Wednesday 20 February 2019

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے اخلاقِ حسنہ کے چند ایمان افروز نمونے






حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے اخلاقِ حسنہ کے چند ایمان افروز نمونے
رقم فرمودہ :  شیخ محمد اسماعیل پانی پتی صاحب


 1924ء میں جب حضرت صاحب لندن تشریف لے گئے توواپسی پر آپ پانی پت کی طرف سے گزرے۔اس کا اعلان الفضل میں پہلے سے ہوگیاتھا۔ وقت مقررہ پر پانی پت کے احمدی حضور کوخوش آمدید کہنے کیلئے سٹیشن پرآئے۔شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالیؔ کے فرزند جناب خانصاحب خواجہ سجاد حسین بھی آپ کی آمد کی خبر سن کر سٹیشن پرآپ سے ملنے آئے۔جب گاڑی سٹیشن پر آکر رکی توتمام احمدی احباب حضورسے شرف مصافحہ حاصل کرنے اورآپ کی زیارت کرنے کیلئے فوراً اُس درجہ میں چڑھ گئے جس میں حضور سوارتھے۔میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ مولانا حالی کے لڑکے خواجہ سجاد حسین صاحب بھی آپ سے ملنے سٹیشن پر آئے ہوئے ہیں اورنیچے پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں وہ غیر احمدی ہیں اگرآپ ان سے ملنا چاہیں تو میں ان کو اندر درجے میں بلالوں۔حضرت صاحب نے فرمایا نہیں میں خود نیچے اترکر ان سے ملوں گا۔یہ فرماکر فوراً حضور کھڑے ہوئے اورپلیٹ فارم پر اترکر خواجہ صاحب سے نہایت تپاک کے ساتھ ملے اورگاڑی کے روانہ ہونے تک برابر ان سے باتیں کرتے رہے انہوں نے پانی پت کی بالائی تحفہ کے طورپر پیش کی جو آپ نے نہایت خندہ پیشانی سے قبول کی۔
یہی خواجہ سجاد حسین صاحب1928ء میں حضرت استاذی المحترم ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی دعوت پر جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے قادیان تشریف لائے۔ حضرت صاحب نے قصر خلافت میں خاص طورپر ان کوملاقات کا شرف بخشا ا وردروازہ تک خود ان کولینے کے لئے تشریف لائے اوربڑے اعزاز کے ساتھ ان کو اپنے اس گدیلے پر بٹھایا جس پر خودحضورتشریف رکھتے تھے۔خاکسار راقم الحروف بھی پانی پت سے خواجہ سجاد حسین صاحب کے ساتھ آیاتھااوراس وقت موجود تھا۔
حضرت صاحب نے خواجہ صاحب سے فرمایا۔ ’’آپ نے بڑی تکلیف کی جو اس ضعیفی اورپیرانہ سالی میں سفر کی صعوبت اٹھاکر یہاں تشریف لائے آپ کو یہاں کے قیام میں کوئی تکلیف تونہیں ہوئی ۔‘‘خواجہ صاحب نے فرمایا ’’الحمدﷲ میں بہت ہی آرام سے ہوں اورمجھے یہاں کسی قسم کی تکلیف نہیں بالکل گھر کاساآرام مل رہا ہے۔ جلسہ میں شامل ہوکر مجھے بہت خوشی ہوئی اور الحمدﷲ میں نے یہاں کاماحول نہایت دیندارانہ پایا۔‘‘
گفتگو کے دوران میں حضرت صاحب نے فرمایا: ’’خواجہ صاحب! میں آپ کے والد مولوی الطاف حسین حالی صاحب کا نہایت ممنون ہوں۔انہوں نے مجھے ایک نصیحت میرے بچپن میں کی تھی جو آج تک مجھے یاد ہے اورمیں اکثر اس کاذکر مختلف موقعوں پر کرچکا ہوں۔‘‘
خواجہ سجاد حسین صاحب مرحوم نے نہایت تعجب کے ساتھ پوچھا کہ والد مرحوم مولانا حالیؔکے ساتھ آپ کا کیا واقعہ ہوا تھا اور وہ کب اور کہاں آپ سے ملے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے فرمایا:
خواجہ صاحب مولانا حالی سے میری ملاقات توکبھی نہیں ہوئی۔مگر ایک خط میں نے ان کو ضرور لکھا تھا جس کا انہوں نے جواب دیاتھا۔میرے خط اوران کے جواب کی تفصیل یہ ہے کہ بچپن میں مجھے شاعری کاشوق پیداہوا تومیں نے سوچنا شروع کیا کہ اپنے شعروں کی اصلاح کس سے لیاکروں۔میں کئی دن تک اس بات کو سوچتارہااورآخر کار میرے دل میں یہ خیال آیا کہ مولوی الطاف حسین حالیؔسے بہتر سارے ہندوستان میں کوئی اورشاعر اس وقت نہیں(کیونکہ وہ اپنی مسدس کی بدولت تمام ملک میں بہت مشہور ہوچکے تھے۔)پس ان ہی کوشاعری میں اپنا استاد بنانا چاہیے۔یہ سوچتے ہی میں نے انہیں پانی پت میں خط لکھا کہ ’’میں ابھی چھوٹا بچہ ہوں مگر مجھے شعرکہنے کا بڑاشوق ہے اورمیں شاعری میں آپ کو اپنا استاد بنانا چاہتاہوں۔اگرمیں یہاں سے اپنے اشعار اوراپنی نظمیں آپ کولکھ کر بھیج دیاکروں اوران کی اصلاح کرکے آپ مجھے واپس بھیج دیاکریں تومیں آپ کی اس مہربانی اورعنایت کا نہایت شکرگزار ہوں گا۔‘‘
مولانا حالیؔنے میرے خط کا فوراًجواب دیا۔اس خط میں انہوں نے مجھے لکھا تھاکہ ’’میاں صاحبزادے! تمہاراخط پہنچا جس میں تم نے اپنے شوق کا ذکر کیا ہے اوراس شوق میں مجھے اپنا استاد بنانا چاہاہے۔میاں اس سلسلہ میں میری نصیحت تمہیں یہی ہے کہ شاعری بے کاری کا دھندا ہے ۔اس فضول جھنجھٹ میں نہ پڑو۔اس وقت تمہاری عمرشاعری کی نہیں بلکہ تحصیل علم کی ہے۔پس نہایت دل لگا کر اوربالکل یکسو ہوکر علم حاصل کرو۔جو وقت شاعری جیسے بے کار شغل میں گنوانا چاہتے ہووہ تحصیل علم میں صرف کرواورکسی طرف خیال اوردھیان کونہ لگاؤ۔جب لکھ پڑھ کر فارغ ہوجاؤ گے اوربڑے ہوکر فکر معاش سے بھی فراغت ہوگی تو اُس وقت شاعری بھی کرلینا کون سی بھاگی جارہی ہے۔‘‘
یہ واقعہ بیان کرکے حضرت صاحب خواجہ صاحب سے فرمانے لگے کہ ’’خواجہ صاحب ! جب میں نے یہ خط آپ کے والد صاحب کو لکھاتھا اس وقت میں بچہ تھا اوراب بوڑھا ہوگیا ہوں مگراب بھی جب کبھی مجھے مولانا حالیؔکی یہ نصیحت یاد آتی ہے توبڑی پیاری لگتی ہے اورمیں خیال کرنے لگتا ہوں کہ واقعی مولانا حالی نے مجھے بہت ہی عمدہ اورنہایت نیک مشورہ دیاتھا۔مجھے اس نصیحت میں ہمیشہ مولانا کا خلوص جھلکتا ہوانظر آتاہے اوربے اختیار ان کی نیکی اورشرافت کی تعریف کرنے کودل چاہتاہے۔‘‘
حضرت صاحب کی زبان سے یہ واقعہ سن کر خواجہ سجاد حسین صاحب نے کہا کہ آپ نے ٹھیک فرمایا۔ والد صاحب مرحوم کا قاعدہ تھا کہ وہ لوگوں کو شعر کہنے سے روکتے اور اپنے شاگرد بننے سے منع کیا کرتے تھے کیونکہ لوگوں نے بیکار اور فضول شعر کہنا اپنا پیشہ بنا لیا ہے اور اس سے وہ کام نہیں لیتے جو درحقیقت لینا چاہیے۔ اسی لیے ہماری شاعری بیکاری کا مشغلہ بن کر رہ گئی ہے اس کے بعد کچھ متفرق باتیں ہوتی رہیں اورآدھ گھنٹے کی نہایت دلچسپ ملاقات کے بعد یہ صحبت ختم ہوئی۔

