Wednesday 14 January 2015

آیت وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ اور معیار صداقت

 اعتراض کیا جاتا ہے کہ آیت وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیلِ  میں صرف مدعی نبوت کا ذکر ہے اور مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ 1901ء میں کیا ۔
جواب : وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیلِ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْن۔             (الحاقہ :45تا47)
ترجمہ:۔ اور اگر وہ بعض باتیں جھوٹے طور پر ہماری طرف منسوب کر دیتا۔تو ہم اُسے ضرور داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے ،پھر ہم یقیناً اس کی رگ ِ جان کاٹ ڈالتے۔
اس اعتراض کی بنیاد صرف اس مفروضہ پرہے کہ اس آیت میں صرف مدعی نبوت کے لئے وعید ہے۔ جبکہ اس آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اس آیت میں صرف مدعی وحی و الہام کا ذکر ہے۔
اگر مدعی نبوت کا ذکر ہوتا تو لَوْ تَنَبَّأَ  کے الفاظ ہوتے۔تَقَوَّلَ  اور   تَنَبَّأَ کے فرق کو لغت کھول کر معترض کو دوبارہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے اپنے الہامات 1880ء سے شائع کرنے شروع کئے ۔ گو اس سے قبل بھی آپؑ اپنے الہامات لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے لیکن 1880ء سے باقاعدہ کتابی صورت میں بھی لوگوں کے سامنے آنے شروع ہو گئے۔
براہین احمدیہ جو 1880تا1884ء شائع ہوئی ۔ اس میں ایک آدھ نہیں بلکہ سینکڑوں الہامات آپؑ نے شائع کئے۔ اب معیارِ صداقت آنحضور  ﷺ کی زندگی کے باعث 23سال ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ  1908ء میں فوت ہوئے  1884ء سے بھی حساب لگائیں تو یہ 24سال بنتے ہیں۔ جبکہ آپ کو وحی و الہام کا دعویٰ اس سے قبل 1868کے قریب سے تھا۔
تفصیل جواب
اگر بغرض بحث یہ مان بھی لیا جائے کہ یہاں صرف مدعی نبوت  ہی مراد ہے تو پھر بھی یہ اعتراض باطل ہے کیونکہ حضرت اقدس ؑ کا الہام ھُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْھُدَی براہین احمدیہ میں موجود  ہے جس میں حضور ؑ کو  رسول کہہ کر پکارا گیا ہے اور حضورؑ نے اس الہام کو خدا کی طرف منسوب فرمایا ہے۔
اگر خدا تعالی نے حضرت مسیح موعود ؑ کو رسول نہیں کہا تھا تو پھر آیت زیر بحث کے مطابق ان کی قطع و تین ہونی چاہیے تھی مگر  حضرت مسیح موعودؑ اس الہام کے بعد تقریبا 30 سال تک زندہ رہے ۔
ہما رایہ مذہب  نہیں کہ حضرت مرزا صاحب ؑ براہین کی تالیف کے  زمانے میں نبی نہ تھے بلکہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ حضور ؑ  براہین احمدیہ کے زمانے میں بھی نبی تھے  ہاں لفظ نبی کی تعریف  جو غیر احمدی علماء کے نزدیک مسلم تھی جو یہ  تھی کہ نبی کے لئے شریعت لانا ضروری ہے نیز یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے نبی کا تابع نہ ہو اس تعریف کی رو سے نہ حضرت مرزا صاحب 1901ء سے پہلے نبی تھے اور نہ بعد میں   کیونکہ آپ کوئی شریعت نہ لائے تھے اس لئے اوائل میں حضور ؑ اس تعریف  نبوت کی رو سے اپنی نبوت کی نفی کرتے رہے  جس سے مراد صرف اس قدر تھی کہ میں صاحب شریعت براہ راست نبی نہیں ہوں لیکن بعد میں جب حضور ؑ نے نبی کی تعریف سب مخالفین پر واضح  فرماکر اس کو خوب شائع فرمایا کہ نبی کے لئے شریعت لانا ضروری نہیں اور  نہ یہ ضروری ہے کہ وہ صاحب شریعت رسول کا تابع نہ ہو بلکہ کثرت مکالمہ و مخاطبہ مشتمل بر کثرت امور غیبیہ کا  نام نبوت ہے  تو اس تعریف کی رو سے آپ نے اپنے آپ کو نبی اور رسو ل کہا۔ اب ظاہر ہے کہ1901 ءسے پہلے کی تعریف نبوت کی رو سےحضرت صاحبؑ کبھی بھی نبی نہ تھے اور نہ صرف حضرت صاحب ؑ بلکہ آپ سے پہلے ہزاروں انبیاء مثلا حضرت ہارون ؑ ۔ سلیمان ؑ ، یحییؑ ۔ زکریاؑ ، اسحاقؑ یوسف ؑ ، وغیرہ بھی نبی ثابت نہیں ہوتے کیونکہ وہ بھی کوئی نئی شریعت نہ لائے تھے لیکن 1901 کے بعد کی تشریح کے رو سے ( جو ہم نے اوپر بیان کی ہے) 1901سے پہلے بھی حضورؑ نبی تھے۔
غرضیکہ حضرت صاحب ؑ کی نبوت یا اس کے دعوے کے زمانے کے بارہ میں کوئی اختلاف یا شبہ نہیں بلکہ بحث  صرف بحث نبوت کے متعلق ہے ورنہ حضرت صاحب ؑ  کا دعوی ابتداء سے آخر تک یکساں چلا  آتا ہے جس میں کوئی فرق نہیں آپ کے الہامات میں لفظ نبی اور رسول براہین کے زمانے  سے لے کر وفات تک ایک جیسا آیا ہے حضرت اقدسؑ نے جس چیز کو1901 کے بعد نبوت قرار دیا ہے اس کا اپنے وجود میں موجود ہونا حضورؑ نے براہین احمدیہ  کے زمانہ سے تسلیم فرمایا ہے  ۔

0 comments: