Sunday 5 February 2017

کشمیر کمیٹی کی شاندار اسلامی خدمات اور اُس کے نقّاد



کشمیر کمیٹی کی شاندار اسلامی خدمات اور اُس کے نقّاد
(از قلم جناب مولوی دوست محمد صاحب شاہد)



آل انڈیا کشمیر کمیٹی 

۱۹۳۱ء کی تحریکِ آزدی کشمیر میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی سنہری خدمات ایسی بے مثال‘ ناقابلِ فراموش اور عظیم الشان ہیں کہ تاریخِ آزادیٔ کشمیر لکھنے والا کئی غیر جانبدار اور مؤرخ اس کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ یہ متّحد ہندوستان میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھا جس کے پلیٹ فارم پر کلکتّہ سے لے کر لاہور تک اور ایبٹ آباد سے لے کر بمبئی تک تمام مشہور مسلمان لیڈر (جن میں سیاسی زعماء‘ صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں کے منتخب ارکان‘ وکلاء‘ مذہبی رہنما‘ صحافی‘ پروفیسر‘ ڈاکٹر‘ رئیس غرضیکہ ہر طبقہ اور ہر خیال کے لوگ شامل تھے) اپنے مظلوم‘ بے بس اور ستم رسیدہ کشمیری بھائیوں کی امداد و اعانت کے لئے جمع ہو گئے۔

کمیٹی کے بعض ممتاز ارکان

اس ملک گیر ادارہ کے بعض ممتاز اور باقاعدہ ممبروں کے اسماء گرامی یہ تھے:۔ مسٹر ایچ۔ ایس سُہر وردی بار ایٹ لاء کلکتّہ۔ مولانا ابوظفر وجیہہ الدین آف کلکتہ‘ ایم محمد علی بخش صاحب سیکرٹری مسلم فیڈریشن بھٹی‘ مولانا ابو یوسف صاحب اصفہانی بمبئی‘ ڈاکٹر شفاعت احمد خان صاحب الٰہ آباد‘ میاں سیّد جعفر شاہ صاحب شاہ آباد‘ سیّد کشفی صاحب نظامی رنگون‘ مولانا حسرتؔ موہانی صاحب کانپور‘ڈاکٹر ضیاء الدین احمد صاحب ایم۔ ایل۔ اے ایبٹ آباد‘ نواب ابراہیم خاں صاحب نواب آف کنج پورہ ایم۔ ایل ۔ اے کرنال‘ مولانا محمد شفیع صاحب داؤدی پٹنہ‘ چوہدری عبدالمتین صاحب سلہٹ آسام‘ جناب مشیر حسین صاحب قدوائی لکھنؤ‘ جناب سیّد غلام بھیک صاحب نیرنگ پلیڈر انبالہ‘ سیّد حبیب شاہ صاحب ایڈیٹر سیاست لاہور‘ مولوی نور الحق صاحب پروپرائٹر مسلم آؤٹ لک لاہور‘ سیّد محسن شاہ صاحب ایڈوکیٹ لاہور‘ مولانا غلام رسول صاحب مہرؔ مدیر ’’انقلاب‘‘ شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال صاحب بار ایٹ لاہور‘ خان بہادر شیخ صاحب ریٹائر سیشن جج لاہور‘ آنریبل نواب ذوالفقار علی خان صاحب ایم۔ ایل۔ اے لاہور‘ ملک برکت علی صاحب ایڈوکیٹ لاہور‘ حاجی شمس الدین صاحب لاہور‘ میاں فیروزالدین صاحب سیکرٹری خلافت کمیٹی لاہور‘ مولانا عبدالمجید صاحب سالکؔ مدیر ’’انقلاب‘‘ لاہور‘ سیّد عبدالقادر صاحب پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور‘ شمس العلماء خواجہؔ حسن نظامی صاحب دہلی‘ حاجی سیٹھ عبداﷲ ہارون صاحب ایم۔ ایل۔ اے کراچی‘ مولانا سیّد محمد اسماعیل صاحب غزنوی امرتسری‘ مولانا مظہر الدین صاحب ایڈیٹر ’’الامان‘‘ دہلی‘ شیخ محمد صادق صاحب ایم۔ ایل۔ اے امرتسر‘ مولانا عقیل الرحمن صاحب ندوی سہارنپور‘ ایم حسام الدین صاحب آنریری مجسٹریٹ امرتسر‘ شیخ فضل حق صاحب ایم۔ ایل ۔ اے پریزیڈنٹ میونسپل کمیٹی بھیرہ‘ مولانا سیّد میرک شاہ صاحب فاضل دیو بند ایس۔ ایم عبداﷲ صاحب نائب صدر میونسپلٹی دہلی‘ سیّد ذاکر علی شاہ صاحب لکھنؤ۔

حضرت امامِ جماعتِ احمدیّہ کا انتخاب صدر کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے

آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام ۲۵؍جولائی ۱۹۳۱ء کو شملہ میں مُسلِم زعماء کی ایک نمائندہ کانفرنس کے دَوران ہؤا اور ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کی تحریک بلکہ اصرار پر حضرت امام جماعت احمدیہ صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد (رضی اﷲ عنہ) نے اِ س کمیٹی کی عنانِ قیادت سنبھالی۔ جونہی آپؓ میدانِ عمل میں آئے ہندوستان کا ہندو پریس سخت غضبناک ہو کر یکا یک میدانِ مخالفت میں اُتر آیا۔

ہندو پریس کا زہریلہ پروپیگنڈا

اِس ضمن میں اخبار ’’ملاپ‘‘ کے صرف تین اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں:۔ 
(۱) ’’ کشمیر کے متعلق سرمحمد اقبال‘ خواجہ حسن نظامی‘ قادیانی مرزا اور ’’انقلاب‘‘ و ’’مسلم آؤٹ آ ف لک‘‘ نے خفیہ اور اعلانیہ سرگرمیوں کا اظہار نہ کیا ہوتا تو ہندو دیکھتے کہ کشمیر کے مسلمان واقعی سخت تکلیف میں ہیں اور اُن کے حقوق خطرہ میں ہیں تو وہ بلا پس و پیش دربارِ کشمیر کو مجبور کرتے کہ ان کے مستحق کو اُس کا حق نہ دیا جائے۔‘‘ (ملاپ۔ ۲۰؍اگست ۱۹۳۱ء صفحہ۵)
(۲) ’’مرزائی قادیانی نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی اِسی غرض سے قائم کی ہے تاکہ کشمیر کی موجودہ حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے اور اِ س غرض کے لئے انہوں نے کشمیر کے گاؤں گاؤں میں پروپیگنڈا کیا․․․․․ انہیں روپیہ بھیجا۔ اُن کے لئے وکیل بھیجے۔ شورش پیدا کرنے والے واعظ بھیجے۔ شملہ میں اعلیٰ افسروں کے ساتھ ساز باز کرتا رہا۔‘‘ (ملاپ یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ۵)
(۳)’’کشمیر میں قادیانی شرارت کی آگ لگائی۔ واعظ گاؤں گاؤں گھومنے لگے۔ چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ چھپوا دئے گئے۔ اُرد ومیں بھی اور کشمیری زبان میں بھی اور اُ نہیں ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر مُفت تقسیم کیا گیا۔ مزید برآں روپیہ بھی بانٹا گیا۔‘‘ (ملاپ ۳۰؍ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ۵)

اہلِ کشمیر کو دھمکیاں

ہندو پریس نے کشمیر کو بھی ڈرایا دھمکایا اُن کی خیر اسی میں ہے کہ اِ س تحریک سے ہاتھ کھینچ لیں اور جو حقوق طلب کئے جا رہے ہیں اُن سے انکارکر دیں۔ چنانچہ ملاپؔ (۱۴؍اگست ۱۹۳۱ء صفحہ۵) نے لکھا کہ:۔
’’کشمیر ی مسلمانوں کو بھی دیکھنا چاہئیے کہ وہ کن ٹھگوں کے پنجہ میں پھنس گئے ہیں اور کس طرح اپنے مہاراجہ کے خلاف ایک بھاری سازش کے پُرزے بنے ہوئے ہیں۔ یہ حالات اُن کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کو اب پرائسچت (کفّارہ) کے طور پر یہ اعلان کرنا چاہئیے کہ وہ کِسی قسم کے حقوق کا مطالبہ فی الحال نہیں کرتے۔ جس حالت میں وہ اب ہیں اسی حالت میں رہیں گے۔‘‘

برطانوی حکومت پر دباؤ

مگر جب ہندوؤں کا یہ داؤ بھی نہ چل سکا تو انہوں نے برطانوی حکومت پر زور دینا شروع کیا کہ وہ ’’اِس فتنہ‘‘ کو مٹائے اور کشمیر کے اندر جو شورش برطانوی ہند کے مسلمانون کی شہ پر برپا کی جا رہی ہے کچل کر رکھ دے۔ چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے گورنمنٹ کو یہ کہہ کر متوجہ کیا:۔ 
’’حیرانی یہ ہے کہ ریاست کشمیر کے خلاف شملہ میں بیٹھ کر جو سازش کی جا رہی ہے یہ اسی پروگرام کی ایک مدّ ہے۔ حیرانی ہے کہ ریاستِ کشمیر کے خلاف اُسی حکومت کے پایۂ تخت میں بیٹھ کر سازش کی جا رہی ہے جس حکومت نے ریاست کشمیر کے حکمرانوں سے یہ معاہدہ کر رکھا ہے کہ وہ بیرونی دشمنوں سے کشمیر کی حفاظت کرے گی۔‘‘ (ملاپؔ ۱۱؍اگست ۱۹۳۱ء صفحہ۵)
ازاں بعد آریہ سوراجیہ سبھا پنجاب نے وائسرائے ہندولنگٹن کو اِسی مضمون کا تار بھیجا:۔ 
’’برٹش انڈیا کے مسلمان بالعموم اور پنجابی مسلمان بالخصوص کشمیر در بار کے خلاف ایک بالکل بناوٹی اور باطلانہ بے بنیاد ایجی ٹیشن جو اچھی نیّت پر مبنی نہیں ہے پھیلا رہے ہیں۔ وہ ہندو مسلمانوں میں باہمی کشیدگی کی آگ مشتعل کر رہے ہیں۔ نیز ریاست کے اندر پولیٹیکل انقلاب کی انگیخت کر رہے ہیں۔ اُن کی سرگرمیاں امنِ عوام کے لئے نہایت خطرناک ہیں۔ آپ سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ آپ اِ ن تمام ایجی ٹیٹروں پر جن میں اینگلور انڈین اخبارات بھی شامل ہیں پُورے زور سے دباؤ ڈالیں اور اس ایجی ٹیشن کی روک تھام کے لئے انسداد فرمائیں۔‘‘ (ملاپؔ ۲۰؍اگست ۱۹۳۱ء صفحہ۶)
اِس کے بعد ایک طرف حکومتِ ہند کو یہ کہہ کہہ کر بھڑکانے کی کوشش کی ’’کشمیر کے چاروں طرف مسلمان حکومتیں ہیں کشمیر میں اگر اسلامی جھنڈا لہرایا تو گورنمنٹ کے لئے خطرہ ہو گا۔‘‘(ملاپؔ ۱۸؍اگست ۱۹۳۱ء صفحہ۱۶) دوسری طرف انگلینڈ میں وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا کیا گیا کہ کشمیر ایجی ٹیشن پان اسلامک تحریک کا ایک جُزو ہے۔ چونکہ مسلمان ایک وسیع اسلامی فیڈریشن قائم کرنا چاہتے ہیں اس لئے وہ کشمیر کا علاقہ بھی اپنے قبضے میں کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور اُن کی طرف سے اِس بات پر اتنا زور دیا گیا کہ پارلیمنٹ کے بعض انگریز ممبر بھی اس پروپیگنڈا کا شکار ہو گئے (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب ’’مسئلہ کشمیر اور ہندو سبھائی‘‘مؤلفہ جناب ملک فضل حسین صاحب)

حکومتِ ہند اور ڈوگرہ راج کا طرزِ عمل 

اِن حالات میں حکومتِ ہند نے ریاستِ کشمیر کے سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے سے ابتداً بالکل انکار کر دیا اور بعد کو تو انگریزی حکومت کا ایک وہ عنصر کھلم کھلا جماعت احمدیہ کے خلاف اُٹھ کھڑا ہؤا اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے خواب دیکھنے لگا۔ جہاں تک ڈوگرہ راج کا تعلق تھا مہاراجہ کے ہندو مشیروں نے طوفانِ مخالفت برپا کر کے کشمیر کمیٹی کو ناکام بنانے کی تیاریاں شروع کر دیں اور اپنے ایجنٹوں کا ایک جال سا بچھا دیا۔ 

شاندار کامیابی

الغرض قدم قدم پر اندرونی اور بیرونی مخالفتوں اور مزاحمتوں کے کوہِ گراں کھڑے کئے گئے مگر خدا کے فضل و کرم سے تحریک آزادیٔ کشمیر کا کارواں آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا اور ریاست کے تشدّد‘ حکومتِ ہند کی بے نیازی اور ہندو سرمایہ کی پُشت پناہی کے باوجود غیر آئینی ذرائع سے نہیں بلکہ اور ریاستی قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے ایک مختصر سی مدّت میں کشمیر میں محبوس انسانیت نے آزادی کا سانس لینا شروع کر دیا۔ وہ بے بس کشمیری مسلمان جونہایت شرمناک طریق پر انسانیت کے ابتدائی حقوق سے محروم کر دئیے گئے اور بقول سرایلین بینزجی (سابق وزیر خارجہ ریاست کشمیر) سچ مچ بے زبان مویشیوں کی طرح ہانکتے جا رہے تھے‘ شہریت کے ابتدائی حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسمبلی قائم ہوئی اور مسلمانوں کے لئے ریاستی سیاست میں حصّہ لینے کی راہیں کھل گئیں۔

کمیٹی کی زرّیں خدمات پر دوسروں کا خراجِ تحسین

کشمیر کمیٹی کا یہ عظیم الشان ملّی اور اسلامی کارنامہ ہمیشہ آبِ زر سے لکھا جائے گا جس کی عظمت و ہیّت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ بتانا کافی ہے کہ ان ممبروں کے سوا جو مفکّرِ احرار جناب چوہدری افضل حق صاحب کے بیان کے مطابق شروع ہی سے اس کی ’’تخریب میں لگ گئے تھے‘‘ (’’تاریخِ احرار‘‘ صفحہ۱۶۳) کشمیر کمیٹی کے اکثر و بیشتر ممبر اختلافِ مسلک کے باوجود صدر کشمیر کمیٹی (حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃ المسیح ـالثانیؓ) کی تعریف میں ہمیشہ رطب اللّسان رہے اور آپ کی بے لوث مساعی اور مخلصانہ جدّو جہد کو خراجِ تحسین ادا کیا۔ 

کشمیر کمیٹی کی خدمات مدیرِ’’سیاست‘‘ کی نظر میں

مثلاً اخبار ’’سیاست‘‘ کے مدیرِ شہیر مولانا سیّد حبیب صاحب نے اپنی کتاب ’’تحریک قادیان‘‘ میں لکھا:۔
’’مظلومینِ کشمیر کی امداد کے لئے صر دو جماعتیں پیدا ہوئیں۔ ایک کشمیر کمیٹی‘ دوسری احرارؔ۔ تیسری جماعت نہ کسی نے بنائی نہ بنا سکی۔ احرار پر مجھے اعتبار نہ تھا اور اب دنیا تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر کے یتامیٰ مظلومین اور بیواؤں کے نام سے روپیہ وصول کر کے احرار شیرِ مادر کی طرح ہضم کر گئے۔ ان میں سے ایک لیڈر بھی ایسا نہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس جُرم کا مرتکب نہ ہؤا ہو۔ کشمیر کمیٹی نے اُنہیں دعوتِ اتحادِ عمل دی مگر اِس شرط پر کہ کثرتِ رائے سے کام ہؤااور حساب باقاعدہ رکھا جائے۔ انہوں نے دونوں اصولوں کو ماننے سے انکار کر دیا۔ لہذا میرے لئے سوائے ازیں چارہ نہ تھا کہ مَیں کشمیر کمیٹی کا ساتھ دیتا۔ اور مَیں ببانگِ دُہل کہتا ہوں کہ مرزابشیرالدین محمود احمد صاحب صدر کشمیر کمیٹی نے تندہی‘ ہمّت‘ جانفشانی اور بڑے جوش سے کام کیا اور اپنا روپیہ بھی خرچ کیا۔ اور اس کی وجہ سے مَیں اُن کی عزّت کرتا ہوں۔‘‘ (صفحہ۴۲)

اخبار ’’انقلاب‘‘ اور کشمیر کمیٹی

اِس سلسلے میں اخبار انقلابؔ کی رائے کئی لحاظ سے نہایت وقیع اور مستند سمجھی جا سکتی ہے خصوصاً اس لئے کہ خود مفکّرِ احرار نے ’’تاریخِ احرار‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’خدا جزائے خیر دے ’’انقلاب‘‘ کو کہ اُس نے دیانتداری کے سارے تقاضوں کو پُورا کیا اور ساری تحریک میں اپنے انداز اور پالیسی کے پیشِ نظر ایک ہی روش پر قائم رہا۔‘‘ (تاریخِ ؔاحرار صفحہ ۸۸-۸۷)
اخبار انقلابؔ نے تحریکِ آزادی کے دَوران کشمیر کمیٹی کی سنہری خدمات پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھا:۔
’’آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے مسلمانانِ کشمیر کے شہداء‘ پسماندوں اور زخمیوں کی امداد اور ماخوذینِ بَلا کی قانونی اعانت میں جس قابلِ تعریف سرگرمی‘ محنت اور ایثار کا ثبوت دیا ہے اُس کو مسلمانانِ کشمیر کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔اب تک اس کمیٹی کے بے شمار کارکن اندرونِ کشمیر مختلف خدمات میں مصروف ہیں اور ہزارہا روپیہ مظلومین و ماخوذین کی امداد میں صرف کر رہے ہیں․․․․ کشمیر کمیٹی کے مختلف شعبے ہیں۔ بہت سا روپیہ پروپیگنڈا پر صرف ہوتا ہے اور بہت سا روپیہ امدادِ مظلومین اور اعانتِ ماخوذین اور مصارفِ مقدّمات اور قیامِ دفاتر کے سلسلہ میں خرچ کیا جاتا ہے۔ کشمیر کے تقریباً تمام قابلِ ذکر مقامات پر کشمیر کمیٹی کے کارکن مصروفِ عمل ہیں۔‘‘(انقلاب ۱۱؍مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ۴)
نیز لکھا:۔
’’جب سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی ہے اُس نے نہایت اخلاق سے مسلمانانِ کشمیر کی ہر ممکن طریق سے امداد کی ہے اور سینکڑوں تباہ حال مسلمانوں کو ہلاکت سے بچا لیا ہے۔ اگر اس کے راستے میں بعض لوگ رُکاوٹ نہ ڈالتے تو مسلمانانِ کشمیر نے اپنے حقوق حاصل کر لئے ہوتے۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے کشمیر کمیٹی کو مالی امداد دینے میں بہت کم توجہ کی ہے حالانکہ حقیقی اور ٹھوس کام کشمیر کمیٹی ہی کر رہی ہے۔ چنانچہ اِس بات کے ثبوت میں ہم اِس وقت مسلمانانِ راجوری کی ایک مراسلت درج کرتے ہیں جس میں انہوں نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کاشکریہ ادا کیا ہے۔ اِس قسم کے بیسیوں مراسلات ہم کو کشمیر کے مختلف سے موصول ہو چکے ہیں جن میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمات کا سچّے دل سے اعتراف کیا گیا ہے۔ مسلمانانِ راجوری کا مراسلہ یہ ہے:۔
’’ہم مسلمانانِ راجوری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہی ایک کمیٹی ہے جو ہر گلی کوچہ میں غریب اور ناتواں مسلمانوں کی خبر لے رہی ہے۔ ہم ایک ایسے ویران جنگل کے رہنے والے ہیں جن کا خبر گیراں تحت الثریٰ سے لَوح محفوظ تک سوائے ذاتِ باری کے اَور کوئی نہیں مگر اِ س کمیٹی نے ہماری دستگیری میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی اور ہم پر بخوبی واضح ہو چکا ہے کہ کمیٹی کی نظر نہایت باریک ہے۔ ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اے زمین و آسمان کے خالق اور دنیا و مافیہا کے ناظم! ہماری اِس ممّد و معاون کمیٹی کو جو آج آڑے وقت میں ہمارے کام آ رہی ہے مضبوط رکھ خصوصاً صدر صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے احسانات تمام فرقوں کے مسلمان کسی صُورت میں بھی بُھول نہیں سکتے۔ ہمارے بہت سے مصائب کا اِس کمیٹی کی مہربانی سے کچھ نہ کچھ ازالہ ہو گیا ہے اور ابھی بہت ہی مشکلات موجو د ہیں۔ اگر یہ کمیٹی اپنی پوری کوشِش جاری رکھنے میں سرگرم رہی تو انشاء اﷲ ایک نہ ایک دن اِن مصائب سے ہم نجات حاصل کر لیں گے۔‘‘ (انقلابؔ ۴؍اپریل ۱۹۳۲ء)
اِسی طرح اِنقلابؔ نے۲۳؍جولائی ۱۹۳۲ء کی اشاعت میں لکھا:۔
’’آل انڈیا کشمیر کمیٹی نیک باشندگانِ کشمیر کی جو بے لَوث خدمت گزشتہ ایک سال کی مدّت میں انجام دی ہے اس کے شکریہ سے مسلمان کبھی عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔ اگر اس کمیٹی کا کام نہایت قابل‘ تجربہ کار‘ ہوشمند عہدہ داروں کے ہاتھ میں نہ ہوتا تو خدا جانے ہمارے مظلوم کشمیری بھائیوں کو کس قدر شدید تکالیف سے دو چار ہونا پڑتا۔ اِس کمیٹی نے اپنے وسیع ذرائع و وسائل سے کام لے کر مسلمانانِ کشمیر کے مطالبات کی حمایت میں عالمگیر پروپیگنڈا کیاجس نے انگلستان کے جرائد و عمائد بلکہ اربابِ حکومت تک متأثر ہوئے اور ہر شخص پر اِن مطالبات کا حق بجانب ہونا ثابت ہو گیا۔ اِس کے علاوہ کشمیر کمیٹی نے سب سے زیادہ اہم خدمات خود کشمیر میں انجام دیں۔ شہداء و مجروحین کے متعلّقین کی مالی امداد کی۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کا انتظام کیا۔ کشمیر کے گوشے گوشے میں کارکنوں کی تنظیم اور ماخوذین کی قانونی امداد کیلئے نہایت قابل اور ایثار پیشہ اور بیرسٹر بھیجے جنہوں نے بلا معاوضہ تمام مقدّمات کی پَیروی کی اور بے شمار مظلوموں کو ظلم و ستم کے نیچے سے چُھڑا دیا۔‘‘

مخالفت برائے مخالفت

حضرت امام جماعت احمدیہ نے کشمیر کمیٹی سے کیوں استعفاء دیا اس کی تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے مدیر انقلابؔ مولانا عبدالمجید سالکؔ لکھتے ہیں:۔
’’جب احرار نے احمدیوں کے خلاف بلا ضرورت ہنگامہ آرائی شروع کر دی اور کشمیر کی تحریک میں متخانف عناصر کی ہم مقصدی وہم کاری کی وجہ سے جو قوّت پیدا ہوئی تھی اس میں رخنے پڑ گئے تو مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفاء دے دیا اور ڈاکٹر اقبال اس کے صدر مقرر ہوئے کمیٹی کے بعض ممبروں اور کارکنوں نے احمدیوں کی مخالفت محض اس لئے شروع کر دی کہ وہ احمدی ہیں۔ یہ صورتِ حال مقاصد کشمیر کے اعتبار سے سخت نقصان دِ ہ تھی۔ چنانچہ ہم نے کشمیر کمیٹی کے ساتھ ہی ساتھ ایک کشمیر ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جس میں سالکؔ‘ مہرؔ‘ سیّد حبیب‘منشی محمد الدین فوقؔ (مشہور کشمیری مؤرخ) مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کے احمدی اور غیر احمدی رفقاء سب شامل تھے۔ ایسوسی ایشن کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ مبادا کشمیر کمیٹی آگے چل کر احرار ہی کی ایک شاخ بن جائے اور وہ متانت و سنجیدگی رفو چکر ہو جائے جس سے ہم اب تک کشمیر میں کام لیتے رہے ہیں بہرحال تھوڑا بہت کام ہوتا رہا لیکن کچھ مدّت کے بعد نہ کمیٹی رہی نہ ایسوسی ایشن۔‘‘ (سرگزشتؔ صفحہ۳۴۲)

تصویر کا دُوسرا رُخ

تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی نسبت خالص کانگرسی نقطۂ نگاہ

یہ ہیں آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور اُن کے خلاف متحارب طاقتوں کے صحیح خدو خال جن کی تفصیلات پر مستند اور محفوظ ریکارڈ اور مسلم پریس میں شائع شدہ مضامین کی روشنی میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور مزید لکھا جا سکتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ اکثر احباب جب تحریکِ آزادیٔ کشمیر پر خامہ فرسائی کرتے اور گوہر افشانی فرماتے ہوئے ۱۹۳۱ء کے انقلابی دَور پر آتے ہیں تو اُن کا قلم شاید غیر شعوری طور پر جادۂ صواب سے ہٹ کر اُس راہ پر چل پڑتا ہے جس کی نسبت جناب مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کا یہ فتویٰ ہے کہ:۔
’’احیاءِ حق کے واسطے کذب درست ہے مگر تا امکان تعریض سے کام لیوے۔ اگر ناچار ہو تو کِذب صریح سے بولے۔‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ کامل صفحہ۴۶۰)
’’احیاءِ حق‘‘کا پرچم لہرانے والے محقّقین و ’’مؤرخین‘‘ جونہی اِس منزل پر آ پہنچتے ہیں تو وہ بیچارے مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ اِ س دَورِ تاریخ کا مطالعہ اصلی واقعات و حقائق کی بجائے خالصۃً کانگریسی نقطۂ نگاہ سے فرمائیں اور پھر اس کے مطابق اپنے قیاسات‘ تخیّلات اور مفروضات کی پُوری عمازت اُستوار کر کے اُس پر تاریخ آزادیٔ کشمیر کا سائن بورڈآویزاں کر دیں۔ 
تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی نسبت کانگرسی نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ:۔
(۱)کشمیر کا ڈوگرہ راج ۱۹۳۱ء کی تحریک کے آغا ز ہی میں مسلمانوں کو حقوق دینے کے لئے بے قرار تھا۔ 
(۲)اصل شرارت انگریزی حکومت کی کھڑی کی ہوئی تھی۔ انگریز دراصل چاہتا تھا کہ کانگرس کے (نام نہاد) ہندو مُسلم اتّحاد کو ضرب کاری لگائے اور گول میز کانفرس کے دَوران گاندھی جی کے مشن کو ناکام بنائے۔
(۳)اس مقصد کی تکمیل کے لئے انگریز ’’ کشمیر کے مسلمان کو استعمال کے لئے چُن لیا۔‘‘ بالفاظِ دیگر اُس زمانہ میں جمّوں‘ و کشمیر کے تمام مسلمان لیڈر انگریز ہی کے اشارے ہر کام کر رہے تھے اور دانستہ یا نادانستہ برطانوی سازش کی تکمیل میں مصروف عمل تھے۔ 
(۴)اِس سلسلہ میں جو لوگ شملہ میں کشمیر کمیٹی کی بنیاد کے لئے جمع ہوئے وہ سب ’’سرکاری مسلمان‘‘ تھے اس موقع پر ’’گورنمنٹ آف انڈیا نے کوشش کی کہ وہ اپنے فرستادہ لوگوں کی معرفت کام لے۔ چنانچہ ان عناصر نے علّامہ اقبالؔ کو لیپا پوتی کر کے اپنے ساتھ ملا لیا۔‘‘ (سوانح سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری صفحہ ۸۸ مؤلفہ شورشؔ کاشمیری)
ع قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا

’’رئیس الاحرار‘‘ اور تحریکِ آزادیٔ کشمیر کا پس منظر

آل انڈیا نیشنل کانگریس کے اس زاویۂ نگاہ کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی کانگرس کے مشہور خاندانی کارکن رئیس الاحرار مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی کی خود نوشت یا دداشت بآسانی ہو سکتی ہے۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ:۔
’’۱۹۳۱ء جب گانگرس اور گورنمنٹ کے درمیان گاندھی اِردن پیکٹ ہؤا تو یکایک کشمیر میں اِس طرح تحریکِ کشمیر کا آغاز ہؤاکہ جمّوں میں کسی ہندو سنیاسی نے قرآن شریف کی توہین کی ہے 1؂ جبکہ ایک مسلمان سپاہی پولیس لائن میں قرآن شریف پڑھ رہا تھا۔ اِس واقعہ کا مشہور ہونا تھا کہ تمام کشمیر میں مسلمانوں کے جزبات قابو سے باہر ہو گئے اور حکومتِ کشمیر کو دو ۲ بار گولی چلانی پڑی۔ جب حالات بہت نازک ہو گئے تو مہاراجہ کشمیر نے مولانا ابو الکلام آزادؔ کو بُلانے سے یہ سمجھا گیا کہ مہاراجہ کا ذہن غیر فرقہ وارانہ ہے۔ مولانا سے مہاراجہ نے یہ بھی کہا کہ مَیں مسلمان عوام کے معقول مطالبات پُورنے کرنا چاہتا ہوں جن کی آبادی نوّے فیصدی ہے لیکن وہ دفتری حکومت کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ کی ملاقات کے باوجود کشمیری مسلمان عوام مطمئن نہ ہوئے۔ ہندو مسلم فرقہ واریت 2؂ شباب پر آ گئی۔شروع جولائی میں چوہدری افضل حق مرحوم جو کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے جیل سے رہا ہو کر آئے تھے۔ انہوں نے احرار راہنماؤں سے کہا کہ کشمیر کا فتنہ انگریز نے شروع کرایا ہے تاکہ ہندو مسلم اتحاد کی موجودہ فضا برباد ہو جائے۔ انگریز نے کشمیر کے مُسلمانوں کو استعمال کے لئے چُن لیا ہے۔ تمام ساتھیوں نے چوہدری صاحب کی یہ بات سُن کر ٹال دی۔ انگریز نے کشمیر کے ابتدائی ہنگامہ سے فائدہ اُٹھا کر اپنے بااعتماد آدمی ہری کرشن کول کو کشمیر کا وزیراعظم بنا دیا۔ دوسری طرف لاہوری قادیانی مرزائیوں نے کشمیری مسلمانوں کی ہمدردی میں سارے ہندوستا ن میں زہر آلود پروپیگنڈا شروع کر دیا اور کشمیر کے نئے لیڈر سامنے آ گئے۔ جن کی رہنمائی شیخ عبد اﷲ 3؂ کر رہے تھے۔ ۲۴؍جولائی ۱۹۳۱ء کو شملہ میں سر فضل حسین 4؂ کے اشارے سے سرکاری 5؂ مسلمانوں کا اجتماع ہؤا جس میں کشمیر کے دس نئے لیڈربھی شریک ہوئے۔ اِس جلسہ میں مرزا بشیر الدین محمودخلیفۂ قادیان کو کشمیر کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔ مسٹر عبدالرحیم دردؔ کو جو خلیفہ کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے کشمیر کمیٹی کا جنرل سیکرٹری ۴؂بنایا گیا۔ شملے سے ہی مرزا محمود نے اعلان کیا کہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں نے مجھے اپنا رہنما تسلیم کر لیا ہے۔ اس لئے مَیں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ۱۴؍اگست۱۹۳۱ء کو تمام ہندوستان میں ’’یومِ کشمیر‘‘ منایا جائے 6؂ مسٹر عبدالرحیم دردؔ نے ہندوستان کے تمام مشہور علماء‘ فضلاء‘ وکلاء‘ اور ڈاکٹروں کو خطوط لکھے کہ آپ کو کشمیر کمیٹی کا ممبر بنایا گیا ہے۔ ہندوستان کے تما م لوگ حقیقتِ حال سے ناواقف تھے۔ کسی نے کشمیر کمیٹی کی سیاسی سازش کی طرف توجہ نہ کی سوائے مجلس احرار کے راہنماؤں کے کسی نے بھی عبدالرحیم دردؔپرائیویت سیکرٹری مرزا محمود کو انکار کا خط ملا۔ 
۱۴؍اگست ۱۹۳۱ء کو گاندھی جی7؂ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے لندن روانہ ہو گئے۔ مَیں اُسی وقت کشمیر کمیٹی کا وجود عمل میں آیا۔ ٹھیک گاندھی جی کی روانگی کے وقت ۱۴؍اگست۱۹۳۱ء کو کشمیر ڈے منانے کا اعلان کیا گیا تاکہ ہندو مسلم اتحاد پر گاندھی جی کے لندن پہنچنے سے پہلے ہی ضرب لگائی جائے۔ مَیں‘ مولانا سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری اور شیخ حسام الدین بمبئی میں تھے۔ ہم نے کانگرسی لیڈروں سے خاص کر مولانا ابوالکلام آزاد سے کشمیر کے مسئلے میں بات کی۔ مولانا نے فرمایا کہ مہاراجہ کشمیر خود چاہتا ہے کہ کشمیر میں کچھ ہو‘ تا کہ مسلمانوں کے مطالبوں کو پُورا کیا جا سکے۔ ہم نے موجودہ کشمیر کمیٹی کی سیاسی سازش‘ ڈاکٹر اقبال کی کشمیر کمیٹی میں شمولیت‘ سرفضل حسین کی سرپرستی اور انگریزی حکومت کی بدنیّتی‘ فرقہ وارانہ فسادات اور ہندو مسلمان اتحاد کے بارے میں مولانا آزاد سے تفصیلی گفتگو کی تو مولانا آزاد نے سب باتیں سُن کر کہا کہ احرار کو فرقہ وارانہ اتحاد کے لئے مسئلہ کشمیر کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہئیے اور مہاراجہ کشمیر کے سامنے ریاست کی ترقی کے لئے جمہوری مطالبات رکھے جائیں ۔ میرا یقین ہے کہ مہاراجہ صاحب تھوڑی سی جدّوجہد کے بعد جمہوری مطالبات کو قبول کر لیں گے احرار رہنماؤں نے محسوس کیا کہ کشمیر کمیٹی کی وجہ سے تمام مسلمان مرزائی او قادیانی ہو جائیں گے۔ ہندو مسلمان اتحاد کو سخت دھکا لگے گا۔ مولانا مظہر علی نے مسئلہ کشمیر میں احرار کے شامل ہونے اعلان کر دیا۔ مولانا مظہر علی کو تحریک کشمیر کا ڈکٹیٹر بنا دیا گیا۔ مولانا مظہر علی صاحب نے تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی کہ ہم سب کو مل کر کشمیر کا سیاسی مسئلہ حل کرنا چاہئیے ورنہ کمشیر کمیٹی ملک کی سیاسی صورتحال خطرناک بنا دے گی۔ مہاراجہ صاحب کو لکھا گیا کہ ہم آپ کے خلاف نہیں اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ کشمیر عوام اور آپ کے تعلقات خراب ہوں ہم آپ کو گدّی سے اُتارنے کے حق میں نہیں ہیں8؂ کیونکہ مرزائیوں کی کشمیر کمیٹی انگریز کے اشارے پر آپ کو گدّی سے اُتارنے کے لئے زمین میں ہموار کر رہی ہے۔ احرار کا مقصد کشمیر میں ریاست کے باشندوں کو ایسے حقوق دلانا ہے جس سے کشمیر کے باشندے اقتصادی‘ تعلیمی ترقی کر سکیں مگر افسوس کشمیر کے اس پس منظر کو اُس وقت کوئی نہ سمجھتا تھا‘‘ (’’رئیس الاحرار اور ہندوستان کی جنگِ آزادی ‘‘ مرتبہ عزیزالرحمان جامی لدھیانوی صفحہ ۱۵۶ تا۱۵۹)

’’کانگریسی مؤرخ‘‘ کی فسانہ طرازی

قارئین! ’’ کانگریسی مؤرخ‘‘ کی فسانہ طرازی ملاحظہ فرمائیں اور غور کریں کہ کانگرسی مولانا کیا فرما رہے ہیں آپ کے ’’ارشاد گرامی‘‘ کا خلاصہ یہ ہے کہ ۱۹۳۱ء کی تحریک آزادی کے دوران برطانوی ہندو اور ریاست جمّوں کشمیر تمام مشہور مسلمان لیڈر انگریز کے ہاتھ پر بِک گئے تھے اور اُس مجلس کے سوا جس نے ۲۹ ؍دسمبر ۱۹۲۹ء کو ہندوؤں کی سیاسی جماعت آل انڈیا نیشنل کانگرس کے اجلاس لاہور میں خود کانگرس ہی کے سٹیج پر جنم لیا تھا اس سازش سے کوئی نہ بچ سکا۔

قدرت کاانتقام 

قدرت کا انتقام دیکھئے احراری لیڈر اگرچہ کانگریسی لیڈروں کے مشورہ سے اِس تحریک میں شامل ہوئے تھے مگر جونہی گاندھی جی کو اِس کی خبر پہنچی اُنہوں نے جھٹ یہ اعلان کر دیا کہ یہ لوگ انگریز کے اشاروں پر ہنگامہ آرائی کر رہے ہیں چنانچہ مفکّر احرار چوہدری افضل حق صاحب تحریر فرماتے ہیں:۔
’’مہاتما گاندھی بڑے دھرتے کا آدمی ہے جس کے برخلاف ہو جائے اس کو خاک میں ملا کر چھوڑتا ہے ․․․․․ لندن میں آپ نے سُنا کہ احرار کشمیر پر چڑھ دوڑے۔ رئیس ہندو اور احرار مسلمان تھے ہماری تحریک کوآسانی سے فرقہ وارانہ رنگ دیا جا سکتا تھا مگر اس مردِ دانا نے اِس بات سے پہلو بچایا لیکن اعلان کیا اور تحریک انگریز کی تقویت کے لئے شروع کی گئی ہے۔ اُس زمانہ میں اس داؤں سے کوئی بچتا تھا۔ اِس داؤں کا گہاؤ گہرا ہؤا۔ سب ہندو مسلمانوں کا کانگریسی شعبے کی نظر سے دیکھنے لگے۔ جو تھوڑے بہت کانگریسی ہم میں شامل میں تھے اُداس ہو کر اُباسیاں لینے لگے9؂․․․․․․․ کانگریسی مسلمان کا ذہن بے حد متشکک اور متشدد ہے ۱۹۳۰ء سے پہلے تو لوگوں کو سی۔ آئی۔ڈی اور انگریز کے ایجنٹ کا الزام لگانا عام تھا۔ کانگریسی مسلمان اپنے دعویٰ اور عمل میں مخلص ہوتے ہیں مگر وہ دوسروں کو ہمیشہ بدعقل اور دوسروں کا آلۂ کار سمجھتے ہیں․․․․․ پھر ان کانگریسی احباب نے اَور غضب ڈھایا اس دروغ بے فروغ کو دنیا میں اُچھالا کہ احرار نے گلگت انگریزوں کو دُلایا۔ کئی سادہ مزاج اس سفید جھوٹ کو سچ سمجھ کرپیٹ پکڑ آئے کہ بھیا احرار والو! کہیں یہ غضب نہ کرنا کہ گلگت انگریزوں کو دلوا دو مَیں نے کہا کہ حضرت! یہ گلگت ہے کہاں؟ یوے کہ کشمیر میں ہی ہو گا۔ تو پھر مَیں نے کہا کہ بتائیے کہ کشمیر آزاد حکومت ہے؟ بولے: نہیں!انگریزوں کے ماتحت ہے۔ تو مَیں نے کہا کہ جب ساری ریاست ہی انگریزوں کے ماتحت ہے تو اس کا حصہ بھی انگریزوں کے ماتحت ہے اس کے لینے دینے کا سوال کیاہے۔ جُھوٹی خبروں کے احرار اور تکرار کوبھی پروپینگنڈے کے فن10؂ کا اہم جزُو قیاس کیا جاتا ہے۔ انسان کچھ وقت کے لئے دروغ بے فروغ کو بھی سچّائی جان سمجھنے لگ جاتا ہے بعض وقت تو دوسروں کے کہے بے وقوف بن کر اپنی پگڑی میں ہاتھی ٹٹولنے لگ جاتا ہے کیونکہ معتبر کہہ دیتا ہے کہ بھلے مانس تیری پگڑی میں ہاتھی ہے۔ کانگریسی مسلمانوں نے بھی بعض کے کان میں یہی پھونک دیا کہ بھیّا مسلمانو! احرار انگریز کے ایجنٹ ہیں۔ یہ ریاست کے گلکت دلا رہے ہیں․․․․ ہمارے خلاف پروپیگنڈہ اُس گروہ کا بھی کام تھاجو خلافت اور کانگرس میں ہمارا سردار اور طبقۂ اولیٰ تھا۔‘‘ (تاریخِ احرار صفحہ۶۰ تا ۶۲)

تاریخِ پاکستان اور کانگرسی مسلمان

حق یہ ہے کہ اگر تحریکِ آزادیٔ کشمیر کانگریس کی امامت میں مرتّب کرنا ہی صحیح نگاری ہے تو آزادیٔ کشمیر کی تاریخ ہی کا نہیں بلکہ مُسلم لیگ اور پاکستان کی تاریخ کا بھی خدا حافظ ہے۔ 
آئیے بے شمار مثالوں میں سے بطور نمونہ رئیس الاحرار مولوی حبیب الرحمن صاحب کی یہ تقریر پڑھیئے:۔
’’مُسلم لیگ کے ممبر جو تم کو اسلام کے نام پر کانگرس سے الگ ہونے کو کہتے ہیں یہ وہ مسلمان ہیں جنہوں نے پچھلی جنگ میں تُم کو فوج بھرتی کرا کر تُرکوں سے لڑا دیا تھا۔ اور تمہارے ہاتھوں میں عراق کو‘ بغداد کو‘ فلسطین کو ترکوں سے لے کر انگریزی جھنڈے کے نیچے کر دیا۔ اس لئے یہ مسلمان جھوٹے ہیں۔ تم اِن کی امامت کا اعتبار نہ کرو۔ یہ اسلام کے حقیقی دشمن ہیں۔ یہ کانگرس سے اپنے اغراض کے لئے تُم کو جدا کرنا چاہتے ہیں۔ کہ اسلام کے لئے۔ تم یہ کہتے ہو کہ مجھے کانگریس نے روپے سے خرید لیا ہے سب سے زیادہ روپیہ انگریز کے پاس ہے اور اس کے بعد مسلم لیگ کے صدر مسٹر محمد علی جناح اور راجہ محمود آباد کے پاس۔ ‘‘ (رئیس الاحرار صفحہ ۲۰۲)
مولوی صاحب موصوف نے ایک بار قائداعظم محمد علی جناح سے کہا کہ:۔
’’آپ کے ٹوڈی مسلمانوں کے حلقہ سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں اور انگریز جب چاہتا ہے اپنے مفاد کے لئے ٹوڈی مسلمانوں کو آپ کے ساتھ کر دیتا ہے۔’’ (رئیس الاحرار صفحہ ۹۳)
مولوی ظفر علی صاحب کا بیان ہے کہ:۔
’’میرٹھ میں مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی صدرِ مجلس احرار اِس قدر جوش میں آئے کہ دانت پیستے جاتے تھے‘ غصّہ میں آ کر ہونٹ چباتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ دس ہزار جیناؔ اور شوکؔ اور ظفرؔ جواہر لال نہرو کی جُوتی کی نوک پر قربان کئے جا سکتے ہیں۔‘‘ (چمنستان صفحہ ۱۹۵)
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے کانگریس کے معتبر راویوں کی معلومات یہ ہیں:۔
’’بلا شُبہ پاکستان کا تخیّل ’’سیاسی الہام‘‘ مگر ’’ربانی الہام‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’قصرِ بکنگھم کا الہام‘‘ ہے۔ جو ڈاکٹر اقبال کو بھی ہؤا تھا․․․․․․․․․ جب وہ لندن سے قریب ہی زمانہ میں واپس تشریف لائے تھے۔ اور وہ یہ الہام دوبارہ اس وقت پھر ہؤا جب کہ مسلم لیگ کا وفد جو زیرِ سرکردگی چوہدری خلیق الزمان مصر اور لندن کا حج کرنے گیا تھا۔ اُس نے ہندوستان آ کر بمبئی اُترنے کے ساتھ ہی پہلے انٹرویو میں اِس چیز کو ظاہر کر دیا تھا اور جس کو عرصہ کے بعد مسٹر جناح نے اپنایا اور لاہور میں پیش کرنے کی اجازت دی۔‘‘
(’’تحریکؔ پاکستان پر ایک نظر‘‘ از حضرت علّامہ الحاج مولانا محمد حفیظ الرحمن صاحب سیوہاروی ناظمِ اعلیٰ مرکزیہ جمیعۃ علماء ہند‘‘)

پنڈت موتی لال نہرو ’’آل انڈیا مسلم کشمیر کانفرنس‘‘ کی صدارت پر 

بالآخر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ وہی رئیس الاحرار جنہوں نے ۱۹۳۱ء میں خطّۂ کشمیر پر ’’مرزائیت‘‘ کے چھا جانے کے خوف سے حضرت امام جماعت احمدیّہ کے صدر کشمیر کمیٹی منتخب کئے جانے پر صدائے احتجاج بلند کی۔ ۱۹۲۸ء میں موتی لال نہرو کو آل انڈیا مسلم کشمیر کانفرنس کی مسندِ صدارت پر بٹھا چکے تھے۔ چنانچہ مولوی حبیب الرحمن صاحب کی سوانح عمری میں لکھا ہے:۔
’’۱۹۲۸ء میں آل انڈیا مسلم کشمیر کانفرنس لدھیانہ میں ہوئی۔ اُس کی صدارت کے لئے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے خواجہ محمد یوسف صاحب کے ذریعے پنڈت موتی لعل نہرو کو کشمیر کانفرنس کا صدر بنایا۔ کانفر س میں بڑے بڑے مسلمان کشمیری تاجروں نے پنڈت موتی لعل کی گاڑی اپنے ہاتھ سے کھینچی۔ ایک لاکھ ہندو اور مسلمان نے اس کانفرس میں شرکت کی۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ نہرو رپورٹ کی وجہ سے پنجاب میں پنڈت موتی لعل نہرو کی ہندوؤں‘ سکّھوں اور مسلمانوں میں سخت مخالفت ہو رہی تھی۔ لیکن رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کو اِس تدبیرِ سیاست نے ہوا کا رُخ پلٹ دیا۔ پنجاب کے عام ہندو مسلمان اور سکّھوں نے پنڈت جی کی تعریف کرنا شروع کی۔ پنجاب کے اخبارات کا رُخ بھی بدل گیا۔ پنڈت موتی لعل مولانا کی اِس تدبیرِ سیاست سے بہت خوش ہوئے اور جب تک زندہ رہے برابر پنڈت جی نے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کو اپنے دوستوں اور خاص مشیروں کی فہرست میں رکھا۔‘‘ (رئیس الاحرار صفحہ ۷۵-۷۴)
اِس سنسنی خیز انکشاف کے بعد بلا تامّل تسلیم کر لینا پڑتا ہے کہ اگر کشمیر کمیٹی کی صدارت جماعت کے امام ہمام کی بجائے موتی لعل نہرو کے جانشینوں میں سے کسی کو سونپ دی جاتی ہے تو نہ اس کو انگریز کی بنائی ہوئی کمیٹی کہا جاتا نہ اُس کے بانیوں کو ’’سرکاری مسلمانوں‘‘ کے خطاب سے نوازا جاتا اور نہ یہ سوال اُٹھائے جانے کی ضرورت پیش آتی کہ ہندو صدارت سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ لاحق ہو گیا ہے کیونکہ ’’رئیس الاحرار‘‘ اور ’’امیر شریعت احرار‘‘ دونوں ہی مسلمانوں کے پُورے زور سے یہ یقین دلا چکے تھے کہ:۔
’’تم ہندوؤں سے ڈرتے ہو کہ ہمیں کھا جائیں گے۔ ارے! جو مُرغے کی ایک ٹانگ نہیں کھا سکتا وہ تمہیں کیا کھائے گا۔ ڈرنا ہندوؤں کو چاہیئے کہ تم سے کمزور ہیں۔ وہ صرف چھ صوبوں میں ہیں۔ تمام سرحدات پر تم رہتے ہو․․․․․ بھائی پر مانند اگر بُزدلی کی بات کرنا ہے تو وہ سچّا ہے۔‘‘ (رئیس الاحرار صفحہ ۲۰۵)
’’سبحان اﷲ! کہتے ہیں ہندو ہم کو کھا جائے گا۔ مسلمان پُورا اُونٹ کھا جاتا ہے پُوری بھینس کھا جاتا ہے۔ اُس کو ہندو کیسے کھا سکتا ہے جو چڑیا بھی نہیں کھا سکتا۔‘‘ (تقریر سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری بمقام ایبٹ آباد ضلع ہزارہ۔ رسالہ ترجمانؔ اسلام لاہور۲۲؍ ستمبر۱۹۶۱ء صفحہ ۱۲
’’مُرغے کی ایک ٹانگ‘‘ یا ’’ چڑیا تک نہ کھا سکنے والا‘‘ اور ’’اہنسا کا پُجاری‘‘ آج کس طرھ کروڑوں دل جیتے جاگتے مسلمانوں کو ہڑپ کرنے کی فکر میں ہے، اِس کے کے متعلق اب کچھ کہنے کی ضرورت نہیں 
ع ناطقہ سر بگربیاں ہے اسے کیا کہئیے!

