Thursday 22 January 2015

کتاب تفسیر ابن عباس کی حقیقت

"تنوير المقباس من تفسير ابن عباس " کے نام سے  مشہور تفسیر سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے ثابت نہیں ہے بلکہ   یہ جھوٹے طریق سے مروی اور من گھڑت تفسیر ہے جسے  کذب بیانی کرتے ہوئے سیدنا ابن عباسؓ سے منسوب کردیا گیا ہے۔ اس تفسیر کے شروع میں اس کی جو سند لکھی ہوئی ہے اس میں کلبی کا ابو صالح اور ابو صالح کا سیدنا ابن عباسؓ سے روایت کرنا ظاہر کیا گیا ہے اور یہ طریق سب سے زیادہ بدنام ترین اور جھوٹے راویوں پر مبنی ہے ۔


اب علماء کی اس سند کے بارے میں رائے آپ کو دکھاتے ہیں ، اس بارے میں بہت سے عربی حوالہ جات ہیں لیکن ہم نے کوشش کی ہے کہ صرف اردو حوالہ جات کو آپ کی آسانی کے لیے پیش کیا جائے ۔
امام جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر درمنثور کے آخر پر اس سند کے بارے میں یوں بیان فرمایا ہے ۔
'' کلبی کو ( علماء جرح و تعدیل نے) کذب سے متہم کیا ہے۔ وہ بیمار ہوئے ۔ تو انہوں نے اپنی حالت مرض میں اپنے اصحاب کو بتایا۔جو کچھ بھی میں نے تمہیں ابوصالح سے بیان کیا ہے وہ سب جھوٹ ہے۔ '' ( تفسیر در منثور مترجم جلد ششم ، صفحہ 1203 )


بریلوی مسلک کے مولانا احمد رضاخان صاحب  نے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے لکھا ہے 
'' یہ تفسیر کہ منسوب بسیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہے نہ اُن کی کتاب ہے نہ اُن سے ثابت، یہ بسند محمد بن  مروان عن الکلبی عن ابی صالح مروی ہے اور ائمہ دین اس سند کو فرماتے ہیں کہ یہ سلسلۂ کذب ہے۔" (فتاویٰ رضویہ جلد 29، صفحہ 396)


اور دیوبندی مسلک کے مولانا محمد تقی عثمانی صاحب، اپنی معروف کتاب "علوم القرآن" میں لکھتے ہیں
"ہمارے زمانے  میں ایک کتاب"تنویر المقباس فی تفسیر ابن عباس" کے نام سے شائع ہوئی ہے جسے آج کل عموماً "تفسیر ابن عباس" کہا اور سمجھا جاتا ہے، اور اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو گیا ہے، لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں کیونکہ یہ کتاب محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباسؓ کی سند سے مروی ہے جسے محدثین نے ''سلسلۃ الکذب'' (جھوٹ کا سلسلہ) قرار دیا ہے لہٰذا اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔'' ( علوم القرآن ، صفحہ 458 )


اسی طرح غلام احمد حریری صاحب نے بھی اپنی کتاب '' تاریخ تفسیرومفسرین '' کے صفحہ 81 پر تفسیر ابن عباس کی سند کی حقیقت واضح کر کے اسے غیر معتبر ثابت کیا ہے۔


0 comments: