Thursday 31 January 2019

ہمارے پیارے امام ایّدہ اللہ ’’جس کو ملنے سے روح جگمگانے لگے‘‘





ہمارے پیارے امام ایّدہ اللہ
’’جس کو ملنے سے روح جگمگانے لگے‘‘
( مبارک  احمدصدیقی۔لندن)


برطانیہ میں رہنے والے احمدی احباب یقیناََ بہت خوش قسمت ہیں۔ یہاں پر رہنے والے بہت سے احمدیوں کی طرح مجھے بھی ہمارے محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے ۔ یا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ مجھے کم از کم پاکستان اور دور دراز کے ممالک میں رہنے والے احمدی احباب کی نسبت حضور انور کو زیادہ قریب سے دیکھنے کی سعادت ملی ہے۔ میں نے حضور کو قریب سے دیکھا ہے ، ایسے غم کے وقت میں بھی جب اُسی دن حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو پچاسی کے قریب احمدیوں کی شہادت کی خبر ملی تھی ، ہر آنکھ اشکبار تھی۔ مجھے حضور کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ حضور انور کی آنکھ سے گرنے والے ایک آنسو سے کئی اور داستانیں رقم ہو سکتی تھیں۔کسی اور مسلک کے راہنما کے لئے وہ وقت تھا کہ وہ اپنے خطاب کی سوزش کو سننے والوں کے سینوں میں لگی دکھ کی آگ سے ملا کر ، ایسا انقلاب انگیز خطاب کر تا کہ تاریخ میں بہترین مقر ر لکھا جاتا اور لوگ برسوں عش عش کرتے۔ پھر ایسی خوشی کے موقع پر بھی حضور انور کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اکلوتے صاحبزادے صاحبزادہ مرزا وقا ص احمد صاحب کی شادی کا دن تھا۔ خوشی اور غمی کی ایسی لہروں پر ضبط کے پشتوں کا ایسا نظارہ یقینا اللہ تعالیٰ کی خاص اور بہت خاص مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ 
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زندگی کے بہت سے پہلو ہیں جن پر با آسانی بہت سی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں تاہم آج میں نے ایک پہلو کا انتخاب کیا ہے۔اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی حیرت انگیز یاد داشت اور اس کی وجہ سے تمام دنیا کے احمدیوں کے حالات سے باخبر رہنا ۔ یہ ایک ایسی غیر معمولی بات ہے کہ قریب رہنے والے یا بذریعہ خط و کتابت حضور سے رابطہ رکھنے والے احمدی احباب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سوائے اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کے ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک انسانی ذہن میں دنیا میں بسنے والے ہزاروں لاکھوں کروڑوں افراد کا بائیو ڈیٹا کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہو۔ 
اس سے قبل ایک مضمون میں خاکسار نے لکھا تھا کہ مکرم و محترم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ یوکے نے ایک مرتبہ ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ میرے لئے ایک بات بہت حیران کن ہے کہ بعض خبریں صرف مجھے معلوم ہوتی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ خوش خبری سب سے پہلے میں حضور تک پہنچائوں لیکن حیرت کی بات ہے کہ حضور کو پہلے سے اُس کا علم ہو جاتا ہے۔ خاکسار نے اس بات کا ذکر محترم منیرا حمد جاوید پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے کیا کہ محترم امیر صاحب اس طر ح کہہ رہے تھے ۔ وہ یہ بات سن کر باقاعدہ ہنس پڑے کہنے لگے کہ میں جو بالکل ساتھ دفتر میں ہر وقت موجود ہوتا ہوں بعض اوقات مجھے اُن خبروں کا علم نہیں ہوتا میں حضور کو بتانے کے لئے جاتا ہوں۔ بہت سی باتوں کا حضور ِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو پہلے سے علم ہو چکا ہوتاہے اور یہ خلیفۂ وقت کی اللہ تعالیٰ سے غیبی مدد ہے اور حضور انور کا جماعت احمدیہ کے افرادسے ذاتی تعلق ہے ۔
سب سے پہلے مَیں ایک بات تسلیم کرتا چلوں کہ ایک چھوٹے سے حلقے کے صدر جماعت کو بھی بعض اوقات مکمل طور پر علم نہیں ہوتا کہ اُس کے حلقے میں ہر فرد کا کیا نام ہے اور کس کے کیا حالات ہیں۔ جب کہ امام وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دنیا بھر کے دوسو سے زائد ممالک کے احمدیوں پر نظر ہوتی ہے اور وہ احمدیوں کی دینی و دنیاوی امور میں راہنمائی کر رہے ہوتے ہیں۔ خاکسار لندن کے ایک نواحی علاقے ایپسم جماعت کا صدر ہے۔ حال ہی میں ہمارے حلقے میں ایک فیونرل سروس (میت کو نہلانے اور تدفین کے انتظامات کرنے والی سروس) کا آغاز ہوا ہے جس کے عقب میں ہمیں ایک چھوٹا سا نماز سنٹر بھی بنانے کی سعادت مل گئی ہے۔ہم مجلس عاملہ کے سبھی ارکان روزانہ وہیں پر جمع ہوتے ہیں۔ گزشتہ ایک ملاقات میں خاکسار نے حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو نماز سنٹر کی خوشخبری دیتے ہوئے کہا کہ وہاں فیونرل سروس بھی شروع ہو رہی ہے ۔ کچھ دنوں تک فیونرل سروس کا آغاز ہو جائے گا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اُس وقت ساتھ ساتھ کچھ اہم خطوط پر دستخط بھی فرما رہے تھے ۔ حضور انور نے اپنے اس کام میں مصروف رہتے ہوئے فرمایا کہ ’’ وہاں پہلی سروس ہو بھی گئی ہے۔ عامر انیس کی اہلیہ کی میت وہیں لے جائی گئی تھی۔ اب کل پرسوں ڈاکٹر مقبول ثانی کی والدہ کی میت بھی وہیں لے جائی جائے گی ‘‘۔ میں نے کافی زیادہ حیرانی سے اور لفظ کو لمبا کر کے کہا ’’اچھا ‘‘۔ حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا ’’اچھا تو آپ ایسے کہہ رہے ہیں جیسے آپ کو کچھ علم ہی نہیں ہے ‘‘۔ میں بہت زیادہ حیران ہوا کیونکہ ہم آ جکل زیادہ تر وہیں نماز سنٹر میں تھے اور ہمیں ابھی معلوم نہیں ہوا تھا کہ یہاں سروس شروع ہو چکی ہے۔ جن دو احباب کا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ذکر فرمایا تھا میں سمجھتا تھا کہ وہ صرف میرے ہی پرانے دوست ہیں اس لئے مجھے اُن کے نام یاد ہیں۔
بہر حال اُسی روز ہمارے حلقے کی عاملہ کی میٹنگ تھی۔ ایک باخبر دوست کہہ رہے تھے کہ تین دنوں تک یہاں سروس شروع ہوجائے گی ۔ دو تین دوستوں نے کہا کہ نہیں ابھی ایک دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔ خاکسار نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا احباب ذرا رکیے۔ یہاں سروس شروع ہو چکی ہے اور یہ بات مجھے حضور سے معلوم ہوئی ہے ۔
اسی ملاقات میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ’’ آپ کل جمعہ میں دوسری صف میں بیٹھے تھے اور زیر لب کچھ پڑھ رہے تھے ؟‘‘ میں ششدر سا رہ گیا ۔ میں نے عرض کی حضور بالکل میں دوسری صف میں تھا۔ لیکن حضور کل تو اتفاق سے ایسے ہوا تھا کہ میں زیادہ وقت آپ کو ہی دیکھتا رہا تھا لیکن مجھے لگا تھا کہ آپ نے ہماری طرف کے لوگوں کو دیکھا ہی نہیں ۔ حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مجھے آٹھویں صف تک میں بیٹھے لوگوں کا بھی پتہ ہوتا ہے کہ کون کون آیا ہوا ہے‘‘ 
  جہاں تک عاجزی و انکساری کی بات ہے آپ یقین کریں اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہوں گا کہ میں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے زیادہ منکسرالمزاج کوئی نہیں دیکھا۔ دو مرتبہ ایسے ہوا ہے کہ دورانِ گفتگو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ میں بڑا معمولی قسم کا بندہ ہوں۔
ایک موقع پر جب تعلیم الاسلام کالج اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی ایک تقریب تھی خوش قسمتی سے مجھے حضور کی قربت میں بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں نے کہا کہ حضور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بارہ سالوں سے میں دیکھ رہا ہوں ایک بھی جمعہ ایسا نہیں گزرا جب حضور نے خطبہ جمعہ ارشاد نہ فرمایا ہو یعنی ہر جمعہ کا خطبہ اور نماز حضور نے پڑھائی ہے تو حضور کبھی آپکا گلا خراب یا کھانسی یا بخار نہیں ہوتا۔(دراصل اس معاملے میں ، میں خود بہت حساس ہوں۔ گرد و غبار ، سردی یا فرائیڈ چیزوں کی تصویر بھی دیکھ لوں تو سانس کی تکلیف ہو جاتی ہے۔ اس لئے مجھے پوچھنا پڑا ) تو میں نے پوچھا کہ حضور کبھی آپکا گلا خراب یا کھانسی یا بخار نہیں ہوا۔ حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا میں معمولی قسم کا آدمی ہوں مجھے بھی سب کچھ ہوتا ہے میں ایک آدھ گولی کھا کے اپنے کام میں مصروف ہو جاتا ہوں۔ پھر کچھ توقف کے بعد فرمایا ’’ میں مزدور قسم کا بندہ ہوں۔ تمہاری طرح نازک مزاج نہیں ہوں‘‘۔اللہ اکبر ۔ وہ جن کے لئے کروڑوں احمدی احباب جان دینے کے لئے تیار ہیں ، دنیا کی وہ واحد مسلمان راہنما شخصیت جس کے اعزاز میں کیلی فورنیا کی پولیس نے ساری ٹریفک رکوا دی تھی اور جن کی نماز کی ادائیگی کے لئے کینیڈا کی مملکت نے اپنی پارلیمنٹ ہاؤس کے دروازے کھول د ئیے تھے وہ فرماتے ہیں میں مزدور قسم کا بندہ ہوں۔ 
ایک مرتبہ حضورِ انور جلسے کے انتظامات کا معائنہ فرمانے کے لئے مسجد فضل، مسجد بیت الفتوح، اسلام آباد اور جامعہ احمدیہ یوکے کا دورہ کرنے کے بعد جب حدیقۃالمہدی تشریف لائے اور مختلف شعبہ جات کا معائنہ کرنے لگے تو میں بھی برکت کے لئے قافلے کے پیچھے پیچھے کچھ فاصلے سے چلنے لگا۔ کافی استقلال دکھایا لیکن ایک موقع پر میں تھک کر واپس آگیا ۔ اس کے کچھ دنوں بعد حضور سے ملاقات کا موقع ملا ۔ میں نے اتنا پیدل چلنے کے حوالے سے عرض کی حضور آپ تھکتے نہیں ہیں؟۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا’ ’ تھک جاتا ہوں میں کوئی لوہے کا تو نہیں۔ لیکن میں کام جاری رکھتا ہوں‘‘۔ 
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم ِ نو دیکھا ہے 
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
میں آ ج کے موضوع کی طرف واپس آتا ہوں کہ کس طرح خط لکھنے والے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو یاد رہ جاتے ہیں اور کس طرح انتہائی تفصیلی خطوط پر بھی حضور کی نگاہ بابرکت ہوتی ہے۔پچھلے دنوں ٹی آئی کالج اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن برطانیہ کے کچھ طلباء نے مراکش جانے کا پروگرام بنایا۔ ٹکٹیں اور ہوٹل وغیرہ بُک کروانے کے بعد مجھے خیال پیدا ہوا کہ اس کے لئے تو حضور انور سے اجازت لینی چاہئے تھی۔ چنانچہ فوری طور پر سوچا کہ دیر سے ہی سہی لیکن اجازت کے لئے لکھ دینا چاہئے ۔ اگر اجازت نہ ملی تو ہر چند کہ ٹکٹیں نان ریفنڈیبل (Non-refundable) ہیں ہم نہیں جائیں گے۔ سو خاکسار نے پروگرام کی تفصیل لکھتے ہوئے اجازت اور دعا کی غرض سے حضور کی خدمت میں خط لکھ دیا۔ ساتھ لکھ دیا کہ ٹکٹیں بُک ہو چکی ہیں۔ پھر جب ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو خاکسار نے انتہائی ادب سے کہا کہ حضور ہم مراکش جا رہے ہیں اس کی اجازت کے لئے حضور کی خدمت میں خط لکھ دیا تھا۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اجازت دے دی ہوئی ہے۔ خط آپ کو مل جائے گا ۔ ساتھ ہی انتہائی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا وہ آپ نے اجازت تو نہیں مانگی تھی ، فلائٹ بُک کرکے مجھے صرف اطلاع ہی دی تھی۔ خاکسار اندر سے لرز گیا لیکن اوپر سے وضع داری قائم رکھتے ہوئے مَیں نے کہا حضور ازراہ شفقت ایک بات بتائیے کہ آپ یہ خطوط اتنی تفصیل سے پڑھتے کس وقت ہیں کیونکہ میرا خط تو کافی تفصیلی تھا اور حضور کو تو میں صبح سے رات گئے تک مصروف دیکھتا ہوں۔ اس پر حضور نے فرمایا اس کو چھوڑیں آپ نے یہ لکھا تھا کہ نہیں کہ ٹکٹیں بُک کروالی ہیں ، اجازت عطا فرمائی جائے۔ خاکسار نے کہا حضور لکھا تو بالکل ایسے ہی تھا ۔ مجھے بہت زیادہ تعجب اس بات پر ہوا کہ وہی فقرہ جو میں نے لکھا تھا حضورِ انور نے وہی لفظاََ لفظاََ سنایا۔
پھر میں نے عرض کی کہ ہماری ایسوسی ایشن کے ممبران کی خواہش ہے کہ آئندہ تقریب میں سارے ممبران کی حضور انور کے ساتھ گروپ فوٹو کی سعادت حاصل ہو۔ قارئین اب حیرت انگیز بات سنئے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ مجھے یاد ہے پچھلے سال گروپ فوٹو نہیں ہو سکی تھی۔ جب میں کار میں بیٹھنے لگا تھا تو آپ نے ذکر کیا تھا کہ گروپ فوٹو رہ گئی ہے۔ اللہ اکبر۔ کروڑوں افراد کے روحانی سربراہ ، دو سو سے زائد ممالک کے انتظامی اور تربیتی امور پر نظر رکھنے والے ، روزانہ پانچ وقت نماز پڑھانے اور ساتھ ساتھ ہزاروں خطوط دیکھنے والے ، اور دنیا بھر میں سفر کر کے وہاں کی پارلیمنٹ میں جا کر اسلام کے دعوت دینے والے ہمارے پیارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو یاد تھا کہ پچھلے سال تقریب سے روانگی کے وقت جب حضور کار میں بیٹھنے لگے تھے تو ایک انتہائی معمولی سے شخص نے کہا تھا کہ حضور آج گروپ فوٹو رہ گئی ہے۔ سبحان اللہ۔ خدا تعالیٰ ہمارے پیارے امام کی عمر اور صحت میں برکت عطا فرماوے۔
دعا کے لئے خطوط لکھنے والوں کو میں کہوں گا کہ کبھی تصور بھی نہ کریں کہ شائد میرا سارا خط حضور نہ پڑھیںیا شائد میرے خط پر حضور انور کی نظر ہی نہ پڑے ۔ جو بار بار خط لکھتے ہیں حضور انور کو اُن کے نام اور حالات تک یاد ہوتے ہیں۔ہر چند کہ ہر روز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو ملنے والے خطوط کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے پھر بھی خط لکھتے وقت اس کامل یقین کے ساتھ لکھئے کہ حضور انور یہ خط پڑھیں گے اور خاص طور پر میرے لئے دعا کریں گے اور اللہ تعالیٰ حضور انور کی دعائیں قبول فرمانے والا ہے۔ کبھی یہ ذہن میں نہ لائیں کہ اتنے بڑے بڑے خدمت گزاروں میں حضور کو مجھ جیسے نامعلوم شخص سے کہاں پیار ہوگا ۔ یا وہ میرا سارا خط شاید نہ پڑھیں۔ 
 گو کہ عاشق ہزاروں کھڑے ہیں اُدھر
 چشمِ تر ہم بھی جائیں گے اُس رہگزر
 ہم خطا کار ہیں جانتے ہیں مگر
 اُس کی پڑ جائے ہم پہ بھی شائد نظر
 آئو اُس سے ملیں آئو اُس سے ملیں
کے مصداق خلیفۂ وقت کی اپنے لئے محبت سے کبھی دستبردار نہ ہوں ۔ یقین کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو خط لکھنے والوں کے نام کا پتہ ہوتا ہے اور یہ بھی علم ہوتا ہے کہ کون مجھے خط لکھتا ہے اور کون نہیں لکھتا۔ایک مرتبہ بیرون ملک سے آئے ایک دوست ملاقات کے لئے حضور ِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ملاقات کے بعد مجھے انہوں نے بتایا کہ دورانِ ملاقات میںنے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ایک قلم بطور تبرک عطا کرنے کی درخواست کی ۔ حضور انور نے قلم عطا کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے کیا کرو گے۔ میں نے کہا حضور کو دعا کے لئے لکھا کروں گا۔ اس پر حضور ِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اس نام کا خط پہلے تو مجھے کبھی نہیں ملا ۔ یہ دوست ملاقا ت کے بعد آنکھوں میں آنسو لئے بہت ندامت محسوس کر رہے تھے، کہنے لگے واقعی میں اس سلسلے میں بہت سست تھا اور کبھی خط نہیں لکھ پایا اب باقاعدگی سے لکھا کروں گا۔
اے چھائوں چھائوں شخص تری عمر ہو دراز
قارئین ایک بات خود میرے لئے ابھی تک معمہ ہے کہ حضو ر یہ خط پڑھتے کس وقت ہیں اور تفصیلی اور مختلف طرز تحریر میں لکھے گئے خطوط پر کیسے حضور کی نگاہ ہوتی ہے۔ ایک تفصیلی خط میں نے لکھا جس میں کوئی آٹھ دس باتیں تھیں۔ ایک بات یہ بھی تھی کہ ہم محترم زرتشت منیر صاحب کے ساتھ ایک شام کر رہے ہیں حاضرین کے لئے ہم بریانی بنوا رہے ہیں۔ دیگر امور کی راہنمائی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ارشاد تھا کہ ’’ صرف بریانی کیوں۔ اچھا کھانا بنوائیں ‘‘ ۔ 
میں نے جو لکھا کہ سمجھ نہیں آتی کہ حضور انور یہ خطوط کس وقت پڑھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ صبح سے لے کر نماز عشاء تک تو حضور انور کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ساری دنیا کے سامنے ہے۔ سارا دن نمازوں ،عبادت ، دفتری امور کے ساتھ ساتھ انتظامی امور سے متعلق راہنمائی لینے والے ملاقاتیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ، شام کو کوئی بیس پچیس فیملیاں ملاقات کے لئے ہوتی ہیں ہر فیملی میں دو تین ممبر بھی ہوں تو چالیس پچاس ا فراد بن جاتے ہیں اُن سب کو حضور انور ملاقات کا شرف بخشتے ہیں اور یہ ملاقاتیں صبح سے لے کر شام گئے تک جاری رہتی ہیں۔پچھلے دنوں کی بات ہے کہ دن کے کوئی دس بجے کے قریب خاکسار حضور انور سے ملاقات کر کے واپس اپنے کام پر گیا ۔ شام کو پرائیویٹ سیکریٹری صاحب کے دفتر جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ ملاقاتوں کا سلسلہ اُسی طرح جاری ہے اور اب فیملی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ یہ ملاقات بھی عام ملاقات نہیں بلکہ ہر کوئی ایک نئی زندگی اور نئی عقیدتیں لے کر نکلتا ہے۔ کسی دنیاوی لیڈر سے اگر ہم روز ملیں تو شائد معمول کی بات بن جائے لیکن میں نے یہاں عجیب نظارے دیکھے ہیں۔ ہر وقت ساتھ رہنے والے محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب بھی ہر مرتبہ ملاقات کے لئے دفتر اندر جانے سے پہلے ادب و احترام اور عقیدت سے سرشار لرز رہے ہوتے ہیں اور ہر ملاقات کے بعد حضور کے دفتر سے شاداب سے ہو کر باہر نکلتے ہیں اور ان کے چہرے سے طمانیت کا احساس واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ تو میں عرض کر رہا تھا کہ حضور سارا دن تو اس طرح انتظامی امور کی اور احمدی احباب سے معمول کی ملاقاتوں میں مصروف ہوتے ہیں حضور اتنی زیادہ تعداد میں خط روزانہ کس وقت پڑھتے ہوں گے ۔ جہاں تک میرا قیاس ہے حضور دفتری اور انتظامی امور کے خطوط دن کے وقت پڑھتے ہوں گے جبکہ دنیا بھر سے آئے ہوئے وہ ذاتی خطوط جن میں احمدی احباب اپنے والدین سے زیادہ شفیق امام کو اپنے تمام تر حالات لکھ بھیجتے ہیں ممکن ہے وہ خطوط حضور دن بھر بارہ گھنٹے کام کرنے کے بعد رات گئے پڑھتے ہوں ۔ 
 قوم احمد جاگ تُو بھی جاگ اُس کے واسطے 
 ان گنت راتیں جو تیرے درد سے سویا نہیں
سو ہمیں چاہئے کہ ہم خود بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کے خط لکھتے رہیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالیں۔ 
معزز قارئین آپ کو ایک اور بات بتاتا چلوں ۔ پچھلے سال کی بات ہے ۔ہماری تعلیم الاسلام کالج اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن برطانیہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں ایک درخواست بھجوائی کہ اب سے تین ماہ بعد ہم ایک تقریب کرنا چاہ رہے ہیں جس میں حضور انور سے شرکت کی موٗدبانہ درخواست ہے۔ حضور انور نے اس خط پر ارشاد فرمایا کہ آپ تقریب کریںمیں شامل ہونے کی کوشش کرو ں گا۔ ہم نے تقریب کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اب تقریبا دو ماہ سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ خاکسار کو خوش قسمتی سے ملاقات کا موقع مل گیا ۔ میں نے عرض کی کہ حضور تقریب اب کچھ ہی دنوں میں ہے اورحضور انور نے ہم سے شرکت کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ سن کر مسکراتے ہوئے اپنے خط کے ہو بہو الفاظ فرمائے کہ میں نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ میں آئوں گا ۔میں نے تو یہ کہا تھا آپ تقریب رکھ لیں میں شامل ہونے کی کوشش کروں گا۔ خاکسار نے ملاقات کے بعد مجلس عاملہ کو بڑے افسردہ دل سے بتایا کہ ہر چند کہ میں نے اپنی بہترین کوشش کی لیکن تین ماہ کے بعد بھی حضور کو اپنے  الفاظ ہوبہو یاد تھے۔ اس لئے ٹوٹے دل کے ساتھ ہی سہی لیکن ہم نے پروگرام کی تیاری جاری رکھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری خوش قسمتی کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہماری اس تقریب میں رونق افروز ہوئے اور ہماری حوصلہ افزائی کے لئے تقریباََ پچاس منٹ تک تشریف فرما رہے ۔ 
ایک مرتبہ کوئی سات آٹھ سال پہلے میں اچانک بہت بیمار ہوگیا۔ ہوا یوں کہ اپنڈکس Burst ہو گیا اور حالت غیر ہوگئی۔ تین دنوں کے بعد آپریشن ہوا اور ڈاکٹر کہنے لگے کہ زندہ بچ جانے پر حیرانگی ہے۔ ویسے مجھے بھی بیہوش ہوتے یہی لگا تھا کہ دنیا خدا حافظ۔ بہرحال ہسپتال جاتے ہوئے بھی اور وہاں سے بھی حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کا خط لکھا تھا۔  پھر صحت یاب ہونے کے بعد حضور کو لکھا کہ گھر آگیاہوں ۔ یہ خط لکھ کے ایک دوست کو دیا کہ مسجد پہنچا دو۔ کوئی بیس پچیس دنوں بعد اس’’ جلد باز‘‘ دوست سے ایک بازار میں ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے کہ خط دستی دینا ہے کہ پوسٹ کر دوں۔ میرے ہاتھ سے شاپنگ بیگ چھوٹتے چھوٹتے بچے۔ اُس کے کچھ دنوں بعد ایم ٹی اے کا ایک پروگرام تھا۔ خاکسار بھی ایک نظم پڑھنے کے لئے جب سٹیج پر جانے کے لئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قریب سے گزرا تو حضور انور نے صحت سے متعلق دریافت فرمایا اور فرمایا کہ بیمار ہونے کی اطلاع دی تھی ۔ صحت یاب ہونے کا خط نہیں لکھا تھا۔ یہ سن کر مجھے بیماری کے دن کی مشکلات بھول گئیں ۔اللہ تعالیٰ ہمارے محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بابرکت سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے آمین۔ 
خدا سے یہ دعا کرو سدا یہ سائباں رہے 
سدا بہار کی طرح وفا کا گلستاں رہے 
چمن کا باغباں رہے
یہ جانتے ہیں آپ بھی اُسی میں آب و تاب ہے
شجر کے ساتھ جو رہے وہ شاخ کامیا ب ہے 
 وہ سبز ہے گلاب ہے
اُسی کے دم سے رونقیں اُسی سے یہ بہار ہے
امام وقت کے لئے یہ جان بھی نثار ہے 
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو دعا کے لئے لکھنے والے کبھی یہ خیال بھی نہ کریں کہ ہم نے جو کچھ خط میں لکھا ہے شائد وہ حضور انور کی نظروں سے نہ گزرے۔ امام وقت ایدہ اللہ کی ہر بات ہر قدم اور ہر نگاہ میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ اور نگاہ ِ یار وہ شے ہے جو ذرّے کو بھی زر کردے والا معاملہ ہے۔ اس لئے ہمیں دعا کے لئے ضرور لکھتے رہنا چاہئے بلکہ جہاں ہم پریشانیوں کے وقت دعا کے لئے لکھتے ہیں وہیں پر ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم خوشی کی خبریں بھی لکھیں۔ اور کوئی بات نہ ہو تو یہ ہی لکھ دیں کہ میں خیرو عافیت سے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ باقاعدگی سے پانچوں نمازیں پڑھ رہا ہوں۔ آپ سب یہ بات مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ حضور کو سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ جب کوئی اپنے متعلق بتائے کہ میں نمازوں میں پابند ہوں۔ گزشتہ دنوں ایک حلقے کی مجلس عاملہ سے ملاقات کے دوران کا واقعہ ہے کہ حلقے کے صدر صاحب نے عرض کی کہ حضور ہم نے چندوں کے نظام کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ خاکسار اس ملاقات میں نہیں تھا لیکن مولانا نسیم باجوہ صاحب سے معلوم ہوا ہے کہ حضورانور نے یہ سن کر ارشاد فرمایا تھا کہ مجھے نمازوں کی ادائیگی سے متعلق بتائیں۔ 
جرمنی کے ایک دوست بتا رہے تھے کہ ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو سوچ رہا تھا کہ اپنا تعارف کرواوں گا۔ لیکن میرے تعارف سے پہلے ہی حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے خط مجھے ملتے رہتے ہیں آپ کے دادا جان فلاں جگہ رہتے تھے آپ کے اباجان فلاں شہر میں کام کرتے تھے آپ کے چچا کی دکان وہاں ہوا کرتی تھی۔ وہ دوست کہنے لگے کہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے باہر نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنا پیارا امام دیا ہے کہ آج میں اتنے برسوں بعد ملنے آیا ہوں تو مجھ جیسے گمشدہ آدمی کو بھی حضور نے پہچان لیا ہے۔
سٹوک میں رہنے والی میری خالہ زاد بہن جو کہ مکرم محمد افضل کھوکھر شہید گوجرانوالہ کی بیٹی اور محمد اشرف شہید کی چھوٹی بہن ہیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پہلی بار ملاقات کے لئے جارہی تھیں۔ ملاقات کے بعد مجھے بتانے لگیں کہ ملاقات کے لئے جاتے وقت میں سوچ رہی تھی کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تو مجھے جانتے بھی نہیں اس لئے از سرِ نو تعارف کروائوں گی۔ ملاقات کے چند لمحات کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ِ العزیز نے فرمایا کہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپکے سٹوک والے گھر بھی گیا ہوا ہوں۔ 
محترم رانا مبارک صاحب آف علامہ اقبال ٹائون (مرحوم) نے ایک دن بتایا کہ میں حضور سے ملنے گیا تو حضور نے فرمایا کہ لاہور کے فلاں صاحب کی صحت اب کیسی ہے۔ آپ نے اپنے خط میں اُن کے متعلق لکھا تھا کہ وہ آج کل بیمار ہیں۔رانا صاحب بعد میں دوستوں کو بتا رہے تھے کہ میرا دل باغ باغ ہو گیا یہ سوچ کر کہ حضور کو میرے خطوط یاد تھے اور تین چار ماہ کے بعد بھی حضور کو اُن بیمار ہونے والے صاحب کا نام یاد تھا جبکہ وہ صاحب لاہور میں بھی بڑے گمنام سے تھے۔
ایک واقعہ جو خاکسار پہلے ایک مضمون میں لکھ چکا ہے وہ دوبارہ لکھتا ہوں کیونکہ وہ اس موضوع سے متعلق ہے جو اس وقت چل رہا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ ملاقات کی درخواست دی۔ حضور انور نے ارشاد فرمایا ابھی مصروفیت ہے اگلے ہفتے پتہ کر لیں۔ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اگلے ہفتے خاکسار نے پھر ملاقات کے لئے لکھا تو ارشاد ہوا کہ ابھی مصروفیت ہے پھر کبھی پتہ کریں۔خاکسار خاموش ہوگیا کسی سے ذکر نہیں کیا۔ اس بات کو پانچ چھ ماہ گزرگئے۔ اس عرصے میں حضور انور نے کتنے لوگوں کو ملاقات کا شرف بخشا ہو گا ۔ اگر روزانہ یہ تعداد چالیس بھی ہو تو چھ ماہ میں مجموعی طور پر اندازاََ کوئی سات ہزار لوگ مل کر گئے ہوں گے ۔ اگر روزانہ خطوط کی تعداد پندرہ سو بھی لگائی جائے تو تقریباََ دو لاکھ ستر ہزار خطوط ملاحظہ فرما چکے ہوں گے۔ اسی دوران حضور انور نے یورپ کا دورہ فرمایا امریکہ بھی تشریف لے گئے جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے حضور انور کو ملکی سطح پر پروٹوکول دیا گیا ۔بہرحال اتنے عرصے میں ، مَیں بھی یہ بات تقریباََ بھول گیا کہ میں نے ملاقات کے لئے لکھا تھا ۔ پھر خاکسار معمول کی فیملی ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا تو پیارے حضور نے خاکسار کا ہاتھ پکڑے پکڑے فرمایا کہ آپ نے کچھ مہینے قبل ملاقات کے لئے پوچھا تھا اُن دنوں میری مصروفیات بہت زیادہ تھیں ۔ بعد میں ، میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے پوچھا بھی تھا کہ کیا آپ نے ملاقات کے لئے پھر سے پوچھا ہے ‘‘۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہ شفقت دیکھ کر دل نے سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہا کہ اتنے ممالک کے دورے کے بعد بھی ایک معمولی خادم کے متعلق یاد رہا کہ اُسے ملاقات کا وقت نہیں دیا تھا۔سبحان اللہ ۔ 
  ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ بعض اوقات نام میرے ذہن سے محو ہو جاتے ہیں اور پھر حضور سے ملاقات میں تو انسان ویسے بھی عقیدت و محبت میں بہت کچھ بھول جاتا ہے ۔ کہنے لگے حضور نے کہا آپ کے چچا جان کیسے ہیںکیا نام اُن کا ؟ کہنے لگے گھبراہٹ میں چچا کا نام میرے ذہن سے محو ہو گیا۔ میں سوچنے لگا لیکن مجھ سے پہلے حضور نے میرے چچا کا نام لے لیا۔ کہنے لگے کہ ملاقات کے بعد میں نے چچا کو فون کیا کہ اس طرح ملاقات میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کا نام لیا ہے۔ اُن کے چچا خوشی سے سرشار ہو گئے اور کہنے لگے کہ میں زندگی میں صرف ایک بار حضور سے ربوہ میں ملا تھا اور حضور نے مجھ سے میرا نام پوچھا تھا۔
ہمارے بریڈ فورڈ والے محترم ڈاکٹر باری ملک صاحب نے ایک مرتبہ بتایا کہ حضور انور جب مہتمم بیرون مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی حیثیت میں یوکے کے دورہ پر تشریف لائے توان دنوں باری صاحب نارتھ ریجن کے ریجنل قائدمجلس خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔حضور محترم میاں محمد صفی صاحب نیشنل قائد یو کے کے ہمراہ بریڈفورڈ تشریف لائے تو حضور نے کچھ دیر کے لئے باری صاحب کے گھر پر قیام فرمایا۔ خلافت کے بعد حضور انور جب پہلی بار بریڈفورڈ مسجد المہدی کا سنگ بنیاد رکھنے کیلئے تشریف لائے تو پہلے مسجد بیت الحمد تشریف لائے۔ باری صاحب حضور انور کو مسجد کے مختلف حصے ّ دکھا رہے تھے تواس دوران حضور نے محترم باری صاحب سے پوچھا کہ تم اب بھی اُسی گھر میں رہتے ہو جہاں میں آیا تھا ۔باری صاحب کہتے ہیں کہ حضور انور کی زبانی یہ بات سن کر مجھے بے انتہا خوشی ہوئی ۔
پھر باری بھائی نے ایک اور بات بتائی کہ اُن کی دادی جان صاحبہ بہت اچھا ساگ بناتی تھیں اور دعا کی غرض سے ہم وہ ساگ کا سالن بزرگوں کے گھروں میں بھی بھجواتے تھے اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی وہ ساگ کھایا ہوا تھا تاہم اس بات کو اب ایک بہت لمبا عرصہ گزر چکا تھا۔اکتوبر 2004ء میں حضور انور نے واقفین زندگی احباب کی بریڈ فورڈ میں دعوت فرمائی۔ ہم نے بریڈفورڈ کے قریبی قصبہ الکلے کے ایک خوبصورت مقام پر اس دعوت کا انتظام کیا۔ باربی کیو کا انتظام تھا کسی گھر سے ساگ بھی بھجوایا گیا تھا ۔کھانے کے دوران کسی دوست نے بتایا کہ حضور خاکسار کو یاد فرما رہے ہیں۔ خاکسار خدمت میں حا ضر ہوا تو حضور انور نے فرمایا’’ یہ ساگ ویسا نہیں ہے جیسا آپ کی دادی جان صاحبہ پکایا کرتی تھیںاُس ساگ کا مزا ہی اور تھا۔‘‘ ۔ باری بھائی کہتے ہیں کہ خاکسار کو حضور انور کی زبان مبارک سے یہ بات سن کر انتہائی خوشی ہوئی اور حیرت بھی ہوئی کہ اتنا لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی حضور انور کو یہ بات یاد تھی ۔
ایک بہت اہم بات جس کا میں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قریب رہ کر مشاہدہ کیا ہے وہ یہ ہے کوئی بھی فرد حضور کی محفل میں چھوٹا نہیں ہوتا ۔ بلکہ حضور ازرہ شفقت ہر کسی سے اُس کے مزاج، علمی استعداد اور ہنر کے مطابق بات کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ایک ہی دن ملاقاتوں میں حضور سے ایک ملاقاتی پانچ ملین پائونڈ کے پراجیکٹ کے لئے راہنمائی لے رہا ہو اور ممکن ہے کہ اگلا ملاقاتی پانچ ہزار پائونڈ والے خدمت خلق کے منصوبے کی بات کر رہا ہو۔ ایک ملاقاتی سائنسدان ہو سکتا ہے اور دوسرا عام سا مزدور ، ہنر مند ہو سکتا ہے ۔ حضور کسی کو یہ احساس نہیں دلواتے کہ تمہارا یہ چھوٹا سا منصوبہ ہے کسی اور سے جا کر پوچھ لو۔ 
ایک مرتبہ اردو زبان کی ایک ادبی محفل میں مجھے دو چہرے ایسے نظر آئے جو میرے لئے اور باقی تمام حاضرین کے لئے اجنبی تھے اورجن سے متعلق مجھے گمان نہیں بلکہ یقین تھا کہ انہیں اردو نہیں آتی ۔ یہ چہرے ایسے تھے کہ ہمیں بطور انچارج ایک دوسرے سے پوچھنا پڑا کہ انہیں کون جانتا ہے۔ سب نے نفی میں جواب دیا ہاں ایک دو مربیان کرام نے بتایا کہ مخلص احمدی ہیں۔ ایک افریقن دوست تھے اور ایک غالباََ انڈونیشین۔ دوران پروگرام خاکسار نے عرض کی کہ حضور آج کی مجلس میں دو افراد ایسے بھی ہیں جنہیں اردو نہیں آتی ۔غالباََ وہ صرف حضور کے دیدار کے لئے بیٹھے ہیں۔ حضور انور نے مسکراتے ہوئے اُن دونوں احباب کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا یہ آپ سے اچھی اردو بول لیتے ہیں۔ محفل کشت زعفران بن گئی۔ پھر حضو ر انور نے افریقن دوست کو ارشاد فرمایا ۔ وہ افریقن صاحب اپنی نشست سے اُٹھے اور اردو میں کہنے لگے کہ مجھے اردو شاعری اچھی طرح سمجھ آتی ہے۔ انڈونیشین صاحب نے بھی اردو میں کوئی بات کر کے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک دو نہیں بلکہ دوسو سے زائد ممالک میں رہنے والے احمدی احباب حضور انور کی توجہ اور دعائوں کا اعزاز پاتے ہیں۔ اگر ہم عرب کے لوگوں سے ملیں تو وہ کہتے ہیں کہ حضور سب سے زیادہ پیار عرب لوگوں سے کرتے ہیں، یورپ والے کہتے ہیں کہ ہم جب چاہیں گاڑی نکالیں اور اگلے دن جا کر حضور کی اقتداء میں نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ ہم جیسا خوش قسمت کوئی نہیں۔ایشین احمدی ویسے ہی حضور کو اپنا ہی سمجھتے ہیں، بنگلہ دیش والے تو بہت ہی زیادہ خوش قسمت ہیں اور پھر افریقن احمدی احباب کے لئے حضور کی محبت سب سے سِوا معلوم ہوتی ہے۔ امریکہ کینیڈا، آسٹریلیا، غرض ہر قوم اور ہر خطے کے احمدی احباب حضور انور کی محبت، شفقت اور راہنمائی سے یکساں طور پر مستفید ہوتے ہیں ۔ کیا یہ خدا تعالیٰ کی خاص مدد کے بغیر ممکن ہے۔ ہر گز نہیں۔ 
اور اب مضمون کے اختتام پر میں وہ بات لکھنے لگا ہوں جس کی وجہ سے کل شام اس مضمون کو لکھنے کی تحریک ہوئی ۔کل شام یو نہی جب تنہائی میں ،میں نے پچھلے تیرہ سالوں کا جائزہ لیا تو یہ سوچ کر حیران رہ گیا ہوں کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گزشتہ بارہ تیرہ سالوں میں ایک مرتبہ بھی کسی خط میں ، ملاقات میں، کسی تقریب کے لئے یا کسی پروگرام کے لئے ’’نہیں ‘‘ نہیں کہا اور ازراہ شفقت اجازت ہی دی ہے ۔ اب اتنے سالوں بعد انکشاف ہوا ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لئے کسی بھی احمدی کو ’’نہیں ‘‘ کہنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اس لئے جب سے اس حقیقت سے آگاہ ہوا ہوں کہ حضور کے لئے کسی کو ’’ نہیں ‘‘ کہنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ اب سوچا ہے کہ امام وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لئے صرف اور صرف دعا ہی کرنی ہے اور صرف دعا کے لئے ہی کہنا ہے۔ 
شائد کوئی سوچ رہا ہو کہ میں نے تو بیٹے یا بیٹی کی شادی کی تقریب میں بڑی محبت و عقیدت سے دعوت دی تھی، دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے معذرت آگئی تھی۔ بات یہ ہے قارئین کہ انتظامی امور کی بات بالکل مختلف ہے اور پوری دنیا ئے احمدیت میں نظام کو درست رکھنے کے لئے اور اجتماعی مفاد میں حضور انور کو ایسے فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں اور بہت سی تقاریب میں حضور شامل نہیں بھی ہوسکتے ۔ حضور انور کی مصروفیا ت کی ڈائری کئی کئی مہینے پہلے سے بھر ی ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ ایک آدمی ایک وقت میں دو جگہ نہیں ہو سکتا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کب کس کو وقت دیتے ہیں اور اس کی حکمت کیا ہے یہ ہم نہیں سمجھ سکتے ۔ کچھ سال قبل عیدالفطر کے بعد حضور مسجد بیت الفتوح میں سارے لوگوں کو یعنی چار پانچ ہزار مردوں کے پاس جا کر انہیں شرفِ مصافحہ بخش رہے تھے ۔ حضور تیز تیز چلتے ہوئے ہاتھ ملا کر آگے تشریف لے جاتے تھے ۔ پوری صف میں سے کسی ایک خوش قسمت شخص کے پاس رک کر ایک آدھی بات بھی فرماتے جو کہ یقیناً بہت بڑی خوش بختی تھی۔ مجھے بھی مصافحے کا شرف حاصل ہوا ۔ لیکن کوئی بھی بات نہیں ہوئی۔ مجھ سے آگے تیسرے شخص کے پاس حضور کچھ لمحات کے لئے رُکے اُس کا حال احوال پوچھا۔ ویسے وہ شخص میری طرح ہی پریشان حال دکھائی دینے والا تھا سو دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر کسی پریشان حال شخص سے ہی بات کرنی تھی تو وہ مَیں سب سے زیادہ موزوں تھا۔ کچھ دنوں بعد اتفاق سے اُسی اجنبی شخص سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے مبارکباد دی کہ عید کے روز اتنے لوگوں کو چھوڑ کر حضور نے آپ کا حال پوچھا۔ وہ دوست بتانے لگے کہ میری صحت اچھی نہیں رہتی ۔ میں نے کچھ عرصہ قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں دعا کا خط لکھا تھا۔ عید کے دن حضور مجھ سے میری صحت سے متعلق دریافت فرما رہے تھے ۔ 
بہرحال یہ تو چند ایک مثالیں ہیں جو میں نے بغیر کسی خاص ترتیب کے سپرد قلم کی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے ہر فرد کے پاس ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔برکات ِ خلافت سے متعلق آپ یقیناً بڑے بڑے ایمان افروز واقعات بھی پڑتے رہتے ہیں، بڑی بڑی زبردست تحریریں بھی پڑھتے ہیں کہ کس طرح دنیا بھر میں اللہ تعالیٰ خلافت کی برکت سے جماعت کو ترقیات عطا فرما رہا ہے لیکن ان بظاہر چھوٹے چھوٹے واقعات کو دیکھ کر بھی انسان یہ مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آج اگر دنیا میں امن کی کوئی ضمانت ہے تو وہ خلافت احمدیہ ہی ہے جس میں تمام تر مصروفیات کے ساتھ ساتھ خلیفہ وقت ہر ہر ملک اور ہر ہر شہر کے احمدیوں کے حالات پر نظر رکھتے ہیں اور سب کے لئے دعا کرتے ہیں۔ اور ہر کسی کو یکساں طور پر براہ راست امام وقت کی راہنمائی میسر ہے۔ دنیا میں اس وقت کوئی دوسرا نظام ایسی مثال پیش نہیں کر سکتا ۔
اس لئے ہمیں دعا کے لئے ہمیشہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھتے رہنا چاہئے ۔ یقینا ًآج کے دور میں امام وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہی ذات ہے جن کی دعائیں اللہ تعالیٰ بطور خاص سنتا ہے اور اس کے گواہ ایک دو نہیں لاکھوں کروڑوں ہیں۔ اور ملاقات کو جانے والوں کو میں کہوں گا۔
وصال ِ یار کو جانا تو ہو کر با وضو جانا
مجسم باادب رہنا ، سرا پا آرزو جانا
نگاہِ یار وہ شے ہے جو ذرہ کو بھی زر کردے
اُٹھائے خاک سے اور شہر بھر میں معتبر کردے 
جو دانہ خاک میں ملنے کو بھی تیار ہوتا ہے 
وہی اک دن گلابوں کی طرح گلزار ہوتا ہے
جو عاشق جان دینے کے لئے تیار ہوتا ہے
اُسی کے بخت میں لکھا وصال ِ یار ہوتا ہے
عقیدت کے جلائے دیپ اُس کے روبرو جانا
وصال یار کو جانا تو ہو کے باوضو جانا
مجسم با ادب رہنا سراپا آرزو جانا
ایک مرتبہ میں ایک ملک سے مشاعرے میں شرکت کر کے لوٹا ۔ تین چار دنوں بعد ہی میری ملاقات تھی۔ میں نے سوچا کہ جا کر مشاعرے کی تفصیل بتائوں گا۔ میں نے عرض کی کہ حضور میں فلاں ملک مشاعرے کے لئے گیا تھا۔ اس پر حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا جی مجھے علم ہے فلاں فلاں شاعر کو داد ملی تھی آگے بتائو۔ میں نے عرض کی حضور بس میں دعا کے لئے حاضر ہوا تھا۔
انتخاب کے اگلے روز مجھے پاکستان سے ایک دوست کا فون آیا مبارکباد کے بعد کہنے لگا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز انتہائی کم گو اور انتہائی سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں اور انتظامی امور میں دستور اور قوانین کی سختی سے پابندی کرنے اور کروانے والے ہیں۔ فون کے اختتام پر اُس نے دبے لفظوں میں یہ بھی کہا کہ قوانین اور دستور پر پابندی کے معاملے میں آپ کو سخت طبیعت کا کہا جاسکتا ہے۔
خاکسار نے ایک روز ملاقات میں اس دوست کی بات کا ذکر کیا کہ اُس نے کہا تھا کہ آپ کو سخت طبیعت کا کہا جاسکتا ہے۔ پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس پر بہت اور بہت مسکرائے اور دریافت فرمایا ’’ کون تھا وہ ‘‘؟ میں ہچکچاتے ہچکچاتے نام بتانے کے لئے تیار ہو ہی رہا تھا تو حضور نے فرمایا ’’ چلیں نام رہنے دیں‘‘ پھر مسکراتے ہوئے فرمایا ’’ اوہو بے چارہ۔ پتہ نہیں مَیں نے اُسے کیا کہا ہوگا اور اُس نے کیا سمجھ لیا ہوگا‘‘ ۔
( نوٹ۔ کوئی قاری یہ سمجھ سکتا ہے کہ شائد خاکسار ہر وقت حضور سے سوال ہی پوچھتا رہتا ہے۔ یاد رہے کہ اس مضمون میں لکھے گئے یہ چند ایک سوال گزشتہ بارہ تیرہ سالوں میں پوچھے گئے تھے جنہیںایک مضمون میں بیان کیا ہے) ۔

مکمل تحریر >>

Thursday 27 December 2018

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایک دن کی مصروفیات کی ایک جھلک



میرا دوست مجھے اپنے بیٹے کی شادی کا کارڈ تھما رہا تھا لیکن اُس کا چہرہ کچھ مغموم اور لہجہ قدرے اُداس تھا۔ وجہ پوچھنے پہ کہنے لگا کہ میری بڑی خواہش تھی کہ حضرت     امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میرے بیٹے کی شادی میں شرکت فرماتے ۔اس سلسلے میں، مَیں حضور سے ملاقات کرنے بھی گیا تھا۔ میری بڑی خواہش تھی کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ملاقات میں بڑی دیر تک بیٹھتا اور اپنے سارے حالات بتاتا لیکن مجھے ملاقات کے لئے صرف تین چار منٹ کا وقت ملا۔ ابھی میں نے اور باتیں کرنی تھیں لیکن پرائیویٹ سیکریٹری صاحب مسکراتے ہوئے کمرے میں آگئے اور ملاقات ختم ہو گئی۔
یقینا اُس کی اُداسی میں خلو ص،محبت،چاہت اور عقیدت چھلک رہی تھی۔ ملاقات کے جس دورانیے کا وہ ذکر کر رہا تھا میرے خیال میں وہ بڑا خوش قسمت آدمی تھا ۔ وہ جن کے دیدار کے لئے نوبل انعام یافتہ لوگ، عالمی عدالتوں کے جج، اداروں کے سربراہان، مختلف ممالک کے وزراء، دانشور، صحافی، ادیب، کالم نگار، جماعت احمدیہ کے بڑے بڑے علمائے کرام، ہجوم میں ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کے  دیکھتے ہوںیامصافحے کے لئے بصد ادب و احترام قطاروں میں ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہوں،ایسے بابرکت وجود کے رُوبرو بیٹھ کے اُس روح پرور ماحول سے کس کا دل کرتا ہے کہ وہ وہاں سے اُٹھے۔
مجھے یادہے کہ اس دوست کی طرح ایک دن مَیں نے بھی ایسا ہی سوچا تھا لیکن پھر جب آہستہ آہستہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات کو دیکھا تو جانا کہ ساری عمر میں ایک مرتبہ بھی رُوبرو ملاقات کا ایک لمحہ اور دیدار کی ایک جھلک بھی محض اللہ تعالیٰ کا فضل، انعام اور غنیمت ہے ۔ ایں سعادت بزور ِ بازو نیست ۔ ہر کسی کے مقدر میں یہ لمحہ نہیں آتا۔ دنیا بھر میں سینکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں احمدی ایسے ہیں جو امام وقت کی ایک جھلک کے لئے ترستے ہیں۔پاکستان کے احمدیوں سے پوچھئے جن کے دل کا حال ایسا ہے کہ بقول حافظ شیرازی                                                                            
بازآ کہ در فراقِ تو چشمم زگریہ باز
 چُوںگوشِ روزہ دار بر اللہ اکبر است
تیرے فراق میں، مَیں ایسے اشکبار اور بیقرار ہو کے تیر ی راہ دیکھتا ہوں جیسے روزہ کھلنے کے وقت روزہ دار کے کان    اللہ اکبر کی صدا کی طرف لگے ہوتے ہیں۔
…………………
اپنے اس مضمون میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جن مصروفیات کا ذکر میں کرنے جا رہا ہوں وہ میرے ذاتی مشاہدات کی باتیں ہیں ۔ چونکہ میں پرائیویٹ سیکریٹری صاحب کے دفتر میں کام کرنے والا کارکن نہیں ہوں اس لئے وقت کا یا تعداد کا ذکر کرتے ہوئے کمی بیشی کا احتمال موجود ہے اس لئے ان اعدادو شمار کو بطور ریفرنس استعمال نہ کرنے کی عاجزانہ درخواست ہے ۔  امام زمانہ کے کروڑوں عشاق کے ہجوم میں کھڑا میں بھی ایک ادنیٰ سا کارکن ہوں جس کا کہنا ہے:
گو کہ عاشق ہزاروںکھڑے ہیں اُدھر 
 چشم ِ تر ہم بھی جائیں گے اُس راہگزر 
ہم  خطا کار  ہیں  جانتے  ہیں مگر
 اُس کی پڑ جائے ہم پہ بھی شائد نظر
 آئو اُس سے ملیں  
…………………
بات یہ ہے کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز  ہمارے لئے ایک شفیق باپ کی طرح ہیں اور ساری جماعت کے افراد اُن کے لئے  بچوں کی طرح ہیں ۔  جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ایک سال میں کل پانچ لاکھ پچیس ہزار چھ سو منٹ ہوتے ہیں۔ اب ایک شفیق باپ نے امام وقت نے ، اگر پندرہ سے بیس کروڑ بچوں کو وقت دینا ہو، ان کی دین و دنیا میں کامیابی کے لئے تربیت کرنی ہو، اُن کے دکھ درد کا مداوا کرنا ہو ، انہیں دنیا کے مصائب اور ابتلائوں سے اور آزمائشوںسے بچانے کے لئے بھرپور کوشش کرنی ہو، ان کے لئے اور اُن کی آئندہ نسلوں کی سہولیات کے لئے بڑے بڑے منصوبے بنانے ہوں تو ضرب تقسیم کے بعد ایک سال میں جتنے سیکنڈ یا سیکنڈ کا جتنا حصہ ہمارے حصے میں آتا ہے ہم سب اس بات کے گواہ ہیں اور شکر گزار ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور  حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شفقت کے باعث ہم سب کو اس سے کہیں زیادہ وقت مل رہا ہے۔ اور صرف یہی ایک پہلو اس بات کا گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی خلیفہ بناتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی قدم قدم پہ تائید و نصرت کے ساتھ ہی یہ سارے مرحلے طے ہوتے ہیں ورنہ اگر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی روزانہ کی مصروفیات کو دیکھا جائے تو حسابی ضربوں تقسیموں کے مطابق یہ سب ممکن ہی نہیں ہے اور اسے معجزہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہے۔ 
ایک چھوٹے سے حلقے کے صدر جماعت کو بعض اوقات اتنا خط وکتابت کا کام ہوتا ہے، پروگرام منعقد کرنے کے لئے اتنے انتظامات کروانے پڑتے ہیں کہ بعض اوقات گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے کہ اتنا کام کیسے ہوگا۔ اُس کے پاس بھی نائب صدر ،جنرل سیکرٹری اور پوری مجلس عاملہ ہوتی ہے۔ خلیفۂ وقت نے تو پوری دنیا کے کروڑوں احمدیوں کی روحانی ترقی اور تربیت کے ساتھ ساتھ پوری جماعت احمدیہ کے اداروں کے انتظامی امور کے حوالے سے راہنمائی فرمانی ہوتی ہے۔
مَیں اپنی بات کو آسان کر دیتا ہوں۔ مثال کے طور پہ  اگر کوئی دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے بیس گھنٹے مسلسل  بھی کام کرے تو اُس کے پاس کُل بارہ سو منٹ ہوں گے۔ ان بارہ سو منٹو ںمیں ہمارے پیارے امام حضرت      امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دنیا کے دو سو سے زائد ممالک سے آئے ہوئے تقریباً پندرہ سو خطوط  دیکھنے ہوتے ہیں۔ بہت سے خطوط کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے لیکن مَیں اپنے مشاہدات کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ  ان خطوط میں سے ایک اچھی خاصی تعداد ایسے اداروں یا اداروں کے شعبہ جات کے سربراہان کی طرف سے ہوتی ہے جسے اصل پیش کرنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ بہت سے دفتری اور انتظامی امور کے فوری فیصلہ طلب خطوط ہوتے ہیں۔ بہت سے ممالک سے امرائے کرام، مر بیان کرام، مشنری انچارج اور مختلف شعبہ جات کے سربراہان، صدران اور منتظمین نے ایسے سوالات پوچھے ہوتے ہیں جن پر حتمی فیصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ پوری دنیا میں ترقی کر رہی ہے۔ کہاں مسجد بنانی ہے۔ کہاں مشن ہائوس بنانا ہے۔ کیا یہ جگہ مسجد کے لئے خرید لی جائے۔ جلسہ سالانہ کب، کہاں منعقد کیا جائے۔ سکول کہاں پہ بنایا جائے۔ ہسپتال کہاں پہ بنایا جائے۔ یہ ذمہ داری کس کے سپرد کی جائے فلاں ملک میں جماعت کے افراد کو ان مشکلات کاسامنا ہے۔ فلاں احمدی اس وقت ان حالات سے دوچار ہے؟ کیا کیا جائے۔ دنیا کہ فلاں فلاں خطے میں اس وقت انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ خدمت خلق کے منصوبوں کی ضرورت ہے کیا کیا جائے ۔ پیارے حضور کیا یہ کر لیا جائے؟ کیا یہ نہ کیا جائے؟ کب؟ کون؟ کیسے؟ کہاں؟ ایسے سینکڑوںسوالات، درخوا ستیں منصوبے خطوط کی صو رت میںسامنے ہوتے ہیں۔ اب دنیاوی ضربوں تقسیموں کے حساب سے پندرہ سو خطوط کو پڑھنے اور جواب دینے میںاگر فی خط نصف منٹ بھی ہو تو کم از کم ساڑھے سات سو منٹ درکار ہو سکتے ہیں۔جبکہ آپ بہتر جانتے ہیں کہ بعض خطوط بہت زیادہ وقت بھی لے سکتے ہیں۔
پھر ذاتی نوعیت کے خطوط ہوتے ہیں۔ خلیفہ وقت چونکہ جماعت کے لئے ایک شفیق باپ کی طرح ہیں تو دنیا بھر سے امام وقت سے پیار کرنے والے خطوں میں اپنے دل کی باتیں دل کھول کر بیان کرتے ہیں بلکہ خط میں اپنا دل رکھ دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ انتخاب سخن کی ڈاک دیکھتے ہوئے میں نے ایک خط پڑھا جو کہ دراصل حضور انور کے نام تھا لیکن غلطی سے میری ڈاک میں شامل ہو گیا تھا۔ کسی بیٹی نے اپنے حالات کا ایسا بیان لکھا ہوا تھا کہ جسے پڑھ کے میں کئی دن تک سخت غمگین رہا کہ کوئی اتنی زیادہ مشکلات کا بھی شکار ہوسکتا ہے۔پیارے حضور کو روزانہ ایسے بے شمار خط ملتے ہیں جنہیں اگر کوئی عام انسان پڑھے تو شائد اُس کے اعصاب جواب دے جائیں۔ اگر میں اُس خط کا ایک پیرا گراف لکھوں (جو ظاہر ہے مَیں کبھی بھی نہیں لکھوں گا  صرف مثال کے طور پر کہہ رہا ہوں) تو اُسے پڑھ کے کسی کو گلہ نہیں رہے گا کہ حضور نے فلاں موقع پر مجھے وقت کیوں نہیں دیا یا مجھے مسکرا کے کیوں نہیں دیکھا ۔آپ صرف یہی کہیں گے اور یقینا سب احمدی یہی کہتے ہیں 
امامِ وقت کے لئے یہ جان بھی نثار ہے
…………………
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کے طرف سے آنے والے خطوط کے جوابات دیکھ کے ہم گواہی دے سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر خط پیارے حضور کی شفقت بھری نظروںسے گزرتا ہے اور ہمارے لئے دعائوں اور برکتوں کا باعث بنتا ہے۔ پیارے حضور کو علم ہوتا ہے کہ اس وقت فلاں ملک کے فلاں شہر یا گائوں میں فلاں  بچی اپنے گھر میں خوش نہیں ہے۔ فلاں بچے کو تعلیم جاری رکھنے کے لئے مالی مدد کی ضرورت ہے۔فلاں احمدی شخص اس وقت کس مشکل میں گرفتار ہے اور فلاں بیٹی کی شادی میں تاخیر ہو رہی ہے ۔تمام اداروں کے انتظامی امور کی دیکھ بھال اور پوری جماعت کی تربیت کے ساتھ ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کس کس طرح اور کس کس رنگ میںمستحق احباب کا خیال رکھتے ہیں اور اُن کی داد رسی کی کوشش فرماتے ہیں اُس کی فہرست کچھ ایسی طویل ہے کہ کسی کو پوری طرح علم نہیں ہے اور کسی کوبھی کانوں کان خبر نہیںہے۔ ہاں ہم یہ ضرور کہیں گے کہ ہمارے پیارے  حضور انور، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ان  جذبات کی تصویر نظر آتے ہیں
 مرا مقصود و مطلوب و تمنا خدمت خلق است
 ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم 
  ایشیاء کے کسی دور افتادہ گائوںسے کوئی خط ہو یا افریقہ کے کسی جنگل کی کسی آبادی سے کوئی خط ہو، امریکہ سے آسٹریلیا سے یا یورپ کے کسی ملک سے، کوئی یہ تصور بھی نہ کرے کہ اُس کا خط حضور انور تک نہیں پہنچے گا۔حیرت انگیز تجربہ ہے کہ حضور انور کو دنیا کے جس خطے سے جس پوسٹ سے جس ذریعے سے جس شخص  کے ہاتھ بھی خط روانہ کر یں  اُس کا دعائوں بھرا جواب مل جاتا ہے۔
…………………
یہ جو اوپر میں نے روزانہ خطوط کی تعداد پندرہ سو لکھی ہے بہت محتاط ہو کے اور کم سے کم لکھی ہے۔ ایک مرتبہ مکرم و محترم منیر جاوید صاحب جنہیں حضرت امیرالمومنین     ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پرائیویٹ سیکرٹری ہونے کا اعزاز حاصل ہے اُن سے اس موضوع پہ بات ہو رہی تھی انہوں نے بتایا کہ عام دنوں میں خطوط وغیرہ کی تعداد  تقریباًپندرہ سو روزانہ ہے لیکن بعض دنوں میں تو ان خطوط اور فیکسز اور پاکستان سے آئی ڈاک میں شامل خطوط اور خلاصوں کی تعداد ملا کے یہ ڈاک پانچ ہزار تک بھی پہنچ جاتی ہے ۔ خاکسار کے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ عام دعائیہ خطوط کے علاوہ دنیا بھر کے مربیان کرام،     امرائے کرام اور مختلف تنظیموں کے صدران وغیرہ بھی فوری نوعیت کی اطلاعات وغیرہ بذریعہ فیکس بھجواتے ہیں اور  اس طرح بعض دنوں میں ہماری فیکس مشین میں ایک دن میں کاغذوں کے دو پیکٹ سے زائد کاغذ ڈالنے پڑتے ہیں جبکہ ایک پیکٹ میںپانچ سو کاغذہوتے ہیں۔یہ سب پیغامات ایسے ہوتے ہیںجو فوری توجہ طلب ہوتے ہیں اور  فیکس بھجوانے والے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی راہنمائی کے طلبگار اور جوابی ہدایات کے منتظر بیٹھے ہوتے ہیں۔
…………………
قارئین کرام! خاکسار کو ایک دن حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک بہت قریبی اور بچپن کے دوست کے ساتھ بیٹھنے کی سعادت ملی۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دن میں حضور کے دفتر میں یا غالباً گھر میں حضور کے ساتھ موجود تھا تو خطوںکاایک پیکٹ میں نے ایک میز سے اُٹھا کے دوسری میز پہ کچھ بے احتیاطی سے رکھا تو اس پہ حضور انور نے انتہائی  فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ احتیاط سے رکھیں  یہ خط مجھے اپنی جان کی طرح عزیز ہیں۔ ( حضور کے اصل الفاظ انہیں یاد نہ تھے لیکن اُن کا کہنا تھا کہ حضور کے کچھ ایسے جذبات تھے)۔
یہ خطوط جو دنیا بھر سے آتے ہیں یہ مختلف زبانوں میں لکھے ہوتے ہیں۔ ان میںاردو، انگریزی، عربی کے علاوہ بنگلہ، رشین، فرنچ، ترکش، چائینز، سواحیلی جرمن، ڈچ، سپینش، البانین، بلغارین، بوسنین، انڈونیشین، فارسی، ملائی، تامل، اور دیگر زبانوں میں خطوط ہوتے ہیں۔ بعض خطوط علاقائی زبانوں میں بھی ہوتے ہیں مثلاً پشتو یا سندھی میں پھر ہندوستان کی بہت سے علاقائی زبانوں میں خطوط ہوتے ہیں۔ اب ایسے خطوط کا فوری طورپرمتعلقہ زبان کے ماہر سے ترجمہ کروا کے حضور انور کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور اگر اُس زبان کو سمجھنے والا یہاں برطانیہ میں کوئی نہ ملے تو فیکس کر کے خط اُسی ملک بھجوا کے اُس کا ترجمہ منگوایا جاتا ہے ۔ان خطوط کی مختلف اقسام ہوتی ہیں بعض خطوط مختصر لیکن ان کے جوابات کے لئے بہت لمبا وقت اور تحقیق درکار ہوتی ہے۔بہت سے خطوط ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کا جواب دینے سے پہلے اس خط کے متعلقہ شعبہ سے رپورٹ منگوا کر پھر حضور انور جواب دیتے ہیں۔خطوط کی سینکڑوں اقسام میں سے ایک قسم کا ذکر کرتا ہوں۔ بعض لکھنے والوں نے حضور انور سے ہومیو پیتھی نسخہ تجویز کرنے کی درخواست کی ہوتی ہے۔ اب بعض احباب کو تو حضور انور خود نسخہ تجویز فرما دیتے ہیں لیکن بعض پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص اور دوائی تجویز کرنے کے لئے خط ہومیو پیتھی کے شعبہ کو بھجوایا جاتا ہے اور وہ اس پر مکمل تحقیق کر کے رپورٹ حضور انور کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ پھر اس رپورٹ کے پیش نظر حضور انور جو ادویات تجویز فرماتے ہیں وہ خط میں لکھ کے انہیں خط کا جواب دیا جاتا ہے۔
…………………
اللہ تعالیٰ قدم قدم پہ ہمارے پیارے امام کا حامی و مددگار رہے آپ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں دنیا بھر سے آئے ہوئے خطوط کے خلاصے یا تفصیلات اور اطلاعات  دوران سفر بھی آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں اور حضور ہدایات لکھواتے جاتے ہیں۔ اور جیسا کہ اوپر عرض کیا کہ ان خطوط کے لئے ہی اگر دیکھا جائے تو ایک دن میں کم از کم سات آٹھ سو منٹ درکار ہو سکتے ہیں۔یہ وہ خطوط ہیں جو براہ راست حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے نام دنیا بھر کے احمدیوں کی طرف سے ہوتے ہیں۔اب ان خطوط کے علاوہ ہر شعبے اور ادارے کی اپنی ڈاک بھی ہوتی ہے جو ان کے سربراہ اپنے ساتھ لے کے حضور انور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوتے ہیں اور حضور انور سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ قارئین کرام اتنے زیادہ خطوط اور ان کے ایسے پیارے دعائوں بھرے، شفقتوں بھرے، محبتوں بھرے جوابات یقینا یہ سب اللہ تعالیٰ کی خاص مدد کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
…………………
پھر موسم گرم ہو یا برفباری ہو، تیز بارش ہو یا ہوائیں چل رہی ہوں، حضور انور دفتر میں موجود ہوں یا آسٹریلیا سے دو دن کا سفر کر کے مسجد فضل لندن پہنچے ہوں آپ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پانچوں نمازیں باجماعت پڑھاتے ہیں۔ ایک نماز کی تیاری، وضو ا ورپڑھانے میں اگر کم ازکم بیس منٹ بھی لگیں تو پانچ نمازوں کے لئے ایک سو منٹ درکار ہیں۔ سنتیں، نوافل، تہجد، قرآن پاک کی تلاوت الگ سے ہیں۔ بعض نمازوںکے بعد نکاح پڑھانے، قرآن پاک کی تقاریب آمین اور نماز ہائے جنازہ ان کے علاوہ ہیں۔ 
…………………
ان سینکڑوںخطوط کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ، روزانہ دن بھر بہت سی دفتری ملاقاتیں بھی ہیں جن میں دنیا بھر میں ہونے والے پروگراموں کی تفصیلات طے کرنا اور منظوری عطا فرمانا بھی شامل ہے۔آپ سب جانتے ہی ہیں کہ   خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کس طرح منظم طریقے سے اور امام وقت کی نگرانی میں ہر کام سر انجام دیتی ہے۔ تعلیم و تربیت، قرآن پاک کی دنیا بھر میں اشاعت اور خدمت انسانیت کے منصوبہ جات کی تیاری اور منظوری کے مراحل مہینوںبلکہ سالوں پہلے سے شروع ہو جاتے ہیں۔  صدر ا نجمن کا ادارہ ہے جس کے ماتحت درجنوںادارے ہیں۔ تحریک جدید کا دفتر ہے جس کے ماتحت کئی ادارے ہیں۔ وقف جدید کا دفترہے جس کے ماتحت کئی شعبے ہیں۔ ایم ٹی اے انٹرنیشل ایک بڑا وسیع ادارہ ہے اور تمام تر پروگراموں کی تفصیل حضور انور کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے اور راہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ وکالت تبشیر کا ادارہ ہے جو دنیا بھرمیں مربیان کرام اور دو سو ممالک میں ہونے والے پروگراموں کے بارے میں حضور انور سے رہنمائی حاصل کرتا ہے ۔ وکالت مال ہے۔ امام صاحب کا دفتر ہے۔ دنیا بھر میں خدام، انصار، لجنہ کی ذیلی تنظیمیں ہیں۔  دو سو سے زائد ممالک کے امراء یا صدر صاحبان جماعت ہیں۔ دنیا بھر میں مساجد بن رہی ہیں۔ ہسپتال بنائے جارہے ہیں۔ قرآن پاک کی اشاعت کے لئے پرنٹنگ پریس لگائے جا رہے ہیں۔ خدمت خلق کے ادارے ہیں۔ صحت کے ادارے ہیں۔ تعلیم کے ادارے ہیں۔ تربیت کے ادارے ہیں۔ ضیافت کے شعبے ہیں۔ الفضل ربوہ، الفضل انٹرنیشنل اور بدر کے علاوہ دنیا بھر میں مختلف اخبارات، رسائل اور جریدے ہیں۔ الاسلام کی ویب سائٹ کا ادارہ ہے۔ یہاں برطانیہ میں کل عالم تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے اردو، انگریزی کے علاوہ عربی ڈیسک قائم ہے۔ پھر بنگلہ ڈیسک ہے، رشین ڈیسک ہے، فرنچ ڈیسک ہے، چائینز ڈیسک ہے اور ٹرکش ڈیسک ہے۔ اگر سارے شعبوں کے نام لکھنا شروع کروں تو اس کے لئے ایک الگ فہرست چاہئے ۔یہ تمام ڈیسک، یہ تمام شعبہ جات اپنی اپنی زبانوںمیں قرآن پاک کی تعلیم عام کرنے کے لئے اور احمدی احباب اورساری دنیا کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے حضور انور کی راہنمائی میں مصروف عمل ہی رہتے ہیں ۔ 
…………………
صرف ایک ملک برطانیہ کی مثال لیتے ہیں۔     اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ سر زمین برطانیہ کی   خوش بختی ہے اور جماعت احمدیہ برطانیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس ملک میں رہائش پذیر ہیں اس لئے اس برکت سے اس اعزاز کی وجہ سے جماعت احمدیہ برطانیہ کے تمام شعبہ جات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی براہ راست راہنمائی میں کا م کرتے ہیں۔یہاں برطانیہ میں ہر لوکل صدر جماعت اور اُس کی مجلس عاملہ کی منظوری بھی حضور انور کی اجازت سے ہوتی ہے اور یہاں کے تمام شعبہ جات مثلاً شعبہ امور عامہ، شعبہ رشتہ ناطہ، شعبہ تعلیم و تربیت، شعبہ تبلیغ غرض ہر شعبہ   براہ راست حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی راہنمائی میں کام کر رہا ہوتا ہے۔ پھر یہاں برطانیہ میں بھی دیگر ممالک کی طرح جہاں بہت بڑے بڑے ادارے ہیں وہیں پہ چھوٹے پیمانے پہ بہت سی ایسوسی ایشنز ہیں۔ مثلاََ ڈاکٹروں کی ایسوسی ایشن ہے ، آرکیٹیکٹ اور انجینئروں کی ایسوسی ایشن ہے، وکلاء کی ایسوسی ایشن ہے، ٹیچرز ایسوسی ایشن ہے، تعلیم الاسلام کالج اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ہے۔ اتنے شعبہ جات ہیں کہ ان کی باقاعدہ ایک لمبی فہرست چاہئے۔ہر شعبہ اپنی اپنی ڈاک اپنی اپنی تجاویز اور اپنی رپورٹس ہاتھ میں تھامے حضور انور سے ملاقات کا وقت لے کر ملاقات میں یا بذریعہ خط و کتابت ہدایات لے رہا ہوتا ہے ۔
صرف برطانیہ میں ہی ایسے بہت سے شعبہ جات  ادارے اور تنظیمیں ہیں جن کے انچارج اپنے اپنے جماعتی  کاموں کے لئے اکثرو بیشتر حضور انور سے ملاقات کر کے راہنمائی لینا چاہتے ہیں۔
پھر آپ سب جانتے ہی ہیں جلسہ سالانہ برطانیہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔کہنے کو یہ تین دن کا جلسہ ہوتا ہے لیکن حضور انور کی راہنمائی میں سارا سال اس پہ کام ہوتا ہے اور اس کے منتظمین حضور انور سے ملاقاتیں کر کے ہدایات لیتے رہتے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزمہمانوں کی سہولیات کا خیال رکھنے کے لئے اتنی تفصیل سے انتظامات کا جائزہ لیتے ہیں اورہدایات فرماتے ہیں کہ بتانے والے بتاتے ہیں کہ ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ جلسے پر آنے والا ہر مہمان پیارے حضور کا ذاتی مہمان ہے ۔پھرجلسہ سالانہ کے انعقاد سے ایک ہفتہ قبل آپ ہر شعبے میں جاکے خود انتظامات کا جائزہ لیتے ہیں اور بہتری پیدا کرنے کی ہدایات جاری فرماتے ہیں۔ اُس ایک دن میں حضور مسجد فضل لندن، بیت الفتوح،  ٹلفورڈ اسلام آباد، جامعہ احمدیہ اور جلسہ سالانہ کے مقام حدیقۃ المہدی آلٹن سرے میں تشریف لے جا کے ہر ہر شعبے کا جائزہ لیتے ہیں اور محدود وقت میں اتنی تیزی سے چلتے ہوئے ہر ہر شعبے کا جائزہ لیتے ہیں کہ حضور انور کے ساتھ چلنے والے بعض اوقات شدید تھک جاتے ہیں۔ 
اب دنیا کے دو سو ممالک کے سینکڑوں اداروں کے ہزاروں شعبہ جات کو ہدایات جاری کرنا، ان سے معلومات حاصل کرنا، ان کی تجاویز کا جائزہ لینا اور مختلف پروگراموں اور فلاحی منصوبہ جات کی منظوری عطا فرمانا، ان اداروں کی طرف سے آئی ہوئی رپورٹوں کو ملاحظہ فرمانا، ان تمام کاموں کے لئے روزانہ اگر مختلف اوقات میں دس گھنٹے بھی صرف کئے جائیں تو اس کے لئے چھ سو منٹ درکار ہوسکتے ہیں۔
…………………
ان ساری مصروفیات میں جہاںپیارے حضور    ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اہم شعبوں کو وقت دیتے ہیں وہیںپہ چھوٹے پیمانے کے شعبہ جات بھی براہ راست  حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایات سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں۔ایک مرتبہ خاکسار نے کسی جماعتی کام کے سلسلے میں ملاقات کی درخواست بھجوائی تو  جواب آیا کہ ’’مصروفیت بہت زیادہ ہے انشاء اللہ آئندہ ‘‘ ۔ میں بھی صبر کر کے خاموش بیٹھ گیا۔اُس کے کوئی پانچ ماہ بعد خاکسار ملاقات کے لئے حاضر ہوا ۔ نجانے کیوں لیکن میرا  غالب گمان تھا کہ حضور انور کو اتنی مصروفیات میں کہاں یاد رہا ہو گا کہ کبھی کسی نے فلاں کام کے لئے ملنے کی درخواست بھجوائی تھی۔کمرے میں داخل ہوتے ہی پیارے حضور  ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے ملنے کی درخواست کی تھی اُن دنوں مَیںبہت مصروف تھا لیکن اُس کے بعد آپ آئے ہی نہیں، رابطہ ہی نہیں کیا۔ میرا حال مت پوچھئے۔ حافظ کے اُس شعر کا مفہوم میرے ذہن میں گھوم گیا کہ جب تیرے پیارے کو تیرے دل کے حال کا علم ہے تو کچھ اور آرزو کی ضرورت کیا ہے۔ ہاں اس سوچ میں ضرور پڑ گیا کہ ان پانچ چھ مہینوں میں   کتنے ہی بڑے بڑے عہدوں پر فائزاور عام قسم کے بھی  افراد پیارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے ملے ہوں گے یا انہوں نے ملنے کی درخواست کی ہوگی۔ حضورانور بیرون ملک دورے پر بھی گئے جہاں بہت سے  لوگوں نے ملنے کی درخواستیں کی ہوں گی یا ملے ہوں گے۔ جرمنی کے جلسہ سالانہ میں بھی شرکت فرمائی تھی جہاں ہزاروں افراد جماعت تھے۔ کتنے ہی اہم منصوبوں پر  بات چیت ہوئی ہوگی ان مصروفیات میں بھی ایک معمولی کارکن، عام فردِ جماعت یاد رہا۔ مَیں اور کیا کہوں سوائے اس کے کہ الحمد للّہ رب العٰلمین۔
…………………
پیارے حضور کے ایک دن کی مصروفیات کی بات ہو رہی تھی۔ ہر شام کو احمدی افراد اپنے پیارے محبوب امام حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز سے ملاقات اور دیدار کا شرف بھی حاصل کرتے ہیں۔ اگر ملاقات کی عام اجازت ہو تو شائد مسجد فضل لندن کی اردگرد کی گلیوں میں ٹریفک کا نظام مشکل کا شکار ہو جائے اور یہاں وانڈز ورتھ کی ساری ٹریفک پولیس کو صرف ان گلیوں میں ہی تعینات کر دیا جائے ۔ محدود وقت کے باعث اورسب کو برابر موقع دینے کے لئے ہر روز شام کو عام طور پہ کوئی بیس کے قریب خاندان یا انفرادی طور پر احباب حضرت     امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کرتے ہیں ۔اگر ایک خاندان میں اوسطاً تین افراد بھی ہوں تو کوئی پچاس ساٹھ افراد روزانہ ملاقات کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ان ملاقاتوں کے لئے اندازاً ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ مختص ہوتا ہے ۔ اگر ملاقاتیوں کی تعداد پر وقت کو تقسیم کیا جائے تو ایک ملاقاتی کے لئے ایک منٹ بھی نہیں مل سکتا۔ بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو بصد عقیدت و احترام اپنے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی زیارت کے لئے ہزاروں میل کے فاصلے طے کر کے ملاقات کے لئے آئے ہوتے ہیں۔ بہت سے ایسے  ہوتے ہیں جو اپنی کسی ایسی پریشانی کا اظہار حضور انور کے ساتھ کرنے آئے ہوتے ہیں جو وہ پوری دنیا میں کسی اور سے نہیں کر سکتے۔ بہت سے ایسے طلباء ہوتے ہیں جو اپنے مستقبل کے لئے راہنمائی حاصل کرنے آئے ہوتے ہیں۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے    حضور انور سے دعائیںاور راہنمائی حاصل کرنے کے لئے آئے ہوتے ہیں۔ بہت سے ملاقاتی ایسے ہوتے ہیں کہ خود  اُن کی یا اُ ن کے بزرگوں کی دین کے لئے بہت خدمات اور قربانیاں ہوتی ہیں اور ایسے خوش نصیبوں کو بعض اوقات زیادہ وقت بھی مل جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے اور محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو صحت و شفایابی والی عمر دراز عطا فرمائے آپ آنے والے ہر ملاقاتی کو اُٹھ کے ملتے ہیں اور ملاقاتی کے جاتے ہوئے بھی اپنی کرسی سے اُٹھ کے الوداع کہتے ہیں۔ ہر ملنے والے کی دلداری فرماتے ہیں اور سبھی محبتوں اور دعائوں کی دولت سمیٹے ہوئے دمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں۔ آجکل یہاں برطانیہ میںنماز فجر کوئی ساڑھے چار بجے کے قریب ہوتی ہے اور نماز عشاء نوبجے رات۔ کوئی سولہ سترہ گھنٹے کا دورانیہ بنتا ہے ۔ اتنی صبح کے جاگے ہوئے پیارے حضور اوسطاً پندرہ سو خطو ط ملاحظہ کرنے کے بعد، بڑے بڑے منصوبوں کی تفصیلات جانتے ہوئے ہدایات جاری کرنے کے بعد، تمام دفتری ملاقاتوں کے بعد، دنیا بھر سے آئی ہوئی غم اور خوشی کی خبروں کو سننے اور ہدایات جاری کرنے کے بعد، جب شام  سات آٹھ بجے ہر ملاقاتی کو فرداً فرداًاپنی کرسی سے اُٹھ کے ملتے ہیں تو جہاں ہمارے دل باغ باغ ہو جاتے ہیں وہیں دل چاہتا ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے   بصد ادب و احترام ہاتھ جوڑ کے درخواست کی جائے کہ حضور آپ ہمارے آنے پہ تشریف فرما ہی رہا کریں آپ کو دیکھ کے ہی ہماری عید ہو جاتی ہے ۔ ان ملاقاتیوں کی محبتوں کے اپنے اپنے انداز ہوتے ہیں اور پیارے حضور       ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہر قوم ہر ثقافت اور ہر لب و لہجے کے ملاقاتیوں سے مل کے اُ ن کے ماحول اور مزاج کے مطابق اُن کی دلداری فرماتے ہیں۔ ملاقاتیوں کے مزاج  اور محبتوں کے انداز اور فرمائشوں کو دیکھ کے کوئی بھی زیرک انسان حضور انور کی شفقت کے ساتھ ساتھ ضبط اور حوصلے کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
…………………
امام وقت سے اپنی عقیدتوںکا، محبتوںکا،آپ کی دعائوں کی قبولیت کااظہار، اپنے اپنے رنگ میں کرنے والے جہاں زیادہ تر بڑے دانشور قسم کے لوگ ہوتے ہیں وہیں پہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پیارے حضور کو کہنے کچھ گئے ہوتے ہیں اور عرض کچھ اور کر آتے ہیں۔
ایک صاحب ملاقات کے بعد باہر آئے تو اپنے آپ کو گریبان سے پکڑ کے جھنجوڑ رہے تھے۔ پوچھنے پر کہنے لگے مجھے اُ ردو کے بڑے بڑے لفظ بولنے کا شوق لے بیٹھا ہے ۔ پیارے حضور نے دریافت فرمایا تھا کہ کیسے آنا ہوا ۔ کہنا یہ تھا کہ بس اس لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ کی زیارت کا موقع مل جائے لیکن کہہ آیا ہوں اس لئے حاضر ہوا ہوںکہ آپ کو زیارت کا موقع مل جائے۔ کہنے لگے کہ میر ی بات پر حضور بہت مسکرائے تھے۔ اُس وقت سمجھ نہیں آیا لیکن اب سمجھ آئی ہے کہ آپ کیوں مسکرائے تھے ۔ پھر کئی ملاقاتی  میری طرح کے ہوتے ہیں حضور انور کا موڈ دیکھے بغیر کہتے ہیں حضور ایک تا زہ غزل پیش خدمت ہے۔ کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو باادب رہتے ہوئے، شُستہ اردو بولنے کی آرزو میں عقیدت میں کہہ دیتے ہیں ’’حضور مَیں ابھی کل ہی تشریف لایا ہوں‘‘۔ایک صاحب ملاقات کرنے گئے واپسی پہ کمرے سے نکلتے نکلتے کہہ گئے حضور دعا کی عاجزانہ درخواست ہے میر ابڑا بیٹا قید ہوگیا ہے۔ ملاقات کے بعد حضور انور نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو فوراً ہدایت فرمائی کہ ان کے بیٹے کا پتا کروائیں کیوں قید ہوا ہے۔ تحقیق پر پتا چلا کہ اللہ کے فضل سے اُن کا بیٹا اپنے حلقے کا قائد بن گیا ہے۔ وہ قائد کو قید کہہ رہے تھے تو پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسکراتے ہوئے مختلف زبانوں، مختلف لہجوں، مختلف استعدادوں، مختلف مزاجوں اور مختلف ثقافتوں والے ان سب ملاقات کرنے والوں سے ایسی شفقت اور محبت سے ملتے ہیں، ایسی دلداری فرماتے ہیں کہ چھوٹے بڑے سبھی دمکتے چہروںاور شاداب روح کے ساتھ واپس آتے ہیں۔ پنجابی زبان والوں سے پنجابی میں۔ انگریزی دانوں سے انگریزی میں اور اردو بولنے والوں سے اردو میں گفتگو فرماتے ہیں۔ اس ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ملنے والوں کی سینکڑوں چھوٹی چھوٹی خواہشات ہوتی ہیں جنہیں  حضور انور کمال خندہ پیشانی سے پورا فرماتے جاتے ہیں۔ سب بچوں کو تو چاکلیٹ ملتا ہی ہے کئی بڑے بھی فرمائش کرکے اپنی پسند کا چاکلیٹ طلب کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی کو تبرکاً پین کا تحفہ ملتا ہے تو کوئی حضور انور کے ساتھ تصویر بنانے کی درخواست کرتاہے۔کمرے سے نکلتے نکلتے بھی فرمائشیں ہورہی ہوتی ہیں اور پیارے حضور مسکراتے ہوئے سب کی خواہشیں پوری فرماتے جاتے ہیں۔ 
