Thursday 30 April 2015

شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کا عقیدہ وفات مسیح

حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ لکھا کہ 
فاضل و محدث و مفسر ابن تیمیہ و ابن قیّم جو اپنے اپنے وقت کے امام ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں۔
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 221)
اور اس کا ثبوت مانگا جاتا ہے کہ حوالہ دکھایا جائے کہاں ان دونوں بزرگوں نے حضرت عیسیٰ کی وفات کا اقرار کیا ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں : 

فَأَمَّا حِكَايَتُهُ لِحَالِهِ بَعْدَ أَنْ رُفِعَ فَهُوَ مِثْلُهَا فِي التَّوْرَاةِ ذَكَرَ وَفَاةَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ وَمَعْلُومٌ أَنَّ هَذَا الَّذِي فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ مِنْ الْخَبَرِ عَنْ مُوسَى وَعِيسَى بَعْدَ تَوَفِّيهِمَا لَيْسَ هُوَ مِمَّا أَنْزَلَهُ اللَّهُ وَمِمَّا تَلَقَّوْهُ عَنْ مُوسَى وَعِيسَى بَلْ هُوَ مِمَّا كَتَبُوهُ مَعَ ذَلِكَ لِلتَّعْرِيفِ بِحَالِ تَوَفِّيهِمَا وَهَذَا خَبَرٌ مَحْضٌ مِنْ الْمَوْجُودِينَ بَعْدَهُمَا عَنْ حَالِهِمَا لَيْسَ هُوَ مِمَّا أَنْزَلَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَلَا هُوَ مِمَّا أَمَرَا بِهِ فِي حَيَاتِهِمَا وَلَا مِمَّا أَخْبَرَا بِهِ النَّاسَ.
(مجموعہ الفتاویٰ از امام ابن تیمیہ ۔الجزء الثالث عشر ۔ صفحہ ۵۸ )

ترجمہ : پس جو ان کے رفع کے بعد کے حال کی باتیں ہیں تو وہ توراۃ میں موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے ذکر کی طرح ہیں۔ چنانچہ یہ معلوم بات ہے کہ موسیٰ اور عیسیٰ کے متعلق تورات اور انجیل میں جو خبریں ہیں وہ ان دونوں کی وفات کے بعد کی ہیں۔ان میں سے کچھ بھی نہ اللہ نے نازل کی ہیں اور نہ ہی انہیں موسیٰ و عیسیٰ سے حاصل کیا گیا ہے بلکہ وہ ان دونوں کی وفات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے۔ اور یہ خبریں وہاں موجود لوگوں سے ان کے احوال کے متعلق ان کے بعد لی گئی ہیں۔ نہ تو انہیں اللہ نے ان دونوں پر نازل کیا ، نہ ہی ان دونوں نے اپنی حیات میں اس کا حکم دیا اور نہ ہی ان دونوں نے لوگوں کو اس کی خبر دی۔  



امام ابن قیم فرماتے ہیں :

مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَبْعُوثٌ إِلَى جَمِيعِ الثِّقْلَيْنِ. فَرِسَالَتُهُ عَامَّةٌ لِلْجِنِّ وَالْإِنْسِ، فِي كُلِّ زَمَانٍ. وَلَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى عَلَيْهِمَا السَّلَامُ حَيَّيْنِ لَكَانَا مِنْ أَتْبَاعِهِ.
(مدارج السالکین از علامہ ابن قیم الجوزی ، الجزء الثانی ، صفحہ ۴۹۶ )

ترجمہ : محمد ﷺ تمام عالم کی طرف مبعوث ہوئے ہیں۔پس ان کی رسالت ہر زمانے کے جن و انس کے لئے عام ہے۔ اور اگر موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام زندہ ہوتے تو وہ دونوں لازمًا ان کے پیروکاروں میں شامل ہوتے۔



مکمل تحریر >>

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رؤیا و کشوف اور پیشگوئیاں

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں کو ان کی صداقت کے نشان کے طور پر فرماتاہے۔ عالم الغیب خدا انہیں نہ صرف قبل از وقت غیب کی خبریں دیتابلکہ ان پرغلبہ بخشتاہے اور مستقبل میں ظاہر ہونے والی باتوں سے متعلق غیر معمولی علم عطا فرماتا ہے۔ (الجن:۲۷) جس کا ذریعہ وحی و الہام اور رؤیا و کشوف ہیں (الشوریٰ :۵۲) ۔ سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو ’’بشیر اور نذیر‘‘ کے القابات سے نوازا گیا۔ آپ کو قرآن شریف میں بیان فرمودہ اصولی بشارات اور تنبیہات کی تفاصیل رؤیاو کشوف کے ذریعہ عطا فرمائی گئیں۔ اور امت مرحومہ میں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کے نظارے اس جزئی تفصیل کے ساتھ آپ کو کروائے گئے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاً ایک نظارہ نماز کسوف کے دوران آپ کو کروایاگیا جس کے بارے میں (اس نماز کے بعد) صحابہ کے اس استفسار پر کہ آپ حالت نماز میں آگے بھی بڑھے اور پیچھے بھی ہٹے تو اس کاکیا سبب تھا؟ آپ ؐنے اپنے اس کشف کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایامجھے ابھی اس مقام پر آئندہ کے وہ تمام نظارے کروائے گئے جن کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ جنت و دوزخ (کی کیفیات) بھی (دکھائی گئیں) ۔ اس واضح اور جلی کشف میں بعض نعماء جنت اپنے سامنے دیکھ کر آپ انہیں لینے کے لئے آگے بڑھے اور جہنم کی شدت و تمازت کا نظارہ کرکے پیچھے ہٹے۔(بخاری کتاب الکسوف)
نبی کریم ﷺ کے ا ن رؤیا و کشوف کی تفاصیل کتب احادیث میں موجود ہیں جن کے مطالعہ سے ان کی مختلف انواع اور کیفیات کا پتہ چلتا ہے جن میں سے بعض کا ذکر اس جگہ مناسب ہوگا۔

۱

وہ کشوف اور پیشگوئیاں جو نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی ظاہری رنگ میں پوری ہو گئیں مثلاً آنحضرت ﷺ کو حضرت عائشہؓ کے ساتھ شادی سے قبل آپؐ کو ان کی تصویر دکھاکر بتایا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہے ۔ اس پیشگی غیبی خبر پر کامل ایمان کے باوجود آپ نے کما ل احتیاط سے اس کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا ظاہری رنگ میں پورا ہونا ہی مراد ہے تو وہ خود اس کے سامان پیدا فرما دے گا۔ (بخاری کتاب النکاح) اور پھر بظاہر ناموافق حالات کے باوجود ایسا ہی ہوا۔

۲

وہ کشوف اور پیشگوئیاں جو آنحضرت ﷺکی زندگی میں پوری ہو گئیں مگر ظاہراً نہیں بلکہ ایسی تعبیر کی شکل میں جو اس وقت واضح نہیں تھی۔ ایسے کشوف کثرت سے پائے جاتے ہیں جیسے غزوۂ احد سے قبل حضور کا حالت کشف میں چند گائیوں کا ذبح کرنا او ر اپنی تلوار کو لہرانا اور اس کااگلا حصہ ٹوٹ جانا۔ (بخاری کتاب التعبیر)
ُاحد میں ستّر مسلمانوں کی شہادت کی قربانی اور خود رسول اللہ ﷺ کے زخمی ہونے اور دندان مبارک کے شہید ہونے کے رنگ میں ظاہر ہوئی تو پتہ چلا کہ اس رؤیا کی یہ تعبیر تھی۔

۳

وہ رؤیا و کشوف جن کی تعبیر رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ظاہر تو ہو گئی مگراس تعبیر سے مختلف رنگ میں ظاہر ہوئی جو نبی کریم ﷺ نے اولاً اس سے مراد لی تھی گویا کشف کے وقت اس کی تعبیر کی تفہیم کئی حکمتوں کے پیش نظر بیان نہیں فرمائی گئی۔ تعبیر ظاہر ہونے پر کھلا کہ مفہوم کیاتھا ۔ جیسے نبی کریم ؐ کو ایک کھجوروں والی جگہ دارالہجرت کے طور پر دکھائی گئی۔ اوّل آپ نے یمامہ کی سرزمین مراد لی مگر بعدمیں کھلا کہ اس سے مراد یثرب یعنی مدینۃ الرسول تھا۔(بخاری کتاب التعبیر)

