Sunday, 15 March 2015

عبداللہ آتھم کی موت سے متعلق پیشنگوئی



پادری عبداللہ آتھم وہ بدبخت شخص ہے جس نے اسلام کو اور بانی اسلام ﷺ کو نعوذ باللہ جھوٹا ثابت کرنے کے لئے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے ساتھ مناظرہ کیا تھا، جو ’’ جنگِ مقدّس‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع شدہ ہے۔ اس مناظرے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام اور بانی اسلام کی حقّانیت کو عقلی ، نقلی ، تاریخی ،واقعاتی اور روحانی دلائل کے ساتھ کما حقّہٗ ثابت فرمایا۔اس طرح اسلام کو ایک کھلا کھلا غلبہ نصیب ہوا۔اسی شکست خوردہ پادری عبداللہ آتھم نے ،جس کی وکالت آج ڈاکٹر راشد علی ،اور اس کے ہمنواوغیرہ کرتے ہیں ، ایک کتاب ’’اندرونہ بائیبل‘‘ بھی لکھی تھی جس میں اس نے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمّد مصطفی ﷺ کو ( معاذ اللہ) دجّال لکھا تھا۔ اس پر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اپنے آقا کی غیرت میں تڑپ کر خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر ایک پیشگوئی کا انکشاف فرمایا۔ آپ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’ آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے کہ جبکہ میں نے بہت تضرّع اور ابتہال سے جنابِ الہٰی میں دعا کی کہ تُو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ سو اس نے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلّت پہنچے گی۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ اور جو شخص سچ پر ہے اور سچّے خدا کو مانتا ہے اس کی عزّت ظاہر ہو گی۔....‘‘ (جنگِ مقدّس۔ آخری پرچہ۔روحانی خزائن جلد ۶صفحہ۲۹۱،۲۹۲)

الہامی الفاظ ’’ہاویہ میں گرایا جائے گا‘‘ کا مفہوم اجتہاد کی رو سے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے یہ سمجھا کہ عبداللہ آتھم بسزائے موت ہاویہ( دوزخ) میں گرایا جائے گا۔ چنانچہ اسی پیشگوئی کے آخر میں آپ فرماتے ہیں۔

’’ میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پرہے وہ آج کی تاریخ سے پندرہ ماہ میں بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ مجھے ذلیل کیا جائے۔ روسیاہ کیا جائے۔ میرے گلے میں رسّہ ڈال دیا جائے۔ مجھ کو پھانسی دی جائے۔ میں ہر سزا اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔‘‘

یہ پیشگوئی ایسی پر ہیبت تھی کہ پادری عبد اللہ آتھم لرز کر رہ گیا۔یہ اس کی طرف سے رجوع الیٰ الحق کا آغاز تھا۔ اور اس کے بعد، مرتے دم تک اس نے ایک لفظ بھی اسلام یا آنحضرت ﷺ کے خلاف نہ لکھا۔اس نے اس حد تک رجوع الیٰ الحق کیا کہ وہ دلی طور پر عیسائیوں کے عقیدہ ’ الوہیّتِ مسیح ‘ سے بھی متفق نہ رہا۔ چنانچہ اس نے اخبار’’ نور افشاں‘‘ ۲۱ ستمبر ۱۸۹۴ء کی اشاعت میں یہ اعلان بھی شائع کر ایا کہ وہ عیسائیوں کے عقیدہ ابنیّت و الوہیّت کے ساتھ متّفق نہیں۔ اس کے خوف سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کو بھی اطلاع دی۔ جس کا ذکر آپ ؑ نے اپنی کتاب ’’ انوار الاسلام صفحہ ۲،۳‘‘ پر تحریر فرمایا۔

پس عبداللہ آتھم نے پیشگوئی کے الہامی الفاظ ’’ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے‘‘ سے فائدہ اٹھایا اسلئے خدا تعالیٰ نے اسے مہلت دی اور وہ پندرہ ماہ کے اندر نہ مرا۔ اس عرصہ میں وہ انتہائی ہمّ و غم میں مبتلا رہا یہانتک کہ اس پر دیوانہ پن کی حالت طاری ہو گئی اور وہ مسلسل اسی اذیّت ناک حالت میں رہا۔ اس کی اس حالت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’الہامی پیشگوئی کے رعب نے اس کے دل کو ایک کچلا ہوا دل بنا دیا۔ یہانتک کہ وہ سخت بے تاب ہو ا اور شہر بشہر اور ہر ایک جگہ ہراساں اور ترساں پھرتا رہا اور اس مصنوعی خدا پر اس کا توکّل نہ رہا جس کو خیالات کی کجی اور ضلالت کی تاریکی نے الوہیّت کی جگہ دے رکھی ہے۔ وہ کتّوں سے ڈرا اور سانپوں کا اس کو اندیشہ ہوا اور اندر کے مکانوں سے بھی اس کو خوف آیا اور اس پر خوف اور وہم اور دلی سوزش کا غلبہ ہوا اور پیشگوئی کی پوری ہیبت اس پر طاری ہوئی اور وقوع سے پہلے ہی اس کا اثر اس کو محسوس ہوا اور بغیر اس کے کہ کوئی اس کو امرتسر سے نکالے آپ ہی ہراسان و ترسان و پریشان اور بے تاب ہو کر شہر بشہر بھاگتا پھرا۔ اور خدا نے اس کے دل کارام چھین لیا اور پیشگوئی سے سخت متاثر ہو کر سراسیموں اور خوفزدوں کی طرح جا بجا بھٹکتا پھرا اور الہامِ الہٰی کا رعب اور اثر اس کے دل پر ایسا مستولی ہوا کہ راتیں ہولناک اور دن بیقراری سے بھر گئے۔....... اس کے دل کے تصوّروں نے عظمتِ اسلامی کو ردّ نہ کیا بلکہ قبول کیا۔ اس لئے وہ خدا جو رحیم و کریم اور سزا دینے میں دھیما ہے اور انسان کے دل کے خیالات کو جانچتا اور اس کے تصوّرات کے موافق اس سے عمل کرتا ہے اس نے اس کو اس صورت پر بنایا جس صورت میں فی الفور کامل ہاویہ کی سزا یعنی موت بلا توقف اس پر نازل نہ ہوتی۔ اور ضرور تھا کہ وہ کامل عذاب اس وقت تک تھما رہے جب تک کہ وہ بے باکی اور شوخی سے اپنے ہاتھ سے اپنے لئے ہلاکت کے اسباب پیدا نہ کرے اور الہامِ الہٰی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا تھا کیونکہ الہامی عبارت میں شرطی طور پر عذابِ موت کے آنے کا وعدہ تھا ۔نہ مطلق بلاشرط وعدہ۔‘‘ ( انوار الاسلام ۔روحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۴، ۵)

نیز تحریر فرمایا

’’یہ غیر ممکن ہے کہ خدا اپنے قراردادہ وعدہ کو بھول جائے کیونکہ شرائط کا لحاظ رکھنا صادق کے لئے ضروری ہے اور خدا اصدق الصادقین ہے۔ ہاں جس وقت مسٹر عبداللہ آتھم اس شرط کے نیچے سے اپنے تئیں باہر کرے اور اپنے لئے شوخی اور بے باکی سے ہلاکت کے سامان پیدا کرے تو وہ دن نزدیک آ جائیں گے اور سزائے ہاویہ کامل طور پر نمودار ہوگی اور یہ پیشگوئی عجیب طور پر اپنا اثر دکھائے گی۔‘‘( انوار الاسلام ۔روحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۵)

ان تحریروں سے یہ بات بالکل کھل جاتی ہے کہ عبداللہ آتھم نے پیشگوئی میں مذکور شرط ’’ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے‘‘ سے فائدہ اٹھایا اور ابتدائی طور پر خدا تعالیٰ کے رحم کے نیچے آگیا۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اس کو اس صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے غیر مبہم الفاظ میں تنبیہہ کردی تھی کہ اب اس پیشگوئی کی معیّن اور آخری صورت یہ ہے کہ بے باکی اور شوخی کے ظہور پر یعنی رجوع الیٰ الحق کے ماننے سے انکار کرنے پر یا رجوع الیٰ الحق کی صورت کو کسی تدبیر سے مشتبہ بنانے کی صورت میں اس کی ہلاکت کے دن نزدیک آجائیں گے اور پھر موت کے ذریعہ سزائے ہاویہ کا وہ جلد شکار ہو جائے گا۔ اور پیشگوئی کا اثر غیر معمولی رنگ میں ظاہر ہو گا۔گویا اب یہ پیشگوئی پادری ڈپٹی عبداللہ آتھم کی بے باکی اور شوخی سے معلّق ہو گئی۔

ادھر حالات یہ پیدا ہوئے کہ جب عبداللہ آتھم رجوع الیٰ الحق کی شرط سے فائدہ اٹھا کر پندرہ ماہ کے اندر مرنے سے بچ گیا تو عیسائیوں نے اپنی جھوٹی فتح کا نقارہ بجایا، جلوس نکالے اور خوب شور وشرّ اور ہنگامہ آرائی کی اور مسیحِ موعود علیہ السلام کی شان میں گستاخانہ رویّہ اختیار کیا اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی اور آپ ؑ سے بغض رکھنے والے راشد علی جیسے لوگ بھی ان کے ہمنوا بن گئے۔ ان حالات میں خدا تعالیٰ سے الہام پا کر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے عبداللہ آتھم کو مباہلہ کا چیلنج دیا اور اس کے ساتھ ایک ہزار روپیہ کا انعام بھی رکھا۔اس دعوتِ مباہلہ میں آپ ؑ نے اسے یہ بھی لکھا کہ اگر وہ

’’...... تین مرتبہ ان الفاظ کا اقرار کریں کہ اس پیشگوئی کے عرصہ میں اسلامی رعب ایک طرفۃ العین کے لئے بھی میرے دل پر نہیں آیا اور میں اسلام اور نبی اسلام ؐکو نا حق سمجھتا رہا اور سمجھتاہوں اور صداقت کا خیال تک نہیں آیا اور حضرت عیسٰی ؑ کی ابنیّت اور الوہیّت پر یقین رکھتا رہا اور رکھتاہوں اور ایسا ہی یقین جو فرقہ پروٹسٹنٹ عیسائی رکھتے ہیں اور اگر میں نے خلافِ واقعہ کہا ہے اور حقیقت کو چھپایا ہے تو اے قادر! مجھ پر ایک برس میں عذابِ موت نازل کر۔ اس دعا پر ہم آمین کہیں گے اور اگر دعا کا ایک سال تک اثر نہ ہوا اور وہ عذاب نازل نہ ہوا جو جھوٹوں پر نازل ہوتا ہے تو ہم ہزار روپیہ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کو بطور تاوان دیں گے۔‘‘ (انوارالاسلام ۔صفحہ ۶)

یہ ایک فیصلہ کن اور جامع پیشکش تھی جس سے نہ فرار کی کوئی راہ اس کے لئے باقی رہتی تھی اور نہ حق کو چھپانے کا کوئی حیلہ۔ اس پیشکش کے آخر میں آپؑ نے یہ بھی فرمایا

’’پس یقیناً سمجھو کہ اسلام کو فتح حاصل ہوئی اور خدا تعالیٰ کا ہاتھ بالا ہوا اور کلمہ اسلام اونچا ہوا اور عیسائیت نیچے گری۔‘‘

پادری عبداللہ آتھم نے اس سے گریز کی راہ اختیار کی تو آپ نے اسے دو ہزار روپیہ کا چیلنج دیا۔ اس کو بھی قبول کرنے کی ا س میں جرات نہ ہوئی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنے رجوع الیٰ اللہ کو ظاہر کرنے کی بھی ہمّت نہ کر سکا۔ اس پر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اس کو تیسرا چیلنج دیا جوتین ہزار روپیہ کا تھا۔اس میں آپ نے اس پر حجّت تمام کرنے کے لئے اسے مؤکّد بعذاب قسم کھانے کی بھی تحریض کی۔

