Friday 24 April 2015

مسیح ابن مریم یا غلام احمد قادیانی ؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپؑ ابن مریم کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ آپ چراغ بی بی صاحبہ کے بیٹے ہیں ۔

حضرت مسیح موعودؑ و مہدی موعودؑ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
  ’’اسی امت میں سے عیسیٰ بننے والا ابن مریم کیونکر کہلا سکے وہ تو مریم کا بیٹا نہیں ہے حالانکہ حدیثوں میں ابن مریم کا لفظ آیا ہے پس یاد رہے کہ یہ دسوسہ جو نادانوں کے دلوں کو پکڑتا ہے قرآن شریف میں سورة تحریم میں اس شبہ کاازالہ کردیا گیا ہے جیسا کہ سورة تحریم میں اس امت کے بعض افراد کومریم سے مشابہت دی گئی ہے اور پھر اس میں عیسیٰ کی روح کے نفخ کا ذکر کیا گیا ہے جس میں صریح اشارہ کیا گیا ہے کہ اس امت میں سے کوئی فرد اوّل مریم کے درجہ پر ہوگا اور پھر اس مریم میں نفخ روح کیا جائے گا تب وہ اس درجہ سے منتقل ہوکر ابن مریم کہلائے گا اور اگر کوئی مجھ سے سوال کرے کہ اگر یہی سچ ہے تو پھر تمہارے الہامات میں بھی اس کی طرف کوئی اشارہ ہونا چاہئے تھا اس کے جواب میں میں کہتا ہوں کہ آج سے پچیس برس پہلے یہی تصریح میری کتاب براہین احمدیہ حصص سابقہ میں موجود ہے اور نہ صرف اشارہ بلکہ پور ی وضاحت سے کتاب براہین احمدیہ حصص سابقہ میں ایک لطیف استعارہ کے رنگ میں مجھے ابن مریم ٹھہرایا گیا ہے چاہئے کہ اوّل وہ کتاب ہاتھ میں لے لو اور پھر دیکھو کہ اس کی اوائل میں اوّل میرا نام خدا تعالیٰ نے مریم رکھا ہے اور فرمایا ہے یَا مَرْیَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃ یعنی اے مریم تواور تیرے دوست جنت میں داخل ہو۔ پھر آگے چل کر کئی صفحوں کے بعد جو ایک مدت پیچھے لکھے گئے تھے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے یَامَرْیَمُ نَفَخْتُ فِیْک مِنْ لَّدُنِّیْ رُّوْحَ الصِّدْقِ یعنی اے مریم میں نے تجھ میں صدق کی روح پھونک دی۔ پس یہ رُوح پھونکنا گویا روحانی حمل تھا کیونکہ اس جگہ وہی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو مریم صدیقہ کی نسبت استعمال کئے گئے تھے جب مریم صدیقہ میں روح پھونکی گئی تھی تو اس کے یہی معنے تھے کہ اس کو حمل ہوگیا تھا جس حمل سے عیسیٰ پیدا ہوا ۔ پس اس جگہ بھی اسی طرح فرمایا کہ تجھ میں رُوح پھونکی گئی گویا یہ ایک روحانی حمل تھا ۔ پھر آگے چلکر آخر کتاب میں مجھے عیسیٰ کرکے پکارا گیا ۔ کیونکہ بعد نفخ ربانی مریمی حالت عیسیٰ بننے کیلئے مستعد ہوئی جس کو استعارہ کے رنگ میں حمل قرار دیا گیا۔ پھر آخر اسی مریمی حالت سے عیسیٰ پیدا ہوگیا۔ اسی رمز کیلئے کتاب کے آخر میں میرانام عیسیٰ رکھا گیااور کتاب کے اوّل میں مریم نام رکھا گیا۔
اب شرم اور حیا اور انصاف اور تقویٰ کی آنکھ سے اوّل سورة تحریم میں اس آیت پر غور کرو جس میں بعض افراد اس امت کو مریم سے نسبت دی گئی ہے اور پھر مریم میں نفح روح کاذکر کیا گیا ہے جو اس حمل کی طرف اشارہ کرتا ہے جس سے عیسیٰ پیدا ہونے والا ہے۔ پھر بعد اس کے براہین احمدیہ حصص سابقہ کے یہ تمام مقامات پڑھو اور خدا تعالیٰ سے ڈرکر خوف کرو کہ کس طرح اُس نے پہلے میرانام مریم رکھا اور پھر مریم میں نفخ رُوح کا ذکر کیا اور آخر کتاب میں اسی مریم کے رُوحانی حمل سے مجھے عیسیٰ بنا دیا۔ اگر یہ کاروبار انسان کاہوتا تو ہرگز انسان کی قدرت نہ تھی کہ دعوے سے ایک زمانہ دراز پہلے یہ لطیف معارف پیش بندی کے طور پراپنی کتاب میں داخل کردیتا۔ تم خود گواہ ہوکہ اُس وقت اور اس زمانہ میں مجھے اس آیت پر اطلاع بھی نہ تھی کہ میں اس طرح پرعیسیٰ مسیح بنایا جاؤں گا۔ بلکہ میں بھی تمہاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔ اور باوجود اس بات کے کہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور جو قرآن شریف کی آیتیں پیشگوئی کے طور پر حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب تھیں وہ سب آیتیں میری طرف منسوب کردیں اور یہ بھی فرما دیا کہ تمہارے آنے کی خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے مگر پھر بھی میں متنبہ نہ ہوا۔ اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میں نے وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طو ر پر لکھ دیا او ر شائع کردیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ اور میری آنکھیں اس وقت تک بالکل بند رہیں جب تک کہ خدا نے بار بار کھول کر مجھ کو سمجھا یا کہ عیسیٰ بن مریم اسرائیلی توفوت ہوچکاہے اوروہ واپس نہیں آئے گا اس زمانہ اور اس امت کیلئے تو ہی عیسیٰ بن مریم ہے۔ یہ میری غلط رائے جو براہین احمدیہ حصص سابقہ میں درج ہوگئی یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک نشان تھا اور میری سادگی اورعدم بناوٹ پر گواہ تھا مگر اب میں اس سخت دل قوم کا کیا علاج کروں کہ نہ قسم کو مانتے ہیں نہ نشانوں پر ایمان لاتے ہیں اور نہ خدا تعالیٰ کی ہدایتوں پرغور کرتے ہیں۔ آسمان نے بھی نشان دکھلائے او رزمین نے بھی مگر ان کی آنکھیں بند ہیں اب نہ معلوم خدا انہیں کیادکھلائے گا۔‘‘
(بر اہین احمد یہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21ص110-112)
’’سورة تحریم میں اشارہ کیا گیا ہے کہ بعض افراداس امت کے ابن مریم کہلائیں گے کیونکہ اوّل مریم سے اُن کو تشبیہ دے کر پھر مریم کی طرح نفخ رُوح اُن میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اوّل وہ مریمی وجود لے کر اور اس سے ترقی کر کے پھر ابن مریم بن جائیں گے۔ جیسا کہ براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں اوّل میرا نام مریم رکھا اور فرمایا۔
یَا مَرْیَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃ
۔ یعنی اے مریم تو اور تیرے دوست بہشت میں داخل ہو جاوٴ۔ اور پھر فرمایا۔ یَامَرْیَمُ نَفَخْتُ فِیْک مِنْ رُّوْحِ الصِّدْقِ یعنی اے مریم مَیں نے صدق کی رُوح تجھ میں پھونک دی (گویا استعارہ کے رنگ میں مریم صدق سے حاملہ ہوگئی) اور پھر آخرمیں فرمایا۔ یَا عِیْسٰی اِ نِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ یعنی اے عیسیٰ! مَیں تجھے وفات دونگا اور اپنی طرف اُٹھاوٴں گا۔ پس اس جگہ مریمی مقام سے مجھے منتقل کر کے میرا نام عیسیٰ رکھا گیا اور اسطرح پر ابن مریم مجھے ٹھیرایا گیا تا وہ وعدہ جو سورہ تحریم میں کیا گیا تھا پورا ہو۔‘‘
(لیکچر لا ہو ر روحا نی خزائن جلد 20ص186-187)



مکمل تحریر >>

Sunday 15 March 2015

قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کا حوالہ دیا جاتا ہے اورالزام لگا دیا جاتا ہے کہ اس میں قرآن کی توہین ہے ۔۔
'' اس نشان کا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں '' 
( سراج منیر ، روحانی خزائن جلد 12 ، صفحہ 78 )


اس الہام کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود یہ بیان فرمائی کہ
’’ خدا کے منہ کی باتیں ۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے منہ کی باتیں۔ اس طرح کےضمائر کے اختلاف کی مثالیں قرآن شریف میں موجود ہیں۔ ‘‘
(ملفوظات جلد ۹صفحہ ۳۰۸ )

مکمل تحریر >>

عبداللہ آتھم کی موت سے متعلق پیشنگوئی



پادری عبداللہ آتھم وہ بدبخت شخص ہے جس نے اسلام کو اور بانی اسلام ﷺ کو نعوذ باللہ جھوٹا ثابت کرنے کے لئے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے ساتھ مناظرہ کیا تھا، جو ’’ جنگِ مقدّس‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع شدہ ہے۔ اس مناظرے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام اور بانی اسلام کی حقّانیت کو عقلی ، نقلی ، تاریخی ،واقعاتی اور روحانی دلائل کے ساتھ کما حقّہٗ ثابت فرمایا۔اس طرح اسلام کو ایک کھلا کھلا غلبہ نصیب ہوا۔اسی شکست خوردہ پادری عبداللہ آتھم نے ،جس کی وکالت آج ڈاکٹر راشد علی ،اور اس کے ہمنواوغیرہ کرتے ہیں ، ایک کتاب ’’اندرونہ بائیبل‘‘ بھی لکھی تھی جس میں اس نے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمّد مصطفی ﷺ کو ( معاذ اللہ) دجّال لکھا تھا۔ اس پر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اپنے آقا کی غیرت میں تڑپ کر خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر ایک پیشگوئی کا انکشاف فرمایا۔ آپ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’ آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے کہ جبکہ میں نے بہت تضرّع اور ابتہال سے جنابِ الہٰی میں دعا کی کہ تُو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ سو اس نے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلّت پہنچے گی۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ اور جو شخص سچ پر ہے اور سچّے خدا کو مانتا ہے اس کی عزّت ظاہر ہو گی۔....‘‘ (جنگِ مقدّس۔ آخری پرچہ۔روحانی خزائن جلد ۶صفحہ۲۹۱،۲۹۲)

الہامی الفاظ ’’ہاویہ میں گرایا جائے گا‘‘ کا مفہوم اجتہاد کی رو سے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے یہ سمجھا کہ عبداللہ آتھم بسزائے موت ہاویہ( دوزخ) میں گرایا جائے گا۔ چنانچہ اسی پیشگوئی کے آخر میں آپ فرماتے ہیں۔

’’ میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پرہے وہ آج کی تاریخ سے پندرہ ماہ میں بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ مجھے ذلیل کیا جائے۔ روسیاہ کیا جائے۔ میرے گلے میں رسّہ ڈال دیا جائے۔ مجھ کو پھانسی دی جائے۔ میں ہر سزا اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔‘‘

یہ پیشگوئی ایسی پر ہیبت تھی کہ پادری عبد اللہ آتھم لرز کر رہ گیا۔یہ اس کی طرف سے رجوع الیٰ الحق کا آغاز تھا۔ اور اس کے بعد، مرتے دم تک اس نے ایک لفظ بھی اسلام یا آنحضرت ﷺ کے خلاف نہ لکھا۔اس نے اس حد تک رجوع الیٰ الحق کیا کہ وہ دلی طور پر عیسائیوں کے عقیدہ ’ الوہیّتِ مسیح ‘ سے بھی متفق نہ رہا۔ چنانچہ اس نے اخبار’’ نور افشاں‘‘ ۲۱ ستمبر ۱۸۹۴ء کی اشاعت میں یہ اعلان بھی شائع کر ایا کہ وہ عیسائیوں کے عقیدہ ابنیّت و الوہیّت کے ساتھ متّفق نہیں۔ اس کے خوف سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کو بھی اطلاع دی۔ جس کا ذکر آپ ؑ نے اپنی کتاب ’’ انوار الاسلام صفحہ ۲،۳‘‘ پر تحریر فرمایا۔

پس عبداللہ آتھم نے پیشگوئی کے الہامی الفاظ ’’ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے‘‘ سے فائدہ اٹھایا اسلئے خدا تعالیٰ نے اسے مہلت دی اور وہ پندرہ ماہ کے اندر نہ مرا۔ اس عرصہ میں وہ انتہائی ہمّ و غم میں مبتلا رہا یہانتک کہ اس پر دیوانہ پن کی حالت طاری ہو گئی اور وہ مسلسل اسی اذیّت ناک حالت میں رہا۔ اس کی اس حالت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’الہامی پیشگوئی کے رعب نے اس کے دل کو ایک کچلا ہوا دل بنا دیا۔ یہانتک کہ وہ سخت بے تاب ہو ا اور شہر بشہر اور ہر ایک جگہ ہراساں اور ترساں پھرتا رہا اور اس مصنوعی خدا پر اس کا توکّل نہ رہا جس کو خیالات کی کجی اور ضلالت کی تاریکی نے الوہیّت کی جگہ دے رکھی ہے۔ وہ کتّوں سے ڈرا اور سانپوں کا اس کو اندیشہ ہوا اور اندر کے مکانوں سے بھی اس کو خوف آیا اور اس پر خوف اور وہم اور دلی سوزش کا غلبہ ہوا اور پیشگوئی کی پوری ہیبت اس پر طاری ہوئی اور وقوع سے پہلے ہی اس کا اثر اس کو محسوس ہوا اور بغیر اس کے کہ کوئی اس کو امرتسر سے نکالے آپ ہی ہراسان و ترسان و پریشان اور بے تاب ہو کر شہر بشہر بھاگتا پھرا۔ اور خدا نے اس کے دل کارام چھین لیا اور پیشگوئی سے سخت متاثر ہو کر سراسیموں اور خوفزدوں کی طرح جا بجا بھٹکتا پھرا اور الہامِ الہٰی کا رعب اور اثر اس کے دل پر ایسا مستولی ہوا کہ راتیں ہولناک اور دن بیقراری سے بھر گئے۔....... اس کے دل کے تصوّروں نے عظمتِ اسلامی کو ردّ نہ کیا بلکہ قبول کیا۔ اس لئے وہ خدا جو رحیم و کریم اور سزا دینے میں دھیما ہے اور انسان کے دل کے خیالات کو جانچتا اور اس کے تصوّرات کے موافق اس سے عمل کرتا ہے اس نے اس کو اس صورت پر بنایا جس صورت میں فی الفور کامل ہاویہ کی سزا یعنی موت بلا توقف اس پر نازل نہ ہوتی۔ اور ضرور تھا کہ وہ کامل عذاب اس وقت تک تھما رہے جب تک کہ وہ بے باکی اور شوخی سے اپنے ہاتھ سے اپنے لئے ہلاکت کے اسباب پیدا نہ کرے اور الہامِ الہٰی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا تھا کیونکہ الہامی عبارت میں شرطی طور پر عذابِ موت کے آنے کا وعدہ تھا ۔نہ مطلق بلاشرط وعدہ۔‘‘ ( انوار الاسلام ۔روحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۴، ۵)

نیز تحریر فرمایا

’’یہ غیر ممکن ہے کہ خدا اپنے قراردادہ وعدہ کو بھول جائے کیونکہ شرائط کا لحاظ رکھنا صادق کے لئے ضروری ہے اور خدا اصدق الصادقین ہے۔ ہاں جس وقت مسٹر عبداللہ آتھم اس شرط کے نیچے سے اپنے تئیں باہر کرے اور اپنے لئے شوخی اور بے باکی سے ہلاکت کے سامان پیدا کرے تو وہ دن نزدیک آ جائیں گے اور سزائے ہاویہ کامل طور پر نمودار ہوگی اور یہ پیشگوئی عجیب طور پر اپنا اثر دکھائے گی۔‘‘( انوار الاسلام ۔روحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۵)

ان تحریروں سے یہ بات بالکل کھل جاتی ہے کہ عبداللہ آتھم نے پیشگوئی میں مذکور شرط ’’ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے‘‘ سے فائدہ اٹھایا اور ابتدائی طور پر خدا تعالیٰ کے رحم کے نیچے آگیا۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اس کو اس صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے غیر مبہم الفاظ میں تنبیہہ کردی تھی کہ اب اس پیشگوئی کی معیّن اور آخری صورت یہ ہے کہ بے باکی اور شوخی کے ظہور پر یعنی رجوع الیٰ الحق کے ماننے سے انکار کرنے پر یا رجوع الیٰ الحق کی صورت کو کسی تدبیر سے مشتبہ بنانے کی صورت میں اس کی ہلاکت کے دن نزدیک آجائیں گے اور پھر موت کے ذریعہ سزائے ہاویہ کا وہ جلد شکار ہو جائے گا۔ اور پیشگوئی کا اثر غیر معمولی رنگ میں ظاہر ہو گا۔گویا اب یہ پیشگوئی پادری ڈپٹی عبداللہ آتھم کی بے باکی اور شوخی سے معلّق ہو گئی۔

ادھر حالات یہ پیدا ہوئے کہ جب عبداللہ آتھم رجوع الیٰ الحق کی شرط سے فائدہ اٹھا کر پندرہ ماہ کے اندر مرنے سے بچ گیا تو عیسائیوں نے اپنی جھوٹی فتح کا نقارہ بجایا، جلوس نکالے اور خوب شور وشرّ اور ہنگامہ آرائی کی اور مسیحِ موعود علیہ السلام کی شان میں گستاخانہ رویّہ اختیار کیا اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی اور آپ ؑ سے بغض رکھنے والے راشد علی جیسے لوگ بھی ان کے ہمنوا بن گئے۔ ان حالات میں خدا تعالیٰ سے الہام پا کر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے عبداللہ آتھم کو مباہلہ کا چیلنج دیا اور اس کے ساتھ ایک ہزار روپیہ کا انعام بھی رکھا۔اس دعوتِ مباہلہ میں آپ ؑ نے اسے یہ بھی لکھا کہ اگر وہ

’’...... تین مرتبہ ان الفاظ کا اقرار کریں کہ اس پیشگوئی کے عرصہ میں اسلامی رعب ایک طرفۃ العین کے لئے بھی میرے دل پر نہیں آیا اور میں اسلام اور نبی اسلام ؐکو نا حق سمجھتا رہا اور سمجھتاہوں اور صداقت کا خیال تک نہیں آیا اور حضرت عیسٰی ؑ کی ابنیّت اور الوہیّت پر یقین رکھتا رہا اور رکھتاہوں اور ایسا ہی یقین جو فرقہ پروٹسٹنٹ عیسائی رکھتے ہیں اور اگر میں نے خلافِ واقعہ کہا ہے اور حقیقت کو چھپایا ہے تو اے قادر! مجھ پر ایک برس میں عذابِ موت نازل کر۔ اس دعا پر ہم آمین کہیں گے اور اگر دعا کا ایک سال تک اثر نہ ہوا اور وہ عذاب نازل نہ ہوا جو جھوٹوں پر نازل ہوتا ہے تو ہم ہزار روپیہ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کو بطور تاوان دیں گے۔‘‘ (انوارالاسلام ۔صفحہ ۶)

یہ ایک فیصلہ کن اور جامع پیشکش تھی جس سے نہ فرار کی کوئی راہ اس کے لئے باقی رہتی تھی اور نہ حق کو چھپانے کا کوئی حیلہ۔ اس پیشکش کے آخر میں آپؑ نے یہ بھی فرمایا

’’پس یقیناً سمجھو کہ اسلام کو فتح حاصل ہوئی اور خدا تعالیٰ کا ہاتھ بالا ہوا اور کلمہ اسلام اونچا ہوا اور عیسائیت نیچے گری۔‘‘

پادری عبداللہ آتھم نے اس سے گریز کی راہ اختیار کی تو آپ نے اسے دو ہزار روپیہ کا چیلنج دیا۔ اس کو بھی قبول کرنے کی ا س میں جرات نہ ہوئی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنے رجوع الیٰ اللہ کو ظاہر کرنے کی بھی ہمّت نہ کر سکا۔ اس پر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اس کو تیسرا چیلنج دیا جوتین ہزار روپیہ کا تھا۔اس میں آپ نے اس پر حجّت تمام کرنے کے لئے اسے مؤکّد بعذاب قسم کھانے کی بھی تحریض کی۔

پادری عبداللہ آتھم نے اس چیلنج پر اپنے دو عذر پیش کئے۔ اوّل یہ کہ قسم کھانا ان کے مذہب میں ممنوع ہے۔ دوم یہ کہ پیشگوئی کے زمانہ میں وہ ڈرے تو ضرور ہیں مگر پیشگوئی کے اثر سے نہیں بلکہ اس لئے کہ کہیں ان کو قتل نہ کر دیا جائے۔

حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اس کے دونوں عذرات اپنے ایک اور اشتہار میں جس میں چار ہزار انعام دینے کا وعدہ تھا ، توڑ دئیے۔ پادری عبداللہ آتھم اس کا کوئی جواب نہ دے سکا۔ اس اشتہار میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اس سلسلہ میں اپنا آخری الہام درج فرمایا کہ

’’خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ میں بس نہیں کروں گا جب تک قوی ہاتھ نہ دکھلادوں اور شکست خوردہ گروہ کی سب پر ذلّت ظاہر نہ کر دوں۔‘‘

آپ نے اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے یہ حتمی نوٹ لکھاکہ

’’اب اگرآتھم صاحب قسم کھا لیویں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے۔ اور اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا۔ جس نے حق کا اخفاء کرکے دنیا کو دھوکا دینا چاہا۔.....‘‘(اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ۔مندرجہ انوار الاسلام )

اس اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ کے بعد عبداللہ آتھم قسم کھانے پر آمادہ نہ ہوا بلکہ اس کاقسم سے انکار کمال کو پہنچ گیا۔ اس کے بعد حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے یکے بعد دیگرے تین اشتہار اور بھی دئیے جن میں سے آخری اشتہار ۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ ء کو دیا گیا۔ اس میں آپ ؑ نے آخری اور فیصلہ کن الفاظ تحریر فرمائے کہ

’’اگر پادری صاحبان ملامت کرتے کرتے ان ( آتھم) کو ذبح بھی کر ڈالیں، تب بھی وہ میرے مقابل پر قسم کھانے کے لئے ہرگز نہیں آئیں گے کیونکہ وہ دل میں جانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔ میری سچائی کے لئے یہ نمایاں دلیل کافی ہے کہ آتھم صاحب میرے مقابل پر میرے مواجہہ میں ہرگز قسم نہیں اٹھائیں گے اگرچہ عیسائی لوگ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں۔ اگر وہ قسم کھا لیں تو یہ پیشگوئی بلاشبہ دوسرے پہلو پر پوری ہو جائے گی۔ خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں۔‘‘(اشتہار۔۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ۲۰۴)

حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے آتھم کو قسم کھانے کے علاوہ نالش کرنے کی بھی ترغیب دی تھی، لیکن آ تھم نے نہ قسم کھائی اور نہ نالش کی اور اس طریق سے بتادیا کہ ضرور اس نے رجوع بحق کیا تھا اور چونکہ اس نے علانیہ طور پر زبان سے اس رجوع کا اظہار نہیں کیا اس لئے خدا نے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑا۔ اور اخفائے حق کی سزا میں آخری اشتہار سے جو ۳۰ دسمبر کو شائع ہوا، سات ماہ کے اندر گرفتِ الہٰی میں آ گیا اور ۲۶ جولائی ۱۸۹۶ ء کو حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کی سچائی اور عیسائیّت کی شکست کو ظاہر کر گیا۔

یہ پیشگوئی چونکہ رجوع الیٰ الحق کی شرط کے ساتھ مشروط تھی اس لئے اس نے جس حدّ تک اس شرط سے فائدہ اٹھایا، اس حدّ تک اسے بصورتِ موت ہاویہ میں گرنے سے مہلت مل گئی گو جب تک وہ زندہ رہا عملاًایک دوزخ میں ہی رہا۔ لیکن حق کو چھپانے کی وجہ سے بالآخر وہ خدا تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہ سکا اور پیشگوئی کی صداقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہوا بسزائے موت ہاویہ میں گرایا گیاِ ۔
مکمل تحریر >>

Sunday 25 January 2015

مرزا صاحب کے حج پر نہ جانے پر اعتراض

ایک شخص نے عرض کی کہ مخالف مولوی اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب حج کو کیوں نہیں جاتے؟

فرمایا:۔

یہ لوگ شرارت کے ساتھ ایسا اعتراض کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم دس سال مدینہ میں رہے۔ صرف دو دن کا راستہ مدینہ اور مکہ میں تھا مگر آپ نے دس سال میں کوئی حج نہ کیا۔ حالانکہ آپ سواری وغیرہ کا انتظام کر سکتے تھے۔ لیکن حج کے واسطے صرف یہی شرط نہیں کہ انسان کے پاس کافی مال ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہ ہو۔ وہاں تک پہنچنے اور امن کے ساتھ حج ادا کرنے کے وسائل موجود ہوں۔ جب وحشی طبع علماء اس جگہ ہم پر قتل کا فتویٰ لگا رہے ہیں اور گورنمنٹ کا بھی خوف نہیں کرتے تو وہاں یہ لوگ کیا نہ کریں گے لیکن ان لوگوں کو اس امر سے کیا غرض ہے کہ ہم حج نہیں کرتے۔ کیا اگر ہم حج کریں گے تو وہ ہم کو مسلمان سمجھ لیں گے؟ اور ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے؟ اچھا یہ تمام مسلمان علماء اوّل ایک اقرار نامہ لکھ دیں کہ اگر ہم حج کر آویں تو وہ سب کے سب ہمارے ہاتھ پر توبہ کر کے ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہمارے مرید ہو جائیں گے۔ اگر وہ ایسا لکھ دیں اور اقرار حلفی کریں تو ہم حج کر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے واسطے اسباب آسانی کے پیدا کر دے گا تاکہ آئندہ مولویوں کا فتنہ رفع ہو۔ ناحق شرارت کے ساتھ اعتراض کرنا اچھا نہیں ہے۔ یہ اعتراض ان کا ہم پر نہیں پڑتا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی پڑتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی صرف آخری سال میں حج کیا تھا۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ248)
مکمل تحریر >>

Saturday 24 January 2015

مرزا صاحب کے ریشمی ازار بند پہننے پر اعتراض کا جواب

معترضہ عبارت :
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صاحبزادے ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ  فرماتے ہیں:۔
’’والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعودعموماً ریشمی ازار بند استعمال فرماتے تھے کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا ، اس لئے ریشمی ازار بند رکھتے تھے تاکہ کھلنے میں آسانی ہواورگرہ بھی پڑجائے تو کھولنے میں دقت نہ ہو ، سوتی ازار بند میں آپ سے بعض اوقات گرہ پڑجاتی تھی تو آپ کو بڑی تکلیف ہوتی تھی ‘‘۔
(سیرۃ المہدی حصہ اول ص :142روایت 64)

جواب:۔
واضح ہونا چاہیے کہ بیماری کی صورت میں ریشم پہننا حرام نہیں ۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے بیماری کی صورت میں ریشم استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔

عَنْ أَنَسٍ قَالَ  رَخَّصَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ وَعَبْدِ الرَّحْمٰنِ فِي لُبْسِ الْحَرِيرِ لِحِكَّةٍ بِهِمَا
(بخاری کتاب اللباس )
ترجمہ :۔ حضرت انسؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم  ﷺ نے حضرت زبیر اورحضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنھما کو خارش کی وجہ سے ریشم پہننے کی اجازت دی۔

اورسیرت المہدی کی مندرجہ بالا روایت کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام  کو کثرت پیشاب کی شکایت تھی ۔آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا۔اسی لئے ریشمی ازار بند رکھتے تھے تاکہ کھلنے میں آسانی ہواور گرہ بھی پڑ جائے تو کھلنے میں دقت نہ ہو  ۔
مکمل تحریر >>

Friday 23 January 2015

آج سے میں احمدی بھی ہوں اور مرزائی بھی

مولانا دوست محمد شاہد صاحب ایک واقعہ درج فرماتے ہیں کہ
'' یہ عاجز دفتری کام میں مصروف تھا کہ یکایک حضرت مولانا ( مولانا عبدالمالک خاں ) کی السلام علیکم کی آواز سنائی دی اور آپ ایک باریش بزرگ کے ساتھ کمرہ شعبہ تاریخ میں تشریف لائے اور فرمایا میں انہیں تم سے ملانے کے لیے لایا ہوں ۔ میرے معزز مہمان کے پاس وقت بہت تھوڑا ہے ۔ کوئی ایک مختصر سی بات سنا دیجیے ۔ میں نے ان بزرگ پر نگاہ ڈالی تو حق تعالیٰ کی طرف سے میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ یہ سیال شریف والوں کے مرید ہیں مگر ہیں بہت شریف مزاج ۔ یہ ذہن میں آتے ہی خاکسار نے عرض کیا خدا کے فضل و کرم سے آپ بھی آنحضرتﷺ کو احمد یقین کرتے ہیں لہٰذا میری ادب کے ساتھ یہ درخواست ہے کہ آپ اپنے تئیں ہمیشہ احمدی کہا کریں ۔ جھٹ بولے میں احمدی تو ہوں مرزائی ہرگز نہیں ۔ یہ سنتے ہی میں نے انیسویں صدی کے نامور چشتی بزرگ حضرت خواجہ شمس الدین ؒ سیال شریف کے حسب ذیل ارشادات و ملفوظات عالیہ ان کے مطالعہ کے لیے سامنے رکھ دئیے ۔ ان میں لکھا تھا :

'' آپ کے پوتے صاحب زادہ محمد امین صاحب آئے ۔ آپ نے پوچھا اے بیٹے کون سی سورت پڑھتے ہو ؟ انہوں نے کہا سورتِ نور ۔ آپ نے تبسم فرماتے ہوئے یہ شعر   ؎
صورت مرزے یار دی ساری سورت نور
والشّمس ، والضحٰی  پڑھیا  رب غفور 
بندہ نے عرض کیا مرزا سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا ۔ رسولِؐ خدا ۔ اور تینوں مذکورہ سورتیں آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔ پھر فرمایا ۔ عاشقوں کا دستور ہے کہ وہ اپنے معشوق کو مرزا یا رانجھا کہہ  کر یاد کیا کرتے ہیں ۔ ''
( مرآت العاشقین  ، صفحہ ۲۷۲ )


وہ بزرگ یہ عبارت پڑھتے ہی پورے جوش سے فرمانے لگے ۔ آج سے میں احمدی بھی ہوں اور مرزائی بھی اور ساتھ ہی بتایا کہ میرا مسلک چشتی ہے اور میں سیال شریف سے تعلق ارادت رکھتا ہوں ۔ ''
مکمل تحریر >>

Thursday 22 January 2015

کتاب تفسیر ابن عباس کی حقیقت

"تنوير المقباس من تفسير ابن عباس " کے نام سے  مشہور تفسیر سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے ثابت نہیں ہے بلکہ   یہ جھوٹے طریق سے مروی اور من گھڑت تفسیر ہے جسے  کذب بیانی کرتے ہوئے سیدنا ابن عباسؓ سے منسوب کردیا گیا ہے۔ اس تفسیر کے شروع میں اس کی جو سند لکھی ہوئی ہے اس میں کلبی کا ابو صالح اور ابو صالح کا سیدنا ابن عباسؓ سے روایت کرنا ظاہر کیا گیا ہے اور یہ طریق سب سے زیادہ بدنام ترین اور جھوٹے راویوں پر مبنی ہے ۔


اب علماء کی اس سند کے بارے میں رائے آپ کو دکھاتے ہیں ، اس بارے میں بہت سے عربی حوالہ جات ہیں لیکن ہم نے کوشش کی ہے کہ صرف اردو حوالہ جات کو آپ کی آسانی کے لیے پیش کیا جائے ۔
امام جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر درمنثور کے آخر پر اس سند کے بارے میں یوں بیان فرمایا ہے ۔
'' کلبی کو ( علماء جرح و تعدیل نے) کذب سے متہم کیا ہے۔ وہ بیمار ہوئے ۔ تو انہوں نے اپنی حالت مرض میں اپنے اصحاب کو بتایا۔جو کچھ بھی میں نے تمہیں ابوصالح سے بیان کیا ہے وہ سب جھوٹ ہے۔ '' ( تفسیر در منثور مترجم جلد ششم ، صفحہ 1203 )


بریلوی مسلک کے مولانا احمد رضاخان صاحب  نے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے لکھا ہے 
'' یہ تفسیر کہ منسوب بسیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہے نہ اُن کی کتاب ہے نہ اُن سے ثابت، یہ بسند محمد بن  مروان عن الکلبی عن ابی صالح مروی ہے اور ائمہ دین اس سند کو فرماتے ہیں کہ یہ سلسلۂ کذب ہے۔" (فتاویٰ رضویہ جلد 29، صفحہ 396)


اور دیوبندی مسلک کے مولانا محمد تقی عثمانی صاحب، اپنی معروف کتاب "علوم القرآن" میں لکھتے ہیں
"ہمارے زمانے  میں ایک کتاب"تنویر المقباس فی تفسیر ابن عباس" کے نام سے شائع ہوئی ہے جسے آج کل عموماً "تفسیر ابن عباس" کہا اور سمجھا جاتا ہے، اور اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو گیا ہے، لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں کیونکہ یہ کتاب محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباسؓ کی سند سے مروی ہے جسے محدثین نے ''سلسلۃ الکذب'' (جھوٹ کا سلسلہ) قرار دیا ہے لہٰذا اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔'' ( علوم القرآن ، صفحہ 458 )


اسی طرح غلام احمد حریری صاحب نے بھی اپنی کتاب '' تاریخ تفسیرومفسرین '' کے صفحہ 81 پر تفسیر ابن عباس کی سند کی حقیقت واضح کر کے اسے غیر معتبر ثابت کیا ہے۔


مکمل تحریر >>

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کے الزام کا جواب

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کے الزام کا جواب از ہادی علی چوہدری ۔۔

مکمل تحریر >>