۴

رسول کریم ﷺکے وہ کشوف جو بظاہر نظر آپ ؐ کی ذات والا صفات کے بارہ میں معلوم ہوتے ہیں مگر ان کی تعبیر کی تفہیم کے مطابق آپ نے اپنی وفات کے بعد ان کے ظہور کی پیشگوئی فرمائی۔ اور پھر ایسا ہی ظہور میں آیا۔ جیساکہ دو کذّاب مدعیان نبوت کے بارہ میں کشف میں نبی کریم ﷺ نے خود بیان فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن ہیں اور میں نے ان کو ناپسند کرتے ہوئے کاٹ دیا ہے ۔ پھر مجھے اذن ہوا اور میں نے ان دونوں کو پھونک ماری اوروہ دونوں اُڑ گئے۔ میں نے اس کی تعبیر دو کذابوں سے کی جو (میرے بعد) خروج کریں گے ۔ عبیداللہ کہتے تھے ان سے مراد اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب تھے ۔(بخاری کتاب المغازی و کتاب التعبیر)
اسی طرح حضور ﷺ نے بیان فرمایا کہ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں یہاں تک کہ میں نے اپنے ہاتھوں میں رکھیں ۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ تو وفات پا گئے اور اب تم ان خزانوں کوحاصل کر رہے ہو ۔(بخاری کتاب التعبیر)

۵

وہ رؤیا و کشوف جن کا تعلق آخری زمانہ سے ہے ۔ اس میں انذاری اور تبشیری دونوں قسم کے کشوف شامل ہیں جن کی تعبیرات رسول اللہ ؐ پر ظاہر نہیں کی گئیں ، نہ ہی آپ ؐ نے ان کا ذکر فرمایا البتہ بعد میں اپنے وقت پر بعض تعبیرات کے ظہور پر خود زمانہ نے گواہی دی اور بعض کے ظہور کا ہنوز انتظار ہے مثلاً رؤیا میں رسول کریم ﷺ نے مسیح موعود اور دجاّل کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا۔(بخاری کتاب التعبیر)
بعض دوسری احادیث صحیحہ کے مطابق چونکہ دجاّل مکّہ میں داخل نہیں ہوگا ا سلئے علماء امت نے اس کشف کی تعبیر یہ کی کہ دجال کے طوافِکعبہ سے مراد اسلام کی تباہی و بربادی کی کوشش ہیں اور مسیح موعود کے طواف سے مراد خانہ کعبہ اور دین حق کی حفاظت کی سعی ہے۔(مظاہر الحق شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد ۴ صفحہ ۳۵۹ عالمگیر پریس لاہور)
اسی طرح نبی کریم ﷺ کو آپ کی امت کی کثرت اور شان و شوکت کے نظارے بھی کرائے گئے ۔ آپؐنے فرمایا کہ اس کثرت کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا جس نے میدان بھرے ہوئے تھے ۔(مسند احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۳،۴ دارالفکر بیروت)
امت کے بعض ایسے ہی خوش نصیب گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا میری امت جو ہندوستان سے جہاد کرے گی اور دوسری وہ جماعت جو مسیح موعود کے ساتھ ہوگی۔(نسائی کتاب الجہاد)
اس پیشگوئی کا پہلا حصہ بڑی شان کے ساتھ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس وقت پورا ہوا جب محمد بن قاسم کے ذریعہ سندھ کی فتح سے ہندوستان کی فتوحات کا آغاز ہوا اور انہوں نے سندھ کے باسیوں کو وہاں کے ظالم حکمرانوں سے نجات دلاکر عدل وانصاف کی حکومت قائم کی اوراپنے اعلیٰ کردار اور پاکیزہ اقدار سے اہل سندھ کو اپنا گرویدہ کرلیا اوریوں یہاں اسلام کا آغاز ہوا۔
پیشگوئی کے دوسرے حصے کا تعلق حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ اورآپؑ کی جماعت سے ہے جسے مسیح موعود ؑ کی روحانی قیادت میں دین کی خاطر جدوجہد اور قربانیوں کی توفیق عطا ہونا تھی اور جن کے بارہ میں رسول خدا نے شوق ومحبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ میرے بھائی ہیں ۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۳۰۰ دارالفکر بیروت) جنہوں نے مجھے دیکھا ہے مگر میری محبت کی خاطرقربانیاں کریں گے(مسند دارمی کتاب الرقاق) ۔ انہی غلامانِ مسیح موعودؑ کے ذریعہ دین اسلام کا وہ غلبہ مقدر ہے جس کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس مسیح موعود کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ تمام مذاہب اور ملتوں کوہلاک کر دے گا سوائے اسلام کے۔ (ابوداؤد کتاب الملاحم)
اسلام کی عالمگیر فتوحات کا یہی وہ زمانہ معلوم ہوتا ہے جس میں نبی کریم ﷺ کے اس کشف کی تعبیر بھی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہو گی جس میں آپ ؐ نے بیان فرمایا کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کے مشرق اورمغرب کے کنارے سمیٹ کر دکھائے ‘‘۔ اور پھر اس کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میری امت کی حکومت بالآخر ضرور اَور سرزمینوں پر قائم ہوگی جو مجھے عالم رؤیا میں دکھائی گئی ہیں۔(مسلم کتاب الفتن)۔
آئندہ زمانہ میں ان رؤیا و کشوف کی تعبیرات کے ظہور پر ہمار ا ایمان اور یقین اس وقت اور پختہ ہو جاتاہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں ہمارے آقا و مولا مخبر صادق حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اس سے بھی کمزور زمانہ میں اپنے رؤیا و کشوف کی بناء پر جواحوال بیان فرمائے وہ پوری آب و تاب کے ساتھ پورے ہو چکے ہیں ۔ اس جگہ دو کشوف کا تفصیلی تذکرہ بطور نمونہ کیاجاتاہے ۔ ایک نہایت اہم اور غیر معمولی شان کا حامل لطیف کشف وہ ہے جس کا نظارہ نبی کریم ﷺ کو غزوہ احزاب کے اس ہولناک ابتلامیں کروایا گیا جب اہل مدینہ ایک طرف کفارِ مکہ کے امکانی حملے سے بچنے کی خاطر شہر کے گرد خندق کھود رہے تھے اور دوسری طرف اندرونی طور پر وہ سخت قحط سالی کا شکار تھے اور جب کہ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ ؐ کے صحابہ خندق کی کھدائی میں مصروف تھے اور مسلسل تین دن سے فاقہ سے تھے۔دریں اثنا کھدائی میں ایک سخت چٹان آ گئی جو ٹوٹتی نہ تھی ۔ رسو ل کریم ﷺ نے فرمایا اس پر پانی پھینکو پھر آپ نے اللہ کانام لے کر کدال کی ضرب لگائی تو وہ ریزہ ریزہ ہو گئی ۔ اچانک نظر پڑی تو کیا دیکھتاہوں کہ (فاقہ کی شدت سے ) حضور ﷺ نے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہے۔ (بخاری کتاب المغازی)
حضرت براء بن عازبؓ اس واقعہ کی مزید تفصیل بیان کرتے ہیں کہ خندق کی کھدائی کے دوران نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جب ایک پتھریلی چٹان کے نہ ٹوٹنے کی شکایت کی گئی اور آپ ؐنے اللہ کانام لے کر کدال کی پہلی ضرب لگائی تو پتھر شکستہ ہو گیا اور اس کا ایک بڑاحصہ ٹوٹ گراآپؐ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور فرمایا کہ شام کی کنجیاں میر ے حوالے کی گئی ہیں اور خداکی قسم! میں شام کے سرخ محلات اپنی اس جگہ سے دیکھ رہا ہوں ۔ پھرآپ نے اللہ کا نام لے کر کدال کی دوسری ضرب لگائی ، پتھرکا ایک اور حصہ شکستہ ہو کرٹوٹا اور رسول کریم ﷺ نے اللہ اکبرکا نعرہ بلند کر کے فرمایا مجھے ایران کی چابیاں عطا کی گئی ہیں اور خدا کی قسم میں مدائن اوراس کے سفید محلات اس جگہ سے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہاہوں ۔پھر آپ نے اللہ کا نام لے کر تیسری ضر ب لگائی اور باقی پتھر بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔ آپ نے تیسری مرتبہ اللہ اکبر کانعرہ بلند کر کے فرمایا ’’مجھے یمن کی چابیاں سپر د کی گئی ہیں اورخدا کی قسم میں صنعاء کے محلات کا نظارہ اپنی اس جگہ سے کر رہا ہوں۔(مسنداحمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۳۰۳ دارالفکر بیروت)
یہ عظیم الشان روحانی کشف آنحضرت ﷺ اور آپؐ کے صحابہ کے زبردست یقین پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ایک طرف فاقہ کشی کے اس عالم میں جب دشمن کے حملے کے خطرے سے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور خود حفاظت کے لئے خندق کھودنے کی دفاعی تدبیروں میں مصروف ہیں لیکن الٰہی وعدوں پر ایسا پختہ ایمان ہے کہ اپنے دور کی دو عظیم طاقتور سلطنتوں کی فتح کی خبر کمزور نہتے مسلمانوں کو دے رہے ہیں اور وہ بھی اس یقین پر قائم نعرہ ہائے تکبیر بلند کر رہے ہیں کہ بظاہر یہ انہونی باتیں ایک دن ہو کر رہیں گی اور پھر خدا کی شان دیکھو کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانۂ خلافت سے ان فتوحات کا آغازہو جاتاہے۔ حضرت خالدبن ولیدؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ اسلامی فوجوں کے ساتھ شام کوفتح کرتے ہیں اور حضرت عمرؓ کے زمانہ ٔخلافت میں ا ن فتوحات کی تکمیل ہو جاتی ہے اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی سرکردگی میں مسلمان ایران کی فتوحات حاصل کرتے ہیں اور صرف چند سال کے مختصر عرصہ میں دنیا کی دو بڑی سلطنتیں روم و ایران ان فاقہ کشوں مگر الٰہی وعدوں پر یقین محکم رکھنے والے مسلمانوں کے زیر نگیں ہوجاتی ہیں۔
دوسرے عظیم الشان کشف کا تعلق اسلامی بحری جنگوں سے ہے ۔ مدنی زندگی کے اس دور میں جب برّی سفر وں اور جنگوں کے پورے سامان بھی مسلمانوں کو میسرنہیں تھے نبی کریم ﷺ کو مسلمانوں کی بحری جنگوں کی خبردیتے ہوئے نظارہ کروایاگیا۔ حضرت امّ حرامؓ بنت ملحان بیان کرتی ہیں کہ حضور ہمارے گھر محوِ استراحت تھے کہ عالم خواب سے اچانک مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔ میں نے سبب پوچھا توفرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اس سمندر میں اس شان سے سفر کریں گے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھے ہوتے ہیں ۔ اُمّ حرامؓکہتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آ پ دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں سے بنا دے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا کی کہ اے اللہ اسے بھی ان میں شامل کر دے۔ پھر آپ ؐ کو اونگھ آ گئی اور آنکھ کھلی تو مسکرا رہے تھے ۔ میں نے وجہ پوچھی تو آپ نے پہلے کی طرح اُمّت کے ایک گروہ کا ذکر کیا جو خدا کی راہ میں جہا د کی خاطر نکلیں گے اور بادشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھے سمندری سفر کریں گے ۔ حضرت اُمّ حرامؓ نے پھر دعا کی درخواست کی کہ وہ ا س گروہ میں بھی شامل ہوں ۔ آپؐ نے فرمایا آپ گرو ہ ’’اولین ‘‘میں شامل ہو اور گروہ’’ آخرین‘‘ میں شریک نہیں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ پھر ام حرامؓ فاختہ بنت قرظہ زوجہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان کے ساتھ سمندری سفر میں شامل ہوئیں ۔ اوراسی سفر میں واپسی پر سواری سے گر کر وفا ت پائی۔(بخاری کتاب الجہاد)
اس حدیث میں جزیرہ قبرص کی طرف اشارہ ہے جو حضرت معاویہؓ کے زمانہ میں فتح ہوا، جب وہ شام کے گورنر تھے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں حضرت معاویہؓ کو پہلے عظیم اسلامی بحری بیڑے کی تیاری کی توفیق ملی۔ حالانکہ اس سے قبل مسلمانوں کو کوئی کشتی تک میسر نہ تھی اور پھر حضرت عثمانؓ کے زمانۂ خلافت میں ہی حضرت معاویہؓ نے اسلامی فوجوں کی بحری کمان سنبھالتے ہوئے جزیرہ قبرص کی طرف بحری سفر اختیار کیا جواسلامی تاریخ میں پہلا بحری جہادتھا۔ جس کے نتیجے میں قبرص فتح ہوا۔ اور بعد میں ہونیوالی بحری فتوحات کی بنیاد یں رکھی گئیں۔ اور بنی کریم ﷺ کے مبارک منہ کی و ہ بات پوری ہوئی جو آپ نے فرمایا تھا کہ دین اسلام غالب آئے گایہاں تک کہ سمندر پار کی دنیاؤں میں بھی اس کا پیغام پہنچے گا ۔ اور مسلمانوں کے گھڑ سوار دستے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے سمندروں کوبھی چیر جائیں گے۔(کنزالعمال جلد۱۰ صفحہ ۲۱۲ مطبعۃ الاصیل حلب)
یہ پیشگوئی اس شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئی کہ اس زمانہ کی زبردست ایرانی اوررومی بحری قوتوں کے مقابل پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں نے اپنی بحری قوت کالوہامنوایا اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کی سرکردگی میں اسلامی بحری بیڑے نے بحیرہ روم کے پانیوں میں اپنی دھاک بٹھاکر اسلامی حکومت کی عظمت کو چار چاند لگا دئے۔ چنانچہ فتح قبرص کے بعد کی اسلامی مہما ت میں جہاں مسلمان ایک طرف بحیرہ احمر کے اس پارپہنچے تو دوسری طرف مسلمان فاتحین نے بحیرہ روم کو عبور کر کے جزیرہ رُودس ، صقلیہ اور قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ تیسری طرف طارق بن زیادہ فاتح سپین نے بحیرہ روم کو چیرتے ہوئے بحر اوقیانوس کے کنارے جبرالٹر پر پہنچ کرہرچہ بادا باد کہہ کر اپنے سفینے جلا دئے ۔ تو چوتھی طرف محمد بن قاسم نے بحیرہ عرب اور بحر ہند کے سینے چیر ڈالے اور یوں مسلمانوں نے جریدہ عالم پربحری دنیا میں کیا بلحاظ سمندری علوم میں ترقی ، کیا بلحاظ صنعت اور کیا بلحاظ جہازرانی انمٹ نقوش ثبت کئے جورہتی دنیا تک یاد رہیں گے۔ نئی بندرگاہیں تعمیر ہوئیں ، جہاز سازی کے کارخانے بنے ، بحری راستوں کی نشاندہی اورسمندروں کی پیمائش کے اصول وضع ہوئے۔ اورمسلمان سمندروں پربھی حکومت کرنے لگے اور رسول خدا ﷺکے رؤیا وکشوف کما ل شان کے ساتھ پورے ہوئے ۔
اوریہ بات آج بھی ہمارے لئے ازدیاد ایمان ویقین کا موجب ہے کہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے وہ وعدے بھی ضروربالضرور پورے ہونگے جو ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ذریعہ ہم سے کئے گئے۔ سچ ہے؂
جس بات کو کہوں کہ کرو ں گا یہ میں ضرور ٹلتی نہیں وہ با ت خدائی یہی تو ہے
(مطبوعہ : الفضل انٹرنیشنل یکم جنوری ۱۹۹۹ء تا ۷ جنوری ۱۹۹۹ء)
مکمل تحریر >>

