مولوی ابو الحسن ندوی کی کتاب”قادیانیت “ کا جواب
احمدیّت
مصنّفہ
قاضی محمد نذیر صاحب فاضل
مصنّفہ
قاضی محمد نذیر صاحب فاضل
فہرست مضامین
عنوان صفحہ نمبر
|
|
IX
|
پیش لفظ
|
۲
|
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کی کتاب کا مقصد
احمدیت کو اسلام کے خلاف ایک متوازی دین ثابت کرنا ہے
|
۳
|
اس کی تردید میں حضرت مسیح موعود علیہ
السلام کی عبارتیں
|
۱۲
|
خاتم النبیّین کے کن معنوں پر اجماع ہے؟
|
۱۴
|
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا افتراء کہ
مرزا صاحب نبیٔ مستقل صاحبِ شریعت ہونے کے قائل تھے
|
۱۵
|
اربعین کی عبارت کی تشریح
|
۲۰
|
شریعت کے احکام پر مشتمل الہامات بزرگانِ دین کو بھی ہوئے(اس
کی مثالیں)
|
۲۳
|
جہاد کی منسوخی کا الزام
|
۲۴
|
الزام کی تردید
|
۲۷
|
غیر از جماعت لوگوں سے معاملات بھی کسی
جدید شریعت کی بناء پر نہیں
|
۲۹
|
فتویٰ کفر میں ابتداء غیر احمدی علماء کی
طرف سے ہوئی اور بلاوجہ ہوئی
|
۳۰
|
جماعت احمدیہ مکفر مسلمانوں کو غیر مسلم
نہیں مانتی
|
۳۲
|
مسیح موعودؑ کے منکروں کو کافر قسم دوم
قرار دینے سے شریعت جدیدہ کا دعویٰ لازم نہیں آتا
|
۳۸
|
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے مسیح موعود کا
دعویٰ کسی کے مشورہ سے نہیں کیا
|
۴۵
|
ندوی صاحب کی تضاد بیانی
|
۴۷
|
مثیل مسیح کا دعویٰ کتاب فتح اسلام سے پہلے
کیا گیا تھا
|
۵۱
|
مسیح موعود کا دعویٰ حکومت کے اشارہ سے نہ
تھا
|
۵۴
|
عقیدۂ بروز
|
۶۰
|
تناسخ کے الزام کا ردّ۔ مولوی ابو الحسن کے
پیش کردہ حوالہ جات کی تشریح
|
۶۶
|
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دو بعث اور
خطبہ الہامیہ کے حوالہ جات کی تشریح
|
۷۲
|
مولوی ندوی صاحب کا مسیح موعودؑ کے کردار پر حملہ
|
۸۱
|
گورنمنٹ انگریزی کی حمایت اور جہاد کو حرام
قرار دینے کے الزام کا ردّ اور انگریزی حکومت کی حمایت کی وجہ
|
۸۷
|
انگریزوں کا پنجاب کے مسلمانوں کو سکھوں کے
مظالم سے نجات دلانا
|
۸۸
|
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی سیاست دانی
|
۸۹
|
پاکستان بنانے میں حضرت امام جماعت احمدیہ
کا کردار
|
۹۱
|
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی دو رُخی
|
۹۲
|
جاسوسی کے الزام کا ردّ
|
۹۶
|
درشت کلامی اور دشنام طرازی کے الزامات
|
۹۸
|
الجواب۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی طرف سے
سخت کلامی کی وجوہ
|
۹
|
علماء کے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے خلاف
سخت الفاظ
|
۱۰۰
|
ا۔مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی سخت
کلامی
|
۱۰۱
|
ب۔ مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کی سخت
کلامی
|
۱۰۱
|
ج۔مولوی عبد الجبار غزنوی کی سخت کلامی
|
۱۰۱
|
د۔ مولوی عبد الصمد کی سخت کلامی
|
۱۰۱
|
ہ۔ مولوی عبد الحق کی سخت کلامی
|
۱۰۲
|
و۔ مولوی سعد اللہ نو مسلم کی سخت کلامی
|
۱۰۵
|
مولوی ابو الحسن کا افتراء اور ذرّیۃ البغایا کے صحیح معنی
|
۱۱۰
|
مسیح موعودؑ کے دو شعروں کی تشریح
|
۱۱۵
|
پیشگوئی متعلق مرزا احمد بیگ و محمدی بیگم
|
۱۳۰
|
الہام الحق من ربک کی تشریح
|
۱۳۲
|
پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے جدو جہد روا
ہے
|
۱۳۸
|
مولوی ابو الحسن کے تنقیدی جائزہ پر ہماری
تنقید
|
۱۳۹
|
احمدیت کے مستقل مذہب اور متوازی امّت ہونے
کی تردید
|
۱۵۲
|
قادیان مرکزِ اسلام اور ابو الحسن صاحب کے
اعتراض کا جواب
|
۱۵۷
|
ایک ہندو ڈاکٹر کے خیالات سے مولوی ابو
الحسن صاحب کا استدلال
|
۱۵۹
|
الجواب
|
۱۶۳
|
نبوتِ محمدیہ کے خلاف بغاوت کے الزام کا ردّ
|
۱۷۳
|
مولوی ابو الحسن ندوی کا نیا فلسفہ متعلق
خاتم النبیّین
|
۱۷۹
|
آسمانی سہارے کی ہمیشہ ضرورت ہے
|
۱۸۰
|
ختم نبوت کے متعلق سر اقبال کا فلسفہ اور
اس کا ردّ
|
۱۸۳
|
احمدیّت اور بہائیت میں فرق
|
۱۸۳
|
ختم نبوت کی تفسیر از امام علی القاریؒ
|
۱۹۰
|
سر اقبال کے مضمون پر اخبار سیاست کا
ناقدانہ تبصرہ
|
۱۹۳
|
روزنامہ حق لکھنؤ کا تبصرہ
|
۱۹۴
|
سر اقبال کا ایک سوال
|
۱۹۵
|
الجواب
|
۲۰۰
|
مسیح موعودؑ منعم علیہ گروہ کی آخری اینٹ
کا مفہوم
|
۲۰۱
|
مسیح موعود ؑکے نزدیک آئندہ انبیاء کا
امکان
|
۲۰۳
|
مولوی ابو الحسن صاحب کے ایک نوٹ سے ان کے
اس خیال کی تردید کہ بانیٔ احمدیت آخری نبی ہونے کے مدعی ہیں
|
۲۰۵
|
حضرت مسیح موعودؑ کے ایک اقتباس متعلق
مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ پر مولوی ابو الحسن کا اعتراض
|
۲۰۶
|
اس اعتراض کا جواب
|
۲۰۸
|
بنی اسرائیل کی عورتوں پر وحی کا نزول
|
۲۰۸
|
بزرگوں کے اقوال سے امت میں وحی جاری رہنے کا ثبوت
|
۲۱۰
|
الہامات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
|
۲۱۶
|
شریعتِ اسلامیہ کے مآخذ اور تفسیر خاتم
النبیّین
|
۲۱۷
|
سیاقِ آیت سے خاتم النبیّین کی تفسیر
|
۲۱۸
|
مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کی تفسیر
|
۲۲۰
|
امام علی القاریؒ کے نزدیک خاتم النبیّین
کے معنی آخری تشریعی اور مستقل نبی
|
۲۲۱
|
احادیثِ نبویہ سے امت میں امکانِ نبوت کا
ثبوت
|
۲۲۲
|
امّ المومنین حضرت عائشہ الصّدیقہؓ کے قول
سے امکانِ نبوت کا ثبوت
|
۲۲۲
|
شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ
کے اقوال ایک قسم کی نبوت جاری رہنے کے متعلق
|
۲۲۳
|
شیخ اکبر علیہ الرحمۃ کے نزدیک مسیح موعود
نبوتِ مطلقہ کا حامل ہو گا
|
۲۲۴
|
امام عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمۃ کے
نزدیک نبوتِ مطلقہ بند نہیں ہوئی صرف تشریعی
نبوت منقطع ہو گئی ہے
|
۲۲۵
|
حضرت عبد الکریم جیلی علیہ الرحمۃ کے نزدیک
صرف تشریعی نبوت منقطع ہوئی ہے
|
۲۲۵
|
شیخ اکبر حضرت محی
الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ کے نزدیک حدیث لا نبی بعدی ولا رسول بعدی کی تشریح کہ مقام نبوت منقطع نہیں ہوا صرف تشریعی
نبوت منقطع ہوئی ہے
|
۲۲۶
|
امام شعرانی علیہ الرحمۃ کے نزدیک ایسی ہی تشریح
|
۲۲۶
|
حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ کے نزدیک
خاتم النبیین کے یہ معنی کہ آپؐ کے فیض سے نبوت جاری ہے
|
۲۲۷
|
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب علیہ الرحمۃ کے
نزدیک صرف تشریعی نبوت منقطع ہوئی
|
۲۲۸
|
مولوی عبد الحی صاحب لکھنوی کے نزدیک مجرّد
کسی نبی کا آنا محال نہیں
|
۲۲۸
|
مصنف غایۃ البرہان کا قول کہ صرف نبوتِ تشریعی ہی منقطع ہے
|
۲۲۹
|
امام راغبؒ کا قول کہ امت میں امکان نبوت ہے
|
۲۲۹
|
مکالمات الٰہیہ اسلام کے زندہ ہونے کا ثبوت
ہیں
|
۲۳۱
|
مولوی ابو الحسن صاحب کی سلسلۂ نبوت میں
تشکیک
|
۲۳۲
|
مولوی ابو الحسن صاحب کے
متضاد خیالات نبی کی آمد کے متعلق
|
۲۳۴
|
مکالماتِ الٰہیہ کے سرچشمہ کی تعیین
|
۲۳۶
|
مولوی ابو الحسن صاحب سے ایک ضروری
سوال(انبیاء کی وحی کے بارہ میں ان کے تشکیک پیدا کرنے سے متعلق)
|
۲۳۸
|
محکوم کے الہام کے متعلق ڈاکٹر اقبال کا
شاعرانہ خیال
|
۲۳۸
|
مولوی اسلم صاحب جیراجپوری کی اس پر نکتہ
چینی
|
۲۳۹
|
الہامات کو پرکھنے کے قرآنی معیار
|
۲۴۳
|
ڈاکٹر اقبال وفاتِ مسیح ؑ کے قائل تھے
|
۲۴۳
|
مولوی ابو الکلام وفات مسیح ؑ کے قائل تھے
|
۲۴۴
|
نواب اعظم یار جنگ وفات مسیح ؑ کے قائل تھے
|
۲۴۴
|
مولوی عبید اللہ سندھی وفات مسیح ؑ کے قائل
تھے
|
۲۴۴
|
سر سید احمد خان وفات مسیح ؑ کے قائل تھے
|
۲۴۵
|
علمائے عرب میں سے علامہ رشید رضا وفات
مسیح ؑ کے قائل تھے
|
۲۴۵
|
علامہ مفتی محمد عبدہ وفات مسیح ؑ کے قائل
تھے
|
۲۴۶
|
الاستاذ محمود شلتوت مفتی مصر وفاتِ مسیح ؑ
کے قائل تھے
|
۲۴۷
|
علامہ الاستاذ احمد العجوز وفات مسیح ؑ کے
قائل تھے
|
۲۴۷
|
الاستاذعلامہ المراغی وفات مسیح ؑکے قائل تھے
|
۲۴۸
|
مسیح کے نزول کی پیشگوئیوں کے بارہ میں
صحیح مسلک
|
۲۵۰
|
مسیح موعود کا مطمح نظر ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہے
|
۲۵۰
|
انگریزوں کا اقتدار ختم کرنے میں جماعت
احمدیہ کا کردار
|
۲۵۲
|
ڈاکٹر اقبال صاحب کی انگریزوں کی مدح خوانی
|
۲۵۷
|
مسیح موعود ؑ کی سترہ پیشگوئیاں ایک غیر جانبدار محقق کے
قلم سے جومسیح موعود ؑ کے منجانب اللہ ہونے کا ثبوت ہیں
|
۲۷۴
|
مولوی ابو الحسن کی بانیٔ احمدیت کی وفات
کے متعلق غلط بیانی
|
۲۷۵
|
مولوی ابو الحسن صاحب کی حق پوشی
|
۲۷۸
|
تنقیدی جائزہ کی فصل
سوم پر ہماری تنقید (ہم میں اور لاہوری فریق میں محض نزاع لفظی ہے)
|
۲۷۹
|
دونوں فریق کے نزدیک مسیح موعود نائب النبوّۃ
ہیں نہ کہ تشریعی اور مستقل نبی
|
۲۸۲
|
دونوں فریق تناسخ والے حلول کے قائل نہیں،
بروز کے قائل ہیں
|
۲۸۳
|
مولوی ابو الحسن صاحب کی مولوی محمد علی
صاحب کی تفسیر پر نکتہ چینی اور ہماری تنقید
|
۲۸۵
|
۱۔ موسیٰ ؑ کا پتھر پر
لاٹھی مارنا
|
۲۸۵
|
۲۔ اذ قتلتم نفسا میں نفس سے مراد
|
۲۸۶
|
۳۔حضرت مسیح کے پرندے بنانے کی حقیقت
|
۲۸۹
|
۴۔ منطق الطّیر کی حقیقت
|
۲۹۱
|
۵۔حضرت سلیمانؑ کے جنّ اور طیر لشکری کون تھے؟
|
۳۰۰
|
۶۔ حضرت سلیمانؑ کی موت اور دابۃ الارض کی حقیقت
|
۳۱۰
|
احمدیت نے اسلام کو کیا دیا؟
|
۳۱۱
|
مولوی
ابوالحسن صاحب کے نزدیک عالم اسلامی کی حالت اور روحانی شخصیت کی ضرورت کا احساس
|
۳۱۵
|
مولوی ابو الحسن صاحب کی ناشکرگزاری
|
۳۱۷
|
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبلیغی
کارنامے
|
۳۱۷
|
۱۔’’براہین احمدیہ‘‘ اور اس پر ریویو
|
۳۱۸
|
۲۔لیکچر ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ اور اس
کے غالب رہنے کی پیشگوئی اور اس کا اثر
|
۳۲۴
|
۳۔کتاب جنگ مقدس و نور الحق(عیسائیوں سے
مناظرہ و انعامی چیلنج)
|
۳۲۴
|
۴۔سر الخلافۃ (مسئلہ خلافت پر بحث)
|
۳۲۴
|
۵۔منن الرحمن(عربی زبان کے امّ الالسنہ
ہونے کا ثبوت)
|
۳۲۶
|
۶۔معیار المذاہب۔ فطرتی معیار کے لحاظ سے
مقابلۂ مذاہب
|
۳۲۶
|
۷۔آریہ دھرم۔ آریہ مذہب کے ردّ میں
|
۳۲۶
|
۸۔ست بچن۔ بابا نانکؑ کا اسلام
|
۳۲۶
|
۹۔سراج منیر۔ سینتیس پیشگوئیاں
|
۳۲۷
|
۱۰۔ برکات الدعاء۔ دعا کا فلسفہ
|
۳۲۸
|
۱۱۔ حجّۃ الاسلام ۔ ردّ عیسائیت
|
۳۲۸
|
۱۲۔ آئینہ کمالات اسلام۔ معارف قرآنی پر
مشتمل
|
۳۲۹
|
۱۳۔ چشمۂ معرفت۔ اسلام کی حقانیت کے ثبوت
اور آریوں کے اعتراضات کے رد میں
|
۳۳۰
|
مسیح موعودؑ کے ذریعہ مسلمانوں کی اصلاح
|
۳۳۲
|
تحریک احمدیت کا مقصد
|
۳۳۳
|
ا۔ نشر و اشاعت کا کام
|
۳۳۳
|
ب۔ تبلیغی مراکز
|
۳۳۴
|
ج۔ تراجمِ قرآن کریم
|
۳۳۴
|
د۔ مساجد کی تعمیر
|
۳۳۵
|
ہ۔ تعلیمی ادارے
|
۳۳۵
|
و۔ اخبارات
|
۳۳۵
|
ز۔ طبّی مراکز
|
۳۳۶
|
جماعت احمدیہ کی تین خوبیاں
|
۳۳۷
|
انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کے ریمارکس
|
۳۳۸
|
انسائیکلوپیڈیا آف اسلام (لائڈن) کے
ریمارکس
|
۳۳۹
|
مجلّۃ الازہر۔ قاہرہ کے ریمارکس
|
۳۳۹
|
ہماری زبان۔ علی گڑھ کے ریمارکس
|
۳۴۰
|
صدق جدید ،لکھنؤ کے ریمارکس
|
۳۴۰
|
تحریک شدھی
|
۳۴۲
|
مولانا عبد الحلیم صاحب شرر کے ریمارکس
|
۳۴۲
|
مولانا محمد علی صاحب جوہر کے ریمارکس
|
۳۴۳
|
شاعرِ مشرق علامہ اقبال اور علامہ نیاز
فتحپوری کے ریمارکس
|
۳۴۴
|
جناب اشفاق حسین مراد آبادی کا تأثر
|
۳۴۵
|
جماعت احمدیہ اور عیسائی دنیا کا تأثر
|
۳۴۹
|
جماعت کے روشن مستقبل کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ
کی دو پیشگوئیاں
|
پیش لفظ
’’قادیانیت‘‘ مصنفہ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کے
جواب ’’احمدیت‘‘ میں ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اصالتًا
نازل ہونا ختم نبوت کے منافی ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مستقل نبی تھے اور
کسی مستقل نبی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آجانا آیت خاتم النبیین کے
منافی ہے۔ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے
اپنی کتاب میں اپنا یہ عقیدہ ظاہر کیا ہے
کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بوجہ خاتم النبیین ہونے کے مطلق آخری نبی ہیں لہذا
اگر ان کے بعد کوئی نبی آجائے تو وہ خاتم النبیین بن جاتا ہے اور یہ محال ہے۔ مولوی
صاحب کے ان دونوں عقیدوں میں صریح تضاد اورتناقض پایا جاتا ہے۔ اب اگر وہ یہ نظریہ اختیار کریں کہ مسیح موعود نبی اللہ
بھی ہو گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا امتی بھی تو انہیں خاتم النبیین کے بعد ایک نئی قسم کے
نبی کا آنا مسلم ہو گا جسے وہ خاتم النبیین کے خلاف نہیں سمجھیں گے لہذا خاتم النبیین کے معنی جو وہ ’’مطلق آخری نبی‘‘
کرتے ہیں غلط قرار پا جائیں گے اور ان کی اس توجیہہ کے لحاظ سےخاتم النبیین کا مفہوم یہ بن جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ
علیہ و سلم آخری تشریعی اور مستقل نبی ہیں جن کی شریعت کا عمل قیامت تک رہے گا۔ ان
معنوں میں ختم نبوت مسیح کے امتی نبی کی حیثیت سے آنے میں مانع نہیں ہو گی اس طرح
انہیں ختم نبوت کے ان معنوں میں ہم سے اتفاق کرنا پڑے گا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نجران کے
عیسائیوں سے جو صلیبی عقیدہ کے قائل تھے یہ سوال کیا جبکہ بحث مسیح ؑ کے ولد اللہ ہونے کے متعلق چل رہی تھی۔ اَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَبَّنَا
حَیٌّ لَا یَمُوْتُ وَاَنَّ عِیْسیٰ آتٰی
عَلَیْہِ الْفَنَاءُ؟ قَالُوْا بَلٰی کہ کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے اور وہ نہیں مرے گا اور عیسیٰ ؑپر فنا وارد ہو چکی ہے انہوں نے کہا۔ ہاں ایسا
ہی ہے!
اسی طرح حدیث نبوی میں وارد ہے ان عیسیٰ ابن مریم عاش مائۃ و عشرین
سنہ۔ کہ بے شک عیسیٰ بن مریم ایک سو بیس برس زندہ رہے۔
یہ
ہر دو حدیثیں وفات مسیح ؑ پر روشن دلیل
ہیں اور ان کی صدیوں تک جسمانی زندگی کے متعلق کوئی حدیث نبوی میں موجود نہیں۔ اگر
مولوی ندوی صاحب کوئی ایسی حدیث پیش کر سکیں جس میں یہ مذکور ہو کہ وہ کئی صدیاں
جسمانی زندگی پائیں گے تو پیش کریں انہیں یک صد روپیہ دم نقد انعام دیا جائے گا۔
لیکن اگر وہ کوئی ایسی حدیث پیش نہ کر سکیں اور وہ ہرگز پیش نہ کر سکیں گے تو
انہیں اس باطل عقیدہ سے رجوع کرنا چاہیے کہ حضرت عیسیٰؑ آسمان پر صدیوں سے بحیاتِ جسمانی زندہ ہیں لہذا
وہی اصالتًا نازل ہوں گے۔
مولوی ابو الحسن
صاحب نے اپنی کتاب ’’قادیانیت‘‘ میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ پر مستقل صاحبِ شریعت
ہونے کا الزام دیا ہے جس کو کتاب ہذا میں سراسر بہتان ثابت کرتے ہوئے ان پر اتمام
حجت کر دی گئی ہے۔ اسی طرح ان کے باقی سب الزامات کی روشن دلائل کے ساتھ تردید کر
دی گئی ہے اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تحریروں سے دکھادیا گیا ہے کہ آپ کی
نبوت بحیثیت نائب النبوۃ کے ہے نہ بطور مستقل نبوت کے۔
مولوی ابو الحسن صاحب حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ پر
یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ انہوں نےمثیل مسیح یا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ
حضرت مولوی نور الدینؓ کے مشورہ سے کیا تھا اور ساتھ ہی دبے لفظوں میں یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ آپ نے
یہ دعویٰ انگریزوں کے ایماء پر کیا ہے۔ کتاب ’’احمدیت ‘‘میں ان کے اِن شبہات کو
بیخ و بُن سے اکھاڑ دیا گیا ہے۔ ایک بڑا اعتراض مولوی ابو الحسن صاحب کا یہ تھا کہ
حضرت بانیٔ احمدیت نے انگریزی حکومت سے
جہاد نہیں کیا بلکہ آپ نے انگریزی حکومت کے وفادار رہے ہیں۔ اس اعتراض کا بھی شافی
جواب دیا گیا ہے اور اس بارہ میں علماء کے فتاویٰ
نقل کئے گئے ہیں جو اہل حدیث، شیعہ اور سنّی علماء کے خواہ وہ دیوبندی ہوں
یا بریلوی، ایسے فتاویٰ پر مشتمل ہیں کہ انگریزوں سے جہاد ممنوع ہے اور بالخصوص اس
میں مولوی ابو الحسن صاحب کے بزگوار حضرت سیّد احمد صاحب بریلویؒ مجدّد صدی سیزدہم
علیہ الرحمۃ کا فتویٰ بھی درج ہے کہ انگریزوں سے جہاد جائز نہیں۔
ہم حیران ہیں کہ ان کے گھر کے بزرگ تو یہ فتوے دے
رہے ہیں کہ انگریزوں سے جہاد شرعًاجائز نہیں لیکن حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ اگر
ایسا فتویٰ دے دیں تو مولوی ابو الحسن
صاحب کے نزدیک وہ مقام خلافت سے گر جاتے ہیں۔ گویا مولوی صاحب نے دو پیمانے رکھے
ہوئے ہیں اپنوں کے لئے اور پیمانہ استعمال کرتے ہیں اور جس کے مخالف ہو جائیں اس
کے لئے اس سے مختلف پیمانہ استعمال کرتے ہیں۔
سیرت
سیّد احمد حصہ اول صفحہ ۱۹۰ مرتّبہ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی پر لکھا ہے:
’’اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ انگریز گھوڑوں پر
سوار چند پالکیوں میں کھانا رکھے کشتی کے قریب آیا اور پوچھا کہ پادری صاحب کہاں
ہیں؟ حضرت نے (حضرت سیّد احمد صاحب بریلویؒ نے ۔ناقل) کشتی پر سے جواب دیا کہ میں
یہاں موجود ہوں۔ انگریز گھوڑے پر سے اترا اور ٹوپی ہاتھ میں لئے کشتی پر پہنچا اور
مزاج پرسی کے بعد کہا کہ تین روز سےمیں نے اپنے ملازم کو یہاں کھڑا کر دیا تھا کہ آپ
کی اطلاع کریں۔ آج انہوں نے اطلاع دی کہ اغلب یہ ہے کہ حضرت قافلہ کے ساتھ تمہارے
مکان کے سامنے پہنچیں، یہ اطلاع پاکر غروب آفتاب تک میں کھانے کی تیاری میں مشغول
رہا۔ سید صاحب نے حکم دیا کہ کھانا اپنے برتنوں میں منتقل کر لیا جائے۔ کھانا لے
کر قافلہ میں تقسیم کر لیا گیا اور انگریزدو تین گھنٹہ ٹھہر کر چلا گیا۔‘‘
اس واقعہ پر مولوی
مشتاق احمد صاحب نظامی نے جو چبھتا ہوا اعتراض کیا ہے اسے ہم نقل کرنا نہیں چاہتے
بہرحال اس واقعہ سے اتنا ظاہر ہے کہ انگریزوں سے آپ کو کوئی پرخاش نہ تھی۔ تب ہی
تو ان کی دعوت قبول فرمائی۔ ’’تواریخ عجیبہ‘‘ صفحہ ۱۸۲ پر لکھا ہے:
’’اس سوانح اور مکتوبات منسلکہ سے معلوم ہوتا ہے
کہ سید صاحب کا سرکار انگریز سے جہاد کرنے کا ارادہ ہرگز نہ تھا وہ اس آزاد
عملداری کو اپنی ہی عملداری سمجھتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ اگر سرکار انگریزی اس
وقت سید صاحب کے خلاف ہوتی تو ہندوستان سے سید صاحب کو کچھ مدد نہ پہنچتی مگر
سرکار انگریزی اس وقت دل سے چاہتی تھی کہ سکھوں کا زور کم ہو۔‘‘
اسی تاریخ کے صفحہ ۹۱ پر سید صاحب کا یہ مقولہ بھی
درج ہے:
’’سرکار
انگریزی سے کس سبب سے جہاد کریں اور خلاف اصول مذہب طرفین کا خون بلا سبب گرا ویں‘‘۔
(خون کے
آنسو صفحہ ۳۳ ،۳۴)
’’حیات طیبہ‘‘ صفحہ ۳۰۲ میں لکھا ہے:
’’سید صاحب کے پاس مجاہدین جمع ہونے لگے تو سید
صاحب نے مولانا اسماعیل کے مشورہ سے شیخ
غلام علی رئیس الٰہ آباد کی معرفت لفٹننٹ
گورنر ممالک مغربی
پاکستان کی خدمت میں اطلاع دی کہ ہم لوگ سکھوں پر جہاد کی تیاری کرنے کو ہیں سرکار
تو اس میں کچھ اعتراض نہیں ہے؟ لفٹننٹ گورنر
صاحب نے صاف لکھ دیا کہ ہماری عملداری میں اور امن میں خلل نہ پڑے تو ہمیں کچھ
سروکار نہیں‘‘
(بحوالہ
خون کے آنسو صفحہ ۳۴)
پھر ’’حیات طیبہ‘‘صفحہ۲۹۶ مرتبہ مرزا حیرت دہلوی
مطبوعہ فاروقی دہلوی میں لکھا ہے:
’’کلکتہ میں جب مولانا اسماعیل نے جہاد کا وعظ
فرمانا شروع کیا ہے اور سکھوں کے مظالم کی کیفیت پیش کی ہے تو ایک شخص نے دریافت
کیا آپ انگریزوں پر جہاد کا فتویٰ کیوں نہیں دیتے؟ آپ نے جواب دیا ان پر جہاد کرنا کسی طرح واجب نہیں
ایک تو ان کی رعیت ہیں دوسرے ہمارے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ ذرا بھی دست
اندازی نہیں کرتے۔ ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح آزادی ہے بلکہ ان پر کوئی حملہ آور
ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں۔‘‘
(بحوالہ
خون کے آنسو صفحہ ۳۲)
یہ مولانا محمد اسماعیل صاحب حضرت سید احمد صاحب
بریلوی مجدد صدی سیزدہم کے مرید خاص تھے۔ اب جائے تعجب ہے کہ مولوی ابو الحسن صاحب
ندوی اپنے بزرگوں کے اس فتویٰ کو نظر انداز کر کے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو
انگریزوں سے جہاد نہ کرنے پر مطعون قرار دے رہے ہیں حالانکہ حضرت بانی سلسلہ
احمدیہ نے جو جہاد انگریزوں کے خلاف جائز تھا یعنی اسلامی تبلیغ کا جہاد جو قرآن الفاظ
کی رو سے جہاد کبیر کہلاتا ہے۔ اس کا حق پورے طور پر ادا کر دیا کیونکہ آپ نے حضرت
مسیح بن مریم ؑ کی طبعی وفات اور سرینگر محلہ خانیار میں ان کا مدفون ہونا ثابت کر
کے صلیبی عقیدہ کو پاش پاش کر دیا ہے اور
قیصرہ ہند ملکہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ظلیت
کا پورا حق ادا کر دیا ہے۔ اگر آپ کو انگریزوں نے کھڑا کیا ہوتا تو آپ کو کبھی اس بات کی جرأت نہ ہوتی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مسلک یہی ہے کہ آپ
کی جماعت جس ملک میں بھی رہتی ہو اسے اپنے ملک کا پورا وفادار ہونا چاہیئے تا آنکہ
حکومتِ وقت مداخلت فی الدین نہ کرے اور اگر کوئی حکومت مداخلت فی الدین پر اتر آئے
تو پھر سنّتِ نبویؐ کے مطابق وہاں سے ہجرت کرنا ضروری ہو گی۔ ملک کے اندر رہتے
ہوئے حکومت سے جنگ و جدال سنّت نبوت کی رو سے جائز نہیں۔ پھر باقی علماء اسلام کے
بھی یہی فتوے ہیں جن کی نقول کتاب میں درج کر دی گئی ہیں۔ خذ ھذا ولا تکن من الغافلین۔
قاضی
محمد نذیر لائلپوری
۱۷ ،دسمبر۱۹۷۲ء ناظر تصنیف و اشاعت لٹریچر
ربوہ
نوٹ: میں نے
کتاب کا اکثر حصہ زبانی لکھوایا ہے۔ میں محترم ڈاکٹر سید ظہور احمد شاہ صاحب واقف
زندگی اور سید عبد الحی صاحب ایم ۔ اے واقفِ
زندگی کا ممنون ہوں جنہوں نے میرے زبانی بیان کو املا کیا ہے۔
خاکسار ۔قاضی محمد نذیر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَ عَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْد
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھُــوَ النَّــاصِــر
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے احمدیت کے خلاف تنابز بالالقاب سے کام لیتے ہوئے عرصہ ہؤا ایک کتاب ‘‘قادیانیت’’ کے نام سے شائع کی ہے۔ اس کے متفرق اہم سوالوں کے جوابات گاہے گاہے احمدیہ لٹریچر میں شائع ہو تے رہے ہیں۔
نظارت کے سامنے بعض احباب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس کتاب کا جواب یکجائی طور پر شائع ہونا ضروری ہے۔گو اِس کتاب کی زبان دوسرے معاندینِ احمدیت کی طرح خلافِ تہذیب نہیں لیکن یہ کتاب اپنی سپرٹ کے لحاظ سے ان کتابوں سے مختلف نہیں جو گالیاں دینے والے معاندینِ احمدیت نے شائع کی ہیں۔ کیونکہ حقیقت میں یہ کتاب بھی متعصبانہ رنگ میں احمدیت کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے کی نیت سے لکھی گئی ہے۔ گو اس کی طرزِ نگارش مستشرقین کی طرح ہے۔ اسلام کے خلاف جن مستشرقین نے کتابیں شائع کی ہیں ان کا طریق نگارش یہ رہا ہے کہ اسلام اور بانیٔ اسلام کی تعریف کرتے کرتے دودھ میں زہر ملا کر پیش کرتے ہیں اور کوئی ایسی چوٹ کر جاتے ہیں کہ جس سے پڑھنے والے کی ذہنیت اسلام اور بانیٔ اسلام کے خلاف مسموم ہو جائے ۔ مگر یہ اثر بھی قائم ہو کہ لکھنے والا بڑا دیانت دار ہے کیونکہ اس نے شستہ زبان استعمال کی اور بظاہر تعصب ظاہر نہیں کیا بلکہ محققانہ رنگ اختیار کیا ہے۔ حالانکہ جو اعتراض وہ سچ کے ساتھ جھوٹ ملا کر کر جاتے ہیں وہ سراسر ان کی کسی غلط فہمی یا دانستہ مغالطہ دہی پر مشتمل ہوتا ہے۔
محترم مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کی تصنیف ہذا بھی مستشرقین کی طرز پر ہی لکھی گئی ہے۔وہ اپنی کتاب میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تعریف بھی کرجاتے ہیں لیکن تعریف میں زہر بھی ملا دیتے ہیں اور ایسی باتیں تحریکِ احمدیت کی طرف منسوب کر جاتے ہیں جنہیں احمدی ہرگز تسلیم نہیں کرتے۔ کسی کی دیانت کے خلاف رائے قائم کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن واقعات کو نظر انداز کرنا بھی اس سے زیادہ مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ احمدیت اسلام کے اندر ایک تحریک ہے نہ کہ اسلام کے علاوہ کوئی نیا دین یا ملّت۔ مگر ندوی صاحب کی اپنی کتاب میں یہ کوشش رہی ہے کہ احمدیت کو قادیانیت کا نام دے کر جو تنابز بالالقاب ہے، اسلام کے بالمقابل ایک متوازی دین ثابت کیا جائے اور اس کی بنیاد ایک نئی تشریعی نبوّت پر قرار دی جائے۔ یہ نتیجہ جو وہ نکالنا چاہتے ہیں اس میں انہوں نے سراسر حق و انصاف کا خون کیا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا دین نہ تو اسلام کے علاوہ کوئی دین ہے اور نہ آپ کو جدید شریعت لانے والے نبی ہونے کا دعویٰ ہے۔ البتہ ایسا الزام آپؑ کے معاندین آپؑ کے خلاف غلط فہمی اور بدگمانی پھیلانے کے لئے ضرور لگاتے آئے ہیں جس کے جواب میں حضرت مرزا غلام احمد بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے ہمیشہ ایسے دعویٰ سے انکار کیا ہے اور زوردار الفاظ میں واشگاف طور پر ایسے الزام کی تردید فرمائی ہے چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں۔
‘‘ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہ ہمارااعتقادجو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلمخاتم النبیّین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اوروہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شُعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتااور نہ کم ہو سکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتاجو احکا م فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور مُلحد اور کافرہے اور ہمار ااس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنیٰ درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ راہِ راست کے اعلیٰ مدارج بجُز اقتدا اُس امام الرّسل کے حاصل ہو سکیںکوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے۔’’
(ازالہ اوہام حصہ اوّل ، روحانی خزائن جلد ٣ صفحہ١٦٩،١٧٠)
‘‘جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بنا رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے اور جس خدا کی کلام یعنی قرآن کو پنجہ مارنا حکم ہے ہم اس کو پنجہ مار رہے ہیں اور فاروق رضی اﷲ عنہ کی طرح ہماری زبان پرحَسْبُنَا کِتَابَ اللّٰہہے اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور قرآن میں پیدا ہو قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں۔ بالخصوص قصوں میں جو بالاتفاق نسخ کے لائق بھی نہیں ہیں۔ اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیّدنا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم اُس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور روزِ حساب حق اور جنّت حق اور جہنّم حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اﷲ جلّ شانہٗ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعتِ اسلام میں سے ایک ذرّہ کم کرے یا ایک ذرّہ زیادہ کرے یا ترکِ فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے۔ اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبّہ پر ایمان رکھیں کہلَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ اور اسی پر مریں اور تمام انبیاء اور تمام کتابیںجن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے اُن سب پر ایمان لاویں اور صوم اور صلوٰۃ اور زکوٰۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں۔ غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنّت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں اُن سب کا ماننا فرض ہے اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے ۔’’
(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد ١٤ صفحہ ٣٢٣)
‘‘ہم مسلمان ہیں۔ خدائے واحد لا شریک پر ایمان لاتے ہیں اور کلمہلَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُکے قائل ہیں۔ اور خدا کی کتاب قرآن اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جو خاتم الانبیاء ہے مانتے ہیں اور فرشتوں اور یوم البعث اور بہشت اور دوزخ پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں۔ اور اہل قبلہ ہیں اور جو کچھ خدا اور رسول ؐ نے حرام کیا اس کو حرام سمجھتے اور جو کچھ حلال کیا اس کو حلال قرار دیتے ہیں اور نہ ہم شریعت میں کچھ بڑھاتے اور نہ کم کرتے ہیں اور ایک ذرہ کی کمی بیشی نہیں کرتے اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہمیں پہنچا اس کو قبول کرتے ہیں چاہے ہم اس کو سمجھیں یا اس کے بھید کو سمجھ نہ سکیں اور اس کی حقیقت تک پہنچ نہ سکیں اور ہم اللہ کے فضل سے مومن موحد مسلم ہیں۔ ’’
(نور الحق جزء اول روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۷)
‘‘مَیں سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں اور میری جماعت مسلمان ہے۔ اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر اُسی طرح ایمان لاتی ہے جس طرح پر ایک سچے مسلمان کو لانا چاہئے۔ مَیں ایک ذرّہ بھی اسلام سے باہر قدم رکھنا ہلاکت کا موجب یقین کرتا ہوں اور میرا یہی مذہب ہے کہ جس قدر فیوض اور برکات کوئی شخص حاصل کر سکتا ہے اور جس قدر تقرب الی اللہ پا سکتا ہے وہ صرف اورصرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اطاعت اور کامل محبت سے پا سکتا ہے ورنہ نہیں۔ آپ کے سوا اب کوئی راہ نیکی کی نہیں۔’’
(لیکچر لدھیانہ ، روحانی خزائن جلد٢٠صفحہ٢٦٠)
‘‘ اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو! اور اے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیاہے۔ اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اورجلال اور تقدّس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔’’
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ١٥ صفحہ ١٤١)
‘‘اے دوستو! یقینا یادرکھو کہ دنیا میں سچا مذہب جو ہر ایک غلطی سے پاک اور ہر ایک عیب سے منزّہ ہے، صرف اسلام ہے۔ یہی مذہب ہے جو انسان کو خدا تک پہنچاتا اور خدا کی عظمت دلوں میں بٹھاتا ہے۔’’
(تبلیغ رسالت جلد٦ صفحہ ١٥٤۔ مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ۱۵۸)
‘‘یہ اسلام ہی کا خاصہ ہے کہ وہ صرف قصوں کی ناقص اور ناتمام تسلی کو پیش نہیں کرتا بلکہ وہ ڈھونڈنے والوں کو زندہ نشانوں سے اطمینان بخشتا ہے…زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ سے زندہ خدا ملے۔ زندہ خدا وہ ہے جو ہمیں بلا واسطہ ملہم کر سکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلا واسطہ ملہم کو دیکھ سکیں۔ سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے۔’’
(تبلیغ رسالت جلد٦ صفحہ ١٤،١٥۔ مجموعہ اشتہارات جلد۲ صفحہ۱۲)
‘‘ہمیں بڑا فخر ہے کہ جس نبی علیہ السلام کا ہم نے دامن پکڑا ہے خدا کا اس پر بڑا ہی فضل ہے۔وہ خدا تو نہیں مگر اس کے ذریعہ سے ہم نے خدا کو دیکھ لیا ہے۔ اُس کا مذہب جو ہمیں ملا ہے خدا کی طاقتوں کا آئینہ ہے…ہم کیا چیز ہیں جو اِس شکر کو ادا کر سکیں کہ وہ خدا جو دوسروں پر مخفی ہے اور وہ پوشیدہ طاقت جو دوسروں سے نہاں در نہاں ہے۔ وہ ذوالجلال خدا محض اس نبی کریم کے ذریعہ سے ہم پر ظاہر ہوگیا۔’’
(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد ٢٣ صفحہ ٣٨١)
‘‘میرا مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ذرا اِدھر اُدھر جانا بے ایمانی میں پڑنا ہے۔’’
(ملفوظات جلد۴صفحہ۵۱۹)
‘‘میں کھول کر کہتا ہوں اور یہی میرا عقیدہ اور مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع اور نقش قدم پر چلنے کے بغیر کوئی انسان کوئی روحانی فیض اور فضل حاصل نہیں کر سکتا۔’’
(ملفوظات جلد۴ صفحہ۵۲۳، ۵۲۴)
‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبیّین ہیں اور قرآن شریف خاتم الکتب۔ اب کوئی اور کلمہ یا کوئی اور نماز نہیں ہو سکتی۔جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یا کر کے دکھایا اور جو کچھ قرآن شریف میں ہے اس کو چھوڑ کر نجات نہیں مل سکتی۔ جو اس کو چھوڑے گا وہ جہنم میں جاوے گا۔ یہ ہمارا مذہب اور عقیدہ ہے۔ ’’
(ملفوظات جلد۴ صفحہ ۵۵۸)
‘‘ عقیدہ کے رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اُس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے۔’’
(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ١٩ صفحہ ١٥،١٦)
‘‘میں بار بار کہتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سچی محبت رکھنا اور سچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحبِ کرامات بنا دیتا…… چنانچہ میں اس میں صاحبِ تجربہ ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب مردے، ان کے خدا مردے اور خود وہ تمام پَیرو مردے ہیں اور خداتعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہو جانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں۔ ہرگز ممکن نہیں۔’’
(تبلیغِ رسالت جلد٦ صفحہ ١٨۔ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۱۵، ۱۶)
‘‘میں مسلمان ہوں ۔ قرآن کریم کو خاتم الکتب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم الانبیاء مانتا ہوں اور اسلام کو ایک زندہ مذہب اور حقیقی نجات کا ذریعہ قرار دیتا ہوں۔ خداتعالیٰ کی مقادیر اور قیامتکے دن پر ایمان لاتا ہوں۔ اسی قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہوں۔ اتنی ہی نمازیں پڑھتا ہوں۔ رمضان کے پورے روزے رکھتا ہوں۔’’
(ملفوظات جلد ۱ صفحہ۳۷۵)
‘‘ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں
دل سے ہیں خدام ختم المرسلیںؐ
شرک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں
خاک راہِ احمدِؐ مختار ہیں
سارے حکموں پر ہمیں ایمان ہے
جان و دل اس راہ پر قربان ہے’’
(ازالۂ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد٣ صفحہ۵۱۴)
‘‘ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دیں دینِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے
کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاوے
یہ ثمر باغِ محمدؐ سے ہی کھایا ہم نے
ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا
نور ہے نور! اٹھو! دیکھو! سنایا ہم نے
اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا
کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے’’
(آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد۵صفحہ ٢٢٤)
اپنی نبوّت کے متعلق فرماتے ہیں:۔
‘‘میری مراد نبوّت سے یہ نہیں ہے کہ میں نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوّت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں۔ صرف مراد میری نبوّت سے کثرتِمکالمات و مخاطبتِ الٰہیہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع سے حاصل ہے ۔ سو مکالمہ مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں۔ پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی۔ یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ مخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم الٰہی نبوّت رکھتا ہوں۔ وَلِکُلٍّاَنْ یَّصْطَلِحَ۔‘‘(تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ۵۰۳)
نیز اپنے آخری خط مندرجہ اخبار عام میں تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوّت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنی ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعتِ اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں۔ یہ الزام صحیح نہیں ہے۔ بلکہ ایسا دعویٰ نبوّت کا میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر ایک کتاب میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوّت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں۔’’
(اخبار عام لاہور ٢٣ـ مئی ١٩٠٨ء)
نزول المسیح میں تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘اس نکتہ کو یاد رکھو کہ میں نبی اور رسول نہیں ہوں باعتبار نئی شریعت اور نئے دعویٰ اور نئے نام کے۔ اور میں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیّتِ کاملہ کے۔ وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوّت کا کامل انعکاس ہے۔’’
(نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد۱۸ حاشیہ صفحہ ۳۸۱)
ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اسلام کے بالمقابل کسی متوازی دین یا شریعت جدیدہ کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ آپ کا دعویٰ ظِلّی اور انعکاسی نبوّت کا ہے اور یہ مقام آپ کو باتباعِ نبویؐ حاصل کرنے کا دعویٰ ہے نہ مستقل طور پر براہِ راست نبوّت پانے کا دعویٰ۔ آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ آپ ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے اُمّتی۔ کیونکہ احادیث نبویہ میں آنے والے مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نواس بن سمعانؓ کی روایت میں چار دفعہ نبی اللہ قرار دیا ہے۔ (صحیح مسلم باب خروج الدجال) اور بخاری اور مسلم کی روایات میں اس مسیح موعود کواِمَامُکُمْ مِنْکُمْاور فَاَمَّکُمْ مِنْکُمْ کے الفاظ میں اُمّتی فرد ہونے کی حیثیت میں اُمّت کا امام بھی قرار دیا ہے۔(باب نزول عیسیٰ) اور مسند احمد بن حنبل کی روایت کے مطابق موعود عیسیٰ کو ہی یُوْشَکُ مَنْ عَاشَ مِنْکُمْ اَنْ یَّلْقٰی عِیْسیَ ابْنَ مَرْیَمَ اِمَامًا مَّھْدِیًّا کے الفاظ میں امام مہدی قرار دیا گیا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد۶، صفحہ ۴١١مطبوعہ بیروت) انہی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کو اُمّتینبوّت کا دعویٰ ہے نہ کہ مستقلہ نبوّت کا جب سرے سے آپ کا مستقلہ نبوّت کا دعویٰ ہی نہیں تو کسی مستقل شریعت کا دعویٰ کیسے ہو سکتا ہے۔ ایسے دعاوی سے آپ نے ہمیشہ انکار کیا ہے۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘جس جس جگہ میں نے نبوّت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں۔ مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہےرسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔’’
(اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۱۰، ۲۱۱)
چونکہ اس قسم کا دعویٰ مولوی ابو الحسن ندوی کے نزدیک ختم نبوّت کے منافی نہ تھا اس لئے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے خلاف غلط فہمی پھیلانے اور آپ سے لوگوں کو بدگمان کرنے کے لئے انہوں نے آپ پر ہی اپنی اس کتاب میں یہ الزام دے دیا ہے کہ آپ کا دعویٰ جدید شریعت لانے اور مستقل نبی ہونے کا ہے۔
خاتم النبیّین کے کن معنوں پر اجماع ہے؟
ندوی صاحب اس بات کو خوب جانتے تھے کہ آیت خاتم النبیّین کی رو سے اُمّت کا اجماع صرف اس بات پر ہوا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا یا مستقل نبی نہیں آسکتا۔ جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒنے فرمایا ہے لَا یَأْتِی بَعْدَہٗ نَبِیٌّ مُسْتَقِلٌّ بِالتَّلَقِّیْ (الخیر الکثیر صفحہ ۸۰) اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اُمّت محمدیہ کے اندر نبی کا ہونا ختم نبوّت کے منافی نہیں کیونکہ حضرت ملا علی القاری علیہ الرحمۃ نے خاتم النبیّین کے معنی یہ کئے تھے اَلْمَعْنٰی اَنَّہٗ لَا یَاْتِیْ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ یَنْسِخُ مِلَّتَہٗ وَ لَمْ یَکُنْ مِنْ اُمَّتِہٖ(موضوعاتِ کبیر صفحہ ٥٩)کہ آیت خاتم النبیّین کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپؐ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمّت میں سے نہ ہو گویا ایسے نبی کی آمد جو شریعت کو منسوخ نہ کرے اور اُمّت میں سے ہو آیت خاتم النبیّین کے منافی نہیں۔
پھر مولوی صاحب موصوف یہ بھی جانتے تھے کہ حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کی تشریح علماء نے یہ بھی کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہعلیہو سلم کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں آسکتا جیسا کہ حضرت امام علی القاری نے لکھا ہے:۔
‘‘حَدِیْثٌ لَا وَحْیَ بَعْدِیْ بَاطِلٌ لَا اَصْلَ لَہٗنَعَمْ وَرَدَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ مَعْنَاہُ عِنْدَ الْعُلَمَآءِ لَا یَحْدِثُ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ بِشَرْعٍ یَنْسِخُ شَرْعَہٗ۔’’
(الاشاعۃ فی اشراط الساعۃ صفحہ ٢٢٦ اور المشرب الوردی فی مذھب المہدی)
کہ یہ حدیث کہ میرے بعد وحی نہیں ہو گی باطل ہے البتہ حدیث لا نبی بعدی وارد ہے جس کے معنی علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ آئندہ ایسا کوئی نبی نہیں پیدا ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کو منسوخ کرے۔حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے یہ بھی لکھا ہے:۔
‘‘ان النبوۃ تتجزی و جزع منھا باق بعد خاتمالانبیاء’’
(المسوی شرح المؤطا جلد٢ صفحہ ٢١٦، مطبوعہ دہلی)
کہ‘‘ نبوّت قابل انقسام ہے اور اس کا ایک حصہ خاتم الانبیاء کے بعد باقی ہے۔’’
آپ کا یہ قول صحیح بخاری کے قول لَمْ یَبْقَ مِنَ النَّبُوَّۃِ اِلَّا الْمُبَشِّرَاتکے مطابق ہے کہ نبوّت میں سے مبشرات کا حصہ باقی ہے۔
مولوی صاحب جانتے تھے کہ مسیح موعود جس کی آمد اُمّت میں متوقع چلی آتی ہےحدیث نبوی کے مطابق تشریعی اور مستقل نبی کی حیثیت میں نہیں آئیں گے کیونکہ تشریعی اورمستقل نبوّت تو بموجب حدیث نبوی باقی نہیں رہی اور وہ صرف مبشرات پانے کی وجہ سے نبی کہلائیں گے اور اُمّت محمدیہ کے لئے حکم و عدل ہوں گے۔ اسی منصب کے پانے کا حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ہے۔
مسئلہ ختم نبوّت میں ہمارے اور مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کے خیال میں اصولی طور پر کوئی اختلاف نہیں، نہ مسیح موعود کے اس منصب کے بارہ میں کوئی اختلاف ہے کہ وہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی ہو گا۔ اگر اختلاف ہے تو وہ صرف مسیح موعود کی شخصیت میں ہے۔ ہمارے نزدیک مولوی ابو الحسن صاحب اس خیال میں غلطی پر ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہی اِصَالتًا دوبارہ نازل ہوں گے۔ ہمارے نزدیک قرآن و حدیث کی رو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام دیگر انبیاء کی طرح وفات پا چکے ہوئے ہیں اور جس مسیح کے نزول کی پیشگوئی تھی اس کا مصدا ق اُمّت محمدیہ کا ہی ایک فرد تھا۔ ہمارے نزدیک یہ پیشگوئی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے وجود میں پوری ہو گئی ہے اور آپ ہی اس اُمّت کے لئے مہدی معہود اور مسیح موعود ہیں۔ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے اس دعویٰ کو کہ آپ ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے اُمّتی آیت خاتم النبیّین اور حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِی کے مخالف تو نہیں پاتے تھے مگر چونکہ آپ کو قبول کرنے کے لئے بھی آپ کا دل مائل نہیں تھا اس لئے انہوں نے یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کی ڈیوٹی اپنے ذمہ لے کے آپ کی طرف یہ دعویٰ منسوب کر دیا ہے کہ آپ نئی شریعت لانے والے مستقل نبی ہونے کے دعویدار ہیں۔
مولوی ابو الحسن ندوی کا افتراء
ندوی صاحب نے مستقل نبوّت کے عنوان کے تحت لکھا ہے:۔
‘‘مرزا صاحب کی تصنیفات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے نبی مستقل صاحبِ شریعت ہونے کے قائل تھے۔’’
(قادیانیت صفحہ ٩٤)
مولوی ابو الحسن صاحب کا حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ پر نبی مستقل ہونے کا الزام بہتانِ عظیم اور افتراء ہے۔ مگر اس امرکو ثابت کرنے کے لئے وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘انہوں نے اربعین میں تشریعی یا صاحبِ شریعت کی تعریف کی ہے کہ جس کی وحی میں امر و نہی ہو اور وہ کوئی قانون مقرر کرے اگرچہ یہ امر ونہی کسی سابق نبی کی کتاب میں پہلے آچکے ہوں۔ ان کے نزدیک صاحبِ شریعت نبی کے لئے اس کی شرط نہیں کہ وہ بالکل جدید احکام لائے پھر وہ صاف صاف دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس تعریف کے مطابق صاحبِ شریعت اور مستقل نبی ہیں۔’’
(قادیانیت صفحہ٩٥)
اس کے بعد انہوں نے اربعین کی عبارت پیش کی ہے مگر اس عبارت میں مستقل نبی کے الفاظ موجود نہیں۔ وہ عبارت یہ ہے:۔
‘‘ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی اُمّت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعت ہو گیا۔ پس اس تعریف کے رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔ مثلاً یہ الہام قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ذَالِکَ اَزْکٰی لَھُمْ یہ براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور اس پر تئیس برس کی مدت بھی گزر گئی……
اگر کہوکہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےاِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُوْلٰى صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسیٰ (الأَعلىٰ:۱۹، ۲۰)یعنی قرآنی تعلیم توریت میں موجودہے۔’’
(اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷، صفحہ ۴۳۵، ۴۳۶)
اس عبارت کے منطوق سے ظاہر ہے کہ یہ عبارت بطور الزامِ خصم کے لکھی گئی ہے اور اس میں الزامی رنگ میں مخالفین پر حجت قائم کی گئی ہے۔ مگر اس میں آپ نے مستقل صاحبِ شریعت ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مستقل نبی ہونے کا دعویٰ ایک سراسر جھوٹا الزام ہے۔ اربعین ١٩٠٠ء میں شائع ہوئی۔ اس میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اصطلاحی نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ اس سے انکار کیا ہے۔ اس کے بعد ١٩٠١ء میں اشتہار ایک غلطی کے ازالہ میں لکھتے ہیں:۔
‘‘جس جس جگہ میں نے نبوّت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر شریعت لانے والا نبی نہیں ہوں اور نہ مستقل طور پر نبی ہوں۔’’
(اشتہار ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۱۰)
پس ایسی واضح عبارت کی موجودگی میں جو اربعین سے بعد کی ہے۔ ایک محقق عالم کا فرض ادا کرتے ہوئے ندوی صاحب کا فرض تھا کہ وہ حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ پر مستقل صاحبِ شریعت نبی ہونے کا الزام نہ لگاتے کیونکہ آپ صاف لفظوں میں ایسے دعویٰ سے انکار کر رہے ہیں۔ مولوی صاحب موصوف نے اربعین کی عبارت بھی ادھوری پیش کی ہے۔ اور اس کے بعد کی اس عبارت کو لوگوں کی نگاہ سے اوجھل رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جس میں آپ فرماتے ہیں:۔
‘‘ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خاتم الانبیاء اور قرآن ربّانی کتابوں کا خاتم ہے۔ تاہم خدا تعالیٰ نے اپنے نفس پر حرام نہیں کیا کہ تجدید دین کے طور پر کسی اور مامور کے ذریعہ یہ احکام صادر کرے کہ جھوٹ نہ بولو، جھوٹی گواہی نہ دو، زنا نہ کرو، خون نہ کرو اور ظاہر ہے کہ ایسا بیان کرنا بیان شریعت ہے جو مسیح موعود کا بھی کام ہے۔ ’’
(اربعین نمبر٤ ، روحانی خزائن جلد ۱۷، حاشیہ صفحہ۴۳۵)
نیز فرماتے ہیں:۔
‘‘میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے۔’’
(اربعین نمبر٤ ، روحانی خزائن جلد ۱۷، حاشیہ صفحہ۴۳۵)
ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ آپ پر جو اوامر و نواہی نازل ہوئے وہ بیانِ شریعت اور تجدیدِ دین کے طور پر ہیں نہ شریعت محمدیہ سے کسی الگ شریعت کے طور پر۔ لہذا آپ کو جدید شریعت ،مستقل نبی، یا تشریعی نبی، یا مستقلہ شریعت رکھنے والا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ اربعین میں نہ مستقل نبی یا مستقلہ شریعت رکھنے کا کوئی دعویٰ موجود ہے نہ اس کے بعد کی تحریروں میں ایسا کوئی دعویٰ موجود ہے۔ ایک تحریر ہم ایک غلطی کے ازالہ کی پیش کر چکے ہیں جس میں صاف لکھا ہے کہ آپ کو مستقل نبی ہونے یا مستقل شریعت لانے کا دعویٰ نہیں۔ یہ ١٩٠١ء کی کتاب ہے۔ پھر ١٩٠۵ء کی کتاب الوصیت میں لکھتے ہیں:۔
’’خوب یاد رکھنا چاہئے کہ نبوّت تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بالکل مسدود ہے اور قرآن مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے یا اس کی پیروی معطل کرے بلکہ اس کا عمل قیامتتک ہے۔‘‘
(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰، حاشیہ صفحہ۳۱۱)
پھر اس کے بعد تجلّیاتِ الٰہیہ کے صفحہ٩ پر تحریر فرماتے ہیں:۔
’’نبی کے لفظ سے اس زمانہ کے لئے صرف خدا تعالیٰ کی یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شرفِ مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ حاصل کرے اور تجدید دین کے لئے مامور ہو۔ یہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری شریعت لائے کیونکہ شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم ہے……اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں جب تک کہ اس کو اُمّتی بھی نہ کہا جائے ۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی سے پایا نہ براہِ راست۔‘‘
(تجلّیاتِ الٰہیہ، روحانی خزائن جلد ۲۰، صفحہ ۴۰۱ حاشیہ)
پھر اپنی آخری کتاب چشمۂ معرفت میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امر ہے کہ ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوّت نہیں اور نہ کوئی شریعت ہے۔ اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو بلا شبہ وہ بے دین اور مردود ہے۔‘‘
(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ حاشیہ صفحہ ۳۴۰)
ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک اپنے آپ کو اُمّتی نبی قرار دیتے رہے نہ کوئی شریعتِ جدیدہ لانے والے نبی یا مستقل نبی۔اربعین کی عبارت جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا گیا ہے بطور الزامِ خصم کے ہے۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے آیت وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ کو مخالفین کے سامنے اس طرح اپنی صداقت کے ثبوت میں پیش کیا تھا کہ یہ آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت کی روشن دلیل ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہم پر کوئی جھوٹا قول باندھ لیتے تو ہم انہیں دائیں ہاتھ سے پکڑ کر ان کی رگِ گردن کاٹ دیتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ کوئی مفتری اور متقوّل علی اللہ اپنے وحی و الہام کے دعویٰ کے بعد ٢٣ سال کی لمبی عمر نہیں پا سکتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پائی۔ حضر ت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے بتایا کہ میرے وحی و الہام کے دعویٰ پر بھی اتنا عرصہ گزرچکا ہے لہذا یہ آیت میری صداقت پر بھی روشن دلیل ہے۔ اس پر بعض مخالفین نے کہا کہ یہ آیت تو صرف صاحبِ شریعت مدعی کے لئے معیار ہو سکتی ہے۔ اس کے جواب میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے فرمایا کہ تمہارا یہ دعویٰ باطل ہے۔ خدا تعالیٰ نے افتراء کے ساتھ شریعت کی قید نہیں لگائی۔ پھر الزامی رنگ میں فرمایا کہ جس امر کو تم شریعت کہتے ہو وہ اوامر و نواہی ہوتے ہیں اور یہ چیز میرے الہامات میں موجود ہے لہذا تم لوگوں پر میرا ماننا تمہارے مسلمہ معیار کی رو سے حجت ہوا۔
پھر اس خیال سے کہ کوئی آپ کو مستقل صاحبِ شریعت نبی ہونے کا مدعی نہ قرار دے آپ نے اس عبارت کے ساتھ ہی تحریر فرمایا کہ آپ کے اوامر و نواہی بطور تجدید دین اور بیان شریعت کے ہیں۔
تعجب کا مقام ہے کہ اس وضاحت کے باوجود مولوی ابو الحسن ندوی حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ پر اوامر و نواہی کے نزول سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ آپ کو مستقل صاحبِ شریعت نبی ہونے کا دعویٰ تھا۔ حالانکہ آپ کی تصنیفات شروع سے آخر تک اس بات پر روشن دلیل ہیں کہ آپ نے باتباع نبوی صلی اللہ علیہ و سلم وحی و الہام پانے کا دعویٰ کیا ہے۔ نہ بالاستقلال۔ آپ کے لٹریچر میں سے ایک فقرہ بھی اس مفہوم کا دکھایا نہیں جا سکتا کہ آپؑ مستقل نبی ہیں یا مستقل صاحبِ شریعت نبی ہیں۔ آپ نے ہمیشہ اپنے آپ کو یا ظِلّی اور بروزی نبی قرار دیا ہے یا ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی۔ تا یہ امر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے افاضہ ٔروحانیہ پر گواہ ہو۔
پس مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ پر سراسر افتراء ہے کہ انہوں نے مستقل صاحبِ شریعت نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
شریعت کے احکام پر مشتمل الہامات بزرگان دین کو بھی ہوئے
شریعت کے اوامر و نواہی پر مشتمل الہامات تو اُمّت کے بزرگوں پر بھی نازل ہوتے رہے مگر انہیں کبھی نہ کسی نے مستقل صاحبِ شریعت ہونے کا مدعی قرار دیا ہے اور نہ خود انہوں نے مستقل صاحبِ شریعت ہونے کا دعویٰ کیا ہے کیونکہ اوامر و نواہی پر مشتمل الہامات ان بزرگوں پر بواسطہ اتباع نبوی نازل ہوئے ہیں۔ پس بالواسطہ صاحبِ شریعت ہونے اور مستقل صاحبِ شریعت ہونے میں بُعد المشرقین ہے۔ دیکھئے فتوحات مکیّہ جلد٢ صفحہ ۲۵۸ پر لکھا ہے:۔
’’تنزل القرآن علی قلوب الاولیاء ما انقطع مع کونہ محفوظالھمولٰکنَّ لھم ذوق الانزال وھٰذا لبعضھم‘‘
(فتوحات مکیہ الباب التاسع و خمسون و مائۃ فی مقام الرسالۃ البشریۃ)
ترجمہ: قرآن کریم کا نزول اولیاء کے قلوب پر منقطع نہیں باوجودیکہ وہ ان کے پاس اپنی اصلی صورت میں محفوظ ہے۔ لیکن اولیاء اللہ پر نزول قرآنی کے ذوق کی خاطر قرآن ان پر نازل ہوتا ہے۔ اور یہ شان صرف بعض اولیاء کو ہی عطا کی جاتی ہے۔
مزید دیکھئے:۔
ا ۔ حضرت محی الدین ابن عربیؒتحریر فرماتے ہیں مجھ پر ذیل کی آیات نازل ہوئیں:
قل اٰمنّا باللّٰہ و ما انزل الینا و ما انزل علٰی ابراھیم واسمٰعیل و اسحٰق و یعقوب والاسباط ومااوتی موسیٰ وعیسیٰ والنبیُّون من ربّھم لا نفرق بین احد منھمونحن لہ مسلمون۔(اٰل عمران:۸۵)
یہ ساری کی ساری آیت آپ پر الہاماً نازل ہوئی۔
(فتوحات مکیہ،باب فی معرفۃ منزل التوکل الخامس الذی ما کشفہ احد من المحققینجلد٣ صفحہ ٣۴۱
مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت الطبعۃ الاولیٰ ۱۹۹۸م)
ب۔ حضرت خواجہ میر درد علیہ الرحمۃ پر مندرجہ ذیل آیات نازل ہوئیں جو امر و نہی پر مشتمل ہیں:۔
¬۱۔وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْن۔
٢۲۔لَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَ لَا تَکُنْ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ۔
٣۳۔وَمَا اَنْتَ بِھَادِ الْعُمْیِ عَنْ ضَلَالَتِھِمْ۔
(علم الکتاب، صفحہ ٦٤)
ج۔ حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی پر مندرجہ ذیل آیات امر و نواہی نازل ہوئیں:۔
١۱۔فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ۔
٢۲۔وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَوٰۃِ وَالْعَشِیِّ۔
٣۳۔فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔
٤۴۔وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰ ـہُ۔
(رسالہ اثبات الالہام والبیعۃ مؤلفہ مولوی محمد حسن رئیس لدھیانہ و سوانح عمری مولوی عبد اللہ غزنوی ازمولوی عبد الجبار غزنوی صفحہ ٢٥ مطبوعہ مطبع القرآن امرتسر)
د۔ امام عبد الوہاب شعرانی مسیح موعود کے متعلق لکھتے ہیں:
فَیُرْسِلُ وَلیًّا ذَا نُبُوَّۃٍ مُطْلِقَۃٍ وَیُلْھَمُبِشَرْعِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَیَفْہَمُہٗ عَلٰی وَجْھِہٖ
(الیواقیت والجواہر جلد ٢ صفحہ ٨٩ بحث نمبر ٤٧١)
ترجمہ: مسیح موعود نبوّت مطلقہ رکھنے والے ولی کی صورت میں بھیجا جائے گا۔ اس پر شریعت محمدیہ الہاماً نازل ہو گی اور وہ اسے ٹھیک ٹھیک سمجھے گا۔
پس مسیح موعود پر الہاماً شرع محمدیہ کے بعض اوامر و نواہی کا نزول اس کو مستقل صاحبِ شریعت نبی نہیں بناتا۔ کیونکہ اسے نبی الاولیاء ہی قرار دیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ غیر تشریعی نبی ہی ہو گا۔ پس قرآن کریم کا مسیح موعود پر الہاماً نزول جب پہلے بزرگوں کے نزدیک بھی اُسے مستقل صاحبِ شریعت نبی نہیں بناتا تو مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا اربعین کی زیرِ بحث عبارت سے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ پر یہ الزام دینا کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ مستقل نبی اور مستقل صاحبِ شریعت ہونے کے دعویدار تھے۔
افسوس ہے کہ مخالفین بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے خلاف لکھتے ہوئے خوف خدا کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور لوگوں کو آپ سے بدظن کرنے کے لئے آپ پر افتراء کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔
جب مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے دیکھا کہ اربعین کی عبارت میں تو مستقل صاحب ِشریعت یا مستقل نبی کے الفاظ نہیں تو انہوں نے اپنے افتراء کو صحیح ثابت کرنے کے لئے بعض اور الزامات دے دیئے۔
جہاد کی منسوخی کا الزام
سب سے پہلے وہ آپ پر جہاد کی منسوخی کا الزام لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
‘‘بعض اہم، قطعی اور متواتر احکامِ شریعت کو پوری قوت اور صراحت کے ساتھ منسوخ اور کالعدم کر دینا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایساصاحبِ شریعت اور ایسا صاحبِ امر و نہی سمجھتے تھے جو قرآنی شریعت کو منسوخ کر سکتا ہے۔ چنانچہ جہاد جیسے منصوص قرآنی حکم کو جس پر اُمّت کا تعامل اور تواتر ہے اور جس کے متعلق صریح حدیث ہے اَلْجِھَادُ مَاضٍ اِلٰی یَوْمِ الْقَیَامَۃِکی ممانعت کرنا اور اس کو منسوخ قرار دینا اس کا روشن ثبوت ہے۔’’
مولوی صاحب بزعم خود اس کے ثبوت میں اربعین نمبر۴، روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۴۴۳کے حاشیہ سے ذیل کا اقتباس پیش کرتے ہیں:۔
‘‘جہادیعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کے وقت میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی قتل سے بچا نہیں سکتا تھا اور شِیر خوار بچے بھی قتل کئے جاتے تھے۔ پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں بچوں اور بڈھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیا گیا اور پھر بعض قوموں کے لئے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذہ سے نجات پانا قبول کیا گیا اور پھر مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا۔’’
(اربعین نمبر۴، روحانی خزائن جلد ۱۷، صفحہ۴۴۳)
مولوی ندوی صاحب سنیئے! مسیح موعود کے وقت میں جہاد یا جزیہ کا موقوف کیا جانا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے مروی ہے۔ چنانچہ نزول مسیح کے باب میں صحیح بخاری کی ایک حدیث میں مسیح موعود کے متعلق یَضَعُ الْحَرْبَ کے الفاظ بھی وارد ہیں اور بعض نسخوں میںیَضَعُ الْجِزْیَةَکے الفاظ ہیں۔ خود حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:۔
‘‘صحیح بخاری کو کھولو اور اس حدیث کو پڑھو جو مسیح موعود کے حق میں ہے یعنییَضَعُ الْحَرْبَ جس کے یہ معنی ہیں کہ جب مسیح آئے گا تو جہادی لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا سو مسیح آچکا اور یہی ہے جو تم سے بول رہا ہے۔’’
(خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ۱۷)
پس حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ نے جہاد بمعنی قتال کے حکم کو ہرگز از خود موقوف نہیں کیا بلکہ اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے مسیح موعودؑ کے زمانہ میں موقوف کئے جانے کا اعلان کیا ہے۔ پس جہاد بمعنی قتال کو مسیح موعودؑ نے ہرگز ہمیشہ کے لئے منسوخ نہیں کیا بلکہ صرف اپنے وقت میں اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کیطرف سے پورے طور پر موقوف کئے جانے کا اعلان کیا ہے قطعی موقوف کے معنی اس جگہ پورے طور پر موقوف کے ہیں نہ ان معنوں میں کہ جہاد بمعنی قتال آئندہ کے لئے تا قیامت عَلَی الْاِطْلَاق موقوف ہو گیا ہے۔ پس آپ کے نزدیک جہاد بمعنی قتال کی پورے طور پر موقوفی مسیح موعود کے زمانہ حیات سے تعلق رکھتی ہے اور وہ بھیا س وجہ سے کہ مسیح موعود کے زمانۂ حیات میں جہاد کی شرائط جب سے وہ فرض ہوتا ہے مفقود تھیں۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘اِنَّ وُجُوْہُ الْجِھَادِ مَعْدُوْمَةٌ فِیْ ھٰذَا الزَّمَنِ وَِفی ھٰذِہِ الْبِلَادِ’’۔
(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۸۲)
یعنی اس زمانہ اور ملک میں جہاد کی شرائط موجود نہیں۔
جس نظم میں آپ نے قتال کو اس زمانہ میں حرام قرار دیا ہے آگے لکھا ہے۔
فرما چکے ہیں سیدِ کونین مصطفیٰ
عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا
اس سے ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک مسیح موعود کے زمانہ میں جہاد بالسیف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے مطابق صرف ملتوی ہوا ہے نہ کہ دائمی موقوف ۔علی الدوام موقوفی کا کوئی اعلان آپ کی طرف سے موجود نہیں۔ بلکہ آپ کے بعد شرائط جہاد پیدا ہو جانے پر جہاد واجب رہتا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا اور اس زمانہ کا جہاد یہی ہے کہ اعلائے کلمہٴ اسلام میں کوشش کریں۔ مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں۔ دین اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلائیں۔ یہی جہاد ہے جب تک کہ خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کر دے۔’’
(مکتوب حضرت مسیح موعودؑ بنام حضرت میر ناصر نواب صاحب
مندرجہ رسالہ درود شریف مؤلفہ محمد اسماعیل صاحبؓ فاضل)
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چونکہ اپنی طرف سے جہاد کو اس زمانہ میں موقوف قرار نہیں دیا بلکہ اس کا اعلان نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے کیا ہے۔ اور آئندہ زمانہ میں اس کا امکان بھی تسلیم کیا ہے کہ جہاد بصورتِ قتال کی صورت پیدا بھی ہو سکتی ہے لیکن میرے وقت میں اس کی شرائط موجود نہیں۔ لہذا آپ پر جہاد کو منسوخ کرنے کا الزام سراسر نا انصافی ہے۔
اَلْجِھَادُ مَاضٍ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ(عمدۃ القاری شرح بخاری کتاب الجہاد باب من احتبس فرسا فی سبیل اللّٰہ )کی حدیث تو صحیح ہے مگر یہاں جہاد کا لفظ محدود معنی میں نہیں۔ جہاد تو وسیع معنی رکھتا ہے۔ ہر وہ جدّو جہد جو دین کی خاطر اور اعلائے کلمہٴ اسلام کی خاطر کی جائے قرآن کریم اسے جہاد کبیر قرار دیتا ہے۔ فرمایا’’وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا‘‘کہ قرآن کریم کی اشاعت کے ذریعہ جہاد کبیر کرو۔ نیز جہاد کا حکم مکّی سورت میں نازل ہوا تھا حالانکہمکّہ میں اس وقت کوئی لڑائی نہیں لڑی گئی تھی۔ پس حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے زمانہ میں جہاد بند نہیں ہوا، صرف قتال کی صورت کا جہاد ملتوی ہوا ہے۔ تبلیغ اسلام کے جہاد میںآپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور آپ کی جماعت بھی حصہ لے رہی ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جابر بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا بھی ایک جہاد ہے۔ اس کے مطابق حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے انگریز کی سلطنت میں رہتے ہوئے ملکہ معظمہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام دی اور اب ساری دنیا میں آپ کی جماعت دعوت اسلام دے رہی ہے۔ پس مسیح موعودؑ کے زمانہ میں جہاد بند نہیں ہوا۔ بصورت قتال ملتوی ہوا ہے کیونکہ قتال کے متعلق قرآنی ہدایت ہے قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا إِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ (البقرۃ:۱۹۱)کہ اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑائی کرو جو تم سے لڑتے ہیں اور تمہاری طرف سے زیادتی نہ ہو۔ یعنی نہ ابتدا ہو اور نہ قوانین جہاد کی خلاف ورزی۔ کیونکہ خدا معتدین کو دوست نہیں رکھتا۔
غیر از جماعت سے معاملات کسی جدید شریعت کی بناء پر نہیں
مسئلہ جہاد کے بعد ندوی صاحب نے غیر از جماعت لوگوں کی تکفیر، اُن کو امام الصلوٰة بنانے، اُن سے مناکحت اور اُن کے جنازوں کی ممانعت کو ایک نئی شریعت قرار دیا ہے۔ ان امور کے بارے میںیہ واضح ہو کہ ایسے تمام معاملات کا اظہار آپ کے خلاف علماء کے فتاویٰ کے ردِّ عمل کے طور پر ہوا ہے نہ ابتداء ً ۔چنانچہ حضرت بانیٴ سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتاب حقیقۃالوحی کے صفحہ۱۲۰پر علماء کے فتاوٰی کے ذکر میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’پہلے ان لوگوں نے میرے پر کفر کا فتویٰ تیار کیا اور قریباً دوسو مولوی نے اس پرمہریں لگائیں اور ہمیں کافر ٹھہرایا گیا۔ اور اُن فتووں میںیہاں تک تشدد کیا گیا کہ بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لوگ کفر میںیہود اور نصاریٰ سے بھی بد تر ہیں اور عام طور پریہ بھی فتوے دئے کہ ان لوگوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کرنا چاہئے۔ اور ان لوگوں کے ساتھ سلام اور مصافحہ نہیں کرنا چاہئے۔ اور اُن کے پیچھے نماز درست نہیں کافر جو ہوئے۔ بلکہ چاہئے کہ یہ لوگ مساجد میں داخل نہ ہونے پاویں کیونکہ کافر ہیں۔ مسجدیں ان سے پلید ہو جاتی ہیں۔ اور اگر داخل ہوجا ئیں تو مسجد کو دھو ڈالنا چاہئے۔ اوران کا مال چُرانا درست ہے اور یہ لوگ واجب القتل ہیں کیونکہ مہدی خُونی کے آنے سے انکاری اور جہاد سے منکر ہیں۔…… پھر اس جھوٹ کو تو دیکھو کہ ہمارے ذمّہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم نے بیس کروڑ مسلمان اور کلمہ گو کو کافر ٹھہرایا۔ حالانکہ ہماری طرف سے تکفیر میں کوئی سبقت نہیں ہوئی۔ خود ہی ان کے علماء نے ہم پر کفر کے فتوے لکھے اور تمام پنجاب اور ہندوستان میں شور ڈالا کہ یہ لوگ کافر ہیں اور نادان لوگ ان فتووں سے ایسے ہم سے متنفر ہو گئے کہ ہم سے سیدھے مُنہ سے کوئی نرم بات کرنا بھی اُن کے نزدیک گناہ ہو گیا۔کیا کوئی مولوییا کوئی اور مخالف یا کوئی سجّادہ نشینیہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا۔ اگر کوئی ایسا کاغذ یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتوائے کفر سے پہلے شائع ہوا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہو تو وہ پیش کریں ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو ٹھہراویں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگاویں کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے…… پھر جبکہ ہمیں اپنے فتووں کے ذریعہ سے کافر ٹھہرا چکے اور آپ ہی اس بات کے قائل بھی ہو گئے کہ جو شخص مسلمان کو کافر کہے تو کفر اُلٹ کر اُسی پر پڑتا ہے تو اِس صورت میں کیا ہمارا حق نہ تھا کہ بموجب اُنہیں کے اقرار کے ہم اُن کو کافر کہتے۔‘‘
(حقیقۃالوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۲۲ تا ۱۲۴)
اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی طرف سے فتویٰ تکفیر میں ابتدا نہیں ہوئی۔ بلکہ یہ تمام معاملات یعنی تکفیر، حرمتِ امامت، جنازہ اور مناکحت کی ممانعت مخالف علماء کے ایسے فتووں کے ردِّ عمل کے طور پر ہوئی ہے جن میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ اور آپ کی جماعت کو کافر ٹھہرایا گیا اور ان سے مناکحت اور ان کی امامتاور جنازےکو نا جائز قرار دیا گیا۔ پس شریعت نئی تو ان علماء نے بنائی کہ ایک مسلمان کو جو کلمہ شہادت لا الٰہ الا اللّٰہ محمّد رسول اللّٰہ کا قائل ہے اور تمام ایمانیات کا قائل، اس کی بلا وجہ علماء کی طرف سے تکفیر ہوئی اور اس سے اور اس کی جماعت سے قطع تعلق کیا گیا اور ان کے خلاف انتہائی تشدّد کا طریق اختیار کیا گیا تو رسول کریم کے اس ارشاد کے ماتحت کہ ایک مسلمان کو کافر قرار دینے والا خود کافر ہوجاتا ہے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کو یہ حق پہنچ گیا کہ وہ آیتجَزَآءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا (الشُورٰى:۴۱)کے مطابق انہیں کافر کہیں۔ کیونکہ حدیث نبوی میں وارد ہے کہ جو مسلمان کو کافر کہے یہ کفر اسی پر لوٹ کر آتا ہے۔ پس بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے ایسے فتاوٰی شریعتِ محمدیہ کے عین مطابق ہیں نہ کہ کوئی نئی شریعت۔
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے اپنے اس الزام کو مضبوط کرنے کے لئے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے مستقل صاحبِ شریعت ہونے کا دعویٰ کیا ہے پہلے تریاق القلوب کی ذیل کی عبارت درج کی ہے:۔
‘‘یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اپنے دعوےکے انکار کرنے والے کو کافر کہنا صرف ان نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدیدہ لائے ہیں۔ لیکنصاحبِ شریعت کے ماسوا جس قدر ملہم اور محدّث ہیں گو وہ کیسے ہیجنابِ الٰہی میں شان رکھتے ہوں اور خلعتِ مکالمہ الٰہیہ سے سرفراز ہوں ان کے انکار سے کوئی کافر نہیں بن جاتا۔’’
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد۱۵ حاشیہ صفحہ ۴۳۲)
پھر اس کے مقابل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذیل کی چار عبارتیں پیش کی ہیں اور یہ نتیجہ پیش کرنا چاہاہے کہ آپ نے تریاق القلوب میں کافر قرار دینا ان نبیوں کی شان بتائی ہے جو صاحبِ شریعت اور اور احکام جدیدہ لانے والے ہوں اور اس کے مقابل ان عبارتوں میں جو درج ذیل ہیں اپنے منکرین کو کافر قرار دیا ہے۔ لہذا آپ کا دعویٰ شریعتِ جدیدہلانے کا ہے۔
(۱) ‘‘انہیں دنوں میں آسمان سے ایک فرقہ کی بنیاد ڈالی جائے گی اور خدا اپنے منہ سے اس فرقہ کی حمایت کے لئے ایک قرنا بجائے گا اور اس قرنا کی آواز سے ہر ایک سعید اس فرقہ کی طرف کھچا آئے گا بجز ان لوگوں کے جو شقی ازلی ہیں جو دوزخ کے بھرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔’’
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۱۰۸، ۱۰۹)
(۲)مجھے الہام ہوا ہے کہ‘‘ جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اورجہنمیہے۔’’
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۳۹۴)
(۳) ‘‘خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا ہے وہ مسلمان نہیں ہے۔ ’’
(از ذکر الحکیمنمبر۲صفحہ۲۴مرتبہ ڈاکٹر عبد الحکیم صاحب
منقول از اخبار الفضل مورخہ ۱۵ـجنوری۱۹۳۵ء، صفحہ۸ کالم۱)
(۴) ‘‘کفر دو قسم پر ہے (اوّل)ایکیہکفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ (دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے کافر ہے، اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں کیونکہ جو شخص باوجود شناخت کر لینے کے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا، وہ بموجب نصوصِ صریحہ قرآن و حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔’’
(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۱۸۵، ۱۸۶)
اوریہ نتیجہ پیش کرنا چاہا ہے کہ آپؑ نے تریاق القلوب میں کافر قرار دینا ان نبیوں کی شان بتائی ہے جو صاحبِ شریعت اور احکام جدیدہ لانے والے ہوں اور اس کے مقابل مندرجہ بالا چار عبارتوں میں اپنے منکرین کو کافر قرار دیا ہے لہذا آپ کا دعویٰ شریعت جدیدہ لانے کا ہے۔
آخری عبارت جو حقیقۃالوحی سے مولوی ابوالحسن صاحب ندوی نے پیش کی ہے، سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے کفر کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔ اوّل قسم کفر سرے سے اسلام کا انکار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے انکار کو قرار دیا ہے جس سے انسان غیر مسلم کہلاتا ہے۔
آپ نے غیر از جماعت مسلمانوں کو کبھی اس قسم کا کافر قرار نہیں دیا۔ تریاق القلوب کی جو عبارت مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے پیش کی ہے اس کے الفاظ کافر قرار دینا ان نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکامِ جدیدہ لاتے ہیں کا مَنطوق حقیقۃالوحی کے مندرجہ بالا حوالہ کی روشنی میں کفرقسمِ اوّل ہی ہے۔ کیونکہ شریعت اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے انکار کو کفر کو قسمِ اوّل قرار دیا ہے۔
اس جگہ مسیح موعود کے منکر کو آپ ؑنے کافر قسمِ دوم قرار دیا ہے کیونکہ آپ شریعتِ جدیدہ لانے والے نہیں تھے۔ اگر آپ کا شریعت جدیدہ لانے کا دعویٰ ہوتا تو آپ اپنے منکرین کو بھی کافر قسمِ اوّل قرار دیتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔
لہذا حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے نزدیک غیر از جماعت مسلمان مسیح موعود کا انکار کر کے ملّتِ اسلامیہ کی چار دیواری میں داخل ہیں۔ کفر قسم دوم کی وجہ سے وہ غیرمسلم نہیں۔
پس جب آپؑ نے کفر کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔ قسم اول اسلام و آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا انکار اور قسم دوم مثلاً مسیح موعود علیہ السلام کا انکار تو منطقی لحاظ سے ان دونوں قسموں کو ایک قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ایک حقیقت کی دو قسموں میں ہمیشہ تبائن اور تضاد پایا جاتا ہے۔ انہیں گو اطلاق اور جنس کے لحاظ سے تو ایک قسم قرار دیا جا سکتا ہے مگر حقیقت میں وہ دونوں کفر کی الگ الگ نوعیتیں ہیں۔
قسم اول کا کفر شریعت جدیدہ کے انکار اور شارع نبی کے انکار سے لازم آتا ہے۔ اور دوسری قسم کا کفر غیر تشریعی نبی کے انکار سے لازم آتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چونکہ اپنے انکار کو کفر قسم اول قرار نہیں دیا۔ لہذا آپ پر شریعتِ جدیدہ لانے کا دعویٰ منسوب کرنا محض مولوی ابو الحسن ندوی کا افترا ہے۔
افسوس ہے کہ مولوی ابو الحسن صاحب نے حقیقۃالوحی کا حوالہ پورا درج نہیں کیا جس سے باقی تمام عبارتیں حل ہو جاتی ہیں۔حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے حقیقۃالوحی کی محولہ بالا عبارت سے آگے لکھا ہے:۔
’’اس میں شک نہیں کہ جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اول قسم کفر یا دوسری قسم کفر کی نسبت اتمام حجت ہو چکا ہے وہ قیامتکے دن مواخذہ کے لائق ہو گا اور جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا اور وہ مکذّب و منکر ہے تو گو شریعت نے( جس کی بناء پر ظاہر ہے) اس کا نام بھی کافر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اس کو باتباع شریعت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں مگر پھر وہ وہ خدا کے نزدیک بموجب آیتلَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة : ۲۸۷)کے قابل ِمواخذہ نہیں ہو گا۔ ہاں ہم اس بات کے مجاز نہیں کہ اس کی نجات کا حکم دیں۔ اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے ہمیں اس میں دخل نہیں اور جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوںیہ علم محض خدا تعالیٰ کو ہے کہ اس کے نزدیک باوجود دلائل عقلیہ او ر نقلیہ اور عمدہ تعلیم اور آسمانی نشانوں کے کس پر ابھی تک اتمام حجت نہیں ہوا۔‘‘
(حقیقۃالوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۱۸۶)
اس سے پہلے صفحہ۱۷۹ پر تحریر فرماتے ہیں:۔
’’بہرحال کسی کے کفر اور اس پر اتمام حجت کے بارے میں فرد فرد کا حال دریافت کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ اس کا کام ہے جو عالم الغیب ہے۔ ہم اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے نزدیک جس پر اتمام حجت ہو چکا ہے اور خدا کے نزدیک جو منکر ٹھہر چکا ہے وہ مواخذہ کے لائق ہو گا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۸۵)
پس مولوی ابو الحسن صاحب کی اپنی کتاب کے صفحہ ۹۸ پر جن کے دوزخ میں پڑنے اور جہنمی ہونے کا ذکر ہے ان سے مراد ایسے لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اتمام حجت ہو چکا وہی آپ کے نزدیک عند اللہ قابل مواخذہ ہیں۔ لیکن جن پر اتمام حجت نہیں ہوا وہ عند اللہ قابل مواخذہ یعنی دوزخی اور جہنمی نہیں۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے جب صاف لکھ دیا ہے:۔
’’کسی کے کفر اور اس پر اتمام حجت کے بارے میں فرد فرد کا حال دریافت کرنا ہمارا کام نہیں ہے یہ اس کا کام ہے جو عالم الغیب ہے۔ ہم اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے نزدیک جس پر اتمام حجت ہو چکا ہے اور خدا کے نزدیک جو منکر ٹھہر چکا ہے وہ مواخذہ کے لائق ہو گا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۸۵)
تو پھر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی ان عبارتوں سے سب منکرین مسیح موعود علیہ السلام کو جہنمی قرار دینے کا نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں بلکہ ان ہر دو عبارتوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیحقیقۃ الوحی میں مندرج عبارت کی روشنی میں پڑھنا چاہئے کہ جن منکرین پر خدا کے نزدیک حجت پوری ہو چکی وہ قابل مواخذہ ہوں گے اور جن پر عنداللہ حجت پوری نہیں ہوئی وہ قابل مواخذہ نہیں ہوں گے۔ اس بارہ میں فرد فرد کا حال دریافت کرنا ہمارا کام نہیں،یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے جو علّام الغیوب ہے۔
تیسری عبارت میں جو یہ لکھا ہے کہ وہ مسلمان نہیں اس سے مراد یہ ہے کہ منکرینِ مسیح موعود کامل مسلمان نہیں۔ اس جگہ مسلمان ہونے کی علی الاطلاق نفی مراد نہیں بلکہ نفیٴ کمال مراد ہے جس پر آپؑ کا الہام ‘‘مسلماں را مسلماں باز کردند’’ جو مسلمانوں کو پورا مسلمان بنانے کے ذکر پر مشتمل ہے شاہدِ ناطق ہے۔ آپ کے اس الہام میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکرین مسلمانوں کا نام مسلمان ہی رکھا ہے اور سب احمدی اس الہام کے مطابق ان کا نام مسلمان ہی رکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا آپ کے خلفاء نے کہیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرنے والے مسلمانوں کا نام غیر مسلم نہیں رکھا۔ کیونکہ مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کفر قسم دوم ہے نہ کفر قسم اوّل۔ آپؑ کے نزدیک کافر قسم اوّل وہ ہوتا ہے جو سرے سے اسلام کا انکار کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا کا رسول نہ مانے۔ہم مسیح موعود ؑ کے منکرین مسلمانوں کو ہرگز ایسے کفر کا مرتکب نہیں جانتے جو اسلام کے انکار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے انکار سے پیدا ہوتا ہے۔ ہاں مسیح موعود علیہ السلام کے انکار کو ہم بعض دوسریبدعقیدگیوں میں سے جانتے ہیں جن کے انکار سے مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر مندرجہ حقیقۃالوحی کے مطابق دوسری قسم کا کفر لازم آتا ہے جس سے ایک مسلمان کہلانے والا بوجہ کلمہ گو ہونے کے ملّت ِاسلامیہ اور اُمّت محمدیہ سے خارج نہیں ہو جاتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسا شخص حقیقتِ اسلام کو سمجھنے سے دور ہو جاتا ہے۔ جب تک خدا تعالیٰ اسے روشنی عطا نہ فرمائے۔ اسی مفہوم میںخلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج کہاتھا۔ گویایہ الفاظ بطور تغلیط کے تھے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے۔
مَنْ مَشَیٰ مَعَظَالِمٍ لِیُقَوِّیَہُ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْاِسْلَامِ
(مشکوٰة، کتاب الآداب الفصل الثالث)
کہ جو شخص ایک ظالم کے ساتھ اسے قوت دینے چل پڑا وہ اسلام سے نکل گیا۔
مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کییہ نہیں کہ وہ بالکل مسلمان نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ظالم کی مدد کی وجہ سے گو وہ بظاہر مسلمان ہی سمجھا جائے گا مگر حقیقتِ اسلام سے دور جا پڑتا ہے۔ آئینہ صداقت کی اس عبارت کی تصریح خود حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے ایسی ہی کی تھی۔
’’کافر کے ہم ہرگز یہ معنی نہیں لیتے کہ ایسا شخص جو کہتا ہو کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مانتا ہوں اُسے کون کہہ سکتا ہے کہ تو نہیں مانتا۔ یا کافر کے ہم ہرگز یہ معنی نہیں لیتے کہ ایسا شخص جو خدا تعالیٰ کا منکر ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص کہتا ہو کہ میں خدا تعالیٰ کو مانتاہوں تو اسے کون کہہ سکتا ہے کہ تو خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا۔ ہمارے نزدیک اسلام کے اصول میں سے کسی اصل کا انکار کفر ہے جس کے بغیر کوئی شخص حقیقی طور پر مسلمان نہیں کہلا سکتا۔ ہمارا یہ عقیدہ ہرگز نہیں کہ کافر جہنّمیہوتاہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک کافر ہو اور وہ جنّتی ہو۔ مثلاً منکر ہے ناواقفیت کیحالت میں ہی ساری عمر رہا ہو اوراس پر اتمامِ حجت نہ ہوئی ہو۔ پس گو ہم ایسے شخص کے متعلق یہی کہیں گے کہ وہ کافر ہے مگر خدا تعالیٰ اُسے دوزخ میں نہیں ڈالے گا کیونکہحقیقی دین کا اُسے کچھ علم نہ تھا اور خدا ظالم نہیں کہ وہ بے قصور کو سزا دے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۶، اپریل۱۹۵۳ مطبوعہ الفضل یکم مئی۱۹۳۵ء صفحہ۸ کالم۳)
پس مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا پیش کردہ نتیجہ بالکل غلط ہے کہ منکرین مسیح موعود کو کافر کہنے کی وجہ سے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ شریعت جدیدہ لانے کے دعویدارہیں۔ اگر بالفرض مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا مزعوم مسیح آجائے تو ہم ان سے پوچھتے ہیں مسلمانوں میں اس کا انکار کرنے والا منکر کافر ہو گا یا نہیں؟ اگر وہ اس کے منکر کو کافر قرار دیں،اور اس کو ایسا کہنا چاہئے، تو پھر مولوی صاحب بتائیں کیا وہ قرآن مجید کے بعد ایک جدید شریعت لانے کے مدعی قرار پائیں گے؟ اگر نہیں تو فقہی طور پر مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کو یہیکہنا پڑے گا کہ مسیح موعود کا منکر کافر قسم دوم ہوگا نہ کافر قسم اول۔ پس مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا مزعوم مسیح موعود شریعت جدیدہ لانے کے الزام سے تبھی بچ سکتا ہے کہ اس کے انکار کو مولوی ابو الحسن صاحب ندوی بھی کفر قسم اول قرار نہ دیں بلکہ کفر قسم دوم قرار دیں۔
حقیقۃالوحی کی عبارت میں دوسری قسم کا کافر حقیقۃًاس شخص کو قرار دیا گیا ہے جو باوجود شناخت کر لینے کے اور اس پر اتمام حجت ہو جانے کے آپؑ کو جھوٹا جانتا ہو۔ کیونکہ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’دوسرےیہ کفر کہ مثلاًوہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اُس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۸۵)
پس جس پر اتمام حجت نہیں ہوا وہ اگر منکر مسیح موعود ہے تو اس میں کفر قسم دوم عند اللہ حقیقۃً نہیں پایا جائے گا۔ ہاں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں پر حجت پوری ہو گئی اور فلاں پر نہیں اس لئے منکرین مسیح موعود کو ایک ہی زمرہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ رہا انکار پر مؤاخذہ کا معاملہ تو وہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے جو عالم الغیب ہے اور جو دلوں کے حالات کو خوب جانتا ہے۔
پس جب مولوی ابو الحسن صاحب ندوی اپنے مزعوم مسیح موعود کے منکر کو کافر ٹھہرانے کے باوجود شریعت جدیدہ لانے کا مدّعی نہیں جانتے اور نہ اس کے منکروں کو امامتصلوٰة کا حق دینے کے لئے تیار ہیں اور نہ ایسے شخص سے مناکحت جائز سمجھتے ہیں اور نہ ایسے شخص کا جنازہ پڑھنے کو تیار ہیں اور ان امور کو نئی شریعت لانا قرار نہیں دیتے تو بانیٔ سلسلہ احمدیہ پر ان کو انہی امور کی وجہ سے شریعت جدیدہ لانے کا مدّعی قرار دینے کا کیا حق ہے؟ یہ تو انصاف کے خون کے مترادف ہے کہ دینے کے لئے مولوی ابو الحسن صاحب اور پیمانہ استعمال کریں اور لینے کے لئے اور۔
مولوی ابو الحسن صاحب! جب اربعین میں مستقل طور پر صاحبِ شریعت ہونے کا ذکر موجود نہیں اور نہ کسی اور عبارت میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے سارے لٹریچر میں مستقل صاحبِ شریعتیا مستقل نبی ہونے کا ذکر ہے بلکہ اس کی تردید موجود ہے تو پھر آپ نے کس طرح یہ نتیجہ نکال لیا کہ بانیٔسلسلہ احمدیہ مستقل صاحبِ شریعت ہونے کے مدعی ہیں؟سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْم۔
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ نے مسیح موعود کا دعویٰ کسی کے مشورہ سے نہیں کیا
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کا دعویٰیہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ(بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسیَ ابنِ مریم علیہما السلام)وغیرہ احادیث میں جو نزول ابن مریم کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ اس میں ابن مریم کا لفظ بقرینہ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْو بقرینہ وفاتِ عیسیٰ علیہ السلام استعارہ کے طور پر ہے اور مراد ابن مریم سے مثیلِ مسیح ابن مریم ہے اور اس کا مصداق اُمّت میں سے آپؑ کا وجود ہے۔ اس طرح کہ آپ مثیل مسیحہو کر اس پیشگوئی کا مصداق ہونے کی وجہ سے اُمّت کے لئے مسیح موعود ہیں۔ آپ نے مسیح موعود کی اس پیشگوئی کا مصداق ان الہامات الٰہیہ کی روشنی میں قرار دیا ہے جو درج ذیل ہیں:
اوّل: مسیحابنِ مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اُس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔ وَ کَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا
دوم: جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَکہ ہم نے تجھے مسیح بن مریم بنا دیا ہے۔
اِن الہامات سے قبل آپ کا دعویٰ مثیل مسیح ہونے کا تو تھا مسیح موعود ہونے کا نہ تھا اور یہ دعویٰ براہین احمدیہ کے زمانہ سے تھا اور یہ الہام الٰہیاَنْتَ اَشَدُّ مُنَا سِبَةً بِعِیْسیَ بْنِ مَرْیَمَ خُلُقًا وَ خَلْقًاکی روشنی میں تھا۔ جب آپ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے مندرجہ بالا دو الہامات کی بناء پر انکشاف ہو گیا کہ اُمّت میں مسیح بن مریم کے نزول کی پیشگوئی کا مصداق آپ ہی ہیں تو آپ نے بطور مثیلِ مسیح، مسیح موعود ہونے کا اعلان فرما دیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس دعویٰ کا سرچشمہ الہامات الٰہیہہیں نہ کسی کا کوئی اجتہادی امر،اور یہ بھی ظاہر ہے کہ آپ کا یہ دعویٰ کسی انسان سے مشورہ لینے کے بعد نہیں۔ مگر مولوی ابو الحسن صاحب ندوی دور کی کوڑی لائے ہیں اور انہوں نے آپ کے اس دعویٰ کا فکری سرچشمہ اور مجوز اور مصنف حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کو قرار دیا ہے۔ چنانچہ مولوی ندوی صاحب اپنی کتاب قادیانیت کے صفحہ۶۶ پر لکھتے ہیں:۔
’’اسی سال(۱۸۹۱ء) کے آغاز میں حکیم صاحب نے ایک خط میں مرزا صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کریں۔‘‘
اوریہ بھی لکھا کہ:۔
’’ہم کو حکیم صاحب کا اصل خط تو نہیں مل سکا۔ لیکن مرزا صاحب نے اس خط کا جو جواب لکھا اس میں حکیم صاحب کے اس مشورہ کا حوالہ ہے۔ یہ خط ان کے مجموعہٴ مکاتیب میں موجود ہے اور اس پر ۲۴ـجنوری۱۸۹۱ء کی تاریخ درج ہے۔ اس سے اس تحریک کے فکری سرچشمہ اور اس کے اصل مجوّز اور مصنّف کا علم ہوتا ہے۔‘‘
اِس عبارت سے ظاہر ہے کہ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے دعویٰءمسیح موعود کا اصل مجوّز اور مصنّف حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحبکو قرار دینا چاہتے ہیں اور انہیں ہی تحریک احمدیت کا فکری سرچشمہ ٹھہراتے ہیں۔ مگر اس امر کے ثبوت میں مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے خط کا جو اقتباس پیش کیا ہے اس سے ان کے اس خیال کی تائید نہیں بلکہ تردید ہوتی ہے۔ خط کا پیش کردہ اقتباس قادیانیت صفحہ۶۷ کے مطابق یوں ہے۔
’’ جو کچھ آنمخدوم نے تحریر فرمایا ہے کہ اگر دمشقی حدیث کی بنیاد کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مثیلِ مسیح کا دعویٰ ظاہر کیا جائے تو اس میں حرج کیا ہے؟ درحقیقت اِس عاجز کو مثیلِ مسیح بننے کی کچھ حاجت نہیں۔ یہ بننا چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے عاجز اور مطیع بندوں میں شامل کر لیوے۔ لیکن ہم ابتلاء سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتے۔ خدا تعالیٰ نے ترقی کا ذریعہ صرف ابتلاء کو ہی رکھا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہےاَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۔ ‘‘
(بحوالہ مکتوبات جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ۸۵۔مکتوبات احمد جلد۲ صفحہ۹۹ ۔ایڈیشن۲۰۰۸ء)
یہ اقتباس دے کر ندوی صاحب لکھتے ہیں:۔
‘‘اس مشورہ کے حقیقی اسباب و محرکات کیا تھے؟ کیایہ حکیم صاحب کی دور بینی اور دور اندیشی اور حوصلہ مند طبیعت ہی کا نتیجہ تھا یایہ حکومتِ وقت کے اشارہ سے تھا جس کو ماضی قریب میں حضرت سید صاحب کی دینی و روحانی شخصیت اور ان کی تحریک و دعوت سے بڑا نقصان پہنچ چکا تھا اور اسی دورمیں مہدی سوڈانی کے دعویٰ مہدویّت سے سوڈان میں ایک زبردست شورش اور بغاوت پیدا ہو چکی تھی۔ اس سب کے توڑ اور آئندہ کے خطرات کے سدِّباب کے لئے یہی صورت مناسب تھی کہ کوئی قابلِ اعتماد شخصیت جس نے مسلمانوں میں اپنی دینی خدمات اور جوش مذہبی سے اثر و رسوخ پیدا کر لیا ہو مسیح موعود کے دعوے اور اعلان کے ساتھ کھڑی ہو اور وہ مسلمان جو ایک عرصہ سے مسیح موعود کے منتظر ہیں اُس کے گرد جمع ہو جائیں۔ ہم وثوق کے ساتھ ان میں سے کسی ایک چیز کی تعیین نہیں کر سکتے اور نہ اسباب و محرکات کا پتہ لگانا آسان ہے لیکن اس خط سے اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اس تحریک کا آغاز کس طرح ہوتا ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۶۷،۶۸)
یہاںیہ بات بھییاد رکھنے کے قابل ہے کہ انبیاء و مرسلین کی بعثت کا معاملہ باہمی مشورہ سے طے نہیں پاتا۔ اُن پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے اور اُن کو اُن کے منصب اور مقام کی قطعی اور پوری خبر دی جاتی ہے اور وہ یقین سے سرشار ہوتے ہیں اورپہلے دن سے ہی اس کا اعلان اور اس پر اصرار کرتے ہیں۔ اُن کے عقیدہ اور دعوت کا سلسلہ کسی تجویزیا راہنمائی کا رہین منّت نہیں ہوتا۔ ان کا پہلے دن سے کہنا ہوتا ہے وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَأَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔مجھے اسی کا حکم ہوا ہے اور میں پہلا فرمانبردار ہوں۔وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَأَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ مجھے اسی کا حکم ہے اور مَیں اس کا پہلا یقین کرنے والا ہوں۔
خط کا اقتباس دے کر تو مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے دعویٴ مسیح موعود کا اصل مجوز اور مصنف اور تحریک کا فکری سرچشمہ حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحبکو قرار دیا ہے۔ لیکن اقتباس کے بعد وہ خود اس بات پر قائم نہیں رہے اور یہ لکھ رہے ہیں کہ یہ حکیم صاحب کی دوربینی، دور اندیشییا حوصلہ مند طبیعت کی وجہ سے تھا یا حکومت ِوقت کے اشارہ سے تھا۔ اور آخر میںیہ لکھتے ہیں کہ انبیاء اور مرسلین کا معاملہ ان خارجی تحریکات اور مشوروں سے الگ ہے۔ اُن کو آسمان سے وحی ہوتی ہے، اُن کو اُن کے منصب و مقام کی قطعی اور واضح خبر دی جاتی ہے۔
ہم اس مضمون کے شروع میںبانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وحی درج کر چکے ہیں جو مسیح موعود کے دعویٰ کے متعلق آپ پر آسمان سے نازل ہو ئی۔ جس میں اُن کو اُن کے منصب و مقام کی واضح طور پر خبر دی جا چکی ہے کہ آپ مسیح ابن مریم کی پیشگوئی کا مصداق ہیں اور مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور آپ اس کے رنگ میں رنگین ہو کر خدا کے وعدہ کے موافق آئے ہیں۔ اس سے قبل جب آپ پر مثیل مسیح ہونے کا انکشاف ہوا تھا تو اپنے الہام فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرْ کے مطابق آپ نے شروع میں ہی کھول کر اس کا اعلان کر دیا ۔ جب یہ انکشاف ہوا کہ مثیلِ مسیح ہی مسیح موعود ہے تو پھر آپ نے اس کا بھی اعلان کر دیا۔ جیسے جب پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر نبوّت کا انکشاف وحی کے ذریعہ ہوا تو آپ نے اپنے آپ کو نبی اور رسول کی حیثیت سے پیش کیا اور جب کافی عرصہ بعد آپ پر بذریعہوحی آپ کے خاتم النبیّین ہونے کا انکشاف ہوا تو اس وقت آپ نے اس کا بھی اعلان کر دیا۔ پس خدا کے مامورین خدا کے بلانے سے بولتے ہیں، بِن بلائے نہیں بولتے اور نہ اپنی طرف سے کوئی دعویٰ کرتے ہیں۔
یہ خیال سراسر جھوٹ ہے کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کے کسی مشورہ سے یا گورنمنٹ کے اشارہ سے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے دعویٰ کیا۔ حضور کے جس خط کا اقتباس ندوی صاحب نے نقل کیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے آپ کو از خود ایک مشورہ دیا تھا اور وہ یہ مشورہ نہ تھا کہ آپ مسیح موعود کا دعویٰ کریںیا مثیلِ مسیح کا دعویٰ کریں۔ مثیلِ مسیح کا دعویٰ تو آپ براہین احمدیہ کے زمانہ میں کر چکے تھے۔ اور حضرت مولوی نور الدین صاحب آپ کے اس دعویٰ پر اطلاع بھی پا چکے تھے۔ وہ تو آپ کو صاف یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ آپ اپنے تئیں دمشقی حدیث کا مصداق نہ قرار دیں اس سے لوگوں کو ابتلاء آجائے گا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کا مشورہ رد کر دیا اور زور دار الفاظ میںیہ فرمایا اور لکھا کہ ہم ابتلا سے بھاگ نہیں سکتے۔
عجیب بات ہے کہ ندوی صاحب کو خود اِس بات کا اعتراف بھی ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے حکیم صاحب کی پیشکش قبول کرنے سے معذرت کی۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘مرزا صاحب نے جس انداز میں حکیم صاحب کی پیشکش قبول کرنے سے معذرت کی ہے اور ان کے خط سے جس کسر ِنفسی،خشیّت اورتواضعکا اظہار ہوتا ہے وہ بڑی قابلِ قدر چیز ہے اور اس سے مرزا صاحب کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ۷۰)
اس عبارت تک مولوی ندوی صاحب نے مستشرقین کی طرز پرحضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے حضرت مولوی نور الدین صاحب کے مشورہ کو قبول کرنے سے معذرت کا ذکر کر کے آپ کی تعریف کی ہے۔ اب آگے دیکھئے وہ اس مٹھاس میں زہر ملاتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ :۔
‘‘لیکن ان کی کتابوں کا تاریخی جائزہ لینے کے بعد یہ تاثر اور عقیدت جلد ختم ہو جاتی ہے۔ اچانک یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب نے حکیم صاحب کی اس تجویز کو قبول کر لیا اور تھوڑے ہی دنوں میں انہوں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ اور اعلان کر دیا۔’’
(قادیانیت صفحہ ۷۰)
واضح ہو کہ مولوی ندوی صاحب کو مسلّم ہے کہ وہ مکتوب جو انہوں نے نقل کیا ہے اس پر ۲۴ـجنوری۱۸۹۱ء درج ہے۔ (قادیانیت صفحہ ۶۷)
اِس خط سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے مولوی نور الدین صاحب کی پیشکش قبول کرنے سے معذرت کر دی تھی۔ یاد رہے کہ تجویزیہ تھی کہ دمشقی حدیث کا اپنے آپ کو مصداق قرار نہ دیں۔ تجویزیہ نہ تھی کہ اپنے آپ کو مثیلِ مسیح قرار دیںیا مسیح موعود کا دعویٰ کر دیں۔ کیونکہیہ دعاوی تو آپ کے موجود تھے۔ تجویز قبول کئے جانے سے معذرت کے اعتراف کے باوجود اب تجویز قبول کر لینے کی دلیل مولوی ندوی صاحب یہ دیتے ہیں کہ ۱۸۹۱ء کی تصنیف فتح اسلام میں‘‘ہم پہلی مرتبہ اُن کا یہ دعویٰ پڑھتے ہیں کہ وہ مثیلِ مسیح اور مسیح موعود ہیں۔’’
مگر اصل حقیقتیہ ہے کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے جو خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا ہے وہ آپ کے دعویٰ مسیح موعودپر اطلاع پانے کے بعد لکھا ہے اور اس کی اطلاع پانے پر ہی حضرت مولوی صاحبؓ نے از خود یہ مشورہ دیا کہ دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر مثیلِ مسیح کا دعویٰ کیا جائے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓکو یہ لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی تھی کہ اب اس مثیلِ مسیح کو ہی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہاپنے الہام کی بناء پر مسیح موعود قرار دے رہے تھے۔ ورنہ مطلق مثیلِ مسیحکا دعویٰ تو اس سے بہت پہلے آپ پیش کر چکے ہوئے تھے۔
پس حضرت مولوی صاحبکا یہ مشورہ نہ تھا کہ آپ مسیح موعود کا دعویٰ کریں بلکہ یہ مشورہ تھا کہ آپ اپنے آپ کو دمشقی حدیث کا مصداق نہ ٹھہرائیں۔ یہ مشورہ حضور نے نہیں قبول کیا بلکہ بقول ندوی صاحب حضورؑ نے اس کے ماننے سے معذرت کی۔ اس لئے ندوی صاحب کا یہ لکھنا غلط ہے کہ:۔
‘‘اچانک معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب نے مولوی نور الدین صاحب کی تجویز کو قبول کر لیا۔’’
ندوی صاحب کی تضاد بیانی
اور عجیب بات ہے کہ اب تجویز ندوی صاحب نے یہ بنا لی ہے کہ گویا مولوی نور الدین صاحب نے حضرت مرزا صاحب کو دعویٰ مسیح موعود کرنے کی تجویز پیش کی تھی اور پھر حضرت مرزا صاحب کی کتاب فتح اسلام میں مسیح موعود کا دعویٰدیکھ کر یہ کہہ دیا ہے کہ دیکھ لو مرزا صاحب نے مولوی نور الدین صاحب کی تجویز قبول کر لی ہے۔ مولوی ندوی صاحب کے یہ متضاد بیانات سراسر کتمانِ حق پر روشن دلیل ہیں۔ اگر بقول ندوی صاحب فتح اسلام کی اشاعت کے وقت حضرت مرزا صاحب نے حضرت مولوی نور الدین صاحبکا مشورہ یا تجویز قبول کر لی تھی تو پھر چاہئے تو یہ تھا کہ آپ اپنے آپ کو ۱۸۹۱ءمیں دمشقی حدیث کا مصداق قرار نہ دیتے۔ کیونکہیہی تجویز حضرت مولوینورالدین صاحب نے پیش کی تھی کہ آپ کو مثیل مسیحیعنی مسیح موعود کے دعویٰ کا اظہار دمشقی حدیث کو الگ رکھ کے کرنا چاہئے۔ لیکن اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ۱۸۹۱ء کی تصنیف‘‘ازالہ اوہام’’ میں آپ نے دمشقی حدیث کا اپنے تئیں مصداق قرار دیا ہے۔ اس حدیث کا مصداق قرار دینے پر ازالہ اوہام کا صفحہ ۶۳ تا ۷۰ حاشیہ شاہدِ ناطق ہے۔ اس میں سے ذیل کے اقتباسات ملاحظہ ہوں:
‘‘صحیح مسلم میں جو یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح دمشق کے منارہ سفید شرقی کے پاس اتریں گے…… دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبہ کا نام دمشق رکھا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں۔’’
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۳۴،۱۳۵)
آگے حاشیہ صفحہ ۷۲ پر لکھتے ہیں:۔
‘‘قادیان کی نسبت مجھے الہام ہوا کہ اُخْرِجَ مِنْہُ الیَزِیْدِیُّوْنَکہ اس میںیزیدی لوگ پیدا کئے گئے ہیں۔’’
اس کے بعد ایک اور الہام اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ……درج کر کے لکھا ہے:۔
’’اب جوایک نئے الہام سے یہ بات بپایہٴ ثبوت پہنچ گئی کہ قادیان کو خدا ئےتعالیٰ کے نزدیک دمشق سے مشابہت ہے۔‘‘
پھر اس الہام کی تفسیر میں آگے لکھا ہے:۔
’’اس کی تفسیریہ ہے اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنْ دِمَشْقَ بِطَرْفٍ شَرْقِیٍّ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَیْضَاءِکیونکہ اس عاجز کی سکونتی جگہ قادیان کے مشرقی کنارہ پر ہے‘‘۔
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۱۳۸، ۱۳۹ حاشیہ)
ازالہ اوہام کے ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ کے اس مشورہ اور تجویز کو بالکل قبول نہیں کیا کہ دمشقی حدیث کو اپنے اوپر چسپاں نہ کیا جائے۔ بلکہ اس مشورہ کو ردّ کر کے واضح طور پر اس حدیثکو اپنے اوپر چسپاں کیا ہے اور قادیان کو اپنے الہامات کی روشنی میں بطور استعارہ دمشق سے تعبیر کیا ہے۔ حضرت مولوی نور الدین صاحبکا مشورہ صرف یہ تھا کہ مثیلِ مسیح کے دعویٰ کو دمشقی حدیث سے علیحدہ رکھنا چاہیئے کیونکہ لوگوں کو ابتلاء آنے کا ڈر ہے۔ مگر حضورؑ نے اُن کے مشورہ کو ردّ کرتے ہوئے ابتلاء کے بارہ میںیہمومنانہ جواب دیا:۔
’’ہم ابتلاء سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتے۔ خدا تعالیٰ نے ترقیات کا ذریعہ صرف ابتلاء کو ہی رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْن‘‘۔
(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۸۵۔ مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ۹۹ ۔ ایڈیشن۲۰۰۸ء)
مثیل مسیح کا دعویٰ کتاب فتح اسلام سے پہلے کیا گیا تھا
پھر اس بات کا ثبوت کہ مثیلِ مسیح کا دعویٰ فتحِ اسلام میں ہی نہیں کیا گیا بلکہ یہ دعویٰ اس سے پہلے بھی موجود تھا یہ ہے کہ ازالہ اوہام میں حضورؑ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘مَیں نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا کہ مَیں مسیحابن مریم ہوں جو شخص یہ الزام میرے پر لگاوے وہ سراسر مفتری اور کذّاب ہے بلکہ میری طرف سے عرصہ سات یاآٹھ سال سے برابریہی شائع ہو رہا ہے کہ میں مثیلِ مسیح ہوں۔’’
(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد سوم صفحہ ۱۹۲)
اس سے ظاہر ہے کہ ۱۸۹۱ء سے جبکہ ازالہ اوہام شائع ہوئی سات آٹھ سال پہلے سے آپ کا دعویٰ مثیلِ مسیح کا موعود تھا۔ چنانچہ یہ دعویٰ براہین احمدیہ میں بھی موجود ہے جو ۱۸۸۴ء کی کتاب ہے۔ اس میں آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایتمتشابہ واقع ہوئی ہے۔ گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدّے اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریکامتیاز ہے……سو چونکہ اِس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامّہ ہے اس لئے خداوند کریم نے مسیح کیپیشگوئی میں ابتدا سے اِس عاجز کو بھی شریک کر رکھا ہے۔’’
(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد ا صفحہ ۵۹۳، ۵۹۴ حاشیہ نمبر۳)
اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ ازالہ اوہام میں آپؑ کا یہ لکھنا بالکل درست ہے کہ گویا۱۸۹۱ء سےسات، آٹھ سال پہلے سے آپؑ کا مثیل مسیح کا دعویٰ موجود تھا۔ اس اقتباس سے تو یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ مسیح کی آمد کی پیشگوئی میں شریک ہونے کے دعویدار تھے۔ مگر اس کے باوجود آپؑ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہ کیا۔ کیونکہ رسمی عقیدہ کے طور پر آپؑ خود بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کی دوبارہ اصالتًا آمد کے قائل تھے۔
مسیح موعود کا دعویٰ الہامات کی بناء ہے پر نہ کہ مشورہ کی بناء پر
۹۱۔۱۸۹۰ء میں آپ کے دعویٰ مثیلِ مسیح کے ساتھ جوپہلے سے موجود تھا آپؑ پر یہ انکشاف ہو گیا:۔
‘‘مسیحابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔ وَ کَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا۔’’
(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۴۰۲)
نیز آپ پر یہ الہام بھی نازل ہو گیا:۔
‘‘جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَابْنَ مَرْیَمَ’’
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۴۶۴)
تو آپ نے سمجھ لیا کہ مسیحابن مریم کی پیشگوئی مسیح کی اصالتًا آمد سے پوری ہونے والی نہتھی کیونکہ خدا تعالیٰ نے آپؑ کو بطور استعارہ اب مسیحابن مریم بھی قرار دیا ہے اور حقیقی مسیحابن مریم کی وفات کی خبر بھی دی ہے اور مسیح کی آمدِ ثانی کا وعدہ خدا کے نزدیک آپ سے ہی متعلق تھا۔ تعجب کی بات ہے کہ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی مثیلِ مسیح کے دعویٰ کو ۱۸۹۱ء سے قرار دیتے ہیں حالانکہ ہم بتا چکے ہیں کہ یہ دعویٰ براہین احمدیہ میں۱۸۸۴ء سے موجود تھا۔ پس حقیقتیہ ہے کہ ۱۸۹۱ء میں مثیلِ مسیح کے دعویٰ کو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے ترک نہیں کیا بلکہ الہاماتِ جدیدہ کی روشنی میں آپ نے اپنے تئیں مثیلِ مسیح جانتے ہوئے ہی مسیح موعود قرار دیا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصالتًا آمد ثانی کا خیال الہاماتِ الٰہیہ کی روشنی میں ان الہامات کو قرآن پر پیش کرنے اور اس سے موافق پانے کے بعد ترک کر دیا ہے۔ چنانچہ آپ حقیقۃالوحی میں لکھتے ہیں:۔
’’ اگر چہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی۔ مگرچونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہوا تھا اور میرا بھییہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہوں گے اِس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اوراپنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الٰہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا تو ہی ہے اور ساتھ اس کے صدہا نشان ظہور میں آئے اور زمین و آسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہو گئے اور خدا کے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبر کرکے مجھے اِس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح آنے والا میں ہی ہوں ورنہ میرا اعتقاد تو وہی تھا جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا اور پھر میں نے اس پر کفایت نہ کرکے اس وحی کو قرآن شریف پر عرض کیا تو آیاتقطعیة الدلالت سے ثابت ہوا کہ درحقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آخری خلیفہ مسیح موعود کے نام پر اِسیاُمّت میں سے آئے گا۔ اور جیسا کہ جب دن چڑھ جاتاہے تو کوئی تاریکی باقی نہیں رہتی اسی طرح صدہا نشانوں اور آسمانی شہادتوں اور قرآن شریف کیقطعیۃ الدلالت آیات اور نصوص صریحہ حدیثیہ نے مجھے اِس بات کے لئے مجبور کر دیا کہ میں اپنے تئیں مسیح موعود مان لوں۔ میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہو مجھے اِس بات کی ہر گز تمنا نہ تھی۔ میں پوشیدگی کے حُجرہ میںتھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے۔ اُس نے گوشہٴتنہائی سے مجھے جبراً نکالا۔ میں نے چاہا کہ مَیں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں مگر اُس نے کہا کہ مَیں تجھے تمام دنیا میں عزّت کے ساتھ شہرت دُوں گا۔ پس یہ اُس خدا سے پوچھو کہ ایسا تونے کیوں کیا؟ میرا اس میں کیا قصور ہے۔‘‘
(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۳)
اس اقتباس سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا مسیح موعود کا دعویٰ اپنے الہامات کی بناء پر ہے جو قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے مطابقت رکھتے ہیں نہ کہ کسی شخص کی کسی تجویز اور اس کے مشورہ سے خواہ وہ حضرت مولوی نور الدین ہوں یا کوئی اور۔ مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کے افکار میں صریح تضاد ہےکبھی تو وہ کہتے ہیں مرزا صاحب نے حکیم نور الدین کی تجویز کو قبول کر لیا اور مثیلِ مسیح کا دعویٰ کر دیا اور کبھی وہ کہتے ہیں کہ آپ نے اُن کی تجویز قبول کرنے سے معذرت کی اور ساتھ ہییہ بھی پچ لگا دیتے ہیں:۔
’’اس مشورہ کے حقیقی اسباب و محرکات کیا تھے؟ کیایہ حکیم صاحب کی دوربینی اور دوراندیشییا حوصلہ مند طبیعت ہی کا نتیجہ تھا یایہ حکومتِ وقت کے اشارہ سے تھا۔‘‘
(قادیانیت صفحہ۶۷)
مسیح موعود کا دعویٰ حکومت کے اشارہ سے نہ تھا
یہ تو ہم بتا چکے ہیں کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کے مشورہ کو آپؑ نے ردّ کر دیا تھا اور ان کے مشورہ کے برعکس اپنے آپ کو دمشقی حدیث کا مصداق قرار دے دیا تھا اور یہ بھی ہم بتا چکے ہیں کہ آپ کا مثیل مسیحیا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ اپنے الہامات کی بنیاد پر تھا۔ لہذا اب کسی ایسے شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ آپ کا یہ دعویٰ حضرت مولوی نور الدین صاحبکی دوراندیشییا حکومتِ وقت کے اشارہ سے تھا۔
یہ تو واضح ہو چکا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحبکا مشورہ دمشقی حدیث کے بارے میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے قبول نہیں کیا تھا۔ اور یہ بات آفتاب نصف النہار کی طرح ثابت ہے کہ انگریز عیسائی حکومت آپ کو مثیلِ مسیحیا مسیح موعود کا دعویٰ کرنے کا اشارہ نہیں کر سکتی تھی کیونکہ ایسا دعویٰ ان کے عقائد کے صریح خلاف تھا۔ انگریزی حکومت عیسائی تھی اور پراٹسٹنٹ فرقہ سے تعلق رکھتی تھی۔ جن کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح نے صلیب پر جان دی اور وہ ان کی صلیبی موت پر ایمان لانے والوں کے گناہوں کا کفارہ ہوئے۔ وہ تین دن کے بعد جی اٹھے اور پھر آسمان پر چڑھ گئے۔ اور خدا کے داہنے ہاتھ بیٹھے ہیں اور وہ خود ہی آخری زمانہ میں آسمان سے اتریں گے اور قوموں کے درمیان عدالت کریں گے۔ عیسائی حکومت یہ عقائد رکھتے ہوئے ایک مسلمان کو یہ اشارہ کر کے کہ تم مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرو کس طرح اپنے مذہب پر تبر رکھ سکتی تھی۔ یہ جانتے ہوئے کہ مسلمان تو موحد ہیں اور مسیح کو خدا کا بیٹا نہیں سمجھتے۔ لہذا اگر ایک مسلمان ایسے دعویٰ میں کامیاب ہو جائے تو عیسائیت کی جڑیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔ پس یہ کہنا مولوی ندوی صاحب کی دماغی اختراع کا نتیجہ ہے کہ آپ نے انگریزی حکومت کے اشارہ سے مسیح موعود کا دعویٰ کیا کیونکہ ایسا دعویٰ صریحاً انگریزی حکومت کے مذہبی مفاد کے خلاف تھا اور ایک مسلمان کے ہاتھوں ایسے دعویٰ سے صلیبی مذہب کا پاش پاش ہونا لازم تھا۔ انگریزی حکومت اتنی بیوقوف نہ تھی کہ وہ اپنے مذہب کے خلاف ایسا اقدام کرتی۔ پس ندوی صاحب کو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ سے جو تعصّب ہے وہ اُن سے ایسی متضاد اور بے سرو پا باتیں لکھوا رہا ہے جس کا ثبوت اُن کے پاس موجود نہیں۔
جب ابو الحسن صاحب ندوی کے خیالاتِ واہیہ کی تردید ہو گئی تو اب ان کا فرض ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے متعلق انہوں نے جویہ الفاظ لکھے ہیں کہ:۔
‘‘اُن کے خط سے جس کسر نفسی، تواضع اور خشیت کا اظہار ہوتا ہے وہ بڑی قابلِ قدر چیز ہے اور اس سے مرزا صاحب کے وقار میں قابلِ قدر اضافہ ہوتا ہے۔’’
اُن کے مطابق آپ کی عظمت کا اعتراف کریں۔ وہ اپنی کتاب قادیانیت کے صفحہ۶۷ پر خود ایک ایسا حوالہ براہین احمدیہ سے درج کر چکے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ براہین احمدیہ میں آپ نے مثیلِ مسیح کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ وہ اقتباس یہ ہے:۔
‘‘یہ عاجز حضرت قادرِ مطلق جلّشانہٗکی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری۔ اسرائیلی (مسیح) کے طرز پر کمال مسکینی و فروتنی و غربت و تذلّل و تواضع سے اصلاحِ خلق کے لئے کوشش کرے۔’’
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۲۵)
پسیہ ظاہر ہو چکا ہے کہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ مثیل مسیح اور مسیح موعود اللہتعالیٰکی طرف سے تھا اور جس دن وہ مامور ہوئے انہوں نے اصلاحِ خلق کے لئے اپنی ماموریت کا اعلان کر دیا تھا اور آپ پر یہ الہام بھی نازل ہوا۔ قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔ کُلُّبَرَکَةٍ مِنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ۔
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ا صفحہ۲۶۵ حاشیہ در حاشیہ نمبر۱)
عقیدہٴ بروز
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تین عبارات عقیدہ تناسخ و حلول کے عنوان کے تحت درج کی ہیں اور ان کے درج کرنے سے پہلے لکھا ہے:۔
‘‘مرزا صاحب کی بعض عبارتوں سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ تناسخ و حلول کے بھی قائل تھے۔ اور ان کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کی روح اور حقیقت ایک دوسرے کے جسم میں ظہور کرتی رہی ہے۔’’
درج کردہ اقتباسات میں سے بعض ادھورے پیش کئے گئے ہیں۔ ان اقتباسات میں مسئلہء بروز بیان ہوا ہے نہ کہ تناسخ۔ حوالہ جات کی وضاحت کرنے سے پہلے ہم بروز کی حقیقت بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
(۱)شیخ محمد اکرم صاحب صابری اپنی کتاب ”اقتباس الانوار“ میں تحریر کرتے ہیں:
‘‘روحانیت کمّل گا ہے براربابِ ریاضت چناں تصرف می فرماید کہ فاعل افعال اومی گردد۔ وایں مرتبہ راصوفیاء بروز می گویند۔’’
(اقتباس الانوار صفحہ۵۱)
ترجمہ۔کامل لوگوں کی روحانیت کبھی ارباب ریاضت پر ایسا تصرف کرتی ہے کہ وہ روحانیت ان کے افعال کی فاعل ہو جاتی ہے۔ اس مرتبہ کوصوفیاء بروز کہتے ہیں۔
اس کے بعد وہ بروز اور تناسخ میں فرق یوں بیان فرماتے ہیں:۔
‘‘و فرق بین التناسخ والبروز آنست کہ کفار علیہم اللعنۃبرآں رفتہ اند چوں روح از بدن عنصری انتقال نمائدو زنے کہ حمل چہارماہہ داشتہ باشد در رحم او نزول نمودہ وجودِ جدید موافق معتاد اہل عالم گرفتہ ظاہر مے شود و ایں را تناسخ مے گوئند وآں مطلق باطل است۔ و بروز آں رانا مند کہ روحانیت کمّل در بدن کامل تصرّف نمائد و فاعل افعال او شود۔ چنانچہ ذات الوہیت بصورت آتش بر شجرۂ موسیٰ تجلّی کرد و بلسان حال فرمود اِنِّیْ اَنَا اللّٰہُ۔ و میر سیّد حسن سادات در شرح فصوص الحکم مے نویسد کہ نزد محقّقان محقّق است محمدؐبود کہ بصورتِ آدم مبدا ظہور نمود و ہم او باشد در آخر بصورت خاتم ظاہرگردد وایںبروزاتِ کمل گوئند نہ تناسخ۔’’
(اقتباس الانوار صفحہ۵۱، ۵۲)
ترجمہ۔ تناسخ و بروز میں فرق یہ ہے کہ کفار علیہم اللعنت کا یہ عقیدہ ہے کہ جب روح بدن عنصری سے انتقال کرتی ہے تو جس عورت کا حمل چار ماہ کا ہو اس کے رحم میں اتر کر نیا وجود اہل دنیا کی عادت کے موافق اختیار کر کے ظاہر ہو جاتی ہے اس کو تناسخ کہتے ہیں او ریہ بالکل باطل ہے۔ اور بروز اسے کہتے ہیں کہ کامل لوگوں کی روحانیت کسی کامل بدن میںتصرّفکرے اور اس کے کاموں کی فاعل ہو جائے۔ جیسا کہ ذاتِ خداوندی نے آگ کی صورت میں موسیٰ کے درخت پر تجلّی کی اور زبان حال سے فرمایا‘‘ میں ہی اللہ ہوں’’۔ اور میر سیّد حسن سادات شرح فصوص الحکم میں لکھتے ہیں کہ محقّقین کے نزدیکیہ امر محقّق ہے کہ محمدؐہی تھا جس نے آغازِ دنیا آدم کی صورت میں ظہور کیا اور وہی ہو گا جو آخر میں بصورتِ خاتم ظاہر ہو گا اور اسے بروزاتِ کمّل کہتے ہیں نہ تناسخ۔
(۲) مشہور صوفی خواجہ غلام فرید صاحب آف چاچڑاں شریف فرماتے ہیں۔
’’وَالْبروزُ اَنْ یُّفِیضَ رُوحٌ مِّنْ اَرْوَاحِ الْکُمَّلِ عَلیٰ کَامِلٍ کَمَا یُفِیْضُ عَلَیْہِ التَّجَلِّیَاتُ وَ ھُوَیَصِیْرُ مَظْھَرُہٗ وَ یَقُوْلُ اَنَا ھُوَ‘‘
(اشارات فریدیہ حصہ دوم صفحہ ۱۱۰ مقبوس سی و ہشتم)
ترجمہ بروز یہ ہے کہ کاملین کی ارواح میں سے کوئی کسی کامل انسان پر افاضہ کرے جیسا کہ اس پر تجلّیات کا افاضہ ہوتا ہے اور وہ کامل اس فیض روح کا مظہر بن جاتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ مَیں وہی ہوں۔
(۳) حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا بروز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:۔
’’ھٰذَا وُجُوْدُ جَدِّیْ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ لَا وُجُوْدَ عَبْد الْقَادِر۔’’
(گلدستہء کرامات مؤلفہ مفتی غلام سرور صاحب صفحہ۸ مطبوعہ افتخار دہلوی)
ترجمہ: یہ میرے دادا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود ہے نہ عبد القادر کا وجود۔
اِس عبارت میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی علیہالرحمۃ نے بطور بروز کے ہی اپنے وجود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود قرار دیا ہے۔ یہ بروز کا مسئلہ صوفیاء میں مسلّم ہے۔ حضرت شیخ عبد القادر کے وجود کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود بن جانا اُن کےفَنَا فِی الرَّسُوْل ہونے پر دلالت کرتا ہے اور بطور اِستعارہ کے انہوں نے اپنے وجود کی نفی کر کے اپنے اس وجود کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود قرار دیا ہے۔
اِستعارہ اور بروز میں فرق یہ ہے کہ اِستعارہ عام ہے اور بروز خاص یعنی بروز میں افاضہٴ روحانیّت ضروری ہوتا ہے اور اِستعارہ اس سے وسیع معنی رکھتا ہے۔ یعنی افاضہ روحانیت ہو یا نہ ہو استعارہ کی صورت میں مشابہت تامّہ کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ گویا کہ مستعار وجود مُسْتعار مِنْہُ کا وجود بن گیا۔ حدیثوں میں جو مسیح بن مریم کے نزول کی پیشگوئی ہے اس سے بعض علماء محقّقین نے مسیح کا بروزی ظہور ہی مراد لیا ہے۔ چنانچہ اقتباس االانوار میں شیخ محمد اکرم صاحب صابری لکھتے ہیں:۔
’’بعضے برآنند کہ روحِ عیسیٰ در مہدی بروز کندو نزول عبارت از ہمیں بروز است مطابق ایں حدیث کہلَا مَھْدِیَّ اِلَّا عِیْسیَ بْنُ مَرْیَمَ۔‘‘
(اقتباس الانوار صفحہ ۵۲)
ترجمہ: بعض کا یہ مذہب ہے کہ رُوح (روحانیت)عیسیٰ مہدی میں بروز کرے گی۔ اور نزول عیسیٰ سے مراد یہی بروز ہے مطابق اس حدیث کے کہ نہیں کوئی مہدی مگر عیسیٰ بن مریم۔
امام سراج الدین ابن الوردی نے بھی لکھا ہے:۔
’’قَالَتْ فِرْقَةٌ مِن نُزُولِ عِیْسیٰ خُرُوْجُ رَجُلٍ یُشَبِّہُ عِیْسیٰ فِی الْفَضْلِ وَالشَّرَفِ کَمَا یُقَالُ لِلرَّجُلِ الْخَیْرِ مَلَکٌ وَلِلشَّرِیْرِ شَیْطَانٌ تَشْبِیْھًا بِھِمَا وَلَا یُرَادُ الاَعْیَان‘‘۔
(خریدة العجائب وفریدة الرغائب صفحہ۲۶۳، الطبعۃ الثانیۃ۔مطبوعہ مصر)
ترجمہ۔ ایک گروہ نے نزول عیسیٰ سے ایک ایسے شخص کا ظہور مراد لیا ہے جو فضل و شرف میں عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہ ہو گا۔ جیسے تشبیہ دینے کے لئے نیک آدمی کو فرشتہ اور شریر کو شیطان کہہ دیتے ہیں مگر اس سے مراد فرشتہ یا شیطان کی ذات نہیں ہوتی۔
علامہ میبذی شرح الدیون میں لکھتے ہیں:۔
’’ رُوح عیسیٰ علیہ السلام در مہدی علیہ السلام بروز کند و نزول عیسیٰ ایں بروز است۔‘‘
(غایۃ المقصود صفحہ ۲۱)
ترجمہ: کہ عیسیٰ علیہ السلام کی روح یعنی روحانیت مہدی علیہ السلام میں بروز کرے گی۔ اور نزول عیسیٰ سے یہ بروز مراد ہے۔
روح سے مراداس جگہ مجازاً روحانیت ہے۔ کیونکہ بروزی صورت میں روحانیت کا موردِ بروز میں ظہور ہوتا ہے نہ کہ روح کا اصالتًا۔
پس بروز کا مسئلہ صوفیاء میں مسلّم ہے اور جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں بروز تناسخ سے بالکل مختلف امر ہے۔ تناسخ میںیہ مانا جاتا ہے کہ ایک مردہ کی اصل روح ایک دوسرے جسم میں حلول کرے۔ اور بروز میںیہ مانا جاتا ہے کہ ایک کامل بزرگ کی روح بلحاظ روحانیت کے ایک دوسرے وجود میں اِفاضہ کرے اور اس مفیض رُوح کی حقیقتیعنی صفات نہ کہ خود روح موردِ بروز سے متحد ہو جائے۔ اس سے ظاہر ہے کہ تناسخ اور بروز میںبُعد المَشْرقَین ہے۔ تناسخ میں مردہ کی ر وح ایک دوسرے جسم میں حلول کرتی ہے اور بروز میں ایک کامل روحانی شخص کی روح اس طرح افاضہ کرتی ہے اور موردِ بروز میں ویسی ہی روحانیت پیدا ہو جاتی ہے جو اصل میں پائی جاتی ہے۔ اس طرح روحانیت میں دونوں وجود متحد ہو جاتے ہیں حتی کہ نام بھی ایک ہو جاتا ہے اور موردِ بروز یہ کہتا ہے کہ میں وہی ہوں حالانکہ وہ اصالتًا وہی نہیں ہوتا بلکہ صرف استعارہ اور بروز کے طور پر وہی کہلاتا ہے۔ اسی امر کو صوفیاء نے ایک شعر میںیوں بیان کیا ہے
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق فرماتا ہے:
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى(الانفال:۱۸)
یہ مٹھی جب تو نے پھینکی تو اُسے تو نے نہیں پھینکا لیکن اللہ نے پھینکا ہے۔
یہ آیت تصوّف کی جان ہے اور اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ کو خدا کا ہاتھ بروزی طور پر قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر خدا کے ہاتھ کا ایسا افاضہ ہؤا۔ آپ کے اس ہاتھ سے خدا کی قدرت ظاہر ہو گئی اور ایک زبردست صفتِ الٰہی کی تجلّی کا دنیا نے مشاہدہ کیا۔ اس موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ کو بروزی طور پر خدا کا مظہر ہونے کی وجہ سے خدا کا ہاتھ قرار دیا گیا ہے۔
پس جو لوگ خدا کے وجود میں فنا ہو جاتے ہیں وہ عالم فنائیت میںیہاں تک کہہ اٹھتے ہیں کہ وے من گشت و من وے (دیوان معین الدین چشتی) کہ خدا میں بن گیا اور مَیں وہ یعنی خدا ہو گیا۔
حضرت معین الدین چشتی کییہ کیفیت بھی بروزی تھی۔ اور بروز کا مسئلہ جس طرح قرآن کریم سے ثابت ہے ویسے ہی حدیث نبویؐ سے بھی ثابت ہے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیثِ قدسی میں وارد ہے۔
مَایَزَالُ عَبْدِیْیَتَقَرّبُ اِلَیَّ بِالْنَّوَافِلِ حَتّٰی اَحْبَبْتُہُ فِاِذَا اَحْبَبْتُہُ فَکُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْیَسْمَعُ بِہٖ وَ بَصَرَہُ الَّذِیْیُبْصِرُ بِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْیَبْطِشُ بِھَا وَ رِجْلَہُ الَّتِییَمْشِیْ بِھَا۔
(بخاری کتاب الرقاق، باب التواضع۔ مطبوعہ دار ابن کثیر دمشق بیروت)
ترجمہ: خدا فرماتا ہے میرا بندہ نوافل سے میرا مقرّب ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہےاور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔
اِس حدیث میں فنا فی اللہ کی حالت میں خدا کا بروزیظہور ہی مراد ہے ورنہ بندہ اصالتًا خدا نہیں بن جاتا۔ ہاں الٰہی طاقتوں کی حقیقت بروزی طور پر اس فانی فی اللہ وجود پر افاضہ کرتی ہے اور وہ شخص ان طاقتوں کا مظہر بن جاتا ہے۔ پس مظہریت اور بروز کا مسئلہ جیسا کہ صوفیاء بیان کرتے ہیں اسلامی تعلیم سے ثابت ہے۔
مولوی ابو الحسن صاحب کے پہلے پیش کردہ حوالہ جات کی تشریح
ذیل میں ہم ان حوالہ جات کی تشریح پیش کرتے ہیں جن کی بناء پر مولوی ابوالحسن صاحب نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ پر تناسخ کے قائل ہونے کا الزام دیا ہے۔
حوالہ اوّل
‘‘غرض جیسا کہ صوفیوں کے نزدیک مانا گیا ہے کہ مراتب وجود دَوریہ ہیں۔ اسی طرح ابراہیم علیہ السلام نے اپنی خُو اور طبیعت اور دلی مشابہت کے لحاظ سے قریباً اڑھائی ہزار برس اپنی وفات کے بعد پھر عبد اللہ پسر عبد المطلب کے گھر میں جنم لیا او رمحمدؐکے نام سے پکارا گیا۔’’
(تریاق القلوب صفحہ ۱۵۵)(قادیانیت صفحہ ۱۰۳)
افسوس ہے کہ یہ اقتباس سیاق بریدہ ہے۔ اگر مولوی ابو الحسن صاحب آگے پیچھے کی عبارتیں درج کر دیتے تو ہر شخص سمجھ سکتا تھا کہ اس عبارت میں حضرت ابراہیم کے عبداللہ پسر عبد المطلب کے گھر میں جنم لینے اور محمدؐ کے نام سے پکارا جانے کا مطلب یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بروزی طور پر ابراہیمہیں نہ کہ آپ کے جسم میں ابراہیم علیہ السلام کے رُوح نے تناسخ کے طور پر حلول کیا ہے۔ اس عبارت سے اگلے الفاظ یہ ہیں:
‘‘اور مراتبِ وجود کا دَوریہ ہونا قدیم سے اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی سنت اللہ میں داخل ہے۔ نوعِ انسان میں خواہ نیک ہوں یا بد ہوں عادت اللہ ہے کہ ان کا وجود خُو اور طبیعت اور تشابہ قلوب کے لحاظ سے بار بار آتا ہے۔’’
(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۴۷۷ حاشیہ)
پس اِس عبارت سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو ابراہیم کا وجود محض خُو، طبیعت اور تشابہ قلوب کے لحاظ سے قرار دیا گیا ہے نہ کہ ابراہیم علیہالسلام کی روح کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم میں حلول کرنا بیان کیا ہے۔
اِس مضمون کی تفصیلی وضاحت حوالہ سے مقدّم عبارت میںیوں بیان کی گئی ہے۔ تریاق القلوب کے صفحہ ۱۵۵پر یہ مضمون یوں چلتا ہے:۔
‘‘یہ بات اہل حقیقت اور معرفت کے نزدیک مسلّم ہے کہ مراتبِ وجود دَوریہ ہیں۔ یعنی نوع انسان میں سے بعض بعض کی خُو اور طبیعت پر آتے رہتے ہیں جیسا کہ پہلی کتابوں سے ثابت ہے کہ ایلیا یحییٰنبی کی خُو اور طبیعت پر آئے۔’’
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ۴۷۵، ۴۷۶)
دوسرا حوالہ
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا پیش کردہ دوسرا اقتباس یہ ہے کہ :
’’اس جگہ یہ نکتہ بھییاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانیت بھی اسلام کے اندرونی مفاسد کے غلبہ کے وقت ہمیشہ ظہور فرماتی رہتی ہے اور حقیقت محمدیہ کا حلول ہمیشہ کسی کامل متبع میں ہو کر جلوہ گر ہوتا ہے اور جو احادیث میں آیا ہے کہ مہدی پیدا ہو گا۔ اس کا نام میرا ہی نام ہوگا۔ اس کا خُلق میرا ہی خُلق ہوگا۔ اگر یہ حدیثیں صحیح ہیں تو اِسی نزولِ روحانیّت کی طرف اشارہ ہے۔’’
(آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ۳۴۶)
اس عبارت میں حقیقت محمدیؐہ کے حلول سے مراد صفاتِ محمدیہؐ کے کسی کامل متبع میں جلوہ گر ہونے کا ذکر ہے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کا بطور تناسخ حلول۔ چنانچہ مہدی کی مثال دے کر آپ نے واضح فرما دیا ہے کہ امام مہدی کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےنام پر اورخُلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ہی ہونے میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مہدی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانیت کا حلول ہو گا نہ کہ روح کا حلول۔ اسے تناسخ والا حلول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حقیقتیا روحانیت کی تجلّی جو کسی متبع یا دوسرے وجود میں ہو اصطلاحِ صوفیاء میں بروز کہلاتا ہے۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب بروز و کون کے ذکر میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس کی دو قسمیں ہیں۔ حقیقی اور مجازی پھر حقیقی کی کئیضروب (اصناف) قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘تَارةً اُخْرٰی بِاَنْیَّشْتَبِکَبِحَقِیْقَۃِرَجُلٍ مِنْ اٰلِہٖ اَوِ الْمُتَوَسِّلِیْن اِلَیْہِ کَمَا وَقَعَ لِنَبِیِّنَا بِالنِّسْبَةِ اِلٰی ظُہُوْرِ الْمَہْدِیِّ۔’’
‘‘کبھی حقیقی بروز یوں پایا جاتا ہے کہ ایک شخص کی حقیقت میں اس کی آل اور اس کے متوسّلین داخل ہو جاتے ہیں۔ اسی قسم کا واقعہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت سے مہدی کے ظہور کا ہے۔’’
اِس عبارت میں مہدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا بروز قرار دیا گیا ہے اور حقیقتِ محمدیہؐ سے اس کا اتّحاد بیان کیا گیا ہے یہی امر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی اس عبارت میں مراد ہے کہ:۔
‘‘حقیقت محمدیہ کا حلول کسی کامل متبع میں جلوہ گر ہوتا ہے۔’’
یہ تناسخ والا حلول نہیں جس میں ایک شخص کی روح کا دوسرے میں داخل ہونا مانا جاتا ہے بلکہ حقیقت کا حلول ہے یعنی ایک حقیقت میں متّبع اور مَتبوع کا تشابہ اور اتحاد۔ پیر غلام فرید صاحب آف چاچڑاں نے بھییہی فرمایا ہے کہ مہدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز ہو گا۔(اشارات فریدی صفحہ ۱۱۱)
تیسرا حوالہ
تیسرا حوالہ جو مولوی ابو الحسن صاحب نے پیش کیا ہے اس میں نہ تناسخ کا لفظ موجود ہے نہ حلول کا بلکہ اس میں آپؑ نے نزول مسیح کی حقیقت اس طرح بیان فرمائی ہے کہ ہمت سیرت اور روحانیت میں آپ حضرت مسیح سے بشدت اِتّصال رکھتے ہیں۔ اور ان کی ایسی شبیہ ہیں کہ گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں اور مسیح کی توجّہات نے آپ کے دل کو اپنا قرار گاہ بنایا ہے نہ کہ اس میں مسیح کی روح کا حلول ہوا ہے بلکہ مسیح کے پُرجوش ارادات آپ میں نازل ہوئے ہیں جس سے آپ کا وجود مسیح کا وجود قرار پایا ہے۔ انہی ارادات کے نزول کو اس جگہ ‘‘الہامی استعارات میں مسیحکا نزول قرار دیا۔’’
پس مولوی ابو الحسن صاحب کییہ بہت بڑی زیادتی ہے کہ بروز اور استعارہ کو آپ تناسخ اور تناسخی حلول قرار دے کر معترض ہیں۔ مسیح موعود کے بروزِ محمدی ہونے کے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:۔
‘‘یَنْعَکِسُ فِیْہِ اَنْوَارُ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ۔’’
(الخیر الکثیر ، مترجم اردو صفحہ ۲۳۶، مطبوعہ مطبع سعیدی کراچی)
کہ مسیح موعود میں سید المرسلین کے انوار کا انعکاس ہو گا۔
اسی مضمون کو حضرت مسیح موعودؑ نے‘‘ حقیقت محمدیہ کا حلول کسی متبع میں جلوہ گر ہوتا ہے’’ کے الفاظ میں بیان فرمایا اور امام مہدی میں اس حقیقت محمدیہ کا جلوہ گر ہونا بطور مثال کے ذکر کیا ہے۔
پھرحضرت شاہ ولی اللہ صاحب علیہالرحمۃ مسیح موعود کی شان میں لکھتے ہیں:۔
یَزْعَمُ الْعَامَّةُ اَنَّہُ اِذَا نَزَلَ اِلَی الْاَرْضِ کَانَ وَاحِدًا مِّنَ الْاُمَّةِ کَلَّا بَلْ ھُوَ شَرْحٌ لِلْاِسْمِ الْجَامِعِ الْمُحَمَّدِیِّ وَ نُسْخَةٌ مُنْتَسِخَةٌ مِّنْہُ فَشَتَّانَ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنَ الْاُمَّةِ۔
(الخیر الکثیر صفحہ۲۳۷مطبوعہمطبع سعیدی کراچی)
یعنی عوام یہ گمان کرتے ہیں کہ مسیح موعود جب زمین کی طرف نازل ہو گا تو اُس کی حیثیت ایکاُمّتی کی ہو گی۔ ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اِسمِ جامع محمدی کی پوری تشریح اور اُس کا دوسرا نسخہ ہو گا۔ پس اس کے اور ایکاُمّتی کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔
اِس عبارت سے ظاہر ہے کہ مسیح موعودکا وجود گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا بروز کامل ہو کر آپ ہی کی بعثت کے حکم میں ہے۔ اِسمِ جامع محمدی سے مراد حقیقتِمحمدیہؐ ہی ہے۔ جس کے کامل ظہور کا ذکر نُسْخَةٌ مُنْتَسِخَةٌ کے الفاظ سے کیا گیا ہے اور مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو بہو چربہ قرار دیا گیا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دو بعث
سورة جمعہ کیآیتھُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ آيَاتِهٖ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلَالٍ مُّبِينٍ۔وَّآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيمُ (الجمعۃ۳، ۴)سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دو بعث ہیں۔ پہلا بعث اُمیّین میںہے۔ آپ کا پہلا بعث اُمیّینمیں ہوا اور دوسرا بعث بروزی طور پر مسیح اور مہدی کے رنگ میںاٰخَرِین میں ہونے والا تھا۔ ھُوَ العَزِیْزُ الْحَکِیْمُ کی صفات الٰہیہ کے ذکر میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دوسرے بعث میں اسلام کو تمام اَدیان پر غلبہ ہو جائے گا۔ مجدّد صدی دواز دہم حضرت شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں:۔
وَاَعْظَمُ الْاَنْبِیَآءِ شَاْنًا مَنْلَہٗ نَوْعٌ اٰخَرُ مِنَ الْبَعْثَۃِ اَیْضًا وَ ذَالِکَ اَنْ یَّکُوْنَ مُرَادُ اللّٰہِ تعالیٰ فِیْہِ سَبَبًا لِخُرُوْجِ الْنَّاسِ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ وَاَنْ یَّکُوْنَ قَوْمَہٗ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ وَبَعْثُہٗ یَتَنَاوَلُ بَعْثًا اٰخَرَ۔
(حجّۃ اللّٰہ البالغہ جلد۱ باب حقیقۃالنبوة و خواصھا صفحہ ۶۷)
ترجمہ۔ انبیاء میں سے شان کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر عظمت والا نبی وہ ہے جس کے لئے ایک دوسری قسم کا بعث بھی ہو۔ اور یہ دوسرا بعث اس طرح ہے کہ خدا یہ چاہتا ہے کہ دوسرا بعث لوگوں کے ظُلُمات سے نُور کی طرف نکلنے کا سبب ہو۔ اور اس بعث ثانی کی وجہ سے آپ کی قوم خَیرِاُمّت ہو جائے جو لوگوں کے لئے نکالی گئی۔ پس اس طرح آپ کا بعث ایک دوسرے بعث پر بھی مشتمل ہے۔
قبل ازیں قارئین کرام معلوم کر چکے ہیں کہ مسیح موعود کو حضرت شاہ صاحب علیہالرحمۃ نے اسم جامع محمدیؐ کی شرح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا دوسرا نسخہ قرار دیا ہے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ یُھْلِکاللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّھَا اِلَّا الْاِسْلَامکہ مسیح موعود کی اشاعتِ دین کے ذریعہ اس طرح روحانیت کا انتشار ہو گا کہ تمام ملّتیں ہلاک ہو جائیں گی اور اسلام کامل طور پر تمام ادیان پر غلبہ پا لے گا۔ اسی کی طرف قرآن کریم کے اِن الفاظ میں پیشگوئی کی گئی ہےهُوَ الَّذِيْ أَرْسَلَ رَسُولَهٗ بِالْهُدَىٰ وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّينِ كُلِّهٖ(الصّف :۱۰) خدا ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ وہ رسول اِس دین کو تمام اَدیان پر غالب کر دے۔ مفسرین بموجب حدیث نبوی یُھْلِک اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّھَا اِلَّا الْاِسْلَاماس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ غلبہ مسیح موعود کے ذریعہ ہوگا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانیت کے اَکمل اور اَشدّ اور اَقویٰ انتشار کا ہی نتیجہ ہو گا۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی ذیل کی عبارتوں میںیہی مضمون بیان ہوا ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بروزی صورت میں بعثتِ ثانیہ ہیں:۔
(۱)‘‘بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میںیعنی اِن دنوں بنسبت اُن سالوں کے اَقویٰ اور اَکمل اور اَشد ہے بلکہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے۔’’
(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ ۲۷۱، ۲۷۲)
(۲)‘‘ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانیت نے پانچویں ہزار میں اجمالی صفات کے ساتھ ظہور فرمایا اور وہ زمانہ اس روحانیت کی ترقیات کا انتہانہ تھا بلکہ اس کے کمالات کے معراج کے لئے پہلا قدم تھا۔ پھر اس روحانیت نے چھٹے ہزار کے آخرمیںیعنی اس وقت پوری طرح سے تجلّی فرمائی۔ جیسا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں اَحسن الخالقین خدا کے اذن سے پیدا ہوا۔ اور خیر الرسل کی روحانیت نے اپنے ظہور کے کمال کے لئے اور اپنے نور کے غلبہ کے لئے ایک مظہر اختیار کیا۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کتابِ مُبین میں وعدہ فرمایا تھا۔ پس میں وہی مظہر ہوں اور وہی نور معہود ہوں۔’’
(خطبہ الہامیہ ، روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ۲۶۶ ،۲۶۷)
مگر ان عبارتوں سے مولوی ابو الحسن صاحب غلط مطلب لے کر یہ غلط فہمی پھیلانا چاہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے برتر ہونے کا بلکہ تمام انبیاء سے برتر ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو قادیانیت صفحہ ۱۰۵تا ۱۰۷)
الجواب۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی روحانیت میں اور خدا کے قرب میں ہر آن ترقی کر رہے ہیں۔ اور اس ترقی کا کوئی منتہا نہیں۔ اور تمام مجدّدینِاُمّت آپ ہی کی روحانیت کے انتشار کے لئے آپ کے مظاہر کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان مجدّدین میں سے مسیحِ موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مظہر ِکامل یقین کیا گیا ہے جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے اقوال سے ثابت کیا گیا ہے۔
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مہدی معہود و مسیح موعودؑ کے دعویٰ کے ساتھ ہی اپنے الہام کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَکی رو سے محض ایک شاگرد کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہوسلم کے انوار کی جو تجلّی ہوئی ہے اسے وہ کوئی اپنی ذاتی خوبی قرار نہیں دیتے۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں تحریر فرماتے ہیں
اُس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہیہی ہے
سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے
(درثمین اردو صفحہ:۸۴)
اِن اشعار سے ظاہر ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ باوجود اس دعویٰ کے کہ آپؑ ہی اس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مظہر اور بروزِ کامل ہیں اپنے تئیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں شاگرد اور ناچیز ہی قرار دیا ہے۔آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘موردِ بروز حکم نفیِ وجود کا رکھتا ہے’’
(اشتہار ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۱۶)
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بعثت ہونے اور دوسری بعثت کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کے اشد اور اکمل اور اقویٰ طور پر مؤثر ہونے میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب کا وجود جو موردِ بروز ہیں منفی ہے اور سب کمالات کا مرجع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کیونکہ آپ ان کمالات میں اصل ہیں ۔ آپ کے کمالات ذاتی ہیں اور موردِ بروز کے کمالات بِالعَرض اور بالتبع ہیں۔ پس موردِ بروز کے ذریعہ دنیا میں تجلّیات مصطفویہ کا مشاہدہ کرے گی اور ان سے مستفید اور مستفیض ہو گی۔ ان کا اصل ا ور حقیقی مرجع حضرت مسیح موعود علیہالسلام کے نزدیکسرور کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیثیت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں ایک آئینہ کی ہے جس میں اصل تجلّیات ظاہر ہوتی ہیں اور آئینے میں دکھائی دینے والی شکل اصل کا ظل ہوتی ہے۔ گو بلحاظ ظِلّیت ان میں دوئی نہیں ہے کیونکہ ظل اصل کا غیر نہیں ہوتا۔ مگر ظل کے کمالات کا مَرجع در حقیقت اصل ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:۔
لیک آئینہ اَم زِ ربِّ غنی از پئے صورتِمَہِ مَدَنِی ؐ
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۴۷۸)
کہ مَیں ربِّ غنی کی طرف سے مدنی چاند کی صورت کے سامنے ایک آئینہ ہوں ۔ گویا جس طرح آئینہ میں نظر آنے والی شکل کے کمالات کا مرجع اصل ہوتا ہے۔ اس لئے مجھ میں جو کمالات عکس کے طور پر پائے جاتے ہیں وہ میرے ذاتی کمالات نہیں بلکہ ان کا مرجع اصل یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں۔ اور معرفت الٰہی کے جام کے متعلق فرماتے ہیں:۔
آنچہ داد است ہر نبی راجام داد آں جام را مرا بتمام
یعنی جو معرفت کا پیالہ خدا تعالیٰ نے ہر نبی کو دیاہے وہ مجھے بھی پورا دیا ہے۔
وجہ اس کییہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے افاضۂ روحانیہ سے آپ کے اُمّتیوں کو انبیاء سابقین کی حاصل کردہ معرفت الٰہی سے محروم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے۔ اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاءِکہ اس اُمّت کے علمائے ربّانی انبیاء کے وارث ہیں۔ اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام اپنے متعلق تحریر فرماتے ہیں
وارث مصطفٰی شدم بہ یقین شدہ رنگین برنگِیار حسیں
کہ میں مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم کا یقینی وارث ہوا ہوں اور یارِ حسین کے رنگ میں رنگین ہو گیا ہوں۔
آپ کا یہ لکھنا
زندہ شد ہر نبی بآمدنم ہر رسولے نہاں بہ پیر ہنم
یہ مفہوم رکھتا ہے کہ آپ کی آمد سے ہر نبی کے علوم زندہ ہو گئے ہیں اور آپ ؑ ان کےعلوم کے جامع ہیں۔ اور آپ کا پہلا شعر کہ آپؑ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے وارث ہیں اِس بات پر روشن دلیل ہے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیںعُلِّمْتُ عِلْمَ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ۔(بحوالہ تحذیر الناس صفحہ ۶۱) کہ میں تمام پہلے اور پچھلے انبیاء کا علم دیا گیا ہوں۔ جس کے یہی معنی ہیں کہ آپ علم و معرفت میں تمام انبیاء کے کمالات کے جامع تھے اور ہر نبی آپ کے ذریعہ زندہ ہوا۔ اسی طرح آپ کے بروزِ کامل کے لئے جو حسبِ آیتوَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعۃ:۴) آپ ؐ کی بعثتِ ثانیہ قرار پانے والا تھا ضروری تھا کہ اُس کا علم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے مستفاض ہے وہ بھی انبیاء کے علم کو زندہ کرنے والا ہو اور آپ کا وجود بھی بلحاظ بروز ان انبیاء کا مظہر ہو۔
روضۂ آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ و بار
کے شعر میں روضۂ آدم سے مراد دین کا باغ ہے۔ اس کی اشاعت کی تکمیل بِلاَریب مسیحِ موعود کے ذریعہ مقدّر ہے۔ چنانچہ حدیث نبوی میں وارد ہے۔
یُھْلِک اللّٰہُ فِی زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّھَا اِلَّا الْاِسْلَام
(تفسیر ابن جریر طبری سورۃ اٰلِ عمران آیت ۵۶)
کہ خدا تعالیٰ مسیح موعود کے زمانہ میں تمام ملّتیں ہلاک کر دے گا بجز اسلام کے اور یہ نتیجہ ہو گا اشاعتِ دین کا۔ یہی امر آیتھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ میں مراد ہے اور مفسّرین کو مسلّم ہے کہ اسلام کا دوسرے ادیان پر غلبہ مسیح و مہدی کے ذریعہ مقدّر ہے۔ (تفسیر ابن جریر)
مولوی ندوی صاحب کا مسیح موعود کے کردار پر حملہ
مولوی ندوی صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۱۸، ۱۱۹ پر باب سوم کی فصل اوّل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کردار پر حملہ کیا ہے اور لکھا ہے:۔
‘‘مرزا صاحب کی خانگی زندگی جس ترفہ، تجمل اور تنعم کی تھی وہ راسخ الاعتقاد متبعین کے لئے بھی ایک شبہ اور اعتراض کا موجب بن گئی۔’’
یہ نتیجہ آپ نے اس شبہ سے نکالا ہے جو خواجہ کمال الدین کے دل میں پیدا ہوا کہ ‘‘جب ہماری بیبیاں خود قادیان میں گئیں وہاں پر رہ کر اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا تو واپس آکر ہمارے سر چڑھ گئیں کہ تم تو بڑے جھوٹے ہو۔ ہم نے تو قادیان جا کر خود انبیاء و صحابہ کیزندگی کو دیکھ لیا ہے جس قدر آرام کی زندگی اور تعیّش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے اس کا عشر عشیر بھی باہر نہیں۔ حالانکہ ہمارا روپیہ کمایا ہواہوتا ہے اور ان کے پاس جو روپیہ جاتا ہے وہ قومی اغراض کے لئے قومی روپیہ ہوتا ہے لہذا تم جھوٹے ہو جو جھوٹ بول کر عرصہ دراز تک ہم کو دھوکا دیتے رہے اور آئندہ ہم ہرگز تمہارے دھوکہ میں نہ آویں گی۔ پس وہ اب ہم کو روپیہ نہیں دیتیں کہ ہم قادیان بھیجیں۔’’
اصل حقیقتیہ ہے کہ خواجہ صاحب نے اپنی جن بیبیوں کا ذکر کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت بخیل تھیں اور وہ سلسلہ احمدیہ سے کوئی اخلاص نہیں رکھتی تھیں اور سخت بخل کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انہوں نے چندہ دینے سے بچنے کے لئے یہ بہانہ تراشا اور آکر بتایا کہ جس قدر آرام کی زندگی اور تعیّش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے اس کا عشر عشیر بھی باہر نہیں۔
یہ فقرہ ان بیبیوں کا سراسر جھوٹ پر مشتمل ہے۔ البتہ یہ درست ہے کہ خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب یہ چاہتے تھے کہ لنگر خانہ کے انتظام کے لئے جو روپیہ احباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھجواتے ہیں دوسرے چندوں کی طرح وہ بھی انہیں مل جائے۔ یہ لوگ ان بیبیوں کے اس بیان کی وجہ سے بدظنی میں مبتلا ہو گئے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس روپے کا کچھ حصہ اپنی گھریلو ضروریات پر صرف کر لیتے ہوں گے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود صاحبِ جائیداد تھے اور قادیان کے رئیس شمار کئے جاتے تھے مگر آپ مہمانوں کیسہولت کے پیش نظر یہ چاہتے تھے کہ لنگر کا روپیہ آپ کے پاس ہی رہے چنانچہ آپؑ نے فرمایا کہ۔
‘‘خدا کا منشاء یہی ہے کہ میرے وقت میں لنگر کا انتظام میرے ہی ہاتھ میں رہے۔ اگر اس کے خلاف ہوا تو لنگر بند ہو جائے گا۔ مگر یہ( خواجہ وغیرہ) ایسے ہیں کہ بار بار مجھے کہتے ہیں کہ لنگر کا کام ہمارے سپرد کر دو اور مجھ پر بدظنی کرتے ہیں۔’’
(کشف الاختلاف صفحہ ۱۴)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فقرہ کہ یہ‘‘ مجھ پر بدظنی کرتے ہیں’’ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ یہ لوگ اپنی بیبیوں کی باتوں میں آکر بدظنی میں مبتلا ہو گئے تھے۔
واضح ہو کہ اس بد اعتقادی کی سزا بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں اس طرح مل چکی ہے کہ یہ دونوں سلسلہ احمدیہ کے نظام خلافت سے الگ ہو گئے اور لاہور میں مولوی محمد علی صاحب نے ایک علیحدہ انجمن بنام احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کی بنیاد ڈالی ۔ اور پھر خواجہ صاحب اس انجمن کے ماتحت بھی نہ رہے بلکہ انہوں نے ووکنگ مسجد کا ٹرسٹ بنوالیا۔ اور پھر مولوی محمد علی صاحب پر اُن کی زندگی کے آخری وقت میں ان کے اپنے ماتحتوں کی طرف سے ان پر مالی معاملات میں الزامِ خیانت کی ایسی بوچھاڑ پڑی کہ وہ ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی۔ ان کی بیگم صاحبہ اپنے ایک خط میں جس کے اقتباسات ہم ‘‘غلبۂ حق’’ میں شائع کر چکے ہیں مسلم ٹاون پوسٹ آفس اچھرہ لاہور سے ہندوستان کے اپنے ایک ہم خیال کو لکھتی ہیں۔
‘‘ان کی روز افزوں مقبولیت کی وجہ سے اپنی جماعت میں ہی سو حاسد ہو گئے اور سالہا سال سے ان کی راہ میں رو ڑے اٹکاتے رہے۔’’
(خط نمبر۲ غلبہ ٔحق صفحہ ۱۵)
آگے چل کر تحریر فرماتی ہیں۔
‘‘مولوی محمد علی صاحب نے ترجمۂ قرآن کو دائمی طور پر شائع کرنے کے لئے ایک ٹرسٹ قائم کر دیا۔ مفسدوں نے مخالفتکاطوفان برپا کر دیا اور طرح طرح کے بیہودہ الزام لگائے۔یہاں تک بکواس کی کہ آپ نے احمدیت سے انکارکر دیا ہے اور انجمن کا مال غصب کر لیا ہے۔’’
(خط نمبر ۴ غلبۂ حق صفحہ ۱۵)
آگے صفحہ ۵ پر تحریر فرماتی ہیں۔
‘‘آخر ان شرارتوں کی وجہ سے مولوی محمد علی صاحب کی صحت بگڑ گئی اور ان تفکّرات نے آپ کی جان لے لی۔ سب ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ اس غم کی وجہ سے حضرت مولوی صاحب کی جان گئی۔’’
(غلبۂ حق صفحہ ۱۵ )
صفحہ۶ پر ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے۔
‘‘ایک وصیت لکھ کر شیخ میاں محمد صاحب کو بھیج دی کہ سات آدمی جو اس فتنہ کے بانی ہیں جن کے دستخط سے یہ سرکلر نکلے تھے اور جن کا سرغنہ مولوی صدر الدین ہے میرے جنازہ کو ہاتھ نہ لگائیں اور نہ ہی نماز جنازہ پڑھائیں۔ چنانچہ اس پر عمل ہوا۔’’
(غلبۂ حق صفحہ ۱۶)
خود مولوی محمد علی صاحب نے لکھا کہ۔
‘‘جب سے مَیں گزشتہ بیماری کے حملہ سے اٹھا ہوں اس وقت سے یہ دونوں بزرگ (ڈاکٹر غلام احمد اور مولوی صدر الدین) اور شیخ عبد الرحمٰن صاحب مصری میرے خلاف پراپیگنڈہ میں اپنی پوری قوت خرچ کر رہے ہیں اور ہر ایک تنکے کو پہاڑ بنا کر جماعت میں ایک فتنہ پیدا کرنا شروع کیا ہوا ہے۔’’
اور آگے لکھا ہے۔
‘‘نہ صرف وہ میری بیماری سے پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں بلکہ ان امور کے متعلق مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر کے میری بیماری کو بڑھارہے ہیں۔’’
پھر لکھتے ہیں۔
‘‘نہ صرف یہ نوٹس جاری کر کے جماعت کے بنیادی نظام پر کلہاڑی چلائی گئی اور امیر جماعت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا گیا ہے بلکہ ان سخت گرمی کے ایام میں مولانا صدر الدین صاحب نے بعض جماعتوں میں دو رہ بھی کیا ہے تا کہ ان پر اپنا ذاتی اثر ڈال کر میرے متعلق جھوٹی باتوں کا خوب چرچا کریں۔’’
(غلبۂ حق صفحہ ۱۴)
سو مولوی محمد علی صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بد ظنی کرنے کی سزا اسی دنیا میں مل گئی۔ اور خواجہ صاحب کو یہ سزا ملی ہے کہ ووکنگ مسجد کا ٹرسٹ بھی اب اُن کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ پس جو شخص خدا کے پیاروں کو بد ظنی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس کو اسی دنیا میں بد ظنی کی سزا مل جاتی ہے آخرت کا علم خدا کو ہے۔ یہ بات کوئی بعید از قیاس نہیں اور نہ شانِنبوّت کے منافی ہے کہ نبی کینبوّت پر ایمان لانے والے بعض لوگ شامتِاعمال کی وجہ سے ایسے شکوک میں مبتلا ہوں۔ چنانچہ ایسی بدظنی کا مظاہرہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق بھی بعض مسلمان کہلانے والوں کی طرف سے ہوا۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الْصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْاوَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَآ إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ (التوبة:۵۸)کہ ان بظاہر ایمان لانے والوں میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو صدقات کے بارے میں اے نبی تجھے الزام دیتے ہیں۔ اگر ان کو اُس میں سے دیا جائے تو خوش ہوتے ہیں اور اگر انہیں نہ دیا جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں۔ پھر غنیمت کی تقسیم پر بھی بعض لوگوں نے حضور علیہ السلام پر اعتراض کیا کہ اس تقسیم میں انصاف سے کام نہیں لیا گیا۔ توآنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر میں انصاف نہ کروں گا تو پھر کون انصاف کرے گا اور قرآن کریم میں اس کا یہ جواب دیا گیا ہےمَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ(اٰل عمران: ۱۶۱)کہ نبی اس نقص سے بلند ہے کہ وہ مالِ غنیمت میں خیانت کرے۔
ابو الحسن ندوی اور ہمچو قسم معترضین کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جواب دیا ہے۔
‘‘مجھے اس بات کی بھی پرواہ نہیں کہ اندرونی اور بیرونی مخالف میری عیب جوئی میں مشغول ہیں کیونکہ اس سے بھی میریکرامتہی ثابت ہوتی ہے۔ وجہ یہ کہ اگر میں ہر قسم کا عیب اپنے اندر رکھتا ہوں اور بقول اُن کے مَیں عہد شکن اور کذّاب اور دجّال اور مُفتری اور خَائن ہوں اور حرام خور ہوں اور قوم میں پھوٹ ڈالنے والا اور فتنہ انگیز ہوں اور فاسق اور فاجر ہوں اور خدا پر قریباً تیس برس سے افترا کرنے والا ہوں اور نیکوں اور راستبازوں کو گالیاں دینے والا ہوں اور میری روح میں بجز شرارت اور بدی اور بدکاری اور نفس پرستی کے اور کچھ نہیں اور محض دنیا کے ٹھگنے کے لئے میں نے ایک دکان بنائی ہے اور نعوذ باللہ بقول ان کے میرا خدا پر بھی ایمان نہیں۔ اور دنیا کا کوئی عیب نہیں جو مجھ میں نہیں۔ مگر باوجود اِن باتوں کے جو تمام دنیا کے عیب مجھ میں موجود ہیں اور ہر ایک قسم کا ظلم میرے نفس میں بھرا ہوا ہے اور بہتوں کے میں نے بیجا طور پر مال کھا لئے اور بہتوں کو میں نے (جو فرشتوں کی طرح پاک تھے) گالیاں دی ہیں۔ اور ہر ایک بدی اور ٹھگ بازی میں سب سے زیادہ حصہ لیا تو پھر اس میں کیا بھید ہے کہ بد اور بدکار اور خائن اور کذّاب تو مَیں تھا مگر میرے مقابل پر ہر ایک فرشتہ سیرت جب آیا تو وہی مارا گیا۔ جس نے مباہلہ کیا وہی تباہ ہوا۔ جس نے میرے پر بددعا کی وہ بد دعا اُسی پر پڑی۔ جس نے میرے پر کوئی مقدمہ عدالت میں دائر کیا اُسی نے شکست کھائی…… چاہئیے تو یہ تھا کہ ایسے مقابلہ کے وقت مَیں ہی ہلاک ہوتا۔ میرے پر ہی بجلی پڑتی بلکہ کسی کے مقابل پر کھڑے ہونے کی بھی ضرورت نہ تھی کیونکہ مجرم کا خود خدا دشمن ہے۔ پس برائے خدا سوچوکہ یہ اُلٹا اثر کیوں ظاہر ہوا؟ کیوں میرے مقابل پر نیک مارے گئے؟ اور ہر ایک مقابلہ میں خدا نے مجھے بچایا۔ کیا اس سے میریکرامتثابت نہیں ہوتی؟’’
(حقیقۃالوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۲)
پس خواجہ صاحب کی بیبیوں نے حضرت مسیح موعود کے گھرانہ پر جو تعیّش کا الزام لگایا ہے وہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہلیہ مکرمہ حضرت اُمّ المُؤمنین نصرت جہاں بیگم کی زندگی اپنی سادگی اور دینداری اور سیرت کے لحاظ سے ایک نمونہ تھی۔ آپ کے زیورات بھی حسبِ ضرورت خدا کی راہ میں خرچ ہوتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر خرچ نہ رہا۔ اُن دنوں جلسہ سالانہ کے لئے چندہ ہو کر نہیں جاتا تھا حضور ؑاپنے پاس سے ہی صرف فرماتے تھے۔ میر ناصرنواب صاحب مرحوم نے آکر عرض کی کہ رات کو مہمانوں کے لئے کوئی سامان نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کر سکے فروخت کر کے سامان کر لیں۔ چنانچہ زیور فروخت یا رہن کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لئے سامان بہم پہنچا دیا۔
(اصحاب احمد جلد چہارم ۔ سیرت احمد صفحہ ۱۸۳)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
‘‘جس چیز نے میرے دل پر خاص طور پر اثر کیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے اُس وقت آپ پر کچھ قرض تھا آپ نے (یعنی حضرت اُمّ المومنین نے)یہ نہیں کیا کہ جماعت کے لوگوں سے کہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ پر اس قدر قرض ہے یہ ادا کردو۔ بلکہ آپ کے پاس جو زیور تھا اُسے آپ نے بیچ کر حضرت مسیح موعودؑ کے قرض کو ادا کر دیا۔’’
(سیرت سیّدہ اُمّ المومنین حصہ دوم صفحہ ۲۹۷)
آپ کی سیرتِ طیّبہ کے بارہ میں شیخیعقوب صاحب تراب رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں۔
‘‘اللہ تعالیٰ کے حقوق پر لحاظ کرتے ہوئے حضرت اُم ّالمومنین میں وہ تمام صفات جمع ہیں جو خدا تعالیٰ کے کامل فرمانبردار میں۔ وہ مومن مرد ہو یا عورت۔
حضرت اُمّ المومنین اللہ تعالیٰ کی زندہ ہستی پر زندہ ایمان رکھتی ہیں۔ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایک روشن دلیل اور شعائر اللہ میںسے ہیں۔ ہر قسم کے شرک و بدعت سے بیزار ایک سچے اور کامل موحد کا رنگ آپ کے ایمان میں ہے۔ خدا تعالیٰ کی تمام صفات کاملہ اور اس کی قدرتوں پر کامل یقین ہے۔ اور اسی لئے آپ دعاؤں کی قبولیت اور اثر پر ایک اٹل ایمان رکھتی ہیں۔ عبادات کو اپنے وقت پر اور سنت نبیکریم صلی اللہ علیہ و سلم کے موافق بجا لاتی ہیں۔ نوافل اور صدقات کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے دائماً ساعی رہی ہیں۔
حقوق العباد کے متعلق ہمیشہ آپ کو خیال رہتا ہے کہ پورے طور پر ادا ہوں۔ آپ نوکروں کے ساتھ ایسا برتاوٴ کرتی ہیں کہ کوئی نہیں کہہ سکتا وہ غیر ہیں۔ خود ان کے کاموں میں ان کی مدد کرنا، ان کی غلطیوں اور کمزوریوں سے چشم پوشی کرنا، خطاوٴں کو معاف کر کے دلجوئی کرنا آپ کی عادت میں داخل ہے۔
مہمان نوازی میں آپ کا درجہ بہت بلند ہے اور اس خصوص میں اِکرامِ ضَیف پر آپ کا عمل ہے…… مساکین،یتامیٰ اور بیوگان کی خبر گیری، ان کی تربیت اور ان کے ساتھ رفق اور محبت کا برتاوٴ ان کی زندگی کے ہر حصہ میں آپ کی عادتِ ثانیہ ہے اور اسی کے لئے آپ کو اُمّ المساکین کہنا بالکل جائز اور درست ہے۔ فیاضی اور اس کے ساتھ احسان کر کے بھول جانا اور کسی سے سلوک ایسے رنگ میں کرنا کہ دوسرے ہاتھ کو علم نہ ہو آپ کی شان ہے۔ باجود عظیم المرتبت خاتون ہونے کے کمال درجہ کی انکساری آپ میں پائی جاتی تھی۔ اقوال سے حرکات و سکنات سے کسی رنگ میں رعونت اور تکبر نہیں پایا جاتا تھا۔ باوجود انکساری کے اپ کا رُعب سب پر رہتا ہے کلام میں شوکت، معقولیت، قوت ِفیصلہ نمایاں رہی ہے۔ باوجود بے تکلّفی کے وقار موجود رہتا ہے۔ زندگی کے ہر مرحلہ خوشی اور غمی میں ایک سکون خاطر پایا جاتا ہے۔ خوشی میں بھی خدا تعالیٰ ہی کی حمد اور اس کے حضور جھکتی ہیںاور اگر کوئی واقعہ غمی کا ہو جائے تب بھی اسی کی مشیّت کے سامنے انشراحِ صدر سے سر جھکاتی ہیں۔ ایسے ابتلاوٴں کے وقت قدم پیچھے نہیں ہٹتا بلکہ مردانہ وار آگے ہی اٹھتا ہے۔
حیا،غَضِّ بَصَر آپ کی خصوصیت ہے۔ محنت اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں کبھی عار نہیں۔ سادگی آپ کا خاصہ ہے۔…… آپ نماز باجماعت کی پابند اور تہجد اور نوافل بھی آپ کا دستور العمل رہا ہے۔ دعاؤں کا خاص ذوق اور عادت ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی دعاؤں کو شرف ِ قبولیت بخشتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قربانی کے لئے آپ کے قلب میں انشراح اور تڑپ رہتی ہے۔ حسن ظنی میں کمال ہے۔ کسی کی غیبت کبھی سننا پسند نہیں فرماتیں۔ اگر کبھی مجلس میں ایسا ذکر آجائے تو فوراً روک دیتی ہیں۔’’
(ملاحظہ ہو سیرت اُمّ المومنین جلد دوم صفحہ ۳۰۷تا۳۰۹)
گورنمنٹ انگریزی کی حمایت اور جہاد کو حرام قرار دینے کا الزام
باب سوم کی فصل دوم میں مولوی ابو الحسن صاحب ندوی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی طرف سے انگریزی حکومت کی تائید و حمایت اور جہاد کی حرمت کو قابلِ اعتراض ٹھہراتے ہیں۔
جہاد بمعنی قتال کے متعلق ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اس کی حِلّت شرائط کے پائے جانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے وقت چونکہ انگریزوں سے ایسے جہاد کی شرائط موجود نہ تھیں اس لئے آپ نے جہاد کو اس وقت تک کے لئے ملتوی قرار دیا کہ اس کی حِلّت کی شرائط پیدا ہو جائیں اور جہاد بصورت تبلیغِ اسلام پورے زور و شور کے ساتھ جاری رکھا۔ بے شک حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتابوں میں جو ہزاروں کی تعداد میں شائع ہو ئیں۔ انگریزوں سے جہاد بالسیف کی ممانعت کی تھی اور مسلمانوں کو ان کی تائید و حمایت کے لئے تلقین فرماتے تھے۔ مگر آپ کا یہ فعل اس وجہ سے بھی تھا کہ حدیث نبوی میں وارد تھا۔ یَضَعُ الْحَرْبَ(صحیح بخاری) کہ مسیح موعود جنگ سے روک دے گا۔ اور یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ آپ سے پہلے تمام علماءِاُمّت انگریزوں سے جہاد جائز نہ ہونے کا فتویٰ دے چکے تھے اور وجہ اس کییہ تھی کہ مسلمانوں نے یہ محسوس کر کے کہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکالا نہیں جا سکتا۔ ان کی حکومت میں مستأمن ہو کر رہنا قبول کر لیا تھا کیونکہ انگریزوں نے ہر مذہب کے لئے مذہبی آزادی اور پرسنل لاء کی اجازت دے دی تھی۔ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی اہلحدیث لکھتے ہیں۔
‘‘علماءِ اسلام کا اسی مسئلہ میں اختلاف ہے کہ ملک ہند میں جب سے حکّام والامقام فرنگ فرمانروا ہیں اُس وقت سے یہ ملک دارالحرب ہے یا دار الاسلام؟ حنفیہ جن سے یہ ملک بھرا ہوا ہے اُن کے عالموں اور مجتہدوں کا تو یہی فتویٰ ہے کہ یہ ملک دار الاسلام ہے۔ اور جب یہ ملک دار الاسلام ہوا تو پھر یہاں جہاد کرنا کیا معنی؟ بلکہ جہاد ایسی جگہ ایک گناہ ہے بڑے گناہوں سے۔ اور جن لوگوں کے نزدیکیہ دار الحرب ہے جیسے بعض علماء دہلی وغیرہ اُن کے نزدیک بھی اس ملک میں رہ کر اور یہاں کے حکّام کی رعایا اور امن و امان میں داخل ہو کر کسی سے جہاد کرنا ہرگز روا نہیں جب تک کہ یہاں سے ہجرت کر کے کسیدوسرے ملک اسلام میں مقیم نہ ہو۔ غرض یہ کہ دار الحرب میں رہ کر جہاد کرنا اگلے پچھلے مسلمانوں میں سے کسی کے نزدیک ہرگز جائز نہیں۔
(ترجمانِ وہابیہ صفحہ۱۵)
حضرتبانیٔ سلسلہ احمدیہؑ سے پہلے حضرت سید احمد بریلوی علیہالرحمۃ مجدد صدی سیزدہم نے یہ سوال ہونے پر کہ آپ دور دراز کا سفر اختیار کر کے سکھوں سے جہاد کرنے چلے گئے ہیں انگریزوں سے جہاد کیوں نہیں کرتے؟ فرمایا۔
‘‘ہمارا اصل کام اشاعتِ توحیدِ الٰہی اور احیائے سنن سید المرسلین ہے۔ سو ہم بلا روک ٹوک اس ملک میں کرتے ہیں پھر ہم سرکار انگریزی پر کس سبب سے جہاد کریں؟’’
(سوانح احمدی صفحہ۱۹۰ ۔از مولوی محمد جعفر تھا نیسری صوفی پرنٹنگ کمپنی بہاء الدین)
مولوی عبد الحی صاحب حنفی اور مولوی احمد رضا صاحب بریلوی حنفی اس زمانہ میں ہندوستان کو دار الاسلام قرار دیتے تھے۔ (دیکھو مجموعہ فتاویٰ عبد الحی لکھنوی جلد۲صفحہ ۲۳۵، مطبوعہ ۱۳۱۱ھ، نصرة الابرار صفحہ۲۹، مطبوعہ مطبع ہمانی لاہور۔ ایچیسن گنج)
مولانا شبلی نعمانی بھی انگریزوں سے جہاد جائز نہیں سمجھتے تھے۔
(دیکھئے مقالات شبلی جلد اوّل صفحہ ۱۷۱ مطبوعہ مطبع معارف اعظم گڑھ)
خواجہ حسن نظامی کا بھییہی مذہب تھا کہ انگریز مذہبی امور میں دخل نہیں دیتے اس لئے لڑائی کرنا اپنے تئیں ہلاکت میں ڈالنا ہے۔
(شیخ سنوسی صفحہ ۱۷)
مولانا حسین احمد مدنی جیسے سیاسی لیڈر تحریر فرماتے ہیں۔
‘‘اگر کسی ملک میں سیاسی اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو، لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدار میں شریکہوں اور ان کے مذہبیو دینی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو تو وہ ملک حضرت شاہ صاحب(شاہ عبد العزیز محدّث دہلوی۔ناقل) کے نزدیک بلاشبہ دارالاسلام ہو گا اوراز روئے شرع مسلمانوں کا فرض ہو گا کہ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لئے ہر نوع کی خیرخواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں۔’’
(نقشِ حیات جلد ۲ صفحہ ۴۱۷، ۴۱۸ ناشر دار الاشاعت کراچی)
آج کل کے سیاسی لیڈر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی امیر جماعت اسلامی رقم طراز ہیں۔
‘‘ہندوستان اُس وقت بلاشبہ دار الحرب تھا جب انگریزی حکومت یہاں اسلامی سلطنت کو مٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اُس وقت مسلمانوں پر فرض تھا کہ یا تو اسلامی سلطنت کی حفاظت میں جانیں لڑاتےیا اس میں ناکام ہونے کے بعد یہاں سے ہجرت کر جاتے۔ لیکن وہ مغلوب ہو گئے اور انگریزی حکومت قائم ہو چکی اور مسلمانوں نے اپنے پرسنل لاء ( مذہبی قوانین۔ ناقل) پر عمل کرنے کی آزادی کے ساتھ یہاں رہنا قبول کر لیا تو اب یہ ملک دار الحرب نہیں رہا۔’’
(سود حاشیہ صفحہ ۲۴۹، طبع اوّل شائع کردہ مکتبہ جماعت اسلامی لاہور)
اُس وقت چاروں مفتیانِ مکہ معظمہ نے بھی ہندوستان کے دار الاسلام ہونے کا فتویٰ دیا تھا۔
(کتاب سید عطاء اللہ شاہ بخاری مؤلفّہ شورش کاشمیری صفحہ۱۳۱)
سر سید احمد خان مرحوم لکھتے ہیں۔
‘‘جبکہ مسلمان ہماری گورنمنٹ کے مستأمن تھے۔ کسی طرح گورنمنٹ کی عملداری میں جہاد نہیں کر سکتے تھے۔’’
شمس العلماء مولوی نذیر احمد دہلوی مرحوم نے فرمایا۔
‘‘ہندووٴں کی عملداری میں مسلمانوں پر طرح طرح کی سختیاں رہیں اور مسلمانوں کی حکومت میں بعض ظالم بادشاہوں نے ہندووٴںکو ستایا۔ الغرض یہ بات خدا کی طرف سے فیصل شدہ ہے کہ سارے ہندوستان کی عافیت اِس بات میں ہے کہ کوئی اجنبی حاکم اُس پر مسلط رہے جو نہ ہندو ہو نہ مسلمان ہی ہو۔ کوئی سلاطینیورپ میں سے ہو۔مگر خدا کی بے انتہاء مہربانی اس کی مقتضی ہوئی کہ انگریز بادشاہ ہوئے۔’’
(مجموعہ لیکچرز مولانا نذیر احمد صفحہ۵۰۴)
غرض حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے دعویٰ سے پہلے تمام علماءِ اسلام یہ فتویٰ دے چکے ہوئے تھے کہ انگریزوںسے جہاد بالسیف ممنوع ہے اور مُفتیانِ مکّہ کا فتویٰ بھییہی تھا اور سیاسی لیڈر بھی اسی میں مصلحت سمجھتے تھے۔
حضرتبانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات کے بعد تک بھی مسلمان انگریزی حکومت کو ایک نعمت خیال کرتے تھے اور ظِلِّ الٰہی جانتے تھے۔ چنانچہ مولانا ظفر علی خان نے اپنے اخبار زمیندار میں لکھا۔
‘‘زمیندار اور اس کے ناظرین گورنمنٹ برطانیہ کو سایہٴخدا سمجھتے ہیں اور اس کی عنایات شاہانہ اور انصاف خسروانہ کو اپنی دلی ارادت اور قلبی عقیدت کا کفیل سمجھتے ہوئے اپنے بادشاہ عالم پناہ کی پیشانی کے ایک قطرہ کی بجائے اپنے جسم کا خون بہانے کے لئے تیار ہے اور یہی حالت ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی ہے۔’’
(زمیندار۹ـنومبر ۱۹۱۱ء)
ہمیںیقین ہے کہ اس وقت مولانا ظفر علی خان کا یہ بیان بالکل سچ تھا منافقانہ نہ تھا۔ انہیں انگریزوں سے مخاصمت بہت بعد میں پیدا ہوئی۔ جارج پنجم کی سلطنت میں انگریزی سلطنت کے متعلق ان کے ایسے ہی خیالات تھے۔
حضرتبانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات ۲۶ـمئی۱۹۰۸ء کو ہوئی۔ چونکہ آپ کو اپنے زمانہ کے علماء اور سیاسی لیڈروں کے انگریزوں سے جہاد کی ممانعت کے متعلق فتاویٰ سے اتفاق تھا اور ان فتاویٰ کی رو سے مسلمانوں کا فرض تھا کہ انگریزوں سے خیر خواہی و خیر اندیشی کا معاملہ کریں۔ اس لئے آپ نے بھی انگریزوں کی تائید و حمایت کی اور انگریزوں کو بھی مسلمانوں سے احسان کا سلوک کرنے کی تلقین فرمائی۔
اس زمانہ میں شیعوں کے مجتہد سید علی الحائری نے بھی حکومت کی انصاف پسندی اور مذہبی آزادی کو بے مثل قرار دیا اور ہر شیعہ کو تلقین کی کہ اُسے اِس احسان کے عوض صمیم قلب سے برٹش حکومت کا رہینِ احسان اور شکر گزار ہونا چاہئے۔ کیونکہ پیغمبرِ اسلام نے نوشیروان عادل کے عہد میں ہونے کا ذکر فخر کے رنگ میں بیان فرمایا ہے۔
(موعظہ تحریف قرآن صفحہ۶۷،۶۸شائع کردہ ینگ مین سوسائیٹی خواجگانِ نارووالی، لاہور)
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے تو یہاں تک لکھا۔
‘‘سلطان(روم) ایک اسلامی بادشاہ ہے۔ لیکن امن عام اور حسن انتظام کینظر سے (مذہب سے قطع نظر) برٹش گورنمنٹ بھی ہم مسلمانوں کے لئے کچھ کم فخر کا موجب نہیں۔ اورخاص کر گروہ اہلحدیث کے لئے تویہسلطنت بلحاظ امن و آزادی اس وقت کی تمام اسلامی سلطنتوں (روم ایران و خراسان) سےبڑھ کر فخر کا محل ہے۔’’
(اشاعۃ السنہ نمبر ۱۰ جلد۶ صفحہ ۲۹۲)
پس مولوی ابو الحسن صاحب کا حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ پر انگریزوں سے جہاد کی ممانعت کو بصورتِ اعتراض پیش کرنا درست نہیں۔ کیونکہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں علماء اسلام کو آپ کے اس طریق پر کہ انگریزوں کی خیرخواہی اور حمایت کی جائے اور ان سے جہاد نہ کیا جائے کوئی اعتراض نہ تھا۔
انگریزوں کا پنجاب کے مسلمانوں کو سکھوں کے مظالم سے نجات دلانا
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے انگریزوں کی تعریف اس لئے بھی کی ہے کہ انہوں نے پنجاب کے مسلمانوں کو سکھوں کے مظالم سے آزادی دلائی۔ حقیقتیہ ہے کہ سکھوں نے پنجاب سے مغلیہ سلطنت کو ختم کر کے مسلمانوں کو نہ صرف غلام بنا رکھا تھا بلکہ ان کی ثقافت اور تمدن کو بھی تباہ کر دیا تھا۔ مسلمان جو صنعت و حرفت پر قابض ہونے کی وجہ سے خوشحال تھے انہیں اقتصادی طور پر تباہ کر دیا تھا اور مسلمان جاگیرداروں کی جاگیریں چھین لی تھیں جن میں خود حضرت مرزا صاحب کا خاندان بھی شامل تھا۔ سکھوں کے عہد میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی بھی حاصل نہ تھی۔ کسی مسلمان کو مسجد میں اذان دینے کی اجازت نہ تھی۔ مسلمانوں کی مساجد اصطبلوں میں تبدیل کر دی گئی تھیں، مدرسے اور اوقاف ویران ہو گئے تھے۔ قومی عصمت بھی سکھوں کے رحم و کرم پر تھی۔مسلمان بیٹیوں کی زبردستی آبروریزی کرنا سکھ معاشرے میں قابلِ فخر کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔
آج بھی شاہی مسجد کے پہلو میں رنجیت سنگھ کی مڑھی کا اضافہ سکھوں کی ذہنیت کا ایک تاریخی ثبوت ہے۔ مسلمان اس وقت گویا جلتے تنور میں تھے۔ جب انگریز نے ۱۸۵۳ء میں پنجاب میں سکھوں کو شکست دی تو انگریز نے مسلمانوں سے حکومت نہیں چھینی تھی بلکہ مسلمانوں کی دشمن سکھ قوم سے حکومت چھینی تھی اور مسلمانوں کو محمڈن پرسنل لاء دے کر مذہبی آزادی سے نوازا تھا۔ ملک میں طوائف الملوکی اور لاقانونیت کی جگہ ایک مضبوط عادلانہ حکومت قائم کر دی۔ اوقاف اور مذہبی ادارے پھر سے زندہ ہونے لگے۔ مذہبی تعلیم پر سے ناروا پابندیاں اٹھالی گئیں۔ بدیں وجہ پنجاب کے مسلمان جو ایک عرصہ سے سکھوں کے ظلم و ستم کا تختۂمشق بنے چلے آرہے تھے۔ اب انہوں نے انگریز کی سلطنت میں سُکھ کا سانس لیا اور انگریزی حکومت کو ایک نعمت سمجھا۔ ان حالات میں اگر مرزا صاحب انگریز کی مخالفت کرتے تو یہ امر سکھ مظالم کی تائید و حمایت کے مترادف ہوتا۔
پس مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کو انگریزی حکومت کی شکر گزاری اور ان کی حمایت اور خیر اندیشی کے مواعظ اس پس منظر اور تاریخی حقیقت کی روشنی میں مطالعہ کرنا چاہئے تھا۔
حضرتبانیٔ سلسلہ احمدیہ کی سیاست دانی
یہ بیان کرنا بھی از بس ضروری ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ جانتے تھے کہ ہندو اکثریت آٹھ سو سال تک مسلمانوں کے ماتحت رہنے کے بعد اب بیدار ہو رہی ہے اور مسلمان زوال کے اس دور میں داخل ہے جس میں ہر فاتح قوم اقتدار چھن جانے پر مبتلا ہو جاتی ہے۔ بعد کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف ایک انتقام کی آگ سلگ رہی تھی۔ اگر اس وقت انگریز ہندوستان کو آزاد کر دیتا تو اس کا نتیجہیہ ہوتا کہ ملک میں ہندوؤں کی ایک متعصب حکومت قائم ہوتی جو مسلمانوں کو ان کے آٹھ سو سالہ دور حکومت کا بدلہ لینے کے لئے اپنے انتقام کا نشانہ بناتی اور وہ حکومت آج کے بھارت کی نام نہاد سیکولر حکومت سے کہیں زیادہ خطرناک حکومت ثابت ہوتی۔ گزشتہ ۲۴ سال سے بھارت میں مسلمانوں سے جو سلوک ہو رہا ہے وہ ابو الحسن صاحب ندوی کی نگاہ سے مخفی نہیں ہونا چاہئے۔ پھر بھارت کی سیکولر حکومت پاکستان پر ۱۹۶۵ء میں چوروں کی طرح جارحانہ حملہ بھی کر چکی ہے اور اب نام نہاد بنگلہ دیش کے ڈھونگ کو جاری رکھ کر جارحانہ اقدام کر چکی ہے۔ پس اگر حضرت مرزا صاحب کے زمانہ میں انگریز ہندوستان کو چھوڑ جاتا تو مسلمانوں کا صرف آقا تبدیل ہوتا۔ انگریز جاتا تو اس سے بدترین صورت کا دشمن آقا ہندو آجاتا۔ اس لئے بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے وقت کا ہر درد مند مسلمانخوفزدہ تھا کہ اگر ایسے حالات میں انگریزوں نے ہندوستان چھوڑا تو یہ امر مسلمان کے حق میں بُرا ثابت ہوگا۔ ہندووں کی جس متعصبانہ ذہنیت نے قائد اعظم کو کانگریس سے علیحدہ ہونے پر مجبور کیا تھا اسی ہندو ذہنیت کا واضح تصوّر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کو بھی تھا اور اس دور کے مسلمان عمائدین کو بھی۔
پاکستان بنانے میں امام جماعت احمدیہ کا کردار
پاکستان کا تصوّر تو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات کے بعد کی پیداوار ہے۔ ہاں جب پاکستان کا واضح تصور پیش ہوا تو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تعلیم کی روشنی میں ہی جماعت احمدیہ نے ہر ممکن آئینی طریق سے مسلمانوں کے اس مطالبہ کی تائیدکی اور پاکستان کے قیام میں ایسی جدو جہد کی کہ اگر امام جماعت احمدیہ وہ جدو جہد نہ کرتے تو پاکستان کا وجود معرضِ خطر میں پڑ چکا تھا۔ تفصیل اس اجمال کییہ ہے کہ انگریز اور ہندو دونوں چاہتے تھے کہ پاکستان نہ بنے اور انگریز اختیارات ہندو کو دے کر ہندوستان چھوڑ جائیں۔ قائد اعظم کانگریس سے الگ ہو کر مسلم لیگ بنا چکے تھے۔ جو اس کوشش میں تھی کہ ہندوستان کے مسلم اکثریت والے علاقوں میں علیحدہ آزاد سلطنت بنا دی جائے۔ ہندو کسی طرح اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ ہندو مسلمانوں میں مفاہمت کے لئے وزارتی مشن ولایت سے آیا مگر مفاہمت میں ناکام رہ کر اس نے وائسرائے کو سفارش کی کہ عبوری حکومت بنا دی جائے۔ اس مشن کی سفارش پر وائسرائے نے کانگریسی ہندوؤں میں سے اکثر کو اور مسلم لیگی عمائدین میں سے بعض کو عبوری حکومت بنانے کی دعوت دی۔ لیکن کانگریس نے اسمبلی میں شامل ہونا تو منظور کر لیا لیکن عبوری حکومت کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس موقع پر انگریز کو چاہئے تو یہ تھا کہ وعدہ کے مطابق اب عنانِ حکومت مسلم لیگ کے سپرد کر دیتا۔ لیکن اس نے چالاکی سے پنڈت جواہر لال نہرو کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ اس پر بطور پروٹسٹ قائد اعظم نے اس کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس وقت حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور راہنمائی کے بعد محسوس کیا کہ اگر مسلم لیگ کی طرف سے بائیکاٹ جاری رہا تو پاکستان معرض وجود میں نہیں آسکتا بلکہ انگریز ہندو کو حکومت دے کر چلا جائے گا۔ لہذا آپ دہلی تشریف لے گئے اور مسلمان لیڈروں اور قائد اعظم کو آمادہ کیا کہ وہ عبوری حکومت میں شامل ہوں ورنہ پاکستان نہیں بن سکے گا۔ قائد اعظم اور مسلمان لیڈروں کو اس خطرے کا پورا احساس ہو گیا۔ مگر ان کے لئے یہ دشواری حائل تھی کہ عبوری حکومت کا بائیکاٹ کرنے کے بعد اُن کا از خود اس میں شامل ہونا وقار کے خلاف تھا۔ اس پر حضرت امام جماعت احمدیہ کی کوشش سے وائسرائے سے اعلان کرایا گیا کہ مسلم لیگ کے لئے عبوری حکومت میں شامل ہونے کا اب بھی موقع ہے۔ چنانچہ اس اعلان پر فوراً مسلم لیگ عبوری حکومت میں شامل ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کی راہنمائی ، فضل و کرم اور حضر ت امام جماعت احمدیہ کی بروقت کوشش سے پاکستان کی حکومت معرض وجود میں آگئی۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ
کوئی دیانتدار اور نیک نیّت مؤرخ جماعت احمدیہ کی اس جدوجہد سے انکار نہیں کر سکتا جو اس نے پاکستان کی حمایت میں کی ۔ پس پاکستان بنانے کے لئے اُس وقت مسلمانوں کو جو جہاد در پیش تھا اُس میں حضرت امام جماعت احمدیہ نے ایک سچے مسلمان کی طرح نہایت مؤثر کردار ادا کیاہے۔
مولوی محمد حسین بٹالوی کی دو رُخی
آپ معلوم کر چکے ہیں کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بڑی شدت کے ساتھ اپنے رسالہ اشاعۃالسنہ میں انگریزی حکومت کی امن و آزادی کی ایسی تعریف کی تھی کہ وہ اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر سمجھتے تھے۔ (اشاعۃ السنہ جلد۱۰ نمبر۶ صفحہ۲۹۳) اور اسی رسالہ میںیہ بھی لکھا تھا کہ ”برٹش گورنمنٹ بھی ہم مسلمانوں کے لئے کچھ کم فخر کا موجب نہیں“ اسی قسم کے خیالات کا اظہار حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کرتے رہے جن کو آج محلِّ اعتراض قرار دیا جاتا ہے۔ مولوی محمد حسین صاحب کی دو رُخی ملاحظہ ہو کہ انہوں نےیہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ بھی انگریزی سلطنت کے حامی ہیں خود تو انگریزی حکومت کی تعریف کی اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے خلاف مخبری کر کے انگریزی حکومت کو آپ کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی۔ چنانچہ لکھا۔
‘‘اس (مرزا غلام احمد) کے دھوکے پر یہ دلیل ہے کہ دل سے وہ گورنمنٹ غیر مذہب کی جان مارنے اور اس کا مال لوٹنے کو حلال و مباح جانتا ہے…… لہذا گورنمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس سے پُر حذر رہنا ضروری ہے ورنہ اس مہدی قادیانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی سے نہیں پہنچا۔’’
(اشاعۃ السنہ جلد۲ نمبر۶ صفحہ ۱۶۸حاشیہ۱۸۹۳ء)
اس قسم کیجھوٹیمخبری سے مولوی محمد حسین صاحب نے کئی مربعے زمین گورنمنٹ سے حاصل کر لی اور گورنمنٹ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کو مشتبہ نظروں سے دیکھنے لگی اور اُس نے قادیان میں نگران مقرر کر دئیے جو ہر آنے جانے والے سے پوچھ گچھ کرتے تھے حالانکہ آپ سچے دل سے گورنمنٹ کے وفادار تھے۔
اب مولوی محمد حسین بٹالوی وغیرہ کی قسم کے ایسے مخالفانہ پراپیگنڈہ کااثر زائل کرنا آپ کے لئے از بس ضروری ہو گیا تا تبلیغ اسلام کے کام میں جس کا بیڑا آپ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے اٹھایا تھا کوئی روک پیدا نہ ہو جائے۔ کیونکہیہ کام آپ کو دل و جان سے زیادہ عزیز تھا۔ اس پراپیگنڈہ کے اثر کو زائل کرنے کے لئے آپ کے لئے اپنی جماعت کی وفاداری اور اپنے خاندان کی پرانی وفاداری کا ذکر گورنمنٹ کے کانوں تک پہنچانا ضروری ہو گیا۔ چنانچہ آپ نے لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کو لکھا۔
‘‘یہ التماس ہے کہ سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جاں نثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معز زحکّام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکّے خیر خواہ اور خدمتگزار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودہ کی نسبت (قدیم خاندان کو خود کاشتہ کہا ہے نہ کہ جماعت کو ۔ ناقل) نہایت حزم و احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے۔ اور اپنے ماتحت حکّام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔’’
(تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ ۱۹۔مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۱۹۸)
اس عبارت میں نہ تو جماعت کو انگریزوں کی خود کاشتہ کہا ہے نہ کسی خوشامد و چاپلوسی سے کام لیا گیا ہے بلکہ اس حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے کہ آپ کا خاندان شروع سے وفادار رہا ہے لہذا گورنمنٹ کو آپؑ اور آپؑ کی جماعت کے متعلق کسی شبہ میں نہیں پڑنا چاہئے۔ بلکہ عنایت و مہربانی کی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ کیونکہ آپ خود بھی وفادار ہیں اور آپ کا خاندان بھی وفادار رہا ہے اور آپ کی جماعت بھی وفادار ہے۔
مندرجہ بالا اقتباس ندوی صاحب نے ‘‘خود کاشتہ پودا’’ کے عنوان سے درج کیا ہے۔ جب ان کو اس میںیہ بات نہ ملی کہ جماعت کو انگریزوں کی خود کاشتہ قرار دیا گیا ہے تو انہوں نے لکھا۔
‘‘کسی درخواست میں اپنے اور اپنی جماعت کے لئے سرکارِ انگریزی کی نمک پروردہ نیک نامی حاصل کردہ اورموردِ مراحمِ گورنمنٹ کے الفاظ آئے ہیں۔’’
ابو الحسن صاحب کی اس بات نے واضح کر دیا ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سارا بیان نہیں پڑھا اور کہیں سے معترضین کا پیش کر دہ ادھورا حوالہ لے لیا ہے۔
مندرجہ بالاجن فقرات کو خود کاشتہ والی عبارت پیش کرنے کے بعد انہوں نے کسی درخواست کی طرف منسوب کیا ہے حقیقت میں وہ عبارت بھی چوبیس فروری والی درخواست کی ہی ہے۔ اس میں آپ لکھتے ہیں۔
‘‘غرضیہ ایسی جماعت ہے جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ نیک نامی حاصل کردہ اور موردِ مراحم گورنمنٹ ہے یا وہ لوگ جو میرے اقارب و خدام میں سے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد علماء کی ہے جنہوں نے میری اتباع میں اپنے وعظوں سے ہزاروں دلوں میں گورنمنٹ کے احسانات جما دیئے۔’’
اس عبارت سے بھی اسی غلط پراپیگنڈہ کا ازالہ مقصود ہے کہ مرزا صاحب باغی ہیں۔ وہ مہدی سوڈانی سے بھی خطرناک ثابت ہوں گے۔ لہذا آپ کے لئے اپنی جماعت اور اقارب نیز اپنے متبعین علماء کے متعلق بھی مولوی محمد حسین کی مخبری کے غلط اثر کو دور کرنے کی ضرورت تھی۔ سوجماعت کو نمک پروردہ آپ نے اس لئے کہا کہ یہ جماعت انگریزی عہد میں پنپی ہے اور حکومت کی مذہبی آزادی سے فائدہ اٹھا کر وجود پذیر ہوئی ہے۔ ورنہ گورنمنٹ نے جماعت احمدیہ سے کوئی الگ سلوک نہیں کیا تھا جو دوسروں سے نہ کیا ہو۔ لیکن گورنمنٹ کے جماعت کو آزادی سے پنپنے دینے کے فعل کو اس کا نمک پروردہ ہونا اور مورد مرحمت ہونا بیان کیا ہے۔
جماعت کو نیک نامی حاصل کردہ اس لئے قرار دی گیا ہے کہ جماعت میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو سرکار انگریزی میں نیک نامی سے خدمت کر رہے تھے۔
عجیب بات ہے کہ آج مولوی ندوی صاحب کو یہ نظر آرہا ہے کہ انگریزی حکومت کی وفاداری ، اخلاص اور خدمت کا جذبہ قادیانی سیرت و اخلاق کا جُز بن گیا ۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میںیہ جذبہ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کے سب بزرگوں میں کارفرما تھا۔
جاسوسی کا الزام
مولوی ابو الحسن صاحب نے انگریزی حکومت کے رضاکار اور جاسوس کا عنوان دے کر کابل میں شہید کئے جانے والے احمدیوں کو انگریزوں کے جاسوس قرار دیا ہے اور دلیل اس کییہ دی ہے کہ مُلّا عبد الحلیم اور مُلّا نور علی قادیانی کے پاس سے ایسی دستاویزیںاور خطوط برآمد ہوئے ہیں جن سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ افغان حکومت کے غدّار اور انگریزی حکومت کے ایجنٹ اور جاسوس ہیں۔ افغان حکومت کے وزیر داخلہ کے اعلان کو پیش کیا ہے کہ۔
‘‘مملکت افغانیہ کے مصالح کے خلاف غیر ملکی لوگوں کے سازشی خطوط ان کے قبضے سے پائے گئے تھے۔ جن سے پایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے دشمنوں کے ہاتھوں بِک چکے تھے۔’’
یہ بیان صرف مظلوموں کے بے گناہ خون سے ہاتھ رنگنے کا جو از ثابت کرنے کے لئے شائع کیا گیا تھا۔ تابین الاقوامی دنیا میں حکومتِ افغانستان کو حقارت اور نفرت سے نہ دیکھا جائے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ حکومتِ افغانستان نے ان دستاویزات کو بعدمیں شائع نہ کیا۔حالانکہ اس دوران میں اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ اس واقعہ کی تفصیل مزید تفتیش کے بعد شائع کی جائے گی۔ اس اعلان کے مطابق حکومت افغانستان کا فرض تھا کہ تحقیق کے بعد وہ نتائج شائع کرتی مگر حکومتِ افغانستان نے مظلوموں کو تو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا مگر ان غیر ملکی خطوط کی کوئی تفصیل نہ دی تا حکومت کے اپنے جرم پر پردہ پڑا رہے۔ مگر مظلوم کی آہ خالی نہیں جاتی۔ لہذا یہ دونوں اصحاب جو بے گناہ شہید کئے گئے محض مذہبی تعصب کی بناء پر ان پرظلم روا رکھا گیا ان کی آہیں بے اثر نہیں گئیں۔ یہ آہیں آسمان تک پہنچیں اور اس کے بعد امیر امان اللہ خان کی حکومت خدا کے غضب کی مورد بنی۔ اس طرح کہ ایک معمولی سپاہی بچہ سقّہ کے ہاتھوں جس نے تین سو افراد کا جتھہ لے کر بغاوت کر دی۔ امان اللہ خان کی منظّم سلطنت کو شکست کھانا پڑی اور وہ اپنے بھائی امیر عنایت اللہ خان کے حق میں حکومت سے دستبردار ہو کہ ملک چھوڑ گئے۔ پھر امیر عنایت اللہ خان کو بھی چند گھنٹوں کے بعد دستبردارہونا اور ملک چھوڑنا پڑا۔ اس طرح اس حکمران خاندان کے ہاتھ سے اقتدار نکل گیا۔
اس کے بعد امیر امان اللہ خان نے ہوٹل جاری کر کے گویا بھٹ جھونک کر اپنی زندگی کے ایّام گزارے۔ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَار
درشت کلامی اور دشنام طرازی کے الزامات
باب سوم کی فصل سوم میں مولوی ابو الحسن صاحب لکھتے ہیں۔
‘‘انبیاءعلیھم السلام اور ان کے متبعین کے متعلق یقین اور تواتر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت شیریں کلام، پاکیزہ زبان،صابر و متحمل، عالی ظرف، فراخ حوصلہ اور دشمن نواز ہوتے ہیں۔ وہ دشنام کا جواب سلام سے، بددعا کا جواب دعا سے، تکبر کا جواب فروتنی سے اور رذالت کا جواب شرافت سے دیتے ہیں۔
ان کی زبان کبھی کسی کے دشنام اور کسی فحش کلام سے آلودہ نہیں ہوتی۔ طنز و تعریض ، تفضیح و تضحیک، ہجوِ ملیح،ضلع، جگت وغیرہ سے ان کی فطرت عالی کو کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ وہ اگر کسی کی تردیدیا مذمّت کرتے ہیں تو سادہ اور واضح الفاظ میں وہ کسی کے نسب پر حملہ کرنے اس کے خاندان یا آباوٴ اجداد پر الزام لگانے اور درباری شاعروں اور لطیفہ گویوں کی طرح چٹکی لینے اور فقرہ چُست کرنے کے فن سے ناآشنا ہوتے ہیں۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۴۳)
پھر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے متعلق لکھتے ہیں۔
‘‘اس کے بالکل بر عکس مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے مخالفین کو (جن میں جلیل القدر علماء اور عظیم المرتبت مشائخ تھے) ان الفاظ سے یاد کیا ہے اور ان کی ان الفاظ میں ہجو کی اور خاک اڑائی ہے کہ بار بار تہذیب کی نگاہیں نیچی اور حیا کی پیشانی عرق آلود ہو جاتی ہے۔ ان مخالفین کے لئے ذریۃ البغایا (بدکار عورتوں کی اولاد) کا کلمہ تو مرزا صاحب کا تکیہ کلام ہے اور ان کی اس ہجو کے زیادہ تیز اور شوخ نمونے عربی نظم و نثر میں ہیں۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۴۵)
آگے دو نمونے پیش کئے ہیں۔
‘‘اگریہ گالی دیتے ہیں تو میں نے ان کے کپڑے اتار لئے ہیں اور ایسا مردار بنا کر چھوڑ دیا جو پہچانا نہیں جاتا۔
دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کُتیوں سے بڑھ گئیں۔’’
اس کے بعد مولوی ندوی صاحب نے بعض علماء کا نام لے کر لکھا ہے کہ مرزا صاحب نے ان کے متعلق ذئاب و کلاب، شیطان لعیم، شیطان اعمیٰ، عول ، اغوی، شقی و ملعون کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔
الجواب
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے مخالفین کی بدکلامی کو اکثر صبر سے برداشت کرتے رہے ہیں۔ آپ کو معاندین کی طرف سے صدہا خطوط غلیظ اور گندی گالیوں سے پُر موصول ہوتے تھے لیکن آپ ہمیشہ ان پر صبر کرتے تھے۔آپ نے کسی کی بدکلامی کا نوٹس اس وقت لیا ہے جب کہ یہ بدکلامی انتہاء کو پہنچ گئی۔ ایسے موقعہ پر آپ نے جوابی طور پر کسی قدر سخت کلامی سے کام حسب آیتجَزَآءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ضرور لیا ہے۔ کیونکہ مظلوم کی طرف سے سخت کلامی سےکام حسب آیت جَزَآءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا(الشورٰى:۴۱) ضرور لیا ہے کیونکہ مظلوم کی طرف سے سخت کلامی خدا تعالیٰ کو پسند نہیں۔ وہ فرماتا ہےلَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ (النساء:۱۴۹)یعنی خدا مظلوم کے سوا اور کسی سے اعلانیہ سخت کلامی کو پسند نہیں کرتا۔ پس حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا انتہائی مظلومانہ حالت میں اپنے دشمنوں کو کسی قدر سخت کلامی سے جواب دیناہرگز قابل اعتراض امر نہیں۔
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی طرف سے سخت کلامی کی وجوہ
خود حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑاپنی طرف سے بعض لوگوں کے متعلق کسی قدرسخت کلامی کی وجوہ یوں بیان فرماتے ہیں۔
‘‘مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی استعمال میں آئی تھی لیکن وہ ابتدائی طور پر سختی نہیں ہے۔ بلکہ وہ تمام تحریریںنہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں۔ مخالفوں کے الفاظ ایسے سخت اور دشنام دہی کے رنگ میں تھے جن کے مقابل پرکسی قدر سختی مصلحت تھی۔ اِس کا ثبوت اُس مقابلہ سے ہوتا ہے جو میں نے اپنی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کےسخت الفاظ اکٹھے کر کے کتاب مثل مقدمہ مطبوعہ کے ساتھ شامل کئے ہیں جس کا نام میں نے ‘‘کتاب البریّت’’ رکھا ہے اور باایں ہمہ میں نے ابھیبیان کیا ہے کہ میرے سخت الفاظ، جوابی طور پر ہیں۔ ابتدا سختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے۔ اور میں مخالفوں کے سخت الفاظ پر بھی صبر کر سکتا تھا۔ لیکن دو مصلحت کے سبب سے میں نے جواب دینا مناسب سمجھا تھا۔
اوّلیہ کہ تا کہ مخالف لوگ اپنے سخت الفاظ کا سختی میں جواب پا کر اپنی روش بدلا لیں اور آئندہ تہذیب سے گفتگو کریں۔
دومیہ کہ تامخالفوں کی نہایت ہتک آمیز اور غصہ دلانے والی تحریروں سے عام مسلمان جوش میں نہ آویں اور سخت الفاظ کے جواب بھی کسی قدر سخت پا کر اپنی پُر جوش طبیعتوں کو اس طرح سمجھا لیں کہ اگر اُس طرف سے سخت الفاظ استعمال ہوئے تو ہماری طرف سے بھی کسی قدر سختی کے ساتھ اُن کو جواب مل گیا ہے۔’’
(کتاب البریّہ، روحانی خزائن جلد۱۳صفحہ ۱۰،۱۱)
علماء کے بانیٔسلسلہ احمدیہ کے خلاف سخت الفاظ
مولوی ابو الحسن صاحب نے علماء کے متعلق حضرت مرزا صاحب کے بعض سخت الفاظ استعمال نقل کئے ہیں وہ ذرا اپنے علماء کے کلام کا نمونہ حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ کے خلاف ملاحظہ کر لیں۔ ان کے نمونہ کو ملاحظہ کر لینے کے بعد امید ہے کہ ایسے لوگوں سے جواب میں سختی کرنے میں مولوی ابو الحسن صاحب ندوی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کو معذور جاننے کے سوا چارہ نہیں پائیں گے۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی سخت کلامی کا نمونہ
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی مخالفت میں بدزبانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘اسلام کا چھپا دشمن، مسیلمہ ثانی، دجّال زمانی، نجومی، رملی، جوتشی، اٹکل باز، جفری، بھنگر، پھکڑ، ارڑپوپو……مکار، جھوٹا، فریبی، معلون، شوخ،گستاخ، مثیل الدجّال، اعور، دجّال غدار، پُر فتنہ و مکّار، کاذب، کذّاب، ذلیل و خوار،مردود، بے ایمان، رُوسیاہ، مثیل مسیلمہ و اسود، رہبرِ ملاحدہ، عبد الدراہم والدنانیر، تمغاتِ لعنت کا مستحق، موردِ ہزار لعنتِ خدا و فرشتگان و مسلمانان، کذّاب، ظلّام، افّاک، مفتری علی اللہ جس کا الہام احتلام ہے، پکّا کاذب، ملعون کافر، فریبی، حیلہ ساز، اکذب، بے ایمان، بے حیا، دھوکہ باز، حیلہ باز، بھنگیوں اور بازاری شہدوں کا سرگروہ، دہریہ، جہاں کے احمقوں سے زیادہ احمق، جس کا خدامعلّم الملکوت(شیطان)، محرّف، یہودی، عیسائیوں کا بھائی، خسارت مآب، ڈاکو، خونریز، بے شرم، بے ایمان، مکّار، طرار جس کا مرشد شیطان علیہاللعنۃ، بازاری شہدوں کا ہراول، بہائم اور وحشیوں کی سیرت اختیار کرنے والا، مکرچال، فریب کی چال والا۔ جس کی جماعت بدمعاش، بدکردار، جھوٹ بولنے والی، زانی، شرابی، مالِ مردم خور، دغاباز، مسلمانوں کو دام میں لا کر اُن کا مال لوٹ کھانے والا۔ ایسے سوال و جواب میںیہ کہنا……حرام زادگی کی نشانی ہے۔ اس کے پیرو خوانِ بے تمیز۔’’
مولوی نذیر حسین دہلوی کی دشنام طرازی
‘‘اس کو تیس دجّالوں میں سے جن کی خبر حدیث میں وارد ہے ایک دجّال کہہ سکتے ہیں۔ اس کے پیرو ہم مشرب ذرّیاتِ دجّال، خدا پر افترا باندھنے والا۔ اس کی تأویلات الحاد و تحریف کذب و افتراء سے کام لینے والا ۔ دجال بے علم ، نا فہم، اہلِ بدعت و ضلالت۔’’
مولوی عبد الجبّار غزنوی کی دشنام طرازی
آپ کو دجّال، کذّاب کہنے کے بعد لکھا ہے۔
‘‘اس کے چوزے (اتباع) ہنود و نصاریٰکے مخنث ہیں۔’’
(فتویٰ صفحہ۲۰۰)
عبد الصمد بن عبد اللہ غزنوی کی دشنام طرازی
‘‘کجرو، پلید، فاسد ہے اور رائے کھوٹی گمراہ ہے۔ لوگوں کو گمراہ کرنے والا، چھپا مرتد، بلکہ وہ اپنے شیطان سے زیادہ گمراہ جو اس کے ساتھ کھیل رہاہے۔’’
(فتویٰ صفحہ ۲۰۲)
عبد الحق غزنوی کی دشنام
‘‘اشتہارضرب النعال علی وجہ الدّجّال: دجّال، ملحد، کاذب، روسیاہ، شیطان، لعنتی، بے ایمان، ذلیل، خوار، خستہ خراب، کافر، شقی سرمدی ہے۔لعنت کا طوق اس کے گلے کا ہار ہے۔ لعن و طعن کا جوت اس کے سر پر پڑا۔ وغیرہ’’
مولوی سعد اللہ نو مسلم کی دشنام
‘‘قادیانی رافضی، بے پیر، دجّال، یزید، اس کے مریدیزیدی خانہ خراب، فتنہ گر، ظالم، سیاہ کار، روسیاہ، بے شرم، احمق، کاذب، خارجی، بھانڈ، یاوہ گو، غبی، بدمعاش، لالچی، جھوٹا، کافر، مفتری، ملحد، دجّال حمار، بُزِ اَخْفَش، بکواسی، بد تہذیب اور دون ہے۔ وغیرہ’’
ہم نے اس جگہ بعض علماء کے دشنام طرازی کے نمونے پیش کئے ہیں جو مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کے نزدیک متبعینِ رسولؐ ہیں۔ ایسے گندہ دہن علماء کے جواب میں کسی قدر سختی تا کہ وہ اپنی روش کو بدلیں ان کی اصلاح کے پیش نظر ضروری تھی۔
سخت الفاظ کا استعمال از روئے قرآن مجید بھی بعض حالات میں نہ صرف جائز ہے بلکہ خود خدا تعالیٰ نے بھی معاندین اسلام، مشرکین اور یہود کے متعلق قرآن مجید میں سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔چنانچہ فرمایا۔إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوْا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِيْنَ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِيْنَ فِيْهَا أُولٰٓئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ(البيّنة:۷)یعنی جن لوگوں نے اہل کتاب اور مشرکین میں سے انکار کر دیا ہے۔ وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ یہ لوگ تمام مخلوق میں سے بدتر ہیں۔ اس آیت میں مشرکین اور یہود کو جنہوں نے اسلام کا انکار کیا۔ جہنمی اور تمام مخلوقات میںسے کتوں، خنزیروں، سانپوں، اور بچھووٴں وغیرہ سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے۔ پھر حاملینِ تورات کو یعنییہود اور ان کے علماء کو مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا(الجمعة:۶)میں گدھوں کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح یہود کے متعلق قرآن کریم میںوارد ہے جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيْرَ(المآئدۃ:۶۱)کہ خدا نے ان میں سے بعض کو بندر اور سوٴر بنا دیا ہے۔ اب جو یہودی اور مشرکین اپنے متعلق یہ کلمات سنتے تھے وہ ان سے خوش تو نہیں ہوتے تھے۔مگر خدا تعالیٰ نے یہ جانتے ہوئے کہ ان الفاظ سے وہ خوش نہیں ہوں گے پھر بھی ایسے الفاظ ان کے حق میں استعمال فرمائے۔ بلکہ یہ بھی کہا ہے عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَآئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ (البقرة:۱۶۲) کہ ان پر اللہ ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔
پس جوابی طور پر دشمنوں کے متعلق سخت الفاظ کا استعمال قرآن مجید میں جب ہوا تو اسے ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے قریش کے بعض لوگوں پر ایک ماہ مسلسل لعنت پڑنے کی دعا بھی کی۔(ملاحظہ ہو صحیح بخاریکتاب الوتر باب القنوت قبل الرکوع و بعدہ)
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو جو شاعر تھے خود ہدایت فرمائیاُھْجُھُمْ وَ جِبْرِیْلُ مَعَکَکہ قریش کی شعروں میں ہجو کرو جبریل تمہارے ساتھ ہے۔ یعنی تمہیں جبریل کی تائید حاصل ہوگی۔
نیز ہدایت فرمائی:۔
‘‘شَنِّ الْغارَةَ عَلٰی عَبْدِ مَنَافٍ فَوَ اللّٰہِ لَشِعْرُکَ اَشَدُّ عَلَیْھِمْ مِنْ وَقْعِ الْحُسَامِ فِیْ غَبْشِ الظَّلَامِ۔’’
(ادب العربی وتاریخہ الجزء الاوّل صفحہ ۱۲۴)
ترجمہ۔ بنی عبد مناف پر شعر میں جارحانہ حملہ کرو۔ خداکی قسم تیراشعر ان پر تاریکی میں تلوار پڑنے سے بھی زیادہ سخت ہے ۔یہبھی واضح رہے کہ حضرت حسّان کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں منبر رکھوا دیتے اور ان کا کلام دشمنوں کی ہجو پر مشتمل سنا جاتا تھا۔
چنانچہ اسی جگہ ادب العربی و تاریخہ میں لکھا ہے۔
‘‘وَکَانَ یُنْصَبُ لَہُ مِنْبَرًا فِی المَسْجِدِ وَ یُسْمَعُھَجَائُہٗ لِاَعْدَائِہٖ۔’’
پس جوابی طور پر سخت کلامی جو ہجو وغیرہ پر مشتمل ہو مزاجِنبوّت کے بھی خلاف نہیں۔ لہذا مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا طعن ردّ ہوا۔
ماسوا اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے متبعین کے طرز عمل سے بھی ثابت ہے کہ انہیں بعض اوقات اعدائے اسلام کے لئے سخت الفاظ استعمال کرنا پڑے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جنہیں افضل اُمّت قرار دیا گیاہے ایک دشمن اسلام کو کہا کہ‘‘ اُمْصُصْ بِبَظَرِ اللَّاتِ’’۔ کہ لات بُت کی جائے مخصوص چُوس۔(ملاحظہ ہو صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجھاد والمصالحۃ)
حضرت امام ابو حنیفہ علیہالرحمۃ نے جن کے ماننے والوں کی پاکستان اور ہندوستان میں کثرت ہے حضرت اُمّ المؤمنین عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانے والوں کے متعلق کہا ہے۔
‘‘مَنْ شَہِدَ عَلَیْھَا بِالزِّنَاءِ فَھُوَ وُلَدُ الزَّنَاءِ’’
(الوصیّت صفحہ ۳۹ مطبوعہ حیدرآباد دکن)
یعنی جو شخص حضرت عائشہؓ پر زنا کی تہمت لگائے وہ ولد الزناء ہے۔
پھر شیعوں کے امام جعفر صادق ؓ فرماتے ہیں۔
‘‘فَمَنْ اَحَبَّنَا کَانَ نُطْفَةُ العَبْدِ وَمَنْ اَبْغَضَنَا کَانَ نُطْفَةُالشَیْطَانِ۔’’
(فروع کافی جلد۲ صفحہ ۲۱۶ کتاب النکاح مطبوعہ نولکشور)
یعنی جو شخص ہم سے محبت رکھتا ہے وہ بندے کا نطفہ ہے مگر جو ہم سے بغض رکھتا ہے وہ نطفہٴ شیطان ہے۔
پس حضرت امام ابو حنیفہ اور امام جعفر صادق کے الفاظ اظہار ناراضگی کے لئے ہیں حقیقت میں ان الفاظ کے لُغوی معنوں میں اُن لوگوں کے حسب پر طعن مقصود نہیں۔ پس ایسے الفاظ مجاز کے طور پر استعمال ہوئے ہیں نہ کہ حقیقت کے طور پر۔
مولوی ابو الحسن صاحب کاافتراء
مولوی ابو الحسن صاحب نے حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ پر یہ افتراء بھی کیا ہے کہ مخالفین کے لئے ذُرِّیَّۃُالْبَغَایَاکے الفاظ آپ کا تکیۂ کلام ہیں۔ اس جگہ مولوی ابو الحسن صاحب نےذُرِّیَّۃُالْبَغَایَاکا ترجمہ بدکار عورتوں کی اولاد کیا ہے۔ مولوی ندوی صاحب کے اس الزام کو ہم افتراء کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں جب کہ ذُرِّیَّۃُالْبَغَایَاکے الفاظ آپ نے صرف ایک دفعہ اور وہ بھی دشمنانِ اسلام کے حق میں استعمال کئے ہیں۔ جن کے دلوں پر آگے لکھتے ہیں اللہ نے مہر لگا دی ہے۔ پھر یہ الفاظ آپ نے مسلمانوں کے حق میں استعمال نہیں کئے۔ اور ان کی تشریح میں اَلَّذِیْنَ خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْکہہ کر واضح کر دیا ہے کہیہ الفاظ اُن کی سرکشی کی حالت بیان کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں اُن کے حسب پر طعن نہیں کیا گیا۔
عربی لغت کی کتاب تاج العروس میں لکھا ہے۔
‘‘البَغِیَّةُ فِی الْوَلَدِ نَقِیْضُ الرُّشْدِ وَ یُقَالُ ھُوَ ابنُ بَغِیَّةٍ’’
(باب الواو والیاء فصل الباء)
یعنی عربی محاورہ میںالبغیّۃ کا لفظ جب اولاد کی نسبت سے مذکور ہو تو یہ لفظ رُشد یعنی ہدایت کی نقیض کے معنوں میں ایسے شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو رُشد و ہدایت سے محروم ہو، چنانچہ ایک خاص سرکش کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ نے ابن بغاء کا لفظ استعمال کر کے خود اس کے معنی‘‘اے سرکش انسان’’ کئے ہیں۔
(ملاحظہ ہو الحکم ۲۴ـفروری۱۹۰۷ء صفحہ۲)
آئینہ کمالات اسلام میںذُرِّیَّۃُالْبَغَایَاوالی عبارت سے پہلے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ مسلمانوں کا ذکر ملکہ وکٹوریہ کو مخاطب کر کے ان الفاظ میں فرماتے ہیں۔
‘‘اے قیصرہ ہند میں آپ کو محض لِلّٰہ نصیحت کرتا ہوں کہ مسلمانانِ ہند تیرے خاص بازو ہیں اور ان کو تیری مملکت میں ایک خصوصیّت حاصل ہے اس لئے تجھے چاہئے کہ مسلمانوں پر خاص نظر عنایت رکھے اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائے اور ان کی تالیفِ قلوب کرے اور ان کو اعلیٰ سے اعلیٰ مناصب اور عہدوں پر سرفراز کرے۔ وہ اس ملک میں ایک ہزار سال تک حکومت کر چکے ہیں اور ان کو اس ملک میں ایک خاص شان حاصل تھی اور وہ ہندووٴں پر حاکم رہے ہیں اس لئے تجھے بھی مناسب ہے کہ تو ان کی عزت و تکریم کرے اور بڑے بڑے عہدے ان کے سپرد کرے۔’’
پھر زیر بحث عبارت کے سیاق میں تحریر فرماتے ہیں۔
‘‘جب میں بیس سال کی عمر کو پہنچا تبھی سے میرے دل میںیہ خواہش رہی کہ اسلام کی نصرت کروں اور آریوں اورعیسائیوں کے ساتھ مقابلہ کروں۔ چنانچہ اس غرض سے میں نے متعدد کتب تصنیف کیں جن میں سے ایک براہین احمدیہ ہے۔ ……نیز اور کتابیں بھی ہیں جن میں سے سرمہ چشم آریہ، توضیح مرام، فتح اسلام، ازالہ اوہام ہیں۔ نیز ایک اور کتاب بھی ہے جو میں نے انہی دنوں لکھی ہے اس کا نام دافع الوساوس(آئینہ کمالات اسلام) ہے۔ ان لوگوں کے لئے جو دینِ اسلام کا حسن دیکھنا چاہیں اور دشمنانِ اسلام کو لاجواب کرناچاہتے ہیںیہ کتاب نہایت مفید ہے۔یہ کتابیں ایسی ہیں کہ سب کے سب مسلمان ان کو محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان کے معارف اور مطالب سے فائدہ اٹھائیں گے۔’’
اس کے بعد زیر بحث عبارت آتی ہے جس میں فرماتے ہیں۔
‘‘کُلُّ مُسْلِمٍ یَقْبَلُنِی وَ یُصَدِّقُ دَعْوَتِیْ الَّا ذُرِّیَّةُ الْبَغَایَا الَّذِیْنَ خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ’’۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۵۴۷، ۵۴۸)
کہ ہر مسلمان مجھے قبول کرے گا اور میری اس دعوت (اسلام) کی تصدیق کرے گا سوائے ذُرِّیَّۃُالْبَغَایَا کے (یعنی سوائے سرکش غیر مسلموں کے) جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر کر دی ہے وہ اس دعوت اسلام کو نہیں مانیں گے۔
سیاق کلام سے ظاہرہے کہ اِلَّاذُرِّیَّۃُالْبَغَایَاکے الفاظ میں اِلَّا حرفِ استثناء، اِس عبارت میں استثنائے منقطع کے لئے استعمال ہوا ہے اور مراد اس سے صرف آریہ اور عیسائیوں میں سے وہ سرکش لوگ ہیں جو آپ کی دعوت اسلام کو یہ قبول نہیں کریں گے۔
پس اس سے ظاہر ہے کہ ذُرِّیَّۃُالْبَغَایَا کے الفاظ اس سیاق میں مسلمانوں کے حق میں وارد نہیں۔ یہ فقرہ ایسا ہی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایافَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى أَنْ يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ(الحجر :۳۱، ۳۲) کہ تمام ملائکہ نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ اس نے انکار کیا کہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہو۔
دوسری جگہ ابلیس کے متعلق فرمایا۔كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ (الكهف:۵۱) کہ ابلیس ملائکہ میں سے نہ تھا وہ جِنّوں میں سے تھا۔ پس اُس نے خدا کے حکم کو نہ مانا۔
پس جس طرح اِلَّا اِبْلِیْس کے الفاظ میںاِلَّا بطور استثناء منقطع کے استعمال ہوا ہے اسی طرحاِلَّا ذُرِّیَّةُ الْبَغَایَا میںاِلَّا استثنائے منقطع کے لئے استعمال ہوا ہے اور اس طرح مراد ذُرّیّة البغایا سے وہ سرکش غیر مسلم ہیں جن کے دلوں پر خدا تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے۔ اس جگہ مہر لگایاجانے کا ذکر ذرّیّة البغایا کی تشریح کے طور پر ہے کہ اس سے سرکش لوگ مراد ہیں۔
امام ابو جعفر یعنی امام باقر نے اپنے دشمنوں کے متعلق کہا ہے:۔
اَلنَّاسُ کُلُّھُمْ اَوْلَادُ بَغَایَا مَا خَلَا شِیْعَتَنَا
(الفروع الکافی حصہ سوم کتاب الروضہ صفحہ ۱۲۵، مطبوعہ نولکشور)
ہم سے محبت رکھنے والے گروہ کے سوا باقی سب لوگ اولاد بغایایعنی سرکشی کرنے والے لوگ ہیں۔
اس جگہ امام صاحب نے کسی کے حسب پر طعن نہیں کیا بلکہ اولاد بغایا کے الفاظ رشد و ہدایت سے محروموں کے لئے ہی استعمال کئے ہیں۔
چنانچہ امام موصوف کے اس قول کی عربی محاورہ کے مطابق وضاحت میں اخبار مجاہد ۱۴ـ مارچ ۱۹۳۶ء میں لکھا گیا ہے:۔
‘‘ولد البغایا، ابن الحرام، ولد الحرام، ابن الحلال، بنت الحلال وغیرہیہ سب عرب کا محاورہ ساری دنیا کا محاورہ ہے۔ جو شخص نیکوکاری کو ترک کر کے بدکاری کی طرف جاتا ہے اس کو باوجودیکہ اس کا حسب نسب درست ہو صرف اعمال کی وجہ سے ابن الحرام، ولد الحرام کہتے ہیں۔ اس کے خلاف جو نیکوکار ہوتے ہیں ان کو ابن الحلال کہتے ہیں۔ اندریں حالات امام صاحب کا اپنے مخالفین کو اولاد بغایا کہنا بجا اور درست ہے۔’’
نیکو کاری سے بعید ہو جانے اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی اسلام کی تائید میں ایک پیشگوئی کے خلاف عیسائیوں کی تائید کرنے پر حضرت بانیٴ سلسلہ احمدیہ نے ایک معاند کو ولد الحرام بننے کا شوق رکھنے والا لکھا۔ آپ کی مراد یہ ہے کہ یہ شخص فرزند اسلام نہیں رہا۔ کیونکہ وہ اسلام کی سچائی کے متعلق آپ کی پیشگوئی کو جھٹلا کر جو عبد اللہ آتھم کی ہلاکت کے متعلق تھی عیسائیت کی تائید میں کمربستہ تھا جب کہ عبد اللہ آتھم کی ہلاکت اس کے رجوع کر لینے کی وجہ سے وقتی طور پر ٹل گئی تھی۔
واضح ہو کہ آئینہ کمالات اسلام کی زیر بحث عبارت اپنے اندر ایک پیشگوئی کا رنگ رکھتی ہے جس میںیہ بتایا گیا ہے کہ وقت آرہا ہے کہ ہر مسلمان آپ کی تحریروں کو آپ کی دعوت اسلام کو قبول کر لے گا اور صرف وہ غیر مسلم قبول کرنے سے محروم رہیں گے جو سرکش ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے۔
دو شعروں کی تشریح
مولوی ابو الحسن صاحب نے اس موقعہ پر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے دو شعروں کا ترجمہ پیش کیا ہے جن میں پہلے شعر کا ترجمہ یہ لکھا ہے کہ:۔
‘‘اگریہ گالی دیتے ہیں تو میں نے ان کے کپڑے اتار لئے ہیں اور ایسا مردار بنا کرچھوڑ دیا ہے جو پہچانا نہیں جاتا۔’’
اس کے مضمون سے صاف ظاہر ہے کہ یہ شعر گالیاں دینے والوں کے جواب میں کہا گیا ہے۔ مخالف کی گالیوں کے جواب میںیہ کہنا کہ میں نے اس کے عیوب ظاہر کر دیئے ہیں اور روحانی لحاظ سے اُسے مردہ ثابت کر دکھایاہرگز کسی گالی کا مفہوم نہیں رکھتا بلکہ یہ اس کی اصل حالت کا اظہار ہے۔ حضرت حسّان جوشعر قریش کے متعلق کہتے ہیں اُن میں وہ انہیں کتے، لومڑیاں، ذلیل، کمینے اور ناپاک لوگ قرار دیتے ہیں۔
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے ایک اور شعر کا ترجمہ یوں پیش کیا ہے:۔
‘‘دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔’’
(نجم الہدٰی، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۵۳، ۵۴)
یہ شعر عیسائی مردوں اور عورتوں کے متعلق ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف گند اچھال رہے تھے اور آپ کا نہایت بُرے الفاظ سے ذکر کرتے تھے۔ مرد جلسوں میں اور عورتیں مسلمانوں کے گھروں میں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بکواس سے کام لیتے تھے۔ چنانچہ اس سے اگلا شعر اس بات پر روشن دلیل ہے۔ ہم اس جگہ دونوں شعر لکھ کر ان کا ترجمہ قارئین کرام کے سامنے پیش کر دیتے ہیں تا وہ نظر انصاف سے دیکھ لیں کہ اس جگہ اعداء سے مراد مسلمان نہیں۔ دونوں شعر یوں ہیں:۔
اِنَّ الْعِدَیٰ صَارُوْا خَنَازِیْرَ الْفَلَا
وَ نِسَائُھُمْ مِنْ دُوْنِھِنَّ الْاَکْلَبُ
سَبُّوْا وَ مَا اَدْرِیْ لِاَیِّ جَرِیْمَةٍ
سَبُّوْ اَنَعْصِی الْحِبَّ اَوْ نَتَجَنَّبُ
(نجم الہدیٰ ، روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۵۳، ۵۴)
دشمن (یعنی دشمنانِ اسلام) جنگل کے خنزیر بن گئے ہیں اور ان کی عورتیں کُتیوں سے بھی بڑھ گئی ہیں۔ انہوں نے گالیاں دی ہیں اور میں نہیں جانتا کہ کس جرم پر انہوں نے گالیاں دی ہیں۔ کیا ہم اپنے محبوب (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم) کی اُن کی گالیوں کی وجہ سے نافرمانی کرنے لگیں گے اور اُن سے کنارہ کش ہو جائیں گے (یعنی ایسا نہیں ہو سکتا)۔
پس اِن اشعار کا تعلق کسی مسلمان سے نہیں ہو سکتا کیونکہ کوئی مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آگے نجم الہدیٰ کے صفحہ ۱۲ پر فرماتے ہیں:۔
‘‘سوآپ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ دین صلیبی اونچا ہو گیا اور پادریوں نے ہمارے دین کی نسبت کوئی دقیقہ طعن کا اٹھا نہ رکھا اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دیں اور بہتان لگائے اور دشمنی کی…… اور تھوڑی مدت سے ایک لاکھ کتاب انہوں نے ایسی تالیف کی جس میں ہمارے دین اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کینسبت بجز گالیوں اور بہتان اور تُہمت اور کچھ نہیں۔ اور ایسی پلیدی سے وہ تمام کتابیںپُر ہیں کہ ہم ایک نظر بھی ان کو دیکھ نہیں سکتے۔ اور تم دیکھتے ہو کہ ان کے فریب ایک سخت آندھی کی طرح چل رہے ہیں اور ان کے دل حیا سے خالی ہیں اور تم مشاہدہ کرتے ہو کہ ان کا وجود تمام مسلمانوں پر ایک موت کھڑی ہے اور کمینہ طبع آدمی خس و خاشاک کی طرح ان کی طرف کھنچے چلے جا رہے ہیں۔…… پھر ان(پادریوں۔ ناقل) کی عورتیں اسی غرض کے لئے شریفوں کے گھروںمیں پہنچیں…… ان کے مذہب باطل نے ہمارے ملک کی نیکیوں کو دور کر دیا اور کوئی گھر ایسا نہ رہا جس میںیہ مذہب باطل (عیسائیت۔ ناقل) داخل نہ ہوا…… اسلام پر وہ مصیبتیں پڑیں جن کی نظیر پہلے زمانہ میں نہیں ہے۔ پس وہ اس شہر کی طرح ہو گیا جو مسمار ہوجائے اور اس جنگل کی طرح جو وحشیوں سے بھر جائے۔’’
(نجم الہدیٰ ، روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۶۳تا ۶۷)
پھر آگے چل کر اسی کتاب کے صفحہ ۱۴،۱۵ پر فرماتے ہیں:۔
‘‘ہم صرف ان لوگوں کی طرف توجہ کرتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بصراحت یا اشارات سے گالیاں دیتے ہیں اور ہم ان پادری صاحبان کی عزت کرتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہو سلم کو گالیاں نہیں دیتے۔ اور ایسے لوگوں کو جو اس پلیدی سے پاک ہیں قابلِ تعظیم سمجھتے ہیں اور تعظیم و تکریم کے ساتھ ان کا نام لیتے ہیں۔ اور ہمارے بیان میں کوئی ایسا حرف اور نقطہ نہیں ہے جو ان بزرگوں کیکسرِ شان کرتا ہو اور صرف ہم گالی دینے والوں کی گالی ان کے منہ کی طرف واپس کرتے ہیں تا ان کے افتراء کی پاداش ہو۔’’
(نجم الہدیٰ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۷۹، ۸۰)
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے اس بیان سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جس شعر کو مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے پیش کیا ہے کہ ہمارے دشمن بیابان کے خنزیر بن گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیںیہ شعر مسلمانوں کے متعلق نہیں بلکہ ان عیسائی منا د مردوں اور عورتوں کے متعلق ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دیتے تھے اور آپ کے خلاف گندے اعتراضات کرتے تھے۔
اس سے اگلے شعر میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے بتایا ہے کہ یہ لوگ گالیاں دیتے ہیں مگر میں نہیں جانتا کہ کس جرم کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ یہ گالیاں دیتے ہیں تو کیا ہم (ان گالیوں اور اعتراضوں کو سن کر) اپنے محبوب رسول کی نافرمانی کریں گے اور آپ سے کنارہ کش ہو جائیں گے؟ یعنی ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔
پس حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ نے مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کے پیش کردہ شعر میں مسلمانوں کو جنگل کے سوٴر اور ان کی عورتوں کو کتیوں سے بڑھی ہوئی نہیں کہا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دینے والے عیسائی مردوں اور عورتوں کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے اور خود بتا دیا ہے کہ یہ سخت الفاظ اُن گالی دینے والوں کی پاداش میں اُن کے منہ کی طرف لوٹائے گئے ہیں۔ پس یہ شعر جَزَآءُ سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُھَا کی آیت کے مطابق گالیاں دینے والے عیسائی مردوں اور عورتوں کی پاداش کے لئے لکھاگیا ہے۔ جوابی طور پر سختی اسلام میں جائز ہے۔ دیکھئے خود خدا تعالیٰ نے بھییہودیوں کو سؤر اور بندر اور بَلْعَم کو کُتّے سے تشبیہ دی ہے۔
مولوی ابو الحسن صاحب کو مخالفین پر لعنت ڈالنے پر بھی اعتراض ہے مگر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے صرف گندہ دہن لوگوں پر ہی لعنتیں ڈالی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے بھی قرآن شریف میں جھوٹوں پر لعنت کی ہے اور بعض لوگوں کے متعلق کہا ہے عَلَیْھِمْ لَعْنَةُ اللّٰہِ وَالْمَلَا ٓئِکَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَیعنی ان لوگوں پر اللہ ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔
پس حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اگر گندہ دہن پادریوں پر گن کر ہزار لعنت لکھی تو خدا تعالیٰ نے تو ایسے لوگوں پرکروڑہا لعنتیں پڑنے کا ذکر کیا ہے۔ تمام فرشتوں اور انسانوں کی تعداد کا اندازہ لگائیں تو کروڑوں چھوڑ ایسے لوگوں پر خدا تعالیٰ نے اربوں لعنتیں پڑنے کا اس آیت میں ذکر فرما دیا ہے۔ پس لعنت کا ڈالنا بھی قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی روشنی میں بوقتِ ضرورت جائز ہے خصوصاً جبکہ ایسی کارروائی جوابی طور پر ہو۔
۞
فصل چہارم کا جواب
پیشگوئی متعلق مرزا احمد بیگ و محمدی بیگم
مولوی ابو الحسن صاحب نے ‘‘ایک پیشگوئی جو پوری نہیں ہوئی’’ کے عنوان کے ماتحت یہ لکھا ہے کہ:۔
‘‘۱۸۸۸ء میں مرزا غلام احمد صاحب نے جبکہ ان کی عمر پچاس سال کی تھی اپنے ایک رشتہ دار مرزا احمد بیگ کی نو عمر صاحبزادی محمدی بیگم کے نکاح کا پیام دیا۔ ان کا بیان ہے کہ وہ خدا کی طرف سے اس بات کے لئے مامور تھے اور خدا نے صاف اور صریح الفاظ میں اس کام کی تکمیل کا وعدہ فرمایا تھا۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۵۱)
اس کے آگے صفحہ ۱۶۵تک اس پیشگوئی کے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
‘‘مرزا صاحب نے ۱۹۰۸ء میں وفات پائی اور یہ نکاح جو بقول ان کے آسمان پر ہو چکا تھا زمین پر نہ ہو سکا۔’’
الجواب:۔
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی صدہا پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کو ایسی نظر آئی ہے جو ان کے خیا ل میں پوری نہیں ہوئی۔ صد ہا پیشگوئیوں میں سے اگر ایک پیشگوئی انہیں ایسی نظر آئی ہے تو عالم دین ہونے کے لحاظ سے انہیں اسا مر کی تحقیق کرنا چاہیئے تھی کہ اس کے بظاہر پورا نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیںآیایہ پیشگوئی کسی شرط کے ساتھ تو مشروط نہ تھی۔ اور اگر شرط کے ساتھ مشروط تھی تو اِذَا فَاتَ الشَّرْطُ فَاتَ الْمَشْرُوْطُ کے ماتحت منسوخ تو نہیں ہوئی؟
سوواضح ہو کہ اصل حقیقتیہ ہے کہ یہ پیشگوئی مشروط بہ شرائط تھی اور وعید پر بھی مشتمل تھی اور پیشگوئی کا ماحصل یہ تھا کہ اگر محمدی بیگم کا والد اس رشتہ پر رضامند نہ ہو اور کسی دوسری جگہ اس لڑکی کا رشتہ کر دے تو پیشگوئی کے مطابق وہ تین سال بلکہ اس سے بہت قریب مدّت میں ہلاک ہو جائے گا اور اڑھائی سال کے عرصہ میں اس کا خاوند وفات پائے گا اور وہ بیوہ ہو کر میرے نکاح میں آئے گی۔
اب اصل واقعہ یہ ہے کہ محمدی بیگم کا والد مرزا احمد بیگ اس رشتہ پر رضا مند نہ ہوا اور اس نے اس لڑکی کا نکاح مرزا سلطان محمد صاحب ساکن پٹی سے کر دیا۔ پیشگوئی کے مطابق لڑکی کا والد نکاح تک زندہ رہا اور لڑکی بھی نکاح تک زندہ رہی اور وہ دوسری جگہ نکاح کرنے کے بعد چھ ماہ کے عرصہ میں ہلاک ہو گیا۔ اس سے مرزا احمد بیگ کے کنبہ والے سخت ہم و غم میں مبتلا ہوئے کیونکہ انہوں نے پیشگوئی کے ایک حصہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے دیکھا۔ اگر مرزا احمد بیگ تین سال کے بعد وفات پاتا تو اس صورت میںیہ پیشگوئی جھوٹی نکلتی۔ لیکن پیشگوئی کا یہ حصہ اپنے ظاہری لفظوں میں صفائی سے پورا ہو گیا تو یہ دیکھ کر مرزا احمد بیگ کے خاندان والے اور محمدی بیگم کا خاوند بہت گھبرائے اور خوفزدہ ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعا کے لئے خط لکھا گیا اِس طرح مرزاسلطان محمد کی توبہ سے یہ پیشگوئی ٹل گئی اور اُس نے اڑھائی سال کے اندر وفات نہ پائی۔ لوگوں نے پیشگوئی کو جھٹلانا چاہا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتلایا کہ مرزاسلطان محمد نے توبہ اور رجوع سے فائدہ اٹھایا ہے اب پھر اس کے تکذیب کرنے پر ہی دوبارہ اس کی ہلاکت کی تاریخ مقرر ہو سکتی ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی کتاب انجام آتھم میں پیشگوئی کا انکار کرنے والوں کو لکھا کہ:۔
