Sunday 16 April 2017

مولانا عبداللطیف صاحب بہاولپوری فاضل دیوبند کی قبولیت احمدیت کی داستان



حضرت مولانا عبداللطیف صاحب بہاولپوری مرحوم جماعت احمدیہ کے ایک خاموش ، درویش منش اور صاحب رؤیاو کشوف بزرگ عالم دین تھے۔ آپ نے قرآن کریم کی بعض سورتوں کی تفسیر خصوصاً سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف شائع کر کے خاص شہرت پائی۔ اس کے علاوہ بھی آپ نے جماعت کے اخبارات اور رسائل میں ان گنت علمی مضامین کے خزانے چھوڑ ے ہیں۔ 
آپکے قبول احمدیت کی داستان بہت ایمان افروز ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے خود ہی آپ کی رہنمائی احمدیت کی طرف فرمائی اور صداقت احمدیت کو قبول کرنے کی سعادت و توفیق بخشی۔ اس پہلو سے آپکا وجود دیگر ہزارہا افراد کی طرح حضرت اقدس مسیح موعود ؑکے اس الہام الٰہی کی صداقت پر ایک گواہ تھا جس میں حضور علیہ السلام کو خبر دی گئی تھی کہ ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء۔ یعنی ایسے عظیم لوگ تیری مدد کریں گے جنہیں ہم آسمان سے وحی کریں گے۔ قارئین الفضل کی دلچسپی کے لئے حضرت مولانا عبداللطیف صاحب بہاولپوری کے قبول احمدیت کی داستان خود آپ ہی کے الفاظ میں پیش ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’مجھے ابتدائے عمر سے احمدیت کے خلاف ہمیشہ ایسی باتیں سننے میں آتیں جن کی وجہ سے دل میں سلسلہ کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی۔ یہاں تک کہ خلوت میں دعائیں بھی اس قسم کی کی جاتیں کہ الٰہی کسی مرزائی (احمدی) کی شکل تک نظر کے سامنے نہ آئے۔ خاکسار نے دارالعلوم دیوبند میں نصاب تعلیم کی تکمیل کی۔ بعد فراغتِ تعلیم جب گھر واپس آیا تو ایک دفعہ میرے والد صاحب مرحوم ومغفور نے مجھ سے دریافت کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں یافوت ہو چکے ہیں۔ تو جھٹ اسی پرانے عقیدے کی بنا پر یہی جواب دیا کہ زندہ ہیں اورکہا کہ اہل سنت والجماعت کا یہی اجماعی عقیدہ ہے ۔ حالانکہ اس مسئلہ کے متعلق خود کبھی تحقیق نہیں کی تھی۔ پراناعقیدہ دل میں اس قدر راسخ تھا جس کی وجہ سے تحقیق کی طرف توجہ دینا ہی فضول سمجھتا تھا۔ اس کے بعد جب اﷲ تعالیٰ نے مجھے اس ورطۂ ضلالت سے نکالنا چاہا تو اپنی صفت رحمانیت کے ماتحت میری ہدایت و راہنمائی کا سامان بھی عجیب طرح غیب سے پیدا فرمایا ۔بجائے اس کے کہ کسی احمدی سے میر ی ملاقات ہوتی اور اس سے تبادلہ خیالات کر کے کسی نتیجہ پر پہنچتا۔ اﷲ تعالیٰ نے محض اپنے فضل وکرم سے میری ہدایت کا نرالا سامان مہیا فرمایا۔
ضلع حیدرآباد سندھ میں ایک گاؤں بنام ’’گوٹھ پیر جھنڈا ‘‘ ہے۔ اس میں مولوی عبیداﷲ سندھی نے ایک عربی مدرسہ بنام دارالرشاد قائم فرمایا تھا۔ جس میں ابتداء ً مولانا موصوف خود بھی تعلیم دیتے تھے ۔ بعد میں جب آپ سیاست میں منہمک ہو گئے تو پہلے کچھ عرصہ دیوبند میں قیام پذیر ہو کر ایک تحریک چلائی ۔ مگر بعد میں بعض وجوہات کی بنا پر وہاں سے ہٹ کر دہلی میں اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لئے ’’نظارۃ المعارف القرآنیہ‘‘ کے نام سے قرآنی تعلیم کی درسگاہ قائم فرمائی۔ سندھ سے آپ کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کے اس مدرسہ دارالرشاد کے انتظام کاکام ایک انجمن تعلیم و ارشاد کے سپرد تھا۔ ۱۹۲۲؁ء کا واقعہ ہے کہ مجھے اس مدرسہ میں تعلیم دینے کی خاطر بلایا گیا۔ جب میں نے تعلیمی چارج لیا تو الٰہی حکمت سے تفسیر قرآن کامضمون بھی میرے سپرد ہوا۔ اتفاق سے پہلے ہی دن جو مضمون میں نے پڑھانا تھا وہ آیت ’’یٰعیسیٰ انی متوفّیک وَ رافعک اِلیٖ‘‘ کی تفسیر کا تھا۔ چونکہ میں نووارد تھا اورماشاء اﷲ طلبہ بھی اچھے لائق اور ہوشیار تھے اس لئے اس آیت کے متعلق مجھے اچھی خاصی تحقیق کی ضرورت تھی۔ وہاں اعلیٰ پیمانہ پر ایک کتب خانہ بھی تھا رات کو جب میں نے کتب تفاسیر وغیرہ کا انبار لے کر مطالعہ شروع کیا تو میرے تعجّب کی کوئی انتہا نہ رہی کہ جس مسئلہ کو ہمیں فاضل استادوں نے اہل سنت کااجماعی عقیدہ جتلا کر مضمون ازبر کرایا تھا وہ نظریہ ہی صریح غلط اور پرفریب نظر آیا۔ میں جوں جوں کتب تفاسیر کا مطالعہ کرتا اس مسئلہ میں سلف صالحین سے دونوں قسم کی روایات پاتا اور جب وفات مسیح کے دلائل پر غور کی تو مجھے یہی پلہ بھاری نظر آیا۔ اور اس کے مقابل حیات مسیح کی دلیلیں کمزور اور پھُسپھُسی سی معلوم ہوئیں۔ مطالعہ کتب کے بعد میرے دل کی کیفیت یہ ہو گئی کہ جس کو میں قبل ازیں اپنا ایمانی عقیدہ قرار دے رہا تھا اس کے متعلق مجھے پورا انکشاف ہو گیا کہ یہ فریب نفس سے کچھ زیادہ نہیں تھا۔(ع)
أ تحت رجلک ، فرس او حمار
اس پر میری طبیعت حیاتِ مسیح کے عقیدہ سے بیزار ہو گئی۔ اگرچہ مجھے اب تک کسی احمدی سے مل کر ان سے تبادلہ خیالات کرنے اور ان کے عقائد کا جائزہ لینے کا موقعہ نہیں ملا تھا۔ چونکہ نفس امارہ کا ابھی تک میری طبیعت پر بہت کچھ اثر تھا اس نے مجھے اس موقعہ پر دھوکہ دیا کہ جس نتیجہ پر تو پہنچا ہے یہ عقیدہ مرزائیوں کا ہے۔ چونکہ ان کے متعلق دوسرے علماء کی طرح علمائے دیوبند کا بھی یہی فتویٰ تھا کہ وہ ضالّ و مُضِلّ اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ اس طرح جو نفرت میرے دل میں احمدیوں کے متعلق تھی اس جذبہ نفرت کو ابھار کر میرے نفس نے دل میں وسوسہ ڈالا کہ مرزائیوں کی طرح کہیں تو خود گمراہ ہو کر دوسروں کو گمراہ کرنے کا باعث نہ بنے اس سے دل میں خوف پیدا ہوا۔ چونکہ رحمت الٰہی نے دستگیر ی فرمانی تھی۔ دل میں فوراً خیال آیاکہ اس کے متعلق استخارہ کر لوں۔ فوراً اٹھا ۔ وضو کر کے نماز شروع کی ۔ دعائے استخارہ کرنے کا موقعہ تو آخر میں آنا تھا ۔اس سے پہلے ہی اﷲ تعالیٰ نے میرے انشراح صدر کے لئے آسمانی کھڑکی کھول دی۔
سورۃ فاتحہ ختم کر کے ابھی دوسری سورۃ پڑھنے ہی والا تھا کہ طبیعت میں ایک قسم کی ہچکچاہٹ سی ہوئی کہ کون سی سورۃ پڑھوں اس حالت میں معاً ایسامحسوس ہوا جیسا کوئی دھکا دے کر سورہ ضحی پڑھنے کو کہتا ہے ۔ تب فوراً ہی سورۃ ضحی کی تلاوت شروع کی ۔ زبان پر تو سورۃضحی کے الفاظ جاری تھے مگر دل کی کیفیت کچھ اور ہی تھی۔ القائی طورپر جو سورۃ کا مفہوم دل پر وارد ہوا اس میں کچھ ایسا کھویا کہ محوِ حیرت بن گیا۔ یہ مفہوم میرے دماغی تفکر کا نتیجہ نہیں تھا ۔ کیف آمد تھی آورد نہ تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گویا یہ سورۃ میرے لئے نازل ہوئی ہے او ر اس میں میری دعا ئے استخارہ کاجواب ہے۔
سورۃ کے مضمون کا مجھ پر یوں انکشاف ہوا گویا مجھے خطاب ہو کر ارشاد ہوتاہے کہ تو گھبراتاکیوں ہے ۔ ہمارے ظاہری نظامِ لیل ونہار کی طرح ایمان کے روحانی نظام میں بھی ایک طرح کے لیل ونہار ہیں۔ عقائدِ حقہ اپنے روشن دلائل اور براہین نیرہ کی تیز شعاعوں کے ساتھ بصیرت ایمانی کے لئے گویا ضحوۃ النہار ہیں اور عقائدِ باطلہ اپنے کمزور دلائل، اغلوطات اور تاویلات رکیکہ کی تاریکی میں محجوب ہونے کے باعث اندھیری رات کی مانند ہیں ۔ پس ان دونوں کا دنیا میں موجود رہنا بھی قانون الٰہی کے ماتحت ضروری ہے۔ اس سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ بصیرت کی آنکھ سے ان کے آثار و اثمار کا مشاہدہ کرنا چاہئے۔ اس وقت جو تجھ پر حقیقت حال کا انکشاف ہوا ہے یہ دلیل ہے اس بات کی کہ خدا تجھ سے روٹھانہیں پس گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں۔ مَا وَدٖعَکَ رَبّکَ وَمَا قَلٰی۔
اس کیف سے بھرپور ہونے کے بعد جب میں اپنے ہوش و حواس میں آیا تو دل میں ایسا اطمینان و سرور تھا جو حدّ بیان سے باہر ہے ۔ اور پھر جب پہلی رکعت ختم کر کے دوسری رکعت میں اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ کی تلاوت کی تب تو روح گویا وجد میں آگئی اور آستانہ الٰہی پر سجدہ ریز ہو کر حمد الٰہی کا ترانہ یوں گانے لگی۔ الحمد للّٰہِ الٖذِی ھَدانا لِھذا وَ ما کُنٖا لِنَھْتَدِیَ لَوْ لاَاَنْ ھَدَانا اللّٰہ۔ اس انکشاف کے بعد اتنا تو واضح ہو گیا کہ احمدیوں کا مسلک وفات مسیح کے مسئلہ میں حق پر ہے مگر انکی طرف جو دوسری رکیک باتیں اور غلط عقائد منسوب کئے جاتے تھے ان کی بناء پر ان سے دل میں بدستور نفرت موجود تھی ۔ احمدیت قبول کرنا تو کجا اس کے قریب پھٹکنا بھی ابھی تک گوارا نہ تھا۔ مگر ربوبیت الٰہیہ بھی میری اصلاح و ہدایت کے لئے ایک مناسب موقعہ کی تاک میں تھی۔
انہی دنوں میں مجھے مولانا عبیداﷲ سندھی کے افاضات علمی سے بھی مستفید ہونے کا موقع ملا۔ آپ صوفی منش ،روشن دماغ، وسیع المشرب تھے۔ عام مولویوں کے برعکس آپ کی طبیعت تعصّب مذہبی کے متعفنہ مواد سے پاک صاف تھی ۔ آپ کھلے بندوں عموماً قادیان میں بھی جاتے تھے ۔ حضرت خلیفۃ اول رضی اﷲ عنہ کے درس میں شامل ہونے کا تو آپ نے کئی بار موقعہ پایا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے بھی حضور کے مسند خلافت پر متمکن ہونے سے پہلے کئی دفعہ مولانا موصوف کو تبادلہ خیالات کرنے کا موقع ملا۔ انہی تاثرات سے آپ کو بھی قرآن مجید کے مطالعہ کا بہت کچھ شغف تھا۔ حالاتِ حاضرہ کے مطابق قرآن مجید کے خطابات کو نئے اسلوب و انداز میں پیش کرنے کا آپ کو اچھا خاصا ملکہ تھا۔ احمدیہ تبلیغی نظام سے متاثر ہو کر آپ بھی مبلغین اسلام کی ایک جماعت قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لئے آ پ فاضلانِ دیوبند اور علی گڑھ کالج کے گریجوئیٹوں کے امتزاجِ عناصر اسلام کا حزب الانصار تیار کر رہے تھے۔ اس حزب کی تیاری کے لئے ’’نظارۃ المعارف القرآنیہ‘‘ نامی درسگاہ دہلی میں آ پ نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری کر رکھا تھا ۔ آ پ کے درس کے نوٹوں کا قلمی مجموعہ مجھے وہاں مدرسہ دارالرشاد گوٹھ پیرجھنڈا میں دستیاب ہوا جس سے میں نے استفادہ کر کے احمدیت سے قبل ایک حد تک قرآن فہمی کے لئے ذوق حاصل کیا۔ فجزاہ اﷲ تعالیٰ۔ آ پ کے دل میں مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کے متعلق عمیق جذبہ موجزن تھا مگر ان کی اصلاح و تربیت کا طریقہ بزرگانِ زمانہ سید جمال الدین افغانی، شیخ محمد عبدہ، شیخ عبدالعزیز شادیش وغیرہ سیاسی لیڈروں کے مسلک سے ملتا جلتا تھا۔آپ مسلمانوں کے سیاسی احساسات کو بیدار کرنے کے لئے مذہب اسلام اور قرآن کی تعلیم کوسیاسی رنگ میں پیش کرنے میں منہمک تھے۔ مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کو روشن کرنے کے لئے آ پکا ایک خاص منصوبہ تجویز کردہ تھا جسے شاہ ولی اﷲ ؒ کا فلسفہ قرار دیتے ۔ سیاسی انہماک کے باعث آپ مہدی کی آمد کے عقیدہ کی یوں تاویل کرتے تھے کہ ’’اگر آئندہ زمانہ میں ایک ایسا عالم پیدا ہو جو سید بھی ہو (تا شیعہ سنی دونوں فرقوں کو متحد کر سکے) اور اعلیٰ درجہ کا امام بھی ہو ۔ پس جس وقت مسلمانوں میں ایسا عالم پیدا ہو جو ان کو مرکز اسلام(حجاز وشام) اور مصر و ایران و افغانستان وغیرہ کے مسلمانوں کو متحد کر دے تو یہی مہدی ہوگا‘‘۔
(درس القرآن زیر آیت یاعیسی انی متوفیک ورافعک الی )
مولانا کی اس تاویل سے مجھے شدید انکار تھا۔ میں تو سیدھے طور پر عام مسلمانوں کی طرح اس مہدی کی آمد کا معتقد اور منتظر تھا جسے اﷲ تعالیٰ خود مبعوث فرمائے گا۔ اور زمانہ کے پیش آمدہ حالات و علامات کی رو سے آپ کے جلد مبعوث ہونے کی توقع بھی رکھتا تھا۔ 
فرطِ اشتیاق کے جذبہ سے سرشار ہو کر ایک دفعہ میں نے سورۃ بنی اسرائیل کی بعض آیات کے استنباط سے اس موضوع پر ایک مضمون بھی لکھنا چاہا مگر بعد میں اچانک دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس مختصر مضمون کی بجائے کیوں نہ مکمل سورۃ بنی اسرائیل کی تفسیر لکھی جائے ۔ (چنانچہ یہ تفسیر میرے احمد ی ہوجانے کے بعد بنام ’’دستورا لارتقاء‘‘ چھپ کر شائع ہو چکی ہے)۔ بعد کے واقعات سے معلوم ہوا کہ درحقیقت اس تحریک سے مشیت الٰہی میں میری ہدایت یابی کا سامان مقدر تھا جسے میں خود نہیں جانتا تھا۔ کیونکہ وہ مہدی موعود جس کی جلد تشریف آوری کی بشارت دینے کے لئے میں قلم اٹھانے لگا تھا۔ وہ امن کا شہزادہ ، دنیا کو امن کا پیغام دینے والا موعود اقوام عالم تو واقعہ میں مبعوث ہو کر اپنا کام سرانجام فرما چکا تھا مگر اس کی شناخت سے میں اب تک جہالت کی وجہ سے محروم تھا۔ خدا تعالیٰ نے اب اس کے ذریعہ سے میرے لئے اس کی شناخت کا موقعہ غیب سے مہیا فرمایا تھا اور وہ یوں ہوا کہ جب میں سورۂ بنی اسرائیل کی تفسیر لکھنے کا ارادہ کیا اور اس کے متفرق مضامین کی ترتیب و تنظیم کا خاکہ ذہن میں جمایا تو بعض جگہ تفسیر آیات اور ترتیب مضامین کے متعلق سخت مشکلات پیش آئیں جن کے حل کی بڑی کوشش کی ، بعض استادوں سے دریافت کیا، کتب تفاسیر دیکھیں مگر گرہ کشائی نہ ہو سکی۔ آخر آستانہ الٰہی پر گر کر متضرعانہ دعاؤں سے رحمت الٰہی کا دروازہ کھٹکھٹایا تو بحمداﷲ گوہر مراد پا لیا۔
اجابت دعا کا نمونہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روحانی افاضہ سے
 مقام محمود کی تفسیر کا انکشاف
ان پیش آمدہ عقدوں میں سے ایک اہم ترین عقدہ مقام محمود کی تفسیر کے متعلق تھا۔ عام طور پر تو مفسرین آیت عسٰی اَنْ یٖبْعَثَکَ رَبُک مقاماً مَحمُوداً کے وعدہ کو آخرت پر چسپاں کرتے ہوئے وہ روایات بیان کرتے ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ قیامت کے دن آنحضرت ﷺ تمام اُمتوں کی شفاعت کے لئے دربارِ الٰہی میں سربسجود ہونگے۔ مجھے ان کی اس تفسیر پر دراصل کوئی اعتراض نہیں تھا مگر اسے محض وعدۂ فردا قرا ر دینا ذوقِ سلیم پر گراں گزرتا تھا۔ میرا قلب مضطرب تو اسے آنحضرتﷺ کی حیات مقدسہ کے متعلق پیشگوئی سمجھتے ہوئے اس کا ظہور بدیہی طورپر واقعات مشہودہ کی صورت میں دیکھنے کا متمنی تھا۔ تا مبلغ اسلام خود علی وجہ البصیرت ہو کر اور حاملِ لواء الحمدبن کر اقوام عالم کو یہ بشارت سنا سکے۔ اس رنگ میں تفسیر کے لئے مجھے اساتذہ یا علمائے زمانہ کی طرف رجوع کرنا بے سود نظر آیا۔ کیونکہ اس سے مجھے خطرہ تھا کہ مجھ پر تفسیر بالرائے کے قائل ہونے کا فتویٰ نہ جڑ دیا جائے۔ مگر دل کی پیاس بجھتی بھی نظر نہیں آتی تھی۔ آخر جناب الٰہی میں تضرع و الحاح سے دعا کی تویہ عقدہ بھی حل ہوا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میری قسمت ایسی جاگے گی کہ روح پر فتوح حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرے لئے خضرِ راہ بنے گی کیونکہ جھوٹے پروپیگنڈا کے باعث آپ کی ذات کے متعلق اب تک میرے دماغ میں بدظنی کا زہریلا اثر موجود تھا۔ البتہ حضرت خلیفۃ اول رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے متعلق کچھ حسنِ ظنّی تھی کیونکہ استادوں سے سنا ہوا تھا کہ آپ عالم متبحر ہیں مگر کسی مصلحت سے مرزا صاحب کے پیرو بن گئے ہیں۔ میں دعا کر کے سو گیا تو خواب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پالتی لگائے بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے زانو پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سر مبارک رکھے خوابِ استراحت فرما رہے ہیں۔ چونکہ میں نے حضرت مولاناموصوف کے علمی تبحر کاچرچا سنا ہوا تھا فوراً آپ کی خدمت میں اپنا عقدہ پیش کر کے ا س کا حل چاہا۔ قبل اس کے کہ حضرت مولانا ممدوح میرے سوال کا جواب دیتے دیکھاکہ میری گفتگو ختم ہوتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیدار ہو گئے اور جلدی سے اٹھ کر میری طرف مخاطب ہو کر ایک مفصل اور لمبی تقریر فرمائی جو نہایت ہی دلچسپ اور معارف و حقائق سے لبریز تھی۔ آپ کی تقریر سن کر میرے تمام عقدے حل ہو گئے اور جو کیفیتِ سرُور اس تقریر کے سننے سے میرے دل میں پیدا ہوئی اسے اب تک میرے قلب نے فراموش نہیں کیا۔
بیدار ہونے پر اﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لایا اور اپنے سابقہ خیال سے توبہ و استغفار کی ۔ اب میرا ذہنی انقلاب ہو چکا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات سے جو مجھے پہلے نفرت و بدظنی تھی وہ دور ہو چکی اور آپؑ کی صداقت و محبت کے جذبہ سے دل معمور ہو گیا۔ حضور کی تصانیف کا مطالعہ کر کے اپنے دل کی پیاس بجھائی اور حالاتِ سلسلہ کا تفحّص کر کے حصولِ حق میں بصیرت پائی۔ مگر ابھی تک نفسِ امّارہ کے چنگل سے پوری طرح نجات نہیں پائی تھی۔ بلکہ اب تک بھی دل میں ایک مخفی بُت موجود تھا جس کے توڑنے کے لئے پھر ایک آسمانی ضرب مقدر تھی اور وہ یوں کہ اگرچہ میں اس وقت احمدیت کو حق سمجھتا تھا ۔ جب کبھی اس کے خلاف کوئی آواز سنتا تو غیرت برداشت نہ کرتی جب تک جواب نہ دے لیتا چین نہ پڑتا مگر بیعت کرنا ضروری نہیں جانتا تھا۔ حرّیت زمانہ کی مسموم فضا کے اثر سے نفسِ اماّرہ کی جڑ صحنائے قلب میں ابھی باقی تھی جس کی وجہ سے میں اس وسوسۂ شیطانی کا شکار تھا کہ اسلام کے وسیع دائرہ کو جس میں کروڑوں مسلمان شامل ہیں چھوڑ کر احمدیت کے محدود دائرہ میں کیوں مقیّد بنوں۔ آوارگی نفس کی تاریکی میں کچھ عرصہ گزرا۔ آخر رحمت الٰہیہ نے آسمانی نور کی شعاع میرے دل و دماغ پر ڈال کر یہ ظلمانی پردہ بھی ہٹا دیا اور وسوسۂ شیطانی کی دیوار توڑ کر میری اصلاح کے لئے پھر ایک نیا روحانی نظار ہ دکھایا۔
رؤیا میں حضرت مسیح موعود ؑکی بیعت کرنا
خواب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت وجیہہ شکل میں عمدہ سبز لباس پہنے کھڑے ہیں اور آپ کے ہاتھ میں ایک فل سکیپ کا غذ ہے جس میں مبایعین کے نام درج ہیں ۔تمام صفحہ ناموں سے بھرا ہوا ہے ۔ صرف آخری سطر خالی ہے۔ حضور مجھے و ہ کاغذ دے کر فرماتے ہیں کہ اس میں اپنا نام لکھ دو۔ میں وہ کاغذ لے لیتا ہوں ۔ سامنے ایک پلنگ پڑاہے جس کے سرہانے حضور مجھے بیٹھنے کا ارشاد فرماتے ہیں اور خود پائنتی کی طرف بیٹھ جاتے ہیں ۔ حضور کے ان اخلاق کو میں دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہوں۔ پاس ہی قلم دوات پڑ ی ہوئی تھی ۔ میں نے اپنا نام لکھ کر کاغذ حضور کے حوالے کر دیا۔ پھر خیال آیا کہ بیعت کے لئے نام لکھ دیا مگر ابھی تو میرے دل میں بعض عقدے باقی ہیں۔ انہیں بھی آپ سے حل کرا لوں مگر حیا کی وجہ سے حضور کی خدمت میں عرض کرنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ اس اثناء میں بیدار ہو جاتا ہوں ۔ وقت سحر تھا ۔ اٹھ کر اﷲ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی اگر تیرا منشاء بیعت کرانے کا ہے تو دل کے عقدے بھی کھول د ے تا کہ شرح صدر سے بیعت کر سکوں۔اس رؤیا سے چند دنوں بعد اﷲ تعالیٰ نے دل کی وہ تمام کدورتیں دھو ڈالیں اور انشراحِ صدر سے حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ستمبر 1927 میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ فالحمد ﷲ علی ذلک حمد اً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ۔
(مضامینِ لطیفہ صفحہ ۳ تا ۱۳)
مکمل تحریر >>