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بعثت کا مقصد

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’انبیا ء علیھم السلام کے دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی میں جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں۔ حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد ان کے آگے ہوتا ہے ۔ پس اس وقت بھی جو خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے ۔ اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک ہے جو سب نبیوں کی تھی۔ یعنی مَیں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے ؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف راہبری کرتا ہوں۔ ‘‘
                                                                                                   (ملفوظات جلد 3 صفحہ 11)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
  ’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں۔ اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں۔ اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہو گئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں۔ اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھلاؤں۔ اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ نمودار ہو تی ہیں حال کےذریعہ سے نہ محض قال سے اُن کی کیفیت بیان کروں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کے شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اب نابود ہو چکی ہے اس کا دوبارہ میں دائمی پودا لگا دوں۔ اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہو گا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہو گا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے ۔‘‘
                                                                           (لیکچر لاہور۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ 180)     
 
مکمل تحریر >>

مال کا جہاد اور اس کی اہمیت

مالی قربانی کی برکات و اہمیت ازقرآن کریم

اس حوالے سے یہ یاد رہے کہ مالی قربانی کی تلقین اور مالی قربانی کے نتیجہ میں ملنے والے فضائل وبرکات کا ذکر قرآن کریم میں بہت واضح رنگ میں موجود ہے ۔زکوۃ کا حکم ہے ۔اس کے علاوہ مال کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَھَاجَرُواوَجَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ (الانفال :73)
وہ لوگ جو کہ ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی ہے اور اللہ کے راستے میں اپنی جانوں اور مالوں کے ذریعہ سے جہاد کے ذریعہ جہا د کیا ہے.
سورۃ صف میں اللہ تعالیٰ نے ایک تجارت کے متعلق بتایا جس سے اللہ کی خوشنودی اور جنت کی بشارت دی گئی ہے ۔
تُجَاھِدُوْنَ فِی سَبِیلِ اللّٰہ بِاَمْوَالِکُم وَاَنْفُسِکُم (الصف:12)
کہ تم اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔


آنحضرتﷺصحابہ ؓ کومالی قربانی کی تاکید فرماتے تھے

اس مالی جہادکے بارے میں سنت نبوی سے پتا چلتا ہے کہ ضرورت کے وقف رسول کریم ؐ صحابہ کو مالی قربانی کی تحریکات کرتے رہتے تھے ۔ جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔ایک غزوہ کے موقع پر حضر ت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے لے آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر کا نصف مال لے آئے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اسی لیے غنی کہلائے کہ بہت زیادہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے ۔ اسی طرح بے شمار صحابہ کی مثالیں موجود ہیں ۔خود رسول کریم ؐ تیز آندھی کی طرح خدا کی راہ میں خرچ کیا کرتے تھے ۔یہ سب خرچ کرنا زکوۃ کے علاوہ ہوتا تھا بلکہ رسول کریم ؐ نے تو ساری زندگی زکوۃ نہیں دی کیونکہ زکوۃ کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری ہوتا ہے رسو ل کریم ؐ تو سارا سال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے صاحب نصاب نہیں بنتے تھے ۔اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ رسو ل کریم ؐ  زکوۃکی فرضیت کے قائل نہیں تھے بلکہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے دوسری صورتوں کو زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔ایسا خیال کرنے والایقینا راہ ہدایت سے بہت دور ہے ۔


جماعت احمدیہ میں لئے جانے والے چندہ کا مقصد

دنیا میں بھر میں جماعت احمدیہ قلمی جہاد کر رہی ہے ۔اسلام اور قرآن کی تعلیمات کو عام کیا جارہا ہے ۔اور یہ سارا ایک مضبوط نظام کے لیے ذریعہ ہورہا ہے۔منظم طور پر جاری یہ جہاد مال کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔اس قلمی جہاد کے دائرے کی وسعت بہت بڑی سرمایہ کاری کا تقاضا کرتی ہے ۔اس وجہ سے احباب جماعت احمدیہ قرآنی تعلیمات کے مطابق خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اس جہاد میں اپنے مالوں کے ذریعہ حصہ ڈالتے ہیں ۔یاد رہے کہ جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اسلام کا احیائے نو اور قرآنی تعلیمات کو عام کرے اگر کوئی احمدی اپنے مال اور اپنی جان کے ذریعہ اس جہاد میں حصہ نہیں ڈالتا تو عملاً اس بنیادسے دور جا رہا ہے جس پر جماعت احمدیہ قائم ہے ۔اس لیے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ احمدیت کے اصل مقصود کے حصول کے لیے جس قدر ممکن ہوسکتا ہے اپنا حصہ لازماً ڈالے ۔وہ حصہ وصیت ،چندہ عام ،چندہ اجتماع،تحریک جدید ،وقف جدید کسی بھی نام سے ہوسکتا ہے ۔یہ تمام چندے اپنے اپنے دائرے میں بھر پور مساعی رہے ہوتے ہیں اس لیے ان سب میں شمولیت ہی صحیح رنگ میں قربانی کہلا سکتی ہے ۔اسی طرح ذیلی تنظیمیں بھی اپنی اپنی سطح پر کام رہی ہوتی ہیں ان میں بھی حصہ ڈالنا چاہیے ۔
مال کے بغیر کوئی نظام نہیں چلتا اس لیے مال کی ضرورت تو رہتی ہے ۔اصل چیز اس کا استعمال ہے کہ وہ کس طرح ہورہا ہے ۔اور کیا اسے چیک کیا جارہا ہے ۔ جماعت احمدیہ کا مالی نظام بہت مضبوط اور شفاف ہوتا ہے ۔شوریٰ میں بجٹ کی منظوری ہوتی ہے اورسب احباب جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے نمائندگان شوریٰ بجٹ کی منظوری دیتے ہیں ہر جماعت میں سیکرٹری مال ہوتا ہے جو چندہ کا حصول کرتا ہے۔چندہ سید بک پر لیا جاتا۔ روزنامچہ بنتا ہے اورہر فرد جماعت کا کھاتہ بنا ہوتا ہے ۔ہر جماعت کا مقامی آڈیٹراور محاسب اس مالی نظام کو چیک کرتے رہتے ہیں ۔اسی طرح ضلع کے آڈیٹر اور محاسب مقامی جماعت کے مالی نظام کو چیک کرتے ہیں پھر مرکزکے نمائندگان اس کی جانچ پڑتال کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔باقاعدہ انسپکٹران مقرر ہیں جو ان مالی نظام کو چیک کرتے رہتے ہیں ۔جس طرح اس مال کے حصول کے لیے باقاعدہ نظام ہے اسی طرح اس مال کے خرچ کو چیک کرنے کے لیے باقاعدہ نظام بنا ہوا ہے ۔
اس قدر مضبوط نظام کی وجہ سے جماعت احمدیہ دنیا میں اتنے بڑے بڑے کام کررہی ہے کہ دیکھنے والے حیران ہوتے ہیں کہ کس طرح اتنے بڑے پروجیکٹ مکمل ہورہے ہیں ۔شفاف مالی نظام کی وجہ سے نتائج میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے ۔
پھر جہاں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے وہاں پر باقاعدہ ٹیکس ادا کیا جاتا ہے اور ملکی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اپنے ذرائع آمد اور خرچ کے اعداد وشمار جمع کروائے جاتے ہیں ۔یہ بات بھی جماعت احمدیہ کے مالی نظام کے شفاف ہونے کی علامت ہے ۔
مکمل تحریر >>

جماعت احمدیہ کے چندہ لینے پر اعتراض کا جواب

اللہ تعالیٰ جب کسی الٰہی جماعت کی بنیاد رکھتا ہے تو اس جماعت کے ماننے والوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے ان سے کچھ قربانیوں کا تقاضا فرماتا ہے ، یا یوں سمجھ لیجئے کہ خدا تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کو پانے کے لئے قربانی ایک لازمی شرط ہے ، اور یہ قربانی کیا ہے ؟ یہ اپنے اپنے وقت اور زمانے کےحالات پر منحصر ہوا کرتی ہے ۔ مثلاً آنحضرتﷺ کے زمانے میں مال کی قربانی بھی تھی لیکن جان کی قربانی زیادہ اہمیت رکھتی تھی کیونکہ کفار کی طرف سے  مسلمانوں پر مظالم کا ایک سلسلہ جاری تھا اور انہی مظالم کے تحت مسلمانوں کو جنگ کے میدان میں بھی کھینچا گیا تھا۔
            لیکن اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں مسیح محمدی کے دور کےلئے آنحضرتﷺ نے ’’یَضَعُ الْحَرْب‘‘کی نوید سنا کر قرونِ اولیٰ کی مانند جنگوں اور تلوار کے جہاد کو موقوف فرما دیا اور مسیح محمدی کے فرائض میں قلمی جہاد کو شامل فرما کر مالی قربانی کو جاری رکھا کیونکہ قلمی جہاد کے لئے مال کا ہونا لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مالی قربانی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :۔
  لَنْ تَنَالُواالْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ                                         
 (آل عمران :93)
تم کامل نیکی کو ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ اپنی پسندیدہ اشیاء میں سے (خدا کے لئے )خرچ نہ کرو۔
حضرت رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ  کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو۔ ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کرہی دیا کرے گا۔ اپنے روپوں کی تھیلی کا منہ (بخل کی راہ سے )بند کر کے نہ بیٹھ جانا ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا۔جتنی طاقت ہے دل کھول کر خرچ کیا کرو۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’کیسا یہ زمانہ برکت کا ہے ۔ کہ کسی سے جانیں مانگی نہیں جاتیں۔ اور یہ زمانہ جانوں کے دینے کا نہیں بلکہ مالوں کے بشرط استطاعت خرچ کرنے کا ہے ۔ ‘‘
                                                          (الحکم قادیان ، 10جولائی 1903ء)
            پس جماعت احمدیہ میں موجود چندوں کا نظام قرآن و حدیث میں موجود مالی قربانی کے احکام کو مدنظر رکھ کر ہی قائم کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اسکا قرب حاصل کرنے کے لئے اپنے مال میں سے کچھ حصہ اس کی راہ میں قربان کرنا نہایت اہمیت ہے اور ہمیشہ سے انبیاء اس کی تلقین اپنے ماننے والوں کو کرتے آئے ہیں۔
مکمل تحریر >>

Wednesday 29 April 2015

مولانا قاری محمد طیب دیوبندی کا کلام الہام تھا ؟

قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند جو کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (ولادت ۱۸۳۳؁ء وفات۱۸۸۰؁ء) کے پوتے تھے۔ دیوبندی حلقوں میں انہیں ’’حکیم الاسلام‘‘ کے خطاب سے یاد کیا جاتاہے۔ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان نے ان کا ایک مجموعہ تقاریر ’’خطبات طیب‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے ۔ کتاب کے دیباچہ میں ان کے کلام کو پانچ مرتبہ ’’الہامات‘‘ سے موسوم کیا گیاہے۔


مکمل تحریر >>

اسلام کی فتح وفات مسیح کے عقیدہ میں ہے

حضرت مسیح موعود و امام مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
''میں نے کوئی بات قال اﷲ اور قال الرسول کے برخلاف نہیں کی۔ اگر قرآن اور حدیث میں جسم عنصری کا لفظ آیا ہوتا تو اس کا منکر کافر اور ملعون ہوتا مگر اصل حقیقت خدا تعالیٰ نے بذریعہ الہام کے مجھ پر ظاہر کر دی اور قرآن اور حدیث اور اجماعِ صحابہؓ اس کی تائید میں ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات صحابہؓ کے واسطے ایک بڑا صدمہ تھا۔باسٹھ (62)یا تریسٹھ(63) سال کوئی بڑی عمر نہیں۔ صحابہؓ کو اگر یہ کہا جاتا کہ عیسیٰ ؑتو زندہ ہے مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو اُن کے واسطے ایک پشت شکن صدمہ تھا۔ اسی واسطے حضرت ابو بکرؓ نے سب کو اکٹھا کر کے وعظ کیا اور ان کو سمجھایا کہ سب نبی مر گئے ۔ کوئی بھی زندہ نہیں۔اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے۔ صحابہؓ ایک عشق اور محبت کی حالت رکھتے تھے۔ وفات مسیح کے بغیر دوسرا پہلو وہ ہرگز مان نہ سکتے تھے۔ اسلام کبھی ایسا عقیدہ پیش نہیں کرسکتا جو آنحضرت افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہو۔ کوئی ہمیں بُرا یا بھلا کہے ہم تو اپنا کام کرتے چلے جائیں گے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی فتح اسی میں ہے۔ اگر ہم عیسائیوں کی ہاں میں ہاں ملادیں تو ہم ان کو کیونکر زیر کر سکتے ہیں۔ ہمارے مخالف مرنے کے بعد یقینا سمجھ لیں گے کہ وہ اسلام کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ عادت بھی ایک بُت ہوتا ہے اور یہ لوگ اس بُت کی پرستش کر رہے ہیں۔'' 
(ملفوظات جلد چہارم ، صفحہ 497)

مکمل تحریر >>

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ زندگی

قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے ماموروں کی جو سچی تاریخ پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے ماموروں کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل دعویٰ سے پہلے ان کی پاک زندگی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں شرک اور دوسری بدیوں سے محفوظ رکھتا ہے اور وہ قوم کے اندر ایک نہایت اعلیٰ اخلاق سے بھر پور زندگی گزارتے ہیں ۔ اورقوم ان کے پاک کردار کی گواہی دینے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔
دعویٰ کے بعد دشمن ان پر ہر طرح کے الزام لگاتا اور گند اچھالتا ہے مگر دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر کسی طرح بھی انگلی نہیں اٹھاسکتا ۔ پس دعویٰ کے بعد کے اعتراضات قابل توجہ نہیں کیونکہ وہ دشمنی کی نظر سے کئے جاتے ہیں ۔ بلکہ وہ پاک کردار لائق توجہ ہے جب وہ ایک عام فرد کی حیثیت سے زندگی گزار رہا ہوتا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمدقادیانی نے اس زمانہ میں خدا کے مامور ہونے کا دعویٰ کیا اور فرمایا کہ میں وہی موعود ہوں جس کا امت محمدیہ ﷺ چودہ سو سال سے انتظار کر رہی ہے ۔ آپ نے اپنی صداقت کے دلائل میں اپنی دعویٰ سے پہلے کی پاک زندگی کو بھی پیش فرمایا ہے ۔ آپ نے اپنے مخالفین کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا ۔

چیلنج

’تم کوئی عیب افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے ۔ تا تم خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا ۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کرسکتا ہے ۔ پس یہ خدا کا فضل ہے جو اس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے ۔ ‘ (تذکرۃ الشہادتین ، صفحہ ۶۲)
پھر فرمایا ۔
’ میری ایک عمر گزر گئی ہے مگر کون ثابت کرسکتا ہے کہ کبھی میرے منہ سے جھوٹ نکلا ہے ۔ پھر جب میں نے محض للہ انسانوں پر جھوٹ بولنا متروک رکھا اور بارہا اپنی جان اور مال کو صدق پر قربان کیا تو پھر میں خدا تعالیٰ پر کیوں جھوٹ بولتا ۔‘ (حیات احمد جلد اول ، صفحہ ۱۲۶)
اس چیلنج پر ایک سو سال ہونے کو آئے ہیں ۔ مگر کسی کو اس کا جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ دعویٰ کے بعد تو مخالفین ہر طرح کے الزام لگایا ہی کرتے ہیں ۔ مگر دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر نہ صرف کوئی انگلی نہیں اٹھاسکا بلکہ بیسیوں لوگوں نے آپ کی پاکیزگی کی گواہی دی جنہوں نے آپ کو دیکھا اور جن کا آپ سے واسطہ پڑا ۔

مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی

مشہور اہل حدیث عالم مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی نے دعویٰ کے بعد آپ کی شدید مخالفت کی ۔ مگر اس سے پہلے انہوں نے آپ کی کتاب براہین احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ۔
’موء لف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے (واللہ حسیبہ) شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار اور صداقت شعار ہیں ۔ ‘ (اشاعۃ السنۃ جلد ۷ ، صفحہ ۹)

مولانا ابوالکلام آزاد صاحب

ہندوستان کے مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور صحافی ابوالکلام آزاد گواہی دیتے ہیں ۔
’کیریکٹر کے لحاظ سے مرزا صاحب کے دامن پر سیاہی کا چھوٹے سے چھوٹا دھبہ بھی نظر نہیں آتا ۔ وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی ۔ غرضیکہ مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی کے پچاس سالوں نے بلحاظ اخلاق و عادات اور کیا بلحاظ خدمات و حمایت دین مسلمانان ہند میں ان کو ممتاز ، برگزیدہ اور قابل رشک مرتبہ پر پہنچا دیا ۔‘ (اخبار وکیل امرتسر ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء)

منشی سراج الدین صاحب

مشہور مسلم لیڈر اور صحافی اور شاعر مولانا ظفر علی خان صاحب کے والد بزرگوار منشی سراج الدین صاحب ایڈیٹر اخبار زمیندار گواہی دیتے ہیں ۔
’ ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے ۔۔۔ آپ بناوٹ اور افتراء سے بری تھے ۔‘ (اخبار زمیندار مئی ۱۹۰۸ء)

سیالکوٹ کے عوام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ سے پہلے عین جوانی کا کچھ عرصہ سیالکوٹ میں گزارا ۔ اور آپ کے تمام ملنے جلنے والے آپ کے تقویٰ اور نیکی کے دل سے قائل تھے ۔ جن لوگوں کے پاس آپ نے قیام فرمایا وہ آپ کو ولی اللہ قرار دیتے تھے ۔ (بحوالہ الفضل ۸ اکتوبر ، ۱۹۲۵ء)