…………………
پھر ہر جمعہ کے روز پیارے حضور تقریباً ایک گھنٹہ کھڑے ہو کے خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہیں جبکہ ہم سننے والے بیت الفتوح یابیت الفضل کے نرم و گداز قالین پر بیٹھ کے سنتے ہیں یا دنیا کے دیگر ممالک کی احمدیہ مساجد میں یا گھروں میں احباب آرام سے بیٹھ کے سنتے ہیں۔ایک مرتبہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات کے حوالے سے محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے بات ہو رہی تھی آپ نے بتایا ہر جمعہ کے لئے  حضور انور خطبہ جمعہ تو خود ہاتھ سے تحریر فرماتے ہی ہیں اس کے علاوہ سارا ہفتہ اس کے لئے نوٹس بھی خود لکھتے جاتے ہیں اور قرآن پاک سے اور احادیث سے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے حوالہ جات بھی زیادہ تر خود تلاش کر کے تحریر فرماتے جاتے ہیں۔پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے بتایا کہ بہت مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں خطبہ کے مضمون کا تو کیا موضوع تک کا بھی علم نہیں ہوتا اور حضور انور جمعہ کے روز مسجد فضل سے بیت الفتوح تشریف لے جاتے ہوئے بھی خطبہ کے لئے نوٹس تحریر فرماتے جاتے ہیں۔ 
معزز قارئین! اگر ہم خطبات کے مضامین کو غور سے پڑھیںتومعلوم ہوگا کہ کس طرح پیارے حضور افرادجماعت  سے پیار کرتے ہیں اور ہماری دین و دنیا میں کامیابی کے لئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کیسے ہر وقت نصائح فرماتے رہتے ہیں۔ کیسے پیارے حضور کی آرزو ہے کہ ہمارے دلوں میں ہمارے گھروں میں ہماری گلیوں میں ہمارے شہروں میں اور پوری دنیا میں امن ہو اور ہماری زندگیا ں جنت نظیر ہو جائیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں میں شامل ہوجائیں۔
بہت عرصہ غالباً آٹھ سال پہلے کا ایک واقعہ ہے کہ میں پروگرام انتخاب سخن کر کے سٹوڈیو سے باہر نکلا تو فون کالز لینے والے نوجوانوں میں سے ایک نے بتایا کہ کوئی غیر از جماعت خاتون بضد ہے کہ پریزنٹر سے ہی بات کرنی ہے اور وہ بڑی دیر سے فون ہو لڈ کروا کے بیٹھی ہے۔ بہرحال اُس سے بات ہوئی۔ اُس کا کہنا تھا کہ میرے خاوند نے مجھے سختی سے کہا ہو ا تھا کہ ایم ٹی اے نہیں دیکھنا۔ اُس کے اس طرح سختی سے روکنے کی وجہ سے مجھے تجسّس ہوا اور اب میں چھپ کے آپ کے حضور کی باتیں سنتی ہوں اور میرا دل گواہی دیتا ہے کہ آپ کی جماعت ہی سچی جماعت ہے۔ میری طرف سے خلیفہ حضور کو کہنا کہ آپ کی عقیدت مند ایک بیٹی فلاں شہر میں بھی رہتی ہے اُسے بھی دعائوں میں یاد رکھیں۔ ا ُس نے با اصرار کہا کہ جیسی آپ کے خلیفہ باتیں کرتے ہیں اگر ساری دنیا ان باتوں پر عمل کرے تو دنیا ایک جنت نظیر خطہ بن جائے۔ اُس نے کہا کہ وہ حضور کی باتیں سن کے دل سے احمدی ہو چکی ہے لیکن اپنے خاندان والوں کے خوف سے ایسا نہیں کہہ سکتی اور ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ آپ یقین رکھیں کہ ہر پڑھا لکھا شخص جو آپ کے خلیفہ کی باتیں سنتا ہے وہ اُن کی باتوں سے متفق ہے لیکن زمانے کے خوف سے خاموش ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیارے حضور کے خطبات نہ صرف ہمارے لئے بلکہ سب سننے والوں کے لئے سکینت کا باعث بنتے ہیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ہر خطبے کا لُبّ لباب یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت بیٹھ جائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت دلوں میں گھر کرلے اور پوری دنیا میں آپؐ کی عظمت کا جھنڈا بلند ہو اور مسیح زمانہ کی محبت دلوں میں ایسے رچ بس جائے،  ہمارے دلوں میں تقوی اس طرح پیدا ہوجائے کہ ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیں۔ پیارے حضور جس طرح ہر خطبے میں قرآن پاک کے حوالوں سے، احادیث کے حوالوں سے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تحریرات کے حوالے سے بار بار ہمیں عاجزی، خاکساری، درگزر اور احسان کے سلوک کا درس دیتے ہیں۔ ہر دم، ہر آن، ہر تحریر، ہر خطبے میں پیارے حضور کی خواہش ہوتی ہے کہ ہماری زندگیاں آسان بن جائیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں میں شامل ہو جائیں۔  
     حضور انور کا  ہر ہر خطبہ جمعہ دراصل دنیا بھر سے دوران ہفتہ ملنے والے ہمارے ہزاروں خطوط کا ،ہزاروں سوالات کا جواب ہوتا ہے اور ہزاروں دنیاوی مسائل کا حل ہوتا ہے اور دائمی کامیابیاں پانے کا نسخہء کیمیا ہوتا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ادھر کسی مفلوک الحال درویش صفت احمدی نے حضور انور سے مل کے یا خط کے ذریعے ذکر کیا کہ فلاں ملک کے جلسے میں مجھے کھانا ٹھیک طرح نہیں ملااور اگلے خطبے میں حضور انور پوری دنیا کے احمدیوں کو مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کرنے کی نصیحت فرما رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی دُوردرازکے ملک سے کوئی مصیبت زدہ لکھتا ہے کہ فلاں ادارے میں فلاں صاحب نے مجھ سے تعاون نہیں کیا اور حضور انور خطبہ جمعہ میں دنیا بھر کے دفاتر میں کام کرنے والوں کو عاجزی کی نصیحت فرماتے ہیں اور یہ کہ دفتر میں آنے والے افراد سے کرسی سے اُٹھ کے ملنا چاہئے اور ہر ممکن مدد کرنی چاہئے۔ 
ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ حضور انور کے خطبات ہماری عام روزمرہ کی زندگیوں، رہن سہن اور  معاملات سے متعلق ہوتے ہیں اور عام آدمی کی سمجھ کے مطابق ہوتے ہیں۔
ایک نئے احمدی سے پوچھا کہ احمدیت کیسے قبول کی؟ کہنے لگے ٹی وی پر چینل بدلتے ہوئے حضور انور کا خطبہ جمعہ سنا تو مَیں تو حیران رہ گیا اور مجھے لگا کہ وہ میرے سب حالات جانتے ہیں اور میری تربیت کے لئے صرف اور صرف مجھے سمجھا رہے ہیں۔ خطبہ سننے کے بعد مَیں نے کوئی کتاب نہیں پڑھی، کوئی دلیل نہیں مانگی ایک احمدی دوست کو کہا مجھے بیعت فارم لادو اور خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارشیں دیکھی ہیں۔
اسی طرح جلسہ سالانہ برطانیہ کے دنوں میں ایک دوست سے ملاقات ہوئی جنہوں نے حضور انور کے خطبات سن کے احمدیت قبول کی تھی۔ کہنے لگے کہ میں امریکہ میں اپنے وطن کا پاسپورٹ بنوانے کے لئے اپنے ملک کی ایمبیسی میں گیا ۔ وہاں پاسپورٹ فارم پہ سب دستخط کرکے جب فارم ان کے حوالے کیا تو ایمبیسی والے کہنے لگے کہ آپ نے اس اقرار نامے پر دستخط نہیں کئے۔ اب یہ دوست بہت پڑھے لکھے اور ہر چیز کو عقل اور منطق کی کسوٹی پر پرکھنے والے تھے۔ کہنے لگے کہ جس شخص کے متعلق آپ کہہ رہے ہیں کہ تصدیق کروں کہ مَیں ان کو سچا نہیں مانتا مَیں نے تو ان کا نام ہی پہلی دفعہ سنا ہے اور مَیں ان کو جانتا ہی نہیں ہوں، مَیں کیسے دستخط کر کے تصدیق کروں کہ فلاں شخص سچا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا دستخط کے بغیر پاسپورٹ نہیں مل سکتا۔ یہ فارم لے کے گھر آئے اور جاننے والوں سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے۔ پوچھتے پوچھتے جماعت کی کتابیں پڑھنے لگے اور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات سننے لگے۔ پوری تحقیق کے بعد ایمبیسی گئے۔ انہوں نے پوچھا اب دستخط کر دئیے ہیں۔ کہنے لگے مَیں نے اُس جگہ دستخط تو نہیں کئے، الحمد للہ مَیں نے احمدیت قبول کرلی ہے ۔                                                                  
  قارئین کرام! پیارے حضور سینکڑوں خطوط کے جوابات دینے کے ساتھ ساتھ، سینکڑوں انتظامی امور کی دیکھ بھال فرماتے ہوئے روزانہ بہت سی دفتری اور انفرادی ملاقاتوں کے ساتھ اور دیگر تمام تر مصروفیات کے ساتھ ساتھ ہم سب کے لئے ہر خطبہ جمعہ اتنی محنت سے لکھتے ہیںتو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اسے ایسے سنیں گویا پیارے حضور صرف اور صرف ہم سے مخاطب ہیں اور صرف اور صرف ہمیں نصیحت فرما رہے ہیں۔حضور انور کی مصروفیات اس قدر ہیں کہ حضور کے تھوڑے کہے کو ہی زیادہ سمجھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے آمین۔                                                                       
  خطبہ جمعہ کے دوران جو کاغذات ہم حضور انور کے  مبارک ہاتھوں میں دیکھتے ہیں وہ حضور انور کے خود اپنے ہاتھوں سے لکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ حوالہ جات یعنی  قرآن پاک کی آیات ،احادیث مبارکہ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات وغیرہ بعض اوقات  ٹائپ یا فوٹو کاپی کی صورت میں ہو سکتے ہیں۔ اور جیسا کہ محترم منیر جاوید صاحب نے بتایا تھا کہ حضور انور تو خطبہ جمعہ کے لئے بیت الفتوح جاتے جاتے بھی نوٹس لکھ رہے ہوتے ہیں۔ قارئین کرام! ہر خطبے اور ہر خطاب میں پیارے حضور کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمیں حقیقی اور دائمی خوشیاں نصیب ہوجائیں۔ ابھی حال ہی کے خطبہ عید کو غور سے سنیں۔ پیارے حضور کے ایک ایک لفظ سے ایک ایک فقرہ سے کیسے اس خواہش کا اظہار چھلکتا ہے کہ ہمیں حقیقی عیدیں نصیب ہوں، ہماری زندگیاں جنت مثال بن جائیں۔ ہماری یہ زندگی بھی جنت  بن جائے اور آخرت میں بھی ہم سرخرو ہوں۔ کیسے حضور کو فکر ہے کہ کہیں ہم عارضی عیدوں کی مصروفیات میں حقیقی عیدوں سے غافل نہ ہو جائیں۔ 
…………………
قارئین کرام! آپ بہتر طور پر جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہر ملک کے اور ہر قوم کے احمدی    حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صحبت سے یکساں فیض پاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ملک شام کے ایک شامی احمدی بھائی کے ساتھ نشست کا موقع ملا۔ اُن کی باتیں سن کے حیرانی ہوئی کہ وہ تو اپنی زندگی کا ایک ایک قدم اور ایک ایک فیصلہ حضور انور کے مشورہ سے کرتے ہیںاور حضور انہیں، ان کے بچوں کو، ان کے بھائیوں کو ناموں سے جانتے ہیں اور ان سب کا ماننا تھا کہ جتنا حضور انہیں وقت دیتے ہیں شائد ہی کسی کو دیتے ہوں۔یہی حال عربی بھائیوں کا ہے۔ ان  کے پاس بیٹھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی تمام تر توجہ کا مرکز وہی ہیں اور یہی حال ہر خطّے کے لوگوں کا ہے۔
اب یہ جو ساری مصروفیات لکھی ہیں اگران کے وقت کو جمع کیا جائے تو سرسری نگاہ سے صرف خط دیکھنے کے لئے بھی پندرہ سو منٹ بنتے ہیں جبکہ ایک دن رات میں کل چودہ سوچالیس منٹ ہوتے ہیں۔ حضور انور کی مصروفیات اور  ایک دن میں ہونے والے کام کوئی عام انسان ایک ہفتے میں بھی احسن طریقے سے سر انجام نہیں دے سکتا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں 
اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کی ایک دن کی ڈائری دیکھ کے ہی کوئی بھی سعید فطرت شخص اس بات کی گواہی دے گا کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے بغیر یہ سب ممکن ہی نہیں ہے ۔
…………………
اوپربیان کی گئی ساری مصروفیات کے علاوہ مختلف تنظیموں کی طرف سے منعقد کی گئی تقریبا ت میں شرکت اور خطابات الگ ہیں۔مساجد کے سنگ بنیادرکھنے اور افتتاح کرنے الگ ہیں۔مختلف ممالک کے دورہ جات اور جلسوں اور پروگراموں میں شرکت الگ ہے۔ برطانیہ میں جو  بڑی بڑی تقریبات منعقد ہوتی رہتی ہیں وہ الگ سے ہیں۔ احمدی احباب سے ملاقات کے علاوہ جو دنیا بھر سے غیر از جماعت مہمان یا صحافی ہیں اُن کو جو وقت دیا جاتا ہے وہ الگ سے ہے۔
برطانیہ میں ایک  جلسے کے بعد مَیں کسی انگریز صحافی کو اُس کے گھر تک چھوڑنے جا رہا تھا راستے میں باتوں باتوں میں مجھے کہنے لگا کہ ہر چند کہ مَیں ایک پختہ عقیدہ رکھنے والا عیسائی ہوں لیکن آ پ کے امام جماعت سے مل کے اور اُن کی مصروفیات کو دیکھ کے میں یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کوئی روحانی قوت ان کی مدد کر رہی ہے۔میری سمجھ سے بالا ترہے کہ کروڑوںافراد کی جماعت میں سے ہر کوئی دعوی کر رہا ہے کہ میرے امام مجھے جانتے ہیں ۔ اُس کا کہنا تھا کہ اُس کے بیس سالہ دور صحافت میں اُس نے کبھی اتنا بڑا اجتماع اتنا منظم نہیں دیکھا اور اطاعت کا ایسا نظارہ نہیں دیکھا۔ میرے بتانے پر کہ ہمارے امام کو روزانہ بذریعہ ڈاک اور فیکس کوئی پندرہ سو کے قریب خطوط ملتے ہیں اور روزانہ ان پندرہ سو خطوط کے جوابات فرداََ فرداََ خط لکھنے والوں کے گھر بھجوائے جاتے ہیں۔ کہنے لگا اب آپ یقینا مذاق کر رہے ہیں۔
قارئین! آپ اور مَیں جانتے ہیں کہ یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ 
آج سے کوئی پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے  خاکسار اور مکرم سید حسن خان صاحب کسی اخبار کے لئے مکرم و محترم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ یوکے کا تفصیلی انٹرویو کرنے اُن کے گھر پہنچے۔ محترم امیر صاحب نے خلافت کی برکات کے بہت سے پہلوئوں کا ذکر کیا اور اس کے ساتھ ایک بات کا بار بار شدّت سے اظہار کیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ مجھے آج تک ایک بات بالکل بھی سمجھ نہیں آئی کہ بعض خوشخبریاں صرف مجھے معلوم ہوتی ہیں اور میری شدید خواہش ہوتی ہے کہ میں فوری طور پہ خود جا کے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اطلاع کروں لیکن حیرت انگیز طور پر حضور انور کو اس بات کا پہلے سے علم ہوتا ہے حالانکہ وہ بات میں نے کسی کو بھی نہیں حتی کہ حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو بھی نہیں بتائی ہوتی۔امیر صاحب کے اس انٹرویو کو کئی سال گزر گئے لیکن امیر صاحب کی یہ بات مجھے بطور خاص یاد رہ گئی ۔ ایک روزاتفاقاً میری ملاقات مکرم منیر جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے اُن کے دفتر میں ہوئی ۔ وہ سر جھکائے ساتھ ساتھ حسب ِ معمول خطوط کو ترتیب سے مختلف فائلوں میں لگا رہے تھے۔ ساتھ ساتھ مختلف فون کالز بھی اٹینڈ کررہے تھے۔ مَیں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے فوراً اُن سے اس واقعہ کا ذکر کیا کہ ایک مرتبہ مکرم امیر صاحب رفیق حیات صاحب نے کہا تھا کہ پتا نہیں کیسے لیکن جو بھی بات مَیں حضور انور کو بتانے جاتا ہوں وہ حضور کو پہلے سے ہی معلوم ہوتی ہے۔ یہ بات سن کے مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب بے اختیار کھلکھلا کے ہنسے اور ساری مصروفیات چھوڑ کے میری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ کو ایک بات بتائوں۔ مَیں بہت خوش ہوا کہ مجھے راز بتانے لگے ہیں۔ کہنے لگے یہی بات تو مجھے خود آج تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیسے ہو جاتا ہے۔ میرے ساتھ بھی بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ مَیں حضور انور کو کوئی اطلاع دینے جاتا ہوں کہ حضور فلاں ملک سے اطلاع آئی ہے اور اس سے پہلے کہ مَیں کچھ اَور کہوں حضور انور بتا دیتے ہیں کہ مجھے علم ہے یہ بات ایسے ایسے ہوئی ہے۔ محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا کہنا تھا ہم تو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نشان اور خلیفہ وقت اور جماعت کے افراد میں محبتوں کے اور دلی تعلق کے نظارے ہر روز اور ہر وقت دیکھتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے کہ خلیفہ وقت کا جماعت کے ساتھ دل و جان سے محبت کا ایسا رشتہ ہے، ایسا روحانی اور قلبی تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ مختلف ذرائع سے حضور انور کو دنیا بھر کے احمدیوں کے حالات سے خود ہی باخبر رکھتا ہے۔                                                                            
…………………
ایم ٹی اے انٹر نیشنل کا کارکن ہونے کے ناطے مجھے علم ہے کہ ایم ٹی اے کے تمام شعبے حضور انور کی براہ راست راہنمائی میں کام کرتے ہیں۔ اتنی مصروفیات کے باوجود پیارے حضور ہر شعبہ کے منتظمین کو اتنی تفصیل سے ہدایات جاری فرماتے ہیں اور ایسی باریک بینی سے تفصیلات کا جائزہ فرماتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی حمد کئے بغیر نہیں رہ سکتا جس نے ہمیں خلافت جیسی نعمت سے نوازا ہے۔
ایم ٹی اے کے بہت سے پروگراموں میں سے انتخاب سخن بھی ایک پروگرام ہے۔اس پروگرام میں بہت سے احمدی احباب وخواتین بچے بچیاں اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ پیارے حضور کو اُن کی طرف سے السلام علیکم کہا جائے۔پیارے حضور نے یہ ہدایت فرمائی ہوئی ہے کہ جو مجھے السلام علیکم کا پیغام بھجوائیں انہیں میر ی طرف سے وعلیکم السلام کہہ دیا کریں۔ خاکسار ہر پروگرام میں بغیر بھولے حضور انور کے ارشاد کی تعمیل میں اس ہدایت پر عمل کرتا ہے۔ ایک پروگرام میں، مَیں یہ کہنا بھول گیا۔ مَیں دعا کر رہا تھا کہ یا اللہ! حضور نے یہ پروگرام نہ دیکھا ہو۔ اُس کے تھوڑے دنوں بعد محمود ہال مسجد فضل لندن میں کسی تقریب میں خطاب کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واپس تشریف لے جارہے تھے۔ مَیں بھی ہجوم میں کھڑا تھا۔ پیارے حضور انور میرے قریب آئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا پچھلے پروگرام میں آپ نے میری طرف سے و علیکم السلام نہیں کہا، یادسے کہا کریں۔ حضور انور یہ فرما کے آگے تشریف لے گئے ۔ مَیں گم سم حیران و ساکت کہ حضور انور کی اتنی مصروفیا ت اور ایک چھوٹے سے پروگرام پہ اتنی نظر اور شفقت اور ایم ٹی اے کے ناظرین کا اتنا خیال ؎
’ اے چھائوں چھائوں شخص تری عمر ہو دراز‘
حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی از حد مصروفیات کا ذکر ہو رہا ہے ۔ ہم نے ایسے وقت بھی دیکھے ہیں کہ ادھر کسی بہت پیارے کا نماز جنازہ پڑھایا ہے اور پھر کچھ دیر کے بعد کسی بچی یابچے کے نکاح کا اعلان ہورہا ہے کیونکہ اُن کی اس تقریب کی منظوری انہوں نے شائد ہفتوں مہینوں پہلے سے لے رکھی ہو۔ 
ہم نے ایسے وقت بھی دیکھے ہیں کہ جب لاہور میں ایک ہی دن میں اسّی نوے معصوم احمدیوں کو خون میں نہلا دیا گیا لیکن اُس روز بھی ایم ٹی اے کے ذریعے دنیا بھر کے  لوگوں نے یہ منظر دیکھا کہ آپ کی آنکھوںپہ ضبط کے    بے مثال پشتوں نے سینے میں غم کے چھلکتے ہوئے سمندر کا ایک قطرہ بھی باہر نہیں آنے دیا ۔
ہم نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب پیارے    حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی والدہ محترمہ کی وفات کی المناک خبر کی اطلاع دیتے ہیں اور نماز جنازہ پڑھاتے ہیںاورپھر اگلے روزہی تمام تر دفتری مصروفیات میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ 
ہم نے وہ دن بھی دیکھا ہے کہ جب پیارے حضور اپنے اکلوتے بیٹے مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب کی شادی میں شریک ہوتے ہیں بالکل اُسی طرح جیسے کسی اور کارکن کے بچے کی شادی میں شریک ہوتے ہیں۔ دن بھر کی دفتری مصروفیات کے بعد جب شادی کی تقریب میں تشریف لائے تو اُتنا ہی وقت تشریف فرما رہے جیسا کہ معمول کے مطابق ہوتا ہے ۔
ہر روز نئے فکر ہیں ہر شب ہیں نئے غم
 یا رب یہ مرا دل ہے کہ مہمان سرا ہے
چونکہ ساری جماعت احمدیہ ایک خاندان کی طرح ہے اس لئے آئے دن کسی نہ کسی پیارے کی رحلت کی یا شہادت کی المناک خبر بھی ملتی ہے لیکن پیارے حضور یہ سب غم سینے میں چھپائے ہم سب کے غم بانٹنے میں مصروف رہتے ہیں اور ہمیں مسکرا کے ملتے ہیں ۔
…………………
پیارے بھائیو! ہمارے پیارے حضور ہمارے لئے کیا کچھ نہیں کرتے ۔کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم اپنی ہر نماز میں اور ہر دعا میں اپنے پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو یاد رکھیںاور اپنے قول سے اور اپنے کردارسے یہ ثابت کریں کہ ہم اپنے محبوب امام سے پیار کرنے والے ہیں اور آپ کے ارشادات پر دل و جان سے لبّیک کہنے والے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات اس قدر ہیں کہ اگر ہماری درخواست پر پیارے حضور ہماری کسی تقریب میں یا ہماری خوشیوں میں مثلاً ہمارے بچوں کی شادیوں وغیرہ میں شریک نہ ہوں سکیں تو ہر گز ہر گز دل گرفتہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہفتوں مہینوں بلکہ بعض معاملات میںسالوںپہلے سے حضور کی روزانہ کی مصروفیات اورپروگرام طے شدہ ہوتے ہیں۔ ملاقاتی ہزاروں میل کے فاصلے طے کر کے آئے ہوتے ہیں۔ ہر روز ایک نہیں بلکہ بہت سی ایسی درخواستیں اور دعوتیں ہوتیں ہیں جن سے پیارے حضور کو بڑے بوجھل دل سے شرکت سے معذرت کرنی پڑتی ہے۔ میں نے ایسی بہت سی شادیوں میں شرکت کی ہے کہ جہاں شادی والے بچے یا بچی کے والدین کی جماعت کے لیے بڑی لمبی نمایاں خدمات ہیں اور نمایاں مقام ہے لیکن پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بوجہ دیگر مصروفیات شریک نہ ہوئے ۔
حقیقت میں بات تو یہ ہے کہ پیارے حضور جو ہر جمعہ کے روزایک گھنٹے کے لئے خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہیں وہ ہمارے لئے ہی تو ہوتا ہے۔ حضور ہمیں ہی تو وقت دیتے ہیں۔ ہم سے ہی تو گفتگو کرتے ہیں۔ ہم سے ہی تو ملاقات کرتے ہیں۔ اور ہماری بھلائی اور فائدے کی ہی تو باتیں کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں جو مساجد، مشن ہائوس اور دیگر فلاحی منصوبے ہیں وہ ہمارے لئے اور ہماری نسلوں کے لئے ہی تو ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر وقت پیارے حضور کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں اور دعا کے لئے ہمیشہ انہیںخط لکھتے رہیں۔ خطوط میں جہاں ہم اپنی عارضی دنیاوی مشکلات کا ذکر کرتے ہیں وہیں پہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا ذکر بھی حضور سے کرتے رہیں۔ خدا کرے کہ ہم  ہمیشہ حضور کو خوش خبریاں دینے والے ہوں۔ ویسے بھی ہم احمدیوںپر اللہ تعالیٰ کے جتنے فضل ہیں وہ بھی بیان سے باہر ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا وہ شعر
اک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنا دیا
مَیں خاک تھا اُسی نے ثریّا بنا دیا
ہر احمدی پر کسی نہ کسی رنگ میں ضرورپورا اُترتا ہے۔ تو ہمیں اپنے خطوں میں ان فضلوں کا، برکتوں کا اور خوشخبریوں کا  بھی لازمی طور پہ ذکر کرنا چاہئے ۔ 
…………………
یہاں پہ مَیں اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مصروفیات کا تذکرہ ایک مضمون میں کرنا ناممکن ہے بلکہ شائد ایک کتاب بھی کم ہے۔ ویسے بھی اس مضمون میں صرف روزمرہ کی مصروفیات کا مختصر طور پہ ذکر ہے۔دیگر مصروفیات الگ سے ہیں۔ دنیا بھر کے تمام احمدیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ خلیفۂ وقت کے پاس جا کے ملاقات کا شرف حاصل کریں لیکن سب کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے اس لئے  حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جہاں جہاں ممکن ہو وہاں پہنچ کے احمدیوں سے ملتے ہیں اور اُن کے حالات جانتے ہیں۔ مَیں بیرون ممالک دورہ جات کی بات کررہا ہوں۔ برطانیہ سے سنگاپور، نیوزی لینڈ ، جاپان اور آسٹریلیا  جانا آسان نہیں ہوتا۔ قارئین میں سے جو جہاز سے سفر کرتے رہتے ہیںوہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ سفر بڑا تھکا دینے والا ہوتاہے۔لندن سے سڈنی آسٹریلیا  کوئی چھبیس گھنٹے کی فلائٹ ہے۔                                                                                      
اللہ تعالیٰ قدم قدم پہ ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حافظ و ناصر ہو۔ آپ کو صحت و شفایابی والی عمر درازعطا فرمائے۔ پوری دنیا میںاسلام احمدیت کاغلبہ ہو۔ خدا کرے کہ ہم حضور انور کے تھوڑے کہے کو ہی بہت سمجھنے والے ہوں۔اللہ تعالیٰ ہمیں امام وقت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی حقیقی معنوں میں اطاعت کی توفیق دے۔ سچی محبت اور بے مثال پیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 
مَیں دنیا کے ایسے ملک بھی دیکھ آیا ہوں جہاں ملک کے ممبران پارلیمنٹ بھی عام بسوں میں سفر کرنے کے لئے لائن میں کھڑے ہوتے ہیں اور لبنان اور اسرائیل کے بارڈر بھی دیکھ آیا ہوں جہاں دس دس سال کے بچے سکول اس طرح جا رہے تھے کہ بستے کے ساتھ کلاشنکوف بھی گلے میں لٹکائی ہوئی تھی۔دنیا کے آزاد ترین ملک بھی دیکھ لئے ہیں اور دمشق کے تہہ خانوں میں چالیس دن قید کاٹ کے وہاں کے زندانوںمیں زندہ انسانوں کے ڈھانچے بھی دیکھ کے آیا ہوں۔ مَیں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ آج اگر پوری دنیا میں امن اور انصاف کی کوئی ضمانت ہے تو وہ خلافت احمدیہ ہی ہے۔ دنیا ایک نہیں درجنوںنئے نظام بنا لے، درجنوں تِھنک ٹینک بنا لے، الٰہی نوشتوں کو نہیں بدلا جا سکتا۔ اگر دنیا چاہتی ہے کہ دنیا ایک مرتبہ پھر امن کا گہوارہ بن جائے، قافلے سلامت اپنی منزلوں کو پہنچیں، ہزاروں لاکھوں کے ہجوم میں بھی کوئی کمزور و ناتواں کسی کے پائوں تلے نہ کچلا جائے، سسکتی ہوئی انسانیت کی آنکھ کے آنسو خوشیوں کے ستاروں میں بدل جائیں اور نفرت، تعصب  اور بارود کے دھوئیں میں اَٹے ہوئے منظر، محبتوں سے سرسبز شاداب نظاروں میں بدل جائیںتولازماًامام وقت کو ماننا ہو گا۔ دنیا کا کوئی نظام خدا کے بنائے ہوئے نظام سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ خدا کرے کہ محبتوں کا، رحمتوں کا، برکتوں کا یہ سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر رہے آمین۔ 
٭…٭…٭


مکمل تحریر >>

Saturday 10 June 2017

پردہ کے بارہ میں حضور انور کا خواتین سے تاریخی خطاب




پردہ کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب ، لجنہ اماءاللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر بتاریخ 19 نومبر 2006

تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔
آپ لوگ یہاں اپنا اجتماع منعقد کرنے کے سلسلے میں جمع ہیں، جس کا آج آخری دن ہے۔ان اجتماعوں کا انعقاد اس غرض سے کیا جاتا ہے تا کہ یہاں احمدی عورتوں اور بچیوں کو دینی تعلیم وتربیت کیلئے مل بیٹھ کر تعلیمی، تر بیتی اور اصلاحی تقاریر اور ہدایات سن کر اپنے اندر کی کمزوریوں کو دُور کرنے کا موقع ملے۔ بچیوں اور بڑی عمر کی لڑکیوں کو اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ مختلف علمی پروگراموں میں حصہ لے کر اپنی علمی صلاحتیوں کومزید نکھارنے کا موقع ملے، ایک خاص ماحول میسر ہو جس میں اپنی اصلاح کے مزید بہتر راستوں کی نشاندہی کریں اور ان کے بارے میں سوچیں۔ جس قوم کی بچیاں، نوجوان لڑکیاں، عورتیں اس سوچ کے ساتھ ایک جگہ جمع ہوں جہاں وہ خالص دینی اور روحانی ماحول میں رہ کر پروگراموں میں حصہ لینا چاہتی ہوں، اپنا وقت گزارنا چاہتی ہوں اور گزار رہی ہوں،اس قوم کی نہ تو نسلیں برباد ہوتی ہیں، نہ ان پر کبھی زوال آتا ہے۔ پس آج خا لصۃً اﷲ کی خاطر ان نیک مقاصد کیلئے اگر کوئی عورت جمع ہوتی ہے تو وہ احمدی عورت ہے۔ اس لئے ہمیشہ اپنے اس مقام کو یاد رکھیں۔
جو علمی اور روحانی مائدہ آپ نے یہاں سے حاصل کیا ہے اور کر رہی ہیں اس سے فائدہ اٹھائیں کہ اسی میں آپ کی بقا ہے، اسی میں آپ کی نسلوں کی بقا ہے، اسی میں آپ کے خاندانوں کی عزت اور ان کی بقا ہے۔ا نسا ن کو کبھی خو د غر ض نہیں ہو نا چاہئے کہ صر ف ا پنی فکر ر ہے، صرف ا پنی ضر و ر یا ت کا خیا ل ر کھتا ر ہے، صر ف ا پنے جذبا ت کا خیا ل ر کھے۔ بلکہ دو سر و ں کی بھی فکر ہو نی چاہئے ، د و سر و ں کی ضر و ر یا ت کی خا طر قر با نی کی سو چ ہونی چاہئے ، د و سر و ں کے جذ با ت کا خیا ل بھی ر ہنا چاہئے۔صر ف ا پنی عز ت کا نہیں سو چنا چاہئے بلکہ ا پنے خا ند ا ن ا و ر جما عت کی عز ت کا خیا ل بھی ہر و قت ذ ہن میں ر ہنا چاہئے ۔
یہ با ت بھی ہر و قت ذ ہن میں ر ہنی چاہئے کہ میرا ایک بصیر خدا ہے جو ہر و قت مجھے د یکھ ر ہا ہے، میرا ایک علیم و خبیر خدا ہے جس کی نظر کی گہرائی میر ے پاتال تک کا بھی علم رکھتی ہے، میر ے ا ند ر تک گئی ہو ئی ہے،میر ی ہر با ت کی ا س کو خبر ہے، اس لئے کو ئی با ت اس سے چھپی نہیں ر ہ سکتی۔ ا و ر جب ا س کی ہر با ت پر نظر ہے، ا س کو ہر با ت کا علم ہے، ا س کو میرے ا ند ر ا و ر با ہر کے پل پل کی خبر ہے تو پھر جب میں یہ ا علا ن کر تی ہو ں کہ میں ایک احمدی مسلمان عورت ہوں تو ہمیشہ آپ کو یہ خیا ل ر ہے کہ مجھے ا ن با تو ں کی طر ف تو جہ د ینی چاہئے جو خد ا تعا لیٰ نے ا پنے پیا ر ے نبی ﷺ کے ذریعہ ہم تک پہنچا ئی ہیں۔ اگر کبھی ہم ا ن با تو ں کو کسی و جہ سے بھو ل گئے تو جب بھی یاد کر و ا ئی جا ئیں تو پھر ا ﷲ کے نیک بندوں کی طرح ا ن سے ا یسا معا ملہ کر نا چا ہئے جیسے ا ﷲ کے نیک بند ے کرتے ہیں ا و ر جن کے با ر ے میں خد ا تعا لیٰ فر ما تا ہے کہ وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَ بِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَاصُمًّاوَّ عُمْیَاناً(سورۃ الفرقان:74) یعنی و ہ لو گ کہ جب ا ن کے رب کی آ یا ت ا نہیں یا د د لا ئی جا تی ہیں تو ا ن سے بہر و ں اور ا ند ھو ں کا معا ملہ نہیں کر تے۔ 
  تو یقینا احمد ی عو ر ت جس کے د ل میں نیکی کا بیج ہے جس نے ا سے ا بھی تک ا حمد یت پر قا ئم ر کھا ہو ا ہے، جو و فاؤں کی پتلی ہے، جو د ین کی خا طر قربانی کا فہم رکھتی ہے، جو خلافتِ احمدیہ سے عشق و محبت کا تعلق ر کھتی ہے، اسے جب نصیحت کی جا ئے تو ا ند ھو ں ا و ر بہر و ں کی طرح سلو ک نہیں کرتی۔ ا گر حقیقی ا حمد ی ہے ا و ر یہی ہر ا حمد ی سے ا مید کی جا تی ہے کہ اسے ہر نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ ا ند ھو ں ا و ر بہر و ں کی طرح کا سلوک ا س سے ہو۔ پس جیسا کہ میں نے کہا، ایک احمدی کی یہی سو چ ہو نی چاہئے کہ میں نے ا ن با تو ں کی طر ف توجہ دینی ہے جو ا ﷲ ا و ر ا س کے رسول ﷺ نے ہمیں بتا ئی ہیں او ر یہی ایک مو من کی نشا نی ا و ر ایک مو من کی شان ہے۔ آپ جو عہد کر تی ہیں ،ہمیشہ ا س عہد کو ا پنے سا منے رکھیں۔ 
د یکھیں جب آنحضر ت ﷺ نے عو ر تو ں سے عہدِ بیعت لیا تو ا س میں مر د و ں کے عہدِ بیعت سے ز ا ئد با تیں ر کھیں، جن کا قر آ نِ کر یم میں ذ کر ملتا ہے۔جس میں شر ک سے بچنے کی طر ف تو جہ ہے،بر ا ئیو ں سے بچنے کی طر ف تو جہ ہے، ا و لا د کی صحیح تر بیت کر نے کی طر ف توجہ ہے ا و ر فر ما یا وَ لَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ (الممتحنہ:13)کہ نیک باتوں میں تیر ی نا فر ما نی نہیں کریں گی۔ تو ا ﷲ تعا لیٰ کو ئی ز بر د ستی نہیں کر ر ہا کہ ہر ایک سے ز بر د ستی یہ (عہد) لو ۔ ہا ں اگر مسلمان ہو نے کے لئے آ ئی ہیں تو پھر ا ن شر ا ئط کی پابندی کر نی بھی ضر و ر ی ہے جو ا سلا م میں شا مل ہو نے کیلئے ضر و ر ی ہیں۔ 
حضر ت مسیح مو عو د بھی جب عو ر تو ں سے بیعت لیتے تھے تو یہی نصیحت فر ما یا کر تے تھے۔ پس بعض دماغوں میں خا ص طو ر پر ا س ما حو ل میں آ کے، آ ج کل کے معا شر ے میں ہر جگہ ہی جویہ خیا ل آ جا تا ہے کہ ہم آزا د ہیں تو یاد رکھیں کہ ایک حد تک آ ز ا د ہیں۔لیکن جہاں آ پ کے د ین کے، شر یعت کے ا حکا ما ت کا تعلق ہے و ہا ں آ ز ا د نہیں ہیں۔ اگر جما عت میں شا مل ہو ئے ہیں تو ا ن شرائط کی بہر حا ل پا بند ہیں جو ا یک ا حمد ی کیلئے ضر و ر ی ہیں۔ د یکھیں ا بتد ا ء میں آنحضرت ﷺ کے زمانے میں جب ان عو ر تو ں نے بیعت کی تھی تو وہ معا شر ہ با لکل آ ز ا د تھا ، اس میں کو ئی قا نو ن نہیں تھا،آ ج کی بر ا ئیو ں سے ز یا د ہ ان میں برائیا ں مو جو د تھیں،تعلیم کی کمی تھی، چند ایک مگر وہ بھی معمو لی سا پڑ ھی لکھی تھیں ۔خد ا کے و جو د کا کوئی تصو ر نہ تھا، وہ صر ف بتو ں کو جا نتی تھیں، یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ علیم و خبیر اور بصیر خد ا کیا ہے؟
لیکن جب بیعت کی تو ا پنی ز ند گیو ں میں ایک انقلاب پید ا کر لیا۔جہا لت کے ا ند ھیر و ں سے نکل کر جب ا سلا م کی ر و شنی حا صل کی تو علم کی ر و شنی پھیلا نے کا منبع ایک عو ر ت بن گئی،پر دے و غیر ہ کی تما م ر عا ئت کے سا تھ بڑوں بڑ و ں کو دین کے مسا ئل سکھا ئے ا ور آنحضرت ﷺ سے یہ سر ٹیفیکیٹ حا صل کیا کہ د ین کا آدھا علم ا گر حا صل کر نا ہے تو عا ئشہ سے حا صل کر و۔
  مید ا نِ جنگ میں ا گر مثا ل قا ئم کی تو ا پنے پر د ے کے تقد س کو قا ئم ر کھتے ہوئے، ا پنی جر أت و بہا د ر ی کا مظاہر ہ کرتے ہو ئے ر و میو ں کی فو ج سے اکیلی ا پنے قیدی بھا ئی کو آ ز ا د کر و ا کے لے آ ئی ا و ر تا ر یخ میں ا س عورت کا ذ کر حضر ت خولہ کے نا م سے آ تا ہے۔پھر مد ینہ پر جب کفا ر کا حملہ ہو ا تو مرد اگر خند ق کھو د کر شہر کی ا س طرف سے حفا ظت کر ر ہے تھے تو گھرو ں کی حفا ظت عورتوں نے ا پنے ذ مّہ لے لی ا و ر جب یہو د یو ں نے جاسوسی کرنے کیلئے ا پنا ایک آ د می بھیجا کہ پتہ کر و تا کہ ہم اس طر ف سے حملہ کر یں ا و ر مد ینہ پر قبضہ کر لیں تو مر د تو اس جا سو س کے مقا بلے پر نہ آ یالیکن عو ر ت نے ا س کو زخمی کر کے ، ما ر کے با ند ھ د یاا و ر ا ٹھا کر اس کو با ہر پھینک د یا۔
جنگِ اُحد میں مسلما نو ں کے پا ؤں ا کھڑ گئے تو ا س و قت عو ر تیں ہی تھیں جنہو ں نے د ین کی غیر ت میں ا و ر آنحضرت ﷺ کی محبت میں ایک مثا لی کر د ا ر ا د ا کیا ا و ر وفا کی ایک مثا ل قا ئم کر د ی۔ پس یہ طا قت، یہ جرأت، یہ وفا ،یہ علم ان میں اسلا م کی تعلیم پر عمل کر نے ا و ر ا سے اپنی زند گیو ں کا حصہ بنا نے کی و جہ سے آ یا تھا۔ ا س لئے ہمیشہ یا د ر کھیں کہ اگربے نفس ہو کر ا پنے د ین کی تعلیم کو ا پنے ا و پر لا گو کر یں گی ، ا ﷲ تعا لیٰ کے تما م ا حکا مات پر عمل کر نے کی کو شش کر یں گی، خدا تعا لیٰ کی عبا د ت کی طر ف تو جہ پید ا کر یں گی تو آ پ میں د ین کی غیر ت بھی پید ا ہو گی ا و ر و فا بھی پیدا ہو گی ا و ر آپ ہر قسم کے کامپلیکس (Complex) سے بھی آ ز ا د ہو جا ئیں گی۔ و ر نہ ا س د نیاکی ر نگینیو ں میں ڈ و ب کر د نیا د ا ر و ں کی طر ح غا ئب ہو جا ئیں گی۔
  پس جس طر ح آنحضر ت ﷺ کے ز ما نہ کی عورت نے ا پنے ا ند ر یہ ا نقلا ب پید ا کیا کہ حقیقی مسلما ت بنیں، مومنا ت بنیں، قا نتا ت بنیں، تا ئبا ت بنیں، عابدات بنیں،آ پ نے بھی ا گر ا ن کے نقشِ قد م پر چلنا ہے تو پھر ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہو ئے ا سلا م کی تعلیم کو ا پنے ا و پر لا گو کر نا ہو گا۔ا گر یہ لا گو نہ کیا تو پھر آ پ مسلما ن نہیں کہلا سکتیں،ا گر آ پ نے اپنے ا یما نوں میں مضبو طی پید ا نہ کی او ر معا شر ے کی بر ا ئیو ں سے ا پنے آ پ کو نہ بچا یا تو مومنات نہیں کہلا سکتیں، ا گر فرمانبردا ر ی کے ا علیٰ معیا ر قائم نہ کئے تو قا نتا ت نہیں کہلا سکتیں،ا گر تو بہ ا و ر عبا د تو ں کی طر ف ہر و قت تو جہ نہ ر کھی تو تا ئبا ت او ر عا بد ا ت نہیں کہلا سکتیں ۔
  پس ا پنے جا ئز ے لیں کہ د عو ے کیا ہیں ا و ر عمل کیا ہیں ، ا پنے آ پ کو خو د Assessکر یں ، ا پنے خو د جائزے لیں۔ ہمیشہ ا س مقصد کو سا منے ر کھیں جو ا نسا ن کی پید ا ئش کا مقصد ہے۔ ا ﷲ کی ر ضا حا صل کر ناآپ کا
 مطمح نظر ہو۔ ا پنے لئے بڑ ے بڑ ے Targets بنائیں کہ Goal بنا ئیں جن کو حا صل کر نا ہے۔ا علیٰ مقاصد کی نشاندہی کر یں جن کی طر ف بڑھنا ہے۔جب آپ کے سا منے Targets بڑ ے ہو ں گے تو پھرآ پ ان کو حا صل کر نے کیلئے حقیقی کو شش کر یں گی۔ لڑکیاں بھی اپنے جائزے لیں اور مائیں بھی ا پنے جا ئز ے لیں۔ اس سے آ پ ا پنی بھی ا صلاح کر سکتی ہیں ا و ر ا پنی نسل کی بھی اصلاح کر سکتی ہیں،بچوں کی تر بیت بھی ا چھے ر نگ میں کر سکتی ہیں۔آ ج معا شر ے میں ا سلا م کے خلا ف ہر طر ف حملے ہو ر ہے ہیں،آ ج ا س کے د فا ع کیلئے ہر احمدی بچی، ہر ا حمد ی لڑ کی ا و ر ہر ا حمد ی عو ر ت کو ا سی طر ح مید ا نِ عمل میں آ نے کی ضر و ر ت ہے جس طر ح پہلے زمانے کی عورت آ ئی یا قر و نِ ا و لیٰ کی عو ر ت آ ئی،و ر نہ پھر آپ پوچھی جا ئیں گی کہ تمہارے سپرد کا م کیا تھا ا و ر تم نے کیا کیا؟ تمہا ر ے د عو ے کیا تھے اور تمہا ر ے عمل کیا تھے؟ 
آ ج عو ر ت کے حو ا لے سے ا سلا م پر حملے ہو ر ہے ہیں، بڑا Issue آ جکل جو ا ٹھا ہو ا ہے وہ حجا ب یا اسکا ر ف یا برقعہ کا مسئلہ ہے۔ مرد ا س کی لاکھ و ضا حتیں پیش کر یں، جتنی مر ضی ا س کی تو جیہیں پیش کر یں کہ ا سلا م میں پردہ کیو ں کیا جاتا ہے، جتنی مر ضی ا س کی Justification پیش کر یں اس کا صحیح جو ا ب ا گر کو ئی د ے سکتی ہے تو و ہ ایک با عمل ا و ر نیک احمد ی عو ر ت د ے سکتی ہے۔ پس بجائے کسی کا مپلیکس(Complex) میں مبتلا ہو نے کے، جر أتمند مسلما ن ا حمد ی عو ر ت کی طر ح ا پنے عمل سے ا و ر د لا ئل سے اس با ت کو ا پنے ماحو ل میں ، ا پنے معا شر ے میں پہنچا ئیں کہ یہ قرآ نی حکم ہما ر ی عز تو ں کیلئے ہے، ہما را شرف بحا ل کر نے کیلئے ہے، یہ کو ئی قید نہیں ہے۔ 
ا ن لو گو ں کی حا لت بھی د یکھ لیں۔ ایک طر ف تو یہ لو گ ا سلا م پر ا عتر ا ض کر تے ہیں کہ اس میں جبر ہے، سختی ہے، او ر د و سر ی طر ف خو د بھی کسی کے ذ ا تی معا ملا ت میں د خل ا ند ا ز ی کر رہے ہیں۔ ا گر کو ئی عو ر ت ا سکا ر ف لینا چاہتی ہے، حجاب لینا چا ہتی ہے تو ا ن سے کو ئی پو چھے کہ تمہیں کیا تکلیف ہے؟آ جکل کیو نکہ عمل تو ر ہا نہیں جنہوں نے حضر ت مسیح موعود کو نہیں ما ناا ن مسلما ن عور تو ں کی ا کثر یت پر د ہ نہیں کر تی تو ا سلا م ا نہیں کو ئی سز ا نہیں د یتا،کو ئی قا نو ن ا نہیں سز ا نہیں دے ر ہا۔ لیکن جو دین کی تعلیم پر عمل کر تے ہو ئے پر د ہ کر تی ہے اس پر کسی دو سر ے مذ ہب و ا لے کا کیا حق ہے کہ کہے کہ سخت قا نو ن بنا نا چا ہئے تاکہ و ہ پر د ہ نہ کر ے، اسکا ر ف نہ لے، سر نہ ڈھانپے۔ کل کو کہہ د یں گے کہ یہ تمہا ر ا لبا س ٹھیک نہیں ہے، شلو ا ر نہیں پہننی، فر ا کیں پہنو یا جین پہنویا میکسی یا کوئی ا یسی چیز پہنو ،ہمیں ا عتر ا ض ہے ا و ر پھر ا س پر بھی اعتر ا ض شر و ع ہو جا ئے گا ۔ پھر یہ کہہ د یں گے کہ چھو ٹی فرا کیں پہنو، اس طرح کی پہنو اور پھرمنی ا سکر ٹ پہنو ، پھر ننگے ہو جا ؤ۔ 
تو ا ن لو گو ں کا کسی عورت کی عزت سے کھیلنے کا کو ئی حق نہیں بنتا۔ یہ آ پ لو گ ہیں جنہو ں نے جو ا ب د ینے ہیں کہ تم کسی کے ذ ا تی معاملا ت میں د خل د ینے و ا لے کون ہو؟ ا ن سے پو چھیں کہ یہ بھی تو آ ز ا د ی سلب کر نے و ا لی با ت ہے۔ کسی کا لبا س ا س کا ذ ا تی معا ملہ ہے۔ یہ کیوں ا س کے لبا س پہننے کی آ ز ا د ی کو ختم کر نے کی کو شش کر ر ہے ہیں۔لیکن کیو نکہ ان کی حکو متیں ہیں،دنیا میں آجکل ا ن کا سکّہ چلتا ہے ا س لئے نا جا ئز ا و ر احمقا نہ باتیں کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑ ی عقل کی با ت کی ہے۔تو احمد ی عو ر ت نے ا پنی عز ت بھی قا ئم کر نی ہے ا و ر ہر ا یسے اعتر ا ض کا جو ا ب بھی د ینا ہے۔ ا س کیلئے تیا ر ہو جائیں۔
بعض عو ر تیں ا حمد ی کہلا کر بھی پتہ نہیں کیو ں کسی کامپلیکس(Complex) کا شکا ر ہو جا تی ہیں ۔ کسی نے بتا یا کہ ا یک عو ر ت نے کہا کہ میر ی بیٹی ا گر اسکا ر ف نہیں پہنتی یا جین ا و ر د و سر ا لبا س پہنتی ہے تو ا سے کچھ نہ کہو،وہ بڑ ی ڈ یسنٹ(Decent) ہے۔
ڈ یسنٹ کیو ں ہے؟ کہ ا س کی لڑ کو ں سے د و ستی نہیں ہے۔و ہ آ ز ا د ہے ،ا پنا ا چھا بر ا جا نتی ہے۔ تو یہ تو بچوں کی تر بیت خر ا ب کر نے والی بات ہے۔آ ج ا گر دوستی نہیں ہے تو کل کو د و ستی ہو بھی سکتی ہے، آ ج ا گر کسی برائی میں مبتلا نہیں ہے تو ا سی آ ز ا د ی سے فائدہ اٹھا تے ہوئے کسی بر ا ئی میں مبتلا ہو بھی سکتی ہے۔ا گر و ہ آ ز ا د ہے، ا پنا ا چھا برا جا نتی ہے ا و ر ا س با ت پر آ ز ا د ہے کہ اسلامی حکم یا قرآنی حکم پر دے پر عمل نہ کر ے تو پھر جما عت بھی آ ز ا د ہے،نظا مِ جما عت بھی آ ز ا د ہے،خلیفہ ٔو قت سب سے زیاد ہ اس کا حق رکھتا ہے کہ ا یسے لو گو ں کو پھر جما عت سے با ہر کر دے جنہو ں نے قرآنِ کریم کے بنیا د ی حکم کی تعمیل نہیں کرنی۔
اگر آپ ایک د نیا و ی کلب بھی جا ئن(Join) کرتے ہیں تو ا س کی بھی ممبر شپ کے کو ئی قو ا عدو ضو ا بط ہو تے ہیں۔ ا گر ا ن کو پو ر ا نہ کر یں تو ممبر شپ ختم ہو جا تی ہے۔ تو د ین کا معا ملہ تو خد ا کے سا تھ ایک با نڈ (Bond)ہے ایک عہدِ بیعت ہے۔ ا گر ا س کی و ا ضح تعلیم کے خلا ف عمل کر یں گی ا و ر اس کی تعلیم پر عمل کر نے سے ا نکا ر کر یں گی تو پھر ا گر آ پ کی لڑ کی کو یا آ پ کو یہ حق حاصل ہے کہ پر د ہ نہ کر یں تو پھر مجھے بھی یہ حق حا صل ہے ،اسی حق کی و جہ سے جو آ پ کو حا صل ہے کہ پھر ا یسے نافر ما نو ں کو جماعت سے نکال کربا ہر کر د و ں۔ مَیں تو ا ﷲ تعالیٰ کے حکم کی و جہ سے ا یسا کر و ں گا، ا س لئے کسی کو کو ئی شکو ہ بھی نہیں ہو نا چاہئے۔ یہاں میں ا نتظا میہ کو بھی یہ بتادوں کہ پہلے Stepمیں یہ جا ئز ہ لیں کہ کو ئی لڑ کی، کو ئی ایسی عورت عہد ید ا ر نہ ہو جو پر د ہ نہ کرتی ہو ا و ر ا گر با پر د کا م کر نے و ا لی نہیں ملتی تو ا س مجلس کو جس مجلس میں کام کرنے والی کو ئی بھی ا یسی نہیں ہے جو با پر د ہو کسی سا تھ کی مجلس کے سا تھ Attachکر د یں یا کوئی باپرد چاہے کم علم ر کھنے و ا لی ہو تو ا س کو کام سپر د کر د یں۔ا گر اس مجلس میں کوئی بھی نہیں ملتا جو ا سلا می حکم کہ’ ا پنے سر ا و ر با ل اور زینت کو ڈ ھا نپو‘ پر عمل کر ر ہی ہو ا و ر قر یب کو ئی مجلس بھی نہ ہو تو پھر ایسی مجلس کو ہی بند کر د یں۔ ا وّ ل تو مجھے امید ہے کہ یہ جو میں نے ا نتہا ئی صو ر ت پیش کی ہے ا یسی خو فنا ک شکل کہیں نہیں ہو گی۔ انشا ء ا ﷲ تعا لیٰ۔
 اﷲ کے فضل سے جما عت میں نیکیو ں میں آ گے بڑھنے و ا لی بے شما ر خو ا تین ہیں۔ ا گر بڑ ی عمر کی عو ر تو ں میں سے نہیں تو نوجو ا ن بچیوں میں سے مَیں د یکھ ر ہا ہوں کہ ا یسی ہیں جو منا فقت سے پا ک ہیں،جو کسی قسم کی منافقت نہیں کر تیں۔ بعض ا پنے گھر کے ما حو ل کی و جہ سے ایسی ہو ں گی لیکن بہت ساری ا یسی ہیں جو ا پنے بڑوں سے ز یا د ہ نیکیو ں پر قا ئم ہیں۔ کوشش کر تی ہیں کہ حجاب لیں،حیا ر کھیں۔ ا یم ٹی اے کیلئے ایک پر و گر ا م ا نہو ں نے بنا یا ہے جو ا بھی د کھا یا نہیں لیکن مَیں ر یکا ر ڈنگ د یکھ رہا تھااس میں ہما ر ی ا یک بچی نے جو ٹیچر بھی ہے، جب سکو ل میں حجا ب کا مسئلہ آ یا تو یہ کہا کہ مَیں سکول میں بھی سر ڈھانکوں گی کیو نکہ مَیں بچو ں کو سکو ل میں یہ نہیں سکھا نا چا ہتی کہ مَیں نے منا فقا نہ ر و یّہ یا د و ہر ا معیا ر ر کھا ہوا ہے۔ بچے مجھے با ہرا سکا ر ف میں د یکھ لیں گے تو کہیں گے کہ سکو ل میں کیو ں نہیں لیتی، سکول میں سر کیو ں نہیں ڈھا نکتی؟ و ہا ں ایک Discussion یہ بھی ہو ر ہی تھی کہ پرائمری سکول میں چھوٹے بچو ں کو پڑ ھا نے و ا لی ہماری ایک ٹیچر ہے و ہ سر نہیں ڈھانپتی۔ ٹھیک ہے جہا ں چھو ٹے بچے ہو ں ،عو ر تیں ہوں بے شک نہ ڈ ھا نپیں، کوئی حرج نہیں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ جس بچی نے کہا کہ مَیں سکو ل میں بھی سر ڈھانکوں گی، اس کے سکول میں بڑے بچے ہوں۔
تو بہر حا ل پر د ہ ایک ا سلا می حکم بھی ہے ا و ر ایک احمد ی عو ر ت ا و ر نو جو ا ن لڑ کی کی شا ن بھی ہے ا و ر اس کا تقدّ س بھی ہے کیونکہ ا حمد ی عو ر ت کا تقدّ س بھی اسی سے قائم ہے،ا س کو قا ئم ر کھنا ضر و ر ی ہے۔ لیکن یا د ر کھیں کہ اسکا ر ف کے سا تھ نچلا لبا س بھی ڈھیلا ہونا چا ہئے۔
 اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ز ینت نظر نہ آ ئے۔بعض
 غیر ا ز جماعت لڑکیاں نظر آ جا تی ہیں، ا نہو ں نے اسکارف تو شاید ا س ری ا یکشن(Reaction) میں لیا ہو تا ہے کہ ہمیں کیو ں ا سکا ر ف لینے سے ر و کا جا رہا ہے۔ لیکن ان کا جو لباس ہوتا ہے وہ Tight جین ا و ر بلا ؤز پہنے ہوتے ہیں۔ ا س پر د ے کا کو ئی فا ئد ہ نہیں،و ہ تو منا فقت ہے۔ پر د ہ ایسا ہو جو پر د ہ بھی ہو ا و ر وقار بھی ہو۔
پھر مجھے پتہ چلا ہے کہ ایک جگہ عورتیں بیٹھی ہو ئی تھیں تو ایک عہد ید ا ر عو ر ت نے د و سر ی کو کہا کہ حالات کی وجہ سے ا ب پر د ے میں ہمیں کچھRelaxہو نا چاہئے، ا تنی سختی نہیں کر نی چا ہئے۔ٹھیک ہے Relax
ہو جا ئیں تو جس طر ح مَیں نے پہلے کہا ہے کہ پھر وہ ا پنا حق استعما ل کر یں ا و ر مَیں ا پنا حق ا ستعما ل کر و ں گا۔ یہ تو نہیں ہے کہ آ پ ا پنے حق لیتی رہیں او ر میرا حق کہیں کہ تم استعمال نہ کرو۔ میں نے تو بہر حا ل ا س حکم کی پا بند ی کروانی ہے انشاء اﷲ تعالیٰ، جو قرآنِ کر یم میں ا ﷲ تعالیٰ نے ہمیں د یا ہے۔ نہیں تو جیسا کہ مَیں نے کہاد ر و ا ز ہ کھلا ہے جو جا نا چا ہتا ہے چلا جا ئے۔ 
  مجھے یہ سمجھ نہیں آ تی کہ یہ کا مپلیکس (Complex) کس و جہ سے ہے،کیسا ہے، کیو ں ہے؟ یہا ں کی لو کل برٹش عو ر تیں بھی ہیں، یورپ میں ا و ر جگہ بھی ا حمد ی ہو تی ہیں، لڑکیا ں بھی ہیں، جما عت میں د ا خل ہو ر ہی ہیں۔ انہو ں نے تو اسکا ر ف پہننا شر و ع کر د یا ہے،ا پنے سر ڈھانکنے شر و ع کر د ئیے ہیں ا و ر آ پ لو گو ں میں سے بعض ا یسی ہیں جو ا حسا سِ کمتر ی کا شکا ر ہو ر ہی ہیں۔ا بھی کل ہی یہا ں کی ایک ا نگر یز لڑ کی جو چند د ن پہلے ا حمد ی ہو ئی ہے مجھے ملی ہے، اس کو تو اسکا ر ف یا حجا ب کی کوئی عادت نہیں تھی لیکن اس نے بڑ ا ا چھا حجا ب لیا ہو ا تھا۔ یہ لوگ تو ا س خو بصو ر ت تعلیم پر عمل کر نے کیلئے ا سے قبو ل کر ر ہے ہیں او ر ہما ر ی بعض خو ا تین ا حسا سِ کمتر ی کا شکا ر ہیں ا س پر سو ا ئے اِ نَّا لِلّٰہِ کے ا و ر کیا کہا جا سکتا ہے۔ 
اگر کسی کے ذ ہن میں یہ خیا ل ہوکہ ا س طر ح سختی سے جما عت کم ہو گی،جما عت سے لو گ د وڑ نا شر و ع ہو جائیں گے تو یا د ر کھیں کہ جما عت کم نہیں ہو گی۔ ا یسی تما م عو ر تیں بھی ا گر چھو ڑ د یں تو ا ﷲ میا ں کا و عد ہ ہے اور ا س کے مطا بق وہ نئی قومیں عطا فر ما ئے گا۔ یہا ں کے بر ٹش لوگو ں میں سے بھی جو عو ر تیں آ ئی ہیں، احمدی ہوئی ہیں بڑی مخلص ہیں ا و ر آ ئند ہ بھی ان لو گو ں میں سے ہی آ پ دیکھیں گی کہ قطر ا تِ محبت ٹپکیں گے جو اسلا م او ر ا سلام کی تعلیم سے محبت کر نے و ا لے ہو ں گے۔ا بھی جس کا میں نے ذ کر کیا ہے کہ کل ہی مجھے ملی ہیں ا و ر بہت ساری ا یسی ہیں، اس وقت یہا ں میرے سامنے بیٹھی ہوئی ہیں جو خو د احمد ی ہو ئی ہیں ا و ر پھر احمدیت میں تر قی کر تی چلی گئیں۔ یہا ں آ پ کی صد ر صا حبہ ہیں یہ بھی تو پا کستا نی نہیں ، جرمن ہیں ،پر د ہ کر تی ہیں ، بر قعہ پہنتی ہیں ا ن کو تو کو ئی کامپلیکس نہیں۔تو جیسا کہ مَیں نے ذ کر کیا ہے و ہ خا تو ن جو شاید عہد ید ا ر بھی ہے، وہ پر د ے میں Relaxہو نا چاہتی ہے۔ ا صل با ت جو مَیں سمجھتا ہوں یہ ہے کہ بنیا د ی طو ر پر و ہ اعتراض مجھ پر کر نا چا ہتی ہے کہ مَیں پردے کے معاملہ میں سختی کر تا ہو ں۔ا س قسم کے لو گ جو گو ل مو ل باتیں کر تے ہیں یہ بھی منا فقا نہ حر کت ہے ، پس ا پنے آپ کو سنبھا لیں۔ ا و ر ا ن نئی ا حمد یو ں سے میں کہتا ہوں جو ا ن قو مو ں میں سے آ ر ہی ہیں کہ ا گر یہ پید ا ئشی احمد ی ا پنے پر ا سلا می تعلیم لا گو نہیں کر نا چا ہتیں تو ان کو نہ دیکھیں، آ پ آ گے بڑ ھیں ا و ر ا ن لو گو ں کیلئے نمونہ بن جائیں ا و ر آ گے بڑ ھ کر ا سلا م ا و ر ا حمد یت کے حسن او ر خوبیو ں کو ا س ما حو ل میں پھیلا ئیں۔
پر د ہ ا و ر حیا ہر ز ما نے میں، ہر مذ ہب کی تعلیم ر ہی ہے۔ حضر ت مو سیٰ کے و قت میں بھی قر آ ن کریم میں جن د و عورتوں کا ذکر ہے کہ وہ ایک طر ف کھڑ ی تھیں، اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا رہی تھیں تو وہ پردہ اور حیا کی وجہ سے ہی کھڑی تھیں کہ مر د جب فا ر غ ہو جا ئیں گے تب ہم آ گے جا ئیں گی۔
پس حیا کو ا یما ن کا حصہ سمجھیں ا و ر یہی ہمیں سکھا یا گیا ہے۔عیسا ئی عو ر تیں شر و ع ز ما نے میں پر د ہ کر تی تھیں، اپنے لبا س ڈھا نکے ہو ئے پہنتی تھیں،با ئبل میں پردے کی یہ تعلیم کئی جگہ د ر ج ہے۔ا گرآ ج عیسا ئی پر د ہ نہیں کر ر ہے جن کو د یکھ کر آ پ متا ثر ہو ر ہی ہیں تو و ہ ا پنے د ین کو بھو ل ر ہے ہیں۔ا گر ا پنے د ین کو یا د ر کھیں ،ا س پر عمل کر یں توبیشما ر بر ا ئیا ں جو ا ن لوگو ں میں ر ا ہ پا گئی ہیں وہ ختم ہو جا ئیں۔ یہا ں میں آ پ کی تسلی کیلئے، جن لوگو ں کو کا مپلیکس ہے ا ن کیلئے با ئبل میں سے چند حوالے پیش کر د یتا ہو ں، ایک حوالہ ہے:۔
ـ’’عو ر ت مرد کا لبا س نہ پہنے ا و ر نہ مر د عو ر ت کی پوشاک پہنے کیو نکہ جو ا یسے کا م کر تا ہے و ہ خداوند تیر ے خد ا کے نز د یک مکر و ہ ہے۔‘‘(استثناء باب 22آیت 5)
ا س کی ٹر انسلیشن میں شاید دقّت پیش آ ئے ا س لئے مَیں اصل ا نگلش versionبھی پڑ ھ د یتا ہو ں۔ 
"A woman must not wear men's clothing, nor a man wear women's clothing, for the Lord your God detests anyone who does this."(Deuteronomy 22:5)
پھر با ئبل میں لکھا ہے:۔
"حسن د ھو کا ا و ر جما ل بے ثبا ت ہے۔ لیکن و ہ عو ر ت جو خد ا و ند سے ڈ ر تی ہے ستو د ہ ہو گی۔"
(امثال باب 31آیت 30) 
ا س کا ا نگلش تر جمہ یہ ہے:۔
"Favour is deceitful, and beauty is vain: but a woman that feareth the Lord, she shall be praised."( Proverbs 31:30)
پھر ایک جگہ لکھا ہے:۔
’’ا سی طر ح عو ر تیں حیا د ا ر لبا س سے شر م ا و ر
 پر ہیز گا ر ی کے سا تھ ا پنے آ پ کو سنو ا ر یں نہ کہ بال گو ندھنے اور سونے اور موتیوں اور قیمتی پو شا ک سے۔بلکہ نیک کا مو ں سے جیسا خد ا پر ستی کا ا قر ا ر کر نے و ا لی عو ر تو ں کو منا سب ہے۔‘‘(۱۔ تیمتھیس باب 2آیت 10,9)
"ٰI also want women to dress modestly, with decency and propriety, not with braided hair or gold or pearls or expensive clothes, but with good deeds, appropriate for women who profess to worship God." (Timothy 2:9-10)
پھر ایک ہے:۔
’’جو مر د سر ڈ ھنکے ہو ئے دعا یا نبو ت کر تا ہے و ہ اپنے سر کو بے حر مت کر تا ہے ا و ر جو عو ر ت بے سر ڈھنکے دعایا نبوت کرتی ہے و ہ ا پنے سر کو بے حر مت کر تی ہے کیونکہ و ہ سر مُنڈی کے بر ا بر ہے۔ ا گر عو ر ت او ڑ ھنی نہ اوڑھے تو بال بھی کٹائے۔ اگر عو ر ت کا با ل کٹا نا یا سر منڈ ا نا شر م کی بات ہے تو ا و ڑھنی اوڑھے۔ ا لبتہ مر د کو ا پنا سر ڈ ھا نکنا نہ چاہئے کیو نکہ و ہ خد ا کی صور ت ا و ر ا س کا جلا ل ہے مگر عورت مر د کا جلال ہے۔‘‘
(1۔ کرنتھیوں باب 11آیت 4 تا 7) 
تو اسلا م پر تو یہ لو گ ا عتر ا ض کر تے ہیں۔ ا س کے علا و ہ یہ ضمنی با ت بھی آ گئی کہ مر د کو عو ر ت سے
Superior تو یہ لو گ سمجھتے ہیں۔کیو نکہ مر د کا ا پنا ایک مقا م ہے عو ر ت کا مقا م نہیں۔ تو بہر حا ل یہ تو ضمنی با ت تھی، ا س و قت تو بحث نہیں ہو سکتی۔ ا س کا ا نگلش Version یہ ہے کہ:۔
"Any man who prays or prophesies with something on his head,disgraces his head, but any woman who prays or prophesies with her head unveiled disgraces her head. It is one and the same thing as having her head shaved. For if a woman will not veil herself, then she should cut off her hair; but if it is disgraceful for a woman to have her hair cut off or to be shaved, she should wear a veil. For a man aught not to have his head veiled, since he is the immage and reflection of God; but woman is the reflection of man."
(Corinthians 11: 4 - 7) 
تو یہ سب د یکھنے کے بعد آ پ لو گو ں کو مضبو ط ہو نا چاہئے، مز ید مضبو ط ہو نا چاہئے کہ آ پ تو ا پنی تعلیم پر عمل کر نے والی ہیں جو ا سلام کی خو بصو ر ت تعلیم ہے ا و ر جو زند ہ خد ا کے سا تھ تعلق جو ڑ نے و ا لی ہے۔جبکہ یہ مغر بی معا شر ہ مذ ہبی د یو ا لیہ ہو چکا ہے، ا پنے د ین کی ہد ا یا ت کو بھلا بیٹھا ہے۔پس ا ن کو کہیں کہ ہما ر ے خلا ف با تیں کرنے کی بجا ئے، مضمو ن لکھنے کی بجا ئے، قا نو ن بنا نے کی بجا ئے، بیا ن د ینے کی بجا ئے ا پنی فکر کر و، ہما ر ے سر ننگے کر نے کی بجا ئے جو ہم ا پنی خو شی سے ڈھا نپتی ہیں، اپنی تعلیم کے مطا بق ا پنی عو ر تو ں کے سر ڈ ھا نپو۔ 
  پس مَیں د و با ر ہ یہ کہتا ہو ں کہ بجا ئے یہ کہنے کے کہ پر د ہ میں نر می کر و یا مجھے ڈ ھکے چھپے ا لفا ظ میں یہ کہنے کے کہ پر د ہ کے معا ملہ میں سختی کر تا ہے ،ا پنے ا حسا سِ کمتری کو ختم کر یں جن میں بھی یہ ا حسا سِ کمتر ی ہے ا و ر اس تعلیم پر عمل کر یں جو اﷲ تعا لیٰ نے ہمیں د ی ہے۔ اﷲ تعا لیٰ نے مر د ا و ر عو ر ت د و نوں کو بر ا ئیو ں سے بچنے کی تلقین کی ہے۔مر د کو عو ر ت سے پہلے ا س با ت کی تلقین کی ہے کہ ا پنی نگا ہیں نیچی ر کھو، ا پنی نظر یں نیچی ر کھو۔ پھر عورت کو حکم د یا ہے کہ نظر یں نیچی ر کھو۔ ا و ر مر د میں عورت کی نسبت کیونکہ بیبا کی زیادہ ہو تی ہے ا س لئے عو ر ت کو حکم د یا کہ گو کہ نظر نیچی ر کھنے ا و ر شر م گا ہو ں کی حفا ظت کرنے کا د و نو ں کو حکم ہے تا ہم مر د کی فطر ت کی و جہ سے تمہا ر ے لئے بہتر یہ ہے کہ تم ا پنی ز ینت کو ڈ ھا نکو تا کہ مرد کی بے محابا ا ٹھی ہو ئی نظر سے بچ سکو۔
بعض لو گ یہ بھی ا عترا ض کر تے ہیں کہ پہلے خلفا ء نے پر د ہ کے با ر ہ میں ا تنی سختی نہیں کی تھی تو چند حو ا لے و ہ بھی میں آ پ کے سامنے رکھ دیتا ہوں تا کہ تسلی ہو جائے۔
حضر ت مسیح مو عو د فر ما تے ہیں:۔
’’یو ر پ کی طر ح بے پر د گی پر بھی لو گ ز و ر د ے رہے ہیں لیکن یہ ہر گز منا سب نہیں۔ یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجو ر کی جڑ ہے۔ جن مما لک نے ا س قسم کی آز ا د ی کو ر و ا ر کھا ہے ذ ر ا ا ن کی اخلاقی حا لت کا ا ند ا ز ہ کرو۔ ا گر ا س کی آ ز ا د ی اور بے پر د گی سے ا ن کی عفت او ر پا کد ا منی بڑھ گئی ہے توہم ما ن لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں ۔ لیکن یہ با ت بہت ہی صا ف ہے کہ جب مر د ا و ر عورت جو ا ن ہو ں ا و ر آزاد ی ا و ر بے پر د گی بھی ہو تو ا ن کے تعلقا ت کس قد ر خطر نا ک ہو ں گے۔ بد نظر ڈ ا لنی ا و ر نفس کے جذبا ت سے ا کثر مغلو ب ہو جا نا ا نسا ن کا خا صہ ہے۔ پھر جس حا لت میں کہ پر د ہ میں بے ا عتد ا لیا ں ہوتی ہیں ا و ر فسق و فجو ر کے مر تکب ہو جا تے ہیں تو آ ز ا د ی میں کیا کچھ نہ ہو گا۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ104، جدید ایڈیشن) 
پھر حضر ت خلیفۃ ا لمسیح ا لثا نیؓ کا بھی ا س با ر ہ میں ایک بیان ہے، فر ما تے ہیں:۔
’’ شر عی پر د ہ جو قر آ ن شر یف سے ثا بت ہے یہ ہے کہ عو ر ت کے با ل، گر د ن ا و رچہر ہ کا نو ں کے آ گے تک ڈھکا ہو ا ہو۔ ا س حکم کی تعمیل میں مختلف مما لک میں اپنے حا لا ت ا و ر لبا س کے مطا بق پر د ہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
(الفضل مؤرخہ 3؍ نومبر 1924ء) 
  پھر فر ما تے ہیں کہ:۔
’’ہا تھ کے جو ڑ کے ا و پر(ہاتھ کا اشارہ کر کے بتایا کہ ’’یہاں سے‘‘) سا ر ے کا سارا حصہ پر د ہ میں شا مل ہے۔‘‘
 (الازھار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ 150) 
پھر حضر ت خلیفۃ ا لمسیح ا لثا لث ؒ کا بیا ن بھی بڑا سخت ہے، یہ بھی غور سے سن لیں۔ نا ر و ے میں لجنہ سے خطا ب کرتے ہو ئے فر ما یا تھا:۔
’’میں ا یسی خو ا تین سے جو یہاں پر د ہ کو ضر و ر ی نہیں سمجھتیں پو چھتا ہو ں کہ ا نہو ں نے پر دہ کو ترک کر کے ا سلا م کی کیا خد مت کی ہے …………آ ج بعض یہ کہتی ہیں کہ ہمیں یہا ں پر د ہ نہ کر نے کی ا جا ز ت د ی جا ئے۔پھر کہیں گی کہ ننگ دھڑ نگ سمند ر میں نہانے ا و ر ر یت پر لیٹنے کی ا جا زت دی جائے۔پھر کہیں گی شا د ی سے پہلے بچہ جننے کی ا جا ز ت د ی جا ئے۔ مَیں کہو ں گا پھر تمہیں دوزخ میں جانے کیلئے بھی تیا ر ر ہناچاہئے…… و ہ ا پنے آپ کو ٹھیک کر لیں قبل ا س کے کہ خد ا کا قہر نا ز ل ہو۔‘‘
(دورہ مغرب اگست 1980ء صفحہ 239,238) 
حضر ت خلیفۃ ا لمسیح الر ا بعؒ فر ما تے ہیں کہ:۔
’’……کیو نکہ میں محسو س کر ر ہا تھا کہ د نیا میں ا کثر جگہ پر د ہ ا س طر ح غا ئب ہو ر ہا ہے کہ گو یا اس کا وجو د ہی کوئی نہیں ا ور اس کے نتیجے میں جو ا نتہا ئی خو فنا ک ہلا کتیں سا منے کھڑ ی قو م کو آ نکھیں پھاڑے دیکھ ر ہی ہیں، ا ن ہلاکتو ں کا کو ئی ا حسا س نہیں ہے۔ما ں با پ ا پنی بے عملی او ر غفلتو ں کے نتیجے میں اپنی نئی نسلو ں کو ا یک معا شر تی جہنم میں جھو نک ر ہے ہیں ا و ر کو ئی نہیں جو ا س کی پر و ا ہ کرے۔یہ صورتِ حا ل سا ر ی د نیا میں ا تنی سنگین ہو تی جار ہی ہے کہ مجھے خیا ل آ یا کہ ا گر ا حمد یو ں نے فوری طور پر اسلام کے دفاع کا جھنڈ اا پنے ہا تھ میں نہ لیا تو معا ملہ حد سے آ گے بڑ ھ جا ئے گا…………‘‘۔
پھر آ پ نے فر ما یا:۔
’’…………پھر ا یسی خو ا تین ہیں جن کو با ہر تو نکلنا پڑتا ہے لیکن و ہ سنگھا ر پٹا ر کر کے نکلتی ہیں۔ ا ب کا م کا سنگھا ر پٹا ر سے کیا تعلق ہے؟…………‘‘۔
پھر آ پ فر ما تے ہیں:۔
’’…………عو ر تیں سمجھتی ہیں کہ اگر ہم ا س د نیا میں جہا ں سے پر د ے ا ٹھ ر ہے ہیں ا پنی سہیلیو ں کے سامنے بر قع پہن کر جا ئیں گی تووہ کہیں گی کہ یہ ا گلے و قتو ں کی ہیں، پگلی ہیں، پا گل ہو گئی ہیں ، یہ کو ئی برقعو ں کا ز ما نہ ہے او ر یہی بات مر د و ں کو بھی تکلیف د یتی ہے۔ حا لا نکہ و ہ اس بات کو بھو ل جا تے ہیں کہ عز تِ نفس ا و ر د و سر ے کا کسی کی عز ت کر نا ا نسا ن کے ا پنے کر د ا ر سے پید ا ہو تا ہے۔د نیا کی نظر میں لبا س کی کو ئی بھی حیثیت نہیں ر ہتی۔ اگر کو ئی آ د می صاحبِ کر د ا ر ہو تو ا س کی عز ت پید ا ہو تی ہے ا و ر یہ عزت سب سے پہلے ا پنے نفس میں پید ا ہو نی چا ہئے۔‘‘
(خطبات طاہر جلد اوّل صفحہ 361تا 367) 
پھر آ پ نے فر ما یا:۔ 
’’یہا ں پر و ر ش پا نے و ا لی بچیا ں اپنے سر کے بالوں کے بارے میں ایک ذ ہنی ا لجھن میں مبتلا ہیں۔و ہ سمجھتی ہیں کہ با لو ں کو ڈھانک کر رکھنا ایک د قیا نو سی با ت ہے (بڑ ی Backwardness ہے)۔ا س لئے و ہ اﷲ تعالیٰ کی طر ف نیم دلی سے قد م ا ٹھا تی ہیں نہ کہ بشاشتِ قلبی سے۔ و ہ د ر ا صل یہ کہہ رہی ہوتی ہیں کہ اے خدا توہمیں ا سی طو ر سے قبو ل فر ما لے کہ ہم د و پٹہ ا و ڑ ھے ہو ئے ہیں مگر ا س طور سے جس طور سے یہودی اپنے سر کی پشت پر ایک چھوٹی سی" چپنی نما "ٹوپی پہنے ہو ئے ہو تا ہے۔پس تو اپنی طر ف ا ٹھا ہو ا یہ ا دھو ر ا قد م بھی قبو ل فر ما لے۔ لیکن ا گر آپ سب کچھ خد ا کی خا طر کر تی ہیں تو پھر یہ بالکل نا منا سب ہے۔یا د ر کھیں کہ عو ر توں کے خد و خا ل کا سب سے دلکش حصہ ا ن کے با ل ہو تے ہیں، بالخصوص جب کہ و ہ سا منے کی طر ف لٹکے ہو ئے ہو ں۔بعض لڑکیوں کو مَیں نے د یکھا کہ جب و ہ د و پٹہ ا پنے سر پر کھینچتی ہیں تو ا یسے طر یق سے کہ جس سے ا ن کے با ل سا منے کی طر ف جھک آئیں……۔ (آ پ یہ د یکھیں کہ) کیا مَیں خد ا تعا لیٰ کی ز یا د ہ پر و ا ہ کر تی ہو ں یا ا نسا نو ں کی؟‘‘
(بچوں کی اردو کلاس مؤرخہ 06.06.98) 
تو یہ تھے مختلف خلفا ء کے ا و ر حضر ت مسیح مو عود کے بیا ن۔ بعض لو گو ں میں جو یہ سو چ پید ا ہو گئی ہے کہ فلاں خلیفہ نے تو ا یسا نہیں کہا تھا ا و ر فلا ں خلیفہ کہہ ر ہا ہے۔ تو پہلی با ت یہ ہے کہ آ پ لو گ بغیر علم کے خلفا ء پر بد ظنی کر ر ہی ہیں کہ نعو ذ با ﷲ وہ ا ﷲ تعا لیٰ کے بنیا د ی حکم پر عمل نہیں کر و ا نا چا ہتے تھے۔ جتنے خلفا ء پہلے گز ر ے ہیں میں نے سب کا بیا ن پڑھ د یا تا کہ آ پ لو گو ں میں سے جس کسی کے ذ ہن میں بھی یہ غلط فہمی یا خنّا س تھا تو وہ د و ر ہو جا ئے۔ 
د و سر ی با ت یہ کہ بعض حا لا ت میں کو ئی خلیفہ کسی بات پر ز یا د ہ ز و ر د یتا ہے ا و ر کو ئی کسی با ت پر۔ اس لئے یہ کہنا کہ پہلے خلیفہ نے ا س با ر ہ میں یہ با ت کی تھی، تم بھی اس با ر ے میں ا سی طر ح کر و یہ تو خلا فت کو پا بند کر نے والی با ت ہے ا و ر اس کی بے ا د بی ہے ا و ر یہ ظا ہر کر تی ہے کہ آ پ نے بیعت صر ف معا شر ے کے د با ؤ ، ما ں با پ کے د با ؤ ، خا و ند کے د با ؤ یا بچو ں کے د با ؤ کی و جہ سے کی ہے،د ل سے نہیں کی ۔ ا گر د ل سے بیعت کی ہوتو تما م معرو ف فیصلو ں پر عمل کر نے کا جو عہد آپ نے کیا ہے و ہ آ پ کے سا منے ہو ا و ر کبھی ا یسی با ت نہ نکلے کہ یہ فیصلہ کیوں کیا ا و ر یہ فیصلہ کیو ں نہیں کیا؟میں پھر و ا ضح کر د و ں کہ و ہ چند ایک لو گ میر ے ز یا د ہ مخاطب ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں، سارے نہیں کہ اگر حضرت مسیح مو عو د کی جما عت سے منسلک ر ہنا ہے تو قر آنِ کر یم او ر حضرت محمد ﷺ کے و ا ضح ا حکا ما ت کی پا بند ی کر نی ہو گی ۔پھر جیسا کہ حضر ت خلیفۃ ا لمسیح ا لر ا بعؒ نے فر ما یا تھا د و عملی نہیں چلے گی۔ یا خد ا سے ڈ ر یں یا بند ے سے ڈ ر یں۔
پس آ ج ہر احمد ی عو ر ت کی غیر ت کا تقا ضہ یہ ہے کہ بجا ئے لو گو ں سے ڈ ر نے کے آ ج جبکہ ا س معاشرے میں اسلا م کے خلا ف نفر تو ں کے بیج بو ئے جا رہے ہیں، طو فانِ بد تمیز ی پید ا کر نے کیلئے فضا ہمو ا ر کی جا ر ہی ہے ، اعلان کر کر کے ہر ا یک کو بتا ئیں کہ تم چا ہے جتنی مر ضی پابند یا ں لگا لوہما ر ے د لو ں سے ، ہما ر ے چہرو ں سے، ہمار ے عملو ں سے ا س خو بصو ر ت تعلیم کو نہیں چھین سکتے اور ا گر تم لو گ مذ ہب سے د و ر جا ر ہے ہو، د و ر ہٹ رہے ہو، تبا ہی کے گڑ ھے میں گر ر ہے ہو تو ہم تمہارے سا تھ اس جہنم میں گر نے کیلئے تیا ر نہیں ہیں۔ بلکہ ہم د عا کر تے ہیں کہ خد ا تعا لیٰ ا نسا نیت کو ا پنے بر ے کرتوتو ں ا و ر عملو ں کے بھیا نک ا نجا م سے بچا ئے۔آ ؤ او ر ہما ر ے سا تھ شامل ہو جا ؤ۔ا و ر ہما ر ے سا تھ شا مل ہو کر ا ﷲ کے حکموں پر عمل کر تے ہو ئے ا س کی ر ضا حاصل کر نے کی کو شش کروکہ ا سی میں تمہا ر ے د لو ں کا سکو ن اور تمہا ر ی نسلو ں کی بقا ہے۔ مجھے ا مید ہے کہ ہر با غیر ت احمدی عو ر ت جس کے د ل میں کبھی ہلکا سا بھی اﷲ تعا لیٰ کے کسی حکم کے با ر ے میں کو ئی شائبہ پید ا ہو تا ہے و ہ ا س کو ا پنے د ل سے نو چ کر با ہر پھینک دے گی ا و ر حقیقی مسلمات، مو منا ت، قانتا ت، تا ئبا ت ا و ر عابدات میں شا مل ہو جا ئے گی۔ اﷲ کرے کہ ا یسا ہی ہو۔ آ مین۔
اﷲ تعالیٰ آپ سب کو خیریت سے اپنے اپنے شہروں میں لے کر جائے،گھروں میں لے کر جائے۔ اﷲ حافظ و ناصر ہو۔
 ( الفضل انٹرنیشنل 5 جنوری تا 11 جنوری 2007 )

مکمل تحریر >>