Wednesday 22 February 2017

تہجد کے لیے اٹھنے کے تیرہ طریق



’’سوال یہ ہے کہ تہجد پڑھنی تو ضرور چاہئے مگر رات کو اٹھیں کیونکر؟ اس کا ایک ادنیٰ طریق مَیں پہلے بتا تا ہوں۔ اگر چہ اس میں نقصان بھی ہے مگر فائدہ بھی ہو سکتاہے۔ اور وہ یہ ہے کہ آج کل الارم والی گھڑیاں مل سکتی ہیں ا ن کے ذریعہ انسان جاگ سکتاہے۔ مگر میرا تجربہ ہے کہ یہ کوئی ایسا مفید طریق نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کو بھروسہ ہوجاتاہے کہ وہ مجھے وقت پر جگا دے گی اس لئے رات کوا ٹھنے کی نیکی کی طرف جو توجہ اور خیال ہوناچاہئے وہ اس کو نہیں ہوتا۔ اگر اسے اٹھنے کا خیال ہوتا اوراسی خیال میں ہی اس کی آنکھ لگ جاتی تو گویا وہ ساری رات ہی عباد ت کرتا رہتا۔
اس کے علاوہ کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ اگر اٹھنے کو جی نہ چاہے تو انسان بجتے بجتے الارم کو بند کردیتاہے۔
 لیکن اگر نیت اورارادہ سے سوئے گا تو وقت پر ضرور اٹھ کھڑا ہوگا۔ 
پھر ایسے لوگ جو گھڑی کے ذریعہ اٹھتے ہیں وہ اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ نماز میں نیند آتی ہے۔ اس کی بھی وجہ یہی ہے کہ وہ گھڑی سے اٹھتے ہیں نہ کہ اپنے طورپر ۔اس لئے یہ طریق کوئی مفید نہیں ہے۔ ہاں ابتدائی حالت کے لئے یا کسی خاص ضرورت کے وقت مفید ہوتاہے۔
میرے نزدیک وہ طریق جن سے رات کو اٹھنے سے مدد مل سکتی ہے تیرہ(13) ہیں۔ اگر کوئی شخص ان پر عمل کرے تو مَیں یقین رکھتاہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اسے ضرور کامیابی ہوگی۔ شروع میں تو ہر کام میں مشکلات ہوتی ہیں مگر آخر کار ضروران میں کامیابی ہوگی۔یہ سب باتیں جو مَیں بیان کروں گاوہ قرآن وحدیث سے ہی اخذ کی ہوئی بیان کروں گا نہ کہ اپنی طرف سے ۔ مگر یہ خداتعالیٰ کا مجھ پرخاص فضل ہے کہ یہ باتیں مجھ پرہی کھولی گئی ہیں۔اور اَوروں سے پوشیدہ رہی ہیں۔ اگر وقت تنگ نہ ہوتا تو مَیں قرآن کریم کی وہ آیات اور حدیثیں بھی بیان کردیتا جن سے مَیں نے اخذکی ہیں مگر اب صرف نتائج ہی بیان کروں گا۔

پہلا طریق

پہلا طریق یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے نیچر میں قاعدہ رکھاہے کہ جس وقت میں کوئی چیز پیداہوئی ہے وہی وقت جب دوسری دفعہ آئے تو اس چیز میں پھر جوش پیدا ہوجاتاہے۔ اس کی مثالیں کثرت سے مل سکتی ہیں۔ مثلاً انسان کوجو بیماری بچپن میں ہووہی بیماری بڑھاپے میں جبکہ بچپن کی سی حالت ہو جاتی ہے عود کر آتی ہے۔ یہی بات درختوں اورپرندوں میں پائی جاتی ہے۔ اس قاعدہ سے رات کو اٹھنے میں مد د مل سکتی ہے کہ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد کچھ عرصہ ذکر ا لٰہی کرلے ۔اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ جتناعرصہ وہ ذکرکرے گا صبح اتناہی قبل اس کی آنکھ ذکرکرنے کے لئے کھل جائے گی ۔

دوسرا طریق

دوسرا طریق یہ ہے کہ عشاء کی نمازکے بعدکسی سے کلام نہ کرے ۔رسول کریم ﷺ نے بھی عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد کلام کرنے سے روکا ہے۔گویہ بھی ثابت ہے کہ بعض دفعہ آپ ؐکلام کرتے رہے ہیں۔ مگر عام طورپر آپ نے منع فرمایا ہے ۔اس کا باعث یہ ہے کہ اگر عشاء کی نماز کے بعد باتیں شروع کردی جائیں تو انسان زیاد ہ جاگے گا اور صبح کو دیر کرکے اٹھے گا۔ اور دوسرے یہ کہ اگر وہ باتیں دینی اور مذہبی نہ ہوں گی تو ان کی وجہ سے توجہ دین سے ہٹ جائے گی ۔ اس لئے آنحضرتﷺنے فرمایاکہ عشاء کی نمازکے بعدبغیرکلام کئے سو جانا چاہئے تاکہ دینی خیالات پرہی آنکھ لگے اور سویرے کھل جائے ۔ دفتر کے کام یا اورکوئی ضرور ی فعل عشاء کی نمازکے بعد منع نہیں۔ مگر یہ ضروری ہے کہ سونے سے پہلے ذکر کر لے ۔ یہ دوسرا طریق ہے ۔

 تیسرا طریق

تیسرا طریق یہ ہے کہ جب کو ئی عشاء کی نماز پڑھ کر آئے اور سونے لگے تو خواہ اس کا وضو ہی ہے تو بھی تازہ وضو کرکے چارپائی پر لیٹے ۔اس کا ا ثر قلب پر پڑتاہے اور اس سے خاص قسم کی نشاط پیدا ہوتی ہے۔ اور جب کوئی تازہ وضو کی وجہ سے نشاط کی حالت میں سوئے گا تووہ آنکھ کھلتے وقت بھی نشاط میں ہی ہوگا ۔عام طورپر یہ دیکھا گیاہے کہ اگرکوئی روتا سوئے تو وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھتا ہے ۔ اوراگر ہنستاسوئے تو اٹھتے وقت بھی اس کا چہرہ بشاش ہی ہوتاہے ۔اسی طرح جووضو کرکے نشاط سے سوتاہے وہ اٹھتابھی نشاط سے ہی ہے۔ اور اس طرح اس کو اٹھنے میں مدد ملتی ہے۔

چوتھا طریق

چوتھا طریق یہ ہے کہ جب سونے لگے تو کوئی ذکر کر کے سوئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ رات کو ذکر کرنے کے لئے پھر اس کی آنکھ کھل جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ بھی سونے سے پہلے یہ ذکر کیا کرتے تھے ۔ آیت الکرسی ، پھر تینو ں قُل ایک ایک دفعہ پڑھ کراپنے ہاتھوں پر پھونکتے اور ہاتھ سارے جسم پر پھیرتے اورایسا تین دفعہ کرتے تھے اورپھر دائیں طرف منہ کرکے یہ دعا پڑھتے:’’اَللّٰھُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَیْکَ وَوَجَّھْتُ وَجْھِیْ اِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ اَمْرِیْ اِلَیْکَ رَغْبَۃً وَّرَھْبَۃً اِلَیْکَ لَا مَلْجَاءَ وَلَامَنْجَاءَ مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ۔ اَللّٰھُمَّ اٰمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَنَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ‘‘ اور اسی طرح ہرایک مومن کوچاہئے۔ اور پھر چارپائی پر لیٹ کر دل میں’’ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ‘‘ یاکوئی اور ذکر جاری رکھنا چاہئے حتی کہ اس حالت میں آنکھ لگ جائے۔کیونکہ جس حالت میں انسان سوتاہے عام طورپر وہی حالت ساری رات اس پر گزرتی رہتی ہے۔ اس لئے جو شخص تسبیح و تحمید کرتے سوئے گا گویا ساری رات اسی میں لگا رہے گا ۔دیکھو عورتیں یابچے اگر کسی غم اور تکلیف میں سوئیں توسوتے سوتے جب کروٹ بدلتے ہیں تو دردناک اور غمگین آوازنکالتے ہیں کیونکہ اس غم کا جوسوتے وقت ان کو تھا ان پر اثر ہوتاہے۔ لیکن اگر کوئی تسبیح کرتے سوئے گا تو جب کروٹ بدلے گا اس کے منہ سے تسبیح کی آوازہی نکلے گی ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتاہے کہ مومن وہ ہوتے ہیں کہ﴿تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمْعًا وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾(السجدۃ:17) یعنی ان کے پہلو بستروں سے اٹھے رہتے ہیں اور وہ خوف اور طمع سے اﷲ تعالیٰ کو پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں ۔ بظاہر تو بات درست معلوم نہیں معلوم ہوتی کیونکہ آنحضرت ﷺبھی سوتے تھے اور دوسرے سب مومن بھی سوتے ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ چونکہ تسبیح کرتے کرتے سوتے ہیں اس لئے ان کی نیند، نیند نہیں ہوتی بلکہ تسبیح ہی ہوتی ہے اور اگر چہ وہ سوتے ہیں مگر درحقیقت سوتے نہیں ۔ان کی کمریں بستروں سے الگ رہتی ہیں اوروہ خدا کی یاد میں مشغول رہتے ہیں۔

پانچواں طریق

پانچواں طریق یہ ہے کہ سونے کے وقت کامل ارادہ کرلیا جائے کہ تہجد کے لئے ضرور اٹھوں گا ۔ انسان کے اندر خداتعالیٰ نے یہ طاقت رکھی ہے کہ جب وہ زورسے اپنے نفس کوکوئی حکم کرتاہے تووہ تسلیم کرلیتاہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کو تمام دانا مانتے آئے ہیں ۔پس تم سونے کے وقت پختہ ارادہ کرلو کہ تہجد کے وقت ضرور اٹھیں گے ۔اس طرح کرنے میں گوتم سو جاؤ گے مگر تمہاری روح جاگتی رہے گی کہ مجھے حکم ملا ہے کہ فلاں وقت جگاناہے اور عین وقت پر خود بخود تمہاری آنکھ کھل جائے گی۔

چھٹا طریق

چھٹا طریق ایسا ہے کہ جس کے کرنے کی مَیں صرف ایسے ہی شخص کو ا جازت دیتاہوں جو یہ دیکھتاہوکہ میرا ایمان خوب مضبوط ہے اور وہ یہ کہ وتروں کو عشاء کی نماز کے ساتھ نہ پڑھے بلکہ تہجد کے وقت پڑھنے کے لئے رہنے دے۔ عام طورپر یہ بات پائی جاتی ہے کہ انسان فرض تو خاص طورپر ادا کرتاہے مگر نفل میں سستی کر جاتاہے۔ پس جب نفلوں کے ساتھ واجب مل جائے گا تو اس کی روح کبھی آرام نہ کرے گی جب تک ا س کو ادا نہ کرے ۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نفس سستی نہیں کرے گا ۔ لیکن اگر وتر پڑھے ہوئے ہوں اورتہجد کے وقت آنکھ کھل بھی جائے تو نفس کہہ دیتاہے کہ وتر توپڑھے ہوئے ہیں ،نفل نہ پڑھے تونہ سہی۔ مگر جب یہ خیال ہوگا کہ وتر بھی پڑھنے ہیں تو ضرور اٹھے گا اور جب اٹھے گا تو نفل بھی پڑھ لے گا ۔لیکن جیساکہ مَیں نے پہلے بتایاہے اس کے لئے شرط ہے کہ ایمان بہت مضبوط ہو ۔ جب ایمان مضبوط ہوگا تو وتروں کے لئے ضرور اٹھے گا ورنہ وتروں کے پڑھنے سے بھی محروم رہے گا۔

ساتواں طریق

ساتواں طریق بھی انہی لوگوں کے لئے ہے جو روحانیت میں بہت بڑھے ہوئے ہیں اور وہ یہ کہ عشاء کی نمازکے بعد نفل پڑھنے شروع کردیں اور اتنی دیر تک پڑھیں کہ نماز میں ہی نیند آجائے اور اتنی نیند آئے کہ برداشت نہ کی جاسکے۔ اس وقت سوئے۔ باوجوداس کے کہ اس میں زیادہ وقت لگے گا مگر سویرے نیند کھل جائے گی ۔ یہ روحانی ورزش ہوتی ہے۔

آٹھواں طریق

آٹھواں طریق وہ ہے جس کا ہمارے صوفیاء میں رواج تھا۔مَیں نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی مگر ہے مفید۔ اور وہ یہ ہے کہ جن دنوں میں زیادہ نیند آئے اور وقت پر آنکھ نہ کھلے ان میں نرم بستر ہٹا دیا جائے۔

نواں طریق

نواں طریق یہ ہے کہ سونے سے کئی گھنٹے پہلے کھانا کھالیا جائے۔ یعنی مغرب سے پہلے یا مغرب کی نمازکے بعد فوراً ۔بہت دفعہ ایسا ہوتاہے کہ انسان کی روح چست ہوتی ہے مگر جسم سست کر دیتاہے۔ جسم ایک طوق ہے جو روح کو چمٹا ہوا ہے۔ جب یہ طوق بھاری ہوجائے تو پھر روح کو دبا لیتاہے۔ اس لئے سونے کے وقت معدہ پُر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کا اثر قلب پر بہت پڑتاہے اور انسان کو سست کر دیتاہے۔

دسواں طریق

دسواں طریق یہ ہے کہ جب انسان رات کو سوئے تو ایسی حالت میں نہ ہوکہ جنبی ہو یا اسے کوئی غلاظت لگی ہو۔ بات یہ ہے کہ طہارت سے ملائکہ کا بہت بڑا تعلق ہے اور وہ گندے انسان کے پاس نہیں آتے بلکہ دور ہٹ جاتے ہیں۔ اسی لئے رسول کریم ﷺ کے سامنے جب ایک بُودار چیز کھانے کے لئے لائی گئی تو آپ ؐنے صحابہ کو فرمایا کہ تم کھالو، مَیں نہیں کھاتا ۔ صحابہ نے کہا ہم بھی نہیں کھاتے ۔ آپ ؐ نے فرمایا تم کھالو میرے ساتھ تو فرشتے باتیں کرتے ہیں اس لئے مَیں نہیں کھاتاکیونکہ انہیں ایسی چیزوں سے نفرت ہے۔ 
تو غلاظت کو ملائکہ بہت ناپسند کرتے ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاول سناتے تھے کہ ایک دفعہ مَیں نے کھانا کھایا اور ہاتھ دھوئے بغیر سوگیا۔ رؤیا میں مَیں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب آئے ہیں اور انہوں نے مجھے قرآن کریم دینا چاہا لیکن جب مَیں ہاتھ لگانے لگا تو کہا کہ ہاتھ نہ لگانا تمہارے ہاتھ صاف نہیں ہیں۔ توبدن کے صاف ہونے کا قلب پر بہت اثر پڑتاہے۔ صفائی کی حالت میں سونے والے کو ملائکہ آ کر جگادیتے ہیں۔ لیکن اگر صفائی میں فرق ہو تو پاس نہیں آتے ۔ یہ طریق جسم کی صفائی کے متعلق ہے۔

گیارھواں طریق

گیارھواں طریق یہ ہے کہ بستر پاک و صاف ہو۔ بہت لوگ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے مگر یاد رکھناچاہئے کہ بستر کی پاکیزگی روحانیت سے خاص تعلق رکھتی ہے اس لئے اس کا خاص خیا ل رکھنا چاہئے۔

بارھواں طریق

بارھواں طریق ایساہے کہ عوام کو اس پر عمل کرنے کی وجہ سے نقصان پہنچ سکتاہے ۔ ہاں خاص لوگوں کے لئے نقصان دہ نہیں اور وہ یہ کہ میاں وبیوی ایک بستر میں نہ سوئیں ۔رسول کریم ﷺ سوتے تھے لیکن آپؐ کی شان بہت بلند وارفع ہے۔ آپ ؐپر اس کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا تھامگر دوسرے لوگوں کو احتیاط کرنی چاہئے۔ بات یہ ہے کہ جسمانی شہوت کااثر جتنازیادہ ہو اسی قدر روحانیت کو بند کر دیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے کہاہے کہ کھاؤ پیو مگر حد سے نہ بڑھو۔ کیوں نہ حد سے بڑھو؟ اس لئے کہ شہوانی جذبہ زیادہ بڑھ کرروحانیت کونقصان پہنچائے گا ۔ پس وہ لوگ جو اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں وہ اگر اکٹھے سوئیں تو کوئی حرج نہیں ہوتامگر عام لوگوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اوروہ لوگ جنہیں اپنے خیالات پر پورا پورا قابو نہ ہوان کواکٹھا نہیں سوناچاہئے۔ اس طرح ان کو شہوانی خیالات آتے رہیں گے۔ اوربعض دفعہ ایسا بھی ہوتاہے کہ سوتے سوتے جماع کرنے یا پیارکرنے لگ جاتے ہیں اس طرح روحانیت پربُرا اثر پڑتاہے اوراٹھنے میں سستی ہوجاتی ہے۔

تیرھواں طریق

تیرھواں طریق ایسا اعلیٰ ہے کہ جو نہ صرف تہجد کے لئے اٹھنے میں بہت بڑا ممد اور معاون ہے بلکہ اس پر عمل کرنے سے انسان اَور بدیوں اور برائیوں سے بھی بچ جاتاہے اور وہ یہ ہے کہ سونے سے پہلے دیکھنا چاہئے کہ ہمارے دل میں کسی کے متعلق کینہ یا بغض تو نہیں ہے ۔ اگر ہو تو اس کو دل سے نکال دینا چاہئے۔ 
اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ روح کے پاک ہونے کی وجہ سے تہجد کے لئے اٹھنے کی توفیق مل جائے گی۔ خواہ اس قسم کے خیالات ان پر پھر قابو پا ہی لیں۔ لیکن رات کو سونے سے پہلے ضرور نکال دینے چاہئیں اور دل کوبالکل خالی کر لینا چاہئے۔ اس میں حرج ہی کیاہے ۔اگر کوئی ایسے خیالات میں دنیاوی فائدہ سمجھتاہے تودل کو کہے کہ دن کو پھر یاد رکھ لینا ۔رات کو سونے کے وقت کسی سے لڑائی تو نہیں کرنی کہ ان کودل میں رکھا جائے۔ اول توایسا ہوگا کہ اگرایک دفعہ اپنے دل سے کسی خیال کی جڑ کا ٹ دی جائے گی تو پھر وہ آئے گا ہی نہیں ۔ دوسرے اس قسم کے خیالات رکھنے سے جو نقصان پہنچنا ہوتاہے اس سے انسان محفوظ ہوجاتاہے۔یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ ایک چیزجس قدر زیادہ عرصہ ایک دوسرے کے ساتھ رہتی ہے اسی قدر زیادہ اپنا اثر اس پرکرتی ہے۔ مثلا ً اگر اسفنج کو پانی سے بھرکرکسی چیز پرجلد ی سے پھیر کرہٹایاجائے تو وہ بہت تھوڑی گیلی ہوگی ۔لیکن اگر دیر تک اس پر رکھا جائے تو وہ بہت زیادہ بھیگ جائے گی۔ اسی طرح جوخیالات انسان کودیر تک رہیں وہ اس کے دل میں بہت زیادہ جذب ہو جاتے ہیں اورسوتے وقت جن خیالات کوانسان اپنے دل میں رکھے ان کواس کی روح ساری رات دہراتی رہتی ہے ۔دن میں اگر کوئی ایسا خیال ہوتو وہ اتنا نقصان دہ نہیں ہوتا جتنا رات کے وقت کا۔ کیونکہ دن میں دوسرے کاروبار میں مشغول ہونے کی وجہ سے وہ بھلا دیتاہے۔ لیکن رات کو باربار آتارہے گا۔ پس سوتے وقت اگر کوئی بُرا خیال ہو تو اسے نکال دیناچاہئے تاکہ وہ دل میں گڑ نہ جائے۔ کیونکہ اگر گڑگیا تو پھر اس کا نکلنا مشکل ہوجائے گا۔ پھر اگر رات کوجان ہی نکل جائے تواس بدی کے خیال سے توبہ کرنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ اس طرح نفس کو ڈرانا چاہئے۔ اورجب ایک دفعہ خیال نکل جائے گاتو پھر اس سے نجات مل جائے گی۔ غرض سوتے وقت نفس میں بُرے خیالات نہیں رہنے دینے چاہئیں۔ جب اس طرح دل کو پاک وصاف کر کے کوئی سوئے گا تو تہجد کے وقت اٹھنے کی اسے ضرور توفیق مل جائے گی‘‘۔
( ماخوذ از ’’ذکرالٰہی‘‘ انوار العلوم جلد 13 ،خطاب حضرت مصلح موعودؓ برموقع جلسہ سالانہ 1916 )
مکمل تحریر >>