Saturday 17 February 2018

عشق رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا المصلح موعود رضی اللہ عنہ

عشق رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم 
اور سیدنا المصلح موعود رضی اللہ عنہ 
نظم و نثر کی روشنی میں 
تحریر: مکرم مولانا دوست محمد صاحب شا ہد(مرحوم)


ہما رے محبو ب اما م سیدنا المصلح مو عود رضی اللہ عنہ دور حاضر کے عظیم ترین رو حانی پیشوا ،مصلحین اُمّت کی گوناگوں صفات کے مرقع اور’’ فخررسل‘‘کے آسمانی لقب کے حامی تھے۔ حسن میں سیدنا یو سف علیہ السلام کے مثیل، خلافت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بروز ، کما لا ت شعری میں حضرت حسّان بن ثا بت کے مظہر اور عشق رسول میں حضرت مسیح مو عود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجسّم تصویر !
حضور انو ر کی خدا نما زندگی کے اگرچہ ہزار ہا پہلو ہیں اور ہر پہلو اپنے اندر ایک خاص شان رکھتا ہے اور آپ کی ذات میں ایک منفرد اور ممتا ز حیثیت سے جلو ہ گر ہے مگریہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ سے عا شقا نہ تعلق کے بعد آ پ کو اوّلین و آخرین میں سے جس وجود مقدس و مطہر کے سا تھ سب سے زیادہ محبت و عقیدت تھی اور جس کی یا د میں آپ کی روح ہر وقت گداز رہتی اور حمد کے ترا نے گا تی تھی وہ سیدالاوّلین والا ٓ خرین فخرِ دو عالَم فخرِ کا ئنا ت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم (فد اہ ابی و امیّ رو حی وجنانی) تھے۔ جس کا کسی قدر اندازہ آ پ کے شعری کلا م سے بھی ہوسکتا ہے ۔ چنا نچہ زیرنظر مضمون میں حضور کی منظوما ت میں سے ایک مختصر سا انتخاب ہدیۂ قارئین کیا جاتا ہے ۔
1۔ عنفوانِ شباب کے آ غاز سےحُبِّ محمدؐ کے ترانے
سیّدنا المصلح مو عود رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک صرف اٹھارہ برس تھی کہ آ پ نے اپنے آ قا و مو لا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی یا دمیں اشعار کہنے شروع کر دئیے جس سے قطعی طور پر نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جنا ب الٰہی کی طرف سے عشق رسول کا بے پنا ہ جذبہ ابتدا ہی سے آ پ کی فطرت کو ودیعت کیا گیا تھا اور آپ کی روح کو روحِ مصطفوی ؐ سے ایک خاص نسبت و تعلق تھا ۔ چنا نچہ آپ نے 1907ء میں فرما یا:
محمدؐ میرے تن میں مثل جاں ہے
یہ ہے مشہور جاں ہے تو جہاں ہے
وہ ہم کہ فکر میں دیں کے ہمیں قرار نہیں 
وہ تم کہ دین محمدؐ سے کچھ بھی پیار نہیں 
کروڑ جاں ہو تو کردوں فدا محمدؐ پر
کہ اس کے لطف وعنایات کا شمار نہیں 
2 ۔ انیس سال کی عمر میں نعت ِ رسولؐ
1908ء میں جبکہ حضور کی عمر صرف انیس سا ل کی تھی آپ نے آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں پرکیف نعت لکھی جس کے چند اشعار یہ تھے۔
محمدؐ پر ہماری جاں فدا ہے
کہ وہ کُوئے صنم کا رہنما ہے
مرا دل اس نے روشن کردیا ہے
اندھیرے گھر کا میرے وہ دیا ہے
مرا ہر ذرہ ہو قربان احمدؐ
مرے دل کا یہی ایک مدعا ہے
اسی کے عشق میں نکلے مری جاں
کہ یاد یار میں بھی اک مزا ہے
مجھے اس بات پر ہے فخر محمود
مرا معشوق محبوب خدا ہے
3۔دین مصطفیٰ کے لئے درد
اسی زمانہ میں ایک اورنظم میں دین محمدؐ کے لئے اپنی بے قراری اوراضطراب کا یوں نقشہ کھینچا ہے ۔
کچھ اپنے تن کا فکر ہے نہ مجھ کو جان کا 
دینِ محمدؐی کے لئے مر رہا ہوں میں 
بیمار روح کے لئے خاک شفا ہوں میں 
ہاں کیوں نہ ہوکہ خاک درِ مصطفیٰ ہوں میں 
4۔جمال محمدیؐ میں برکت کے لئے دعا 
جنو ری 1914ء میں مسند خلا فت پر متمکن ہوئے تو رسول خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق ومحبت کا چشمہ بحر موّاج کی شکل اختیار کر گیااورآپ کے قلب و روح جما ل محمدیؐ اور انوار محمدیؐ کے تصور میں بے خو د ہو کر بے ساختہ پکا ر اٹھے۔
محمدؐ عربی کی ہو آل میں برکت 
ہو اس کے حسن میںبرکت جمال میں برکت
ہو اس کی قدر میں برکت کمال میں برکت
ہو اس کی شان میں برکت جلال میں برکت
5۔جلوۂ محمدیؐ کا پرکیف منظر
علم وعرفاں کی سیر روحانی میں اور آگے بڑھے تو جلوۂ محمدی کاایک نیا رنگ نظر آیا۔ چنانچہ عالم کیف میں دنیا کو للکارا   ؎
مرے پکڑنے پہ قدرت تجھے کہاں صیاد
کہ باغِ حسنِ محمدؐ کی عندلیب ہوں میں
اور رسول کائنات سے لقاء الہٰی کے لئے درخواست کی  ؎
یا محمدؐ دلبرم ازعاشقانِ روئے تُست
مجھ کوبھی اس سے ملادے ہاں ملادے آج تو
شروع 1944ء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلح موعود کے منصب کاانکشاف ہوا تو اس عاشق رسولؐ کے اندر ایک تغیر عظیم برپاہوگیا اور یاض رسولؐ میں بلبل کے نغموں کا رنگ ہی بدل گیا۔ چنانچہ حضورؓ نے دعویٰ مصلح موعود کے دو ماہ بعد ایک پر معار ف نظم لکھی جس میں والہانہ انداز میں اپنی اس تمنائے دل کا واضح لفظوں میں اظہار فرمایا کہ   ؎
شیطان کی حکومت مٹ جائے اس جہاں سے
حاکم تمام دنیا پہ میرا مصطفی ہو
پھر امّت مصطفیٰ کے لئے دست بہ دعا ہوئے   ؎
سیدالانبیاء کی امّت کو
جو ہوں غازی بھی ، وہ نمازی بخش
6۔فیضان مصطفوی کی منادی
پھر حضورؓ کے فیضان اور قوت قدسی اور تاثیر روحانی کا یہ ولولہ انگیز اعلان فرمایا۔
کَمْ تَنْفَعُ الثَقَلَیْنِ تَعْلِیْمَاتُہٗ
قَدْخُصَّ دِیْنُ مُحَمَّدٍ بِعُمُوْمِھَا
ظَھَرَتْ ھِدَایَۃُ رَبِّنَا بِقُدُوْمِہٖ
زَالَتْ ظَلَامُ الدَّ ھْرِ عِنْدَ قُدُوْمِھَا
جَآئَ بِتِرْیَاقٍ مُزِیْلٍ سِقَا مَنَا
غَابَتْ غَوَایَتُنَا بِکُلَّ سُمُوْمِھَا
نَزَلَتْ مَلَآئِکَۃُ السَّمَآئِ لِنَصْرِہٖ
قدْ فَاقَتِ الاَْرْضُ سِمیً بِظُلُوْمِھَا
رُفِعَتْ بُیُوْتُ المُؤمِنِیْنَ رَفَاعَۃً
خُسِفَ البِلَادُ بِفَرْ سِھَا وَبِرُوْمِھَا
منحَ العُلُوْمَ صَغِیرَھَا وکبیرَھا
صبّتْ سَمَائُ الْعِلْمِ مَائَ غُیُوْمِھَا
فَاسَتْ ضَفُوفُ الکَوثَر شَوْقاً لَہٗ
وَعَدَتْ اِلَیْہِ الْجَنَّۃُ بِکُرُوْمِھَا
7۔ آنحضرتؐ کی عالمگیر حکومت کے قیام کے لئے دعا
1947ء کے انقلاب میں قادیان سے ہجرت کر کے ارضِ پاکستان میںرونق افروز ہوئے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ رسول خدا کی عالم گیر روحانی حکومت کے قیام کی خاطر ربوہ کے نامسے ایک نئی بستی کی بنیاد رکھی اور اپنے مولاحقیقی سے دعا کی    ؎ 
آپ آکے محمدؐ کی عمارت کو بنائیں
ہم کفر کے آثار کو دنیا سے مٹائیں
8۔ بارگاہِ نبوی میں التجا
احمدیت کے مرکز جدید کی تعمیر کا نیا دور شروع ہوا تو ایک طرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی میں نذرانہ عقیدت لے کر التجا کی  ؎
اے شاہِ معالی آ بھی جا
اے   ضوئِ     لَآلِیْ   آ   بھی   جا
اے روحِ جمالی آ بھی جا
تو میرے دل میں ۔ دل تجھ میں
قَصْدِی وَ مَنَالِیِ    آ    بھی    جا
دشمن نے گھیرا ہے مجھ کو
صَبْرِی وَ بَسَالِی  آ    بھی    جا
سب کام مرے تجھ بن اے جاں
ہیں لطف سے خالی آ بھی جا
دوسری طرف اہل عالم کو پرشوکت الفاظ میں توجہ دلائی  ؎
آسمانی بادشاہت کی خبر احمدؐ کو ہے
کس کی ملکیت ہے خاتم یہ نگیں سے پوچھیے
کس قدر صدمے اُٹھائے ہیں ہمارے واسطے
قلبِ پاک رحمۃ للعالمینؐ سے پوچھیے
اس سوزوگداز کے عالم میں یہ انکشافِ حقیقت بھی فرمایا     ؎
عشقِ خدا کی مَے سے بھرا جام لائے ہیں
ہم مصطفیٰ کے ہاتھ پر اسلام لائے ہیں
نیز سیدنا حضرت محمد ؐ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ نبوت و رسالت کا اظہار بایں الفاظ فرمایا    ؎
فرش سے جا کر لیا دم عرش پر 
مصطفیٰؐ کی سیرِ روحانی تو دیکھ
9۔دعائیہ اشعار میں جماعت کووصیت
بالآخر حضورؓ نے جب اپنی نگاہِ بصیرت سے اپنی واپسی کازمانہ قریب سے قریب تر آتا محسوس کیا اور بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری کی مبارک ساعتیں نزدیک دکھائی دینے لگیں تو اپنی جماعت کو دعائیہ اشعار میں وصیت فرمائی    ؎
حاکم رہے دلوں پہ شریعت خدا کرے
حاصل ہو مصطفیٰؐ کی رفاقت خدا کرے
پھیلائو سب جہان میں قولِ رسولؐ کو
حاصل ہو شرق وغرب میں سطوت خدا کرے
بطحا کی وادیوں سے جو نکلا تھا آفتاب
بڑھتا رہے وہ نورِ نبوت خدا کرے
قائم ہو پھر سے حکم محمدؐ جہان میں
ضائع نہ ہو تمہاری یہ محنت خدا کرے
تم ہو خدا کے ساتھ ، خدا ہو تمہارے ساتھ
ہُوں تم سے ایسے وقت میں رخصت خدا کرے
اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملّت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
10۔نثر میں عشقِ رسولؐ کی جھلکیاں
یہ تو سیدنا المصلح موعود رضی اللہ عنہ کے شعری کلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق ومحبت کے چند نمونے پیش کئے گئے ہیں۔ جہاں تک حضورؓ کی مقدس تحریرات اور پاکیزہ ملفوظات کا تعلق ہے سرورِ کائنات  صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ بلند، شانِ ارفع اور فیوضِ روحانیہ کا تذکرہ بڑی کثرت سے ملتا ہے جوبلامبالغہ ہزاروں صفحات پر محیط ہے۔ اور الفضل کے پچاس سالہ فائل اس پر شاہدِ ناطق ہیں ۔علاوہ ازیں آپ کی متعدد مطبوعہ تصانیف و تقاریر مثلاً سیرۃ النبیؐ، دنیا کامحسن، اسؤہ کامل، دیباچہ تفسیرالقرآن، سیر روحانی، سیرۃ خیرالرسل، تو تذکارنبوی کے لئے ہی مخصوص ہیںجن کی سطر سطر سے عشق رسالت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ مگر اس وقت حضور کی دلآویز، روح پرور، ایمان افروزاور وجد آفرین تحریرات میں سے بطورمثال صرف ایک شہ پارہ پیش کرتا ہوںجس سے عصرِ حاضر کے اس بے نظیر عاشقِ رسولؐ کے مقامِ عشق و محبت کی ایک جھلک ہمارے سامنے آتی ہے۔
سیدنا المصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد مبارک کے سالِ اول کے اختتام پر ایک کتاب’’حقیقۃ النبوۃ‘‘ تالیف فرمائی جس کے صفحہ 185 پر تحریر فرمایا:
’’نادان انسان ہم پر الزام لگاتا ہے کہ مسیح موعود کو نبی مان کر گویا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں۔ اسے کسی کے دل کا حال کیا معلوم۔ اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جومیرے دل کے ہر گوشہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے۔ وہ کیا جانے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کر گئی ہے۔ وہ میری جان ہے، میرادل ہے، میری مراد ہے، میرا مطلوب ہے۔ اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث ہے اور اس کی کفش برداری مجھے تختِ شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے۔ اس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم ہیچ ہے۔ وہ خداتعالیٰ کا پیارا ہے۔ پھر میں کیوں اس سے پیار نہ کروں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کامحبوب ہے پھر میں کیوں اس سے محبت نہ کروں۔ وہ خداتعالیٰ کامقرب ہے۔ پھر میں کیوں اس کا قرب تلاش نہ کروں۔
میراحال مسیح موعود ؑ کے اس شعر کے مطابق ہے کہ   ؎
بعد از خدا بعشقِ محمدؐ مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
اور یہی محبت تو ہے جو مجھے اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ بابِ نبوت کے بکلی بندہونے کے عقیدہ کو جہاں تک ہوسکے باطل کروں کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے۔‘‘
اللّٰھُمّ صلّ علیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰل مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّم اِنّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
(بشکریہ رسالہ ’الفرقان‘ فضلِ عمر نمبر 1965ء)

مکمل تحریر >>

Monday 1 January 2018

بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی صداقت کے تین شاہد




30 ستمبر 1936ء کا دن یوم تبلیغ کے طور پر منایا گیا۔ اس موقع کی مناسبت سے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر مبنی ایک مضمون تحریر فرمایا۔ ذیل میں یہ مضمون ہدیۂ قارئین ہے۔ یہ مضمون انوارالعلوم جلد 13 صفحہ 463 تا 475سے لیا گیا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں:
’’انسانی کامیابی کیلئے تین چیزوں کی ضرورت ہے:
اوّل اعتقادات کی درستی کہ خیالات کی درستی کے بغیر کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی۔ خیال کی حیثیت روشنی کی ہوتی ہے اور اس کے بغیر انسان اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ 
دوسرے عمل کی درستی۔ عمل اگر درست نہ ہو تب بھی انسان کامیاب نہیں ہو سکتا۔ عمل کی مثال ہاتھ پائوں کی ہے اگرہاتھ پائوں نہ ہوں تب بھی انسان اپنی جگہ سے ہِل نہیں سکتا۔ 
تیسرے محرک۔ اگر محرک نہ ہو تب بھی انسان کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ خیالات خواہ درست ہوں‘ عمل خواہ درست ہو لیکن محرک موجود نہ ہو تو انسان کے عمل میں استقلال نہیں پیدا ہوتا۔ استقلال جذبات کی شدت سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جب جذبات کمزور ہوں تو انسان استقلال سے کام نہیں کر سکتا۔
اَب اے دوستو! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے اور آپ کے سینہ کو حق کے لئے کھولے اگر آپ غور کریں اور اپنے دل سے تعصّب کے خیالات کو دور کر دیں اور ہارجیت کی کشمکش کو نظرانداز کر دیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ بانی سلسلہ احمدیہ کے دعویٰ کے وقت بھی اور آج بھی یہ تینوں باتیں مسلمانوں سے مفقود ہیں اور صرف بانی سلسلہ احمدیہ کی بدولت یہ تینوں چیزیں جماعت احمدیہ میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں جو اس امر کا ثبوت ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ خدا تعالیٰ کے راستباز بندے تھے اور اس کی طرف سے مامور۔
اے دوستو! میں کس طرح آپ کے سامنے اپنا دل چیر کر رکھوں اور کس طرح آپ کو یقین دلائوں کہ آپ کی محبت اور آپ کی خیر خواہی میرے دل میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی ہے اور اگر ایک طرف میرے ہر ذرّہ ٔجسم پر اللہ تعالیٰ کی محبت قبضہ کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف اسی کے حکم اور اسی کے ارشاد کے ماتحت آپ لوگوں کی خیر خواہی اور آپ کی بھلائی کی تڑپ بھی میرے جذبات میں ایک تلاطم پیدا کر رہی ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میں آپ کو دھوکا دینے کیلئے یہ سطور نہیں لکھ رہا نہ آپ کو شرمندہ کرنے کے لئے لکھ رہا ہوں اور نہ آپ پر اپنی بڑائی جتانے کے لئے لکھ رہا ہوں بلکہ میرا پیدا کرنے والا اور میرا مالک جس کے سامنے میں نے مر کر پیش ہونا ہے اس امر کا شاہد ہے کہ میں آپ کی بہتری اور بہبودی کیلئے یہ سطور لکھ رہا ہوں اور سوائے آپ کو ہلاکت سے بچانے کے میری اور کوئی غرض نہیں اور اس لئے ہی آپ سے بھی خواہش کرتا ہوں کہ آپ ٹھنڈے دل سے اس امر پر غور کریں کہ کیا یہ تینوں باتیں جو مذہب و جماعت کی ترقی کیلئے ضروری ہوتی ہیں دوسرے مسلمانوں میں موجود ہیں؟ اگر نہیں اور ہر گز نہیں تو پھر آپ غور کریں کہ میں جو آپ کو کامیابی کی راہ کی طرف بلاتا ہوں آپ کا دوست ہوں یا وہ لوگ جو آپ کو اس سے روکتے ہیں وہ آپ کے دوست ہیں؟ میں آپ کو تفصیل میں ڈالنا پسند نہیں کرتا اور ایک مختصر اشتہار میں تفصیل بیان بھی نہیں کی جا سکتی مگر میں اعتقادات میں سے صرف ایک اعتقاد کو لے لیتا ہوں اور وہ وفات مسیح ناصری علیہ السلام کا عقیدہ ہے۔
حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے جب دعویٰ کیا اُس وقت سب مسلمان خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں یہ یقین رکھتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آئندہ کسی وقت دنیا میں تشریف لائیں گے اور کافروں کو قتل کر کے اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ ہر تعلیم یافتہ آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ عقیدہ خواہ غلط ہو خواہ صحیح قوم کے خیالات اور اعمال پر کیسے گہرے اثر ڈال سکتا ہے اور مسلمانوں کی حالت کو دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے کہ ایسا ہی ہوا بھی۔
جب مرزا صاحب علیہ السلام نے یہ اعلان کیا کہ یہ عقیدہ نہایت خطرناک ہے اُس وقت صرف سرسید اور ان کے ہمنوا وفاتِ مسیح کے قائل تھے مگر اس وجہ سے نہیں کہ مسیح کا زندہ آسمان پر ہونا قرآن کریم کے خلاف ہے بلکہ اس لئے کہ یہ اَمر قانونِ قدرت کے خلاف ہے اور چونکہ سرسید قانونِ قدرت کے خلاف جسے وہ معلومہ سائنس کے مترادف خیال کرتے تھے کوئی فعل جائز نہ سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے اس عقیدہ کا بھی انکار کیا۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ مذہب سے لگائو رکھنے والوں کے لئے یہ دلیل تسلی کا موجب نہیں ہو سکتی۔ وہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو صرف اس کے ارادہ کی حد بندیوں میں رکھنے کی اجازت دے سکتے ہیںاور انسان کے محدود تجربہ کو قانونِ قدرت کا عظیم الشان نام دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب بانی سلسلہ احمدیہ نے اس دعویٰ کو پیش کیا تو سب فرقوں کی طرف سے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا اور آپ کو معجزات کا منکر اور نبوت کا منکر اور قدرتِ الٰہی کا منکر اور مسیح ناصری کی ہتک کرنے والا اور نہ معلوم کیا کیا کچھ قرار دیا گیا۔ اس واقعہ کو صرف سینتالیس سال کا عرصہ ہوا اور ان تماشوں کو دیکھنے والے لاکھوں آدمی اَب بھی موجود ہیں۔ ان سے دریافت کریں اگر آپ اس وقت پیدا نہ ہوئے تھے یا بچے تھے اور پھر سوچیں کہ مسلمانوں کے دل پر اس عقیدہ کا کتنا گہرا اثر تھا۔ بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے اعلان وفاتِ مسیح سے وہ یوں معلوم کرتے تھے کہ گویا ان کا آخری سہارا چھین لیا گیاہے لیکن آپ نے اس مخالفت کی پرواہ نہ کی اور برابر قرآن کریم، حدیث اور عقل سے اپنے دعویٰ کو ثابت کرتے چلے گئے۔ آپ نے ثابت کیا کہ:۔
(1) قرآن کریم کی نصوصِ صریحہ مسیح علیہ السلام کو وفات یافتہ قرار دیتی ہیں۔ مثلاً وہ مکالمہ جو قیامت کے دن حضرت مسیح علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوگا اور جس کا ذکر قرآن کریم میں، سورۃ  المائدۃ:118۔117 میں، ہے صاف بتاتا ہے کہ مسیحی لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے مشرک نہیں بنے۔ پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ سمجھا جائے تو ماننا پڑے گا کہ عیسائی لوگ ابھی حق پر ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی ضرورت ہی نہیں پیدا ہوئی۔
(2) احادیث میں صریح طور پر لکھا ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر ہمارے آقا سیدِ دو جہان سے دوگنی تھی  (  کنزالعمال جلد13 صفحہ 676 دارالکتب الاسلامی حلب)  پس اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ سمجھا جائے تو حضرت عیسیٰ کی عمر اِس وقت تک بھی تیس گُنے تک پہنچ جاتی ہے اور نہ معلوم آئندہ کس قدر فرق بڑھتا چلا جائے۔
(3) اگر حضرت مسیح علیہ السلام واپس تشریف لاویں تو اس سے ختمِ رسالت کا انکار کرنا پڑتا ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے نبوت کا مقام پا چکے تھے اور آپ کا پھر دوبارہ آنا ظاہر کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ختم ہو کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت سے دنیا آخری استفادہ کرے گی۔
(4) اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت مسیحؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوں گے تو اس میں حضرت مسیحؑ کی ہتک ہے کہ وہ نبوتِ مستقلہ کے مقام سے معزول ہو کر ایک اُمتی کی حیثیت سے نازل کئے جائیں گے۔
(5) اسی عقیدہ سے اُمتِ محمدیہ کی بھی ہتک ہے کہ پہلی اُمتیں تو اپنے اپنے زمانہ میں اپنے قومی فسادوں کو دُور کرنے کے لئے ایسے آدمی پیدا کر سکیں جنہوں نے ان مفاسد کو دور کیا لیکن اُمتِ محمدیہ پہلے ہی صدمہ میںایسی ناکارہ ثابت ہوگی کہ اسے اپنی امداد کے لئے باہر کی مدد کی ضرورت پیش آئے گی۔
(6) اس عقیدہ سے عیسائی مذہب کو بہت تقویت حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ مسیحی مسلمانوں کو یہ کہہ کر گمراہ کرتے ہیں کہ تمہارا رسول فوت ہو چکا ہے ہمارا مسیح زندہ ہے اور جب تمہارے رسولؐ کی اُمت گمراہ ہو جائے گی اس وقت ہمارا مسیح تمہارے عقیدہ کی رُو سے ان کے بچائو کے لئے آسمان سے نازل ہوگا۔ اب بتائو زندہ اچھا ہوتا ہے یا مُردہ اور مدد مانگنے والا بڑا ہوتا ہے یا مدد دینے والا جب کہ مدد مانگنے والے کا اس پر کوئی احسان نہ ہو۔
(7) اس عقیدہ سے مسلمانوں کی قوۃِ عملیہ جاتی رہی ہے۔ کیونکہ جب کسی قوم کو خیال ہو جائے کہ بجائے انتہائی قربانیوں سے اپنی حالت بدلنے کے اسے خود بخود کسی بیرونی مدد سے ترقی تک پہنچا دیا جائے گا تو اس کی عزیمت کمزور ہو جاتی ہے اور اس کے عمل میں ضُعف پیدا ہو جاتا ہے چنانچہ اس کا اثر مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبہ میں پایا جاتا ہے۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں ورنہ دلائل کا ایک ذخیرہ تھا جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے پیش کیا لیکن مسلمانوں نے ان دلائل پر کان نہ دھرا اور اپنی مخالفت میں بڑھتے چلے گئے۔ اب اے دوستو! آپ خود ہی غور کریں کہ کیا اوپر کے دلائل ایسے نہیں کہ جنہیں سن کر ہر درد مند کا دل اسلام کے درد سے بھر جاتا ہے اور وہ اس عقیدہ کی شناعت اور بُرائی سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ گو یہ عقیدہ بظاہر معمولی معلوم ہوتا ہے لیکن اسلام اور مسلمانوں کے لئے اس میں کس قدر زہر بھرا ہوا ہے۔ پس اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس قدر بھی زور دیا درست تھا اور آپ کی یہ خدمت اسلام کی عظیم الشان خدمت تھی اور مسلمانوں پر احسان۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں پر اس کا اثر کیا ہوا؟ سو آپ کو معلوم ہو کہ یا تو ہر مسلمان وفاتِ مسیحؑ کے عقیدہ کی وجہ سے حضرت مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگاتا تھا یا اب اکثر تعلیم یافتہ طبقہ حضرت مسیح ناصری ؑ کو وفات یافتہ کہتا ہے اور کفر کا فتویٰ لگانے والے علماء اس مسئلہ پر بحث کرنے سے کترانے لگ گئے ہیں اور یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ یہ مسئلہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہمیں اس سے کیا کہ عیسیٰ مر گیا یا زندہ ہے۔
لیکن اے دوستو! یہ جواب درست نہیں جس طرح پہلے انہوں نے غلطی کی تھی اب بھی وہ غلطی کرتے ہیں۔ جب کہ یہ ثابت ہے کہ حیاتِ مسیح کے عقیدہ سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ قرآن کریم کے خلاف ہے اور اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے تو پھر یہ کہنا کہ ہمیں کیا مسیحؑ زندہ ہیں یا مر گئے پہلی بیوقوفی سے کم بیوقوفی نہیں کیونکہ اس کے معنی تو یہ بنتے ہیں کہ ہمیں اس سے کیا کہ قرآن کریم کے خلاف کوئی بات کہی جاتی ہے ہمیں اس سے کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے، ہمیں اس سے کیا کہ اسلام کو نقصان پہنچتا ہے۔ مگر بہرحال اس تغیر مقام سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ دل اس عقیدہ کی غلطی کو تسلیم کر چکے ہیں گو ضد اور ہٹ صفائی کے ساتھ اس کے تسلیم کرنے میں روک بن رہے ہیں۔ مگر کیا وہ لوگ اسلام کے لیڈر کہلا سکتے ہیں جو صرف اس لئے ایک ایسے عقیدہ پر پردہ ڈال رہے ہوں جو اسلام کیلئے  مُضِرّ ہے کہ اسے ردّ کرنے سے لوگوں پر یہ کُھل جائے گا کہ انہوں نے حضرت مرزا صاحب کی مخالفت میں غلطی کی تھی۔
بہرحال علماء جو رویہ چاہیں اختیار کریں ہر اک مسلمان پر اب یہ امر واضح ہو گیا ہے کہ عقائد کی جنگ میں دوسرے علماء مرزا صاحب علیہ السلام کے مقابل پر سخت شکست کھا چکے ہیں اور وہ مسئلہ جس کے بیان کرنے پر علماء نے بانی سلسلہ احمدیہ پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا آج اکثر مسلمان نوجوانوں کے دلوں میں قائم ہو چکا ہے اور یہ پہلی شہادت مرزا صاحب کی صداقت کی ہے۔
دوسری چیز جس سے انسان کو کامیابی حاصل ہوتی ہے درستی عمل ہے اور اس بارہ میں حضرت مسیح موعود    علیہ السلام کی کوششوں میں سے میں ایک کوشش کو بطور نمونہ پیش کرتا ہوں۔
جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا مسلمانوں کی عملی سُستی اور بیچارگی حد سے بڑھی ہوئی تھی‘ عوام الناس کی قوتیں مفلوج ہو رہی تھیں اور خواص عیسائیت کے حملہ سے بچنے کیلئے اس کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھا رہے تھے۔ اسلام کے خادم اپالوجسٹس APOLOGISTS)) کی صفوں میں کھڑے ان اسلامی عقائد کیلئے جنہیں یورپ ناقابلِ قبول سمجھتا تھا معذرتیں پیش کر رہے تھے۔ اُس وقت بانی سلسلہ احمدیہ نے اِن طریقوں کے خلاف احتجاج کیا، اُس وقت انہوں نے اپنی تنہا آواز کو دلیرانہ بلند کیا کہ اسلام کو معذرتوں کی ضرورت نہیں۔ اِس کا ہر حکم حکمتوں سے پُر اور اس کا ہر ارشاد صداقتوں سے معمور ہے۔ اگر یورپ کو اس کی خوبی نظر نہیں آتی تو یا وہ اندھا ہے یا ہم شمع اُس کے قریب نہیں لے گئے پس اسلام کی حفاظت کا ذریعہ معذرتیں نہیں بلکہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو یورپ تک پہنچانا ہے۔ اُس وقت جب کہ یورپ کو اسلام کا خیال بھی نہیں آ سکتا تھا انہوں نے انگریزی میں اپنے مضامین ترجمہ کروا کے یورپ میں تقسیم کرائے اورجب خدا تعالیٰ نے آپ کو جماعت عطا فرمائی تو آپ نے انہیں ہدایت کی کہ جہاد اسلام کا ایک اہم جزو ہے اور جہاد کسی وقت چھوڑا نہیں جا سکتا۔ جس طرح نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اسلام کے ایسے احکام ہیں کہ جن پر عمل کرنا ہر زمانہ میں ضروری ہے اسی طرح جہاد بھی ایسے اعمال میں سے ہے جس پر ہر زمانہ میں عمل کرنا ضروری ہے اور اسی غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے جہاد کی دو صورتیں مقرر کی ہیں‘ ایک جنگ کے ایام کیلئے اور ایک صلح کے ایام کے لئے۔ جب مسلمانوں پر کوئی قوم اس وجہ سے حملہ آور ہو کہ کیوں انہوں نے اسلام کو قبول کیا ہے اور انہیں بزور اسلام سے منحرف کرنا چاہے جیسا کہ مکہ کے لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کیا تو اُس وقت ان کیلئے یہ حکم ہے کہ تلوار کا مقابلہ تلوار سے کریں اور جب غیر مسلم لوگ تلوار کے ذریعہ سے لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے نہ روکیں تو اُس وقت بھی جہاد کا سلسلہ ختم نہیں ہو جاتا۔ اِس وقت دلیل اور تبلیغ کی تلوار چلانے کا مسلمانوں کو حکم ہے تا کہ اسلام جس طرح جنگ کے ایام میں ترقی کرے صلح کے ایام میں بھی ترقی کرے اور دونوں زمانے اس کی روشنی کے پھیلانے کا موجب ہوں اور مسلمانوں کی قوتِ عملیہ کمزور نہ ہو۔
یاد رہے کہ اس جہاد کا ثبوت قرآن کریم میں بھی پایا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے۔   فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا - (1) یعنی کفار کی باتوں کو مت مان بلکہ قرآن کریم کے ذریعہ سے ان سے جہادِ کبیر کرتا چلا جا یہاں تک کہ لوگوں کے دلوں پر فتح پالے۔
افسوس کہ مسلمانوں کی عملی طاقتیں چونکہ ماری گئی تھیں ان کے لیڈروں نے اس مسئلہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کی اور چونکہ وہ کام نہ کرنا چاہتے تھے اور یہ اقرار بھی نہ کرنا چاہتے تھے کہ وہ کام سے جی چُراتے ہیں انہوں نے یہ عجیب چال چلی کہ لوگوں میں شور مچانا شروع کر دیا کہ بانی سلسلہ احمدیہ جہاد کے منکر ہیں حالانکہ یہ سراسر بُہتان اور جھوٹ تھا۔ بانی سلسلہ احمدیہ جہاد کے منکر نہ تھے بلکہ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ جہاد باقی ارکانِ اسلام کی طرح ہر زمانہ میں ضروری ہے اور چونکہ تلوار کا جہاد ہر زمانہ میں نہیں ہو سکتا اور چونکہ جماعت کا سُست ہو جانا اس کی ہلاکت کا موجب ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاد کی دو قسمیں مقرر کی ہیں۔ جب تلوار سے اسلام پر حملہ ہو تلوار کا جہاد فرض ہے اور جب لوہے کی تلوار کا حملہ ختم ہو تو قرآن کریم کی تلوار لے کر کافروں پر حملہ کرنا ہمارا فرض ہے۔ غرض جہاد کسی وقت نہیں چھوڑا جا سکتا۔ کبھی مسلمانوں کو تلوار کے ذریعہ سے جہاد کرنا پڑے گا اور کبھی قرآن کے ذریعہ سے۔ وہ جہاد کو کسی وقت بھی چھوڑ نہیں سکتے۔
غرض یہ عجیب اور پُرلطف جنگ تھی کہ جو شخص جہاد کے لئے مسلمانوں کو بُلا رہا تھا اور جہاد کو ہر زمانہ میں فرض قرار دے رہا تھا اُسے جہاد کا منکر کہا جاتا تھا اور جو لوگ نہ تلوار اُٹھاتے تھے اور نہ قرآن کریم کا جہاد کر رہے تھے‘ انہیں جہاد کا ماننے والا قرار دیا جاتا تھا مگر ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس جنگ سے سلسلہ احمدیہ کے راستہ میں روکیں تو پیدا کی جا سکتی تھیں مگر اسلام کو کیا فائدہ تھا؟ اسلام حضرت زین العابدین کی طرح میدانِ کربلا میں بے یارومددگار پڑا تھا اور مسلمان علماء جہاد کی تائید کا دعویٰ کرتے ہوئے اسلام کے لئے جہاد کرنے والوں کا مقابلہ کر رہے تھے اور دشمنانِ اسلام کے لئے انہوں نے میدان خالی چھوڑ رکھا تھا۔
شاید کوئی یہ کہے کہ دوسرے مسلمان بھی تو تبلیغ کرتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں  اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِہٖ (2)جہاد امام کے پیچھے ہوتا ہے بغیر امام کے نہیں اور مسلمان اِس وقت کسی امام کے ہاتھ پر جمع نہیں۔ پس اِن کی تبلیغ تو بھاگی ہوئی فوج کے افراد کی منفردانہ جنگ ہے۔ کبھی اس طرح فتح حاصل نہیں ہوتی۔ فتح تو منظم فوج کو ہوتی ہے جس کا افسر سب امور پر غور کر کے مناسب مقامات حملے کے لئے خود تجویز کرتا اور عقل اور غور سے جنگ کے محاذ کو قائم کرتا ہے۔ پس بعض افراد کی منفردانہ کوششیں جہاد نہیں کہلا سکتیں۔ 
آج اس قدر لمبے عرصہ کے تجربہ کے بعد سب دنیا دیکھ رہی ہے کہ عملی پروگرام جو بانی سلسلہ نے قائم کیا تھا وہی درست ہے پچاس سال کے شور کے بعد مسلمان تلوار کا جہاد آج تک نہیں کر سکے کفر کا فتویٰ لگانے والے مولویوں میں کسی کو آج تک تلوار پکڑنے کی توفیق نہیں ملی۔ قرآن کریم سے جہاد کرنے والے احمدیوں کو خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں فتح دی ہے۔ وہ لاکھوں آدمی اِن مولویوں کی مخالفت کے باوجود چھین کر لے گئے ہیں اور یورپ اور امریکہ اور افریقہ میں ہزار ہا آدمیوں کو جو پہلے ہمارے آقا اور مولیٰ کو گالیاں دیتے تھے حلقہ بگوشانِ اسلام میں شامل کر چکے ہیں اور وہ جو پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے تھے آج ان پر درود بھیج رہے ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تنظیم کا نتیجہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تنظیم کیوں پیدا ہوئی اور کیوں دوسروں سے تنظیم کی توفیق چِھن گئی؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ قوتِ عملیہ پیدا کرنے کا صحیح نسخہ استعمال نہیں کیا گیا۔ جس فوج کو مشق نہ کرائی جائے وہ وقت پر لڑ نہیں سکتی‘ جس قوم کو ہر وقت جہاد میں نہ لگایا جائے وہ خاص مواقع پر بھی جہاد نہیں کر سکتی پس اس معاملہ میں بھی فتح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو حاصل ہوئی اور ثابت ہو گیا کہ جس نکتہ تک آپ کا دماغ پہنچا دوسروں کا نہیں پہنچا۔ دنیا نے آپ کامقابلہ کیا اور شکست کھائی‘ آپ نے دنیا کے چیلنج کو قبول کیا اور فتح حاصل کی۔ 
تیسرا ذریعہ انسانی کامیابی کا محرکِ صحیح کا میسر آنا ہے۔ بانی سلسلہ کے دعویٰ کے وقت محرک کے بارہ میں بھی آپ میں اور دوسرے علماء میں اختلاف ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے سامنے حقیقت پیش کی کہ انسانی زندگی کا نقطۂ مرکزی محبتِ الٰہی ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندہ کا تعلق محبت کا ہے تو سزا تابع ہے انعام اور بخشش کی‘ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتدا بھی رحمت سے کی جاتی ہے اور انتہاء بھی رحمت سے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہر بندہ کو عبودیت اور بخشش کیلئے پیدا کیا ہے اور ہر بندہ کو یہ چیز نصیب ہوکر رہے گی۔ یہ جذبۂ محبت پیدا کر کے آپ نے اپنی جماعت کے دلوں میں عمل کا یہ محرک پیدا کر دیا کہ جب اللہ تعالیٰ کے ہم پر اس قدر احسانات ہیں تو ہمیں بھی اس کے جواب میں بطور اظہارِ شکریہ اس مقصود کو پورا کرنا چاہئے جس کے لئے اُس نے دنیا کو پیدا کیا ہے۔ اس محبتِ الٰہی کے جذبہ نے انہیں تمام انعامات اور تمام دیگر خواہشات سے مستغنی کر دیا ہے۔ وہ عہدوں اور جزاء کے امیدوار نہیں۔ وہ سب ماضی کو دیکھتے ہیں اور آئندہ کیلئے خدا تعالیٰ سے سودا نہیں کرنا چاہئے۔ اس محرک کے متعلق بھی علماء نے اختلاف کیا وہ محبت کے جذبہ کو کُچلنے میں لُطف محسوس کرتے تھے۔ انہیں اس امر کاشوق تھا کہ دنیا کے سب بزرگوں کو جن کا نام قرآن کریم میں مذکور نہیں جھوٹا اور فریبی کہیں‘ انہیں شوق تھا کہ وہ اپنے اور یہود کے باپ دادوں کے سوا سب کو جہنم میں دھکیل دیں‘ وہ اس امر میں مسرت حاصل کرتے تھے کہ ایک دفعہ جہنم میں دھکیل کر وہ پھر کسی کو باہر نہیں نکلنے دیں گے‘ انہیں محبتِ الٰہی کے لفظ پر اعتراض نہ تھالیکن وہ محبت پیدا کرنے کے سب ذرائع کو مٹا دینا چاہتے تھے‘ وہ خدا تعالیٰ کو ایک بھیانک شکل میں پیش کر کے کہتے تھے کہ ہمارا یہ خدا ہے‘ اب جو چاہے اس سے محبت کرے مگر کون اس خدا سے محبت کر سکتا تھا‘ نتیجہ یہ تھا کہ مسلمانوں کیلئے محرکِ حقیقی کوئی باقی نہ رہا تھا۔ چند وقتی سیاسی ضرورتیں‘ چند عارضی قومی جھگڑے انہیں کبھی عمل کی طرف مائل کر دیں تو کر دیں لیکن مستقل آگ‘ ہمیشہ رہنے والی جلن انہیں نصیب نہ تھی۔ مگر مرزا صاحب علیہ السلام نے باوجود کفر کے فتووں کے اس بات کا اعلان کیا کہ سب قوموں میں نبی گزرے ہیں‘ راستباز ظاہر ہوئے ہیں اور جس طرح موسیٰ علیہ السلام اور مسیح علیہ السلام خدا کے برگزیدہ تھے کرشن، رامچندر، بدھ، زردشت بھی خدا کے برگزیدہ تھے۔ اُس نے ہمیشہ محبت اور بخشش کا ہاتھ لوگوں کی طرف بڑھایا ہے اور آئندہ بڑھاتا رہے گا۔ نیز یہ کہ جس طرح وہ ماضی میں بخشش کا ہاتھ بلند کرتا رہا ہے آئندہ بھی وہ ایسا ہی کرے گا اور دائمی دوزخ کسی کو نہ ملے گی سب بندے آخر بخشے جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سزا بطور علاج ہوتی ہے نہ بطور ایذاء اور تکلیف دہی کے۔ آہ! علماء کا وہ غصہ دیکھنے کے قابل تھا جب انہوں نے مرزا صاحب کے یہ الفاظ سنے جس طرح سارا دن کی محنت کے بعد شکار پکڑ کر لانے والے چِڑی مار کی چِڑیاں کوئی چھوڑ دے تو وہ غصہ میں دیوانہ ہو جاتا ہے‘ اسی طرح علماء کے چہرے غصہ سے سرخ ہو گئے اور یوں معلوم ہوا جیسے کہ ان کے پکڑے ہوئے شکار مرزا صاحب نے چھوڑ دیئے ہیں۔ مگر بانی سلسلہ نے ان امور کی پرواہ نہیں کی انہوں نے خود گالیاں سنیں اور ایذائیں برداشت کیں لیکن خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کا راستہ کھول دیا اور اعمالِ مستقلہ کیلئے ایک محرک پیدا کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت احمدیہ کے اندر خدا تعالیٰ کی محبت کی وہ آگ پیدا ہو گئی جو انہیں رات دن بندوں کو خدا تعالیٰ کی طرف کھینچ کر لانے پر مجبور کر رہی ہے۔
عشق آہ! کیسا پیارا لفظ ہے۔ یہ عشق کی آگ ہمارے دلوں میں مرزا صاحب نے پیدا کر دی، عشق زبردستی نہیں پیدا ہوتا۔ عشق حُسن سے پیدا ہوتا ہے یا احسان سے۔ ہم ایک حسین یا محسن کو بدنما صورت میں پیش کر کے عشق نہیں پیدا کر سکتے۔ عشق حُسن و احسان سے ہی پیدا ہوتا ہے اور مرزا صاحب نے ہمارے سامنے خدا تعالیٰ کو جس صورت میں پیش کیا وہ حقیقی حُسن اور کامل احسان کو ظاہر کرنے والا تھا اور اس کا نتیجہ جو نکلا وہ دنیا کے سامنے موجود ہے۔ ہم دیوانے ہیں خدا تعالیٰ کے‘ ہم مجنون ہیں اس حُسن کی کان کے، فریفتہ ہیںاس احسانوں کے منبع کے، اس کی رحمتوں کی کوئی انتہاء نہیں، اس کی بخششوں کی کوئی حد نہیں، پھر ہم کیوں نہ اسے چاہیں اور کیوں اس محبت کرنے والی ہستی کی طرف دنیا کو کھینچ کر نہ لاویں۔ لوگوں کی بادشاہت ملکوں پر ہے ہماری بادشاہت دلوں پر ہے۔ لوگ علاقے فتح کرتے ہیں ہم دل فتح کرتے ہیں اور پھر انہیںنذر کے طور پر اپنے آقا کے قدموں پر لا کر ڈالتے ہیں۔ بھلا ملک فتح کرنے والے اپنے خدا کو کیا دے سکتے ہیں کیا وہ چین کا محتاج ہے یا جاپان کا؟ لیکن وہ پاک دل کا تحفہ قبول کرتا ہے، محبت کرنے والے قلب کو شکریہ سے منظور کرتا ہے۔ پس ہم وہ چیز لاتے ہیں جسے ہمارا خدا قبول کرنے کے لئے تیار ہے کیونکہ ہم اپنے لئے کچھ نہیں چاہتے بلکہ خدا تعالیٰ کیلئے چاہتے ہیں۔
اب اے دوستو! دیکھو کیسا زبردست محرک ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا کر دیا ہے۔ ہمیں اب اس سے غرض نہیں کہ ہندو مسلمان کی لڑائی ہو رہی ہے یا سکھ مسلمان کی یا عیسائی مسلمان کی، ان عارضی محرکات سے ہم آزاد ہیں۔ یہ لڑائیاں تو ختم ہو جاتی ہیں اور ساتھ ہی جوش بھی ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور عمل ختم ہو جاتا ہے۔ ہمارا محرک تو محبتِ الٰہی ہے جو کسی عارضی تغیر سے متأثر نہیں،  یہ عشق کسی وقت میں بیکار بیٹھنے نہیں دیتا اس لئے ہمارا مقام ہر وقت آگے ہے، ہماری رفتار ہر وقت تیز ہے، بڑا کام ہمارے سامنے ہے لیکن ایک بڑی بھٹی بھی ہمارے دلوں میں جل رہی ہے جو ہر وقت بانی سلسلہ کی دُوربینی اور حقیقت بینی پر شاہد ہے  اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی خَلِیْفَتِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔
اے دوستو! ہزاروں گواہ بانی سلسلہ کی سچائی کے ہیں اے دوستو! ہزاروں گواہ بانی سلسلہ کی سچائی کے ہیں لیکن یہ تین گواہ میں نے آپ کے سامنے پیش کئے ہیں اور عقملند کیلئے تو اشارہ کافی ہوتا ہے۔ پس آپ ان امور پر غور کریں اور جدھر خدا تعالیٰ کا ہاتھ اشارہ کر رہا ہے اُدھر چل پڑیں۔ یہ عمر چند روزہ ہے اور اِس دنیا کی نعمتیں زوال پذیر ہیں۔ اُس جگہ اپنا گھر بنائیں جو فنا سے محفوظ ہے اور اُس یار سے اپنا دل لگائیں جس کی محبت ہر نقص سے پاک کر دینے والی ہے۔ ایک عظیم الشان نعمت کا دروازہ آپ کے لئے کھولا گیاہے‘ اس دروازہ سے منہ موڑ کر دوسری طرف نہ جائیں کہ  بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ(3) کا ارشاد آپ کو اس سے روک رہا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر بیان کرتا ہوں کہ آپ کی ہمدردی نے مجھے اِس پیغام پر مجبور کیا ہے اور کسی نفسانی خواہش کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کی ہمدردی کی وجہ سے میں نے یہ آواز اُٹھائی ہے۔ پس ایک درد مند کی آواز سنیں اور ایک خیر خواہ کی بات پر کان دھریں کہ اس میں آپ کا بھلا ہوگا اور آپ کا دین اور دنیا دونوں اس سے سُدھر جائیں گے۔ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اسے قبول کریں اور اس راہ میں پیش آنے والی تکالیف کو عینِ راحت سمجھیں کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہی ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ 
وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
والسلام،خاکسار
مرزا محمود احمد
     امام جماعت احمدیہ‘‘
(مطبوعہ 30 ستمبر1934ء کوآپریٹوسٹیم پرنٹنگ پریس وطن بلڈنگس لاہور)(انوار العلوم جلد 13صفحہ 465 تا475)
(1) الفرقان: 53۔
(2) بخاری کتاب الجھاد والسیر باب یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِ الْاِمَامِ وَیُتَّقٰی بِہٖ،۔
(3)الحدید: 14

