس میں ڈاکٹر روزہ رکھنے سے منع کرے ۔ ورنہ یوں تو بعض لوگ ہمیشہ ہی کمزور رہتے ہیں توکیاوہ کبھی بھی روزہ نہ رکھیں ۔ مَیں اڑھائی تین سال کا تھا جب مجھے کالی کھانسی ہوئی تھی۔ اسی وقت سے میری صحت خراب ہے ۔ اگر ایسے ضعف کوبہانہ بناناجائز ہو تو میرے لئے تو شاید ساری عمرمیں ایک روزہ بھی رکھنے کاموقع نہیں تھا۔ ضعف وغیرہ جسے روزہ چھوڑنے کابہانہ بنا یاجاتاہے اسی کی برداشت کی عادت ڈالنے کے لئے تو روزہ رکھا جاتاہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے قرآ ن کریم میں آتاہے کہ نماز بدی اوربے حیائی سے روکتی ہے ۔ اس پرکوئی شخص کہے کہ مَیں نماز اس لئے نہیں پڑھتا کہ اس کی وجہ سے بدی کرنے سے رک جاتاہوں۔ پس روزہ کی تو غرض ہی یہی ہے کہ کمزوری کوبرداشت کرنے کی عادت پیدا ہو ورنہ یوں توکوئی بھی یہ کہہ سکتاہے کہ مَیں اس لئے روزہ نہیں رکھتاکہ مجھے بھوک اور پیاس کی تکلیف ہو تی ہے ۔ حالانکہ اس قسم کی تکالیف کو برداشت کی عادت پیدا کرنے ہی کے لئے روزہ مقرر کیاگیاہے۔جو شخص روزہ رکھے کیاوہ چاہتاہے کہ فرشتے سارا دن اس کے پیٹ میں کباب ٹھونستے رہیں ۔ وہ جب بھی روزہ رکھے گا اسے بھوک اور پیاس ضرور برداشت کرنی پڑے گی اور کچھ ضعف بھی ضرور ہوگا۔ اور اسی کمزوری اور ضعف کو برداشت کرنے کی عادت پیدا کرنے کے لئے روزہ رکھایا جاتاہے۔ بے شک روزہ کی اور بھی حکمتیں ہیں جیسے ایک حکمت یہ ہے کہ روزہ رکھنے سے غرباء اور فاقہ زدہ لوگوں کی اعانت کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے ۔ مگر بہرحال روزہ اس لئے نہیں رکھا جاتا کہ انسان کو تکلیف ہی نہ ہو اور وہ کوئی ضعف محسوس نہ کرے بلکہ اس لئے رکھا جاتاہے کہ اسے ضعف برداشت کرنے کی عادت پیداہو۔ پس ضعف کے خوف سے روزہ چھوڑنا ہرگزجائزنہیں ۔ سوائے اس کے کہ کوئی بوڑھا ہوچکاہے یا ڈاکٹر اس کے ضعف کوبھی بیماری قرار دے چکاہو۔ ایسی صورت میں بیشک روزہ نہیں رکھناچاہئے۔مگر ضعف کے متعلق ظاہری ڈیل ڈول اور صورت سے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکالنا چاہئے۔ بعض لوگ بظاہر موٹے تازے ہوتے ہیں اور چلتے پھرتے بھی ہیں لیکن دراصل وہ بیمار ہوتے ہیں اور ان کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہوتا۔بالخصوص جن لوگوں کو دل کی بیماری ہو ایسے لوگوں کے لئے بھوک پیاس کابرداشت کرنا سخت خطرناک ہوتاہے ۔ پس کمزوری یاضعف کا فیصلہ بظاہردیکھنے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ دیکھنا ہوگاکہ ڈاکٹرکیاکہتاہے ۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے ڈاکٹر بھی دیانت داری سے کام نہیں لیتے ۔ ذرا کوئی شخص دوچار بار جھک کر سلام کردے توجوچاہے ڈاکٹر سے لکھوا لے۔ ظاہرہے کہ ایسے سرٹیفکیٹ کاکیا اعتبار ہو سکتاہے لیکن اگرحقیقی طورپر ڈاکٹر کسی کومشورہ دے کہ اس کے لئے روزہ رکھنا مضرہے تو گو وہ بظاہر تندرست بھی نظرآئے اس کے لئے روز ہ رکھنا جائز نہیں ہوگا۔
بیمار اور مسافر کے روزہ کے متعلق
 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ بیمار اور مسافر کے لئے روزہ جائز نہیں ۔چنانچہ آ پ نے ایک دفعہ فرمایا :
’’جوشخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزہ رکھتاہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتاہے۔ خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ بیمار اور مسافر روزہ نہ رکھے ۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے ۔ خدا کے اس حکم پرعمل کرنا چاہئے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کرسکتاہے ۔ خداتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹاہو یا لمبا بلکہ حکم عام ہے اور اس پرعمل کرنا چاہئے ۔ مریض اورمسافر اگرروزہ رکھیں گے توان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا ‘‘۔(فتاویٰ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صفحہ ۱۳۲،۱۳۳)
روزہ نہ رکھنے والوں کی طرف سے فدیہ دینے کے احکام 
پھرفرماتا ہے وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کو بڑی دقّت پیش آئی ہے اور انہوں نے اس کے کئی معنی کئے ہیں۔ یہ دقت زیادہ تر اس وجہ سے پیش آئی ہے کہ یُطِیْقُوْنَہٗ میں جوہٗکی ضمیر استعمال ہوئی ہے اس کے مرجع کی تعیین میں اختلاف پایا جاتاہے ۔ بعض نے اس کامرجع صوم کوقرار دیاہے اور بعض نے فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کو۔ 
شاہ ولی اﷲ صاحب نے اس کو ’’الفوز الکبیر ‘‘ میں اس طرح حل کیاہے کہ یُطِیْقُوْنَہٗ میں ’’ہٗ‘‘ کی ضمیر﴿ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ﴾ کی طرف گئی ہے۔ اس پر یہ اعتراض پڑتاتھا کہ یہ اضمار قبل الذکر ہے یعنی ضمیر پہلے آ گئی ہے اورمرجع بعد میں ہے حالانکہ مرجع پہلے ہونا چاہئے تھا ۔ اس کا جواب انہو ں نے یہ دیا ہے کہ فِدْیَۃ کامقام چونکہ نَحْوًا مقدم ہے یعنی وہ مبدا ہے اس لئے اس کی ضمیر اس کے ذکرسے پہلے آ سکتی ہے۔
دوسر ا اعتراض یہ پڑتاہے کہ فِدْیَۃٌ مؤنث ہے اور ضمیر مذکر۔ اس کا جواب یہ دیا ہے کہ فِدْیَۃ، طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کا قائم مقام ہے اور وہ مذکر ہے ۔ اس لئے فِدْیَۃکی طرف بھی مذکر کی ضمیر پھر سکتی ہے۔
اس بنا پرانہوں نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ ان لوگوں پرجوفدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہوں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دینا واجب ہے۔ ان کے نزدیک اس آیت میں صدقۃ الفطر کی طرف اشارہ ہے جواسلام میں نماز عید سے پہلے ادا کرنا ضروری قراردیا گیاہے تا کہ غرباء بھی عید کی خوشی میں شریک ہوسکیں۔
(۲)دوسرے معنے اس کے یہ کئے جاتے ہیں کہ مومنوں میں سے جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں وہ روزوں کے ساتھ ساتھ ایک مسکین کاکھانا بطورفدیہ بھی دے دیا کریں ۔ لیکن رسول کریم ﷺکے عمل اوراحادیث سے چونکہ یہ بات ثابت نہیں کہ روزہ دارفدیہ بھی دے اس لئے یہ معنے تسلیم نہیں کئے جا سکتے۔ اس کے علاوہ عقلی طورپر یہ معنے اس لئے بھی ناقابل قبول ہیں کہ فدیہ تو اس پر ہونا چاہئے جو روزہ نہ رکھ سکے ۔ جو شخص باقاعدہ روزے رکھ رہاہے اس پر فدیہ کیسا؟ ہاں اگر کو ئی شخص اس شکریہ میں کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے اس عبادت کے بجا لانے کی توفیق بخشی ہے روزہ رکھ کر ایک مسکین کوکھانا بھی دے دیاکرے تووہ زیادہ ثواب کا مستحق ہے کیونکہ اس نے روزہ بھی رکھااورایک مسکین کو کھانا بھی کھلایا۔ مگر بہرحال وہ ایک زائد نیکی ہوگی ۔ قرآن کریم کسی کو اس بات کا پابند قرار نہیں دیتا کہ وہ روزہ بھی رکھے اور ایک مسکین کوکھانا بطورفدیہ بھی کھلائے ۔
(۳) مفسرین نے اس آیت کے ایک معنے یہ بھی کئے ہیں کہ یُطِیْقُوْنَہٗ سے پہلے لا محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے وَعَلَی الَّذِیْنَ لاَ یُطِیْقُوْنَہٗ اور ہٗ کی ضمیر کا مرجع وہ صَوْم کوقرار دیتے ہیں ۔ یعنی وہ لوگ جوروزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں وہ ایک مسکین کاکھانا بطور فدیہ دے دیا کریں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس جگہ لَا اسی طرح محذوف ہے جس طر ح آیت یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا (نساء آیت ۱۷۷) میں تَضِلُّوْاسے پہلے بھی لَا محذوف ہے اور آیت کے معنے یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ یہ باتیں اس لئے بیان کرتاہے تا کہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ۔ گو یہ بھی کہا جا سکتاہے کہ یہاں لَا مقدر نہیں بلکہ ایک مضاف محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے کہ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ مَخَافَۃَ اَنْ تَضِلُّوْایعنی اﷲ تعالیٰ تمہارے لئے یہ باتیں تمہارے گمراہ ہوجانے کے خدشہ کی بنا پر بیان کرتاہے۔
(۴) بعض نے اس آ یت کا یوں حل کیاہے کہ عربی زبان میں اَطَاقَ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ کسی شخص نے کام تو کیا مگر بہت مشکل اور مصیبت سے ۔ گویا جب کوئی شخص اپنے نفس کو انتہائی مشقت میں ڈالے بغیرکوئی کام سرانجام دینے کی اپنے اندر طاقت نہ رکھتا ہو تواس کے لئے اَطَاق کا لفظ استعمال کیا جاتاہے ۔ اس مفہوم کے لحاظ سے اَلَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ سے وہ لوگ مراد ہیں جو روزہ سے سخت تکلیف اٹھاتے ہیں اور جن کی بدنی طاقت بالکل زائل ہوجاتی ہے بلکہ بعض دفعہ غشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے جیسے بوڑھے یادل کے مریض یا اعصابی کمزوری کے شکار یا حاملہ اور مرضعہ ۔ ایسے لوگ جو بظاہر توبیمار نظر نہیں آتے لیکن روزہ رکھنے سے بیمار ہوجاتے ہیں اُن کویہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ روزہ رکھنے کی بجائے ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ اپنی طرف سے دے دیا کریں ۔ ان معنوں کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ قرطبی نے یُطِیْقُوْنَہٗ کی ایک 
قرا ء ت یُطَوِّقُوْنَہ ٗبھی بیان کی ہے۔ یعنی جو لوگ صرف مشقت سے روزہ نبھا سکتے ہیں۔ اورجن کی صحت روزہ رکھنے سے غیر معمولی طورپر خراب ہوجاتی ہے وہ بے شک روزے نہ رکھیں ہاں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دیا کریں ۔
میرے نزدیک چونکہ اَطَاقَ باب اِفْعَال میں سے ہے اور باب اِفْعَال کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ سلب کے معنے دیتاہے اس لئے وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ کے یہ معنے ہونگے کہ وہ لوگ جن کی طاقت کمزور ہوگئی ہے یعنی قریباً ضائع ہوگئی ہے وہ بیشک روزہ نہ رکھیں مگر چونکہ ان کا روزہ نہ رکھنامحض اجتہادی امر ہوگا، مرض ظاہرکے نتیجہ میں نہیں ہوگا بلکہ صرف متوقع کمزوری کے نتیجہ میں ہوگااوراجتہادمیں غلطی بھی ہو سکتی ہے اس لئے انہیں چاہئے کہ اپنی اجتہادی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے اگر ان کو فدیہ دینے کی طاقت ہوتو ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ ان دنوں میں دے دیا کریں تاکہ ان کی غلطی کے ا مکان کا کفارہ ادا ہوتا رہے۔ 
(۵) ایک اور معنے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھ پر کھولے ہیں وہ یہ ہیں کہ یُطِیْقُوْنَہٗ میں ہٗ کی ضمیر روزہ کی طرف پھرتی ہے ۔ اور مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جن کی بیماری شدید ہے یا جن کا سفر پُرمشقت ہے وہ تو بہرحال فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَر کے مطابق دوسرے ایام میں روزے رکھیں گے۔ لیکن وہ لوگ جو کسی معمولی مرض میں مبتلا ہیں یا کسی آسانی سے طے ہونے والے سفر پر نکلے ہیں اگر وہ طاقت رکھتے ہوں توایک مسکین کا کھانا بطورفدیہ بھی دے دیا کریں۔ اس وجہ سے کہ ممکن ہے انہوں نے روزہ چھوڑنے میں غلطی کی ہو۔ وہ آپ کوبیمار سمجھتے ہوں لیکن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ان کی بیماری ایسی نہ ہوکہ وہ روزہ ترک کرسکیں۔ یا و ہ اپنے آپ کو مسافر سمجھتے ہوں لیکن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ان کا سفر، سفر ہی نہ سمجھا گیا ہو۔ 
پس چونکہ ان کی رائے میں غلطی کا ہروقت امکان ہے اس لئے ایسے بیماروں اور مسافروں کوچاہئے کہ ان میں سے جولوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں و ہ دوسرے ایام میں فوت شدہ روزوں کو پورا کرنے کے علاوہ ایک مسکین کو کھانا بھی دے دیا کریں۔ تا کہ ان کی اس غلطی کا کفارہ ہوجائے ۔
اوراگر یُطِیْقُوْنَہٗ میں ہٗ کی ضمیر کامرجع فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کوہی قرار دیا جائے جیساکہ شاہ 
ولی اﷲ صاحبؒ نے لکھا ہے تو پھر بجائے اس کے کہ اس حکم کو صدقۃالفطر پرمحمول کیا جائے اس آیت کا فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ سے تعلق ہوگا۔ اور اس کے یہ معنے ہونگے کہ اگرچہ مریض اور مسافر کو یہ اجازت ہے کہ وہ اور دنوں میں روزہ رکھ لیں لیکن ان میں سے وہ لوگ جن کو آسودگی حاصل ہو اور وہ ایک شخص کو کھانا کھلا سکتے ہوں انہیں چاہئے کہ ایک مسکین کاکھانا بطور فدیہ رمضان دے دیاکریں۔ اگر طاقت نہ ہو تو پھر تو فدیۂ رمضان دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ لیکن اگر طاقت ہوتو خواہ وہ بیمار ہوں یامسافر انہیں ایک مسکین کاکھانا بطورفدیہ ٔ رمضان دینا چاہئے ۔اگر روک عارضی ہواور وہ بعد میں دورہو جائے توروزہ تو بہرحال رکھناہوگا۔ فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہو جاتا بلکہ یہ محض اس بات کا فدیہ ہے کہ ان مبارک ایام میں وہ کسی جائز شرعی عذر کی بنا پر باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ عبادت ادا نہیں کرسکے ۔ آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ایک عارضی اور ایک مستقل۔فدیہ بشرط استطاعت دونوں حالتوں میں دینا چاہئے ۔ پھرجب عذر دو ر ہو جائے تو روزہ بھی رکھنا چاہئے۔ غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دے دے بہرحال سال دو سال یاتین سال کے بعد جب بھی اس کی صحت اجازت دے اسے پھر روزے رکھنے ہونگے ۔ سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اورصحت ہونے کے بعد وہ ارادہ ہی کرتارہا کہ آج رکھتاہوں ، کل رکھتاہوں کہ اس دوران میں اس کی صحت پھر مستقل طورپر خراب ہوجائے ۔ باقی جو بھی کھانا کھلانے کی طاقت رکھتاہو اگروہ مریض یا مسافر ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ رمضان میں ایک مسکین کاکھانا بطورفدیہ دے اور دوسرے ایام میں روزے رکھے ۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مذہب تھا اور آپ ہمیشہ فدیہ بھی دیتے تھے اور بعد میں روزے بھی رکھتے تھے اور اسی کی دوسروں کو تاکید فرمایا کرتے تھے ۔
اس آیت میں جو اَلَّذِیْنَ کا لفظ استعمال ہواہے یہ دو کا بدل یا قائم مقام ہوسکتاہے۔ اوّل ان مومنوں کا جن کا ذکر یٰآاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ میں کیا گیاہے۔ دوم ان لوگوں کا جن کا ذکر فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍ میں ہے۔
اگر اسے یٰآاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کا بدل سمجھا جائے تواس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ وہ لوگ جو ضعف کی وجہ سے روزے سے سخت تکلیف اٹھاتے ہیں اور اپنے نفس پر بڑی مشقت برداشت کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ روزہ رکھنے کی بجائے ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دیا کریں۔
اگر دوسر ا بدل لیں تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ وہ مریض اور مسافر جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں وہ فدیہ دیں اور پھر دوسرے دنوں میں روزے بھی رکھیں کیونکہ بعض امراض ایسی ہوتی ہیں یا بعض سفر ایسے ہوتے ہیں جن میں یہ اشتباہ ہوتاہے کہ آیا اس میں روزہ ترک کیا جا سکتاہے یا نہیں؟ حدیث میں آیاہے کہ مشکوک اشیاء بھی محارم ہی کے نیچے ہوتی ہیں کیونکہ جومشکوک تک پہنچتاہے وہ آہستہ آہستہ محارم تک بھی پہنچ جاتاہے ۔پس اگر یہ دونوں باتیں مشکوک ہوں توایسے مسافراور مریض کوچاہئے کہ فدیہ دے دے اور رخصت سے فائدہ اٹھائے اوربعد میں روزے بھی رکھ لے ۔ اس میں ایسی بیماری والا جس کی بیماری مشتبہ ہو یاایسا سفر والا جس کا سفر مشتبہ ہو،مراد ہیں۔ ان میں سے جو طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ دینا لازم ہے کیونکہ ممکن ہے انہوں نے اپنے اجتہا د میں غلطی کی ہو۔ اورجیساکہ مَیں نے بتایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کابھی یہی مذہب تھا کہ ایسے لو گ دوسرے ایام میں روزہ رکھیں اور رمضان کے دنوں میں فدیہ دیں۔
پھر فرمایا ہے فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ جو شخص پوری بشاشت اور شوق کے ساتھ نیکی کا کوئی کام کرتاہے تو خواہ وہ ابتدا میں تکلف کے ساتھ ہی ایساکرے اور اسے اپنے نفس پر ایک رنگ میں بوجھ ہی محسوس ہو تب بھی اس کا نتیجہ اس کے لئے اچھا ہی نکلے گا ۔ یعنی وہ نیکی اس کے لئے بہترین نتائج پیدا کرنے والی ثابت ہوگی ۔ 
عربی زبان میں تَطَوَّعَ کالفظ اس وقت استعمال ہوتاہے جب اپنے نفس پر بوجھ ڈال کر کسی حکم کی اطاعت کی جائے۔ اور تکلف سے بشاشت کا اظہار کیا جائے۔ پس فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ میں ا ﷲ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو شخص پورے شرح صدر کے ساتھ کسی نیکی میں حصہ نہ لے سکے اسے چاہئے کہ کم از کم اپنے نفس پر بوجھ ڈالتے ہوئے ہی اس میں حصہ لے اور اپنے چہرہ پر تکلف سے بشاشت پیدا کرے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ اسکے لئے خیر اور برکت کے راستے کھول دے گا یعنی نیکیوں میں ترقی کرتے کرتے اسے ایسا مقام میسر آجائے گا کہ نیکی اس کی غذا بن جائے گی اور نیک تحریکا ت پر عمل اس کے لئے ایسا ہی آسان ہو جائے گا جیسے اعلیٰ درجہ کے مومنوں کے لئے آسان ہوتا ہے۔