تقسیم ملک کے بعد 1947ء میں جب حضور قادیان سے ہجرت فرماکر پاکستان تشریف لائے اور لاہور کے رتن باغ میں قیام فرمایا توابتدا میں بہت سے لوگ ایک انتظام اورتنظیم کے ماتحت بسوں میں قادیان جاتے اورواپس آیاکرتے تھے۔ایک روز شام کے وقت رتن باغ کے لان میں ایک کارکن نے لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ اعلان کیاکہ ’’کل صبح سویرے جوقافلہ قادیان کے لئے روانہ ہورہاہے اس میں جوجوآدمی شامل ہوکرقادیان جاناچاہیں وہ نماز مغرب کے فوراً بعد یہاں حاضر ہوکر اپنے اپنے نام لکھوادیں۔‘‘
چونکہ یہ اعلان لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ بہت بلند آواز سے کیاگیا تھا۔لہٰذا حضرت صاحب نے بھی اپنے کمرہ میں سنا اورفوراً ایک صاحب کے ہاتھ کہلا بھیجا کہ ابھی ابھی جواعلان ہوا ہے یہ بالکل غلط ہے میر ی طرف سے لاؤڈ سپیکر پر یہ اعلان کردیاجائے کہ ’’جو جو حضرات کل صبح قادیان تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے ہوں وہ نماز مغرب کے بعد ازراہ کرم دفترمیں تشریف لے آئیں تاکہ ان کے اسم ہائے گرامی نوٹ کرلئے جائیں اورسفر کے لئے جوضروری ہدایات ہوں وہ بھی انہیں سمجھادی جائیں‘‘۔
حضور کے اعلیٰ اورشریفانہ طرز تخاطب کا یہ واقعہ کتنااچھا نمونہ ہے جو میں نے دیکھا ہے۔

ایک دعوت میں جس میں میں بھی حاضر تھا منتظمین نے حضرت صاحب کے بیٹھنے کے لئے خاص الخاص اہتمام کیا ۔دری پر ایک قالین بچھائی ،ایک بڑاگاؤ تکیہ لگایا۔کھانے کی کئی پلیٹیں آپ کے آگے دسترخوان پر قرینے سے لاکررکھیں۔جب حضرت صاحب تشریف لائے توآپ نے اس سازوسامان اورخاص انتظام و انصرام کودیکھ کر فرمایا کہ ’’یہ تکیہ میرے لئے خاص طورپر کیوں لگایاگیاہے اوریہ قالین خاص میرے لئے کیوں بچھائی گئی ہے۔اٹھاؤ دونوں چیزوں کو جس طرح اورتمام احباب بیٹھے ہوئے ہیں میں بھی سب کے ساتھ اسی طرح بیٹھوں گا۔‘‘
حکم کی تعمیل میں دونوں چیزیں فوراً اٹھالی گئیں اورحضورسب لوگوں کے ساتھ دری پر بیٹھ گئے اوربیٹھتے ہی اپنے دائیں بائیں بیٹھنے والے احباب سے فرمایا کہ آپ صاحبان اتنے الگ الگ اوردوردور کیوں بیٹھے ہیں میرے پاس آکر بیٹھیں۔پھرفرمایا کہ یہ چارپانچ پلیٹیں میرے سامنے کیوں لاکر رکھی گئی ہیں جب کہ تمام حاضرین کے سامنے ایک ایک پلیٹ ہے یہ سب اٹھاؤ اورصرف ایک پلیٹ رہنے دو۔میں کوئی دیو تونہیں جوچار پانچ پلیٹیں بھر کر کھاؤں گا۔اس کے بعد جب منتظمین نے کھانا تمام مہمانوں کے آگے رکھ دیا توحضور نے بلند آواز سے فرمایا کہ کیا کھانا سب دوستوں کے پاس پہنچ گیا ہے۔اس پر ایک صاحب نے کھڑے ہوکر کہا کہ’’ حضور میرے آگے کھانا نہیں آیا‘‘اس پر حضور نے منتظمین کو ہدایت کی’’ ان صاحب کو فوراً کھانا پہنچاؤ‘‘ایک دومنٹ کے بعد حضور نے پھر ان صاحب کو مخاطب کرکے بلند آواز سے پوچھا کہ ’’کیاآپ کوکھانا پہنچ گیا ،جب ان صاحب نے کہا ’’ہاں حضور پہنچ گیا ہے۔‘‘تب حضور نے احباب سے فرمایا کہ ’’الحمدﷲ کہہ کر کھانا شروع فرمائیں۔‘‘
(ماہنامہ انصاراﷲ جنوری1966ء صفحہ23تا28)
مکمل تحریر >>