‘‘فیصلہ تو آسان ہے۔ احمد بیگ کے داماد سلطان محمد کو کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔’’
پھر اسی جگہ یہ بھی تحریر فرمایا کہ :۔
‘‘اور ضرور ہے کہ یہ وعید کی موت اُس سے تھمی رہے جب تک وہ گھڑی نہ آجائے کہ اس کو بے باک کر دے۔ سو اگر جلدی کرنا ہے تو اٹھو اور اس کو بے باک اورمکذّب بناؤ۔ اُس سے اشتہار دلواوٴ اور خدا کی قدرت کا تماشا دیکھو۔’’
(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۳۲ حاشیہ)
ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے اس چیلنج کے بعد اگر محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند مرزا سلطان محمد صاحب آئندہ کسی وقت شوخییا بیباکی دکھاتے اور پیشگوئی کی تکذیب کر دیتےیا معترضینِ پیشگوئی حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ کے اس چیلنج کے بعد مرزا سلطان محمد صاحب کی طرف سے پیشگوئی کی تکذیب کا اشتہار دلانے میں کامیاب ہو جاتے تو پھر اس کے بعد مرزا سلطان محمد صاحب کی موت کے لئے جو میعاد مقرر کی جاتی وہ قطعی ہوتی اور اگر وہ اس میعاد میں وفات نہ پاتے اور نکاح وقوع میں نہ آتا تو اس صورت میں معترضین کو پیشگوئی کے جھٹلانے کا حق نہیں پہنچ سکتا تھا۔ لیکن نکاح کا وقوع میں آنا چونکہ اس شرط سے مشروط ہو چکا تھا کہ مرزا سلطان محمد انجام آتھم کے اس چیلنج کے بعد پیشگوئی کی تکذیب سے باز رہے لہذا اس صورت میں پیشگوئی کے مشروط ہونے کی وجہ سے محمدی بیگم کا حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے نکاح میں آنا بوجہ اس کے مشروط ہونے کے ضروری نہ تھا لہذا پیشگوئی کے متعلق یہ سمجھا جانا ضروری ہے کہ نکاح والی پیشگوئی ٹل گئی ہے کیونکہ مرزا سلطان محمد صاحب توبہ پر قائم رہے اور انہوں نے پیشگوئی کی تکذیب نہیں کی۔ ان کا اپنا بیان ظاہر کرتا ہے کہ آریوں اور عیسائیوں نے پیشگوئی کی تکذیب کرنے کے لئے انہیں لاکھ لاکھ روپیہ دینا چاہا لیکن وہ تکذیب پر آمادہ نہ ہوئے۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں جو اخبار الفضل ۱۲-۹،جون ۱۹۲۱ء صفحہ ۱۰، ۱۱میں شائع ہو چکا ہے حافظ جمال احمد صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ سے کہا:۔
‘‘میرے خسر مرزا احمد بیگ صاحب واقعہ میں عین پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئے ہیں مگر خدا تعالیٰ غفور رحیم بھی ہے اور اپنے دوسرے بندوں کی بھی سنتا اور رحم کرتا ہے۔’’
اس عبارت کے پہلے فقرہ سے ظاہر ہے کہ وہ اس پیشگوئی کو سچا جانتے تھے اور آخری فقرہ میں انہوں نے اپنی توبہ اور استغفار کا اظہار کیا ہے۔ حافظ جمال احمد صاحب نے اُن سے سوال کیا:۔
‘‘آپ کو مرزا صاحب کی پیشگوئی پر کوئی اعتراض ہے یایہ پیشگوئی آپ کے لئے کسی شک و شبہ کا باعث ہوئی ہے؟’’
اس کے جواب میں مرزا سلطان محمد صاحب نے کہا:۔
‘‘یہ پیشگوئی میرے لئے کسی قسم کے بھی شک و شبہ کا باعث نہیں ہوئی۔’’’
اوریہ بھی کہا کہ:۔
‘‘میں قسمیہ کہتا ہوکہ جو ایمان و اعتقاد مجھے حضرت مرزا صاحب پر ہے میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی جو بیعت کر چکے ہیں اتنا نہیں ہو گا۔’’
اس پرحافظ جمال احمد صاحب نے سوال کیا کہ آپ بیعت کیوں نہیں کرتے؟
اس پر مرزا سلطان محمد صاحب نے جواباً کہا:۔
‘‘اس کی وجوہات کچھ اور ہی ہیں جن کا اس وقت بیان کرنا میں مصلحت کے خلاف سمجھتا ہوں۔’’
اور اس سلسلہ میںیہ بھی کہا:۔
‘‘میرے دل کی حالت کا آپ اس سے بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے وقت آریوں نے لیکھرام کی وجہ سے اور عیسائیوں نے آتھم کی وجہ سے مجھے لاکھ لاکھ روپیہ دینا چاہا تا میں کسی طرح مرزا صاحب پر نالش کروں۔ اگر وہ روپیہ مَیں لیتا تو امیر کبیر بن سکتا تھا مگر وہی ایماناور اعتقاد تھا جس نے مجھے اس فعل سے روکا۔’’
اس بیان سے ظاہر ہے کہ چونکہ مرزا سلطان محمد صاحب توبہ پر قائم رہے اور انہوں نے پیشگوئی کی تکذیب نہ کی اس وجہ سے نکاح والی پیشگوئی کا ٹل جانا ضروری امر تھا کیونکہ وعید کی پیشگوئی کا پورا ہونا توبہ کے وقوع میں نہ آنے پر موقوف ہوتا ہے۔ چنانچہ عقائد کی کتاب مسلّم الثبوت کے صفحہ۲۸ میں لکھا ہے:۔
‘‘اِنَّ الْاِیْعَادَ فِیْ کَلَامِہٖ تَعَالیٰ مُقَیَّدَةٌ بِعَدْمِ العَفْوِ’’
کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں ہر وعید عدمِ عَفو کی شرط سے مشروط ہوتی ہے۔
اور تفسیر کبیر میں امام رازیلکھتے ہیں:۔
‘‘عِنْدِیْ جَمِیْعُ الوَعِیْدَاتِ مَشْرُوْطَۃٌ بِعَدْمِ الْعَفْوِ فَلَا یَلْزِمُ مَنْ تَرْکَہٗ دَخُوْلُ الْکِذْبِ فِی کَلَامِ اللّٰہِ۔’’
(تفسیر کبیررازی سورۃ آل عمران آیت نمبر ۱۰)
یعنی وعید کی پیشگوئیوں میںیہ شرط ہوتی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے معاف نہ کر دیا تو لفظاً لفظاً پوری ہوتی ہے۔ لہذا اگر وعیدی پیشگوئی پوری نہ ہو تو اس سے خدا کے کلام کا جھوٹا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ (الانفال:۳۴)
کہ خدا تعالیٰ انہیں عذاب دینے والا نہیں درآنحالیکہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔
چونکہ مرزا سلطان محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات تک پیشگوئی کے مصدق رہے اور ان کی طرف سے اشارةً یا کنایةً بھی پیشگوئی کی تکذیب نہیں ہوئی اور پہلی ڈھائی سالہ میعاد جو ان کی موت کے متعلق تھی توبہ اور رجوع سے ٹل چکی تھی اور وہ اس توبہ پر قائم رہے اس لئے خدا تعالیٰ ظالم نہ تھا کہ وہ وعیدی پیشگوئی کی بناء پر باوجود مرزا سلطان محمد کی توبہ و استغفار اور عفو و رحم کی درخواست کے نکاح کی پیشگوئی کو جو مشروط تھی پوری کرنے کے لئے انہیں ہلاک کر دیتا۔ پس نکاح کا وقوع میں نہ آنا جو ایک وعیدی پیشگوئی سے مشروط تھا اس بات کا ثبوت نہیں ہو سکتا کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئی جھوٹی نکلی اور وہ اپنے الہام کے دعویٰ میں صادق نہیں۔
مولوی ابو الحسن صاحب نے ازالہ اوہام کییہ عبارت صفحہ ۱۹۸ سے اس مضمون کی نقل کی ہے:۔
‘‘خدا تعالیٰ نے پیشگوئی کے طور پر ظاہر فرمایا کہ مرزا احمد بیگ ولد مرزا گاماں بیگ ہوشیارپوری کی دختر کلاں انجام کار تمہارے نکاح میں آئے گی اور وہ لوگ بہت عداوت کریں گے اور بہت مانع آئیں گے اور کوشش کریں گے کہ ایسا نہ ہو لیکن آخر کار ایسا ہی ہوگا اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ ہر طرح سے اس کو تمہاری طرف لائے گا۔ باکرہ ہونے کی حالت میںیا بیوہ کر کے اور ہر ایک روک درمیان سے اٹھا دے گا اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔ کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔’’
( ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۳۰۵)
اسی طرح اشتہار ۱۰ـجولائی۱۸۸۸ء کییہ عبارت لکھی ہے:۔
‘‘سو خدا تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا۔ کوئی نہیں جو خد کی باتوں کو ٹال سکے۔’’
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۳۷،ایڈیشن دوم)
پھر اسی اشتہار سے یہ عبارت بھی پیش کی ہے:۔
‘‘اشتہار دہم جولائی۱۸۸۸ء کی پیشگوئی کا انتظار کریں جس کے ساتھ یہ الہام بھی ہے قُلْ اِیْ وَ رَبِّی اِنَّہٗ لَحَقٌّ وَمَا اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۔ زَوَّجْنَا کَھَا لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِیْ۔ وَاِنْ یَّرَوْا اٰیةً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ۔’’
‘‘اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیایہ بات سچ ہے؟ کہہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے۔ ہم نے خود اس سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے۔ میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا۔ اور نشان دیکھ کر منہ پھیر لیں گے اور قبول نہیں کریں گے کہیں گے کہیہ کوئی پکا فریب اور پکا جادو ہے۔’’
(اشتہار دہم جولائی بحوالہ آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد۴ صفحہ ۳۵۰)
پھر انجام آتھم صفحہ۲۲۳ کی عربی عبارت درج کی ہے جس کا اردو ترجمہ یہ ہے ، لکھا ہے:۔
‘‘اوریہ تقدیر خدا کی طرف سے مبرم ہےاور اس کا وقت بفضل خدا آکر رہے گا۔ قسم ہے اس پاک ذات کی جس نے محمد مصطفٰی کو مبعوث فرمایا اور آپ کو تمام انبیاء اور تمام مخلوقات میں افضل بنایا (ایسی عبارت کی موجودگی میں مولوی ابو الحسن صاحب نے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہم پلہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ناقل)یہ ایک امر حق ہے تم کو خود نظر آجائے گا اور میں اس پیشگوئی کو اپنے صدق و کذب کا معیار ٹھہراتا ہوں۔ اور میں نے اس وقت تک یہ بات نہیں کہ جب تک مجھے اپنے رب کی طرف سے اس کی اطلاع نہیں دی گئی۔’’
(انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۲۲۳)
پھر آگے بحوالہ ازالہ اوہام صفحہ۱۹۹ لکھا ہے:۔
‘‘مرزا صاحب کو شدّتِ علالت اور قربِ وفات کے خطرہ سے جب کبھی اس بارے میں تردّد ہوا جدید الہام کے ذریعہ سے ان کو اس کا اطمینان دیا گیا۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۵۷)
ان عبارتوں سے بے شک یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اجتہاد سے ان الہامات کا یہی مفہوم سمجھتے تھے کہ درمیانی روکیں دور ہو جائیں گی اور بالآخرمحمدی بیگم آپ کے نکاح میں آئے گی۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جن الہامات سے آپ نے یہ اجتہاد کیا انہیالہامات کے ساتھ آپ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام بھی نازل ہوچکا تھا۔
‘‘اَیَّتُھَا الْمَرْاَةُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآءَعَلٰی عَقِبِکِ۔ یَمُوْتُ وَ یَبْقٰی مِنْہُ کِلَابٌ مُتَعَدِّدَةٌ۔’’
یہ الہام بھی۱۰ـجولائی۱۸۸۸ء ہی کے اشتہار میں درج ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ یہ پیشگوئی توبہ سے ٹل سکتی ہے۔ اس میں محمدی بیگم کی نانی کو مخاطب کر کے یہ کہا گیا ہے کہ اے عورت توبہ کر توبہ کر کیونکہ بلا تیری اولاد اور تیری اولاد کی اولاد پر پڑنے والی ہے۔ ایک شخص مرے گا اور متعدد بھونکنے والے باقی رہ جائیں گے۔
اس پیشگوئی سے متعلقہ بنیادی الہام یہ تھا جو اشتہار۱۰ـجولائی۱۸۸۸ء میں اِن الفاظ میں درج ہے۔ کَذَّبُوْا بِاٰیَاتِنَا وَکَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِءُوْنَ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَ یَرُدُّھَا اِلَیْکَ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ ترجمہ۔‘‘انہوں (متعلقین پیشگوئی)نے ہمارے نشانوں کی تکذیب کی ہے اور ان سے تمسخر کرتے رہے ہیں سو خدا انہیں سزا دے کر اس عورت کو تیری طرف لوٹائے گا۔ خدا کے کلمات بدل نہیں سکتے۔’’
اِس سے ظاہر ہے کہ محمدی بیگم کا نکاح میں آنا مکذّبین کے سزا پانے پر موقوف تھا۔ اور مکذّبین سزا پالیں تو نکاح اٹل ہو جاتا ہے جس میں تبدیلی نہیں گی۔ ظاہر ہے کہ یہ پیشگوئی انذاری اور وعیدی ہے۔ اور وعیدی پیشگوئی ہمیشہ عدمِ عَفو کی شرط سے مشروط ہوتی ہے کیونکہ توبہ کرنے پر خدا اُسے ٹال دیتا ہے۔
محمدی بیگم صاحبہ کے والد مرزا احمد بیگ جب پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہو گئے تو اس سے متأثر ہو کر مرزا سلطان محمد صاحب نے جو محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند تھے توبہ اور استغفار کی، اس لئے اُن کی وعیدی موت اُن سے ٹل گئی اور محمدی بیگم کا حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے نکاح میں آنا ضروری نہ رہا۔ الہامی الفاظ اس رنگ میں ظہور پیشگوئی کو سچا ثابت کرتے ہیں اور اس پر کوئی حقیقی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا۔ معترضین کے اعتراضات دراصل الہام پر نہیں بلکہ مسیح موعود علیہ السلام کے اس اجتہاد پر ہیں کہ مرزا سلطان محمد کسی وقت ضرور توبہ کو توڑ دے گا اور محمدیبیگم کا نکاح میں آنا اٹل ہو جائے گا۔ یہ اجتہاد کسی جدید الہام کی بناء پر نہیں بلکہ پہلے الہام کے الفاظ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ پر ہی مبنی ہے اور یہ الفاظ متعلقین کے عذاب پانے کے بعد نکاح کو اٹل قرار دیتے ہیں لیکن سزا اور عذاب پانے کو اٹل قرار نہیں دیتے اور اسی اشتہار کا دوسرا الہام جو پہلے مذکور ہوا۔ یعنی اَیَّتُھَا الْمَرْأَةُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَاءَ عَلٰی عَقِبِکِکہ اے عورت توبہ کر توبہ کر کیونکہ بلا تیری اولاد اور اولاد کی اولاد پر آنے والی ہے توبہ کے وقوع پر نکاح کو اٹل قرار نہیں دیتا۔ مگر اس دوسرے الہام کو ملحوظ رکھنے کی وجہ سے پہلے الہام لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ کی بناء پر حضور کا میلان اجتہاداً اس طرف ہو گیا کہ مرزا سلطان محمد صاحب کسی وقت توبہ کو ضرور توڑ دیں گے اور پھر محمدی بیگم صاحبہ کا آپ سے نکاح ضرور ہو گا۔
مولوی ابو الحسن صاحب کی پیش کردہ عبارتیں اسی اجتہاد پر مبنی ہیں اور ان کا اعتراض صرف اجتہاد پر رہ جاتا ہے نہ کہ نَصِّ الہام پر جس کی سچائی پیشگوئیوں کے اصولوں کے مطابق ثابت ہے۔ پس مولوی ابو الحسن صاحب کا یہ کہنا حقیقت کے لحاظ سے درست نہیں کہ یہ پیشگوئی غلط نکلی۔ کیونکہ نفسِ پیشگوئی اپنی شروط کے اعتبار سے قابلِ اعتراض نہیں۔ شرطِ اوّل نفس الہام سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ متعلقین کو عذاب دیا جانے کے بعد نکاح اٹل ہوگا نہ کہ عذاب کے بغیر۔ چونکہ مرزا سلطان محمد صاحب نے توبہ کر لی اور اس پر قائم رہے اس لئے نکاح ٹل گیا اور شرط کے لحاظ سے منسوخ ہو گیا۔
دوسری شرط یہ تھی کہ توبہ سے عذاب ٹل سکتا ہے۔ چنانچہ مرزا سلطان محمد صاحب اور متعلقین کی توبہ اور استغفار سے عذاب ٹل گیا ۔ سلطان محمد کی توبہ اور رجوع کا ثبوت قبل ازیں دیا جا چکا ہے۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا یہ خیال کہ مرزا سلطان محمد ضروری کسی وقت توبہ کو توڑ دیں گے کسی نئے الہام پر مبنی نہیں کیونکہ کسی نئے الہام میںیہ بات مذکور نہیں۔ پس یہ محض اجتہاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ انبیاء اپنے اجتہاد کی صحت کے ذمہ وار نہیں ہوتے بلکہ اپنے الہامات کی سچائی کے ذمہ وار ہوتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ جو بات میں اللہ کی طرف سے کہوں وہ بَرحق ہے اور جو اس کے بارہ میں اپنی طرف سے کہوں تو میں ایک انسان ہوں غلطی کر سکتا ہوں اور درست بھی ہو سکتا ہوں۔
واقعات کی رو سے پیشگوئی کی تعبیریہی ہو سکتی ہے کہ متعلقہ خاندان نے توبہ کی شرط سے فائدہ اٹھایا اور محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند مرزا سلطان محمد کی موت واقع نہ ہوئی اور پیشگوئی اس شرط سے مشروط ہو گئی کہ آئندہ اگر مرزا سلطان محمد توبہ کو توڑیں گے تو اس کے بعد محمدی بیگم صاحبہ کا حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے نکاح میں آنا ضروری ہو گا۔ چنانچہ آپ نے مکذّبینِ پیشگوئی کو چیلنج کیا کہ وہ مرزا سلطان محمد صاحب سے پیشگوئی کی تکذیب کا اشتہار دلائیں تا نئی میعاد ان کی ہلاکت کے لئے مقرر ہو مگر مکذّبینِ پیشگوئیحضرت مسیح موعود کی زندگی میں اس چیلنج کے مقابل مرزا سلطان محمد سے تکذیب کا اشتہارنہ دلا سکے اور وہ اپنی توبہ پر قائم رہے اس لئے بموجب الہامات نکاح والا حصہ منسوخ ہو گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی سابق اجتہاد پر اصرار چھوڑ دیا۔ کیونکہ آپ پر یہ الہام نازل ہوا۔تَکْفِیْکَ ھٰذِہِ الْاِمْرَأَةُ(تذکرہ صفحہ۵۰۹، ایڈیشن۲۰۰۴) کہ تمہارے لئے یہ عورت (جو تمہارے نکاح میں ہے) کافی ہے۔ اس الہام کے نازل ہونے پر آپ نے اپنے سابق اجتہاد میں تبدیلی فرما دی اور حقیقۃالوحی میں لکھا۔ ‘‘اَیَّتُھَا الْمَرْأةُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَٓاءَ عَلٰی عَقِبِکِ’’ اے عورت توبہ کر توبہ کر کیونکہ بلا تیری دختر اور دختر کی دختر پر نازل ہونے والی ہے ۔(روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۴۰۲ حاشیہ)یہ خدا کا کلام ہے جو پہلے سے شائع ہو چکا ہے۔
‘‘پھر جب احمد بیگ کی موت نے جو اس پیشگوئی کی ایک شاخ تھی اس کے اقارب کے دلوں میں سخت خوف پیدا کر دیا اور ان کو خیال آیا کہ دوسری شاخ بھی معرضِ خطرہ میں ہے کیونکہ ایک ٹانگ اس کی میعاد کے اندر ٹوٹ چکی تھی۔ تب ان کے دل خوف سے بھرگئے اور صدقہ و خیرات دیا اور توبہ و استغفار میں مشغول رہے تو خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں تاخیر ڈال دی اور جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں ان لوگوں کی خوف کی وجہ یہ تھی کہ یہ پیشگوئی نہ صرف احمد بیگ کے داماد کی نسبت تھی بلکہ خود احمد بیگ کی اپنی موت کی نسبت بھی تھی اور پہلا نشانہ اس پیشگوئی کا وہی تھا بلکہ مقدم بالذات وہی تھا۔ پھر جب احمد بیگمیعاد کے اندر مر گیا اور کمال صفائی سے اس کی نسبت پیشگوئی پوری ہو گئی تب اس کے اقارب کے دل سخت خوف سے بھر گئے اور اتنے روئے کہ انکیچیخیں اس قصبہ کے کنارے تک جاتی تھیں اور بار بار پیشگوئی کا ذکر کرتے تھے اور جہاں تک ان سے ممکن تھا توبہ اور استغفار اور صدقہ خیرات میں مشغول ہوئے تب خدائے کریم نے اس پیشگوئی میں تاخیر ڈال دی۔’’
پھر تتمہ حقیقۃالوحی صفحہ ۱۳۳ پر تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘اس نکاح کے ظہور کے لئے جو آسمان پر پڑھا گیا ہے خدا کی طرف سے ایکشرط بھی تھی جو اس وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ اَیَّتُھَا الْمَرْاَةُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلٓاءَ عَلٰی عَقِبِکِ۔ پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہو گیایا تاخیر میں پڑگیا۔ کیا آپ کو خبر نہیں کہ یَمْحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتْ نکاح آسمان پر پڑھا گیایا عرش پر مگر آخر وہ سب کارروائی شرطی تھی۔ شیطانی وساوس سے الگ ہو کر اس کو سوچنا چاہیئے۔ کیایونسؑ کی پیشگوئی نکاح پڑھنے سے کچھ کم تھی جس میں بتلایا گیا تھا کہ آسمان پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ چالیس دن تک اس قوم پر عذاب نازل ہو گا مگر عذاب نازل نہ ہوا حالانکہ اس میں کسی شرط کی تصریح نہ تھی۔ پس وہ خدا جس نے اپنا ایسا ناطق فیصلہ منسوخ کر دیا کیا اس پر مشکل تھا کہ اس نکاح کو بھی منسوخ یا کسی اور وقت پر ڈال دے؟’’
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۵۷۰، ۵۷۱)
واقعات کے لحاظ سے عند اللہ نکاح منسوخ ہو گیا اور تاخیر والی صورت پیدا نہیں ہوئی۔ کیونکہ تاخیر والی صورت اس طرح پیدا ہو سکتی تھی کہ مرزا سلطان محمد صاحب پیشگوئی کی تکذیب کرتے اور پھر ان کی ہلاکت کی میعاد مقرر ہوتی اور اس میں ہلاک ہو جاتے۔
واقعات کے لحاظ سے نکاح عند اللہ منسوخ ہو چکا تھا۔ کیونکہ مرزا سلطان محمد صاحب، محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند، توبہ کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود کی ساری زندگی میں اپنی توبہ پر قائم رہے اور انہوں نے پیشگوئی کی تکذیب نہ کی۔ پیشگوئی کے منسوخ ہونے کے ساتھ تاخیر میںپڑنے کا ذکر محض احتمالی ہے کہ اگر بالفرض مرزاسلطان محمد صاحب تکذیب کر دیں تو پھر وہ قابلِ مؤاخذہ ہو جائیں گے اور اس وقت نکاح کا وقوع میں آنا ضروری ہو جائے گا۔ لیکن چونکہ وہ مؤاخذہ الٰہی سے بچنے کے لئے اپنی توبہ پر قائم رہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اُن سے رحم اور عفو کا معاملہ کیا۔
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ لکھتے ہیں:۔
‘‘غرض بے حیا لوگ ان اعتراضوں کے وقت یہ نہیں سوچتے کہ ایسے اعتراض سب نبیوں پر پڑتے ہیں۔ نمازیں بھی پہلے پچاس نمازیں مقرر ہو کر پھر پانچ رہ گئیں اور توریت پڑھ کر دیکھو صدہا مرتبہ خدا کے قراردادہ عذاب حضرت موسیٰ کی سفارش سے منسوخ کئے گئے۔ایسا ہییونس کی قوم پر آسمان پر جو ہلاکت کا حکم لکھا گیا تھا وہ حکم ان کی توبہ سے منسوخ کر دیا گیا اور تمام قوم کو عذاب سے بچا لیا گیا اور بجائے اس کے حضرت یونس خود مصیبت میں پڑ گئے۔ کیونکہ ان کو یہ خیال دامنگیرہوا کہ پیشگوئی قطعی تھی اور خدا کا ارادہ عذاب نازل کرنے کا مصمم تھا۔ افسوس کہ یہ لوگ یونس کے قصہ سے بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔ اس نے نبی ہو کر محض اس خیال سے سخت مصیبتیں اٹھائیں کہ خدا کا قطعی ارادہ جو آسمان پر قائم ہو چکا تھا کیونکر فسخ ہو گیا ہے اور خدا نے ان کی توبہ پر ایک لاکھ آدمی کو بچا لیا اور یونس کے منشاء کی کچھ بھی پرواہ نہ کی’’۔
‘‘کیسے نادان وہ لوگ ہیں جن کا مذہب یہ ہے کہ خدا اپنے ارادہ کو بدلا نہیں سکتا اور وعیدیعنی عذاب کی پیشگوئی کو ٹال نہیں سکتا۔ مگر ہمارا یہ مذہب ہے کہ وہ ٹال سکتا ہے اور ہمیشہ ٹالتا رہا ہے اور ہمیشہ ٹالتا رہے گا اور ہم ایسے خدا پر ایمان نہیں لاتے جو بَلا کو توبہ اور استغفار سے ردّ نہ کر سکے اور تضرّع کرنے والوں کے لئے اپنے ارادوں کو بدل نہ سکے۔ وہ ہمیشہ بدلتا رہے گا۔’’
(تتمہ حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۵۷۱)
اب کیا مولوی ابوالحسن صاحب ندوی حضرت یونس کے نبی ہونے کا بھی انکار کر دیں گے جن کی قوم پر چالیس دن کے اندر عذاب نازل ہونے کی پیشگوئی تھی جسے انہوں نے قطعی سمجھ لیا لیکن حقیقت میں وہ قطعی نہ نکلی اور قوم کے رجوع کر لینے پر موعود عذاب ٹل گیا؟ اگر وہ یونس علیہ السلام والی پیشگوئی کے عذاب کے ٹل جانے کے باوجود انہیں خدا کا ایک نبییقین کرتے ہیں تو حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی اس پیشگوئی سے نکاح والے حصہ کے ٹل جانے کو کیونکر قابلِ اعتراض قرار دے سکتے ہیں جبکہ یہ پیشگوئی محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند مرزا سلطان محمد صاحب کی موت کی وعید سے مشروط تھی جو ان کی توبہ کی وجہ سے ٹل گئی اوراِذَا فَاتَ الشَّرْطُ فَاتَ الْمَشْرُوْطُ کے مطابق نکاح ضرورینہ رہا۔ پس مولوی ابو الحسن صاحب نکاح والے حصہ کے ٹل جانے کو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے دعویٰ کی صداقت کے خلاف پیش کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔
الہاماَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ کی تشریح
یہ درست ہے کہ ازالہ اوہام میں درج ہے کہ ایک دفعہ شدید طور پر بیمار ہوجانے کی صورت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ احساس ہوا کہ شاید اس پیشگوئی کے وہ معنی نہ ہوں جو آپ سمجھتے ہیں بلکہ اس کے سوا کچھ اور معنی ہیں تو آپ پر الہام نازل ہوا کہ اَلْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ۔ مگر اُس وقت اس پیشگوئی کا ابھی تک کوئی حصہ بھی ظاہر نہیں ہوا تھا۔واقعات کے لحاظ سے اس الہام کا منشاء یہ ظاہر کرنا تھا کہ محمدی بیگم کے والد مرزا احمد بیگ کی موت یقینی ہے لہذا اس بارے میں آپ کو کوئی شک نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ اس کے بعد ٹھیک پیشگوئی کے مطابق مرزا احمد بیگ ہلاک ہو گیا اور اس کی ہلاکت کا اس کے تمام دوسرے افراد خاندان پر اثر پڑا اور وہ توبہ اور استغفار میں لگ گئے۔ پیشگوئی کا دوسرا حصہ جو مرزا سلطان محمد کی مو ت سے متعلق تھا ان کے رجوع اور توبہ کی وجہ سے وعیدی پیشگوئیوں کے اصول کے مطابق ضروری الوقوع نہ رہا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کی توبہ کو قبول کر کے عفو سے کام لیا جیسا کہ قوم یونس سے اس نے درگزر سے کام لیا۔
پیشگوئی کا تیسرا حصہ نکاح کا وقوع جو مرزا سلطان محمد صاحب کی ہلاکت سے مشروط تھا، توبہ کے وقوع میں آنے اور مرزا سلطان محمد صاحب کے اس پر قائم رہنے کی وجہ سے ٹل گیا اور اس بارہ میں جو جدید الہام ہوا اس نے بتا دیا کہ جو بیوی آپ ؑکے نکاح میں ہے وہی آپ کے لئے کافی ہے یعنی آپ کو کوئی اور نکاح کرنا نہیں پڑے گا۔
پس مولوی ابو الحسن صاحب کا یہ کہنا کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی درست نہیں۔ کیونکہ پیشگوئی کا ایک حصہ جو مرزا احمد بیگ سے متعلق تھا وہ لفظاً لفظاً پورا ہو گیا۔ اس پیشگوئی میں مرزا سلطان محمد صاحب کے متعلق بھی وعیدی موت کی خبر تھی۔ لہذا توبہ کی وجہ سے مرزا سلطان محمد صاحب بچ گئے اور نکاح کی پیشگوئی ان کے توبہ پر قائم رہنے کی وجہ سے ٹل گئی۔
حدیث نبوی میں وارد ہے:۔
اَکْثِرْ مِنَ الدُّعَاءِ فَاِنَّ الدُّعَاءَ یَرُدُّ الْقَضَاء الْمُبْرَمَ
(کنزالعمال جلد۲ صفحہ ۶۳ حدیث نمبر ۳۱۲۰ ا۔ الجامع الصغیر للسیوطی مصری جلد۱ صفحہ۵۴)
کہ کثرت سے دعا کرو کیونکہ دعا تقدیر مبرم (مبرم سمجھی ہوئی تقدیر) کو بھی ٹال دیتی ہے۔
واضح ہو کہ مرزا احمد بیگ کی پیشگوئی کے مطابق ہلاکت کا اس خاندان پر ایسا اثر پڑا کہ ان میں سے کئی لوگ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں داخل ہو گئے۔ ذیل کے اصحاب خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
۱۔محمد اسحاق بیگ پسر مرزا سلطان محمد صاحب و محمدی بیگم صاحبہ
۲۔ والدہ محمدی بیگم صاحبہ یعنی اہلیہ مرزا احمد بیگ
۳۔ محمودہ بیگم ہمشیرہ محمدی بیگم صاحبہ
۴۔ عنایت بیگم ہمشیرہ محمدی بیگم صاحبہ
۵۔ مرزا احمد حسن صاحب داماد مرزا احمد بیگ
۶۔ مرزا محمد بیگ صاحب پسر مرزا احمد بیگ
نوٹ۔ محمدی بیگمصاحبہ کے پسر مرزا محمد اسحاق بیگ صاحب ایک خط میں لکھتے ہیں:۔
‘‘مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ (حضرت مرزاصاحب۔ ناقل) وہی مسیح موعود ہیں جن کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پیشگوئی فرمائی تھی۔’’
(ماخوذ از اعلانِ احمدیت مندرجہ اخبار الفضل ۲۶ـفروری۱۹۲۱ء)
پس جس خاندان کے ساتھ اس پیشگوئی کا براہ راست تعلق تھا وہ تو اس پیشگوئی کا مصدق ہے اور انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اس کے افراد اصل حقیقت سے واقف ہیں۔ لہذا ان لوگوں کا بیعت کرلینا اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ دوسرے لوگوں کے لئے بھی اس پیشگوئی میں اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں۔
پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے جدو جہد روا ہے
مولوی ابو الحسن صاحب نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ حضرت اقدس ؑ نے اس نکاح کے لئے خطوط وغیرہ کے ذریعہ کوشش کی اور ترغیب و ترہیب کے تمام ذرائع اختیار کئے ۔ مولوی ابو الحسن صاحب کو اس بات کا اعتراف ہے کہ:۔
‘‘خود مرزا صاحب اصولاً اس کے قائل تھے کہ ملہم کو پیشگوئی کی تکمیل کے لئے خود بھی جدو جہد اور تدبیر کرنی چاہیئے اور یہ اس کے منصب و مقام کے منافی نہیں۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۵۹)
اس پر اسی صفحہ پر حاشیہ میں لکھتے ہیں:۔
‘‘وہحقیقۃالوحی میں لکھتے ہیں:۔
اگر وحی الٰہی کوئی بات بطور پیشگوئی ظاہر فرماوے اور ممکن ہو کہ انسان بغیر کسی فتنہ اور ناجائز طریق کے اس کو پورا کر سکے تو اپنے ہاتھ سے اس پیشگوئی کو پورا کرنا نہ صرف جائز بلکہ مسنون ہے۔’’
(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۹۸)
پس پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے جدو جہد ناروا نہیں بلکہ مسنون ہے اور اس اصل پر مولوی ابو الحسن صاحب کو کوئی اعتراض نہیں۔ وہ اعتراض بھی کیسے کر سکتے تھے جبکہ پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے انتہائی جدو جہد کرنا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے ثابت ہے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو جنگِ بدر کی فتح کا وعدہ تھا لیکن اس کے باوجود مقابلہ کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح کے لئے بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ میدانِ جنگ سے ایک طرف ہو کر اس میں فتح کے لئے دعائیں کیں۔
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خداکا وعدہ تھا کہ کنعان کی زمین انہیں دے دی جائے گی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پیشگوئی کو پورا کرنے کی خاطر قوم کو جدو جہد کے لئے بدیں الفاظ ترغیب و ترہیب سے کام لیا۔
يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِيْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰی أَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خَاسِرِينَ(المائدة:۲۲) یعنی اے قوم! ارضِ مقدسہ(کنعان) میں داخل ہو جاو جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے اور اپنی پیٹھوں کے رخ نہ لوٹ جانا ورنہ تم نقصان اٹھا کر لوٹو گے۔
دیکھئے اس میں وعدہٴ الٰہی کا ان الفاظ میں ذکر ہے کہ یہ زمین خدا نے تمہارے لئے لکھ دی ہے۔ اس وعدہ کا ذکر کر کے حضرت موسیٰؑ اس کے فتح کرنے کے لئے ترغیب بھیدیتے ہیں اور وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَمیں نقصان اٹھا کر لوٹنے سے ڈرایا بھی گیا ہے۔ پس پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے ترغیب و ترہیب سے کام لینا جائز امر نہیں بلکہ ضروری ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی بدبختی ملاحظہ ہو کہ اُس نے اس ترغیب و ترہیب پر موسیٰؑ کو یہ جواب دیا۔
فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُوْنَ (المآئدة :۲۵)
( کہ اے موسیٰ! جب خدا نے یہ زمین لکھ دی ہے) تو پھر تو اور تیرا رب جا کر لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں(یعنی کنعان فتح کر لو گے تو ہم اس میں داخل ہو جائیں گے)
مگر اس کا نتیجہیہ ہوا کہ خدا نے کہا:۔
فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَّتِيْهُوْنَ فِي الْأَرْضِ
(المائدة :۲۷)
کہ وہ زمین ان پر چالیس سال کے لئے حرام کر دی گئی ہے اور وہ زمین میں بھٹکتے رہیں گے۔
پسیہ وعدہ الٰہی تاخیر میں جا پڑا اور اس وقت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے ساتھ یہ وعدہٴ الٰہی پورا نہ کیا گیا۔ کیونکہ انہوں نے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے مسنون طریق ترک کر دیا۔
لہذا جب تک محمدی بیگم صاحبہ کے والد مرزا احمد بیگ صاحب نے محمدی بیگم صاحبہ کا نکاح کسی دوسری جگہ نہیں کیا تھا اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ضروری تھا کہ وہ اس نکاح کے لئے خط و کتابت کے ذریعہ جدو جہد کرتے۔
مولوی محمود الحسن صاحب دیوبندی مترجم قرآن کریم، ترجمہ کے صفحہ۱۷۷ کے حاشیہ پر فائدہ نمبر۲ کے تحت یہود کے اس جواب کے متعلق جو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیا کہ تم اور تمہارا خدا جا کر لڑو لکھا ہے:۔
‘‘اسباب مشروعہ کا ترک کرنا توکّل نہیں۔ توکّل تو یہ ہے کہ کسی نیک مقصد کے لئے انتہائی کوشش اور جہاد کرے اور پھر اس کے مثمر اور منتج ہونے کے لئے خدا پر بھروسہ رکھے اور اپنی کوشش پر نازاں اور مغرور نہ ہو۔ باقی اسباب مشروعہ کو چھوڑ کر خالی امیدیں باندھتے رہنا تو کّل نہیں بلکہ تعطّل ہے۔’’
پس پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے ترغیب و ترہیب کوئی قابلِ اعتراض امر نہیں اور یہ ہم بتا چکے ہیں کہ مرزا سلطان محمد صاحب کی توبہ کی وجہ سے اڑھائی سالہ میعاد ٹل گئی تھی اور یہ پہلے الہام کی بناء پر محض اجتہادی تھا کہ مرزا سلطان محمد صاحب کی موت کے بعدمحمدی بیگم آپ کے نکاح میں ضروری آئے گی۔ گویا آپ کا اجتہاد یہ تھا کہ مرزاسلطانمحمد صاحب کسی وقت اپنی توبہ کو ضرور توڑ دیں گے لیکن واقعات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ مرزا سلطان محمد صاحب توبہ پر قائم رہے اس لئے نکاح والا حصہ چونکہ ان کی موت کی وعید سے مشروط تھا اور موت بوجہ ان کے توبہ پر قائم رہنے کے وقوع میں نہ آئی اور اس کے بعد باوجود چیلنج کے مخالفین ان سے تکذیب کا اشتہار بھی نہ دلا سکے کہ ان کی موت کے لئے دوسری میعاد مقرر ہوتی۔ لہذا کسی شخص کو اس پیشگوئی کے ٹل جانے پر یہ کہنے کا حق حاصل نہیں کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ معترضین صرف اس کے ٹل جانے کے متعلق وجہ دریافت کر سکتے ہیں اور وہ وجہ مرزا سلطان محمد صاحب کا توبہ پر قائم رہنا ہے اور ہم یہ بتا چکے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ۱۹۰۶ء میں اپنے الہام کے ذریعہ حضرت مسیحموعود ؑپر ظاہرکر دیا کہ جو خاتون آپ کے نکاح میں ہے وہی کافی ہے۔ اس لئے آپ کی وہ عبارتیں بھی جو اجتہادی تھیں اور نکاح کو یقینی قرار دیتی تھیں قابل اعتراض نہ رہیں کیونکہ اس جدید الہام سے آپ نے اپنے سابق اجتہاد میں تبدیلی فرمالی۔
‘‘یَرُدُّھَا اِلَیْکَ’’کے الہامی الفاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اجتہاد کیا تھا کہیہ نکاح آسمان پر قرار پا چکا ہے۔مگر آسمانی نکاح تعبیر طلب بھی ہوتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دفعہ حضرت اُمّ المومنین خدیجۃ الکبریٰسے فرمایا:۔
اِنَّ اللّٰہَ زَوَّجَنِیْ مَرْیَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ وَ کُلْثُوْمَ اُخْتَ مُوْسیٰ وَامْراَةَ فِرْعَوْنَ قُلْتُ ھَنِیئًا لَّکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ۔
(تفسیردر منثور سورۃ قصص زیر آیت ۱۲)
(یہ روایت ابو امامہ سے مرفوعاً بیان ہوئی ہے کہ آنحضرت نے حضرت خدیجہ سے فرمایا کہ) ‘‘خدا تعالیٰ نے میرا نکاح حضرت عیسیٰؑ کی والدہ مریم بنتِ عمران اور موسیٰ کی بہن کلثوم اور فرعون کی بیوی سے کر دیا ہے۔ حضرت خدیجہ نے جواباً فرمایایا رسول اللہ آپ کو مبارک ہو۔’’
نبی کریم کے تینوں نکاح آسمانی تھے جن کی تعبیر اس رنگ میں پوری ہوئی کہ ان عورتوں کے خاندانوں کے بہت سے لوگ آنحضرتپر ایمان لے آئے۔ اسی طرح مرزا احمد بیگ کے خاندان کے بہت سے افراد اس پیشگوئی پر ایمان لا چکے ہیں جن کا ذکر ہم قبل ازیں کر چکے ہیں۔
ماسواا س کے نکاح کا خواب میں پڑھا جانا علم تعبیر الروٴیا کے مطابق یہ تعبیر بھی رکھتا ہے کہ نکاح سے مراد ایک منصبِ جلیل کا ملنا ہوتا ہے جیسا کہ تعطیر الانام میں لکھا ہے۔
‘‘اَلنِّکَاحُ فِی الْمَنَامِ یَدُلُّ عَلٰی مَنْصَبٍ جَلِیْلٍ’’
یعنی خواب میں نکاح کسی بڑے منصب کے معنے پر دلالت کرتا ہے۔
پس گو حضرت مسیح موعودؑ نے اس کی تعبیریہ کی تھی کہ مرزا سلطان محمد توبہ کو ضرور توڑ دے گا اور پھر نئی میعاد مقرر ہو کر اس کی موت وقوع میں آئے گی اور پھر محمدی بیگم سے آپ کا نکاح ہو گا لیکن واقعات نے آپ کی زندگی میں ہی بتا دیا کہ مرزا سلطان محمد صاحب توبہ پر قائم رہے اس لئے پیشگوئی کی وہ تعبیر وقوع میں نہ آئی جو حضرت مسیح موعودؑ نے کی تھی۔ پھر ۱۹۰۶ء کے الہام نے بھییہ بتا دیا کہ یہ تعبیر وقوع میں نہیں آئے گی۔ چونکہ یہ پیشگوئی۱۸۸۶ء کی تھی جبکہ آپ کا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں تھا اس لئے ۱۸۹۱ء میں آسمانی نکاح کی تعبیر اس رنگ میں ظاہر ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو مسیح موعود کا منصب جلیل عطا فرما دیا۔ باقی رہی حضرت خلیفۃالمسیح اوّلکییہ تعبیر کہ محمدی بیگم کے خاندان کی کسی لڑکی سے مسیح موعودؑ کے خاندان کے کسی لڑکے کا نکاح بھی مراد ہو سکتا ہے۔ سو ایسی تعبیر بھی پیشگوئیوں کے اصول کے خلاف نہیں۔ چنانچہ تاریخ الخمیس جلد۲ صفحہ ۱۰۰پر لکھا ہے:۔
‘‘قَالَ السُّہَیْلیُّ قَالَ اَھْلُ التَّعْبِیْرِ رَأَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فِی الْمَنَامِ اُسَیْدَ بْنَ اَبِی الْعَیْصِ وَالِیًّا عَلٰی مَکَّۃَ مُسْلِمًا فَمَاتَ عَلَی الْکُفْرِ وَ کَانَتِ الرُّؤیَا لِوَلَدِہٖ عَتَّابَ حِیْنَ اَسْلَمَ۔’’
یعنیسُہَیلی نے کہا ہے کہ اہل تعبیر نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خواب میں اُسَیْد بن العیص کو مسلمان ہونے کی حالت میں مکّہ کا والی دیکھا۔ وہ تو کفر پر مر گیا اور رؤیا اس کے بیٹے عَتّاب کے حق میں پوری ہوئی جو مسلمان ہو گیا۔
پس اگر باپ کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے رؤیا کی تعبیر میں جبکہ نبی کی رؤیا وحی ہوتی ہے اس کا بیٹا مراد ہو سکتا ہے تو جس قسم کی تعبیر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے کی ہے وہ بھی شرعاً ممکن ہو سکتی ہے۔
اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رؤیا میں ابو جہل کے ہاتھ میں جنّت کے انگور کا خوشہ دیکھا۔ مگر ابو جہل تو کفر پر مر گیا اور اس کی تعبیریہ نکلی کہ اس کا بیٹا عکرمہ ایمان لے آیااور اس نے جنتیوں والے کام کئے۔
اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ ‘‘خواب کی حالت میں مجھے دنیا کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں۔ یہاں تک کہ میرے ہاتھ پر رکھ دی گئیں۔’’ مگر حضرت ابو ہریرہ اس کی تعبیریہ بتاتے ہیں کہ‘‘رسول کریمؐتو وفات پا گئے اور تم اے صحابہ! ان خزانوں کو لا رہے ہو۔’’
(ملاحظہ ہو بخاریکتاب التعبیر باب المفاتیح فی الید)
مولوی ابو الحسن صاحب کے تنقیدی جائزہ پر ہماری تنقید
مولوی ابو الحسن صاحب نے اپنی کتاب کے‘‘باب چہارم’’ میں تحریکِ قادیانیت کا تنقیدی جائزہ کے عنوان کے تحت جو مضمون لکھا ہے اس کی فصل اوّل میں انہوں نے ‘‘ایک مستقل مذہب اور ایک متوازیاُمّت ’’کے عنوان کے تحت احمدیت کے خلاف یہ غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کی ہے کہ احمدیت اسلام میں کوئی مکتبِ خیالیا مذہبی فرقہ اور جماعت نہیں بلکہ ایک مستقل مذہب ہے اور قادیانی ایک مستقل اُمّت ہیں جو دین اسلام اور اُمّتِاسلامیہ کے بالکل متوازی چلتے ہیں۔
(ملاحظہ ہو قادیانیت صفحہ ۱۶۸)
اس بات کے ثبوت کی کوشش میں وہ حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں جس کا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے سننا بیان کیا ہے کہ:۔
‘‘یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیحیااور چند مسائل میں ہے۔اللہ تعالیٰ کی ذات، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰة غرضیکہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک جز میں ہمیں ان سے اختلاف ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۶۹بحوالہ خطبہ جمعہ مندرجہ الفضل ۳ـجولائی۱۹۳۱ء)
اوریہ کہ:۔
‘‘حضرت خلیفہ اوّل نے اعلان کیا تھا کہ ان کا(مسلمانوںکا) اسلام اور ہے اور ہمارا اسلام اور ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۶۹)
احمدیّت کے مستقل مذہب اور متوازیاُمّت ہونے کی تردید
یہ الزام سراسر غلط ہے واضح ہو کہ مولوی ابو الحسن صاحب نے اس بارہ میں سخن شناسی سے کام نہیں لیا بلکہ محض حقیقت کو نظر انداز کر کے غلط فہمی پھیلانے کے لئے اوپر کے بیانات سے ان کے اصل منطوق کے خلاف یہ غلط نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی ہے کہ جماعت احمدیہ اسلام کے بالمقابل ایک الگ دین اور متوازیاُمّت ہے۔ حالانکہ حقیقتیہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا نام خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ‘‘مسلمان فرقہ احمدیہ’’ رکھا ہے۔ لہذا احمدیّت اسلام سے کوئی الگ دین پیش نہیں کرتی بلکہ یہ دنیا میں صحیح اسلام کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لائے پھیلانے کے لئے ایک مخلصانہ تحریک ہے۔ اوپر کے بیانات کا مطلب صرف یہ ہے کہ احمدی اسلامی تعلیمات پر دوسرے فرقوں کی طرح غافلانہ عامل نہیں بلکہ ان پر پورے اخلاص اور وفاداری سے عامل ہیں۔ مفہوم ان بیانات کا یہ ہے کہ جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کی ذات، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور قرآن مجید کی شان و عظمت کی جو معرفت رکھتی ہے وہ مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کو کَمَا حَقّہٗحاصل نہیں۔ اسی طرح نماز، روزہ، حج، زکوٰة میں گو ہمارا دوسرے مسلمانوں سے بظاہر کوئی فرق نہیں۔ جو فرق ہے وہ ان کی کیفیت میں ہے جو یہ ہے کہ احمدی پورے اخلاص سے ان فرائض کو بجا لاتے ہیں اور دوسرے مسلمان فرقے پوری ذمّہ داری اور اخلاص سے ان فرائض کو بجا نہیں لاتے بلکہ ان کی ادائیگی میں کمال غفلت سے کام لیتے ہیں۔ نمازوں میں انہیں وہ ذوق و خشوع و خضوع حاصل نہیں جو صحابہ کرامکو حاصل تھا۔ زکوٰة کی ادائیگی کا اُن میں کوئی معقول انتظام نہیں۔ حج بھی ایک رسم کے طور پر کیا جاتا ہے صحیح روح کے ساتھ ادا نہیں کیا جاتا کیونکہ اس کے بعد اُن کے اعمال میں روحانی ترقی نہیں ہوتی۔ اِلَّا مَاشَآءَ اللّٰہ ۔
کیا مولوی ابو الحسن صاحب اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ مسلمانوں میں قبروں کو سجدہ کرنے والے اور اہلِ قبور سے حاجات مانگنے والے اب بھی موجود ہیں۔ کیایہ لوگ معرفت الٰہی سے عاری اور قرآن کریم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے سراسر غافل نہیں؟ اگر ایسے لوگ، روزہ اور حج کا فریضہ ادا کرتے بھی ہیں تو ساتھ ہی صریح شرک کے بھی مرتکب ہیں جو تمام نیکیوں کو حبط کر دینے والا ہے۔ پس گو بظاہر ان کی نماز، روزہ اور حج وغیرہ اپنی صورت و شکل میں احمدیوںکی نمازوں اور روزہ اور حج وغیرہ سے کوئی فرق نہیں رکھتے لیکن کیفیت کے لحاظ سے ان میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی نماز، روزہ اور حج و زکوٰة کے ادا کرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔ احمدیوں کی نمازیں انہیں خدا کے فضل سے فحشاء اور منکر سے بچاتی ہیں اور وہ صحیحطور پر إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُکہنے والے ہیں کیونکہ ان کے عقائد و اعمال شرک کی ملونی سے پاک ہیں۔
پس ان گورپرست اور مُردہ پرست مسلمانوں کا اسلام واقعی اس اسلام سے مختلف ہے جس پر احمدی عامل ہیں۔ لیکن احمدیوں کا اسلام اس اسلام سے مختلف نہیں جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم لائے اور جس کی تجدید کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ کو مبعوث فرمایا ہے۔
پس احمدیّت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے علاوہ کوئی نیا دین نہیں رکھتی اور نہ احمدیت اسلام کے بالمقابل کوئی متوازیاُمّت ہے۔ جب حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اُمّتی ہیں تو اُمّتی نبی کے دعویٰ کے ساتھ وہ نیا دینیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کیاُمّت کے متوازیاُمّت بنانے والے قرار نہیں پاسکتے۔ جو خود اُمّتی بھی ہے وہ نئیاُمّت کیسے بنا سکتا ہے؟
رہا احمدیّت میں تبلیغ و اشاعتِ اسلام کے لئے ایک نظام کا قیام، سو یہ متوازی نظام قرار نہیں پا سکتا۔ کیونکہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے بوجہ مجدّدِ اسلام ہونے کے اسلام کے متوازی کوئی نظام پیدا نہیں کیا بلکہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا نظام قائم کر کے تجدیدِ دین کا فرض ہی ادا کیا ہے۔ متوازی نظام کا نام تو اسے دیا ہی نہیں جا سکتا۔ کیونکہ احمدیّت سے پہلے مسلمانوں میں اس زمانہ میں کوئی تبلیغی نظام موجود ہی نہ تھا اور نہ اب تک کوئی نظام موجود ہے تو اس نظام کو کسی قائم شدہ موجود نظام کے متوازی نظام کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہاں اُسے پرانے ختم شدہ نظامِ اشاعتِ دین کی البتہ تجدید ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔ اشاعتِ دین کا نظام تو ایک مجددِ اسلام کو چاہتا تھا اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے ظہور سے پہلے مسلمانوں میں کوئی مجدد اور امام موجود ہی نہ تھا جس کی طرف سے قائم کردہ نظام اشاعت موجود ہوتا بلکہ حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ کے ظہور کے وقت خود مسلمانوں میں تشتّت اور اِفتراق موجود تھا جس کا مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کو اعتراف ہے کیونکہ وہ اپنیاس کتاب میں مسلمانوں کے تشتّت اور اِفتراق کو ہی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ کے دعویٰ کے لئے سازگار حالات قرار دے رہے ہیں۔ اس زمانہ میں مسلمان فرقوں کا یہ حال تھا کہ سب ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہے تھے لہذا ان میں تبلیغ اسلام کے لئے کوئی جوش اور ولولہ موجود نہ تھا۔ تمام فرقے ایک دوسرے سے چپقلش کے مرض میں مبتلا تھے۔ ان میں تبلیغ اسلام کے لئے کوئی تنظیم موجود نہ تھی۔ ہر فرقہ کے علماء اپنی الگ ڈفلی بجا رہے تھے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے تھے۔ اس نازک وقت میں خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑکو بطور مسیح موعود مبعوث کر کے اسلام کی دستگیری فرمائی اور آپ کے ذریعہ خدمتِ اسلام اور اشاعتِ دینِ خیرُ الاَنام کا سلسلہ جاری ہوا تاکہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئیکے مطابق مسیح موعودؑ کے ذریعہ تبلیغ و اشاعتِ اسلام کا کام جاری ہو اور اسلام کو اَدیانِ باطلہ پر غلبہ حاصل ہو۔
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا:۔
اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّةِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرنِ المائۃ)
یعنی بے شک اللہ تعالیٰ اِس اُمّت کے لئے ہر صدی کے سر پر ایسے شخص کو مبعوث کرتا رہے گا جو اِس اُمّت کے لئے اِس کے دین کی تجدید کرے گا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کییہ پیشگوئی چودھویں صدی کے سر پر حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے وجود میں پوری ہوئی۔ کیا مولوی ابو الحسن صاحب کے نزدیکیہ حدیث صحیح نہیں؟ اگر صحیح نہیں تو پھر اس کے مطابق حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے کیوں اپنے اپنے زمانہ میں دعویٰ مجددیّت کیا؟ اگر یہ حدیث مولوی ابو الحسن صاحب کے نزدیک صحیح ہے تو پھر وہ چودھویں صدی کا مجدد پیش کریں جس کو خدا تعالیٰ نے بطور مجددِ دین اسلام کے مبعوث فرمایا ہو۔ مولوی ابو الحسن صاحب کوئی ایسا مدعی پیش نہیں کر سکتے جس نے حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ کی طرح اشاعتِ اسلام کا کام جاری کر کے ایک ایسی جماعت خادمانِ اسلام کی تیار کی ہو جو اشاعتِ دین کا کام ایک نظام کے ماتحت کر رہی ہو اور اکنافِ عالم میں خدا تعالیٰ کی توحید اور رسالتِ محمدیہ کا عَلَم بلند کر رہی ہو۔
جس زمانہ میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اُس زمانہ میں مسلمانوں کی پستی اِس حد تک بڑھ چکی تھی کہ مولوی الطاف حسین صاحب حالی مسلمانوں کی زبوں حالی کا نوحہ کرتے ہوئے اپنے مسدّس میں لکھتے ہیں:۔
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گِر کر نہ اُبھرنا دیکھے
مانےنہ کبھی کہ مَدّ ہے ہر جَزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
پھر وہ لکھتے ہیں:۔
کسی نے یہ بُقراط سے جا کے پوچھا
مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اُس کو ھذیان سمجھیں
سببیا علامتگر اُن کو سمجھائیں
تو تشخیص میں سو نکالیں خطائیں
دوا اور پرہیز سے جی چرائیں
یونہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں
طبیبوں سے ہرگز نہ مانوس ہوں وہ
یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آکے جس کا گھِرا ہے
کنارہ ہے دور اور طوفاں بپا ہے
گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی
پھر علماء وقت کی حالت وہ یوں بیان کرتے ہیں:۔
کوئی مسئلہ پوچھنے ان سے جائے
تو گردن پہ بارِ گراں لے کے آئے
اگر بد نصیبی سے شک اس میں لائے
تو قطعی خطاب اہلِ دوزخ کا پائے
اگر اعتراض اس کی نکلا زباں سے
تو آنا سلامتہے دشوار واں سے
کبھی وہ گلے کی رگیں ہیں پھلاتے
کبھی جھاگ پر جھاگ منہ پر ہیں لاتے
کبھی خُوک اور سَگ ہیں اُس کو بتاتے
کبھی مارنے کو عصا ہیں اٹھاتے
ستوں چشم بد دُور ہیں آپ دیں کے
نمونہ ہیںخُلْقِ رَسُولِ امیں کے
بڑھے جس سے نفرت وہ تقریر کرنی
جگر جس سے شَق ہوں وہ تحریر کرنی
مسلمان بھائی کی تکفیر کرنی
گناہ گار بندوں کی تحقیر کرنی
یہ ہے عالموں کا ہمارے طریقہ
یہ ہے ہادیوں کا ہمارے سلیقہ
پھر وہ مسلمانوں کی مشرکانہ حالت یوں بیان کرتے ہیں:۔
کرے غیر گر بُت کی پوجا تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہرِ سجدہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رُتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں پڑھائیں
شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
سدا اہل تحقیق سے دل میں بل ہے
حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خَلَل ہے
فتاووں پہ بالکل مدارِ عمل ہے
ہر اِک رائے قرآں کا نعم البدل ہے
کتاب اور سنت کا ہے نام باقی
خدا اور نبی سے نہیں کام باقی
بہت لوگ بن کر ہوا خواہِ اُمّت
سفیہوں سے مَنوا کے اپنی فضیلت
صدا گاؤں در گاؤں نوبت بہ نوبت
پڑے پھرتے ہیں کرتے تحصیلِ دولت
یہ ٹھہرے ہیں اسلام کے رہنما اب
لقب ان کا ہے وارث انبیا اب
پھر پِیروں کے متعلق فرماتے ہیں:۔
بہت لوگ پیروں کی اولاد بن کر
نہیں ذاتِ والا میں کچھ جن کے جوہر
بڑا فخر ہے جن کو لے دے کے اس پر
کہ تھے اُن کے اسلاف مقبول داور
کرشمے ہیں جا جا کے جھوٹے دکھاتے
مُریدوں کو ہیں لُوٹتے اور کھاتے
پھر متأسفانہ لکھتے ہیں:۔
وہ عِلم شریعت کے ماہر کدھر ہیں
وہ اخبارِ دیں کے مبصّر کدھرہیں
اصول کدھر ہیں مناظر کدھر ہیں
محدّث کہاں ہیں مفسّر کدھر ہیں
وہ مجلس جو کل سربسر تھی چراغاں
چراغ اب کہیں ٹمٹماتا نہیں واں
اُسے جانتے ہیں بڑا سب سے دشمن
ہمارے کرے عیب جو ہم پہ روشن
نصیحت سے نفرت ہے ناصح سے اَن بَن
سمجھتے ہیں ہم رہنماؤں کو رہزن
یہی عیب ہے سب کو کھویا ہے جس نے
ہمیں ناوٴ بھر کر ڈبویا ہے جس نے
مولوی الطاف حسینصاحب حالی نے مسلمانوں کی زَبُوں حالی کا جو نقشہ کھینچا ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہی وہ زمانہ تھا جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں پیشگوئی فرمائی تھی کہ:۔
یَأْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہٗ وَلَا یَبْقیٰ مِنَ الْقُرآنِ اِلَّا رَسْمُہٗ مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَةٌ وَ ھِی خَرَابٌ مِّنَ الْھُدیٰ عُلَمَاءُھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَآءِمِنْ عِنْدِھِمْتَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَ فِیْھِمْ تَعُوْدُ۔
(مشکوٰۃ المصابیح کتاب العلم الفصل الثالث)
ترجمہ:۔لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کی صرف تحریر باقی رہ جائے گی ان کی مسجدیں تو آباد ہوں گی مگر ہدایت کے لحاظ سے ویران ہوں گی۔ اُس زمانہ کے علماء آسمان کے نیچے بدترین وجود ہوں گے۔ اُن میں سے ایک فتنہ نکلے گا اور پھر انہی میں لوٹ جائے گا۔
اسی حدیث کے مطابق اقتراب الساعۃصفحہ ۱۲ پر لکھا گیا ہے:۔
‘‘اب اسلام کا صرف نام اور قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے۔ مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہیں لیکن بالکل ویران ہیں۔ علماء اس اُمّت کے بدترین اُن کے ہیں۔’’
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری لکھتے ہیں:۔
‘‘سچی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے قرآن مجید بالکل اٹھ چکا ہے۔ فرضی طور پر ہم قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں مگر واللہ دل سے اسے معمولی اور بہت معمولی اور بیکار کتاب جانتے ہیں۔’’
(اخبار اہلحدیث۱۴ـجون ۱۹۱۲ء)
غرض مسلمانوں کی اس زَبُوں حالی کے زمانہ میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوکر ایک جماعت مسلمانوں میں پیدا کی جو اشاعتِ اسلام اور خدمتِ قرآن کے جذبہ اور ولولہ سے سرشار ہے۔ اور اس جماعت میں ایسا نظام پیدا ہو چکا ہے کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقف کر کے اکناف عالم میں تبلیغ و اشاعت اسلام کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ مگر مولوی ابو الحسن صاحبیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِکا مصداق بن کر اس تنظیم کے متعلق یہ غلط فہمی پھیلانا چاہتے ہیں کہ یہ تنظیم اسلام کے بالمقابل کسی متوازی نظام کو قائم کر رہی ہے۔ حالانکہ جماعت احمدیہ صرف قرآن مجید کی اشاعت کے لئے سربکف ہے کیونکہ اس کے امام حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے انہیںیہ تعلیم دی ہے کہ:۔
‘‘میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔ حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولی ہیں اور باقی سب اس کے ظِلّتھے۔ سو تم قرآن کو تدبّر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو۔ ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایااَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔ افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں۔ تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے۔ کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔تمہارے ایمان کا مصدّقیامکذّب قیامتکے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہٴ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی…… پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے۔ یہ بڑی دولت ہے۔ اگرقرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مُضْغَہ کی طرح تھی۔ قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام کتابیں ہیچ ہیں۔’’
(کشتیٔ نوح، روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۲۶، ۲۷)
یہ وہ تعلیم ہے جو حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہؑ نے دی ہے۔ اس کی موجودگی میں مولوی ابو الحسن صاحب کا احمدیت کو اسلام کے بالمقابل ایک متوازی تحریک قرار دینا محض افتراء ہے۔ پس احمدیت کوئی نئیاُمّت نہیں اور نہ احمدیت کوئی نیا مستقل دین ہے بلکہ احمدیت اسلام کی تجدیدکے لئے ایک ایسا مکتبِ فکر ہے جسے خدا تعالیٰ نے اسلام کی نشأة ثانیہ کے لئے قائم کیا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ کو آنحضرتؐ کے صحابہؓ کے مثیل جاننے یا قادیان اور مقبرہ بہشتی کو ایک مقدس مقام قرار دینے اور سالانہ جلسہ کے اجتماع کو ظِلّی حج قرار دینے اور قبرمسیح موعودؑ کی زیارت کی تحریک کرنے سے ہرگز یہ لازم نہیں آجاتا کہ جماعت احمدیہ کی عقیدت کعبۃاللہ اور روضۂ رسولؐ سے نہیں رہی۔ اس افتراء کے جواب میں بجز اس کے ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ صریح غلط بیانی ہے۔ مولوی ابو الحسن ندوی صاحب نے ہمارا دل چیر کر تو نہیں دیکھا۔ انسان کے عقائد کا پتہ یا اُس کی زبان سے لگتا ہے یا عمل سے۔ سو ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ سرور کائنات، فخر الانبیاء سیّد المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں سے افضل اور اعلیٰ ہیں اور ہر نبی کو جو نبوّت بھی ملی وہ آپ کے فیض سے ملی ہے۔ پس ہماری محبت کا اصل مرکز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اور اس کے بعد وہ لوگ ہمارے محبوب ہیں جو آنحضرت ؐ سے محبت رکھنے کا ہمیں سبق دیں۔ اور اس زمانہ میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد علیہ السلام نے آنحضرتؐ سے انتہائی عشق رکھنے کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنی جماعت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے انتہائی محبت کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اس تلقین سے جماعت احمدیہ کے دلوں میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا ولولہ اور جذبہ پیدا کر دیا ہے کہ وہ سرفروشانہ خدمتِ اسلام میں کمربستہ ہیں۔ ان کی قربانیوں کی نظیر زمانہٴ حال کے دوسرے مسلمانوں میں کہیں پائی نہیں جاتی۔ ایسا عشق رسول اور جذبۂ خدمتِ اسلام صرف قُرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں میں ہی مل سکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ظِلّ اور عکس ہونے کے مدّعی ہیں جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ علیہالرحمۃ نے مسیح موعود کے متعلق فرمایا ہے:۔
‘‘یَنْعَکِسُ فِیْہِ اَنْوَارُ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ’’
اور نیز اس کے حق میں فرمایا:۔
‘‘ھُوَ شَرْحٌ لِلْاِسْمِالجَامِع ِالمُحَمَّدِیِّ ونُسْخَةٌ مُنْتَسِخَةٌ مِنْہُ’’
یعنی اُس میں سیّد المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار منعکس ہوں گے اور وہ اسم جامع محمدی کی تشریح اور اس کا دوسرا نسخہ ہو گا جو اسم جامع محمدی کے فیض سے ہوگا’’۔
جب مسیح موعود علیہ السلام کییہ شان اسلام میں مُسلّم ہے تو آپؑ کے صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کے مثیل سمجھنے میں کیا قباحت ہے لہذا اس بارہ میں مولوی ابو الحسن صاحب کا اعتراض ان کے احساسِ کمتری پر دال ہے۔
اِسی طرح اشاعتِ اسلام کو فروغ دینے کے لئے جلسہ سالانہ کے اجتماعات کو ظِلّی حج یا مجازاً حجِ اکبر قرار دینے کے بھییہ معنی نہیں ہیں کہ جب لوگوں پر حج بیت اللہ فرض ہو اس جلسہ میں شامل ہونے سے ان سے فریضہٴ حج ساقط ہو جاتا ہے۔ پس حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے جلسہ سالانہ کے اجتماع کو ظِلّی حج کہنے اور کسی کے اسے مجازاً حجِ اکبر کہہ دینے کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ احمدی حجِ بیت اللہ کے فریضہ سے منکر ہیں۔ احمدی خدا کے فضل سے ہر سال مکّہ معظمہ میں فریضہٴ حج ادا کرنے کے لئے جاتے ہیں اور روضہٴ نبوی کی زیارت سے بھی مشرف ہوتے ہیں۔
ظل اور مجاز کے الفاظ تو ایک اصل اور ایک حقیقت کو ماننے کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں نہ کہ اصل اور حقیقت کے انکار کے بعد۔ پس ظِلّی حج اور مجازی حجِ اکبر کے الفاظ حجِ بیت اللہ پر اعتقاد رکھنے کوثابت کرتے ہیں نہ کہ اس کی نفی کرتے ہیں۔ پس مولوی ابو الحسن صاحب کا اس پر اعتراض محض اُن کے تعصب کا کارنامہ ہے۔
قادیان مرکزِ اسلام
مسیح موعود علیہ السلام چونکہ قادیان میں رہتے تھے اس لئے اس زمانہ میں خداتعالیٰ نے قادیان کو تبلیغ و اشاعت اسلام کا مرکز بنا دیا۔ مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کو اس پر اعتراض ہے وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘ قادیانی اصحاب اس دینی اور روحانی تعلق کی بناء پر جو نئینبوّت اور نئے اسلام کا مرکز ہونے کی بناء پر قادیان کے ساتھ قائم ہوتا ہے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ قادیان مقاماتِ مقدسہ میں سے ایک اہم ترین اور عظیم ترین مقام ہے اور وہ مکہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ کے ساتھ قادیان کا نام لینا ضروری سمجھتے ہیں۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۷۲)
الجواب۔اس کے جواب میں واضح ہو کہ مسلمانوں نے تو پیروں اور مشائخ کی خانقاہوں کو بھیمقاماتِ مقدسہ قرار دے رکھا ہے او رہر سال وہاں عرس کی محفلیں قائمکرتے ہیں اور ان مشائخ کے مقامات کے ساتھ ‘‘شریف’’ کا لفظ بڑھا کر ان کی تقدیس بیان کرتے ہیں تو قادیان کو مسیح موعودؑ کے ظہور پر مرکزاسلام بن جانے کی وجہ سے اگر احمدی مقدس جانیں تو اس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ احمدی کسی نئینبوّت کے قائلہیں؟ احمدی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ظل ہییقین کرتے ہیں نہ کہ کوئی نیا مستقل نبییا تشریعی نبی۔جب مکہ معظمہ و مدینہ منوّرہ کے علاوہ بیت المقدس وغیرہ کو بھی مسلمان ایک مقدس مقام جانتے ہیں اور بغداد کو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کا مولد ہونے کی وجہ سے مقدس سمجھا جاتا ہے تو قادیان کو کیوں مقدس نہ سمجھا جائے جبکہ وہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک مقدس شخصیت کا بصورت مسیح موعود ظہور ہوا۔ مسلمانانِ پاکستان تو پاکستان کی ایک ایک انچ زمین کو مقدس قرار دیتے ہیں۔ اگر اس سے مکّہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ سے علیحدگی کا تصور پیدا نہیں ہوا تو پھر یہ مولوی ابوالحسن صاحب کا تعصب ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ احمدیوں کے قادیان کو مقدس مقام جاننے پر معترض ہیں جب کہ وہ خود ہی حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کا یہ قول بھی اپنی کتاب کے صفحہ۱۷۲ پر نقل کر رہے ہیں کہ ۔
‘‘ ہم مدینہ منوّرہ کی عزت کر کے خانہ کعبہ کی ہتک کرنے والے نہیں ہو جاتے، اسی طرح ہم قادیان کی عزّت کر کے مکّہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ کی توہین کرنے والے نہیں ہو سکتے۔خدا تعالیٰ نے ان تینوں مقامات کو مقدس کیا اور ان تینوں مقامات کو اپنی تجلّیات کے اظہار کے لئے چنا۔ ’’
(الفضل ۳ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ۷)
قادیان کا مکّہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ کی تقدیس سے کوئی ٹکراؤ نہیں کیونکہ مکّہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ کی تقدیس بطور اصل کے ہے اور قادیان کی بطور ظِلّ کے ۔ لہذا یہ مقام غیرت نہیں بلکہ مقام شکر ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہندوسان کے صوبہ پنجاب میں مسیح موعود کو مبعوث فرما کر ہمارے ملک کو بھی ایک عزت بخشی۔
اس کے بعد مولوی ابوالحسن صاحب لکھتے ہیں:۔
‘‘خود مرزا غلام احمد صاحب نے قادیان کو سرزمین حرم سے تشبیہ و تمثیل دی ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔
زمین قادیان اب محترم ہے ہجومِ خلق سے ارضِ حرم ہے’’
گویا ہجومِ خلق کی وجہ سے قادیانکو ارضِ حرم کا سا نظارہ پیش کرنے والا قرار دینا بھی مولوی ابوالحسن صاحب کے نزدیک قابل اعتراض ہے۔ یَا لَلْعَجَب!
بے شک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشتہار منارة المسیح میں بطور اِشَارةُ النصّ قادیان کا قرآن مجید میں مذکور ہونا بیان کیا ہے ۔مگر مولوی ابوالحسن صاحب نے ان باتوں سے جو یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کی ہے کہ ۔
‘‘ان سب بیانات اور قادیان کے بارے میں اعتقادات کا منطقی اور طبعی نتیجہیہی ہونا چاہئے……کہ وہاں سال بسال حاضر ہونے کو حج ہی کا سا ایک مقدس عمل بلکہ ایک طرح کا حج سمجھا جانے لگے۔ ’’
ہمارے نزدیک مولوی ابوالحسن صاحب کا یہ نتیجہ غلط ہے کیونکہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تعلیم کے مطابق کوئی احمدی جو فریضہ حج بیت اللہ ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اگر خانہ کعبہ کا حج نہیں کرتا تو وہ عنداللہ قابل مواخذہ ہو گا۔ قادیان کے جلسہ پر ہر سال جانے سے یہ فریضہ ساقط نہیں ہو سکتا۔ پس ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ مولوی ابوالحسن صاحب جس امر کو منطقی اور طبعی نتیجہ قرار دے رہے ہیں وہ صرف ان کا ایک وہم ہے جو عصبیت کی پیداوار ہے۔
مولوی ابوالحسن صاحبقادیانیت کے صفحہ ۱۷۴ پر لکھتے ہیں۔
’’انفرادیت کا رجحان اور ایک مستقل دین اور نئی تاریخ کے آغاز کا احساس اتنا بڑھ گیا کہ قادیانی حضرات نے اپنی نئی تقویم کی بنیاد ڈال دی اور سال کے مہینوں کے نئے ناموں سے تاریخ لکھنے لگے۔ قادیانیت کے سرکاری ترجمان الفضل میں مہینوں کے جو نام چھپتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔ صلح، تبلیغ، امان، شہادت، ہجرت، احسان، وفا، ظہور، تبوک، اخاء، نبوّت، فتح۔‘‘
الجواب۔مولوی ابوالحسن صاحب ندوی نے نئی تقویم جاری کرنے کو بھی احمدیت کے مستقل دین ہونے کے ثبوت میں پیش کر دیا ہے حالانکہ اس تقدیم میں مہینوں کے جو نام رکھے گئے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں پیش آنےوالے واقعات سے متعلق ہیں۔ ان کا اشارہ احمدیت کی زندگی میں پیش آنے والے کسی واقعہ سے نہیں۔
ماہِ صُلح کا اشارہ صُلح حدیبیہ کی طرف ہے۔ تبلیغ کا اشارہ اس ماہ سے ہے جس ماہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت تبلیغ شروع فرمائی۔ اور امان کا اشارہ اس واقعہ کی طرف ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے غیر مسلموں کو امان دی۔ اسی طرح ہجرت کا اشارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ہجرت کے مہینہ کی طرف ہے۔ ان مہینوں میں ایک ماہ کا نام تبوک رکھا گیا ہے جو اس ماہ کی طرف اشارہ کرنے کی طرف روشن دلیل ہے جس ماہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ تبوک کے لئے روانہ ہوئے ۔ تبوک کے لفظ سے ہر مسلمان تاریخکی تھوڑی واقفیت رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ تبوک کا احمدیت کی تاریخ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ اس سے ہییہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ باقی مہینوں کے نام بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ کے واقعات سے متعلق ہیں۔
اِس تقویم کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ہجری سنہ سے یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ فلاں واقعہ کس موسم میں پیش آیا۔ وہ گرماکا موسم تھا یا سرما کا۔ کیونکہہجری سنہ قمری مہینوں کے لحاظ سے رائج ہے۔ اسلامی تاریخ کے واقعات کو معلوم کرنے کے لئے کہ یہ کس موسم میں ہوئے ہجری شمسی کی تقویم جاری کی گئی ۔ جس سے ہر مسلمان اسلام کی تاریخ جو قمری لحاظ سے بیان ہوتی ہے اس کا صحیح موسم معلوم کر سکتا ہے۔قمری مہینے تو اپنا موسم بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی ایک قمری مہینہ موسم گرما میں آتا ہے تو کبھی وہ موسم سرما میں آجاتا ہے۔ پس یہ نئی تقویم تاریخ اسلام سے فائدہ اٹھانے کی خاطر جاری کی گئی ہے اور اس کے مہینوں کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کے واقعات کے زمانہ کے لحاظ سے رکھے گئے ہیں۔ ان مہینوں سے احمدیت کے کسی مستقل دین ہونے کا وہم پیدا نہیں ہو سکتا۔ مگر تعصب ایسی بلا ہے کہ اس کی وجہ سے ہنر بھی بعض کو عیب دکھائی دینے لگ جاتا ہے۔ یہ سچ کہا گیا ہے۔
ہنر بچشمِ عداوت بزرگترعیبےست
گُل است سعدی و درچشمِ دشمناں خار است
ایک ہندو ڈاکٹر کے خیالات سے مولوی ابوالحسن صاحب کا استدلال
اِس فصل کے آخر میں مولوی ابوالحسن صاحب نے اپنی تائید میں ہندوستان کے ایک ہندو ڈاکٹر کا مضمون نقل کیا ہے اور مضمون نگار کی بڑی تعریف کی ہے کہ اُس نے اس نکتہ کے سمجھنے میں بڑی ذہانت کا ثبوت دیا ہے کہ قادیانیت ایک اسلامی فرقہ نہیں بلکہ ایک مستقل مذہب اور ایک متوازی قوم ہے جو خالص ہندوستانی بنیادوں پر ایک نئے مذہب اور نئے معاشرہ کی تعمیر کرتی ہے۔ (قادیانیت صفحہ ۱۷۶)
مضمون نگار نے لکھا تھا۔
‘‘ سب سے اہم سوال جو اس وقت ملک کے سامنے درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اندر کس طرح قومیّت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔کبھی ان کے ساتھ سو دے معاہدے اور پیکٹ کئے جاتے ہیں۔ کبھی لالچ دے کر ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ ہندوستانی مسلمان اپنے آپ کو ایک الگ قوم تصور کئے بیٹھے ہیں اور وہ دن رات عرب کے ہی گیت گاتے ہیں۔ اگر ان کا بس چلے تو وہ ہندوستان کو بھی عرب کا نام دے دیں۔
اِس تاریکی میں اس مایوسی کے عالم میں ہندوستانی قوم پرستوں پر اور محبّانِ وطن کو ایک ہی امید کی شعاع دکھائی دیتی ہے اور وہ آشا کی جھلک احمدیوں کی تحریک ہے۔ جس قدر مسلمان احمدیت کی طرف راغب ہوں گے وہ قادیان کو اپنا مکّہ تصور کرنے لگیں گے (یہ بالکل جھوٹ ہے۔ محمد نذیر) اور آخر میں محبِّ ہند اور قوم پرست بن جائیں گے۔ مسلمانوں میں احمدیہ تحریک کی ترقی ہی عربی تہذیب اور پان اسلامزم کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ آؤ ہم احمدیہ تحریک کا قومی نگاہ سے مطالعہ کریں۔ ’’
(قادیانیت صفحہ ۱۷۶،۱۷۷)
آگے چل کر لکھتے ہیں۔
‘‘ ایک مرزائی مسلمان کا عقیدہ ہے کہ
۱۔ خدا سمے سمے پر لوگوں کی رہبری کے لئے ایک انسان پیدا کرتا ہے جو اُس وقت کا نبی ہوتا ہے۔
۲۔ خدا نے عرب کے لوگوں میں اُن کی گراوٹ کے زمانہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو نبی بنا کر بھیجا۔
۳۔حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے بعد خدا کو ایک نبی کی ضرورت محسوس ہوئی اس لئے مرزا صاحب کو بھیجا کہ وہ مسلمانوں کی رہنمائی کریں۔’’
آگے لکھتے ہیں۔
‘‘ اب قوم پرست بھائی سوال کریں گے کہ ان عقیدوں سے ہندوستانی قوم پرستی کا کیا تعلق؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح ایک ہندو کے مسلمان ہو جانے پر اس کی شردھا اور عقیدت رام ،کرشن، وید، گیتا اور رامائن سے اٹھ کر قرآن اور عرب کی بُھومی میں منتقل ہو جاتی ہے اسی طرح جب کوئی مسلمان احمدی بن جاتا ہے تو اس کا زاویۂ نگاہبدل جاتا ہے۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) میں اس کی عقیدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ علاوہ بریں جہاں اس کی خلافت پہلے عرب اور ترکستان (ترکی) میں تھی اب وہ خلافت قادیان میں آجاتی ہے اور مکہ مدینہ اس کے لئے روایتیمقامات مقدسہ رہ جاتے ہیں۔ ’’
(قادیانیت صفحہ ۱۷۸)
الجواب۔اِس اقتباس کے جواب میں واضح ہو کہ ہندو مضمون نگار کا یہ بیان کہ:۔
‘‘ جب کوئی مسلمان احمدی ہو جاتا ہے…… تو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) میں اس کی عقیدت کم ہوتی چلی جاتی ہے’’
سراسر غلط اور دور از حقیقت ہے۔ بلکہ اصل حقیقتیہ ہے کہ احمدیّت نے احمدیوں کو ایسا زاویۂ نگاہ دیا ہے جس سے ان کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان تمام انبیاء اور اوّلین و آخرین سے برتر ہے۔ اور حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کے لائے ہوئے دین کے ایک خادم کی حیثیت رکھتے ہیں نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بالمقابل ایک مستقل حیثیت۔ رام اور کرشن کے بالمقابل آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ مستقل حیثیت رکھتے ہیں اس لئے ایک ہندو کے مسلمان ہونے پر اس کی شردھا کم ہو سکتی ہے لیکن احمدی جماعت میں داخل ہوئے ایک مسلمان کی شردھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتی ہے کیونکہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں تحریر فرمایا ہے کہ :۔
‘‘ پس میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) ہے (ہزار ہزار درود و سلام اس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہو سکتا۔ اور اس کی تاثیرِ قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی محبت میں اس کی جان گداز ہوئی۔ اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام ا وّلین اور آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اوروہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذرّیّت شیطان ہے۔ کیونکہ ہر ایکفضیلت کی کنجی اس کو دی گئی اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا۔ جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ ہم کافر نعمت ہوں گے اگراس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اس کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہی میسر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل کھڑے ہیں۔ ’’
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۱۸، ۱۱۹)
اس بیان سے ظاہر ہے کہ مضمون نگار ہندو ڈاکٹر نے احمدیت کو نہیں سمجھا۔ احمدیوں کے نزدیک حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیہ السلام سے محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بالمقابل ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارے نزدیک تمام انسانوں میں سے محبت کے اصل اور اولین مرکز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں۔ پس ہندو ڈاکٹر کا یہ خیال صریح غلط ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب سے تعلق محبت کی وجہ سے ان کی توجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کم ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی بعثت کا مرکزی نقطہ اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بنی نوع انسان کا عشق پیدا کرنا ہے۔ حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے جو عشق تھا اگر اسے بے نظیر نہ سمجھا جائے تو نادرالمثال ضرور ہے۔ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں اپنے محبت کے گیت گاتے ہوئے فرماتے ہیں
برتر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے
جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے
پھر فرماتے ہیں
سب پاک ہیں پیمبر اِک دوسرے سے بہتر
لیک از خدائے برتر خیرالوریٰیہی ہے
حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی بعثت کی تو غرض ہییہ ہے کہ دین اسلام کی تجدید و اشاعت کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت تمام انبیاء کے مقابلہ میں قائم کر کے دنیا سے آپ کا خاتم النبیّین سید المرسلین اور افضل الانبیاء ہونا منوائیں اور تمام دنیا کے رہنے والوں کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی محبّت اور عشق پیدا کریں۔ پس احمدیوں کے دلوں میں مکّہ معظمہ کو بیت اللہ ہونے کی وجہ سے جو عظمت حاصل ہے وہ قادیان کو ہرگز حاصل نہیں۔ پس اس ہندو ڈاکٹر کا یہ استدلال ہمارے نزدیک بالکل غلط ہے کہ جس طرح ایک ہندو کے مسلمان ہو جانے سے اس کی عقیدت اور شردھا رام اور کرشن کے متعلق کم ہو جاتی ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق اس کی شردھا اور عقیدت بڑھ جاتی ہے ایک مسلمان کے احمدی جماعت میں شامل ہونے سے اس کی عقیدت اور شردھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق کم ہو جائے گی اور مرزا غلام احمد علیہ السلام کے متعلق بڑھ جائے گی۔ حضرت مرزا صاحبؑ تو فرماتے ہیں
یک قدم دُوری ازاں عالی جناب
نزدِ ما کفر است و خُسران و تَبَاب
پس ڈاکٹر شنکر داس کا یہ خیال کہ احمدیوں کی عقیدت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کم ہو گئی صریح غلط ہے۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ مسلمان احمدیوں کی مخالفت کرتے ہیں اور احمدیت کو مشکوک نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکال لیا کہ احمدی ان کی قومیت کو اختیار کر سکتے ہیں۔ مگر واقعات نے اُن کے اِس خیال کو غلط قرار دے دیا اور بتا دیا ہے کہ احمدی مسلمان بھی عام مسلمانوں کی طرح قوم کی بنیاد مذہب پر رکھنا پسند کرتے ہیں۔ اسی نظریہ کی وجہ سے امام جماعت احمدیہ اور جماعت احمدیہ نے پاکستان بنایا جانے کی پُر زور تائیدکی۔
ہندو ڈاکٹر صاحب جس قومیت کو پیش کرتے ہیں وہ سیاسی نوعیت کی قومیت کا تصوّر ہے۔ مسلمان بھی سیاسی لحاظ سے اس قومیّت کو اپنا سکتے تھے۔ لیکن ہندوؤں کی ہٹ دھرمی اور بخلا ور عدم رواداری نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ علیحدہ سلطنت کا مطالبہ کریں۔ ورنہ قائد اعظم تو پہلے پکّے کانگرسی تھے لیکن انہوں نے ہندوؤں کی بدسلوکی دیکھ کر ہی مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور پھریہ آواز اٹھائی کہ ملک تقسیم ہونا چاہئے۔
نبوّت محمدیہ کے خلاف بغاوت کے الزام کا ردّ
باب چہارم کی فصل دوم میں مولوی ابوالحسن صاحب ندوی نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر نبوّت محمدیہ کے خلافبغاوت کا الزام لگایاہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘ اسلام کے خلاف وقتاً فوقتاً جو تحریکیں اٹھیں اُن میں قادیانیت کو خاص امتیاز حاصل ہے۔ وہ تحریکیںیاتو نظامِ حکومت کے خلاف تھیںیا شریعت اسلامی کے خلاف لیکن قادیانیت درحقیقتنبوّت محمدی کے خلاف ایک سازش ہے۔ وہ اسلام کی ابدیّت اوراُمّت کی وحدت کو چیلنج ہے کہ اس نے ختم نبوّت سے انکار کر کے اس سرحدی خط کو بھی عبور کر لیا جو اس اُمّت کو دوسریاُمّت سے ممتاز و منفصل کرتا ہے اورجو کسی مملکت کی حدود کو حاضر کرنے کے لئے قائم کیا جاتا ہے۔………… الخ’’
(قادیانیت صفحہ ۱۸۳)
خط کشیدہ الفاظ مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کا صریح افتراء اور بہتان عظیم ہیں۔ مولوی ابوالحسن صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ۱۸۰ء پر ‘‘ختم نبوّت انعام خداوندی اور اُمّت اسلامیہ کا امتیاز ہے’’ کے ماتحت لکھا ہے۔
‘‘یہ عقیدہ کہ دین مکمل ہو چکا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمخدا کے آخری پیغمبر اور خاتم النبیّین ہیں اور یہ کہ اسلام خدا کا آخری پیغام اور زندگی کا مکمل نظام ہے ایک انعام خداوندی اور موہبتِ الٰہی تھا جس کو خدا نے اس اُمّت کے ساتھ مخصوص کیا۔ ’’
(قادیانیت صفحہ ۱۸۰)
واضح ہو کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ کو بھی مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کے اِن معنوں کے ساتھ اتفاق ہے کہ اسلام مکمل دین ہے اور رسول کریمؐ خاتم النبیّین ہیں اور نیا دین اور نیا پیغام لانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی آخری پیغمبرہیں۔ آپؑ اپنی کتاب حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۴۱ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس لحاظ سے آخری پیغمبر ہی مانتے ہیں۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں۔
‘‘ اللہ وہ ذات ہے جو ربّ العالمین اور رحمٰن اور رحیم ہے جس نےزمین اور آسمان کو چھ دن میں بنایا اور آدم کو پیدا کیا۔ اور رسول بھیجے اور کتابیں بھیجیں او ر سب کے آخر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کو پیدا کیا جو خاتم الانبیاء اور خیرالرسل ہے۔’’
(حقیقۃ الوحی،ر وحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۴۵)
پھر اپنی کتاب کشتیٔ نوح میں اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت فرماتے ہیں:۔
‘‘ نوعِ انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن ۔اور تمام آدمزادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلمسو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اُس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اُس کے غیر کو اُس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو۔ تا آسمانپرتم نجات یافتہ لکھے جاؤ۔ اوریاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہو گی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ بلکہ حقیقی نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اُس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی رسول ہے نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامتتک جاری رکھا اور آخر کار اس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لئے ضروری تھا۔ چونکہ یہ ضرور تھا کہ دنیا ختم نہ ہو جب تک محمدی سلسلہ کے لئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا۔ ’’
(کشتیٔ نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۱۳، ۱۴)
مولوی ابوالحسن صاحب پر واضح ہو کہ مسیح موعود نبی اللہ کی آمد کی ساریاُمّت قائل ہے۔ کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث میں جو نواس بن سمعان سے باب خروج الدجال میں مروی ہے۔ آنے والے عیسیٰ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے چار دفعہ نبی اللہ فرمایا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں:
وَیُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیْسیٰ وَاَصْحَابُہٗ … فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیْسٰی وَاَصْحَابُہٗ ۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَاَصْحَابُہٗ … فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُوَاَصْحَابُہٗ اِلَی اللّٰہِ۔
(صحیح مسلم کتاب الفتنباب ذکرالدجال و مشکوٰة باب العلامات بینیدی الساعۃ وذکرالدجال)
ہمارے نزدیک اس حدیث میںاُمّت محمدیہ میں آنے والے مسیح موعود کو استعارہ کے طور پر عیسیٰ کا نام دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے چار دفعہ نبی اللہکہا ہے اور اس حدیث کے مطابق ساریاُمّت محمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد ایکنبیّ اللّٰہکو مانتی چلی آئیہے۔ نیزاُمّت محمدیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم النبیّین بمعنی آخری شریعت لانے والے نبی کے معنوں میں تسلیم کیا ہے نہ کہ مطلق آخری نبی کے معنوں میں۔ کیونکہ عیسیٰنبیّ اللّٰہکا آنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اُمّت کو مسلّم رہا ہے۔ ہاں اُمّت میں اس بارہ میں اختلاف بھی رہا ہے کہ اُمّت محمدیہ میں آنے والا عیسٰی نبی اللہ مسیح ناصری علیہ السلام ہوں گے جو اسرائیلی نبی تھے یا اُن کا کوئی بروز ظاہر ہو گا ۔ چنانچہ مسلمانوں کے ایک طبقہ کا مذہب ‘‘ اقتباس الانوار’’ صفحہ ۵۲ میںیوں لکھا ہے :۔
‘‘ بعضے بر آنند کہ رُوحِ عیسٰی در مہدی بروز کندو نزول عبارت از ہمیں بروز است۔ مطابق ایک حدیث کہ لَا مَھْدِیَّ اِلَّا عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ۔’’
یعنی بعض لوگوں کا یہ مذہب ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی روحانیت مہدی میں بروز کرے گی اور نزول سے مراد یہی بروز ہے مطابق حدیث‘‘لَا مَھْدِیَّ اِلَّا عِیْسٰی کے کہ عیسیٰ اور مہدی ایک ہی شخص ہے۔
حضرت محی الدین ابن عربیؒ کی تفسیر میں لکھا ہے۔
‘‘ وَجَبَ نُزُوْلُہٗ فِی اٰخِرِ الزَّمَانِ بِتَعَلُّقِہٖ بِبَدَنٍ اٰخَرَ’’
(تفسیر محی الدین ابن عربی زیر آیت بَل رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ۔النساء: ۱۵۹)
یعنی حضرت عیسیٰ کا نزول کسی دوسرے بدن کے تعلق سے آخری زمانہ میں ضروری ہے۔
اسی طرح ‘‘خریدة العجائب و فریدة الرغائب’’ صفحہ ۲۱۴ پر لکھا ہے۔
قَالَتْ فِرْقَةٌ مِنْ نُزُوْلِ عِیْسٰی خُرُوْجُ رَجُلٍ یُشْبِہُ عِیْسٰی فِی الْفَضْلِ وَالشَّرَفِ کَمَا یُقَالُ لِلرَّجُلِ الْخَیْرِ مَلَکٌ وَلِلشَّرِیْرِ شَیْطَانٌ تَشْبِیْھًا بِھِمَا وَلَا یُرَادُ الْاَعْیَان۔
ترجمہ۔ ایک فرقہ نے نزول عیسیٰؑ سے ایک ایسے شخص کا ظہور مراد لیا ہے جو فضل و شرف میں عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہ ہو گا ۔ جیسے تشبیہ دینے کے لئے نیک آدمی کو فرشتہ اور شریر آدمی کو شیطان کہہ دیتے ہیں مگر اس سے مراد فرشتہ اور شیطان کی ذات نہیں ہوتی۔
واضح ہو کہ جماعت احمدیہ کا یہی مسلک ہے کہ اُمّت محمدیہ کا ایک فرد اُمّت میں سے عیسیٰ علیہ السلام کا مثیل ہو کر استعارہ کے طور پر پیشگوئیوں میں عیسیٰؑیا ابن مریمؑکے نام سے ذکر کیا گیا ہے ۔ ایسے استعارہ کو جو مثیل کے آنے کے متعلق ہو اصل کا بروز ہی قرار دیا جاتا ہے ۔ پس مسیح موعود کو جو حدیث نبوی میں چار دفعہ نبی اللہ کہا گیا ہے تو اس نبی اللہ کے الفاظ سے تشریعی نبی اللہ مراد نہیں۔ کیونکہ خاتم الانبیاء ہونے کی وجہ سے آخری تشریعی نبی جو شریعت تامّہ کاملہ اِلیٰیومِ القیامتلائے وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں۔ حقیقتیہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جب خاتم النبیّین بمعنی آخری نبی مانا جائے تو آپ کا آخری نبی ہونا چونکہ خاتم النبیّین کے لوازم میں سے ہے اس لئے آپ کو خاتم النبیّین اپنے تمام حقیقی اور لازم معنی کے ساتھ یعنی اپنی پوری حاصل کردہ حیثیت میں آخری نبی ماننا پڑے گا۔
اور خاتم النبیّین کی پوری حیثیتیہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جَامع جَمیع کمالاتِ انبیاء ہیں بلکہ نبوّت کے مرتبہ کے حصول میں انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے ہیں اور آپ اس طرح بھیخاتم ہیں کہ بطو ر علّتِ غائی آپ کی ذات تمام انبیاء کے ظہور میں مؤثر ہے اور آپ سب نبیوں کے مصدق ہیں اور ساتھ ہی آپ تمام انبیاء کرام میں سے آخری شریعت تامّہ مستقلہ اِلیٰیَومِ القیامۃ لانے والے نبی ہیں۔ نبوّت عامّہ کے ساتھ آخری نبی نہیں۔ کیونکہ اگر آپ نبوّت عامہ کے لحاظ سے آخری نبی ہوتے تو کبھی اپنے بعد ایک نبی اللہ کے ظہور کی پیشگوئی نہ فرماتے۔ پس آپ نبوّت مخصوصہ کے لحاظ سے آخری نبی ہیں نہ نبوّت عامّہ کے لحاظ سے۔
بزرگانِاُمّت نے آپ کو آخری شریعت لانے والے نبی کے معنوں میں ہی آخری نبی قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب مجدد صدی دو از دہم اپنی کتاب تفہیماتِ الٰہیہ میں لکھتے ہیں۔
‘‘ خُتِمَ بِہِ النَّبِیُّوْنَ اَیْ لَا یُوْجَدُ مَنْ یَّامُرُہُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ تَعَالٰی بِالتَّشْرِیْع ِعَلَی النَّاِس’’
(تفہیماتِ الٰہیہ جلد ۲ صفحہ ۸۵)
ترجمہ۔آنحضرتصلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ نبیوں پر اس طرح مہر لگائی گئی کہ آئندہ ایسا شخص نہیں پایا جائے گا جسے اللہ تعالیٰ لوگوں پر نئی شریعت دے کر مامور کرے۔
پھر وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘ اِمْتَنَعَ اَنْیَّکُوْنَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ مُسْتَقِلٌّ بِالتَّلَقِّیْ’’
(الخیرالکثیر صفحہ ۸۰ مطبوعہ مدینہ پریس بجنور)
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد مستقل بِالتلقّییعنی شارع نبی کا آنا ممتنع ہے۔
پھر وہ موعود عیسٰیؑ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں۔
‘‘یَزْعَمُ الْعَامَّةُ اِنَّہُ اِذَا نَزَلَ اِلَی الْاَرْضِ کَانَ وَاحِدًا مِّنَ الْأُمَّةِ کَلَّابَلْ ھُوَ شَرْحٌ لِلْاِسْمِ الْجَامِعِ المُحَمَّدِیِّ وَنُسْخَةٌ مُّنْتَسِخَةٌ مِّنْہُ فَشَتَّانَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ اَحَدٍ مِّنَ الْاُمَّةِ۔’’
(الخیر الکثیر صفحہ ۷۲ مطبوعہ مدینہ پریس بجنور)
ترجمہ۔ عامۃ النّاس یہ گمان کرتے ہیں کہ جب مسیح موعود زمین کی طرف نازل ہو گا تو اس کی حیثیت محض ایکاُمّتی کی ہو گی ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی تشریح اور اس کا دوسرا نسخہ ہو گا جو اُسی کے فیض سے ہو گا۔ پس اس کے درمیان اور ایکاُمّتی کے درمیان بڑا فرق ہے۔
اس عبارت میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا کامل ظِل ہی قرار دیا ہے۔
حضرت مولوی عبدالحیٔ صاحب لکھنوی تحریر فرماتے ہیں۔
‘‘بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم یا زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مجرّد کسی نبی کا آنا محال نہیں بلکہ صاحبِ شَرعِ جدید ہونا البتہ ممتنع ہے۔ ’’
(دافع الوسواس فی اثر ابن عباس صفحہ ۱۶ ۔بار دوم ،مطبع یوسفی لکھنؤ)
نیز فرماتے ہیں:
‘‘علماء اہل سنت بھی اِس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عصر میں کوئی نبی صاحبِ شرع جدید نہیں ہو سکتا اور نبوّت آپ کیعام ہے اور جو بھی آپ کے ہم عصر ہو گا وہ متبع شرع محمدیہ ہو گا۔ ’’
(تحذیر الناس مطبوعہ خیر خواہ سرکار پریس سہارن پور)
پس جب علماء اہلسنت کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آخری تشریعی نبی ہیں اور مجرد کسی نبی کا ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد ممتنع نہیں اور علماء اہلسنت حضرت عیسیٰ نبی اللہ کی آمد کے بھی قائل ہیں سو اگر مولوی ابوالحسن صاحب ندوی علمائے اہل سنت میںسے ہیں تو ان کو بھی اس سے انکار نہیںہو سکتا۔ لہٰذا صاف ظاہر ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے اُمّتی نبی ہونے پر ندوی صاحب نے اُمّت محمدیہ سے بغاوت کا جو الزام لگایا ہے وہ سراسر نادرست بلکہ افترا ہے۔ اس دعویٰ سے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا قدم ہرگز اسلام کی راہ سے نہیں ہٹا کیونکہ آپ کا ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ آپ کوئی مستقل شریعتیا جدید دین لانے والے نبی ہیں بلکہ آپ کا یہی دعویٰ ہے کہ آپ متبع شریعت محمدیہ ہیں اور آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے افاضہٴ روحانیہ سے آپ کی کامل پیروی کے بعد اس طرح مقام نبوّت حاصل کیا ہے کہ آپ ایک پہلو سے نبی ہیںاور ایک پہلو سے اُمّتی بھی ہیں۔ لہذا مولوی ابو الحسن صاحب کا حضرت مسیح موعودؑ پر نئیاُمّت بنانے یانبوّت محمدیہ سے بغاوت کا الزام محض جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑاپنی کتاب حقیقۃ الوحی کےتتمہ کے صفحہ ۶۸ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘یہ کہنا کہ نبوّت کا دعویٰ کیا ہے(یعنی جدید تشریعییا مستقلّہ نبوّت کا۔ ناقل) کس قدر جہالت کس قدر حماقت اور کس قدر حق سے خروج ہے۔ اے نادانو! میری مراد نبوّت سے یہ نہیں کہ میں نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوّت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں۔ صرف مراد میرینبوّت سے کثرت مکالمت و مخاطبت الٰہیہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع سے حاصل ہے۔’’
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۵۰۳)
پس حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کینبوّت بلحاظ مسیح موعود ہونے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تابعیت میں ہے۔ اور مسیح موعود کینبوّت خود صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے کیونکہ آنے والے عیسیٰ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے چار دفعہ نبی اللہ قرار دیا ہے۔ اور علماء اُمّت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ مسیح موعود نبی بھی ہو گا اور اُمّتی بھی۔ چنانچہ امام علی القاری علیہالرحمۃ جو فقہ حنفیہ کے جلیل القدر امام اور محدث ہیں اپنی کتاب مرقاة شرح مشکوٰة میں تحریر فرماتے ہیں:
‘‘لَا مُنَافَاةَ بَیْنَ أَنْ یَّکُوْنَ نَبِیًّا وَأنْ یَّکُوْنَ مُتَتَابِعًا لِنَبِیِّنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلِیْہِ وَ سَلَّمَ فِیْ بَیَانِ اَحْکَامِ شَرِیْعَتِہٖ وَاِتْقَانِ طَرِیْقَتِہٖ وَ لَوْ بِالْوَحْیِ اِلَیْہِ کَمَا یُشِیْرُ اِلَیْہِ قَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُعَلَیْہِ وَ سَلَّمَ لَوْ کَانَ مُوْسیٰ حَیًّا لَمَا وَسِعَہُ اِلَّا اتِّبَاعِیْ۔ اَیْ مَعَ النُّبُوَّةِ وَ الرِّسَالَةِ وَاِلَّا فَمَعَ سَلْبِھِمَا فَلَا یُفِیْدُ زِیَادَۃَ المَزِیَّةِ۔’’
(مرقاة شرح مشکوٰۃ کتاب المناقب باب مناقب علی بن ابی طالب)
ترجمہ۔مسیح موعود کے نبی ہونے اور اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا تابع ہونے میں اور آپ کی شریعت کے احکام کے بیان کرنے اور آپ کی طریقت کے پختہ کرنے میں کوئی منافات نہیں خواہ وہ یہ کام اس وحی سے کرے جو اس کی طرف نازل ہوئی ہو جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا قول اس طرف اشارہ کرتا ہے‘‘ کہ اگر موسیٰؑ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا چارہ نہ ہوتا’’۔ مراد یہ ہے کہ موسیٰ اپنینبوّت اور رسالت کے ساتھ تابع ہوتے ورنہمسلوب النبوّت والرسالت ہونے کی صورت میں اُن کا تابع ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی فضیلت کو کوئی فائدہ نہیں دیتا۔
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ امام علی القاری علیہالرحمۃ کے نزدیک مسیح موعود کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبی اور اُمّتی ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی افضلیت بر انبیاء کو ثابت کرتا ہے نہ کہ ایسے نبی کا ہونا نبوّت محمدیہ سے بغاوت ہے۔
تمام اہل سنّت بموجب حدیث نبوی مندرجہ صحیح مسلم تسلیم کرتے ہیں کہ مسیحِ موعود اُمّتی نبی ہو گا تو یہ انصاف کا خون ہو گا کہ حضرت مرزا صاحب پر نبوّت محمدیہ سے بغاوت کا الزام لگایا جائے۔
مولوی ندوی صاحب! ہمارے اور آپ لوگوں کے درمیان اختلاف تو صرف مسیح موعود کی شخصیت میں ہے نہ کہ اس کےاُمّتی ہونے کے منصب میں۔ اگر آپ کے نزدیک اپنے مزعوم مسیح موعود کا اُمّتی نبی ہونا نبوّت محمدیہ سے بغاوت نہیں تو پھر آپ کے لینے اور دینے کے باٹ میں فرق کیوں ہے؟
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا نیا فلسفہ
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے اِسی فصل میں ایک نیا فلسفہ پیش کیا ہے اور یہ فلسفہ خاتم النبیّین کے متعلق اقبالی فلسفہ سے ماخوذ ہے۔ وہ فلسفہ یہ ہے:۔
‘‘عقیدہٴ ختم نبوّتدرحقیقت نوعِ انسانی کے لئے ایک شرفِ امتیاز ہے۔ وہ اِس بات کا اعلان ہے کہ نوعِ انسانی سنبلوغ کو پہنچ گئی ہے اور اس میںیہ لیاقت پیدا ہو گئی ہے کہ وہ خدا کے آخری پیغام کو قبول کرے۔ اب انسانی معاشرے کو کسی نئی وحی، کسی نئے آسمانی پیغام کی ضرورت نہیں۔ اس عقیدے سے انسان کے اندر خود اعتمادی کی روح پیدا ہوتی ہے اور اس کو یہ معلوم ہوتا ہےکہ دین اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ چکا ہے…… اب دنیا کو نئی وحی کے لئے آسمان کی طرف دیکھنے کی بجائے خدا کی پیدا کی ہوئی طاقتوں سے فائدہ اٹھانے اور خدا کے نازل کئے ہوئے دین و اخلاق کے بنیادی اصولوں پر زندگی کی تنظیم کے لئے زمین کی طرف اور اپنی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عقیدہ ختم نبوّت انسان کو پیچھے کی طرف لے جانے کی بجائے آگے کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ انسان کے سامنے اپنی طاقتوں کو صرف کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ وہ انسان کو اپنی جدو جہد کا حقیقی میدان اور رُخ بتلاتا ہے۔ اگر ختم نبوّت کا عقیدہ نہ ہو تو انسان ہمیشہ تذبذب اور بے اعتمادی کے عالم میں رہے گا۔ وہ ہمیشہ زمین کی طرف دیکھنے کی بجائے آسمان کی طرف دیکھے گا۔ وہ ہمیشہ اپنے مستقبل کی طرف سے غیر مطمئن اور متشکک رہے گا۔ اس کو ہر مرتبہ ہر نیا شخص یہ بتلائے گا کہ گلشنِ انسانیت اور روضہٴ آدم ابھی تک نامکمل تھا۔ اب وہ برگ و بار سے مکمل ہوا ہے۔اور وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گا کہ جب اس وقت تک یہ نامکمل رہا تو آئندہ کی کیا ضمانت ہے۔ اس طرح وہ بجائے اس کی آبیاری اور اس کے پھَلوں اور پھُولوں سے متمتع ہونے کے نئے باغبان کا منتظر رہے گا جو کہ اس کو برگ و بار سے مکمل کرے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۸۲،۱۸۳)
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا ختم نبوّت کے متعلق پیش کردہ یہ جدید فلسفہ علمائے اہل سنت کے عقائد و افکار سے صریح تضاد رکھتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولوی ندوی صاحب مسیح موعود کیاُمّت محمدیہ میں بعثت کے عقیدہ کو تمام علمائے اُمّت کے برخلاف نادانستہ ردّ کر رہے ہیں کیونکہ اس طرح ان کے نزدیک زمین کی بجائے اُمّت کو آسمان کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اور وہ اب کسی نئی وحی کے نزول کے قائل نہیں حالانکہ صحیح مسلم کی حدیث میں جس میں نزولِ عیسیٰ کا ذکر ہے۔ اس میں صاف طور پر یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس پر وحی بھی نازل ہو گی۔ پس مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا یہ عقیدہ خلافِ حدیث نبوی بھی ہے اور تمام علمائے اُمّت کے عقیدہ کے بھی خلاف ہے۔ ان کے اس فلسفہ کو جو سراقبال کے افکار سے ماخوذ ہے مِن و عَن کوئی عالمِ دین قبول کرنے کو تیار نہیں۔ یہ نیا فلسفہ پیش کر کے نادانستہ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے اہل السنت کے طریق سے بغاوت کی راہ اختیار کی ہے۔ اور چونکہ یہ فلسفہ نزول مسیح کی پیشگوئیوں کے خلاف ہے اس لئے میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ علمائے اہل السنت ان کے اس جدید فلسفہ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے کیونکہ علمائے اہل السنت مجرد کسی نبی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد ہونا محال نہیں جانتے۔ صرف شرع جدید لانے والے نبی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آنا ممتنع مانتے ہیں۔ چنانچہ اس بارہ میں علمائے اسلام کے بعض حوالہ جات قبل ازیں درج کئے جا چکے ہیں۔ جن سے ظاہر ہے کہ اس نئے فلسفہ کے ذریعہ کہ ‘‘اب زمین کی طرف دیکھنا چاہئے نہ نزول وحی کے لئے آسمان کی طرف’’ مولوی ابو الحسن صاحب اہل السنت کے مذہب پر تبر چلا رہے ہیں کیا وہ ان افکار ملحدانہ کے ذریعہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ان احادیث نبویہ کو ردّ نہیں کر رہے جن میں نزول ابن مریم کیاُمّت محمدیہ کے لئے بشارت دی گئی ہے؟ حالانکہ یہ احادیث نبویہ تواتر معنوی کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں۔ اور وحی کا دروازہ بھی قرآن کریم کے رو سے اُمّتیوں پر بند نہیں بلکہ خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔
اِنَّ الَّذِينَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَآئِكَةُ أَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۞ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۔
(حٰمٓالسجدۃ:۳۱،۳۲)
ترجمہ:۔ جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر استقامتدکھائی ان پر خدا کے فرشتے نازل ہوں گے کہ تم کوئی خوف اور غم نہ کرو اور اس جنت کی بشارت پاؤ جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے مددگار ہیں اور آخرت میں بھی۔
ملائکہ کا یہ نزول بشارات کے ساتھ سچے اور مستقیم الحال لوگوں پر اذنِ الٰہی سے ہی ہو سکتا ہے کیونکہ ملائکہ وہی کام کرتے ہیں جس کا خدا تعالیٰ سے اِذن پاتے ہیں۔ اگر نزولِ وحی کا دروازہ خاتم النبیّین صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کلیۃً بند کرنا خدا تعالیٰ کا مقصود ہوتا تو پھر یہ آیت قرآنِ مجید میں نازل نہ ہوتی۔ پس مولوی ابو الحسن صاحب کے اس جدید فلسفہ کو قرآنِ مجید کییہ آیت صریح طور پر ردّ کر رہی ہے۔ کیونکہیہ آیت مسلمانوں کی توجہ کو آسمان کی طرف اٹھاتی ہے نہ کہ زمین کی طرف۔ یہ ملائکہ کا نزول خدا کے تازہ نشانوں کے ساتھ شریعتِ محمدیہؐ پر کامل یقین پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے۔
بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم النبیّین قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے کئی امور میں تمام انبیائے کرام سے ممتاز کر دیا ہے مگر اس طرح کہ آپ اس لحاظ سے بھی ممتاز ہیں کہ تمام انبیاء کے ظہور میں آپ کا خاتم النبیّین ہونا بطور علّتِ غائی کے مؤثر ہے۔ اور یہامتیاز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم النبیّین کے حقیقی لُغوی معنوں کے لحاظ سے حاصل ہے۔ پھر ایکامتیاز بوجہ خاتم النبیّین ہونے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ حاصل ہے کہ آپ آخری شریعت مستقلّہ تامّہ کاملہ لانے والے نبی ہیں جس کا عمل قیامتتک رہے گا۔ اب آئندہ اس امتیاز کی وجہ سے دنیا کو کسی نئی شریعت کی ضرورت نہ ہو گی۔ لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آخری شریعت تامّہ کاملہ مستقلّہ اِلیٰیَومِالقِیَامۃ لانے کی وجہ سے آخری شارع نبی ہو نے کا بھیامتیاز رکھتے ہیں۔ اب اگر آپ کے امتیوں میں سے آپ کی پیروی اور افاضہٴ روحانیہ کے ذریعہ آپ کا کوئی روحانی فرزند آخری زمانہ میں مسیح ابن مریم کا مثیل ہو کر اس طرح مقامِ نبوّت پائے کہ وہ نبی بھی ہو اورآپؐکا اُمّتی بھی تو ایسے نبی کا آنابھی آپ کے ایکامتیاز اور ایک بلند شان کو ظاہر کرتا ہے اور اس بات کا ثبوت بہم پہنچا دیتا ہے کہ واقعی آپ انبیاء میں روحانی شہنشاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ روحانی شہنشاہ کی اتباع اور پیروی میں آپ کے کسی خلیفہ کا روحانی بادشاہ بن جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کیامتیازی شان کو ہی ظاہر کرتا ہے نہ کہ اسے مٹاتا ہے۔ پس مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کا یہ جدید فلسفہ نہاہل سنّت کے علماء کو مسلّم ہو سکتا ہے نہ جماعت احمدیہ کو کیونکہ ان کا یہ فلسفہ قرآنِ مجید اور احادیث نبویہ کے صریح خلاف ہونے کی وجہ سے محض الحاد ہے۔ واضح ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے تابع اُمّتی نبی کا آنا کسی نئیاُمّت بنانے کے مترادف نہیں ہو سکتا کیونکہجب ایسا نبی خود بھیاُمّتی فرد ہے تو اسے نئیاُمّت بنانے والا قرار دینا محض تحکم اور انصاف کا خون ہے۔
مولوی ابو الحسن صاحب روضۂ آدم کے لئے کسی باغبان کی ضرورت کے قائل نہیں خواہ روضہٴ آدم کے اشجار یعنی بنی نوع انسان روحانیت کے لحاظ سے بالکل بے برگ و بار ہو جائیں اور دہریت اور الحاد کا شکار بنے رہیں۔
مولوی ابو الحسن صاحب یہ خیال پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ روضہٴ آدم کی خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی مجدد کے ذریعہ حفاظت اور نگرانی کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے خیالات کی اشاعت کر کے مولوی ابو الحسن صاحب اسلام دوستی کا ثبوت نہیں دے رہے بلکہ نادان دوست کا پارٹ ادا کر رہے ہیں۔ ان کا یہ فلسفہ ردّ کرنے کے قابل ہے کیونکہیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قوت قدسیہ اور افاضہٴ روحانیہ کو بند اور منقطع قرار دینے کے مترادف ہے۔
اپنے اس جدید فلسفہ کی بناء پر مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا یہ لکھنا کہ:۔
‘‘قادیانیت درحقیقت نبوّت محمدیہ کے خلاف ایک سازش ہے۔’’
( قادیانیت صفحہ ۱۸۳)
محض ان کا افتراء ہے۔ احمدیّتنبوّت محمدیہؐ کے خلاف نہ کوئی سازش ہے نہ نبوّت محمدیہ سے بغاوت ہے۔ بلکہ اس کا مقصد نبوّت محمدیہؐکو تمام انبیاء کینبوّتوں سے برتر اور اتم اور اکمل ثابت کرنا ہے۔ مولوی ابو الحسن صاحب کا یہ قول بھی محض غلط ہے کہ:۔
‘‘وہ (قادیانیت) اسلام کی ابدیت اور اُمّت کی وحدت کو چیلنج ہے۔ اس نے ختم نبوّت سے انکار کر کے اس سرحدی خط کو بھی عبور کر لیا ہے جو اس اُمّت کو دوسری اُمّتوں سے ممتازو منفصل کرتا ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ۱۸۳)
واضح ہو کہ خاتم النبیّین کینبوّت کے ذریعہ جو سرحدی خط کھینچا گیاہے وہ علمائے اہل سنت کے نزدیک صرف یہ مفہوم رکھتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آخری تشریعی نبی ہیں۔اس خط کو احمدیت نے عبور نہیں کیا۔ بلکہ و ہ لاکھوں انسانوں کو کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھوا کر اِس خط کا اُن سے اعتراف کرا رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آخری شریعت تامّہ مستقلّہ لانے والے نبی ہیں اور اپنے فیوض و برکات کے لحاظ سے آپ ایک زندہ نبی ہیں۔ کیونکہ آپ کا افاضہ روحانیہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ یہی خط ہے جو اُمّت محمدیہ کو تمام امتوں سے منفصل اور ممتاز کرتا ہے۔ افسوس ہے کہ مولوی ابو الحسن ختم نبوّت کو یہ معنی دے رہے ہیں کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا افاضہٴ روحانیہ منقطع ہو چکا ہے اور آئندہ آپ کی اتباع اور افاضہٴ روحانیہ سے کوئی شخص اُمّتینبوّت کا مقام پا کر مبعوث نہیں ہو سکتا۔
مولوی ابو الحسن صاحب کا جدید فلسفہ ختم نبوّتیہ ہے اب آسمان کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف زمین کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اُن کے نزدیک ایسی نئی وحی بھی جو پیشگوئیوں اور نشانوں پر مشتمل ہو انسان کو آگے لے جانے کی بجائے پیچھے کی طرف لے جانے والی ہو گی کیا ان کے اس عقیدہ سے یہ ظاہر نہیں کہ وہ تمام اُمّتِمسلمہ کے خلاف مسیح موعود کی آمد سے منکر ہیں کیا ان کے نزدیک وہ سب پیشگوئیاں (معاذ اللہ) غلط ہیں جو مسیح موعود کی آمد کے متعلق احادیث نبویہ میں مذکور ہیں؟ کیا ڈاکٹر اقبال کا تتبع کر کے مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے تمام علمائے اہل السنّت کے خلاف نادانستہ ایک جدید مذہب ایجاد کرنے کی کوشش نہیں کی جو ان کے اپنے عقیدہ متعلق نزولِ مسیح سے بھی تضاد رکھتا ہے جس میں انہوں نے ایسی حدیثوں کو تواترتک پہنچا ہوا قرار دیا ہے۔
(ملاحظہ ہو ‘‘قادیانیت’’ حاشیہ صفحہ ۶۹)
آسمانی سہارے کی ہمیشہ ضرورت ہے
ڈاکٹر اقبال کا یہ فلسفہ اس خیال پر مبنی ہے کہ اب ذہنی ارتقاء چونکہ کمال کو پہنچ چکا ہے اس لئے نوعِ انسانی کو اب آسمانی سہارے یعنی وحی الٰہی کی کوئی ضرورت نہیں حالانکہ باوجود ارتقائے ذہنی کے دنیا کا ایک کثیر حصّہ خلافِ اسلام اشتراکیّت اور سوشلزم کا شکار ہو کر دہریہ بن چکا ہے اور خدا تعالیٰ کی ہستی کا ہی قائل نہیں رہا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں ایسے آسمانی سہارے کی از بس ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ کی وحی کے بیان کردہ آسمانی نشانوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر زندہ ایمان پیدا کرنے کا موجب ہو سکے اور یہ قومیںیا تو اس سے استفادہ کر کے خدا تعالیٰ کی ہستی کی قائل ہو کر اسلام میں داخل ہو جائیںیا اتمام حجت کے بعد خدا تعالیٰ عذاب سے انہیں ملیا میٹ کر دے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے زمانہ کی خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے یُھْلِکَ اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلِّھَا اِلَّا الْاِسْلَامَ(تفسیرابن جریر طبری سورۃ آل عمران آیت ۵۶) کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ تمام ملتوں کو بجز اسلام کے ہلاک کر دے اور مفسرین تسلیم کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا وعدہهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهٗ بِالْهُدَىٰ وَ دِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖمسیح اور مہدی کے زمانہ میں پورا ہوگا۔ پس قرآن و حدیث تو مسلمانوں کی توجہ کو آسمان کی طرف پھراتے ہیں اور مولویابو الحسن صاحب ڈاکٹر اقبال کی پیروی میں اُن کی توجہ زمین کی طرف پھرانا چاہتے ہیں
بہ بیں تفاوتراہ از کجا ست تا بکجا
واضح ہو کہ حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ نے مسیح موعود ہو کر جس نبوّت کا دعویٰ کیا ہے چونکہ وہ اُمّتینبوّت ہے اس لئے نہ یہنبوّت کوئی نئیاُمّت بناتی ہے اور نہ نبوّت محمدیہؐ کے خلاف کوئی سازش قرار پا سکتی ہے۔ کیونکہیہنبوّت تو نبوّت تشریعیہ محمدؐیہ کی تائید اور دین اسلام کی اشاعت کے لئے ہے جو خود بھیاُمّتی ہو دوسریاُمّت بنا ہی کیسے سکتا ہے؟
ختمنبوّت کے متعلق سر اقبال کا فلسفہ!