پادری عبداللہ آتھم نے اس چیلنج پر اپنے دو عذر پیش کئے۔ اوّل یہ کہ قسم کھانا ان کے مذہب میں ممنوع ہے۔ دوم یہ کہ پیشگوئی کے زمانہ میں وہ ڈرے تو ضرور ہیں مگر پیشگوئی کے اثر سے نہیں بلکہ اس لئے کہ کہیں ان کو قتل نہ کر دیا جائے۔

حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اس کے دونوں عذرات اپنے ایک اور اشتہار میں جس میں چار ہزار انعام دینے کا وعدہ تھا ، توڑ دئیے۔ پادری عبداللہ آتھم اس کا کوئی جواب نہ دے سکا۔ اس اشتہار میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اس سلسلہ میں اپنا آخری الہام درج فرمایا کہ

’’خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ میں بس نہیں کروں گا جب تک قوی ہاتھ نہ دکھلادوں اور شکست خوردہ گروہ کی سب پر ذلّت ظاہر نہ کر دوں۔‘‘

آپ نے اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے یہ حتمی نوٹ لکھاکہ

’’اب اگرآتھم صاحب قسم کھا لیویں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے۔ اور اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا۔ جس نے حق کا اخفاء کرکے دنیا کو دھوکا دینا چاہا۔.....‘‘(اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ۔مندرجہ انوار الاسلام )

اس اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ کے بعد عبداللہ آتھم قسم کھانے پر آمادہ نہ ہوا بلکہ اس کاقسم سے انکار کمال کو پہنچ گیا۔ اس کے بعد حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے یکے بعد دیگرے تین اشتہار اور بھی دئیے جن میں سے آخری اشتہار ۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ ء کو دیا گیا۔ اس میں آپ ؑ نے آخری اور فیصلہ کن الفاظ تحریر فرمائے کہ

’’اگر پادری صاحبان ملامت کرتے کرتے ان ( آتھم) کو ذبح بھی کر ڈالیں، تب بھی وہ میرے مقابل پر قسم کھانے کے لئے ہرگز نہیں آئیں گے کیونکہ وہ دل میں جانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔ میری سچائی کے لئے یہ نمایاں دلیل کافی ہے کہ آتھم صاحب میرے مقابل پر میرے مواجہہ میں ہرگز قسم نہیں اٹھائیں گے اگرچہ عیسائی لوگ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں۔ اگر وہ قسم کھا لیں تو یہ پیشگوئی بلاشبہ دوسرے پہلو پر پوری ہو جائے گی۔ خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں۔‘‘(اشتہار۔۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ۲۰۴)

حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے آتھم کو قسم کھانے کے علاوہ نالش کرنے کی بھی ترغیب دی تھی، لیکن آ تھم نے نہ قسم کھائی اور نہ نالش کی اور اس طریق سے بتادیا کہ ضرور اس نے رجوع بحق کیا تھا اور چونکہ اس نے علانیہ طور پر زبان سے اس رجوع کا اظہار نہیں کیا اس لئے خدا نے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑا۔ اور اخفائے حق کی سزا میں آخری اشتہار سے جو ۳۰ دسمبر کو شائع ہوا، سات ماہ کے اندر گرفتِ الہٰی میں آ گیا اور ۲۶ جولائی ۱۸۹۶ ء کو حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کی سچائی اور عیسائیّت کی شکست کو ظاہر کر گیا۔

یہ پیشگوئی چونکہ رجوع الیٰ الحق کی شرط کے ساتھ مشروط تھی اس لئے اس نے جس حدّ تک اس شرط سے فائدہ اٹھایا، اس حدّ تک اسے بصورتِ موت ہاویہ میں گرنے سے مہلت مل گئی گو جب تک وہ زندہ رہا عملاًایک دوزخ میں ہی رہا۔ لیکن حق کو چھپانے کی وجہ سے بالآخر وہ خدا تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہ سکا اور پیشگوئی کی صداقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہوا بسزائے موت ہاویہ میں گرایا گیاِ ۔

0 comments: