Wednesday, 9 November 2016

علامہ اقبال اور ضرور ت مصلح


تحریر فرمودہ: مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل (مرحوم )

علامہ اقبال پروفیسر نکلسن کو اپنے مکتوب میں رقمطراز ہیں :
’’ہمیں ایک ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشری مسائل کی پیچیدگیاں سلجھائے  اور بین الملّی اخلاق کی بنیاد مستحکم و استوار کردے‘‘۔
( دیکھئے مکاتیب اقبال صفحہ ۴۶۰ تا۴۶۴)  
اور پھر اسی خط میں پروفیسر مکینزی کی کتاب انٹروڈکشن ٹو سوشیالوجی  کے دو پیراگراف لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ دو پیراگراف کس قدر صحیح ہیں۔ انہیں لفظ بلفظ نقل کردیتاہوں:
(۱)’’غالباً ہمیں پیغمبر  سے بھی زیادہ عہد نو کے شاعر کی ضرورت ہے  یا ایک ایسے شخص کی جوشاعری اور پیغمبری  کی دوگونہ صفات  سے متصف ہو‘‘۔
  (۲) ’’ہمیں ایسے شخص کی ضرورت ہے  جو درحقیقت روح القدس کاسپاہی ہو‘‘ ۔
یہ پیراگراف درج کرنے کے بعد علامہ اقبال تحریر فرماتے ہیں  :
’’میرے افکار  کامطالعہ کریں ۔ ہمارے عہدنامے اور پنچائتیں جنگ و پیکار   کو صفحہ ہستی سے  محو نہیں کر سکتیں کوئی بلند مرتبہ شخصیت ہی ان مصائب کا خاتمہ کر سکتی ہے اور اس شعر میں مَیں نے اسی کو مخاطب کیاہے   ؎
باز در عالم بیار ایاّمِ صلح
جنگجوئیاں را بدہ پیغامِ صلح
(مکاتیب اقبال جلد ۱ صفحہ ۴۶۰ تا ۴۶۴)   
کہ پھر دنیا میں صلح کے ایا م لا اورجنگجو قوموں کو صلح کا پیغام دے ۔
        پھر مکاتیب اقبال جلد ۱ صفحہ ۴۱ میں لکھتے ہیں :
’’کاش کہ مولانا  نظامی کی دعا اس زمانے میں مقبول ہو اور رسول اللہ صلعم پھرتشریف لائیں اور ہندی مسلمانوں پر اپنا دین بے نقاب کریں‘‘۔
یہ ضرورت نبوت کے قائل ہونے کا علامہ اقبال جیسے  آدمی کی طرف سے واضح اعتراف ہے  ۔ ان کے نزدیک  دنیامیں روحانی انقلاب  پیدا کرنا علماء کے بس کی بات نہیں کیونکہ اپنے زمانہ کے علماء   کی حالت کا نقشہ وہ یوں کھینچتے ہیں  ؎
مولوی بیگانہ از اعجازِ عشق
 ناشناس نغمہ ہائے سازِ عشق
(اسرار ورموز صفحہ ۶۸)   
مولوی عشق کے معجزے سے بیگانہ ہے اور عشق کے ساز کے نغموں سے ناشناس ہے ۔ واعظوں،  شیوخ اور صوفیاء کا حال دگرگوں یوں بیان کرتے ہیں     ؎
شیخ در عشقِ بتاں اسلام باخت
رشتۂ تسبیح را  زنّار ساخت
(اسرار ورموز صفحہ ۷۹)    
شیخ نے بتانِ مجازی کے عشق میں اسلام  کو ہار دیاہے اور تسبیح کے رشتہ کو زناّر بنا دیاہے ۔
واعظاں ہم صوفیاں منصب پرست
اعتبارِ ملّتِ بیضا شکست
 واعظ اور صوفی منصب پرست ہو گئے ہیں اور انہوں نے ملتِ بیضا کااعتبار توڑ دیاہے۔
واعظ ما چشم بر بتخانہ دوخت
مفتی ٔ دینِ مبیں فتویٰ فروخت
ہمارے واعظ نے نگاہ بتخانہ پرجمادی ہے تو مفتیٔ دین  نے فتویٰ فروخت کرنا شروع کر دیاہے۔
چیست یاراں بعد ازیں تدبیرِ ما
رخ سُوئے میخانہ دارد پیر ما 
اے دوستو ! اس کے بعد اب ہماری کیا تدبیر  ہو سکتی ہے  ۔ ہمارے پیر صاحب تومیخانہ کی طرف رخ کئے ہوئے ہیں ۔(اسرار و رموز صفحہ ۷۹)
اس کا علاج یہی تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی توجہ روحانی سے آپؐکاکوئی ظل اور بروز ظاہر ہوکر روحانی انقلاب کی نئے سرے سے  بنیاد رکھتا ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے عین وقت پر مسیح موعود کو بھیج کر  امت محمدیہ کی دستگیری  فرمائی ۔ حضرت مرزا صاحب ؑ فرماتے ہیں  ؎
وقت تھا وقت ِ مسیحا  نہ کسی اور کاوقت
میں نہ آتاتوکوئی اور ہی آیا ہوتا
(ماخوذ از کتاب ’’شان خاتم النبیین‘‘ صفحہ ۸۱۔۸۳)





مکمل تحریر >>

Tuesday, 8 November 2016

احمدیت اور اس کے اصول



(تحریر : مکرم مولانا عبدالرحمن صاحب مبشر (مرحوم) مصنّف کتاب ’ بشارات رحمانیّہ‘)


احمدیت خدا کا ایک قائم کردہ سلسلہ ہے جو اسی اصل اسلام کا دوسرا نام ہے۔ جسے آج سے تیرہ سو سال قبل ہادی برحق حضرت محمد عربی  ﷺ (فداہ روحی) نے خدا کے حکم سے قائم کیاتھا۔ اگر یہ سلسلہ جیسا کہ سمجھا جاتا ہے نعوذباللہ اسلام کی ضد یاا س کا مخالف ہوتا تو اس کے ایسے اصول ہوتے جو اسلام کے سراسر خلاف ہوتے۔ جیسا کہ بہائیت اور عیسائیت وغیرہ کے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں۔
 اسلام کے پانچ بڑے اصول جیسا کہ آپ کو معلوم ہے یہ ہیں۔ (اول) کلمہ شہادت یعنی گواہی دینا کہ اللہ ایک ہے اور محمد ﷺاس کے رسول ہیں۔ (دوم) نماز کا قائم کرنا۔ (سوم) زکوٰۃ دینا (چہارم) رمضان شریف کے روزے رکھنا(پنجم) اگر توفیق ہو تو حج کرنا۔ 
اسی طرح اسلام نے جن باتوں پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے وہ یہ ہیں (1)اللہ تعالیٰ پر(2)اس کے فرشتوں پر(3)اس کے رسولوں پر (4) اس کی کتابوں پر (5) بعث بعد الموت پر (6) اور تقدیر پریقین رکھنا۔ یہی اصل الاصول ہیں۔جو اعتقادات اور اعمال کا مرکزی دائرہ ہیں۔ باقی تمام فروعات ہیں جو اِن کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ 
جماعت احمدیہ کے بعینہٖ بغیر کسی قسم کے فرق کے مذکورہ بالا عقائد ہیں اور ایسے شخص کے لئے جوان عقائد پر سختی سے پابند نہ ہو جماعت احمدیہ کے دروازے بکلی بند ہیں۔ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ اپنی کتاب ’’ایام الصلح‘‘ کے صفحہ 87پر فرماتے ہیں۔
 ’’اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور سیدنا حضرت محمدمصطفی ﷺ اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں۔ کہ جو کچھ اللہ جلّ شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرّہ کم کرے یا ایک ذرّہ زیادہ کرے یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے۔ اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لاالہ الا اللّہ محمّد رسول اللّہ اور اس پر مریں اور تمام انبیاء علیہم السلام اور تمام کتابوں پر جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ایمان لاویں اور صوم وصلوٰۃ او زکوٰۃ وحج اور اسی طرح خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں۔ غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالح کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا۔ اور وہ امور جواہل سنت کی اجماع سے اسلام کہلاتے ہیں۔ ان سب کا ماننا فرض ہے اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں۔ کہ یہی ہمارا مذہب ہے۔‘‘ 
چنانچہ جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے اسلام کے تمام اصولوں پر عملی رنگ میں سختی سے کاربند ہے اور انہیں اصولوں کو دنیا میں رائج کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ مخالفین اسلام کی دشمنی کا باعث بھی یہی ہے کہ یہ جماعت انہیں اپنے راستے میں روڑا نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ باقی تمام اسلامی جماعتوں کو چھوڑ کر صرف اور صرف اس جماعت کے درپے آزار نظر آتے ہیں۔ اور جہاں کہیں اس جماعت سے کسی قسم کا مقابلہ ہو تو تمام غیر مسلم جماعتیں اس کے خلاف محاذ میں جمع ہوتی ہیں۔ پس یہ بات بھی اس جماعت کے صحیح اسلامی جماعت ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ مذکورہ بالا حوالہ سے آپ پر واضح ہو گیا ہوگا کہ جماعت احمدیہ صحیح معنوں میں اسلامی جماعت ہے اور مخالفین احمدیت کا اسے اسلام کے خلاف قرار دینا سراسر بہتان اور ظلمِ عظیم ہے۔ 
جماعت احمدیہ کے مخصوص عقائد جو اسے دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتے ہیں یہ ہیں۔
 (اول) اس جماعت کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کے متعلق قرآن کریم میں رسولا الیٰ بنی اسرائیلآیا ہے وہ فوت ہو چکے ہیں۔ وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئیں گے اور اس عقیدہ کی بنیاد قرآن و حدیث اور تاریخی ثبوتوں پر ہے۔ 
(دوم) حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانے میں مامور ہو کر آئے ہیں اور آپ ہی وہ مسیح موعود ہیں۔ جن کی پیشگوئی احادیث میں آئی ہے۔ بلکہ ادیان کل کے موعود ہیں۔ 
(سوم) آپ اس صدی کے مجدد ہیں اور آنحضرت ﷺ کا فرمان کہ ان اللّٰہ یبعث لہذہ الامۃ علیٰ رأسکل مائۃ سنۃمن یجدد لہا دینھا (ابن ماجہ) یعنی اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت میں ایک شخص کھڑا کرے گا ۔ جو اس دین کی تجدید کرے گا۔ یہ پیشگوئی آنجنابؐ کی جس طرح گذشتہ صدیوں میں پوری ہوئی۔ اسی طرح اب بھی ہو گئی ہے ۔ اورہمیشہ ہوتی رہے گی۔
 (چہارم) آنحضرت خاتم النبیین ہیں۔ یعنی آپ ہی کے ذریعہ سے اب انسان تمام کمالات روحانیہ حاصل کر سکتا ہے۔ جس طرح آپ ؐپر نبوت ختم ہے اسی طرح ولایت، کرامت، شرافت، بلکہ انسانیت بھی آپ ؐ پر ختم ہے اور یہ تمام کمالات جو بنی نوع کی ذاتی اصلاح یا دوسروں کی اصلاح و درستگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب آپ ہی کے ذریعہ اور پیروی سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ 
چنانچہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے جہاں کہیں نبوت یا رسالت کے الفاظ اپنے متعلق استعمال کئے ہیں وہاں اس بات کو ہر جگہ واضح کیا ہے کہ یہ تمام کمالات مجھے اسی منبع فیض وبرکات سے حاصل ہوئے ہیں جن کا نام نامی اسم گرامی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہے حضور اپنی کتاب ’’حقیقۃ الوحی‘‘ کے صفحہ 116پر فرماتے ہیں۔
 ’’ وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذرّیت شیطان ہے۔ کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیاگیا ہے جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے ہم کافر نعمت ہوںگے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے پائی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں۔ اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منوّر رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں۔ ‘‘ 
پس آپ کی نبوت آنحضرت ؐ کی نبوت کی غیر نہیں اور خاتم النبیین کے اعلیٰ اعزاز کی حقیقت واضح کرنے والی ہے۔ 
(پنجم) قرآن کریم میں کوئی حکم یا آیت منسوخ نہیں اس کا ایک ایک حرف اسی طرح قابل عمل ہے جس طرح وہ قابل تلاوت ہے۔
 (ششم) خدا تعالیٰ اب بھی اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے جیسا کہ پہلے کیا کرتا تھا۔ اور اب بھی وہ اپنے برگزیدہ لوگوں کو دنیا کی طرف مصلح بنا کر بھیجتا ہے جیسا کہ پہلے بنا کر بھیجا کرتا تھا جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مَنَ الْمَلٰئِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ اللہ تعالیٰ چنتا ہے فرشتوں اور انسانوں میں سے رسول۔
 (ہفتم) اسلام کی تعلیم اپنی صداقت اور دلائل کے رو سے لوگوں کے دلوں کو فتح کرے گی اس کیلئے ظاہری زور یعنی تلوار چلانے کی ضرورت نہیں۔ اور لا اکراہ فی الدین( دین میں کوئی جبر نہیں) والا حکم اب منسوخ نہیں ہوگیا بلکہ واجب العمل ہے پس ایسا جہاد … جس میں تلوار کے ذریعہ سے کسی کو اپنے عقیدہ کا قائل کروانا مقصود ہو ہر گز ہرگز جائز نہیں کیونکہ تلوار کی حکومت جسم پر ہوگی روح پر ہر گز نہیں ہو سکتی۔ اور اسلام انسانی روح پر اپنی حکومت کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ اسلام نے تو ظاہری اقرار اور باطنی انکار کا نام منافقت رکھا ہے اور اس کی سزا دوزخ کا سب سے نچلا حصہ قرار دیا ہے۔ پس تلوار کے ذریعہ مذہب پھیلانا اسلام کے منشاء کے سراسر خلاف ہے اور ایسا مہدی جو اسلام کو تلوار کے ذریعہ سے غلبہ دے کبھی نہیں آئے گا۔ ہاں حسب ضرورت بعض شرائط کے ساتھ جہاد بالسیف بھی جائز ہے اور اس کا حکم منسوخ نہیں ہے اور نہ ہوگا۔
 (ہشتم) تمام مسلمانان عالم بلکہ تمام دنیا کی اصلاح خواہ وہ معاشرتی، تمدنی، عملی یا اعتقادی ہو۔ اب احمدیت سے وابستہ ہے اور وہ سنہری اصول جو احمدیت نے اس بارے میں دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں جو اصل اسلام ہی کے اصول ہیں ان پر چلنے سے دنیا کی نجات ہے۔ 
(نہم) احمدیہ جماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ دوسرے مذاہب کی عیب چینی کرنے کی بجائے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنی چاہئیں۔ کیونکہ کسی کی کمزوری بیان کرنے سے اپنی بڑائی ثابت نہیں ہوسکتی۔ بلکہ ہماری تعلیم کی برتری ہی ہمارے مذہب کی برتری ثابت کرسکتی ہے۔ ہاں جوابی طور پر مجبواراً اگر دوسرے کی اعتقادی کمزوریاں اور مذہبی خامیاں بیان کرنی پڑیں تو ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ مگر وہ بھی ایسی قوموں کے مقابلہ میں جن کا کام ہی ہمیشہ بد گوئی اور بد زبانی کرنا ہو۔ ورنہ نہیں اور یہی دنیا میں قیام امن کا ذریعہ ہے۔ جس پر یہ جماعت کاربند ہے۔ 
(دہم) خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر زمانہ اور ہر قوم میں جتنے بھی مامور اور مصلح آئے ہیں۔ وہ سب واجب الاحترام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت تمام مصلحین کو خاص عزت کی نگاہ سے دیکھتی اور ہر جگہ علی الاعلان اس کا ذکر کرتی ہے۔ 
(یازدہم) اس جماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منکر اور اس کے دین کے مخالف اگر وہ انہیں اپنی رحمت کاملہ سے بخش نہ دے۔ ایک ایسے مقام پر رکھے جائیںگے جسے ہم جہنم کہتے ہیں۔ اور جس میں آگ اور شدیدسردی کا عذاب ہو گا۔ جن کی غرض محض تکلیف دینا نہیں ہو گی۔ بلکہ اس میں ان لوگوں کی آئندہ اصلاح مد نظر ہو گی۔ حتیٰ کہ وہ دن آجائے جب اللہ تعالیٰ کا رحم جو ہر چیز پر غالب ہے۔ ان کو ڈھانپ لے اور یأتی علیٰ جہنم زمان لیس فیہا احد و نسیم الصبا یحرک ابوابہا (تفسیر معالم التنزیل زیر آیہ فاماالذین شقوا الخ) جہنم پر ایک وقت ایسا آئے گا جب کہ اس میں ایک متنفس بھی نہیں رہے گا اور باد صبا اس کے دروازے کھٹکھٹائے گی۔کا وعدہ پورا ہو جائے۔ 
یہ عقائد جو اختصاراً میں نے یہاں درج کئے ہیں۔ صحیح اور قابل قبول ہیں اور ان کی رو سے تمام مذاہب باطلہ پر اسلام کی صداقت اور برتری ثابت کر کے ان کے متبعین کو اسلام کی طرف مائل کیا جاسکتا ہے۔ 
محترم بھائیو! حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو جب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ اٹھو اور دنیا کی اصلاح کرو تو سوائے تعمیل حکم کے آپ کیلئے اور کونسی راہ ہوسکتی ہے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں     ؎
اس میں میرا جرم کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا
کون ہوں تا رد کروں حکم شہہ ذوالاقتدار
اب تو جو فرماں ملا اس کا ادا کرنا ہے کام
گرچہ میں ہوں بس ضعیف وناتوان و دلفگار
خدا را آپ اتنا تو سوچیں کہ کیا مفتری انسان کبھی بارور اور کامیاب ہو سکتا ہے۔ اور کبھی عالم الغیب خدا اس کی تائید اور تصدیق میں وہ نشانات ظاہر کرسکتا ہے۔ جو کسی سچے موعود کے بارے میں گزشتہ صحیفوں میں مرقوم ہوں۔ مثلاً دار قطنی کی حدیث ان لمہدینا اٰیتین (الحدیث) کے مطابق 1311ہجری میں سورج اور چاند کو رمضان شریف کے مہینہ میں گرہن لگنا،دمدار ستارے کا ظاہر ہونا، پھر مسلم کی حدیث ولیترکن القلاص فلا یسعی علیہا کہ مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں ایک ایسی سواری نکلے گی کہ اونٹ بیکار ہو جائیں گے، کے مطابق ریل اور دوسری تیز رفتار سواریوں کا ایجاد ہونا پھر صلیبی مذہب کا اطراف عالم میں پھیلنا، یاجوج ماجوج آگ کے ہتھیار استعمال کرنے والی آگ بگولا ہونے والی اور آگ سے ہی تمام کاروبار کرنے والی قوم کا اونچی اور نیچی جگہوں پر پھیلنا۔ پھر دریاؤں کا پھاڑے جانا اور نہروں کا نکالا جانا ، اسی طرح صحائف کا پھیلنا، اخبارات کا کثرت سے شائع ہونا، طاعون کا پڑنا، زلازل کا آنا، جنگوں کی کثرت ، کیازمین وآسمان کا اس قدر آپ کے زمانے میںنشانات ظاہر کرنا اہل تقویٰ کی چشم بصیرت کھولنے کیلئے کافی نہیں؟ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں مفتری کے ناکام ونامراد مرنے اور اس کے ذلت سے بے یارومددگار مارے جانے کے متعلق جو قوانین بیان کئے ہیں۔ ان کا برعکس ہونا یعنی بجائے ناکام ونامراد مارے جانے کے آپ کا بامراد وکامیاب زندگی گزارنا اور اسلام کے فدائیوں کی ایک عظیم الشان جماعت پیدا کرنا۔ جن کے متعلق مخالف وموافق سب کا یک زبان ہو کر گواہی دینا کہ یہ جماعت اسلام کی بڑی خدمت کرنے والی فعال جماعت ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے ساتھ سچے مامورین جیسا سلوک ہونا ہر موقع پر خداتعالیٰ کا آپ کی سپر بننا۔ کیا یہ سب باتیں کسی مفتری کو میسر آسکتی ہیں۔ چشم فلک نے کبھی ایسا نظارہ نہیں دیکھا کہ   ؎
 ذلت ہیں چاہتے یہاں اکرام ہوتا ہے
 کیا  مفتری کا یہی  انجام  ہوتا ہے 
ایک اور نظارہ ملاحظہ فرماویں کہ جسے مفتری کہا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حضور نہایت جسارت سے یہ التجا کرتا ہے کہ    ؎
اے قدیر و خالق ارض و سما
اے رحیم و مہرباں و راہنما
اے کہ میداری تو بر دِلہا نظر
اے کہ از تو نیست چیزے مستتر
گر تومے بینی مرا بر فسق و شر
گر تو دید ہستی کہ ہستم بد گوہر
پارہ پارہ کن منے بد کار را
شاد کن ایں زمرہ اغیار را
آتش افشاں بر در و دیوار من
شمنم باش وتباہ کن کارمن
در مرا از بندگانت یافتی
قبلہ من آستانت یافتی
در دل من آں محبت دیدہ
کز جہاں آں راز را پوشیدہ
بامن از روئے محبت کارکن
اندکے افشاء آں اسرار کن
(حقیقۃ المہدی صفحہ 1)
مگرہوتا کیا ہے بجائے اس کے خدا تعالیٰ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا اور اس کے دشمنوں کو خوش کرتا۔ ہر ایک قوم ہر ایک فریق کے خدا ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے۔ اور ان میں سے تھوڑا تھوڑا حصہ الگ کر کے حضرت مرزا صاحب کو طاقتور اور مضبوط بنا دیتا ہے حتیٰ کہ دشمن بھی آپ کی ترقی کو دیکھ کر دم بخود رہ جاتا ہے۔ پھر بجائے اس کے کہ آپ کے دشمن اپنی آنکھوں سے آپ کے در ودیوار پر آگ برستے دیکھتے۔ الٹا پھولوں کی بارش ہوتی دیکھتے ہیں۔ اور مال و دولت سے آپ کو مالامال کردیا جاتا ہے۔ نیک اور پاک اولاد سے آپ کو خوشحال کیا جاتا ہے۔ پھر آپ کو یہاں تک ترقی ملتی ہے کہ بے اختیار کہنا پڑتا ہے۔
گڑھے میں تُو نے سب دشمن اتارے 
ہمارے  کردیئے  اونچے  منارے
ان تمام باتوںکو دیکھتے ہوئے کیا کوئی عقلمند آپ کو مفتری قرار دے سکتا ہے؟ ہر گز، ہر گز نہیں۔ اور اس پر طرفہ یہ کہ آپ مفتری قرار دینے والوں کو للکار کر کہتے ہیں کہ جاؤ اگر تمہیں میری صداقت پر اب بھی شبہ ہے تو اپنے مولیٰ سے اپنے پیدا کرنے والے سے پوچھو۔ سینکڑوں سعیدالفطرت احکم الحاکمین کے دربار میں سر بسجود ہو کر اور رو رو کر حقیقت حال دریافت کرتے ہیں وہاں سے سب کو یہی جواب ملتا ہے جاؤ جلدی کرو اور اسے جا کر قبول کرو۔ وہ ہمارا محبوب ہے۔ ہمارافرستادہ ہے۔ سچا ہے۔ آپ ان تمام رؤیاء وکشوف کو خود میری اس کتاب بشارات رحمانیہ میں ملاحظہ فرمائیںگے اور اگر خدانخواستہ اس سے بھی آپ کی تسلی نہ ہوتو پھرآپ خود ان لوگوں کی طرح اپنے مولا کے حضور التجائیں کریں وہ حقیقت حال واضح کر دے گا۔  …مبارک وہ جو اب بھی سمجھے اور خداتعالیٰ کے پاک اور سچے مامور کے دامن سے وابستہ ہو کر فلاح دارین حاصل کرے۔‘‘

(ماخوذ از کتاب بشارات رحمانیہ)


مکمل تحریر >>

Tuesday, 11 October 2016

شان اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بانی جماعت احمدیہ کی نظر میں




جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے عوام الناس میں نفرت اور اشتعال پھیلانے کے لئے حضرت بانی ٔجماعت احمدیہ پر ایک الزام یہ لگایا
 جاتا ہے کہ آپ نے اہلِ بیت کی توہین کی ہے۔ یہ الزام سراسر غلط اور حقائق مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ اہلِ بیت سے بے حد محبت اور عشق رکھتے تھے۔ ذیل میں حضرت بانی جماعت احمدیہ کی چند تحریرات پیش کی جاتی ہیں۔ جس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کو اہل بیت سے کس قدر محبت تھی اور آپ کی نظر میں ان کا کتنا عظیم الشان مقام اور مرتبہ ہے۔

حضرت علیؓ اور آپ کے اہل بیت


’’حضرت علی رضی اللہ متقی، پاک اور خدائے رحمان کے محبوب ترین بندوں میں سے تھے۔
آپ ہم عصروں میں سے چنیدہ اور زمانے کے سرداروں میں سے تھے۔ آپ اللہ کے غالب شیر اور مردِ خدائے حنان تھے آپ کشادہ دست پاک دل اور بے مثال بہادر تھے۔

میدان جنگ میں انہیں اپنی جگہ سے ہٹایا نہیں جا سکتا تھا۔ خواہ دشمنوں کی فوج بھی آپ کے مقابل پر ہوتی۔ آپ نے اپنی عمر سادگی میں گزاری۔ اور آپ زھد و ورع میں بنی نوع انسان کی انتہاء کو پہنچے ہوئے تھے۔ اپنی جائیداد کا عطیہ دینے اور لوگوں کے مصائب کو رفع کرنے میں اور یتامیٰ اور مساکین اور ہمسائیوں کی خبر گیری میں آپ مرد اول تھے۔ آپ معرکہ ہائے رزم میں ہر طرح کی بہادری میں نمایاں تھے اور شمشیر و سنان کی جنگ میں کارہائے نمایاں دکھلانے والے تھے۔ بایں ہمہ آپ بڑے شیریں اور فصیح اللسان تھے۔آپ کی گفتگو دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی تھی۔ ذہنوں کے زنگ دور ہوجاتے تھے اور دلیل کے نور سے مطلع چکا چوندھ ہوجاتا تھا۔