علّامہ سر اقبال کا یہ فلسفہ کہ ارتقائے ذہنی حاصل ہو جانے کی وجہ سے اب نوعِ انسانی خارجی سہارے سے بے نیاز کر دی گئی ہے گویایہ مفہوم رکھتا ہے کہ اب دنیا کو ایسی وحی کی بھی ضرورت نہیں جو المبشرات یعنی امور غیبیہ پر مشتمل ہو اور جو اپنے روشن نشانوں سے خدا تعالیٰ کی ہستی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت پر تازہ اور زندہ گواہ ہو اور اس طرح زندہ ایمان پیدا کرنے کا موجب ہو۔ اس فلسفہ کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ بچے کو شروع میں اٹھنے اور چلنے کے لئے خارجی سہارے یعنی ماں باپ کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب اس کے اندر خود اٹھنے اور چلنے کی قوت پیدا ہو جائے تو پھر اسے کسی خارجی سہارے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ اس وقت ایسے سہارے کو اپنے لئے باعثِ شرم محسوس کرے گا۔ اسی طرح نوعِ انسانی چونکہ اس زمانے میں کامل ارتقائے ذہنی حاصل کر چکی ہے اس لئے اب وہ وحی کے خارجی اور آسمانی سہارے سے بے نیاز ہو چکی ہے اب ایسے خارجی سہارے کی تلاش اس لئے باعثِ شرم ہے۔ اگر اس فلسفہ کو درست تسلیم کر لیا جائے تو ارتقائے ذہنی کے پیدا ہونے پر کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اب ہمیں قرآن مجید کے خارجی سہارا کی بھی ضرورت نہیں رہی، ہم خود ہی اپنی حیاتِ دنیوی کے لئے لائحۂ عمل بنائیں گے اور اس پر عمل کریں گے۔ پس یہ فلسفہ چونکہ انسان کو قرآن مجید کی تعلیم سے بھی بے نیازی کا سبق دیتا ہے اور اس طرح اس کے ڈانڈے الحاد سے جا ملتے ہیں لہذا ہم اسے کوئی فلسفہ قرار دینے کی بجائے محض ایک شاعرانہ خیال جاننے پر مجبور ہیں کیونکہ اسلامی تعلیم تا قیامتانسان کو قرآن مجید کے خارجی سہارے اور المبشراتوالی وحی کے آئندہ نزول سے بے نیاز قرار نہیں دیتی۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ ہی غنی ہے تم سب اللہ کے محتاج ہو۔ پس حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کا دعویٰ المبشراتوالی وحیپانے کا ہے جو آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی اور افاضۂ روحانیہ سے حاصل ہے۔ تا الحاد و دہریت اور غلط فلسفوں کو مٹایا جائے۔
حضرت مسیح موعود بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام خود تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘یہ خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ نبوّت تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالکل مسدود ہے اور قرآن مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآنِ شریف کا حکم منسوخ کرے یا اس کی پیروی معطل کرے بلکہ اس کا عمل قیامتتک ہے۔’’
(الوصیّت، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۳۱۱حاشیہ)
نیز تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘نبی کے الفاظ سے اس زمانہ کے لئے خدا تعالیٰ کی صرف یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شرف مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ حاصل کرے اور تجدید دین کے لئے مامور ہو۔ یہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری شریعت لاوے کیونکہ شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں جب تک اس کو اُمّتی بھی نہ کہا جائے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا ہے نہ کہ براہِ راست۔’’
(تجلّیاتِ الٰہیہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۱ حاشیہ)
نیز تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘لعنت ہے اُس شخص پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فیض سے علیحدہ ہو کر نبوّت کا دعویٰ کرے۔ مگر یہنبوّت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کینبوّت ہے نہ کوئی نئینبوّت اور اس کا مقصد بھییہی ہے کہ اسلام کی حقّانیت دنیا پر ظاہر کی جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سچائی دکھلائی جائے۔’’
(چشمۂ معرفت،ر وحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ۴۴۱)
ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ مولوی ابو الحسن صاحب کا یہ الزام کہ ‘‘قادیانیتنبوّت محمدیہ کے خلاف ایک سازش ہے اور اسلام کی ابدیّت اور وحدت کو چیلنج ہے’’ سراسر نا درست اور غلط ہے۔ ختم نبوّت سے انکار تب لازم آتا ہے جب کوئی شخص نئی شریعت لانے کا مدعی ہو لیکن جس شخص کا یہ دعویٰ ہے کہ شریعتِ محمدؐیہ کو ابدیت حاصل ہے اسے ختم نبوّت کا منکر قرار دینا سراسر ظلم ہے خواہ اس ظلم کا ارتکاب مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کریںیا علّامہ اقبال۔ لَا رَیب سر اقبال کا یہ بیان سچا ہے کہ ‘‘ایران میں بہائیوں نے ختم نبوّت کے اصول کو صریحاً جھٹلایا۔’’
احمدیت اور بہائیت میں فرق
اس کی وجہ ہمارے نزدیکیہ ہے کہ بہائیوں نے قرآنِ مجید کو منسوخ قرار دے کر اس کی بجائے ایک جدید شریعتپیش کی ہے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے آپ کو خود مسلمانوں سے ایک الگ اُمّت قرار دیا ہے۔ لیکن جماعت احمدیہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان معنوں میں آخری نبی تسلیم کرتی ہے کہ آپ آخری شریعت تامّہ کاملہ مستقلّہ لانے والے نبی ہیں جس کا عمل قیامتتک رہے گا۔ اور قرآنِ مجید کے بعد تا قیامتکوئی نئی شریعت نازل نہیں ہو گی۔ پس بہائی قرآنِ مجید کو منسوخ قرار دے کر نئی شریعت کے قائل ہیں اور جماعت احمدیہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہعلیہ السلام کے اپنے بیانات کے مطابق آپ کو ایک خادمِ اسلام اور اُمّتی نبییقین کرتی ہے جو تجدید دین کے لئے مامور ہوا اور اس کی بعثت کی غرض دنیا پر اسلام کی حقّانیت ظاہر کرنا ہے نہ کوئی نئی شریعت لانا۔
ختمنبوّت کی تفسیر از امام علی القاریؒ
امام علی القاری علیہالرحمۃ جو فقہ حنفیہ کے ایک امام اور جلیل القدر محدّث ہیں خاتم النبیّین کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
اَلْمَعْنٰی اَنَّہُ لَا یَاْتِینَبِیٌّ بَعْدَہٗ یَنْسِخُ مِلَّتَہٗ وَ لَمْ یَکُنْ مِّنْ اُمَّتِہٖ
(موضوعاتِ کبیرباب اللَّام)
ترجمہ: خاتم النبیّین کے معنییہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کی ملّت(شریعت) کو منسوخ کرے اور آپ کیاُمّت میں سے نہ ہو۔
جماعت احمدیہ خاتم النبیّین کے ان لازمی معنی کو صحیح تسلیم کرتی ہے۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی ایسے نبی کے آنے کے قائل نہیں جو شریعتمحمدیہ کو منسوخ کرنے والا ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع نبی کے آنے میں امام علی القاری علیہالرحمۃکے نزدیک آیت خاتم النبیّین مانع نہیں۔ تابع اور اُمّتی نبی کو نئیاُمّت بنانے والا نبی قرار دینا مولوی ابو الحسن صاحب کی صریح زیادتی اور سراسر بے انصافی ہے۔ مولوی ابو الحسن صاحب اور علّامہ اقبال کا احمدیّت پر یہ غلط الزام ہے کہ احمدیہ تحریک سے اسلام کی وحدت کو کوئی خطرہ ہے۔
عجیب بات ہے کہ جماعت احمدیہ تو اپنے تئیں مسلمانوں میں اسلام کی عام اور عرفی تعریف کے لحاظ سے شامل سمجھتی ہے اور یہ دونوں فلاسفر اسے اپنے غلط فلسفہ کو پیش کر کے اسلام کی وحدت کے لئے خطرہ قرار دیتے ہیں حالانکہ اسلام کی اشاعت و ترویج ہی جماعت احمدیہ کی غرض و غایت ہے اور اس کی اغراض میںیہ بھی شامل ہے کہ مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع کر کے ان میں جو فرقہ بندی کا انتشار ہے اسے دور کیا جائے تا ان میں سچی وحدت پیدا ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے پہلے اگر اُمّت میں انتشار موجود نہ ہوتا اور اس کی وحدت بہتر فرقوں میں منقسم ہو کر پارہ پارہ نہ ہو چکی ہوتی تو البتہ کسی ایسےاُمّتی نبی کی بھی ضرورت نہ ہوتی۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے مامور ہونے سے پہلے اُمّت کی وحدت بالکل پارہ پارہ ہو چکی ہوئی تھی اور آپ کی بعثت سے اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ انہیں پھر ایک ہاتھ پر جمع کر کے ان میں وحدت پیدا کی جائے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اُمّت محمدؐیہ کے مسیح موعود کو اپنی احادیث میں‘‘حَکَم عَدَل’’ قرار دیا ہے۔ پس مسیح موعود علیہ السلام اُمّتینبوّت کے ساتھ صرف منصبِ حکمیت رکھتے ہیں نہ نئی شریعت لانے کا منصب۔ مسیح موعود علیہ السلام کینبوّت خدا تعالیٰ کی طرف سے اُمّتِمحمدؐیہ کے اختلافات کو مٹانے کے لئے اور ان میں حقیقی وحدت پیدا کرنے کی غرض سے قائم ہوئی ہے۔ لہذا اسے وحدت اسلامیہ قائم کرنے کا ذریعہ سمجھا جانا چاہیئے نہ کہ وحدتِ اسلام کے لئے کوئی خطرہ۔
بنی اسرائیل میں شریعت لانے والے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے اور خدا تعالیٰ نے اس وجہ سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیلِ موسیٰ قرار دیا ہے کہ آپؐ شریعت ِ جدیدہ لانے والے نبی ہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کے بعد صدہا انبیاء بنی اسرائیل میں بمنصب حَکمیّت مامور ہوئے جو شریعت موسوی کے تابع تھے۔ سورہٴ نور کی آیتوَعَدَ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ (النّور :۵۶)میں خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ ایمان لا کر اعمالِ صالحہ بجا لانے والوں کو خلافتِ محمدؐیہ کی نعمت سے متمتع کیا جائے گا اور وہ سب پہلے گزرے ہوئے خلفاء یعنی موسوی زمانہ کے انبیاء کے مثیل ہوں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد خلفائے راشدین اور مجددین اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہو سلم کے خلفاء ہیں اور حسبِ حدیثنبوی‘‘عُلَمَآءُاُمّتِیْ کَاَنْبِیَاءِ بَنِی اِسْرَآئِیْل’’ کہ میریاُمّت کے علمائے ربّانی بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوں گے مثیل انبیاءبنی اسرائیل بھی ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی اور افاضہٴ روحانیہ کے واسطہ سے انہیں علیٰقدرِ مراتب المبشرات والینبوّت کا حصہ ملنا ضروری تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چونکہ اسلام کی نشأة ثانیہ کی غرض سے اس نبوّت سے کامل حصہ ملنے کی ضروت تھی اس لئے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نبی اللہ کا نام بھی دیا اور اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ(صحیح بخاری)اور فَاَمَّکُمْ مِنْکُمْ(صحیح مسلم) فرما کر اُمّت میں سے اُمّت کا امام بھی قرار دیا۔ پس وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق نبی اللہ بھی ہے اور آپ کا اُمّتی بھی۔ اور اسے عیسیٰ کا نام مثیل عیسیٰ ہونے کی وجہ سے مجازاً اور استعارہ کے طور پر دیا گیا ہے۔ اور طَبرانی کی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نبی اور رسول بتانے کے ساتھ ہی اپنا خلیفہ بھیقرار دیا ہے۔ پس حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ کے دعاوی احادیث نبویہ کے مطابق ہیں۔ لہذا آپ کی تحریک مسلمانوں کی وحدت کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے ذریعہ خدا کے فضل سے وحدت ِاسلامی کا قیام ہو گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبعوث ہونے پر ایک فائدہ اُمّت محمدؐیہ کو دمِ نقد یہ پہنچا ہے کہ اب بہتر فرقوں کی بجائے دو فرقے رہ گئے ہیں۔ ایک وہ جماعت جو مسیح موعود کو ماننے والی ہے یا آپ کے کام کو سراہتی ہے۔ دوسرا وہ گروہ جو آپ کا معاند ہے لیکن خدا ئی وعدہ کے مطابق ایسا ضرور ہو کر رہے گا کہ سارے مسلمان بالآخر تحریکِ احمدیت کو قبول کر لیں گے
قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا
رسول کریم نے یہ فرمایا ہے:۔
یُھْلِکُ اللّٰہُ فِی زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّھَا اِلَّا الْاِسْلَامَ
(تفسیر ابن جریرطبری، سورۃ آل عمران آیت ۵۹)
کہ اللہ تعالیٰ مسیح کے زمانہ میں اسلام کے سوا تمام ملتوں کو ہلاک کر دے گا۔
حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ کے نزدیک اسلام کو غلبہ تین سو سال کے اندر آپؑ کی تحریک کے ذریعے ضرور حاصل ہو جائے گا اور انشاء اللہ اسلام کا جھنڈا سارے عالم میں سربلند ہو گا۔ چونکہ خیر القرون کی تین صدیاں سنّتِ نبویؐ کے مطابق مسیح موعودؑ کے بعد خیر و برکت کا زمانہ ہے اِس لئے جماعت احمدیہ کے نزدیک کوئی اور نبی تین سو سال کے عرصہ میں ظاہر نہیں ہو سکتا۔ اور نبی کی ضرورت اسی وقت پیش آسکتی ہے جب تین صدیاں گزرنے کے بعد اُمّت میں پھر ایسا بگاڑ پیدا ہو جائے کہ عند اللہ آنحضرتؐ کی قوتِ اِفَاضہ سے خدا تعالیٰ کے نزدیک پھر کسی اور نبی کا بھیجنا ضروری ہو۔ امکان کی حد تک تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب اُمّتی نبی کی آمد آیت خاتم النبیّین کے منافی اور خلاف نہیں تو پھر ضرورت پڑنے پر ہزاروں نبی آسکتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا،لیکن امکان اور ضرورت میں فرق ہے جو اہلِ علم سے مخفی نہیں۔ نبی کا بھیجا جانا ضروری اسی وقت ہوتا ہے جبکہ اس کے آنے کے لئے ضرورت ِحقّہ موجود ہو۔ ضرورت ِحقّہ کے بغیر اللہ تعالیٰ کوئی نبی نہیں بھیجتا۔ جب اور جہاں وہ ضرورتِ حقّہ پاتا رہا ہے نبی ضرور بھیجتا رہا ہے۔ چنانچہ نوح کے بعد پے در پے نبی آئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا (المؤمنون :۴۵)
کہ پھر ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے
اِسی طرح اُمّتِموسوی میں بھی صدہا انبیاء کا ظہور ہوا۔ پس مولوی محمد علی صاحب کا جو اقتباس مولوی ابو الحسن صاحب نے اس موقع پر ‘‘قادیانیت’’ کے صفحہ ۹۰،۹۱ پر درج کیاہے وہ ان کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ ہمارے نزدیک آئندہ دھڑا دھڑ نبی آئیں گے تو احمدیہ جماعت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے رہیںگے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:۔
‘‘یاد رکھو اگر اسلام کو کل ادیان پر غالب کرنے کا وعدہ سچا ہے تو یہ مصیبت کا دن اسلام پر کبھی نہیں آسکتا کہ ہزاروں نبی اپنی ٹولیاں علیحدہ علیحدہ لئے پھرتے ہوں۔’’
مولوی محمد علی صاحب کو بوجہ احمدی ہونے کے یہ معلوم ہونا چاہیئے تھا کہ مسیح موعودؑ نے سنّتِ نبوی کے مطابق غلبہٴ اسلام کے لئے اپنا زمانہ تین صدیاں بیان فرمایا ہے۔ لہذا اس عرصہ میں کوئی اور نبی ظاہر نہیں ہو سکتا یا ایسے نبی نہیں آسکتے ہیں جو اپنی اپنی ٹولیاں الگ الگ لے کر احمدیّت کو جو وحدتِ اسلام اور غلبۂ اسلام کے لئے وجود میں آئی ہے پارہ پارہ کر سکیں۔ پس تین سو سال کے عرصہ میں کوئی سچا نبی مسیح موعود ؑ کے بعد ظاہر نہیں ہو سکتا۔ اور اگر کوئی دماغی خرابی کی وجہ سے دعویٰ کرے تو اس کا دعویٰ قابل اعتناء نہیں ہو گا اور وہ ناکام و نامراد رہے گا۔ اور اگر افتراء علی اللہ کر کے دعویٰ کرے تو وہ ناکام بھی رہے گا اور اس کی قطعِ وتین بھی ہو گی حسب آیت کریمہ:۔
لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ
(الحاقہ:۴۶، ۴۷)
سر اقبال تو اب زندہ نہیں لیکن اُن کو اپنی تائید میں پیش کرنے والے مولوی ابوالحسن صاحب بقید حیات ہیں وہ دیکھ لیں کہ سر اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی حالتِ زار اُن کے زمانہ میںیہ تھی جس کو دیکھ کر خود اُن کے دل میںیہ تڑپ پیدا ہو رہی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر تشریف لاویں۔ وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘ کاش کہ مولانا نظامی کی دعا اس زمانہ میں مقبول ہو اور رسول اللہؐ پھر تشریف لائیں اور ہندی مسلمانوں پر اپنا دین بے نقاب کریں۔’’
(مکاتیبِ اقبال حصہ اول صفحہ ۴۱، مکتوب۱۹ـجون ۱۹۱۶ء)
پھر سر اقبال اپنے محوّلہ بیانات کو جنہیں مولوی ابو الحسن صاحب نے پیش کیا ہے حرفِ آخر نہیں جانتے۔ کیونکہ وہ صاف لکھتے ہیں:۔
‘‘بانیٴ تحریک کا دعویٰ سلسلہٴ بروز پر مبنی ہے۔ مسئلۂ مذکور کی تحقیق تاریخی لحاظ سے از بس ضروری ہے۔’’
(مکاتیبِ اقبال حصّہ اوّل صفحہ ۴۱۹ مکتوب بنام پروفیسر الیاس برنی مورخہ ۲۷ـمئی۱۹۳۷ء)
پھر سر اقبال ملّتِ اسلامیہ کے نام اپنے پیغام کے صفحہ ۲۲،۲۳ پر لکھتے ہیں:۔
‘‘جہاں تک میں نے اس تحریک کے منشاء کو سمجھا ہے احمدیوں کا یہ اعتقاد کہ مسیح کی موت ایک عام فانی انسان کی موت تھی اور رجعتِ مسیح گویا ایسے شخص کی آمد ہے جو روحانی حیثیت سے اس کا مشابہ ہے اس خیال سے اس تحریک پر ایک طرح کا عقلی رنگ چڑھ جاتا ہے۔’’
سر اقبال نے احمدیّت کے خلاف جو مضمون لکھا ہے وہ ان کی سیاسی مجبوریوں کی بناء پر ہے۔ اپنے اس خط میں انہوں نے اُمّت کو اس غلط راہ پر ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ان معنوں میں آخری نبی ہیں کہ آپ کے بعد آئندہ کوئی بھیاُمّتی نبی نہیں ہو سکتا۔ نہ عیسیٰؑ کا مثیل اور نہ کوئی اور۔ انہوں نے ختم نبوّت کو اپنے ان جدید معنوں کے لحاظ سے احمدیت کے خلاف سیاسی حربہ کے طور پر استعمال کرنا چاہا ہے۔
سر اقبال کا یہ مضمون جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے حرفِ آخر نہیں۔ یہ۱۹۳۵ء کی تصنیف ہے لیکن وہ ۱۹۳۷ء میںبانیٔ سلسلہ احمدیہ کے دعویٰ کے بروز کے سلسلہ پر مبنی ہونے کی وجہ سے تاریخی لحاظ سے اس کی تحقیق کو ضروری قرار دیتے ہیں۔
آپیہ بھی معلوم کر چکے ہیں کہ سر اقبال احمدیوں کی طرح وفاتِ مسیح کے قائل تھے اور احمدیّت کے اس عقیدہ کو کہ مسیح کی رجعت سے مراد ایسے شخص کی آمد ہے جو روحانی حیثیت سے اُس کا مشابہ ہے معقولیّت کا رنگ رکھنے والا قرار دے چکے ہیں۔
۱۳ـفروری۱۹۳۵ء کے اخبار مجاہد لاہور میں ان کا ایک بیان احمدیوں کے عقیدہ کے متعلق شائع ہوا تھا جس میں لکھا ہے:۔
‘‘یہ عقیدہ کہ حضرت عیسیٰؑ ایک فانی انسان کی مانند جامِ مرگ نوش فرما چکے ہیں نیزیہ کہ اُن کے دوبارہ ظہور کا مقصد یہ ہے کہ روحانی اعتبار سے ان کا ایک مثیل پیدا ہو گا کسی حد تک معقولیت کا پہلو لئے ہوئے ہے۔’’
پھر ختم نبوّت پر سراقبال نے جو مضمون سیاسی مجبوریوں کے ماتحت لکھا اس پر مسلمانوں کے سمجھدار اصحاب نے تنقید بھی کی ہے چنانچہ اخبار سیاست میں سیّد حبیب صاحب نے اُن کے بیان پر ناقدانہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:۔
‘‘علامہ اقبال احرار کی موجودہ فتنہ پروری کی آج حمایت کر رہے ہیں لیکن جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں مرزائیت کم و بیش تیس سال سے موجود ہے۔ اس طویل عرصہ میں
ہر کہ رمز مصطفٰے فہمیدہ است
شرک رادر خوفِ مضمر دیدہ است
کا نعرہ لگانے والے علّامہ اقبال کا طرزِ عمل وہی رہا ہے جس کی تائید و حمایت کی وجہ سے آج میرے ایسے مسلمان موردِ طعن ہو رہے ہیں… علامہ اقبال کی شخصیت، علمیت، ہردلعزیزی، شرافت، نجابت، قابلیت اور بلند اخلاق و شہرت کا حامل اگر وہ بات کہے جو ملّت کے لئے برباد کن ہو تو یقینا ہمیں حق حاصل ہوتا ہے کہ ہم ملّت کے مستقبل کا ماتم کریں اور نوحہ کریں کہ جن سے امیدِ ہدایت تھی وہی ملّت کو گمراہ کر کے تباہی و بربادی کی طرف لے جارہے ہیں۔
یہ حقیقت کہ تیس سال کی طویل میعاد تک علّامہ اقبال کا مسلک مرزائیوں کے متعلق وہی رہا جو آج ہم نے اختیار کر رکھا ہے ناقابلِ انکار ہے۔ علّامہ صاحب نے آج سے پہلے کبھییہ اعلان نہیں کیا کہ مرزائی ختم نبوّت کے دشمن ہیں۔ لہذا یا معاشر المسلمین! تم ان سے آگاہ رہو۔ بلکہ اس کے برعکس سیاسی، علمی، تمدنی اور معاشرتی مجالس میں ان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر یعقوب بیگ اور علّامہ اقبال یکساں بطور مسلمان انجمن حمایتِ اسلام کے رکن رہے اور علّامہ نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا……مسلم لیگ و مسلم کانفرنس میں چودھری ظفر اللہ خان اور علّامہ اقبال یکساں بطور مسلمان ممبر بنے رہے۔ علّامہ صاحب نے نہ صرف کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ معترضین کی تائید بھی نہیں کی اور خود چودھری صاحب کے ماتحت لیگ کے ممبر بنے رہے۔ علّامہ ممدوح لیگ اور کانفرنس کے صدر رہے لیکن آپ نے کبھی اس بات پر اعتراض نہیں کیا کہ ان مجالس میں قادیانی بھی بطور مسلمان شامل ہوئے ہیں۔ قادیان سے ان جماعتوں کو علّامہ صاحب کی صدارت میں مالی امداد ملی مگر علّامہ صاحب نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ پنجاب کونسل میں چودھری ظفر اللہ خان اور علّامہ اقبال دونوں مسلمانوں کے نمائندوں کی حیثیت سے پہلو بہ پہلو کام کرتے رہے۔ اور سائمن کمیٹی کے لئے جب چودھری صاحب کو بطور مسلمان ممبر منتخب کیا گیا تو علّامہ صاحب نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور انتہاء یہ ہے کہ جب حکومت نے گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی کانفرنس کی نیابت کے لئے علّامہ اقبال اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو بحیثیت مسلمان چنا تو نہ صرف علّامہ اقبال نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ وہ لنڈن میں چودھری صاحب کے دوش بدوش کام کرتے رہے… لیکن شاید کہا جائے کہ گزشتہ را صلوات آئندہ را احتیاط جو کچھ ہوا وہ غلط تھا آئندہ علّامہ صاحب ایسا نہ کریں گے۔ اول تو ممدوح کی حیثیت کے بلند فرد کے متعلق یہ عذر ہرگز عذرِ معقول نہیں کہلا سکتا تاہم اگر بہ فرضِ دلیل اس کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو علّامہ اقبال کے پاس اس کا کیا جواب ہے کہ حال ہی میں لنڈن میں جوبلی کے موقع پر جو جماعت اس غرض سے قائم ہوئی ہے کہ برطانیہ اور دنیائے اسلام کے تعلقات بہتر ہونے چاہئیں اس میں علامہ اقبال اور چودھری ظفر اللہ خان دونوں بطور مسلمان شامل ہیں۔ یہ لیگ کی خبر رائٹر نے دس مئی کو دی اور گیارہ مئی کے اخبارات میں شائع ہوئی۔ اس کے ممبر یا برطانیہ کے لارڈ ہو سکتے ہیںیا مسلمان۔ کوئی غیر مسلم غیر انگریز اس کا رکن نہیں ہو سکتا۔’’
(اخبار سیاست ۱۹۳۵ء بحوالہ الفضل )
اس مضمون سے پہلے اداریہ میں سید حبیب لکھتے ہیں:۔
‘‘علّامہ اقبال نے اس بیان میں احرار کی موجودہ شرارت کے جواز کی دلیلیہ پیش کی ہے کہ ختم نبوّت کے انکار کی وجہ سے مسلمانوں میں جو اختلاف پیدا ہوا ہے ہر پہلے اختلاف سے بدتر ہے۔ اگرچہ شیعہ اور سُنّی، حنفی اور وہابی اور دوسرے ایسے جھگڑوں کے متعلق ڈاکٹر صاحب کی رائے سے مجھے اختلاف ہے اور میں آپ سے عرض کرسکتا ہوں کہ شیعہ اور سُنّی اور حنفی اور وہابی اُسی طرح یکجا نماز نہیں پڑھتے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقاتِ ازدواج قائم نہیں کر تے جیسے احمدی اور غیر احمدی۔ تاہم اس دلیل کو ترک کر کے میں علامہ ممدوح سے استصواب کرنے کی جرأت کرتا ہوں کہ کیوں چودھری ظفر اللہ خان کے تقرر کے بعد ان کی محبت ختم رسل (فِدَاہُ اَبِیْ وَ اُمِّیْ) میں جوش آیا اور کیوں اس سے پہلے وہ اس میدان میں نہ اترے حالانکہ اس فتنہ کی عمر کشمیر کمیٹی اور چودھری صاحب کے تقرر سے کوئی تیس سال کے قریب زیادہ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ چودھری صاحب کے رکن پنجاب کونسل منتخب ہونے کے وقت یا ان کے سائمن کمیٹی کا ممبر منتخب ہونے یا ان کے اوّل مرتبہ سر فضل حسین کی جگہ مقرر ہونے پر یا مرزائیوں کی متعدد دیگر تحریکات کے زمانہ میں آپ نے اس گروہ کے خلافِ علم جہاد بلند نہ کیا۔’’
روزنامہ حق لکھنوٴ نے ۲۷ـجون ۱۹۳۵ء کے لیڈنگ آرٹیکل میں لکھا:۔
‘‘ہم کو ڈاکٹر سر محمد اقبال سے اِس حد تک پورا پورا اتفاق ہے کہ احمدیوں اور عام مسلمانوں میں اعتقادات کا بہت بڑا اختلاف ہے اور اگر اِس اختلاف کو شدّت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے تو بعض صورتوں میں مذہبی اعتبار سے احمدی جماعت اور عام مسلمانوں کے درمیان اتحادِ عمل ناممکن سا نظر آتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ احمدیوں کو قطع نظرکر کے کیا اسی قسم کے اختلاف اہل سنّت اور اہل تشیّع میں کارفرما نہیں ہیں۔ کیا یہی تضاد اہل سُنّت کی مختلف العقیدہ جماعتوں میں نہیں ہے؟ وہابی اور حنفی، بریلوی اور دیوبندی اسی طرح مختلف اسکول ہر جماعت میں موجود نہیں ہیں؟ ان میں کی ہر شاخ دوسری شاخ کو اپنے نقطہٴ نظر سے مرتد اور کافر گردانتی ہے اور بطور مدبّرینِ فرنگ کے یہ تو مسلمانوں کا ایک عام مشغلہ ہے کہ اُن میں کاہر فرد دوسرے کو نہایتآسانی سے کافر کہہ دیتا ہے۔ خیریہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کون مومن ہے اور کون کافر لیکن اس تمام اختلاف کو دیکھتے ہوئے سب سے زیادہ محفوظ صورت یہ ہے کہ ہم ہر کلمہ گو کو مسلمان سمجھیں جو خدا کو ایک اور محمد رسول اللہ کو اس کا محبوب اور رسول سمجھتا ہو۔ اگر مسلمان کی تعریف صرف یہی تسلیم کر لی جائے تو جس طرح ایک حنفی کو، ایک وہابی کو، ایک مقلّد کو، ایک غیر مقلّد کو، ایک دیوبندی کو، ایک بریلوی کو مسلمان کہا جا سکتا ہے اسی طرح احمدیوں کو بھی دائرۂاسلام سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اور کسی کو غیر مسلم کہنے کا ہم کو حق ہی کیا ہے جب وہ خود اس پر مُصِر ہو کہ ہم مسلمان ہیں۔ اگر ہم اُس کو مسلمان نہ بھی سمجھیں تو ہمارے اس نہ سمجھنے سے کیاہو سکتا ہے اُس کا عمل خود اُس کے قول سے تسلیم کیا جائے گا۔’’
سر اقبال کا ایک سوال
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے نبوّتِ مسیح موعود کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیغمبر خیز قوت کا ثبوت ہونے کی تردید میں سر اقبال کا ایک سوال ذیل کی عبارت میں درج کیا ہے:۔
‘‘خود بانیٴ احمدیت کا استدلال جو قرونِ وسطیٰ کے متکلمین کے لئے زیبا ہو سکتا ہے یہ ہے کہ اگر کوئی دوسرا نبی نہ پیدا ہو سکے تو پیغمبرِ اسلام کی روحانیت نا مکمل رہ جائے گی۔ وہ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کہ پیغمبرِ اسلام کی روحانیت میں پیغمبر خیز قوت تھی خود اپنینبوّت کو پیش کرتا ہے لیکن آپ اس سے دریافت کریں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کیروحانیت ایک سے زیادہ نبی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہ خیال اس بات کے مترادف ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی نہیں۔ میں آخری نبی ہوں۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۸۶)
الجواب۔مندرجہ بالا اقتباس کا منطقی تجزیہ کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ علّامہ اقبال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پیغمبر خیز قوت پایا جانے کے منکر ہیں اور انکار کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اگر بانیٔ احمدیت کینبوّت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیغمبر خیز قوت کا ثبوت تسلیم کیا جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم میں اور نبی پیدا کرنے کی صلاحیت سے انکار کیا جائے تو بانیٔ احمدیت آخری نبی قرار پاتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی نہیں رہتے۔
مگر میں کہتا ہوں اقبال صاحب نے غورنہیں فرمایا کہ اگر ایک سے زیادہ نبی پیدا کرنے کی صلاحیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں تسلیم بھی کر لی جائے تو پھر بھی جو نبی اس صلاحیت سے سب سے آخر میں پیدا ہو گا اس پر بھی تو یہ اعتراض وارد ہو گا کہ وہ آخری نبی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مطلق آخری نبی نہیں رہتے۔
اصل حقیقتیہ ہے کہ خاتم النبیّین کے معنی محض آخری نبی نہیں بلکہ اس کے معنی جامع کمالاتِ انبیاء کے لئے مؤثر وجود کے ہیں اور لزوماً اس کے معنی آخری تشریعی نبی، شریعت کاملہ اور مستقلہ لانے والے کے ہیں نہ کہ مطلق آخری نبی کے۔ واضح ہو کہ بانیٔ احمدیت کی دلیل کا پہلا مقدمہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم میںنبوّت خیز قوت موجود ہے کیونکہ آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم النبیّین بمعنیبنی تراش قرار دیا ہے۔
(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد۲۲، صفحہ۱۰۰حاشیہ)
ہمارے نزدیکبانیٔ سلسلہ احمدیہ کے استدلال کا یہ مقدمہ بالکل صحیح ہے اور علّامہ اقبال کا اس مقدمہ کو تسلیم نہ کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمتِ شان کے منافی ہے اور آپ کی صریح تنقیص ہے کیونکہ ایک اعلیٰ قوت کے ہونے کے مقابلہ میں اس قوت کی نفی تنقیصِ شان کا باعث ہو گی نہ کہ عظمتِ شان کا۔
علّامہ اقبال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں اس قوت کی نفی ظاہر کرنے کے لئے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ اگر یہ قوت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم میں موجود ہے تو پھر ایک ہی نبی کیوں پیدا ہوا جو خود بانیٔ احمدیت ہیں۔ ہم علّامہ صاحب کے اس مقدمہ کو درست نہیں مانتے جس پر موصوف نے اپنے استدلال کی عمارتکھڑی کی ہے۔ کیونکہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا عقیدہیہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کا مرکزی نقطہ ہیں اور مرکز سے محیط تک جتنے خطوط بھی ہیں ان میں جس قدرانبیاء و اولیاء پائے گئے اور پائے جاتے ہیں۔ ان سب کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود بطور علّتِ غائی مؤثر ہے۔ چنانچہ آپؑ سُرمہ چشم آریہ میں تحریر فرماتے ہیں:
‘‘بجز ایک نقطہ مرکز کے ( جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے۔ ناقل) اور جس قدر نقاطِ وتر ہیں ان میں دوسرے انبیاء و رُسل و اربابِ صدق و صفا بھی شریک ہیں اور نقطہٴ مرکز اُس کمال کی صورت ہےکہ جو صاحبِ وتر کو بہ نسبت جمیع دوسرے کمالات کے اعلیٰ و ارفع و اخص و ممتاز طور پر حاصل ہے جس میں حقیقی طور پر مخلوق میں سے کوئی اس کا شریک نہیں ہاں اِتّباع و پیروی سے ظِلّی طور پر شریک ہو سکتا ہے۔ اب جاننا چاہیئے کہ دراصل اسی نقطۂ وسطیٰ کا نام حقیقتِ محمدیہ ہے جو اجمالی طور پر جمیع حقائقِ عالم کا منبع واصل ہے اور درحقیقت اسی ایک نقطہ سے خطِ وتر انبساط و امتداد پذیر ہوا ہےاور اسی نقطہ کی روحانیت تمام خطِ وتر میں ایک ہویّتِ ساریہ ہے جس کا فیض اقدس اس سارے خط کو تعیّن بخش ہو گیا ہے…… غرض سر چشمہرموز غیبی و مفتاحکُنوزِ لَارَیْبِی اور انسانِ کامل دکھلانے کا آئینہیہی نقطہ ہے اور تمام اسرارمبدء و معاد کی علّتِ غائی اور ہریک زیر و بالا کی پیدائش کیلمّیتیہی ہے۔ جس کے تصوّر بِالکُنَہ اور تصور بَکُنَہ سے تمام عقول و افہام بشریہ عاجز ہیں۔ اور جس طرح ہر ایک حیات خدا تعالیٰ کی حیات سے مستفاض اور ہر ایک وجود اس کے وجود سے ظہور پذیر اور ہریک تعیّن اُس تعیّن سے خلعت پوش ہے۔ ایسا ہی نُقطہ محمدیہ جمیع مراتب اَکوان اورخَطائرِ اِمکان میں باذنہ تعالیٰ حسبِ استعداداتِ مختلفہ و طبائع متفاوتہ مؤثر ہے۔’’
(سرمہ چشم آریہ ، روحانی خزائن جلد۲ صفحہ ۲۶۷ تا ۲۷۱حاشیہ)
اس عبارت سے لاعلمی کی بناء پر علّامہ اقبال نے یہ خیال کر لیا کہ بانیٔ احمدیت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیغمبر خیز قوت کے ثبوت میں صرف اپنا ہی وجود پیش کرتے ہیں اور وہ اس امر سے ناواقف رہے کہ بانیٔ احمدیت تو آدم علیہ السلام سے لے کر قیامتتک کے لئے تمام انبیاء و اولیاء کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نقطہٴ نفسی کو بطور علّتِ غائی کے مؤثر قرار دیتے ہیں۔ پس الٰہی سکیم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت سے خاتم النبیّین ہیں جبکہ ابھی آدمؑ کا خمیر اٹھ رہا تھا۔ کیونکہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
اِنِّی عِنْدَ اللّٰہِفِیْ اُمِّ الْکِتَابِخَاتَمُالنَبِیِّیْن وَاِنَّ آدَمَلَمُنْجَدِلٌ فِیْ طِیْنَتِہٖ۔
(کنز العمال جلد ۱۱ حدیث نمبر ۳۲۱۱۴ شائع کردہ منشورات مکتبہ التراث الاسلامی۔ حلب، مطبعۃ الثقافۃ، الطبعۃ الاولیٰ ۱۹۷۴ء)
یعنی میں اس وقت بھی اللہ کے حضور خاتم النبیّین تھا جبکہ آدم ابھی گیلی مٹی میں لت پت تھا۔
لہذا آپ کا خاتم النبیّین ہونا بطور علّتِ غائی کے تمام انبیاء کے ظہور میں مؤثر رہا ہے خواہ وہ انبیاء تشریعی تھے یا غیر تشریعی۔
پس علّامہ اقبال کا یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیغمبر خیز قوت میں بانیٔ احمدیت نے صرف اپنے وجود کو ہی پیش کیاہے۔ بلکہ اصل حقیقتیہ ہے کہ بانیٔ احمدیت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوّت کو تمام انبیاء کے ظہور میں مؤثر قرار دیاہے۔آیت خاتم النبیّین کا سیاق بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ایسی ہی شان کا مظہر ہے۔ کیونکہ اس سیاق کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ابوالانبیاء کے مفہوم میں خاتم النبیّین قرار دیا گیا ہے۔ تفصیل اِس اِجمال کییوں ہے کہ آیت کے پہلے حصّے میںمَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ (الأحزاب:۴۱)میںیہ بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں گویا آپؐکی اَبُوّتِ جسمانی کی بالغ نرینہ اولاد کی رو سے نفی کی گئی ہے اور اس کے بعد مثبت جملوں وَلَٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ سے آپؐ کی روحانی اَبُوّت کا اس طرح اثبات کیا ہے کہ رسول ہونے کے لحاظ سے آپؐ کو اُمّت کا باپ اور خاتم النبیّین ہونے کے لحاظ سے انبیاء کا باپ قرار دیا گیا ہے۔ یہی تفسیر اس آیت کی مولوی محمد قاسم نانوتوی بانیٔ دارالعلوم دیوبند نے اپنی کتاب تحذیر الناس میں کی ہے۔ پس علّامہ اقبال کی دلیل کا مقدمہ باطل ہوا۔ اور ثابت ہو گیا کہ خاتم النبیّین کی تاثیر قدسیہ کے ثبوت میں بانیٔ احمدیت نے صرف اپنا وجود ہی پیش نہیں کیا بلکہ تمام انبیاء کو پیش کیا ہے۔
علّامہ اقبال کا یہ خیال کہ بانیٔ احمدیت کے بعد اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فیض سے کوئی نبی پیدا نہ ہو تو بانیٔ احمدیت آخری نبی بن جاتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی نہیں رہتے…… اس نتیجہ کے پیدا کرنے میں بھی علّامہ اقبال ایک غلط فہمی میں مبتلا تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے تابع آخری غیر تشریعیاُمّتی نبی کا وجود خواہ وہ کوئی بھی ہو ہرگز حقیقی خاتم النبیّین قرار نہیں پاتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبیّین محض آخری نبی کے معنوں میں نہیں۔ کیونکہ آخریّت خاتم النبیّین کے حقیقی معنی کو جو نبیوں کے لئے مؤثر وجود ہونے کے معنی میں اس مفہوم میں لازم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آخری شریعت تامہ کاملہ مستقلہ لانے والے نبی ہیں جس کا عمل قیامتتک رہے گا۔ ان معنوں میں نہ بانیٔ احمدیت آخری نبی ہو سکتے ہیں اور نہ تا قیامتکوئی اورشخص۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی اپنی تمام حیثیتِ حاصلہ کے ساتھ ہیں نہ کہ اس حیثیت حاصلہ نظر انداز کر کے صرف آخری نبی۔ پس کسی نبی کا صرف آخریاُمّتی نبی ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنی حیثیت حاصلہ کے ساتھ آخری نبی ہونے کی صفت کو نہیں چھینتا بلکہ اس کا آخریاُمّتی نبی ہونا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فیضان اور آپؐ کے آخری شارع نبی ہونے کو ثابت کرتا ہے۔
پس علّامہ اقبال کا یہ سوال احمدیہ لٹریچر سے ناواقفی کا نتیجہ ہے اور مولوی ابو الحسن صاحب بھی ان کی تقلید میں ناواقفی سے غلط فہمی کا شکار ہیں۔
مولوی ابو الحسن صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۸۶ کے فٹ نوٹ میں سیاقِ عبارت سے علیحدہ کر کے حضرت بانیٔ احمدیت علیہ السلام کی ایک عبارت خطبہ الہامیہ سے مع ترجمہ بزعم خود علّامہ اقبال کی تائید میں پیش کی ہے۔ وہ عبارت مع ترجمہ از خطبہ الہامیہیہ ہے۔
‘‘فَکَانَ خَالِیًا مَوْضِعُ لَبِنَةٍ اَعْنِی المُنْعَمُ عَلَیْہِ مِنْ ھٰذِہِ العِمَارةِ فَاَرَادَ اللّٰہُ اَنْ یُّتِمَّ النَّبَأَ وَ یُکْمِلَ البِنَاءَ بِاللَّبِنَةِ الْاَخِیْرَةِ فَأَنَا تِلْکَ اللَّبِنَۃُاَیُّھَا النَّاظِرُوْنَ۔’’
(خطبہ الہامیہ روحانی خزائن، جلد ۱۶ صفحہ ۱۷۷، ۱۷۸)
ترجمہ۔اور اس عمارت میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی۔یعنی منعم علیھم کی پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیشگوئی کو پورا کرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بناء کو کمال تک پہنچاوے۔ پس میں وہی اینٹ ہوں۔
اِس عبارت سے ظاہر ہے کہ اس کے سیاق میں آپؑ کسی پیشگوئی کا ذکر کر رہے ہیں جس کا تعلق مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ کے اس زمانہ میں ظہور سے تھا۔ اور پھر اپنے ذریعہ اس پیشگوئی کی عمارت کی تکمیل بطور آخری اینٹ کے قرار دے رہے ہیں۔ اس سے پہلی عبارت کا جب مطالعہ کیا جائے تو اس سے ظاہر ہے کہ اس جگہ آپؑ نےاِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّآلِّينَکی دعا سے جو سورہٴ فاتحہ میں مذکور ہے ایک پیشگوئی کا استنباط فرمایا ہے جس کا یہ مفہوم ہے کہ اس میں آخری زمانہ میں مُنْعَمْ عَلَیْھِمْاور اَلْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ اور اَلضَّالِیْن کی خبر دی گئی تھی۔ پھر بتایا ہے کہ مسلمانوں میں جب مغضوب علیھم اور الضالین کے دونوں گروہ پیدا ہو چکے تو اب میرے ذریعہمنعم علیھم کا گروہ بھی ظاہر ہو گیا ہے اور میں اس خبر کے پورا ہونے پر اس کی عمارت کی تکمیل کے لئے بمنزلہ آخری اینٹ کے ہوں۔ یعنی اب میرے ظہور سے یہ پیشگوئی علی وجہ الکمال پوری ہو گئی ہے۔ اس عبارت کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ میں اس اُمّت میں آخریاُمّتی نبی ہوں اور میرے بعد کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہو سلم کی ظلّیت میں مقامِ نبوّت نہیں پا سکتا۔ چنانچہ خطبہ الہامیہ کے بعد کی کتاب لیکچر سیالکوٹ میںاِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی تفسیر میں ہی تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘لہٰذا ضرور ہوا کہ تمہیںیقین اور محبت کے مرتبہ پر پہنچانے کے لئے خدا کے انبیاء وقتاً بعد وقتٍ آتے رہیں جن سے تم وہ نعمتیں پاوٴ۔’’
(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۲۲۷)
نیز اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں اپنے تئیں محمد اور احمد کے نام سے متّصف ہو کر آیت اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ کا بطور بروز مصداق قرار دیتے ہیں اور تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘یہ ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنینبوّت کا بھی اظہار کریں۔’’
( ایک غلطی کا ازالہ،روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ۲۱۵)
ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد وقتاً فوقتاً بروزی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی ظل مقام نبوّت پا سکتا ہے۔ لہذا آپ ان معنوں میں اپنے آپ کو کبھی آخری نبی قرار نہیں دے سکتے جس کے بعد کسی بروزی اور ظِلّی نبی کا امکان نہ ہو۔ پس خطبہالہامیہ صفحہ ۱۱۲ پر اپنے تئیں آخری اینٹ ان معنوں میں قرار دے رہے ہیں کہ آپ منعم علیہم گروہ کا اس زمانہ میں اکمل فرد ہیں۔ چنانچہ مولوی ابو الحسن صاحب کی طرف سے پیش کردہ عبارت سے دو سطر بعد آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
اِنِّیْ جُعِلْتُ فَرْدًا اَکْمَلُ مِنَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ فِیْ اٰخِرِ الزَّمَانِ وَلَافَخْرَ وَ لَا رِیَاءَ وَاللّٰہُ فَعَلَ کَیْفَ اَرَادَ وَ شَاءَ
(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۱۷۸)
مَیں اس آخری زمانہ میں منعم علیہم گروہ کا فرد اکمل بنا دیا گیا ہوں اور اس بیان میں کوئی فخر اور نمائش نہیں۔ اللہ نے جیسا چاہا کر دیا۔
پس منعم علیہم کی آخری اینٹ سے مراد خطبہ الہامیہ کی عبارت میں منعم علیہم کا اکمل فرد ہے۔ اسی طرح خطبہ الہامیہ میں آپ نے لکھا ہے:
‘‘اَنَا خَاتَمُ الْاَوْلِیَاءِ لَا وَلِیَّ بَعْدِیْ اِلَّا الَّذِیْ ھُوَ مِنِّیْ
وَ عَلٰی عَھْدِیْ۔ ’’
(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۷۰)
کہ میں خاتم الاولیاء ہوں۔ میرے بعد کوئی ولی نہیں سوائے اس کے جو مجھ سے ہو اور میرے عہد پر ہو۔
پس آپ نے اپنے تئیںاُمّت محمدیہ میں خاتم الخلفاء اور سلسلہ محمدیہ کا آخری خلیفہ بھی قرار دیا ہے مگر ان معنوں میں نہیں کہ خلافت منقطع ہو گئی ہے بلکہ یہ معنی مراد ہیں کہ اب آئندہ خلافت کے لئے آپ واسطہ ہوں گے۔ چنانچہ آپؑ لیکچر سیالکوٹ میں فرماتے ہیں:۔
‘‘چونکہیہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سر پر پیدا ہو۔ اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظل کے ہو۔’’
(لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۲۰۸)
مولوی محمد علی صاحب پریذیڈنٹ احمدیہ انجمن اشاعتِ اسلام لاہور نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ایک بیان کو جس میں ہزاروں انبیاء کے امکان کا ذکر ہے قابل اعتراض قرار دیاتھا۔
مولوی ابو الحسن صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کے اس بیان پر کہ
‘‘اگر اسلام کو کُل ادیان پر غالب کرنے کا وعدہ سچا ہے تو یہ مصیبت کا دن اسلام پر کبھی نہیں آسکتا کہ ہزاروں نبی اپنی اپنی ٹولیاں علیحدہ علیحدہ لئے پھرتے ہوں۔’’
حاشیہ میں اپنے ایک نوٹ میں مولوی محمد علی صاحب پر چوٹ کرتے ہوئے لکھا ہے:۔
‘‘میاں صاحب (یعنی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ۔ناقل) اس عقیدہ کے مصنّف یا موجد نہیں۔ انہوں نے تو صرف مرزا صاحب کی ترجمانی کی ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۹۰)
اِس حاشیہ سے ظاہر ہے کہ مولوی ابو الحسن صاحب یہ جانتے ہیں کہ حضرت بانیٔ احمدیت علیہ السلام نے اپنے بعد بھی انبیاء کے آنے کو ممکن قرار دیا ہے۔ لہذا مولوی ابوالحسن صاحب نے اپنے پچھلے بیان میں جو‘‘آخری اینٹ’’ کے الفاظ علّامہ اقبال کے اِس امر کی تائید میں پیش کئے ہیں کہ بانیٔ احمدیت اپنے بعد کسی اور نبی کا امکان نہیں مانتے اوراپنے آپ کو آخری نبی جانتے ہیں۔ اس کی تردید تو مولوی ابو الحسن صاحب کے اس حاشیہ سے ہی ہو جاتی ہے۔ اور اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ جان بوجھ کر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے خلاف یہ غلط الزام دے رہے تھے کہ آپ اپنے آپ کو آخری نبی جانتے ہیں اور اپنے بعد کسی نبی کے آنے کی نفی کرتے ہیں۔
افسوس ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کو اُمّتی انبیاء کا امکان تسلیم کرنے پر تو الگ الگ ٹولیاں بن جانے کے خیال سے اعتراض ہے لیکن خود انہوں نے غیر نبی ہوتے ہوئے خلافتِ احمدیہ کا انکار کر کے ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد اور اپنی الگ ٹولی بنانے سے احتراز نہیں کیا۔
حضرت مسیح موعودؑ کا ایک اقتباس
مولوی ابو الحسن صاحب اپنی کتاب کے صفحہ ۱۹۲ پر براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ۱۸۳ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذیل کا اقتباس ایک غلط مفروضہ کے عنوان کے تحت درج کرتے ہیں کہ:۔
‘‘ایسا نبی کیا عزّت اور کیا مرتبت اور کیا تاثیر اور کیا قوّتِ قدسیہ اپنی ذات میں رکھتا ہے جس کی پیروی کے دعویٰ کرنے والے صرف اندھے اور نابینا ہوں ۔اور خدا تعالیٰ اپنے مکالمات و مخاطبات سے ان کی آنکھیں نہ کھولے۔ یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وحی الٰہی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ہے اور آئندہ کو قیامتتک اس کی کوئی بھی امید نہیں۔ صرف قصّوں کی پوجا کرو۔ پس کیا ایسا مذہب کچھ مذہب ہو سکتا ہے جس میں براہِ راست خدا تعالیٰ کاکچھ بھی پتہ نہیں لگتا۔ جو کچھ ہیں قصّے ہیں۔ اور کوئی اگرچہ اس کی راہ میں اپنی جان بھی فدا کرے۔ اُس کی رضا جوئی میں فنا ہو جائے اور ہر ایک چیز پر اُس کو اختیار کرے تب بھی وہ اُس پر اپنی شناخت کا دروازہ نہیں کھولتا اور مکالمات اور مخاطبات سے اس کو مشرف نہیں کرتا۔
مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس زمانہ میں مجھ سے زیادہ بیزار ایسے مذہب سے اور کوئی نہ ہو گا۔ مَیں ایسے مذہب کا نام شیطانی مذہب رکھتا ہوں نہ کہ رحمانی۔اور مَیںیقین رکھتا ہوں کہ ایسا مذہب جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔’’
(روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۳۵۳، ۳۵۴)
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا مسیح موعودؑ کے اقتباس پر اعتراض
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ اقتباس پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
‘‘مرزا صاحب نے مکالمات اور مخاطباتِ الٰہیہ کو معرفت و نجات اور صداقت و حقّانیت کی شرط قرار دے کر اُس مذہب کو جس کو اللہ تعالیٰ نے سہل اور ہر شخص کے لئے قابلِ عمل قرار دیا تھا نہایت مشکل اور محدود بنا دیا ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۹۳)
اس کے بعد مولوی ابو الحسن صاحب لکھتے ہیں:۔
‘‘مکالمۂ الٰہی کو ہدایتو فلاح کی شرط قرار نہیں دیا گیا بلکہ اس کے برعکس ایمان بالغیب کو ہدایت کی پہلی شرط قرار دیا گیا ہے اور ایمان بالغیب کا مفہوم ہییہ ہے کہ نبی کے اعتماد پر (جس کو اللہ تعالیٰ اجتبائی طور پر مکالمہٴ الٰہی کے لئے انتخاب کرتا ہے) غیبی حقائق کو جو تنہا عقل اور حواسِ ظاہری کی مدد سے معلوم نہیں کئے جا سکتے تسلیم کیا جائے۔ اگر مرزا صاحب کا ارشاد تسلیم کر لیا جائے کہ مکالمۂ الٰہیمعرفت و نجات کے لئے شرط ہے تو ایمان بالغیب کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور اس پر قرآن مجید کا اصرار سمجھ میں نہیں آتا۔’’
(قادیانیت صفحہ۱۹۴، ۱۹۵)
پھر آگے چل کر صحابہ کرام کے متعلق لکھا ہے:۔
‘‘کوئی شخص جو اس دور کی تاریخ اور اس جماعت کے مزاج و حالات بلکہ انسانی طبائع اور نفسیات سے واقف ہے اس کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ایک لاکھ افراد سے متجاوز اس قدسی جماعت کو مکالمہ مخاطبۂ خداوندی حاصل تھا اور جب صحابہ کرام کا یہ حال تھا تو بعد کے لوگوں کا کیا ذکر۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۹۵)
الجواب
مولوی ابو الحسن صاحب کی طرف سے قرآن مجید میں شریعتِ تامہ کاملہ کے نازل ہو جانے کے بعد مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے انکار سخت قابلِ تعجب ہے۔ اس اقتباس سے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کا یہ مقصد نہیں کہ ہر مسلمان کو مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف کیا جانا ضروری ہے بلکہ آپ نے ایسے لوگوں کے لئے مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف کیا جانا ضروری قرار دیا ہے جوخدا کی رضا جوئی میں فنا ہو جائیں اور ہر ایک چیز پر اس کو اختیارکر لیں۔ دوسرے لوگ اس شخص کے مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے بالواسطہ فائدہ اٹھا کر اپنے ایمان کو تازہ کریں گے۔ آپ نے نجات کے لئے ہر شخص کے مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ حاصل کرنے کی شرط نہیں لگائی کہ اس سے اسلام جیسے سہل دین کا نجات پانے کے لئے مشکل ہونا لازم آجائے۔ آپ نے صاف طور پر فرما دیا ہوا ہے کہ:۔
‘‘زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ سے زندہ خدا ملے۔ زندہ خدا وہ ہے جو ہمیں بلاواسطہ مُلْھَمْکر سکے اور کم از کم ہم بلاواسطہ مُلْھَمْکو دیکھ سکیں۔ سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا اسلام کا خداہے۔’’
(تبلیغ رسالت جلد۶ صفحہ۱۵)
اِس اقتباس سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے نزدیک نجات پانے کے لئے ہر شخص کا مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے براہِ راست مشرف ہونا ضروری نہیں۔
خدا تعالیٰ کا متکلم ہونا اس کی ایک ازلی صفت ہے اس لئے یہ عقیدہ سراسر باطل ہے کہ کسی زمانہ سے خدا تعالیٰ کییہ صفت بالکل معطّل ہو جائے۔ اگر وہ پہلی اُمّتوں میں اپنی محبت سے سرشار اور دین کے لئے قربانیاں دینے والوں کو اپنی ہمکلامی کا شرف بخشتا رہا ہے تو یہ ناممکن ہے کہ وہ شریعتِ محمدیہ چلنے والوں اور خدا کی محبت میں فنا ہو جانے والوں کو اپنی ہمکلامی کے شرف سے محرورم رکھے۔ جبکہ شریعت محمدیہ ایک زندہ شریعت ہے اور قیامتتک باقی رہنے والی ہے۔ اس عقلی دلیل کے علاوہ واقعات کی طرف سے بھی آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ اُمّتِمحمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں اولیاء اللہ گزرے ہیں جو خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف رہے۔ خدا تعالیٰ توبنی اسرائیل کی عورتوں پر وحی نازل فرماتا رہا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کیاُمّت کو بالکل اس نعمت سے محروم کر دے۔ اور اس شخص کو بھی اس سے محروم رکھے جس نے اپنے تئیں اس کی محبت میں محو رکھا ہو۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو جو وحی ہوئی اس کا قرآن مجید میں ان الفاظ میں ذکر موجود ہے:۔
وَأَوْحَيْنَا إِلٰى أُمِّ مُوْسىٰ أَنْ أَرْضِعِيْهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيْهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِيْ وَلَا تَحْزَنِيْ إِنَّا رَادُّوْهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ (القصص :۸)
ترجمہ۔ اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو وحی کی کہ اس کو دودھ پلا اور جب تجھے اس کے بارہ میں ڈر ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور ڈر نہیں اور غم نہ کر۔ ہم اس کو تیری طرف لوٹا لائیں گے اور اس کو رسولوں میں سے ایک رسول بنائیں گے۔
اسی طرح حضرت مریم علیہا السلام سے خدا تعالیٰ فرشتہ کے ذریعہ ہمکلام ہوا۔ اور فرشتہ نے کہا إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا (مريم:۱۱)یعنی میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ تجھے لڑکا پیدا ہونے کی بشارت دوں۔
پس جب پہلی اُمّتوں میں ایسا مکالمہ جو امور غیبیہ پر مشتمل ہو ضروری تھا تو اُمّتِمحمدیہ میں اس کی ضرورت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے؟ اُمّتِمحمدیہ میں ہزاروں اولیاء مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ کی نعمت سے سرفراز ہوئے ہیں۔ ان کے الہامات کی بعض مثالیں بطور نمونہ ہم نے اپنی کتاب کے صفحہ ۲۰تا۲۲ پر درج کی ہیں جو سب قرآنی آیات پر مشتمل ہیں جو ان بزرگوں پر الہاماً نازل ہوئیں۔
حضرت مجدد الف ثانی علیہالرحمۃ اپنے مکتوبات میں تحریر فرماتے ہیں:۔
اِنَّ کَلَامَ اللّٰہِ قَدْ یَکُوْنُ شَفَاھًاوَ ذَالِکَ الْاَفْرَادُ مِنَ الْاَنْبِیَاءِ وَ قَدْ یَکُوْنُ لِبَعْضِ الْکُمَّلِ مِنْ مَّتَابِعِیْھِمْ۔
یعنی اللہ تعالیٰ کبھی اپنے بندوں سے بالمشافہ کلام کرتا ہے اور یہ لوگ انبیاء ہوتے ہیں اور کبھی انبیاء کے بعد اُن کے کامل متبعین سے بھی اس طرح کلام کرتا ہے۔
وَاِذَا کَثُرَ ھٰذَا القِسْمُ مَعَ وَاحِدٍ مِّنْھُمْ سُمِّیَ مُحَدَّثًا
یعنی جب انبیاء کے کسی کامل متبع سے خدا تعالیٰ اس قسم کا کلام بکثرت کرتا تو اس کا نام محدث یعنی مکلم من اللہ رکھا جاتا ہے۔
پھرحضرت مجدد الف ثانی علیہالرحمۃ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘ہمچنانکہ نبی علیہ الصلوٰة والسلام آں علم را از وحیاخذ مے کرد۔ ایں بزرگواران بطریق الہام آن علوم را از اصل اخذمے کنند۔ علماء ایں علوم را از شرائع اخذ کردہ بہ طریق اجمال آوردہ اند ہماں علوم چنانکہ انبیاءراعلیہم الصلوٰة والسلام حاصل بود تفصیلًا و کشفاً ایشان را نیز بہماننہج حاصل میشود اصالۃً وتبعیّۃً درمیانست بہ ایں قسم کمالِ ازاولیاءاکمل بعضے ایشاں را بعد از قرونِ متطاولہ واز منہٴ متباعدہ انتخاب مے فرمایند۔’’
(مکتوبات جلد۱ صفحہ ۴۰، مکتوب سی ام مطبوعہ نولکشور واقع کانپور)
ترجمہ۔ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم وہ علوم وحی سے حاصل کرتے تھے یہ بزرگوار الہام کے ذریعہ وہی علوم اصل یعنی خداتعالیٰ سے حاصل کرتے ہیں اور عام علماء ان علوم کو شریعتوں سے اخذ کر کے بطریق اجمال پیش کرتے ہیں وہی علوم جس طرح انبیاء کو تفصیلاً وکشفاً حاصل ہوتے ہیں ان بزرگوں کو بھی انہی طریقوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ دونوں کے علوم کے درمیانصرف اصالت اور تبعیّت کا فرق ہوتا ہے۔ ایسے باکمال اولیاء میں سے بعض کو صدیوں اور لمبا زمانہ گزرنے پر انتخاب کیا جاتا ہے۔
حضرت سید اسماعیل صاحب شہیدؒ اپنی کتاب منصبِ امامتمیں تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘باید دانست ازاں جملہ الہام است ہمیں الہام کہ بانبیاء ثابت است آں وحی گوئند و اگر بغیر ایشاں ثابت مے شود اوراتحدیث مے گوئند وگاہے درکتاب اللہ مطلق الہام را خواہ بانبیاء ثابت مے شود خواہ باولیاء اللہ وحی مے نامند۔’’
(منصبِ امامتصفحہ۳۱)
ترجمہ۔ خدا تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک الہام بھی ہے۔ یہ الہام جو انبیاء کو ہوتا ہے اسے وحی کہتے ہیں اور جو انبیاء کے علاوہ دوسروں کو ہوتا ہے اس کو تحدیث کہتے ہیں۔ کبھی مطلق الہام کو خواہ انبیاء کو ہو یا اولیاء کو قرآن مجید کی رو سے وحی کہتے ہیں۔
ان اقتباسات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُمّت محمدیہ کے اولیاء اللہ کو مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ کی نعمت سے محروم نہیں کیا گیا۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے محروم تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ گو اُن کے الہامات محفوظ رکھنے کا اہتمام نہیں کیا گیا پھر بھی بعض الہامات ایسے ملتے ہیں جن سے یہ ضرور پتہ لگ جاتا ہے کہ صحابہ کرامکو بھی خدا کی ہمکلامی کا شرف ضرور عطا کیا گیا تھا۔
الہامات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
حضرت ابو بکرؓ
کتاب اللمع میں لکھا ہے:۔
کَانَتْ لِاَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ جَارِیَةٌ حُبْلیٰ فَقَالَ اُلْقِیَ فِیْ رَوْعِیْ اَنَّھَا اُنْثٰی فَوَلَدَتْ اُنْثٰی۔
(کتاب اللمع لابی نصر عبد اللہ علی السراج القوسنی باب ذکر ابی بکر الصدیق ؓصفحہ ۱۲۳)
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی لونڈی حاملہ تھی، فرماتے ہیں مجھے الہام ہوا کہ حمل میں لڑکی ہے تو اس نے لڑکی جنی۔
حضرت عمر بن الخطابؓ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص کو ایرانیوں سے جنگ کے دوران جو تحریری فرمان بھجوایا اس میںیہ درج تھا کہ‘‘ مجھے القاء ہوا ہے کہ تمہارے مقابلہ میں دشمن کو شکست ہو گی’’۔
( الوثائق العباسیۃ۔سیاسی وثیقہ جات مرتبہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ حیدر آبادی فرمان بنام سعد بن ابی وقاص
صفحہ ۲۴۵ شائع کردہ مجلس ترقیٔ ادب ۲ نرسنگھ داس گارڈن کلب روڈ طبع اوّل ۱۹۶۰ء)
حضرت علیؓ
(ا)کان علی ؓ وَالفَضْلُ یَغْسِلَانِ رُسُوْلَ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہ عَلْیْہِ وَ سَلَّمَ فَنُوْدِیَ عَلِیٌّ اِرْفَعْ طَرْفکَ اِلَی السَّمَآءِ۔
(الخصائص الکبریٰ للسیوطی جلد۲باب ما وقع فی غسلہ صلی اللہ علیہ و سلم صفحہ ۲۷۶)
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور فضل(ابن عباس)دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم کو غسل دے رہے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آواز آئی کہ اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھا۔
حضرت علیؓ معہ دیگر صحابہؓ
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہِ تعالٰی عنھا قَالَتْ لَمَّا اَرَادُوْا غُسْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالُوْا وَاللّٰہِمَا نَدْرِیْ اَنُجَرِّدُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَمِنْ ثِیَابِہٖ کَمَا نُجَرِّدُ مَوْتَنَا اَمْ نَغْسِلَہُ وَ عَلَیْہِثِیَابُہٗ فَلَمَّااخْتَلَفُوْا اَلْقَی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْھِمُ النَّوْمَ حَتّٰی مَا مِنْھُمْ رَجُلٌ اِلَّا وَذَقَنُہٗ فِی صَدْرِہِ ثُمَّ کَلَّمَھُمْ مُکَلِّمٌ مِّنْ نَاحِیَةِ الْبَیْتِ لَا یَدْرُوْنَ مَنْ ھُوَ اَنِ اغْسِلُوْا النَّبِیَ صَلّی اللّٰہ ُعَلَیْہ وَ سَلَّم وَ عَلَیْہِثِیَابُہٗ اَخْرَجَہٗ اَبُوْ دَاوٴد والحاکم والبیھقی و حلیة ابو نعیم۔
(الخصائص الکبریٰ للسیوطی جلد۲باب ما وقع فی غسلہ صلی اللہ علیہ و سلمصفحہ ۲۷۵)
ترجمہ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا۔ جب صحابہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو کہنے لگے خدا کی قسم ہم نہیں جانتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑے اتار لیں جیسا کہ ہم مُردوں کے کپڑے اتار لیتے ہیںیا آپ کو آپ کے کپڑوں میں ہی غسل دیں۔ پس جب انہوں نے اختلاف کیا تو خدا نے سب پر نیند وارد کر دییہاں تک کہ اُن میں سے کوئی آدمی نہ رہا مگر اس کی ٹھوڑی اس کے سینے کو جا لگی۔ پھر ان سے ایک کلام کرنے والے نے گھر کی ایک طرف سے کلام کی۔ صحابہ نےنہ جانا کہ وہ کون ہے۔ اس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو کپڑوں سمیت غسل دو۔ (اس روایت کی تخریج ابو داؤد، الحاکم بیہقی اور حلیہ ابونعیم نے کی ہے ۔)
حضرت اُبَیّ بِنکَعبؓ
عَنْ اَنَسٍ قَال قَال ابیّابن کعب لَاَدْخُلَنَّ الْمَسْجِدَ فَلَاُصَلِّیَنَّ ولَاَحْمِدَنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ بِمَحَامِدٍ لم یحمد بھا احد فلما صلی و جلس لیحمد اللّٰہ تعالٰی و یثنی علیہ اذا ھو بصوت عال من خلف یقول اللھم لک الحمد کلہ ولک الملک کلہ بیدک الخیر کلہ و الیک یرجع الامر کلہ علا نیتہٗ و سرّہٗ لک الحمد انک علی کل شیء قدیر ،اِغفرلی ما مضی من ذنوبی واعصمنی فیما بقی من عمری وارزقنی اعمالا ذاکیة ترضی بھا منّی و تب علیّ۔ فَاتٰی رسول اللّٰہ فقصَّ علیہ فقال جبریل علیہ السلام۔
(روح المعانی جلد۷ صفحہ ۶۴ زیر تفسیر الاحزاب:۴۱)
حضرت انس سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے ابیّ بن کعب نے کہا کہ میں مسجد میں ضرور داخل ہوں گا پھر ضرور نماز پڑھوں گا اور ضرور اللہ تعالیٰ کی ایسے محامد کے ساتھ حمد کروں گا کہ کسی نے ایسی حمد نہ کی ہو۔ جب انہوں نے نماز پڑھی اور خدا کی حمد کرنے کے لئے بیٹھ گئے تو ناگاہ انہوں نے پیچھے سے ایک شخص کو بلند آواز سے یہ کہتے سنا۔ اے اللہ سب حمد تیرے لئے ہے۔ ملک تیرا ہے۔ سب بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ سب امور کا مرجع تو ہے خواہ وہ امور ظاہری ہوں یا باطنی حمد تیرے لئے ہی ہے بے شک تو ہر شَے پر قادر ہے۔ میرے گزشتہ گناہوں کو معاف کر دے اور مجھے باقی عمر محفوظ رکھ اور مجھے ایسے پاکیزہ اعمال کی توفیق دے کہ تو ان کے ذریعہ مجھ سے راضی ہو جائے۔ مجھ پر رحمت سے رجوع کر۔ پھر ابیّ بن کعب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور سارا واقعہ بیان کیا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ جبرائیل علیہ السلام تھے۔
عبد اللہ بن زید بن عبد ربّہ ؓ
حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو روٴیا میں اذان سکھائی گئی۔ اسی طرح حضرت عمرکو بھی۔ (مشکوٰة کتاب الصلوٰۃ باب الاذان الفصل الاوّل)
نمونہ کے طور پر مندرجہ بالا حوالہ جات بھی کافی ہیں۔ پس صحابہ رضی اللہ عنہم الہام نعمت سے محروم نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہےإِذْ يُوحِيْ رَبُّكَ إِلَى الْمَلَآئِكَةِ أَنِّيْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوْا(الانفال:۱۳)یعنی جب تیرا رب ملائکہ کی طرف وحی کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں سو تم مومنوں کو ثابت قدم بناوٴ۔
اِس آیت سے ظاہر ہے کہ جہاد کے موقع پر اس میں شامل ہونے والے تمام صحابہ پر ملائکہ کا نزول ہوا اور انہوں نے وحی الٰہی کے مطابق مسلمانوں کو حوصلہ دلایا۔
مولوی ابو الحسن صاحب پر واضح ہو کہ اگر امتمحمدیہ میں کسی زمانہ میںنبوّت کی ضرورت نہ ہوتی تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم مسیح نبی اللہ کے نزول کی پیشگوئی نہ فرماتے۔ اِس پیشگوئی سے صاف ظاہر ہے کہ آخری زمانہ میں گمراہی اپنی انتہاء کو پہنچ جانے والی تھی تبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نبی کے مبعوث کیا جانے کی خبر دی۔ ہمارا یہ زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے جس میں دہریت اور ملحدانہ فلسفہ نشوونما پا رہا ہے۔ لہذا اگر خداتعالیٰ کو کسی زمانہ میں نبی کے بھیجنے کی ضرورت تھی۔ تو اِس زمانہ کے لئے ضرور ایک نبی کا بھیجا جانا مقدر ہونا چاہیئے تھا۔ کیونکہ اس زمانہ میں دہریت و الحاد بامِ عروج پر ہے اور ایسی اقوامِ عالم کو جو دہریت و الحاد کا شکار ہیں خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا کوئی ڈر نہیں کیونکہ حیاتِ آخرت پر انہیںیقین ہی حاصل نہیں۔ ایسے زمانہ کے لئے ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی بھیج کر اس کے ذریعہ آسمانی نشانات دکھا کر ان پر حجت پوری کی جاتی۔
مولوی ابو الحسن صاحب! بے شک ان مسلمانوں کے لئے ایمان بالغیب کافی تھا جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا اور جو آپ ؐکے ذاتی چال چلن سے آگاہ تھے اور آپ کو صادق و امین جانتے تھے ان کے لئے یہ دلیل بھی آپؐ کی رسالت کے سچا ہونے کے لئے کافی تھی۔ لیکن بعد والوں کے لئے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا نہیں ایمان بالغیب لانے کے لئے کچھ مزید دلائل بھی درکار تھے اور درکار ہیں۔چنانچہ ایسے لوگوں کو معجزات و نشانات دکھائے گئے اور پھر اسلام میں مجدّدین کا ایک سلسلہ جاری فرمادیا گیا جو ہر صدی میں روشن دلائل اور آسمانی نشانوں کے ساتھ اسلام کی صداقت کی گواہی دیتے رہے ہیں۔ ایمان بالغیب کے معنی بلا سوچے سمجھے مان لینا نہیں کیونکہ مومن Blind Faith نہیں رکھتے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کی شان میں فرمایا ہے۔ وَالَّذِيْنَ إِذَا ذُكِّرُوْا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوْا عَلَيْهَا صُمًّا وَّعُمْيَانًا(الفرقان:۷۴)کہ مومن وہ ہیں کہ جب انہیں اللہ کی آیاتیاد دلائی جائیں تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گر پڑتے یعنی ان کو سمجھ کر ان پر علیٰ وجہِ البصیرت ایمان لاتے ہیں۔ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرامکی شان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِٓيْ أَدْعُوْآ إِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ(يوسف:۱۰۹)
اے نبی کہہ دو یہ میرا راستہ ہے کہ میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میں اور میرے متبعین اس پر علیٰ وجہِ البصیرت قائم ہیں۔
مولوی ابو الحسن صاحب! ایمانیقین سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ آنکھیں بند کر کے مان لینا ایمان بالغیب نہیں۔ ایمان بالغیب بھی بصیرت کو چاہتا ہے اور بصیرت کے حصول کے لئے بھی کچھ ذرائع اور اسباب ہوتے ہیں۔ پھر یقین کا صرف ایک ذریعہ ایمان بالغیب ہی نہیں ایمان بالغیب کی حد علم الیقین تک ہوتی ہے۔ اس کے بعد عین الیقین کا مرتبہ ہوتا ہے اور پھر حق الیقین کا۔ گو علم الیقین مومن کی نجات کا موجب ہو جاتا ہے مگر بعض کی علمی پیاس اس سے نہیں بجھتی تو وہ اپنے مجاہدات اور قربانیوں سے اگلی منزلِ علم کے متلاشی ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی پیاس کو اللہ تعالیٰ اپنے مکالمہ مخاطبہ سے بھیجتا ہے اور پھر اُن کے ذریعہ دنیا کو روشن آسمانی نشانوں کے ذریعہ زندہ ایمان اور یقین بخشتا ہے۔ اور اس طرح لوگوں کا ایمان بالغیب گویا رؤیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔
ارتقائے ذہنی کا جو فلسفہ علّامہ اقبال نے پیش کیا ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا ہرگز درست نہیں کہ نوعِ انسانی کو اب الہام اور وحی کی ضرورت نہیں رہی۔ کیونکہ باوجود ارتقائے ذہنی کے دنیا تو دہریت اور الحاد کی طرف جا رہی ہے۔ پس ارتقائے ذہنی کی وجہ سے اگر وحی کی ضرورت سے انکار کر دیا جائے تو یہ امر دنیا میں دہریت اور الحاد کے بڑھنے کا موجب ہو گا نہ کہ دور ہونے کا۔ پس اِس زمانہ کا انسان آسمانی مدد کے بغیر دہریت والحاد کی دلدل سے نہیں نکل سکتا۔
شریعتِ اسلامیہ کے مآخذ اور تفسیر خاتم النبیّین
شریعتِ اسلامیہ کے مآخذ قرآن مجید، سُنّتِ نبوی، احادیث نبویہ، اجماعِ اُمّت اور قیاس ہیں۔ قیاس اس وقت حُجّتِ شرعی بنتا ہے جبکہ وہ کسی نَصِّ شرعییعنی قرآن و حدیث اور اجماع کے خلاف نہ ہو۔ بعض علماء نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد الہامِ الٰہی کو حجت قرار دیا ہے۔
مولوی ابو الحسن صاحب نے خاتم النبیّین کے معنوں میں ڈاکٹر اقبال کے قیاس کو بار بار پیش کیا ہے اور گویا اسے مسلمانوں کے سامنے بطور حجّتِ شرعی کے پیش کیا ہے اور اُن کے قیاس سے اتفاق کیا ہے مگر اسلام میں قیاس اُس وقت حجت ہوتا ہے جبکہ کوئی مسئلہ قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت نہ ہو اور اس کا کسی اور شرعی جزئی پر قیاسکیا جائے۔ اگر قیاس قرآن و حدیث کی کسی نص کے خلاف ہو تو پھر وہ مسلمانوں کے لئے ہرگز حجت نہیں ہوتا خواہ وہ قیاس کسی امام اور مجتہد کا ہی کیوں نہ ہو۔
اِس سلسلہ میں مولوی ابو الحسن صاحب نے بہت بڑی فروگذاشت سے کام لیا ہے۔ بلکہ ہم اس کو قرآن و حدیث سے بغاوت بھی قرار دیں تو اس میں حق بجانب ہیں۔
سیاق آیت سے خاتم النبیّین کی تفسیر
سیاقِ آیت خاتم النبیّین سے یہ امر ثابت ہے کہ ان الفاظ کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ابو الانبیاء ثابت کرنا مقصود ہے سو ولٰـکن رسول اللّٰہ کے جملہ سے آپ کو اُمّت کا باپ قرار دیا گیا ہے پھر اسی جملہ پر خاتم النبیّین کا عطف کر کے پہلی حالت سے ترقییافتہ شان بیان کرنے کے لئے آپ کو ابو الانبیاء قرار دیا گیا ہے۔سب سے پہلے جملہ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے نرینہ بالغ اولاد کی نفی کی گئی ہے۔ اور پھر ابتر کے اعتراض کو دور کر نے کے لئے وَلٰـكِنْ رَّسُولَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ سے بطور استدارک آپ کو معنوی اور روحانی لحاظ سے اُمّت کا بھی باپ قرار دیا گیا ہے اور نبیوں کا بھی باپ قرار دیا گیا ہے۔ اگر لٰـکن سے پہلے جملہ منفی ہو جیسے اس آیت میںمَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ کا جملہ ہے تو لٰـکن کے بعد جملہ ہمیشہ مثبت مفہوم رکھتا ہے۔ لہذا خاتم النبیّین کے معنی علی الاطلاق آخری نبی قرار دینا منفی مفہوم پر مشتمل ہے۔ کیونکہ اس کا مفہوم تو یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ نہ مسیح اور نہ کوئی اور۔
مندرجہ بالا تفسیر کی تائید حضرت مولوی محمد قاسم نانوتوی بانیٴ دار العلوم دیوبند کے بیان سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں۔ مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم و تأخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ پھر مقامِ مدح میں لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ فرمانا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔’’
(تحذیر الناس صفحہ۳۔ مطبوعہ خیر خواہ سرکار پریس سہارن پور)
اس بیان سے ظاہر ہے کہ خاتم النبیّین کے معنی محض‘‘آخری نبی’’ صرف عوام النّاس کے معنی ہیں نہ اہل ِفہم کے۔
اہل فہم کے معنی ان کے نزدیک یہ ہیں کہ:۔
‘‘آپ (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم)موصوف بوصفِ نبوّت بالذات ہیں۔ اور سوا آپ کے اور نبی موصوف بوصف نبوّتبالعرض اوروں کینبوّت آپ کا فیض ہےپرآپ کینبوّت کسی اور کا فیض نہیں۔ آپ پر سلسلہ نبوّت مختتم ہو جاتا ہے غرضجیسے آپ نبی اللہ ہیں ویسے ہی نبی الانبیاء بھی ہیں’’۔
(تحذیر الناس صفحہ۴مطبوعہ خیر خواہ سرکار پریس سہارن پور)
پھر آیت خاتم النبیّین کے سیاقکو مطابق لغت عربی ملحوظ رکھ کر خاتم النبیّین کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘جیسےخاتم بفتحِ تاء کا اثر اور نقش مختوم علیہ میں ہوتا ہے ایسے ہی موصوف بالذات کا اثر موصوف بالعرض میں ہوتا ہے(یعنی تمام انبیاء میں۔ ناقل) حاصل مطلب آیہ کریمہ اس صورت میںیہ ہو گا کہ ابوّت معروفہ (جسمانی نرینہ اولاد کا باپ ہونا۔ ناقل) تو رسول اللہ صلعم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوّتِ معنوی (روحانی باپ ہونا۔ ناقل) اُمّتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے۔ انبیاء کی نسبت تو فقط خاتم النبیّین شاہد ہے کیونکہ اوصافِ معروض (مثلاً اِس جگہ دیگر انبیاء کینبوّتیں۔ ناقل)وموصوف بالعرض(مثلاً اس جگہ دیگر انبیاء۔ ناقل) موصوف بالذات (اِس جگہ خاتم النبیّین۔ ناقل) کی فرع ہوتے ہیںموصوف بالذات اوصافِ عرضیہ کا اصل ہوتا ہے اور وہ اس کی نسل…… اور اُمّتیوں کی نسبت لفظ رسول اللہ میں غور کیجئے’’۔
(تحذیر الناس صفحہ ۱۰، ۱۱مطبوعہ خیر خواہ سرکار پریس سہارن پور)
خاتمالنبیّین کے اِن سیاق والے معنییعنی نبیوں کے لئے مؤثر وجود اور ابو الانبیاء کے پیشِ نظر رکھتے ہیں:۔
‘‘اگر خاتمیّت بمعنی اِتّصافِ ذاتی بوصف نبوّت لیجئے جیساکہ اس ہیچمدان نے عرض کیا ہے تو پھرسوا رسول اللہ صلعم کے کسی کو افراد مقصود بالخلق میں سے مماثل نبوی صلعم نہیں کہہ سکتے بلکہ اس صورت میں انبیاء کے افراد خارجی (انبیائے سابقین۔ ناقل) ہی پر آپ کی فضیلت ثابت نہ ہو گی افرادِ مقدّرہ (جن انبیاء کا آئندہ آنا تجویز ہو۔ ناقل) پر بھی آپ کی افضلیّت ثابت ہو جائے گی بلکہبالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیّتِ محمدیؐ میں کچھ فرق نہ آئے گا’’۔
(تحذیر الناس صفحہ ۲۸مطبوعہ خیر خواہ سرکار پریس سہارن پور)
پس اصل معنی خاتم النبیّین کے انبیاء کے لئے مؤثر وجود ہوئے اور خاتمیّتِ زمانی بصورت آخری شریعتِ تامہ مستقلہ لانے کے جس کا عمل قیامتتک رہنے والا ہے۔ آپؐ آخری تشریعی نبی ہیں اور یہ مفہوم خاتم النبیّین کے اصل معنی انبیاء کے لئے مؤثر وجود کو لازم ہے۔ اس لئے بالفرض بعد زمانۂ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کسی نبی کے پیدا ہونے کی صورت میں خاتمیّتِ محمدییعنی خاتمیّت بالذات اور خاتمیتِ زمانی میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ کیونکہ جو نبی پیدا ہو گا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خاتم بالذات کا اثر ہوگا۔ اور بوجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری شریعت تامہ کاملہ مستقلہ اِلیٰیوم القیامۃلانے والے نبی ہونے کے آپ کا ماتحت ہو گا اور اپ کا اُمّتی ہو گا۔ پس اُمّتی نبی کے پیدا ہونے میں آیت خاتم النبیّین بلحاظ سیاقِ آیت ہرگز مانع نہیں۔
امام علی القاری علیہالرحمۃ جو فقہ حنفیہ کے جلیل القدر امام ہیں خاتم النبیّین کے معنی آخری نبی کی وضاحت میں لکھتے ہیں:۔
اَلْمَعْنٰی اَنَّہُ لَا یأْتِیْ نَبِیٌّبَعْدَہٗ یَنْسَخُ مِلَّتَہ وَلَمْ یَکُنْ مِنْ اُمَّتِہ
(موضوعات کبیر، باب اللام)
کہ خاتم النبیّین کے معنییہ ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپؐ کی ملّت (شریعت) کو منسوخ کرے اور آپؐ کیاُمّت میں سے نہ ہو۔
اس سے ظاہر ہے کہ آیت خاتم النبیّین غیر تشریعی نبی کی آمد میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اُمّتی ہو مانع نہیں۔ پس آیت خاتم النبیّین کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لزوماً آخری تشریعی نبی قرار پائے نہ کہ مطلق آخری نبی۔
اگراُمّتی کے لئے غیر تشریعینبوّت کا دروازہ بھی آیت خاتم النبیّین کے رو سے بند ہو جاتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم یہ کبھی نہ فرماتے:۔
اَبُوْ بَکْرٍ اَفْضَلُ ھٰذِہِ الْاُمَّةِ اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ نَبِیٌّ
(کنوز الحقائق فی حدیث خیر الخلائقصفحہ۶ حاشیہ مطبوعہ مصر)
یعنی ابو بکر اس اُمّت میں افضل ہیں بجز اس کے کہ آئندہ کوئی نبی پیدا ہو۔
اگر آیت خاتم النبیّیناُمّت میں نبی پیدا ہونے میں مانع ہوتی تو آنحضرت اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ نَبِیٌّکے الفاظ سے استثناء نہ فرماتے:۔
پھر آیت خاتم النبیّین کے نزول سے چند سال بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہو سلم کے لخت جگر صاحبزادہ ابراہیم وفات پا گئے تو آپ نے فرمایا:۔
لَوْ عَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا
(رواہ ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الصلوٰۃ علی ابن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم و ذکر وفاتہ)
یعنی اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور صدیق نبی ہوتا۔
حضرت امام علی القاری علیہالرحمۃ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:۔
لَوْ عَاشَ اِبْرَاھِیْمَ وَصَارَ نَبِیًّا وَکَذَا لَوْ صَارَ عُمَرُ نَبِیًّا لَکَانَا مِنْ اَتْبَاعِہٖ عَلَیْہِ السَّلام……فَلَا یُنَاقِضُ قَوْلَہٗ تَعَالیٰ خَاتَمَالنَّبِیّیْنَ۔
(موضوعات کبیر،باب اللام)
یعنی اگر صاحبزادہ ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہو جاتے اور اسی طرح حضرت عمرنبی ہو جاتے تو دونوں آپؐ کے متبعین میں سے ہوتے (یعنی بعد از نبوّت بھی متبع ہوتے۔ ناقل) پس ان دونوں کا نبی ہو جانا آیت خاتم النبیّین کے خلاف نہ ہوتا۔
خلاف اس لئے نہ ہوتا کہ خاتم النبیّین کی آیت ناسخ شریعت غیراُمّتی نبی کے آنے میں مانع ہے جیسا کہ اوپر ان کا قول موضوعات کبیرباب اللّام سے درج ہوا ہے۔ وہ اوپر والا قول فلا یناقض قولہٗ تعالیٰ خاتم النّبیّینکے مذکورہ معنوں کے خلاف نہ ہوتا۔ کیونکہ وہ دونوں تابع نبیہوتے۔
پھر حضرت عائشہ الصدیقہ معلّمہ نصف الدین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:۔
قولوا خاتم النبیّین ولا تقولوا لا نبیّ بعدہ۔
(در منثور زیر آیت خاتم النبیّین۔ الاحزاب:۴۱)
کہ تم لوگیہ تو کہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبیّین ہیں مگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔
اولیاء اللہ نے اسلام میں ایک قسم کینبوّت کو جاری قرار دیا ہے۔چنانچہ حضرت محی الدین ابن عربی علیہالرحمۃ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’المقربون‘‘مقامھم بین الصدیقیة والنبوة التشریعیة و ھو مقام جلیل جھلہ اکثر الناس من اھل طریقتنا کأبی حامد وأمثالہ لأن ذوقہ عزیز و ھو مقام النبوة المطلقة۔
(فتوحات مکیہ جلد۲ صفحہ۱۹۔ الباب الثالث والسبعون)
ترجمہ۔ کچھ مقربین الٰہی کا مقام صدّیقیت اور نبوّتِ تشریعیہ کے درمیان واقع ہے۔ وہ ایک شاندار مقام ہے جس سے ہمارے طریقہ کے اکثر لوگ جیسے ابو حامد اور ان کے امثال ناواقف ہیں۔ کیونکہ اُس کا ذوق نادر ہے اور وہ نبوّتِ مطلقہ کا مقام ہے۔
پھر وہ اس نبوّت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:۔
فالنبوة ساریة الٰی یوم القیامة فی الخلق وان کان التشریع قد انقطع فالتشریع جزء من اجزاءِ النبوة۔
(فتوحات مکیہ جلد۲ صفحہ ۹۰ السؤال الثانی والثمانون)
ترجمہ۔نبوّت مخلوق میںقیامتتک جاری ہے گو تشریعینبوّت منقطع ہو گئی ہے پس شریعت کا لانا نبوّت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔
پھر وہ اس نبوّت کے جاری رہنے پر یہ دلیل دیتے ہیں:۔
اذ یستحیل ان ینقطع خبر اللّٰہ واخبارہٗ من العالم اذ لو انقطع لم یبق للعالم غذاء یتغذی بہ فی بقاء وجودہ۔
ترجمہ: یہ محال ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے امور غیبیہ اور اخبار الٰہیہ کا دنیا کو ملنا منقطع ہو جائے۔ کیونکہ اگر یہ منقطع ہو جائے تو دنیا کے لئے کوئی (روحانی) غذا باقی نہیں رہے گی جس سے وہ اپنے (روحانی) وجود کو باقی رکھ سکے۔
یہ مضمون ان کا قرآن مجید کیآیت إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَآئِكَةُ أَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَأَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَنَحْنُ أَوْلِيَآؤُكُمْ فِي الْحَيَاۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (حٰمٓ سجدہ:۳۱،۳۲) کے مطابق ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے۔ بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر استقامتدکھائی ان پر خدا کے فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ تم کوئی خوف نہ کرو اور کوئی غم نہ کرو اور جنّت (رضاءِ الٰہی کے مقام) کی بشارت پاوٴ جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے مددگار ہیں اور آخرت میں بھی۔
حضرت شیخ اکبرمحی الدین ابنِ عربی نے اس آیت کو اپنی کتاب فتوحاتِ مکیہ کے باب الاستقامۃ میں درج کر کے فرمایا ہے۔
ھذا التنزیل ھو النبوة العامة لا نبوة التشریع
(فتوحات مکیہ جلد۲ صفحہ ۲۱۷باب معرفۃ مقام الاستقامۃ)
اِسنبوّت عامہ کو وہ نبوّت الولایت قرار دیتے ہیں اور محدثین کو اس سے کچھ حصہ پانے والے اور مسیح موعود کو اس نبوّت الولایت کے ساتھ نبوّتِ مطلقہ کا حامل قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔
ینزل ولیا ذا نبوةٍ مطلقةٍ
(فتوحات مکیہ جلد۲ صفحہ ۴۹ السؤال الثالث عشر)
کہ وہ ایسے ولی کی صورت میں نازل ہو گا جو نبوّتِ مطلقہ رکھتا ہو گا۔
پھر حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن العربینبوّت تشریعیہ کو نبوّتِ عامہ کا جزوِ ذاتی نہیں بلکہ جزوِ عارض جانتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔
اَنَّ التشریع فی النبوۃ امر عارض بکون عیسیٰ ینزل فینا حکما من غیر تشریع و ھو نبی بلا شکٍ۔
یعنی شریعت کا لانا امر عارض ہے (امر ذاتی نہیں) کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام ہم میں بغیر شریعت کے نازل ہوں گے اور وہ بلا شک نبی ہوں گے۔
(فتوحات مکیہ جلد۱ صفحہ ۵۴۵۔ وصل فی اختلاف الصلاۃ)
پھر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بروزی نزول کے قائل ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
وجب نزولہ فی اٰخر الزمان بتعلقہ ببدنٍ اٰخر
(تفسیر محی الدین ابن العربی بر حاشیہ عرائس البیان)
کہ مسیح علیہ السلام کا نزول آخری زمانہ میں کسی دوسرے بدن کے تعلق سے ہوگا۔
اِس سے ظاہر ہے کہ اُن کے نزدیک وہ اصالتًا نازل نہیں ہوں گے بلکہ ان کا نزول بروزی رنگ میں ہوگا۔
امام عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمۃنبوّت مطلقہ کو جاری قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
اعلم ان مطلق النبوة لم ترتفع وانما ارتفعت نبوة التشریع۔
(الیواقیت والجواہر جلد۲ صفحہ شائع کردہ دار احیاء التراث العربی بیروت طبع اولیٰ ۱۹۹۷ء)
حضرت عبد الکریم جیلانی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں:۔
فانقطع حکم نبوة التشریع بعدہ و کان محمد صلیاللّٰہ علیہ و سلم خاتم النبیّین لانہ جاء بالکمال ولم یجیٴ احد بذالک۔
(الانسان الکامل جلد۱ صفحہ ۹۸)
یعنی شریعت والینبوّت کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد منقطع ہو گیا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبیّین ہیں کیونکہ آپ کمال (شریعت کاملہ) لے کر آئے ہیں اور کوئی اور نبی ایسے کمال کے ساتھ نہیں آیا۔
پھر حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن العربی حدیثلا نبیّ بعدی ولا رسول کی تشریح میں فرماتے ہیں:۔
اِنّ النبوة التی انقطعت بوجود رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم انما ھی نبوة التشریع لا مقامھا فلا شرع یکون ناسخا لشرعہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم ولا یزید فی حکمہ شرعاً اٰخر و ھذا معنی قولہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم ان الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی ای لا نبی بعدی یکون علی شرع یخالف شرعی بل اذا کان یکون تحت حکم شریعتی۔
(الفتوحاتالمکّیہ، المجلد الثانی صفحہ۳ مطبوعہ دار صادر بیروت)
ترجمہ۔ وہ نبوّت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر منقطع ہو گئی ہے وہ صرف تشریعینبوّت ہے نہ مقامِ نبوّت۔ اب کوئی شریعت نہیں ہو گی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کو منسوخ کرے اور یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت میں کسی حکم کا اضافہ کرے اور یہی معنی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس قول کے کہ ان الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبیّ۔ یعنی آپ کی مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا نبی آئندہ نہیں ہوگا جو میری شریعت کے خلاف کسی اور شریعت پر ہو۔ بلکہ جب کبھی کوئی نبی ہو گا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہو گا۔
امام عبد الوہاب شعرانی اسی مذہب کا خلاصہ یوں پیش کرتے ہیں:۔
و قولہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم‘‘فلا نبیّبعدی ولا رسول’’ المراد بہ لا مشرع بعدی۔
(الیواقیت والجواہر جلد۲ صفحہ ۳۴۶، شائع کردہ دار احیاء التراث العربی طبع اولیٰ ۱۹۹۷ء)
ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قول لا نبیّ بعدی و لا رسول بعدی سے یہ مراد ہے کہ آپ کے بعد خاص شریعت لانے والا کوئی نبی نہ ہوگا۔
اس سے پہلے ان کا یہ قول درج کیا جا چکا ہے کہ مطلق نبوّت منقطع نہیں ہوئی۔حضرت مولانا جلال الدین رومیتحریر فرماتے ہیں
بہرِ ایں خاتم شد ست او کہ بجود
مثل او نے بود نے خواہند بود
چونکہ در صنعت برد استاد دست
نے تو گوئی ختمِ صنعت بر تو است
(مثنوی مولانا روم دفتر ششم صفحہ۱۰ مطبوعہ نولکشور)
ترجمہ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس وجہ سے خاتم ہیں کہ سخاوت (فیض پہنچانے میں) نہ آپ جیسا کوئی ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ جب کوئی کاریگر اپنی کاریگری میں کمال پر پہنچ جاتا ہے تو اے شخص کیا تو نہیں کہتا کہ تجھ پر کاریگر ہونے کی مہر لگ گئی ۔ تو سب سے کامل کاریگر ہے۔
پھر وہ فرماتے ہیں
مکر کن درراہ نیکو خدمتے
تانبوّتیابیاندر اُمّتے
(مثنوی مولانا روم۔ دفتر پنجم صفحہ ۱۸)
کہ نیکی کی راہ میں ایسی تدبیر کر کہ تجھے اُمّت میں نبوّت مل جائے
حضرت شاہ ولی اللہ علیہالرحمۃ مجدد صدی دواز دہم تحریر فرماتے ہیں:۔
لانّ النبوة تتجزّیٰ و جزء منھا باق بعد خاتم الانبیاء۔
(المسوی شرح الموٴطا جلد۲ صفحہ ۲۱۶ مطبوعہ دہلی)
ترجمہ۔ کیونکہنبوّت قابلِ تقسیم ہے اور اس کی ایک جزء خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد باقی ہے۔
نیز فرماتے ہیں:۔
امتنع ان یّکون بعدہ نبی مستقلّ بالتَلقّی
(الخیر الکثیر صفحہ۸۰ مطبوعہ بجنور)
ترجمہ۔یہ امر ممتنع ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی مستقل بالتلقییعنی تشریعی نبی ہو۔
چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:۔
ختم بہ النبیون ای لا یوجد بعدہ من یامرہ اللّٰہ سبحانہ بالتشریع علی الناس
(تفہیمات الٰہیہ جلد۲ صفحہ ۸۵مؤلّفہ شاہ ولی اللہ دہلوی تفہیم ۵۴)
ترجمہ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر نبوّت ختم ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اب کوئی ا یسا شخص پیدا نہیں ہو گا جسے خدا تعالیٰ شریعت دے کر لوگوں کی طرف مامور کرے۔
علّامہ مولوی عبد الحی صاحب لکھنوی فرنگی محِلّی تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘بعد آنحضرت کے یا زمانے میں آنحضرت کے مجرد کسی نبی کاہونا محال نہیں بلک صاحبِ شرع جدید ہوناالبتہ ممتنع ہے۔’’
(دافع الوسواس فی اثر ابن عباس بار دوم صفحہ۱۶ مطبوعہ مطبع یوسفی لکھنؤ)
علّامہ صوفی محمد حسین صاحب مصنف غایۃ البرہان تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘الغرض اصطلاح میںنبوّت بخصوصیّتِ الٰہیہ خبر دینے سے عبارت ہے وہ دو قسم پر ہے۔ ایکنبوّت تشریعی جو ختم ہو گئی اور دوسرینبوّت بمعنی خبردادن وہ غیر منقطع ہے پس اس کو مبشرات کہتے ہیں۔ اپنے اقسام کے ساتھ اس میں روٴیا بھی ہیں۔’’
(الکواکب الدّریّہ صفحہ ۱۴۷،۱۴۸)
امام راغب آیت قرآنیہ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَالنَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصَّالِحِیْنَکی تفسیر میں فرماتے ہیں:
ممن انعم اللّٰہ علیھم من الفرق الاربع فی المنزلة والثواب النبیّ بالنبیّ والصدیق بالصدیق والشھید بالشھید والصالح بالصالح۔
(تفسیر البحر المحیط جلد۲ زیر سورۃ نساءآیت ۶۴)
کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرنے والوں کو ان پچھلے چار گروہوں سے درجہ اورثواب میں شامل کر دے گا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے۔ اس اُمّت کے نبی کو کسی پہلے نبی کے ساتھ اور اس اُمّت کے صدیق کو کسی پہلے صدیق کے ساتھ اور اس اُمّت کے شہید کو کسی پہلے گزرے ہوئے شہید کے ساتھ اور اس اُمّت کے صالح کو کسی پہلے گزرے ہوئے صالح کے ساتھ۔
پس خلاصہ ان سب حوالہ جات کا یہ ہے کہ آیت خاتم النبیّین، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد صرف تشریعی نبی کی آمد کو منقطع قرار دیتی ہے۔ اُمّت محمدیہ میں کسیاُمّتی کے مقام ِ نبوّت غیر تشریعیہ کے پانے میں مانع نہیں بلکہ اس کے امکان کو ثابت کرتی ہے۔ کیونکہ آنحضرت بوجہ خاتم النبیّین خاتم کمالات ہیں۔ لہذا آپ کا فیض بھی کامل ہے۔
مکالماتِ الٰہیہ اسلام کے زندہ ہونے کا ثبوت
ہم نے قرآن کریم کی آیات، احادیث نبویہ اور اقوالِ بزرگانِ دین سے اس بات کا ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کے بعد مکالمات و مخاطباتِ الٰہیہ کا دروازہ کلیۃً بند نہیں ہوا بلکہ المبشرات پر مشتمل الہامات کا دروازہ جنہیں حدیث نبویہ میںنبوّت کا ایک حصہ قرار دیا گیا ہے، کھلا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے۔اَلَآإِنَّ أَوْلِيَاءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ … الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (يونس :۶۳و۶۵)یعنی اولیاء اللہ پر بشارتوں کا دروازہ دنیا میں بھی کھلا ہے۔ یہ مکالمات و مخاطبات الٰہیہ تو حقیقت میں اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ثبوت ہیں کیونکہ زندہ مذہب وہی مذہب کہلا سکتا ہے جس کی اتباع کرنے والوں کا خدا سے تعلق پیدا ہو۔ اور خدا سے تعلق پیدا ہونے کا ثبوت یہی ہے کہ اس مذہب کے ماننے والوں میں ایسے اولیاء اللہ پائے جائیں جو اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف رکھتے ہوں۔
اب یہ فخر صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کیاُمّت ہی کو حاصل ہے کہ اس میں ہزارہا اولیاء اللہ پیدا ہوئے جو خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوئے۔ اب دوسرے تمام مذاہب میں اسلام کے سوا اس کی نظیر نہیں مگر مولوی ابو الحسن صاحب کو اس قسم کا تعلق باللہ ہو سکنے سے انکار ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
‘‘مرزا غلام احمد صاحب کے فلسفہٴ تسلسل و بقاء وحی اور مکالمات و مخاطبات الٰہیہ کے عموم اور لزوم پر اگر دقتِ نظر سے غور کیا جائے اور اس کی عملی تحلیل و تجزیہ کیا جائے تو اس میں ختم نبوّت کی بجائے سلسلہٴنبوّت کے انکار کی روح نظر آئے گی اور ہدایت اور معرفت الٰہی بھی مسمریزم اور جدید تحریک استحضار ارواح (سپرچولزم) وغیرہ کی طرح ایک روحانی تجربہ اور عمل بن کر رہ جائے گی۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۹۶،۱۹۷)
مولوی ابو الحسن صاحب کی سلسلۂنبوّت میں تشکیک
واضح ہو کہ اس بیان سے مولوی ابوالحسن صاحب ندوی نے سارے کے سارے سلسلۂ نبوّت کو ہی مشتبہ اور مشکوک بنا دینے کی کوشش کی ہے جو ان کی دین سے نادان دوستی کا ثبوت ہے کیونکہ اگر مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ کی حیثیت مسمریزم اور استحضار ارواح وغیرہ کا تجربہ کہلا سکتی ہے تو مولوی ابو الحسن صاحب کے اس بیان پر یقین کر لینے والے دہریہ اور ملحدین انبیاء سابقین کے مکالمات و مخاطبات الٰہیہ کو بھی اس قسم کا ایک تجربہ قرار دے کر ردّ کر سکتے ہیں۔ پس مولوی ابو الحسن صاحب کا یہ بیان ایسا گمراہ کن ہے کہ یہ بے دینوں کے لئے سارے سلسلہ نبوّت کو رد کرنے کی راہ ہموار کرنے والا ہے۔ اِس بیان سے انہوں نے آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تک آنے والے تمام انبیاء کے مکالمات و مخاطبات الٰہیہ کو مشکوک بنا دیا ہے۔
مولوی ابوالحسن صاحب پر واضح ہو کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو مسمریزم اور استحضار ارواح کا کوئی تجربہ نہ تھا نہ ہی آپؑ نے اپنی جماعت کو اس راہ پر ڈالا ہے اور نہ خود ارواح کو حاضر کرنے کا کبھی کوئی کرشمہ دکھلایا ہے بلکہ آپؑ نے اپنی جماعت کو یہی تلقین فرمائی ہے کہ وہ صرف ان راہوں کو اختیار کرے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلائی اور دکھلائی ہیں۔ انہی راہوں کے سچا ہونے کا ثبوت حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہؑ نے اپنے روشن نشانوں سے فراہم کیا ہے۔ وہ اطاعت نبوی کی راہیں ہیں جن پر چلنے سے حسب آیتوَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُولَ فَأُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ(النساء:۷۰)وہ انعامات مل سکتےہیں جو پہلوں کو ملے۔
مولوی ابو الحسن کے متضاد خیالات
اوپر کے بیان میں مولوی ابو الحسن صاحب نےبقاء وحی اور مکالمات و مخاطباتِ الٰہیہ کو ختمِنبوّت کی بجائے سلسلۂنبوّت کے انکار کی روح پر مشتمل قرار دیا ہے۔ ایسے بیانات میں وہ دراصل ڈاکٹر اقبال صاحب کے فلسلفہ کی تقلید کر رہے ہیں۔ کیا اس سے صاف ظاہر نہیں کہ مولوی ابو الحسن صاحب ان احادیث نبویہ کے منکر ہیں جن میں حضرت مسیح ؑ کے نزول اُن کے نبی اللہ ہونے اور اُن پر وحی نازل کئے جانے کا ذکر ہے؟ لیکن اس کے برخلاف اُن کی کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسیح کو خارق عادت اور معجزانہ طور پر صدیوں سے آسمان پر زندہ مانتے ہیں اور ان کے اصالتًا نزول کے قائل ہیں۔ چنانچہ وہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی کتاب سُرمہ چشم آریہ کے متعلق لکھتے ہیں:۔
‘‘مرزا صاحب نے اپنی اس کتاب میں نہ صرف اس معجزہ (شقّ القمر۔ ناقل) کی بلکہ معجزاتِ انبیاء کی پُرزور مدلّل وکالت کی ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ معجزات و خوارق کا وقوع عقلاً ممکن ہے۔ محدود انسانی عقل اور علم اور محدود انفرادی تجربات کو اس کا حق نہیں کہ وہ ان معجزات و خوارق کا انکار کریں اور وسیع کائنات کے احاطہ کا دعویٰ کریں۔’’
(قادیانیت صفحہ ۶۲)
پھر وہ اپنے اس نوٹ کی بناء پر لکھتے ہیں:۔
‘‘واقعہ یہ ہے کہ بعد میں انہوں نے رفع و نزولِ مسیح ؑ کے بارے میں اور حضرت مسیح ؑکے صدیوں تک آسمان پر رہنے پر جو عقلی اشکال پیش کئے ہیں اور بعد میں ان کے اندر جو عقلیت کا رجحان پایا جاتا ہے اس کی تردید میں اس کتاب سے زیادہ موزوں کوئی اور چیز نہیں۔’’
(قادیانیت صفحہ۳۶)
مولوی ابو الحسن صاحب کے اِس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وفات مسیح علیہ السلام اور ان کی اصالتًا آمد کے امتناع کو سُرمہ چشم آریہ کی عبارت سے ردّ کرنا چاہتے ہیں اور خود صدیوں سے انہیں آسمان پر زندہ مانتے ہیں اور ان کے اصالتًا نزول کے قائل ہیں۔ اُن کا یہ بیان درست سمجھا جائے تو ختمِ نبوّت کی بحث میں ڈاکٹر اقبال کی پیروی میں انہوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کی تردید کے لئے ان کا صرف مندرجہ بالا اقتباس ہی کافی و وافی ہے۔ جب وہ حیات مسیح اور مسیح کے اصالتًا نزول کے قائل ہیں تو ختم نبوّت کا یہ مفہوم باطل ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم علی الاطلاق آخری نبی ہیں بلکہ انہیں ہماری طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو آخری تشریعی نبی ماننا پڑا۔ جب احادیث نبویہ میں مسیح موعود پر وحی کے نزول کا ذکر بھی موجود ہے تو ان کا یہ بیان بھی باطل ہو گیا کہ بقاءِ وحی اور مکالمات و مخاطبات الٰہیہ سے ختم نبوّت کی بجائے سلسلۂ نبوّت کے انکار کی روح نظر آئے گی۔ اب اگر اپنے مزعوم مسیح موعود پر وحی کے نزول کو وہ اس حیثیت کا نہیں جانتے کہ اس سے سلسلۂ نبوّت کے انکار کی روح نظر آتی ہے تو پھر بانیٔ سلسلہ احمدیہ پر اُن کے اعتراض کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے وفات مسیح کو صرف عقلی دلائل سے ہی ثابت نہیں کیا بلکہ آیاتِ قرآنیہ اور نصوصِ حدیثیہ سے ثابت کرنے کے بعد عقلی دلائل کو محض تائیدی طور پر پیش کیا ہے۔ اس بحث کا انحصار محض عقلی دلائل پر نہیں رکھا۔ یہی حال شق القمر کے معجزہ کا ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوا۔ چونکہ عقل معجزات کا احاطہ نہیں کر سکتی اس لئے انسان کی محدود عقل کی رو سے اُسے ردّ نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع و نزول کے کہیں معجزہ قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ یہود کے بارہ میں فرمایا ہے مَكَرُوْا وَمَكَرَ اللّٰهُ وَاللّٰهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (اٰل عمران:۵۵)کہ یہود نے مسیح کو صلیب پر مارنے کی تدبیر کی اور اللہ نے بچانے کی تدبیر کی اور اللہ بہتر ہے تدبیر کرنے والوں سے۔ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے معاملہ میں خدا نے تدبیر سے کام لیا نہ کسی معجزہ سے ۔ فتدبّر۔
مکالمات کے سرچشمہ کی تعیین
مولوی ابو الحسن صاحب اپنی کتاب کے باب چہارم کی فصل دوم کے آخر میں ‘‘مکالمات کے سرچشمہ کا تعین’’ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:۔
‘‘پھر ان مکالمات و مخاطباتِ الٰہیہ کی تنقید کا کیا معیار ہے؟ اور اس کی کیا ضمانت ہے کہ انسان جو کچھ سن رہا ہے وہ خود اس کے باطن کی آواز یا اس کے ماحول اور تربیت کی صدائے بازگشت یا اس کی اندرونی خواہشات اور سوسائٹی کے اثرات کا نتیجہ نہیں…… خود مرزا صاحب کے مکالمات و مخاطبات کا کتنا حصہ ان کے زمانہ ماحول اور تربیت کے تحت الشعور اثرات کا نتیجہ اور اس انحطاط پذیر اور مائل بزوال معاشرے کا عکس معلوم ہوتا ہے جس میں کہ انہوں نے نشو و نما پایا اور جس میں وہ اپنی دعوت لے کر کھڑے ہوئے بلکہ کتنا بڑا حصہ وہ ہے جس کے متعلق ایک مبصر کو جو ہندوستان کی سیاسی تاریخ سے واقف ہے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا سرچشمہ عالم غیب کی بجائے ہندوستان کا سیاسی اقتدار اعلیٰ ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۹۷، ۱۹۸)
یہ لکھنے کے بعد مولوی ابوالحسن صاحب نے ڈاکٹر اقبال صاحب کا ایک اقتباس بطور مبصّر ہندوستان کے درج کیا ہے جو یوں ہے کہ:۔
‘‘میں یہ ضرور کہوں گا کہ بانیٔ احمدیّت نے ایک آواز سنی، اِس امر کا تصفیہ کہ یہ آواز اس خدا کی طرف سے تھی جس کے ہاتھ میں زندگی اور طاقت ہے یا لوگوں کے روحانی افلاس سے پیدا ہوئی۔ اس تحریک کی نوعیت پر منحصر ہونا چاہئے جو اس آواز کی آفریدہ ہے اور ان افکار و جذبات پر بھی جو اس آواز نے اپنے سننے والوں میں پیدا کئے ہیں …… جب کسی قوم کی زندگی میں انحطاط شروع ہو جاتا ہے تو انحطاط ہی الہام کا مأخذ بن جاتا ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۹۸ بحوالہ حرفِ اقبال صفحہ ۱۵۷، ۱۵۸)
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی اور ڈاکٹر اقبال صاحب دونوں کے مندرجہ بالا اقتباسات کسی صحیح فلسفہ پر مبنی نہیں بلکہ محض ایک سفسطہ ہیں اور وہم کی پیداوار ہیں کہ مکالماتِ خداوندی کا تجزیہ کرتے ہوئے کسی زمانہ میں اگر روحانیت کا افلاس اور زوال نظر آئے تو سمجھ لینا چاہئے کہ ان مکالمات کا سرچشمہ خدا تعالیٰ نہیں بلکہ قوم کا روحانی افلاس اور کسی دوسری قوم کا اقتدارِ اعلیٰ ہے۔ اگر اس وہم کو درست مان لیا جائے تو اس سے ان تمام انبیاء کرام کے مکالمات و مخاطباتِ الٰہیہ مشکوک ہو جاتے ہیں جو ایسے زمانہ میں مبعوث ہوئے جبکہ روحانیت ان کی قوم سے زائل ہو چکی تھی یا رو بزوال تھی اور وہ قوم اور وہ نبی دوسری قوم کے اقتدارِ اعلیٰ کے تحت زندگی بسر کر رہے تھے۔
ایک ضروری سوال
اِس جگہ ایک نہایت ضروری سوال پیدا ہوتا ہے۔ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی بتائیں کہ حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیھم السلام کے الہامات کے سرچشمہ کے متعلق اُن کا کیا خیال ہے جبکہ خود یہ نبی اور ان کی قوم یہود رومن حکومت کے اقتدار اعلیٰ کے تحت زندگی بسر کر رہی تھی۔ اور روحانی لحاظ سے بھی افلاس میں مبتلا تھی۔ حضرت بانیٔ سلسلہ تو اپنے آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مثیل ہی قرار دیتے ہیں۔ اگر مثیل کی قوم کے روحانی افلاس اور انگریزی حکومت کے اقتدار اعلیٰ کو ان کے الہامات کا سرچشمہ قرار دیا جائے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اُن تمام نبیوں کی نبوّت مشکوک ہو کر رہ جائے گی جو قوم کے روحانی افلاس کے وقت مبعوث ہوئے اور ان کی قوم اس وقت اقتدارِ اعلیٰ سے محروم تھی اور وہ انبیاء خود بھی اس دوسری اقتدارِ اعلیٰ رکھنے والی قوم کے ماتحت زندگی بسر کرتے رہے۔
پھر جب ہمارے پیارے نبی سرورِ انبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے تو اس وقت ساری دنیا روحانی افلاس میں مبتلا تھی۔عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معبود مان رہے تھے اور یہودی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انکار کی لعنت کے نیچے روحانی افلاس کا شکار تھے۔ ہندوستانی ہندو تنتیس کروڑ دیوتاؤں کی پوجا کر کررہے تھے۔ ایرانی آتش پرست تھے۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایسے زمانہ میں مبعوث ہوئے جو خدا کے قول کے مطابق ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ کا مصداق تھا۔ اس زمانہ کا یہ روحانی افلاس اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو ایک عظیم الشان نبی کی بعثت کا تقاضا کر رہا تھا چنانچہ اس نے اس انتہائی گمراہی اور روحانی افلاس کے زمانہ میں جو ساری دنیا میں پایا جا رہا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمایا۔ اس وقت مکّہ کا اقتدارِ اعلیٰ مشرکین مکّہکے ہاتھ میں تھا۔ اپنے زمانہ کے اقتدارِ اعلیٰ کے خلاف نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عَلَمِ بغاوت بلند کیانہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول انجیل میں درج ہے کہ جو قیصر کاہے وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو۔ اس میں اشارہ تھا کہ مَیں قیصر کا باغی نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مکہ والوں کے نامناسب رویّہ کے بعد جب طائف میں تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں نے بھی آپ سے انتہائی بُرا سلوک کیا۔ آپ کی پنڈلیاں لہولہان کر دیں اور آپ کے پیچھے بچے لگا دیئے جو آوازے کستے تھے۔ جب آپ واپس مکّہ مکرمہ میں داخل ہونے کے لئے تشریف لائے تو مکّہ والوں نے آپؐ کا حقِ شہریت چھین لیا۔ لیکن آپؐ نے ان کے قانون کو نہیں توڑا۔ بلکہ ایک مشرک کی حمایت سے مکہ میں داخل ہوئے اور اس طرح دوبارہ شہریت کے حقوق حاصل کئے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ والوں کے ظلم سے تنگ آکر جب وہ آپ کی جان لینے کے درپے ہو گئے تو خدا کے حکم کے تحت مدینہ منورہ میں ہجرت فرمائی اور وہاں جا کر آپؐ کو خدا کے فضل سے اقتدارِ اعلیٰ حاصل ہو گیا کیونکہ آپؐ تشریعی نبی تھے۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی ساری عمر اقتدارِ اعلیٰ سے محروم رہے۔ مولوی ابوالحسن صاحب ان سب نبیوں کے بارہ میں یہ کہنے کو تیار نہیں ہو سکتے کہ ان کے کچھ الہامات کا سرچشمہ خدا کی قوت نہ تھی بلکہ اُن کے زمانہ کا روحانی افلاس اور اقتدارِ اعلیٰ کا نہ رکھنا تھا۔ اسی طرح ہزاروں انبیاء اقتدارِ اعلیٰ کے بغیر مبعوث ہوئے اور مولوی ابو الحسن صاحب ان کے الہامات کا سرچشمہ خدا کی قوت کو ہی جانتے ہیں تو پھر یہ کس قدر بے انصافی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کا سرچشمہ وہ خدا کی قوت کو نہیں جانتے بلکہ قوم کے روحانی افلاس اور اقتدارِ اعلیٰ سے محرومی کو آپ کے الہامات کاسرچشمہ قرار دینا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر اقبال صاحب نے اپنے ایک شعر میں بھی اپنے اس وہم کو پیش کرتے ہوئے لکھا تھا
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے
غارت گرِ اقوام ہے وہ صورتِ چنگیز
اس پر مولوی اسلم صاحب جیرا جپوری نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا:۔
‘‘یہ خالص شاعرانہ استدلال ہے غالب کی طرح جس نےکہا ہے
کیوں ردّ قدح کرے ہے زاہد
مے ہے مگس کی قے نہیں ہے
جس طرح مگس کی قے کہہ دینے سے شہد کی لطافت اور شیرینی میں فرق نہیں آسکتا اسی طرح محکومیت کی نسبت سے الہام بھی اگر حق ہو غارت گرِ اقوام نہیں ہو سکتا۔ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام رومی سلطنت کے محکوم تھے جن کی نسبت ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے ۔
فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا
نبی عفت و غمخواری و کم آزاری
جب کہ اکثر انبیاء علیھم السلام محکوم اقوام میں مبعوث کئے گئے جن کے خاص اسباب و علل تھے جس کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں۔ دراصل نبوّت کی صداقت کا معیار حاکمیت یا محکومیت نہیں بلکہ خود الہام کی نوعیت ہے۔’’
(نوادرات صفحہ ۱۲۳،۱۲۴ مجموعہ مضامین اسلم جیراجپوری)
الہامات کو پرکھنے کے قرآنی معیار
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ کے لوگ بھی آپ کے الہامی دعویٰ کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان میں سے بعض قرآن مجید کے کلام الٰہی کو شاعرانہ کلام قرار دیتے تھے اور بعض اس کا سرچشمہ کہانت کو قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحاقہ میں ان ہر دو خیالات کو رد کرتے ہوئے قرآن مجید کو کلام الٰہی قرار دیا۔ چنانچہ فرمایا:۔
(۱)۔مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ۞ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُونَ۞تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِينَ۞ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ۞ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ۞ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ ۞ فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ۞ وَإِنَّهٗ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ ۞ وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنْكُمْ مُّكَذِّبِينَ ۞ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكَافِرِينَ۞وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ ۞ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ ۞
(الحاقۃ۴۲تا ۵۳)
ترجمہ۔ یہ قرآن کسی شاعر کا کلام نہیں مگر تم کم ہی ایمان لاتے ہو۔ نہ یہ کسی کاہن کا کلام ہے۔ تم کم ہی نصیحت حاصل کر تے ہو۔ یہ ربّ العالمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے اور اگر یہ شخص (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) ہم پر کوئی جھوٹا قول باندھ لیتا تو ہم اسے یقینا دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے پھر ہم اُس کی رگِ گردن کاٹ دیتے۔ سو تم میں سے کوئی بھی خدا کو اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔ یہ تو یقیناپرہیزگاروں کے لئے نصیحت ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے بعض جھٹلانے والے ہیں اور یقینا وہ کافروں کے لئے حسرت کا موجب ہے۔اور اس کی سچائی حق الیقین کی طرح ظاہر ہے۔ پس تو (اے نبی!) اپنے عظمت والے ربّ کے نام کی تسبیح کرتا رہ۔
اِن آیات سے ظاہر ہے کہ جب قرآن مجید کودنیا کے روحانی افلاس کو دور کرنے کے لئے نازل کیا گیا تو اس کے متعلق بعض لوگ سخت بدظنی میں مبتلا تھے۔ بعض اسے شاعرانہ کلام کہتے تھے اور بعض کہانت کی باتیں قرار دیتے تھے۔ اور اس کا سرچشمہ خدا کی قوت کو قرار نہیں دیتے تھے۔ اِس پر خدا تعالیٰ نے اس کے اپنی طرف سے نازل شدہ وحی ہونے کی دلیل یہ دی کہ اگر یہ مدعی وحی کوئی قول اپنی طرف سے گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کرتا تو ہم اپنی قدرت کے ہاتھ سے اس مدعی کو ناکام کر دیتے اور پھر اس کی رگِ گردن کاٹ دیتے اور تم میں سے کوئی شخص اسے میرے ہاتھ سے بچا نہ سکتا۔ لہذا چونکہ اس مدعیٔ وحی الٰہی نے اپنے دعویٰ کے بعد تئیس سال کی لمبی عمر پائی ہے اور ایک کامیاب زندگی گزاری ہے اور یہ قتل کیا جانے سے بچایا گیا ہے لہذا اس کی وحی کا سرچشمہ یقینا خدا تعالیٰ کی قوتِ تکلّم ہے۔
اب اسی معیار پر جب ہم حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے الہامات کو پرکھتے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ اپنے الہامی دعویٰ کے بعد انہوں نے بھی ۲۳ سال سے زائد عرصہ مہلت پائی ہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں اور قتل کیا جانے سے بچائے گئے ہیں۔ لہذا ان کے الہامات کا سرچشمہ بھی اللہ تعالیٰ کی قوتِ تکلم کو قرار دینا پڑے گا۔ اگر ان کے الہامات کا سرچشمہ خدا تعالیٰکے سوا کسی اور شے کو قرار دیا جائے تو یہ آیت معاذ اللہ دشمنانِ اسلام کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت پر دلیل نہیں رہے گی۔ کیونکہ اے مولوی ابو الحسن صاحب! ایک مخالف اسلام آپ کو کہہ سکے گا کہ جب اِس معیارِ صداقت کی موجودگی میں تم لوگ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے الہامات کا سرچشمہ خدا تعالیٰ کی قوتِ تکلّم کو قرار نہیں دیتے اور ان کی تکذیب کرتے ہو تو پھر تم کس منہ سے اس دلیل کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس دعویٰ کے ثبوت میں پیش کر سکتے ہو کہ آپؐ پر قرآنِ مجید خداوند تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے؟ پس اگر آپ حضرت بانیٔ احمدیت علیہ السلام کے الہامات کے منجانب اللہ ہونے سے انکار کریں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں یہ دلیل قرآنی آپ کے ہاتھ سے جاتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بڑے شَدّ و مَدّ سے قرآنِ مجید کی ان آیات میں قرآنِ مجید کے منجانب اللہ ہونے کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔
پس حضرت بانیٔ احمدیت علیہ السلام کا انکار کوئی معمولی بات نہیں کیونکہ ان کے انکار کی صورت میں قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے کے حق میں یہ دلیل بھی منکرینِ اسلام کے نزدیک حجّت نہیں رہے گی۔ لہذامولوی ابو الحسن صاحب کو اپنا نفع نقصان سوچنا چاہئے اور آنکھیں بند کر کے ڈاکٹر اقبال کے اس شاعرانہ تخیّل کو کہ روحانی افلاس کے زمانہ کے الہام اور محکوم کے الہام کا سرچشمہ اللہ نہیں ہو سکتا قبول کر کے تمام انبیاء ِکرام علیہم السلام کے انکار کرنے والوں کے لئے انکار کی ر اہ ہموار نہیں کرنی چاہئے جو اُن پر نازل شدہ وحی کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
(۲)قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
وَالَّذِيْنَ يُحَآجُّوْنَ فِي اللّٰهِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِيْبَ لَهٗ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَّلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۔
(الشورىٰ:۱۷)
ترجمہ۔ وہ لوگ جو اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں بعد اس کے کہ اُسے قبولیت حاصل ہو چکی یعنی بہت سے لوگوں نے اُسے قبول کر لیا ان کی دلیل ان کے رب کے حضور توڑی جانے والی ہے اور ان پر غضب نازل ہو گا اور ان کے لئے سخت عذاب مقدّر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں یہ بتایا ہے کہ جب اسلام کو ایک بڑی تعداد نے قبول کر لیا ہے تو اس کے مقابلہ میں منکرین کی حجت اللہ کے حضورکامیاب نہیں ہو گی بلکہ توڑ دی جائے گی اور وہ ناکام رہیں گے اور عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ پس ہر وہ سلسلہ جس کا داعی خدا تعالیٰ کی طرف مامور ہونے کا دعویٰ کرے اور دنیا میں اُسے قبولیت حاصل ہو جائے تو یہسمجھا جانا چاہئے کہ یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم ہوا ہے۔ اس کی مخالفت کرنے والوں کی دلیل اللہ کے حضور کوئی وزن نہیں رکھتی۔ وہ انجام کار ناکام رہیں گے اور ان کی ساری بحثیں بیکار ہو جائیں گی۔
اِس آیت میں بھی سچائی کو پرکھنے کے لئے ایک روشن معیار بیان کیا گیا ہے۔ اسلام میں جب غلط خیالات راہ پا گئے تو خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا کہ مسیح موعود علیہ السلام کو بھیج کر اس کی تجدید کی جائے۔ علماءِ اسلام مسیح موعود کا آنا تو مانتے تھے مگر وہ اس غلطی میں مبتلا تھے کہ مسیح موعود حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے آخری زمانہ میں دوبارہ بھیجنے کے لئے آسمان پر زندہ اٹھا لیا۔ وہ جب آسمان سے نازل ہوں گے تو ان کے ذریعہ اسلام کی نشأۃِ ثانیہ ہو گی اور اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک اُمّتی اور فرزندِ جلیل ہیں مسیح موعود قرار دے دیا اور آپ پر الہامًا واضح فرما دیا کہ ‘‘مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔(تذکرۃصفحہ۱۴۸،ایڈیشن ۲۰۰۴)’’علماء آپ کی مخالفت پر کمربستہ ہو گئے اس وجہ سے کہ ان کے نزدیک حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ کا یہ دعویٰ اس لئے باطل تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہ اصالتًا آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔اس پر حیات و وفاتِ مسیح پر بحثیں چلیں۔ اور آج یہ حال ہے کہ جماعت احمدیہ اکنافِ عالم میں پھیل چکی ہے اور وہ وفاتِ مسیح کی قائل ہے اور مسیح موعود کے نزول کی پیشگوئی کا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے وجود میں پورا ہونا مانتی ہے اور لکھوکھہا پڑھے لکھے مسلمان بھی حیاتِ مسیح کے عقیدہ کو چھوڑ چکے ہیں حتّٰی کہ ڈاکٹر اقبال صاحب جن کے اقتباسات مولوی ابو الحسن صاحب اپنی کتاب ‘‘قادیانیت’’ میں پیش کر چکے ہیں وفات مسیح کے قائل تھے اور انہوں نے احمدیوں کے اس عقیدہ کو کہ حضرت مسیح کے نزول سے مراد یہ ہے کہ کوئی اور شخص اُن کے رنگ میں رنگین ہو کر آئے گامعقولیت کا پہلو رکھنے والا قرار دیا ہے۔ گو سیاست کے چکر میں پڑ جانے پر وہ حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ کو مسیح موعود ماننے سے انکار کر گئے۔ سیاست کے چکر میں پڑنے سے پہلے انہوں نے بیان کیا تھا۔
‘‘جہاں تک مَیں نے اس تحریک کی منشاء کو سمجھا ہے احمدیوں کا یہ اعتقاد ہے کہ مسیح کی موت ایک عام فانی انسان کی موت تھی اور رَجعتِ مسیح گویا ایسے شخص کی آمد ہے جو روحانی حیثیت سے اُس کے مشابہ ہو اِس خیال سے یہ تحریک معقولی رنگ رکھتی ہے۔’’
(خطبات مدراس)
مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم، ڈاکٹر انعام اللہ خان سالاری بلوچستان کے ایک استفسار مرقومہ ۶ـاپریل۱۹۵۶ء کے جواب میں لکھتے ہیں:۔
‘‘وفاتِ مسیح ؑ کا ذکر خود قرآنِ مجید میں ہے۔ مرزا صاحب کی تعریف اور بُرائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔’’
(ملفوظاتِ آزاد مرتبہ محمد اجمل خان صفحہ ۱۲۹، ۱۳۰ مطبوعہ مکتبہ ماحول کراچی)
نواب اعظم یار جنگ مولوی چراغ علی صاحب آیت یٰعِیْسیٰٓ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ (اٰل عمران:۵۶) اور آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ (المائدۃ:۱۱۸)کے بارہ میں لکھتے ہیں۔ ان دونوں آیتوں میں وفات کا ذکر ہے اور یہ موت کی دلیل ہے۔
(انتخاب مضامین تہذیب الاخلاق جلد سوم صفحہ ۲۱۱ تا۲۱۳ مطبوعہ ۱۸۹۶ء)
مولانا عبید اللہ سندھی اپنی تفسیر الہام الرحمٰن فی تفسیر القرآن الجزء الثانی صفحہ ۴۹ پر عربی زبان میں لکھتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے:۔
‘‘مُتَوَفِّیْکَکے معنی ہیں مَیں تجھے موت دوں گا اور عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بارہ میں جو کچھ لوگوں میں مشہور ہے وہ ایک یہودی اور صابی افسانہ ہے…… یہ بات مخفی نہیں کہ علومِ اسلامی کا مَرجع قرآنِ عظیم ہے اور اس میں ایک آیت بھی ایسی نہیں جو صراحت کے ساتھ ثابت کرتی ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام نے وفات نہیں پائی اور کہ وہ زندہ ہیں اور عنقریب نازل ہوں گے۔ سوائے (بعض لوگوں کے) استنباطات اور تفاسیر کے اور یہ آراء و استدلالات شک و شبہ سے بالا نہیں ہیں۔ پس ان کو ایک اسلامی عقیدہ کی بنیاد کس طرح مانا جا سکتا ہے؟’’
سرسید احمد خان بانی علی گڑھ یونیورسٹی بھی وفاتِ مسیحؑ کے قائل تھے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘اب ہم کو قرآنِ مجید پر غور کرنا چاہئے کہ اس میں کیا لکھا ہے قرآنِ مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے متعلق چار جگہ ذکر آیا ہے…… پہلی تین آیتوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا طبعی موت سے وفات پا جانا ظاہر ہے مگر چونکہ علماءِ اسلام نے بتقلید بعض فِرقِ نصاریٰ کے قبل اس کے کہ قرآن پر غور کریں یہ تسلیم کر لیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں۔ اس لئے انہوں نے ان آیتوں کے بعض الفاظ کو اپنی غیر محقّق تسلیم کے مطابق کرنے کی کوشش کی۔’’(پوری تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر احمدی مصنفہ سر سیداحمد خان، جلد۲ صفحہ ۴۸)
علماءِ عرب میں سے بھی کئی علماء نے وفات مسیح کا اعتراف کیا ہے بلکہ حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی اِس تحقیق کی بھی تصدیق کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کشمیر کی طرف ہجرت کی اور وہاں وفات پائی۔ چنانچہ علامہ رشید رضا سابق مفتی مصراور ایڈیٹر رسالہ المنار ‘‘القول بھجرۃ المسیح الی الھند و موتہ فی بلدۃ سرینکر فی کشمیر’’کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:۔
‘‘ففرارہ الی الھند و موتہ فی ذالک البلدۃ لیس ببعید عقلا و نقلا۔’’
(رسالہ المنار جلد۵ صفحہ۹۰۰ ،۹۰۱)
ترجمہ۔ مسیح کا ہندوستان ہجرت کر جانا اور شہر سرینگر میں وفات پانا عقل و نقل کی رو سے بعید نہیں۔
علّامہ مفتی محمد عبدہ نے اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ کے معنوں کی تائید میں لکھا ہے:۔
‘‘التوفی ھو الاماتۃ کما ھو الظاھر المتبادر’’
کہ یہاں توفّی سے موت مراد ہے اور ظاہر اور متبادر الفہم یہی معنی ہیں۔
الاستاذ محمود شَلتوت سابق مفتی مصر اور منتظم اعلیٰ ازہر یونیورسٹی قاہرہ نے اپنے ایک فتویٰ میں تفصیلی طور پر وفاتِ مسیح پر بحث کی ہے جس کا خلاصہ یہ لکھا ہے:۔
(۱)‘‘انہ لیس فی القراٰن الکریم ولا فی السنۃ المطھرۃ مستند یصلح لتکوین عقیدۃ یطمئن الیھا القلب باَنّ عیسیٰ رفع بجسدہ الی السماء وانہ الی الاٰن فیھا’’۔
(۲)‘‘ان کل ما تفید الایات الواردۃ فی ھذا الشّان ھو وعد اللہ عیسیٰ بانہ ھو متوفیہ اجلہ و رافعہ الیہ و عاصمہ من الذین کفروا وان ھذا الوعد قد تحقّق و لم یقتلہ اعداءہ و لم یصلّبوہ و لٰکن وفّاہ اللّٰہ اجلہ و رفعہ الیہ’’۔
(الرسالۃ ۱۵ـمئی ۱۹۴۲ء جلد۱ صفحہ ۶۴۲ والفتاوی ٰعلّامہ محمود شلتوت
مطبوعہ الادارۃ للثقافۃ الاسلامیۃ بالازھر)
ترجمہ۔(۱) قرآنِ کریم اور سُنّت مطہّرہ میں کوئی ایسی مستند نص نہیں ہے جو اِس عقیدہ کی بنیاد بن سکے اور جس پر دل مطمئن ہو سکے کہ عیسیٰ علیہ السلام مع اپنے جسم کے آسمان پر اٹھائے گئے اور وہ اب تک وہاں زندہ موجود ہیں۔
(۲)اس بارہ میں جتنی آیات (قرآنِ کریم میں) وارد ہیں ان کا مفاد صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عیسیٰ علیہ السلام سے وعدہ تھا کہ وہ خود اُن کی عمر پوری کر کے وفات دے گا اور اُن کا اپنی طرف رفع کرے گا اور اُنہیں اُن کے منکرین سے محفوظ رکھے گا اور یہ وعدہ پورا ہو چکا ہے چنانچہ اُن کے دشمنوں نے نہ انہیں قتل کیا، نہ صلیب پر مار سکے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مقدرعمر پوری کی اور پھر ان کا رفع اپنی طرف کیا۔
علّامہ الاستاذ احمد العجوز اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں جس کا عکس ہمارے پاس موجود ہے:۔
ان السید المسیح قد مات فی الارض حسب قول اللّٰہ تعالٰی ‘‘اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ اَیْ مُمِیْتُکَ’’ والموت امر کائن لا محالۃ اذ قال اللّٰہ عن لسانہ‘‘ وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ’’
ترجمہ۔ یقینا سیدنا مسیح زمین میں وفات پا چکے ہیں اللہ تعالیٰ کے قولاِنِّی مُتَوَفِّیْکَکے مطابق جس کے معنی ہیں کہ میں تجھے موت دینے والا ہوں۔ اور موت بہرحال واقع ہونے والی چیز ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے مسیح کی زبان سے فرمایا کہ سلامتی ہو مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا۔
الاستاذ مصطفیٰ المراغی اپنی تفسیر میں زیر آیت یٰعِیْسیٰٓ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَلکھتے ہیں:۔
التّوفّی ھو الاماتۃ العادیۃ وان الرفع بعدہ للروح و المعنیٰ اِنِّیْ مُمِیْتُکَ و جاعلک بعد الموت فی مکان رفیع عندی۔
(التفسیر المراغی الجزء الثالث صفحہ ۱۶۵)
ترجمہ۔ توفّی سے روزمرہ کی موت مراد ہے اوررَفع موت کے بعد روح کا ہوا ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ میں تجھے موت دوں گا اور موت کے بعد تجھے اپنے حضور بلند مرتبہ پر فائز کروں گا۔
اسی طرح الاستاذ عبد الکریم شریف اور الاستاذ عبد الوہاب النجّار اور ڈاکٹر احمد زکی ابو شادی وغیرہ علماء نے وفاتِ مسیح کے ثبوت میں مضامین لکھے ہیں:۔
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا یہ مسلک کہ آپ روحانی حیثیت میں عیسیٰ علیہ السلام کے مثیل ہو کر نزولِ مسیح کی پیشگوئیوں کے مصداق ہیں ایک صحیح مسلک ہے۔ کیونکہ وفات مسیح ثابت ہو جانے کے بعد نزولِ مسیح کی پیشگوئی کی یہی تعبیر تسلیم کی جا سکتی ہے کہ موعود مسیح اُمّت محمدیہ میں سے پیدا ہونے والا تھا۔ چنانچہ مسلمانوں کا ایک طبقہ اسی عقیدہ کا قائل چلا آیا ہے۔ جیسا کہ اقتباس الانوار صفحہ ۵۲ میں امام مہدی کو ہی بُروز کے طور پر نزولِ عیسیٰ کی پیشگوئی کا حسب حدیث لَا مھدیّ اِلّا عیسیٰ مصداق قرار دیا گیا ہے اور خریدۃ العجائب اور فریدۃ الرغائب صفحہ ۲۶۳ مطبوعہ مصطفیٰ البابی الحلبی و اولادہ بمصر طبع ثانیہ میں صاف لکھا ہے:۔
‘‘قَالَتْ فِرْقَۃٌ نُزُوْلُ عِیْسیٰ خُرُوْجُ رَجُلٍ یُشَبِّہُ عِیْسیٰ فِی الفَضْلِ وَالشَّرَفِ کَمَا یُقَالُ لِلرَّجُلِ الخَیْرِ مَلَکٌ وَلِلشَّرِیْرِ شَیْطَانٌ تَشْبِیْھًا بِھِمَا وَلَا یُرَادُ الْاَعْیَانُ’’
ترجمہ۔ ایک گروہ نے نزولِ عیسیٰ سے ایک ایسے شخص کا ظہور مراد لیا ہے جو فضل و شرف میں عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہ ہو گا جیسے تشبیہ دینے کے لئے نیک آدمی کو فرشتہ اور شریر کو شیطان کہتے ہیں مگر اس سےمراد فرشتہ یا شیطان کی ذات نہیں ہوتی۔
یہ ہر دو عقیدے جماعت احمدیہ کو مسلّم ہیں اور وہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو نزول مسیح کی پیشگوئی کا مصداق جانتی ہے اور اب وہ تمام اکنافِ عالم میں پھیل چکی ہے اور جماعت کے بہت سے نوجوان اپنی زندگیاں منظم طریق سے خدمتِ اسلام کے لئے وقف کر کے تبلیغِ اسلام کا فریضہ اطرافِ عالم میں بجا لا رہے ہیں۔ پس یہ سچائی دنیا میں قائم ہو چکی ہے و لو کرہ الکافرون۔ اور یہ امر اس بات کی دلیل ہے کہ مخالفین کی دلیل توڑ دی گئی ہے اور قرآن کریم کے اِس معیار کی رُو سے جو سورۂ شوریٰ کی آیت ۱۷ میں مذکورہے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی سچائی روزِ روشن کی طرح ثابت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر وفاتِ مسیح ؑ اور اپنے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں جو الہام ہوا اس کی سچائی دنیا میں مانی جا رہی ہے۔ اور قرآنِ مجید کی مندرجہ بالا دونوں آیتوں کی رو سے آپ کا یہ الہامی دعویٰ ثابت ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں اور آپؑ خدا تعالیٰ کے مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہیں۔ اور اس مکالمہ و مخاطبہ کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی قوتِ تکلّم ہے نہ کہ قوم کا روحانی افلاس یا انگریزوں کا اقتدارِ اعلیٰ، روحانی افلاس دُور کرنے کے لئے تو انبیاء بھیجے جاتے ہیں اور زمانہ کاروحانی افلاس تو ان کے مبعوث ہونے اور ان کی ضرورت کو ثابت کرتا ہے۔ اگر انگریزوں کا اقتدار ِاعلیٰ آپ کے الہامات کا سرچشمہ ہوتا تو پھر آپ حیاتِ مسیح کے قائل ہوتے نہ کہ اس بات کے قائل کہ مسیح صلیبی موت سے بچائے گئے اور انہوں نے کشمیر کی طرف ہجرت کی اور وہاں اپنی عمر کے ستاسی سال گزار کر وفات پائی یہ عقیدہ تو انگریزوں کے عقیدۂ صلیب کو پاش پاش کرنے والا ہے۔ کوئی عقلمند اس الہام کا سرچشمہ انگریزوں کے اقتدار اعلیٰ کو قرار نہیں دے سکتا۔ سوائے اس کے کہ وہ احمدیت کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنا چاہتا ہو، اور یہی مولوی ابو الحسن صاحب کا مقصد ہے۔
مسیح موعود کا مطمح نظر
واضح ہو کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑکا مقصد ہندوستان کا اقتدارِ اعلیٰ حاصل کرنے سے بلند تر اور وسیع تر تھا۔ آپؑ یہ پروگرام لے کر کھڑے ہوئے کہ یورپ، امریکہ، افریقہ بلکہ تمام دنیا کے دلوں پر حضرت سیدنا و مولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانی حکومت قائم کریں تا اسلام کا جھنڈا تمام اکنافِ عالم میں لہرائے۔ پس جس کا پروگرام ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہو اس کی نظر میں انگریزوں سے لڑ کر ہندوستان کا اقتدار چھیننا ایک ادنیٰ بات ہے وہ شخص تو تمام دنیا میں اسلام کے اقتدارِ اعلیٰ کو قائم کرنے کا مشن رکھتا ہے۔ پس محض ہندوستان کے اقتدار اعلیٰ کو حاصل کرنا اور حکومت سے اُلجھ کر تبلیغ کے مقصد کو نقصان پہنچانا مناسب نہ تھا جبکہ انگریزی حکومت نے ہندوستان کے اندر مذہبی آزادی دے رکھی تھی اور تمام دنیا میں جہاں جہاں برٹش راج قائم تھا آپ کے لئے تبلیغ کے راستے کھل گئے تھے۔ پس حکومتِ وقت سے ٹکر لے کر اسلام کی تبلیغ ناممکن تھی۔ چونکہ آپ مثیلِ مسیح تھے اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح آپؑ کا پروگرام بھی محبت، آشتی، صلح اور رواداری سے لوگوں کو خدا کا پیغام پہنچانا تھا۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ نے تبلیغ اسلام کا پورا حق ادا کر دیا ہے اور وہ کبھی اس بارہ میں انگریزوں کے عقائد کی تردید سے خائف نہیں ہوئے۔ اُن کی سلطنت میں رہتے ہوئے آپ نے نہ صرف عیسائیوں کے صلیبی عقیدہ پر کاری ضربیں لگائیں بلکہ اُسے پاش پاش کر دیا ہے اور ملکہ وکٹوریہ کو جو ہندوستان میں اقتدارِ اعلیٰ رکھتی تھیں صلیبی عقیدہ کی تردید کر کے اسلام کی دعوت دی۔ کیا اُس جری اور بطلِ اسلام کا یہ کارنامہ دیکھ کر بھی مولوی ابو الحسن صاحب کو یہ سبق نہیں ملتا کہ وہ آپ کے الہامات کا سرچشمہ انگریزوں کے اقتدار اعلیٰ کو قرار نہ دیں؟ مگر وہ آنکھیں بند کر کے ڈاکٹر اقبال کے پیچھے چل پڑے ہیں جو کوئی مذہبی پیشوا نہ تھے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ایک وقت تک خود ڈاکٹر اقبال بھی انگریزوں کی قصیدہ خوانی میں رطب اللسان تھے اور حضرت بانیٔٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات کے بعد جو ۱۹۰۸ء میں ہوئی۔ جب انگریزی حکومت میں کمزوری کے آثار پیدا ہونے شروع ہوئے تو پھر وہ مدح خوانوں کی صف سے نکل گئے لیکن وہ انگریزوں سے تلوار کے ذریعہ حکومت نہیں لینا چاہتے تھے بلکہ آئینی طریق سے انگریزی حکومت کے اقتدارِ اعلیٰ کو ختم کرنے کے حامی تھے۔ انگریزوں کے اقتدارِ اعلیٰ کو ختم کرنے میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تربیت یافتہ اور منظم جماعت نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب قائد اعظم محمد علی جناح نے عبوری حکومت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تو اس وقت پاکستان بننے کا خیال موہوم بن کر رہ گیا۔ اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد (خلیفۃ المسیح الثانیؓ) خدا تعالیٰ کے ایماء پر دہلی میں جا بیٹھے اور نواب بھوپال کی وساطت سے قائداعظم کو اِس بات کا قائل کیا کہ عبوری حکومت میں شامل نہ ہونے سے پاکستان نہیں بن سکتا۔ قائد اعظم کے لئے عبوری حکومت میں اپنی پارٹی کو شامل کرنے میں اب وقار مانع تھا کیونکہ وہ اس کا بائیکاٹ کر چکے تھے۔ جب قائد اعظم نے اپنی اس مشکل کا اظہارکیا تو حضرت امام جماعت احمدیہ کی کوشش سے لارڈ ماونٹ بیٹن گورنر جنرل ہند سے یہ اعلان کروایا گیا کہ مسلم لیگ کے لئے اب بھی عبوری حکومت میں شامل ہونے کا راستہ کھُلا ہے۔ چونکہ قائد اعظم کو تیار کیا جاچکا تھا اس لئے اس اعلان کے ہوتے ہی قائد اعظم نے مسلم لیگ کو عبوری حکومت میں شامل کر دیا ۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان وجود میں آگیا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
اُس وقت صوبہ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی۔ جس میں ہندو بھی شامل تھے۔ اس کے وزیر اعظم خضر حیات خان تھے۔ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی کوشش سے اُن سے استعفٰی دلایا گیا۔ اگر حضرت امام جماعت احمدیہ کوشش نہ کرتے تو پاکستان بننے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوتا۔
اب میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ذیل میں ڈاکٹر اقبال کے برٹش گورنمنٹ کی مدح میں بہت سے اشعار میں سے چند منتخب اشعار اِس جگہ نقل کر دوں جس سے قارئین کرام اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ڈاکٹر اقبال بھی حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی زندگی میں انگریزوں کے مدح خوان تھے۔ ہم اُن پر منافقت کا الزام لگانے کی جرأت نہیں کر سکتے۔
ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر اقبال نے (اشکِ خون) دس صفحات کا ایک لمبا مرثیہ دس بندوں میں لکھا۔ اس میں لکھتے ہیں
میّت اٹھی ہے شاہ کی تعظیم کے لئے
اقبال اڑ کے خاک سرِ راہ گزار ہو
ملکہ وکٹوریہ کا انتقال۲۲ـ جنوری ۱۹۰۰ء کو ہوا۔ اتفاق سے اُس روز عید الفطر تھی اس لئے سر اقبال نے لکھا:۔
آئی اِدھر نشاط، اُدھرغم بھی آگیا
کل عید تھی تو آج محرّم بھی آگیا
(باقیاتِ اقبال صفحہ۷۴)
کہتے ہیں آج عید ہوتی ہے ہؤا کرے
اِس عید سے تو موت ہی آئے خدا کرے
اِس روز رنج و غم سے تو آسان تھی یہی
محشر کی صبح ہو نہ گئی آشکار آج
(باقیات اقبال صفحہ۷۶)
دل کا تو ذکر کیا ہے کہ دل کا قرار بھی
سیماب کی طرح سے ہؤا بے قرار آج
مثلِ سموم تھی یہ خبر کس کی موت کی
گلزارِ دل میں آکے لگے غم کے خارآج
اقلیمِ دل کی آہ شہنشاہ چل بسی
ماتم کدہ بنا ہے دلِ داغدار آج
(باقیاتِ اقبال صفحہ۷۷، ۷۸)
اے ہند تیری چاہنے والی گزر گئی
غم میں ترے کراہنے والی گزر گئی
دردِ اجل کی تاک بھی کیسی غضب کی تھی
انگشتری جو دل کے نگینوں کی تھی گئی
اے ہند تیرے سر سے اٹھا سایۂ خدا
اک غمگسار تیرے مکینوں کی تھی گئی
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۸۰، ۸۱)
لکھتا ہوں شعر دیدۂ خوں بار سے مگر
کاغذ کو رشکِ باغِ گلستاں کئے ہوئے
برطانیہ تُو آج گلے مل کے ہم سے رو
سامان بحر ریزیٔ طوفان لئے ہوئے
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۸۵، ۸۶)
شہرہ ہؤا جہاں میں یہ کسی کی وفات کا
ہے ہر ورق سیاہ بیاضِ حیات کا
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۸۸)
دونی تھی جن کی شان سے ہیروں کی آبرو
وہ آج کر گئے ہیں جہاں سے سفر کہیں
اے کوہِ نور تو نے تو دیکھے ہیں تاجور
دیکھا ہے اس طرح کا کوئی تاجور کہیں
دیتے ہیں تجھ کو دامن کہسار کی قسم
اس شان کا ملا ہے تجھے داد گر کہیں
بن کر چراغ سارے زمانے میں ڈھونڈنا
کہنا ہمیں بھی ایسا جو آئے نظر کہیں
تو کیا کسی پہ گوہرِ جاں تک نثار تھے
پیداجہاں میں ہوتے ہیں ایسے بشر کہیں
ہلتا ہے جس سے عرش یہ رونا اُسی کا ہے
زینت تھی جس سے تجھ کو جنازااسی کا ہے
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۸۹، ۹۰)
جس کا دلوں پہ راج ہو مرتا نہیں کبھی
صدیاں ہزار گردشِ دوراں گزاردے
وکٹوریہ نہ مُرد کہ نامِ نکو گزاشت
ہے زندگی یہی جسے پروردگار دے
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۹۱)
مرحوم کے نصیب ثوابِ جزیل ہو
ہاتھوں میں اپنے دامنِ صبرِ جمیل ہو
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۹۲)
انجمن حمایتِ اسلام کے جلسہ ۱۹۰۲ء میں ہزآنرسر میکورتھ ینگ لیفٹیننٹ گورنر پنجاب اور ڈائریکٹر سر رشتہ تعلیم پنجاب ڈبلیو بل تشریف لائے۔ اقبال نے اس موقع پر خیر مقدم کی نظم پڑھی جس کے چند اشعار ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:۔
خوشا نصیب وہ گوہر ہے آج زینتِ بزم
کہ جس کی شان سے ہے آبروئے تاج و سریر
وہ کون زیب دہِ تختِ صوبۂ پنجاب
کہ جس کے ہاتھ نے کی قصرِ عدل کی تعمیر
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۹۹)
جو بزم اپنی ہے طاعت کے رنگ میں رنگین
تو درس گاہِ رموز ِ وفا کی ہے تفسیر
اسی اصول کو ہم کیمیا سمجھتےہیں
نہیںہے غیرِ اطاعت جہان میں اکسیر
(باقیات اقبال صفحہ۱۰۰)
دسمبر۱۹۱۱ء میں شہنشاہ جارج پنجم کی تاجپوشی کے موقع پر یادگار کے طور پر ‘‘ہمارا تاجدار’’ نظم لکھ کر پڑھی:۔
ہمائے اوجِ سعادت ہو آشکار اپنا
کہ تاج پوش ہوا آج تاجدار اپنا
اِسی کے دم سے ہے عزت ہماری قوموں میں
اِسی کے نام سے قائم ہے اعتبار اپنا
اِسی سے عہد وفاہندیوں نےباندھا ہے
اِسی کے خاکِ قدم پر ہے دل نثار اپنا
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۲۰۶ بحوالہ مخزن جنوری ۱۹۱۲ء)
جنگِ عظیم کے دوران سر مائیکل اڈوائر گورنر پنجاب کی فرمائش پر ایک نظم لکھی جو ۱۹۱۸ کے ایک مشاعرہ میں پڑھی گئی۔ اس میں سے چند شعر ملاحظہ ہوں
وقت آگیاکہ گرم ہو میدان کارزار
پنجاب ہے مخاطبِ پیغام شہریار
اہل وفا کے جو ہرِ پنہاں ہوں آشکار
معمور ہو سپاہ سے پہنائے روزگار
تاجر کازر ہو اور سپاہی کا زور ہو
غالب جہاں میں سطوتِ شاہی کا زور ہو
اہل وفا کا کام ہے دنیا میں سوز و ساز
بے نور ہے وہ شمع جو ہوتی نہیں گداز
پردے میں موت کے ہے نہاں زندگی کا راز
سرمایۂ حقیقتِ کبریٰ ہے یہ مجاز
سمجھو توموت ایک مقامِ حیات ہے
قوموں کے واسطے یہ پیامِ حیات ہے
اخلاص بے غرض ہے صداقت بھی بے غرض
خدمت بھی بے غرض ہے اطاعت بھی بے غرض
عہدِوفا و مہر و محبت بھی بے غرض
تخت شہنشہی سے عقیدت بھی بے غرض
لیکن خیالِ فطرت انساں ضرور ہے
ہندوستاں پہ لطف نمایاں ضرور ہے
جب تک چمن کی جلوۂ گل پر اساس ہے
جب تک فروغ لالہ احمر لباس ہے
جب تک نسیم صبح عنادل کو راس ہے
جب تک کلی کو قطرۂ شبنم کی پیاس ہے
قائم رہے حکومتِ آئین اسی طرح
دبتار ہے چکور سے شاہیں اسی طرح
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۲۱۶تا ۲۱۹)
ہماری نصیحت
ہم مولوی ابو الحسن صاحب کو خیر خواہانہ مشورہ دیتے ہیں کہ خدائی فیصلہ سے ٹکر نہ لیں۔ جس مسیح موعود کا بھیجنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئی میں مقصود تھا وہ آچکا اور یقینا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ادیانِ باطلہ پر غلبہ کا آپ کے ذریعہ ہی پورا ہو گا۔ آپ فرماتے ہیں:۔
لوائے ما پنہِ ہر سعید خواہد بود
ندائے فتحِ نمایاں بنامِ ما باشد
مسیح موعودؑ کی سترہ پیشگوئیاں ایک غیر جانبدار محّقق کے قلم سے
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔
سَنُرِيْهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِيْ أَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ
(حٰمٓ السّجدۃ: ۵۴)
ترجمہ۔ ہم ان لوگوں کو نشانات آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے نفسوں میں بھی۔ یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ سچ ہے۔
اِس آیت میں نشانات سےمراد وہ امور غیبیہ ہیں جو مامور من اللہ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی تائید و نصرت کے لئے عطا ہوتے ہیں۔ یہ امور غیبیہ خدا تعالیٰ کے خالص غیب پر مشتمل ہوتے ہیں جن میں قیاس اور تخمینے کا کوئی دخل متصور نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:۔
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ إِلَّا هُوَ ۔
(الانعام :۶۰)
یعنی الغیب کی کنجیاں خدا کے پاس ہیں۔ اسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ البتہ وہ فرماتا ہے:۔
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضىٰ مِنْ رَّسُولٍ۔
(الجنّ:۲۷،۲۸)
یعنی خدا عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو کثرت سے اطلاع نہیں دیتا۔ بجز اس کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو۔
پس جو شخص مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرے اس کے پرکھنے کا ایک معیار اس کے نشانات بھی ہوتے ہیں جو تَبْیِیْنِ حق کا موجب ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت سی پیشگوئیاں جو آفاقی اور انفسی ہیں محیّر العقول طور پر پوری ہو چکی ہیں۔ پس ان الہامات کا سرچشمہ جو اس طرح پورے ہو چکے ہوں نہ تحت الشعور اور ماحول کو قرار دیا جا سکتا ہے جس میں مامور نے تربیت پائی ہو اور نہ قوم کا روحانی افلاس اور انگریزوں کا اقتدارِ اعلیٰ ان کا سرچشمہ قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ صاف ثابت ہوتا ہے کہ ان کا سر چشمہ صرف خدا تعالیٰ ہے۔
اس جگہ ہم حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی سترہ پیشگوئیاں ایک غیر جانبدار مبصّر کے رسالہ ‘‘اظہار حق’’ سے نقل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ رسالہ مولوی سمیع اللہ خان صاحب فاروقی جالندھری نے تقسیم ہند سے قبل نذیر پرنٹنگ پریس امرتسر میں باہتمام سید مسلم حسن زیدی پرنٹر طبع کرا کر شائع کیا تھا۔ اس میں جماعت احمدیہ کے عقائد اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئیوں کے متعلق اپنی غیر جانبدارانہ تحقیق علماءِ اسلام کے سامنے بطور استفسار پیش کی تھی۔ یہ رسالہ ۳۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ مبصّر موصوف اس رسالہ کے صفحہ۷ اور۸ پر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئیوں کو آٹھ قسم کی قرار دے کر آٹھویں قسم کے متعلق لکھتے ہیں:
‘‘بعض پیشگوئیاں ایسی بھی ہیں جو حیرت انگیز طریق پر پوری ہوئیں اور اُن کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک شخص کئی سال پہلے ایسی محیّر العقول باتیں کہہ دے جن کی نسبت بظاہرکوئی قرائن موجود نہ ہوں۔’’
اس کے بعد مبصّر موصوف جماعت احمدیہ کے بعض عقائد کو زیر بحث لانے اور اُن کے متعلق اپنی رائے ظاہر کرنے کے بعد حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی سترہ پیشگوئیاں درج کرتے ہیں اور اپنے رسالہ کے صفحہ ۱۳ پر ان کے درج کرنے سے پہلے لکھتے ہیں:۔
‘‘آپ کے اس دعویٰ (غیر تشریعی، اُمّتی، ظِلّی اور بروزی نبوّت) کے ثبوت میں احمدی حضرات مرزا صاحب کے الہامات اور پیشگوئیاں پیش کرتےہیں۔ ان میں سے بعض پیشگوئیاں واقعی محیّر العقول ہیں۔ جنہیں ہم درج کرتے ہوئے علمائے اسلام سے دریافت کرتے ہیں کہ ایک معمولی انسان جس کا خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق نہ ہو کیونکر بعض آنے والے واقعات کی خبر کئی سال پیشتر دے سکتا ہے؟ ہم علماء اسلام کی خدمت میں مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ جذبات سے قطع نظر فرماتے ہوئے دلائل سے ثابت کریں کہ اس قسم کی پیشگوئیوں کا ظہور کسی ایسے انسان سے کیونکر ہو سکتا ہے جو اپنے دعویٰ میں سچا نہ ہو۔’’
(اظہارِ حق صفحہ ۱۳)
اب ہم رسالہ اظہارِ حق سے مولوی سمیع اللہ صاحب فاروقی کے مضمون کا وہ حصہ ذیل میں درج کرتے ہیں جو ‘‘مرزا صاحب کی پیشگوئیاں’’ کے عنوان کے تحت انہوں نے لکھا ہے۔
مرزا صاحب کی پیشگوئیاں
(۱) ۱۸۹۳ء میں مرزا صاحب کو معلوم ہوا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مرنے سے پہلے میرا مومن ہونا تسلیم کر لیں گے۔ اس پیشگوئی کے پورے بیس برس بعد ۱۹۱۴ء میں جب کہ مرزا صاحب کو فوت ہوئے چھ برس گزر چکے تھے گوجرانوالہ کی ایک عدالت میں بیان دیتے ہوئے تسلیم کر لیا کہ فرقہ احمدیہ بھی قرآن اور حدیث کو مانتا ہے اور ہمارا فرقہ کسی ایسے فرقے کو جو قرآن اور حدیث کو مانے کافر نہیں کہتا۔
(دیکھو مقدمہ نمبر ۱۳۰۰ بعدالت لالہ دیو کی نند مجسٹریٹ درجہ اوّل)
واضح رہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مرزا صاحب کے سخت مخالف تھے حتّٰی کہ آپ نے مرزا صاحب پر کفر کے فتوے لگائے ۔ عین اس زمانہ میں مرزا صاحب نے پیشگوئی کی کہ مولانا موصوف وفات سے قبل میرا مومن ہونا تسلیم کر لیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مولوی صاحب کو عدالت میں یہ بیان دینا پڑا کہ ان کا فرقہ جماعتِ مرزائیہ کو مطلقاً کافر نہیں کہتا۔ یہ ایک ایسا بدیہی نشان ہے جس سے انکار نہیں ہو سکتا۔
(۲) پنڈت لیکھرام کی وفات کی مرزا صاحب نے پیشگوئی کی اور کہا کہ ‘‘عید اس نشان کے دن سے بہت قریب ہو گی۔’’ یعنی لیکھرام کی وفات اور عید کا دن متّصل ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور پنڈت لیکھرام عید کے دوسرے دن مقتول ہوئے۔ یقینا یہ بات انسان کے بس کی نہیں ہے۔ ایک شخص عرصہ پہلے یہ کہہ دے کہ فلاں شخص فلاں موقع پر قتل ہو گا اور پھر ایسا ہی ہو۔ یقینا اس قسم کے واقعات انسانی عقل سے بہت بالا ہیں۔
(۳) ۲۶، ۲۷، ۲۸ ـ دسمبر ۱۸۹۶ء کو لاہور میں جلسہ مذاہب ہونے والا تھا جس میں دوسرے مذاہب کے نمائندوں کے علاوہ مرزا صاحب نے بھی تقریر کرنی تھی۔ عجیب بات یہ ہےکہ ۲۱ ـدسمبر ۱۸۹۶ء کو مرزا صاحب کو بقول ان کے اللہ تعالیٰ سے اطلاع ملی کہ ان کا مضمون سب سے بلند رہے گا چنانچہ اسی روز آپ نے اشتہار کے ذریعہ اعلان بھی کر دیا کہ ہمارا ہی مضمون غالب رہے گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا صاحب کا مضمون سب پر غالب رہا اور سول اینڈ ملٹری گزٹ، پنجاب اوبزرور اور دوسری اخباروں نے صاف صاف لکھ دیا کہ مرزا صاحب کا مضمون بہت بلند تھا۔ خود صدر جلسہ نے جلسہ کی کارروائی کی جو رپورٹ مرتب کی اس میں بھی اس مضمون کی خوبیوں کا اعتراف کیا۔
یہ ایسی باتیں نہیں ہیں جنہیں اتفاقی کہا جائے۔ ایک شخص کئی روز پہلے یہ اعلان کرتا ہے کہ اس کا مضمون سب پر بازی لے جائے گا۔ حالانکہ دوسرے مقرر بھی کچھ کم پایہ کے لوگ نہ تھے۔ بالضرور اس میں تصرّفِ الٰہی کے کرشمے نمودار ہیں۔
(۴) ۲۲ مئی ۱۹۰۵ ء کو آپ نے رؤیا دیکھا۔‘‘آہ نادر شاہ کہاں گیا’’ یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ نادر خان ابھی بچہ ہی ہو گا اور اس وقت دنیا کے تمام بادشاہوں میں کوئی نادر شاہ بادشاہ نہ تھا۔ لیکن حیرانی ہے کہ بعد میں ایک شخص غیر متوقع طور پر نادر خان سے نادرشاہ بنا اور وہ طبعی موت سے بھی نہ مرا۔ بلکہ ایسے طریق سے قتل ہوا کہ اس وقت ہر زبان پر یہی لفظ جاری تھے کہ‘‘آہ نادر شاہ کہاں گیا’’۔
یہ اِس قسم کی باتیں ہیں جنہیں کوئی انسان قرائن سے نہیں سمجھ سکتا اور بغیر تصرّفِ الٰہی کے ۱۹۳۰ء میں ہونے والے ایک واقعہ کی خبر ۱۹۰۵ء میں دینا ناممکن ہے۔ پس اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس اطلاع میں خدا تعالیٰ کا تصرف کام کر رہا تھا۔
(۵)مرزا صاحب کو الہام ہوتا ہے غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْ اَدْنَی الْاَرْضالخ اور یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی ہے۔ اگر تصرّفِ الٰہی کام نہیں کرتا تو یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک شخص عرصہ پہلے ایک ایسی بات کہہ دے جس کے حصول میں اُسے مطلق کوئی دسترس حاصل نہ ہو اور پھر وہ بات بجنسہٖ پوری بھی ہو جائے۔ روم کے معاملہ میں مرزا صاحب یا آپ کی جماعت کو ذرّہ بھر بھی دخل حاصل نہ تھا۔ روم کے مغلوب ہونے میں مرزائیوں کا کچھ بھی ہاتھ نہ ہو سکتا تھا اور پھر مغلوب ہونے کے بعد دوبارہ غلبہ حاصل کرنے میں بھی مرزائیوں کی کوئی طاقت بررُوئے کار نہ آسکتی تھی لیکن اس کامل بے بسی کے عالم میں محولہ بالا پیشگوئی کی گئی ۔ جس نے تھوڑا ہی عرصہ بعد پوری ہو کر لوگوں کو محوِ حیرت کر دیا۔
(۶)دسمبر ۱۹۰۵ء میں آپ کو اطلاع ملتی ہے کہ ‘‘میں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذریّت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا اور اس کے ذریعہ حق ترقی کرے گا اور بہت سے لوگ سچائی قبول کریں گے۔’’
اِس پیشگوئی کو پڑھو اور بار بار پڑھو۔ اور پھر ایمان سے کہو کہ کیا یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی ہے اس وقت موجودہ خلیفہ ابھی بچے ہی تھے اور مرزا صاحب کی جانب سے انہیں خلیفہ مقرر کرانے کے لئے کسی قسم کی وصیّت بھی نہ کی گئی تھی بلکہ خلافت کا انتخاب رائے عامہ پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ چنانچہ اُس وقت اکثریت نے حکیم نور الدین صاحب کو خلیفہ تسلیم کر لیا۔ جس پر مخالفین نے محوّلہ صدر پیشگوئی کا مذاق بھی اڑایا۔ لیکن حکیم صاحب کی وفات کے بعد مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ مقرر ہوئے اور یہ حقیقت ہے کہ آپ کے زمانہ میں احمدیت نے جس قدر ترقی کی وہ حیرت انگیز ہے۔
خود مرزا صاحب کے وقت میں احمدیوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔ خلیفہ نور الدین صاحب کے وقت میں بھی خاص ترقی نہ ہوئی تھی لیکن موجودہ خلیفہ کے وقت میں مرزائیت قریبًا دنیا کے ہر خطہ تک پہنچ گئی اور حالات یہ بتلاتے ہیں کہ آئندہ مردم شماری میں مرزائیوں کی تعداد ۱۹۳۱ء کی نسبت دُگنی سے بھی زیادہ ہو گی۔ بحالیکہ اس عہد میں مخالفین کی جانب سے مرزائیت کے استیصال کے لئے جس قدر منظم کوششیں ہوئی ہیں پہلے کبھی نہ ہوئی تھیں۔
الغرض آپ کی ذریّت میں سے ایک شخص پیشگوئی کے مطابق جماعت کے انتظام کے لئے قائم کیا گیا اور اس کے ذریعہ سے جماعت کو حیرت انگیز ترقی ہوئی۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی بھی مِن و عن پوری ہوئی۔
(۷)اپریل۱۹۰۶ء میں آپ کو اطلاع ملی کہ ‘‘تزلزل در ایوانِ کسریٰ فتاد’’اس پیشگوئی کی اشاعت سے تھوڑا ہی عرصہ بعد شاہِ ایران تخت سے معزول کئے گئے اور یہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔
(۸)۱۹۰۵ء میں لارڈ کرزن وائسرائے ہند نے بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ وائسرائے بہادر کے اس اقدام سے بنگالی مشتعل ہو گئے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ بنگال کو دوبارہ متحد کر دیا جائے۔ وائسرائے نے انکار کیا۔ بنگالیوں نے انارکی شروع کر دی۔ چنانچہ صوبہ بنگال میں تشدد کا دور دورہ شروع ہو گیا۔ انارکسٹ پارٹی نے بم سازی اور بمباری شروع کر دی۔ کئی انگریزوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ پولیٹکل ڈاکوؤں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ الغرض بنگال کی حالت بے حد خطرناک ہو گئی لیکن وائسرائے بہادر نے صاف طور پر اعلان کر دیا کہ وہ تقسیم بنگال کو ہرگز منسوخ نہ کریں گے۔ اس حالت میں کون سمجھ سکتا تھا کہ وائسرائے کا یہ حکم منسوخ ہو جائے گا۔ اور بنگالیوں کی دلجوئی ہو گی۔
مگر قارئین متعجب ہوں گے کہ ۱۹۰۶ء میں مرزا صاحب کو اطلاع ملی کہ ‘‘پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیاتھا اب ان کی دلجوئی ہو گی۔’’
اس کے بعد بھی حکومت کی طرف سے یہی کہا جاتا تھا کہ اس حکم میں کوئی ترمیم نہ ہو گی۔ لیکن ۱۹۱۱ء میں شاہ جارج پنجم ہندوستان میں تشریف لائے اور آپ نے تقسم بنگال کو منسوخ کر کے بنگالیوں کی دلجوئی کر دی۔گویا پانچ سال بعد خود بادشاہ کے ہاتھوں مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری ہو گئی یقینا اس پیشگوئی کے پورا ہونے میں صاحبِ نظر لوگوں کے لئے سبق ہے اور اصحابِ دانش کے لئے غور و فکر کا موقع ہے۔
۲۹ جولائی ۱۸۹۷ء کو آپ نے دیکھا کہ حکّام کی طرف سے ڈرانے کی کچھ کاررروائی ہو گی۔ پھر آپ نے دیکھا کہ مومنوں پر ایک ابتلاء آیا۔ پھر تیسری مرتبہ ایک اور اطلاع ملی کہ
صادق آں باشد کے ایّامِ بلا
مےگذارد بامحبت باوفا
اِن تمام اطلاعات کا نتیجہ یہ ہوا کہ عبد الحمید نامی ایک شخص نے عدالت فوجداری امرتسر میں یہ بیان دیا کہ مجھے مرزا غلام احمدنے ڈاکٹر ہنری مارٹن کو قتل کرنے پر متعیّن کیا ہے۔ اس بیان پر مجسٹریٹ امرتسر نے مرزا صاحب کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیئے۔ لیکن بعد میں مجسٹریٹ کو معلوم ہوا کہ وہ وارنٹ کےاجراء کا مجاز نہ تھا۔ چنانچہ اس نے وارنٹ واپس منگوا لئے اور مسل گورداسپور بھجوا دی۔ جس پر صاحبِ ضلع نے مرزا جی کو ایک معمولی سمن کے ذریعے طلب کیا۔ یہاں خدا کا کرنا یہ ہوا کہ خود عبد الحمیدنے عدالت میں اقرار کر لیا کہ عیسائیوں نے مجھ سے یہ جھوٹا بیان دلوایا تھا۔ ورنہ مجھے مرزا صاحب نے قتل کے لئے کوئی ترغیب نہیں دی۔ مجسٹریٹ نے یہ بیان سن کر مرزا صاحب کو بَری کر دیا اور اس طرح سے مذکورہ بالا اطلاعات پوری ہوئیں۔
(۱۰)امریکہ کا ایک عیسائی ڈوئی نامی جو اسلام کا سخت دشمن تھا۔ اس نے نبوّت کا دعویٰ کیا۔ مرزا صاحب نے اس کو بہت سمجھایا کہ وہ اپنے دعویٰ سے باز آئے مگر وہ باز نہ آیا بلکہ مرزا صاحب اور ڈوئی کے درمیان مباہلہ ہوا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو نقد سات کروڑ روپیہ کا نقصان پہنچا۔ اُس کی بیوی اور بیٹا اُس کے دشمن ہو گئے۔ اُس پر فالج کا حملہ ہوا اور بالآخر وہ پاگل ہو کر مارچ ۱۹۰۷ء میں فوت ہو گیا۔ اس سے پہلے اگست ۱۹۰۳ءمیں مرزا صاحب کو یہ اطلاع ملی تھی کہ‘‘اس کے صیحون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے’’۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے آباد کردہ شہر صیحون سے نہایت ذلّت کے ساتھ نکالا گیا۔
اِس مباہلہ اور اطلاع سے صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ دونوں باتیں مِن و عَن پوری ہوئیں۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ہونا محض ایک اتفاقی بات تھی یا اس کے ساتھ خدائی امداد شامل تھی؟ حالات اس امر کا بدیہی ثبوت ہیں کہ یہ باتیں اتفاقی نہ تھیں بلکہ بتلانے والے کا تصرّف اس کے ساتھ شامل تھا۔ اب قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تصرّفاتِ الٰہی سے کسی خائن اور کاذب کی بھی امداد ہوا کرتی ہے؟ یقینا یہ بات فطرۃ اللہ کے قطعاً خلاف ہے۔ پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کا صحیح نکلنا اُن کی صداقت پر اٹل دلیل کی حیثیت رکھتا ہے۔
(۱۱)مولوی کرم الدین صاحب نے مرزا صاحب کے خلاف ازالۂ حیثیت عُرفی کا ایک دعویٰ گورداسپور کی عدالت میں دائر کیا۔ بنائے دعویٰمرزا صاحب کے یہ الفاظ تھے جو انہوں نے کرم الدین کے خلاف استعمال کئے تھے۔ یعنی لئیم اور کذّاب۔ عدالت ابتدائی نے مرزا صاحب کو ملزم قرار دیتے ہوئے سزا دے دی۔ لیکن مرزا صاحب کو اطلاع ملی۔ ‘‘ہم نے تمہارے لئے لوہے کو نرم کر دیا۔ ہم کسی اور معنے کو پسند نہیں کرتے…… ان کی کوئی شہادت قبول نہیں کی جائے گی۔’’ اس کے بعد مرزا صاحب نے اپیل دائر کی جس پر صاحب ڈویژنل جج نے لکھا کہ کذاب اور لئیم کے الفاظ کرم الدین کے حسبِ حال ہیں۔ چنانچہ مرزا صاحب کو بری کر دیا۔
(۱۲)محّولہ بالا مقدمہ کے مجسٹریٹ سماعت کنندہ مسٹر آتمارام کے متعلق مرزا صاحب کو اطلاع ملی کہ‘‘ آتمارام اپنی اولاد کے ماتم میں مبتلا ہو گا’’ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بیس پچیس دن کے عرصہ میں یکے بعد دیگرے اس کے دو بیٹے وفات پاگئے۔
(۱۳)اپریل ۱۹۰۵ء میں آپ کو اطلاع ملی کہ
‘‘زاؔر بھی ہو گا تو ہو گا اُس گھڑی باحالِ زار’’
یہ اُس وقت کی بات ہے کہ جب زَار اپنی پوری قوت اور طاقت کے ساتھ روس کے کروڑہا بندگانِ خدا پر خود مختارانہ حکومت کر رہا تھا لیکن چند ہی سال بعد انقلابِ روس کے موقع پر بالشویکوں کے ہاتھ سے زَارِ روس کی جوگَت بنی وہ نہایت ہی عبرت انگیز ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا خودمختار بادشاہ پائے بجولاں ہے۔ اس کے خاندان کے تمام ارکان پابندِ سلاسل ہیں۔ اور باغی اپنی سنگینوں اور بندوقوں سے خاندانِ شاہی کے ایک ایک رکن کو ہلاک کرتے ہیں۔ جب زؔار کے تمام بچوں اور بیوی کو باغی تڑپا پڑپا کرمار چکتے ہیں توزاؔر کو نہایت بے رحمانہ طریق پر قتل کر دیتےہیں۔
(۱۴)۱۸۷۷ء کی بات ہے کہ مرزا صاحب نے عالم رؤیا میں دیکھا کہ ‘‘رلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لئے مجھے بھیجا ہے اور میں نے اسے مچھلی کی طرح تل کر واپس کر دیا ہے’’۔ اس رؤیا کے بعد مرزا صاحب نے رلیا رام وکیل کے اخبار میں چھپنے کے لئے ایک مضمون بھیجا اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا (مرزا صاحب کو یہ علم نہ تھا کہ پیکٹ میں خط رکھنا قانونِ ڈاکخانہ کی رو سے جرم ہے) رلیارام وکیل جانتا تھا کہ مرزا صاحب کا یہ فعل قانونی طور پر جرم ہے اور اس کی سزا پانچ صد روپیہ جرمانہ اور چھ ماہ قید ہے۔
رلیا رام نے اس خط کی مخبری کر دی۔ جس پر افسرانِ ڈاک نے مرزا صاحب پر مقدمہ چلا دیا۔ عدالت گورداسپور سے طلبی ہوئی۔ مرزا صاحب نے وکیلوں سے مشورہ کیا تو ان سب نے یہی کہا کہ سوائے جھوٹ بولنے کے کوئی چارہ نہیں ہے لیکن مرزا صاحب نے جھوٹ بولنے سے انکار کر دیا بلکہ عدالت میں اقبال کیا کہ یہ میرا خط ہے۔ پیکٹ بھی میرا ہے۔ میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا۔ مگر میں نے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا۔ افسر ڈاکخانہ نے جو مدعی تھا مرزا صاحب کو پھنسانے کی بہتیری کوشش کی لیکن اس کے دلائل کا عدالت پر کچھ اثر نہ ہوا۔ چنانچہ عدالت نے مرزا صاحب کو بَری کر دیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ عرصہ پہلے رلیا رام کا سانپ بھیجنا اور مرزا صاحب کا تلی ہوئی مچھلی لوٹانا اور پھر اس مقدمہ کا رلیا رام کے ہاتھ سے ہی شروع ہونا اور مرزا صاحب کا باعزت طریق پر بَری ہونا اپنے اندر کئی سبق رکھتا ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص اٹکل پچو طریق پر ایسی پیشگوئی کر دے جو حرف بحرف پوری ہو کر رہے۔
چشم بصیرت رکھنے والے لوگوں کے لئے ان پیشگوئیوں کی صداقت میں شبہ کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ بعض لوگ کیوں مرزا دشمنی میں اپنے آپ کو مبتلا کر رہے ہیں اور ایسے شواہد کی جانب سے چشم پوشی کر رہے ہیں جن کی تکذیب محال ہے۔ علمائے اسلام سے مؤدبانہ التماس ہے کہ وہ بتلائیں کہ کئی کئی سال پہلے پتہ کی باتیں کہہ دینا سوائے تائیدِ خداوندی کے کسی اور صورت میں بھی ممکن ہے؟ اگر نہیں تو ایک ایسےآدمی کی تکفیر کرنا از روئے اسلام کہاں تک جائز ہے؟
(۱۵)۱۸۸۳ء میں مرزا صاحب کو یہ خبر تواتر سے دی گئی کہ
‘‘میں تمہاری مدد کروں گا’’
اب دیکھنے والے یہ دیکھتے ہیں اور جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ عیسائیوں نے بلکہ خود مسلمانوں نے آپ کے خلاف کئی مقدمے کھڑے کئے اور ہر مقدمہ میں بالآخر مرزا صاحب کو ہی فتح اور کامرانی حاصل ہوئی۔ سلسلہ احمدیہ کے مٹانے اور درہم برہم کرنے کے لئے چاروں طرف سے حملے کئے گئے۔ مگر یہ امرِ واقعہ ہے کہ احمدیت بڑے زور سے ترقی کرتی رہی اور کر رہی ہے۔
جن دنوں میں محوّلہ بالا پیشگوئی کی گئی اُن دنوں میں مرزاصاحب کے پیروؤں کی تعداد شاید انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ لیکن آج یہ حالت ہے کہ ہندوستان کا شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو گا جس میں مرزائیت روزافزوں ترقی نہ کررہی ہو اور احرار کی شدید ترین مخالفت کے باوجود مرزائیت پھیلتی جارہی ہے۔
(۱۶)۱۸۹۱ء میں آپ کو اطلاع ملی کہ
‘‘میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا اور تیرا ذکر بلند کروں گا۔’’
اُس وقت بظاہر اِس پیشگوئی کے پورا ہونے کے کوئی اسباب موجود نہ تھے لیکن ہم حیرت سے دیکھتے ہیں کہ اس بے کسی کے عالم میں کی ہوئی پیشگوئی آج حرف بحرف پوری ہو رہی ہے اور مرزائیت دنیا کے دور دراز ممالک میں پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ یورپ کے قریبًا تمام ممالک میں مرزائی مبلغ پہنچ چکے ہیں اور بڑے بڑے لوگ مرزائیت کے حلقہ بگوش بن رہے ہیں۔ اگرچہ یہ باتیں بادی النظر میں معمولی معلوم ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بے کسی اور بے بسی کے عالم میں ایک شخص کا اتنا بڑا دعویٰ کر دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس وقت کون جانتا تھا کہ چند سال بعد ہی مرزائیوں میں اتنی قوت و طاقت پیدا ہو جائے گی کہ وہ لاکھوں روپیہ سالانہ خرچ سے اپنے مبلغ بلاد یورپ میں بھجوا دیں گے اور پھر کون سمجھ سکتا تھا کہ بڑے بڑے لارڈ مرزائیت کو قبول کر لیں گے۔ یہ تمام باتیں دور از فہم تھیں جو آج بڑی حد تک پوری ہو چکی ہیں۔ اور آثار و قرائن بتلاتے ہیں کہ بہت جلد یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہو کر رہے گی۔
اِن حالات کے مطالعہ سے فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی طاقت ہے جو کئی کئی سال پہلے ایک ایسی بات منہ سے نکلوا دیتی ہے جو آخر کار پوری ہو کر رہتی ہے۔ کاش اہل خرد سوچیں اور علمائے اسلام دلائل عقلی سے ثابت کریں کہ کیونکر ایک کاذب ایسی ٹھکانے کی بات کہہ سکتا ہے اور پوری کمزوری کے عَالَم میں کس طرح ایک مفتری کو یہ جرأت ہو سکتی ہے کہ وہ نہایت بلند آہنگی سے اعلان کر دے کہ اُسے عزت اور غلبہ حاصل ہو گا۔
ہم مان لیتے ہیں کہ ایک خدا کا خوف نہ رکھنے والا انسان اتنا بڑا طوفان باندھ سکتا ہے۔ لیکن کیا خدا ئے تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ وہ مفتریوں اور خائنوں کی تائید اور حمایت کرے۔ کیا خدائے تعالیٰ کذب اور زُور کی بھی سرپرستی کیا کرتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کے دعاوی اور پیشگوئیاں وضعی اور جعلی نہ تھیں بلکہ وہ خدا کی طرف سے تھیں۔
(۱۷)نواب محمد علی خان آف مالیر کوٹلہ کی بیوی ابھی تندرست تھیں کہ مرزا صاحب کو ان کی وفات کی اطلاع ملی اور اس کے ساتھ ہی دکھلایا گیا کہ
‘‘دردناک دکھ اور دردناک واقعہ’’
اس کی اطلاع نواب صاحب کو دی گئی۔ خدا کی قدرت کوئی چھ ماہ بعد بیگم صاحبہ کو سِل کا عارضہ لاحق ہو گیا اور آپ کچھ عرصہ بعد وفات پاگئیں۔
ظاہر ہے کہ سِل کا مرض نہایت تکلیف دِہ ہوتا ہے اور اس مرض کا مریض دردناک دکھ میں مبتلا ہو کر راہی ملکِ عدم ہوتا ہے۔
بیگم صاحبہ کی صحت کی حالت میں اس قسم کی اطلاع کی اشاعت یقین کامل کے بغیر ناممکن ہے۔ اور یقینِ کامل خدا پر مضبوط ایمان اور اس کی جانب سے حتمی اطلاع کے بغیر محال ہے۔ ان تمام واقعات سے یہ امر سورج کی طرح روشن ہو جاتا ہے کہ مرزا صاحب کو شرح صدر حاصل تھا اور آپ کو مکالمہ و مکاشفہ کا شرف حاصل تھا۔
کون بدبخت کہہ سکتا ہے کہ خدا پر جھوٹ باندھنے والا بھی دنیا میں کامیاب و بامراد ہو سکتا ہے اور اس کا سلسلہ روز افزوں ترقی کر سکتا ہے۔ سلسلہ احمدیہ کی مسلسل ترقیاں اور اس جماعت کی پیہم کامیابیاں اس امر کی روشن دلیل ہیں کہ نصرت الٰہی ان کے ساتھ ہے۔ خود مرزا صاحب نے فرمایا ہے کہ
کبھی نصرت نہیں ملتی درِ مولا سے گندوں کو
کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو
محوّلہ بالا شعر ہی بتلاتا ہے کہ مرزا صاحب کو خدائے تعالیٰ پر کامل توکّل اور پورا بھروسہ تھا ورنہ جس کی طبیعت کے اندر گندگی اور پلیدگی ہو اسے کیونکر جرأت ہو سکتی ہے کہ وہ اعلان کرے کہ نُصرتِ الٰہی گندوں کے لئے نہیں بلکہ پاک بازوں کے لئے ہے۔
الغرض اس قسم کی بیسیوں پیشگوئیاں ہیں جو پوری ہوئیں اور جن کے اندر عظیم الشان نشانات موجود ہیں۔ ان واقعات کے متعلق اس امر کا اقرار ناگزیر ہے کہ مرزا صاحب کو ضرور اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف حاصل تھا۔’’
مولوی ابو الحسن صاحب کی بانیٔ احمدیّت کی وفات کے متعلق غلط بیانی
ہم نے قرآنی معیاروں اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے روشن نشانوں سے آپ کے دعویٰ کی صداقت کو ثابت کر دیا ہے۔ مگر مولوی ابو الحسن صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کو غلط رنگ میں پیش کر کے آپ کی صداقت پر دُھول ڈالنے کی کوشش کی ہے وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘مرزا غلام احمد صاحب نے جب ۱۸۹۱ء میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ پھر ۱۹۰۱ء میں نبوّت کا دعویٰ کیا تو علمائےاسلام میں ان کی تردید و مخالفت شروع کی۔ تردید و مخالفت کرنے والوں میں مشہور عالم مولانا ثناء اللہ امرتسری مدیر اہل حدیث پیش پیش اور نمایاں تھے۔ مرز ا صاحب نے ۱۵ ـاپریل ۱۹۰۷ء میں ایک اشتہار جاری کیا۔ جس میں مولانا کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا……اگر مَیں کذّاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو مَیں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سُنّت اللہ کے موافق آپ مکذّبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ خدا کے ہاتھوں سے ہے یعنی طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں وارد نہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔’’
(قادیانیت صفحہ۲۸، ۲۹)
اس کے بعد مولوی ابو الحسن صاحب نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے مولوی ثناءاللہ صاحب سے پہلے ۲۶ مئی ۱۹۰۸ کو وفات پا جانے کا ذکر کیا ہے اور حاشیہ میں لکھا ہے :۔
‘‘مولانا نے مرزا صاحب کی وفات کے پورے چالیس برس بعد ۱۵مارچ۱۹۴۸ء میں اسّی برس کی عمر میں وفات پائی۔’’
مولوی ابو الحسن صاحب کی حق پوشی
مولوی ابو الحسن صاحب پرواضح ہو کہ محوّلہ خط میں تو یہ بھی لکھا تھا کہ یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں۔اور جو اقتباس آپ نے پیش کیا ہے اس میں‘‘ سنت اللہ کے موافق مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے’’ کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ اور سنت اللہ یہ ہے کہ فریقین میں مباہلہ واقعہ ہو جائے تو پھر جھوٹا سچے کی زندگی میں ہلاک ہو سکتا ہے۔ ویسے تو انبیاء وفات پاتے رہے اور اُن کے بعد اُن کے اشد مخالفین زندہ رہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم وفات پاگئے اور مسیلمہکذّاب آپ کے بعد زندہ رہا۔ پس اگر مولوی ثناء اللہ صاحب جنہیں اس خط میں مخاطب کیا گیا تھا اس فیصلہ پر مستعد ہو جاتے کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں ہلاک ہو اور اس صورت میں مولوی ثناء اللہ کی بجائے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات پہلے ہو جاتی تو پھر مولوی ابو الحسن صاحب کو آپ کی تکذیب کا حق پہنچ سکتا تھا۔ لیکن مولوی ثناء اللہ صاحب نے تو اس خط کو اپنے اخبار میں چھاپ کر اس کے نیچے صاف لکھ دیا تھا:۔
‘‘یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے۔’’
(اہل حدیث ۲۶ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ۶)
پس جب فریقین کے درمیان اس طریق فیصلہ پر اتفاق ہی نہیں ہوا تو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے خط کے مسودہ کو اُن کے خلاف حجت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر مولوی ثناء اللہ صاحب اس طریق فیصلہ پر مستعد ہو جاتے کہ کاذب صادق سے پہلے مرے تو وہ ضرور پہلے مرتے۔ اور جب خود مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس طریق فیصلہ کو قبول نہیں کیا تو خط کا یہ مسودہ حجّت نہ رہا۔کیونکہ یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہ تھی اور سنّت اللہ کے مطابق مباہلہ کے وقوع پر ہی کاذب صادق سے پہلے مر سکتا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک سوال پر خود فرماتے ہیں:۔
‘‘یہ کہاں لکھا ہے کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مرجاتا ہے۔ ہم نے تو یہ لکھا ہے کہ مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہو تو سچے کی زندگی میں مر جاتا ہے۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سب اعداء ان کی زندگی میں ہلاک ہو گئے تھے؟ بلکہ ہزاروں اعداء آپؐ کی وفات کے بعد زندہ رہے تھے۔ایسے ہی ہمارے مخالف بھی ہمارے مرنے کے بعد زندہ رہیں گے……… ہم تو ایسی باتیں سن سن کر حیران ہوتے ہیں۔ دیکھو ہماری باتوں کو کیسے اُلٹ پَلٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور تحریف کرنے میں وہ کمال حاصل کیا ہے کہ یہودیوں کے بھی کان کاٹ دیئے ہیں۔ کیا یہ کسی نبی، ولی، قطب، غوث کے زمانہ میں ایسا ہوا ہے کہ سب اعداء مر گئے ہوں بلکہ کافر منافق باقی رہ ہی گئے تھے۔ ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ سچے کے ساتھ جو جھوٹے مباہلہ کرتے ہیں تووہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہوتے ہیں…… ایسے اعتراض کرنے والے سے پوچھیں کہ ہم نے کہاں لکھا ہے کہ بغیر مباہلہ کرنے کے ہی جھوٹے سچے کی زندگی میں تباہ اور ہلاک ہو جاتے ہیں۔
(الحکم ۱۰۔اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ۹)
پس مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو جو خط لکھا گیا تھا وہ بھی مباہلہ کا مسودہ تھا اور چونکہ فریقین میں مباہلہ وقوع میں نہیں آیا۔ کیونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس طریق فیصلہ کو منظور نہ کیا تھا۔ اس لئے مولوی ابو الحسن صاحب کا اس خط کی تحریر کو یکطرفہ پیش کرنا اور مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس کا جو جواب دیا تھا اسے پبلک سے مخفی رکھنا محض حق پوشی اور ناحق کوشی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات آپؑ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہوئی ہے جو آپؑ کے رسالہ الوصیّت میں درج ہیں۔ جس میں یہ الہام بھی درج ہے کہ قَرُبَ اَجَلُکَ المُقَدَّرُ، قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ۔ لہذا مولوی ابوالحسن صاحب نے آپؑ کی وفات کے معاملہ کو غلط رنگ میں پیش کر کے انصاف کا خون کیا ہے۔
آپؑ کی وفات ہیضہ سے بھی نہیں ہوئی کیونکہ ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ سے ظاہر ہےکہ آپ کی وفات اسہال کی پرانی بیماری کی وجہ سے واقعہ ہوئی تھی۔
حضرت میر ناصر نواب صاحب کی روایت بوجہ اعاد روایت ہونے کے قابلِ قبول نہیں۔ مریض کے اپنی مرض کی متعلق اپنے بیان کے مقابلہ میں ڈاکٹروں کی رائے ہی وقیع قرار دی جا سکتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب سے حضرت اقدس نے استفہامًا و استخبارًا وبائی ہیضہ کا ذکر کیا ہو جسے وہ جملہ خبریہ سمجھ بیٹھے اور روایت کر دیا۔ بہر حال بہ روایت میڈیکل سرٹیفیکیٹ کی رو سے بصورت جملہ خبریہ مردُود ہے۔
تنقیدی جائزہ کی فصل سوم پر ہماری تنقید
تنقیدی جائزہ کی فصل سوم میں ‘‘قادیانیت کی لاہوری شاخ اور اس کا عقیدہ اور تفصیل’’ کے عنوان کے تحت مولوی ابو الحسن صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس کا مخاطب احمدیوں کا لاہوری فریق ہے۔ اس میں انہوں نے ہماری شاخ کے متعلق لکھا ہے:۔
‘‘اِس شاخ نے واضح اور قطعی موقف اختیار کیا ہے اور اپنی اخلاقی جرأت کا ثبوت دیا ہے۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ مرزا صاحب کے منشاء کی صحیح ترجمانی و نمائندگی اور ان کی تعلیمات و تصریحات کی محض صدائے بازگشت ہے۔ لیکن لاہوری شاخ کا موقف (جس کی قیادت مولوی محمد علی صاحب کرتے ہیں) بڑا عجیب اور ناقابل فہم ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۲۰۰، ۲۰۱)
واضح ہو کہ مولوی ابو الحسن صاحب کو لاہوری شاخ کا موقف سمجھانا اور اسے قابلِ فہم ظاہر کرنا ‘‘لاہوری شاخ’’ کا کام ہے۔ جہاں تک اُن سے بحثوں کے نتیجہ میں ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوّت میں ان کی ہم سے محض لفظی نزاع ہے۔
مولوی ابو الحسن صاحب لاہوری شاخ کے متعلق لکھتے ہیں:۔
‘‘وہ ثابت کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے کہیں اصطلاحی نبوّت کا دعویٰ نہیں کیا۔’’
اِس بارہ میں واضح ہو کہ اصطلاحی نبوّت سےمراد لاہوری شاخ کی تشریعی اور مستقلہ نبوّت ہوتی ہے یعنی ایسی نبوّت جس کا حامل کامل شریعت یا بعض احکام جدیدہ لائے یا کسی دوسرےنبی کا اُمّتی نہ ہو۔ اس قسم کا نبی ہماری جماعت بھی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ کو نہیں جانتی۔ کیونکہ اس قسم کی نبوّت کا آپ نے کہیں اور کسی وقت بھی دعویٰ نہیں کیا۔ آپ کا دعویٰ یہ ہےکہ آپ ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے اُمّتی اور یہ مقام آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ظلّیتِ کاملہ کی وجہ سےملا ہےلاہوری شاخ کو بھی اس سے انکار نہیں۔ مولوی ابو الحسن صاحب نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی طرف جو مستقل تشریعی نبوّت کا دعویٰ منسوب کیا ہے اسے ہماری جماعت اور لاہوری شاخ ہر دو مفتریانہ الزام جانتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوّت کے معنی دونوں فریق کے نزدیک مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ اور امورِ غیبیہ کی کثرت ہیں۔ ہم میں اور اُن میں نزاع صرف اس بات میں ہے کہ لاہوری شاخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوّت کو محدّثیت کے مقام تک محدود قرار دیتی ہے اور ہماری جماعت آپ کا مقام محدّثینِاُمّت سے بالا تر یقین کرتی ہے۔ چنانچہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام اشتہار ‘‘ایک غلطی کا ازالہ’’ میں خودتحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘ جس کے ہاتھ پر اخبارِ غیبیہ من جانب اللہ ظاہر ہوں گے بالضرورت اس پر مطابق آیتلَا یُظْھِرُ عَلیٰ غَیْبِہٖکے مفہوم نبی کا صادق آئے گا۔’’
(روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۸)
نیز لکھتے ہیں:۔
‘‘ یاد رکھنا چاہئے کہ اِن معنوں کی رُو سے مجھے نبوّت اور رسالت سے انکار نہیں ہے۔ اِسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا گیا ۔ اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کِس نام سے اُس کو پکارا جائے۔ اگر کہو کہ اس کا نام محدّث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنی کسی لُغت کی کتاب میں اظہارِ غیب نہیں ہے۔ مگر نبوّت کے معنی اظہار امرغیب ہے۔’’
(ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۰۹)
بے شک ایک وقت تک حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنی نبوّت سے مراد تاویلًا محدثیت لی۔ مگر بعد میں آپ پر منکشف ہو گیا کہ آپ نے صریح طور پر نبی کا خطاب پایا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۵۳، ۱۵۴)
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں جو آخری کتابوں میں سے ہےیہ بھی تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘یہ کہنا کہ نبوّت کا دعویٰ (تشریعی و مستقلہ نبوّت کا دعویٰ ۔ ناقل) کیا ہے کس قدر جہالت کس قدر حماقت اور کس قدر حق سے خروج ہے۔ اے نادانو! میری مراد نبوّت سے یہ نہیں ہے کہ مَیں نعوذباللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابل پرکھڑا ہو کر نبوّت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں۔ صرف مراد میری نبوّت سے کثرت مکالمت و مخاطبتِ الٰہیہ ہے۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے۔ سو مکالمہ مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں۔ پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی۔ یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ مخاطبہ رکھتےہیں۔ میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم الٰہی نبوّت رکھتا ہوںوَ لِکُلٍّ اَنْ یَّصْطَلِحَ۔
(تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۵۰۳)
پس جب احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان بھی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے نزدیک آپ کی نبوّت کے بارے میں صرف نزاع لفظی ہے تو لاہوری شاخ اور ہماری جماعت کے درمیان تو بدرجہ اولیٰ نزاع لفظی ہوئی۔
مولوی ابو الحسن صاحب نے آپ پر مستقل صاحبِ شریعت نبی کے دعویٰ کا الزام دیا تھا جس کی تردید حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی متعدد عبارتوں سے کر دی گئی اور بتایا گیا ہے کہ آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ آپ ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے اُمّتی، گویا آپ کو نبیٔ نائب ہونے کا دعویٰ ہے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بالمقابل کسی نئی نبوّت کا دعویٰ۔ ذیل کی عبارت بھی اس بارہ میں فیصلہ کُن ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘خدا تعالیٰ نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہو جائیں زمانۂ محمدی کے آخری حصہ میں ڈال دی۔ جو قُربِ قیامتکا زمانہ ہے اور اِس تکمیل کے لئے اِسی اُمّت میں سے ایک نائب مقرر کیا ۔ جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اُسی کا نام خاتم الخلفاء ہے۔ پس زمانہ محمدی کے سر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اور اُس کے آخر میں مسیح موعود ہیں۔ اور ضرور تھا کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ وہ پیدا نہ ہولے۔ کیونکہ وحدت اقوامی کی خدمت اسی نائب النبوّت کے عہد سے وابستہ کی گئی ہے اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے هُوَ الَّذِيْ أَرْسَلَ رَسُولَهٗ بِالْهُدٰى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّينِ كُلِّهٖ۔’’
(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۹۰، ۹۱)
پس مسیح موعود کی بعثت تکمیل اشاعتِ ہدایت کے لئے ہے نہ تکمیل شریعت کے لئے۔ کیونکہ آپؑ کی حیثیت نائب النبوۃ کی ہے نہ تشریعی نبی کی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی نبوّت کے متعلق مولوی ابو الحسن صاحب جو غلط فہمی پھیلانا چاہتے ہیں اس کے ردّ کے لئے یہ اکیلا حوالہ ہی کافی و وافی ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بالمقابل نبی نہیں بلکہ آپؑ کی نبوّت نبوّت محمدیہ کی نیابت میں ہے۔ فاندفعت جمیع الاوھام بحذافیرہٖ۔
مولوی ابو الحسن نے یہ الزام بھی دیا تھا کہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ بطور ہندوؤں کے تناسخ اور حلول کے مسیح موعود اور مہدی معہود کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مولوی ابو الحسن صاحب کا یہ الزام بھی احمدیت کی دونوں شاخوں کے نزدیک درست نہیں۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے خود ایسے الزام کی تردید فرمادی ہوئی ہے۔ آپؑ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘اگرچہ مَیں نے اپنی بہت سی کتابوں میں اِس بات کی تشریح کر دی ہے کہ میری طرف سے یہ دعویٰ کہ مَیں عیسیٰ مسیح ہوں اور نیز محمد مہدی ہوں اس خیال پر مبنی نہیں ہے کہ میں درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں اور نیز درحقیقت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں مگر پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے غور سے میری کتابیں نہیں دیکھیں وہ اس شبہ میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ گویا میں نے تناسخ کے طور پر اس دعویٰ کو پیش کیا ہے اور گویا میں اس بات کا مدعی ہوں کہ سَچ مُچ ان دوبزرگ نبیوں کی روحیں میرے اندر حلول کر گئیں لیکن واقعی امر ایسا نہیں…… یہ وہ طریق ظہور ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں۔ ’’
(ضمیمہ رسالہ جہاد صفحہ ۱تا۸۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۳تا ۲۸)
مولوی ابو الحسن صاحب کی مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر پر نکتہ چینی اور ہماری تنقید!
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے ‘‘قادیانیت’’ کے صفحہ ۲۰۳ سے صفحہ ۲۱۶ تک مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر ‘‘بیان القرآن’’ کی بعض آیات کی تفسیر پر نکتہ چینی کی ہے۔ مگر مولوی ابو الحسن صاحب جانتے ہوں گے۔ سابقہ تفسیریں اختلافات سے بھری پڑی ہیں اور غلط اور صحیح روایات سے مملو ہیں۔ بالخصوص قصص انبیاء کے متعلق سابقہ تفاسیر میں اسرائیلی روایات پر انحصار کیا گیا ہے۔ اور قرآن کریم کے سیاق و سباق کو اس بارہ میں بہت ہی کم مدِّنظر رکھا گیا ہے۔ مسلمان مفسّرین کو جب قصص انبیاء کے بارے میں قرآنی آیات کی وضاحت مطلوب ہوتی تھی تو وہ یہودی علماء کی طرف رجوع کرتے تھے اور وہ انہیں بسا اوقات مَضحکہ خیز باتیں بتا دیتے تھے جنہیں مفسّرین اپنی تفاسیر میں نقل کر دیتے تھے۔ یہ تفسیریں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں۔ موجودہ زمانہ کے دور عقلیت میں جب مسلمان نوجوانوں نے سائنس کے جدید علوم کی تعلیم حاصل کی وہ ایسی تفسیروں کی وجہ سے اسلام سے بیزار اور بدظن ہو کر دہریّت اور الحاد کی گود میں جا رہے تھے اس لئے یہ ضروری تھا کہ ان کے لئے قرآن مجید کی ایسی تفسیر کی جاتی جس سے وہ زندقہ، الحاد اور دہریت سے بچ جائیں اور ان کے دلوں میں قرآن مجید کی قدر و منزلت پیدا ہو۔ ہاں اس بات کا بھی لحاظ ضروری ہے کہ انبیاء کی زندگیوں میں اگر کسی واقعہ میں اعجاز کا ذکر ہے تو اس کو معقول رنگ میں ثابت کیا جائے۔ تا نوجوان طبقہ سرے سے معجزات کا منکر نہ ہو جائے۔ پھر احمدی اپنی تفاسیر میں اس بات کو ملحوظ رکھتے ہیں کہ کسی آیت کی ایسی تفسیر نہ کی جائے جو شانِ الوہیت، شانِ انبیاء اور شان ملائکۃ اللہ کے خلاف ہو۔ اور ان کی ایسی تصویر سامنے نہ آئے جو عقل سے مستبعد ہو۔ حالانکہ سابق مفسّرین سے اس بارہ میں سخت فروگزاشت ہوئی ہے اور انہوں نے انبیاء اور ملائکۃ اللہ وغیرہ کے متعلق ہتک آمیز باتیں اپنی تفسیروں میں لکھ دی ہیں جو تعلیم یافتہ طبقہ کو ملحد اور دہریہ بنانے میں ممد ہوتی ہیں۔
اگر مولوی ابو الحسن صاحب اسلام پر مستشرقین کے اعتراضات پڑھیں تو پھر انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ احمدیت نے تفسیر القرآن کے سلسلہ میں بھی اسلام کی ایک عظیم الشان خدمت سرانجام دی ہے اور اپنی تفسیر سے اس زمانہ کے فلسفہ اور سائنس میں تعلیم یافتہ مسلمان طبقہ کو سہارا دیا ہے جو سابقہ قرآنی تفاسیر پڑھ کر مذہب سے ہی بدظن ہو رہا تھا اور یہ اثر لے رہاتھا کہ قرآن مجید بھی خدا کا کلام نہیں بلکہ پرانے لوگوں کے توہمات پر مشتمل کہانیوں سے پُر ہے۔
مولوی ابو الحسن صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر ‘‘بیان القرآن’’ پر چند مواقع سے تفسیر پیش کر کے تنقید کی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اُن کی تفسیر مفسّرینِ سابقین کے خلاف ہے ہمیں بھی بعض آیات کی تفسیر میں مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر سے اختلاف ہے۔ لیکن جن آیات کی تفسیر پر مولوی ابو الحسن صاحب نے اعتراض کیا ہے ہم اُن کو اِس اعتراض میں حق بجانب نہیں پاتے کہ خوارق اور معجزات سے اِباء کے نتیجہ میں ان آیات کی تفسیر کی گئی ہے۔ اُن کی تفاسیر سے ہمیں کسی جگہ اختلاف تو ہو سکتا ہے اور اُن کی کسی تحقیق میں خامی بھی ہو سکتی ہے لیکن بحیثیت مجموعی جن آیات کی تفسیر مولوی ابو الحسن صاحب نے بطور نمونہ پیش کی ہے وہ مسلمانوں کی نئی نسل کے لئے اسلام سے بُعد کو دور کرنے کا موجب ہو سکتی ہے اور انہیں الحاد کی راہوں سے بچانے میں ممد ہو سکتی ہے۔
(۱)مولوی محمد علی صاحب نے آیت وَإِذِ اسْتَسْقٰى مُوسىٰ لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ(البقرۃ:۶۱) میں حضرت موسیٰؑ کے چٹان پر عصا مارنے کا ذکر بھی کیا ہے اور اس آیت کے یہ معنی بھی بیان کئے ہیں کہ اپنی جماعت کے ساتھ پہاڑ پر چلے جاؤ۔ مولوی ابو الحسن صاحب کو یہ مسلّم ہے کہ کلامِ عرب کی خاص ترکیب اور خاص محاورات کے تحت یہ معنی لئے گئے ہیں۔ مگر اِسی جگہ چٹان پر عصا مارنے کا ذکر بھی اس تفسیر میں موجود ہے بلکہ ترجمہ بھی آپ نے یہی کیا ہے ‘‘اپنا عصا چٹان پر مار’’۔
(بیان القرآن جلد اول صفحہ ۴۴)
ایک ایسی قوم کو جسے بیابان میں پانی نہیں ملتا خدا تعالیٰ کے بتانے سے پانی مل جانا خواہ چٹان پر عصا مارنے سے ہو یا قوم کو کسی چٹان پر لے جانے سے حاصل ہو اس سے اعجاز میں کوئی فرق نہیں آتا۔ مولوی ابو الحسن صاحب نے چٹان پر عصا مارنے کی تفسیر درست قرار دی ہے اور اس میں اعجاز جانا ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر اعجازی صورت تو پھر اس قصے میں مذکور ہے جس میں مفسرین یہ بیان کرتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس ایک پتھر ہوتا تھا اور جہاں ضرورت پڑتی اس پر سوٹا مارتے تو اس میں سے پانی جاری ہو جاتا تھا۔ آخر اس تفسیر سے مولوی ابو الحسن صاحب کی طبیعت نے کیوں اِباء کیا ہے؟ اس کی وجہ وہی بتا سکتے ہیں۔
(۲)آیت وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيْهَا(البقرۃ:۷۳) میں مولوی محمد علی صاحب نے تفسیر القرآن بالقرآن کے اصول کو ملحوظ رکھا ہے اور اُس نفس سے جسے یہودیوں نے اپنے زعم میں قتل کر دیا تھا مسیح علیہ السلام مراد لئے ہیں۔ جس پر فَادَّارَأْتُمْ کو ان معنوں کے لئے قرینہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کی دوسری آیت إِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِسے ظاہر ہے کہ واقعۂ قتل و صلیب کے وقت یہودیوں کو یہ شک پڑ گیا تھا کہ مسیح حقیقت میں قتل نہیں ہوا۔فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا الآیۃکی تفسیر جو مولوی محمد علی صاحب نے ضمائر کے لحاظ سے کی ہے۔ اگر مولوی ابو الحسن صاحب کو اس میں تکلف نظر آتا ہے تو فَاضْرِبُوْہُکی ضمیر کا مَرجَع فعل قتل قرار دے کر اِس آیت کے یہ معنی لے سکتے ہیں کہ یہودیوں کے اُس فعل قتل کا بعض اس جیسے اور واقعات سے مقابلہ کرو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ خدا کا بیان ‘‘مَا قَتَلُوْہُ’’ یقینا سچا تھا کہ یہودی مسیح کو یقینی طور پر نہ مار سکے اور مسیح کے درحقیقت قتل ہوجانے کے متعلق ان کا دعویٰ درست نہ تھا۔ ہاں اسرائیلی روایت کے مطابق اس آیت کی پرانی تفسیر بھی تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(۳)تیسری آیت مولوی ابو الحسن صاحب نے أَنِّٓي أَخْلُقُ لَـكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّٰہِ(آلِ عمران: ۵۰)پیش کی ہے اور لکھتے ہیں:۔
‘‘قرآنِ مجید نے حضرت مسیح کا یہ قول بار بار دہرایا ہے کہ میں بطور معجزہ اور ثبوتِ نبوّت کے تمہارے سامنے مٹی کے جانور بناتا ہوں اور پھر ان کو پھونک مار کر پرندوں کی طرح ہوا میں اڑاتا ہوں۔’’
(قادیانیت صفحہ ۲۰۸)
اور مولوی محمد علی صاحب پر یہ اعتراض کیا ہے:۔
‘‘اس میں بے جان چیزوں میں روح ڈالنے کے معجزہ سے بچنے کے لئے مولوی محمد علی صاحب نے اس آیت کو تمام تر استعارات پر مشتمل بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں برنگِ استعارہ یہاں طیر سےمراد ایسے لوگ ہیں جو زمین اور زمینی چیزوں سے اوپر اٹھ کر خدا کی طرف پرواز کر سکیں اور یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ کس طرح نبی کے نَفخ سے انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زمینی خیالات کو ترک کر کے عَالم روحانیت میں پرواز کرے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۲۰۸)
مولانا ابو الحسن صاحب! اِس آیت کے ظاہری معنی بھی اس حد تک تو لئے جا سکتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ مٹی سے پرندے کی جو شکل بناتے تھے۔ وہ ان کے معجزانہ نَفخ یعنی پھونک مارنے سے پرواز تو کرتی تھی مگر نظروں سے غائب ہو جانے پر گر جاتی تھی اور مٹی کی مٹی رہ جاتی تھی۔ قرآن میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ پرندوں کی اس صورت و شکل میں جان، خون، گوشت پوست اور ہڈیاں پیدا ہو جاتی تھیں اور وہ دوسرے پرندوں سے مل جل جاتے تھے اور اِس طرح خدا تعالیٰ اور مسیحؑ کے پیدا کردہ پرندوں میں کوئی امتیاز نہیں رہ جاتا تھا۔ خدا تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں یہ فرمایا ہے۔أَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (الرعد:۱۷) یعنی کیا ان لوگوں نے اللہ کے لئے ایسے شریک تجویز کئے ہیں جنہوں نے اُس کی طرح کچھ مخلوق پیدا کی ہے جس کی وجہ سے اُس کی مخلوق اُن کے لئے مشتبہ ہو گئی۔ تو ان سے کہہ دے اللہ ہی ہر ایک چیز کا خالق ہے اور وہ یکتا، کامل اقتدار رکھنے والا ہے۔
پھر فرمایا وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْئًا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ۔ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَآءٍ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ(النحل:۲۱،۲۲)وہ لوگ جنہیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں۔ وہ سب وفات پا چکے ہیں۔ کوئی ان میں سے زندہ نہیں اور ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔
اِن آیات سے ظاہر ہے کہ حقیقی خَلق صرف خدا تعالیٰ کی قدرت سے وقوع میں آتا ہے اور جن کی دنیا میں پرستش کی جاتی ہے، جیسے حضرت مسیح علیہ السلام ، ان سے حقیقی خلق وقوع میں نہیں آیا جس سے خدا کی مخلوق اور بندے کی مخلوق میں امتیاز نہ ہو سکے، بلکہ وہ تو خود اموات میں داخل ہو چکے ہیں اور زندہ نہیں اور انہیں علم نہیں کہ وہ دوبارہ کب زندہ ہوں گے۔
جب مسیح علیہ السلام بھی عیسائیوں کے نزدیک معبود مانے جاتے ہیں تو ان آیات کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ حقیقی خَلق کو ان کے اس قراردادہ شریک سے بھی منسوب نہیں کرتا۔
پس مسیح ؑ کا یہ خَلق بھی خدا تعالیٰ کے خَلق کے بالمقابل مجازی ماننا پڑے گا اور اگر مٹی سے پرندے کی ظاہری شکل بنانا مراد لی جائے تو یہ خَلق اُسی حد تک متصوّر ہو سکتا ہے کہ نظر سے غائب ہو جانے کے بعد پرندے کی وہ صورت مُردے کی طرح گر جاتی تھی اور وہ مٹی ہی مٹی رہتا تھا اُس میں جان، خون، گوشت اور ہڈیاں پیدا نہیں ہو جاتے تھے۔ مولوی محمد علی صاحب نے یہ معنی بھی بیان القرآن صفحہ ۳۲۰ پر درج کئے ہوئے ہیں۔
ہاں جب اس جگہ خَلق مجازی ہی مراد ہوا تو مجاز کے استعمال میں وسعت ہے۔ اس لئے کسی مفسّر کو یہ بھی حق پہنچ سکتا ہے کہ جب خَلَق کا لفظ مجازًا استعمال ہوا ہے تو طیر کو بھی وہ مجازی معنوں میں لے اور پرواز سے روحانی پرواز مراد لے۔
لفظ طیر حدیث نبوی میں بھی بطور استعارہ استعمال ہوا ہے۔ احادیث شہداء کے سلسلہ میں مذکور ہے کہارواحھم عند اللّٰہ کطیر خضر (ابن ماجہ) کہ اللہ کے حضور شہداء کی ارواح سبز پرندوں کے مشابہ ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے ارواحھم فی اجواف طیر خضر۔(صحیح مسلم) کہ شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہیں۔
شہیدوں کی ارواح کے لئے پرندوں کا جوف تجویز کرنا بھی استعارہ ہی ہے۔ کیونکہ پہلی حدیث میں ان کی ارواح کو طیر سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اِس لحاظ سے مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر کو درست ماننے میں کوئی حرج نہیں۔
شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ نے بھی اِس آیت میں خَلقِ طَیر سے روحانی خَلق مراد لیا ہے۔(ملاحظہ ہو تفسیر محی الدین ابن عربیؒ برحاشیہ عرائس البیان)
(۴)مولوی ابو الحسن صاحب آیتیَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ (النّمل:۱۷) کی اُس تفسیر پر بھی معترض ہیں جو مولوی محمد علی صاحب نے کی ہے لیکن خود انہوں نے بیان نہیں کیا کہ مَنْطِقُ الطَّیر سے ان کے نزدیک کیا مراد ہے۔
مولوی محمد علی صاحب نے مَنْطِقُ الطَّیرسے مجازًا پرندوں کے ذریعہ نامَہ بَری کا کام مراد لیا ہے۔ یہ معنی انہوں نے اس وجہ سے لئے ہیں کہ پرانے زمانے میں پرندوں سے نامہبَری کا کام لیا جاتا تھا۔
پرندے درحقیقت کوئی بولی نہیں رکھتے اور مَنطق بولی کو کہتے ہیں، جس میں مضمون کو ادا کرنے کے لئے الفاظ ہوتے ہیں اور دوسرا شخص جو اس زبان کو سمجھتا ہو نَاطِق کی مراد کو سمجھ لیتا ہے۔ پس اگر ظاہری پرندے مراد لئے جائیں تو ان کے لئے نُطق کے لفظ اور مَنطق کے لفظ کا اِطلاق مجازی ہو گا۔ یعنی پرندوں کی مختلف آوازوں سے،مختلف اَصوات سے اُن کی مراد سمجھ لینے کا علم۔ اس کا حضرت سلیمان علیہ السلام کو کیا فائدہ پہنچ سکتا تھاجس کی وجہ سے اُن کی بادشاہت میں اس کا جاننا ضروری ہو؟ مولوی ابو الحسن صاحب کو اس پر روشنی ڈالنی چاہئے تھی مگر وہ خود خاموش ہیں اور مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر پر معترض ہیں۔ آخر مبلغِ اسلام اسلام کو غیر مسلموں میں تبلیغ کرتے ہوئے جب مَنْطِقُ الطَّیر کے سمجھانے کی ضرورت پیش آئے اور وہ اس کی معقول توجیہ نہ کریں تو مخالف مضحکہ اڑائے گا۔ پرندوں کی بولی جاننے سے سلیمان کی حکومت کے لئے کوئی فائدہ متصوّر نہیں ہو سکتا۔
پھر اگر مَنطق سے حقیقی معنی میں مَنطق مراد لی جائے توالطَّیر کو مجازی معنی ہی میں لینا پڑے گا اور مراد اس سے عالم اور اہلُ اللہ ہوں گے اور یہ معنی زیادہ قرین قیاس ہیں۔ کیونکہ نبیوں کو علماء اور اہل اللہ کے طریق اظہار سے اور طریق تکلّم سے ضرور آگاہ کیا جاتا ہے۔ اور انہیں اپنے بزرگوں کے علم کلام سے حصۂ وافر عطا کیا جاتا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ معنی زیادہ معقول اور قرین قیاس ہیں۔ اگر نامہ بَری کے معنی انہیں پسند نہیں تو مولوی ابو الحسن صاحب یہ دوسرے معنی اختیار کر سکتے ہیں۔
اسی ذیل میں مولوی ابو الحسن صاحب نے آیت حَتّٰٓى إِذَآ أَتَوْا عَلَى وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَّا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسَاكِنَكُمْ (النّمل: ۱۹)کی تفسیر پریہ اعتراض کیا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے مشہور تفسیر اور متبادر معنی کے مطابق چیونٹیوں کا گاؤں نہیں بلکہ ایک عرب قبیلہ بنی نملہ نام کی وادی مراد لی ہے اور نملۃ اُسی کا ایک فرد تھا۔
ہمارے نزدیک بھی یہی تفسیر معقول اور متبادر الفہم ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ وادیٔ نمل ساحل سمندر پر یوروشلم کے مقابل یا اس کے قریب دمشق سے حجاز کی طرف آتے ہوئے اندازًا سو میل نیچے کی طرف واقعہ ہے۔ ان علاقوں میں حضرت سلیمانؑ کے وقت تک عرب اور مَدیَن کے بہت سے قبائل بستے تھے۔ (دیکھو نقشہ فلسطین وشام بعہدِ قدیم و جدید ونیلسنز انسائیکلو پیڈیا) اور نَملہ ایک قوم تھی جو وہاں رہتی تھی۔ طائف کے قریب ایک نالہ سے سونے کے ذرّات چننے والی ایک قوم بھی نَملہ کہلاتی ہے۔ نَملہ کی انسانی قوم کو چھوڑ کر وادیٔ نَمل سے چیونٹیوں کا گاؤں مراد لینا اور پھر یہ خیال کرنا کہ چیونٹی بول پڑی اور اس نے دوسری چیونٹیوں سے کہا کہ مکانوں میں گھس جاؤ معقول تفسیر نہیں نَملہ کا قولاً‘‘اُدْخُلُوْا مَسَاکِنَکُم’’کہنا اور حضرت سلیمان کا اُس کو سن کر متبسم ہونا نَملہ کو انسان ہی ثابت کرتا ہے۔
قرآنِ کریم کی آیت حُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ (النّمل :۱۸)سے ظاہر ہے کہ اُن کا لشکر تین حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلا حصّہ جنّوں یعنی پہاڑی قبائلیوں پر مشتمل تھا اور دوسرا حصّہ عام لشکریوں اور تیسرا حصہ اہل علم اور اہلاللہ پر مشتمل تھا۔ تا وہ باقی لشکریوں کی اخلاقی نگرانی بھی کر سکیں۔
پس قرآنِ کریم کی مندرجہ بالا آیت سے یہ ظاہر ہےکہ حضرت سلیمان کا لشکر تین گروہوں پر مشتمل تھا۔ چونکہ لشکر جنگ کرنے والے سپاہیوں پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے پرندوں کا لڑائی میں جوانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں کوئی دخل متصوّر نہیں ہوسکتا۔ پس جنّ اور طَیر دونوں لفظ اس جگہ مَجَاز عُرفی کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ اور جِنّ سے مراد آیت میں جِنُّ الْاِنْسِ اور طَیر سے مراد طَیر الانس اور انس کے گروہ سے عام انسان مراد ہیں۔ پھر اس آیت میں لشکر کو ترتیب دینے کا ذکر ہے جیسا کہ فَھُمْ یُوْزَعُوْنَ کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ یہ ترتیب خود بتاتی ہے کہ یہ جِنّ غیر مرئی ہستیاں نہ تھے بلکہ مرئی وجود تھے جن کو صفوں میں دیکھا جا سکتا تھا اور وہ پرّا باندھ کر کھڑے کئے گئے۔
مولوی ابو الحسن صاحب کے نزدیک اس جگہ الجنّکے لفظ سے غیر مرئی ہستیاں اور طَیر سے عام پرندے مراد ہیں۔ لیکن قرآنِ کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ اَلْجِنّ سے وہ لوگ مراد ہیں جو بڑے جفاکش اور محنتی تھے۔ کیونکہ قرآنِ شریف میں اُن کے عمارات بنانے، سٹیچو بنانے، بڑے بڑے لگن، بڑی بڑی دیگیں جو ایک جگہ نصب رہتی تھیں بنانے اور سمندر میں غوطہ زنی کرکے موتی نکالنے کا ذکر ہے۔ فرمایا يَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا يَشَآءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِيَاتٍ(سبا:۱۴)نیز فرمایا۔ یہ پہاڑوں کے قبائلی لوگ تھے جنہیں حضرت سلیمانؑ کے لئے مسخر کیا گیا تھا اور آیتيَا جِبَالُ أَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ میں جِبَال سے مَجاز مُرسل کے طور پر اہل جَبل ہی مراد ہیں اور الطَّیر سے عام لوگ اور اِس آیت کے مطابق ان جِنُّ النَّاس اور عالموں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ داؤد کے ساتھ مل کر عبادت کریں۔
قرآنِ کریم کی کسی آیت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انبیاء کی بعثت انسانوں کے علاوہ کسی غیر مرئی مخلوق کی طرف بھی ہوتی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جو سیدالانبیاء ہیں ان کی شان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےوَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا (النساء:۸۰)قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّيْ رَسُولُ اللّٰہِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا(الاعراف: ۱۵۹) ان آیات سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت صرف انسانوں کے لئے تھی لہذا قرآنِ کریم میں جہاں جِنّوں کے کلام الٰہی سُن کر آپ پر ایمان لانے کا ذکر ہےوہاں جن سے مراد جِنُّ الْاِنْس ہی ہیں۔ اور آیت يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ(الزمر:۷۲)سے ظاہر ہے کہ جِنّو اِنس سے نبی آئے۔ مگر قرآنِکریم میں کسی غیر مرئی جنّ نبی کے مبعوث ہونے کا ذکر نہیں بلکہ تمام انبیاء بشر ہی تھے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نےجن و انس سے رسول بھیجے اور کسی غیر مرئی جنّ نبی کا ذکر قرآن کریم میں موجودنہیں اس لئے یہ مَعشر الجِنّ، جِنُّ النَّاس ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر مرئی مخلوق، غیر مرئی مخلوق کے لئے انسان کو نبی بنانا قرآن کریم میں مذکور نہیں۔
حدیث نبوی میں وارد ہےکَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ اِلٰی قَوْمِہٖ خَآصَّۃً وَبُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ عَامَّۃً(صحیح بخاری کتاب التیمّم باب نمبر ۱) کہ پہلے نبی اپنی اپنی مخصوص قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے اور میں تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ پس کوئی نبی بھی مولوی ابو الحسن کے غیر مرئی مزعوم جِنّوں کی طرف مبعوث نہیں ہوا لہذا قرآن کریم کے عُرفِ خاص میں اَلْجِنُّسے مراد وہ سردارانِ قوم اور بڑے بڑے لوگ بھی ہیں جو عوامُ النّاس سے کم اختلاط رکھتے ہیں یا مخفی رہ کر تحریکیں چلاتے ہیں۔ انہیں کا ذکر قرآنِ کریم کی اس آیت میں ہے۔رِجَالٌ مِّنَ الْإِنْسِ يَعُوذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ (الجن:۷)کہ عام انسان اپنے سرداروں کی جو عام نگاہوں سے مخفی رہتے تھے پناہ میں ہوتے تھے۔
آیت يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْإِنْسِ(الانعام:۱۲۹) سے بھی ظاہر ہےکہ اکثر اور بہت سے انسان جِنّوں کے قابو میں ہوتے ہیں اور وہ جِنّ اُن سے فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ انہی کی تحریکات عوامُ النَّاس میں چلتی ہیں۔وَإِذَا خَلَوْا إِلٰى شَيَاطِيْنِهِمْ (البقرة:۱۵) میں ایسے ہی مخالفین اسلام کا ذکر ہے جو شیطان کی طرح مخفی رہ کر اسلام کے خلاف تحریک چلاتے تھے۔ شیطان کے متعلق بھی آیا ہے۔كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهٖ(الكهف:۵۱) بعض انبیاء کے لئے جِنُّ النَّاس مسخر کئے گئے اور اُن کو مختلف کاموں پر لگایا گیا جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت میں ہوا۔ ہمارے تجربہ میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ غیر مرئی جِنّوں سے انسانوں کا واسطہ رہا ہو۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت میں پہاڑوں میں علیحدہ رہنے والے قبائل اپنی سخت طبیعت اور انانیّت کی وجہ سے جِنّ قرار دیے گئے ہیں۔ اُن میں سے بعض کی انانیّت اس شدّت کی تھی کہ وہ حضرت سلیمان کی حکومت میں اطاعت قبول کرنے کو تیار نہ ہوئے۔ ایسے لوگوں کے متعلق قرآن کریم میں آیا ہے وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ (صٓ:۳۹)کہ کچھ اور تھے جن کو بیڑیاں پہنا کر قید کر دیا گیا تھا۔ پس کسی غیر مرئی ہستی کو بیڑیاں پہنانا ممکن نہیںیہ وہ پہاڑی لوگ تھے جنہوں نے سلیمانؑ کی اطاعت نہ کی اور انہیں قید کرنا پڑا۔یہ آیت اِس بات کے لئے قوی قرینہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے زمانہ کے جنّ جو ان کے لئے مسخر کئے گئے تھے غیر مرئی ہستیاں نہ تھے بلکہ یہ وہ اَکھّڑ لوگ تھے جو متمدّن دنیا سے علیحدہ رہنے کی وجہ سے عرفاً جنّ کہلاتے تھے۔ چونکہ یہ جنّ، جنّ النَّاس تھے اس لئے قرآن کریم میں الناس کی دو صنفیں ہو جانے کی وجہ سے بعض کو جنّ اور بعض کو اِنس کہا گیا ہے۔ قرآن و حدیث کے بیان سے ظاہر ہے کہ انبیاء کی بعثت انسانوں کی طرف تھی۔ لہذا سلیمانؑ کے لشکر میں جو جنّ تھے وہ قبائلی پہاڑی لوگ تھے جن کو تربیت دے کر فوجی خدمت پر مامور کیا گیا اور اُن کی فوج کے حصہ کا نام جنّ ہی رکھا گیا تا امتیاز قائم رہے۔
اَلطَّیْر: قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی جس فوج کو اَلطَّیر کا نام دیا گیا ہے وہ انسانوں میں سے علم و معرفت رکھنے والے لوگوں کا طبقہ تھا۔ جنہیں روحانیت یا علوم میں بلند پروازی یعنی مہارت کی بناء پر اَلطَّیر کا نام دیا گیا۔ ورنہ پرندوں کے لشکر کا حصّہ ہونے کے کوئی معنی نہیں۔ جُندی یا لشکری جنگ کرنے کے لئے رکھے جاتے ہیں اور وہ تمام جنگی امور سرانجام دیتے ہیں۔ پرندے لشکری یا فوجی کام نہیں دے سکتے۔ پس یہ عقلی قرینہ ہے کہ اَلطَّیر کی فوج سے مراد ایسے فوجی تھے جو علوم و معرفت میں ترقی یافتہ لوگ تھے اور ان سے بھی لڑائی میں عظیم الشان خدمات لی جاتی تھیں۔ بہت ممکن ہے کہ اُن سپاہیوں کے نام بھی خاص پرندوں کے نام پر رکھے گئے ہوں۔ چنانچہ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنمیں سے ایک طَائِر (فوجی) کا نام ہُد ہُد تھا۔ ھُدَدْ نام کے کئیآدمی بنی اسرائیل میں گزرے ہیں جیسا کہ بائیبل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔ عربی میں ھُدَدْ، ھُدْ ھُدْبن گیا جیسا کہ عربی میں یسوع سے عیسیٰ بن گیا۔
معلوم ہوتا ہے کہ بائیبل میں تفاؤل کے طور پر کسی شخص کا نام ہُد ہُد پرندے کے نام پر رکھ دیا جاتا تھا۔ یا بعد میں اس کے کمال کو دیکھ کر ہُد ہُد لقب بن جاتا تھا۔ بہرحال فوج کا ہُد ہُد حضرت سلیمان کے وقت الطَّیر فوج کا ایک عظیم فرد تھا۔ کیونکہ قرآنِ کریم کی آیت وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَآ أَرَى الْهُدْهُدَ (النّمل:۲۱)سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت سلیمانؑ نے فوج کے حصہ الطَّیر کا معائنہ کیا تو اس میں ہد ہد کی بڑی شخصیت کو غائب پایا۔ اور چونکہ ہد ہد بلا اجازت غائب تھا اس لئے حضرت سلیمان علیہ السلام ناراض ہوئے اور کہا اَمْ کَانَ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ لَأُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهٗ أَوْ لَيَأْتِيَنِّيْ بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ (النّمل ۲۱،۲۲)یعنی کیا وہ غائب ہو گیا ہے۔ اگر وہ ایسا ہے تو مَیں اُسے سخت عذاب دوں گا یا اُسے قتل کر دوں گا۔ ورنہ اسے واضح دلیل پیش کرنا ہو گی۔ یعنی سزا سے تب بچ سکتا ہے کہ وہ اپنی غیر حاضری کے لئے واضح دلیل پیش کرے۔ اب واضح دلائل تو انسان ہُدہُد ہی پیش کر سکتا ہے نہ کہ ہُد ہُد پرندہ ۔یہ ہُد ہُد جب لشکر میں واپس آتا ہے تو اس کی جواب طلبی ہوتی ہے تو وہ یہ عذر پیش کرتا ہے أَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَّقِيْنٍ(النّمل:۲۳) کہ اے سلیمان! میں نے اُس چیز کا پورا علم حاصل کر لیا ہے جو تمہیں پورے طور پر معلوم نہیں۔ اور میں تیرے پاس ملک سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوں۔ یہ بیان ہُد ہُد کا الفاظ میں ہی ہو سکتا ہے۔ وہ آگے بتاتا ہےإِنِّي وَجَدْتُ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ(النّمل:۲۴) وہ یقینی خبر یہ ہے کہ مَیں نے دیکھا ہے کہ سبا کے رہنے والوں کی حاکم ایک عورت ہے جسے ہر ضروری سامان حاصل ہے اور اس کا ایک عظیم الشان تخت ہے۔ آگے کہا وَجَدْتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللَّهِ(النّمل:۲۵) مَیں نے اُس ملکہ اور اُس کی قوم کو اللہ کےسوا سورج کے آگے سجدہ کرتے دیکھا ہے۔وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيْلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُوْنَ (النّمل:۲۵)شیطان نے اُن کے اعمال کو خوبصورت کر کے دکھایا ہے اور انہیں سچے راستہ سے روک دیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے۔ (ملاحظہ ہو سورۃ النّمل)
ہُد ہُدکے اِس بیان سے ظاہر ہے کہ یہ معرفتِ الٰہی رکھنے والا انسان تھا اور توحیدِ الٰہی کے متعلق اُسے اچھا علم حاصل تھا اور وہ شیطان کو بھی پہچانتا تھا اور ان لوگوں سے بحث کر کے وہ اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ شیطان نے غیر اللہ کی عبادت کے فعل کو انہیں ایسا خوبصورت کر کے دکھایا ہے اور انہیں صحیح راہ سے اس طرح روک دیا ہے کہ وہ ہدایت نہیں پاتے۔ پس جس ہُد ہُد نے اُس قوم کو توحید کی تبلیغ کر کے یہ معلوم کر لیا کہ وہ شیطانی اثرات کے تحت گمراہ اور ہدایت سے دور ہیں اس ہُد ہُد کو عام پرندہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ اُس خاص انسان کا نام ہُد ہُد پرندے کے نام پر رکھا گیا تھا جو پانی کی تلاش کر لیتا ہے۔
حضرت سلیمانؑ نے اس کے عذر پر مشتمل تقریر سنی تو اُس کے ذمّہ یہ ڈیوٹی سپرد کی کہ ملکہ سبا کے پاس وہی آپ کا خط لے کر جائے۔ چنانچہ حضرت سلیمانؑ نے کہااِذْهَبْ بِّكِتَابِيْ هٰذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُونَ(النّمل:۲۹) کہ میرا یہ خط لے کر جا اور ان لوگوں کو پیش کر دے۔ پھر ان سے ایک طرف ہو کر دیکھتے رہنا کہ وہ کن خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
اِس آیت سے ظاہر ہے کہ سلیمانؑ نے ہُد ہُد کو شاہی آداب بھی سکھائے کہ وہ براہِراست خط ملکہ کے سامنے پیش نہ کرے بلکہ اس کے درباریوں کے واسطے سے پیش کرے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور وہ خط ملکہ کے سامنے پیش ہوا۔
اِس عبارت سے بھی ظاہر ہے کہ ہُد ہُد انسان تھا۔ جس کو ہدایت کی گئی کہ وہ علیحدہ ہو کر اُن کی باتیں سنے اور خط کے ردِّ عمل کو معلوم کرے۔ سو یہ کام انسان ہی کر سکتا تھا نہ کہ کوئی پرندہ۔ پس ہُد ہُد کا سارا بیان جو اس نے عذر میں پیش کیا اور حضرت سلیمانؑ کی اُسے یہ ہدایت کہ وہ اُن کا رَدِّ عمل بھی معلوم کرے، اُس ہُد ہُد کے انسان ہونے پر روشن دلیل ہے اور اس سے یہ بات صاف ظاہر ہو جاتی ہے کہ جس طَیْر کے لشکر کا وہ ایک معزّز فرد تھا وہ لشکر سارے کا سارا اہل علم اور فضلاء پر مشتمل تھا۔ اس لئے ہماری ہی پیش کردہ تفسیر درست ہے اور عام مفسّرین کے خیالات موجودہ سائنٹیفک زمانہ کے اہل علم کے لئے قابلِ قبول اور تسلّی بخش نہیں۔
بعض علماء نے لفظ اَلْقِہْ اِلَیْھِمْ سے یہ خیال کر لیا ہے کہ ہُد ہُد نے خط اوپر سے پھینک دیا۔ انہوں نے یہ سوچا کہ اَلْقِہْ کا لفظ اس جگہاَبْلِغْہُکے معنی میں استعمال ہوا ہے کہ اس خط کو انہیں پہنچا دو۔ لُغت میں لکھا ہے ۔ اَلْقٰی اِلَیْہِ الْقَوْلَ اَوِ الْکَلَامَ: اَبْلَغَہٗ اِیَّاہُ۔ سو یہ لفظ کتاب بمعنی رسالت کے لئے جو کلام پر مشتمل تھا استعمال کیا گیا ہے۔ پس اس فقرہ کے یہ معنی ہوئے کہ میرا خط ملکہ سبا کے درباریوں کو پہنچاؤ۔
اَیُّکُمْ یَأْتِیْنِیْ بِعَرْشِھَا سے مفسّرین نے یہ سمجھا کہ حضرت سلیمانؑ بلکہ بلقیس کا تخت چوری منگوانا چاہتے تھے۔ یہ امر تو عصمتِ انبیاء کے خلاف ہے۔ چوری کے امر کو معجزہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پس عَرْشِھَا میں اِضَافتتَمْلِیْکینہیں بلکہ اضافت بادنیٰ ملابست ہے۔ یعنی وہ تخت لاؤ جو ملکہ کی آمد پر اُس کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تخت بنانے کا آرڈر پہلے دیا جا چکا تھا اور اب اس کا منگوانا مطلوب تھا۔ آپ نے اہلِ مجلس سے پوچھا کون لائے گا۔ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الجِنِّ یعنی جو مشکل کام کرنےمیں ماہر تھا۔ اس نے غلطی سے یہ سمجھا کہ یہ اُس تخت کو منگوانا چاہتے ہیں جو بلقیس کی ملکیت ہے۔ اس لئے اس نے کہا أَنَا اٰتِيكَ بِهٖ قَبْلَ أَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ وَإِنِّيْ عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ(النّمل:۴۰)۔ کہ وہ تخت میں تمہارے پاس یہاں سے کوچ کرنے سے پہلے لے آوں گا اور مجھے قوت ہے۔ یعنی میں لَڑ بھِڑ کر لا سکتا ہوں اور مَیں امین ہوں۔ یعنی میں اپنی ڈیوٹی کو خوب جانتا ہوں۔ حضرت سلیمانؑ سمجھ گئے کہ یہ میرے کلام کا مطلب نہیں سمجھا اس لئے اسے اس کام پر مامور نہ کیا تو دوسرا شخص جو اس راز سے واقف تھا اور جس کے پاس ایسے کاموں کا ریکارڈ ہوتا تھا وہ چونکہ سلیمانؑ کی بات کو صحیح طور پر سمجھ گیا اِس لئے اُس نے کہا میں فورًا حاضر کر سکتا ہوں۔ اسے ریکارڈ کی بناء پر علم تھا کہ وعدہ کے مطابق تخت تیار ہو چکا ہے اس لئے اس نے کہا کہ میں ابھی حاضر کرتا ہوں۔ یہ مفہوم ہے اس آیت قرآنیہ کا کہ قَالَ الَّذِيْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا اٰتِيكَ بِهٖ قَبْلَ أَنْ يَّرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ (النّمل:۴۱) ریکارڈ کا علم رکھنے والا یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ مَیں ابھی چوری کر کے لاتا ہوں۔ نہ اس آیت سے اُس کا جن ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ وہ کوئی اسرائیلی تھا جو ایسے کاموں کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلام کا معتمد علیہ تھا۔ چنانچہ اس نے جھٹ تخت حاضر کیا اور حضرت سلیمانؑ نے اس پر شکریہ ادا کیا کہ دورانِ سفر میں ہی ایسا اعلیٰ درجے کا تخت تیار ہوا حالانکہ ہم مرکز سے دور آچکے ہیں۔ یہ تخت اس وقت بنایا گیا تھا جب ملکہ سبا کو ملاقات کے لئے دعوت دی گئی تھی جیسا کہ خط کے الفاظ وَأْتُوْنِیْ مُسْلِمُیْنَ(النّمل: ۳۲) میں دعوت کا اشارہ ہے کہ فرمانبردار ہو کر تم میری ملاقات کے لئےاپنے مصاحبین کے ساتھ آؤ ـــــ بلقیس کا اصل تخت منگوانا معجزہ نہیں بن سکتا کیونکہ ایسا فعل چوری بنتا ہے اور چوری پر اعجاز کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ اعجاز کی ہتک ہے۔ پھر بفرضِ محال اگر یہ معجزہ بھی ہو اور چوری نہ سمجھی جائے اور اُس کے اِس طرح لانے میں کوئی اخلاقی گراوٹ بھی نہ سمجھی جائے پھر بھی یہ سلیمانؑ کا معجزہ نہ ہوتا بلکہ ایک دوسرے آدمی کا معجزہ ہوتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اخلاق کا علم رکھنے والے چوری کو معجزہ نہیں سمجھ سکتے اور نہ اُسے نبی کی طرف منسوب کر سکتے ہیں۔