لیکن اس کے علاوہ تَطَوَّعَ کے معنے محاورہ میں غیر واجب کام کے نفلی طورپر کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور امام راغب نے اپنی مشہور کتاب مفردات میں اس کی تصریح کی ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ جو شخص نفلی طورپر کوئی نیک کام کرے گا تویہ اس کے لئے بہت بہتر ہوگا۔ یعنی رمضان میں روزے رکھنے یا ایک مسکین کوکھانا کھلانے کاحکم تو ہم نے دے دیاہے لیکن اگرکوئی شخص ثواب کی نیت سے اس میں کوئی زیادتی کرنا چاہے تواسے اس کا اختیار ہے۔ مثلاً وہ اختیاررکھتاہے کہ ایک کی بجائے دومساکین کو کھانا بطورفدیہ دے دے۔ یاوہ اختیار رکھتاہے کہ روزہ بھی رکھے اور حصول ثواب کے لئے ایک مسکین کوکھانا بھی کھلاتارہے۔ یا رمضان کے روزوں کے علاوہ نفلی طورپر دوسرے ایام میں بھی روزے رکھے۔ یہ سب حصول ثواب کے ذرائع ہیں جن میں ہرمومن اپنی اپنی طاقت کے مطابق حصہ لے کراﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرسکتاہے ۔
پھرفرمایا وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌلَکُمْ ۔ اس کے بعض لوگ یہ معنی کرتے ہیں کہ اگر تم روزہ رکھو تویہ تمہارے لئے بہترہے۔ مگر یہ صحیح نہیں ۔ اگر یہ معنے ہوتے تو اِنْ تَصُوْمُوْاکہناچاہئے تھا نہ کہ اَنْ تَصُوْمُوْا۔ اس کے صحیح معنے یہ ہیں کہ اگر تم علم رکھتے ہو تو سمجھ سکتے ہوکہ روزہ رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے یعنی ہم نے جس حکم کے لئے یہ تمہید اٹھائی تھی وہ کوئی معمولی حکم نہیں بلکہ ایک غیر معمولی خیر اور برکت رکھنے والا حکم ہے۔ اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم اسے پوری توجہ سے سنو اور اس پرعمل کرو‘‘۔
(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعود ؓ سورۃ البقرہ زیر آیت ۱۸۵)

مکمل تحریر >>

Sunday 28 May 2017

روزہ اور رمضان سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات



روزہ اور رمضان 
فرمایا :
اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو، اورہرایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اورجس پرحج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔
     (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ15) 
رؤیت ہلال
 خدائے تعالیٰ نے احکام دین سہل و آسان کرنے کی غرض سے عوام الناس کو صاف اور سیدھا راہ بتلایا ہے اور ناحق کی دقتوں اور پیچیدہ باتوں میں نہیں ڈالا مثلاً روزہ رکھنے کیلئے یہ حکم نہیں دیا کہ تم جب تک قواعد ظنیہ نجوم کے رو سے یہ معلوم نہ کرو کہ چاند انتیس کا ہوگا یا تیس کا۔ تب تک رویت کا ہرگز اعتبار نہ کرو اور آنکھیں بند رکھو کیونکہ ظاہر ہے کہ خواہ نخواہ اعمال دقیقہ نجوم کو عوام الناس کے گلے کا ہار بنانا یہ ناحق کا حرج اور تکلیف مالایطاق ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے حسابوں کے لگانے میں بہت سی غلطیاں واقع ہوتی رہتی ہیں سو یہ بڑی سیدھی بات اور عوام کے مناسب حال ہے کہ وہ لوگ محتاج منجم و ہیئت دان نہ رہیں اور چاند کے معلوم کرنے میں کہ کس تاریخ نکلتا ہے اپنی رویت پر مدار رکھیں صرف علمی طور پر اتنا سمجھ رکھیں کہ تیس کے عدد سے تجاوز نہ کریں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقت میں عندالعقل رویت کو قیاساتِ ریاضیہ پر فوقیت ہے۔ آخر حکمائے یورپ نے بھی جب رویت کو زیادہ تر معتبر سمجھا تو اس نیک خیال کی وجہ سے بتائید قوت باصرہ طرح طرح کے آلات دوربینی و خوردبینی  ایجادکئے اور بذریعہ رویت تھوڑے ہی دنوں میں اجرام علوی و سفلی کے متعلق وہ صداقتیں معلوم کرلیں کہ جو ہندوئوں بیچاروں کو اپنی قیاسی اٹکلوں سے ہزاروں برسوں میں بھی معلوم نہیں ہوئی تھیں اب آپ نے دیکھا کہ رویت میں کیا کیا برکتیں ہیں انہیں برکتوں کی بنیاد ڈالنے کے لئے خدائے تعالیٰ نے رویت کی ترغیب دی۔ ذرہ سوچ کرکے دیکھ لو کہ اگر اہل یورپ بھی رویت کو ہندوئوں کی طرح ایک ناچیز اور بے سود خیال کرکے اور صرف قیاسی حسابوں پر جو کسی اندھیری کوٹھڑی میں بیٹھ کر لکھے گئے مدار رکھتے تو کیونکر یہ تازہ اور جدید معلومات چاند اور سورج اور نئے نئے ستاروں کی نسبت انہیں معلوم ہوجاتے سو مکرر ہم لکھتے ہیں کہ ذرا آنکھ کھول کر دیکھو کہ رویت میں کیا کیا برکات ہیں اور انجام کار کیا کیا نیک نتائج اس سے نکلتے ہیں۔
                (سرمہ چشمِ آریہ ۔ روحانی خزائن جلد2صفحہ192،193)
چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے تو کیا کریں؟
سیالکوٹ سے ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ یہاں چاند منگل کی شام کو نہیں دیکھا گیا بلکہ بدھ کو دیکھا گیا ہے (جبکہ رمضان بدھ کو شروع ہوچکا تھا۔ ناقل) اس واسطے پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا تھا۔ اب ہم کو کیا کرنا چاہئے؟   فرمایا :
’’ اس کے عوض میں ماہ رمضان کے بعد ایک اور روزہ رکھنا چاہئے۔ ‘‘ 
     (بدر 31؍اکتوبر1907ء صفحہ7) 
چاند دیکھنے کی گواہی 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان کا روزہ خود چاند دیکھ کر تو نہیں بعض غیر احمدیوں کی شہادت پر روزہ رکھ لیااور اسی دن (ہم) قادیان قریبًا ظہر کے وقت پہنچے اوریہ ذکر کیا کہ ہم نے روزہ رکھا ہوا ہے اور حضور علیہ السلام بھی مسجد میں تشریف لے آئے۔اسی وقت احادیث کی کتابیں مسجد میں ہی منگوائی گئیں اور بڑی توجہ سے غورہونا شروع ہو گیا کیونکہ قادیان میں اس روز روزہ نہیں رکھا ہوا تھا۔ اسی دوران میں ہم سے سوال ہوا کہ ’’ کیا چاند تم نے خود دیکھ کر روزہ رکھا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ’’ بعض غیراحمدیوں نے دیکھا تھا۔‘‘ ہمارے اس فقرے کے کہنے پر کہ ’’چاند غیر احمدیوں نے دیکھا تھا‘‘ کتاب کو تہہ کردیا اور فرمایا کہ ’’ ہم نے سمجھا تھا کہ تم نے خود چاند دیکھ کر روزہ رکھا ہے۔ اس لئے تحقیقات شروع کی تھی۔‘‘  
           (سیرت المہدی جلد 2صفحہ265) 
سحری میں تاخیر
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا ۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے۔ دیکھ کر فرمایا۔ آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں ؟ اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ آپ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میں نہیں۔ ہر ایک سے معلوم کرو کہ اُن کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھاناان کے لئے تیار کیا جائے ۔ پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر میں کھانا کھا چکا تھا اور اذان بھی ہو گئی تھی۔ حضور نے فرمایا کھالو۔ اذان جلد دی گئی ہے۔ اس کا خیال نہ کرو۔                            
(سیرت المہدی جلد2صفحہ127) 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۹۵ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفا ق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کرکے آخر شب میں ادا فرماتے تھے ۔ جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے یعنی   اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ سے وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم تک اوردوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قراء ت فرماتے تھے اور رکوع و سجود میں یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اکثر پڑھتے تھے۔ اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سُن سکتا تھا نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اوراس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے اذان ہوجاتی تھی اور آپ بعض اوقات اذان کے ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دراصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودار نہ ہوجائے سحری کھانا جائز ہے اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر مقرر ہے ۔ اس لئے لوگ عمومًا سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں ۔ قادیان میں چونکہ صبح کی اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور بے احتیاطی سے اس سے بھی قبل ہوجاتی ہو۔اس لئے ایسے موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اذان کا چنداں خیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبیّن تک سحری کھاتے رہتے تھے اور دراصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملہ میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اور حسابی طورپرصبح صادق کا آغاز ہواس کے ساتھ ہی کھانا ترک کر دیا جاوے بلکہ منشاء یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح کی سفیدی ظاہر ہو جاوے اس وقت کھانا چھوڑ دیا جاوے۔چنانچہ تبیّن کا لفظ اسی بات کو ظاہر کررہا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بیشک کھاتے پیتے رہا کرو۔ کیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شور نہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہوگئی ہے، صبح ہوگئی ہے اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے۔
        (سیرت المہدی جلد1صفحہ295،296) 

سحری کے وقت احتیاط کی ایک مثال 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ ماہ رمضان میں سحری کے وقت کسی شخص نے اصل وقت سے پہلے اذان دے دی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لے آئے اورفرمایا کہ میں نے دودھ کا گلاس منہ کے قریب کیا ہی تھا کہ اذان کی آواز آئی۔ اس لئے وہ گلاس مَیں نے وہیںرکھ دیا۔ کسی شخص نے عرض کی۔ کہ حضور ابھی تو کھانے پینے کا وقت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ بعد اذان کچھ کھایا جائے۔ 
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ روایت اگر درست ہے تو حضور نے اس وقت اپنی ذات کے لئے یہ احتیاط برتی ہوگی۔ ورنہ حضور کا طریق یہی تھا کہ وقت کا شمار اذان سے نہیں بلکہ سحری کے نمودار ہونے سے فرماتے تھے۔ اوراس میں بھی اس پہلو کو غلبہ دیتے تھے کہ فجر واضح طورپرظاہر ہوجاوے۔ جیسا کہ قرآنی آیت کا منشاء ہے مگر بزرگوں کا قول ہے کہ فتویٰ اور ہے اور تقویٰ اور۔   (سیرت المہدی جلد 1صفحہ520) 
 سفر میں روزہ ، حکم ہے اختیار نہیں
آپ سے دریافت کیا گیا کہ سفر کے لئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا کہ:
قرآن کریم سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ  فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍِ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَ یَّامٍِ اُخَرَ (البقرۃ : ۱۸۵) یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔اس میں امر ہے۔یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایاکہ جس کا اختیار ہو رکھ لے جس کا اختیار ہو نہ رکھے۔میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیںاس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی حرج نہیں مگر عِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرْ   کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہیے۔
اس پر مولوی نور الدین صاحبؓ نے فرمایا کہ یوں بھی توانسان کو مہینے میں کچھ روزے رکھنے چاہئیں۔
ہم اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت اقدس نے بھی فرمایاتھا کہ سفر میں تکالیف اٹھا کرجو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا۔یہ غلطی ہے۔اللہ تعالیٰ کی اطاعت امر اور نہی میں سچا ایمان ہے۔ 
                       (الحکم31جنوری  1899ء صفحہ7) 
مسافر اور مریض روزہ نہ رکھیں
حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ معلوم کر کے کہ لاہور سے شیخ محمد چٹو آئے ہیں اور احباب بھی آئے ہیں۔ محض اپنے خلق عظیم کی بناء پر باہر نکلے غرض یہ تھی کہ باہر سیر کو نکلیں گے۔ احباب سے ملاقات کی تقریب ہوگی۔ چونکہ پہلے سے لوگوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ حضرت اقدس باہر تشریف لائیں گے اس لئے اکثر احباب چھوٹی مسجد میں موجود تھے۔ جب حضرت اقدس اپنے دروازے سے باہر آئے تومعمول کے موافق خدام پر وانہ وار آپ کی طرف دوڑے ۔ آپ نے شیخ صاحب کی طرف دیکھ کر بعد سلام مسنون فرمایا:۔ 
حضرت اقدس ۔ آپ اچھی طرح سے ہیں ؟ آپ تو ہمارے پرانے ملنے والوں میں سے ہیں۔ 
بابا چٹو۔ شکر ہے۔ 
حضرت اقدس:۔ (حکیم محمد حسین قریشی کو مخاطب کر کے )یہ آپ کا فرض ہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ان کے کھانے ٹھہرنے کا پورا انتظام کردو۔ جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے کہو اور میاں نجم الدین کو تاکید کردو کہ ان کے کھانے کے لئے جو مناسب ہو اور پسند کریں وہ تیار کرے۔ 
حکیم محمد حسین :۔  بہت اچھا حضور۔ انشاء اللہ کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ 
حضرت اقدس:۔  (بابا چٹو کو خطاب کر کے ) آپ تو مسافر ہیں۔ روزہ تو نہیں رکھا ہوگا؟
بابا چٹو:۔  نہیں مجھے تو روزہ ہے میں نے رکھ لیا ہے ۔ 
حضرت اقدس:۔  اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پربھی تو عمل رکھنا چاہیے۔ میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے۔ کیوں کہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضاہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔ اس نے تو یہی حکم دیا ہے  مَنْ کَانَ مِنْکُمْْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرْ (البقرہ:۱۸۵) اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یاا یسی بیماری ہو ۔ میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں۔ چنانچہ آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں اور میں نے روزہ نہیں رکھا۔ چلنے پھرنے سے بیماری میں کچھ کمی ہوتی ہے اس لئے باہر جائوں گا۔ کیا آپ بھی چلیں گے۔ 
بابا چٹو:۔  نہیں میں تو نہیں جاسکتا۔ آپ ہو آئیں۔ یہ حکم تو بے شک ہے مگر سفر میں کوئی تکلیف نہیں پھر کیوں روزہ نہ رکھا جاوے۔ 
حضرت اقدس:۔ یہ تو آپ کی اپنی رائے ہے ۔ قرآن شریف نے تو تکلیف یا عدم تکلیف کا کوئی ذکر نہیں فرمایا اب آپ بہت بوڑھے ہوگئے ہیں۔ زندگی کا اعتبار کچھ نہیں۔ انسان کو وہ راہ اختیار کرنی چاہئے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجاوے اور صراط مستقیم مل جاوے۔ 
بابا چٹو:۔ میں تو اسی لئے آیا ہوں کہ آپ سے کچھ فائدہ اٹھائوں۔ اگر یہی راہ سچی ہے تو ایسا نہ ہو کہ ہم غفلت ہی میں مرجاویں۔ 
حضرت اقدس:۔ ہاں یہ بہت عمدہ بات ہے۔ میں تھوڑی دور ہو آئوں ۔ آپ آرام کریں۔ (یہ کہہ کر حضرت اقدس سیر کو تشریف لے گئے۔ )         (الحکم 31جنوری 1907ء صفحہ14)
بیمار اور مسافر کے روزہ رکھنے کا ذکر تھا ۔حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ شیخ ابن عربی کا قول ہے کہ اگر کوئی بیمار یا مسافر روزہ کے دنوں میں روزہ رکھ لے تو پھر بھی اسے صحت پانے پر ماہ رمضان کے گذرنے کے بعد روزہ رکھنا فرض ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے  فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍِ فَعِدَّ ۃٌ مّنْ اَیَّامٍِ اُخَرَ ( البقرۃ : ۱۸۵)جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو وہ ماہ رمضان کے بعد کے دنوں میں روزے رکھے ۔اس میں خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو مریض یا مسافر اپنی ضد سے یا اپنے دل کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے انہی ایام میں روزے رکھے تو پھر بعد میں رکھنے کی اس کو ضرورت نہیں ۔ خد تعالیٰ کا صریح حکم یہ ہے کہ وہ بعد میں روزے رکھے ۔بعد کے روزے اس پر بہر حال فرض ہیں ۔ درمیان کے روزے اگر وہ رکھے تو یہ امرز ائد ہے اور اس کے دل کی خواہش ہے ۔ اس سے خدا تعالیٰ کا وہ حکم جو بعد میں رکھنے کے متعلق ہے ٹل نہیں سکتا ۔ 
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ :۔
 جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہِ صیام میں روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے ۔خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے ۔ خدا تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حا صل کر سکتا ہے ۔ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا ہو بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہئے، مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے توا ن پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔                                                                 (بدر17اکتوبر1907ء صفحہ 7)