مکمل تحریر >>

Sunday 22 October 2017

چاند پر تھوکنے کی ناکام کوشش






چاند پر تھوکنے کی ناکام کوشش
خسوف و کسوف کے نشان کے بارہ میں
مولوی منظور چنیوٹی کے مغالطے

 ایچ ۔ایم ۔طارق


ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ نے تیرہ سو سال قبل بطور پیشگوئی امام مہدی کی صداقت کے دو عظیم نشان یہ بیان فرمائے تھے کہ چاند اور سورج کو رمضان المبارک کی خاص تاریخوں میں گرہن ہوگا۔ یہ نشان پوری آب و تاب کے ساتھ حضرت مرز ا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح موعود و امام مہدی کی سچائی کے گواہ بن کر رمضان ۱۳۱۱؁ھ (مطابق ۱۸۹۴؁ء) میں ظاہر ہوئے اور کئی بندگان خدا کی ہدایت کا موجب ہوئے ۔
۱۹۹۴؁ء میں ان نشانات پرایک صدی گزر جانے کے بعد جب اس مہدی موعود کی جماعت کی صداقت خوب کھل کر مخالفوں پراتمام حجت کررہی ہے اور اس جماعت میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں فوجوں کی صورت میں سعادت مند داخل ہو کر اس کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں ابھی بھی کچھ ایسے لوگ باقی ہیں جن پراس نشان کی حقیقت نہیں کھلی اوروہ اس غیر معمولی اورحیرت انگیز نشان پراعتراض کرکے بالفاظ دیگر چاند بلکہ سورج پربھی تھوکنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی کوشش کا انجام صاف ظاہر ہے اور یہی کچھ مولوی منظور چنیوٹی صاحب (جو اب ایم پی اے کے کہلوانے میں زیادہ فخر محسوس کرتے ہیں ) اور ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب’’ریٹائرڈ‘‘ جامع مسجدوکٹوریہ پارک مانچسٹر (جو اپنے آپ کو ڈائریکٹر اسلامک اکیڈمی آ ف مانچسٹر ظاہر کرتے ہیں) کے ساتھ ہو رہا ہے ۔جنہوں نے بزعم خویش برطانیہ میں مقیم’’قادیانیوں‘‘ کے چیلنج کا جواب دیتے ہوئے خسو ف کسوف (چاند سورج گرہن) کے نشان کو رسول اﷲ ﷺ کی بجائے امام محمد باقر کی پیشگوئی قرار دیاہے۔ اور یہ دعویٰ کیاہے کہ مرزا صاحب اس کے مصداق نہیں بن سکے۔
یہ رسالہ مولوی چنیوٹی صاحب کا تحریر کردہ ہے جس کا مقدمہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب نے لکھا ہے ۔ دونوں نے ایک دوسرے کی خوب دل کھول کر ستائش کی ہے ۔ 
مولوی چنیوٹی صاحب نے ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب کی کاوش کو ’’ایک نہایت ہی علمی ، تحقیقی ، وقیع اور بڑا مدلّل وجامع مقدمہ ‘‘ قرار دیاہے۔ جس میں اس پیشگوئی پر’’ایک نئے علمی انداز‘‘میں روشنی ڈالی گئی ہے جبکہ علامہ خالد محمود صاحب نے ’’سفیر ختم نبوت‘‘ چنیوٹی صاحب کواس مفید رسالہ کی تصنیف پر ’’لائق تبریک‘‘ قراردیاہے۔
اس جگہ ان دونوں حضرات کی اس تحقیق کی وقعت ظاہر کرنا اور ان کی نام نہاد ’’علمیت‘‘ کا پول کھولنا مقصودہے جس پراتراتے ہوئے اور دجل اور فریب کو کام میں لاتے ہوئے یہ کتابچہ ’’خسوف وکسوف ‘‘ انہوں نے تحریرکیا ہے۔ دیباچہ میں مولوی چنیوٹی صاحب نے چاند سورج گرہن کی رسول اﷲ ﷺ کی پیشگوئی کوامام محمد باقر کاقول بناکر پیش کر کے ا س حدیث کی اہمیت کم کرنے اور دنیاکو دھوکہ دینے کی جسارت کی ہے جس کا جواب آئندہ سطور میں پیش کیا جائے گا۔
٭……٭……٭

علمی و تحقیقی مقدمہ کی حقیقت

علامہ خالد محمود نے اپنے بے سروپا مقدمہ میں بزعم خویش جو ’’علمی نکات‘‘اٹھائے ہیں ان کی حیثیت محض عُذرِلنگ کے سوا کچھ نہیں۔ حقائق کے برخلاف ان کے متعصبانہ اور متضاد بیانات کاسارامدعا یہ ہے کہ ان کابس چلے تو ’’چاند سورج گرہن کے نشان‘‘ حضرت مرزا صاحب سے کسی طرح چھین کر دم لیں۔مگر جیساکہ انہوں نے خود اقرار کیاہے کہ ’’خدائی نمائندوں کے بارہ میں پیشگوئیاں زمین پر ان کے آسمانی جلال کا نشان ہوتاہے جس کا سامناکرنے کی کسی میں ہمت نہیں ہوتی‘‘۔ چنانچہ و ہ واقعی اس کوشش میں بے دست و پا اور بے بس ہو کررہ گئے ہیں کہ اس نشان کاجواب لا سکیں۔ باقی جہاں تک خدائی نمائندوں کے بارے میں پیشگوئیوں کا تعلق ہے منکرین کی طرف سے ان کو جھٹلایا جانا بھی ایک سنت مستمرہ ہے جیسے حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد سے قبل ایلیا کے آسمان سے اترنے کی پیشگوئی بائبل میں موجود تھی اور حضرت مسیحؑ کی وضاحت کے باوجود کہ حضرت یحیٰ ؑوہ ایلیا ہیں یہود نے انکارکیاتھا ۔ اسی طرح بائبل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائیوں میں سے ان کی مانند نبی برپا کرنے کی پیشگوئی تھی نیز حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے بعد احمد رسول اﷲ کے آنے کی خبر دی تھی باوجودیکہ یہ پیشگوئیاں ہمارے نبی حضرت محمدﷺ کے آسمانی جلال کانشان تھیں مگران کا سامناکرنے کی ہمت نہ ہونے کے باوجود یہود نے انکار اور تکذیب کی راہ اختیار کی تھی۔ سوچنے کی بات ہے کہ کہیں اس دور کے مسیح کے ساتھ امت مُسلمہ بھی وہی کاروائی تو دہرا نہیں رہی جیسا کہ قرآن شریف میں اسے مثیل امت یہود ٹھہرا کر پہلے سے یہ اشارہ کردیا گیاتھا۔
علامہ خالد محمود نے چاند سورج گرہن والی پیشگوئی کو ایک کمزور سند سے بیان شدہ پیشگوئی قرار دیاہے۔ ان لکیرکے فقیرمُلّانوں کو کون سمجھائے کہ جس حدیث کی پیشگوئی پوری ہو چکی اب اسکی سند کمزور قرار دینے سے کیاحاصل؟ البتہ و ہ عقلیں ضرورکمزور ہیں جو اسے سمجھنے سے قاصرہیں ورنہ کسی حدیث کی پیشگوئی کا پوراہو جانا اپنی ذات میں ایسی پختہ سند ہے جسے مزید کسی سند کی حاجت نہیں۔

عوامی پیرائے کے نشان

دوسرا سوال علامہ خالد محمود صاحب نے یہ اٹھایاہے کہ آسمانی نشان عوامی پیرائے میں ہونے چاہئیں۔یہ عجیب تواردہے کہ ہمیشہ سے منکرین اور مکذبین کی طرف سے بھی یہی اعتراض خدائی نمائندوں پرہوتا آیاہے ۔ چنانچہ کفارمکہ نے قرآن کے علمی معجزہ اور شق قمر جیسے نشان دیکھ کر بھی انکار کیا اور علامہ خالدمحمود صاحب کی طرح ’’عوامی پیرائے کا نشان‘‘ یا ’’تماشا دکھانے کا تقاضا‘‘کرتے ہوئے کبھی کوئی چشمہ جاری کرنے یا کھجور و انگور کا باغ پیدا کرنے کی خواہش کی۔ کبھی آسمان کا ٹکڑا ان پرگرانے یا خدا اور فرشتوں کو سامنے لے آنے کا مطالبہ کیا تو کبھی سونے کا گھر موجود ہونے یا آسمان پرچڑھ دکھانے کی پہیلی ڈالی مگر انہیں ایک ہی جواب دیا گاکہ (مجھ سے ممکن نہیں ۔ کیونکہ ) میں تو محض ایک بشر رسول ہوں (بنی اسرائیل :۹۱ تا ۹۴) یعنی میں اپنی مرضی سے نشان نہیں اتار سکتا۔ اور یہی اصول قرآن شریف نے دوسری جگہ بھی دہرایا ہے کہ نشانات تواﷲ کی طرف سے اس کی مرضی کے موافق اترا کرتے ہیں مگر جب وہ نشان آ جاتے ہیں تو بھی منکرایمان نہیں لایا کرتے ۔(انعام :۱۰)