آپ ہر قسم کے اسلوب کلام پر قادر تھے اور جس نے بھی آپ کا اس میدان میں مقابلہ کیا تو اسے ایک مغلوب آدمی کی طرح عذر خواہ ہونا پڑا۔ آپ ہر کار خیر میں اور اسالیب فصاحت و بلاغت میں کامل تھے۔ اور جس نے بھی آپ کے کمالات کا انکار کیا گویا وہ بے حیائی کی راہ پر چل پڑا۔ آپ بے قراروں کی دلجوئی کے لئے تیار رہتے۔ قانع اور غربت سے پریشان کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے تھے اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے تھے۔ بایں ہمہ آپ قرآن کریم کا جام نوش کرنے میں سر فہرست تھے اور قرآن کے دقائق کے ادراک میں آپ کو ایک عجیب فہم عطا ہوا تھا۔

میں نے آپ کو نیند کی حالت میں نہیں بیداری کی حالت میں دیکھا ہے کہ آپ نے خدائے علیم کی کتاب کی تفسیر مجھے عطا کی ہے اور فرمایا یہ میری تفسیر ہے۔ اور اب یہ تمہارے سپرد کی جاتی ہے۔ پس جو تمہیں دیا جاتا ہے اس پر خوش ہو جاؤ۔ چنانچہ میں نے ایک ہاتھ بڑھایا اور وہ تفسیر لے لی۔ اور خدائے معطی و قدیر کا شکر ادا کیا۔ میں نے آپ کو بہت مضبوط جسم والا اور پکے اخلاق والا متواضع اور منکسر، شگفتہ رو اور پُر نور پایا۔

اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ بہت پیار اور محبت سے پیش آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سچے مخلصوں کی طرح اظہار محبت کیا۔ اور آپ کے ساتھ حسن اور حسین دونوں اور سید الرسل خاتم النبیین بھی تھے۔

اور آپ کے ساتھ ایک خوبصورت، نیک اور بارعب ، مبارک، پاکباز، قابلِ تعظیم، نوجوان، باوقار، ماہ رخ، پُرنور خاتون بھی تھیں۔ میں نے انہیں بہت غمگین پایا۔ وہ اپنے غم کو چھپائے ہوئے تھیں اور میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ یہ فاطمۃ الزھراؓ ہیں۔ پھر وہ میرے پاس تشریف لائیں جبکہ میں لیٹا ہوا تھا۔ سو میں اٹھ بیٹھا اور انہوں نے میرا سر اپنی گود میں رکھ دیا اور اظہار لطف و کرم فرمایا۔ اور میں نے محسوس کیا کہ میرے بعض دکھوں اور غموں پر آپ اس طرح غمگین و مضطرب ہوئیں جس طرح محبت و رافت و احسان رکھنے والی مائیں اپنے بیٹوں کے مصائب پر بے قرار ہو جاتی ہیں۔ تب مجھے بتایا گیا کہ دینی تعلق کی بنا پر میں بمنزلہ آپ کے فرزند کے ہوں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ آپ کا غم ان مظالم کی طرف اشارہ ہے جو مجھے قوم اور اہلِ وطن اور دشمنوں کی طرف سے پہنچنے والے ہیں۔

پھر میرے پاس حسن اور حسین آئے اور انہوں نے بھائیوں کی طرح میرے ساتھ محبت اور غم خواری کا اظہار کیا۔

اور یہ بیداری کے کشوف میں سے ایک کشف تھا اور اس پر چند سال گزر چکے ہیں۔ مجھے حضرت علی، حسن اور حسین کے ساتھ ایک لطیف قسم کی مشابہت ہے جس کا راز مشرق اور مغرب کا خدا ہی جانتا ہے۔

میں حضرت علی اور ان کے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا ہوں اور جو ان کا دشمن ہے میں اس کا دشمن ہوں‘‘۔
(ترجمہ از عربی سر الخلافۃ۔ روحانی خزائن۔ جلد۸۔ صفحہ ۳۵۸۔۳۵۹)

حضرت علیؓ حاجت مندوں کی امیدگاہ تھے


بے شک حضرت علی حاجت مندوں کی امید گاہ تھے اور سخیوں کے لئے نمونہ اور بندوں کے لئے حجۃ اللہ تھے ۔ آپ اپنے زمانہ کے لوگوں میں سب سے بہتر تھے اور تمام دنیا کو منور کرنے کے لئے خدا کا نور تھے۔ ۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ حق حضرت علی مرتضیٰ کے ساتھ تھا اور جنہوں نے آپ کے زمانہ میں آپ سے جنگ کی انہوں نے بغاوت اور سرکشی کی‘‘۔ (ترجمہ از عربی سر الخلافۃ۔ روحانی خزائن۔ جلد۸۔ صفحہ ۳۵۲۔۳۵۳)

حضرت علیؓ جامع فضائل


’’علی تو جامع فضائل تھا اور ایمانی قوت کے ساتھ توام تھا۔ پس اس نے کسی جگہ نفاق کو پسند نہیں کیا اور اپنے قول اور فعل میں کبھی منافقانہ طریق نہیں برتا اور ریا کاروں میں سے نہ تھا‘‘۔ (حجۃ اللہ۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۲۔ صفحہ ۱۸۲)

حضرت امام حُسین ؓ و حسنؓ ائمۃ الہدیٰ


’’حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحب کمال اور صاحب عفت اور عصمت اور ائمۃ الہدیٰ تھے اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آل تھے‘‘۔

(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۵۔ صفحہ ۳۶۴۔۳۶۵ حاشیہ)

ہم حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما دونوں کے ثنا خواں ہیں


’’حضرت حسنؓ نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیا کہ خلافت سے الگ ہوگئے۔ پہلے ہی ہزاروں خون ہو چکے تھے۔ انہوں نے پسند نہ کیا کہ اور خون ہوں۔ اس لئے معاویہ سے گذارہ لے لیا۔ چونکہ حضرت حسنؓ کے اس فعل سے شیعہ پر زد ہوتی ہے اس لئے امام حسنؓ پر پورے راضی نہیں ہوئے۔ ہم تو دونوں کے ثنا خواں ہیں۔ اصلی بات یہ ہے کہ ہر شخص کے جدا جدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں۔ انہوں نے امن پسندی کو مدنظر رکھا اور حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔ دونوں کی نیت نیک تھی۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘۔
(ملفوظات۔ جلد۴۔ صفحہ ۵۷۹۔۵۸۰)

حضرت امام حُسین ؓ سردارانِ بہشت میں سے


’’حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں سے ہے جن کو خداتعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کردیتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجبِ سلبِ ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہوگیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہوگیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔ اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے ان کاقدر مگر وہی جو ان میں سے ہیں۔ دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسینؓ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسینؓ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے۔ اور جو شخص حسینؓ یا کسی اور بزرگ کی جو آئمہ مطہّرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے۔ وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے‘‘۔(مجموعہ اشتہارات۔ جلد ۳۔ صفحہ ۵۴۵)

حضرت امام حسینؓ کی شہادت


’’امام حسینؓ کو دیکھو کہ ان پر کیسی کیسی تکلیفیں آئیں۔ آخری وقت میں جو ان کو ابتلاء آیا تھاکتنا خوفناک ہے لکھا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ستاون برس کی تھی اور کچھ آدمی ان کے ساتھ تھے۔ جب سولہ یا سترہ آدمی ان کے مارے گئے اور ہر طرح کی گھبراہٹ اور لاچاری کا سامنا ہوا تو پھر ان پر پانی کا پینا بند کر دیا گیا۔ اور ایسا اندھیر مچایا گیا کہ عورتوں اور بچوں پر بھی حملے کئے گئے اور لوگ بول اٹھے کہ اس وقت عربوں کی حمیت اور غیرت ذرا بھی باقی نہیں رہی۔ اب دیکھو کہ عورتوں اور بچوں تک بھی ان کے قتل کئے گئے اور یہ سب کچھ درجہ دینے کے لئے تھا‘‘۔(ملفوظات۔ جلد۵۔ صفحہ ۳۳۶)

حضرت امام حسینؓ سے غیر معمولی عشق


ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعودؑاپنے باغ میں ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے آپؑ نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم سلمہا اور ہمارے بھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا ’’آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں‘‘ پھر آپؑ نے بڑے دردناک انداز میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات سنائے آپؑ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپؑ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپؑ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپؑ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا:۔

’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے پر کروایا۔ مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا‘‘

اس وقت آپ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپؑ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا۔

(روایت حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم ۔ سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ صفحہ۳۶۔۳۷)

حضرت بانی جماعت احمدیہ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں

جان و دلم فدائے جمال محمدؐ است
خاکم نثار کوچۂ آل محمدؐ است

( درثمین فارسی۔ صفحہ  ۸۹ )

میری جان اور دل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال پر فدا ہے اور میری خاک آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کوچہ پر نثار ہے۔

مکمل تحریر >>

Friday, 23 September 2016

حضرت مفتی محمد صادق ؓ کی مولانا شبلی نعمانی سے دلچسپ ملاقات



کتاب لطائف صادق سے ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مفتی محمد صادق ؓ  نے  اکتوبر۱۹۱۰ میں لکھنؤکے دار العلوم ندوہ کی سیر کے دوران  علامہ شبلی سے بھی ملاقات کی ، مولانا شبلی بڑے اخلاق سے پیش آئے اور پوچھنے لگے کہ کیا یہ بات سچ ہے کہ آپ لوگ مرزا صاحب مرحوم کو نبی مانتے ہیں؟ مفتی صاحب نے جواب میں واضح کیا کہ ہم مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں لیکن بغیر کسی جدید شریعت کے اور احادیث میں بھی آنے والے کا نام نبی اللہ رکھا گیا ہے ، اس وضاحتی بیان کے بعد پوچھا کہ  ’’ آپ عربی زبان کے فاضل ہیں آپ خود ہی بتلائیں کہ جو شخص خدا تعالیٰ سے بکثرت غیب کی خبریں پائے اسے عربی زبان میں نبی نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں‘‘۔علّامہ نے عربی لغت اور علم کلام کے اس بنیادی اور فیصلہ کن سوال کے جواب میں بلا تامّل فرمایا:۔
’’ہاں بے شک لغوی لحاظ سے ایسے شخص کو نبی ہی کہا جائے گا اور عربی لغت میں اس لفظ کے یہی معنیٰ ہیں لیکن عوام اس مفہوم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے گھبراتے ہیں اور اعراض کرتے ہیں‘‘۔
حضرت مفتی صاحب کا بیان ہے :۔’’اس کے بعد گفتگو کا رخ پلٹ گیا اور مولوی شبلی صاحب فرمانے لگے کہ میں مدت سے ایک بہت مشکل اور اہم مسئلہ کے متعلق سوچ رہا ہوں مگر کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کیا جائے ۔اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم طلبہ کو صرف عربی علوم پڑھاتے ہیں تو اُن میں وہ پرانی سستی ،کمزوری اور پست ہمتی نہیں جاتی جو آجکل کے مسلمانوں کے لاحق حال ہو رہی ہے۔لیکن اگر ان طلباء کو انگریزی علوم کا ایک معمولی چھینٹا بھی دے دیا جاتاہے تو اس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ دین اور مذہب کو بالکل چھوڑ بیٹھتے ہیں ۔اسی لئے حیران ہوں کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں ۔؟
البتہ میں نے آپ صاحبان کی جماعت میں یہ خوبی دیکھی ہے کہ اس کے ممبر انگریزی خواں بھی ہیں اور دین کے بھی پورے طور پر پابند ہیں ‘‘۔
(’’لطائف صادق‘‘ صفحہ 98-99  ، مرتبہ مولانا شیخ محمد اسماعیل پانی پتی صاحب )