ظہر کے وقت روزے کھلوادئیے 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں رحمت اللہ صاحب ولد حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام لدھیانہ تشریف لائے۔ رمضان شریف کا مہینہ تھا۔۔۔۔ ہم سب غوث گڑھ سے ہی روزہ رکھ کر لدھیانہ گئے تھے۔ حضور نے والد صاحب مرحوم سے خود دریافت فرمایا، یا کسی اور سے معلوم ہوا(یہ مجھے یاد نہیں) کہ یہ سب غوث گڑھ سے آنے والے روزہ دار ہیں ۔ حضور ؑ نے فرمایا میاں عبداللہ! خدا کا حُکم جیسا روزہ رکھنے کا ہے ویسا ہی سفر میں نہ رکھنے کا ہے۔ آپ سب روزے افطار کردیں۔ ظہر کے بعد کا یہ ذکر ہے۔     (سیرت المہدی جلد2صفحہ125) 
عصر کے بعد روزہ کھلوادیا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں کوئی مہمان یہاں حضرت صاحب کے پاس آیا۔ اسے اس وقت روزہ تھا اور دن کا زیادہ حصہ گذر چکا تھا بلکہ شاید عصر کے بعد کا وقت تھا۔حضرت صاحب نے اسے فرمایاآپ روزہ کھول دیں۔ اس نے عرض کیا کہ اب تھوڑا سادن رہ گیا ہے۔ اب کیا کھولنا ہے۔ حضور ؑنے فرمایا آپ    سینہ زوری سے خدا تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے۔ جب اس نے فرمادیا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیں رکھنا چاہیے۔اس پر اس نے روزہ کھول دیا۔              (سیرت المہدی جلد1صفحہ97) 
سفر میں روزہ رکھنے پر روزہ کھلوا دیا
 حضرت منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی تحریر کرتے ہیں کہ :۔
ایک مرتبہ میں اور حضرت منشی اروڑے خان صاحب اور حضرت خان صاحب محمد خاں صاحب لدھیانہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ میں نے روزہ رکھا ہوا تھا اورمیرے رفقاء نے نہیں رکھا تھا۔ جب ہم حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو تھوڑا سا وقت غروب آفتاب میں باقی تھا۔ حضرت کو انہوں نے کہا کہ ظفر احمد نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ حضرت فوراً اندر تشریف لے گئے اور شربت کا ایک گلاس لے کر آئے اورفرمایا روزہ کھول دو۔ سفر میں روزہ نہیں چاہئے۔میں نے تعمیل ارشاد کی اوراس کے بعد بوجہ مقیم ہونے کے ہم روزہ رکھنے لگے۔ افطاری کے وقت حضرت اقدس خود تین گلاس ایک بڑے تھال میں رکھ کر لائے۔ ہم روزہ کھولنے لگے۔میں نے عرض کیا کہ حضور منشی جی کو (منشی اروڑے خاں صاحب کو) ایک گلاس میں کیا ہوتا ہے۔حضرت مسکرائے اورجھٹ اندر تشریف لے گئے۔ اور ایک بڑا لوٹا شربت کا بھر کر لائے اورمنشی جی کو پلایا۔ منشی جی یہ سمجھ کر حضرت اقدس کے ہاتھ سے شربت پی رہا ہوں پیتے رہے اور ختم کردیا۔
      (روایت حضرت منشی ظفراحمد صاحب کپورتھلوی ؓ اصحاب احمد جلد4صفحہ224نیا ایڈیشن ) 
سفر میں روزہ کھول دینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلّہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مقدمہ تھا اور اس کی ایک پیشی کے لئے موضع دھاریوال میں جانا پڑا۔ گرمی کا موسم تھا اوررمضان کا مہینہ تھا۔ بہت دوست اردگرد سے موضع دھاریوال میں گئے اور بہتوں نے روزے رکھے ہوئے تھے۔ وہاں ایک مشہور سردارنی نے جو موضع کھنڈے میں مشہور سرداروں میں سے ہے حضور کی خدمت اقدس میں دعوت کا پیغام بھیجا۔ حضور نے دعوت منظور فرمائی۔ سردارنی نے میٹھے چاول وغیرہ کی دعوت دی۔ بعض دوستوں نے حضور سے روزہ کے متعلق عرض کی ۔ فرمایا سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ چنانچہ اس وقت سب دوستوں نے روزے چھوڑدئیے۔     (سیرت المہدی جلد2صفحہ303) 
 سفر میں رخصت، ملامت کی پرواہ نہ کی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان شریف میں امرتسر میں تشریف لائے اور آپ کا لیکچر منڈوہ بابو گھنیا لعل(جس کا نام اب بندے ماترم پال ہے) میں ہوا۔ بوجہ سفر کے حضور کو روزہ نہ تھا لیکچر کے دوران مفتی فضل الرحمن صاحب نے چائے کی پیالی پیش کی۔ حضور نے توجہ نہ فرمائی پھر وہ اور آگے ہوئے ۔ پھر بھی حضور مصروفِ لیکچر رہے۔ پھر مفتی صاحب نے پیالی بالکل قریب کردی تو حضور نے لے کر چائے پی لی اس پر لوگوں نے شور مچادیا۔ یہ ہے رمضان شریف کا احترام ، روزے نہیں رکھتے اوربہت بکواس کرنا شروع کردیا۔ لیکچر بند ہوگیا اور حضور پس پردہ ہوگئے۔ گاڑی دوسرے دروازے کے سامنے لائی گئی اور حضوراس میں داخل ہوگئے۔ لوگوں نے اینٹ پتھر وغیرہ مارنے شروع کئے اوربہت ہلّڑ مچایا۔ گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیامگر حضور بخیر وعافیت قیام گاہ پر پہنچ گئے اوربعد میں سنا گیا کہ ایک غیر احمدی مولوی یہ کہتا تھا کہ ’’ اَج لوکاں نے مرزے نوں نبی بنادِتّا‘‘ یہ میں نے خود اس کے منہ سے نہیں سُنا۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کے ساتھ ہم باہر نکلے اوران کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ اینٹ پتھر مارتے ہیں۔ ذرا ٹھہر جائیں ۔ تو آپ نے فرمایا وہ گیا جس کو مارتے تھے۔ مجھے کون مارتا ہے۔ چونکہ مفتی فضل الرحمن صاحب کے چائے پیش کرنے پر یہ سب گڑبڑ ہوئی تھی۔ اس لئے سب آدمی ان کو کہتے تھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ میں نے بھی ان کو ایسا کہا۔ وہ بیچارے تنگ آگئے اور بعد میں میاں عبدالخالق صاحب مرحوم احمدی نے مجھے بتلایا کہ جب یہ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا کہ مفتی صاحب نے خواہ مخواہ لیکچر خراب کردیا تو حضور نے فرمایا: مفتی صاحب نے کوئی بُرا کام نہیں کیا، اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے فعل سے اس حکم کی اشاعت کا موقع پیدا کردیا۔ پھر تو مفتی صاحب شیر ہوگئے۔    (سیرت المہدی جلد2صفحہ147) 
مسافر کا حالتِ قیام میں روزہ رکھنا
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں : 
سوال پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے روزہ کے متعلق یہ فتویٰ دیا ہے کہ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔ 
ادھر الفضل میں میرایہ اعلان شائع کیا گیا ہے کہ احمدی احباب جو سالانہ جلسہ پر آئیں وہ یہاں آکر روزے رکھ سکتے ہیں مگر جو نہ رکھیں اور بعد میں رکھیں ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ 
اس کے متعلق اول تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا کوئی فتویٰ الفضل میں شائع نہیں ہوا ۔ ہاں ایک فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا میری روایت سے چھپا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ زمانہ خلافت کے پہلے ایام میں ،مَیں سفر میں روزہ رکھنے سے منع کیا کرتا تھا کیونکہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا تھا کہ آپ مسافر کو روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے دیکھا مرزا یعقوب بیگ صاحب رمضان میں آئے اورانہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا لیکن عصر کے وقت جبکہ وہ آئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہہ کر روزہ کھلوا دیا کہ سفر میں روزہ رکھنا ناجائز ہے۔ اس پر اتنی لمبی بحث اورگفتگو ہوئی کہ حضرت خلیفہ اولؓ نے سمجھا کہ شاید کسی کو ٹھوکر لگ جائے۔ اس لئے آپ ابن عربی کا ایک حوالہ دوسرے دن تلاش کرکے لائے کہ وہ بھی یہی کہتے ہیں۔
اس واقعہ کا مجھ پر یہ اثر تھا کہ میں سفر میں روزہ رکھنے سے روکتا تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ایک رمضان میں مولوی عبداللہ صاحب سنوری یہاں رمضان گزارنے کے لئے آئے تو انہوں نے کہا میں نے سنا ہے آپ باہر سے یہاں آنے والوں کو روزہ رکھنے سے منع کرتے ہیں مگر میری روایت ہے کہ یہاں ایک صاحب آئے اورانہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے عرض کیا کہ مجھے یہاں ٹھہرنا ہے ۔ اس دوران میں ،مَیں روزے رکھوں یا نہ رکھوں؟اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہاں آپ روزے رکھ سکتے ہیں کیونکہ قادیان احمدیوں کے لئے وطن ثانی ہے۔ گو مولوی عبداللہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے مقرب تھے مگر میں نے صرف ان کی روایت کو قبول نہ کیا اورلوگوں کی اس بارے میں شہادت لی تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام قادیان کی رہائش کے ایام میں روزہ رکھنے کی اجازت دیتے تھے۔ البتہ آنے اور جانے کے دن روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ اس وجہ سے مجھے پہلا خیال بدلنا پڑا۔پھر جب اس دفعہ رمضان میں سالانہ جلسہ آنے والا تھا اور سوال اُٹھا کہ آنے والوں کو روزہ رکھنا چاہئے یا نہیں تو ایک صاحب نے بتایاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب جلسہ رمضان میں آیا توہم نے خود مہمانوں کو سحری کھلائی تھی۔ان حالات میں جب میں نے یہاں جلسہ پر آنے والوں کو روزہ رکھنے کی اجازت دی تو یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی فتویٰ ہے۔پہلے علماء تو سفر میں روزہ رکھنا بھی جائز قراردیتے رہے ہیںاور آج کل کے سفر کو تو غیر احمدی مولوی سفر ہی نہیں قرار دیتے، لیکن حضرت مسیح موعودؑ نے سفر میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔پھر آپ نے ہی یہ بھی فرمایاکہ یہاں قادیان میں آکر روزہ رکھنا جائز ہے۔ اب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم آپ کا ایک فتویٰ تولے لیں اور دوسراچھوڑدیں۔
            (الفضل 4؍جنوری1934ء صفحہ4-3)
(اس مسئلہ پر سیرت المہدی سے بھی ایک روایت ملتی ہے)
حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریرکرتے ہیں کہ اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۳ء کاذکر ہے کہ میں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم رُڑکی سے آئے۔ چاردن کی رخصت تھی۔حضور ؑ نے پوچھا: ’’سفرمیں توروزہ نہیں تھا؟‘‘ ہم نے کہا نہیں۔ حضور ؑ نے ہمیں گلابی کمرہ رہنے کو دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا :ہم روزہ رکھیں گے۔ آپؑ نے فرمایا ’’ بہت اچھا! آ پ سفر میں ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ حضور ؑ! چند روز قیام کرناہے دل چاہتا ہے روزہ رکھوں۔ آپؑ نے فرمایا۔ ’’ اچھا!ہم آپ کو کشمیری پراٹھے کھلائیں گے۔‘ ‘ ہم نے خیال کیا کشمیری پراٹھے خدا جانے کیسے ہوں گے؟ جب سحری کا وقت ہوا اورہم تہجد و نوافل سے فار غ ہوئے اور کھانا آیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود گلابی کمرے میں تشریف لائے۔ (جو کہ مکان کی نچلی منزل میں تھا) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مکان کی اوپر والی تیسری منزل پر رہا کرتے تھے۔ ان کی بڑی اہلیہ کریم بی بی صاحبہ جن کو مولویانی کہا کرتے تھے۔ کشمیری تھیں اورپراٹھے اچھے پکایا کرتی تھیں۔ حضور ؑ نے یہ پراٹھے ان سے ہمارے واسطے پکوائے تھے۔ پراٹھے گرما گرم اوپر سے آتے تھے اورحضور علیہ السلام خود لے کر ہمارے آگے رکھتے تھے اورفرماتے تھے۔ ’’ اچھی طرح کھاؤ۔‘‘ مجھے تو شرم آتی تھی اورڈاکٹر صاحب بھی شرمسار تھے مگر ہمارے دلوں پر جو اثر حضور ؑ کی شفقت اور عنایت کا تھا اس سے روئیں روئیں میں خوشی کا لرزہ پیدا ہورہا تھا۔ اتنے میں اذان ہوگئی تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ اورکھاؤ ،ابھی بہت وقت ہے ۔‘‘ فرمایا : ’’ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرۃ:۱۸۸)اس پر لوگ عمل نہیں کرتے۔آپ کھائیں ابھی وقت بہت ہے ۔ مؤذن نے وقت سے پہلے اذان دے دی ہے۔ ‘‘ جب تک ہم کھاتے رہے حضور ؑ  کھڑے رہے اورٹہلتے رہے۔ ہر چند ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ حضورؑ تشریف رکھیں ،میں خود خادمہ سے پراٹھے پکڑلوں گا یا میری بیوی لے لیں گی مگر حضورؑ نے نہ مانا اور ہماری خاطر تواضع میں لگے رہے۔ اس کھانے میں عمدہ سالن اور دودھ سویاں وغیرہ کھانے بھی تھے۔  
      (سیرت المہدی جلد 2صفحہ202،203) 
حضرت سید محمد سرورشاہ صاحب تحریرفرماتے ہیں :۔
روزوں کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک جگہ پر تین دن سے زائد اقامت کرنی ہوتو پھر وہ روزے رکھے اور اگر تین دن سے کم اقامت کرنی ہو تو روزے نہ رکھے اور اگر قادیان میں کم دن ٹھہرنے کے باوجود روزے رکھ لے تو پھر روزے دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔    (فتاوٰی حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب رجسٹر نمبر5دارالافتاء ربوہ)
بیمار ہونے پر روزہ کھول دینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رمضان کا روزہ رکھاہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دَورہ ہوا اورہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے۔ اس وقت غروبِ آفتاب کا وقت بہت قریب تھا مگر آپ نے فورًا روزہ توڑدیا۔ آپ ہمیشہ شریعت میں سہل راستہ کو اختیارفرمایا کرتے تھے۔ 
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث میں حضرت عائشہؓ  کی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی یہی ذکر آتا ہے کہ آپ ہمیشہ دو جائز رستوں میں سے سہل رستہ کو پسند فرماتے تھے۔   (سیرت المہدی جلد1صفحہ637) 
معمولی بیماری میں روزہ رکھنے کی اجازت 
حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ :۔ 
ایک دفعہ میں نے رمضان شریف کا آخری عشرہ قادیان میں گذارا۔ ان دنوں میں حضور علیہ السلام کو تپ لرزہ یومیہ آتا تھا۔ ظہر کے بعد لرزہ سے تپ ہوجاتا تھا۔ اس لئے ظہر کے وقت حضور جماعت میں شریک ہوا کرتے تھے اور باقی نمازوں میں شریک نہیں ہوسکتے تھے۔ ظہر سے پہلے کبھی کبھی بانتظار نمازیاں بیٹھتے تھے۔میری عادت تھی کہ میں ضرور اس جگہ پہنچ جایا کرتا تھا جہاں حضور بیٹھتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں دور رہا ہوں ۔ اگر ایسا اتفاق ہوتا بھی جو صرف ایک دفعہ ہوا تو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی سامان کردیتا کہ میں قریب پہنچ جاؤں۔ غرض جب حضور ظہر کی نماز کے واسطے تشریف لاتے میں طبیعت کا حال دریافت کرتا تو فرماتے کہ سردی معلوم ہو رہی ہے۔ بعض دفعہ فرماتے کہ نماز پڑھو۔ سردی زیادہ معلوم ہورہی ہے مگر باوجود علالت کے حضور روزہ برابر رکھتے تھے ۔ ایک دن میں نے عرض کیا کہ تپ کی تکلیف ہے اور کئی دن ہوگئے ہیں۔ اگر روزہ افطار کردیا(یعنی بوقت بخار کھول یا توڑ لیا )کریں(تو بہتر ہو) فرمایا کہ روزہ کی وجہ سے کچھ تکلیف محسوس نہیں ہوتی ہے بلکہ آرام معلوم ہوتا ہے۔ بھوک پیاس کچھ معلوم نہیں ہوتی۔ رات کو البتہ کچھ زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے روزہ رکھ لیتا ہوں۔ صبح کو تپ اتر جاتا تھا تو حضور سیر کو تشریف لے جایا کرتے تھے۔(قلمی کاپی صفحہ ۵۲تا۵۴)
         (اصحابِ احمد جلد10صفحہ397،398نیا ایڈیشن روایت حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب ) 
بیماری میں روزہ کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کا معمول
حضرت مصلح موعود ؓ سے سوال پوچھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ بیماررہتے تھے کیا روزہ رکھتے تھے؟  آپؓ نے فرمایا: 
حضرت صاحب خوب روزہ رکھتے تھے مگر چونکہ آخر میں کمزور زیادہ ہو گئے تھے اورمرض میں بھی زیادتی تھی اس لئے تین سال کے روزے نہیں رکھے، یعنی ۵،۶،۷  (۱۹۰۵، ۱۹۰۶ اور ۱۹۰۷ء مراد ہے۔ ناقل)             
     (الفضل 12جون1922ء صفحہ7) 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے  حضرت والدہ صاحبہ نیبیان کیا  کہ جب حضرت مسیح موعودؑ کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا۔ دوسرا رمضان آیا تو 
آپ نے روزے رکھنے شروع کئے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دَورہ ہوا۔ اس لئے باقی چھوڑ دئیے اور فدیہ ادا کردیا۔ اس کے بعد جو رمضان آیاتو اس میں آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کردیا۔ اس کے بعدجو رمضان آیاتو آپ کا تیرھواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا۔اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادا فرماتے رہے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتدا دوروں کے زمانہ میں روز ے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضاء کیا؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں صرف فدیہ ادا کردیا تھا۔ 
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعود ؑ کو دورانِ سر اور بردِاطراف کے دورے پڑنے شروع ہوئے تو اس زمانہ میں آپ بہت کمزور ہوگئے تھے اور صحت خراب رہتی تھی اس لئے جب آپ روزے چھوڑتے تھے تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ پھر دوسرے رمضان تک ان کے پورا کرنے کی طاقت نہ پاتے تھے مگر جب اگلا رمضان آتا تو پھرشوق عبادت میں روزے رکھنے شروع فرمادیتے تھے لیکن پھر دورہ پڑتا تھا تو ترک کردیتے تھے اوربقیہ کا فدیہ ادا کردیتے تھے۔ واللّٰہ اعلم۔              (سیرت المہدی جلد1صفحہ59) 
مسافر اور مریض فدیہ دیں 
فرمایا:  اللہ تعالیٰ نے شریعت کی بناء آسانی پر رکھی ہے جو مسافر اور مریض صاحب مقدرت ہو ں ۔ ان کو چاہئے کہ روزہ کی بجائے فدیہ دے دیں ۔ فدیہ یہ ہے کہ ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔  (بدر17اکتوبر1907ء صفحہ 7)
   فدیہ دینے کی کیا غرض ہے ؟
 ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے ۔خد اتعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔پس میرے نزدیک خوب ہے کہ دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا تعالیٰ طاقت بخش دے گا۔
                        (البدر12دسمبر1902ء صفحہ52)  
فدیہ دینے سے روزہ ساقط نہیں ہوتا
 حضرت مصلح موعودؓ  تحریرفرماتے ہیں:
فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہوجاتابلکہ یہ محض اس بات کا فدیہ ہے کہ اِن مبارک ایّام میں وہ کسی جائز شرعی عذر کی بناء پر باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ عبادت ادا نہیں کرسکے۔ آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک عارضی اور ایک مستقل۔ فدیہ بشرطِ استطاعت اِن دونوں حالتوں میںدینا چاہئے۔ غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دے دے بہرحال سال دو سال یا تین سال کے بعد جب بھی اُس کی صحت اجازت دے اُسے پھر روزے رکھنے ہوں گے۔ سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اورصحت ہونے کے بعد ارادہ ہی کرتا رہا کہ آج رکھتا ہوں کل رکھتا ہوں کہ اِس دوران میں اس کی صحت پھر مستقل طورپر خراب ہوجائے۔ باقی جو بھی کھانا کھلانے کی طاقت رکھتا ہواگر وہ مریض یا مسافر ہے تو اُس کے لئے ضروری ہے کہ رمضان میں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے اور دوسرے ایّام میں روزے رکھے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مذہب تھا اور آپ ہمیشہ فدیہ بھی دیتے تھے اور بعد میں روزے بھی رکھتے تھے اور اِسی کی دوسروں کو تاکید فرمایا کرتے تھے۔                (تفسیر کبیر جلد 2صفحہ389) 
فدیہ کسے دیں؟
 سوال پیش ہوا کہ جو شخص روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو، اس کے عوض مسکین کو کھانا کھلانا چاہیئے۔ اس کھانے کی رقم قادیان کے یتیم فنڈ میں بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟ 
فرمایا:۔
    ایک ہی بات ہے خواہ اپنے شہر میں مسکین کو کھلائے یا یتیم اور مسکین فنڈ میں بھیج دے ۔ 
        (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
مزدور بھی مریض کے حکم میں ہے  
(۱) بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتاہے کہ کاشت کاروں سے جبکہ کام کی کثرت مثل تخم ریزی و درودگی ہوتی ہے ۔ ایسے ہی مزدوروں سے جن کا گذارہ مزدوری پر ہے روزہ نہیں رکھاجاتاان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟    فرمایا:۔ 
اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں۔ ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے ۔ اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتاہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے ۔ پھر جب میسر ہو رکھ لے۔ 
(۲) اور وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ (البقرۃ:۱۸۵) کی نسبت فرمایا کہ :۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ جو طاقت نہیں رکھتے ۔        (بدر26ستمبر1907ء صفحہ7) 
روزہ کس عمر سے رکھا جائے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ  فرماتے ہیں:۔ 
بارہ سال سے کم عمر کے بچے سے روزہ رکھوانا تو میرے نزدیک جرم ہے اور بارہ سال سے پندرہ سال کی عمر کے بچے کو اگر کوئی روزہ رکھواتا ہے تو غلطی کرتا ہے۔ پندرہ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور اٹھارہ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں۔ 
مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روزہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے اوربجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر روزہ کا رعب ڈالتے تھے۔
   (الفضل 11؍اپریل1925 ء صفحہ7 ) 
حضرت مصلح موعود ؓ  تحریرفرماتے ہیں ۔ 
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچّوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرورکرانی چاہئے۔ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بے وقوف چھ سات سال کے بچّوں سے روزہ رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہوگا۔ یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمر نشوونما کی ہوتی ہے ۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اورروزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے اُس وقت اُن کو روزہ کی ضرور مشق کرانی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنّت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے اور ہر سال چند روزے رکھوانے چاہئیں۔ یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہوجائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی۔ اِس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے ۔اِس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہیے کہ بچّوں کو جرأت دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں ۔ اور دیکھنے والوں کو بھی اِس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچّہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا۔ اِسی طرح بعض بچّے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچّوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں تو بتاتے ہیںکہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں ایسے بچّے روزہ کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اِس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچّہ غالبًا پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ میرے اِن الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پر ظلم کرے گا اورنہ خدا تعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا۔ اِسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچّہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اُس پر طعن کریں تو وہ اپنی جان پر ظلم کریں گے۔        (تفسیر کبیر جلد2صفحہ385) 
کم عمری میں روزہ رکھنے کی ممانعت 
حضرت نواب مبارکہ بیگم ؓصاحبہ تحریرفرماتی ہیں:۔
 قبل بلوغت کم عمری میں آپ ؑ روزہ رکھوانا پسند نہیں کرتے تھے ۔ بس ایک آدھ رکھ لیا کافی ہے۔ حضرت اماں جان نے میرا پہلا روزہ رکھوایا تو بڑی دعوتِ افطار دی تھی۔یعنی جو خواتین جماعت تھیں سب کو بلایا تھا۔اس رمضان کے بعد دوسرے یا تیسرے رمضان میں میں نے روزہ رکھ لیا اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایاکہ آج میرا روزہ پھر ہے۔ آپؑ حجرہ میں تشریف رکھتے تھے۔پاس سٹول پر دو پان لگے رکھے تھے۔غالبًا حضرت اماں جانؓ بنا کر رکھ گئی ہوں گی۔آپ نے ایک پان اُٹھاکر مجھے دیا کہ لو یہ پان کھالو۔تم کمزورہو،ابھی روزہ نہیں رکھنا۔ توڑ ڈالو روزہ۔میں نے پان تو کھالیامگر آپ سے کہاکہ صالحہ (یعنی ممانی جان مرحومہ چھوٹے ماموں جان کی اہلیہ محترمہ)نے بھی رکھا ہے۔اُن کا بھی تڑوادیں۔فرمایا بلاؤ اس کو ابھی۔میں بُلا لائی۔وہ آئیں تو اُن کو بھی دوسرا پان اُٹھاکر دیا اورفرمایا لو یہ کھالو۔تمہارا روزہ نہیں ہے ۔ میری عمر دس سال کی ہوگی غالبًا۔                    (تحریراتِ مبارکہ صفحہ227،228) 
شوّال کے چھ روزوں کا التزام 
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جوانی کا ذکرفرمایاکرتے تھے کہ اس زمانہ میں مجھ کو معلوم ہوا یا فرمایا اشارہ ہوا کہ اس راہ میں ترقی کرنے کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں۔ فرماتے تھے پھر میں نے چھ ماہ لگاتار روزے رکھے اور گھر میں یا باہر کسی شخص کو معلوم نہ تھا کہ میں روزہ رکھتا ہوں۔ صبح کا کھاناجب گھر سے آتا تھا تو میں کسی حاجتمند کو دے دیتا تھااور شام کا خود کھالیتا تھا۔ میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ آخر عمر میں بھی آپ نفلی روزے رکھتے تھے یا نہیں؟والدہ صاحبہ نے کہاکہ آخر عمر میں بھی آپ روزے رکھا کرتے تھے۔ خصوصًا شوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے۔ اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے۔ہاں مگر آخری دو تین سالوں میں بوجہ ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ سکتے تھے۔ (خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب البریہ میں حضرت صاحب نے روزوں کا زمانہ آٹھ نو ماہ بیان کیا ہے۔)
                           (سیرت المہدی جلد 1صفحہ14) 
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ  فرماتے ہیں:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ شوال کے مہینے میں عید کا دن گزرنے کے بعد چھ روزے رکھتے تھے۔ اس طریق کا احیاء ہماری جماعت کا فرض ہے۔
ایک دفعہ حضرت صاحب نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ تمام قادیان میں عید کے بعد چھ دن تک رمضان ہی کی طرح اہتمام تھا۔ آخر میں چونکہ حضرت صاحب کی عمر زیادہ ہو گئی تھی اور بیمار بھی رہتے تھے اس لئے دو تین سال آپ نے روزے نہیں رکھے۔ جن لوگوں کو علم نہ ہو وہ سُن لیں اورجو غفلت میں ہوں ہوشیار ہوجائیں کہ سوائے ان کے جو بیمار اور کمزور ہونے کی وجہ سے معذور ہیں۔ چھ روزے رکھیں۔ اگر مسلسل نہ رکھ سکیں تو وقفہ ڈال کر بھی رکھ سکتے ہیں۔ 
                                                                 (الفضل 8جون 1922ء صفحہ7)
روزہ کی حالت میں آئینہ دیکھنا 
 حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں۔ فرمایا: 
’’جائز ہے ۔‘‘ 
      (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
روزہ کی حالت میں سر یا داڑھی کو تیل لگانا
حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ حالت ِ روزہ میں سر کو یا داڑھی کوتیل لگانا جائز ہے یا نہیں؟  فرمایا:
’’جائز ہے ۔‘‘         (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
روزہ کی حالت میںآنکھ میں دوائی ڈالنا
حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کی آنکھ بیمار ہوتو اس میں دوائی ڈالنی جائز ہے یا نہیں؟  فرمایا: 
’’ یہ سوا ل ہی غلط ہے ۔ بیمار کے واسطے روزہ رکھنے کا حکم نہیں۔ ‘‘
       (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
روزہ دارکاخوشبو لگانا
 سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو خوشبو لگانا جائز ہے یا نہیں ؟  فرمایا: 
’’جائز ہے ۔ ‘‘
        (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
روزہ دار کا آنکھوں میں سرمہ ڈالنا
سوال پیش ہوا کہ روزہ دار آنکھوں میں سرمہ ڈالے یا نہ ڈالے ؟
 فرمایا: 
’’مکروہ ہے اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے ۔ رات کو سرمہ لگا سکتاہے ۔‘‘  
       (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4) 
نمازِ تراویح
اکمل صاحب آف گولیکی نے بذریعہ تحریر حضرت سے دریافت کیا کہ رمضان شریف میں   رات کو اُٹھنے اورنماز پڑھنے کی تاکید ہے لیکن عمومًا محنتی، مزدور، زمیندار لوگ جو ایسے اعمال کے بجالانے میں غفلت دکھاتے ہیں اگر اوّل شب میں ان کو گیارہ رکعت تراویح بجائے آخر شب کے پڑھا دی جائیں تو کیا یہ جائز ہوگا۔ 
حضرت اقدس ؑ نے جواب میں فرمایا
’’کچھ حرج نہیں ، پڑھ لیں۔ ‘‘ 
   (بدر 18؍اکتوبر1906ء صفحہ4) 
تراویح کی رکعات 
تراویح کے متعلق عرض ہوا کہ جب یہ تہجد ہے تو بیس رکعات پڑھنے کی نسبت کیاا رشاد ہے کیونکہ تہجد تو مع وتر گیارہ یا تیرہ رکعت ہے ۔ فرمایا:
 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دائمی تو وہی آٹھ رکعات ہے اور آپ تہجد کے وقت ہی پڑھا کرتے تھے اوریہی افضل ہے مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے رات کے اوّل حصے میں اُسے پڑھا۔ بیس رکعات بعد میں پڑھی گئیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت وہی تھی جو پہلے بیان ہوئی۔ 
 (بدر مؤرخہ 6فروری 1908ء صفحہ7) 
  تراویح دراصل نماز تہجد ہی ہے 
ایک صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں خط لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ سفر میں نماز کس طرح پڑھنی چاہیے اور تراویح کے متعلق کیا حکم ہے ؟  فرمایا : 
’’سفر میں دو گانہ سنت ہے ۔تروایح بھی سنت ہے پڑھا کریں اور کبھی گھر میں تنہائی میں پڑھ لیں کیونکہ تراویح دراصل تہجد ہے کوئی نئی نماز نہیں ۔ وتر جس طرح پڑھتے ہو بیشک پڑھو ۔‘‘
         (بدر26دسمبر1907ء صفحہ6)
نماز تراویح میں غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر لقمہ دینا
رمضان شریف میں تراویح کے لئے کسی غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر حافظ کو بتلانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی  ؓ نے فرمایا:
میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ اس کے متعلق نہیں دیکھا۔ اس پر مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے جائز قراردیا ہے۔ 
فرمایا :  جائز ہے تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے اوراس کے لئے یہ انتظام بھی ہوسکتا ہے کہ ایک ہی شخص تمام تراویح میں بیٹھ کر نہ سنتا رہے بلکہ چار آدمی دو دو رکعت کے لئے سنیں اس طرح ان کی بھی چھ چھ رکعتیں ہو جائیں گی۔
عرض کیا گیا فقہ اس صورت کو جائز ٹھہراتی ہے؟فرمایا:
 اصل غرض تو یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن کریم سننے کی عادت ڈالی جائے اور حضرت مسیح موعود  علیہ السلام کا یہ فتویٰ تو ضرورت اور مجبوری کی وجہ سے ہے جیسے کوئی کھڑا ہوکر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر ہی پڑھ لے اوربیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر پڑھ لے یا جس طرح کسی شخص کے کپڑے کو غلاظت لگی ہو اوروہ اسے دھو نہ سکے تو اسی طرح نماز پڑھ لے، یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ضرورت کی بات ہے۔                                           
  (الفضل21؍فروری1930ء صفحہ 12 ) 
بے خبری میں کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا
خط سے سوال پیش ہوا کہ میں بوقتِ سحر بماہ رمضان اندر بیٹھا ہوا بے خبری سے کھاتا پیتا رہا۔ جب باہر نکل کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سفیدی ظاہر ہوگئی ہے۔ کیا وہ روزہ میرے اوپر رکھنا لازم ہے یا نہیں؟  فرمایا : 
’’ بے خبری میں کھایا پیا تو اس پر اس روزہ کے بدلہ میں دوسرا روزہ لازم نہیں آتا۔ ‘‘ 
      (الحکم 24فروری 1907ء صفحہ14) 
رسول اللہ  ﷺ کے وصال کے دن روزہ رکھنا
سوا ل : کیا آنحضرت ؐ کے وصال کے دن روزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں؟  فرمایا:
’’ ضروری نہیں۔  ‘‘
      (بدر 14مارچ1907ء صفحہ5) 
 کیامحرم کے روزے ضروری ہیں ؟
سوا ل پیش ہوا کہ محرم کے پہلے دس دن کاروزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں؟  فرمایا: 
’’ضروری نہیں ہے۔ ‘‘
     (بدر 14مارچ1907ء صفحہ5) 
اعتکاف
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعود ؑ  کو اعتکاف بیٹھتے نہیں دیکھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بھی مجھ سے یہی بیان کیا ہے۔    
    (سیرت المہدی جلد1صفحہ62)
اعتکاف کے دوران بات چیت کرنا
سوال: جب آدمی اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کاروبار کے متعلق بات کرسکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: سخت ضرورت کے سبب کرسکتا ہے اوربیمار کی عیادت کے لئے اورحوائج ضروری کے واسطے باہر جاسکتا ہے ۔    
   (بدر 21فروری 1907ء صفحہ5) 
اعتکاف کے متعلق بعض ہدایات 
 ڈاکٹر عباداللہ صاحب امرتسر اور خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر (جو دونوں معتکف تھے) کو مخاطب کرکے فرمایا :
 اعتکاف میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان اندر ہی بیٹھا رہے اوربالکل کہیں آئے جائے ہی نہ۔ چھت پر دھوپ ہوتی ہے وہاں جاکر آپ بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے اورہر ایک ضروری بات کرسکتے ہیں۔ ضروری امور کا خیال رکھنا چاہئے اور یوں تو ہر ایک کام (مومن کا) عبادت ہی ہوتا ہے ۔                        (البدر2جنوری 1903ء صفحہ74 ) 
اعتکاف چھوڑ کر مقدمہ کی پیشی پر جانے کو ناپسند فرمایا  
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ  تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے زمانہ میں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اعتکاف بیٹھے مگر اعتکاف کے دِنوں میں ہی ان کو کسی مقدمہ میں پیشی کے واسطے باہر جانا پڑ گیا۔ چنانچہ وہ اعتکاف توڑ کر عصر کے قریب یہاں سے جانے لگے تو حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ کو مقدمہ میں جانا تھا تو اعتکاف بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی؟     
        (سیرت المہدی جلد1صفحہ97) 

انتخاب از کتاب فقہ المسیح شریعت کے اصول اور فقہی مسائل سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات
مکمل تحریر >>