اہل عرب اور چاند سورج گرہن

رسالہ زیر نظر میں ایک اور مسئلہ علامہ خالد محمود صاحب نے یہ اٹھایا ہے کہ چونکہ چاند سورج گرہن کی پیشگوئی کی مخاطب’’امت امیّہ‘‘ یعنی لکھنے پڑھنے سے عاری عرب قوم تھی جو علامہ صاحب کے خیال میں حساب کی رو سے چاند اور سورج گرہن کی تاریخیں نہ جانتی تھی اور اس زمانہ کے لوگ فلکی و جغرافیائی نظام اور علم ہیئت سے ناواقف تھے اس لئے ان کے نزدیک رمضان کی پہلی رات کا گرہن لگنے سے مراد یکم رمضان ہی ہو سکتی تھی نہ کہ گرہن کی تاریخوں تیرہ ، چودہ اور پندرہ میں سے پہلی یعنی تیرہ تاریخ ۔ علامہ صاحب کے نزدیک دین فطرت کا کوئی ایسا انداز نہیں ہوتا کہ اس تک صرف ایک خاص طبقہ کی ہی رسائی ہو اور عام لوگ اسے نہ جان سکیں۔
علامہ صاحب کا یہ سارا اصول ہی خود ساختہ ہے۔ یہ سوال اٹھاتے ہوئے شاید و ہ بھول گئے ہیں کہ عرب کی اس اُمّی اور ان پڑھ قوم کو جو معجزہ دیا گیا وہ ان کے اس اصول کے برخلاف قرآن شریف کی فصاحت و بلاغت کا علمی معجزہ تھا حالانکہ علامہ صاحب کے اصول کے مطابق عرب کی اَن پڑھ قوم کو ’’عوامی پیرائے‘‘ کاکوئی نشان دیا جانا چاہئے تھا جیسا کہ وہ جاہل قوم مطالبہ کر رہی تھی ۔جبکہ قرآن شریف نے اس علمی معجزہ کو ’’کتاب مکنون‘‘ قرار دیا ۔(الواقعہ:۷۸ تا ۸۰)۔یعنی اپنے مضامین و معانی کے لحاظ سے عوام کی نظروں سے اوجھل ، چھپی ہوئی اور پوشیدہ کتاب جس تک صرف ’’المُطَہَّرُون ‘‘یعنی پاک کئے گئے لوگوں کی رسائی ہو سکتی ہے ۔
مزید برآں قرآنی اصول کے مطابق پیشگوئیاں کئی استعارات سے پرُہوتی ہیں اور متشابہات کا رنگ رکھتی ہیں۔ غیرمطہر اور کج فہم لوگ ان کی تاویلیں کرکے فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ مگر مطہر اور علم میں راسخ لوگ ان پیشگوئیوں کی حقیقت جان کر ان پر ایمان لاتے ہیں۔ اور یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہے عطا فرما دے ۔
ڈاکٹر صاحب موصوف نے یہ کہہ کر کہ عربوں کو چاند سورج گرہن کی تاریخوں کابھی علم نہ تھا ، اپنے وضع کردہ قاعدے میں ایک اور زیادتی یہ کی کہ اپنی امیّت اور جہالت ’’امت امیہ‘‘ کے سرتھوپ دی ہے۔ اگرچہ یہ سوال چنداں لائق پذیرائی نہیں لیکن چونکہ ایک نیا شوشہ ہے اس لئے اس کا رَدّ ضروری ہے۔ دراصل یہ علامہ صاحب کی تاریخ بلکہ جغرافیہ سے بھی لاعلمی کی منہ بولتی مثال ہے۔ عرب لوگ بیشک لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے مگر دنیا کی تہذیب کے چھٹے ہزار سال پرہوتے ہوئے وہ اتنے بھی بے خبر محض اور لاعلم نہ تھے کہ انہیں چاند سورج گرہن کی تاریخوں کا بھی پتہ نہ ہو۔ بالخصوص جبکہ ان کے مہ و سال چاند کی تاریخوں کے گرد گھومتے تھے اور جبکہ ان کے ماحول میں اہل بابل نے دو ہزار سال قبل مسیح میں چاند اور سورج کے مداروں کا تعین کرکے ان کے میل اور گرہنوں کااندارج کیا اورسال کو بارہ قمری مہینوں میں تقسیم کرکے تقویم کو موسموں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے تیرھواں مہینہ بڑھادیا ۔ عربوں میں بھی یہود کے اثر سے یہی نظام جاری تھا۔
(’’عرب‘‘ ول ڈیورانٹ مترجم یاسرجواد صفحہ ۱۹۲،۱۹۳۔ اکرم آرکیڈ ۲۹ ٹمپل روڈ لاہور)
اسی طرح پندرھویں صدی قبل مسیح میں عراق عرب میں عمالقہ کی ایک نہایت ترقی یافتہ سلطنت قائم تھی۔سب سے پہلے انہی عمالقہ نے علم الفلک کی ایجاد کی تھی اور ستاروں اور آسمان کی حرکت کا پتہ لگایاتھا۔ پھرعرب میں یہود اور صابی قوم (ستارہ پرست) بھی آباد تھیں او ر یہ دونوں قومیں علم النجوم اور ہیئت سے آشنا تھیں۔ اہل عرب نے ان صابیوں سے بھی علم نجوم حاصل کیا اور اس میں اس قدر ترقی کی کہ ان کو اس علم میں اہل عجم پر ترجیح دی گئی ہے ۔ چنانچہ عربوں نے چاند(جس کی تاریخوں پر ان کا مدار تھا )کا اتنا گہرا مطالعہ کیا تھاکہ پہلی رات کے چاند سے لے کرمہینے کے ختم ہونے تک ہر تین راتوں کے لئے ان کے ہاں ایک الگ نام مقرر ہے جیساکہ ایک عرب شاعر کہتاہے ؂ 
ثُمَّ لَیَالِیَ الشَّہْرِ قِدْمًا عَرَّفُوْا
کُلُّ ثَلَاثٍ بِصِفَاتٍ تُعْرَفٗ
یعنی عربوں نے مہینہ کی چاند راتوں کوقدیم زمانہ سے پہچان رکھاہے اور ہر تین راتیں خاص صفات کے ساتھ معروف ہیں۔ چنانچہ گرہن کی راتیں ۱۳،۱۴،۱۵ ’’لیالی البیض‘‘ (یعنی سفید اور روشن راتیں) کے نام سے معروف تھیں۔ تو چاند مہینہ کی آخری تین راتیں ’’المحاق‘‘کہلاتی تھیں جیساکہ شاعر کہتاہے ؂
ثُمَّ الْمُحَاقُ لِاِنْمِحَاِق بَادِیْ
یعنی پھر آخری تین راتیں محاق کیونکہ یہ واضح ہے کہ ان راتوں میں چاند دکھائی نہیں دیتا ۔
(بلوغ الارب جلد ۴ صفحہ ۲۷۹ ۔ تالیف محمود شکری الوسی ترجمہ ڈاکٹر پیر محمد حسن۔ مرکزی اردو بورڈ۔ ۳۶ جی گلبرگ لاہور)
اس لئے جب عربوں کو مخاطب کر کے چاند سورج گرہن کی پیشگوئی بیان کی گئی تو ان کے لئے یہ بات ہرگز ناقابل فہم نہیں تھی ۔ چنانچہ اس امر کے تاریخی شواہد موجود ہیں کہ حضرت امام باقر ؒ دوسری صدی ہجری میں جب یہ روایت بیان فرما رہے تھے تو مخاطبین کو علامہ خالد صاحب کے مفروضہ کے مطابق بالکل بھی یکم رمضان اور پندرہ رمضان کی تاریخوں کاگمان نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس چاند سورج گرہن کی معروف تاریخوں کی طرف ہی دھیان گیا ۔ چنانچہ شیعہ مسلک کے رئیس المحدثین علامہ یعقوب کلینی نے اپنی معتبر کتاب الجامع الکافی میں روایت کیا ہے کہ امام محمد باقر نے جب ان نشانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مہدی کے وقت سورج کو درمیان ماہ اورچاند کو آخرماہ میں گرہن ہوگا تو مخاطبین میں سے ایک شخص نے فوراً سوال کیا کہ اے امام! کہیں اس کے برعکس تاریخیں تونہیں۔ یعنی چاند کو درمیان ماہ اور سورج کو آخر ماہ میں (جوفی الواقعہ گرہن کی تاریخیں ہوتی ہیں)۔
(الفروع من الجامع الکافی کتاب الروضہ صفحہ ۱۰۰ مطبع نولکشور)
ان حقائق سے ثابت ہے کہ چاند سورج گرہن کی پیشگوئی ان تاریخوں میں ہی پوری ہونی مقدر تھی جن میں ازل سے گرہن لگتاآیاہے۔ اور نہ صرف حضرت امام باقر کے زمانہ سے لے کر تیرھویں صدی ہجری تک کے اہل فہم و فراست مخاطبین یہی مفہوم مراد لیتے رہے بلکہ گرہن کی معروف تاریخوں میں یہ واقعہ ہوگا جیسے حافظ لکھوکے والے نے احوال الآخرۃ میں لکھا ؂ 
تیرھویں چن ستیہویں سورج گرہن ہوسی اسی سالے 
 اندر ماہ رمضانے لکھیا ہک روایت والے 
اسی طرح حضرت نعمت اﷲ شاہ ولی اور علامہ عبدالعزیز پرہاروی ملتانی نے بھی پہلی اور درمیانی تاریخ کا یہی مفہوم بیان کیا اور سب سے بڑھ کر یہ واقعاتی شہادت ہے کہ عین انہی تاریخوں میں نشان کسوف وخسوف ظہور میں آیا اور مقررہ تاریخوں میں رسول اﷲ کی پیشگوئی نے پورا ہو کر خود اپنی حقیقت آشکار کر دی۔ 
اور یہ نشان نبی کریم ﷺ کی صداقت کا شاندار نشان بنا ۔ اس جگہ علامہ خالد محمود صاحب کے اٹھائے گئے اس نئے شگوفے کی بیخ کنی ضرور ی سمجھی گئی ہے ورنہ بفرض محال پیشگوئی کی مخاطب ’’امت امیہ‘‘ کو اگرعلم ہیئت سے واقفیت نہ بھی ہوتی تو بھی پیشگوئی کے ظہور کے وقت چونکہ خود بخود حقیقت کھل جایاکرتی ہے اس لئے بوقت پیشگوئی اس کا سمجھ میں نہ آنا کو ئی مضر بات نہیں۔ جیسے رسول خدا ﷺ کورؤیا میں اپنی ہجرت کی جگہ کھجوروں والی دکھائی گئی اور آ پ اسے یمامہ سمجھتے رہے مگرہجرت ہونے پرپتہ چلا کہ دراصل مدینہ مراد تھا۔(بخار ی کتاب المناقب)
پس پیشگوئی کے وقت اس کا مفہوم واضح ہونا نہ صرف ضروری نہیں بلکہ پیشگوئیوں میں اکثر استعارہ غالب ہونے کی وجہ سے ایسا ہی ہوا کرتاہے ۔ واقعہ حدیبیہ اس کی دوسری مثال ہے جس میں رسول اﷲ ﷺ نے ایک رؤیا کی بناپر یہ سمجھا کہ اس سال آپ عمرہ ادا کر یں گے ۔ مگر وہ پیشگوئی اس سال پوری نہ ہوئی بلکہ اگلے سال پوری ہوئی۔
  علامہ خالد محمود صاحب نے یہ بھی نہیں سوچا کہ’’ امّت امیہّ‘‘ نے آئندہ ہمیشہ کے لئے اَن پڑھ نہیں رہنا تھا بلکہ جو رسول ان میں معلّمِ کتاب و حکمت بن کرآیا اس کا کام ہی ان کی امّیت دور کرنا بھی تھا اور قرآن شریف نے جب گردش محوری(یٰسین :۴۱) ، چاند سورج گرہن کے ذکر (القیامۃ : ۹،۱۰)، اور سیاروں کی منازل اور ماہ و سال کے حساب (یونس:۶) کے بارے میں تعلیم فرما دی تو امت کی امّیت کم از کم چاند سورج گرہن کے بارے میں توزائل ہوگئی اور پھر اس نشان نے تو آخری زمانہ میں پورا ہوناتھا جیساکہ چودھویں صدی میں ظاہر ہوا۔ علوم کے پھیلاؤ کے اس زمانہ میں تو علم ہیئت ا س قدر ترقی کر چکا ہے کہ آپ جیسامولوی بھی تسلیم کر رہا ہے کہ چاند گرہن ۱۳،۱۴ ،۱۵ اور سورج گرہن ۲۷،۲۸،۲۹ کو ہی لگا کرتاہے (فَلَا اِعْتَرَاض) 
مولوی چنیوٹی صاحب اور علامہ خالد صاحب دونوں نے ایک اور حدیث بھی چاند سورج گرہن کے خلاف پیش کی ہے حالانکہ وہ بجائے خود ا س نشان کی ایک تائید ی گواہ ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے فرزند گرامی حضرت ابراہیم کی وفات پر جب سورج گرہن ہوا تو بعض لوگوں کے توہمات کی تردید کرتے ہوئے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ چاند اور سورج اﷲ کے نشانوں میں سے دو نشان ہیں لیکن ان کو کسی کی موت یا زندگی کے باعث گرہن نہیں ہوتا۔
ا ب اس حدیث کے الفاظ کتنی صفائی سے چاند سورج گرہن کو دونشان قراردے کر ہمارے موقف کی تائید و تصدیق کرتیـ ہیں۔ کیونکہ قرآن وحدیث گواہ ہیں کہ آیات اور نشانات ہمیشہ خدا ئی نمائندوں کی سچائی کے لئے ہی ظاہر ہواکرتے ہیں ، کسی کی موت یازندگی کانشان نہیں ہوتے ۔
اور حدیث کے ان الفاظ سے ڈاکٹر صاحب بھی حدیث کسوف وخسوف کے برخلاف کوئی استدلال نہیں کرسکے۔ چنانچہ انہوں نے بے باکی سے یہودی احبار کی طرح حدیث کے ترجمہ میں صریحاً تحریف کر ڈالی۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ تھے ’’لَا یَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ اَحَدٍ لَا لِحَیَاتِہٖ‘‘۔ یعنی کسی کی موت یاحیات پر ان کو گرہن نہیں لگتا۔ مگر انہوں نے حیات کایہ ترجمہ نامعلوم کس لغت سے کیاہے کہ ’’نہ کسی کی آمد کانشان ہیں‘‘۔ یہ ترجمہ سراسر ایک علمی خیانت اور واضح بددیانتی ہے جسے ایک معمولی عربی جاننے والابھی سمجھ سکتاہے ( اور اس کے لئے پی ۔ایچ۔ ڈی ہونا بھی شرط نہیں)۔
ڈاکٹر خالد محمود صاحب نے خود یہ تسلیم کیاہے کہ جب تک دنیا ہے نظام فلکی سے ٹکراؤ ممکن نہیں۔ پھرعالم ہو کر مرزا صاحب کی مخالفت میں یکم اور پندرہ تاریخ کو چاند سورج گرہن کا ایک متضاد اور جاہلانہ تصور پیش کرکے خود اپنے ’’گرگٹ‘‘ ہونے کاثبوت دیا ہے ۔ یہ تصور نہ صرف عقل اور سائنس اور سنت الٰہی کے قواعد و ضوابط کے برخلاف ہے بلکہ قرآن شریف کے بیان کے بھی مخالف ہے ۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتاہے۔ لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِی لَھَا اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَاالَّیْلَ سَابِقُ النَّہَارِ کَلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ (یٰسین :۴۱) کہ سورج کبھی چاند کو پکڑ نہیں سکے گا ، نہ رات دن سے بڑھ سکے گی بلکہ یہ سب سیارے اپنے مدارمیں تیر رہے ہیں اورتیرتے رہیں گے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتاہے فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِاللّٰہِ تَبْدِیْلاً (فاطر:۴۴) ۔ پس چاند کی پہلی رات کو گرہن لگنے کامطلب سنّتِ مستمرہ اور قانون قدرت میں تبدیلی ہے۔اس قانون اور سیاروں کی گردش محوری کے ٹوٹ جانے کا دوسرا نام قیامت اور اس عالم کی ہلاکت و بربادی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ حدیث میں ہرگز یہ نشان بیان نہیں ہو رہا کہ مہدی کے آنے پراتمام حجت سے بھی پہلے دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی۔

چاند سورج گرہن کے خارق عادت ہونے سے مراد

اب سوال یہ رہ جاتاہے کہ اگر چاند سورج گرہن کا نشان قانون قدرت کے مطابق مقررہ تاریخوں میں ہی ظاہر ہونا تھا تو پھر اس ارشاد کا کیا مطلب ہے کہ ’’لم تکونا منذ خلق اﷲ السمٰوٰت والارض‘‘ فیعنی جب سے اﷲ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو پیدا کیا کبھی اس طرح یہ نشان ظاہر نہیں ہوئے ۔ تو یاد رکھنا چاہئے کہ ان الفاظ میں اس عظیم نشان کی یکتائی اور ایسی انفرادیت بیان کرنا مقصود ہے جو قانون قدرت کے اندر رہ کر حاصل ہو۔ اور وہ یہ کہ کبھی اس سے پہلے کسی ایسے مدعی مہدویت کے حق میں یہ نشان اپنی مخصوص تاریخوں میں رمضان میں ظاہر نہیں ہوا ہوگا، جسے اُس مدعی نے بطور ثبوت اپنے حق میں پیش کیا ہو۔ 
ڈاکٹر خالد محمود صاحب نے اپنے مقدمہ اور مولوی چنیوٹی صاحب نے اپنے رسالہ کسوف و خسوف کے پیش لفظ کو انتہائی بغض وعداوت سے بے سروپا لغو اعتراضات کا ملغوبہ بنا دیاہے۔ خود کاشتہ پودا ، حضرت مرزا صاحب کے مختلف دعاوی اور چودھویں صدی میں ظہور مسیح نیز مسیح و مہدی کی جدا شخصیتیں ۔ ان تمام اعتراضات کے جوابات جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہونے والے جوابی لٹریچر میں باربار دئے جا چکے ہیں ۔ اس جگہ خسوف و کسوف کے بارے میں اعتراضات کا جواب مقصود ہے اس لئے یہاں یہی مضمون مقدم رکھا جائے گا۔

چودھوی صدی اور امام مہدیؑ

البتہ اسی حدیث کسوف وخسوف کے ہمہ جہتی عظیم نشان کے حوالے سے ضمناً چودھویں صدی میں مسیح و مہدی کے ظہور کا ثبوت پیش کرکے چنیوٹی صاحب کو گھر تک پہنچانے کے لئے ان کا ایک اور چیلنج بھی جھوٹا ثابت کرنا ضروری معلوم ہوتاہے اور وہ یہ کہ چاند سورج گرہن کو مہدی کا نشان قرار دیا گیا تھا اور یہ نشان حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کے بعد ٹھیک چودھویں صدی کے سر پر رمضان ۱۳۱۱؁ھ میں ظاہر ہوا۔ غور کرو کہ اس نشان کا پہلی تیرہ صدیوں میں کسی مدعی کا اپنے حق میں پیش نہ کرنا اور چودھویں صدی کے سر پر اس وقت اس نشان کا پورا ہونا جب ایک دعویدار مسیح و مہدی موجود ہے ا س امر کاکافی و شافی ثبوت ہے کہ مسیح ومہدی کی صدی چودھویں صدی کے سوا کوئی نہیں۔ یہی وہ امر جسے خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت بھی سچا ثابت کررہی ہے ۔
مولوی چنیوٹی صاحب نے کِذب بیانی کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کی طرف یہ بات منسوب کی ہے کہ جماعت چودھویں صدی کو آخری صدی قرار دیتی ہے اور پھر خود ہی اس پر بغلیں بجاتے ہیں کہ پندرھویں صدی شروع ہو گئی لہذا احمدی جھوٹے !۔
اگر مولوی صاحب بانی ٔ جماعت احمدیہ یا ان کے خلفاء میں سے کسی ایک کاحوالہ بھی چودھویں صدی کے آخری ہونے کے متعلق ثابت کر دیں تو منہ مانگا انعام پائیں ورنہ ان سے گزارش ہے کہ ایسے بے دریغ جھوٹے الزام لگانے میں حیا سے کام لیاکریں کہ آپ کے نام کے ساتھ ایم پی اے کے علاوہ مولوی کا لفظ بھی تو لگا ہے ۔ اصل سوال یہ ہے کہ جب مولوی صاحب نے چودھویں صدی کے مجددکو مانا ہی نہیں تو پھر وہ کس ڈھٹائی سے پوچھتے ہیں کہ پندرھویں صدی کا مجدد کون؟۔
ہمارے نزدیک تو جب چودھویں صدی کا مجدد مسیح موعود و مہدی ٔ موعود ثابت ہو گیا اور اس کے ذریعہ خلافت علی منہاج النبوۃ کا سلسلہ بھی قائم ہو گیا تو جب تک یہ خلافت قائم رہے گی مجددیت کا سلسلہ اسی میں مدغم رہے گا اور ہر صدی کے سر پر موجود جماعت احمدیہ کا خلیفہ اپنے دینی و روحانی کا رناموں کے لحاظ سے مجدد وقت بھی ہوگا ۔ جیسے خلفاء راشدین مجدد وقت بھی تھے اور ان کی موجودگی میں کسی اور مجدد کی ضرورت نہ تھی۔
چنیوٹی صاحب کے پیش لفظ کے بارے میں ان دو چند وضاحتوں کے بعد اب ہم ان کی بے سروپا مغالطہ آرائیوں کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں۔

٭……٭……٭

حدیث رسول یا قولِ محمد باقر ؒ

پہلا مغالطہ انہوں نے یہ دینے کی کوشش کی ہے کہ دارقطنی میں درج چاند اور سورج گرہن کی پیشگوئی حدیث رسول نہیں بلکہ امام محمد باقر ؒ کاقول ہے اور اسے حدیث ثابت کرنے والے کے لئے انہوں نے دس ہزار روپے کے انعامی چیلنج کا وعدہ کیا ہے (جیساکہ اپنے باطل دعووں کی اہمیت جتلانے کے لئے یہ ان کا پرانا وطیرہ ہے )۔ حالانکہ مولوی چنیوٹی صاحب کے ایسے بلند بانگ دعوے بجائے سستی شہرت اور ان کی علمیت کے ثابت کرنے کے الٹا اُن کی جہالت کو ظاہر کررہے ہیں کہ ایک عالم ہو کر انہیں یہ بھی خبر نہیں کہ اصطلاحاً حدیث کی تعریف کیا ہے ۔ اور یہ کہ امام دارقطنی جیسے عظیم محدث نے اپنی سنن دارقطنی امام باقر ؒ کے اقوال جمع کرنے کی خاطر تصنیف نہیں فرمائی بلکہ اس میں احادیث رسول جمع کی ہیں…………۔ اور یہ حدیث باقاعدہ باب صلوٰۃ الکسوف میں نمبر ۱۰ پر درج کی ہے۔ اگر وہ اسے حدیث نہ سمجھتے تو اسے احادیث میں شمار نہ فرماتے ۔
کاش مولوی صاحب موصوف میں خدا خوفی ہوتی کہ وہ رسول اﷲﷺ کی ایک ایسی جلیل القدر پیشگوئی پر (جو پوری ہو کر خدا کی فعلی شہادت سے سچی ثابت ہو چکی ہے) بے باکی سے معترض نہ ہوتے ۔ نہ ہی امام دارقطنی پر حملہ کرتے کہ انہوں نے ایک قولِ تابعی کو حدیث بنا دیا ۔ اب مولوی چنیوٹی صاحب کا جاہلانہ چیلنج توڑنے سے پہلے اول ان کو فن حدیث کی الف ب اور حدیث کی تعریف ازسر نو یاد کروانی ہوگی(جسے وہ جماعت احمدیہ کے بغض و عداوت میں بھلا ہی چکے ہیں)۔

حدیث کی اصطلاحی تعریف

حنفی فقہ کے مشہور امام حضرت علامہ علی بن سلطان قاری، حدیث کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اصطلاحاً قول رسولؐ ، آپ کے فعل اور تقریر (آپ کے سامنے کئے گئے کام) کو حدیث کہتے ہیں۔ اسی طرح صحابہ اور تابعی کے قول کوبھی حدیث کہا جاتاہے۔
(شرح نخبۃ الفکر فی مصطلحات اھل الاثر صفحہ ۱۶۔ مکتبہ اسلامیہ میزان مارکیٹ کوئٹہ ۱۳۹۷؁ھ)
مگر بات صرف اتنی نہیں ۔ یہ روایت تو آئندہ زمانہ کی ایک عظیم پیشگوئی پر مشتمل ہے جیسا کہ خود چنیوٹی صاحب نے تسلیم کیاہے اور کوئی شخص آئندہ کی خبر از خود نہیں دے سکتا۔ اندریں حالات محدثین کے فیصلہ کے مطابق بوجہ پیشگوئی ہونے کے یہ موقوف حدیث بھی مرفوع حکمی حدیث کہلائے گی جیسا کہ علماء فن حدیث نے اس کی صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ھُنَاکَ صُوَرٌمِنَ المَوْقُوْفِ فِی اَلْفَاظِھَا و شَکْلِھَا……اَنَّہَامِنَ الْمَوْقُوْفِ لَفْظاً المَرْفُوْعُ حُکْماً وَ مِنْ ھٰذِہٖ الصُّوَرِ…… الاَخْبَارُ عَنِ الْاُمُوْرِ الْاٰ تِیَۃِ‘‘۔ (تیسیر مصطلح الحدیث ڈاکٹر محمود طحان صفحہ ۱۳۰،۱۳۱۔ فاروقی کتب خانہ بیرون گیٹ ملتان)
یعنی موقوف حدیث کی الفاظ اور شکل کے لحاظ سے کئی صورتیں ہیں جن میں لفظاً موقوف حدیث ، مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتی ہے۔ ان صورتوں میں ایک آئندہ آنے والے حالات کے بارے میں خبر دیناہے ۔
یہی بات علامہ علی بن سلطان محمد القاری نے بھی لکھی ہے ۔
(شرح نخبۃ الفکر صفحہ ۱۷۰،۱۷۱۔ مکتبہ اسلامیہ میزان مارکیٹ کوئٹہ ۱۳۹۷؁ھ)

روایت امام محمد باقر ؒکی سند

رہی یہ بات کہ امام باقر ؒ نے قال رسول اﷲ کے الفاظ استعمال نہیں کئے اس کی وجہ علامہ شمس الدین ذھبی نے حضرت امام باقر ؒ کے حالات میں کھول کر بیان کر دی ہے اور وہ یہ کہ حضرت امام محمد باقر ؒ کا یہ الگ انداز ہے کہ وہ اپنے باپ اور دونوں دادا (حسن و حسین رضی اﷲ عنہما) اور پڑدادا حضرت علیؓ سے مُرسل روایات کرتے ہیں۔ یعنی اپنے اور ان بزرگ آباء کے مابین واسطہ اور سند کے بیان کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔ اور یہ کوئی عیب یا قابلِ اعتراض بات نہیں بلکہ علامہ ذھبی نے حضرت امام باقر ؒکو کثیرالحدیث ثقہ تابعی تسلیم کیاہے ۔(تہذیب التہذیب جز ۹ صفحہ ۳۱۱ عبدالتواب اکیڈمی ملتان)
اب کہاں ہیں مولوی چنیوٹی صاحب جو امام محمد باقر ؒکی اس روایت کو حدیث ثابت کرنے پر دس ہزار کے انعامی چیلنج کی ڈینگ ہانک رہے تھے۔ علامہ ذھبی نے تو ان کے خلاف ڈگری کردی لیکن اگر یہ مان جائیں تو ’’مولوی‘‘ کیسے ثابت ہوں۔ ’’ملا آں باشد کہ چپ نشود‘‘۔ 
مولوی صاحب کہتے ہیں کہ اس روایت کے ساتھ قال رسول اﷲ ﷺ دکھاؤ۔ تو آئیے مولوی صاحب آخری اتمام حجت کے طور پر ہم آپ کو خود امام محمد باقرؒ کا یہ اصولی فیصلہ بھی سنا دیتے ہیں۔ جب امام باقر ؒ سے ان کی حدیث مرسل بلاحوالہ ٔ سند کے بارہ میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جب میں کوئی حدیث بیان کرتاہوں اور اس کی سند کو بیان نہیں کرتا تو اس کی سند اس طرح ہوتی ہے کہ مجھ سے میرے پدر بزرگوار نے بیان کیا اور ان سے میرے جدِّ نامدار امام حسین علیہ السلام نے اور ان سے ان کے جدّامجد جناب رسالتماب ﷺ نے فرمایا اور آپ سے جبریل امین نے بیان کیا اور ان سے خدا وند عالم نے ارشاد فرمایا۔
(کتاب الارشاد صفحہ ۲۸۴۔ بحوالہ بحارالانوار حصہ چہارم از ملا محمد باقر مجلسی۔ مترجم ڈاکٹر محمد حبیب الثقلین النقوی درحالات امام باقر محفوظ یک ایجنسی مارٹن روڈ کراچی )
اب کہاں ہیں چنیوٹی صاحب اور کہاں گیا ان کاانعامی چیلنج ؟
اس پہلے مغالطہ کا جواب دیتے ہوئے آخر میں ہم مولوی صاحب کے اس مطالبہ کو بھی پورا کر دیتے ہیں کہ کسی کتاب سے یہ حدیث دکھاؤ!
متعدد بزرگان سلف اور محدثین میں سے اس وقت بطور نمونہ ایک اہل سنت کا مستند حوالہ اور ایک شیعہ مسلک کاحوالہ پیش کیا جاتاہے جنہوں نے اس روایت کو باقاعدہ سند کے ساتھ بطور حدیث بیان کیاہے ۔
۱…… سپین کے مشہور مفسر علامہ شمس الدین قرطبی متوفّیٰ ۶۷۱؁ھ (اگر امام دارقطنی کا لحاظ نہیں تو علامہ قرطبی کا پایہ تو مولوی صاحب کو مسلم ہے جیساکہ ان کے رسالہ کے صفحہ ۱۶سے ظاہر ہے) نے اپنی کتاب التذکرہ فی احوال الموتٰی و امور الآخرۃ صفحہ ۶۱۹ مطبوعہ ۳۰ شارع عبدالخالق ثروت قاہرہ میں زمانہ مہدی کی علامات بیان کرتے ہوئے دارقطنی کی یہ حدیث مکمل سند کے ساتھ بصیغہ حدّثنا نقل کی ہے اور پوری اس روایت کے حدیث ہونے پرصاد کیاہے۔
اہل شیعہ کے رئیس المحدثین امام محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی نے الفروع من الجامع الکافی میں امام محمد باقر سے یہ حدیث مع سند صیغہ ٔتحدیث میں بیان کی ہے۔ (الفروع من الجامع الکافی کتاب الروضہ صفحہ ۱۰۰ مطبع نولکشور) ۔
اسی طرح شیعہ مسلک کے محدث اکبر علامہ قُمِّی (مُتوفّٰی ۳۸۱ھ) نے بھی چاند سورج گرہن کے اس نشان پرمشتمل حدیث صیغہ ٔ تحدیث میں حضرت امام محمدباقر ؒ سے اپنی کتاب اکمال الدین میں بیان کی ہے ۔ کیا اس تمام تحقیق حق کے بعد مولوی چنیوٹی صاحب میں یہ اخلاقی جرأت ہے کہ وہ اپنے چیلنج کو یوں پاش پاش ہوتے دیکھ کر مرد میدان بن کر انعامی چیلنج کا اپناوعدہ پوراکریں ۔ مگر ’’چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں‘‘ ۔ جن مولوی صاحب کا ہاتھ ہمیشہ سے خدا نے یدِ سُفلیٰ بنایا ہے وہ اب یدِعُلیا کیسے ہو سکتاہے۔ یہ تو ممکن نہیں۔ ایک ہی طریق ہے کہ اگر مولوی موصوف میں خدا ترسی ہے تو توبہ کرے، ورنہ پھر خدائی فیصلہ کا انتظار کرے۔

حضرت مرزا صاحب اور علامات مسیح و مہدی

دوسرا مغالطہ: مولوی چنیوٹی صاحب کا دوسرا مغالطہ انکا یہ بے بنیاددعویٰ ہے کہ مرزا صاحب کے حق میں مسیح و مہدی کی نشانیاں پوری نہیں ہوئیں۔ یعنی وہی گھِساپِٹا اعتراض جو ہر زمانہ کے منکرین اپنے مامور کے وقت پر کرتے چلے آئے ہیں ۔ اس کے مقابل پر حضرت مرزا صاحب کا ڈنکے کی چوٹ یہ دعویٰ ہے کہ منہاج نبوت کے مطابق جو ثبوت چاہومجھ سے لے لو۔یعنی آپ اپنی سچائی ثابت کرنے کے لئے تمام وہ اصولی دلائل پیش کرنے کو تیار ہیں جن سے گزشتہ انبیاء کی سچائی بالاتفاق ثابت ہے بلکہ آپ نے تمام ایسے نشانات قرآن و سنت سے موافق اپنے اوپر چسپاں کر کے دکھائے ۔ جن کا تفصیلی مطالعہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں کیا جا سکتاہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسیح و مہدی کی نشانیاں دراصل نبی کریمﷺ کے رؤیاء و کشوف کے حوالے سے احادیث میں بیان ہوئی ہیں ۔ یہ پیشگوئیاں استعاروں سے پُرہیں اور تعبیر طلب ہیں جبکہ مولوی حضرات ان کو ظاہر پر محمول کر کے انکار کر بیٹھے ہیں۔

راویوں کا ضعف

مولوی چنیوٹی صاحب نے دارقطنی کی روایت کی سند کے دو راویوں عمرو بن شمر اور جابر جعفی پراعتراض کیاہے کہ ان کی روایت بوجہ ضعف قابل قبول نہیں۔ہمار ا پہلا اور آخری اٹل جواب تووہی ہے جوخود حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ وہ حدیث جو لفظاً لفظاً پوری ہو کر اپنی سچائی ثابت کر چکی ہو اس کی سند کی بحث کی کیا حاجت اور ضرورت؟ ۔ کیاجھوٹـے کبھی سچ نہیں بو ل سکتے اور اگر ایک جھوٹا دن کے وقت گواہی دے کہ سورج نکلا ہواہے توکیا آپ اس لئے انکار کردیں گے کہ اس نے کبھی جھوٹ بولا تھا۔ پس و ہ بات جو پوری ہو چکی اور خدا کی فعلی شہادت اسے ثابت کرچکی اسے کوئی احمق ہی ضعیف یاناقابل قبول کہے گا۔
امام دارقطنی جیسے بلند پایہ محدّث کے ہاں قبول کئے گئے راویوں پراعتراض کر کے مولوی چنیوٹی صاحب نہ دوبارہ چاند پر تھوکنے کی جسارت کی ہے کہ یہ ان کی عادت ہی ہو چلی ہے اس لئے اس کا نتیجہ بھی بھگتناہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ ’’امیرالمومنین فی الحدیث‘‘ امام دارقطنی جیسے صاحب فن اور ناقدِ حدیث جو اپنی کتاب ’’التَّتَبّع‘‘ میں امام بخاری اورمسلم پر بھی تنقیدکرتے ہیں اور حدیث کی کمزوریوں اور علل و اسقامکاواقف ان سے بڑھ کر اورکوئی نہیں اور بقول علامہ ذھبی جو تنقید حدیث میں معتدل مزاج منصف ہیں۔ آخر انہوں نے ماہر فنِّ حدیث ہو کر ا س حدیث کی بلاوجہ تو سند قبول نہیں کرلی بلکہ بڑی بصیرت کے ساتھ یہ فیصلہ کیا اور اپنی تصنیف کتاب الضُّعفاء و المَتْروکین میں یہ عقدہ خود حل کردیا کہ عمرو بن شمر جب جابر اور جعفر بن محمد سے روایت کرے تو بے شک ناقبل قبول ہے۔ لیکن جابر جعفی جب آئمہ اہلبیت سے روایت کرے تو قابل قبول ہے۔
(کتاب الضعفاء و المتروکین تالیف علامہ ابوالحسن دارقطنی مؤسسہ الرسالہ)
یہ ہے وہ اصول جس کی بنا پر امام صاحب نے باوجود ضعف کے ان راویوں کی روایت قبول کی ہے اور امام صاحب کے اس فیصلہ کی سچائی اور صفائی پر چاند اور سورج گرہن کے نشان خودگواہ بن چکے ہیں۔ لیکن اگر چنیوٹی صاحب اس راوی کو کذّاب کہنے پر مصر ہیں تو ساتھ ہی انہیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس کذّاب سے بڑا غیب دان اور ولی اﷲ کوئی نہیں جس نے تیرہ سوسال پہلے ایسی پیشگوئی کی جو چودھویں صدی میں آ کرمن و عن پوری ہو گئی۔

غیر معمولی گرہن

تیسرا مغالطہ: تیسرا مغالطہ مولوی چنیوٹی صاحب نے یہ پیش کیا ہے کہ روایت کے مطابق لازم ہے کہ جب سے آسمان اور زمین بنے ہیں کبھی بھی ایسا گرہن نہ لگا ہو جبکہ مرزا صاحب کے زمانہ کاگرہن یہ خصوصیت نہیں رکھتا تھا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں’’ لَمْ تَکُوْنَا ‘‘مؤنث کا صیغہ ہے جس سے مراد آیتین ہیں نہ کہ خسوف۔ اور مراد یہ ہے کہ ایسا نشان کبھی ظہور میں نہیں آیا۔ اگر یہ معنی ہوتے جو مولوی صاحب نے مراد لئے تو ’’لَمْ یَکُوْنَا‘‘ کے الفاظ مذکر صیغہ میں ہوتے کہ ایساگرہن پہلے کبھی نہیں ہوا ۔
مزید برآں ہمارامطالبہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے لئے ا س نشان کے ظہور سے پہلے کسی ایسے گرہن کی مثال پیش کی جائے جسے کسی مدعی مہدویت نے اپنی سچائی کے ثبوت کے لئے پیش کیا ہو۔حضرت مرزا صاحب کا اس نشان کی نظیر لانے کی صورت میں گزشتہ ایک صدی سے ہزار روپیہ کا انعامی چیلنج موجود ہے مگر آج تک کوئی ایسی نظیر نہیں لاسکا۔ پس اس گرہن کو خارق عادت مانے بغیر چارہ نہیں ہے۔

چاند گرہن کی پہلی رات سے مراد

 چوتھا مغالطہ:چوتھا مغالطہ مولوی چنیوٹی صاحب کا یہ ہے کہ روایت کے الفاظ میں رمضان کی راتوں میں سے پہلی رات گرہن لگنے کا ذکر ہے جبکہ خسوف گرہن کی راتوں میں پہلی رات تیرہ تاریخ کوہوا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نشان ان صاحب بصیرت لوگوں کے لئے تھا جو لفظی بحث کی بجائے اس مضمون کا ادراک رکھتے ہیں کہ خسوف گرہن کی راتوں کے سوا نہیں ہوتا اور رمضان کی پہلی رات کی نفی تو اَفْصَحُ الْعَرَب ہمارے پیارے رسول ﷺ نے پہلی کے چاند ’’ہِلَال‘‘ کی بجائے لفظ’’قَمَر‘‘ استعمال کرکے خود فرما دی۔ پہلی رات کے چاند کے لئے نبی کریم ﷺ ہمیشہ’’ہلال‘‘ کالفظ ہی استعمال کرتے تھے اور یہ محاورہ اتنا عام ہے کہ ہمارے ہاں بھی رؤیت ہلال کمیٹی ہی پہلی کا چاند تلاش کرتی ہے نہ کہ رؤیت قمر کمیٹی۔
حضرت مرزا صاحب کی مخالفت میں پہلی رات کے چاند کوگرہن لگنے کا اصرار کرتے ہوئے یہ بھول ہی گئے کہ یہ مطالبہ نہ صرف قانون قدرت کے خلاف ہے بلکہ خلاف عقل بھی ہے کہ جو ہلال رؤیت ہلال کمیٹی کو نظر نہیں آتا گرہن لگ کر وہ کیا دکھائی دے گا اور اسے نشان کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ۔

’’فی النِّصْف مِنْہ‘‘ سے مراد

مولوی صاحب موصوف نے سورج کی تاریخوں کے بارہ میں بھی یہی اعتراض دہرایاہے کہ روایت میں رمضان کے ’’نصف‘‘میں گرہن لگنے کے الفاظ ہیں اور ۲۸؍تاریخ آخری تین تاریخوں کاوسط تو کہلا سکتی ہے نصف نہیں۔ اس کاجواب یہ ہے کہ ا س جگہ نصف کا لفظ زیادہ جامع اور فصیح ہے کیونکہ یہاں نصف سے مراد گرہن کی تاریخوں کا نصف ہے جس سے درمیانی تاریخ کے علاوہ گرہن کے معین وقت پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔ یعنی سورج گرہن ایسے طور پر ظاہر ہوگا کہ ایام کسوف کو نصف نصف کر دے گا ۔ اور کسوف کے دنوں میں دوسرے دن کے نصف سے تجاوز نہیں کرے گا کہ وہی نصف کی حد ہے جبکہ محض وسط کے لفظ سے یہ معنے پیدا نہیں ہوتے۔ اور یہ عجیب اور حیرت انگیزمعجزہ ہے کہ سورج گرہن کے نشان کا ظہور گرہن کے درمیانی دن اٹھائیس رمضان کے بھی درمیانی حصہ یعنی ۹بجے دن سے گیارہ بجے کے درمیان ہوا ۔ اس لحاظ سے نصف کے لفظ کی حکمت بھی سمجھ میں آ جا تی ہے ۔
پانچواں مغالطہ:پانچواں مغالطہ مولوی چنیوٹی صاحب نے یہ دیاہے کہ رمضان کی تیرہ اور اٹھائیس تاریخ کو اس سے پہلے کئی بار گرہن لگ چکا ہے جبکہ روایت کے مطابق ایساواقعہ اس سے پہلے نہیں ہونا چاہئے تھا۔
پہلے بھی واضح کیا جا چکاہے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان شرائط کے ساتھ پہلے کبھی ایسا نشان رونما نہیں ہوا ہوگا۔ یعنی یہ کہ امام مہدی کے دعویدار کے حق میں رمضان کی ان تاریخوں میں گرہن لگے ہوں اور اسے ایک مدعی مہدویت نے اپنی سچائی کے ثبوت کے طورپر پیش کیاہو۔
مولوی صاحب کی اطلاع کے لئے مزیدتحریر ہے کہ ہیئت دانوں نے تحقیق سے ثابت کیاہے کہ کم وبیش ہر بیس بائیس سال میں ایک سال یامتواتر دو سال ایسے آتے ہیں جبکہ چاند سورج کو رمضان کے مہینہ میں دنیا میں کسی نہ کسی حصہ میں گرہن لگتاہے لیکن کسی معین جگہ سے ، رمضان کی ان معین تاریخوں میں ، دونوں گرہن کا نظرآنا اس واقعہ کو غیرمعمولی اور نایاب بنا دیتا ہے ۔ چنانچہ گزشتہ دو صدیوں کے گرہنوں کامطالعہ کرنے کے بعد سائنسدان اس نتیجہ پرپہنچے ہیں کہ دو سو سال میں د س ایسے گرہن ہوئے ہیں ۔ ان میں سے ۱۸۹۴؁ء کا چاند و سورج گرہن ہی ایسا منفرد ہے کہ صرف وہ قادیان سے مقررہ تاریخوں میں نظر آ سکتاہے جہاں امام مہدی ؑ ہونے کا مدعی اپنی تائید میں اسے پیش کر رہا تھا۔ اور یہ صفت اسے واقعی ایک غیر معمولی نشان گرہن بنادیتی ہے ۔
چھٹا مغالطہ: چھٹا مغالطہ مولوی چنیوٹی صاحب کایہ ہے کہ انہوں نے چند مدعیان نبوت کے نام لکھ کر یہ ظاہر کیا ہے کہ ان کے زمانہ میں بھی ان تاریخوں میں رمضان میں چاند سورج کو گرہن لگاتھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ایسانشان پہلے کسی مدعی کے حق میں ظاہر ہو چکا ہے توکیا مولوی موصوف اس کو بطور امام مہدی قبول کر چکا ہے۔ ہرگز نہیں۔ ایسے جھوٹے مدعیان کوتو امت کے کسی ایک فرد نے بھی ان نشانوں کی وجہ سے سچا تسلیم نہیں کیا نہ ہی ان مدعیان نے گرہن کے یہ نشان اپنی تائید میں پیش کئے اور نہ مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔’’مدعی سست گواہ چست‘‘کی شاید اس سے بہتر مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔
یاد رکھنا چاہئے کہ حدیث کے الفاظ ’’لِمَھْدِینَا‘‘ میں لام منفعت کا ہے ۔ پس یہ نشان امام مہدی کی تائید و صداقت کے لئے مقرر ہیں۔ اگرکسی نے اپنی تائید کے لئے پیش نہیں کیا تو بھی وہ نشان اس کے لئے قرار نہیں پا سکتا بلکہ یہ صرف مہدی ٔ برحق کاہی نشان ہے۔ اور دیکھئے حضرت مرزا صاحب کس شان تحدی سے یہ نشان حلفاً اپنی تائید میں پیش کرتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں:
’’مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری تصدیق کے لئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیاہے ………… یہ وہی نشان ہے جس کی نسبت آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں وعدہ دیا گیا تھا اور وہ یہ ہے :
قُل عِنْدی شَھَادۃ مِنَ اللّٰہ فَھَل اَنْتُم مُؤمِنون۔ یعنی ان کوکہہ دے کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے کیاتم اسکو مانو گے یا نہیں…………غرض میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر قسم کھا سکتاہوں کہ یہ نشان میری تصدیق کے لئے ہے‘‘۔(تحفہ گولڑویہ صفحہ ۵۳،۵۴)
اس رسالہ میں مولوی صاحب نے بجا طورپر ماہر تاریخ ہونے سے انکار کرکے پہلی دفعہ مغالطہ سے کام نہیں لیا بلکہ ایک سچی حقیقت کا اعتراف کیاہے۔ کاش انہیں تاریخ کا علم ہوتا تووہ جانتے کہ ان تما م مدعیان نبوت کاانجام قرآنی معیار کے مطابق ہلاکت اور تباہی وبربادی کے سواکچھ نہیں تھا۔ یہ مولوی صاحب کا ہی حوصلہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی دشمنی میں ان مدعیان کے گواہ بن بیٹھے ہیں ۔ سچ ہے کند ہم جنس باہم جنس پرواز‘۔
ساتواں مغالطہ:ساتواں مغالطہ مولوی چنیوٹی صاحب نے لفظ ’’قَمَر‘‘ کی لغوی بحث کے حوالے سے پیش کیاہے کہ یہ لفظ پہلی رات کے چاند کے لئیـ بھی استعمال ہوتاہے۔ 
اس کا جواب تو یہی ہے کہ اگر یہ سچ ہے تومولوی صاحب کلام عرب سے کوئی ایک ایسی مثال پیش کر دیں جہاں پہلی رات کے چاند کے لئے ہلال کی بجائے قمر کا لفظ استعما ل ہواہو۔ مولوی صاحب موصوف کا لسان العرب کا پیش کردہ ادھورا حوالہ بھی انہیں چنداں مفیدنہیں بلکہ الٹا ہمارے مؤقف کی تائید کرتاہے کیونکہ اس کا ماحصل یہ ہے کہ ’’قَمَر‘‘ کا نام پہلی تین راتوں میں ’’ہلال‘‘ ہے جبکہ اس کے بعد وہ ’’قَمَر ‘‘کہلاتاہے۔
اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ہم کہیں مرد اپنی عمر کے ابتدائی دو تین سالوں میں بچہ کہلاتاہے مگراس کے باوجود کوئی عقل مند دو تین سالہ بچے کے لئے مرد کالفظ استعمال نہیں کرے گا۔ پس اگرحدیث رسول میں پہلی رات کو ہی گرہن لگنا مقصود تھا توافصح العرب رسول عربی ﷺ کی شان سے بعید تھاکہ آپ ہلال کو چھوڑ کر قمر کالفظ استعمال فرماتے جبکہ قرآ ن شریف بھی پہلی کے چاند کے لئے ہلال کی جمع (اھلّہ) کالفظ استعمال کرتاہے اور رسول خدا ﷺ نے خود احادیث میں متعدد مرتبہ ہلال کا لفظ پہلی کے چاند کے لئے استعمال فرمایا مگر کبھی ایسے چاند کو قمر نہیں فرمایا۔ مزید برآں حضرت امام محمد باقر ؒکی روایت میں کسوف کا قرینہ دلالت کرتاہے کہ اس سے مراد مکمل چاند ہے جس کو گرہن لگ سکتاہے نہ کہ ہلال جسے قانون قدرت کے مطابق گرہن لگنا ممکن ہی نہیں ۔
چاند کی پہلی رات کی کیفیت مراد ہوتو اس کے لئے کوئی اہل لغت قمر کا لفظ استعمال نہیں کرتا کیونکہ مولوی صاحب موصوف کی بیان کردہ لغت لسان العرب کے مطابق بھی اس کا نام ہلال ہی ہے ۔ پس قمر کے ساتھ لفظ کسوف کے قرینہ کی موجودگی میں کوئی صاحب فہم رمضان کی پہلی تاریخ کے ہلال کو گرہن لگنا مراد نہیں لے سکتا کیونکہ یہاں گرہن کی معمول کی تاریخوں ۱۳،۱۴،۱۵ میں سے پہلی تاریخ مراد لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

سنن دارقطنی کا درجہ 

 آٹھواں مغالطہ:آٹھواں مغالطہ مولوی چنیوٹی صاحب نے یہ دینے کی کوشش کی ہے کہ مرزا صاحب نے سنن دارقطنی کو صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے برابر کرنے کے لئے اسے صحیح دارقطنی کے طورپر پیش کیاہے۔
مولوی صاحب کی دیگر کذب بیانیوں کی طرح اس اتّہام کی قلعی بھی خود مرزا صاحب کے بیان فرمودہ مسلک سے خوب کھل جائے گی کہ محض صحیح کہلانے سے کوئی کتاب صحیح بخاری یا مسلم کے برابر کیسے ہو سکتی ہے ۔ لیکن پہلے مولوی صاحب یہ بتائیں کہ کیا سنن اربع صحاح کہلا کر بھی بخاری و مسلم کے برابر ہیں؟ کیا صحیح ابن عوانہ ، صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبّان صحیح کہنے کہلانے سے بخاری ومسلم کے برابر شمار ہو تی ہیں اور صحاح ستہ میں شامل سمجھی جاتی ہیں ؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر سنن دارقطنی محض صحیح کہنے سے کس طرح بخاری و مسلم کے برابر ہو جائے گی۔ دراصل یہ مولوی چنیوٹی صاحب کی سخت علمی خیانت اوردھوکہ دہی ہے یا پھر جماعت کے لٹریچر سے بے خبری اور لاعلمی ہے کیونکہ حضرت مرزا صاحب نے کبھی بھی دارقطنی کو بخاری و مسلم کے برابر درجہ نہیں دیا۔ ہاں اپنی ذاتی اصطلاح میں امام دارقطنی کے بلند پایہ کے باعث ان کی سنن کو صحیح کہا ہے ۔ وَلِکُلٍّ اَنْ یَّصْطَلِحَ ۔ورنہ درجہ صحت کے لحاظ سے حضرت مرز ا صاحب نے دارقطنی کو نہ صرف بخاری ومسلم سے کم تر بلکہ دیگر کتب صحاح ستہ کے بھی بعد تیسرے درجہ میں اس کا ذکر فرمایاہے ۔ اور کبھی بھی صحاح ستہ میں اسے شامل نہیں فرمایا۔ آپ نے اپنی بصیرت خداداد سے کتب حدیث کی جودرجہ بندی فرمائی اس کے مطابق اول درجہ پر بخاری کی وہ احادیث ہیں جو قران کے مخالف نہیں ۔ دوسری کتاب صحیح مسلم ہے جب تک قرآن اور صحیح بخاری کے مخالف نہ ہو اور تیسرے درجہ پر ترمذی ، ابن ماجہ ، مؤطا، نسائی، ابوداؤد، دارقطنی وغیرہ کتب حدیث ہیں۔
(ملاحظہ ہو کتاب آریہ دھرم صفحہ ۸۷)
حضرت مرزا صاحب نے کتب حدیث کی درجہ بندی کرتے ہوئے اپنی کتاب آریہ دھرم میں دارقطنی کے ساتھ صحیح کا لفظ استعمال نہ کر کے صاف ظاہر فرما دیاکہ جہاں ایک دو جگہ صحیح کا لفظ استعمال ہواہے وہ معروف اصطلاح سے ہٹ کر اپنے لغوی معنی میں یا محض ذاتی اصطلاح کے طور پر ہے ۔
مولوی چنیوٹی نے اپنی تاریک فطرت کا اظہار کرتے ہوئے اور سادہ لوح عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے امام دارقطنی کی تائید میں بلند پایہ ائمہ ، محدثین اور ناقدین کے تمام تعریفی حوالوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کے خلاف علامہ عینی کا ایک ایسا حوالہ پیش کیاہے جسے علماء سلف پہلے ہی سختی سے رد ّکر چکے ہیں۔ اس حوالہ کا ایک حصہ یہ ہے کہ امام دارقطنی سے فاتحہ سے پہلے بِسْمِ اللّٰہ جہراً پڑھنے کی احادیث کی صحت کے بارہ میں (جو انہوں نے اپنی سنن دارقطنی میں بیان کی ہیں) استفسار کیا گیا تو انہوں نے برملا اعتراف کیاکہ ان میں سے ایک حدیث بھی صحیح نہیں ۔ اب ظاہر ہے کہ یہ حوالہ تو امام صاحب کی تنقید کی بجائے ان کی تائید کرتاہے کہ انہوں نے کمال صفائی سے اور سچائی سے غیر صحیح حدیث کو صحیح قرار نہیں دیا اور یہی اس امام عالی شان کی دیانت ہے جو ان کا رتبہ اور بڑھا دیتی ہے ۔ اگروہ کمزور احادیث کو صحیح قرار دے کر پیش کرتے تو یہ بات موجب اعتراض ہو سکتی تھی۔ لیکن صحت و سقم جانتے ہوئے اسے ظاہر کردینا تو بجائے خود وسعت علم کی نشانی ہے نہ کہ جائے اعتراض۔ مگر پھر بھی اس حوالہ میں سنن دارقطنی پرعلامہ عینی نے جو تنقید کی ہے اسے علماء حدیث نے ہرگز قبول نہیں کیا۔ چنانچہ علامہ شمس الحق عظیم آبادی شارح دارقطنی لکھتے ہیں:
’’شیخ بدرالدین عینی رحمۃ اﷲ نے النہایۃ شرح ہدایہ میں قرأت کی بحث میں علامہ دارقطنی کے کے بارے میں جو کچھ تنقید کی ہے و ہ کمزور قرار دئے جانے کے لائق ہے اور قابلِ التفات نہیں بلکہ یہ تبصرہ ان کی بے ادبی اور قلتِ حیاء کی علامت ہے۔ کیونکہ جب متقدمین میں سے بڑے بڑے امام جن میں محمد عبدالغنی مصری، امام حاکم نیشاپوری، امام طبری، علامہ خطیب بغدادی اور امام زھری جیسی بلند پایہ شخصیات شامل ہیں اور متاخرین میں سے علامہ سمعانی ، علامہ ابن اثیر ، علامہ ذھبی اور علامہ نووی جیسے ائمہ نے دارقطنی کو ثقہ قرار دے کر ان کی تعریف کی ہے توان عظیم الشان علماء کے مقابلہ میں تنہا شیخ عینی رحمۃ اﷲ کی کیاوقعت باقی رہ جاتی ہے‘‘۔
(سنن دارقطنی صفحہ ۹ مع التعلیق المغنی مطبوعہ دارالمحاسن للطباعۃ ۲۴۱
 شارع الجیش القاہرہ)
مناسب معلوم ہوتاہے کہ یہاں امام دارقطنی اور ان کی کتاب کے حق میں ان آراء کا بھی ذکر کر دیا جائے جن کے بارے میں مولوی چنیوٹی صاحب نے یا تو اخفاء کر کے بددیانتی سے کام لیا ہے یا پھر وہ ان آراء سے بے خبر محض ہیں۔

امام دارقطنی کا بلند مقام

(۱)امام حاکم نیشاپوری متوفی ۴۰۵؁ھ :محدثین اور راویوں کے حالات پرمشتمل مشہور کتاب تذکرۃ الحفاظ میں امام ذھبی نے مستدرک حاکم کے مؤلف علامہ حاکم نیشاپوری کا یہ قول درج کیاہے :
’’امام دارقطنی حفظ فہم اور ورع میں یکتائے روزگار تھے ۔ نیز قراء اور نحاۃ(علم نحو) کے امام تھے ۔ میں نے ۳۶۷؁ھ میں چار ماہ بغداد میں قیام کیا ۔ اس سلسلہ میں اکثر ان سے ملنے کااتفاق رہا۔ میں نے جیسے سنا تھا ان کواس سے بھی زیادہ پایا ۔ میں نے علل حدیث اور شیوخ کے متعلق ان سے بہت سے سوالات حل کئے۔ ان کی متعدد مفید تصانیف ہیں…………میں شہادت دیتاہوں کہ انہوں نے اپنے پیچھے روئے زمین پراپنے جیسا کوئی آدمی نہیں چھوڑا‘‘۔
(تذکرۃ الحفاظ اردو جلد ۳ طبقہ ۱۲ صفحہ ۶۷۰ ۔ زیر لفظ دارقطنی )
(۲) امام علامہ علی بن سلطان محمد القاری متوفی ۱۰۱۴؁ھ۔ فرماتے ہیں:
’’(امام ) دارقطنی نے اہل بغداد کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ اے اہل بغداد ! تم مت گمان کرو کہ کوئی شخص رسول اﷲ ﷺ پر میری زندگی میں جھوٹ بولنے کی جسارت کرسکتاہے‘‘۔
(شرح نخبۃ الفکر صفحہ ۱۲۳ ۔مکتبہ اسلامیہ مارکیٹ کوئٹہ ۱۳۹۷؁ھ)
(۳) حافظ ابوبکر خطیب بغدادی متوفی (۴۶۳؁ھ) کے نزدیک:
’’مشہور امام دارقطنی ایک نابغہ ٔ روزگار وجود تھے ۔ آپ امام وقت تھے ۔ علم حدیث اور اس کی کمزوریوں کی پہچان، علم اسماء الرجال اور راویوں کے صدق و امانت اور عدالت و صحت کی جانچ آپ پر ختم ہے۔ آپ کو رؤیا میں بتایا گیا کہ دارقطنی جنت میں بھی امام کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں‘‘۔
(الاکمال فی اسماء الرجال از علامہ خطیب زیر دارقطنی)
(۴) علامہ ابن منصور سمعانی متوفی ۵۶۲؁ھ کے مطابق:
’’امام دارقطنی ان ماہر حفاظ میں سے ہیں جو کثرت سے روایت کرتے ہیں اور حافظہ میں ان کو بطور ضرب المثل پیش کیا جاتاہے گویا اپنی مثال آپ ہیں‘‘۔(الانساب جز ثانی صفحہ ۴۳۸ دارالحنان) 
(۵)علامہ نووی شارع مسلم متوفی ۶۷۶ ؁ھ کا بیان ہے کہ :
’’حفاظ حدیث کی وہ جماعت جن کی تصانیف نے بہت شہرت پائی اور عظیم الفائدہ ہیں ان میں دارقطنی بھی شامل ہیں‘‘۔(سنن دارقطنی مع التعلیق المغنی صفحہ ۹ دارالمعرفہ بیروت)
(۶)علامہ حافظ عمادالدین ابن کثیر متوفی ۷۷۴؁ھ فرماتے ہیں:
’’احادیث پر نظر ،تنقید اور ان کی فنی کمزوریوں کو جانچنے کے اعتبار سے امام دارقطنی نہایت بلند پایہ امام تھے ۔ اپنے زمانہ میں فن اسماء الرجال علل اور جرح و تعدیل کے امام اور فن روایت و درایت میں مکمل دستگاہ رکھتے تھے ‘‘۔(الہدایہ والنہایۃ جلد ۱۱ صفحہ ۳۱۷ مکتبہ معارف بیروت)
(۷)علامہ شمس الدین ذھبی متوفی ۷۴۸ ؁ھ کی رائے ہے کہ :
’’دارقطنی کی وسعت علم، قوت، حافظہ اور فہم کے آگے انسان کو سر جھکانا پڑتاہے۔ اگر آپ چاہیں کہ اس عظیم امام کی مہارت علم معلوم کریں تو ان کی کتاب العلل کا مطالعہ کریں ۔ آپ حیران و ششدر اور طویل تعجب میں مبتلا ہو کر رہ جائیں گے ‘‘۔
(تذکرۃ الحفاظ جلد ۳ صفحہ ۱۸۹ مطبع دائرہ المعارف نظامیہ حیدرآباد دکن ۱۳۳۴؁ھ)
آخر میں مولوی چنیوٹی صاحب نے یہ سوال اٹھایاہے کہ کیا مرزا صاحب کے نصیب میں ذخیرہ ٔ حدیث میں صرف یہی ایک روایت رہ گئی ہے اور یہ کہ احادیث کے مطابق مرزا صاحب میں علامات مسیح پوری نہیں ہوتیں۔
کا ش مولوی صاحب کو چشم بصیرت عطا ہوتی تو وہ دیکھتے کہ مرزا صاحب کی صداقت کے حق میں تو سارا قرآن اور تمام ذخیرہ ٔ احادیث شہادت دے رہاہے تبھی تومرزا صاحب ڈنکے کی چوٹ یہ اعلان کرتے ہیں کہ منہاج نبوت پر جو ثبوت چاہو مجھ سے لے لو۔
حضرت مرزا صاحب کا مجددانہ کارنامہ تو یہ ہے کہ آپ نے بخاری کی پیشگوئی کے مطابق
 کسر صلیب کرتے ہوئے قرآن کی تیس آیات سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کرکے دکھائی جس سے باطل دجالی مذہب کی ساری عمار ت دھڑام سے زمین پر آ گری اور بقول مولوی نور محمد نقشبندی:
’’آپ نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دی یہاں تک کہ ان کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا‘‘۔
(دیباچہ معجز نما کلاں قرآن شریف مترجم ۔ از مولانا شاہ اشرف علی تھانوی ۔نور محمد مالک کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی)
آپ ہی وہ منفرد مدعی ہیں جو مسلم کی حدیث کے مطابق دمشق کے عین مشرق میں قادیان میں تشریف لائے ۔وہی مشرق جہاں سے رسول اﷲ نے فتنے پھوٹنے کی خبر دی تھی اورجہاں دجال کے ساتھ دلائل سے مقابلہ کر کے علمی اور روحانی میدان میں اسے شکست دی جانی تھی۔بخاری میں دین کے لئے جنگوں کو موقوف کردینے کی خبر آ پ کے ذریعہ پوری ہوئی۔ حضرت مرزا صاحب ہی وہ مسیح موعود ہیں جو بخاری میں بیان فرمودہ اس حلیہ کے عین مطابق تشریف لائے جو رسول اﷲ ﷺ نے عالم رؤیا میں دجال کے پیچھے طواف کعبہ کرتے ہوئے دیکھا اور جو مسیح ناصری کے حلیہ سرخ رنگ اور گھنگھریالے با ل سے جدا حلیہ ہے یعنی گندمی رنگ اور سیدھے بال ۔ آپ کے طواف کعبہ سے مراد اسلام کی حفاظت تھی سو وہ آپ سے ظہور میں آئی۔ آپ نے ایک ایسی جماعت کی بنیاد رکھی جس کے بارے میں علامہ اقبال بھی کہہ اٹھے کہ تمام مسلما ن فرقوں میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت احمدیہ میں ہے ۔
پس آ ج دنیا کا امن اور نجات اسی جماعت سے وابستہ ہے ۔ آج جس قدر فتنے اور خرابیاں تمام عالم اور بالخصوص عالم اسلام میں آپ کو دکھائی دیتی ہیں ان کا ایک ہی علاج ہے کہ آسما ن سے جو روحانی قیادت اتاری گئی ہے اسے قبول کر لیا جائے ۔ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ کے ماموروں کو قبول کرنے والے ہی مصائب اورفتنوں سے بچائے جاتے ہیں۔ پس آج بھی نجات کی یہی ایک راہ ہے ۔
مولوی چنیوٹی صاحب کہتـے ہیں کہ ایک صدی بعد جماعت احمدیہ کے موجودہ امام کو بھی ملک چھوڑ کر برطانیہ پناہ لینی پڑی۔ وہ یہ غور نہیں کرتے کہ مرزا صاحب تن تنہا مسیح و مہدی کا دعویٰ لے کر کھڑے ہوئے تھے اور اعلان کیا تھا کہ میرے خدا نے مجھے بتایاہے کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔ اور آج جماعت احمدیہ ۱۵۸ممالک میں کروڑوں کی تعداد میں پہنچ چکی ہے ۔ مولوی صاحب کو عیسائی اور یہودی بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں مگر جماعت احمدیہ کا وہ حدود پھلانگ جانے والا اضافہ ان کو نظر نہیں آتا جو چند سالوں میں لاکھوں سے ہوتا ہوا کروڑوں میں داخل ہو رہا ہے اور جماعت احمدیہ اپنی دوسری صدی کے آغاز میں ہی اپنے اندر فوجوں کے داخلے کے حسین نظارے دیکھ رہی ہے جو قرآن شریف کے بیان کے مطابق فتح ونصرت کے نقارے قرار دئے گئے ہیں۔ صر ف۱۹۹۹؁ء کے اس سال میں جماعت احمدیہ میں ایک کروڑ آٹھ لاکھ سے زائد افراد دنیا بھر سے داخل ہوئے۔ فالحمدﷲ علی ذلک۔
ترقیات میں یہ تیزی ہمارے موجودہ امام کی اس ہجرت کے بعد دیکھنے میں آئی ہے جو پاکستان کے پیش آمدہ حالات میں سنت رسول کے مطابق ان کو کرنی پڑی ، جو اپنی ذا ت میں خود ایک نشان ہے نہ کہ جائے اعتراض۔ کیونکہ ہجرت مدینہ کی طرح اس ہجرت کی برکات اور فتوحات بھی عظیم الشان ہیں جن کے نتیجہ میں یورپ میں ایک انقلاب رونما ہو رہاہے اور مغرب اسلام کے سورج کے طلوع کا نظارہ پیش کررہاہے۔آج لندن سے MTA (مسلم ٹی وی احمد یہ) انٹرنیشنل کی نشریات ساری دنیا میں جا رہی ہیں اور اسلام کا پیغام کُل عالم میں پہنچایا جا رہاہے ۔ آج جماعت احمدیہ سو سے زیادہ زبانوں میں قرآن مجید کی منتخب آیات کے تراجم شائع کرچکی ہے اور۵۳زبانوں میں مکمل تراجم قرآن شائع ہو کر مختلف ممالک اور اقوام کے ہاتھوں میں ہیں ۔ کیا یہ حیرت انگیز انقلاب نہیں کہ وہ تنہا آواز آج ۱۵۸ممالک میں کروڑوں آوازوں میں بدل چکی ہے ۔ مولوی حضرات تعاقب کرتے کرتے تھک گئے پر جماعت احمدیہ کی ترقی کو نہ روک سکے اور نہ روک سکیں گے ۔ بے شک یہ ترقیات حسد کی آگ بھڑکائیں گی اور بھڑکا رہی ہیں جس میں جلنا دشمنان احمدیت کا مقدربن چکاہے ۔کیا حکومتوں کی سرپرستی کے باوجود مخالفین کی یہ ناکامیاں اور جماعت کی واضح کامیابیاں اس کی سچائی کا نشان نہیں۔ یقینا ہے ۔مگر بصیرت والی آنکھ کے لئے ۔فاعتبروا یا اولی الابصار۔

نقل کردہ از :
الفضل انٹرنیشنل ۱۵ ؍اکتوبر۱۹۹۹  تا۲۱؍اکتوبر ۱۹۹۹
الفضل انٹرنیشنل ۲۲ ؍اکتوبر ۱۹۹۹ تا۲۸؍اکتوبر ۱۹۹۹
مکمل تحریر >>