مکمل تحریر >>

بریلوی اوردیوبندی دونوں ہی گستاخ نکلے




مولوی حق  نواز صاحب دیو بندی نے ۲۷ اگست ۱۹۷۹؁ء کو ’’ منا ظرہ جھنگ‘‘کے دورا ن بریلوی عالم مولوی نظام الدین ملتانی کی کتاب  ’’  انو ا ر شریعت  ‘‘ کے صفحہ ۳۸ کاایک اہم حوا لہ پیش کیا ۔ اس صفحہ پر یہ سوا ل درج ہے کہ مسیح علیہ السلام لوگوں کی ہدایت کے لئے دوبا رہ اتریں گے حضرت محمد مصطفی ﷺ دوبارہ نہیں آئیں گے  پس افضل کون ہوا ۔اس سوال کے جواب میں لکھا ہے ۔’’ د وبا رہ وہی بھیجا جا تا ہے جو پہلی دفعہ ناکا میاب رہا ہو‘‘ ۔ مولوی حق نواز صاحب دیوبندی کو اگر یہ معلوم ہوتاکہ ان کے ’’ خاتم الفقہا ء والمحدثین ‘‘ انور شاہ کشمیری کا بھی یہی نقطہ نگاہ تھا تو وہ بریلوی عالم کے اس اقتباس کو پیش کرنے کی ہر گز جرأت نہ کرتے مگر انہوں نے غالباً لا علمی میں دھڑلّے سے اس پر زبردست تنقید کی اور یہ کہتے ہو ئے نہ صرف بریلوی عالم بلکہ انورشاہ کشمیری کے با طل عقیدہ کو ضرب کا ری سے پاش پاش کردیا کہ:’’  میرے قابل ِ محترم سامعین سوچئے پہلا لفظ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے  لئے  استعما ل کیا جا رہا ہے ۔ دوبا رہ وہی آ ئے جو پہلی دفعہ ناکامیاب رہے ۔ کو ن ہے  دنیا میں وہ بندہ جو کسی پیغمبر کو رسالت کے کا م میں ناکا میاب کہے ۔ میں فاضل مخا طب سے پوچھوں گا کہ آج  تک اس دنیا کی کسی کتاب میں کسی معتبر عالم کسی مفکر و محدّث نے یہ لکھا کہ عیسیٰ علیہ السلام ناکا میاب واپس گئے اس لئے  اب دوبارہ اپنی رسالت کی تکمیل کے لئے آ ئیں گے۔ دوسرا لفظ استعما ل کیا ہے  کہ جو امتحان میں فیل ہو اس کو دوبا رہ امتحان میں بلایا جاتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام پہلے فیل ہو گئے اور اب دوبارہ بلایاجا رہا ہے۔ کہ وہ یہود کے ڈر کے مارے رسالت کا کام سرانجام نہ دے سکے۔ مسلمانو ! قرآ ن کہتا ہے۔ ويقتلون النبيين بغير حقّ  یہود نے انبیاء کو ناحق شہید تو کردیا لیکن انہیں سچ کہنے سے رسالت کے کا م پہنچانے سے اللہ کے احکام بیان کرنے سے اور رب ذوالجلال کی توحید کو بیان کرنے سے انہیں دنیا کی کوئی طاقت روک نہ سکی ۔ شہید تو ہو  گئے  ان کے وجود آرے سے چرادئیے گئے ، ان کو ہجرتوں پہ مجبور تو کردیا لیکن کسی پیغمبر نے اپنے رسالت کے کام میں کوتاہی نہیں کی اور یہاں بتلایاجارہا ہے  کہ پیغمبر یہود کے ڈر کے ما رے اپنا کام ادھورا چھوڑگئے معاذاللہ ۔ اوراب وہ دوبارہ اس کام کوپورا کرنے کے لئے آ ئیں گے ۔ میرا فاضل مخاطب پر سوال ہے کہ آ ج تک کسی مسلما ن نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے اپنا یہ عقیدہ پیش کیا ہے کہ ناکام واپس گئے ۔ کیا کوئی رسول اپنی رسالت میں نا کا م واپس جا سکتا ہے اور کیا اب دوبارہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امام الا نبیاء کے امتی بن کے آ ئیں گے یا اپنے کام رسالت کو سر انجام دینے کے لئے آ ئیں گے۔ اگر وہ امام ِ الا نبیا ء کے امتی بن کے آ ئیں گے تو پہلا کام ادھورا رہ گیا اب تو امام الا نبیاء کے دین کا کام کرنا ہے اپنی رسالت تو ادھوری کی ادھوری رہ گئی اور اگر اس کو پورا کریں گے تو ختم نبوت کا انکا ر لازم آیا۔ اس لحاظ سے بھی یہ بات خطرناک ہے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت کے خلاف ہے ‘‘
(منا ظرہ جھنگ صفحہ ۱۳۱ تا ۱۳۳ نا شر مکتبہ فریدیہ ساہیوال  )








مکمل تحریر >>

Thursday, 22 September 2016

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجنے کا فلسفہ





اخبارالفضل قادیان دارالامان  کے خاتم النبیین نمبر 1932 سے ایک نایاب مضمون ''الددر البھيّ في حقیقة الصلوۃ علی النبيّ'' یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجنے کا فلسفہ پیش خدمت ہے جس کے مصنف مولانا غلام رسول راجیکی ؓ ہیں ۔


















           

مکمل تحریر >>

Wednesday, 21 September 2016

حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کی حاضرجوابی کا دلچسپ واقعہ



یہاں صرف ایک واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

’’وہاں (یعنی کشمیر میں) ایک بوڑھے آدمی تھے۔ انہوں نے بہت سے علوم و فنون کی حدود یعنی تعریفیں یاد کر رکھی تھیں۔ بڑے بڑے عالموں سے کسی علم کی تعریف دریافت کرتے۔ وہ جو کچھ بیان کرتے یہ اس میں کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتے کیونکہ پختہ الفاظ تعریفوں کے یاد تھے۔ اس طرح ہر شخص پر اپنا رعب بٹھانے کی کوشش کرتے۔ ایک دن سردربار مجھ سے دریافت کیا کہ مولوی صاحب! حکمت کس کو کہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ شرک سے لے کر عام بداخلاقی تک سے بچنے کا نام حکمت ہے۔ وہ حیرت سے دریافت کرنے لگے کہ یہ تعریف حکمت کی کس نے لکھی ہے؟ میں نے دہلی کے ایک حکیم سے جو حافظ بھی تھے اور میرے پاس بیٹھے تھے، کہا کہ حکیم صاحب! ان کو سورۃ بنی اسرائیل کے چوتھے رکوع کا ترجمہ سُنا دو جس میں آتا ہے  ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ  ۔ پھر تو وہ بہت ہی حیرت زدہ سے ہو گئے‘‘۔
(حیاتِ نور باب سوم ، صفحہ 174)




مکمل تحریر >>

Tuesday, 16 August 2016

ادبی و مذہبی سرقہ کی ایک حیرت انگیز مثال

حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک پرانی موحدانہ نظم مطبوعہ الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۲۸  ؁ء کو اہلحدیثوں کے اخبار تنظیم اہلحدیث لاہور کے تازہ پرچہ مورخہ ۳۰ جون ۱۹۲۱ ؁ء میں صفحہ اول پر جلی طور پر شائع کیا گیا ہے۔ بعض اشعار میں بھونڈا تغیر کیا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام کا ذکر تک نہیں کیا گیا ۔ بلکہ ندیم شاعر کے نام سے نظم کو منسوب کیا گیا ہے ۔ قارئین ملاحظہ فرما کر فتویٰ دیں:۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک بہت پرانی نظم 

اک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے 
چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے 
چھوڑنی ہو گی تجھے دنیائے فانی ایک دن 
ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے 
مستقل رہنا ہے لازم اے بشر تجھ کو سدا
رنج و غم ، یاس والم فکر وبالا کے سامنے 
بارگاہِ ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو
مشکلیں کیا چیز ہیں مشکلکشا کے سامنے 
حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر 
کربیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے 
چاہئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش دوئی 
سر جھکا بس مالک ارض و سما کے سامنے 
چاہئے نفرت بدی سے اور نیکی سے پیار 
ایک دن جانا ہے تجھ کو بھی خدا کے سامنے 
راستی کے سامنے کب تک جھوٹ پھلتا ہے بھلا 
قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے 
(الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۲۸  ؁ء )

کربیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے !

اک نہ ایک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے 
چل نہیں سکتی کسی کی کچھ فنا کے سامنے 
چھوڑنی ہو گی تجھے دنیائے فانی ایک دن 
ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے 
مستقل رہنا ہے لازم اے بشر تجھ کو سدا 
رنج و غم سوازلم ، فکر وبلا کے سامنے 
حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر 
کربیاں سب حاجتیں حاجب روا کے سامنے 
چاہئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش دوئی 
سرجھکالے مالک ارض و سما کے سامنے 
چاہئے نفرت ،بدی اور نیکی سے پیار 
اک نہ ایک دن پیش ہو گا تو خدا کے سامنے 
راستی کے سامنے کب جھوٹ پھلتا ہے ندیم 
قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے 
(تنظیم اہلحدیث لاہور ۳۰ جون ۱۹۶۱  ؁ء )





مکمل تحریر >>

زھق الباطل : کذب و افتراء کی دلآزار مہم اور اس کا پس منظر




کذب و افتراء کی دلآزار مہم اور اس کا پس منظر
(خطبہ جمعہ فرمودہ  ۲۵؍جنوری ۱۹۸۵ء بمقامبیت الفضل لندن)


  تشّہدوتعوذ اور سورئہ فاتحہ کے بعد حضورنے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ {30}
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ {31}
يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ {32}
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ {33} (التوبہ : ۳۰ - ۳۳)

اور پھر فرمایا :
 پاکستان کی موجودہ حکومت نے احمدیت کی تکذیب کی جو مہم چلا رکھی ہے اس کی کئی شکلیں ہیں۔ ایک تومُلک کے معصوم عوام پر یہ دبائو ڈالا جارہا ہے اور ان کے مفادات کو اس شرط کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے کہ جب تک وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب نہیں کریں گے اُن کے کام نہیں چل سکیںگے۔ چنانچہ اس طرح پاکستان کی موجودہ حکومت نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب کو ایک عوامی شکل دے دی ہے ۔ تاہم یہ کوئی ایسی عوامی تحریک نہیں کہ جس میں لوگوں کے دل سے از خود یہ خواہش اُٹھے بلکہ یہ ملک کا موجودہ قانون ہے جو ہر پاکستانی شہری کو مجبور کر رہا ہے کہ یا تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب کرے یا بعض مفادات سے محروم رہ جائے۔ یہاں تک کہ اب ووٹ دینے کا حق بھی کسی پاکستانی کو نہیں مل سکتا جب تک کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب نہ کرے اور بکثرت ایسی مثالیں پاکستان کے اندر بھی اور پاکستانی شہریوں میں سے اُن کی جو باہر بستے ہیں ہمارے سامنے آتی ہیں کہ وہ اس پر احتجاج کرتے ہیں اور کھلم کھلا یہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ مرزا صاحب کیا تھے اور کیا واقعۃً خدا تعالیٰ نے انہیں بھیجا بھی تھا کہ نہیں۔ اس لئے یہ گناہ ہمارے سر پر نہ رکھو ۔ لیکن چونکہ اس کے بغیر اُن کے کام نہیں چل سکتے اور اُن کو مجبور کیا جاتا ہے اس لئے اُن میں سے بھاری تعداد تکذیب پر دستخط کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔
تکذیب کا ایک دوسرا طریق یہ اختیار کیا جارہا ہے کہ احمدیوں کو اُن کے مفادات سے محروم رکھا جارہا ہے، اُن پرمظالم توڑے جار ہے ہیں ، اُن پر ظلم کرنے والوں کی تائید کی جارہی ہے۔ احمدیوں کے مال لوٹنے والوں کو تحفظ دیا جارہا ہے اوراُن کی جان پر حملے کرنے والوں کو حکومت کی چھتری کے تلے امن مل رہا ہے جبکہ احمدیت کے حق میں گواہوں کو یا احمدیوں کے حق میں آنے والے گواہوں کوجُھٹلایا جاتا ہے اور مخالف فریق کے فرضی گواہوں کو بھی تسلیم کر لیا جاتا ہے ۔ غرضیکہ اس نوع کے بکثرت دبائو ہیں مثلاً ملازمتوں سے محروم کر دیا جاتا ہے ، طلباء کوتعلیم کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ اور اسی قسم کے بعض دوسرے دبائو روز مرہ کی زندگی میں اس کثرت سے ڈالے جارہے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طریق پر احمدی بھی بالآخر تنگ آکر احمدیت کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ لیکن جیسا کہ تمام دنیا جانتی ہے اور پاکستان میں بھی اب یہ احساس بڑی شدّت سے پیدا ہو رہاہے کہ یہ سارے ذرائع احمدیوں کواحمدیت سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ اس کے بالکل برعکس نتیجہ نکلا ہے ۔ خدا کے فضل سے اتنی شدّت اور قوّت کے ساتھ ایمان اُبھرے ہیں اور اخلاص میں ترقی ہوئی ہے اورقربانیوں کی نئی امنگیں پیدا ہوئی ہیں کہ اس سے پہلے اس قسم کی کیفیت اور شدّت نظر نہیں آتی تھی۔ اب خدا کے فضل سے جماعت میں ایسا حوصلہ ایسا عزم اور پھر قربانیوں کے ایسے بلند ارادے پیدا ہوگئے ہیں جو پہلے نظر نہیں آتے تھے ۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس پہلو سے بھی حکومت مخالفانہ کوشش میں ناکام ہوگئی ہے۔
جہاں تک پہلی کوشش کی ناکامی کا تعلق ہے امرواقعہ یہ ہے کہ جماعت کے دوستوں کی طرف سے جتنی بھی اطلاعات ملتی ہیں ان سے پتہ لگتاہے کہ ہر وہ پاکستانی جو احمدی نہیں ہے جب وہ تکذیب پر دستخط کر تا ہے تو اس کے اندر خوف کا ایک احساس جاگتا ہے ۔وہ اپنے دل میں یہ سوال اٹھتاہوا محسوس کرتا ہے کہ جس شخص کی میں تکذیب کر رہا ہوں اس کے دعویٰ کی جانچ پڑتال میں نے کر بھی لی تھی کہ نہیں۔ میں نے اس کے دعویٰ کے بارہ میں تحقیق کرکے پورے اطمینان سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ شخص جھوٹا ہے یا محض اپنے دنیوی مفاد کی خاطر مجبور ہو کر اور ذلت کے ساتھ تکذیب پر دستخط کرنے پر پابند کیا گیا ہوں۔ یہ ایک عام احساس ہے جو لوگوں میں پیدا ہو رہا ہے ۔ چنانچہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کا جو سامان ہم نہیں کر سکتے تھے وہ اللہ کی تقدیر نے اس طرح کروادیا ہے ۔ورنہ اس سے پہلے احمدیت کے بارہ میں عدم دلچسپی عام تھی، لاعلمی عام تھی اور امر واقعہ یہ ہے کہ گو مختلف فرقوں میں مسلمان بٹے ہوئے ہیں لیکن ان میں سے ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو جانتے ہیں کہ اُن کے عقائد کیا ہیں، ان کی اسلامی نظریاتی بنیا د کیا ہے، اسلام کے وہ کون سے عملی تقاضے ہیں جن کو انہوں نے پورا کرنا ہے ۔ غرض ایک قسم کی غفلت کی حالت ہوتی ہے جس میں بظاہر مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے لوگ زندگی گزار رہے ہوتے ہیںاور چونکہ ان کو جماعت احمدیہ کے متعلق بھی علم نہیں تھا اس لئے ان میں جماعت کے بارہ میں کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہو رہی تھی ۔ اُن میں بہت کم لوگ تھے جو اِس وجہ سے مخالفت کرتے تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ جماعت احمدیہ ( نعوذ باللہ ) جھوٹی ہے۔ جبکہ بڑی بھاری تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو مولویوں کے ڈر سے اورعوام الناس کے دبائو کے پیش نظر خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے۔ لیکن اب پاکستان کے کونے کونے میں احمدیت کا چر چا ہے۔ ایسے علاقوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام پہنچ گیا ہے جہاں کسی احمدی نے کبھی جھانک کر بھی نہیں دیکھا تھا ۔وہاں نہ صرف احمدیت سے لوگ متعارف ہو رہے ہیں بلکہ انسانی ضمیر کو کچوکے دئیے گئے ہیں کیونکہ کلیۃًلا علم آدمیوں کو بھی ایک ایسے فیصلہ پر مجبور کیا گیا ہے جس کے وہ مجاز نہیں تھے۔ پس اس کے نتیجہ میں احمدیت کو سمجھنے اور پہچاننے کے بارہ میں جو دلچسپی پیدا ہو سکتی تھی وہ خدا کے فضل سے پیدا ہو رہی ہے اور اس کے اثرات ابھی سے ظاہر ہونے شروع ہوگئے ہیں ۔
احمدیت کے خلاف ان دنوں تیسری کوشش اشاعت لٹریچر کے ذریعہ کی گئی ہے جو بڑے وسیع پیمانے پر شائع کرکے تقسیم کروایا گیا ہے۔ تمام دنیا میں مختلف زبانوں میں بعض پمفلٹ تقسیم کروائے گئے پاکستان کے سفارت خانوں کے ذریعہ بھی اور براہ راست بھی جن میں سراسر کذب اور افتراء سے کام لیتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کردار کشی کی کوششیں کی گئی ہیں جو عالمگیر جماعت احمدیہ کے لئے انتہائی تکلیف کا موجب ہیں ۔خصوصاً پاکستان کے احمدیوں کے لئے جہاں دن رات اخباروں میں بھی یہی چرچا ہورہا ہے اور حکومت وقت کروڑوں روپیہ خرچ کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دلوا رہی ہے اور خود بھی دے رہی ہے اور اس تکذیب میں کسی بھی دنیاوی ، عقلی ، انسانی اور اخلاقی قانون اور ضابطے کا قطعاً کوئی پاس نہیں ۔
چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف مختلف زبانوں میں ایسے ایسے فرضی قصے بنا کر شائع کئے جا رہے ہیں اورتمام دنیا میںانکی تشہیر کی جارہی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے  انسان حیران ہو جاتا ہے کہ اس مہذب دور میں بھی ایسی اخلاقی گراوٹ کے نمونے دیکھے جاسکتے تھے! ایک عام انسان میں بھی اگر وہ چیزیں پائی جائیں تو ایک انتہائی اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتی ہیں چہ جائیکہ حکومتی سطح پر اخلاق سے گری ہوئی باتیں رونما ہوں۔ حکومتیں تو خواہ دہریہ ہی کیوں نہ ہوں وہ  ذمہ داری کا ثبوت دیا کرتی ہیں، ان کی زبان میں کچھ وقار اور اسلوب حکمرانی میں کچھ شائستگی ہوتی ہے جس کی وہ بالعموم پیروی کرتی ہیں اور خواہ کسی فریق کووہ کتنا ہی برا اور دشمن سمجھتی ہوں پھر بھی وہ دنیا کے رسمی تقاضوں کو ہمیشہ ملحوظ رکھتی ہیں ۔لیکن دنیا میں ایک پاکستان ہے جہاں نمونے کی ایک ایسی حکومت قائم ہوگئی ہے جس نے تمام اخلاقی تقاضوں کوبالائے طاق رکھ دیاہے اور تمام اخلاقی قیود کو توڑ کر پھینک دیا ہے اور احرار کی ایک ایسی عامیانہ زبان اختیار کرلی ہے جو کبھی موچی دروازہ لاہور یا امر تسر کے بازاروں میں سنی جاتی تھی یا پھر ان دنوں سنائی دیتی تھی جب ان کے فرضی فاتح قادیان پر حملے کیا کرتے تھے۔ اب وہ زبان حکومت پاکستان کی زبان بن گئی ہے اور اس حکومت کے مزاج پر، اس کے کردار پر اور ان کے طرز حکومت پر احراریت کا پوری طرح رنگ آ چکا ہے۔ چنانچہ یہی وہ تصویر ہے جو ساری دنیا میں اِس حکومت کی ابھر رہی ہے ۔
ان دنوں احمدیت پر اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پر من گھڑت الزام لگا کر حملے کرنا حکومت کا معمول بن چکا ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ایک چھوٹا سا رسالہ ہے جس کا نام ہے’’قادیانیت ۔اسلام کے لئے سنگین خطرہ‘‘ اسے وائٹ پیپر یعنی قرطاس ابیض کے سے اہتمام کے ساتھ شائع کرکے ساری دنیا میں بڑی کثرت سے تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک گزشتہ خطبہ جمعہ میں مَیں نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ میرا خود ارادہ ہے انشاء اللہ اس کے متعلق ایک ایک اعتراض کو سامنے رکھ کر کچھ بیان کروں گا۔ لیکن اس عرصہ میں جماعت کے مختلف علماء اور لکھنے والوں نے اپنے طور پر بھی کوششیں کیں۔ بعض دوستوں کو میں نے پیغام بھجوائے تھے انہوں نے بہت اچھے اور عمدہ مضامین تیار کرکے بھجوائے ہیں۔ ان میںسے کچھ مضامین اشاعت کے لئے تیار بھی ہو چکے ہیں ۔ تاہم ان مضامین کا ایک تو ہر احمدی تک پہنچنا مشکل ہے ۔دوسرے جماعت کا ایک حصہ غیرتعلیم یافتہ بھی ہے اورایک حصہ ایسا بھی ہے جہاںپڑھنے کا رواج ہی نہیں ہے اور بعض لوگوں کے مزاج میں پڑھنے کی عادت بھی نہیں ہوتی اس لئے خطبات کے ذریعہ جتنا کثیر اور گہرا رابطہ جماعت سے ممکن ہے اتنا کسی اَور ذریعہ سے ممکن نہیں ہے ۔ چنانچہ خطبہ کی کیسٹ( Cassette) کے ذریعہ رابطہ اور پھر کیسٹ کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے مربیان مختلف جماعتوں سے جو رابطہ قائم کرتے ہیں اس کے میں نے بہت فوائد دیکھے ہیں۔ رابطہ کا یہ ذریعہ بہت ہی مؤثر ثابت ہوا ہے۔ گواس سلسلہ میں جو علمی کوششیں کی گئی ہیں وہ اپنی جگہ بڑی عمدہ اور نہایت مفید ہیں ، ان سے بھی استفادہ کیا جائے گا۔ لیکن جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا میں خود بھی انشاء اللہ اس موضوع پر کچھ نہ کچھ کہوں گا۔ تاہم آج کے خطبہ میں پہلے تو مَیں اِس مخالفت کا پس منظر بیان کرنا چاہتا ہوں اور پھر مختصراً ان اعتراضات کو لوں گا جو اس مبیّنہ قرطاس ابیض میں دہرائے گئے ہیںاو ر بعد میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے یا توخطبات میں سلسلہ وار جواب دوںگا یا پھر کسی جلسہ کے موقع پر جب زیادہ وقت مہیا ہو بعض مضامین کو انشاء اللہ بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
جہاں تک اس مخالفت کے پس منظر کا تعلق ہے احباب جماعت کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ایک باقاعدہ گہری سازش کا نتیجہ ہے اور اس سلسلہ میں جو لمبی کوششیں ہو رہی ہیں اُن کو یہ پس منظر ظاہر کرتا ہے۔ دوستوں کو عموماً ربط کے ساتھ معلوم نہیں کہ کیا ہوتا رہا ہے اور اب کیا ہورہا ہے اور موجودہ واقعات کی کون سی کڑیاں ہیں جو 74 19ء کے واقعات سے ملتی ہیں ۔چنانچہ موجودہ مخالفت کا کچھ پس منظر تو اس رنگ میں سامنے آتا ہے کہ اِس وقت جماعت کے خلاف جوجدوجہد ہو رہی ہے وہ مربوط شکل میں کس طرح آگے بڑھی ہے اور اب کس شکل میں ظاہر ہوئی ہے۔ پھر اس پس منظر کا ایک پہلو اَور بھی ہے جس کا غیر ملکی طاقتوں سے تعلق ہے یا غیر مذاہب سے تعلق ہے۔ بڑی بڑی استعماری طاقتیں ہیں جو ان کو ششوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں اوران کے بہت برے ارادے ہیں جو باقاعدہ ایک منصوبے کے طور پر آج سے سالہا سال پہلے بلیو پرنٹ(Blue Print)کی شکل اختیار کر چکے تھے، باقاعدہ تحریر میں باتیں آچکی تھیں۔ آپس میں باقاعدہ معاملات طے ہو چکے تھے۔ چنانچہ اربوں روپیہ ایک منصوبے کے تحت جماعت احمد یہ کے خلاف استعمال ہو رہا ہے کم از کم 20 سال سے تو میں بھی جانتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہماری مخالف جماعتوں کو باقاعدہ تربیت دی گئی اور پاکستان کے جوملکی حالات ہیں ان میں دخل اندازی کا بھی اس کو ذریعہ بنایاگیا ۔ اس کی بہت سی تفاصیل ہیں اگر موقع پیدا ہوا یا ضرورت محسوس ہوئی تو انشاء اللہ بعد میں ان کا ذکر کروں گا ۔
پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارے خلاف اٹھنے والی اس موجودہ مہم کا 1974ء کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے اور 1974ء کے واقعات کی بنیاد دراصل پاکستان کے 1973ء کے آئین میں رکھ دی گئی تھی۔ چنانچہ آئین میں بعض فقرات یادفعات شامل کر دی گئی تھیں تاکہ اس کے نتیجہ میں ذہن اس طرف متوجہ رہیں اور جماعت احمدیہ کو باقی پاکستانی شہریوں سے ایک الگ اور نسبتاً ادنیٰ حیثیت دی جائے۔ میں نے 1973ء کے آئین کے نفاذ کے وقت اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیحالثالث ؒ کی خدمت میں عرض کیا اور آپ کو اس طرف توجہ دلائی۔ بعدا زاں جس طرح بھی ہو سکا جماعت مختلف سطح پر اس مخالفانہ رویہ کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ لیکن ان کوششوں کے دوران یہ احساس بڑی شدت سے پیدا ہوا کے یہ صرف یہاں کی حکومت نہیں کروا رہی بلکہ یہ ایک لمبے منصوبے کی کڑی ہے اور اس معاملہ نے آگے بڑھنا ہے۔ بہرحال 1974ء میں ہمارے خدشات پوری طرح کھل کر سامنے آگئے ۔
1974ء میں پاکستان کو جو حکومت نصیب تھی، اس میں اور موجودہ حکومت میں ایک نمایاں فرق ہے۔ وہ حکومت حیادار تھی ۔ اسے اپنے ملک کے باشندوں کی بھی حیا تھی اور بیرونی دنیا کی حکومتوں کی حیا بھی تھی ۔ تاہم احمدیت کی دشمنی میں کمی نہیں تھی۔ یعنی جہاں تک منصوبے کا تعلق ہے اور جماعت کی بنیادوں پر سنگین حملہ کرنے کا تعلق ہے دونوں میں یہ دشمنی قدر مشترک ہے اور بھٹو صاحب کے زمانہ کی حکومت اورموجودہ حکومت میں اس پہلو سے کوئی فرق نہیں لیکن جہاں تک حیا کا تعلق ہے اس میں نمایاں فرق ہے۔ بھٹو صاحب ایک عوامی لیڈر تھے اور عوام کی محبت کے دعویدار بھی تھے اور وہ چاہتے تھے کہ اپنے ملک کے عوام میں ہر دلعزیز لیڈر بنے رہیں اورعوام کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ دھاندلیاں کر کے اور آمرانہ طریق اپنا کر حکومت کرنے کے خواہاں ہیں سوائے اس کے کہ اشد مجبوری ہو۔ چنانچہ انہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف اقدامات کرنے سے پہلے ایک عوامی عدالت کا رنگ دیا اور قومی اسمبلی میں معاملہ رکھا گیا اور اس میں جماعت کو بھی اپنے دفاع کا ایک موقع دیا گیا تا کہ بیرونی دنیا کو اعتراض کا موقع نہ ملے۔ دراصل اس طرح وہ بیرونی دنیا میں اپنا اثر بڑھانا چاہتے تھے۔ بیرونی دنیا میں بھی ان کی تمنائیں بہت وسیع تھیں۔ وہ صرف پاکستان کی رہنمائی پر راضی نہیں تھے بلکہ اپنا اثر و رسوخ ارد گرد کے علاقے میں پھیلانا چاہتے تھے جیسے پنڈت نہرو ابھرے تھے اس طرح وہ مشرق کے لیڈر کے طور پر ابھرنے کی تمنا رکھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ صرف پاکستانی رہنما کے طورپر ہی نہیں بلکہ مشرق کے ایک عظیم رہنما کے طور پر ابھریں اور دنیا سے اپنی سیاست کا لوہا منوائیں۔ پس اس وجہ سے بھی چونکہ ان کی آنکھوں میں بیرونی دنیا کی شرم تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ اندرون اور بیرون ملک جماعت کا معاملہ اس رنگ میں پیش کیا جائے کہ گویا وہ بالکل مجبور ہوگئے تھے، ان کے اختیار میں نہیں رہا تھا ، بایں ہمہ انہوں نے عوامی دبائو کو براہ راست قبول نہیں کیا بلکہ جماعت احمدیہ کے سربراہ اوران کے ساتھ چند آدمیوں کو بلا کر ایک موقع دیا کہ وہ اپنے مسلک کو پیش کریں۔چنانچہ ایک لمبا عرصہ قومی اسمبلی نے اس سلسلہ میں وقت خرچ کیا اور بھٹو صاحب کو قومی اسمبلی کا عذر ہاتھ آگیا اور انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اب میں کیا کر سکتا ہوں ۔لیکن اس حیا کا موجودہ حکومت میں فقدان ہے اس لئے کہ یہ نہ عوامی حکومت ہے نہ اسے بیرونی دنیا میں کسی رائے عامہ کی پرواہ ہے۔ ایک آمر بہرحال ایک آمر ہی ہوتا ہے اس لئے بظاہر وہ جتنی مرضی کوششیں کرے لیکن آمریت کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ جوکچھ بھی ہو ، جو کچھ بھی دنیا کہے اس کی پرواہ نہیں کرنی۔ آمریت کے مزاج میں یہ بات داخل ہے کہ کوشش کر دیکھو مفت میں دنیا کی ہر دلعزیزی ہا تھ آجائے تو ٹھیک ہے لیکن نہ بھی آئے تو آمریت توپیچھے نہیں ہٹا کرتی۔ اس لئے آمریت میں جوبے پرواہی پائی جاتی ہے وہ ہمارے خلاف موجودہ مہم میں بھی بالکل ظاہر و باہر ہے۔
1974ء میں حکومت نے اپنے فیصلے کے دوران جماعت کو موقع تو دیا اور چودہ دن قومی اسمبلی میں سوال و جواب ہوتے رہے۔ جماعت نے اپنا موقف تحریری طور پر بھی پیش کیا لیکن ساتھ ہی چونکہ وہ بڑی ہوشیار اور چالاک حکومت تھی اُس نے قومی اسمبلی کی کارروائی کے دوران ہی یہ محسوس کر لیا تھا کہ اگر یہ باتیں عام ہوگئیں اور سوال و جواب پر مشتمل اسمبلی کی کاروائی اور اس کی جملہ روئیداد دنیا کے سامنے پیش کر دی گئی تو حکومت کا مقصد حل نہیں ہو سکے گا بلکہ برعکس نتیجہ نکل سکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ بجائے اسے سراہنے کے کہ جماعت کو ہر قسم کا حق دینے کے بعد ایک جائزفیصلہ ہوا ہے دنیا بالکل برعکس نتیجہ نکالے اور کہے کہ جماعت تو اس کارروائی کے نتیجہ میں بہت ہی زیادہ مظلوم ثابت ہوتی ہے۔کیونکہ جماعت نے اپنے موقف کی تائید میں اتنے مضبوط اور قوی دلائل پیش کئے جو عقلی بھی ہیں اور نقلی بھی اور اُن کے پیش نظر کوئی یہ نتیجہ نکال ہی نہیں سکتا کہ جماعت احمدیہ مسلمان نہیں ہے ۔ چنانچہ اس وقت کی حکومت نے اس خطرہ کی پیش بندی اس طرح کی کہ جماعت کو قانوناً اور حکماً پابند کیا گیا کہ قومی اسمبلی میں جو بھی کارروائی ہو رہی ہے اس کا کوئی نوٹ یا کوئی ریکارڈنگ اپنے پاس نہیں رکھیں گے اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ حکومت اس کارروائی کو دنیامیں ظاہر نہیں ہو نے دے گی۔
اس کارروائی کا نتیجہ کیا تھا وہ اس واقعہ سے ظاہرہوسکتا ہے کہ ایک دفعہ قومی اسمبلی کے ایک ممبر سے ایک موقع پر یہ سوال ہوا کہ آپ اس کارروائی کو شائع کیوں نہیں کرواتے، ساری قومی اسمبلی نے آپ کے بیان کے مطابق متفقہ فیصلہ دے دیا ہے کہ جماعت احمدیہ غلط ہے اور اپنے عقائد کے لحاظ سے اس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تو پھر اسمبلی کی کارروائی شائع کرکے ان کا جھوٹ دنیاپر ظاہر کریں۔ انہوں نے ہنس کر جواب دیا کہ تم کہتے ہو شائع کریں شکر کرو کہ ہم شائع نہیں کرتے اگر ہم اسے شائع کردیں تو آدھا پاکستان احمدی ہو جائے۔میں سمجھتا ہوں یہ کہنا ان کی کسر نفسی تھی اگر پاکستان کے شریف عوام تک جماعت احمدیہ کا موقف حقیقۃًپہنچ جائے تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ سارا پاکستان احمدی نہ ہو جائے سوائے ان چند بدنصیب لوگوں کے جو ہمیشہ محروم رہ جاتے ہیں۔ ہدایت ان کے مقدر میں نہیں ہوتی کیونکہ  جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دینا چاہتا دنیا کی کوئی طاقت ان کو ہدایت نہیں دے سکتی۔ پس ایسے استثنا ء تو موجود ہیں ، لیکن مجھے پاکستان کی بھاری اکثریت سے حسن ظن ہے کہ اگر ان تک جماعت احمدیہ کا موقف صحیح صورت میں پہنچ جائے خصوصاً موجودہ دور کی نسلوں تک جو نسبتاً زیادہ معقول رنگ رکھتی ہیں اور تقلید کی اتنی قائل نہیں ہیں جتنی پچھلی نسلیں قائل تھیں تو یقینا ان کی بھاری اکثریت بفضلہ تعالیٰ احمدی ہو جائے گی۔ 
چنانچہ موجودہ حکومت نے اس کی پیش بندی یوں کی کہ جماعت احمدیہ پر یک طرفہ حملے تو کئے لیکن جواب کی اجازت ہی نہیں دی۔ دفاع کا موقع ہی پیدا نہیں ہونے دیا ۔ چنانچہ جماعت کے خلاف حملوں سے پہلے ہی حکومت نے ایسا رویہ اختیار کر لیا کہ جماعت کا وہ لٹریچر ضبط کر لیا جائے جس میں ان کے آئندہ کئے جانے والے حملوں کا جواب موجود ہے ۔ حکومت کی پالیسی میں یہ جو تضاد پایا جاتا ہے اس سے بظاہر ایک بے عقلی کی بات بھی نظرآتی ہے لیکن بے عقلی سے زیادہ اس میں شرارت اور چالاکی پائی جاتی ہے۔ ایک طرف یہ کہاجاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لٹریچراس لئے ضبط کیا جارہا ہے کہ اس سے پاکستان کے لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے اور دوسری طرف اس میں سے صرف وہی جملے نکال کر شائع کئے جارہے ہیں جن سے بقول ان کے دل آزاری ہوتی ہے ۔ کیسی احمقانہ بات ہے تم کہہ یہ رہے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں ہم اس لئے ضبط کر رہے ہیں کہ ان سے مسلمان عوام خصوصاً پاکستانی عوام کی دل آزاری ہوتی ہے اور اس دل آزاری کا علاج یہ کیا ہے کہ وہ حصے جن سے دل آزاری نہیں ہوتی اُن کا شائع کرناتو قانوناً بند کردیا اور جن سے تمہارے زعم میں دل آزاری ہوتی ہے ان کو گورنمنٹ کے خرچ پر بصرف کثیر ساری دنیا میں پھیلا رہے ہو ۔ پس بظاہر تو یہ ایک تضاد ہے لیکن یہ تضاد ایک چالاکی کے نتیجہ میں ہے۔ انہوں نے ایک ظالمانہ اور ناپاک حملہ کرنا ہی تھاکیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں اعتراضات کے جوابات موجود ہیں اور  ہر شریف النفس انسان جو ان کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اور سیاق و سباق کو دیکھتا ہے تو اعتراض خود بخود دور ہو جاتا ہے ۔
چنانچہ قومی اسمبلی کی کارروائی کے دوران بھی یہی ہوتا رہا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے مجھے بھی ساتھ جانے کاموقع دیا تھا۔ اسمبلی کی کارروائی کے دوران میں نے اور میرے دوسرے ساتھیوں نے یہ بات بڑی حیرت کے ساتھ مشاہدہ کی کہ جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پر کوئی حملہ کیا گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اس حوالہ کا کچھ حصہ پہلے سے پڑھ کر اور کچھ حصہ بعد کا پڑھ کر سنا دیتے تھے اور اس کے بعد کسی جواب کی ضرورت ہی نہیں رہتی تھی، سننے والوں کے چہروں پر اطمینان آجاتا تھاکہ یہ حملہ فرضی ہے ،کتر بیونت کا نتیجہ ہے، سچائی سے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے اور بعض جگہ وضاحت کی ضرورت پڑتی تھی تو وضاحت بھی فرمادیتے تھے ۔ لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات اپنی ذات میں ہی اپنے اندر کا فی جواب رکھتی ہیں۔ اگر سیاق وسباق سے الگ کرکے صرف ایک ٹکڑے کو نکال کر غلط رنگ میں تحریف کے طور پر پیش کیا جائے تو اس سے دل آزاری ہو سکتی ہے حالانکہ تحریر کاوہ مقصد نہیں ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وہ بات کہنا ہی نہیں چاہتے تھے جو آپ کی طرف منسوب کی جارہی ہے لیکن اسے دل آزاری بنا کر یا اپنی طرف سے گھڑ کر شائع کیا جارہا ہے اور اس کا جواب عوام سے چھپالیا گیا ۔
 پس یہ تھی اِس حکومت کی حکمت عملی۔ چنانچہ اس کے نتیجہ میں اس واقعہ سے پہلے ہی کتابیں ضبط ہونی شروع ہوگئی تھیں۔ اسی پر بس نہیں کی پریس بھی ضبط ہو گئے ، رسالے اور اخبار بھی بند ہوگئے۔ یہ بزدلی ہے جو ہمیشہ کمزوری کی نشانی ہوا کرتی ہے اور اس طرح انہوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت جو دلائل میں قوی ہو وہ ہتھیار نہیں اٹھایا کرتی اوردوسرے کی بات کے بیان کرنے کی راہ میں قانونی روکیں نہیں ڈالا کرتی۔ یہ عقل کے خلاف ہے اور ان کے اپنے مفاد کے خلاف ہے ۔ اس لئے تمام قانونی کوششیں جو اس بات میں صرف کی جارہی ہیں کہ کسی طرح جماعت احمدیہ کے خلاف تو حملے ہوجائیں لیکن جماعت احمدیہ کو جواب کا موقع نہ ملے ، یہ شدید بزدلی کی علامت ہے اور شکست کا آخری اعتراف کہ اُن کے پاس دلائل کا فقدان ہے۔ چنانچہ ایک طرف جماعت احمدیہ کو اتنا کم تعداد بتایا جارہا ہے کہ ستر اسّی ہزار نفوس سے زیادہ ان کی حیثیت ہی کوئی نہیں  اور دوسری طرف یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ احمدیت عالم اسلام کے لئے خطرہ ہے اورخطرہ بھی ایسا کہ اس سے پہلے عالم اسلام کے لئے ایسا خطرہ کبھی پیدا نہیں ہوا تھا اور اسی پروپیگنڈہ پر بس نہیں کی بلکہ احمدیت کا لٹریچر بھی ضبط کیا گیا ۔ ان تمام اقدامات پر بڑے فخر سے یہ کہا جارہا ہے کہ دیکھا اس خطرہ کا ہم نے حل کر دیا ہے ۔
چنانچہ گذشتہ حکومت کے اقدامات سے موازنہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے جو مبینّہ رسالہ شائع کیا ہے اس میں لکھتے ہیں کہ گذشتہ قومی اسمبلی کا واقعی یہ بڑا کا رنامہ ہے لیکن باوجود اس کے کہ وہ قومی اسمبلی ان کو Dissolve کرنی پڑی اور اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ اس کے سارے ممبران      (اِلَّا مَاشَاء اللّٰہ ) گندے اور بد کار لوگ ہیں ۔ مگر پھر بھی انہوں نے قومی اسمبلی کے کارنامہ کو تسلیم کیا۔ کیونکہ ان کی سوچ ان کے ساتھ ملتی تھی۔ ایک ہی رنگ کی ادائیں تھیں اس لئے وہ کارنامہ تو تسلیم کرنا پڑتا تھا اور تسلیم کیا کہ اس اسمبلی کا یہ ایک بہت بڑا اور عظیم الشان کارنامہ تھا جس کی رو سے بظاہر سو سالہ مسئلہ حل کر دیا گیا لیکن اُن سے یہ سو سالہ مسئلہ پوری طرح حل نہ ہو سکا کیونکہ اس سلسلہ میں جو قوانین بنانے رہتے تھے وہ ہمارے مقدر میں لکھے ہوئے تھے۔ چنانچہ ہم نے وہ قوانین اختیار کر کے اب اس جماعت کا ہمیشہ کے لئے قلع قمع کر دیا ہے اور اب عالم اسلام کو کوئی خطرہ نہیں رہا۔
 سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ مسئلہ کس طرح حل ہُوا،مسلمان خطرہ سے کس طرح بچائے گئے اس کے متعلق مبینّہ سرکاری کتابچہکے آخر پر لکھا ہیکہ ہم نے یہ مسئلہ یوں حل کیا کہ ایک حکم نافذ کر دیا  جس کی رو سے جماعت کی طرف سے اذان دینی بند ہوگئی ، مسلمان کہلانا بند ہوگیا، اب کلمہ پڑھ اور لکھ نہیں سکتے اور مسجدوں کو مسجد یں نہیں کہہ سکتے اور مسلمانوں والی ادائیں اختیار نہیں کر سکتے اورقرآن کریم کے احکامات پر عمل نہیں کر سکتے، دیکھو اب ہم کتنے راضی ہیں ۔ ہم نے کتنا عظیم الشان مسئلہ حل کر دیا۔ گویا یہ وہ نتیجہ ہے جو انہوں نے آخر میں نکالا ہے ۔ لیکن حماقت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔ یعنی چالاکی کے اندر بھی بعض دفعہ حماقتیں ہوتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جس آدمی کے پاس سچائی نہ ہونے کے نتیجہ میں چالاکی کے اندر ایک بیوقوفی شامل ہوجاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو ضرور ظاہر کرتی ہے۔ اس لئے یہ اندرونی تضاد اور یہ بیوقوفیاں سبھی ایک جھوٹی چالاکی کا نتیجہ ہیںورنہ سچی عقل کے نتیجہ میں یہ تضاد پیدا نہیں ہوسکتا ۔
پس موجودہ حکومت نے یہ طریق اختیار کیا اور اپنے آپ کو بھٹو حکومت سے زیادہ چالاک سمجھا اور کہا کہ اُن کی تو بیوقوفی تھی کہ قومی اسمبلی میں سوال و جواب کا موقع دے دیا گیا تھا۔ چنانچہ وائٹ پیپر میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ دراصل نبوت کا جو دعویٰ کرے اُس سے تو گفت و شنید کرنی نہیں چاہئے دلائل سے اس کو شکست دینے کی کوشش کرنا ہی بیوقوفی ہے۔ اس لئے جو علاج ہم نے تجویز کیا ہے اس کے سوا کوئی علاج ہی نہیں ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ساری دنیا میںالزام تراشیوں کا ظالمانہ سلسلہ جاری کردیا۔ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ ظالموں کی کوششیں اُن کو کبھی فائدہ نہیں پہنچایا کرتیں ۔ فرماتا ہے :
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ {30}
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ {31}
يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ {32}
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ {33} (التوبہ : ۳۰ - ۳۳)
  
ایسے لوگ جو منافقانہ رنگ رکھتے ہیں ، دعوے کچھ اَور کر رہے ہوتے ہیں اور ان کے اعمال کچھ اَور ہوتے ہیں۔ حکمت کی باتیں کرتے ہیں مگر حکمت کے ساتھ ساتھ نہایت ہی احمقانہ حرکتیں بھی جاری رہتی ہیں ۔ ان کی کوششیں کبھی اُن کو فائدہ نہیں پہنچایا کرتیں ۔ وہ آگ تو ضرور بھڑکا دیا کرتے ہیں لیکن آگ سے جو تماشادیکھنا چاہتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو اُس تماشے سے محروم کر دیا کرتا ہے ، ان کا نور بصیرت چھین لیتا ہے۔ آگ تو وہ جلانے کے لئے بھڑکاتے ہیں لیکن وہی آگ ان کو نور بصیرت سے بھی محروم کردیتی ہے اور پھر ان کو ایسے ظلمات میں چھوڑ دیتا ہے کہ وہ کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے۔ چنانچہ موجودہ حکومت کی مخالفانہ کوشش بھی عملاً جماعت احمدیہ کے فائدہ کا موجب بنی ہے اور انشاء اللہ فائدہ کا موجب بنتی چلی جائے گی۔
اس وقت جماعت احمدیہ عملاً ایسے دور سے گزر رہی ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :   وَعَسَىٰ أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ (البقرہ:۲۱۷) کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے اور تم سے بھی ایسا ہوگا کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرتے ہو، تمہارے دل دکھتے ہیں، تمہیں تکلیف پہنچتی ہے، مَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ جبکہ وہ تمہارے لئے خیر کا موجب ہوتی ہے ۔ تم بچوں کو کڑوی دوائیاں پلاتے ہو، ان کو ٹیکے کرواتے ہو، وہ چیختے چلاتے ہیں، تم ان کے ہاتھ پکڑ لیتے ہو ، ان کی کوئی پیش نہیں جانے دیتے۔ بچوں سے یہ سلوک اس لئے کیا جا تا ہے کہ اس میں اُن کا فائدہ مضمر ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم بھی تمہارے لئے بعض دفعہ ایسی تدبیریں کریں گے کہ جن سے تمہیں انتہائی تکلیف پہنچے گی۔ لیکن وہ تمہارے لئے فائدہ کا موجب ہوں گی۔ چنانچہ جماعت احمدیہ کے متعلق پاکستان کی حکومت نے ساری دنیا میں جو لٹریچر شائع کروایا ہے۔ اس کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ساری دنیا میں جماعت کی طرف توجہ پیدا ہونی شروع ہوگئی ہے۔ بعض لوگوں کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ دنیا میں جماعت احمدیہ بھی کوئی جماعت ہے۔ اب ان تک یہ اطلاعات پہنچیں ، ساری دنیا کے اخباروں نے ان معاملات کا نوٹس لیا ۔ 
چنانچہ احمدیت اپنی شہرت کے لحاظ سے اور معروف ہونے کے اعتبار سے آج اس آرڈیننس کے جاری ہونے سے قبل کے وقت سے کم سے کم بیس گنا زیادہ معروف ہو چکی ہے۔ امریکہ بلکہ انگلستان میں بھی لوگوں کی بھاری اکثریت جماعت سے بالکل ناواقف تھی۔ ظاہر ہے ایک دو مشنزکے ذریعہ کروڑوں کی آبادی کوہلایاتونہیں جاسکتا ، لوگ دلچسپی نہیں لیتے۔ لیکن موجودہ مخالفت میں جماعت جن حالات سے گذری اورمصائب سے دوچار ہوئی اس کے نتیجہ میں ایک انسانی ہمدردی پیدا ہوئی اور اس ہمدردی کی وجہ سے جماعت کے معاملہ میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ لوگوں نے جماعت کے لٹریچر کو پڑھنا شروع کیا اور پوچھنے لگے کہ تم ہو کیا؟ پھر اس کے علاوہ جو کسر رہ گئی تھی وہ حکومت پاکستان کے غیر منصفانہ لٹریچر نے پوری کردی کیونکہ ان کے لٹریچر کی طرز ہی ایسی ہے جس سے ایک معقول آدمی کو یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ ضرور دال میں کا لا ہے ۔ کوئی ایسی بات ہے کہ ایک طرف جماعت احمدیہ کے متعلق یہ لوگ کہتے ہیں کہ بس تھوڑے سے ہیں سو سال میں زور لگانے کے باوجود ستّر ہزار سے زیادہ نہیں بڑھ سکے اورادھر ان سے کتنی بڑی کروڑوںکی حکومت خائف ہوجائے نہ صرف یہ بلکہ سارے عالم اسلام کے لئے خطرہ قرار دیا جائے، یہ اتنی نا معقول  بات ہے جسے ہر آدمی تو ہضم نہیں کرسکتا اس لئے اس مضمون کو پڑھنے کے نتیجہ میں ایک ایسا آدمی بھی جس کو جماعت کے متعلق کچھ بھی علم نہ ہو اپنے اندر ایک ہمدردی محسوس کرتا ہے۔ کم سے کم جماعت سے متعلق معلوم کرنے کی جُستجو اس میں ضرور پیدا ہو جاتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لئے ایک اَور بہت اچھا موقع ہاتھ آگیا جسے ہم پہلے کھوچکے تھے ۔ قصہ یہ ہے کہ گذشتہ حکومت نے اسمبلی کی کارروائی کے بارے میںہمارے ہاتھ باندھے ہوئے تھے، انہوں نے وہ ہاتھ ایک طرح سے کھول دئیے اور ہمیں جوابات کا موقع دیا ۔ گذشتہ حکومت نے ہمیں پابند کر دیا تھا کہ تم نے یہ سوالات اور یہ جوابات دنیا کو نہیں بتانے۔لیکن اس حکومت نے سوالات کی چوری وہیں سے کی ہے کیونکہ میں توان حالات سے گذرا ہوں مجھے پتہ ہے ، تمام سوالات من وعن وہی ہیں جو قومی اسمبلی میں اُٹھائے گئے تھے۔ البتہ طریق یہ اختیار کیا گیا ہے کہ اُن میں سے کچھ تو وائٹ پیپر میںشامل کر لئے گئے اور بیشتر ایک رسالہ کے سپر د کر دئیے گئے جو ہے تو ایک چیتھڑا لیکن بہرحال رسالہ کے نام سے مشہور ہے قومی ڈائجسٹ کہلاتا ہے۔ اس کو پتہ نہیں کتنے لاکھ روپیہ دیا گیا۔ یہ رسالہ سارے کا سارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر سرا سر جھوٹے الزامات کا ایک پلندہ ہے جسے شائع کیا گیا ۔اس میں تہذیب سے گری ہوئی باتیں آپ ؑ کی طرف منسوب کی گئی ہیں اور ایسے عامیانہ انداز سے پیش کی گئی ہیں کہ شریف آدمی ان باتوں کو پڑھ ہی نہیں سکتا اور اگر پڑھے بھی تو بے اختیار ہو کر اس بازاری انداز صحافت کے شاہکار کو نفرت سے پھینک دے ۔لیکن بصرف کثیر اُسے ایک نہایت شاندار اور عظیم الشان رسالے کی شکل بنا کر شائع کیا گیا اور سرکاری کتابچہ سے جو اعتراض باقی رہ گئے تھے وہ سارے اس کے اندرشامل کر دیئے۔ اور یہ باقاعدہ ایک منصوبہ تھا اور اب احرار کے بعض نہایت ہی ذلیل قسم کے چیتھڑے ہیں جو اشتہارات کی شکل میں آئے روز شائع ہوتے رہتے ہیں جن کی طرف پاکستان کے شریف عوام کبھی توجہ ہی نہیں کرتے ۔ اُن کو اتنی اہمیت دی جارہی ہے کہ وزارت اطلاعات ان کو خرید خرید کر ساری دنیا میں پاکستانی سفارت خانوں میں بھجوارہی ہے۔       گویا وزارت اطلاعات یہ سمجھتی ہے کہ پاکستانی سفارت خانے صرف اسی کام کے لئے وقف ہیں ۔ وہ کسی دن دیکھیں تو سہی کہ سفارت خانوں میں جماعت احمدیہ کے خلاف لٹریچر کا بنتا کیا ہے ۔آج کل تو سردی کا موسم ہے کوئی بعید نہیں کہ سفارت خانوں میں اُسے جلا کر ہاتھ سینکے جار ہے ہوں اور اس طرح اس کا بہتر مصرف کیا جارہا ہو۔ پس سفارت خانوں کے عملہ کو تو اپنی ہوش نہیں ہوتی، وہ دوسری دلچسپیوں میں محو ہوتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے عیش و عشرت سے آنکھیں بند کر کے اور اپنے مفادات سے منہ موڑ کر جماعت احمدیہ کے متعلق یک طرفہ اور جھوٹی باتیں پڑھنے میں وہ کیوں وقت ضائع کریں ۔ جو لوگ ڈپلومیٹک( Diplomatic) سروس میں رہ چکے ہیں ان کو پتہ ہے کہ باہر سفارت خانوں میں ہوتا کیا ہے اور اس قسم کے لٹریچر کی حیثیت کیا ہوتی ہے ۔ صرف ٹائٹل پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالتے ہیں اور بس۔ لیکن اس کے ساتھ ایک قسم کی یاددہانی ہو جاتی ہے کہ جماعت احمدیہ بھی ضرور کوئی قابل توجہ جماعت ہے پس ہمارے خلاف چھپنے والے لٹریچر کی اس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں یا پھر وہ جلتا ہے تو کوئی چائے گرم کر لیتا ہوگا یا ہاتھ سینک لیتا ہوگا ۔ 
پس حکومتِ وقت کی طرف سے نہایت ہی گندہ اور مکروہ شکل کا لٹریچر باقاعدہ خرید کر باہر کے سفارت خانوں کو بھجوایا جا رہا ہے اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ عظیم الشان کارنامہ سر انجام دے رہے ہیں ۔انشاء اللہ تعالیٰ اس قسم کے لٹریچر کا بھی جواب دیا جائے گا۔ ویسے بیشتر جو ابات تیار ہو چکے ہیں ۔ لیکن جہاں تک خطبات کا تعلق ہے ان میں بہت سی ضروریا ت پیدا ہو تی رہتی ہیں اس لئے تسلسل لازماً توڑنا پڑے گا۔ لیکن جہاں تک خدا توفیق دے کچھ حصہ خطبات کی شکل میں اور کچھ حصہ نسبتاً لمبی تقریروں کی صورت میں مَیں بیان کروں گا۔ اوروہ جو موقع ہاتھ سے نکل گیا تھا کہ ساری دنیا تک اپنی بات ایک مناظرہ کی شکل میں پہنچائی جائے اور یہ بتا کر پہنچائی جائے کہ حکومتِ پاکستان کا یہ مطلب تھا، یہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر وہ ہمیں کا فر سمجھتے ہیں یا غیر مسلم سمجھتے ہیں۔ چونکہ پہلے تووہ وجوہات ہم بتا ہی نہیں سکتے تھے ۔ قانون نے ہمارے ہاتھ باندھے ہوئے تھے اور ہم اپنے وعدہ کے پکے ہیں اس لئے ہم مجبور تھے ہم اپنے جواب شائع نہیں کر سکتے تھے ۔ اب اُس پر موجودہ حکومت کی مہر لگ گئی ہے ۔ انہوں نے اپنا موقف بتا دیا ہے ۔ اب ہمارا جوموقف ہے وہ ہم ہی بتائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ اور جس رنگ میں چاہیں گے بتائیں گے اور ساری دنیا کو بتائیں گے اور ہر زبان میں بتائیں گے۔یہ تو مقابلہ کرہی نہیں سکتے ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ دلائل کے سامنے اگر ٹھہرنا ہوتا تو اپنے ملک میں ہمیں دفاع کا موقع نہ دے دیتے؟ دلائل کے سامنے ٹھہرنے کا حوصلہ ہوتا تو ہماری کتابیں ضبط کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ بُزدل گروہ ہے ۔ ان کے تو پائوں ہی کوئی نہیں ۔ان میں ادنیٰ سی بھی جرأت ہوتی تو جماعت کو موقع دیتے کہ وہ بھی جواب دے ۔ لیکن موقع تو ہم سے چھین نہیں سکتے۔ ہم تو ان کے گندے لٹریچر کے جواب کو ہرجگہ پہنچائیں گے اور پاکستان میں بھی پہنچائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ دنیا کی کوئی طاقت جماعت احمدیہ کی ترقی کو روک نہیں سکتی کیونکہ یہ خدا کی قائم کردہ جماعت ہے ۔
رہا یہ سوا ل کہ جماعت احمدیہ کے خلاف یہ حالات کب تک رہیں گے تو جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے اس کے متعلق تواللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن میں صرف اتنا کہہ کر آج کا یہ خطبہ ختم کروں گا کہ بعض لوگوں کے خطوط سے کچھ مایوسی کا سا رنگ جھلک رہا ہے جو مجھے بہت تکلیف دیتا ہے۔ مایوسی تو نہیں کہناچاہئے مایوسی کے سوا کوئی اَور نام ہونا چاہئے کیونکہ ایسے احباب خد ا کی رحمت سے مایوس تونہیں ہیں لیکن جو نتیجہ وہ نکال رہے ہیں اس میں بہت جلدی کی جاری رہی ہے ، بڑی عجلت سے کام لیا جا رہا ہے ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ تقدیر گذشتہ مخالفتوں سے اس رنگ میں بھی مختلف ہے کہ اب غالباً اس مُلک سے ہمارے مرکز کو ہجرت کرنی پڑے گی اور مشکلات کا ایک لمبا عرصہ سامنے ہے ۔بایں ہمہ وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں عظیم الشان فتوحات نصیب ہوں گی جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں یہ نتیجہ بہت جلدی نکال لیا گیا ہے۔ میں تو بالکل یہ نتیجہ نکالنے پر رضا مند نہیں ہوں ۔ ویسے یہ کہنا صحیح ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دُہرا یا کرتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ لفظاً لفظاً دہرائی جاتی ہے کہ گویا وہی شکلیں ،وہی صورتیں ،وہی نام سو فیصد ظاہر ہو جائیں ۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن اصولوں کے طور پر دُہراتی ہے اور وہ اصول قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے محفوظ فرما دئیے ہیں ۔ پس وہ اصول تو ضرور دہرائے جائیں گے کیونکہ وہ سنت اللہ کہلاتے ہیں اور سنّت انبیاء بن جا یا کرتے ہیں ۔ لیکن ان اصولوں کے نقوش مختلف بھی ہو سکتے ہیں ۔ یعنی عملاً وہ جس طرح جاری ہو ں اُسی طرح ان کی شکلیں بدل سکتی ہیں اور پھر یہ فیصلہ کر لینا کہ اب یہ واقعہ یوں ظاہر ہو گیا ہے ، یہ تو صحیح نہیں ۔ کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ خود واضح طور پر خبر نہ دے دے یا تقدیر اس طرح کُھل کرسامنے نہ آجائے کہ اُسے تسلیم کئے بغیر چارہ نہ ہو، اس میں جلدی نہیں کرنی چاہئے۔ خدا کی کسی تقدیر سے مفر نہیں۔ خدا کی کسی تقدیر سے ہم ناراض نہیں ہو سکتے لیکن اس کے باوجود میںآپ کو تاکید کرتا ہوں کہ اس فیصلہ میں جلدی نہ کریں کیونکہ جب آپ یہ فیصلہ کریں گے تو آپ کی دعائوں میں کم ہمتی آجائے گی، آپ کی دعائوں کی بے قراری کچھ کم ہو جائے گی ۔آپ سمجھیں گے کہ لمبا معاملہ ہے کوئی فرق نہیں پڑتا ، اسی طرح ہوتا آیا ہے ۔ ایسی صورت میں پھر جو بے تابی اور بے قراری کی دعائیں ہوتی ہیں اُن میں وہ شدت نہیں رہتی۔ یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے جس سے الٰہی جماعت کے لئے بچنا ضروری ہے۔ اس لئے تقدیر تو وہی چلے گی جو خدا کی تقدیر ہے ، اس کو تو کوئی بدل نہیں سکتا۔ لیکن اپنی دعائوں اور التجائوں کا حوصلہ کیوں نیچا کرتے ہیں ۔ سپاہی تو وہ ہوتا ہے جو میدان میں لڑتا رہتا ہے ، سینے پر گولی کھاتا ہے اور پیچھے نہیں ہٹتا ۔
پس خدا کی تقدیر سے کوئی لڑ نہیں سکتا ۔ خدا کی تقدیر نے خود ہی اپنی تقدیر کے مقابلہ کا ہمیں ایک گُر بھی سکھا یا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم عاجزانہ رنگ میںدعائیں کرتے رہیں کیونکہ عاجزانہ دعائوں کی تقدیر بھی ایک الگ تقدیر ہے جو اپناکام کر رہی ہوتی ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تقدیر بعض دفعہ ایسی قوی ہو جاتی ہے کہ اس کے لئے میں اپنی دوسری تقدیر بدل لیا کرتا ہوں اور دعائوں کی تقدیر کو غالب کردیا کرتا ہوں ۔
 وہ عظیم الشان معجزہ جوعرب میں رونما ہوا اس کا تجزیہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا قوم نے آنحضرت  ﷺ سے جو سلوک کیا اُس کا نتیجہ تو صرف یہ نکلنا چاہئے تھا کہ ساری قوم ہلاک ہو جاتی اور تہ و بالا کردی جاتی ۔ نوح  ؑ کی قوم سے زیادہ وہ اس بات کی سزا وار تھی کہ اُن مخالفین میں سے ایک فرد بشر باقی نہ چھوڑا جاتا ۔ وہ جو طائف کے سفر میں انتہائی دکھ دہ واقعہ گذرا تھا اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ آنحضرت  ﷺ کو پیغام بھیجا تھا اس میں یہی تو حکمت ہے جو ظاہر کی گئی ہے کہ ہر گندے سلوک پر خدا کی تقدیر یہ چاہتی ہے کہ معاندین کو ہلاک کردے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد! ﷺتیرے دل کی آرزو بھی ایک تقدیر بنا رہی ہے ۔ خدا کے نزدیک تیری عاجزانہ دعائیں اور پرزور التجائیں بھی ایک تقدیر بنا رہی ہیں اور وہ بھی خدا ہی کی تقدیر کا حصہ ہیں ۔ پس اے رسول !ﷺ تیرے جذبات، تیری دعائیں ہر دوسری تقدیر سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں اس لئے تیرے منشاء کے بغیر ،تجھ سے پوچھے بغیر کہ اس قوم کے ساتھ مَیں کیا سلوک کروں، میں اپنی دوسری تقدیر ظاہر نہیں کروں گا۔ لیکن دوسری تقدیر کیا تھی ؟وہ یہی تو تھی کہ اگر تیرا دل چاہتا ہے۔ اگر تو اتنا بے قرار اور دکھی ہو چکا ہے کہ ان کو مٹانے پر آمادہ ہو گیا ہے تو میں اپنے فرشتوں کو حکم دوں گا کہ وہ دوپہاڑوں کو اس طرح اکٹھا کردیں کہ طائف کی بستی کا نشان ہمیشہ کے لئے دنیا سے مٹ جائے ۔ یہ تو ایک چھوٹاسا واقعہ تھاجو مخفی تقدیرالٰہی کے اظہار کے طورپر ہمارے سامنے آیا مگر آنحضرت ﷺ صر ف اُسی وقت تو خدا کے پیارے نہیں تھے، صرف وہی ایک دور تو نہیں تھا جس میں آپؐ نے اللہ کی راہ میں دُکھ اُٹھایا ۔ ہرآن آپؐکے دل پر ایک قیامت ٹوٹا کرتی تھی ۔ اور ہر روز آنحضور ﷺخدا کی خاطر اپنی جان قربان کرتے چلے جاتے تھے ۔ چنانچہ اس آیہ کریمہ:
 قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
(الانعام :۱۶۳)
 کی رُو سے آپ ؐ خدا کی خاطر ہرروز مرتے تھے اور خدا ہی کی طرف سے ہرروز زندہ کئے جاتے تھے ۔ اس لئے یہی وہ تقدیر تھی جو مسلسل جاری رہی اور اس کے مقابل پر آپؐ  کی دعائیں بھی مسلسل جاری رہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ محمد مصطفی ﷺ کی دعائوں کی تقدیر غالب آگئی اور آسمان پرسنی گئی اور وہ قوم جس کی ہلاکت مقدر ہوچکی تھی اس کو ہمیشہ کی زندگی عطا کی گئی۔ اس آقا کی غلامی کے آپ دعویدار ہیں اسی کے نقشِ قدم پر چلیں اور قوم کی ہلاکت چاہنے میں جلدی نہ کریں بلکہ اس کے احیاء کے لئے خدا تعالیٰ سے دعائیں کریں ۔خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور قوم جلد تر سمجھ جائے۔
 جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ۱۹۸۴ء کا سال احرار کا سال تھا اور انشاء اللہ تعالیٰ ۱۹۸۵ء کا سال جماعت احمدیہ کا سال ثابت ہوگا ۔

مکمل تحریر >>