****************************
1؎ تحریک آزادی ڈوگرہ راج کے سالہاسال کے بے پناہ مظالم کا ردّعمل تھا اور مسلمان اپنے مطالبات برسوں سے کرتے آ رہے تھے مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی تھی۔ مندرجہ بالا واقعہ ۵؍جون ۱۹۳۱ء کا ہے جو غلط رنگ میں لکھا گیا ہے۔ دراصل توہینِ قرآن کا ارتکاب کسی سنیاسی نے نہیں کیا ایک ہندو سارجنٹ نے کیا تھا مگر تحریک آزادی تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے نئے دَور کا آغاز اس سے چند ہفتہ قبل ۲۹؍ اپریل ۱۹۳۱ء کو ہؤا جبکہ جمّوں میں ایک آریہ ڈپٹی انسپکٹر پولیس نے ایک مسلمان خطیب کو خطبۂ عید سے روک دیا۔ 
2؎ اس کے برعکس مجلس احرار نے ۱۵؍اگست ۱۹۳۱ء کو یہ قرار داد پاس کی کہ ’’مجلسِ احرار کشمیر ایجی ٹیشن کو ہندو مسلم مسئلہ تصور نہیں کرتی۔‘‘ (’’ رئیسؔ الاحرار‘‘ صفحہ ۱۶۰)
3؎ بقول ’’رئیس الاحرار‘‘ ’’شیخ عبداللہ کو لاہور مرزائیوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں پوری مدد دی۔۔۔۔ اُنہیں آئندہ کشمیر میں اپنے مقاصد مین استعمال کرنے کے لئے اُن کا تعلق کشمیری عوام میں کشمیری راہنما کی حیثیت سے کرایا‘‘
4؎ ’’میاں صاحب سرفضل حسین ہندوئوں کی نظر میں اورنگزیب کا بروز تھے۔۔۔۔۔میاں صاحب کئی انگریز اعلیٰ افسروں کو ذلیل کر کے نکال کر چکے تھے جس کو ذرا سرکش پاتے تھے اُس کی سرکوبی پر آمادہ ہو جاتے تھے میاں صاحب کی یہ ادا انگریز کو نہ بہاتی تھی (تاریخ ؔاحرار صفحہ ۱۸۴-۱۸۵)
5؎ اِن ’’سرکاری مسلمانوں‘‘ کے اسماء گرامی اِس مقالہ کے شروع میں دئے جا چکے ہیں۔ انہیں مقتدر شخصیتوں کی نسبت چوہدری افضل حق لکھتے ہیں:۔ 
’’کچھ عافیت گوش مسلمان شملے کی بلندیوں سے بادل کی طرح ۔۔۔۔ اِن خانہ بربادرئوسا اور امراء نے غضب یہ بڑھایا کہ مرزابشیر محمود قادیانی کو اپنا قائد تسلیم کر لیا۔ جمیعۃ العلماء نے یہ کیا کہ اس بشیر کمیٹی سے تعاون کا اعلان کر دیا‘‘ (تاریخ احرار صفحہ۳۷)
6؎ واقعہ یہ ہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پہلے اجلاس میں موجود مسلم لیڈروں نے ہی یہ متفقّہ فیصلہ کیا تھا کہ ۱۴؍ اگست کو یومِ کشمیر منایا جائے لہذا مزعومہ اعلان جس کی طر اُوپر اشارہ کیا گیا ہے ایک مَن گھڑت بات کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ احرار نے یورمِ کشمیر بار بار منایا (تاریخ احرار صفحہ ۱۴)
7؎ جنہیں زعمائے احرار اپنا ’’گورُو ‘‘سمجھتے تھے۔ (تاریخ احرار صفحۃ ۳۷)
8؎ سی لئے تو احراری نمائندے ریاست کے شاہی مہمان کی حیثیت سے سرینگر میں تشریف فرما رہے ہیں۔ (تاریخ احرار صفحہ ۴۶)
9؎ مفکّرِ احرار چوہدری افضل حق صاحب نے اپنے احراری سُورمائوںکی شجاعت اور بہادری کا نقشہ بایں الفاظ میں کھینچا ہے۔‘‘ (تاریخِؔ احرار صفحہ ۱۱۱)
10؎ کتاب ’’سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری‘‘ کے احراری مصنّف لکھتے ہیں:۔
احرار کسی بھی تخلیق فکر کے مظہر نہ تھے مگر ایجی ٹیشن اور پروپیگنڈا کے فن میں بے مثال تھے۔‘‘ 
(’’سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری‘‘ صفحہ ۲۰۸)
****************************
( ماہنامہ الفرقان ، مارچ 1968 )
مکمل تحریر >>