سید میر حسن صاحب

ہندوستان میں علوم شرقیہ کے بلند پایہ عالم اور علامہ اقبال کے استاد مولوی سید میر حسن صاحب نے آپ کو اسی دور میں ۲۸ سال کی عمرمیں دیکھا اور بعد میں یوں گواہی دی ۔ آپ عزلت پسند اور پارسا اور فضول و لغو سے مجتنب اور محترز تھے ۔ ادنیٰ تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہوجاتا تھا کہ حضرت اپنے ہر قول و فعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں ۔ (سیرۃ المہدی ، جلد اول ، صفحہ ۱۵۴، ۲۷۰)

حکیم مظہر حسین صاحب

سیالکوٹ کے حکیم مظہر حسین صاحب جو بعد میں آپ کے شدید مخالف بنے انہوں نے آپ کے متعلق لکھا ۔
’ثقہ صورت ، عالی حوصلہ اور بلند خیالات کا انسان ‘ (اخبار الحکم ، ۷ اپریل ۱۹۳۴ء)

قادیان کا ہندو

آپ کے حق میں گواہی دینے والوں میں آپ کے گاؤں قادیان کا وہ ہندو بھی شامل ہے جس نے بچپن سے آخر تک آپ کو دیکھا ۔ وہ کہتا ہے ۔ ’ میں نے بچپن سے مرزا غلام احمد کو دیکھا ہے میں اور وہ ہم عصر ہیں ۔ اور قادیان میرا آنا جانا ہمیشہ رہتا ہے اور اب بھی دیکھتا ہوں جیسی عمدہ عادات اب ہیں ایسی ہی نیک خصلتیں اور عادات پہلے تھیں ۔ سچا امانت دار اور نیک ، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پرمیشور مرزا صاحب کی شکل اختیار کرکے زمین پر اتر آیا ہے ۔‘ (تذکرہ المہدی ، جلد ۲ صفحہ ۳۴)

مولوی غلام رسول صاحب

اس دور کے ایک بزرگ مولوی غلام رسول صاحب نے بچپن میں آپ کی پاکیزہ فطرت کو دیکھ کر فرمایا ۔ ’ اگر اس زمانے میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے ۔‘ (رجسٹر روایات ، نمبر ۱۲ ، صفحہ ۱۰۴)

وکیل کی گواہی

جوانی میں آپ کی راستبازی اور سچ گوئی کا شہرہ تھا ۔ آپ نے کئی خاندانی مقدمات میں اپنے خاندان کے خلاف گواہی دی اور ان کی ناراضگی مول لی مگر سچ کا دامن نہ چھوڑا ۔ دعویٰ سے پہلے ایک عیسائی نے آپ کے خلاف مقدمہ کیا جس میں آپ کے وکیل کے مطابق جھوٹ بولے بغیر نجات نہ تھی ۔ مگر آپ نے جھوٹ بولنے سے انکار کردیا ۔ اور خدا نے آپ کو فتح دی ۔ اس مقدمہ میں آپ کے وکیل فضل الدین صاحب آپ کی اس فوق العادت راست گفتاری کے گواہ تھے ۔ وہ کہتے ہیں ۔
’مرزا صاحب کی عظیم الشان شخصیت اور اخلاقی کمال کا میں قائل ہوں ۔۔۔۔ میں انہیں کامل راستباز یقین کرتا ہوں ۔ ‘ (الحکم ۱۴ نومبر ۱۹۳۴ء)

محمدشریف صاحب بنگلوری

نامور صحافی جناب مولانا شریف بنگلوری ایڈیٹر منشور محمدی نے آپ کے متعلق یہ کلمات استعمال فرمائے ۔
افضل العلماء فاضل جلیل جرنیل فخر اہل اسلام ہند مقبول بارگہ صمد جناب مولوی مرزا غلام احمد صاحب ۔ (منشور محمدی بنگلور ، ۲۵ رجب ۱۳۰۰ھ)

حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی

مشہور باکمال صوفی حضرت احمد جان صاحب لدھیانوی نے آپ کے خدمت دین کے بے پایاں جذبوں کو دیکھ کر فرمایا ۔
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے
حضرت مسیح موعود و مہدی موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے پاکیزہ کردار اور اعلیٰ اخلاق کے بارہ میں جتنی گواہیاں اوپردرج کی گئی ہیں ان میں کوئی ایک بھی احمدی نہیں ہے ۔ بلکہ کئی تو حضرت مرزا صاحب کے سخت مخالف ہیں ۔ مگر خدا نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کے حق میں ان کی زبان سے یہ کلمات جاری کروائے اور حضور ہی کے الفاظ میں سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے جس کی طرف سب نظریں اٹھ رہی تھیں ۔ خدا نے اسی کو مسیحا بنادیا ۔ کہیں ہم اس کو پہچاننے سے محروم تو نہیں رہ گئے ؟ سوچو ! سوچو ! سوچو ! اور غور کرو ۔
مکمل تحریر >>

شیعہ احباب سے چند سوالات

کیا امامت ارکانِ اسلام میں شامل ہے؟

قرآنِ کریم کی رو سے مسلمانوں کو اللہ، یومِ آخرت ، ملائکہ، الہامی کتابوں،اور رسولوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے اور اِن کا انکار کرنے والوں کو سخت گمراہ قرار دیا گیا ہے:
”نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف پھیرو۔ بلکہ نیکی اسی کی ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یومِ آخرت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر۔۔۔اور جو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے “ (2:178) ”اور جو اللہ کا انکار کرے اور اس کے فرشتوں کا اور اُس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور یومِ آخر کا تو یقینًا وہ بہت دور کی گمراہی میں بھٹک چکا ہے۔ (4:137)
لیکن شیعہ عقیدہ کے مطابق امامت بھی ارکان اسلام میں داخل ہے اور مسلمان ہونے کے لئے اس پر ایمان لانا بھی لازمی ہے۔ جبکہ قرآنِ کریم میں کسی جگہ بھی امامت یا اماموں پر ایمان لانے کا حکم نہیں ملتا۔ نہج البلاغہ میں، جو حضرت علیؓ کے خطبات کا مجموعہ ہے، جہاں بھی حضرت علیؓ ایمانیات کا ذکر فرماتے ہیں، وہاں صرف توحید و رسالت کی گواہی دیتے ہیں اور کسی جگہ بھی امامت پر ایمان لانے کا ذکر تک نہیں فرماتے۔

کیا ہرامام پہلے نبی ہوتا ہے؟

سورۃ البقرۃ کی آیت (2:125) سے شیعہ احباب استدلال کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کو پہلے نبی بنایا گیا۔ پھر چند کلمات کے ذریعے اُن کی آزمائش کی گئی۔ جب وہ اس امتحان میں پورا اترے تو انہیں امام بنادیا گیا۔ اس استدلال سے جہاں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام کا درجہ نبی سے برتر ہوتا ہے وہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا امام بنانے کا یہی طریقہ ہے تو پھرشیعہ احباب کو یہ ماننا پڑے گا کہ ان کے تمام ائمہ کرام کو پہلے نبی بنایا گیا، پھر اُن کو آزمایا گیا اور پھر انہیں امام بنادیا گیا۔ اس سے ایک طرف تو انہیں نبی اکرم ﷺ کے آخری نبی ہونے کا عقیدہ ترک کرنا پڑے گا اور اُن کے بعد بارہ انبیاءکا آنا ماننا پڑے گا اور دوسری طرف ایک بڑی الجھن یہ سلجھانی پڑے گی کہ اُن کے عقیدہ کے مطابق تو اُن کے ائمہ کرام پیدائشی امام اور معصوم ہوتے ہیں، تو کیا انہیں پیدائش سے پہلے نبی بنایا گیا اور پیدائش سے پہلے ہی اُنہیں آزمایا گیا اور پھر امامت کے درجے پر فائز کردیا گیا؟

کیا بیویاں اہل بیت میں شامل نہیں ہوتیں؟

شیعہ احباب کا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ازواجِ مطہّرات اُن کے اہل بیت میں شامل نہیں ہیں اور سورہ احزاب کی آیت (33:34) میں جن اہل بیت کا ذکر ہے اُن سے سیّدہ فاطمہ الزہراؓ، حضرت علی ؓ، حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ ہی مراد ہیں۔ جبکہ مندرجہ ذیل آیات میں حضرت ابراہیم ؑ کی بیوی اور حضرت موسیٰ ؑ کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کوبھی اہلِ بیت میں شمار کیا گیا ہے۔ فرشتے حضرت ابراہیم ؑ کی بیوی کومخاطب کرکے کہتے ہیں:
” کیا تو اللہ کے فیصلے پر تعجب کرتی ہے۔ تم پر اللہ کی رحمت اور برکات ہوں اے اہلِ بیت“ (ھود ۔ 11:74)
جب حضرت موسیٰ ؑ نے بچپن میں فرعون کے گھر میں کسی بھی عورت کا دودھ پینے سے انکار کردیا تو اُن کی بہن نے فرعون کے گھر والوں سے کہا:
”کیا میں تمہیں ایسے اہل بیت کا پتہ دوں جو تمہارے لئے اس کی پرورش کرسکیں اور وہ اس کے خیرخواہ ہوں؟“ (28:13)

قرآن اور امام الگ الگ ہوگئے؟

شیعہ روایات کے بقول نبی اکرم ﷺ نے خطبہ حجّۃ الوداع میں ارشاد فرمایا تھا کہ میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں یعنی قرآن اور اپنی عترت (اولاد) چھوڑ کر جارہاہوں۔ جب تک انہیں پکڑے رکھوگے گمراہ نہ ہوگے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک حوض پر میرے پاس لوٹ نہ آئیں۔ یعنی قیامت تک ساتھ رہیں گے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ شیعہ احباب کے آخری یعنی بارھویں امام غائب ہیں اور قرآن ہمارے پاس رہ گیا ہے۔ اس صورت میں ہم مکمل ہدایت حاصل نہیں کرسکتے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بعض شیعہ عقائد کے مطابق اصل قرآن امام غائب کے پاس ہے۔ اس صورت میں ہم قرآن اور امام دونوں سے ہدایت حاصل نہیں کرسکتے۔ اب اگر ہم گمراہ ہوں تو اس میں کس کا قصور ہوگا؟
مکمل تحریر >>

احیائے موتٰی کی حقیقت

قرآنِ کریم الٰہی پیغام کے منکرین اور مخالفین کو مردہ کہہ کر پکارتا ہے [27:81, 35:23, 8:25] جبکہ نبی کی دعوت کو قبول کرنے والے مومنین اور خدا کی راہ میں اپنی جان دینے والوں کو زندہ قرار دیتا ہے۔ [36:71, 2:155] بدقسمتی سے غیر احمدی مسلمان علماءایسی آیات کی تعبیر و تشریح حقیقی روحانی معنوں کی بجائے ظاہری الفاظ کے مطابق کرتے ہیں۔ ایسی تشریحات کرتے ہوئے یہ علماءقرآنِ کریم کا وہ محکم اصول نظر انداز کردیتے ہیں جس کے مطابق مردے کبھی واپس نہیں آتے اور جو ایک دفعہ فوت ہوجاتا ہے وہ قیامت سے پہلے دوبارہ زندہ نہیں ہوگا۔ [21:96, 23:100 23:101, 36:32, 39:43]

سو سال مرنے کے بعد زندہ

یہ علماءکہتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی آیت (2:260) کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایک نبی کو سو سال کے لئے مار دیا اور پھر دوبارہ زندہ کردیا۔اس واقعے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ 586 قبل مسیح میں نوبخت نصر کے ہاتھوں یروشلم کی تباہی کے بعد حزقیل نبی نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ یہ شہر دوبارہ کب آباد ہوگا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خواب دکھایا جس میں بتایا گیا تھاکہ یہ شہر سو سال کے بعد دوبارہ آباد ہوگا۔ یہ خواب بائبل میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ (حزقیل۔37)۔ یہ قرآنِ کریم کا طرزِ بیان ہے کہ خواب میں دیکھے گئے واقعات (مثلًا حضرت یوسف ؑ کی خواب ۔ 12:5) کو بھی ایسے بیان کیا جاتا ہے گویا کہ وہ حقیقت میں دیکھے جارہے ہیں۔ بصورتِ دیگرحزقیل نبی کو سو سال کے لئے ماردینا اور پھر زندہ کردینا اُن کے سوال کا جواب نہیں ہوسکتا۔اُن کا سوال شہر کے دوبارہ آباد ہونے کے متعلق تھا جس کا جواب انہیں خواب میں نظارہ دکھا کر دے دیا گیا۔ یہ خواب بعد میں ویسے ہی پورا بھی ہوگیا اور ٹھیک ایک سو سال بعد یروشلم دوبارہ آباد ہوگیا۔ اُن کے کھانے کے تازہ رہنے اور گدھے کے زندہ ہونے کی طرف اشارہ کرنے کا بھی یہی مطلب تھا کہ وہ سو سال تک مرے نہیں رہے بلکہ یہ چند گھڑیوں کا ایک خواب تھا۔

ذبح شدہ پرندوں کا دوبارہ زندہ ہونا

بدقسمتی سے سورہ البقرۃ کی آیت (2:261) میں بیان کردہ واقعہ کی بھی ظاہری الفاظ میں تشریح کی جاتی ہے گویا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے ظاہری مردوں کے زندہ ہونے کے متعلق سوال کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے حقیقتًا چار پرندوں کو ذبح کیا، اُن کا قیمہ بنایا اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کرکے حضرت ابراہیم ؑ کو بتایا کہ اس طرح وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے۔اصل حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا تھا کہ روحانی طور پر مردہ یہ لوگ کیسے زندہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں پرندوں کی مثال کے ذریعے سمجھایا کہ جس طرح پرندوں کو سدھا کراپنے ساتھ مانوس کیا جاتا ہے اور پھر انہیں بلایا جائے تو اگر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی ہوں تو وہ وہاں سے بھی اُن کے پاس آجاتے ہیں۔اسی طرح انسانوں کے ساتھ بھی دلی تعلقات استوار کئے جائیں اور پھر انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بُلایا جائے تو وہ اُس کی طرف آسکتے ہیں۔ اس آیت میں ”فصرھن الیک“ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔ عربی زبان کے قواعد کے مطابق اگر ”صُر“ کے ساتھ ”الیٰ“ کا صلہ استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب اپنی طرف مائل کرنا ہوتا ہے۔ اس صلہ کے بغیر اس کا مطلب کاٹنا ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ یہاں پرندوں کا قیمہ کرنا مراد نہیں بلکہ اپنے ساتھ مانوس کرنا مراد ہے۔

اصحابِ کہف

اصحابِ کہف کا واقعہ بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہے جسے قوانینِ قدرت سے بالا اور ایک مافوق الفطرت بات بنا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ اسی سورۃ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کہ کیا لوگ اصحابِ کہف کے واقعہ کو کوئی عجیب بات سمجھتے ہیں؟ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ابتدائی دور کے مسیحیوں کو خدائے واحد پر ایمان رکھنے کے باعث بت پرست رومیوں کے ہاتھوں بہت تکالیف اٹھانی پڑیں۔ یہ سلسلہ وقفوں کے ساتھ 300 سال تک جاری رہا یہاں تک کہ کانسٹنٹائن نامی بادشاہ خود عیسائی ہوگیا اور اس نے اپنے نئے مذہب کو روم کا قومی مذہب بنادیا۔ خود کو ان مظالم سے بچانے کے لئے ان بے بس مسیحیوں کو زمین دوز غاروں میں پناہ لینی پڑتی تھی جو ”کیٹاکومبز“ کے نام سے آج بھی روم اور سکندریہ کے گردونواح کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان غاروں کے دہانوں پر ان لوگوں نے کتے رکھے ہوتے تھے جو انہیں خطرے سے خبردار کرتے تھے۔ مسیحی اقوام میں کتے سے محبت اسی دور کی نشانی ہے۔ چنانچہ اصحابِ کہف چند عیسائی نوجوان نہیں بلکہ تین صدیوں تک رومیوں کے مظالم سے بچ کر غاروں میں پناہ لینے والے مؤحد مسیحی تھے۔
مکمل تحریر >>

ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے

ایک مولوی صاحب آئے اور انہوں نے سوال کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے۔ آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا ہے؟ یہ بات ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (الحج : 79) کے برخلاف ہے۔
اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا :
اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے۔ لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہے اسلام کے تہتّر (73) فرقے ہو گئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ انہی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہؓ کو سبّ و شتم کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواجِ مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں۔ اولیاء اﷲ کو بُرا کہتے ہیں۔پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو بُرا کہتے ہیں اورپھر بھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔ بلا دِ شام میں ایک فرقہ یزید یہ ہے جو امام حسینؓ پر تبرّہ بازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ اسی مصیبت کو دیکھ کر سلفِ صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی،حنبلی وغیرہ تجویز کئے۔ آجکل نیچریوں کا ایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت ،دوزخ،وحی،ملائک سب باتوں کا منکر ہے۔ یہانتک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سُن کر یہ قصے لکھ دیئے ہیں۔ غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے لیے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا۔
حضرت یہ تقریر کر رہے تھے کہ اس مولوی نے پھر سوال کیا کہ قرآن شریف میں تو حکم ہے کہ لَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران:104) اور آپ نے تو تفرقہ ڈال دیا۔
حضرت نے فرمایا: ہم تو تفرقہ نہیں ڈالتے بلکہ ہم تفرقہ دور کرنے کے واسطے آئے ہیں۔ اگر احمدی نام رکھنے میں ہتک ہے تو پھر شافعی حنبلی کہلانے میں بھی ہتک ہے، مگر یہ نام ان اکابر کے رکھے ہوئے ہیں جن کو آپ بھی صلحا مانتے ہیں۔ وہ شخص بدبخت ہوگا جو ایسے لوگوں پر اعتراض کرے اور اُن کو برا کہے۔ صرف امتیاز کے لیے ان لوگوں نے اپنے یہ نام رکھے تھے۔ ہمارا کا روبارخدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ہم پر اعتراض کرنے والا خدا تعالیٰ پر اعتراض کرتا ہے۔ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے۔
اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو۔ خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔ بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہو سکتی۔امام شافعی اور حنبل وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہو گئی تھیں۔ اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی۔ ہزار ہاگندے آدمی ملے جلے رہتے ۔یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے۔ اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہو جاتا کہ بدعتی اور غیربدعتی میں تمیز نہ ہو سکتی۔ اب بھی ایسا زمانہ آگیا ہے کہ گھر گھر ایک مذہب ہے۔ ہم کو مسلمان ہونے سے انکار نہیں،مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھاگیا ہے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت والوں سے اختلاف کیا اور عام نظروں میں ایک تفرقہ ڈالنے والے بنے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تفرقہ خود خدا ڈالتا ہے۔ جب کھوٹ اور ملاوٹ زیادہ ہو جاتی ہے تو خد اتعالیٰ خود چاہتا ہے کہ ایک تمیز ہو جائے۔
مولوی صاحب نے پھروہی سوال کیا کہ خدا نے تو کہا ہے کہ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (الحج : 79)
فرمایا: کیا اس میں رافضی اور بدعتی اور آجکل کے مسلمان شامل ہیں؟ کیا اس میں آجکل کے وہ لوگ شامل ہیں جو اباحتی ہو رہے ہیں؟ اور شراب اور زنا کو بھی اسلام میں جائز جانتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔اس کے مخاطب تو صحابہؓ ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ قرون ثلاثہ کے بعد فیج اعوج کا زمانہ ہو گا جس میں جھوٹ اور کذب کا افشا ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے لَیْسُوْا مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہُمْ ۔نہ اُن کا مجھ سے کوئی تعلق ہے نہ میرا اُن سے کوئی تعلق ہے۔ وہ لوگ مسلمان کہلائیں گے مگر میرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔
جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں۔ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں۔ میں کوئی بدعت نہیں لایا۔ جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے ایسا ہی احمدی بھی نام ہے بلکہ احمد کے نام میں اسلام کے بانی احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اِتّصال ہے۔ اور یہ اِتّصال دوسرے ناموں میں نہیں۔ احمد، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے۔ اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے۔ حدیث شریف میں محمدی رکھاگیا ہے۔ بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوتاہے۔ احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے۔ آجکل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اوّل آخر کبھی نہیں ہوا اس واسطے کوئی نام ضروری تھا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو مسلمان ہیں وہ احمدی ہیں‘‘۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 499 تا 502۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
مکمل تحریر >>

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مسلم مشاہیر

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے 1882ء میں دعویٰ فرمایا کہ میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اسلام اور قرآن کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے مامور کیا گیا ہوں ۔ اسی مقصد کی خاطر آپ نے ساری زندگی جدوجہد کی اور اس شان سے کی کہ آپ کے دعویٰ کو تسلیم نہ کرنے والوں نے بھی آپ کے شاندار کارناموں کو خراج تحسین پیش کیا اور خدا کی تقدیر نے ان کے پرزور الفاظ کو محفوظ کروادیاتاکہ بعد میں آنے والوں کی ہدایت کا باعث بنتے رہیں ۔
ذیل میں چند مسلم مشاہیر کے قلبی جذبات اور اعترافات درج کئے جاتے ہیں ۔

فرقہ اہل حدیث کے مشہور لیڈر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب

نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کی کتاب ’براہین احمدیہ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’ہماری نظر میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظرسے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی ۔۔۔۔ اور اس کا مو ء لف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی ولسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے ۔ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ و برہم سماج سے اس زور شورسے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشاندہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی وجانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑہ اٹھالیا ہو۔‘ (رسالہ اشاعۃ السنہ جلد 7نمبر6صفحہ169)

مشہور مفسر ، صحافی اور ماہر تعلیم مولانا ابولکلام آزاد صاحب

’ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پامال بنائے رکھا آئندہ بھی جاری رہے ۔۔۔۔ مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہوکر اسلام کیطرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے ، قائم رہے گا ۔‘ (اخبار ملت ، لاہور ۔ 7جنوری 1911ء)

حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف

’حضرت مرزا غلام احمد قادیانی حق پر ہیں اور اپنے دعویٰ میں راستباز اور صادق ہیں ۔ اور آٹھویں پہر اللہ تعالیٰ حق سبحانہ‘ کی عبادت میں مستغرق رہتے ہیں اور اسلام کی ترقی اور دینی امور کی سر بلندی کے لئے دل و جان سے کوشاں ہیں ۔میں ان میں کوئی مذموم اور قبیح چیز نہیں دیکھتا ۔ اگر انہوں نے مہدی اور عیسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ بھی ایسی بات ہے جو جائز ہے ۔‘ (اشارات فریدی جلد 3صفحہ 179ترجمہ فارسی)

چوہدری افضل حق صاحب مفکر احرار

’مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی ۔ ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کرکے اسلام کی نشرواشاعت کے لئے بڑھا ۔۔۔ اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے ۔ (فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں ، صفحہ 124)

ایڈیٹر کرزن گزٹ دہلی ، مرزا حیرت دہلوی صاحب

مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت تعریف کی مستحق ہیں ۔ اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کردی ۔ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کہ بلکہ ایک محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا ۔ (سلسلہ احمدیہ ، صفحہ 189)

مدیر سیاست مولانا سید حبیب صاحب

اس وقت کہ آریہ اور مسیحی مبلغ اسلام پر بے پناہ حملے کررہے تھے اکے دکے جو عالم دین بھی کہیں موجود تھے وہ ناموس شریعت حقہ کے تحفظ میں مصروف ہوگئے مگر کوئی زیادہ کامیاب نہ ہوا اس وقت مرزا غلام احمد صاحب میدان میں اترے اور انہوں نے مسیحی پادریوں اور آریہ اپدیشکوں کے مقابلہ میں اسلام کی طرف سے سینہ سپر ہونے کا تہیہ کرلیا ۔۔۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے ادا کیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کردےئے۔ (تحریک قادیان ، صفحہ 208)

ادیب ، شاعر ، ایڈیٹر علامہ نیاز فتحپوری صاحب

’اس میں کلام نہیں کہ انہو ں نے یقیناًاخلاق اسلامی کو دوبارہ زندہ کیا اور ایک ایسی جماعت پیدا کرکے دکھادی جس کی زندگی کو ہم یقیناًاسوہ نبی کا پرتو کہہ سکتے ہیں ۔ (ملاحظات نیاز فتحپوری ، صفحہ 29)

سید ممتاز علی صاحب امتیاز

مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے ۔ اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے جو سخت سے سخت دل کو تسخیر کرلیتی تھی وہ نہایت باخبر عالم ، بلند ہمت مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے ۔ ہم انہیں مذہباً مسیح موعود تو نہیں مانتے لیکن ان کی ہدایت اور رہنمائی مردہ دلوں کے لئے واقعی مسیحائی تھی ۔ (تہذیب النسواں لاہور ،1908ء)

اخبار ’صادق الاخبار‘ ریواڑی

مرزا صاحب نے اپنی پرزور تقریروں اور شاندار تصانیف سے مخالفین اسلام کو ان کے لچر اعتراضات کے دندان شکن جواب کے لئے ہمیشہ کے لئے ساکت کردیا ہے ۔ اور کردکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے ۔ اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایت اسلام کا کما حقہ ادا کرکے خدمت دین اسلام میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ۔ ( بحوالہ بدر 20 اگست1908ء صفحہ6)
مکمل تحریر >>