ایک اور قرینہ اِس بات کے لئے کہ یہ تخت بلقیس کا مملوکہ نہ تھا یہ ہے کہ بلقیس کے سلیمانؑ کی ملاقات کے لئے آنے پر سلیمانؑ نے اس سے پوچھا اَھٰکَذَا عَرْشُکِ(النّمل: ۴۳) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ بلقیس کا مملوکہ تخت تھا تو اُس پر اپنی شوکت کا رُعب ڈالنے کے لئے یہ سوال کرنا چاہئے تھااَھٰکَذَا عَرْشُکِ ؟ تشبیہ پر مشتمل سوال پیش کرنا اِس بات کی روشن دلیل ہے کہ وہ تختِ بلقیس نہ تھا کیونکہ مشبّہ اور مشبّہ بِہٖ میں مغائرت ہوتی ہے اور وہ دونوں ایک شَے نہیں ہو سکتے۔ پس بلقیس کا تخت اس سوال میں مشبّہ بِہٖ ہے۔ اور جس تخت کا ذکر سلیمانؑ سوال میں کر رہے تھے وہ مشبہ تھا۔ پس جب اس فقرے کی حقیقتِ لُغویّہ یہ ہے تو اس تخت کو بلقیس کا مملوکہ تخت سمجھ لینا درست نہیں۔ بلقیس نے بھی صحیح جواب دیاکَانَّہٗ ھُوَ(النّمل:۴۳)کہ یہ تخت ہُو بہُو میرے تخت سے مشابہ ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ اُسے یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ تخت میرا مملوکہ ہے۔ اور وہ مملوکہ تھا بھی نہیں۔ وہ اب اُس کا تخت اُس تعلق کی وجہ سے قرار دیاگیا تھا کہ یہ تخت اس کی خاطر تیار کروایا گیا تھا۔ پس اُس تخت کو بلقیس کا مملوکہ تخت قرار دینا اور چوری کے ذریعہ حاصل کرنا معجزہ نہیں کہلا سکتا۔ البتہ اس تخت کا بنوا لیا جانا اپنے اندر ضرور ایک کرامتاور اعجاز کا رنگ رکھتا ہے کیونکہ دورانِ سفر میں تھوڑی سی مدت میں ہی ایسا عظیم الشان تخت تیار ہو جاتا ہے جو بلقیس جیسی ملکہ کے عظیم الشان تخت کو بھی مات کر رہا تھا۔ پس یہ معنے تو نئے تعلیم یافتہ قبول کر سکتے ہیں لیکن ابو الحسن صاحب ندوی کے معنی جو انہوں نے تفسیروں سے لئے ہیں ان سے حضرت سلیمانؑ کی طرف چوری کا فعل منسوب کرنا پڑتا ہے جو عصمتِ انبیاء کے مَنَافِی ہے۔ لہذا ایسے معنوں سے ہمارے اِس غور کرانے کے بعد ہر اہل علم اور ہر سلیمُ العقل انسان اجتناب کرے گا جو عصمتِ انبیاء کے منافی ہوں۔
(۶)سورۃ سبا میں حضرت سلیمانؑ کے متعلق ارشاد ہے۔فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلٰى مَوْتِهٖ إِلَّا دَآبَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهٗ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَّوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوْا فِيْ الْعَذَابِ الْمُهِيْنِ(سبا:۱۵) اِس آیت کی تفسیر میں مولوی محمد علی صاحب نے بیان کیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کی وفات کے جلد ہی بعد ان کی سلطنت کی حالت خراب ہو گئی۔ حضرت سلیمانؑ کے بیٹے رحبعام کے تخت نشین ہونے کے تھوڑا عرصہ بعد یربعام کی انگیخت پر بنی اسرائیل نے کچھ مطالبات پیش کئے۔ اس وقت حضرت سلیمان کے پرانے مشیروں نے رحبعام کو مشورہ دیا کہ وہ قوم کو تنگ نہ کرے اور ان کے مطالبات کو قبول کر لے مگر اس نے بجائے اُن مشیروں کی بات سننے کے اپنے نوجوان ساتھیوں کے کہنے پر بنی اسرائیل کے مطالبات کا سخت جواب دیا اور اُن پر سختی کرنے کی ٹھانی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دس قومیں باغی ہو گئیں اور حضرت سلیمانؑ کی سلطنت برباد ہو گئی اور رحبعام کی حکومت صرف ایک چھوٹی سی شاخ رہ گئی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ غیر اسرائیلی اقوام بھی آزاد ہو گئیں۔(سلاطین باب۱۲)
پس دَآبّۃُ الْاَرْضِیہی رحبعام حضرت سلیمان کا بیٹاہے جس کی نظر صرف زمین تک محدود تھی اور سلیمان کے عصا کا کھایا جانا اُس کی سلطنت کی بربادی ہے اور جن سے مراد غیر قومیں ہیں جنہوں نے اب تک بنی اسرائیل کی ماتحتی کا جُوَا نہ اٹھایا ہوا تھا۔
اس تفسیر کے بالمقابل جو معقول معلوم ہوتی ہے۔ مولوی ابو الحسن صاحب نے مولوی شبیر احمد عثمانی کے ترجمۃ القرآن کے حاشیہ کی بناء پر یہ لکھا ہے:۔
‘‘مفسرین کی اس تفسیر میں لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جِنّوں کے ہاتھ سے مسجد بیت المقدس کی تجدید کرا رہے تھے۔ جب معلوم ہوا کہ میری موت آپہنچی ۔ جنّوں کو نقشہ بتا کر آپ ایک شیشہ کے مکان میں دربند کر کے عبادت الٰہی میں مشغول ہو گئے۔ جیسا کہ آپ کی عادت تھی کہ مہینوں خَلوت میں رہ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ اُسی حالت میں فرشتہ نے روح قبض کر لی۔ اورآپ کی نعش مبارک لکڑی کے سہارے کھڑی رہی۔ کسی کو آپ کی وفات کا احساس نہ ہو سکا۔ وفات کے بعد مدّت تک جن بدستور تعمیر کرتے رہے۔ جب تعمیر پوری ہو گئی۔ جس عصا پر ٹیک لگا رہے تھے گھُن کے کھانے سے گِرا۔ تب سب کو وفات کا حال معلوم ہوا۔ اس سے جِنّات کو خود اپنی غیب دانی کی حقیقت کھل گئی اور ان کے معتقد انسانوں کو بھی پتہ لگ گیا کہ اگر انہیں غیب کی خبر ہوتی تو کیا اس ذلّت آمیز تکلیف میں پڑے رہتے۔’’
یہ قصہ جو مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے بعض اسرائیلی روایات پرمشتمل معلوم ہوتا ہے۔ ان روایات میں بھی سلیمانؑ کی سلطنت کی بربادی کے واقعہ کو تمثیل میں ہی بیان کیا گیا تھا۔ مگر مولوی ابو الحسن صاحب تمثیل کو حقیقت پر محمول کر رہے ہیں۔ جس روایت میں شیش محل کا ذکر آیا ہے اس میں یہ مذکور ہے کہ شیش محل کا کوئی دروازہ نہ تھا۔ لیکن ایک دوسری روایت سے ظاہر ہے کہ وہ شیشمحل کی بجائے ایک ایسے مکان میں داخل ہوئے تھے جس میں دونوں طرف ہوا کی آمدو رفت کے لئے سوراخ تھے اور اندر داخل ہو کر ایک جن نے اُن کی وفات کا علم حاصل کیا۔ لیکن شیش محل کی روایت سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ عمارت بنانے والے معمار جن باہر سے ہی دیکھتے رہتے تھے کہ سلیمانؑ اندر زندہ موجود ہیں۔ ان دونوں روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کھڑے ہو کر لاٹھی کہ سہارے عبادت کر رہے تھے مگر ابو الحسن صاحب کو سوچنا چاہئے کہ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ایک شخص لاٹھی کے سہارے کھڑا ہو اور اس کی وفات ہو جائے اور وہ ویسے کا ویسا مدّت تک کھڑا رہ جائے۔ یہ نظارہ دنیا کی آنکھ کبھی نہیں دیکھ سکتی۔ کیونکہ روح کے پرواز کر جانے کے بعد اگر وفات کھڑے ہونے کی حالت میں ہو تو لاٹھی کے سہارے کوئی نعش کھڑی نہیں رہ سکتی ۔ اس کا لازماً گرنا ضروری ہے۔ اب اگر مولوی ابو الحسن صاحب اسے حضرت سلیمانؑ کا معجزہ قرار دیں تو اس کے معجزہ ہونے پر آیت کا کوئی لفظ دلالت نہیں کرتا۔ اور نہ روایتوں کے الفاظ دلالت کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ لاٹھی کا سہارا قرار دیتے ہیں اور اسے لاش کے کھڑا رہنے کا سبب قرار دیتے ہیں تو یہ امر تو کسی معجزہ کے عدم وقوع پر دلیل ہے کیونکہ لاش کے کھڑا ہونے کا سبب معلوم ہے جو لاٹھی کا سہارا تھا۔ اور معجزہ ایسا امر ہوتا ہے جس کا سبب غیر معلوم ہو۔
اصل حقیقت یہی ہے کہ اسرائیلی روایات میں بھی گھُن سے مراد تمثیلاً رحبعام ہی تھا۔جیسا کہ سلاطین کے وضاحتی بیان سے ظاہر ہے اور بعد از وفات حضرت سلیمانؑ کے گرنے سے اُن کی سلطنت کا گرنا مراد ہے نہ کہ خود اُن کی نعش کا گرنا۔ تفسیر دُرِّ مَنْثُور کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ملک الموت سے کہہ دیا تھا کہ جب میری موت قریب آئے تو مجھے بتا دینا۔ چنانچہ ملک الموت نے بتا دیا اور آپ نے ایک کمرے میں عُزلت اختیار کر لی اور جبریل سےکہا کہ میری موت کو مخفی رکھا جائے۔ اِس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کمرے میں داخل ہو کر وہ جلد وفات پا گئے۔ اور جو یہ قصّہ ہے کہ ایک سال بعد اُن کی وفات ہوئی اسے علّامہ المراغی نے تسلیم نہیں کیا بلکہ اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ:۔
‘‘روزانہ ان کی خوراک وغیرہ کا بندوبست ہوتا ہو گا۔ اور جب تک وہ زندہ رہے لوگوں کو ان کی زندگی کا علم ہوگا۔’’
پس معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کی وصیّت کے مطابق اُن کی وفات کو ایک وقت تک مخفی رکھا گیا اور سوائے خاص آدمیوں کے اِس بات کا عام لوگوں کو کوئی علم نہ تھا۔ اُن کی عُزلت کے زمانہ میں ان کا بیٹا بطور نمائندہ سلطنت کا کام چلا رہا تھا کہ اِس دوران یربعام کی انگیخت پر بنی اسرائیل کے دس قبائل نے بعض مراعات طلب کیں لیکن رحبعام اپنے نالائق مشیروں کے مشورہ میں آکردآبۃُ الارض یعنی سِفلی خیالات رکھنے والا ثابت ہوا اور اس نے عصائے سلطنت کو اپنی غلط پالیسی سے توڑ ڈالا۔ اس سے بنی اسرائیل کے ان دس قبائل کو جب سلیمانؑ کی پالیسی کے خلاف نئی پالیسی اختیار کرنے کا علم ہوا تو وہ جان گئے کہ اب سلیمانؑ زندہ نہیں۔ کیونکہ وہ یہ پالیسی بنی اسرائیل کے متعلق کبھی اختیار نہیں کر سکتے تھے۔
جب حضرت سلیمانؑ کی وفات کا راز فاش ہو گیا تو جن النَّاس معماروں نے بھی جان لیا کہ ہم یونہی کافی عرصہ بیگار کے عذاب میں مبتلا رہے۔ اگر ہمیں پہلے سے علم ہو جاتا تو اِس عذاب سے بچ جاتے۔ قرآن کی آیت لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْب سے ہرگز یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ جِنّوں کو علم غیب رکھنے کا دعویٰ تھا۔ اِس فقرے میں تو انہوں نے اپنی غیب دانی کا انکار کیا ہے اور اُن کی غیب دانی کے دعویٰ کاذکر اس سے پہلے بھی موجود نہیں۔
مِنْسَأَۃٌاُس بہت بڑے ڈنڈے کو کہتے ہیں جس سے اونٹ ہانکے جائیں اور رو کے جائیں۔ المنجد میں لکھا ہے۔ اَلْمِنْسَأَۃُ: اَلْعَصَا الْعَظِیْمَۃُ الّتِیْ تَکُوْنُ مَعَ الرَّاعِیْ کَأَنَّہٗ یُبْعِدُ بِھَا الشَّیءَ و یَدْفَعُ ـــــــ مِنْسَأَۃٌ سے وہ بڑا ڈنڈا مراد ہےجس سے چرواہا جانوروں کو دور ہٹاتا ہے ـــــــچنانچہ (مفردات القرآن) میں لکھا ہے۔ اَلْمِنْسَأُ عَصًا یُنْسَأُ بِہِ الشَّیْءُ اَیْ یُؤَخَّرُ۔ قَالَ: (تَأْکُلُ مِنْسَأَتَہٗ )وَنَسَأَتِ الْاِبِلُ فِیْ ظَمَئِھَا یَوْمًا أَوْ یَوْمَیْنِ اَیْ أَخَّرَتْ۔(مفردات امام راغب زیر لفظ نَسَأَ)
پس مِنْسَأَۃٌسے مراد چھڑی یا لاٹھی نہیں ہو سکتی۔ جس پر ٹیک لگائی جائے بلکہ اس سے وہ بڑی لاٹھی مراد ہوتی ہے جو اونٹوں کو پیچھے ہٹانے کے کام آئے۔ پس جب یہ لاٹھی سہارے والی قرار نہیں پاتی تو اس کا مجازی معنوں میں استعمال اس مفہوم میں قرار دینا پڑے گا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت میں ایسی خرابی آگئی کہ سرکش لوگوں کو شرارتوں سے ہٹانے کے لئے جو طاقت چاہئے تھی وہ کمزور پڑگئی۔ عربی زبان میں عصا کا لفظ مِنْسَأَۃٌکے مقابلہ میں عام لفظ ہے اور مِنْسَأَۃٌعَصَا کے مقابلہ میں خاص لفظ ہے۔ عصا سے ٹیک لگانے اور معمولی مدافعت کا کام تو لیا جا سکتا ہے لیکن بڑے جانوروں کو ہٹانے کے لئے مِنْسَأَۃٌاستعمال ہوتا ہے۔ پس عبادت کے لئے کمرے میں جاتے ہوئے مِنْسَأَۃٌ کا ٹیک لگانے کے لئے ساتھ لے لینا غیر معقول بات ہے اور یہ امر قرینہ حالیہ ہے کہ مِنْسَأَۃٌسے حکومتِ سلیمان کی قوتِ مدافعت ہی مراد ہے اور اسی قرینہ سے خرّسے سلیمان علیہ السلام کی حکومت کی گراوٹ اور کمزوری مراد ہے۔ بعض اسرائیلی روایتوں میں یہ آیا ہے کہ عبادت گاہ میں وہ لاٹھی کے سہارے کھڑے تھے کہ ان کی موت واقعہ ہو گئی۔ اور ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ انہیں حنوط کیا گیا اور کفن پہنایا گیا اور وہ ایک کرسی پر عبادت گاہ میں بیٹھ گئے اور ڈنڈا ٹھوڑی کے نیچے رکھ لیا کہ اِسی حالت میں اُن کی وفات ہو گئی۔ پس اِس بارےمیں روایات میں بھی بہت اختلاف ہے۔ حنوط لاش کو کیا جاتا ہے نہ کہ زندہ کو اورکفن بھی مُردہ کو پہنایا جاتا ہے نہ کہ زندہ کو لیکن اگر جِنّوں کو شیش محل سے یہ دکھانا مقصود ہوتا کہ سلیمانؑ زندہ ہیں تو پھر کفن پہنانے کی ضرورت نہ تھی۔ پس یہ روایات متضاد ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتماد ہیں۔ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اُن کی وفات کو مخفی رکھا گیا اور جِنّوں کو اُن کی وفات کا علم تب ہوا جب سلطنت کی قوتِ مدافعت میں کمزوری آگئی۔
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کہتےہیں کہ قرآن کے عَرَبِیٌّ مُّبِیْن میں نازل ہونے کا ذکر آیا ہے۔ (بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ۔الشعراء:۱۹۶) قرآنِ کریم تو بے شک لسان عربی مبین میں ہے لیکن قرآن کریم کے عربی مبین ہونے سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ اس میں تمثیلات، مجاز اور استعارہ سے کام نہیں لیا گیا۔ اس آیت میں خود لفظ لسان بھی لغت کے لئے بطور استعارہ استعمال ہوا ہے۔ خود قرآنِ مجید نے بتایا ہے:۔
مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَأْوِيلِهٖ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيْلَهٗ إِلَّااللّٰهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّآ أُولُوْ الْأَلْبَابِ (آل عمران :۸)
ترجمہ۔ خدا وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب نازل کی ہے۔ جس کی بعض آیتیں محکم ہیں۔ وہ اس کتاب کی جڑ ہیں اور کچھ اَور متشابہ ہیں۔ پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ تو فتنہ کی غرض سے اِس کتاب کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کے لئے اُن آیات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جومتشابہ ہیں۔ اور ان کی تاویل اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ راسخ فی العلم کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے۔ سب ہمارے رب کی طرف سے ہی ہے۔ اور عقلمندوں کے سوا ان سے کوئی نصیحت حاصل نہیں کر سکتا۔
پس متشابہات کی تفسیر میں عقلی کو کام میں لانا ضروری ہے تا ان کے معنی محکمات کے مطابق رہیں۔
بات اصل میں یہ ہے کہ پرانے مفسّرین عمومًا متشابہات کی تاویل سے بچتے رہے اور قصَصِ انبیاء کے بارے میں اسرائیلی روایات پر انحصار کرتے رہے۔ نصیحت کا پہلو تو انہوں نے ان واقعات سے نکالا ہے لیکن وہ اس بات کا دعویٰ نہیں کرتے کہ یہ اسرائیلی روایات اپنے اندر قطعیت رکھتی ہیں اس لئے متشابہات کی تاویل میں بہت گنجائش ہوتی ہے اور ان کی تفسیر معقول ہونی چاہئے جو آیات محکمات سے تعارض نہ رکھے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب احادیث کی چھان پھٹک کی جاتی ہے۔ جن کے جمع کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیا گیا اور ان میں بھی بہت سی روایات جعلی ثابت ہو جاتی ہیں تو قرآن کریم کی تفسیر میں اس کے متن میں تدبّر کئے بغیر اسرائیلی روایات پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ آیات متشابہات میں عمومًا مجاز و استعارہ کا دخل ہوتا ہے۔ پس پہلوں نے اِن قصوں سے جو کچھ سمجھا اُس پر انحصار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اسرائیلی روایات کو قطعی اور یقینی نہیں سمجھا گیا ـــــ مگر مولوی ابو الحسن صاحب یہی چاہتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی بعض آیات کا پہلوں نے اسرائیلی روایات کی بناء پر جو مفہوم اخذ کیا ہے آنکھیں بند کر کے اُسی پر انحصار کر لیاجائے۔ کیونکہ بزرگوں نے ان روایات کو تفسیر کا ماخذ قرار دیا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے کہ قرآنِ کریم میں تدّبر سے کام لیں۔ چنانچہ فرمایا أَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ أَقْفَالُهَا(النّسآء:۸۳) پس قرآنِ کریم میں دلوں کے قُفل کھول کر تدبّر سے کام لینا چاہئے اور چونکہ یہ نئے علوم کا زمانہ ہے اس لئے آج کل قرآنِ کریم کی ایسی تفسیر نہیں کرنی چاہئے جو سائنٹیفک دنیا کو اپیل نہ کر سکے۔ جب یونانی فلسفے کا پرانے زمانے میں زور تھا۔ اُس وقت متکلّمینِ اسلام مجبور تھے کہ رائج فلسفہ کی رعایت سے قرآنِ کریم کی تفسیر کرتے۔ آج نئے علوم نے تفسیر القرآن کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے جسے ندوی صاحب بند کرنا چاہتے ہیں۔ مگر عجمی نژاد تو کیا اب تو خود اہل عرب کے مفسّرین کا رُخ بھی تفسیر القرآن میں نئے علوم نے بدل کر رکھ دیا ہے۔ آپ علّامہ طنطاوی کی تفسیر پڑھ کر دیکھ لیں۔ آپ کو ایسی تفسیر آیاتِ قرآنیہ کی ملے گی جو پہلے لوگوں کے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔ یہی حال دیگر علماءِ عصر کا ہے سوائے یہاں کے متعصّب علماء کے جو احمدیت کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کے لئے مسلمانوں کی آنکھیں میں دُھول ڈالنا چاہتےہیں اور عوام النّاس کو پرانے ڈگر پر ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر جوں جوں علوم ترقی کر رہے ہیں قرآنی معارف بھی زیادہ کھلتے جا رہے ہیں۔ اب دنیا میں احمدیوں کی تفسیر قبول کی جائے گی۔ کیونکہ وہ موجودہ تحقیقات کے اصولوں کے مطابق ہے۔
ہم پرانے مفسّرین کی کوششوں کی ناقدر ی نہیں کرتے لیکن اُن کی تفسیر کو خدا کا کلام بھی نہیں جانتے۔ لہذا جب وہ عقل سلیم کی روشنی اور تحقیقات کے صحیح اصولوں کے خلاف ہو تو قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔
(۷)مولوی ابو الحسن صاحب کے نزدیک سورۃ جِنّکیآیت قُلْ أُوْحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا(الجنّ:۲)میں جن جِنّوں کا مخفی طور پر آکر کلامِ الٰہی سننا مذکور ہے وہ غیر مرئی مخلوق تھے۔ مگر ہم ثابت کر چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت صرف انسانوں کی طرف تھی نہ کسی غیر مرئی افسانوی جِنّوں کی طرف۔ اس لئے یہ نَفَرٌ مِّنَ الجِنِّبھی جِنُّ النَّاس ہی تھے جنہیں مخفی طور پر کلامِ الٰہی سن کر جانے سے اَلْجِنّ یعنی چھپ کر آنے والے لوگ قرار دیا گیا۔ احادیث نبویّہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جِنّوں کا ایک وفد ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ملاقات کے لئے بھی آیا تھا۔ اور اس نے نخلہ میں رات کے وقت ڈیرہ لگایا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ان کی ملاقات کے لئے رات کے وقت گئے تھے۔ چونکہ صحابہؓ کو یہ بتایا نہیں گیا تھا اس لئے وہ پریشان ہوئے۔صبح کے وقت جب حضورؐ واپس تشریف لائے تو روایت ہے کہ آپ نے فرمایا۔ اَتَانِیْ دَاعِیَ الْجِنِّ فَاَتَیْتُھُمْ فَقَرَأْتُ عَلَیْھِمُ القُرْاٰنَ۔ راوی کہتا ہے فَانْطَلَقَ فَاَرَانَا اٰثَارَھُمْ وَ اٰثَارَ نِیْرَانِھِمْ۔ یہ روایت ترمذی میں حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ میرے پاس جِنّوں کی طرف سے بلانے والا آیا تھا سو میں اُن کے پاس آیا اور انہیں قرآن سنایا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہم صحابہ کو ساتھ لے گئے اور ہمیں اُن کے آثار اور اُن کے چولہے دکھائے جن میں آگ جلائی گئی تھی۔
اِس روایت سےظاہر ہے کہ صحابہؓ اُن جِنّوں کو کوئی غیر مرئی ہستیاں نہیں سمجھتے تھے۔ کیونکہ غیر مرئی ہستیوں کا اپنے لئے آگ کا استعمال کوئی معنی نہیں رکھتا۔
تفسیرروح المعانی سورۃ حج زیر آیت ۲۶ لکھا ہے۔ کَانُوْا تِسْعَۃَ نَفَرٍ مِّنْ اَھْلِ نَصِیْبیْنَ فَجَعَلَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ رُسُلًا اِلٰی قَوْمِھِمْ۔ یعنی یہ نصیبین کے رہنے والے نو شخص تھے جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اُن کی قوم کی طرف مبلغ بنا کر بھیجا۔
حضرت ابن عباسؓ بھی فرماتے ہیں کہ وہ اہل نصیبین کے نو شخص تھے جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی قوم کی طرف مبلغ بنا کر بھیجا تھا۔
(دُرِّمَنْثُور۔ تفسیر سورۃ کہف آیت نمبر۵)
لُغت عربی سے ظاہر ہے کہ بڑے آدمیوں کو بھی جن کہتے ہیں۔ چنانچہ المنجد میں لکھا ہے:جِنُّ النَّاس : مُعْظَمُھُمْ لِاَنَّ الدَّاخِلَ فِیْھِمْ یَسْتَتِرُبِھِمْ۔
کہ لوگوں میں سے جن اُن کے بڑے آدمی ہیں۔ کیونکہ جب کوئی اُن میں داخل ہو جاتا ہے تو وہ بھی اُن کے ذریعہ (لوگوں کی نگاہوں سے) چھُپ جاتا ہے۔
اِس سے ظاہر ہے کہ بڑے آدمی عوامُ النّاس سے چونکہ الگ تھلگ اور پوشیدہ رہتے ہیں اس لئے اس اخفاء کی وجہ سے جِنّ کہلاتے ہیں۔
نصیبین کے ایسے ہی لوگوں کا وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو ملا تھا جو ایسے سعید طبع تھے کہ قرآنِ مجید سنتے ہی ایمان لے آئے۔ قرآنِ کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تورات کے ماننے والے تھے۔ سورۃ جِنّ میں بھی جن جِنّوں کی آمد اور قرآن سننے کی خبر دی گئی ہے قرآنِ مجید سے ہی ظاہر ہے کہ وہ تورات کے ماننے والے تھے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جِنّ اس طرح دو دفعہ مدینہ منورہ میں آئے تھے۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم انہیں مدینہ سے باہر مخفی طور سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے تھے اور دوسری دفعہ وہ لوگ خود مخفی طور پر آئے اور قرآنِ مجید سن کر واپس چلے گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی اس طرح آمد کا علم وحی الٰہی کے ذریعہ دیا گیا۔
احمدیت نے اسلام کو کیا دیا؟
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے اپنی کتاب کے آخر میں فصل چہارم کے ذیل میں ‘‘قادیانیت نے عالم اسلام کوکیا عطا کیا’’ کے عنوان کے تحت لکھا ہے:۔
‘‘اب جب ہم اپنی اِس تحقیق کی آخری منزل تک پہنچ گئے ہیں اور اس کتاب کی آخری سطریں زیر تحریر ہیں ہم کو ایک عملی اور حقیقت پسند انسان کے نقطۂ نظر سے تحریکِ قادیانیت کا تاریخی جائزہ لینا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ اس نے اسلام کی تاریخِ اصلاح و تجدید میں کون سا کارنامہ انجام دیا اور عالم اسلام کی جدید نسل کو کیا عطا کیا۔ نصف صدی کی اِس پُر شور اور ہنگامہ خیز مدّت کا حاصل کیا ہے۔ تحریک کے بانی نے اسلامی مسائل اور متنازعہ فیہ امور پر جو ایک وسیع اور مہیب کتب خانہ یادگار چھوڑا ہے اور جو تقریباً ستر برس سے موضوع بحث بنا ہوا ہے اس کا خلاصہ اور ماحصل کیا ہے؟ قادیانیت عصرِ جدید کے لئے کیا پیغام رکھتی ہے؟’’
(قادیانیت صفحہ ۲۱۷)
‘‘مہیب کتب خانہ’’ کے لفظ پر حاشیہ دے کر لکھتے ہیں:۔
‘‘مرزا صاحب کی تصانیف کی تعداد ۸۴ سے کم نہیں ہے۔ ان میں اکثر نہایت ضخیم اور کئی کئی جلدوں کی کتابیں ہیں۔’’
مولوی ابو الحسن صاحب کے نزدیک عالَم اسلامی کی حالت اور
روحانی شخصیت کی ضرورت کا احساس
واضح ہو کہ ہمارے نزدیک بھی یہ سوال نہایت اہم ہے مگر افسوس ہے کہ مولوی ابو الحسن ندوی صاحب نے اس باب میں بھی حقیقت پسندی سےکام نہیں لیا بلکہ متعصبانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہو گا۔ اس موقع پر مولوی ابو الحسن صاحب نے عالَم اسلامی پر نظر ڈالی ہے تا یہ بتائیں کہ کن حالات میں تحریکِ احمدیت کا ظہور ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘یہ دیکھنا چاہئے کہ انیسویں صدی کے نصف آخر میں اس (عالَم اسلامی۔ ناقل) کی کیا حالت تھی اور اس کے کیا حقیقی مسائل و مشکلات تھے؟ اس عہد کا سب سے بڑا واقعہ جس کو کوئی مؤرخ اور کوئی مُصلح نظر انداز نہیں کر سکتا یہ تھا کہ اسی زمانہ میں یورپ نے عالمِ اسلام پر بالعموم اور ہندوستان پر بالخصوص یورش کی تھی اوراس کے جلو میں جو نظامِ تعلیم تھا وہ خدا پرستی اور خدا شناسی کی روح سے عاری تھا۔ جو تہذیب تھی وہ الحاد اور نفس پرستی سے معمور تھی۔ عالمِ اسلام ایمان، علم اور مادی طاقت میں کمزور ہو جانے کی وجہ سے اس نوخیز و مسلّح مغربی طاقت کا آسانی سے شکار ہو گیا۔ اس وقت مذہب میں (جس کی نمائندگی کے لئے صرف اسلام ہی میدان میں تھا) اور یورپ کی ملحدانہ اور مادہ پرست تہذیب میں تصادم ہوا۔ اس تصادم نے ایسےنئے سیاسی، تمدنی، علمی اور اجتماعی مسائل پیدا کر دئے جن کو صرف طاقتور ایمان و راسخ و غیر متزلزل عقیدہ و یقین و وسیع اور عمیق علم و غیر مشکوک اعتقاد و استقامتہی سے حل کیا جا سکتا تھا۔ اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک طاقتور علمی و روحانی شخصیت کی ضرورت تھی جو عالم اسلام میں روحِ جہاد اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کر دے۔ جو اپنی ایمانی قوت اور دماغی صلاحیت سے دین میں ادنیٰ تحریف و ترمیم قبول کئے بغیر اسلام کے ابدی پیغام اور عصرِ حاضر کے بے چین روح کے درمیان مصالحت اور رفاقت پیدا کر سکے اور شوخ اور پُرجوش مغرب سے آنکھیں ملا سکے۔
دوسری طرف عالَم اسلام مختلف دینی و اخلاقی بیماریوں اور کمزوریوں کا شکار تھا۔ اس کے چہرہ کا سب سے بڑا داغ وہ شرک جَلی تھا جو اُس کے گوشہ گوشہ میں پایا جاتا ہے۔ قبریں اور تعزیے بے محابا پُج رہے تھے۔ غیر اللہ کے نام کی صاف صاف دہائی دی جاتی تھی۔ بدعات کا گھر گھر چرچا تھا۔ خرافات و توہمات کا دور دورہ تھا۔ یہ صورتِ حال ایک ایسے دینی مصلح اور داعی کا تقاضا کر رہی تھی جو اسلامی معاشرہ کے اندر جاہلیت کے اثرات کا مقابلہ اور مسلمانوں کے گھروں میں اس کا تعاقب کر ے جو پوری وضاحت اور جرأت کے ساتھ توحید و سنت کی دعوت دے اور اپنی پوری قوت کے ساتھاَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ کا نعرہ بلند کرے۔
اسی کے ساتھ بیرونی حکومت اور مادہ پرست تہذیب کے اثر سے مسلمانوں میں ایک خطرناک اجتماعی انتشار اور افسوسناک اخلاقی زوال رونما تھا۔ اخلاقی انحطاط فسق وفجور کی حد تک تعیّش و اسراف نفس پرستی کی حد تک۔ حکومت اور اہلِ حکومت سے مرعوبیّت ذہنی غلامی اور ذلّت کی حد تک۔ مغربی تہذیب کی نقّالی اور حکمران قوم (انگریز) کی تقلید کُفر کی حد تک پہنچ رہی تھی۔ اس وقت ایک ایسے مصلح کی ضرورت تھی جو اس اخلاقی و ذہنی انحطاط کی بڑھتی ہوئی رَو کو رو کے اور اس خطرناک رجحان کا مقابلہ کرے جو محکومیّت اور غلامی کے اس دور میں پیدا ہو گیا تھا۔
تعلیمی و علمی حیثیت سے حالت یہ تھی کہ عوام اور محنت کش طبقہ دین کے مبادیِٔ اوّلیات سے ناواقف اور دین کے فرائض سے بھی غافل تھا۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ شریعتِ اسلامیٔ تاریخ اسلام اور اپنے ماضی سے بے خبر اور اسلام کے مستقبل سے مایوس تھا۔ اسلامی علوم روبہ زوال اور پرانے تعلیمی مرکز عَالَمِ نَزع میں تھے۔ اس وقت ایک طاقتور تعلیمی تحریک اور دعوت کی ضرورت تھی۔ نئے مکاتب اور مدارس کے قیام، نئی اور مؤثر اسلامی تصنیفات اور نئے سلسلۂ نشر و اشاعت کی ضرورت تھی جو اُمّت کے مختلف طبقوں میں مذہبی واقفیت، دینی شعور اور ذہنی اطمینان پیدا کرے۔
اس سب کے علاوہ اور سب سے بڑھ کر عَالَم اسلام کی بڑی ضرورت یہ تھی کہ انبیاء علیہم السلام کے طریق دعوت کے مطابق اس اُمّت کو ایمان اور عمل صالح اور صحیح اسلامی زندگی اور سیرت کی دعوت دی جائے جس پر اللہ تعالیٰ نے فَتح و نُصرت، دشمنوں پر غلبہ اور دین دنیا میں فلاحی و سربلندی کا وعدہ فرمایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عَالَم اِسلام کی ضرورت دینِ جدید نہیں ایمانِ جدید ہے۔ کسی دور میں بھی اس کو نئے دین اور نئے پیغمبر کی ضرورت نہیں تھی دین کے ان ابدی حقائق و عقائد اور تعلیمات پر نئے ایمان اور نئے جوش کی ضرورت تھی۔’’
(قادیانیت صفحہ ۲۱۷ تا ۲۲۰)
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے مسلمانوں کی حالت کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ سراسر درست ہے۔ اِس کو بیان کرتے ہوئے انہیں بار بار یہ احساس ہوا ہے کہ ‘‘یہ صورتِ حال ایک ایسے دینی مُصلح اور دَاعی کا تقاضا کر رہی تھی جو اسلامی معاشرہ کے اندر جاہلیت کے اثرات کا مقابلہ اور مسلمانوں کے گھروں میں اس کا تعاقب کرے اور جو پوری وضاحت اور جرأت کے ساتھ توحید و سنّت کی دعوت دے۔’’ انہیں اِس بات کا بھی احساس ہوا ہے کہ ‘‘عالم اسلام کی سب سے بڑی ضرورت یہ تھی کہ انبیاء علیہم السلام کے طریق کے مطابق اِس اُمّت کو ایمان اور عمل صالح اور صحیح اسلامی زندگی اور سیرت کی دعوت دی جائے جس پر اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت، دشمنوں پر غلبہ اور دین و دنیا میں فلاح و سعادت اور سر بلندی کا وعدہ فرمایا ہے۔’’
کتاب قادیانیت کے پچھلے کسی باب کے اقتباسات سے آپ معلوم کر چکے ہیں کہ مولوی ابو الحسن صاحب نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی بعثت سے بدیں وجہ انکار کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے روحانی افلاس کی پیداوار ہیں۔ شکر ہے کہ اس کے برخلاف اپنی کتاب کے آخر میں اُمّتِمحمدیہ کے روحانی افلاس کو بیان کرتے ہوئے انہیں اس امر کی ضرورت محسوس ہوگئی ہے کہ یہ صورتِ حال کسی مُصلح اور داعی کی ضرور متقاضی تھی جو انبیاء علیہم السلام کے طریق کے مطابق دعوتِ اسلام کر کے ان کی اصلاح کرتا ۔
مولوی ابو الحسن صاحب کی شکر گزاری
مگر افسوس ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی سُنّت کے مطابق جس شخص کو اس وقت مسلمانوں کی اصلاح اور فلاح و کامیابی کے لئے کھڑا کر دیا اُسے وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور لکھتے ہیں:۔
‘‘ ایک ایسے نازک وقت میں عالَم اسلام کے نازک ترین مقام ہندوستان میں جو ذہنی و سیاسی کشمکش کا خاص میدان بنا ہوا تھا (گویا سب سے بڑا تقاضا یہ تھا کہ اس نازک ترین مقام ہندوستان میں کوئی روحانی شخصیت مامور کی جاتی ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس سرزمین میں جو ذہنی و سیاسی کشمکش کا خاص میدان بنا ہوا تھا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانیؑ کو اصلاح کے لئے مامور فرمایا مگر وہ مولوی ابو الحسن صاحب کی نظر میں نہیں جچتے چنانچہ وہ لکھتے ہیں) مرزا غلام احمد صاحب اپنی دعوت اور تحریک کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ وہ عالَم اسلام کے حقیقی مسائل اور مشکلات اور وقت کے اصلاحی تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں علم و قلم کی طاقت ایک ہی موضوع اور مسئلہ پر مرکوز کر دیتے ہیں۔ وہ مسئلہ کیا ہے؟ وفاتِ مسیح اور مسیحِ موعود کا دعویٰ۔ اس مسئلہ سے جو کچھ وقت بچتا ہے وہ حُرمت ِجہاد اور حکومتِ وقت کی وفاداری اور اخلاص کی نذر ہو جاتا ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۲۲۱)
آگے صفحہ ۲۲۲،۲۲۳ پر لکھتے ہیں:۔
‘‘ انہوں نے عالَم اسلام میں بلا ضرورت ایک ایسا انتشار اور ایک ایسی نئی تقسیم پیدا کر دی جس سے مسلمانوں کی مشکلات میں ایک نیا اضافہ اور عصرحاضر کے مسائل میں نئی پیچیدگی پیدا کر دی۔
مرزا غلام احمد صاحب نے درحقیقت اسلام کے علمی اور دینی ذخیرہ میں کوئی ایسا اضافہ نہیں کیا جس کے لئے اصلاح و تجدید کی تاریخ ان کی معترف اور مسلمانوں کی نسل جدید اُن کی شکرگزار ہو۔ انہوں نے نہ تو کوئی عمومی دینی خدمت انجام دی جس کا نفع دنیا کے سارے مسلمانوں کو پہنچے۔ نہ وقت کے جدید مسائل میں سے کسی مسئلہ کو حل کیا نہ ان کی تحریک موجودہ انسانی تہذیب کے لئے جو سخت مشکلات اور موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہے کوئی پیغام رکھتی ہے۔ نہ اس نے یورپ اور ہندوستان کے اندر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کی جدوجہد کا تمام تر میدان مسلمانوں کے اندر ہے اور اس کا نتیجہ صرف ذہنی انتشار اور غیر ضروری مذہبی کشمکش ہے۔ جو اس نے اسلامی معاشرہ میں پیدا کر دی۔’’
(قادیانیت صفحہ۲۲۳)
مولوی ابو الحسن صاحب کی یہ سب عبارتیں اُس نعمت کی شکر گزاری پر مبنی ہیں جو خدا تعالیٰ نے تحریک احمدیت کے وجود میں اِس زمانہ کو عطا کی ہے۔ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کے نزدیک دعویٰ مسیح موعود اور وفاتِ مسیح پرمضامین لکھنے اور حُرمتِ جہاد کے سوا حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے کوئی کام ہی نہیں کیا۔ یہ افسوسناک ناقدر شناسی ہے جو حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کر لینے کا نتیجہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبلیغی کارنامے
(۱)آپ نے سب سے پہلے جو کتاب چار حصوں میں تصنیف فرمائی وہ براہین احمدیہ ہے۔ اس پر ریویو کرتے ہوئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں:۔
‘‘ہماری رائے میں یہ کتاب (براہین احمدیہ ۔ ناقل) اِس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں۔ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْرًا۔ اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے۔’’
(رسالہ اشاعۃ السنہ جلد۷ صفحہ۶)
مشہور صحافی جناب مولانا محمد شریف صاحب بنگلوری ایڈیٹر ‘‘منشور محمدی’’ بنگلور مسلمانوں کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں:۔
‘‘ کتاب براہین احمدیہ ثبوتِ قرآن و نبوّت میں ایک ایسی بے نظیر کتاب ہے جس کا ثانی نہیں۔ مصنّف نے اسلام کو ایسی کوششوں اور دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ ہر منصف مزاج یہی سمجھے گا کہ قرآن کتاب اللہ اور نبوّت پیغمبرِ آخر الزمان حق ہے۔ دین اسلام منجانب اللہ اور اس کی کا پیرو حق آگاہ ہے۔ عقلی دلیلوں کا انبار ہے۔ خَصم کو نہ جائے گریز اور نہ طاقتِ انکار ہے۔ جو دلیل ہے بیّن ہے جو بُرہان ہے روشن ہے۔ آئینۂ ایمان ہے۔ لُبّ لُبابِ قرآن ہے۔ ہادیٔ طریقِ مستقیم، مشعلِ راہِ قویم، مخزنِ صداقت، معدنِ ہدایت، برقِ خِرْمَنِ اَعداء، عدو سوز ہر دلیل ہے۔ مسلمانوں کے لئے تقویتِ کتاب الجلیل ہے۔ اُمّ الکتاب کا ثبوت ہے۔ بے دین حیران ہے، مبہوت ہے۔’’
(منشور محمدی ۲۵ رجب المراجب ۱۳۰۰ھ)
(۲)۱۸۹۶ء میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے جلسہ مذاہبِ اَعظم لاہور کے لئے ایک لیکچر تحریر فرمایا جو ‘‘اسلامی اصول کی فلاسفی’’ کے نام سے اردو کے علاوہ انگریزی، عربی، فارسی، فرانسیسی، ہسپانوی، چینی، بَرمی، سَنہالی اور گجراتی وغیرہ زبانوں میں شائع ہو چکا ہے۔ یہ لیکچر مندرجہ ذیل پانچ سوالوں کے جواب پر مشتمل ہے۔
۱۔ انسان کی جسمانی ، اخلاقی اور روحانی حالتیں۔
۲۔ انسان کی زندگی کی بعد کی حالت یعنی عقبیٰ۔
۳۔ دنیا میں انسان کی ہستی کی اصل غرض کیا ہے؟ وہ غرض کس طرح پوری ہو سکتی ہے؟
۴۔کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا اور عاقبت میں کیا ہوتا ہے؟
۵۔ علم یعنی گیان و معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں؟
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ نے اسلام کی روشنی میں ان پانچ سوالات کا جامع جواب دیتےہوئے اس امر کو سختی سے ملحوظ رکھا کہ ہر دعویٰ اور اس کی دلیل اسلام کی الہامی کتاب قرآنِ مجید سے دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت بذریعہ الہام آپؑ کو مطلع فرمایا کہ:۔
‘‘یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا’’
آپؑ نے اِس الہام کی اشاعت ایک اشتہار کے ذریعہ مورخہ ۲۱ دسمبر۱۸۹۶ء کو فرما دی جس میں یہ بھی لکھا کہ:۔
‘‘جو شخص اِس مضمون کو اوّل سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب میں سُنے گا تو مَیں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہو گا اور ایک نیا نور اس میں چمک اٹھے گا اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ آجائے گی۔ یہ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف و گزاف کے داغ سے منزّہ ہے۔ مجھے اس وقت محض بنی آدم کی ہمدردی نے اس اشتہار کے لکھنے کے لئےمجبور کیا ہے کہ تا وہ قرآنِ شریف کے حسن و جمال کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کے ہمارے مخالفوں کا کس قدر ظلم ہے کہ وہ تاریکی سےمحبت کرتے اور نور سے نفرت رکھتے ہیں۔ مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ‘‘ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا۔’’
(تبلیغِ رسالت حصہ پنجم صفحہ ۷۸ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ۶۱۴)
یہ جلسۂِ مذاہب عالم لاہور میں ۲۶، ۲۷، ۲۸ دسمبر۱۸۹۶ء کو اسلامیہ کالج لاہور کے ہال میں منعقد ہوا۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ کے مضمون کو مکمل کرنے کے لئے جلسے کا ایک دن اور بڑھانا پڑا۔ چنانچہ منتظمین جلسہ مذاہب نے اپنی جلسۂ مذاہب کی رپورٹ میں لکھا:۔
‘‘پنڈت گوردھن داس صاحب کی تقریر کے بعد نصف گھنٹہ کا وقفہ تھا لیکن چونکہ بعد از وقفہ ایک نامی وکیل اسلام کی طرف سے تقریر کا پیش ہونا تھا اس لئے اکثر شائقین نے اپنی اپنی جگہ کو نہ چھوڑا۔ ڈیڑھ بجنے میں ابھی بہت سا وقت رہتا تھا کہ اسلامیہ کالج کا وسیع مکان جلد جلد بھرنے لگا اور چند ہی منٹوں میں تمام مکان پُر ہو گیا۔ اُس وقت کوئی سات اور آٹھ ہزار کے درمیان مجمع تھا۔ مختلف مذہب و ملل اور مختلف سوسائیٹیوں کے مُعتد بِہ اور ذِی علم آدمی موجود تھے اگرچہ کرسیاں اور میزیں اور فرش نہایت وسعت کے ساتھ مہیّا کیا گیا لیکن صد ہا آدمیوں کو کھڑا ہونے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑا۔ اور اُن کھڑے ہوئے شائقینوں میں بڑے بڑے رؤسا، عمائدِ پنجاب، علماء، فضلاء، بیرسٹر، وکیل، پروفیسر، ایکسٹرا اسسٹنٹ، ڈاکٹر غرضیکہ اعلیٰ طبقہ کے مختلف برانچوں کے ہر قسم کے آدمی موجود تھے۔ ان لوگوں کے اس طرح جمع ہو جانے اور نہایت صبر و تحمل کے ساتھ جوش سے برابر پانچ چار گھنٹہ اُس وقت ایک ٹانگ پرکھڑا رہنے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ان ذِی جاہ لوگوں کو کہاں تک اِس مقدّس تحریک سے ہمدردی تھی مصنف تقریر اِصَالتًا تو شریکِ جلسہ نہ تھے لیکن خود انہوں نے اسے ایک شاگردِ خاص جناب مولوی عبد الکریم صاحبسیالکوٹی مضمون پڑھنے کے لئے بھیجے ہوئے تھے۔ اس مضمون کے لئے اگرچہ کمیٹی کی طرف سے صرف دو گھنٹے ہی مقرر تھے لیکن حاضرینِ جلسہ کوعام طور پر اس سے کچھ ایسی دلچسپی پیدا ہو گئی کہ موڈریٹر صاحبان نے نہایت جوش اور خوشی کے ساتھ اجازت دی کہ جب تک یہ مضمون ختم نہ ہو تب تک کارروائی جلسہ کو ختم نہ کیا جاوے…… یہ مضمون قریباً چار گھنٹہ میں ختم ہؤا۔ اورشروع سے اخیر تک یکساں دلچسپی و مقبولیت اپنے ساتھ رکھتا تھا۔’’
[رپورٹ جلسہ مذاہب عالم (دھرم مہوتسو) بمقام اسلامیہ کالج لاہور صفحہ۷۹، ۸۰ مطبوعہ مطبع صدیقی لاہور]
جناب ایڈیٹر صاحب اخبار ‘‘ چودھویں صدی’’ اس جلسہ کے بارہ میں رقمطراز ہیں:۔
‘‘ان لیکچروں میں سب سے عمدہ لیکچر جو جلسہ کی روحِ رواں تھا مرزا غلام احمد قادیانی کا لیکچر تھا۔ جس کو مشہور فصیح البیان مولوی عبد الکریم سیالکوٹی نے نہایت خوبی اور خوش اسلوبی سے پڑھا۔ یہ لیکچر دو دن میں تمام ہؤا۔ ۲۷دسمبر کو تقریبًا چار گھنٹے اور ۲۹دسمبر کو دو گھنٹے تک ہوتا رہا۔ کُل چھ گھنٹے میں یہ لیکچر تمام ہؤا جو حجم میں سو صفحے کلاں تک ہو گا۔ غرضیکہ مولوی عبد الکریم صاحب نے یہ لیکچر شروع کیا اور کیسا شروع کیا کہ سامعین لَٹّو ہو گئے۔ فقرہ فقرہ پر صدائے آفرین و تحسین بلند ہوتی تھی اور بسا اوقات ایک ایک فقرہ کو دوبارہ پڑھنے کے لئے حاضرین کی طرف سے فرمائش کی جاتی تھی۔ عمر بھر ہمارے کانوں نے ایسا خوش آنند لیکچر نہیں سنا۔ دیگر مذاہب میں سے جتنے لوگوں نے لیکچر دیئے سچ تو یہ ہے کہ وہ جلسہ کے مستفسرہ سوالوں کے جواب بھی نہ تھے۔ عمومًا سپیکر صرف چوتھے سوال پر ہی رہے اور باقی سوالوں کو انہوں نے بہت ہی کم پیش کیا اور زیادہ تر اصحاب تو ایسے ہی تھے جو بولتے تو بہت تھے لیکن اس میں جاندار بات کوئی بھی نہیں تھی۔ بجز مرزا صاحب کے لیکچر کے جو ان سوالات کا علیحدہ علیحدہ، مفصّل اور مکمل جواب تھا اور جس کو حاضرین نے نہایت ہی توجہ اور دلچسپی سے سنا اور بڑا بیش قیمت اور عالی قدر خیال کیا۔
ہم مرزا صاحب کے مرید نہیں ہیں اور نہ اُن سے ہم کو کوئی تعلق ہے لیکن انصاف کا خون ہم کبھی نہیں کر سکتے اور نہ کوئی سلیم الفطرت اور صحیح کانشنس اس کو روا رکھ سکتا ہے۔ مرزا صاحب نے کل سوالوں کے جواب (جیسا کہ مناسب تھا) قرآن شریف سے دیئے اور عام بڑے بڑے اصول و فروعاتِ اسلام کو دلائلِ عقلیہ سے اور براہین فلسفہ کے ساتھ مُبرہن و مزیّن کیا۔ پہلے عقلی دلائل سے الٰہیات کے فلسفہ کو ثابت کرنا اُس کے بعد کلامِ الٰہی کو بطور حوالہ پڑھنا ایک عجیب شان رکھتاتھا۔
مرزا صاحب نے نہ صرف مسائل قرآن کی فلاسفی بیان کی بلکہ الفاظِ قرآن کی فلالوجی اور فلاسفی بھی ساتھ ساتھ بیان کر دی۔ غرضیکہ مرزا صاحب کا لیکچر بحیثیت مجموعی ایک مکمل اور حاوی لیکچر تھا جس میں بے شمار معارف و حقائق وحِکَم واَسرار کے موتی چمک رہے تھے اور فلسفۂ الٰہیہ کو ایسے ڈھنگ سے بیان کیا گیا تھا کہ تمام اہل مذاہب ششدر ہو گئے تھے۔ کسی شخص کے لیکچر کے وقت اتنے آدمی جمع نہیں تھے جتنے مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت۔ تمام ہال اوپر نیچے سے بھر رہا تھا اور سامعین ہمہ تن گوش ہو رہے تھے۔ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت خَلقت اس طرح آ آ کر گری جس طرح شہدپر مکھیاں۔ مگر دوسرے لیکچروں کے وقت بوجہ بے لطفی بہت سے لوگ بیٹھے بیٹھے اٹھ جاتے تھے۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا لیکچر بالکل معمولی تھا وہی ملّانی خیال تھے جن کو ہم ہر روز سنتے ہیں۔ اُس میں کوئی عجیب و غریب بات نہ تھی اور مولوی صاحب موصوف کے دوسرے لیکچر کے وقت کئی شخص اٹھ کر چلے گئے تھے۔ مولوی صاحب ممدوح کو اپنا لیکچر پورا کرنے کے لئے چند منٹ زائد کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ ’’
(اخبار چودھویں صدی راولپنڈی مؤرخہ یکم فروری ۱۸۹۷ء)
اِسی طرح جناب ایڈیٹر صاحب اخبار ‘‘سول اینڈ ملٹری گزٹ’’ نے اس مضمون کےمتعلق اپنا تأثر ان الفاظ میں بیان کیا ہے:۔
‘‘سب مضمونوں سے زیادہ توجہ اور دلچسپی سے مرزا غلام احمد قادیانی کا مضمون سنا گیا جو اسلام کے بڑے بھاری مؤیّد اور عالم ہیں۔ اس لیکچر کے سننے کے لئے دور و نزدیک سے ہر مذہب و ملّت کے لوگ بڑی کثرت سے جمع تھے۔ چونکہ مرزا صاحب خود شامل جلسہ نہیں ہو سکے اس لئے مضمون اُن کے ایک قابل اور فصیح شاگرد مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھا۔ ۲۷ تاریخ والا مضمون قریبًا ساڑھے تین گھنٹے تک پڑھا گیا اور گویا ابھی پہلا سوال ہی ختم ہوا تھا۔ لوگوں نے اس مضمون کو ایک وجد اور محویّت کے عَالَم میں سنا اور پھر کمیٹی نے اس کے لئے جلسہ کی تاریخوں میں ۲۹ دسمبر کی زیادتی کر دی۔’’
(سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور۔ دسمبر ۱۸۹۶ء)
افسوس ہے کہ مولوی ابو الحسن ندوی صاحب کو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ کی کتابوں میں وفاتِ مسیح اور دعویٰ مسیح موعود پر ہی زورِ قلم صرف کرنا نظر آیا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان کا ایسا لکھنا حقائق سے آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتابوں میں اسلامی علوم کا ایک بحر زَخَّار ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔
(۳)کتاب ‘‘جنگ مقدس’’ ۔ یہ کتاب ایک تحریری مباحثہ پر مشتمل ہے۔ جس میں عیسائی پادری عبد اللہ آتھم اور ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک سے آپ کا عقائد مسیحیّت پر تحریری مناظرہ ہوا جو امرتسر میں پندرہ دن تک جاری رہا۔ اِس مناظرہ میں آپ نے نہایت بیش قیمت علمی حقائق اسلام کی تائید میں بیان فرمائے ہیں اور عیسائیوں کو دندان شکن جواب دے کر ساکت کیا ہے۔
پھر آپ نے عیسائیوں کے بالمقابل تائیدِ قرآن شریف میں کتاب ‘‘نور الحق’’ عربی زبان میں تألیف فرمائی اور عیسائیوں کو للکارا کہ وہ اس کے جواب دینے والے کو پانچ ہزار روپیہ انعام دیں گے۔
(۴)سِرّالخلافۃ۔ اِس کتاب میں آپ نے مسئلہ خلافت پر سَیر حاصل بحث فرمائی ہے اور خلفاء اربعہ کا بَرحق ہونا ثابت فرمایا ہے۔ یہ رسالہ بھی عربی میں تصنیف فرمایا اور اس کے جواب کے لئے شیعوں کو فصیح و بلیغ عربی میں رسالہ لکھ کر پیش کرنے کی دعوت دی۔ آپ کی یہ کتاب شیعہ اور سُنّی کے درمیان ایک حَکَم کی حیثیت رکھتی ہے۔
(۵)مننُ الرحمٰن۔ یہ کتاب آپ کا عظیم الشان کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یادگار رہے گا۔ اس میں آپ نے ثابت کیا ہے کہ عربی زبان اُمّ الْالسنہ ہےاور اسی لئے خدائے قادر مطلق کی وحی آنحضرتؐ پر اِسی زبان میں نازل ہوئی جس سے تمام زبانیں نکلیں چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘یہ ایک نہایت عجیب و غریب کتاب ہے جس کی طرف قرآن شریف کی بعض پُر حکمت آیات نے ہمیں توجہ دلائی…… واضح ہو کہ اس کتاب میں تحقیق الالسنہ کی رُو سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دنیا میں صرف قرآن شریف ایک ایسی کتاب ہے جو اُس زبان میں نازل ہوا ہے جو اُمّ الْاَلسنہ اور الہامی اور تمام بولیوں کا منبع اور سرچشمہ ہے۔’’
(ضیاء الحق صفحہ ۲، روحانی خزائن جلد۹ صفحہ ۲۵۰)
آپ نے اس کتاب میں ثابت کیا ہے:۔
‘‘اوّل۔ عربی کے مفردات کا نظام کامل ہے
دوم۔ عربی اعلیٰ درجہ کی وجوہِ تسمیہ پر مشتمل ہے۔ جو فوق العادت ہیں۔
سوم۔ عربی کا سلسلہ اطراد اور مواد اکمل و اتم ہے۔
چہارم۔ عربی ترکیب میں الفاظ کم اور معانی زیادہ ہیں۔
پنجم۔ عربی زبان انسانی ضمائر کا پورا نقشہ کھینچنے کے لئے پوری طاقت اپنے اندر رکھتی ہے۔’’
پھر لکھا ہے:۔
‘‘اب ہریک کو اختیار ہے کہ ہماری کتاب چھپنے کے بعد اگر ممکن ہو تو یہ کمالات سنسکرت یا کسی اور زبان میں ثابت کرے…… ہم نے اس کتاب کے ساتھ پانچ ہزار روپیہ کا انعامی اشتہار شائع کر دیا ہے …… کہ فتح یابی کی حالت میں بغیر جرح کے وہ روپیہ اُن کو وصول ہو جائے گا۔’’
(ضیاء الحق، روحانی خزائن جلد۹ صفحہ ۳۲۱،۳۲۲)
(۶)معیار المذاہب۔ اِس رسالہ میں آپ نے تمام مذاہب کا فطرتی معیار کے لحاظ سے مقابلہ کیا ہے۔ خصوصًا آریہ اور عیسائی مذہب نیز اسلام کی خدا تعالیٰ کے متعلق تعلیم بیان فرماتے ہوئے اسلامی عقیدہ کو فطرت کے مطابق ثابت فرمایا۔
(۷)آریہ دھرم۔ اِس کتاب کے لکھنے کی دو وجوہات تھیں:۔
اوّل یہ کہ قادیان کے آریہ سماجیوں نے عیسائیوں کے نقشِ قدم پر چل کر آنحضرتؐ کی ذات بابرکات پر گندے الزام لگائے اور اس کی تشہیر کی۔
دوم یہ کہ پنڈت دیانند صاحب کو جو کہ آریہ سماج کے لیڈر تھے اپنی تالیفات میں آریہ سماج پر زور دے رہے تھے کہ وہ نیوگ کو اپنی بیویوں اور بہو بیٹیوں میں وید کے مسئلہ کے مطابق رائج کریں۔ اس کتاب میں آپ نے کمال تحقیق کے بعد آریوں کو ان کی غلطیوں پر متنبہ کیا اور واضح فرمایا کہ نیوگ توزنا ہے۔ اس سلسلہ میں اسلام کے مسئلۂ طلاق و تعدّدِازدواج پر روشنی ڈالی جن پر آریہ معترض تھے اور اسلامی تعلیم کی برتری ثابت فرمائی۔
(۸)ست بچن۔ آریہ سماج کے سرگروہ پنڈت دیانند نے بابا نانکؒ صاحب پر بے جا الزامات لگائے تھے۔ اُن کے ردّ میں آپ نے یہ کتاب تصنیف فرمائی اور اس میں ثابت کیا کہ بابا صاحب سچے اور مخلص مسلمان تھے۔ انہوں نے ویدوں سے اپنی براءت کا اظہار کیا ہے اور تعلیماتِ اسلامی پر کاربند رہے ہیں۔
(۹)سراج منیر، برنشانہائے ربِّ قدیر۔ اس کتاب میں آپ ؑنے بہت پہلے کی گئی سینتیس پیشگوئیوں کے ظہور پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس رسالہ کو شائع کرنے کی غرض یہ بیان کی ہے کہ۔
‘‘تا منکرینِ حقیقتِ اسلام و مکذّبینِ رسالت حضرت خیر الانام علیہ و آلہ الف الف سلام کی آنکھوں کے آگے ایسا چمکتا ہوا چراغ رکھا جائے جس کی ہر ایک سمت سے گوہرِ آبدار کی طرح روشنی نکل رہی ہے اور بڑی بڑی پیشگوئیوں پر جو ہنوز وقوع میں نہیں آئیں مشتمل ہے۔’’
(۱۰)برکات الدعاء۔ سر سیّد احمد خان صاحب نے غیر مسلموں کے اسلام پر اعتراضات اور حملوں سے گھبرا کر اسلام کے بعض متفقہ عقائد اور بیّن تعلیمات کی تاویلیں شروع کر دیں۔ مثلاً انہوں نے لفظی یا خارجی وحی اور وجودِ ملائکہ اور قبولیتِ دعا کا انکار کر دیا۔ اس کتاب میں مسئلۂ دعا پر روشنی ڈالی گئی ہے اور سر سید احمدخان کے دلائل کا معقول طور پر ردّ کیا گیا ہے۔ آپ نے برکات الدعاء کے صفحہ۱۲ پر لکھا ہے:۔
‘‘ مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی بعض دعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت سیّد صاحب کو اطلاع دوں گا اور نہ صرف اطلاع بلکہ چھپوا دوں گا مگر سیّد صاحب ساتھ ہی یہ بھی اقرارکریں کہ وہ بعد ثابت ہو جانے میرے دعویٰ کے اپنے اس غلط خیال سے رجوع کریں گے۔’’
(برکات الدعاء، روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۱۲)
اس کتاب کے آخر میں آپ نے پنڈت لیکھرام کے متعلق اپنی قبول شدہ دعا کا ذکر فرمایا اور سر سید صاحب کو لکھا:۔
‘‘از دعا کن چارۂ آزارِ انکارِ دعا
چوں علاج مے زِمے وقتِ خمار و التہاب
اے کہ گوئی گر دعا ہا را اثر بودے کجاست
سوئے من بشتاب بنمائم تُرا چوں آفتاب
ہاں مکن انکارزیں اسرسر قدر تہائے حق
قصہ کوتاہ کن بہ بیں از ما دعائے مستجاب
یہ دعائے مستجاب جس کا اس آخری مصرع میں ذکر ہے پنڈت لیکھرام کے متعلق تھی۔ چنانچہ سر سید مرحوم کی زندگی میں پیشگوئی کے مطابق ۶ مارچ ۱۸۹۷ کو لیکھرام مشیّتِ ایزدی سے آنحضرتؐ کے خلاف گندہ دہنی کرنے کی پاداش میں پُراسرار طور پر قتل ہو گیا اوراس کا قاتل حکومت اور آریوں کی انتہائی کوشش کے باوجود نہ مل سکا۔
آپؑ نے سر سید احمد خان کی خواہش پر اس کتاب میں قرآن کریم کی تفسیر کے سات معیار بھی تحریر فرمائے ہیں۔
(۱۱)حجۃ الاسلام۔ یہ کتاب آپ نے عیسائیت کے ردّ میں تحریر فرمائی اور عیسائی زعماء اور بعض دوسرے پادریوں کو اس عظیم الشان دعوت کے لئے بلایا ہے کہ اب زندہ مذہب صرف اسلام ہی ہے اور آسمانی نور اور روشنی رکھنے والا دین یہی ہے اور عیسائی مذہب اِس کے مقابلہ میں تاریکی میں پڑا ہوا ہے اور اس میں اب زندہ مذہب کی علامات مفقود ہیں۔ اس کے بعد ‘‘جنگِ مقدس’’ کا مباحثہ وقوع میں آیا جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔
(۱۲)آئینہ کمالات اسلام۔ یہ کتاب بھی قرآنی معارف کا ایک بیش بہا خزانہ ہے۔ اس میں آپ نے دینِ اسلام کے منجانب اللہ ہونے، اس کی حقّانیت، افضلیت اور اکملیت کو ثابت فرمایا ہے اور اسلام کے محاسن ایسے رنگ میں پیش فرمائے ہیں جس سے ان تمام اوہام اور وساوس کا ازالہ ہو جاتا ہے جو موجودہ زمانہ کے دہریہ، عیسائی اور آریہ معترضین نے اسلام سے بدظن کرنے کے لئے تراش رکھے تھے۔
(۱۳)چشمۂ معرفت۔ یہ کتاب اسلام کی حقّانیت پرایک قیمتی مضمون پر مشتمل ہے اور اس میں آریوں کے اسلام پر اعتراضات کی معقول طور پر تردید کی گئی ہے اور آریوں کے اصولوں کو باطل ثابت کیا گیا ہے۔
اِسی طرح اور بہت سی کتابیں آپ نے اسلام کی تائید اور عیسائیت کی تردید میں لکھیں۔ جیسے ‘‘چشمۂِ مسیحی’’ اور ‘‘سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب’’ آپ نے ۸۰ کے قریب کتب اور سینکڑوں اشتہار تحریرفرمائے ہیں۔ جن میں اسلامی حقائق کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ اس جگہ صرف چند کتب سے قارئین کرام کو روشناس کرایا گیا ہے۔
چونکہ آپ کی بعثت بموجب احادیثِ نبویّہ کسرِ صلیب اور اسلام کو اَدیانِ باطلہ پر غالب کرنے کے لئے تھی اس لئے تبلیغی مسائل کی طرف آپ کا توجہ کرنا ضروری تھا۔
وفاتِ مسیح کے اثبات میں آپؑ کو اس لئے لکھنا پڑا کہ غلط فہمی سے مسلمانوں کی آنکھیں آسمان کی طرف حضرت عیسیٰؑ کی آمدِ ثانی کے لئے لگی ہوئی تھیں۔ خدا نے اپنے الہام کے ذریعہ آپ پر ظاہر کیا کہ ’’مسیح ابنِ مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے‘‘۔* اس لئے آپ کے لئے ضروری تھا کہ مسلمانوں کی اس غلط فہمی کا ازالہ کریں کیونکہ یہ غلط فہمی ان کے آپؑ کو مسیح موعود قبول کرنے میں روک تھی۔ احادیثِ نبویّہ میں اس موعود کو نبی اللہ بھی کہا گیا ہے اور اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ کہہ کر اُمّتیوں میں سے اُمّت کا امام بھی قرار دیا گیا۔ اس لئے یہ امر بھی آپ کے لئے ضروری تھا کہ آپ اس بات پر روشنی ڈالتے کہ آیت خاتم النبیّین ایسے نبی کے آنے میں مانع نہیں جو ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اُمّتی ہو۔ سو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ نبی دیا ہے جس کی اُمّت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور عیسیٰ کہلا سکتا ہے حالانکہ وہ اُمّتی ہے۔ آپ نے ثابت کیا کہ اُمّتی نبی کا آنا حضرت خاتم النبیّین ؐ کے افاضۂروحانی کی بدولت ہے اور آنحضرتؐ کے بعد جو نبوّت منقطع ہوئی ہے وہ مستقلہ اور تشریعی نبوّت ہے۔ مولوی ابو الحسن صاحب کو ضرورت کا احساس توہو چکا ہے کہ اس زمانہ میں ایک طاقتور علمی اور روحانی شخصیّت کی ضرورت تھی اور یہ بھی اُن کو اعتراف ہے کہ عَالَم اسلام کی سب کی بڑی ضرورت یہ تھی کہ:۔
‘‘انبیاء علیہم السلام کے طریق دعوت کے مطابق اِس اُمّت کو ایمان اور عمل صالح اور صحیح اسلامی زندگی اور سیرت کی دعوت دی جائے جس پر اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت، دشمنوں پر غلبہ اور دین و دنیا میں فلاح و سعادت اور سربلندی کا وعدہ فرمایا ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۲۲۰)
مسیح موعودؑ کے ذریعہ مسلمانوں کی اصلاح
واضح ہو کہ یہ کام تو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ نے کر دکھایا ہے۔ چنانچہ آپؑ نے مسلمانوں میں ایسی جماعت پیدا کی ہے جو ایمان اور عمل صالح کی نعمت سے متمتّع ہے اور انبیاء علیہم السلام کے طریق دعوت کے مطابق ساری دنیا میں اس کے ذریعہ بڑے جوش اور ولولہ کے ساتھ دعوتِ اسلام کا فرض ادا کیا جا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو خالص توحید پر قائم کیا ہے۔ وہ شرکِ جَلی مثلاً قبروں کو سجدہ کرنے، تعزیوں کی پوجا کرنے اور غیر اللہ کے نام کی دہائی دینے اور بدعات کا ارتکاب کرنے اور خرافات اور توہمات سے پاک ہے۔ وہ خدا کے فضل سے ایسی روحانی بیماریوں میں مبتلا نہیں۔ مولوی ابو الحسن صاحب نے عالَم اسلام کی روحانی بیماریوں کا ذکرکر کے بھی ایک ایسے دینی مُصلح اور دَاعی کی ضرورت کا احساس کیا ہے جو‘‘اسلامی معاشرہ کے اندر جاہلیت کے اثرات کا مقابلہ اور مسلمانوں کے گھروں میں اُس کا تعاقب کرے۔ جو پوری وضاحت اور جرأت کے ساتھ توحید و سُنّت کی دعوت دے اور اپنی پوری قوت کے ساتھ اَلَا لِلّٰہ الدِّیْنُ الْخَالِصُکا نعرہ بلند کرے۔’’(قادیانیت صفحہ ۲۱۹)
سو یہ کام حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے بطریقِ اَحسن سر انجام دیا ہے۔ اب یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ مولوی ابو الحسن جیسے عالم اِس داعی کی دعوت کو ردّ کر کے اس کوشش میں ہیں کہ مسلمانوں کو آپ سے بدظن کریں۔ تا وہ اتحاد جس کے پیدا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کو بھیجا وجود میں نہ آئے۔ مولوی ابو الحسن صاحب تو صرف ایسی شخصیت چاہتے ہیں جو اِن صفاتِ خاصہ کے ساتھ تلوار کا جہاد کر کے مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرے۔ مگر رسول کریمؐ مسیح موعود کے حق میں فرماتے ہیں:۔
یَضَعُ الحَرْبَکہ وہ جنگ کو روک دے گا
مولوی ابو الحسن صاحب نے چونکہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کو اپنے خیالِ باطل کے مطابق جنگ کی تلقین کرنے والا نہیں پایا اس لئے اُنہیں آپ کی مسیحیّت سے انکار ہے۔ وہ سوچیں کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ تو مثیل مسیح ہونے کا ہی ہے اور پہلے مسیح ؑنے بھی تو جنگ نہیں کی تھی اور علمائے یہود کو اُن پر یہی اعتراض تھا کہ انہوں نے اسرائیل کی بادشاہت قائم نہیں کی اور ہمیں داؤد کا تخت نہیں دلایا۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پروگرام لمبا تھا۔ اُن کا اصل مقصد قوم میں اعمال کی حقیقی روح پیدا کرنا تھا لیکن بد قسمتی سے علمائے یہود نے ان کی شدید مخالفت کی۔ حتّی کہ انہیں صلیب دینے کی کوشش بھی کی۔ یہ تو محض خدا کا فضل تھا کہ وہ انہیں صلیب پر مارنے پر قادر نہ ہو سکے۔
پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے پر قوم میں جو تفرقہ پیدا ہوا علماء کی مخالفت کی وجہ سے ہوا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کی غرض تو یہی تھی کہ ان کی قوم کے سب لوگ ان کے ہاتھ پر جمع ہوں۔ پس مولوی ابو الحسن صاحب کا کسی ایسے مسیح اور مہدی کا انتظار کرنا جو آتے ہی سب مسلمانوں کو متّحد کر دے اور پھر تلوار چلا کر تمام دنیا کو مسلمان بنا دے ایک طمع خَام ہے۔اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ اسلام اب حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی تحریک سے پُر امن طریقوں کے ذریعہ پر دنیا پر غالب آئے گا نہ جنگ کے ذریعہ سے۔
مولوی ابو الحسن صاحب آپؑ کی تحریک کے متعلق لکھتے ہیں:۔
‘‘نہ اُن کی تحریک موجودہ انسانی تہذیب کے لئے جو سخت مشکلات اور موت و حیات کی کشمکش سے دو چار ہے کوئی پیغام رکھتی ہے اور نہ اُس نے یورپ اور ہندوستان کے اندر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کی جدو جہد کا تمام تر میدان مسلمانوں کے اندر ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۲۲۲)
تحریکِ احمدیّت کا مقصد
حضرت بانیٔ تحریکِ احمدیت کا بجز اس کے اور کوئی مقصد نہیں کہ اسلام کو ساری دنیا میں پھیلایا جائے اور اس دین اور اس کی تہذیب و تمدن کو دنیا میں غالب کیا جائے۔ مولوی ابو الحسن صاحب سچائی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتےہیں مگر جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت کا بے نظیر نظام قائم ہو چکا ہے اور اگر وہ آنکھیں کھولیں تو انہیں یہ نظام نظر آسکتا ہے۔
نشر و اشاعت کا کام
جماعت احمدیہ کے ذریعہ ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جماعت ہذا مختلف ممالک میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ بابرکات پر عیسائیوں اور دہریوں کی طرف سے جو رکیک حملے اور اعتراضات کئے جاتے ہیں اُن کا جواب لوگوں تک پہنچانے کے لئے وسیع پیمانہ پر اسلامی لٹریچر شائع کرتی رہتی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کے ہر محاذ پر احمدی مبلّغینِ اسلام کامیابی حاصل کر رہے ہیں اور ان کے ذریعہ لاکھوں افراد اسلام قبول کر چکے ہیں۔
تبلیغی مراکز
اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے پاکستان سے باہر قریبًا سات سو تبلیغی مراکز مختلف ممالک میں قائم ہو چکے ہیں۔ ان ممالک میں پاکستانی مبلغین کے علاوہ مقامی مبلغ بھی تیار ہوکر تبلیغ اسلام کا کام رہے ہیں۔ اور مختلف زبانوں میں اسلامی لٹریچر شائع ہو رہا ہے۔ یہ مشن انگلینڈ، جرمنی، سوئٹزرلینڈ ، ہالینڈ، ناروے، ڈنمارک، سویڈن، اسپین، سکاٹ لینڈ، شمالی امریکہ، کینیڈا میں اور جنوبی امریکہ میں برٹش گی آنا، ڈچ گی آنا اور مشرقی افریقہ میں یوگنڈا، تنزانیہ، کینیا میں اور مغربی افریقہ میں سیرالیون، نائیجیریا، غانا، آئیوری کوسٹ، لائبیریاا ور گیمبیا میں قائم ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ عدن، جاپان، انڈونیشیا، بورنیو، سنگاپور، سیلون، جزائر فیجی اور ماریشس میں بھی مشن قائم ہیں اور ان مشنوں کے ذریعے خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں افراد حلقہ بگوشِ اسلام ہو چکے ہیں اور لاتعداد روحیں اسلام کی صداقت کی قائل ہو رہی ہیں۔ فَالْحَمْدُ للِّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔
تراجم قرآنِ کریم
جماعت احمدیہ کے ذریعہ اِس وقت تک دنیا کی قریبًا سولہ زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم ہو چکے ہیں۔ جن میں سے انگریزی کے علاوہ جرمن، ڈچ، سواحیلی، اسپرانٹو اور انڈونیشین زبان کے تراجم اپنا وسیع حلقۂ اثر اور شہرت قائم کر چکے ہیں۔ ہمارے موجودہ امام حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ترجمۃ القرآن کی اشاعت کےلئے ایک خاص ادارہ قائم فرمایا ہے تا کہ لکھوکھہا کی تعداد میں قرآنِ مجید کے تراجم کیا شاعت دنیا کے مختلف حصوں میں کی جائے اور نہایت معمولی ہدیہ پر یہ تراجم لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچا دیئے جائیں۔ چنانچہ انگریزی ترجمۃُالقرآن کے ہزار ہا نسخے مختلف ممالک کے لئے شائع کئے اور بھجوائے جا رہے ہیں تا کہ غیر مسلم سعید روحیں کلامِ پاک کے نور سے منور ہو سکیں۔
مساجد
اِس وقت ہندو پاکستان سے باہر دوسرے ممالک میں قریبًا چھ صد سے زائد مساجد تعمیر ہو چکی ہیں جن میں سے بعض ایسی ہیں جو پانچ پانچ چھ چھ لاکھ روپیہ سے تعمیر ہوئی ہیں اور بعض مساجد کی تعمیر خالصۃً مستورات کے چندہ سے ہوئی ہے۔ ان مساجد میں پانچوں وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور ہزار ہا لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہو کر انہیں آباد کررہے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی ان تبلیغی کوششوں کا یہ اثر ہے کہ وہ لوگ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دیا کرتے تھے اب پانچوں وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپؐ کی آل پر درود بھیجتے ہیں۔
تعلیمی ادارے
چونکہ تعلیمی اداروں کا لوگوں پر نہایت نیک اثر ہو سکتا تھا اس لئے مرکزی مردانہ و زنانہ سکولوں اور کالجوں اور مشنری کالج بنام جامعہ احمدیہ کے علاوہ جماعت احمدیہ نے بیسیوں سکول اور کالج بیرونی ممالک بالخصوص مغربی افریقہ میں جاری کئے ہیں۔ جن میں دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ لوگوں کا رجحان ان سکولوں کی طرف روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
اخبارات
اللہ تعالیٰ کے فضل سے مرکزی اخبارات و رسائل کے علاوہ جماعت کے بیرونی مراکز سے ۱۹ اخبارات و رسائل مختلف زبانوں میں باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں تا کہ اسلامی تعلیم کی حقّانیّت کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف اعتراضات کا مؤثر اور مکمل دفاع ہوتا رہے۔ یہ اخبارات بھی اپنا اچھا حلقہ اثر پیدا کر رہے ہیں اور ان کے ذریعہ تبلیغ اسلام کا کام مؤثر طریق پر سر انجام دیا جا رہا ہے۔
طِبّی مراکز
یہ امر ضروری سمجھا گیا ہے کہ اسلامی تبلیغ کا فریضہ اُس وقت تک کَمَا حَقّہٗ ادا نہیں ہو سکتا جب تک خدمتِ خلق نہ کی جائے۔ سو اِس غرض کے لئے ہمارے امام نے براعظم افریقہ میں مختلف مقامات پر طبّی مراکز کھولے ہیں جن میں ایسے ڈاکٹر کام کر رہے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں خدمتِ اسلام کے نقطۂ نگاہ سے وقف کی ہیں اور وہ نہایت محنت اور توجہ سے اور دعاؤں سے کام لے کر اپنے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ اُن کی اس نیک نیّتی کے ساتھ خدمتِ خلق کا یہ اثر ہے کہ جو مریض اُن کی طرف رجوع کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جلد شفا یاب ہو جاتے ہیں اور یہ طبّی مراکز ایسی شہرت حاصل کر رہے ہیں کہ لوگ سرکاری ہسپتالوں کو چھوڑ کر ہمارے ہسپتالوں کی طرف رجوع کر رہے ہیں اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید اُن ڈاکٹروں کے شامل حال ہے جو ان مراکز میں کام کرتے ہیں۔ اس سے اُن لوگوں کے دل میں اسلام کی طرف رغبت پیدا ہو رہی ہے۔
جناب ایڈیٹر صاحب ماہنامہ ‘‘جدو جہد’’ لاہور، جماعت احمدیہ کی تین خوبیوں کے عنوان سے لکھتے ہیں:
‘‘ پاکستان اور بھارت میں بیسیوں فرقے موجود ہیں جن کو نام سے غرض ہے کام سے کوئی واسطہ نہیں۔ بحث و تمحیص میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جارہے ہیں لیکن عمل مفقود ــــ حالانکہ صرف عمل کر کے دکھلانا ہی اسلام کی خوبی ہے ورنہ مسلمان کا ہر دعویٰء عاشقی ایک مجذوب کی بَڑسے کم نہیں۔ قطع نظر عقائد کے عملی طور پر مرزائی (احمدی۔ ناقل) فرقہ باقی فرقوں سے تین باتوں سے فوقیت رکھتا ہے۔
۱۔اسلامی مساوات
ان میں اونچ نیچ شریف رذیل ادنیٰ و اعلیٰ کی تمیز کم ہے۔
سب کی عزّت کرتے ہیں۔
۲۔ بیت المال کا قیام
یہ ایک باقاعدہ شعبہ ہے جس میں ہر مرزائی (احمدی۔ ناقل)کو اپنی ماہوار آمدنی کا ۱/۱۰ حصہ لازماً دینا پڑتا ہے۔ صدقات، خیرات فطرانہ وغیرہ سب جمع کر کے یہ رقم صدقاتِ جاریہ میں خرچ کی جاتی ہے۔
نوٹ از مصنف کتاب ہذا:آمدنی کے۱۰/۱حصہ کی ادائیگی صرف وصیت کرنے والوں کے لئے لازمی ہے۔ جو وصیت نہیں کرتے ان کے لئے۶ ۱/۱ حصہ کی ادائیگی مقرر ہے۔
۳۔تبلیغ اسلام
یہ فخر صرف اِسی فرقہ کو حاصل ہے کہ سُنّی، شیعہ، وہابی، دیوبندی، چکڑالوی فرقہ کے لوگوں سے تعداد میں کم ہوتے ہوئے پھر بھی لاکھوں روپیہ سالانہ خرچ کر کے اپنے بَل پر تبلیغی مشن غیر اسلامی ممالک کو بھیجتے ہیں۔ اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا پیغام غیر مسلموں تک پہنچاتے ہیں۔
ہمارے دیس میں بڑے بڑے مخیّر لوگ موجود ہیں اور فلاحی انجمنیںقائم ہیں۔ مثلاً انجمن حمایتِ اسلام لاہور جو لاکھوں روپیہ تعلیم پر خرچ کرتی ہے لیکن کوئی اللہ کا بندہ یا انجمن اس طرف توجہ نہیں دےرہی۔ ’’
(ماہنامہ جدّو جہد لاہور۔ جولائی ۱۹۵۸ء)
انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے ریمارکس
انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے:۔
‘‘جماعت احمدیہ کا ایک وسیع تبلیغی نظام ہے۔ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ مغربی افریقہ، ماریشس اور جاوا میں بھی۔ اس کے علاوہ برلن، شکاگو اور لندن میں بھی ان کے تبلیغی مشن قائم ہیں۔ ان کے مبلّغین نے خاص کوشش کی ہے کہ یورپ کے لوگ اسلام قبول کریں اور اس میں انہیں مُعتد بِہ کامیابی بھی ہوئی ہے۔ ان کے لٹریچر میں اسلام کو اس شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ جو نو تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے باعثِ کشش ہے۔ اس طریق پر نہ صرف غیر مسلم ہی اُن کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں بلکہ اُن مسلمانوں کے لئے بھی یہ تعلیمات کشش کا باعث ہیں جو مذہب سے بیگانہ ہیں یا عقلیات کی رو میں بہہ گئے ہیں۔ ان کے مبلغین ان کے حملوں کا دفاع بھی کرتے ہیں جو عیسائی مناظرین نے اسلام پر کئے۔’’
(انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا مطبوعہ ۱۹۴۷ء جلد ۱۲ صفحہ ۷۱۱، ۷۱۲)
انسائیکلوپیڈیا آف اسلام لائیڈن یونیورسٹی ہالینڈ کے ریمارکس
‘‘جماعت کی مساعی پُر جوش اور مؤثر تبلیغ کرنے کے علاوہ سکول اور کالج قائم کرنے پر بھی مشتمل ہے۔ قادیان ہندوستان کا نمایاں اور سب سے تعلیم یافتہ شہر معلوم ہوتا ہے۔ جماعت احمدیہ کثیر لٹریچر شائع کرتی ہے۔ ان کی اپنی مساجد ہیں۔ ریڈ کلف کے مختلف فیہ فیصلہ کی وجہ سے جماعت کو اپنا مرکز قادیان سے پاکستان میں ایک نئی جگہ قائم کرنا پڑا جو پہلے بیابان تھا۔ اس کا نام ربوہ ہے۔ اب وہاں ایک نیا شہر آباد کیا جا رہا ہے۔ بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی پچھتر*سے زیادہ کتابیں ہیں جو موجودہ جماعت کی طرف سے دوبارہ شائع کی جا رہی ہیں۔ غالباً سب سے اہم کتاب ‘‘اسلامی اصول کی فلاسفی’’ ہے۔ جس کے متعدّد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ …… جماعت نے قرآنِ مجید کے مختلف زبانوں میں تراجم شائع کئے ہیں مزید برآں جماعت نے مختلف زبانوں میں روزانہ، ہفتہ وار اور ماہوار اخبار جاری کر رکھے ہیں۔’’
(زیر لفظ احمدیت)
مجلّۃ الازھر (مصر)
جولائی ۱۹۵۸ء کی اشاعت میں رقمطراز ہے:۔
‘‘ فرزندانِ احمدیت کی سرگرمیاں تمام امور میں انتہائی طور پر کامیاب ہیں۔ اُن کے مدارس بھی کامیابی سے کام کر رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ان کے مدارس کے تمام طلباء ان کی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے۔’’
ہفت روزہ ‘‘ہماری زبان’’ علی گڑھ
نے لکھا:۔
‘‘موجودہ زمانہ میں احمدی جماعت نے منظّم تبلیغ کی جو مثال قائم کی ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ لٹریچر، مساجد و مدارس کے ذریعہ سے یہ لوگ ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکہ کے دور دور گوشوں تک اپنی کوششوں کا سلسلہ قائم کر چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے غیر مسلم جماعتوں میں ایک گونہ اضطراب پایا جاتاہے۔ کاش دوسرے لوگ بھی اِن کی مثال سے سبق لیتے۔’’
(ہماری زبان علی گڑھ ۲۳ دسمبر ۱۹۵۸ء)
مولانا عبد الماجد دریا بادی
‘‘ایک تبلیغی خبر’’ کے زیر عنوان ‘‘صدق جدید’’ لکھنؤ میں لکھتے ہیں:۔
‘‘مشرقی پنجاب کی ایک خبر ہے کہ اچاریہ ونو بھا بھاوے جب پیدل سفر کرتے کرتے وہاں پہنچے تو انہیں ایک وفد نے قرآنِ مجید کا ترجمہ انگریزی اور سیرۃ النبویؐ پر انگریزی میں کتابیں پیش کیں۔ یہ و فد قادیان کی جماعت احمدیہ کا تھا۔ خبر پڑھ کا اِن سطور کے راقم پر تو جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا۔ اچاریہ جی نے دَورہ اَودھ کا بھی کیا بلکہ خاص قصبہ دریاباد میں قیام کرتے ہوئے گئے لیکن اپنے کو اس قسم کا کوئی تحفہ پیش کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ نہ اپنے کو نہ اپنے کسی ہم مسلک کو نہ ندوی، دیوبندی، تبلیغی اسلامی جماعتوں میں سے۔ آخر یہ سوچنے کی بات ہے یا نہیں کہ جب بھی کوئی موقع تبلیغی خدمت کا پیش آتا ہے یہی خارج از اسلام جماعت ‘‘شاہ’’ نکل آتی ہے اور ہم دیندار منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
(صدق جدید لکھنؤ ۱۹ جون ۱۹۶۹ء)
تحریکِ شُدھی
ہندوستان میں آریہ سماجیوں نے مسلمانوں کو مرتد کرنے کے لئے تحریک شدھی کے نام سے (جو دراصل اشدھی تھی) ایک تحریک چلائی۔ مسلمان فرقوں میں سے صرف جماعت احمدیہ نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آریوں کو اس تحریک میں ناکام کر دیا۔ اس موقع پر اخبار ‘‘زمیندار’’ لاہور نے لکھا:۔
‘‘ احمدی بھائیوں نے جس خلوص، جس ایثار، جس جوش اور جس ہمدردی سے اِس کام میں حصہ لیا ہے وہ اِس قابل ہے کہ ہر مسلمان اِس پر فخر کرے۔’’
(زمیندار ۸۔اپریل ۱۹۲۳)
پھر ۲۴۔جولائی ۱۹۲۳ء کی اشاعت میں لکھا :۔
‘‘مسلمانانِ جماعت احمدیہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں۔ جو ایثار، کمربستگی، نیک نیّتی اور توکّل عَلَی اللہ اُن کی جانب سے ظہور میں آیا ہے وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں توبے انداز عزت اور قدردانی کے قابل ضرور ہے۔ جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجّادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں اِس اولو العزم جماعت نے عظیم الشان خدمتِ اسلام کر کے دکھا دی۔’’
پھر یہی اخبار اپنی اشاعت دسمبر۱۹۲۶ء میں رقمطراز ہے:۔
‘‘ گھر بیٹھ کر احمدیوں کو بُرا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اِس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان میں اور دیگر یورپین ممالک بھی بھیج رکھے ہیں۔ کیا ندوۃ العلماء، دیوبند، فرنگی محل اور دوسرے علمی اور دینی مرکزوں سے نہیں ہو سکتا کہ وہ بھی تبلیغ و اشاعت حق کی سعادت میں حصہ لیں؟’’
(زمیندار۔ دسمبر ۱۹۲۶ء)
مولوی ابو الحسن صاحب کے لئے مقامِ غیرت و عبرت ہے کہ ندوۃ العلماء کو اور دیگر اسلامی اداروں کو آج ۱۹۷۲ء تک بھی احمدیہ جماعت بُرا بھلا کہنے کے سوا غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق نہیں ملی۔ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَار۔
مولانا عبد الحلیم شرر لکھنوی ایڈیٹر‘‘دلگداز ’’لکھتے ہیں:
‘‘آج کل احمدیوں اور بہائیوں میں مقابلہ و مناظرہ ہو رہا ہے۔ باہم ردّ و قدح کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر دونوں میں اصل فرق یہ ہے کہ احمدی مسلک شریعتِ محمدیّہ کو اسی قوت اور شان سے قائم رکھ کر اس کی مزید تبلیغ و اشاعت کرتا ہے اور بہائی مذہب شریعتِ عرب (اسلام) کو ایک منسوخ شدہ غیر واجب الاتباع دین بتاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ بابیت اسلام کو مٹانے کو آئی ہے اور احمدیّت اسلام کو قوت دینے کے لئے اور اسی کی برکت ہے کہ باوجود چند اختلافات کے احمدی فرقہ اسلام کی سچی اور پُرجوش خدمت ادا کرتا ہے اور دوسرے مسلمان نہیں۔’’
(رسالہ ’’دل گداز‘‘ لکھنؤ ماہ جون ۱۹۲۶ء)
مولانا محمد علی جوہر ایڈیٹر‘‘ہمدرد’’دہلی رقمطراز ہیں:۔
‘‘ ناشکر گزاری ہو گی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور اُن کی منظّم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلافِ عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں۔ یہ حضرات اس وقت اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاسیات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف تبلیغ اور مسلمانوں کی تنظیم و تجارت میں بھی انتہائی درجہ سے منہمک ہیں۔ اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظّم فرقہ کا طرزِ عمل سوادِ اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور اُن اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گُنبدوں میں بیٹھ کر خدماتِ اسلام کے لئے بلند بانگ دور باطن ہیچ دعاوی کے خوگر ہیں مشعلِ راہ ثابت ہو گا۔’’
(ہمدرد دہلی ۲۶ ۔ستمبر ۱۹۲۷ء)
شاعرِ مشرق علّامہ اقبال فرماتے ہیں:۔
‘‘پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقۂ قادیانی کہتے ہیں۔’’
(مِلّتِ بَیضاء پر ایک عمرانی نظر صفحہ ۱۷، ۱۸)
علّامہ نیاز فتحپوری لکھتے ہیں:۔
‘‘اس وقت تمام ان جماعتوں میں جو اپنے آپ کو اسلام سے منسوب کرتی ہیں صرف ایک جماعت ایسی ہے جو بانیٔ اسلام کی متعیّن کی ہوئی شاہراہِ زندگی پر پوری استقامتکے ساتھ گامزن ہے۔ گو اس کا احساس تنہا مجھ ہی کو نہیں بلکہ احمدی جماعت کے مخالفین کو بھی ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ مجھے اس کے اظہار میں باک نہیں اور ان کو رعونتِ نفس یا احساسِ کمتری اس اعتراف سے باز رکھتا ہے۔’’
(رسالہ ’’نگار‘‘ ماہ نومبر ۱۹۵۹ء)
پھر رسالہ نگار بابت ماہِ جولائی ۱۹۶۰ء میں لکھتے ہیں:۔
‘‘اس وقت مسلمانوں میں ان کو (احمدیوں کو۔ ناقل) بے دین اور کافر کہنے والے تو بہت ہیں لیکن مجھے تو آج ان مدعیانِ اسلام کی جماعتوں میں کوئی جماعت ایسی نظر نہیں آتی جو اپنی پاکیزہ معاشرت، اپنے اسلامی رکھ رکھاؤ، اپنی تابِ مقاومت اور خوئے صبر و استقامتمیں احمدیوں کے خاکِ پا کو بھی پہنچتی ہو۔’’
نیز وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘ مرزا غلام احمد صاحب نے اسلام کی مدافعت کی اور اس وقت کی جب کوئی بڑے سے بڑا عالم دین بھی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔ انہوں نے سوتے ہوئے مسلمانوں کو جگایا اٹھایا اور چلایا یہاں تک کہ وہ چل پڑے اور ایسا چل پڑے کہ آج روئے زمین کا کوئی گوشہ نہیں جو ان کے قدم سے خالی ہو اور جہاں وہ اسلام کی صحیح تعلیم نہ پیش کر رہے ہوں۔’’
(نگار ماہِ اکتوبر ۱۹۶۰ء)
جناب اشفاق حسین صاحب مختار میونسپل پراسیکیوٹر و سابق میونسپل کمشنر مراد آباد کا تاثر
وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘ ہم سات کروڑ ہیں لیکن ہم سات کروڑ آدمیوں کی بھیڑ ہیں، ہم اپنے آپ کو جماعت نہیں کہہ سکتے۔ البتہ احمدی صاحبان اپنے آپ کو جماعت کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کی تنظیم اچھی ہے مشہور عربی مقولہہے یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ یعنی اللہ کا ہاتھ جماعت کے اوپر ہوتا ہے۔ یعنی اللہ اُن کی مدد کرتا ہے جو تنظیم کر کے اپنی جماعت بنا لیتے ہیں۔ خدا بھیڑ کی مدد نہیں کرتا کیونکہ ہم بھیڑ ہیں اس لئے خدا نے اپنا مددگار ہاتھ ہمارے اوپر سے اٹھا لیا۔’’
(‘‘خون کے آنسو’’ صفحہ ۶۷ ناشر حافظ محمد دین اینڈ سننز کشمیری بازار لاہور)
جماعتِ احمدیہ اور عیسائی دنیا کا تأثّر
ایک امریکن پادری Jack Manbolsorm ، نے حال ہی میں ایک کتاب ‘‘گاڈ۔ اللہ اینڈجو جو’’ شائع کی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘اسلام کی روز افزوں ترقی میں احمدیّت کے اثرات اس طرح داخل ہوئے ہیں کہ گویا یہ تانے بانے میں داخل ہیں۔ یہ بات بغیر تردّد کے کہی جا سکتی ہے کہ احمدیہ جماعت سب سے زیادہ کام کرنے والی اور سب سے زیادہ وسیع اسلامی جماعت ہے جو افریقہ میں کام کر رہی ہے۔’’
انگلستان سے چھپنے والے ایک اخبار ‘‘ٹائمز برٹش کالونیز ریویو’’ نے لکھا ہے:۔
‘‘اسلام کی روز افزوں ترقی کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جارہا اور یہ بات کچھ بعید نہیں کہ عیسائی اور مشرک علاقے بالآخر اسلام کے سمندر میں غرق ہو کر رہ جائیں گے۔’’
برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری ریورنڈ جے ۔ٹی۔ واٹس نے کیپ ٹاؤن میں اس خیال کا اظہار کیا کہ:۔
‘‘یہ بات عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں اسلام افریقہ کے عوامی مذہب کی حیثیت سے عیسائیت کو شکست دے کر اس کی جگہ لے لے۔’’
انہوں نے مزید کہا:۔
‘‘ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام افریقہ میں برابر ترقی کر رہا ہے۔ اگر ایک شخص عیسائیت قبول کرتا ہے۔ تو اسلام اس کے مقابلہ میں دو افراد کو حلقہ بگوش بنا لیتا ہے۔ ابھی موقع ہے کہ ہم اپنے آپ کو سنبھال لیں۔ ہمیں اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ لیکن اس امر کا قوی امکان ہے کہ ہم اس موقع کو گنوا دیں گے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ اسلام عیسائیت سے بازی لے جائے گا۔’’
سوئٹزر لینڈ کے ایک اخبار Appensellersontr Gsblaft نے اپنی۱۳- مئی ۱۹۶۱ءکی اشاعت میں لکھا:۔
‘‘عیسائی حلقے مسلسل اِس طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ افریقہ میں اسلام عیسائیت کے لئے خطرہ بن گیا ہے اور یہ خطرہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔’’
‘‘ڈیلی ٹائمز’’ نائیجیریا اپنی اشاعت ۷۔ دسمبر ۱۹۵۷ء میں پادریوں کی ایک میٹنگ کی روئداد پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:۔
‘‘عیسائی تنظیم اسلام کی ترقی سے خائف ہے۔’’
۱۳-جنوری ۱۹۵۸ء کو اسی اخبار نے خبر دی کہ:۔
‘‘پادریوں کی ایک میٹنگ نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ چند ہی سالوں میں افریقہ میں اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ عیسائیت یہاں باقی رہ سکے گی یا نہیں۔’’
غانا یونیورسٹی کے ایک عیسائی پروفیسر ایس جی ولیم سن لکھتے ہیں:۔
‘‘غانا کے شمالی حصّہ میں رومن کیتھولک کے سوا عیسائیت کے تمام اہم فرقوں نے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم )کے پیروؤں کےلئے میدان خالی کر دیاہے۔ اشانٹی اور گولڈ کوسٹ کے جنوبی حصوں میں آج کل عیسائیت ترقی کر رہی ہے لیکن جنوب کے بعض حصوں میں خصوصًا ساحل کے ساتھ احمدیہ جماعت کو عظیم الشان فتوحات حاصل ہو رہی ہیں۔’’
غیر ملکی اخباروں وغیرہ کے اِن بیانات سے ظاہر ہے کہ تحریکِ احمدیت صرف مسلمانوں کی اصلاح ہی کا کام نہیں کر رہی بلکہ غیر مسلموں میں بھی اسلام کے غلبہ کے لئے بے نظیر خدمات انجام دے رہی ہے۔ اور اس تحریک کی برکت سے لاکھوں انسان سچائی کو قبول کر چکے ہیں اور کروڑوں انسان اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کا سمجھدار طبقہ جماعت احمدیہ کی ان مخلصانہ خدمات کو نہایت شکر گزاری کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ اگر مولوی ابو الحسن صاحب چاند کی طرف پروپیگنڈے کی خاک اڑانا چاہیں تو ان کے پروپیگنڈے سے چاند کی روشنی میں فرق نہیں آسکتا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کیا گیا ہے۔ تا آنکہ ساری دنیا کو منور کر دے۔ پس جوں جوں قلوبِ انسانی کی کھڑکیاں کھلتی چلی جائیں گی اسلام کے اس بدرِ تَام کی روشنی اُن کے سینوں کو منور کرتی چلی جائے گی تا آنکہ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖکی پیشگوئی پوری شان کے ساتھ ظاہر ہو جائے اور قرآنِ کریم کی تعلیم دنیا کے ہر انسان تک پہنچ جائے۔
بالآخر عرض ہے کہ مولوی ابو الحسن صاحب نے یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِکا مرتکب ہو کر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے خلاف اُن کی تکذیب کے لئے جو بہت سے غلط الزامات لگائے ہیں وہ ہمارے نزدیک قابلِ تعجب نہیں۔ کیونکہ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
اِذَا خَرَجَ ھٰذَا الْاِمَامُ الْمَھْدِیُّ فَلَیْسَ لَہٗ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ اِلَّا الْفُقَھَاءُ خَآصَّۃً۔
(فتوحات مکیہ جلد۲ صفحہ ۲۴۲)
ترجمہ۔ جب امام مہدی ظاہر ہوں گے تو اُس کے کھلے دشمن بالخصوص فقہاء ہی ہوں گے۔
حضرت مجدّد الف ثانی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘نزدیک است کہ علمائے ظواہر مجتہدات اور اعلیٰ نبیّنا و علیہ الصلوٰۃ والسلام از کمالِ دقت و غموض ماخذ انکار نمائند و مخالفِ کتاب و سُنّت دانند۔’’
(مکتوبات امام ربانیٔ جلد۲ صفحہ ۵۵)
ترجمہ۔قریب ہے کہ علمائے ظواہر امام موصوف کے اجتہادات کا اس پر اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر صلوٰۃ و سلام ہو ان کے ماخذ کی کامل باریکی اور گہرائی کی وجہ سے انکار کر دیں اور انہیں کتاب و سنت کے مخالف جانیں۔
مولوی ابو الحسن صاحب کے ذریعہ بھی ان دونوں بزرگوں کے اس کلام کی تصدیق ہو گئی ہے۔ کیونکہ انہوں نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تکذیب کے لئے آپؑ کی عبارتوں کو غلط رنگ دے کر پیش کیا ہے اور پڑھنے والوں کو سچائی سے دور رکھنے کے لئے محض غلط پروپیگنڈا سے کام لیا ہے۔ ہم تو پھر بھی ان کے لئے خدا سے ہدایت کے ہی طالب ہیں۔
جماعت کے روشن مستقبل کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئیاں
اب میں اس مضمون کو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی دو پیشگوئیوں پر ختم کرتا ہوں جو خدا سے علم پا کر آپ نے جماعت کے روشن مستقبل کے متعلق فرمائی ہیں:۔
(۱)‘‘اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ وہ اپنی اِس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلاوے گا۔ اور حجّت اور برہان کی رُو سے سب پراِن کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزّت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اِس مذہب اور اِس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کوجو اس کے معدوم کرنے کی فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامتآجائے گی۔’’
(تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۶۶)
(۲)‘‘خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا۔ اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اِس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نُور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔ بہت سے روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھادے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا…… سو اے سننے والو! اِن باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا۔’’
(تجلیّاتِ الٰہیہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۹ ،۴۱۰ )
واٰخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العٰلمین
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَ عَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْد
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھُــوَ النَّــاصِــر
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے احمدیت کے خلاف تنابز بالالقاب سے کام لیتے ہوئے عرصہ ہؤا ایک کتاب ‘‘قادیانیت’’ کے نام سے شائع کی ہے۔ اس کے متفرق اہم سوالوں کے جوابات گاہے گاہے احمدیہ لٹریچر میں شائع ہو تے رہے ہیں۔
نظارت کے سامنے بعض احباب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس کتاب کا جواب یکجائی طور پر شائع ہونا ضروری ہے۔گو اِس کتاب کی زبان دوسرے معاندینِ احمدیت کی طرح خلافِ تہذیب نہیں لیکن یہ کتاب اپنی سپرٹ کے لحاظ سے ان کتابوں سے مختلف نہیں جو گالیاں دینے والے معاندینِ احمدیت نے شائع کی ہیں۔ کیونکہ حقیقت میں یہ کتاب بھی متعصبانہ رنگ میں احمدیت کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے کی نیت سے لکھی گئی ہے۔ گو اس کی طرزِ نگارش مستشرقین کی طرح ہے۔ اسلام کے خلاف جن مستشرقین نے کتابیں شائع کی ہیں ان کا طریق نگارش یہ رہا ہے کہ اسلام اور بانیٔ اسلام کی تعریف کرتے کرتے دودھ میں زہر ملا کر پیش کرتے ہیں اور کوئی ایسی چوٹ کر جاتے ہیں کہ جس سے پڑھنے والے کی ذہنیت اسلام اور بانیٔ اسلام کے خلاف مسموم ہو جائے ۔ مگر یہ اثر بھی قائم ہو کہ لکھنے والا بڑا دیانت دار ہے کیونکہ اس نے شستہ زبان استعمال کی اور بظاہر تعصب ظاہر نہیں کیا بلکہ محققانہ رنگ اختیار کیا ہے۔ حالانکہ جو اعتراض وہ سچ کے ساتھ جھوٹ ملا کر کر جاتے ہیں وہ سراسر ان کی کسی غلط فہمی یا دانستہ مغالطہ دہی پر مشتمل ہوتا ہے۔
محترم مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کی تصنیف ہذا بھی مستشرقین کی طرز پر ہی لکھی گئی ہے۔وہ اپنی کتاب میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تعریف بھی کرجاتے ہیں لیکن تعریف میں زہر بھی ملا دیتے ہیں اور ایسی باتیں تحریکِ احمدیت کی طرف منسوب کر جاتے ہیں جنہیں احمدی ہرگز تسلیم نہیں کرتے۔ کسی کی دیانت کے خلاف رائے قائم کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن واقعات کو نظر انداز کرنا بھی اس سے زیادہ مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ احمدیت اسلام کے اندر ایک تحریک ہے نہ کہ اسلام کے علاوہ کوئی نیا دین یا ملّت۔ مگر ندوی صاحب کی اپنی کتاب میں یہ کوشش رہی ہے کہ احمدیت کو قادیانیت کا نام دے کر جو تنابز بالالقاب ہے، اسلام کے بالمقابل ایک متوازی دین ثابت کیا جائے اور اس کی بنیاد ایک نئی تشریعی نبوّت پر قرار دی جائے۔ یہ نتیجہ جو وہ نکالنا چاہتے ہیں اس میں انہوں نے سراسر حق و انصاف کا خون کیا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا دین نہ تو اسلام کے علاوہ کوئی دین ہے اور نہ آپ کو جدید شریعت لانے والے نبی ہونے کا دعویٰ ہے۔ البتہ ایسا الزام آپؑ کے معاندین آپؑ کے خلاف غلط فہمی اور بدگمانی پھیلانے کے لئے ضرور لگاتے آئے ہیں جس کے جواب میں حضرت مرزا غلام احمد بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے ہمیشہ ایسے دعویٰ سے انکار کیا ہے اور زوردار الفاظ میں واشگاف طور پر ایسے الزام کی تردید فرمائی ہے چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں۔
‘‘ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہلَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہ ہمارااعتقادجو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلمخاتم النبیّین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اوروہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شُعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتااور نہ کم ہو سکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتاجو احکا م فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور مُلحد اور کافرہے اور ہمار ااس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنیٰ درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ راہِ راست کے اعلیٰ مدارج بجُز اقتدا اُس امام الرّسل کے حاصل ہو سکیںکوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے۔’’
(ازالہ اوہام حصہ اوّل ، روحانی خزائن جلد ٣ صفحہ١٦٩،١٧٠)
‘‘جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بنا رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے اور جس خدا کی کلام یعنی قرآن کو پنجہ مارنا حکم ہے ہم اس کو پنجہ مار رہے ہیں اور فاروق رضی اﷲ عنہ کی طرح ہماری زبان پرحَسْبُنَا کِتَابَ اللّٰہہے اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور قرآن میں پیدا ہو قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں۔ بالخصوص قصوں میں جو بالاتفاق نسخ کے لائق بھی نہیں ہیں۔ اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیّدنا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم اُس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور روزِ حساب حق اور جنّت حق اور جہنّم حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اﷲ جلّ شانہٗ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعتِ اسلام میں سے ایک ذرّہ کم کرے یا ایک ذرّہ زیادہ کرے یا ترکِ فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے۔ اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبّہ پر ایمان رکھیں کہلَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ اور اسی پر مریں اور تمام انبیاء اور تمام کتابیںجن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے اُن سب پر ایمان لاویں اور صوم اور صلوٰۃ اور زکوٰۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں۔ غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنّت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں اُن سب کا ماننا فرض ہے اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے ۔’’
(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد ١٤ صفحہ ٣٢٣)
‘‘ہم مسلمان ہیں۔ خدائے واحد لا شریک پر ایمان لاتے ہیں اور کلمہلَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُکے قائل ہیں۔ اور خدا کی کتاب قرآن اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو جو خاتم الانبیاء ہے مانتے ہیں اور فرشتوں اور یوم البعث اور بہشت اور دوزخ پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں۔ اور اہل قبلہ ہیں اور جو کچھ خدا اور رسول ؐ نے حرام کیا اس کو حرام سمجھتے اور جو کچھ حلال کیا اس کو حلال قرار دیتے ہیں اور نہ ہم شریعت میں کچھ بڑھاتے اور نہ کم کرتے ہیں اور ایک ذرہ کی کمی بیشی نہیں کرتے اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہمیں پہنچا اس کو قبول کرتے ہیں چاہے ہم اس کو سمجھیں یا اس کے بھید کو سمجھ نہ سکیں اور اس کی حقیقت تک پہنچ نہ سکیں اور ہم اللہ کے فضل سے مومن موحد مسلم ہیں۔ ’’
(نور الحق جزء اول روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۷)
‘‘مَیں سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں اور میری جماعت مسلمان ہے۔ اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر اُسی طرح ایمان لاتی ہے جس طرح پر ایک سچے مسلمان کو لانا چاہئے۔ مَیں ایک ذرّہ بھی اسلام سے باہر قدم رکھنا ہلاکت کا موجب یقین کرتا ہوں اور میرا یہی مذہب ہے کہ جس قدر فیوض اور برکات کوئی شخص حاصل کر سکتا ہے اور جس قدر تقرب الی اللہ پا سکتا ہے وہ صرف اورصرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اطاعت اور کامل محبت سے پا سکتا ہے ورنہ نہیں۔ آپ کے سوا اب کوئی راہ نیکی کی نہیں۔’’
(لیکچر لدھیانہ ، روحانی خزائن جلد٢٠صفحہ٢٦٠)
‘‘ اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو! اور اے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیاہے۔ اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اورجلال اور تقدّس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔’’
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ١٥ صفحہ ١٤١)
‘‘اے دوستو! یقینا یادرکھو کہ دنیا میں سچا مذہب جو ہر ایک غلطی سے پاک اور ہر ایک عیب سے منزّہ ہے، صرف اسلام ہے۔ یہی مذہب ہے جو انسان کو خدا تک پہنچاتا اور خدا کی عظمت دلوں میں بٹھاتا ہے۔’’
(تبلیغ رسالت جلد٦ صفحہ ١٥٤۔ مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ۱۵۸)
‘‘یہ اسلام ہی کا خاصہ ہے کہ وہ صرف قصوں کی ناقص اور ناتمام تسلی کو پیش نہیں کرتا بلکہ وہ ڈھونڈنے والوں کو زندہ نشانوں سے اطمینان بخشتا ہے…زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ سے زندہ خدا ملے۔ زندہ خدا وہ ہے جو ہمیں بلا واسطہ ملہم کر سکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلا واسطہ ملہم کو دیکھ سکیں۔ سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے۔’’
(تبلیغ رسالت جلد٦ صفحہ ١٤،١٥۔ مجموعہ اشتہارات جلد۲ صفحہ۱۲)
‘‘ہمیں بڑا فخر ہے کہ جس نبی علیہ السلام کا ہم نے دامن پکڑا ہے خدا کا اس پر بڑا ہی فضل ہے۔وہ خدا تو نہیں مگر اس کے ذریعہ سے ہم نے خدا کو دیکھ لیا ہے۔ اُس کا مذہب جو ہمیں ملا ہے خدا کی طاقتوں کا آئینہ ہے…ہم کیا چیز ہیں جو اِس شکر کو ادا کر سکیں کہ وہ خدا جو دوسروں پر مخفی ہے اور وہ پوشیدہ طاقت جو دوسروں سے نہاں در نہاں ہے۔ وہ ذوالجلال خدا محض اس نبی کریم کے ذریعہ سے ہم پر ظاہر ہوگیا۔’’
(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد ٢٣ صفحہ ٣٨١)
‘‘میرا مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ذرا اِدھر اُدھر جانا بے ایمانی میں پڑنا ہے۔’’
(ملفوظات جلد۴صفحہ۵۱۹)
‘‘میں کھول کر کہتا ہوں اور یہی میرا عقیدہ اور مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع اور نقش قدم پر چلنے کے بغیر کوئی انسان کوئی روحانی فیض اور فضل حاصل نہیں کر سکتا۔’’
(ملفوظات جلد۴ صفحہ۵۲۳، ۵۲۴)
‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبیّین ہیں اور قرآن شریف خاتم الکتب۔ اب کوئی اور کلمہ یا کوئی اور نماز نہیں ہو سکتی۔جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یا کر کے دکھایا اور جو کچھ قرآن شریف میں ہے اس کو چھوڑ کر نجات نہیں مل سکتی۔ جو اس کو چھوڑے گا وہ جہنم میں جاوے گا۔ یہ ہمارا مذہب اور عقیدہ ہے۔ ’’
(ملفوظات جلد۴ صفحہ ۵۵۸)
‘‘ عقیدہ کے رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اُس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے۔’’
(کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ١٩ صفحہ ١٥،١٦)
‘‘میں بار بار کہتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سچی محبت رکھنا اور سچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحبِ کرامات بنا دیتا…… چنانچہ میں اس میں صاحبِ تجربہ ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب مردے، ان کے خدا مردے اور خود وہ تمام پَیرو مردے ہیں اور خداتعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہو جانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں۔ ہرگز ممکن نہیں۔’’
(تبلیغِ رسالت جلد٦ صفحہ ١٨۔ مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۱۵، ۱۶)
‘‘میں مسلمان ہوں ۔ قرآن کریم کو خاتم الکتب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم الانبیاء مانتا ہوں اور اسلام کو ایک زندہ مذہب اور حقیقی نجات کا ذریعہ قرار دیتا ہوں۔ خداتعالیٰ کی مقادیر اور قیامتکے دن پر ایمان لاتا ہوں۔ اسی قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہوں۔ اتنی ہی نمازیں پڑھتا ہوں۔ رمضان کے پورے روزے رکھتا ہوں۔’’
(ملفوظات جلد ۱ صفحہ۳۷۵)
‘‘ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں
دل سے ہیں خدام ختم المرسلیںؐ
شرک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں
خاک راہِ احمدِؐ مختار ہیں
سارے حکموں پر ہمیں ایمان ہے
جان و دل اس راہ پر قربان ہے’’
(ازالۂ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد٣ صفحہ۵۱۴)
‘‘ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دیں دینِ محمدؐ سا نہ پایا ہم نے
کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاوے
یہ ثمر باغِ محمدؐ سے ہی کھایا ہم نے
ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا
نور ہے نور! اٹھو! دیکھو! سنایا ہم نے
اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا
کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے’’
(آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد۵صفحہ ٢٢٤)
اپنی نبوّت کے متعلق فرماتے ہیں:۔
‘‘میری مراد نبوّت سے یہ نہیں ہے کہ میں نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوّت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں۔ صرف مراد میری نبوّت سے کثرتِمکالمات و مخاطبتِ الٰہیہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع سے حاصل ہے ۔ سو مکالمہ مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں۔ پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی۔ یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ مخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم الٰہی نبوّت رکھتا ہوں۔ وَلِکُلٍّاَنْ یَّصْطَلِحَ۔‘‘(تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ۵۰۳)
نیز اپنے آخری خط مندرجہ اخبار عام میں تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوّت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے یہ معنی ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعتِ اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں۔ یہ الزام صحیح نہیں ہے۔ بلکہ ایسا دعویٰ نبوّت کا میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر ایک کتاب میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوّت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں۔’’
(اخبار عام لاہور ٢٣ـ مئی ١٩٠٨ء)
نزول المسیح میں تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘اس نکتہ کو یاد رکھو کہ میں نبی اور رسول نہیں ہوں باعتبار نئی شریعت اور نئے دعویٰ اور نئے نام کے۔ اور میں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیّتِ کاملہ کے۔ وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوّت کا کامل انعکاس ہے۔’’
(نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد۱۸ حاشیہ صفحہ ۳۸۱)
ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اسلام کے بالمقابل کسی متوازی دین یا شریعت جدیدہ کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ آپ کا دعویٰ ظِلّی اور انعکاسی نبوّت کا ہے اور یہ مقام آپ کو باتباعِ نبویؐ حاصل کرنے کا دعویٰ ہے نہ مستقل طور پر براہِ راست نبوّت پانے کا دعویٰ۔ آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ آپ ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے اُمّتی۔ کیونکہ احادیث نبویہ میں آنے والے مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نواس بن سمعانؓ کی روایت میں چار دفعہ نبی اللہ قرار دیا ہے۔ (صحیح مسلم باب خروج الدجال) اور بخاری اور مسلم کی روایات میں اس مسیح موعود کواِمَامُکُمْ مِنْکُمْاور فَاَمَّکُمْ مِنْکُمْ کے الفاظ میں اُمّتی فرد ہونے کی حیثیت میں اُمّت کا امام بھی قرار دیا ہے۔(باب نزول عیسیٰ) اور مسند احمد بن حنبل کی روایت کے مطابق موعود عیسیٰ کو ہی یُوْشَکُ مَنْ عَاشَ مِنْکُمْ اَنْ یَّلْقٰی عِیْسیَ ابْنَ مَرْیَمَ اِمَامًا مَّھْدِیًّا کے الفاظ میں امام مہدی قرار دیا گیا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد۶، صفحہ ۴١١مطبوعہ بیروت) انہی پیشگوئیوں کے مطابق آپ کو اُمّتینبوّت کا دعویٰ ہے نہ کہ مستقلہ نبوّت کا جب سرے سے آپ کا مستقلہ نبوّت کا دعویٰ ہی نہیں تو کسی مستقل شریعت کا دعویٰ کیسے ہو سکتا ہے۔ ایسے دعاوی سے آپ نے ہمیشہ انکار کیا ہے۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘جس جس جگہ میں نے نبوّت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں۔ مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہےرسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔’’
(اشتہار ایک غلطی کا ازالہ ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۱۰، ۲۱۱)
چونکہ اس قسم کا دعویٰ مولوی ابو الحسن ندوی کے نزدیک ختم نبوّت کے منافی نہ تھا اس لئے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے خلاف غلط فہمی پھیلانے اور آپ سے لوگوں کو بدگمان کرنے کے لئے انہوں نے آپ پر ہی اپنی اس کتاب میں یہ الزام دے دیا ہے کہ آپ کا دعویٰ جدید شریعت لانے اور مستقل نبی ہونے کا ہے۔
خاتم النبیّین کے کن معنوں پر اجماع ہے؟
ندوی صاحب اس بات کو خوب جانتے تھے کہ آیت خاتم النبیّین کی رو سے اُمّت کا اجماع صرف اس بات پر ہوا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا یا مستقل نبی نہیں آسکتا۔ جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒنے فرمایا ہے لَا یَأْتِی بَعْدَہٗ نَبِیٌّ مُسْتَقِلٌّ بِالتَّلَقِّیْ (الخیر الکثیر صفحہ ۸۰) اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اُمّت محمدیہ کے اندر نبی کا ہونا ختم نبوّت کے منافی نہیں کیونکہ حضرت ملا علی القاری علیہ الرحمۃ نے خاتم النبیّین کے معنی یہ کئے تھے اَلْمَعْنٰی اَنَّہٗ لَا یَاْتِیْ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ یَنْسِخُ مِلَّتَہٗ وَ لَمْ یَکُنْ مِنْ اُمَّتِہٖ(موضوعاتِ کبیر صفحہ ٥٩)کہ آیت خاتم النبیّین کے یہ معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپؐ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمّت میں سے نہ ہو گویا ایسے نبی کی آمد جو شریعت کو منسوخ نہ کرے اور اُمّت میں سے ہو آیت خاتم النبیّین کے منافی نہیں۔
پھر مولوی صاحب موصوف یہ بھی جانتے تھے کہ حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کی تشریح علماء نے یہ بھی کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہعلیہو سلم کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں آسکتا جیسا کہ حضرت امام علی القاری نے لکھا ہے:۔
‘‘حَدِیْثٌ لَا وَحْیَ بَعْدِیْ بَاطِلٌ لَا اَصْلَ لَہٗنَعَمْ وَرَدَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ مَعْنَاہُ عِنْدَ الْعُلَمَآءِ لَا یَحْدِثُ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ بِشَرْعٍ یَنْسِخُ شَرْعَہٗ۔’’
(الاشاعۃ فی اشراط الساعۃ صفحہ ٢٢٦ اور المشرب الوردی فی مذھب المہدی)
کہ یہ حدیث کہ میرے بعد وحی نہیں ہو گی باطل ہے البتہ حدیث لا نبی بعدی وارد ہے جس کے معنی علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ آئندہ ایسا کوئی نبی نہیں پیدا ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کو منسوخ کرے۔حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے یہ بھی لکھا ہے:۔
‘‘ان النبوۃ تتجزی و جزع منھا باق بعد خاتمالانبیاء’’
(المسوی شرح المؤطا جلد٢ صفحہ ٢١٦، مطبوعہ دہلی)
کہ‘‘ نبوّت قابل انقسام ہے اور اس کا ایک حصہ خاتم الانبیاء کے بعد باقی ہے۔’’
آپ کا یہ قول صحیح بخاری کے قول لَمْ یَبْقَ مِنَ النَّبُوَّۃِ اِلَّا الْمُبَشِّرَاتکے مطابق ہے کہ نبوّت میں سے مبشرات کا حصہ باقی ہے۔
مولوی صاحب جانتے تھے کہ مسیح موعود جس کی آمد اُمّت میں متوقع چلی آتی ہےحدیث نبوی کے مطابق تشریعی اور مستقل نبی کی حیثیت میں نہیں آئیں گے کیونکہ تشریعی اورمستقل نبوّت تو بموجب حدیث نبوی باقی نہیں رہی اور وہ صرف مبشرات پانے کی وجہ سے نبی کہلائیں گے اور اُمّت محمدیہ کے لئے حکم و عدل ہوں گے۔ اسی منصب کے پانے کا حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ہے۔
مسئلہ ختم نبوّت میں ہمارے اور مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کے خیال میں اصولی طور پر کوئی اختلاف نہیں، نہ مسیح موعود کے اس منصب کے بارہ میں کوئی اختلاف ہے کہ وہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی ہو گا۔ اگر اختلاف ہے تو وہ صرف مسیح موعود کی شخصیت میں ہے۔ ہمارے نزدیک مولوی ابو الحسن صاحب اس خیال میں غلطی پر ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہی اِصَالتًا دوبارہ نازل ہوں گے۔ ہمارے نزدیک قرآن و حدیث کی رو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام دیگر انبیاء کی طرح وفات پا چکے ہوئے ہیں اور جس مسیح کے نزول کی پیشگوئی تھی اس کا مصدا ق اُمّت محمدیہ کا ہی ایک فرد تھا۔ ہمارے نزدیک یہ پیشگوئی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے وجود میں پوری ہو گئی ہے اور آپ ہی اس اُمّت کے لئے مہدی معہود اور مسیح موعود ہیں۔ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے اس دعویٰ کو کہ آپ ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے اُمّتی آیت خاتم النبیّین اور حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِی کے مخالف تو نہیں پاتے تھے مگر چونکہ آپ کو قبول کرنے کے لئے بھی آپ کا دل مائل نہیں تھا اس لئے انہوں نے یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کی ڈیوٹی اپنے ذمہ لے کے آپ کی طرف یہ دعویٰ منسوب کر دیا ہے کہ آپ نئی شریعت لانے والے مستقل نبی ہونے کے دعویدار ہیں۔
مولوی ابو الحسن ندوی کا افتراء
ندوی صاحب نے مستقل نبوّت کے عنوان کے تحت لکھا ہے:۔
‘‘مرزا صاحب کی تصنیفات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے نبی مستقل صاحبِ شریعت ہونے کے قائل تھے۔’’
(قادیانیت صفحہ ٩٤)
مولوی ابو الحسن صاحب کا حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ پر نبی مستقل ہونے کا الزام بہتانِ عظیم اور افتراء ہے۔ مگر اس امرکو ثابت کرنے کے لئے وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘انہوں نے اربعین میں تشریعی یا صاحبِ شریعت کی تعریف کی ہے کہ جس کی وحی میں امر و نہی ہو اور وہ کوئی قانون مقرر کرے اگرچہ یہ امر ونہی کسی سابق نبی کی کتاب میں پہلے آچکے ہوں۔ ان کے نزدیک صاحبِ شریعت نبی کے لئے اس کی شرط نہیں کہ وہ بالکل جدید احکام لائے پھر وہ صاف صاف دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس تعریف کے مطابق صاحبِ شریعت اور مستقل نبی ہیں۔’’
(قادیانیت صفحہ٩٥)
اس کے بعد انہوں نے اربعین کی عبارت پیش کی ہے مگر اس عبارت میں مستقل نبی کے الفاظ موجود نہیں۔ وہ عبارت یہ ہے:۔
‘‘ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی اُمّت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعت ہو گیا۔ پس اس تعریف کے رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔ مثلاً یہ الہام قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ذَالِکَ اَزْکٰی لَھُمْ یہ براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور اس پر تئیس برس کی مدت بھی گزر گئی……
اگر کہوکہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےاِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُوْلٰى صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسیٰ (الأَعلىٰ:۱۹، ۲۰)یعنی قرآنی تعلیم توریت میں موجودہے۔’’
(اربعین، روحانی خزائن جلد ۱۷، صفحہ ۴۳۵، ۴۳۶)
اس عبارت کے منطوق سے ظاہر ہے کہ یہ عبارت بطور الزامِ خصم کے لکھی گئی ہے اور اس میں الزامی رنگ میں مخالفین پر حجت قائم کی گئی ہے۔ مگر اس میں آپ نے مستقل صاحبِ شریعت ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مستقل نبی ہونے کا دعویٰ ایک سراسر جھوٹا الزام ہے۔ اربعین ١٩٠٠ء میں شائع ہوئی۔ اس میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اصطلاحی نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ اس سے انکار کیا ہے۔ اس کے بعد ١٩٠١ء میں اشتہار ایک غلطی کے ازالہ میں لکھتے ہیں:۔
‘‘جس جس جگہ میں نے نبوّت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر شریعت لانے والا نبی نہیں ہوں اور نہ مستقل طور پر نبی ہوں۔’’
(اشتہار ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۱۰)
پس ایسی واضح عبارت کی موجودگی میں جو اربعین سے بعد کی ہے۔ ایک محقق عالم کا فرض ادا کرتے ہوئے ندوی صاحب کا فرض تھا کہ وہ حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ پر مستقل صاحبِ شریعت نبی ہونے کا الزام نہ لگاتے کیونکہ آپ صاف لفظوں میں ایسے دعویٰ سے انکار کر رہے ہیں۔ مولوی صاحب موصوف نے اربعین کی عبارت بھی ادھوری پیش کی ہے۔ اور اس کے بعد کی اس عبارت کو لوگوں کی نگاہ سے اوجھل رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جس میں آپ فرماتے ہیں:۔
‘‘ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خاتم الانبیاء اور قرآن ربّانی کتابوں کا خاتم ہے۔ تاہم خدا تعالیٰ نے اپنے نفس پر حرام نہیں کیا کہ تجدید دین کے طور پر کسی اور مامور کے ذریعہ یہ احکام صادر کرے کہ جھوٹ نہ بولو، جھوٹی گواہی نہ دو، زنا نہ کرو، خون نہ کرو اور ظاہر ہے کہ ایسا بیان کرنا بیان شریعت ہے جو مسیح موعود کا بھی کام ہے۔ ’’
(اربعین نمبر٤ ، روحانی خزائن جلد ۱۷، حاشیہ صفحہ۴۳۵)
نیز فرماتے ہیں:۔
‘‘میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے۔’’
(اربعین نمبر٤ ، روحانی خزائن جلد ۱۷، حاشیہ صفحہ۴۳۵)
ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ آپ پر جو اوامر و نواہی نازل ہوئے وہ بیانِ شریعت اور تجدیدِ دین کے طور پر ہیں نہ شریعت محمدیہ سے کسی الگ شریعت کے طور پر۔ لہذا آپ کو جدید شریعت ،مستقل نبی، یا تشریعی نبی، یا مستقلہ شریعت رکھنے والا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ اربعین میں نہ مستقل نبی یا مستقلہ شریعت رکھنے کا کوئی دعویٰ موجود ہے نہ اس کے بعد کی تحریروں میں ایسا کوئی دعویٰ موجود ہے۔ ایک تحریر ہم ایک غلطی کے ازالہ کی پیش کر چکے ہیں جس میں صاف لکھا ہے کہ آپ کو مستقل نبی ہونے یا مستقل شریعت لانے کا دعویٰ نہیں۔ یہ ١٩٠١ء کی کتاب ہے۔ پھر ١٩٠۵ء کی کتاب الوصیت میں لکھتے ہیں:۔
’’خوب یاد رکھنا چاہئے کہ نبوّت تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بالکل مسدود ہے اور قرآن مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآن شریف کا حکم منسوخ کرے یا اس کی پیروی معطل کرے بلکہ اس کا عمل قیامتتک ہے۔‘‘
(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰، حاشیہ صفحہ۳۱۱)
پھر اس کے بعد تجلّیاتِ الٰہیہ کے صفحہ٩ پر تحریر فرماتے ہیں:۔
’’نبی کے لفظ سے اس زمانہ کے لئے صرف خدا تعالیٰ کی یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شرفِ مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ حاصل کرے اور تجدید دین کے لئے مامور ہو۔ یہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری شریعت لائے کیونکہ شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم ہے……اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں جب تک کہ اس کو اُمّتی بھی نہ کہا جائے ۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی سے پایا نہ براہِ راست۔‘‘
(تجلّیاتِ الٰہیہ، روحانی خزائن جلد ۲۰، صفحہ ۴۰۱ حاشیہ)
پھر اپنی آخری کتاب چشمۂ معرفت میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’ہم بار ہا لکھ چکے ہیں کہ حقیقی اور واقعی طور پر تو یہ امر ہے کہ ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خاتم الانبیاء ہیں اور آنجناب کے بعد مستقل طور پر کوئی نبوّت نہیں اور نہ کوئی شریعت ہے۔ اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو بلا شبہ وہ بے دین اور مردود ہے۔‘‘
(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ حاشیہ صفحہ ۳۴۰)
ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک اپنے آپ کو اُمّتی نبی قرار دیتے رہے نہ کوئی شریعتِ جدیدہ لانے والے نبی یا مستقل نبی۔اربعین کی عبارت جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا گیا ہے بطور الزامِ خصم کے ہے۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے آیت وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ کو مخالفین کے سامنے اس طرح اپنی صداقت کے ثبوت میں پیش کیا تھا کہ یہ آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت کی روشن دلیل ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہم پر کوئی جھوٹا قول باندھ لیتے تو ہم انہیں دائیں ہاتھ سے پکڑ کر ان کی رگِ گردن کاٹ دیتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ کوئی مفتری اور متقوّل علی اللہ اپنے وحی و الہام کے دعویٰ کے بعد ٢٣ سال کی لمبی عمر نہیں پا سکتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پائی۔ حضر ت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے بتایا کہ میرے وحی و الہام کے دعویٰ پر بھی اتنا عرصہ گزرچکا ہے لہذا یہ آیت میری صداقت پر بھی روشن دلیل ہے۔ اس پر بعض مخالفین نے کہا کہ یہ آیت تو صرف صاحبِ شریعت مدعی کے لئے معیار ہو سکتی ہے۔ اس کے جواب میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے فرمایا کہ تمہارا یہ دعویٰ باطل ہے۔ خدا تعالیٰ نے افتراء کے ساتھ شریعت کی قید نہیں لگائی۔ پھر الزامی رنگ میں فرمایا کہ جس امر کو تم شریعت کہتے ہو وہ اوامر و نواہی ہوتے ہیں اور یہ چیز میرے الہامات میں موجود ہے لہذا تم لوگوں پر میرا ماننا تمہارے مسلمہ معیار کی رو سے حجت ہوا۔
پھر اس خیال سے کہ کوئی آپ کو مستقل صاحبِ شریعت نبی ہونے کا مدعی نہ قرار دے آپ نے اس عبارت کے ساتھ ہی تحریر فرمایا کہ آپ کے اوامر و نواہی بطور تجدید دین اور بیان شریعت کے ہیں۔
تعجب کا مقام ہے کہ اس وضاحت کے باوجود مولوی ابو الحسن ندوی حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ پر اوامر و نواہی کے نزول سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ آپ کو مستقل صاحبِ شریعت نبی ہونے کا دعویٰ تھا۔ حالانکہ آپ کی تصنیفات شروع سے آخر تک اس بات پر روشن دلیل ہیں کہ آپ نے باتباع نبوی صلی اللہ علیہ و سلم وحی و الہام پانے کا دعویٰ کیا ہے۔ نہ بالاستقلال۔ آپ کے لٹریچر میں سے ایک فقرہ بھی اس مفہوم کا دکھایا نہیں جا سکتا کہ آپؑ مستقل نبی ہیں یا مستقل صاحبِ شریعت نبی ہیں۔ آپ نے ہمیشہ اپنے آپ کو یا ظِلّی اور بروزی نبی قرار دیا ہے یا ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی۔ تا یہ امر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے افاضہ ٔروحانیہ پر گواہ ہو۔
پس مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ پر سراسر افتراء ہے کہ انہوں نے مستقل صاحبِ شریعت نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
شریعت کے احکام پر مشتمل الہامات بزرگان دین کو بھی ہوئے
شریعت کے اوامر و نواہی پر مشتمل الہامات تو اُمّت کے بزرگوں پر بھی نازل ہوتے رہے مگر انہیں کبھی نہ کسی نے مستقل صاحبِ شریعت ہونے کا مدعی قرار دیا ہے اور نہ خود انہوں نے مستقل صاحبِ شریعت ہونے کا دعویٰ کیا ہے کیونکہ اوامر و نواہی پر مشتمل الہامات ان بزرگوں پر بواسطہ اتباع نبوی نازل ہوئے ہیں۔ پس بالواسطہ صاحبِ شریعت ہونے اور مستقل صاحبِ شریعت ہونے میں بُعد المشرقین ہے۔ دیکھئے فتوحات مکیّہ جلد٢ صفحہ ۲۵۸ پر لکھا ہے:۔
’’تنزل القرآن علی قلوب الاولیاء ما انقطع مع کونہ محفوظالھمولٰکنَّ لھم ذوق الانزال وھٰذا لبعضھم‘‘
(فتوحات مکیہ الباب التاسع و خمسون و مائۃ فی مقام الرسالۃ البشریۃ)
ترجمہ: قرآن کریم کا نزول اولیاء کے قلوب پر منقطع نہیں باوجودیکہ وہ ان کے پاس اپنی اصلی صورت میں محفوظ ہے۔ لیکن اولیاء اللہ پر نزول قرآنی کے ذوق کی خاطر قرآن ان پر نازل ہوتا ہے۔ اور یہ شان صرف بعض اولیاء کو ہی عطا کی جاتی ہے۔
مزید دیکھئے:۔
ا ۔ حضرت محی الدین ابن عربیؒتحریر فرماتے ہیں مجھ پر ذیل کی آیات نازل ہوئیں:
قل اٰمنّا باللّٰہ و ما انزل الینا و ما انزل علٰی ابراھیم واسمٰعیل و اسحٰق و یعقوب والاسباط ومااوتی موسیٰ وعیسیٰ والنبیُّون من ربّھم لا نفرق بین احد منھمونحن لہ مسلمون۔(اٰل عمران:۸۵)
یہ ساری کی ساری آیت آپ پر الہاماً نازل ہوئی۔
(فتوحات مکیہ،باب فی معرفۃ منزل التوکل الخامس الذی ما کشفہ احد من المحققینجلد٣ صفحہ ٣۴۱
مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت الطبعۃ الاولیٰ ۱۹۹۸م)
ب۔ حضرت خواجہ میر درد علیہ الرحمۃ پر مندرجہ ذیل آیات نازل ہوئیں جو امر و نہی پر مشتمل ہیں:۔
¬۱۔وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْن۔
٢۲۔لَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَ لَا تَکُنْ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ۔
٣۳۔وَمَا اَنْتَ بِھَادِ الْعُمْیِ عَنْ ضَلَالَتِھِمْ۔
(علم الکتاب، صفحہ ٦٤)
ج۔ حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی پر مندرجہ ذیل آیات امر و نواہی نازل ہوئیں:۔
١۱۔فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ۔
٢۲۔وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَوٰۃِ وَالْعَشِیِّ۔
٣۳۔فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔
٤۴۔وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰ ـہُ۔
(رسالہ اثبات الالہام والبیعۃ مؤلفہ مولوی محمد حسن رئیس لدھیانہ و سوانح عمری مولوی عبد اللہ غزنوی ازمولوی عبد الجبار غزنوی صفحہ ٢٥ مطبوعہ مطبع القرآن امرتسر)
د۔ امام عبد الوہاب شعرانی مسیح موعود کے متعلق لکھتے ہیں:
فَیُرْسِلُ وَلیًّا ذَا نُبُوَّۃٍ مُطْلِقَۃٍ وَیُلْھَمُبِشَرْعِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَیَفْہَمُہٗ عَلٰی وَجْھِہٖ
(الیواقیت والجواہر جلد ٢ صفحہ ٨٩ بحث نمبر ٤٧١)
ترجمہ: مسیح موعود نبوّت مطلقہ رکھنے والے ولی کی صورت میں بھیجا جائے گا۔ اس پر شریعت محمدیہ الہاماً نازل ہو گی اور وہ اسے ٹھیک ٹھیک سمجھے گا۔
پس مسیح موعود پر الہاماً شرع محمدیہ کے بعض اوامر و نواہی کا نزول اس کو مستقل صاحبِ شریعت نبی نہیں بناتا۔ کیونکہ اسے نبی الاولیاء ہی قرار دیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ غیر تشریعی نبی ہی ہو گا۔ پس قرآن کریم کا مسیح موعود پر الہاماً نزول جب پہلے بزرگوں کے نزدیک بھی اُسے مستقل صاحبِ شریعت نبی نہیں بناتا تو مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا اربعین کی زیرِ بحث عبارت سے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ پر یہ الزام دینا کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ مستقل نبی اور مستقل صاحبِ شریعت ہونے کے دعویدار تھے۔
افسوس ہے کہ مخالفین بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے خلاف لکھتے ہوئے خوف خدا کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور لوگوں کو آپ سے بدظن کرنے کے لئے آپ پر افتراء کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔
جب مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے دیکھا کہ اربعین کی عبارت میں تو مستقل صاحب ِشریعت یا مستقل نبی کے الفاظ نہیں تو انہوں نے اپنے افتراء کو صحیح ثابت کرنے کے لئے بعض اور الزامات دے دیئے۔
جہاد کی منسوخی کا الزام
سب سے پہلے وہ آپ پر جہاد کی منسوخی کا الزام لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
‘‘بعض اہم، قطعی اور متواتر احکامِ شریعت کو پوری قوت اور صراحت کے ساتھ منسوخ اور کالعدم کر دینا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایساصاحبِ شریعت اور ایسا صاحبِ امر و نہی سمجھتے تھے جو قرآنی شریعت کو منسوخ کر سکتا ہے۔ چنانچہ جہاد جیسے منصوص قرآنی حکم کو جس پر اُمّت کا تعامل اور تواتر ہے اور جس کے متعلق صریح حدیث ہے اَلْجِھَادُ مَاضٍ اِلٰی یَوْمِ الْقَیَامَۃِکی ممانعت کرنا اور اس کو منسوخ قرار دینا اس کا روشن ثبوت ہے۔’’
مولوی صاحب بزعم خود اس کے ثبوت میں اربعین نمبر۴، روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۴۴۳کے حاشیہ سے ذیل کا اقتباس پیش کرتے ہیں:۔
‘‘جہادیعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خدا تعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کے وقت میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی قتل سے بچا نہیں سکتا تھا اور شِیر خوار بچے بھی قتل کئے جاتے تھے۔ پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں بچوں اور بڈھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیا گیا اور پھر بعض قوموں کے لئے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذہ سے نجات پانا قبول کیا گیا اور پھر مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا۔’’
(اربعین نمبر۴، روحانی خزائن جلد ۱۷، صفحہ۴۴۳)
مولوی ندوی صاحب سنیئے! مسیح موعود کے وقت میں جہاد یا جزیہ کا موقوف کیا جانا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے مروی ہے۔ چنانچہ نزول مسیح کے باب میں صحیح بخاری کی ایک حدیث میں مسیح موعود کے متعلق یَضَعُ الْحَرْبَ کے الفاظ بھی وارد ہیں اور بعض نسخوں میںیَضَعُ الْجِزْیَةَکے الفاظ ہیں۔ خود حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:۔
‘‘صحیح بخاری کو کھولو اور اس حدیث کو پڑھو جو مسیح موعود کے حق میں ہے یعنییَضَعُ الْحَرْبَ جس کے یہ معنی ہیں کہ جب مسیح آئے گا تو جہادی لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا سو مسیح آچکا اور یہی ہے جو تم سے بول رہا ہے۔’’
(خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ۱۷)
پس حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ نے جہاد بمعنی قتال کے حکم کو ہرگز از خود موقوف نہیں کیا بلکہ اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے مسیح موعودؑ کے زمانہ میں موقوف کئے جانے کا اعلان کیا ہے۔ پس جہاد بمعنی قتال کو مسیح موعودؑ نے ہرگز ہمیشہ کے لئے منسوخ نہیں کیا بلکہ صرف اپنے وقت میں اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کیطرف سے پورے طور پر موقوف کئے جانے کا اعلان کیا ہے قطعی موقوف کے معنی اس جگہ پورے طور پر موقوف کے ہیں نہ ان معنوں میں کہ جہاد بمعنی قتال آئندہ کے لئے تا قیامت عَلَی الْاِطْلَاق موقوف ہو گیا ہے۔ پس آپ کے نزدیک جہاد بمعنی قتال کی پورے طور پر موقوفی مسیح موعود کے زمانہ حیات سے تعلق رکھتی ہے اور وہ بھیا س وجہ سے کہ مسیح موعود کے زمانۂ حیات میں جہاد کی شرائط جب سے وہ فرض ہوتا ہے مفقود تھیں۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘اِنَّ وُجُوْہُ الْجِھَادِ مَعْدُوْمَةٌ فِیْ ھٰذَا الزَّمَنِ وَِفی ھٰذِہِ الْبِلَادِ’’۔
(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ۸۲)
یعنی اس زمانہ اور ملک میں جہاد کی شرائط موجود نہیں۔
جس نظم میں آپ نے قتال کو اس زمانہ میں حرام قرار دیا ہے آگے لکھا ہے۔
فرما چکے ہیں سیدِ کونین مصطفیٰ
عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا
اس سے ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک مسیح موعود کے زمانہ میں جہاد بالسیف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے مطابق صرف ملتوی ہوا ہے نہ کہ دائمی موقوف ۔علی الدوام موقوفی کا کوئی اعلان آپ کی طرف سے موجود نہیں۔ بلکہ آپ کے بعد شرائط جہاد پیدا ہو جانے پر جہاد واجب رہتا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘اس زمانہ میں جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا اور اس زمانہ کا جہاد یہی ہے کہ اعلائے کلمہٴ اسلام میں کوشش کریں۔ مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں۔ دین اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلائیں۔ یہی جہاد ہے جب تک کہ خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کر دے۔’’
(مکتوب حضرت مسیح موعودؑ بنام حضرت میر ناصر نواب صاحب
مندرجہ رسالہ درود شریف مؤلفہ محمد اسماعیل صاحبؓ فاضل)
پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چونکہ اپنی طرف سے جہاد کو اس زمانہ میں موقوف قرار نہیں دیا بلکہ اس کا اعلان نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے کیا ہے۔ اور آئندہ زمانہ میں اس کا امکان بھی تسلیم کیا ہے کہ جہاد بصورتِ قتال کی صورت پیدا بھی ہو سکتی ہے لیکن میرے وقت میں اس کی شرائط موجود نہیں۔ لہذا آپ پر جہاد کو منسوخ کرنے کا الزام سراسر نا انصافی ہے۔
اَلْجِھَادُ مَاضٍ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ(عمدۃ القاری شرح بخاری کتاب الجہاد باب من احتبس فرسا فی سبیل اللّٰہ )کی حدیث تو صحیح ہے مگر یہاں جہاد کا لفظ محدود معنی میں نہیں۔ جہاد تو وسیع معنی رکھتا ہے۔ ہر وہ جدّو جہد جو دین کی خاطر اور اعلائے کلمہٴ اسلام کی خاطر کی جائے قرآن کریم اسے جہاد کبیر قرار دیتا ہے۔ فرمایا’’وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا‘‘کہ قرآن کریم کی اشاعت کے ذریعہ جہاد کبیر کرو۔ نیز جہاد کا حکم مکّی سورت میں نازل ہوا تھا حالانکہمکّہ میں اس وقت کوئی لڑائی نہیں لڑی گئی تھی۔ پس حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے زمانہ میں جہاد بند نہیں ہوا، صرف قتال کی صورت کا جہاد ملتوی ہوا ہے۔ تبلیغ اسلام کے جہاد میںآپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور آپ کی جماعت بھی حصہ لے رہی ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جابر بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا بھی ایک جہاد ہے۔ اس کے مطابق حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے انگریز کی سلطنت میں رہتے ہوئے ملکہ معظمہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام دی اور اب ساری دنیا میں آپ کی جماعت دعوت اسلام دے رہی ہے۔ پس مسیح موعودؑ کے زمانہ میں جہاد بند نہیں ہوا۔ بصورت قتال ملتوی ہوا ہے کیونکہ قتال کے متعلق قرآنی ہدایت ہے قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا إِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ (البقرۃ:۱۹۱)کہ اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑائی کرو جو تم سے لڑتے ہیں اور تمہاری طرف سے زیادتی نہ ہو۔ یعنی نہ ابتدا ہو اور نہ قوانین جہاد کی خلاف ورزی۔ کیونکہ خدا معتدین کو دوست نہیں رکھتا۔
غیر از جماعت سے معاملات کسی جدید شریعت کی بناء پر نہیں
مسئلہ جہاد کے بعد ندوی صاحب نے غیر از جماعت لوگوں کی تکفیر، اُن کو امام الصلوٰة بنانے، اُن سے مناکحت اور اُن کے جنازوں کی ممانعت کو ایک نئی شریعت قرار دیا ہے۔ ان امور کے بارے میںیہ واضح ہو کہ ایسے تمام معاملات کا اظہار آپ کے خلاف علماء کے فتاویٰ کے ردِّ عمل کے طور پر ہوا ہے نہ ابتداء ً ۔چنانچہ حضرت بانیٴ سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتاب حقیقۃالوحی کے صفحہ۱۲۰پر علماء کے فتاوٰی کے ذکر میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’پہلے ان لوگوں نے میرے پر کفر کا فتویٰ تیار کیا اور قریباً دوسو مولوی نے اس پرمہریں لگائیں اور ہمیں کافر ٹھہرایا گیا۔ اور اُن فتووں میںیہاں تک تشدد کیا گیا کہ بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لوگ کفر میںیہود اور نصاریٰ سے بھی بد تر ہیں اور عام طور پریہ بھی فتوے دئے کہ ان لوگوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کرنا چاہئے۔ اور ان لوگوں کے ساتھ سلام اور مصافحہ نہیں کرنا چاہئے۔ اور اُن کے پیچھے نماز درست نہیں کافر جو ہوئے۔ بلکہ چاہئے کہ یہ لوگ مساجد میں داخل نہ ہونے پاویں کیونکہ کافر ہیں۔ مسجدیں ان سے پلید ہو جاتی ہیں۔ اور اگر داخل ہوجا ئیں تو مسجد کو دھو ڈالنا چاہئے۔ اوران کا مال چُرانا درست ہے اور یہ لوگ واجب القتل ہیں کیونکہ مہدی خُونی کے آنے سے انکاری اور جہاد سے منکر ہیں۔…… پھر اس جھوٹ کو تو دیکھو کہ ہمارے ذمّہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم نے بیس کروڑ مسلمان اور کلمہ گو کو کافر ٹھہرایا۔ حالانکہ ہماری طرف سے تکفیر میں کوئی سبقت نہیں ہوئی۔ خود ہی ان کے علماء نے ہم پر کفر کے فتوے لکھے اور تمام پنجاب اور ہندوستان میں شور ڈالا کہ یہ لوگ کافر ہیں اور نادان لوگ ان فتووں سے ایسے ہم سے متنفر ہو گئے کہ ہم سے سیدھے مُنہ سے کوئی نرم بات کرنا بھی اُن کے نزدیک گناہ ہو گیا۔کیا کوئی مولوییا کوئی اور مخالف یا کوئی سجّادہ نشینیہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا۔ اگر کوئی ایسا کاغذ یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتوائے کفر سے پہلے شائع ہوا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہو تو وہ پیش کریں ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو ٹھہراویں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگاویں کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے…… پھر جبکہ ہمیں اپنے فتووں کے ذریعہ سے کافر ٹھہرا چکے اور آپ ہی اس بات کے قائل بھی ہو گئے کہ جو شخص مسلمان کو کافر کہے تو کفر اُلٹ کر اُسی پر پڑتا ہے تو اِس صورت میں کیا ہمارا حق نہ تھا کہ بموجب اُنہیں کے اقرار کے ہم اُن کو کافر کہتے۔‘‘
(حقیقۃالوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۲۲ تا ۱۲۴)
اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی طرف سے فتویٰ تکفیر میں ابتدا نہیں ہوئی۔ بلکہ یہ تمام معاملات یعنی تکفیر، حرمتِ امامت، جنازہ اور مناکحت کی ممانعت مخالف علماء کے ایسے فتووں کے ردِّ عمل کے طور پر ہوئی ہے جن میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ اور آپ کی جماعت کو کافر ٹھہرایا گیا اور ان سے مناکحت اور ان کی امامتاور جنازےکو نا جائز قرار دیا گیا۔ پس شریعت نئی تو ان علماء نے بنائی کہ ایک مسلمان کو جو کلمہ شہادت لا الٰہ الا اللّٰہ محمّد رسول اللّٰہ کا قائل ہے اور تمام ایمانیات کا قائل، اس کی بلا وجہ علماء کی طرف سے تکفیر ہوئی اور اس سے اور اس کی جماعت سے قطع تعلق کیا گیا اور ان کے خلاف انتہائی تشدّد کا طریق اختیار کیا گیا تو رسول کریم کے اس ارشاد کے ماتحت کہ ایک مسلمان کو کافر قرار دینے والا خود کافر ہوجاتا ہے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کو یہ حق پہنچ گیا کہ وہ آیتجَزَآءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا (الشُورٰى:۴۱)کے مطابق انہیں کافر کہیں۔ کیونکہ حدیث نبوی میں وارد ہے کہ جو مسلمان کو کافر کہے یہ کفر اسی پر لوٹ کر آتا ہے۔ پس بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے ایسے فتاوٰی شریعتِ محمدیہ کے عین مطابق ہیں نہ کہ کوئی نئی شریعت۔
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے اپنے اس الزام کو مضبوط کرنے کے لئے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے مستقل صاحبِ شریعت ہونے کا دعویٰ کیا ہے پہلے تریاق القلوب کی ذیل کی عبارت درج کی ہے:۔
‘‘یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اپنے دعوےکے انکار کرنے والے کو کافر کہنا صرف ان نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدیدہ لائے ہیں۔ لیکنصاحبِ شریعت کے ماسوا جس قدر ملہم اور محدّث ہیں گو وہ کیسے ہیجنابِ الٰہی میں شان رکھتے ہوں اور خلعتِ مکالمہ الٰہیہ سے سرفراز ہوں ان کے انکار سے کوئی کافر نہیں بن جاتا۔’’
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد۱۵ حاشیہ صفحہ ۴۳۲)
پھر اس کے مقابل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذیل کی چار عبارتیں پیش کی ہیں اور یہ نتیجہ پیش کرنا چاہاہے کہ آپ نے تریاق القلوب میں کافر قرار دینا ان نبیوں کی شان بتائی ہے جو صاحبِ شریعت اور اور احکام جدیدہ لانے والے ہوں اور اس کے مقابل ان عبارتوں میں جو درج ذیل ہیں اپنے منکرین کو کافر قرار دیا ہے۔ لہذا آپ کا دعویٰ شریعتِ جدیدہلانے کا ہے۔
(۱) ‘‘انہیں دنوں میں آسمان سے ایک فرقہ کی بنیاد ڈالی جائے گی اور خدا اپنے منہ سے اس فرقہ کی حمایت کے لئے ایک قرنا بجائے گا اور اس قرنا کی آواز سے ہر ایک سعید اس فرقہ کی طرف کھچا آئے گا بجز ان لوگوں کے جو شقی ازلی ہیں جو دوزخ کے بھرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔’’
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۱۰۸، ۱۰۹)
(۲)مجھے الہام ہوا ہے کہ‘‘ جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اورجہنمیہے۔’’
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۳۹۴)
(۳) ‘‘خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا ہے وہ مسلمان نہیں ہے۔ ’’
(از ذکر الحکیمنمبر۲صفحہ۲۴مرتبہ ڈاکٹر عبد الحکیم صاحب
منقول از اخبار الفضل مورخہ ۱۵ـجنوری۱۹۳۵ء، صفحہ۸ کالم۱)
(۴) ‘‘کفر دو قسم پر ہے (اوّل)ایکیہکفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ (دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے کافر ہے، اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں کیونکہ جو شخص باوجود شناخت کر لینے کے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا، وہ بموجب نصوصِ صریحہ قرآن و حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔’’
(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۱۸۵، ۱۸۶)
اوریہ نتیجہ پیش کرنا چاہا ہے کہ آپؑ نے تریاق القلوب میں کافر قرار دینا ان نبیوں کی شان بتائی ہے جو صاحبِ شریعت اور احکام جدیدہ لانے والے ہوں اور اس کے مقابل مندرجہ بالا چار عبارتوں میں اپنے منکرین کو کافر قرار دیا ہے لہذا آپ کا دعویٰ شریعت جدیدہ لانے کا ہے۔
آخری عبارت جو حقیقۃالوحی سے مولوی ابوالحسن صاحب ندوی نے پیش کی ہے، سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے کفر کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔ اوّل قسم کفر سرے سے اسلام کا انکار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے انکار کو قرار دیا ہے جس سے انسان غیر مسلم کہلاتا ہے۔
آپ نے غیر از جماعت مسلمانوں کو کبھی اس قسم کا کافر قرار نہیں دیا۔ تریاق القلوب کی جو عبارت مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے پیش کی ہے اس کے الفاظ کافر قرار دینا ان نبیوں کی شان ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکامِ جدیدہ لاتے ہیں کا مَنطوق حقیقۃالوحی کے مندرجہ بالا حوالہ کی روشنی میں کفرقسمِ اوّل ہی ہے۔ کیونکہ شریعت اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے انکار کو کفر کو قسمِ اوّل قرار دیا ہے۔
اس جگہ مسیح موعود کے منکر کو آپ ؑنے کافر قسمِ دوم قرار دیا ہے کیونکہ آپ شریعتِ جدیدہ لانے والے نہیں تھے۔ اگر آپ کا شریعت جدیدہ لانے کا دعویٰ ہوتا تو آپ اپنے منکرین کو بھی کافر قسمِ اوّل قرار دیتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔
لہذا حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے نزدیک غیر از جماعت مسلمان مسیح موعود کا انکار کر کے ملّتِ اسلامیہ کی چار دیواری میں داخل ہیں۔ کفر قسم دوم کی وجہ سے وہ غیرمسلم نہیں۔
پس جب آپؑ نے کفر کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔ قسم اول اسلام و آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا انکار اور قسم دوم مثلاً مسیح موعود علیہ السلام کا انکار تو منطقی لحاظ سے ان دونوں قسموں کو ایک قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ایک حقیقت کی دو قسموں میں ہمیشہ تبائن اور تضاد پایا جاتا ہے۔ انہیں گو اطلاق اور جنس کے لحاظ سے تو ایک قسم قرار دیا جا سکتا ہے مگر حقیقت میں وہ دونوں کفر کی الگ الگ نوعیتیں ہیں۔
قسم اول کا کفر شریعت جدیدہ کے انکار اور شارع نبی کے انکار سے لازم آتا ہے۔ اور دوسری قسم کا کفر غیر تشریعی نبی کے انکار سے لازم آتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چونکہ اپنے انکار کو کفر قسم اول قرار نہیں دیا۔ لہذا آپ پر شریعتِ جدیدہ لانے کا دعویٰ منسوب کرنا محض مولوی ابو الحسن ندوی کا افترا ہے۔
افسوس ہے کہ مولوی ابو الحسن صاحب نے حقیقۃالوحی کا حوالہ پورا درج نہیں کیا جس سے باقی تمام عبارتیں حل ہو جاتی ہیں۔حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے حقیقۃالوحی کی محولہ بالا عبارت سے آگے لکھا ہے:۔
’’اس میں شک نہیں کہ جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اول قسم کفر یا دوسری قسم کفر کی نسبت اتمام حجت ہو چکا ہے وہ قیامتکے دن مواخذہ کے لائق ہو گا اور جس پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا اور وہ مکذّب و منکر ہے تو گو شریعت نے( جس کی بناء پر ظاہر ہے) اس کا نام بھی کافر ہی رکھا ہے اور ہم بھی اس کو باتباع شریعت کافر کے نام سے ہی پکارتے ہیں مگر پھر وہ وہ خدا کے نزدیک بموجب آیتلَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة : ۲۸۷)کے قابل ِمواخذہ نہیں ہو گا۔ ہاں ہم اس بات کے مجاز نہیں کہ اس کی نجات کا حکم دیں۔ اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے ہمیں اس میں دخل نہیں اور جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوںیہ علم محض خدا تعالیٰ کو ہے کہ اس کے نزدیک باوجود دلائل عقلیہ او ر نقلیہ اور عمدہ تعلیم اور آسمانی نشانوں کے کس پر ابھی تک اتمام حجت نہیں ہوا۔‘‘
(حقیقۃالوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۱۸۶)
اس سے پہلے صفحہ۱۷۹ پر تحریر فرماتے ہیں:۔
’’بہرحال کسی کے کفر اور اس پر اتمام حجت کے بارے میں فرد فرد کا حال دریافت کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ اس کا کام ہے جو عالم الغیب ہے۔ ہم اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے نزدیک جس پر اتمام حجت ہو چکا ہے اور خدا کے نزدیک جو منکر ٹھہر چکا ہے وہ مواخذہ کے لائق ہو گا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۸۵)
پس مولوی ابو الحسن صاحب کی اپنی کتاب کے صفحہ ۹۸ پر جن کے دوزخ میں پڑنے اور جہنمی ہونے کا ذکر ہے ان سے مراد ایسے لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کے نزدیک اتمام حجت ہو چکا وہی آپ کے نزدیک عند اللہ قابل مواخذہ ہیں۔ لیکن جن پر اتمام حجت نہیں ہوا وہ عند اللہ قابل مواخذہ یعنی دوزخی اور جہنمی نہیں۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے جب صاف لکھ دیا ہے:۔
’’کسی کے کفر اور اس پر اتمام حجت کے بارے میں فرد فرد کا حال دریافت کرنا ہمارا کام نہیں ہے یہ اس کا کام ہے جو عالم الغیب ہے۔ ہم اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ خدا کے نزدیک جس پر اتمام حجت ہو چکا ہے اور خدا کے نزدیک جو منکر ٹھہر چکا ہے وہ مواخذہ کے لائق ہو گا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۸۵)
تو پھر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی ان عبارتوں سے سب منکرین مسیح موعود علیہ السلام کو جہنمی قرار دینے کا نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں بلکہ ان ہر دو عبارتوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیحقیقۃ الوحی میں مندرج عبارت کی روشنی میں پڑھنا چاہئے کہ جن منکرین پر خدا کے نزدیک حجت پوری ہو چکی وہ قابل مواخذہ ہوں گے اور جن پر عنداللہ حجت پوری نہیں ہوئی وہ قابل مواخذہ نہیں ہوں گے۔ اس بارہ میں فرد فرد کا حال دریافت کرنا ہمارا کام نہیں،یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے جو علّام الغیوب ہے۔
تیسری عبارت میں جو یہ لکھا ہے کہ وہ مسلمان نہیں اس سے مراد یہ ہے کہ منکرینِ مسیح موعود کامل مسلمان نہیں۔ اس جگہ مسلمان ہونے کی علی الاطلاق نفی مراد نہیں بلکہ نفیٴ کمال مراد ہے جس پر آپؑ کا الہام ‘‘مسلماں را مسلماں باز کردند’’ جو مسلمانوں کو پورا مسلمان بنانے کے ذکر پر مشتمل ہے شاہدِ ناطق ہے۔ آپ کے اس الہام میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منکرین مسلمانوں کا نام مسلمان ہی رکھا ہے اور سب احمدی اس الہام کے مطابق ان کا نام مسلمان ہی رکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا آپ کے خلفاء نے کہیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرنے والے مسلمانوں کا نام غیر مسلم نہیں رکھا۔ کیونکہ مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کفر قسم دوم ہے نہ کفر قسم اوّل۔ آپؑ کے نزدیک کافر قسم اوّل وہ ہوتا ہے جو سرے سے اسلام کا انکار کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا کا رسول نہ مانے۔ہم مسیح موعود ؑ کے منکرین مسلمانوں کو ہرگز ایسے کفر کا مرتکب نہیں جانتے جو اسلام کے انکار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے انکار سے پیدا ہوتا ہے۔ ہاں مسیح موعود علیہ السلام کے انکار کو ہم بعض دوسریبدعقیدگیوں میں سے جانتے ہیں جن کے انکار سے مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر مندرجہ حقیقۃالوحی کے مطابق دوسری قسم کا کفر لازم آتا ہے جس سے ایک مسلمان کہلانے والا بوجہ کلمہ گو ہونے کے ملّت ِاسلامیہ اور اُمّت محمدیہ سے خارج نہیں ہو جاتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسا شخص حقیقتِ اسلام کو سمجھنے سے دور ہو جاتا ہے۔ جب تک خدا تعالیٰ اسے روشنی عطا نہ فرمائے۔ اسی مفہوم میںخلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کو دائرہ اسلام سے خارج کہاتھا۔ گویایہ الفاظ بطور تغلیط کے تھے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے۔
مَنْ مَشَیٰ مَعَظَالِمٍ لِیُقَوِّیَہُ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْاِسْلَامِ
(مشکوٰة، کتاب الآداب الفصل الثالث)
کہ جو شخص ایک ظالم کے ساتھ اسے قوت دینے چل پڑا وہ اسلام سے نکل گیا۔
مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کییہ نہیں کہ وہ بالکل مسلمان نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ظالم کی مدد کی وجہ سے گو وہ بظاہر مسلمان ہی سمجھا جائے گا مگر حقیقتِ اسلام سے دور جا پڑتا ہے۔ آئینہ صداقت کی اس عبارت کی تصریح خود حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے ایسی ہی کی تھی۔
’’کافر کے ہم ہرگز یہ معنی نہیں لیتے کہ ایسا شخص جو کہتا ہو کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مانتا ہوں اُسے کون کہہ سکتا ہے کہ تو نہیں مانتا۔ یا کافر کے ہم ہرگز یہ معنی نہیں لیتے کہ ایسا شخص جو خدا تعالیٰ کا منکر ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص کہتا ہو کہ میں خدا تعالیٰ کو مانتاہوں تو اسے کون کہہ سکتا ہے کہ تو خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا۔ ہمارے نزدیک اسلام کے اصول میں سے کسی اصل کا انکار کفر ہے جس کے بغیر کوئی شخص حقیقی طور پر مسلمان نہیں کہلا سکتا۔ ہمارا یہ عقیدہ ہرگز نہیں کہ کافر جہنّمیہوتاہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک کافر ہو اور وہ جنّتی ہو۔ مثلاً منکر ہے ناواقفیت کیحالت میں ہی ساری عمر رہا ہو اوراس پر اتمامِ حجت نہ ہوئی ہو۔ پس گو ہم ایسے شخص کے متعلق یہی کہیں گے کہ وہ کافر ہے مگر خدا تعالیٰ اُسے دوزخ میں نہیں ڈالے گا کیونکہحقیقی دین کا اُسے کچھ علم نہ تھا اور خدا ظالم نہیں کہ وہ بے قصور کو سزا دے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۶، اپریل۱۹۵۳ مطبوعہ الفضل یکم مئی۱۹۳۵ء صفحہ۸ کالم۳)
پس مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا پیش کردہ نتیجہ بالکل غلط ہے کہ منکرین مسیح موعود کو کافر کہنے کی وجہ سے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ شریعت جدیدہ لانے کے دعویدارہیں۔ اگر بالفرض مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا مزعوم مسیح آجائے تو ہم ان سے پوچھتے ہیں مسلمانوں میں اس کا انکار کرنے والا منکر کافر ہو گا یا نہیں؟ اگر وہ اس کے منکر کو کافر قرار دیں،اور اس کو ایسا کہنا چاہئے، تو پھر مولوی صاحب بتائیں کیا وہ قرآن مجید کے بعد ایک جدید شریعت لانے کے مدعی قرار پائیں گے؟ اگر نہیں تو فقہی طور پر مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کو یہیکہنا پڑے گا کہ مسیح موعود کا منکر کافر قسم دوم ہوگا نہ کافر قسم اول۔ پس مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا مزعوم مسیح موعود شریعت جدیدہ لانے کے الزام سے تبھی بچ سکتا ہے کہ اس کے انکار کو مولوی ابو الحسن صاحب ندوی بھی کفر قسم اول قرار نہ دیں بلکہ کفر قسم دوم قرار دیں۔
حقیقۃالوحی کی عبارت میں دوسری قسم کا کافر حقیقۃًاس شخص کو قرار دیا گیا ہے جو باوجود شناخت کر لینے کے اور اس پر اتمام حجت ہو جانے کے آپؑ کو جھوٹا جانتا ہو۔ کیونکہ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’دوسرےیہ کفر کہ مثلاًوہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اُس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۸۵)
پس جس پر اتمام حجت نہیں ہوا وہ اگر منکر مسیح موعود ہے تو اس میں کفر قسم دوم عند اللہ حقیقۃً نہیں پایا جائے گا۔ ہاں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں پر حجت پوری ہو گئی اور فلاں پر نہیں اس لئے منکرین مسیح موعود کو ایک ہی زمرہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ رہا انکار پر مؤاخذہ کا معاملہ تو وہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے جو عالم الغیب ہے اور جو دلوں کے حالات کو خوب جانتا ہے۔
پس جب مولوی ابو الحسن صاحب ندوی اپنے مزعوم مسیح موعود کے منکر کو کافر ٹھہرانے کے باوجود شریعت جدیدہ لانے کا مدّعی نہیں جانتے اور نہ اس کے منکروں کو امامتصلوٰة کا حق دینے کے لئے تیار ہیں اور نہ ایسے شخص سے مناکحت جائز سمجھتے ہیں اور نہ ایسے شخص کا جنازہ پڑھنے کو تیار ہیں اور ان امور کو نئی شریعت لانا قرار نہیں دیتے تو بانیٔ سلسلہ احمدیہ پر ان کو انہی امور کی وجہ سے شریعت جدیدہ لانے کا مدّعی قرار دینے کا کیا حق ہے؟ یہ تو انصاف کے خون کے مترادف ہے کہ دینے کے لئے مولوی ابو الحسن صاحب اور پیمانہ استعمال کریں اور لینے کے لئے اور۔
مولوی ابو الحسن صاحب! جب اربعین میں مستقل طور پر صاحبِ شریعت ہونے کا ذکر موجود نہیں اور نہ کسی اور عبارت میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے سارے لٹریچر میں مستقل صاحبِ شریعتیا مستقل نبی ہونے کا ذکر ہے بلکہ اس کی تردید موجود ہے تو پھر آپ نے کس طرح یہ نتیجہ نکال لیا کہ بانیٔسلسلہ احمدیہ مستقل صاحبِ شریعت ہونے کے مدعی ہیں؟سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْم۔
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ نے مسیح موعود کا دعویٰ کسی کے مشورہ سے نہیں کیا
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کا دعویٰیہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ(بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسیَ ابنِ مریم علیہما السلام)وغیرہ احادیث میں جو نزول ابن مریم کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ اس میں ابن مریم کا لفظ بقرینہ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْو بقرینہ وفاتِ عیسیٰ علیہ السلام استعارہ کے طور پر ہے اور مراد ابن مریم سے مثیلِ مسیح ابن مریم ہے اور اس کا مصداق اُمّت میں سے آپؑ کا وجود ہے۔ اس طرح کہ آپ مثیل مسیحہو کر اس پیشگوئی کا مصداق ہونے کی وجہ سے اُمّت کے لئے مسیح موعود ہیں۔ آپ نے مسیح موعود کی اس پیشگوئی کا مصداق ان الہامات الٰہیہ کی روشنی میں قرار دیا ہے جو درج ذیل ہیں:
اوّل: مسیحابنِ مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اُس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔ وَ کَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا
دوم: جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَکہ ہم نے تجھے مسیح بن مریم بنا دیا ہے۔
اِن الہامات سے قبل آپ کا دعویٰ مثیل مسیح ہونے کا تو تھا مسیح موعود ہونے کا نہ تھا اور یہ دعویٰ براہین احمدیہ کے زمانہ سے تھا اور یہ الہام الٰہیاَنْتَ اَشَدُّ مُنَا سِبَةً بِعِیْسیَ بْنِ مَرْیَمَ خُلُقًا وَ خَلْقًاکی روشنی میں تھا۔ جب آپ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے مندرجہ بالا دو الہامات کی بناء پر انکشاف ہو گیا کہ اُمّت میں مسیح بن مریم کے نزول کی پیشگوئی کا مصداق آپ ہی ہیں تو آپ نے بطور مثیلِ مسیح، مسیح موعود ہونے کا اعلان فرما دیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس دعویٰ کا سرچشمہ الہامات الٰہیہہیں نہ کسی کا کوئی اجتہادی امر،اور یہ بھی ظاہر ہے کہ آپ کا یہ دعویٰ کسی انسان سے مشورہ لینے کے بعد نہیں۔ مگر مولوی ابو الحسن صاحب ندوی دور کی کوڑی لائے ہیں اور انہوں نے آپ کے اس دعویٰ کا فکری سرچشمہ اور مجوز اور مصنف حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کو قرار دیا ہے۔ چنانچہ مولوی ندوی صاحب اپنی کتاب قادیانیت کے صفحہ۶۶ پر لکھتے ہیں:۔
’’اسی سال(۱۸۹۱ء) کے آغاز میں حکیم صاحب نے ایک خط میں مرزا صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کریں۔‘‘
اوریہ بھی لکھا کہ:۔
’’ہم کو حکیم صاحب کا اصل خط تو نہیں مل سکا۔ لیکن مرزا صاحب نے اس خط کا جو جواب لکھا اس میں حکیم صاحب کے اس مشورہ کا حوالہ ہے۔ یہ خط ان کے مجموعہٴ مکاتیب میں موجود ہے اور اس پر ۲۴ـجنوری۱۸۹۱ء کی تاریخ درج ہے۔ اس سے اس تحریک کے فکری سرچشمہ اور اس کے اصل مجوّز اور مصنّف کا علم ہوتا ہے۔‘‘
اِس عبارت سے ظاہر ہے کہ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے دعویٰءمسیح موعود کا اصل مجوّز اور مصنّف حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحبکو قرار دینا چاہتے ہیں اور انہیں ہی تحریک احمدیت کا فکری سرچشمہ ٹھہراتے ہیں۔ مگر اس امر کے ثبوت میں مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے خط کا جو اقتباس پیش کیا ہے اس سے ان کے اس خیال کی تائید نہیں بلکہ تردید ہوتی ہے۔ خط کا پیش کردہ اقتباس قادیانیت صفحہ۶۷ کے مطابق یوں ہے۔
’’ جو کچھ آنمخدوم نے تحریر فرمایا ہے کہ اگر دمشقی حدیث کی بنیاد کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مثیلِ مسیح کا دعویٰ ظاہر کیا جائے تو اس میں حرج کیا ہے؟ درحقیقت اِس عاجز کو مثیلِ مسیح بننے کی کچھ حاجت نہیں۔ یہ بننا چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے عاجز اور مطیع بندوں میں شامل کر لیوے۔ لیکن ہم ابتلاء سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتے۔ خدا تعالیٰ نے ترقی کا ذریعہ صرف ابتلاء کو ہی رکھا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہےاَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۔ ‘‘
(بحوالہ مکتوبات جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ۸۵۔مکتوبات احمد جلد۲ صفحہ۹۹ ۔ایڈیشن۲۰۰۸ء)
یہ اقتباس دے کر ندوی صاحب لکھتے ہیں:۔
‘‘اس مشورہ کے حقیقی اسباب و محرکات کیا تھے؟ کیایہ حکیم صاحب کی دور بینی اور دور اندیشی اور حوصلہ مند طبیعت ہی کا نتیجہ تھا یایہ حکومتِ وقت کے اشارہ سے تھا جس کو ماضی قریب میں حضرت سید صاحب کی دینی و روحانی شخصیت اور ان کی تحریک و دعوت سے بڑا نقصان پہنچ چکا تھا اور اسی دورمیں مہدی سوڈانی کے دعویٰ مہدویّت سے سوڈان میں ایک زبردست شورش اور بغاوت پیدا ہو چکی تھی۔ اس سب کے توڑ اور آئندہ کے خطرات کے سدِّباب کے لئے یہی صورت مناسب تھی کہ کوئی قابلِ اعتماد شخصیت جس نے مسلمانوں میں اپنی دینی خدمات اور جوش مذہبی سے اثر و رسوخ پیدا کر لیا ہو مسیح موعود کے دعوے اور اعلان کے ساتھ کھڑی ہو اور وہ مسلمان جو ایک عرصہ سے مسیح موعود کے منتظر ہیں اُس کے گرد جمع ہو جائیں۔ ہم وثوق کے ساتھ ان میں سے کسی ایک چیز کی تعیین نہیں کر سکتے اور نہ اسباب و محرکات کا پتہ لگانا آسان ہے لیکن اس خط سے اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اس تحریک کا آغاز کس طرح ہوتا ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۶۷،۶۸)
یہاںیہ بات بھییاد رکھنے کے قابل ہے کہ انبیاء و مرسلین کی بعثت کا معاملہ باہمی مشورہ سے طے نہیں پاتا۔ اُن پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے اور اُن کو اُن کے منصب اور مقام کی قطعی اور پوری خبر دی جاتی ہے اور وہ یقین سے سرشار ہوتے ہیں اورپہلے دن سے ہی اس کا اعلان اور اس پر اصرار کرتے ہیں۔ اُن کے عقیدہ اور دعوت کا سلسلہ کسی تجویزیا راہنمائی کا رہین منّت نہیں ہوتا۔ ان کا پہلے دن سے کہنا ہوتا ہے وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَأَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔مجھے اسی کا حکم ہوا ہے اور میں پہلا فرمانبردار ہوں۔وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَأَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ مجھے اسی کا حکم ہے اور مَیں اس کا پہلا یقین کرنے والا ہوں۔
خط کا اقتباس دے کر تو مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے دعویٴ مسیح موعود کا اصل مجوز اور مصنف اور تحریک کا فکری سرچشمہ حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحبکو قرار دیا ہے۔ لیکن اقتباس کے بعد وہ خود اس بات پر قائم نہیں رہے اور یہ لکھ رہے ہیں کہ یہ حکیم صاحب کی دوربینی، دور اندیشییا حوصلہ مند طبیعت کی وجہ سے تھا یا حکومت ِوقت کے اشارہ سے تھا۔ اور آخر میںیہ لکھتے ہیں کہ انبیاء اور مرسلین کا معاملہ ان خارجی تحریکات اور مشوروں سے الگ ہے۔ اُن کو آسمان سے وحی ہوتی ہے، اُن کو اُن کے منصب و مقام کی قطعی اور واضح خبر دی جاتی ہے۔
ہم اس مضمون کے شروع میںبانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وحی درج کر چکے ہیں جو مسیح موعود کے دعویٰ کے متعلق آپ پر آسمان سے نازل ہو ئی۔ جس میں اُن کو اُن کے منصب و مقام کی واضح طور پر خبر دی جا چکی ہے کہ آپ مسیح ابن مریم کی پیشگوئی کا مصداق ہیں اور مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور آپ اس کے رنگ میں رنگین ہو کر خدا کے وعدہ کے موافق آئے ہیں۔ اس سے قبل جب آپ پر مثیل مسیح ہونے کا انکشاف ہوا تھا تو اپنے الہام فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرْ کے مطابق آپ نے شروع میں ہی کھول کر اس کا اعلان کر دیا ۔ جب یہ انکشاف ہوا کہ مثیلِ مسیح ہی مسیح موعود ہے تو پھر آپ نے اس کا بھی اعلان کر دیا۔ جیسے جب پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر نبوّت کا انکشاف وحی کے ذریعہ ہوا تو آپ نے اپنے آپ کو نبی اور رسول کی حیثیت سے پیش کیا اور جب کافی عرصہ بعد آپ پر بذریعہوحی آپ کے خاتم النبیّین ہونے کا انکشاف ہوا تو اس وقت آپ نے اس کا بھی اعلان کر دیا۔ پس خدا کے مامورین خدا کے بلانے سے بولتے ہیں، بِن بلائے نہیں بولتے اور نہ اپنی طرف سے کوئی دعویٰ کرتے ہیں۔
یہ خیال سراسر جھوٹ ہے کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کے کسی مشورہ سے یا گورنمنٹ کے اشارہ سے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے دعویٰ کیا۔ حضور کے جس خط کا اقتباس ندوی صاحب نے نقل کیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے آپ کو از خود ایک مشورہ دیا تھا اور وہ یہ مشورہ نہ تھا کہ آپ مسیح موعود کا دعویٰ کریںیا مثیلِ مسیح کا دعویٰ کریں۔ مثیلِ مسیح کا دعویٰ تو آپ براہین احمدیہ کے زمانہ میں کر چکے تھے۔ اور حضرت مولوی نور الدین صاحب آپ کے اس دعویٰ پر اطلاع بھی پا چکے تھے۔ وہ تو آپ کو صاف یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ آپ اپنے تئیں دمشقی حدیث کا مصداق نہ قرار دیں اس سے لوگوں کو ابتلاء آجائے گا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کا مشورہ رد کر دیا اور زور دار الفاظ میںیہ فرمایا اور لکھا کہ ہم ابتلا سے بھاگ نہیں سکتے۔
عجیب بات ہے کہ ندوی صاحب کو خود اِس بات کا اعتراف بھی ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے حکیم صاحب کی پیشکش قبول کرنے سے معذرت کی۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘مرزا صاحب نے جس انداز میں حکیم صاحب کی پیشکش قبول کرنے سے معذرت کی ہے اور ان کے خط سے جس کسر ِنفسی،خشیّت اورتواضعکا اظہار ہوتا ہے وہ بڑی قابلِ قدر چیز ہے اور اس سے مرزا صاحب کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ۷۰)
اس عبارت تک مولوی ندوی صاحب نے مستشرقین کی طرز پرحضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے حضرت مولوی نور الدین صاحب کے مشورہ کو قبول کرنے سے معذرت کا ذکر کر کے آپ کی تعریف کی ہے۔ اب آگے دیکھئے وہ اس مٹھاس میں زہر ملاتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ :۔
‘‘لیکن ان کی کتابوں کا تاریخی جائزہ لینے کے بعد یہ تاثر اور عقیدت جلد ختم ہو جاتی ہے۔ اچانک یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب نے حکیم صاحب کی اس تجویز کو قبول کر لیا اور تھوڑے ہی دنوں میں انہوں نے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ اور اعلان کر دیا۔’’
(قادیانیت صفحہ ۷۰)
واضح ہو کہ مولوی ندوی صاحب کو مسلّم ہے کہ وہ مکتوب جو انہوں نے نقل کیا ہے اس پر ۲۴ـجنوری۱۸۹۱ء درج ہے۔ (قادیانیت صفحہ ۶۷)
اِس خط سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے مولوی نور الدین صاحب کی پیشکش قبول کرنے سے معذرت کر دی تھی۔ یاد رہے کہ تجویزیہ تھی کہ دمشقی حدیث کا اپنے آپ کو مصداق قرار نہ دیں۔ تجویزیہ نہ تھی کہ اپنے آپ کو مثیلِ مسیح قرار دیںیا مسیح موعود کا دعویٰ کر دیں۔ کیونکہیہ دعاوی تو آپ کے موجود تھے۔ تجویز قبول کئے جانے سے معذرت کے اعتراف کے باوجود اب تجویز قبول کر لینے کی دلیل مولوی ندوی صاحب یہ دیتے ہیں کہ ۱۸۹۱ء کی تصنیف فتح اسلام میں‘‘ہم پہلی مرتبہ اُن کا یہ دعویٰ پڑھتے ہیں کہ وہ مثیلِ مسیح اور مسیح موعود ہیں۔’’
مگر اصل حقیقتیہ ہے کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے جو خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا ہے وہ آپ کے دعویٰ مسیح موعودپر اطلاع پانے کے بعد لکھا ہے اور اس کی اطلاع پانے پر ہی حضرت مولوی صاحبؓ نے از خود یہ مشورہ دیا کہ دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر مثیلِ مسیح کا دعویٰ کیا جائے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓکو یہ لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی تھی کہ اب اس مثیلِ مسیح کو ہی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہاپنے الہام کی بناء پر مسیح موعود قرار دے رہے تھے۔ ورنہ مطلق مثیلِ مسیحکا دعویٰ تو اس سے بہت پہلے آپ پیش کر چکے ہوئے تھے۔
پس حضرت مولوی صاحبکا یہ مشورہ نہ تھا کہ آپ مسیح موعود کا دعویٰ کریں بلکہ یہ مشورہ تھا کہ آپ اپنے آپ کو دمشقی حدیث کا مصداق نہ ٹھہرائیں۔ یہ مشورہ حضور نے نہیں قبول کیا بلکہ بقول ندوی صاحب حضورؑ نے اس کے ماننے سے معذرت کی۔ اس لئے ندوی صاحب کا یہ لکھنا غلط ہے کہ:۔
‘‘اچانک معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب نے مولوی نور الدین صاحب کی تجویز کو قبول کر لیا۔’’
ندوی صاحب کی تضاد بیانی
اور عجیب بات ہے کہ اب تجویز ندوی صاحب نے یہ بنا لی ہے کہ گویا مولوی نور الدین صاحب نے حضرت مرزا صاحب کو دعویٰ مسیح موعود کرنے کی تجویز پیش کی تھی اور پھر حضرت مرزا صاحب کی کتاب فتح اسلام میں مسیح موعود کا دعویٰدیکھ کر یہ کہہ دیا ہے کہ دیکھ لو مرزا صاحب نے مولوی نور الدین صاحب کی تجویز قبول کر لی ہے۔ مولوی ندوی صاحب کے یہ متضاد بیانات سراسر کتمانِ حق پر روشن دلیل ہیں۔ اگر بقول ندوی صاحب فتح اسلام کی اشاعت کے وقت حضرت مرزا صاحب نے حضرت مولوی نور الدین صاحبکا مشورہ یا تجویز قبول کر لی تھی تو پھر چاہئے تو یہ تھا کہ آپ اپنے آپ کو ۱۸۹۱ءمیں دمشقی حدیث کا مصداق قرار نہ دیتے۔ کیونکہیہی تجویز حضرت مولوینورالدین صاحب نے پیش کی تھی کہ آپ کو مثیل مسیحیعنی مسیح موعود کے دعویٰ کا اظہار دمشقی حدیث کو الگ رکھ کے کرنا چاہئے۔ لیکن اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ۱۸۹۱ء کی تصنیف‘‘ازالہ اوہام’’ میں آپ نے دمشقی حدیث کا اپنے تئیں مصداق قرار دیا ہے۔ اس حدیث کا مصداق قرار دینے پر ازالہ اوہام کا صفحہ ۶۳ تا ۷۰ حاشیہ شاہدِ ناطق ہے۔ اس میں سے ذیل کے اقتباسات ملاحظہ ہوں:
‘‘صحیح مسلم میں جو یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح دمشق کے منارہ سفید شرقی کے پاس اتریں گے…… دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبہ کا نام دمشق رکھا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں۔’’
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۳۴،۱۳۵)
آگے حاشیہ صفحہ ۷۲ پر لکھتے ہیں:۔
‘‘قادیان کی نسبت مجھے الہام ہوا کہ اُخْرِجَ مِنْہُ الیَزِیْدِیُّوْنَکہ اس میںیزیدی لوگ پیدا کئے گئے ہیں۔’’
اس کے بعد ایک اور الہام اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنَ الْقَادِیَانِ……درج کر کے لکھا ہے:۔
’’اب جوایک نئے الہام سے یہ بات بپایہٴ ثبوت پہنچ گئی کہ قادیان کو خدا ئےتعالیٰ کے نزدیک دمشق سے مشابہت ہے۔‘‘
پھر اس الہام کی تفسیر میں آگے لکھا ہے:۔
’’اس کی تفسیریہ ہے اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ قَرِیْبًا مِّنْ دِمَشْقَ بِطَرْفٍ شَرْقِیٍّ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَیْضَاءِکیونکہ اس عاجز کی سکونتی جگہ قادیان کے مشرقی کنارہ پر ہے‘‘۔
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۱۳۸، ۱۳۹ حاشیہ)
ازالہ اوہام کے ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ کے اس مشورہ اور تجویز کو بالکل قبول نہیں کیا کہ دمشقی حدیث کو اپنے اوپر چسپاں نہ کیا جائے۔ بلکہ اس مشورہ کو ردّ کر کے واضح طور پر اس حدیثکو اپنے اوپر چسپاں کیا ہے اور قادیان کو اپنے الہامات کی روشنی میں بطور استعارہ دمشق سے تعبیر کیا ہے۔ حضرت مولوی نور الدین صاحبکا مشورہ صرف یہ تھا کہ مثیلِ مسیح کے دعویٰ کو دمشقی حدیث سے علیحدہ رکھنا چاہیئے کیونکہ لوگوں کو ابتلاء آنے کا ڈر ہے۔ مگر حضورؑ نے اُن کے مشورہ کو ردّ کرتے ہوئے ابتلاء کے بارہ میںیہمومنانہ جواب دیا:۔
’’ہم ابتلاء سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتے۔ خدا تعالیٰ نے ترقیات کا ذریعہ صرف ابتلاء کو ہی رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْن‘‘۔
(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۸۵۔ مکتوبات احمد جلد ۲ صفحہ۹۹ ۔ ایڈیشن۲۰۰۸ء)
مثیل مسیح کا دعویٰ کتاب فتح اسلام سے پہلے کیا گیا تھا
پھر اس بات کا ثبوت کہ مثیلِ مسیح کا دعویٰ فتحِ اسلام میں ہی نہیں کیا گیا بلکہ یہ دعویٰ اس سے پہلے بھی موجود تھا یہ ہے کہ ازالہ اوہام میں حضورؑ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘مَیں نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا کہ مَیں مسیحابن مریم ہوں جو شخص یہ الزام میرے پر لگاوے وہ سراسر مفتری اور کذّاب ہے بلکہ میری طرف سے عرصہ سات یاآٹھ سال سے برابریہی شائع ہو رہا ہے کہ میں مثیلِ مسیح ہوں۔’’
(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد سوم صفحہ ۱۹۲)
اس سے ظاہر ہے کہ ۱۸۹۱ء سے جبکہ ازالہ اوہام شائع ہوئی سات آٹھ سال پہلے سے آپ کا دعویٰ مثیلِ مسیح کا موعود تھا۔ چنانچہ یہ دعویٰ براہین احمدیہ میں بھی موجود ہے جو ۱۸۸۴ء کی کتاب ہے۔ اس میں آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایتمتشابہ واقع ہوئی ہے۔ گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدّے اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریکامتیاز ہے……سو چونکہ اِس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامّہ ہے اس لئے خداوند کریم نے مسیح کیپیشگوئی میں ابتدا سے اِس عاجز کو بھی شریک کر رکھا ہے۔’’
(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد ا صفحہ ۵۹۳، ۵۹۴ حاشیہ نمبر۳)
اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ ازالہ اوہام میں آپؑ کا یہ لکھنا بالکل درست ہے کہ گویا۱۸۹۱ء سےسات، آٹھ سال پہلے سے آپؑ کا مثیل مسیح کا دعویٰ موجود تھا۔ اس اقتباس سے تو یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ مسیح کی آمد کی پیشگوئی میں شریک ہونے کے دعویدار تھے۔ مگر اس کے باوجود آپؑ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہ کیا۔ کیونکہ رسمی عقیدہ کے طور پر آپؑ خود بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کی دوبارہ اصالتًا آمد کے قائل تھے۔
مسیح موعود کا دعویٰ الہامات کی بناء ہے پر نہ کہ مشورہ کی بناء پر
۹۱۔۱۸۹۰ء میں آپ کے دعویٰ مثیلِ مسیح کے ساتھ جوپہلے سے موجود تھا آپؑ پر یہ انکشاف ہو گیا:۔
‘‘مسیحابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔ وَ کَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا۔’’
(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۴۰۲)
نیز آپ پر یہ الہام بھی نازل ہو گیا:۔
‘‘جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَابْنَ مَرْیَمَ’’
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۴۶۴)
تو آپ نے سمجھ لیا کہ مسیحابن مریم کی پیشگوئی مسیح کی اصالتًا آمد سے پوری ہونے والی نہتھی کیونکہ خدا تعالیٰ نے آپؑ کو بطور استعارہ اب مسیحابن مریم بھی قرار دیا ہے اور حقیقی مسیحابن مریم کی وفات کی خبر بھی دی ہے اور مسیح کی آمدِ ثانی کا وعدہ خدا کے نزدیک آپ سے ہی متعلق تھا۔ تعجب کی بات ہے کہ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی مثیلِ مسیح کے دعویٰ کو ۱۸۹۱ء سے قرار دیتے ہیں حالانکہ ہم بتا چکے ہیں کہ یہ دعویٰ براہین احمدیہ میں۱۸۸۴ء سے موجود تھا۔ پس حقیقتیہ ہے کہ ۱۸۹۱ء میں مثیلِ مسیح کے دعویٰ کو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے ترک نہیں کیا بلکہ الہاماتِ جدیدہ کی روشنی میں آپ نے اپنے تئیں مثیلِ مسیح جانتے ہوئے ہی مسیح موعود قرار دیا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصالتًا آمد ثانی کا خیال الہاماتِ الٰہیہ کی روشنی میں ان الہامات کو قرآن پر پیش کرنے اور اس سے موافق پانے کے بعد ترک کر دیا ہے۔ چنانچہ آپ حقیقۃالوحی میں لکھتے ہیں:۔
’’ اگر چہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی۔ مگرچونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہوا تھا اور میرا بھییہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہوں گے اِس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اوراپنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الٰہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا تو ہی ہے اور ساتھ اس کے صدہا نشان ظہور میں آئے اور زمین و آسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہو گئے اور خدا کے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبر کرکے مجھے اِس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح آنے والا میں ہی ہوں ورنہ میرا اعتقاد تو وہی تھا جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا اور پھر میں نے اس پر کفایت نہ کرکے اس وحی کو قرآن شریف پر عرض کیا تو آیاتقطعیة الدلالت سے ثابت ہوا کہ درحقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آخری خلیفہ مسیح موعود کے نام پر اِسیاُمّت میں سے آئے گا۔ اور جیسا کہ جب دن چڑھ جاتاہے تو کوئی تاریکی باقی نہیں رہتی اسی طرح صدہا نشانوں اور آسمانی شہادتوں اور قرآن شریف کیقطعیۃ الدلالت آیات اور نصوص صریحہ حدیثیہ نے مجھے اِس بات کے لئے مجبور کر دیا کہ میں اپنے تئیں مسیح موعود مان لوں۔ میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہو مجھے اِس بات کی ہر گز تمنا نہ تھی۔ میں پوشیدگی کے حُجرہ میںتھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے۔ اُس نے گوشہٴتنہائی سے مجھے جبراً نکالا۔ میں نے چاہا کہ مَیں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں مگر اُس نے کہا کہ مَیں تجھے تمام دنیا میں عزّت کے ساتھ شہرت دُوں گا۔ پس یہ اُس خدا سے پوچھو کہ ایسا تونے کیوں کیا؟ میرا اس میں کیا قصور ہے۔‘‘
(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۳)
اس اقتباس سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا مسیح موعود کا دعویٰ اپنے الہامات کی بناء پر ہے جو قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے مطابقت رکھتے ہیں نہ کہ کسی شخص کی کسی تجویز اور اس کے مشورہ سے خواہ وہ حضرت مولوی نور الدین ہوں یا کوئی اور۔ مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کے افکار میں صریح تضاد ہےکبھی تو وہ کہتے ہیں مرزا صاحب نے حکیم نور الدین کی تجویز کو قبول کر لیا اور مثیلِ مسیح کا دعویٰ کر دیا اور کبھی وہ کہتے ہیں کہ آپ نے اُن کی تجویز قبول کرنے سے معذرت کی اور ساتھ ہییہ بھی پچ لگا دیتے ہیں:۔
’’اس مشورہ کے حقیقی اسباب و محرکات کیا تھے؟ کیایہ حکیم صاحب کی دوربینی اور دوراندیشییا حوصلہ مند طبیعت ہی کا نتیجہ تھا یایہ حکومتِ وقت کے اشارہ سے تھا۔‘‘
(قادیانیت صفحہ۶۷)
مسیح موعود کا دعویٰ حکومت کے اشارہ سے نہ تھا
یہ تو ہم بتا چکے ہیں کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کے مشورہ کو آپؑ نے ردّ کر دیا تھا اور ان کے مشورہ کے برعکس اپنے آپ کو دمشقی حدیث کا مصداق قرار دے دیا تھا اور یہ بھی ہم بتا چکے ہیں کہ آپ کا مثیل مسیحیا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ اپنے الہامات کی بنیاد پر تھا۔ لہذا اب کسی ایسے شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ آپ کا یہ دعویٰ حضرت مولوی نور الدین صاحبکی دوراندیشییا حکومتِ وقت کے اشارہ سے تھا۔
یہ تو واضح ہو چکا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحبکا مشورہ دمشقی حدیث کے بارے میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے قبول نہیں کیا تھا۔ اور یہ بات آفتاب نصف النہار کی طرح ثابت ہے کہ انگریز عیسائی حکومت آپ کو مثیلِ مسیحیا مسیح موعود کا دعویٰ کرنے کا اشارہ نہیں کر سکتی تھی کیونکہ ایسا دعویٰ ان کے عقائد کے صریح خلاف تھا۔ انگریزی حکومت عیسائی تھی اور پراٹسٹنٹ فرقہ سے تعلق رکھتی تھی۔ جن کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح نے صلیب پر جان دی اور وہ ان کی صلیبی موت پر ایمان لانے والوں کے گناہوں کا کفارہ ہوئے۔ وہ تین دن کے بعد جی اٹھے اور پھر آسمان پر چڑھ گئے۔ اور خدا کے داہنے ہاتھ بیٹھے ہیں اور وہ خود ہی آخری زمانہ میں آسمان سے اتریں گے اور قوموں کے درمیان عدالت کریں گے۔ عیسائی حکومت یہ عقائد رکھتے ہوئے ایک مسلمان کو یہ اشارہ کر کے کہ تم مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرو کس طرح اپنے مذہب پر تبر رکھ سکتی تھی۔ یہ جانتے ہوئے کہ مسلمان تو موحد ہیں اور مسیح کو خدا کا بیٹا نہیں سمجھتے۔ لہذا اگر ایک مسلمان ایسے دعویٰ میں کامیاب ہو جائے تو عیسائیت کی جڑیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔ پس یہ کہنا مولوی ندوی صاحب کی دماغی اختراع کا نتیجہ ہے کہ آپ نے انگریزی حکومت کے اشارہ سے مسیح موعود کا دعویٰ کیا کیونکہ ایسا دعویٰ صریحاً انگریزی حکومت کے مذہبی مفاد کے خلاف تھا اور ایک مسلمان کے ہاتھوں ایسے دعویٰ سے صلیبی مذہب کا پاش پاش ہونا لازم تھا۔ انگریزی حکومت اتنی بیوقوف نہ تھی کہ وہ اپنے مذہب کے خلاف ایسا اقدام کرتی۔ پس ندوی صاحب کو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ سے جو تعصّب ہے وہ اُن سے ایسی متضاد اور بے سرو پا باتیں لکھوا رہا ہے جس کا ثبوت اُن کے پاس موجود نہیں۔
جب ابو الحسن صاحب ندوی کے خیالاتِ واہیہ کی تردید ہو گئی تو اب ان کا فرض ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے متعلق انہوں نے جویہ الفاظ لکھے ہیں کہ:۔
‘‘اُن کے خط سے جس کسر نفسی، تواضع اور خشیت کا اظہار ہوتا ہے وہ بڑی قابلِ قدر چیز ہے اور اس سے مرزا صاحب کے وقار میں قابلِ قدر اضافہ ہوتا ہے۔’’
اُن کے مطابق آپ کی عظمت کا اعتراف کریں۔ وہ اپنی کتاب قادیانیت کے صفحہ۶۷ پر خود ایک ایسا حوالہ براہین احمدیہ سے درج کر چکے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ براہین احمدیہ میں آپ نے مثیلِ مسیح کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ وہ اقتباس یہ ہے:۔
‘‘یہ عاجز حضرت قادرِ مطلق جلّشانہٗکی طرف سے مامور ہوا ہے کہ نبی ناصری۔ اسرائیلی (مسیح) کے طرز پر کمال مسکینی و فروتنی و غربت و تذلّل و تواضع سے اصلاحِ خلق کے لئے کوشش کرے۔’’
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۲۵)
پسیہ ظاہر ہو چکا ہے کہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ مثیل مسیح اور مسیح موعود اللہتعالیٰکی طرف سے تھا اور جس دن وہ مامور ہوئے انہوں نے اصلاحِ خلق کے لئے اپنی ماموریت کا اعلان کر دیا تھا اور آپ پر یہ الہام بھی نازل ہوا۔ قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔ کُلُّبَرَکَةٍ مِنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ۔
(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد ا صفحہ۲۶۵ حاشیہ در حاشیہ نمبر۱)
عقیدہٴ بروز
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تین عبارات عقیدہ تناسخ و حلول کے عنوان کے تحت درج کی ہیں اور ان کے درج کرنے سے پہلے لکھا ہے:۔
‘‘مرزا صاحب کی بعض عبارتوں سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ تناسخ و حلول کے بھی قائل تھے۔ اور ان کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کی روح اور حقیقت ایک دوسرے کے جسم میں ظہور کرتی رہی ہے۔’’
درج کردہ اقتباسات میں سے بعض ادھورے پیش کئے گئے ہیں۔ ان اقتباسات میں مسئلہء بروز بیان ہوا ہے نہ کہ تناسخ۔ حوالہ جات کی وضاحت کرنے سے پہلے ہم بروز کی حقیقت بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
(۱)شیخ محمد اکرم صاحب صابری اپنی کتاب ”اقتباس الانوار“ میں تحریر کرتے ہیں:
‘‘روحانیت کمّل گا ہے براربابِ ریاضت چناں تصرف می فرماید کہ فاعل افعال اومی گردد۔ وایں مرتبہ راصوفیاء بروز می گویند۔’’
(اقتباس الانوار صفحہ۵۱)
ترجمہ۔کامل لوگوں کی روحانیت کبھی ارباب ریاضت پر ایسا تصرف کرتی ہے کہ وہ روحانیت ان کے افعال کی فاعل ہو جاتی ہے۔ اس مرتبہ کوصوفیاء بروز کہتے ہیں۔
اس کے بعد وہ بروز اور تناسخ میں فرق یوں بیان فرماتے ہیں:۔
‘‘و فرق بین التناسخ والبروز آنست کہ کفار علیہم اللعنۃبرآں رفتہ اند چوں روح از بدن عنصری انتقال نمائدو زنے کہ حمل چہارماہہ داشتہ باشد در رحم او نزول نمودہ وجودِ جدید موافق معتاد اہل عالم گرفتہ ظاہر مے شود و ایں را تناسخ مے گوئند وآں مطلق باطل است۔ و بروز آں رانا مند کہ روحانیت کمّل در بدن کامل تصرّف نمائد و فاعل افعال او شود۔ چنانچہ ذات الوہیت بصورت آتش بر شجرۂ موسیٰ تجلّی کرد و بلسان حال فرمود اِنِّیْ اَنَا اللّٰہُ۔ و میر سیّد حسن سادات در شرح فصوص الحکم مے نویسد کہ نزد محقّقان محقّق است محمدؐبود کہ بصورتِ آدم مبدا ظہور نمود و ہم او باشد در آخر بصورت خاتم ظاہرگردد وایںبروزاتِ کمل گوئند نہ تناسخ۔’’
(اقتباس الانوار صفحہ۵۱، ۵۲)
ترجمہ۔ تناسخ و بروز میں فرق یہ ہے کہ کفار علیہم اللعنت کا یہ عقیدہ ہے کہ جب روح بدن عنصری سے انتقال کرتی ہے تو جس عورت کا حمل چار ماہ کا ہو اس کے رحم میں اتر کر نیا وجود اہل دنیا کی عادت کے موافق اختیار کر کے ظاہر ہو جاتی ہے اس کو تناسخ کہتے ہیں او ریہ بالکل باطل ہے۔ اور بروز اسے کہتے ہیں کہ کامل لوگوں کی روحانیت کسی کامل بدن میںتصرّفکرے اور اس کے کاموں کی فاعل ہو جائے۔ جیسا کہ ذاتِ خداوندی نے آگ کی صورت میں موسیٰ کے درخت پر تجلّی کی اور زبان حال سے فرمایا‘‘ میں ہی اللہ ہوں’’۔ اور میر سیّد حسن سادات شرح فصوص الحکم میں لکھتے ہیں کہ محقّقین کے نزدیکیہ امر محقّق ہے کہ محمدؐہی تھا جس نے آغازِ دنیا آدم کی صورت میں ظہور کیا اور وہی ہو گا جو آخر میں بصورتِ خاتم ظاہر ہو گا اور اسے بروزاتِ کمّل کہتے ہیں نہ تناسخ۔
(۲) مشہور صوفی خواجہ غلام فرید صاحب آف چاچڑاں شریف فرماتے ہیں۔
’’وَالْبروزُ اَنْ یُّفِیضَ رُوحٌ مِّنْ اَرْوَاحِ الْکُمَّلِ عَلیٰ کَامِلٍ کَمَا یُفِیْضُ عَلَیْہِ التَّجَلِّیَاتُ وَ ھُوَیَصِیْرُ مَظْھَرُہٗ وَ یَقُوْلُ اَنَا ھُوَ‘‘
(اشارات فریدیہ حصہ دوم صفحہ ۱۱۰ مقبوس سی و ہشتم)
ترجمہ بروز یہ ہے کہ کاملین کی ارواح میں سے کوئی کسی کامل انسان پر افاضہ کرے جیسا کہ اس پر تجلّیات کا افاضہ ہوتا ہے اور وہ کامل اس فیض روح کا مظہر بن جاتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ مَیں وہی ہوں۔
(۳) حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا بروز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:۔
’’ھٰذَا وُجُوْدُ جَدِّیْ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ لَا وُجُوْدَ عَبْد الْقَادِر۔’’
(گلدستہء کرامات مؤلفہ مفتی غلام سرور صاحب صفحہ۸ مطبوعہ افتخار دہلوی)
ترجمہ: یہ میرے دادا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود ہے نہ عبد القادر کا وجود۔
اِس عبارت میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی علیہالرحمۃ نے بطور بروز کے ہی اپنے وجود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود قرار دیا ہے۔ یہ بروز کا مسئلہ صوفیاء میں مسلّم ہے۔ حضرت شیخ عبد القادر کے وجود کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود بن جانا اُن کےفَنَا فِی الرَّسُوْل ہونے پر دلالت کرتا ہے اور بطور اِستعارہ کے انہوں نے اپنے وجود کی نفی کر کے اپنے اس وجود کو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود قرار دیا ہے۔
اِستعارہ اور بروز میں فرق یہ ہے کہ اِستعارہ عام ہے اور بروز خاص یعنی بروز میں افاضہٴ روحانیّت ضروری ہوتا ہے اور اِستعارہ اس سے وسیع معنی رکھتا ہے۔ یعنی افاضہ روحانیت ہو یا نہ ہو استعارہ کی صورت میں مشابہت تامّہ کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ گویا کہ مستعار وجود مُسْتعار مِنْہُ کا وجود بن گیا۔ حدیثوں میں جو مسیح بن مریم کے نزول کی پیشگوئی ہے اس سے بعض علماء محقّقین نے مسیح کا بروزی ظہور ہی مراد لیا ہے۔ چنانچہ اقتباس االانوار میں شیخ محمد اکرم صاحب صابری لکھتے ہیں:۔
’’بعضے برآنند کہ روحِ عیسیٰ در مہدی بروز کندو نزول عبارت از ہمیں بروز است مطابق ایں حدیث کہلَا مَھْدِیَّ اِلَّا عِیْسیَ بْنُ مَرْیَمَ۔‘‘
(اقتباس الانوار صفحہ ۵۲)
ترجمہ: بعض کا یہ مذہب ہے کہ رُوح (روحانیت)عیسیٰ مہدی میں بروز کرے گی۔ اور نزول عیسیٰ سے مراد یہی بروز ہے مطابق اس حدیث کے کہ نہیں کوئی مہدی مگر عیسیٰ بن مریم۔
امام سراج الدین ابن الوردی نے بھی لکھا ہے:۔
’’قَالَتْ فِرْقَةٌ مِن نُزُولِ عِیْسیٰ خُرُوْجُ رَجُلٍ یُشَبِّہُ عِیْسیٰ فِی الْفَضْلِ وَالشَّرَفِ کَمَا یُقَالُ لِلرَّجُلِ الْخَیْرِ مَلَکٌ وَلِلشَّرِیْرِ شَیْطَانٌ تَشْبِیْھًا بِھِمَا وَلَا یُرَادُ الاَعْیَان‘‘۔
(خریدة العجائب وفریدة الرغائب صفحہ۲۶۳، الطبعۃ الثانیۃ۔مطبوعہ مصر)
ترجمہ۔ ایک گروہ نے نزول عیسیٰ سے ایک ایسے شخص کا ظہور مراد لیا ہے جو فضل و شرف میں عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہ ہو گا۔ جیسے تشبیہ دینے کے لئے نیک آدمی کو فرشتہ اور شریر کو شیطان کہہ دیتے ہیں مگر اس سے مراد فرشتہ یا شیطان کی ذات نہیں ہوتی۔
علامہ میبذی شرح الدیون میں لکھتے ہیں:۔
’’ رُوح عیسیٰ علیہ السلام در مہدی علیہ السلام بروز کند و نزول عیسیٰ ایں بروز است۔‘‘
(غایۃ المقصود صفحہ ۲۱)
ترجمہ: کہ عیسیٰ علیہ السلام کی روح یعنی روحانیت مہدی علیہ السلام میں بروز کرے گی۔ اور نزول عیسیٰ سے یہ بروز مراد ہے۔
روح سے مراداس جگہ مجازاً روحانیت ہے۔ کیونکہ بروزی صورت میں روحانیت کا موردِ بروز میں ظہور ہوتا ہے نہ کہ روح کا اصالتًا۔
پس بروز کا مسئلہ صوفیاء میں مسلّم ہے اور جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں بروز تناسخ سے بالکل مختلف امر ہے۔ تناسخ میںیہ مانا جاتا ہے کہ ایک مردہ کی اصل روح ایک دوسرے جسم میں حلول کرے۔ اور بروز میںیہ مانا جاتا ہے کہ ایک کامل بزرگ کی روح بلحاظ روحانیت کے ایک دوسرے وجود میں اِفاضہ کرے اور اس مفیض رُوح کی حقیقتیعنی صفات نہ کہ خود روح موردِ بروز سے متحد ہو جائے۔ اس سے ظاہر ہے کہ تناسخ اور بروز میںبُعد المَشْرقَین ہے۔ تناسخ میں مردہ کی ر وح ایک دوسرے جسم میں حلول کرتی ہے اور بروز میں ایک کامل روحانی شخص کی روح اس طرح افاضہ کرتی ہے اور موردِ بروز میں ویسی ہی روحانیت پیدا ہو جاتی ہے جو اصل میں پائی جاتی ہے۔ اس طرح روحانیت میں دونوں وجود متحد ہو جاتے ہیں حتی کہ نام بھی ایک ہو جاتا ہے اور موردِ بروز یہ کہتا ہے کہ میں وہی ہوں حالانکہ وہ اصالتًا وہی نہیں ہوتا بلکہ صرف استعارہ اور بروز کے طور پر وہی کہلاتا ہے۔ اسی امر کو صوفیاء نے ایک شعر میںیوں بیان کیا ہے
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق فرماتا ہے:
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى(الانفال:۱۸)
یہ مٹھی جب تو نے پھینکی تو اُسے تو نے نہیں پھینکا لیکن اللہ نے پھینکا ہے۔
یہ آیت تصوّف کی جان ہے اور اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ کو خدا کا ہاتھ بروزی طور پر قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر خدا کے ہاتھ کا ایسا افاضہ ہؤا۔ آپ کے اس ہاتھ سے خدا کی قدرت ظاہر ہو گئی اور ایک زبردست صفتِ الٰہی کی تجلّی کا دنیا نے مشاہدہ کیا۔ اس موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ کو بروزی طور پر خدا کا مظہر ہونے کی وجہ سے خدا کا ہاتھ قرار دیا گیا ہے۔
پس جو لوگ خدا کے وجود میں فنا ہو جاتے ہیں وہ عالم فنائیت میںیہاں تک کہہ اٹھتے ہیں کہ وے من گشت و من وے (دیوان معین الدین چشتی) کہ خدا میں بن گیا اور مَیں وہ یعنی خدا ہو گیا۔
حضرت معین الدین چشتی کییہ کیفیت بھی بروزی تھی۔ اور بروز کا مسئلہ جس طرح قرآن کریم سے ثابت ہے ویسے ہی حدیث نبویؐ سے بھی ثابت ہے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیثِ قدسی میں وارد ہے۔
مَایَزَالُ عَبْدِیْیَتَقَرّبُ اِلَیَّ بِالْنَّوَافِلِ حَتّٰی اَحْبَبْتُہُ فِاِذَا اَحْبَبْتُہُ فَکُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْیَسْمَعُ بِہٖ وَ بَصَرَہُ الَّذِیْیُبْصِرُ بِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْیَبْطِشُ بِھَا وَ رِجْلَہُ الَّتِییَمْشِیْ بِھَا۔
(بخاری کتاب الرقاق، باب التواضع۔ مطبوعہ دار ابن کثیر دمشق بیروت)
ترجمہ: خدا فرماتا ہے میرا بندہ نوافل سے میرا مقرّب ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہےاور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔
اِس حدیث میں فنا فی اللہ کی حالت میں خدا کا بروزیظہور ہی مراد ہے ورنہ بندہ اصالتًا خدا نہیں بن جاتا۔ ہاں الٰہی طاقتوں کی حقیقت بروزی طور پر اس فانی فی اللہ وجود پر افاضہ کرتی ہے اور وہ شخص ان طاقتوں کا مظہر بن جاتا ہے۔ پس مظہریت اور بروز کا مسئلہ جیسا کہ صوفیاء بیان کرتے ہیں اسلامی تعلیم سے ثابت ہے۔
مولوی ابو الحسن صاحب کے پہلے پیش کردہ حوالہ جات کی تشریح
ذیل میں ہم ان حوالہ جات کی تشریح پیش کرتے ہیں جن کی بناء پر مولوی ابوالحسن صاحب نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ پر تناسخ کے قائل ہونے کا الزام دیا ہے۔
حوالہ اوّل
‘‘غرض جیسا کہ صوفیوں کے نزدیک مانا گیا ہے کہ مراتب وجود دَوریہ ہیں۔ اسی طرح ابراہیم علیہ السلام نے اپنی خُو اور طبیعت اور دلی مشابہت کے لحاظ سے قریباً اڑھائی ہزار برس اپنی وفات کے بعد پھر عبد اللہ پسر عبد المطلب کے گھر میں جنم لیا او رمحمدؐکے نام سے پکارا گیا۔’’
(تریاق القلوب صفحہ ۱۵۵)(قادیانیت صفحہ ۱۰۳)
افسوس ہے کہ یہ اقتباس سیاق بریدہ ہے۔ اگر مولوی ابو الحسن صاحب آگے پیچھے کی عبارتیں درج کر دیتے تو ہر شخص سمجھ سکتا تھا کہ اس عبارت میں حضرت ابراہیم کے عبداللہ پسر عبد المطلب کے گھر میں جنم لینے اور محمدؐ کے نام سے پکارا جانے کا مطلب یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بروزی طور پر ابراہیمہیں نہ کہ آپ کے جسم میں ابراہیم علیہ السلام کے رُوح نے تناسخ کے طور پر حلول کیا ہے۔ اس عبارت سے اگلے الفاظ یہ ہیں:
‘‘اور مراتبِ وجود کا دَوریہ ہونا قدیم سے اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی سنت اللہ میں داخل ہے۔ نوعِ انسان میں خواہ نیک ہوں یا بد ہوں عادت اللہ ہے کہ ان کا وجود خُو اور طبیعت اور تشابہ قلوب کے لحاظ سے بار بار آتا ہے۔’’
(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۴۷۷ حاشیہ)
پس اِس عبارت سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو ابراہیم کا وجود محض خُو، طبیعت اور تشابہ قلوب کے لحاظ سے قرار دیا گیا ہے نہ کہ ابراہیم علیہالسلام کی روح کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم میں حلول کرنا بیان کیا ہے۔
اِس مضمون کی تفصیلی وضاحت حوالہ سے مقدّم عبارت میںیوں بیان کی گئی ہے۔ تریاق القلوب کے صفحہ ۱۵۵پر یہ مضمون یوں چلتا ہے:۔
‘‘یہ بات اہل حقیقت اور معرفت کے نزدیک مسلّم ہے کہ مراتبِ وجود دَوریہ ہیں۔ یعنی نوع انسان میں سے بعض بعض کی خُو اور طبیعت پر آتے رہتے ہیں جیسا کہ پہلی کتابوں سے ثابت ہے کہ ایلیا یحییٰنبی کی خُو اور طبیعت پر آئے۔’’
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ۴۷۵، ۴۷۶)
دوسرا حوالہ
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا پیش کردہ دوسرا اقتباس یہ ہے کہ :
’’اس جگہ یہ نکتہ بھییاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانیت بھی اسلام کے اندرونی مفاسد کے غلبہ کے وقت ہمیشہ ظہور فرماتی رہتی ہے اور حقیقت محمدیہ کا حلول ہمیشہ کسی کامل متبع میں ہو کر جلوہ گر ہوتا ہے اور جو احادیث میں آیا ہے کہ مہدی پیدا ہو گا۔ اس کا نام میرا ہی نام ہوگا۔ اس کا خُلق میرا ہی خُلق ہوگا۔ اگر یہ حدیثیں صحیح ہیں تو اِسی نزولِ روحانیّت کی طرف اشارہ ہے۔’’
(آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ۳۴۶)
اس عبارت میں حقیقت محمدیؐہ کے حلول سے مراد صفاتِ محمدیہؐ کے کسی کامل متبع میں جلوہ گر ہونے کا ذکر ہے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کا بطور تناسخ حلول۔ چنانچہ مہدی کی مثال دے کر آپ نے واضح فرما دیا ہے کہ امام مہدی کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےنام پر اورخُلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ہی ہونے میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مہدی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانیت کا حلول ہو گا نہ کہ روح کا حلول۔ اسے تناسخ والا حلول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حقیقتیا روحانیت کی تجلّی جو کسی متبع یا دوسرے وجود میں ہو اصطلاحِ صوفیاء میں بروز کہلاتا ہے۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب بروز و کون کے ذکر میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس کی دو قسمیں ہیں۔ حقیقی اور مجازی پھر حقیقی کی کئیضروب (اصناف) قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘تَارةً اُخْرٰی بِاَنْیَّشْتَبِکَبِحَقِیْقَۃِرَجُلٍ مِنْ اٰلِہٖ اَوِ الْمُتَوَسِّلِیْن اِلَیْہِ کَمَا وَقَعَ لِنَبِیِّنَا بِالنِّسْبَةِ اِلٰی ظُہُوْرِ الْمَہْدِیِّ۔’’
‘‘کبھی حقیقی بروز یوں پایا جاتا ہے کہ ایک شخص کی حقیقت میں اس کی آل اور اس کے متوسّلین داخل ہو جاتے ہیں۔ اسی قسم کا واقعہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت سے مہدی کے ظہور کا ہے۔’’
اِس عبارت میں مہدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا بروز قرار دیا گیا ہے اور حقیقتِ محمدیہؐ سے اس کا اتّحاد بیان کیا گیا ہے یہی امر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی اس عبارت میں مراد ہے کہ:۔
‘‘حقیقت محمدیہ کا حلول کسی کامل متبع میں جلوہ گر ہوتا ہے۔’’
یہ تناسخ والا حلول نہیں جس میں ایک شخص کی روح کا دوسرے میں داخل ہونا مانا جاتا ہے بلکہ حقیقت کا حلول ہے یعنی ایک حقیقت میں متّبع اور مَتبوع کا تشابہ اور اتحاد۔ پیر غلام فرید صاحب آف چاچڑاں نے بھییہی فرمایا ہے کہ مہدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز ہو گا۔(اشارات فریدی صفحہ ۱۱۱)
تیسرا حوالہ
تیسرا حوالہ جو مولوی ابو الحسن صاحب نے پیش کیا ہے اس میں نہ تناسخ کا لفظ موجود ہے نہ حلول کا بلکہ اس میں آپؑ نے نزول مسیح کی حقیقت اس طرح بیان فرمائی ہے کہ ہمت سیرت اور روحانیت میں آپ حضرت مسیح سے بشدت اِتّصال رکھتے ہیں۔ اور ان کی ایسی شبیہ ہیں کہ گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں اور مسیح کی توجّہات نے آپ کے دل کو اپنا قرار گاہ بنایا ہے نہ کہ اس میں مسیح کی روح کا حلول ہوا ہے بلکہ مسیح کے پُرجوش ارادات آپ میں نازل ہوئے ہیں جس سے آپ کا وجود مسیح کا وجود قرار پایا ہے۔ انہی ارادات کے نزول کو اس جگہ ‘‘الہامی استعارات میں مسیحکا نزول قرار دیا۔’’
پس مولوی ابو الحسن صاحب کییہ بہت بڑی زیادتی ہے کہ بروز اور استعارہ کو آپ تناسخ اور تناسخی حلول قرار دے کر معترض ہیں۔ مسیح موعود کے بروزِ محمدی ہونے کے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:۔
‘‘یَنْعَکِسُ فِیْہِ اَنْوَارُ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ۔’’
(الخیر الکثیر ، مترجم اردو صفحہ ۲۳۶، مطبوعہ مطبع سعیدی کراچی)
کہ مسیح موعود میں سید المرسلین کے انوار کا انعکاس ہو گا۔
اسی مضمون کو حضرت مسیح موعودؑ نے‘‘ حقیقت محمدیہ کا حلول کسی متبع میں جلوہ گر ہوتا ہے’’ کے الفاظ میں بیان فرمایا اور امام مہدی میں اس حقیقت محمدیہ کا جلوہ گر ہونا بطور مثال کے ذکر کیا ہے۔
پھرحضرت شاہ ولی اللہ صاحب علیہالرحمۃ مسیح موعود کی شان میں لکھتے ہیں:۔
یَزْعَمُ الْعَامَّةُ اَنَّہُ اِذَا نَزَلَ اِلَی الْاَرْضِ کَانَ وَاحِدًا مِّنَ الْاُمَّةِ کَلَّا بَلْ ھُوَ شَرْحٌ لِلْاِسْمِ الْجَامِعِ الْمُحَمَّدِیِّ وَ نُسْخَةٌ مُنْتَسِخَةٌ مِّنْہُ فَشَتَّانَ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنَ الْاُمَّةِ۔
(الخیر الکثیر صفحہ۲۳۷مطبوعہمطبع سعیدی کراچی)
یعنی عوام یہ گمان کرتے ہیں کہ مسیح موعود جب زمین کی طرف نازل ہو گا تو اُس کی حیثیت ایکاُمّتی کی ہو گی۔ ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اِسمِ جامع محمدی کی پوری تشریح اور اُس کا دوسرا نسخہ ہو گا۔ پس اس کے اور ایکاُمّتی کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔
اِس عبارت سے ظاہر ہے کہ مسیح موعودکا وجود گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا بروز کامل ہو کر آپ ہی کی بعثت کے حکم میں ہے۔ اِسمِ جامع محمدی سے مراد حقیقتِمحمدیہؐ ہی ہے۔ جس کے کامل ظہور کا ذکر نُسْخَةٌ مُنْتَسِخَةٌ کے الفاظ سے کیا گیا ہے اور مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو بہو چربہ قرار دیا گیا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دو بعث
سورة جمعہ کیآیتھُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ آيَاتِهٖ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلَالٍ مُّبِينٍ۔وَّآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيمُ (الجمعۃ۳، ۴)سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دو بعث ہیں۔ پہلا بعث اُمیّین میںہے۔ آپ کا پہلا بعث اُمیّینمیں ہوا اور دوسرا بعث بروزی طور پر مسیح اور مہدی کے رنگ میںاٰخَرِین میں ہونے والا تھا۔ ھُوَ العَزِیْزُ الْحَکِیْمُ کی صفات الٰہیہ کے ذکر میں اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دوسرے بعث میں اسلام کو تمام اَدیان پر غلبہ ہو جائے گا۔ مجدّد صدی دواز دہم حضرت شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں:۔
وَاَعْظَمُ الْاَنْبِیَآءِ شَاْنًا مَنْلَہٗ نَوْعٌ اٰخَرُ مِنَ الْبَعْثَۃِ اَیْضًا وَ ذَالِکَ اَنْ یَّکُوْنَ مُرَادُ اللّٰہِ تعالیٰ فِیْہِ سَبَبًا لِخُرُوْجِ الْنَّاسِ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ وَاَنْ یَّکُوْنَ قَوْمَہٗ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ وَبَعْثُہٗ یَتَنَاوَلُ بَعْثًا اٰخَرَ۔
(حجّۃ اللّٰہ البالغہ جلد۱ باب حقیقۃالنبوة و خواصھا صفحہ ۶۷)
ترجمہ۔ انبیاء میں سے شان کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر عظمت والا نبی وہ ہے جس کے لئے ایک دوسری قسم کا بعث بھی ہو۔ اور یہ دوسرا بعث اس طرح ہے کہ خدا یہ چاہتا ہے کہ دوسرا بعث لوگوں کے ظُلُمات سے نُور کی طرف نکلنے کا سبب ہو۔ اور اس بعث ثانی کی وجہ سے آپ کی قوم خَیرِاُمّت ہو جائے جو لوگوں کے لئے نکالی گئی۔ پس اس طرح آپ کا بعث ایک دوسرے بعث پر بھی مشتمل ہے۔
قبل ازیں قارئین کرام معلوم کر چکے ہیں کہ مسیح موعود کو حضرت شاہ صاحب علیہالرحمۃ نے اسم جامع محمدیؐ کی شرح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا دوسرا نسخہ قرار دیا ہے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ یُھْلِکاللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّھَا اِلَّا الْاِسْلَامکہ مسیح موعود کی اشاعتِ دین کے ذریعہ اس طرح روحانیت کا انتشار ہو گا کہ تمام ملّتیں ہلاک ہو جائیں گی اور اسلام کامل طور پر تمام ادیان پر غلبہ پا لے گا۔ اسی کی طرف قرآن کریم کے اِن الفاظ میں پیشگوئی کی گئی ہےهُوَ الَّذِيْ أَرْسَلَ رَسُولَهٗ بِالْهُدَىٰ وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّينِ كُلِّهٖ(الصّف :۱۰) خدا ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ وہ رسول اِس دین کو تمام اَدیان پر غالب کر دے۔ مفسرین بموجب حدیث نبوی یُھْلِک اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّھَا اِلَّا الْاِسْلَاماس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ غلبہ مسیح موعود کے ذریعہ ہوگا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانیت کے اَکمل اور اَشدّ اور اَقویٰ انتشار کا ہی نتیجہ ہو گا۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی ذیل کی عبارتوں میںیہی مضمون بیان ہوا ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بروزی صورت میں بعثتِ ثانیہ ہیں:۔
(۱)‘‘بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میںیعنی اِن دنوں بنسبت اُن سالوں کے اَقویٰ اور اَکمل اور اَشد ہے بلکہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے۔’’
(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ ۲۷۱، ۲۷۲)
(۲)‘‘ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانیت نے پانچویں ہزار میں اجمالی صفات کے ساتھ ظہور فرمایا اور وہ زمانہ اس روحانیت کی ترقیات کا انتہانہ تھا بلکہ اس کے کمالات کے معراج کے لئے پہلا قدم تھا۔ پھر اس روحانیت نے چھٹے ہزار کے آخرمیںیعنی اس وقت پوری طرح سے تجلّی فرمائی۔ جیسا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں اَحسن الخالقین خدا کے اذن سے پیدا ہوا۔ اور خیر الرسل کی روحانیت نے اپنے ظہور کے کمال کے لئے اور اپنے نور کے غلبہ کے لئے ایک مظہر اختیار کیا۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کتابِ مُبین میں وعدہ فرمایا تھا۔ پس میں وہی مظہر ہوں اور وہی نور معہود ہوں۔’’
(خطبہ الہامیہ ، روحانی خزائن جلد۱۶ صفحہ۲۶۶ ،۲۶۷)
مگر ان عبارتوں سے مولوی ابو الحسن صاحب غلط مطلب لے کر یہ غلط فہمی پھیلانا چاہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے برتر ہونے کا بلکہ تمام انبیاء سے برتر ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو قادیانیت صفحہ ۱۰۵تا ۱۰۷)
الجواب۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنی روحانیت میں اور خدا کے قرب میں ہر آن ترقی کر رہے ہیں۔ اور اس ترقی کا کوئی منتہا نہیں۔ اور تمام مجدّدینِاُمّت آپ ہی کی روحانیت کے انتشار کے لئے آپ کے مظاہر کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان مجدّدین میں سے مسیحِ موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مظہر ِکامل یقین کیا گیا ہے جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کے اقوال سے ثابت کیا گیا ہے۔
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مہدی معہود و مسیح موعودؑ کے دعویٰ کے ساتھ ہی اپنے الہام کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَکی رو سے محض ایک شاگرد کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہوسلم کے انوار کی جو تجلّی ہوئی ہے اسے وہ کوئی اپنی ذاتی خوبی قرار نہیں دیتے۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں تحریر فرماتے ہیں
اُس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہیہی ہے
سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے
(درثمین اردو صفحہ:۸۴)
اِن اشعار سے ظاہر ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ باوجود اس دعویٰ کے کہ آپؑ ہی اس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مظہر اور بروزِ کامل ہیں اپنے تئیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں شاگرد اور ناچیز ہی قرار دیا ہے۔آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘موردِ بروز حکم نفیِ وجود کا رکھتا ہے’’
(اشتہار ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۱۶)
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بعثت ہونے اور دوسری بعثت کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کے اشد اور اکمل اور اقویٰ طور پر مؤثر ہونے میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب کا وجود جو موردِ بروز ہیں منفی ہے اور سب کمالات کا مرجع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کیونکہ آپ ان کمالات میں اصل ہیں ۔ آپ کے کمالات ذاتی ہیں اور موردِ بروز کے کمالات بِالعَرض اور بالتبع ہیں۔ پس موردِ بروز کے ذریعہ دنیا میں تجلّیات مصطفویہ کا مشاہدہ کرے گی اور ان سے مستفید اور مستفیض ہو گی۔ ان کا اصل ا ور حقیقی مرجع حضرت مسیح موعود علیہالسلام کے نزدیکسرور کائنات فخر موجودات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیثیت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں ایک آئینہ کی ہے جس میں اصل تجلّیات ظاہر ہوتی ہیں اور آئینے میں دکھائی دینے والی شکل اصل کا ظل ہوتی ہے۔ گو بلحاظ ظِلّیت ان میں دوئی نہیں ہے کیونکہ ظل اصل کا غیر نہیں ہوتا۔ مگر ظل کے کمالات کا مَرجع در حقیقت اصل ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:۔
لیک آئینہ اَم زِ ربِّ غنی از پئے صورتِمَہِ مَدَنِی ؐ
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۴۷۸)
کہ مَیں ربِّ غنی کی طرف سے مدنی چاند کی صورت کے سامنے ایک آئینہ ہوں ۔ گویا جس طرح آئینہ میں نظر آنے والی شکل کے کمالات کا مرجع اصل ہوتا ہے۔ اس لئے مجھ میں جو کمالات عکس کے طور پر پائے جاتے ہیں وہ میرے ذاتی کمالات نہیں بلکہ ان کا مرجع اصل یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں۔ اور معرفت الٰہی کے جام کے متعلق فرماتے ہیں:۔
آنچہ داد است ہر نبی راجام داد آں جام را مرا بتمام
یعنی جو معرفت کا پیالہ خدا تعالیٰ نے ہر نبی کو دیاہے وہ مجھے بھی پورا دیا ہے۔
وجہ اس کییہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے افاضۂ روحانیہ سے آپ کے اُمّتیوں کو انبیاء سابقین کی حاصل کردہ معرفت الٰہی سے محروم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے۔ اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاءِکہ اس اُمّت کے علمائے ربّانی انبیاء کے وارث ہیں۔ اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام اپنے متعلق تحریر فرماتے ہیں
وارث مصطفٰی شدم بہ یقین شدہ رنگین برنگِیار حسیں
کہ میں مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم کا یقینی وارث ہوا ہوں اور یارِ حسین کے رنگ میں رنگین ہو گیا ہوں۔
آپ کا یہ لکھنا
زندہ شد ہر نبی بآمدنم ہر رسولے نہاں بہ پیر ہنم
یہ مفہوم رکھتا ہے کہ آپ کی آمد سے ہر نبی کے علوم زندہ ہو گئے ہیں اور آپ ؑ ان کےعلوم کے جامع ہیں۔ اور آپ کا پہلا شعر کہ آپؑ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے وارث ہیں اِس بات پر روشن دلیل ہے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیںعُلِّمْتُ عِلْمَ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ۔(بحوالہ تحذیر الناس صفحہ ۶۱) کہ میں تمام پہلے اور پچھلے انبیاء کا علم دیا گیا ہوں۔ جس کے یہی معنی ہیں کہ آپ علم و معرفت میں تمام انبیاء کے کمالات کے جامع تھے اور ہر نبی آپ کے ذریعہ زندہ ہوا۔ اسی طرح آپ کے بروزِ کامل کے لئے جو حسبِ آیتوَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعۃ:۴) آپ ؐ کی بعثتِ ثانیہ قرار پانے والا تھا ضروری تھا کہ اُس کا علم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے مستفاض ہے وہ بھی انبیاء کے علم کو زندہ کرنے والا ہو اور آپ کا وجود بھی بلحاظ بروز ان انبیاء کا مظہر ہو۔
روضۂ آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ و بار
کے شعر میں روضۂ آدم سے مراد دین کا باغ ہے۔ اس کی اشاعت کی تکمیل بِلاَریب مسیحِ موعود کے ذریعہ مقدّر ہے۔ چنانچہ حدیث نبوی میں وارد ہے۔
یُھْلِک اللّٰہُ فِی زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّھَا اِلَّا الْاِسْلَام
(تفسیر ابن جریر طبری سورۃ اٰلِ عمران آیت ۵۶)
کہ خدا تعالیٰ مسیح موعود کے زمانہ میں تمام ملّتیں ہلاک کر دے گا بجز اسلام کے اور یہ نتیجہ ہو گا اشاعتِ دین کا۔ یہی امر آیتھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ میں مراد ہے اور مفسّرین کو مسلّم ہے کہ اسلام کا دوسرے ادیان پر غلبہ مسیح و مہدی کے ذریعہ مقدّر ہے۔ (تفسیر ابن جریر)
مولوی ندوی صاحب کا مسیح موعود کے کردار پر حملہ
مولوی ندوی صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۱۸، ۱۱۹ پر باب سوم کی فصل اوّل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کردار پر حملہ کیا ہے اور لکھا ہے:۔
‘‘مرزا صاحب کی خانگی زندگی جس ترفہ، تجمل اور تنعم کی تھی وہ راسخ الاعتقاد متبعین کے لئے بھی ایک شبہ اور اعتراض کا موجب بن گئی۔’’
یہ نتیجہ آپ نے اس شبہ سے نکالا ہے جو خواجہ کمال الدین کے دل میں پیدا ہوا کہ ‘‘جب ہماری بیبیاں خود قادیان میں گئیں وہاں پر رہ کر اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا تو واپس آکر ہمارے سر چڑھ گئیں کہ تم تو بڑے جھوٹے ہو۔ ہم نے تو قادیان جا کر خود انبیاء و صحابہ کیزندگی کو دیکھ لیا ہے جس قدر آرام کی زندگی اور تعیّش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے اس کا عشر عشیر بھی باہر نہیں۔ حالانکہ ہمارا روپیہ کمایا ہواہوتا ہے اور ان کے پاس جو روپیہ جاتا ہے وہ قومی اغراض کے لئے قومی روپیہ ہوتا ہے لہذا تم جھوٹے ہو جو جھوٹ بول کر عرصہ دراز تک ہم کو دھوکا دیتے رہے اور آئندہ ہم ہرگز تمہارے دھوکہ میں نہ آویں گی۔ پس وہ اب ہم کو روپیہ نہیں دیتیں کہ ہم قادیان بھیجیں۔’’
اصل حقیقتیہ ہے کہ خواجہ صاحب نے اپنی جن بیبیوں کا ذکر کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت بخیل تھیں اور وہ سلسلہ احمدیہ سے کوئی اخلاص نہیں رکھتی تھیں اور سخت بخل کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انہوں نے چندہ دینے سے بچنے کے لئے یہ بہانہ تراشا اور آکر بتایا کہ جس قدر آرام کی زندگی اور تعیّش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے اس کا عشر عشیر بھی باہر نہیں۔
یہ فقرہ ان بیبیوں کا سراسر جھوٹ پر مشتمل ہے۔ البتہ یہ درست ہے کہ خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب یہ چاہتے تھے کہ لنگر خانہ کے انتظام کے لئے جو روپیہ احباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھجواتے ہیں دوسرے چندوں کی طرح وہ بھی انہیں مل جائے۔ یہ لوگ ان بیبیوں کے اس بیان کی وجہ سے بدظنی میں مبتلا ہو گئے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس روپے کا کچھ حصہ اپنی گھریلو ضروریات پر صرف کر لیتے ہوں گے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود صاحبِ جائیداد تھے اور قادیان کے رئیس شمار کئے جاتے تھے مگر آپ مہمانوں کیسہولت کے پیش نظر یہ چاہتے تھے کہ لنگر کا روپیہ آپ کے پاس ہی رہے چنانچہ آپؑ نے فرمایا کہ۔
‘‘خدا کا منشاء یہی ہے کہ میرے وقت میں لنگر کا انتظام میرے ہی ہاتھ میں رہے۔ اگر اس کے خلاف ہوا تو لنگر بند ہو جائے گا۔ مگر یہ( خواجہ وغیرہ) ایسے ہیں کہ بار بار مجھے کہتے ہیں کہ لنگر کا کام ہمارے سپرد کر دو اور مجھ پر بدظنی کرتے ہیں۔’’
(کشف الاختلاف صفحہ ۱۴)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فقرہ کہ یہ‘‘ مجھ پر بدظنی کرتے ہیں’’ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ یہ لوگ اپنی بیبیوں کی باتوں میں آکر بدظنی میں مبتلا ہو گئے تھے۔
واضح ہو کہ اس بد اعتقادی کی سزا بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں اس طرح مل چکی ہے کہ یہ دونوں سلسلہ احمدیہ کے نظام خلافت سے الگ ہو گئے اور لاہور میں مولوی محمد علی صاحب نے ایک علیحدہ انجمن بنام احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کی بنیاد ڈالی ۔ اور پھر خواجہ صاحب اس انجمن کے ماتحت بھی نہ رہے بلکہ انہوں نے ووکنگ مسجد کا ٹرسٹ بنوالیا۔ اور پھر مولوی محمد علی صاحب پر اُن کی زندگی کے آخری وقت میں ان کے اپنے ماتحتوں کی طرف سے ان پر مالی معاملات میں الزامِ خیانت کی ایسی بوچھاڑ پڑی کہ وہ ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی۔ ان کی بیگم صاحبہ اپنے ایک خط میں جس کے اقتباسات ہم ‘‘غلبۂ حق’’ میں شائع کر چکے ہیں مسلم ٹاون پوسٹ آفس اچھرہ لاہور سے ہندوستان کے اپنے ایک ہم خیال کو لکھتی ہیں۔
‘‘ان کی روز افزوں مقبولیت کی وجہ سے اپنی جماعت میں ہی سو حاسد ہو گئے اور سالہا سال سے ان کی راہ میں رو ڑے اٹکاتے رہے۔’’
(خط نمبر۲ غلبہ ٔحق صفحہ ۱۵)
آگے چل کر تحریر فرماتی ہیں۔
‘‘مولوی محمد علی صاحب نے ترجمۂ قرآن کو دائمی طور پر شائع کرنے کے لئے ایک ٹرسٹ قائم کر دیا۔ مفسدوں نے مخالفتکاطوفان برپا کر دیا اور طرح طرح کے بیہودہ الزام لگائے۔یہاں تک بکواس کی کہ آپ نے احمدیت سے انکارکر دیا ہے اور انجمن کا مال غصب کر لیا ہے۔’’
(خط نمبر ۴ غلبۂ حق صفحہ ۱۵)
آگے صفحہ ۵ پر تحریر فرماتی ہیں۔
‘‘آخر ان شرارتوں کی وجہ سے مولوی محمد علی صاحب کی صحت بگڑ گئی اور ان تفکّرات نے آپ کی جان لے لی۔ سب ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ اس غم کی وجہ سے حضرت مولوی صاحب کی جان گئی۔’’
(غلبۂ حق صفحہ ۱۵ )
صفحہ۶ پر ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے۔
‘‘ایک وصیت لکھ کر شیخ میاں محمد صاحب کو بھیج دی کہ سات آدمی جو اس فتنہ کے بانی ہیں جن کے دستخط سے یہ سرکلر نکلے تھے اور جن کا سرغنہ مولوی صدر الدین ہے میرے جنازہ کو ہاتھ نہ لگائیں اور نہ ہی نماز جنازہ پڑھائیں۔ چنانچہ اس پر عمل ہوا۔’’
(غلبۂ حق صفحہ ۱۶)
خود مولوی محمد علی صاحب نے لکھا کہ۔
‘‘جب سے مَیں گزشتہ بیماری کے حملہ سے اٹھا ہوں اس وقت سے یہ دونوں بزرگ (ڈاکٹر غلام احمد اور مولوی صدر الدین) اور شیخ عبد الرحمٰن صاحب مصری میرے خلاف پراپیگنڈہ میں اپنی پوری قوت خرچ کر رہے ہیں اور ہر ایک تنکے کو پہاڑ بنا کر جماعت میں ایک فتنہ پیدا کرنا شروع کیا ہوا ہے۔’’
اور آگے لکھا ہے۔
‘‘نہ صرف وہ میری بیماری سے پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں بلکہ ان امور کے متعلق مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر کے میری بیماری کو بڑھارہے ہیں۔’’
پھر لکھتے ہیں۔
‘‘نہ صرف یہ نوٹس جاری کر کے جماعت کے بنیادی نظام پر کلہاڑی چلائی گئی اور امیر جماعت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا گیا ہے بلکہ ان سخت گرمی کے ایام میں مولانا صدر الدین صاحب نے بعض جماعتوں میں دو رہ بھی کیا ہے تا کہ ان پر اپنا ذاتی اثر ڈال کر میرے متعلق جھوٹی باتوں کا خوب چرچا کریں۔’’
(غلبۂ حق صفحہ ۱۴)
سو مولوی محمد علی صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بد ظنی کرنے کی سزا اسی دنیا میں مل گئی۔ اور خواجہ صاحب کو یہ سزا ملی ہے کہ ووکنگ مسجد کا ٹرسٹ بھی اب اُن کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ پس جو شخص خدا کے پیاروں کو بد ظنی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس کو اسی دنیا میں بد ظنی کی سزا مل جاتی ہے آخرت کا علم خدا کو ہے۔ یہ بات کوئی بعید از قیاس نہیں اور نہ شانِنبوّت کے منافی ہے کہ نبی کینبوّت پر ایمان لانے والے بعض لوگ شامتِاعمال کی وجہ سے ایسے شکوک میں مبتلا ہوں۔ چنانچہ ایسی بدظنی کا مظاہرہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق بھی بعض مسلمان کہلانے والوں کی طرف سے ہوا۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الْصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْاوَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَآ إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ (التوبة:۵۸)کہ ان بظاہر ایمان لانے والوں میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو صدقات کے بارے میں اے نبی تجھے الزام دیتے ہیں۔ اگر ان کو اُس میں سے دیا جائے تو خوش ہوتے ہیں اور اگر انہیں نہ دیا جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں۔ پھر غنیمت کی تقسیم پر بھی بعض لوگوں نے حضور علیہ السلام پر اعتراض کیا کہ اس تقسیم میں انصاف سے کام نہیں لیا گیا۔ توآنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر میں انصاف نہ کروں گا تو پھر کون انصاف کرے گا اور قرآن کریم میں اس کا یہ جواب دیا گیا ہےمَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ(اٰل عمران: ۱۶۱)کہ نبی اس نقص سے بلند ہے کہ وہ مالِ غنیمت میں خیانت کرے۔
ابو الحسن ندوی اور ہمچو قسم معترضین کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جواب دیا ہے۔
‘‘مجھے اس بات کی بھی پرواہ نہیں کہ اندرونی اور بیرونی مخالف میری عیب جوئی میں مشغول ہیں کیونکہ اس سے بھی میریکرامتہی ثابت ہوتی ہے۔ وجہ یہ کہ اگر میں ہر قسم کا عیب اپنے اندر رکھتا ہوں اور بقول اُن کے مَیں عہد شکن اور کذّاب اور دجّال اور مُفتری اور خَائن ہوں اور حرام خور ہوں اور قوم میں پھوٹ ڈالنے والا اور فتنہ انگیز ہوں اور فاسق اور فاجر ہوں اور خدا پر قریباً تیس برس سے افترا کرنے والا ہوں اور نیکوں اور راستبازوں کو گالیاں دینے والا ہوں اور میری روح میں بجز شرارت اور بدی اور بدکاری اور نفس پرستی کے اور کچھ نہیں اور محض دنیا کے ٹھگنے کے لئے میں نے ایک دکان بنائی ہے اور نعوذ باللہ بقول ان کے میرا خدا پر بھی ایمان نہیں۔ اور دنیا کا کوئی عیب نہیں جو مجھ میں نہیں۔ مگر باوجود اِن باتوں کے جو تمام دنیا کے عیب مجھ میں موجود ہیں اور ہر ایک قسم کا ظلم میرے نفس میں بھرا ہوا ہے اور بہتوں کے میں نے بیجا طور پر مال کھا لئے اور بہتوں کو میں نے (جو فرشتوں کی طرح پاک تھے) گالیاں دی ہیں۔ اور ہر ایک بدی اور ٹھگ بازی میں سب سے زیادہ حصہ لیا تو پھر اس میں کیا بھید ہے کہ بد اور بدکار اور خائن اور کذّاب تو مَیں تھا مگر میرے مقابل پر ہر ایک فرشتہ سیرت جب آیا تو وہی مارا گیا۔ جس نے مباہلہ کیا وہی تباہ ہوا۔ جس نے میرے پر بددعا کی وہ بد دعا اُسی پر پڑی۔ جس نے میرے پر کوئی مقدمہ عدالت میں دائر کیا اُسی نے شکست کھائی…… چاہئیے تو یہ تھا کہ ایسے مقابلہ کے وقت مَیں ہی ہلاک ہوتا۔ میرے پر ہی بجلی پڑتی بلکہ کسی کے مقابل پر کھڑے ہونے کی بھی ضرورت نہ تھی کیونکہ مجرم کا خود خدا دشمن ہے۔ پس برائے خدا سوچوکہ یہ اُلٹا اثر کیوں ظاہر ہوا؟ کیوں میرے مقابل پر نیک مارے گئے؟ اور ہر ایک مقابلہ میں خدا نے مجھے بچایا۔ کیا اس سے میریکرامتثابت نہیں ہوتی؟’’
(حقیقۃالوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۲)
پس خواجہ صاحب کی بیبیوں نے حضرت مسیح موعود کے گھرانہ پر جو تعیّش کا الزام لگایا ہے وہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہلیہ مکرمہ حضرت اُمّ المُؤمنین نصرت جہاں بیگم کی زندگی اپنی سادگی اور دینداری اور سیرت کے لحاظ سے ایک نمونہ تھی۔ آپ کے زیورات بھی حسبِ ضرورت خدا کی راہ میں خرچ ہوتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر خرچ نہ رہا۔ اُن دنوں جلسہ سالانہ کے لئے چندہ ہو کر نہیں جاتا تھا حضور ؑاپنے پاس سے ہی صرف فرماتے تھے۔ میر ناصرنواب صاحب مرحوم نے آکر عرض کی کہ رات کو مہمانوں کے لئے کوئی سامان نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کر سکے فروخت کر کے سامان کر لیں۔ چنانچہ زیور فروخت یا رہن کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لئے سامان بہم پہنچا دیا۔
(اصحاب احمد جلد چہارم ۔ سیرت احمد صفحہ ۱۸۳)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
‘‘جس چیز نے میرے دل پر خاص طور پر اثر کیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے اُس وقت آپ پر کچھ قرض تھا آپ نے (یعنی حضرت اُمّ المومنین نے)یہ نہیں کیا کہ جماعت کے لوگوں سے کہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ پر اس قدر قرض ہے یہ ادا کردو۔ بلکہ آپ کے پاس جو زیور تھا اُسے آپ نے بیچ کر حضرت مسیح موعودؑ کے قرض کو ادا کر دیا۔’’
(سیرت سیّدہ اُمّ المومنین حصہ دوم صفحہ ۲۹۷)
آپ کی سیرتِ طیّبہ کے بارہ میں شیخیعقوب صاحب تراب رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں۔
‘‘اللہ تعالیٰ کے حقوق پر لحاظ کرتے ہوئے حضرت اُم ّالمومنین میں وہ تمام صفات جمع ہیں جو خدا تعالیٰ کے کامل فرمانبردار میں۔ وہ مومن مرد ہو یا عورت۔
حضرت اُمّ المومنین اللہ تعالیٰ کی زندہ ہستی پر زندہ ایمان رکھتی ہیں۔ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایک روشن دلیل اور شعائر اللہ میںسے ہیں۔ ہر قسم کے شرک و بدعت سے بیزار ایک سچے اور کامل موحد کا رنگ آپ کے ایمان میں ہے۔ خدا تعالیٰ کی تمام صفات کاملہ اور اس کی قدرتوں پر کامل یقین ہے۔ اور اسی لئے آپ دعاؤں کی قبولیت اور اثر پر ایک اٹل ایمان رکھتی ہیں۔ عبادات کو اپنے وقت پر اور سنت نبیکریم صلی اللہ علیہ و سلم کے موافق بجا لاتی ہیں۔ نوافل اور صدقات کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے دائماً ساعی رہی ہیں۔
حقوق العباد کے متعلق ہمیشہ آپ کو خیال رہتا ہے کہ پورے طور پر ادا ہوں۔ آپ نوکروں کے ساتھ ایسا برتاوٴ کرتی ہیں کہ کوئی نہیں کہہ سکتا وہ غیر ہیں۔ خود ان کے کاموں میں ان کی مدد کرنا، ان کی غلطیوں اور کمزوریوں سے چشم پوشی کرنا، خطاوٴں کو معاف کر کے دلجوئی کرنا آپ کی عادت میں داخل ہے۔
مہمان نوازی میں آپ کا درجہ بہت بلند ہے اور اس خصوص میں اِکرامِ ضَیف پر آپ کا عمل ہے…… مساکین،یتامیٰ اور بیوگان کی خبر گیری، ان کی تربیت اور ان کے ساتھ رفق اور محبت کا برتاوٴ ان کی زندگی کے ہر حصہ میں آپ کی عادتِ ثانیہ ہے اور اسی کے لئے آپ کو اُمّ المساکین کہنا بالکل جائز اور درست ہے۔ فیاضی اور اس کے ساتھ احسان کر کے بھول جانا اور کسی سے سلوک ایسے رنگ میں کرنا کہ دوسرے ہاتھ کو علم نہ ہو آپ کی شان ہے۔ باجود عظیم المرتبت خاتون ہونے کے کمال درجہ کی انکساری آپ میں پائی جاتی تھی۔ اقوال سے حرکات و سکنات سے کسی رنگ میں رعونت اور تکبر نہیں پایا جاتا تھا۔ باوجود انکساری کے اپ کا رُعب سب پر رہتا ہے کلام میں شوکت، معقولیت، قوت ِفیصلہ نمایاں رہی ہے۔ باوجود بے تکلّفی کے وقار موجود رہتا ہے۔ زندگی کے ہر مرحلہ خوشی اور غمی میں ایک سکون خاطر پایا جاتا ہے۔ خوشی میں بھی خدا تعالیٰ ہی کی حمد اور اس کے حضور جھکتی ہیںاور اگر کوئی واقعہ غمی کا ہو جائے تب بھی اسی کی مشیّت کے سامنے انشراحِ صدر سے سر جھکاتی ہیں۔ ایسے ابتلاوٴں کے وقت قدم پیچھے نہیں ہٹتا بلکہ مردانہ وار آگے ہی اٹھتا ہے۔
حیا،غَضِّ بَصَر آپ کی خصوصیت ہے۔ محنت اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں کبھی عار نہیں۔ سادگی آپ کا خاصہ ہے۔…… آپ نماز باجماعت کی پابند اور تہجد اور نوافل بھی آپ کا دستور العمل رہا ہے۔ دعاؤں کا خاص ذوق اور عادت ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی دعاؤں کو شرف ِ قبولیت بخشتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قربانی کے لئے آپ کے قلب میں انشراح اور تڑپ رہتی ہے۔ حسن ظنی میں کمال ہے۔ کسی کی غیبت کبھی سننا پسند نہیں فرماتیں۔ اگر کبھی مجلس میں ایسا ذکر آجائے تو فوراً روک دیتی ہیں۔’’
(ملاحظہ ہو سیرت اُمّ المومنین جلد دوم صفحہ ۳۰۷تا۳۰۹)
گورنمنٹ انگریزی کی حمایت اور جہاد کو حرام قرار دینے کا الزام
باب سوم کی فصل دوم میں مولوی ابو الحسن صاحب ندوی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی طرف سے انگریزی حکومت کی تائید و حمایت اور جہاد کی حرمت کو قابلِ اعتراض ٹھہراتے ہیں۔
جہاد بمعنی قتال کے متعلق ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اس کی حِلّت شرائط کے پائے جانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے وقت چونکہ انگریزوں سے ایسے جہاد کی شرائط موجود نہ تھیں اس لئے آپ نے جہاد کو اس وقت تک کے لئے ملتوی قرار دیا کہ اس کی حِلّت کی شرائط پیدا ہو جائیں اور جہاد بصورت تبلیغِ اسلام پورے زور و شور کے ساتھ جاری رکھا۔ بے شک حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتابوں میں جو ہزاروں کی تعداد میں شائع ہو ئیں۔ انگریزوں سے جہاد بالسیف کی ممانعت کی تھی اور مسلمانوں کو ان کی تائید و حمایت کے لئے تلقین فرماتے تھے۔ مگر آپ کا یہ فعل اس وجہ سے بھی تھا کہ حدیث نبوی میں وارد تھا۔ یَضَعُ الْحَرْبَ(صحیح بخاری) کہ مسیح موعود جنگ سے روک دے گا۔ اور یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ آپ سے پہلے تمام علماءِاُمّت انگریزوں سے جہاد جائز نہ ہونے کا فتویٰ دے چکے تھے اور وجہ اس کییہ تھی کہ مسلمانوں نے یہ محسوس کر کے کہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکالا نہیں جا سکتا۔ ان کی حکومت میں مستأمن ہو کر رہنا قبول کر لیا تھا کیونکہ انگریزوں نے ہر مذہب کے لئے مذہبی آزادی اور پرسنل لاء کی اجازت دے دی تھی۔ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی اہلحدیث لکھتے ہیں۔
‘‘علماءِ اسلام کا اسی مسئلہ میں اختلاف ہے کہ ملک ہند میں جب سے حکّام والامقام فرنگ فرمانروا ہیں اُس وقت سے یہ ملک دارالحرب ہے یا دار الاسلام؟ حنفیہ جن سے یہ ملک بھرا ہوا ہے اُن کے عالموں اور مجتہدوں کا تو یہی فتویٰ ہے کہ یہ ملک دار الاسلام ہے۔ اور جب یہ ملک دار الاسلام ہوا تو پھر یہاں جہاد کرنا کیا معنی؟ بلکہ جہاد ایسی جگہ ایک گناہ ہے بڑے گناہوں سے۔ اور جن لوگوں کے نزدیکیہ دار الحرب ہے جیسے بعض علماء دہلی وغیرہ اُن کے نزدیک بھی اس ملک میں رہ کر اور یہاں کے حکّام کی رعایا اور امن و امان میں داخل ہو کر کسی سے جہاد کرنا ہرگز روا نہیں جب تک کہ یہاں سے ہجرت کر کے کسیدوسرے ملک اسلام میں مقیم نہ ہو۔ غرض یہ کہ دار الحرب میں رہ کر جہاد کرنا اگلے پچھلے مسلمانوں میں سے کسی کے نزدیک ہرگز جائز نہیں۔
(ترجمانِ وہابیہ صفحہ۱۵)
حضرتبانیٔ سلسلہ احمدیہؑ سے پہلے حضرت سید احمد بریلوی علیہالرحمۃ مجدد صدی سیزدہم نے یہ سوال ہونے پر کہ آپ دور دراز کا سفر اختیار کر کے سکھوں سے جہاد کرنے چلے گئے ہیں انگریزوں سے جہاد کیوں نہیں کرتے؟ فرمایا۔
‘‘ہمارا اصل کام اشاعتِ توحیدِ الٰہی اور احیائے سنن سید المرسلین ہے۔ سو ہم بلا روک ٹوک اس ملک میں کرتے ہیں پھر ہم سرکار انگریزی پر کس سبب سے جہاد کریں؟’’
(سوانح احمدی صفحہ۱۹۰ ۔از مولوی محمد جعفر تھا نیسری صوفی پرنٹنگ کمپنی بہاء الدین)
مولوی عبد الحی صاحب حنفی اور مولوی احمد رضا صاحب بریلوی حنفی اس زمانہ میں ہندوستان کو دار الاسلام قرار دیتے تھے۔ (دیکھو مجموعہ فتاویٰ عبد الحی لکھنوی جلد۲صفحہ ۲۳۵، مطبوعہ ۱۳۱۱ھ، نصرة الابرار صفحہ۲۹، مطبوعہ مطبع ہمانی لاہور۔ ایچیسن گنج)
مولانا شبلی نعمانی بھی انگریزوں سے جہاد جائز نہیں سمجھتے تھے۔
(دیکھئے مقالات شبلی جلد اوّل صفحہ ۱۷۱ مطبوعہ مطبع معارف اعظم گڑھ)
خواجہ حسن نظامی کا بھییہی مذہب تھا کہ انگریز مذہبی امور میں دخل نہیں دیتے اس لئے لڑائی کرنا اپنے تئیں ہلاکت میں ڈالنا ہے۔
(شیخ سنوسی صفحہ ۱۷)
مولانا حسین احمد مدنی جیسے سیاسی لیڈر تحریر فرماتے ہیں۔
‘‘اگر کسی ملک میں سیاسی اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو، لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدار میں شریکہوں اور ان کے مذہبیو دینی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو تو وہ ملک حضرت شاہ صاحب(شاہ عبد العزیز محدّث دہلوی۔ناقل) کے نزدیک بلاشبہ دارالاسلام ہو گا اوراز روئے شرع مسلمانوں کا فرض ہو گا کہ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لئے ہر نوع کی خیرخواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں۔’’
(نقشِ حیات جلد ۲ صفحہ ۴۱۷، ۴۱۸ ناشر دار الاشاعت کراچی)
آج کل کے سیاسی لیڈر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی امیر جماعت اسلامی رقم طراز ہیں۔
‘‘ہندوستان اُس وقت بلاشبہ دار الحرب تھا جب انگریزی حکومت یہاں اسلامی سلطنت کو مٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اُس وقت مسلمانوں پر فرض تھا کہ یا تو اسلامی سلطنت کی حفاظت میں جانیں لڑاتےیا اس میں ناکام ہونے کے بعد یہاں سے ہجرت کر جاتے۔ لیکن وہ مغلوب ہو گئے اور انگریزی حکومت قائم ہو چکی اور مسلمانوں نے اپنے پرسنل لاء ( مذہبی قوانین۔ ناقل) پر عمل کرنے کی آزادی کے ساتھ یہاں رہنا قبول کر لیا تو اب یہ ملک دار الحرب نہیں رہا۔’’
(سود حاشیہ صفحہ ۲۴۹، طبع اوّل شائع کردہ مکتبہ جماعت اسلامی لاہور)
اُس وقت چاروں مفتیانِ مکہ معظمہ نے بھی ہندوستان کے دار الاسلام ہونے کا فتویٰ دیا تھا۔
(کتاب سید عطاء اللہ شاہ بخاری مؤلفّہ شورش کاشمیری صفحہ۱۳۱)
سر سید احمد خان مرحوم لکھتے ہیں۔
‘‘جبکہ مسلمان ہماری گورنمنٹ کے مستأمن تھے۔ کسی طرح گورنمنٹ کی عملداری میں جہاد نہیں کر سکتے تھے۔’’
شمس العلماء مولوی نذیر احمد دہلوی مرحوم نے فرمایا۔
‘‘ہندووٴں کی عملداری میں مسلمانوں پر طرح طرح کی سختیاں رہیں اور مسلمانوں کی حکومت میں بعض ظالم بادشاہوں نے ہندووٴںکو ستایا۔ الغرض یہ بات خدا کی طرف سے فیصل شدہ ہے کہ سارے ہندوستان کی عافیت اِس بات میں ہے کہ کوئی اجنبی حاکم اُس پر مسلط رہے جو نہ ہندو ہو نہ مسلمان ہی ہو۔ کوئی سلاطینیورپ میں سے ہو۔مگر خدا کی بے انتہاء مہربانی اس کی مقتضی ہوئی کہ انگریز بادشاہ ہوئے۔’’
(مجموعہ لیکچرز مولانا نذیر احمد صفحہ۵۰۴)
غرض حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے دعویٰ سے پہلے تمام علماءِ اسلام یہ فتویٰ دے چکے ہوئے تھے کہ انگریزوںسے جہاد بالسیف ممنوع ہے اور مُفتیانِ مکّہ کا فتویٰ بھییہی تھا اور سیاسی لیڈر بھی اسی میں مصلحت سمجھتے تھے۔
حضرتبانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات کے بعد تک بھی مسلمان انگریزی حکومت کو ایک نعمت خیال کرتے تھے اور ظِلِّ الٰہی جانتے تھے۔ چنانچہ مولانا ظفر علی خان نے اپنے اخبار زمیندار میں لکھا۔
‘‘زمیندار اور اس کے ناظرین گورنمنٹ برطانیہ کو سایہٴخدا سمجھتے ہیں اور اس کی عنایات شاہانہ اور انصاف خسروانہ کو اپنی دلی ارادت اور قلبی عقیدت کا کفیل سمجھتے ہوئے اپنے بادشاہ عالم پناہ کی پیشانی کے ایک قطرہ کی بجائے اپنے جسم کا خون بہانے کے لئے تیار ہے اور یہی حالت ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی ہے۔’’
(زمیندار۹ـنومبر ۱۹۱۱ء)
ہمیںیقین ہے کہ اس وقت مولانا ظفر علی خان کا یہ بیان بالکل سچ تھا منافقانہ نہ تھا۔ انہیں انگریزوں سے مخاصمت بہت بعد میں پیدا ہوئی۔ جارج پنجم کی سلطنت میں انگریزی سلطنت کے متعلق ان کے ایسے ہی خیالات تھے۔
حضرتبانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات ۲۶ـمئی۱۹۰۸ء کو ہوئی۔ چونکہ آپ کو اپنے زمانہ کے علماء اور سیاسی لیڈروں کے انگریزوں سے جہاد کی ممانعت کے متعلق فتاویٰ سے اتفاق تھا اور ان فتاویٰ کی رو سے مسلمانوں کا فرض تھا کہ انگریزوں سے خیر خواہی و خیر اندیشی کا معاملہ کریں۔ اس لئے آپ نے بھی انگریزوں کی تائید و حمایت کی اور انگریزوں کو بھی مسلمانوں سے احسان کا سلوک کرنے کی تلقین فرمائی۔
اس زمانہ میں شیعوں کے مجتہد سید علی الحائری نے بھی حکومت کی انصاف پسندی اور مذہبی آزادی کو بے مثل قرار دیا اور ہر شیعہ کو تلقین کی کہ اُسے اِس احسان کے عوض صمیم قلب سے برٹش حکومت کا رہینِ احسان اور شکر گزار ہونا چاہئے۔ کیونکہ پیغمبرِ اسلام نے نوشیروان عادل کے عہد میں ہونے کا ذکر فخر کے رنگ میں بیان فرمایا ہے۔
(موعظہ تحریف قرآن صفحہ۶۷،۶۸شائع کردہ ینگ مین سوسائیٹی خواجگانِ نارووالی، لاہور)
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے تو یہاں تک لکھا۔
‘‘سلطان(روم) ایک اسلامی بادشاہ ہے۔ لیکن امن عام اور حسن انتظام کینظر سے (مذہب سے قطع نظر) برٹش گورنمنٹ بھی ہم مسلمانوں کے لئے کچھ کم فخر کا موجب نہیں۔ اورخاص کر گروہ اہلحدیث کے لئے تویہسلطنت بلحاظ امن و آزادی اس وقت کی تمام اسلامی سلطنتوں (روم ایران و خراسان) سےبڑھ کر فخر کا محل ہے۔’’
(اشاعۃ السنہ نمبر ۱۰ جلد۶ صفحہ ۲۹۲)
پس مولوی ابو الحسن صاحب کا حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ پر انگریزوں سے جہاد کی ممانعت کو بصورتِ اعتراض پیش کرنا درست نہیں۔ کیونکہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں علماء اسلام کو آپ کے اس طریق پر کہ انگریزوں کی خیرخواہی اور حمایت کی جائے اور ان سے جہاد نہ کیا جائے کوئی اعتراض نہ تھا۔
انگریزوں کا پنجاب کے مسلمانوں کو سکھوں کے مظالم سے نجات دلانا
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے انگریزوں کی تعریف اس لئے بھی کی ہے کہ انہوں نے پنجاب کے مسلمانوں کو سکھوں کے مظالم سے آزادی دلائی۔ حقیقتیہ ہے کہ سکھوں نے پنجاب سے مغلیہ سلطنت کو ختم کر کے مسلمانوں کو نہ صرف غلام بنا رکھا تھا بلکہ ان کی ثقافت اور تمدن کو بھی تباہ کر دیا تھا۔ مسلمان جو صنعت و حرفت پر قابض ہونے کی وجہ سے خوشحال تھے انہیں اقتصادی طور پر تباہ کر دیا تھا اور مسلمان جاگیرداروں کی جاگیریں چھین لی تھیں جن میں خود حضرت مرزا صاحب کا خاندان بھی شامل تھا۔ سکھوں کے عہد میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی بھی حاصل نہ تھی۔ کسی مسلمان کو مسجد میں اذان دینے کی اجازت نہ تھی۔ مسلمانوں کی مساجد اصطبلوں میں تبدیل کر دی گئی تھیں، مدرسے اور اوقاف ویران ہو گئے تھے۔ قومی عصمت بھی سکھوں کے رحم و کرم پر تھی۔مسلمان بیٹیوں کی زبردستی آبروریزی کرنا سکھ معاشرے میں قابلِ فخر کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔
آج بھی شاہی مسجد کے پہلو میں رنجیت سنگھ کی مڑھی کا اضافہ سکھوں کی ذہنیت کا ایک تاریخی ثبوت ہے۔ مسلمان اس وقت گویا جلتے تنور میں تھے۔ جب انگریز نے ۱۸۵۳ء میں پنجاب میں سکھوں کو شکست دی تو انگریز نے مسلمانوں سے حکومت نہیں چھینی تھی بلکہ مسلمانوں کی دشمن سکھ قوم سے حکومت چھینی تھی اور مسلمانوں کو محمڈن پرسنل لاء دے کر مذہبی آزادی سے نوازا تھا۔ ملک میں طوائف الملوکی اور لاقانونیت کی جگہ ایک مضبوط عادلانہ حکومت قائم کر دی۔ اوقاف اور مذہبی ادارے پھر سے زندہ ہونے لگے۔ مذہبی تعلیم پر سے ناروا پابندیاں اٹھالی گئیں۔ بدیں وجہ پنجاب کے مسلمان جو ایک عرصہ سے سکھوں کے ظلم و ستم کا تختۂمشق بنے چلے آرہے تھے۔ اب انہوں نے انگریز کی سلطنت میں سُکھ کا سانس لیا اور انگریزی حکومت کو ایک نعمت سمجھا۔ ان حالات میں اگر مرزا صاحب انگریز کی مخالفت کرتے تو یہ امر سکھ مظالم کی تائید و حمایت کے مترادف ہوتا۔
پس مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کو انگریزی حکومت کی شکر گزاری اور ان کی حمایت اور خیر اندیشی کے مواعظ اس پس منظر اور تاریخی حقیقت کی روشنی میں مطالعہ کرنا چاہئے تھا۔
حضرتبانیٔ سلسلہ احمدیہ کی سیاست دانی
یہ بیان کرنا بھی از بس ضروری ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ جانتے تھے کہ ہندو اکثریت آٹھ سو سال تک مسلمانوں کے ماتحت رہنے کے بعد اب بیدار ہو رہی ہے اور مسلمان زوال کے اس دور میں داخل ہے جس میں ہر فاتح قوم اقتدار چھن جانے پر مبتلا ہو جاتی ہے۔ بعد کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف ایک انتقام کی آگ سلگ رہی تھی۔ اگر اس وقت انگریز ہندوستان کو آزاد کر دیتا تو اس کا نتیجہیہ ہوتا کہ ملک میں ہندوؤں کی ایک متعصب حکومت قائم ہوتی جو مسلمانوں کو ان کے آٹھ سو سالہ دور حکومت کا بدلہ لینے کے لئے اپنے انتقام کا نشانہ بناتی اور وہ حکومت آج کے بھارت کی نام نہاد سیکولر حکومت سے کہیں زیادہ خطرناک حکومت ثابت ہوتی۔ گزشتہ ۲۴ سال سے بھارت میں مسلمانوں سے جو سلوک ہو رہا ہے وہ ابو الحسن صاحب ندوی کی نگاہ سے مخفی نہیں ہونا چاہئے۔ پھر بھارت کی سیکولر حکومت پاکستان پر ۱۹۶۵ء میں چوروں کی طرح جارحانہ حملہ بھی کر چکی ہے اور اب نام نہاد بنگلہ دیش کے ڈھونگ کو جاری رکھ کر جارحانہ اقدام کر چکی ہے۔ پس اگر حضرت مرزا صاحب کے زمانہ میں انگریز ہندوستان کو چھوڑ جاتا تو مسلمانوں کا صرف آقا تبدیل ہوتا۔ انگریز جاتا تو اس سے بدترین صورت کا دشمن آقا ہندو آجاتا۔ اس لئے بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے وقت کا ہر درد مند مسلمانخوفزدہ تھا کہ اگر ایسے حالات میں انگریزوں نے ہندوستان چھوڑا تو یہ امر مسلمان کے حق میں بُرا ثابت ہوگا۔ ہندووں کی جس متعصبانہ ذہنیت نے قائد اعظم کو کانگریس سے علیحدہ ہونے پر مجبور کیا تھا اسی ہندو ذہنیت کا واضح تصوّر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کو بھی تھا اور اس دور کے مسلمان عمائدین کو بھی۔
پاکستان بنانے میں امام جماعت احمدیہ کا کردار
پاکستان کا تصوّر تو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات کے بعد کی پیداوار ہے۔ ہاں جب پاکستان کا واضح تصور پیش ہوا تو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تعلیم کی روشنی میں ہی جماعت احمدیہ نے ہر ممکن آئینی طریق سے مسلمانوں کے اس مطالبہ کی تائیدکی اور پاکستان کے قیام میں ایسی جدو جہد کی کہ اگر امام جماعت احمدیہ وہ جدو جہد نہ کرتے تو پاکستان کا وجود معرضِ خطر میں پڑ چکا تھا۔ تفصیل اس اجمال کییہ ہے کہ انگریز اور ہندو دونوں چاہتے تھے کہ پاکستان نہ بنے اور انگریز اختیارات ہندو کو دے کر ہندوستان چھوڑ جائیں۔ قائد اعظم کانگریس سے الگ ہو کر مسلم لیگ بنا چکے تھے۔ جو اس کوشش میں تھی کہ ہندوستان کے مسلم اکثریت والے علاقوں میں علیحدہ آزاد سلطنت بنا دی جائے۔ ہندو کسی طرح اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ ہندو مسلمانوں میں مفاہمت کے لئے وزارتی مشن ولایت سے آیا مگر مفاہمت میں ناکام رہ کر اس نے وائسرائے کو سفارش کی کہ عبوری حکومت بنا دی جائے۔ اس مشن کی سفارش پر وائسرائے نے کانگریسی ہندوؤں میں سے اکثر کو اور مسلم لیگی عمائدین میں سے بعض کو عبوری حکومت بنانے کی دعوت دی۔ لیکن کانگریس نے اسمبلی میں شامل ہونا تو منظور کر لیا لیکن عبوری حکومت کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس موقع پر انگریز کو چاہئے تو یہ تھا کہ وعدہ کے مطابق اب عنانِ حکومت مسلم لیگ کے سپرد کر دیتا۔ لیکن اس نے چالاکی سے پنڈت جواہر لال نہرو کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ اس پر بطور پروٹسٹ قائد اعظم نے اس کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس وقت حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور راہنمائی کے بعد محسوس کیا کہ اگر مسلم لیگ کی طرف سے بائیکاٹ جاری رہا تو پاکستان معرض وجود میں نہیں آسکتا بلکہ انگریز ہندو کو حکومت دے کر چلا جائے گا۔ لہذا آپ دہلی تشریف لے گئے اور مسلمان لیڈروں اور قائد اعظم کو آمادہ کیا کہ وہ عبوری حکومت میں شامل ہوں ورنہ پاکستان نہیں بن سکے گا۔ قائد اعظم اور مسلمان لیڈروں کو اس خطرے کا پورا احساس ہو گیا۔ مگر ان کے لئے یہ دشواری حائل تھی کہ عبوری حکومت کا بائیکاٹ کرنے کے بعد اُن کا از خود اس میں شامل ہونا وقار کے خلاف تھا۔ اس پر حضرت امام جماعت احمدیہ کی کوشش سے وائسرائے سے اعلان کرایا گیا کہ مسلم لیگ کے لئے عبوری حکومت میں شامل ہونے کا اب بھی موقع ہے۔ چنانچہ اس اعلان پر فوراً مسلم لیگ عبوری حکومت میں شامل ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کی راہنمائی ، فضل و کرم اور حضر ت امام جماعت احمدیہ کی بروقت کوشش سے پاکستان کی حکومت معرض وجود میں آگئی۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ
کوئی دیانتدار اور نیک نیّت مؤرخ جماعت احمدیہ کی اس جدوجہد سے انکار نہیں کر سکتا جو اس نے پاکستان کی حمایت میں کی ۔ پس پاکستان بنانے کے لئے اُس وقت مسلمانوں کو جو جہاد در پیش تھا اُس میں حضرت امام جماعت احمدیہ نے ایک سچے مسلمان کی طرح نہایت مؤثر کردار ادا کیاہے۔
مولوی محمد حسین بٹالوی کی دو رُخی
آپ معلوم کر چکے ہیں کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بڑی شدت کے ساتھ اپنے رسالہ اشاعۃالسنہ میں انگریزی حکومت کی امن و آزادی کی ایسی تعریف کی تھی کہ وہ اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر سمجھتے تھے۔ (اشاعۃ السنہ جلد۱۰ نمبر۶ صفحہ۲۹۳) اور اسی رسالہ میںیہ بھی لکھا تھا کہ ”برٹش گورنمنٹ بھی ہم مسلمانوں کے لئے کچھ کم فخر کا موجب نہیں“ اسی قسم کے خیالات کا اظہار حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کرتے رہے جن کو آج محلِّ اعتراض قرار دیا جاتا ہے۔ مولوی محمد حسین صاحب کی دو رُخی ملاحظہ ہو کہ انہوں نےیہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ بھی انگریزی سلطنت کے حامی ہیں خود تو انگریزی حکومت کی تعریف کی اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے خلاف مخبری کر کے انگریزی حکومت کو آپ کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی۔ چنانچہ لکھا۔
‘‘اس (مرزا غلام احمد) کے دھوکے پر یہ دلیل ہے کہ دل سے وہ گورنمنٹ غیر مذہب کی جان مارنے اور اس کا مال لوٹنے کو حلال و مباح جانتا ہے…… لہذا گورنمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس سے پُر حذر رہنا ضروری ہے ورنہ اس مہدی قادیانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی سے نہیں پہنچا۔’’
(اشاعۃ السنہ جلد۲ نمبر۶ صفحہ ۱۶۸حاشیہ۱۸۹۳ء)
اس قسم کیجھوٹیمخبری سے مولوی محمد حسین صاحب نے کئی مربعے زمین گورنمنٹ سے حاصل کر لی اور گورنمنٹ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کو مشتبہ نظروں سے دیکھنے لگی اور اُس نے قادیان میں نگران مقرر کر دئیے جو ہر آنے جانے والے سے پوچھ گچھ کرتے تھے حالانکہ آپ سچے دل سے گورنمنٹ کے وفادار تھے۔
اب مولوی محمد حسین بٹالوی وغیرہ کی قسم کے ایسے مخالفانہ پراپیگنڈہ کااثر زائل کرنا آپ کے لئے از بس ضروری ہو گیا تا تبلیغ اسلام کے کام میں جس کا بیڑا آپ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے اٹھایا تھا کوئی روک پیدا نہ ہو جائے۔ کیونکہیہ کام آپ کو دل و جان سے زیادہ عزیز تھا۔ اس پراپیگنڈہ کے اثر کو زائل کرنے کے لئے آپ کے لئے اپنی جماعت کی وفاداری اور اپنے خاندان کی پرانی وفاداری کا ذکر گورنمنٹ کے کانوں تک پہنچانا ضروری ہو گیا۔ چنانچہ آپ نے لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کو لکھا۔
‘‘یہ التماس ہے کہ سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جاں نثار خاندان ثابت کر چکی ہے اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معز زحکّام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکّے خیر خواہ اور خدمتگزار ہیں۔ اس خود کاشتہ پودہ کی نسبت (قدیم خاندان کو خود کاشتہ کہا ہے نہ کہ جماعت کو ۔ ناقل) نہایت حزم و احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے۔ اور اپنے ماتحت حکّام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔’’
(تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ ۱۹۔مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۱۹۸)
اس عبارت میں نہ تو جماعت کو انگریزوں کی خود کاشتہ کہا ہے نہ کسی خوشامد و چاپلوسی سے کام لیا گیا ہے بلکہ اس حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے کہ آپ کا خاندان شروع سے وفادار رہا ہے لہذا گورنمنٹ کو آپؑ اور آپؑ کی جماعت کے متعلق کسی شبہ میں نہیں پڑنا چاہئے۔ بلکہ عنایت و مہربانی کی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ کیونکہ آپ خود بھی وفادار ہیں اور آپ کا خاندان بھی وفادار رہا ہے اور آپ کی جماعت بھی وفادار ہے۔
مندرجہ بالا اقتباس ندوی صاحب نے ‘‘خود کاشتہ پودا’’ کے عنوان سے درج کیا ہے۔ جب ان کو اس میںیہ بات نہ ملی کہ جماعت کو انگریزوں کی خود کاشتہ قرار دیا گیا ہے تو انہوں نے لکھا۔
‘‘کسی درخواست میں اپنے اور اپنی جماعت کے لئے سرکارِ انگریزی کی نمک پروردہ نیک نامی حاصل کردہ اورموردِ مراحمِ گورنمنٹ کے الفاظ آئے ہیں۔’’
ابو الحسن صاحب کی اس بات نے واضح کر دیا ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سارا بیان نہیں پڑھا اور کہیں سے معترضین کا پیش کر دہ ادھورا حوالہ لے لیا ہے۔
مندرجہ بالاجن فقرات کو خود کاشتہ والی عبارت پیش کرنے کے بعد انہوں نے کسی درخواست کی طرف منسوب کیا ہے حقیقت میں وہ عبارت بھی چوبیس فروری والی درخواست کی ہی ہے۔ اس میں آپ لکھتے ہیں۔
‘‘غرضیہ ایسی جماعت ہے جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ نیک نامی حاصل کردہ اور موردِ مراحم گورنمنٹ ہے یا وہ لوگ جو میرے اقارب و خدام میں سے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد علماء کی ہے جنہوں نے میری اتباع میں اپنے وعظوں سے ہزاروں دلوں میں گورنمنٹ کے احسانات جما دیئے۔’’
اس عبارت سے بھی اسی غلط پراپیگنڈہ کا ازالہ مقصود ہے کہ مرزا صاحب باغی ہیں۔ وہ مہدی سوڈانی سے بھی خطرناک ثابت ہوں گے۔ لہذا آپ کے لئے اپنی جماعت اور اقارب نیز اپنے متبعین علماء کے متعلق بھی مولوی محمد حسین کی مخبری کے غلط اثر کو دور کرنے کی ضرورت تھی۔ سوجماعت کو نمک پروردہ آپ نے اس لئے کہا کہ یہ جماعت انگریزی عہد میں پنپی ہے اور حکومت کی مذہبی آزادی سے فائدہ اٹھا کر وجود پذیر ہوئی ہے۔ ورنہ گورنمنٹ نے جماعت احمدیہ سے کوئی الگ سلوک نہیں کیا تھا جو دوسروں سے نہ کیا ہو۔ لیکن گورنمنٹ کے جماعت کو آزادی سے پنپنے دینے کے فعل کو اس کا نمک پروردہ ہونا اور مورد مرحمت ہونا بیان کیا ہے۔
جماعت کو نیک نامی حاصل کردہ اس لئے قرار دی گیا ہے کہ جماعت میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو سرکار انگریزی میں نیک نامی سے خدمت کر رہے تھے۔
عجیب بات ہے کہ آج مولوی ندوی صاحب کو یہ نظر آرہا ہے کہ انگریزی حکومت کی وفاداری ، اخلاص اور خدمت کا جذبہ قادیانی سیرت و اخلاق کا جُز بن گیا ۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میںیہ جذبہ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کے سب بزرگوں میں کارفرما تھا۔
جاسوسی کا الزام
مولوی ابو الحسن صاحب نے انگریزی حکومت کے رضاکار اور جاسوس کا عنوان دے کر کابل میں شہید کئے جانے والے احمدیوں کو انگریزوں کے جاسوس قرار دیا ہے اور دلیل اس کییہ دی ہے کہ مُلّا عبد الحلیم اور مُلّا نور علی قادیانی کے پاس سے ایسی دستاویزیںاور خطوط برآمد ہوئے ہیں جن سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ افغان حکومت کے غدّار اور انگریزی حکومت کے ایجنٹ اور جاسوس ہیں۔ افغان حکومت کے وزیر داخلہ کے اعلان کو پیش کیا ہے کہ۔
‘‘مملکت افغانیہ کے مصالح کے خلاف غیر ملکی لوگوں کے سازشی خطوط ان کے قبضے سے پائے گئے تھے۔ جن سے پایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے دشمنوں کے ہاتھوں بِک چکے تھے۔’’
یہ بیان صرف مظلوموں کے بے گناہ خون سے ہاتھ رنگنے کا جو از ثابت کرنے کے لئے شائع کیا گیا تھا۔ تابین الاقوامی دنیا میں حکومتِ افغانستان کو حقارت اور نفرت سے نہ دیکھا جائے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ حکومتِ افغانستان نے ان دستاویزات کو بعدمیں شائع نہ کیا۔حالانکہ اس دوران میں اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ اس واقعہ کی تفصیل مزید تفتیش کے بعد شائع کی جائے گی۔ اس اعلان کے مطابق حکومت افغانستان کا فرض تھا کہ تحقیق کے بعد وہ نتائج شائع کرتی مگر حکومتِ افغانستان نے مظلوموں کو تو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا مگر ان غیر ملکی خطوط کی کوئی تفصیل نہ دی تا حکومت کے اپنے جرم پر پردہ پڑا رہے۔ مگر مظلوم کی آہ خالی نہیں جاتی۔ لہذا یہ دونوں اصحاب جو بے گناہ شہید کئے گئے محض مذہبی تعصب کی بناء پر ان پرظلم روا رکھا گیا ان کی آہیں بے اثر نہیں گئیں۔ یہ آہیں آسمان تک پہنچیں اور اس کے بعد امیر امان اللہ خان کی حکومت خدا کے غضب کی مورد بنی۔ اس طرح کہ ایک معمولی سپاہی بچہ سقّہ کے ہاتھوں جس نے تین سو افراد کا جتھہ لے کر بغاوت کر دی۔ امان اللہ خان کی منظّم سلطنت کو شکست کھانا پڑی اور وہ اپنے بھائی امیر عنایت اللہ خان کے حق میں حکومت سے دستبردار ہو کہ ملک چھوڑ گئے۔ پھر امیر عنایت اللہ خان کو بھی چند گھنٹوں کے بعد دستبردارہونا اور ملک چھوڑنا پڑا۔ اس طرح اس حکمران خاندان کے ہاتھ سے اقتدار نکل گیا۔
اس کے بعد امیر امان اللہ خان نے ہوٹل جاری کر کے گویا بھٹ جھونک کر اپنی زندگی کے ایّام گزارے۔ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَار
درشت کلامی اور دشنام طرازی کے الزامات
باب سوم کی فصل سوم میں مولوی ابو الحسن صاحب لکھتے ہیں۔
‘‘انبیاءعلیھم السلام اور ان کے متبعین کے متعلق یقین اور تواتر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت شیریں کلام، پاکیزہ زبان،صابر و متحمل، عالی ظرف، فراخ حوصلہ اور دشمن نواز ہوتے ہیں۔ وہ دشنام کا جواب سلام سے، بددعا کا جواب دعا سے، تکبر کا جواب فروتنی سے اور رذالت کا جواب شرافت سے دیتے ہیں۔
ان کی زبان کبھی کسی کے دشنام اور کسی فحش کلام سے آلودہ نہیں ہوتی۔ طنز و تعریض ، تفضیح و تضحیک، ہجوِ ملیح،ضلع، جگت وغیرہ سے ان کی فطرت عالی کو کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ وہ اگر کسی کی تردیدیا مذمّت کرتے ہیں تو سادہ اور واضح الفاظ میں وہ کسی کے نسب پر حملہ کرنے اس کے خاندان یا آباوٴ اجداد پر الزام لگانے اور درباری شاعروں اور لطیفہ گویوں کی طرح چٹکی لینے اور فقرہ چُست کرنے کے فن سے ناآشنا ہوتے ہیں۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۴۳)
پھر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے متعلق لکھتے ہیں۔
‘‘اس کے بالکل بر عکس مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے مخالفین کو (جن میں جلیل القدر علماء اور عظیم المرتبت مشائخ تھے) ان الفاظ سے یاد کیا ہے اور ان کی ان الفاظ میں ہجو کی اور خاک اڑائی ہے کہ بار بار تہذیب کی نگاہیں نیچی اور حیا کی پیشانی عرق آلود ہو جاتی ہے۔ ان مخالفین کے لئے ذریۃ البغایا (بدکار عورتوں کی اولاد) کا کلمہ تو مرزا صاحب کا تکیہ کلام ہے اور ان کی اس ہجو کے زیادہ تیز اور شوخ نمونے عربی نظم و نثر میں ہیں۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۴۵)
آگے دو نمونے پیش کئے ہیں۔
‘‘اگریہ گالی دیتے ہیں تو میں نے ان کے کپڑے اتار لئے ہیں اور ایسا مردار بنا کر چھوڑ دیا جو پہچانا نہیں جاتا۔
دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کُتیوں سے بڑھ گئیں۔’’
اس کے بعد مولوی ندوی صاحب نے بعض علماء کا نام لے کر لکھا ہے کہ مرزا صاحب نے ان کے متعلق ذئاب و کلاب، شیطان لعیم، شیطان اعمیٰ، عول ، اغوی، شقی و ملعون کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔
الجواب
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے مخالفین کی بدکلامی کو اکثر صبر سے برداشت کرتے رہے ہیں۔ آپ کو معاندین کی طرف سے صدہا خطوط غلیظ اور گندی گالیوں سے پُر موصول ہوتے تھے لیکن آپ ہمیشہ ان پر صبر کرتے تھے۔آپ نے کسی کی بدکلامی کا نوٹس اس وقت لیا ہے جب کہ یہ بدکلامی انتہاء کو پہنچ گئی۔ ایسے موقعہ پر آپ نے جوابی طور پر کسی قدر سخت کلامی سے کام حسب آیتجَزَآءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ضرور لیا ہے۔ کیونکہ مظلوم کی طرف سے سخت کلامی سےکام حسب آیت جَزَآءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا(الشورٰى:۴۱) ضرور لیا ہے کیونکہ مظلوم کی طرف سے سخت کلامی خدا تعالیٰ کو پسند نہیں۔ وہ فرماتا ہےلَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ (النساء:۱۴۹)یعنی خدا مظلوم کے سوا اور کسی سے اعلانیہ سخت کلامی کو پسند نہیں کرتا۔ پس حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا انتہائی مظلومانہ حالت میں اپنے دشمنوں کو کسی قدر سخت کلامی سے جواب دیناہرگز قابل اعتراض امر نہیں۔
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی طرف سے سخت کلامی کی وجوہ
خود حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑاپنی طرف سے بعض لوگوں کے متعلق کسی قدرسخت کلامی کی وجوہ یوں بیان فرماتے ہیں۔
‘‘مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی استعمال میں آئی تھی لیکن وہ ابتدائی طور پر سختی نہیں ہے۔ بلکہ وہ تمام تحریریںنہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں۔ مخالفوں کے الفاظ ایسے سخت اور دشنام دہی کے رنگ میں تھے جن کے مقابل پرکسی قدر سختی مصلحت تھی۔ اِس کا ثبوت اُس مقابلہ سے ہوتا ہے جو میں نے اپنی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کےسخت الفاظ اکٹھے کر کے کتاب مثل مقدمہ مطبوعہ کے ساتھ شامل کئے ہیں جس کا نام میں نے ‘‘کتاب البریّت’’ رکھا ہے اور باایں ہمہ میں نے ابھیبیان کیا ہے کہ میرے سخت الفاظ، جوابی طور پر ہیں۔ ابتدا سختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے۔ اور میں مخالفوں کے سخت الفاظ پر بھی صبر کر سکتا تھا۔ لیکن دو مصلحت کے سبب سے میں نے جواب دینا مناسب سمجھا تھا۔
اوّلیہ کہ تا کہ مخالف لوگ اپنے سخت الفاظ کا سختی میں جواب پا کر اپنی روش بدلا لیں اور آئندہ تہذیب سے گفتگو کریں۔
دومیہ کہ تامخالفوں کی نہایت ہتک آمیز اور غصہ دلانے والی تحریروں سے عام مسلمان جوش میں نہ آویں اور سخت الفاظ کے جواب بھی کسی قدر سخت پا کر اپنی پُر جوش طبیعتوں کو اس طرح سمجھا لیں کہ اگر اُس طرف سے سخت الفاظ استعمال ہوئے تو ہماری طرف سے بھی کسی قدر سختی کے ساتھ اُن کو جواب مل گیا ہے۔’’
(کتاب البریّہ، روحانی خزائن جلد۱۳صفحہ ۱۰،۱۱)
علماء کے بانیٔسلسلہ احمدیہ کے خلاف سخت الفاظ
مولوی ابو الحسن صاحب نے علماء کے متعلق حضرت مرزا صاحب کے بعض سخت الفاظ استعمال نقل کئے ہیں وہ ذرا اپنے علماء کے کلام کا نمونہ حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ کے خلاف ملاحظہ کر لیں۔ ان کے نمونہ کو ملاحظہ کر لینے کے بعد امید ہے کہ ایسے لوگوں سے جواب میں سختی کرنے میں مولوی ابو الحسن صاحب ندوی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کو معذور جاننے کے سوا چارہ نہیں پائیں گے۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی سخت کلامی کا نمونہ
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی مخالفت میں بدزبانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘اسلام کا چھپا دشمن، مسیلمہ ثانی، دجّال زمانی، نجومی، رملی، جوتشی، اٹکل باز، جفری، بھنگر، پھکڑ، ارڑپوپو……مکار، جھوٹا، فریبی، معلون، شوخ،گستاخ، مثیل الدجّال، اعور، دجّال غدار، پُر فتنہ و مکّار، کاذب، کذّاب، ذلیل و خوار،مردود، بے ایمان، رُوسیاہ، مثیل مسیلمہ و اسود، رہبرِ ملاحدہ، عبد الدراہم والدنانیر، تمغاتِ لعنت کا مستحق، موردِ ہزار لعنتِ خدا و فرشتگان و مسلمانان، کذّاب، ظلّام، افّاک، مفتری علی اللہ جس کا الہام احتلام ہے، پکّا کاذب، ملعون کافر، فریبی، حیلہ ساز، اکذب، بے ایمان، بے حیا، دھوکہ باز، حیلہ باز، بھنگیوں اور بازاری شہدوں کا سرگروہ، دہریہ، جہاں کے احمقوں سے زیادہ احمق، جس کا خدامعلّم الملکوت(شیطان)، محرّف، یہودی، عیسائیوں کا بھائی، خسارت مآب، ڈاکو، خونریز، بے شرم، بے ایمان، مکّار، طرار جس کا مرشد شیطان علیہاللعنۃ، بازاری شہدوں کا ہراول، بہائم اور وحشیوں کی سیرت اختیار کرنے والا، مکرچال، فریب کی چال والا۔ جس کی جماعت بدمعاش، بدکردار، جھوٹ بولنے والی، زانی، شرابی، مالِ مردم خور، دغاباز، مسلمانوں کو دام میں لا کر اُن کا مال لوٹ کھانے والا۔ ایسے سوال و جواب میںیہ کہنا……حرام زادگی کی نشانی ہے۔ اس کے پیرو خوانِ بے تمیز۔’’
مولوی نذیر حسین دہلوی کی دشنام طرازی
‘‘اس کو تیس دجّالوں میں سے جن کی خبر حدیث میں وارد ہے ایک دجّال کہہ سکتے ہیں۔ اس کے پیرو ہم مشرب ذرّیاتِ دجّال، خدا پر افترا باندھنے والا۔ اس کی تأویلات الحاد و تحریف کذب و افتراء سے کام لینے والا ۔ دجال بے علم ، نا فہم، اہلِ بدعت و ضلالت۔’’
مولوی عبد الجبّار غزنوی کی دشنام طرازی
آپ کو دجّال، کذّاب کہنے کے بعد لکھا ہے۔
‘‘اس کے چوزے (اتباع) ہنود و نصاریٰکے مخنث ہیں۔’’
(فتویٰ صفحہ۲۰۰)
عبد الصمد بن عبد اللہ غزنوی کی دشنام طرازی
‘‘کجرو، پلید، فاسد ہے اور رائے کھوٹی گمراہ ہے۔ لوگوں کو گمراہ کرنے والا، چھپا مرتد، بلکہ وہ اپنے شیطان سے زیادہ گمراہ جو اس کے ساتھ کھیل رہاہے۔’’
(فتویٰ صفحہ ۲۰۲)
عبد الحق غزنوی کی دشنام
‘‘اشتہارضرب النعال علی وجہ الدّجّال: دجّال، ملحد، کاذب، روسیاہ، شیطان، لعنتی، بے ایمان، ذلیل، خوار، خستہ خراب، کافر، شقی سرمدی ہے۔لعنت کا طوق اس کے گلے کا ہار ہے۔ لعن و طعن کا جوت اس کے سر پر پڑا۔ وغیرہ’’
مولوی سعد اللہ نو مسلم کی دشنام
‘‘قادیانی رافضی، بے پیر، دجّال، یزید، اس کے مریدیزیدی خانہ خراب، فتنہ گر، ظالم، سیاہ کار، روسیاہ، بے شرم، احمق، کاذب، خارجی، بھانڈ، یاوہ گو، غبی، بدمعاش، لالچی، جھوٹا، کافر، مفتری، ملحد، دجّال حمار، بُزِ اَخْفَش، بکواسی، بد تہذیب اور دون ہے۔ وغیرہ’’
ہم نے اس جگہ بعض علماء کے دشنام طرازی کے نمونے پیش کئے ہیں جو مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کے نزدیک متبعینِ رسولؐ ہیں۔ ایسے گندہ دہن علماء کے جواب میں کسی قدر سختی تا کہ وہ اپنی روش کو بدلیں ان کی اصلاح کے پیش نظر ضروری تھی۔
سخت الفاظ کا استعمال از روئے قرآن مجید بھی بعض حالات میں نہ صرف جائز ہے بلکہ خود خدا تعالیٰ نے بھی معاندین اسلام، مشرکین اور یہود کے متعلق قرآن مجید میں سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔چنانچہ فرمایا۔إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوْا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِيْنَ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِيْنَ فِيْهَا أُولٰٓئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ(البيّنة:۷)یعنی جن لوگوں نے اہل کتاب اور مشرکین میں سے انکار کر دیا ہے۔ وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ یہ لوگ تمام مخلوق میں سے بدتر ہیں۔ اس آیت میں مشرکین اور یہود کو جنہوں نے اسلام کا انکار کیا۔ جہنمی اور تمام مخلوقات میںسے کتوں، خنزیروں، سانپوں، اور بچھووٴں وغیرہ سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے۔ پھر حاملینِ تورات کو یعنییہود اور ان کے علماء کو مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا(الجمعة:۶)میں گدھوں کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح یہود کے متعلق قرآن کریم میںوارد ہے جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيْرَ(المآئدۃ:۶۱)کہ خدا نے ان میں سے بعض کو بندر اور سوٴر بنا دیا ہے۔ اب جو یہودی اور مشرکین اپنے متعلق یہ کلمات سنتے تھے وہ ان سے خوش تو نہیں ہوتے تھے۔مگر خدا تعالیٰ نے یہ جانتے ہوئے کہ ان الفاظ سے وہ خوش نہیں ہوں گے پھر بھی ایسے الفاظ ان کے حق میں استعمال فرمائے۔ بلکہ یہ بھی کہا ہے عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَآئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ (البقرة:۱۶۲) کہ ان پر اللہ ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔
پس جوابی طور پر دشمنوں کے متعلق سخت الفاظ کا استعمال قرآن مجید میں جب ہوا تو اسے ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے قریش کے بعض لوگوں پر ایک ماہ مسلسل لعنت پڑنے کی دعا بھی کی۔(ملاحظہ ہو صحیح بخاریکتاب الوتر باب القنوت قبل الرکوع و بعدہ)
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو جو شاعر تھے خود ہدایت فرمائیاُھْجُھُمْ وَ جِبْرِیْلُ مَعَکَکہ قریش کی شعروں میں ہجو کرو جبریل تمہارے ساتھ ہے۔ یعنی تمہیں جبریل کی تائید حاصل ہوگی۔
نیز ہدایت فرمائی:۔
‘‘شَنِّ الْغارَةَ عَلٰی عَبْدِ مَنَافٍ فَوَ اللّٰہِ لَشِعْرُکَ اَشَدُّ عَلَیْھِمْ مِنْ وَقْعِ الْحُسَامِ فِیْ غَبْشِ الظَّلَامِ۔’’
(ادب العربی وتاریخہ الجزء الاوّل صفحہ ۱۲۴)
ترجمہ۔ بنی عبد مناف پر شعر میں جارحانہ حملہ کرو۔ خداکی قسم تیراشعر ان پر تاریکی میں تلوار پڑنے سے بھی زیادہ سخت ہے ۔یہبھی واضح رہے کہ حضرت حسّان کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں منبر رکھوا دیتے اور ان کا کلام دشمنوں کی ہجو پر مشتمل سنا جاتا تھا۔
چنانچہ اسی جگہ ادب العربی و تاریخہ میں لکھا ہے۔
‘‘وَکَانَ یُنْصَبُ لَہُ مِنْبَرًا فِی المَسْجِدِ وَ یُسْمَعُھَجَائُہٗ لِاَعْدَائِہٖ۔’’
پس جوابی طور پر سخت کلامی جو ہجو وغیرہ پر مشتمل ہو مزاجِنبوّت کے بھی خلاف نہیں۔ لہذا مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا طعن ردّ ہوا۔
ماسوا اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے متبعین کے طرز عمل سے بھی ثابت ہے کہ انہیں بعض اوقات اعدائے اسلام کے لئے سخت الفاظ استعمال کرنا پڑے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جنہیں افضل اُمّت قرار دیا گیاہے ایک دشمن اسلام کو کہا کہ‘‘ اُمْصُصْ بِبَظَرِ اللَّاتِ’’۔ کہ لات بُت کی جائے مخصوص چُوس۔(ملاحظہ ہو صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجھاد والمصالحۃ)
حضرت امام ابو حنیفہ علیہالرحمۃ نے جن کے ماننے والوں کی پاکستان اور ہندوستان میں کثرت ہے حضرت اُمّ المؤمنین عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانے والوں کے متعلق کہا ہے۔
‘‘مَنْ شَہِدَ عَلَیْھَا بِالزِّنَاءِ فَھُوَ وُلَدُ الزَّنَاءِ’’
(الوصیّت صفحہ ۳۹ مطبوعہ حیدرآباد دکن)
یعنی جو شخص حضرت عائشہؓ پر زنا کی تہمت لگائے وہ ولد الزناء ہے۔
پھر شیعوں کے امام جعفر صادق ؓ فرماتے ہیں۔
‘‘فَمَنْ اَحَبَّنَا کَانَ نُطْفَةُ العَبْدِ وَمَنْ اَبْغَضَنَا کَانَ نُطْفَةُالشَیْطَانِ۔’’
(فروع کافی جلد۲ صفحہ ۲۱۶ کتاب النکاح مطبوعہ نولکشور)
یعنی جو شخص ہم سے محبت رکھتا ہے وہ بندے کا نطفہ ہے مگر جو ہم سے بغض رکھتا ہے وہ نطفہٴ شیطان ہے۔
پس حضرت امام ابو حنیفہ اور امام جعفر صادق کے الفاظ اظہار ناراضگی کے لئے ہیں حقیقت میں ان الفاظ کے لُغوی معنوں میں اُن لوگوں کے حسب پر طعن مقصود نہیں۔ پس ایسے الفاظ مجاز کے طور پر استعمال ہوئے ہیں نہ کہ حقیقت کے طور پر۔
مولوی ابو الحسن صاحب کاافتراء
مولوی ابو الحسن صاحب نے حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ پر یہ افتراء بھی کیا ہے کہ مخالفین کے لئے ذُرِّیَّۃُالْبَغَایَاکے الفاظ آپ کا تکیۂ کلام ہیں۔ اس جگہ مولوی ابو الحسن صاحب نےذُرِّیَّۃُالْبَغَایَاکا ترجمہ بدکار عورتوں کی اولاد کیا ہے۔ مولوی ندوی صاحب کے اس الزام کو ہم افتراء کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں جب کہ ذُرِّیَّۃُالْبَغَایَاکے الفاظ آپ نے صرف ایک دفعہ اور وہ بھی دشمنانِ اسلام کے حق میں استعمال کئے ہیں۔ جن کے دلوں پر آگے لکھتے ہیں اللہ نے مہر لگا دی ہے۔ پھر یہ الفاظ آپ نے مسلمانوں کے حق میں استعمال نہیں کئے۔ اور ان کی تشریح میں اَلَّذِیْنَ خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْکہہ کر واضح کر دیا ہے کہیہ الفاظ اُن کی سرکشی کی حالت بیان کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں اُن کے حسب پر طعن نہیں کیا گیا۔
عربی لغت کی کتاب تاج العروس میں لکھا ہے۔
‘‘البَغِیَّةُ فِی الْوَلَدِ نَقِیْضُ الرُّشْدِ وَ یُقَالُ ھُوَ ابنُ بَغِیَّةٍ’’
(باب الواو والیاء فصل الباء)
یعنی عربی محاورہ میںالبغیّۃ کا لفظ جب اولاد کی نسبت سے مذکور ہو تو یہ لفظ رُشد یعنی ہدایت کی نقیض کے معنوں میں ایسے شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو رُشد و ہدایت سے محروم ہو، چنانچہ ایک خاص سرکش کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ نے ابن بغاء کا لفظ استعمال کر کے خود اس کے معنی‘‘اے سرکش انسان’’ کئے ہیں۔
(ملاحظہ ہو الحکم ۲۴ـفروری۱۹۰۷ء صفحہ۲)
آئینہ کمالات اسلام میںذُرِّیَّۃُالْبَغَایَاوالی عبارت سے پہلے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ مسلمانوں کا ذکر ملکہ وکٹوریہ کو مخاطب کر کے ان الفاظ میں فرماتے ہیں۔
‘‘اے قیصرہ ہند میں آپ کو محض لِلّٰہ نصیحت کرتا ہوں کہ مسلمانانِ ہند تیرے خاص بازو ہیں اور ان کو تیری مملکت میں ایک خصوصیّت حاصل ہے اس لئے تجھے چاہئے کہ مسلمانوں پر خاص نظر عنایت رکھے اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائے اور ان کی تالیفِ قلوب کرے اور ان کو اعلیٰ سے اعلیٰ مناصب اور عہدوں پر سرفراز کرے۔ وہ اس ملک میں ایک ہزار سال تک حکومت کر چکے ہیں اور ان کو اس ملک میں ایک خاص شان حاصل تھی اور وہ ہندووٴں پر حاکم رہے ہیں اس لئے تجھے بھی مناسب ہے کہ تو ان کی عزت و تکریم کرے اور بڑے بڑے عہدے ان کے سپرد کرے۔’’
پھر زیر بحث عبارت کے سیاق میں تحریر فرماتے ہیں۔
‘‘جب میں بیس سال کی عمر کو پہنچا تبھی سے میرے دل میںیہ خواہش رہی کہ اسلام کی نصرت کروں اور آریوں اورعیسائیوں کے ساتھ مقابلہ کروں۔ چنانچہ اس غرض سے میں نے متعدد کتب تصنیف کیں جن میں سے ایک براہین احمدیہ ہے۔ ……نیز اور کتابیں بھی ہیں جن میں سے سرمہ چشم آریہ، توضیح مرام، فتح اسلام، ازالہ اوہام ہیں۔ نیز ایک اور کتاب بھی ہے جو میں نے انہی دنوں لکھی ہے اس کا نام دافع الوساوس(آئینہ کمالات اسلام) ہے۔ ان لوگوں کے لئے جو دینِ اسلام کا حسن دیکھنا چاہیں اور دشمنانِ اسلام کو لاجواب کرناچاہتے ہیںیہ کتاب نہایت مفید ہے۔یہ کتابیں ایسی ہیں کہ سب کے سب مسلمان ان کو محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان کے معارف اور مطالب سے فائدہ اٹھائیں گے۔’’
اس کے بعد زیر بحث عبارت آتی ہے جس میں فرماتے ہیں۔
‘‘کُلُّ مُسْلِمٍ یَقْبَلُنِی وَ یُصَدِّقُ دَعْوَتِیْ الَّا ذُرِّیَّةُ الْبَغَایَا الَّذِیْنَ خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوْبِھِمْ’’۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۵۴۷، ۵۴۸)
کہ ہر مسلمان مجھے قبول کرے گا اور میری اس دعوت (اسلام) کی تصدیق کرے گا سوائے ذُرِّیَّۃُالْبَغَایَا کے (یعنی سوائے سرکش غیر مسلموں کے) جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر کر دی ہے وہ اس دعوت اسلام کو نہیں مانیں گے۔
سیاق کلام سے ظاہرہے کہ اِلَّاذُرِّیَّۃُالْبَغَایَاکے الفاظ میں اِلَّا حرفِ استثناء، اِس عبارت میں استثنائے منقطع کے لئے استعمال ہوا ہے اور مراد اس سے صرف آریہ اور عیسائیوں میں سے وہ سرکش لوگ ہیں جو آپ کی دعوت اسلام کو یہ قبول نہیں کریں گے۔
پس اس سے ظاہر ہے کہ ذُرِّیَّۃُالْبَغَایَا کے الفاظ اس سیاق میں مسلمانوں کے حق میں وارد نہیں۔ یہ فقرہ ایسا ہی ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایافَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى أَنْ يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ(الحجر :۳۱، ۳۲) کہ تمام ملائکہ نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ اس نے انکار کیا کہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہو۔
دوسری جگہ ابلیس کے متعلق فرمایا۔كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ (الكهف:۵۱) کہ ابلیس ملائکہ میں سے نہ تھا وہ جِنّوں میں سے تھا۔ پس اُس نے خدا کے حکم کو نہ مانا۔
پس جس طرح اِلَّا اِبْلِیْس کے الفاظ میںاِلَّا بطور استثناء منقطع کے استعمال ہوا ہے اسی طرحاِلَّا ذُرِّیَّةُ الْبَغَایَا میںاِلَّا استثنائے منقطع کے لئے استعمال ہوا ہے اور اس طرح مراد ذُرّیّة البغایا سے وہ سرکش غیر مسلم ہیں جن کے دلوں پر خدا تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے۔ اس جگہ مہر لگایاجانے کا ذکر ذرّیّة البغایا کی تشریح کے طور پر ہے کہ اس سے سرکش لوگ مراد ہیں۔
امام ابو جعفر یعنی امام باقر نے اپنے دشمنوں کے متعلق کہا ہے:۔
اَلنَّاسُ کُلُّھُمْ اَوْلَادُ بَغَایَا مَا خَلَا شِیْعَتَنَا
(الفروع الکافی حصہ سوم کتاب الروضہ صفحہ ۱۲۵، مطبوعہ نولکشور)
ہم سے محبت رکھنے والے گروہ کے سوا باقی سب لوگ اولاد بغایایعنی سرکشی کرنے والے لوگ ہیں۔
اس جگہ امام صاحب نے کسی کے حسب پر طعن نہیں کیا بلکہ اولاد بغایا کے الفاظ رشد و ہدایت سے محروموں کے لئے ہی استعمال کئے ہیں۔
چنانچہ امام موصوف کے اس قول کی عربی محاورہ کے مطابق وضاحت میں اخبار مجاہد ۱۴ـ مارچ ۱۹۳۶ء میں لکھا گیا ہے:۔
‘‘ولد البغایا، ابن الحرام، ولد الحرام، ابن الحلال، بنت الحلال وغیرہیہ سب عرب کا محاورہ ساری دنیا کا محاورہ ہے۔ جو شخص نیکوکاری کو ترک کر کے بدکاری کی طرف جاتا ہے اس کو باوجودیکہ اس کا حسب نسب درست ہو صرف اعمال کی وجہ سے ابن الحرام، ولد الحرام کہتے ہیں۔ اس کے خلاف جو نیکوکار ہوتے ہیں ان کو ابن الحلال کہتے ہیں۔ اندریں حالات امام صاحب کا اپنے مخالفین کو اولاد بغایا کہنا بجا اور درست ہے۔’’
نیکو کاری سے بعید ہو جانے اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی اسلام کی تائید میں ایک پیشگوئی کے خلاف عیسائیوں کی تائید کرنے پر حضرت بانیٴ سلسلہ احمدیہ نے ایک معاند کو ولد الحرام بننے کا شوق رکھنے والا لکھا۔ آپ کی مراد یہ ہے کہ یہ شخص فرزند اسلام نہیں رہا۔ کیونکہ وہ اسلام کی سچائی کے متعلق آپ کی پیشگوئی کو جھٹلا کر جو عبد اللہ آتھم کی ہلاکت کے متعلق تھی عیسائیت کی تائید میں کمربستہ تھا جب کہ عبد اللہ آتھم کی ہلاکت اس کے رجوع کر لینے کی وجہ سے وقتی طور پر ٹل گئی تھی۔
واضح ہو کہ آئینہ کمالات اسلام کی زیر بحث عبارت اپنے اندر ایک پیشگوئی کا رنگ رکھتی ہے جس میںیہ بتایا گیا ہے کہ وقت آرہا ہے کہ ہر مسلمان آپ کی تحریروں کو آپ کی دعوت اسلام کو قبول کر لے گا اور صرف وہ غیر مسلم قبول کرنے سے محروم رہیں گے جو سرکش ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے۔
دو شعروں کی تشریح
مولوی ابو الحسن صاحب نے اس موقعہ پر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے دو شعروں کا ترجمہ پیش کیا ہے جن میں پہلے شعر کا ترجمہ یہ لکھا ہے کہ:۔
‘‘اگریہ گالی دیتے ہیں تو میں نے ان کے کپڑے اتار لئے ہیں اور ایسا مردار بنا کرچھوڑ دیا ہے جو پہچانا نہیں جاتا۔’’
اس کے مضمون سے صاف ظاہر ہے کہ یہ شعر گالیاں دینے والوں کے جواب میں کہا گیا ہے۔ مخالف کی گالیوں کے جواب میںیہ کہنا کہ میں نے اس کے عیوب ظاہر کر دیئے ہیں اور روحانی لحاظ سے اُسے مردہ ثابت کر دکھایاہرگز کسی گالی کا مفہوم نہیں رکھتا بلکہ یہ اس کی اصل حالت کا اظہار ہے۔ حضرت حسّان جوشعر قریش کے متعلق کہتے ہیں اُن میں وہ انہیں کتے، لومڑیاں، ذلیل، کمینے اور ناپاک لوگ قرار دیتے ہیں۔
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے ایک اور شعر کا ترجمہ یوں پیش کیا ہے:۔
‘‘دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔’’
(نجم الہدٰی، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۵۳، ۵۴)
یہ شعر عیسائی مردوں اور عورتوں کے متعلق ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف گند اچھال رہے تھے اور آپ کا نہایت بُرے الفاظ سے ذکر کرتے تھے۔ مرد جلسوں میں اور عورتیں مسلمانوں کے گھروں میں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بکواس سے کام لیتے تھے۔ چنانچہ اس سے اگلا شعر اس بات پر روشن دلیل ہے۔ ہم اس جگہ دونوں شعر لکھ کر ان کا ترجمہ قارئین کرام کے سامنے پیش کر دیتے ہیں تا وہ نظر انصاف سے دیکھ لیں کہ اس جگہ اعداء سے مراد مسلمان نہیں۔ دونوں شعر یوں ہیں:۔
اِنَّ الْعِدَیٰ صَارُوْا خَنَازِیْرَ الْفَلَا
وَ نِسَائُھُمْ مِنْ دُوْنِھِنَّ الْاَکْلَبُ
سَبُّوْا وَ مَا اَدْرِیْ لِاَیِّ جَرِیْمَةٍ
سَبُّوْ اَنَعْصِی الْحِبَّ اَوْ نَتَجَنَّبُ
(نجم الہدیٰ ، روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۵۳، ۵۴)
دشمن (یعنی دشمنانِ اسلام) جنگل کے خنزیر بن گئے ہیں اور ان کی عورتیں کُتیوں سے بھی بڑھ گئی ہیں۔ انہوں نے گالیاں دی ہیں اور میں نہیں جانتا کہ کس جرم پر انہوں نے گالیاں دی ہیں۔ کیا ہم اپنے محبوب (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم) کی اُن کی گالیوں کی وجہ سے نافرمانی کرنے لگیں گے اور اُن سے کنارہ کش ہو جائیں گے (یعنی ایسا نہیں ہو سکتا)۔
پس اِن اشعار کا تعلق کسی مسلمان سے نہیں ہو سکتا کیونکہ کوئی مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آگے نجم الہدیٰ کے صفحہ ۱۲ پر فرماتے ہیں:۔
‘‘سوآپ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ دین صلیبی اونچا ہو گیا اور پادریوں نے ہمارے دین کی نسبت کوئی دقیقہ طعن کا اٹھا نہ رکھا اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دیں اور بہتان لگائے اور دشمنی کی…… اور تھوڑی مدت سے ایک لاکھ کتاب انہوں نے ایسی تالیف کی جس میں ہمارے دین اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کینسبت بجز گالیوں اور بہتان اور تُہمت اور کچھ نہیں۔ اور ایسی پلیدی سے وہ تمام کتابیںپُر ہیں کہ ہم ایک نظر بھی ان کو دیکھ نہیں سکتے۔ اور تم دیکھتے ہو کہ ان کے فریب ایک سخت آندھی کی طرح چل رہے ہیں اور ان کے دل حیا سے خالی ہیں اور تم مشاہدہ کرتے ہو کہ ان کا وجود تمام مسلمانوں پر ایک موت کھڑی ہے اور کمینہ طبع آدمی خس و خاشاک کی طرح ان کی طرف کھنچے چلے جا رہے ہیں۔…… پھر ان(پادریوں۔ ناقل) کی عورتیں اسی غرض کے لئے شریفوں کے گھروںمیں پہنچیں…… ان کے مذہب باطل نے ہمارے ملک کی نیکیوں کو دور کر دیا اور کوئی گھر ایسا نہ رہا جس میںیہ مذہب باطل (عیسائیت۔ ناقل) داخل نہ ہوا…… اسلام پر وہ مصیبتیں پڑیں جن کی نظیر پہلے زمانہ میں نہیں ہے۔ پس وہ اس شہر کی طرح ہو گیا جو مسمار ہوجائے اور اس جنگل کی طرح جو وحشیوں سے بھر جائے۔’’
(نجم الہدیٰ ، روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۶۳تا ۶۷)
پھر آگے چل کر اسی کتاب کے صفحہ ۱۴،۱۵ پر فرماتے ہیں:۔
‘‘ہم صرف ان لوگوں کی طرف توجہ کرتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بصراحت یا اشارات سے گالیاں دیتے ہیں اور ہم ان پادری صاحبان کی عزت کرتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہو سلم کو گالیاں نہیں دیتے۔ اور ایسے لوگوں کو جو اس پلیدی سے پاک ہیں قابلِ تعظیم سمجھتے ہیں اور تعظیم و تکریم کے ساتھ ان کا نام لیتے ہیں۔ اور ہمارے بیان میں کوئی ایسا حرف اور نقطہ نہیں ہے جو ان بزرگوں کیکسرِ شان کرتا ہو اور صرف ہم گالی دینے والوں کی گالی ان کے منہ کی طرف واپس کرتے ہیں تا ان کے افتراء کی پاداش ہو۔’’
(نجم الہدیٰ، روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۷۹، ۸۰)
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے اس بیان سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جس شعر کو مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے پیش کیا ہے کہ ہمارے دشمن بیابان کے خنزیر بن گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیںیہ شعر مسلمانوں کے متعلق نہیں بلکہ ان عیسائی منا د مردوں اور عورتوں کے متعلق ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دیتے تھے اور آپ کے خلاف گندے اعتراضات کرتے تھے۔
اس سے اگلے شعر میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے بتایا ہے کہ یہ لوگ گالیاں دیتے ہیں مگر میں نہیں جانتا کہ کس جرم کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ یہ گالیاں دیتے ہیں تو کیا ہم (ان گالیوں اور اعتراضوں کو سن کر) اپنے محبوب رسول کی نافرمانی کریں گے اور آپ سے کنارہ کش ہو جائیں گے؟ یعنی ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔
پس حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ نے مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کے پیش کردہ شعر میں مسلمانوں کو جنگل کے سوٴر اور ان کی عورتوں کو کتیوں سے بڑھی ہوئی نہیں کہا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دینے والے عیسائی مردوں اور عورتوں کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے اور خود بتا دیا ہے کہ یہ سخت الفاظ اُن گالی دینے والوں کی پاداش میں اُن کے منہ کی طرف لوٹائے گئے ہیں۔ پس یہ شعر جَزَآءُ سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُھَا کی آیت کے مطابق گالیاں دینے والے عیسائی مردوں اور عورتوں کی پاداش کے لئے لکھاگیا ہے۔ جوابی طور پر سختی اسلام میں جائز ہے۔ دیکھئے خود خدا تعالیٰ نے بھییہودیوں کو سؤر اور بندر اور بَلْعَم کو کُتّے سے تشبیہ دی ہے۔
مولوی ابو الحسن صاحب کو مخالفین پر لعنت ڈالنے پر بھی اعتراض ہے مگر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے صرف گندہ دہن لوگوں پر ہی لعنتیں ڈالی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے بھی قرآن شریف میں جھوٹوں پر لعنت کی ہے اور بعض لوگوں کے متعلق کہا ہے عَلَیْھِمْ لَعْنَةُ اللّٰہِ وَالْمَلَا ٓئِکَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَیعنی ان لوگوں پر اللہ ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔
پس حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اگر گندہ دہن پادریوں پر گن کر ہزار لعنت لکھی تو خدا تعالیٰ نے تو ایسے لوگوں پرکروڑہا لعنتیں پڑنے کا ذکر کیا ہے۔ تمام فرشتوں اور انسانوں کی تعداد کا اندازہ لگائیں تو کروڑوں چھوڑ ایسے لوگوں پر خدا تعالیٰ نے اربوں لعنتیں پڑنے کا اس آیت میں ذکر فرما دیا ہے۔ پس لعنت کا ڈالنا بھی قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی روشنی میں بوقتِ ضرورت جائز ہے خصوصاً جبکہ ایسی کارروائی جوابی طور پر ہو۔
۞
فصل چہارم کا جواب
پیشگوئی متعلق مرزا احمد بیگ و محمدی بیگم
مولوی ابو الحسن صاحب نے ‘‘ایک پیشگوئی جو پوری نہیں ہوئی’’ کے عنوان کے ماتحت یہ لکھا ہے کہ:۔
‘‘۱۸۸۸ء میں مرزا غلام احمد صاحب نے جبکہ ان کی عمر پچاس سال کی تھی اپنے ایک رشتہ دار مرزا احمد بیگ کی نو عمر صاحبزادی محمدی بیگم کے نکاح کا پیام دیا۔ ان کا بیان ہے کہ وہ خدا کی طرف سے اس بات کے لئے مامور تھے اور خدا نے صاف اور صریح الفاظ میں اس کام کی تکمیل کا وعدہ فرمایا تھا۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۵۱)
اس کے آگے صفحہ ۱۶۵تک اس پیشگوئی کے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
‘‘مرزا صاحب نے ۱۹۰۸ء میں وفات پائی اور یہ نکاح جو بقول ان کے آسمان پر ہو چکا تھا زمین پر نہ ہو سکا۔’’
الجواب:۔
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی صدہا پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کو ایسی نظر آئی ہے جو ان کے خیا ل میں پوری نہیں ہوئی۔ صد ہا پیشگوئیوں میں سے اگر ایک پیشگوئی انہیں ایسی نظر آئی ہے تو عالم دین ہونے کے لحاظ سے انہیں اسا مر کی تحقیق کرنا چاہیئے تھی کہ اس کے بظاہر پورا نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیںآیایہ پیشگوئی کسی شرط کے ساتھ تو مشروط نہ تھی۔ اور اگر شرط کے ساتھ مشروط تھی تو اِذَا فَاتَ الشَّرْطُ فَاتَ الْمَشْرُوْطُ کے ماتحت منسوخ تو نہیں ہوئی؟
سوواضح ہو کہ اصل حقیقتیہ ہے کہ یہ پیشگوئی مشروط بہ شرائط تھی اور وعید پر بھی مشتمل تھی اور پیشگوئی کا ماحصل یہ تھا کہ اگر محمدی بیگم کا والد اس رشتہ پر رضامند نہ ہو اور کسی دوسری جگہ اس لڑکی کا رشتہ کر دے تو پیشگوئی کے مطابق وہ تین سال بلکہ اس سے بہت قریب مدّت میں ہلاک ہو جائے گا اور اڑھائی سال کے عرصہ میں اس کا خاوند وفات پائے گا اور وہ بیوہ ہو کر میرے نکاح میں آئے گی۔
اب اصل واقعہ یہ ہے کہ محمدی بیگم کا والد مرزا احمد بیگ اس رشتہ پر رضا مند نہ ہوا اور اس نے اس لڑکی کا نکاح مرزا سلطان محمد صاحب ساکن پٹی سے کر دیا۔ پیشگوئی کے مطابق لڑکی کا والد نکاح تک زندہ رہا اور لڑکی بھی نکاح تک زندہ رہی اور وہ دوسری جگہ نکاح کرنے کے بعد چھ ماہ کے عرصہ میں ہلاک ہو گیا۔ اس سے مرزا احمد بیگ کے کنبہ والے سخت ہم و غم میں مبتلا ہوئے کیونکہ انہوں نے پیشگوئی کے ایک حصہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے دیکھا۔ اگر مرزا احمد بیگ تین سال کے بعد وفات پاتا تو اس صورت میںیہ پیشگوئی جھوٹی نکلتی۔ لیکن پیشگوئی کا یہ حصہ اپنے ظاہری لفظوں میں صفائی سے پورا ہو گیا تو یہ دیکھ کر مرزا احمد بیگ کے خاندان والے اور محمدی بیگم کا خاوند بہت گھبرائے اور خوفزدہ ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعا کے لئے خط لکھا گیا اِس طرح مرزاسلطان محمد کی توبہ سے یہ پیشگوئی ٹل گئی اور اُس نے اڑھائی سال کے اندر وفات نہ پائی۔ لوگوں نے پیشگوئی کو جھٹلانا چاہا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتلایا کہ مرزاسلطان محمد نے توبہ اور رجوع سے فائدہ اٹھایا ہے اب پھر اس کے تکذیب کرنے پر ہی دوبارہ اس کی ہلاکت کی تاریخ مقرر ہو سکتی ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی کتاب انجام آتھم میں پیشگوئی کا انکار کرنے والوں کو لکھا کہ:۔
‘‘فیصلہ تو آسان ہے۔ احمد بیگ کے داماد سلطان محمد کو کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔’’
پھر اسی جگہ یہ بھی تحریر فرمایا کہ :۔
‘‘اور ضرور ہے کہ یہ وعید کی موت اُس سے تھمی رہے جب تک وہ گھڑی نہ آجائے کہ اس کو بے باک کر دے۔ سو اگر جلدی کرنا ہے تو اٹھو اور اس کو بے باک اورمکذّب بناؤ۔ اُس سے اشتہار دلواوٴ اور خدا کی قدرت کا تماشا دیکھو۔’’
(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۳۲ حاشیہ)
ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے اس چیلنج کے بعد اگر محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند مرزا سلطان محمد صاحب آئندہ کسی وقت شوخییا بیباکی دکھاتے اور پیشگوئی کی تکذیب کر دیتےیا معترضینِ پیشگوئی حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ کے اس چیلنج کے بعد مرزا سلطان محمد صاحب کی طرف سے پیشگوئی کی تکذیب کا اشتہار دلانے میں کامیاب ہو جاتے تو پھر اس کے بعد مرزا سلطان محمد صاحب کی موت کے لئے جو میعاد مقرر کی جاتی وہ قطعی ہوتی اور اگر وہ اس میعاد میں وفات نہ پاتے اور نکاح وقوع میں نہ آتا تو اس صورت میں معترضین کو پیشگوئی کے جھٹلانے کا حق نہیں پہنچ سکتا تھا۔ لیکن نکاح کا وقوع میں آنا چونکہ اس شرط سے مشروط ہو چکا تھا کہ مرزا سلطان محمد انجام آتھم کے اس چیلنج کے بعد پیشگوئی کی تکذیب سے باز رہے لہذا اس صورت میں پیشگوئی کے مشروط ہونے کی وجہ سے محمدی بیگم کا حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے نکاح میں آنا بوجہ اس کے مشروط ہونے کے ضروری نہ تھا لہذا پیشگوئی کے متعلق یہ سمجھا جانا ضروری ہے کہ نکاح والی پیشگوئی ٹل گئی ہے کیونکہ مرزا سلطان محمد صاحب توبہ پر قائم رہے اور انہوں نے پیشگوئی کی تکذیب نہیں کی۔ ان کا اپنا بیان ظاہر کرتا ہے کہ آریوں اور عیسائیوں نے پیشگوئی کی تکذیب کرنے کے لئے انہیں لاکھ لاکھ روپیہ دینا چاہا لیکن وہ تکذیب پر آمادہ نہ ہوئے۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں جو اخبار الفضل ۱۲-۹،جون ۱۹۲۱ء صفحہ ۱۰، ۱۱میں شائع ہو چکا ہے حافظ جمال احمد صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ سے کہا:۔
‘‘میرے خسر مرزا احمد بیگ صاحب واقعہ میں عین پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئے ہیں مگر خدا تعالیٰ غفور رحیم بھی ہے اور اپنے دوسرے بندوں کی بھی سنتا اور رحم کرتا ہے۔’’
اس عبارت کے پہلے فقرہ سے ظاہر ہے کہ وہ اس پیشگوئی کو سچا جانتے تھے اور آخری فقرہ میں انہوں نے اپنی توبہ اور استغفار کا اظہار کیا ہے۔ حافظ جمال احمد صاحب نے اُن سے سوال کیا:۔
‘‘آپ کو مرزا صاحب کی پیشگوئی پر کوئی اعتراض ہے یایہ پیشگوئی آپ کے لئے کسی شک و شبہ کا باعث ہوئی ہے؟’’
اس کے جواب میں مرزا سلطان محمد صاحب نے کہا:۔
‘‘یہ پیشگوئی میرے لئے کسی قسم کے بھی شک و شبہ کا باعث نہیں ہوئی۔’’’
اوریہ بھی کہا کہ:۔
‘‘میں قسمیہ کہتا ہوکہ جو ایمان و اعتقاد مجھے حضرت مرزا صاحب پر ہے میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی جو بیعت کر چکے ہیں اتنا نہیں ہو گا۔’’
اس پرحافظ جمال احمد صاحب نے سوال کیا کہ آپ بیعت کیوں نہیں کرتے؟
اس پر مرزا سلطان محمد صاحب نے جواباً کہا:۔
‘‘اس کی وجوہات کچھ اور ہی ہیں جن کا اس وقت بیان کرنا میں مصلحت کے خلاف سمجھتا ہوں۔’’
اور اس سلسلہ میںیہ بھی کہا:۔
‘‘میرے دل کی حالت کا آپ اس سے بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے وقت آریوں نے لیکھرام کی وجہ سے اور عیسائیوں نے آتھم کی وجہ سے مجھے لاکھ لاکھ روپیہ دینا چاہا تا میں کسی طرح مرزا صاحب پر نالش کروں۔ اگر وہ روپیہ مَیں لیتا تو امیر کبیر بن سکتا تھا مگر وہی ایماناور اعتقاد تھا جس نے مجھے اس فعل سے روکا۔’’
اس بیان سے ظاہر ہے کہ چونکہ مرزا سلطان محمد صاحب توبہ پر قائم رہے اور انہوں نے پیشگوئی کی تکذیب نہ کی اس وجہ سے نکاح والی پیشگوئی کا ٹل جانا ضروری امر تھا کیونکہ وعید کی پیشگوئی کا پورا ہونا توبہ کے وقوع میں نہ آنے پر موقوف ہوتا ہے۔ چنانچہ عقائد کی کتاب مسلّم الثبوت کے صفحہ۲۸ میں لکھا ہے:۔
‘‘اِنَّ الْاِیْعَادَ فِیْ کَلَامِہٖ تَعَالیٰ مُقَیَّدَةٌ بِعَدْمِ العَفْوِ’’
کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں ہر وعید عدمِ عَفو کی شرط سے مشروط ہوتی ہے۔
اور تفسیر کبیر میں امام رازیلکھتے ہیں:۔
‘‘عِنْدِیْ جَمِیْعُ الوَعِیْدَاتِ مَشْرُوْطَۃٌ بِعَدْمِ الْعَفْوِ فَلَا یَلْزِمُ مَنْ تَرْکَہٗ دَخُوْلُ الْکِذْبِ فِی کَلَامِ اللّٰہِ۔’’
(تفسیر کبیررازی سورۃ آل عمران آیت نمبر ۱۰)
یعنی وعید کی پیشگوئیوں میںیہ شرط ہوتی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے معاف نہ کر دیا تو لفظاً لفظاً پوری ہوتی ہے۔ لہذا اگر وعیدی پیشگوئی پوری نہ ہو تو اس سے خدا کے کلام کا جھوٹا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ (الانفال:۳۴)
کہ خدا تعالیٰ انہیں عذاب دینے والا نہیں درآنحالیکہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔
چونکہ مرزا سلطان محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات تک پیشگوئی کے مصدق رہے اور ان کی طرف سے اشارةً یا کنایةً بھی پیشگوئی کی تکذیب نہیں ہوئی اور پہلی ڈھائی سالہ میعاد جو ان کی موت کے متعلق تھی توبہ اور رجوع سے ٹل چکی تھی اور وہ اس توبہ پر قائم رہے اس لئے خدا تعالیٰ ظالم نہ تھا کہ وہ وعیدی پیشگوئی کی بناء پر باوجود مرزا سلطان محمد کی توبہ و استغفار اور عفو و رحم کی درخواست کے نکاح کی پیشگوئی کو جو مشروط تھی پوری کرنے کے لئے انہیں ہلاک کر دیتا۔ پس نکاح کا وقوع میں نہ آنا جو ایک وعیدی پیشگوئی سے مشروط تھا اس بات کا ثبوت نہیں ہو سکتا کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئی جھوٹی نکلی اور وہ اپنے الہام کے دعویٰ میں صادق نہیں۔
مولوی ابو الحسن صاحب نے ازالہ اوہام کییہ عبارت صفحہ ۱۹۸ سے اس مضمون کی نقل کی ہے:۔
‘‘خدا تعالیٰ نے پیشگوئی کے طور پر ظاہر فرمایا کہ مرزا احمد بیگ ولد مرزا گاماں بیگ ہوشیارپوری کی دختر کلاں انجام کار تمہارے نکاح میں آئے گی اور وہ لوگ بہت عداوت کریں گے اور بہت مانع آئیں گے اور کوشش کریں گے کہ ایسا نہ ہو لیکن آخر کار ایسا ہی ہوگا اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ ہر طرح سے اس کو تمہاری طرف لائے گا۔ باکرہ ہونے کی حالت میںیا بیوہ کر کے اور ہر ایک روک درمیان سے اٹھا دے گا اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔ کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔’’
( ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۳۰۵)
اسی طرح اشتہار ۱۰ـجولائی۱۸۸۸ء کییہ عبارت لکھی ہے:۔
‘‘سو خدا تعالیٰ ان سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا۔ کوئی نہیں جو خد کی باتوں کو ٹال سکے۔’’
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۱۳۷،ایڈیشن دوم)
پھر اسی اشتہار سے یہ عبارت بھی پیش کی ہے:۔
‘‘اشتہار دہم جولائی۱۸۸۸ء کی پیشگوئی کا انتظار کریں جس کے ساتھ یہ الہام بھی ہے قُلْ اِیْ وَ رَبِّی اِنَّہٗ لَحَقٌّ وَمَا اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۔ زَوَّجْنَا کَھَا لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِیْ۔ وَاِنْ یَّرَوْا اٰیةً یُّعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ۔’’
‘‘اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیایہ بات سچ ہے؟ کہہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے۔ ہم نے خود اس سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے۔ میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا۔ اور نشان دیکھ کر منہ پھیر لیں گے اور قبول نہیں کریں گے کہیں گے کہیہ کوئی پکا فریب اور پکا جادو ہے۔’’
(اشتہار دہم جولائی بحوالہ آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد۴ صفحہ ۳۵۰)
پھر انجام آتھم صفحہ۲۲۳ کی عربی عبارت درج کی ہے جس کا اردو ترجمہ یہ ہے ، لکھا ہے:۔
‘‘اوریہ تقدیر خدا کی طرف سے مبرم ہےاور اس کا وقت بفضل خدا آکر رہے گا۔ قسم ہے اس پاک ذات کی جس نے محمد مصطفٰی کو مبعوث فرمایا اور آپ کو تمام انبیاء اور تمام مخلوقات میں افضل بنایا (ایسی عبارت کی موجودگی میں مولوی ابو الحسن صاحب نے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہم پلہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ناقل)یہ ایک امر حق ہے تم کو خود نظر آجائے گا اور میں اس پیشگوئی کو اپنے صدق و کذب کا معیار ٹھہراتا ہوں۔ اور میں نے اس وقت تک یہ بات نہیں کہ جب تک مجھے اپنے رب کی طرف سے اس کی اطلاع نہیں دی گئی۔’’
(انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۲۲۳)
پھر آگے بحوالہ ازالہ اوہام صفحہ۱۹۹ لکھا ہے:۔
‘‘مرزا صاحب کو شدّتِ علالت اور قربِ وفات کے خطرہ سے جب کبھی اس بارے میں تردّد ہوا جدید الہام کے ذریعہ سے ان کو اس کا اطمینان دیا گیا۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۵۷)
ان عبارتوں سے بے شک یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اجتہاد سے ان الہامات کا یہی مفہوم سمجھتے تھے کہ درمیانی روکیں دور ہو جائیں گی اور بالآخرمحمدی بیگم آپ کے نکاح میں آئے گی۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جن الہامات سے آپ نے یہ اجتہاد کیا انہیالہامات کے ساتھ آپ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام بھی نازل ہوچکا تھا۔
‘‘اَیَّتُھَا الْمَرْاَةُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَآءَعَلٰی عَقِبِکِ۔ یَمُوْتُ وَ یَبْقٰی مِنْہُ کِلَابٌ مُتَعَدِّدَةٌ۔’’
یہ الہام بھی۱۰ـجولائی۱۸۸۸ء ہی کے اشتہار میں درج ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ یہ پیشگوئی توبہ سے ٹل سکتی ہے۔ اس میں محمدی بیگم کی نانی کو مخاطب کر کے یہ کہا گیا ہے کہ اے عورت توبہ کر توبہ کر کیونکہ بلا تیری اولاد اور تیری اولاد کی اولاد پر پڑنے والی ہے۔ ایک شخص مرے گا اور متعدد بھونکنے والے باقی رہ جائیں گے۔
اس پیشگوئی سے متعلقہ بنیادی الہام یہ تھا جو اشتہار۱۰ـجولائی۱۸۸۸ء میں اِن الفاظ میں درج ہے۔ کَذَّبُوْا بِاٰیَاتِنَا وَکَانُوْا بِھَا یَسْتَھْزِءُوْنَ فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَ یَرُدُّھَا اِلَیْکَ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ ترجمہ۔‘‘انہوں (متعلقین پیشگوئی)نے ہمارے نشانوں کی تکذیب کی ہے اور ان سے تمسخر کرتے رہے ہیں سو خدا انہیں سزا دے کر اس عورت کو تیری طرف لوٹائے گا۔ خدا کے کلمات بدل نہیں سکتے۔’’
اِس سے ظاہر ہے کہ محمدی بیگم کا نکاح میں آنا مکذّبین کے سزا پانے پر موقوف تھا۔ اور مکذّبین سزا پالیں تو نکاح اٹل ہو جاتا ہے جس میں تبدیلی نہیں گی۔ ظاہر ہے کہ یہ پیشگوئی انذاری اور وعیدی ہے۔ اور وعیدی پیشگوئی ہمیشہ عدمِ عَفو کی شرط سے مشروط ہوتی ہے کیونکہ توبہ کرنے پر خدا اُسے ٹال دیتا ہے۔
محمدی بیگم صاحبہ کے والد مرزا احمد بیگ جب پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہو گئے تو اس سے متأثر ہو کر مرزا سلطان محمد صاحب نے جو محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند تھے توبہ اور استغفار کی، اس لئے اُن کی وعیدی موت اُن سے ٹل گئی اور محمدی بیگم کا حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے نکاح میں آنا ضروری نہ رہا۔ الہامی الفاظ اس رنگ میں ظہور پیشگوئی کو سچا ثابت کرتے ہیں اور اس پر کوئی حقیقی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا۔ معترضین کے اعتراضات دراصل الہام پر نہیں بلکہ مسیح موعود علیہ السلام کے اس اجتہاد پر ہیں کہ مرزا سلطان محمد کسی وقت ضرور توبہ کو توڑ دے گا اور محمدیبیگم کا نکاح میں آنا اٹل ہو جائے گا۔ یہ اجتہاد کسی جدید الہام کی بناء پر نہیں بلکہ پہلے الہام کے الفاظ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ پر ہی مبنی ہے اور یہ الفاظ متعلقین کے عذاب پانے کے بعد نکاح کو اٹل قرار دیتے ہیں لیکن سزا اور عذاب پانے کو اٹل قرار نہیں دیتے اور اسی اشتہار کا دوسرا الہام جو پہلے مذکور ہوا۔ یعنی اَیَّتُھَا الْمَرْأَةُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَاءَ عَلٰی عَقِبِکِکہ اے عورت توبہ کر توبہ کر کیونکہ بلا تیری اولاد اور اولاد کی اولاد پر آنے والی ہے توبہ کے وقوع پر نکاح کو اٹل قرار نہیں دیتا۔ مگر اس دوسرے الہام کو ملحوظ رکھنے کی وجہ سے پہلے الہام لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ کی بناء پر حضور کا میلان اجتہاداً اس طرف ہو گیا کہ مرزا سلطان محمد صاحب کسی وقت توبہ کو ضرور توڑ دیں گے اور پھر محمدی بیگم صاحبہ کا آپ سے نکاح ضرور ہو گا۔
مولوی ابو الحسن صاحب کی پیش کردہ عبارتیں اسی اجتہاد پر مبنی ہیں اور ان کا اعتراض صرف اجتہاد پر رہ جاتا ہے نہ کہ نَصِّ الہام پر جس کی سچائی پیشگوئیوں کے اصولوں کے مطابق ثابت ہے۔ پس مولوی ابو الحسن صاحب کا یہ کہنا حقیقت کے لحاظ سے درست نہیں کہ یہ پیشگوئی غلط نکلی۔ کیونکہ نفسِ پیشگوئی اپنی شروط کے اعتبار سے قابلِ اعتراض نہیں۔ شرطِ اوّل نفس الہام سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ متعلقین کو عذاب دیا جانے کے بعد نکاح اٹل ہوگا نہ کہ عذاب کے بغیر۔ چونکہ مرزا سلطان محمد صاحب نے توبہ کر لی اور اس پر قائم رہے اس لئے نکاح ٹل گیا اور شرط کے لحاظ سے منسوخ ہو گیا۔
دوسری شرط یہ تھی کہ توبہ سے عذاب ٹل سکتا ہے۔ چنانچہ مرزا سلطان محمد صاحب اور متعلقین کی توبہ اور استغفار سے عذاب ٹل گیا ۔ سلطان محمد کی توبہ اور رجوع کا ثبوت قبل ازیں دیا جا چکا ہے۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا یہ خیال کہ مرزا سلطان محمد ضروری کسی وقت توبہ کو توڑ دیں گے کسی نئے الہام پر مبنی نہیں کیونکہ کسی نئے الہام میںیہ بات مذکور نہیں۔ پس یہ محض اجتہاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ انبیاء اپنے اجتہاد کی صحت کے ذمہ وار نہیں ہوتے بلکہ اپنے الہامات کی سچائی کے ذمہ وار ہوتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ جو بات میں اللہ کی طرف سے کہوں وہ بَرحق ہے اور جو اس کے بارہ میں اپنی طرف سے کہوں تو میں ایک انسان ہوں غلطی کر سکتا ہوں اور درست بھی ہو سکتا ہوں۔
واقعات کی رو سے پیشگوئی کی تعبیریہی ہو سکتی ہے کہ متعلقہ خاندان نے توبہ کی شرط سے فائدہ اٹھایا اور محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند مرزا سلطان محمد کی موت واقع نہ ہوئی اور پیشگوئی اس شرط سے مشروط ہو گئی کہ آئندہ اگر مرزا سلطان محمد توبہ کو توڑیں گے تو اس کے بعد محمدی بیگم صاحبہ کا حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے نکاح میں آنا ضروری ہو گا۔ چنانچہ آپ نے مکذّبینِ پیشگوئی کو چیلنج کیا کہ وہ مرزا سلطان محمد صاحب سے پیشگوئی کی تکذیب کا اشتہار دلائیں تا نئی میعاد ان کی ہلاکت کے لئے مقرر ہو مگر مکذّبینِ پیشگوئیحضرت مسیح موعود کی زندگی میں اس چیلنج کے مقابل مرزا سلطان محمد سے تکذیب کا اشتہارنہ دلا سکے اور وہ اپنی توبہ پر قائم رہے اس لئے بموجب الہامات نکاح والا حصہ منسوخ ہو گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی سابق اجتہاد پر اصرار چھوڑ دیا۔ کیونکہ آپ پر یہ الہام نازل ہوا۔تَکْفِیْکَ ھٰذِہِ الْاِمْرَأَةُ(تذکرہ صفحہ۵۰۹، ایڈیشن۲۰۰۴) کہ تمہارے لئے یہ عورت (جو تمہارے نکاح میں ہے) کافی ہے۔ اس الہام کے نازل ہونے پر آپ نے اپنے سابق اجتہاد میں تبدیلی فرما دی اور حقیقۃالوحی میں لکھا۔ ‘‘اَیَّتُھَا الْمَرْأةُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَٓاءَ عَلٰی عَقِبِکِ’’ اے عورت توبہ کر توبہ کر کیونکہ بلا تیری دختر اور دختر کی دختر پر نازل ہونے والی ہے ۔(روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۴۰۲ حاشیہ)یہ خدا کا کلام ہے جو پہلے سے شائع ہو چکا ہے۔
‘‘پھر جب احمد بیگ کی موت نے جو اس پیشگوئی کی ایک شاخ تھی اس کے اقارب کے دلوں میں سخت خوف پیدا کر دیا اور ان کو خیال آیا کہ دوسری شاخ بھی معرضِ خطرہ میں ہے کیونکہ ایک ٹانگ اس کی میعاد کے اندر ٹوٹ چکی تھی۔ تب ان کے دل خوف سے بھرگئے اور صدقہ و خیرات دیا اور توبہ و استغفار میں مشغول رہے تو خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں تاخیر ڈال دی اور جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں ان لوگوں کی خوف کی وجہ یہ تھی کہ یہ پیشگوئی نہ صرف احمد بیگ کے داماد کی نسبت تھی بلکہ خود احمد بیگ کی اپنی موت کی نسبت بھی تھی اور پہلا نشانہ اس پیشگوئی کا وہی تھا بلکہ مقدم بالذات وہی تھا۔ پھر جب احمد بیگمیعاد کے اندر مر گیا اور کمال صفائی سے اس کی نسبت پیشگوئی پوری ہو گئی تب اس کے اقارب کے دل سخت خوف سے بھر گئے اور اتنے روئے کہ انکیچیخیں اس قصبہ کے کنارے تک جاتی تھیں اور بار بار پیشگوئی کا ذکر کرتے تھے اور جہاں تک ان سے ممکن تھا توبہ اور استغفار اور صدقہ خیرات میں مشغول ہوئے تب خدائے کریم نے اس پیشگوئی میں تاخیر ڈال دی۔’’
پھر تتمہ حقیقۃالوحی صفحہ ۱۳۳ پر تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘اس نکاح کے ظہور کے لئے جو آسمان پر پڑھا گیا ہے خدا کی طرف سے ایکشرط بھی تھی جو اس وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ اَیَّتُھَا الْمَرْاَةُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلٓاءَ عَلٰی عَقِبِکِ۔ پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہو گیایا تاخیر میں پڑگیا۔ کیا آپ کو خبر نہیں کہ یَمْحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتْ نکاح آسمان پر پڑھا گیایا عرش پر مگر آخر وہ سب کارروائی شرطی تھی۔ شیطانی وساوس سے الگ ہو کر اس کو سوچنا چاہیئے۔ کیایونسؑ کی پیشگوئی نکاح پڑھنے سے کچھ کم تھی جس میں بتلایا گیا تھا کہ آسمان پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ چالیس دن تک اس قوم پر عذاب نازل ہو گا مگر عذاب نازل نہ ہوا حالانکہ اس میں کسی شرط کی تصریح نہ تھی۔ پس وہ خدا جس نے اپنا ایسا ناطق فیصلہ منسوخ کر دیا کیا اس پر مشکل تھا کہ اس نکاح کو بھی منسوخ یا کسی اور وقت پر ڈال دے؟’’
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۵۷۰، ۵۷۱)
واقعات کے لحاظ سے عند اللہ نکاح منسوخ ہو گیا اور تاخیر والی صورت پیدا نہیں ہوئی۔ کیونکہ تاخیر والی صورت اس طرح پیدا ہو سکتی تھی کہ مرزا سلطان محمد صاحب پیشگوئی کی تکذیب کرتے اور پھر ان کی ہلاکت کی میعاد مقرر ہوتی اور اس میں ہلاک ہو جاتے۔
واقعات کے لحاظ سے نکاح عند اللہ منسوخ ہو چکا تھا۔ کیونکہ مرزا سلطان محمد صاحب، محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند، توبہ کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود کی ساری زندگی میں اپنی توبہ پر قائم رہے اور انہوں نے پیشگوئی کی تکذیب نہ کی۔ پیشگوئی کے منسوخ ہونے کے ساتھ تاخیر میںپڑنے کا ذکر محض احتمالی ہے کہ اگر بالفرض مرزاسلطان محمد صاحب تکذیب کر دیں تو پھر وہ قابلِ مؤاخذہ ہو جائیں گے اور اس وقت نکاح کا وقوع میں آنا ضروری ہو جائے گا۔ لیکن چونکہ وہ مؤاخذہ الٰہی سے بچنے کے لئے اپنی توبہ پر قائم رہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اُن سے رحم اور عفو کا معاملہ کیا۔
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ لکھتے ہیں:۔
‘‘غرض بے حیا لوگ ان اعتراضوں کے وقت یہ نہیں سوچتے کہ ایسے اعتراض سب نبیوں پر پڑتے ہیں۔ نمازیں بھی پہلے پچاس نمازیں مقرر ہو کر پھر پانچ رہ گئیں اور توریت پڑھ کر دیکھو صدہا مرتبہ خدا کے قراردادہ عذاب حضرت موسیٰ کی سفارش سے منسوخ کئے گئے۔ایسا ہییونس کی قوم پر آسمان پر جو ہلاکت کا حکم لکھا گیا تھا وہ حکم ان کی توبہ سے منسوخ کر دیا گیا اور تمام قوم کو عذاب سے بچا لیا گیا اور بجائے اس کے حضرت یونس خود مصیبت میں پڑ گئے۔ کیونکہ ان کو یہ خیال دامنگیرہوا کہ پیشگوئی قطعی تھی اور خدا کا ارادہ عذاب نازل کرنے کا مصمم تھا۔ افسوس کہ یہ لوگ یونس کے قصہ سے بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔ اس نے نبی ہو کر محض اس خیال سے سخت مصیبتیں اٹھائیں کہ خدا کا قطعی ارادہ جو آسمان پر قائم ہو چکا تھا کیونکر فسخ ہو گیا ہے اور خدا نے ان کی توبہ پر ایک لاکھ آدمی کو بچا لیا اور یونس کے منشاء کی کچھ بھی پرواہ نہ کی’’۔
‘‘کیسے نادان وہ لوگ ہیں جن کا مذہب یہ ہے کہ خدا اپنے ارادہ کو بدلا نہیں سکتا اور وعیدیعنی عذاب کی پیشگوئی کو ٹال نہیں سکتا۔ مگر ہمارا یہ مذہب ہے کہ وہ ٹال سکتا ہے اور ہمیشہ ٹالتا رہا ہے اور ہمیشہ ٹالتا رہے گا اور ہم ایسے خدا پر ایمان نہیں لاتے جو بَلا کو توبہ اور استغفار سے ردّ نہ کر سکے اور تضرّع کرنے والوں کے لئے اپنے ارادوں کو بدل نہ سکے۔ وہ ہمیشہ بدلتا رہے گا۔’’
(تتمہ حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۵۷۱)
اب کیا مولوی ابوالحسن صاحب ندوی حضرت یونس کے نبی ہونے کا بھی انکار کر دیں گے جن کی قوم پر چالیس دن کے اندر عذاب نازل ہونے کی پیشگوئی تھی جسے انہوں نے قطعی سمجھ لیا لیکن حقیقت میں وہ قطعی نہ نکلی اور قوم کے رجوع کر لینے پر موعود عذاب ٹل گیا؟ اگر وہ یونس علیہ السلام والی پیشگوئی کے عذاب کے ٹل جانے کے باوجود انہیں خدا کا ایک نبییقین کرتے ہیں تو حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی اس پیشگوئی سے نکاح والے حصہ کے ٹل جانے کو کیونکر قابلِ اعتراض قرار دے سکتے ہیں جبکہ یہ پیشگوئی محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند مرزا سلطان محمد صاحب کی موت کی وعید سے مشروط تھی جو ان کی توبہ کی وجہ سے ٹل گئی اوراِذَا فَاتَ الشَّرْطُ فَاتَ الْمَشْرُوْطُ کے مطابق نکاح ضرورینہ رہا۔ پس مولوی ابو الحسن صاحب نکاح والے حصہ کے ٹل جانے کو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے دعویٰ کی صداقت کے خلاف پیش کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔
الہاماَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ کی تشریح
یہ درست ہے کہ ازالہ اوہام میں درج ہے کہ ایک دفعہ شدید طور پر بیمار ہوجانے کی صورت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ احساس ہوا کہ شاید اس پیشگوئی کے وہ معنی نہ ہوں جو آپ سمجھتے ہیں بلکہ اس کے سوا کچھ اور معنی ہیں تو آپ پر الہام نازل ہوا کہ اَلْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ۔ مگر اُس وقت اس پیشگوئی کا ابھی تک کوئی حصہ بھی ظاہر نہیں ہوا تھا۔واقعات کے لحاظ سے اس الہام کا منشاء یہ ظاہر کرنا تھا کہ محمدی بیگم کے والد مرزا احمد بیگ کی موت یقینی ہے لہذا اس بارے میں آپ کو کوئی شک نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ اس کے بعد ٹھیک پیشگوئی کے مطابق مرزا احمد بیگ ہلاک ہو گیا اور اس کی ہلاکت کا اس کے تمام دوسرے افراد خاندان پر اثر پڑا اور وہ توبہ اور استغفار میں لگ گئے۔ پیشگوئی کا دوسرا حصہ جو مرزا سلطان محمد کی مو ت سے متعلق تھا ان کے رجوع اور توبہ کی وجہ سے وعیدی پیشگوئیوں کے اصول کے مطابق ضروری الوقوع نہ رہا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کی توبہ کو قبول کر کے عفو سے کام لیا جیسا کہ قوم یونس سے اس نے درگزر سے کام لیا۔
پیشگوئی کا تیسرا حصہ نکاح کا وقوع جو مرزا سلطان محمد صاحب کی ہلاکت سے مشروط تھا، توبہ کے وقوع میں آنے اور مرزا سلطان محمد صاحب کے اس پر قائم رہنے کی وجہ سے ٹل گیا اور اس بارہ میں جو جدید الہام ہوا اس نے بتا دیا کہ جو بیوی آپ ؑکے نکاح میں ہے وہی آپ کے لئے کافی ہے یعنی آپ کو کوئی اور نکاح کرنا نہیں پڑے گا۔
پس مولوی ابو الحسن صاحب کا یہ کہنا کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی درست نہیں۔ کیونکہ پیشگوئی کا ایک حصہ جو مرزا احمد بیگ سے متعلق تھا وہ لفظاً لفظاً پورا ہو گیا۔ اس پیشگوئی میں مرزا سلطان محمد صاحب کے متعلق بھی وعیدی موت کی خبر تھی۔ لہذا توبہ کی وجہ سے مرزا سلطان محمد صاحب بچ گئے اور نکاح کی پیشگوئی ان کے توبہ پر قائم رہنے کی وجہ سے ٹل گئی۔
حدیث نبوی میں وارد ہے:۔
اَکْثِرْ مِنَ الدُّعَاءِ فَاِنَّ الدُّعَاءَ یَرُدُّ الْقَضَاء الْمُبْرَمَ
(کنزالعمال جلد۲ صفحہ ۶۳ حدیث نمبر ۳۱۲۰ ا۔ الجامع الصغیر للسیوطی مصری جلد۱ صفحہ۵۴)
کہ کثرت سے دعا کرو کیونکہ دعا تقدیر مبرم (مبرم سمجھی ہوئی تقدیر) کو بھی ٹال دیتی ہے۔
واضح ہو کہ مرزا احمد بیگ کی پیشگوئی کے مطابق ہلاکت کا اس خاندان پر ایسا اثر پڑا کہ ان میں سے کئی لوگ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں داخل ہو گئے۔ ذیل کے اصحاب خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
۱۔محمد اسحاق بیگ پسر مرزا سلطان محمد صاحب و محمدی بیگم صاحبہ
۲۔ والدہ محمدی بیگم صاحبہ یعنی اہلیہ مرزا احمد بیگ
۳۔ محمودہ بیگم ہمشیرہ محمدی بیگم صاحبہ
۴۔ عنایت بیگم ہمشیرہ محمدی بیگم صاحبہ
۵۔ مرزا احمد حسن صاحب داماد مرزا احمد بیگ
۶۔ مرزا محمد بیگ صاحب پسر مرزا احمد بیگ
نوٹ۔ محمدی بیگمصاحبہ کے پسر مرزا محمد اسحاق بیگ صاحب ایک خط میں لکھتے ہیں:۔
‘‘مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ (حضرت مرزاصاحب۔ ناقل) وہی مسیح موعود ہیں جن کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پیشگوئی فرمائی تھی۔’’
(ماخوذ از اعلانِ احمدیت مندرجہ اخبار الفضل ۲۶ـفروری۱۹۲۱ء)
پس جس خاندان کے ساتھ اس پیشگوئی کا براہ راست تعلق تھا وہ تو اس پیشگوئی کا مصدق ہے اور انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اس کے افراد اصل حقیقت سے واقف ہیں۔ لہذا ان لوگوں کا بیعت کرلینا اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ دوسرے لوگوں کے لئے بھی اس پیشگوئی میں اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں۔
پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے جدو جہد روا ہے
مولوی ابو الحسن صاحب نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ حضرت اقدس ؑ نے اس نکاح کے لئے خطوط وغیرہ کے ذریعہ کوشش کی اور ترغیب و ترہیب کے تمام ذرائع اختیار کئے ۔ مولوی ابو الحسن صاحب کو اس بات کا اعتراف ہے کہ:۔
‘‘خود مرزا صاحب اصولاً اس کے قائل تھے کہ ملہم کو پیشگوئی کی تکمیل کے لئے خود بھی جدو جہد اور تدبیر کرنی چاہیئے اور یہ اس کے منصب و مقام کے منافی نہیں۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۵۹)
اس پر اسی صفحہ پر حاشیہ میں لکھتے ہیں:۔
‘‘وہحقیقۃالوحی میں لکھتے ہیں:۔
اگر وحی الٰہی کوئی بات بطور پیشگوئی ظاہر فرماوے اور ممکن ہو کہ انسان بغیر کسی فتنہ اور ناجائز طریق کے اس کو پورا کر سکے تو اپنے ہاتھ سے اس پیشگوئی کو پورا کرنا نہ صرف جائز بلکہ مسنون ہے۔’’
(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۹۸)
پس پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے جدو جہد ناروا نہیں بلکہ مسنون ہے اور اس اصل پر مولوی ابو الحسن صاحب کو کوئی اعتراض نہیں۔ وہ اعتراض بھی کیسے کر سکتے تھے جبکہ پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے انتہائی جدو جہد کرنا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے ثابت ہے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو جنگِ بدر کی فتح کا وعدہ تھا لیکن اس کے باوجود مقابلہ کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح کے لئے بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ میدانِ جنگ سے ایک طرف ہو کر اس میں فتح کے لئے دعائیں کیں۔
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خداکا وعدہ تھا کہ کنعان کی زمین انہیں دے دی جائے گی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پیشگوئی کو پورا کرنے کی خاطر قوم کو جدو جہد کے لئے بدیں الفاظ ترغیب و ترہیب سے کام لیا۔
يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِيْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰی أَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خَاسِرِينَ(المائدة:۲۲) یعنی اے قوم! ارضِ مقدسہ(کنعان) میں داخل ہو جاو جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے اور اپنی پیٹھوں کے رخ نہ لوٹ جانا ورنہ تم نقصان اٹھا کر لوٹو گے۔
دیکھئے اس میں وعدہٴ الٰہی کا ان الفاظ میں ذکر ہے کہ یہ زمین خدا نے تمہارے لئے لکھ دی ہے۔ اس وعدہ کا ذکر کر کے حضرت موسیٰؑ اس کے فتح کرنے کے لئے ترغیب بھیدیتے ہیں اور وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَمیں نقصان اٹھا کر لوٹنے سے ڈرایا بھی گیا ہے۔ پس پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے ترغیب و ترہیب سے کام لینا جائز امر نہیں بلکہ ضروری ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی بدبختی ملاحظہ ہو کہ اُس نے اس ترغیب و ترہیب پر موسیٰؑ کو یہ جواب دیا۔
فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُوْنَ (المآئدة :۲۵)
( کہ اے موسیٰ! جب خدا نے یہ زمین لکھ دی ہے) تو پھر تو اور تیرا رب جا کر لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں(یعنی کنعان فتح کر لو گے تو ہم اس میں داخل ہو جائیں گے)
مگر اس کا نتیجہیہ ہوا کہ خدا نے کہا:۔
فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَّتِيْهُوْنَ فِي الْأَرْضِ
(المائدة :۲۷)
کہ وہ زمین ان پر چالیس سال کے لئے حرام کر دی گئی ہے اور وہ زمین میں بھٹکتے رہیں گے۔
پسیہ وعدہ الٰہی تاخیر میں جا پڑا اور اس وقت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے ساتھ یہ وعدہٴ الٰہی پورا نہ کیا گیا۔ کیونکہ انہوں نے وعدہ کو پورا کرنے کے لئے مسنون طریق ترک کر دیا۔
لہذا جب تک محمدی بیگم صاحبہ کے والد مرزا احمد بیگ صاحب نے محمدی بیگم صاحبہ کا نکاح کسی دوسری جگہ نہیں کیا تھا اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ضروری تھا کہ وہ اس نکاح کے لئے خط و کتابت کے ذریعہ جدو جہد کرتے۔
مولوی محمود الحسن صاحب دیوبندی مترجم قرآن کریم، ترجمہ کے صفحہ۱۷۷ کے حاشیہ پر فائدہ نمبر۲ کے تحت یہود کے اس جواب کے متعلق جو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیا کہ تم اور تمہارا خدا جا کر لڑو لکھا ہے:۔
‘‘اسباب مشروعہ کا ترک کرنا توکّل نہیں۔ توکّل تو یہ ہے کہ کسی نیک مقصد کے لئے انتہائی کوشش اور جہاد کرے اور پھر اس کے مثمر اور منتج ہونے کے لئے خدا پر بھروسہ رکھے اور اپنی کوشش پر نازاں اور مغرور نہ ہو۔ باقی اسباب مشروعہ کو چھوڑ کر خالی امیدیں باندھتے رہنا تو کّل نہیں بلکہ تعطّل ہے۔’’
پس پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے ترغیب و ترہیب کوئی قابلِ اعتراض امر نہیں اور یہ ہم بتا چکے ہیں کہ مرزا سلطان محمد صاحب کی توبہ کی وجہ سے اڑھائی سالہ میعاد ٹل گئی تھی اور یہ پہلے الہام کی بناء پر محض اجتہادی تھا کہ مرزا سلطان محمد صاحب کی موت کے بعدمحمدی بیگم آپ کے نکاح میں ضروری آئے گی۔ گویا آپ کا اجتہاد یہ تھا کہ مرزاسلطانمحمد صاحب کسی وقت اپنی توبہ کو ضرور توڑ دیں گے لیکن واقعات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ مرزا سلطان محمد صاحب توبہ پر قائم رہے اس لئے نکاح والا حصہ چونکہ ان کی موت کی وعید سے مشروط تھا اور موت بوجہ ان کے توبہ پر قائم رہنے کے وقوع میں نہ آئی اور اس کے بعد باوجود چیلنج کے مخالفین ان سے تکذیب کا اشتہار بھی نہ دلا سکے کہ ان کی موت کے لئے دوسری میعاد مقرر ہوتی۔ لہذا کسی شخص کو اس پیشگوئی کے ٹل جانے پر یہ کہنے کا حق حاصل نہیں کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ معترضین صرف اس کے ٹل جانے کے متعلق وجہ دریافت کر سکتے ہیں اور وہ وجہ مرزا سلطان محمد صاحب کا توبہ پر قائم رہنا ہے اور ہم یہ بتا چکے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ۱۹۰۶ء میں اپنے الہام کے ذریعہ حضرت مسیحموعود ؑپر ظاہرکر دیا کہ جو خاتون آپ کے نکاح میں ہے وہی کافی ہے۔ اس لئے آپ کی وہ عبارتیں بھی جو اجتہادی تھیں اور نکاح کو یقینی قرار دیتی تھیں قابل اعتراض نہ رہیں کیونکہ اس جدید الہام سے آپ نے اپنے سابق اجتہاد میں تبدیلی فرمالی۔
‘‘یَرُدُّھَا اِلَیْکَ’’کے الہامی الفاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اجتہاد کیا تھا کہیہ نکاح آسمان پر قرار پا چکا ہے۔مگر آسمانی نکاح تعبیر طلب بھی ہوتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دفعہ حضرت اُمّ المومنین خدیجۃ الکبریٰسے فرمایا:۔
اِنَّ اللّٰہَ زَوَّجَنِیْ مَرْیَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ وَ کُلْثُوْمَ اُخْتَ مُوْسیٰ وَامْراَةَ فِرْعَوْنَ قُلْتُ ھَنِیئًا لَّکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ۔
(تفسیردر منثور سورۃ قصص زیر آیت ۱۲)
(یہ روایت ابو امامہ سے مرفوعاً بیان ہوئی ہے کہ آنحضرت نے حضرت خدیجہ سے فرمایا کہ) ‘‘خدا تعالیٰ نے میرا نکاح حضرت عیسیٰؑ کی والدہ مریم بنتِ عمران اور موسیٰ کی بہن کلثوم اور فرعون کی بیوی سے کر دیا ہے۔ حضرت خدیجہ نے جواباً فرمایایا رسول اللہ آپ کو مبارک ہو۔’’
نبی کریم کے تینوں نکاح آسمانی تھے جن کی تعبیر اس رنگ میں پوری ہوئی کہ ان عورتوں کے خاندانوں کے بہت سے لوگ آنحضرتپر ایمان لے آئے۔ اسی طرح مرزا احمد بیگ کے خاندان کے بہت سے افراد اس پیشگوئی پر ایمان لا چکے ہیں جن کا ذکر ہم قبل ازیں کر چکے ہیں۔
ماسواا س کے نکاح کا خواب میں پڑھا جانا علم تعبیر الروٴیا کے مطابق یہ تعبیر بھی رکھتا ہے کہ نکاح سے مراد ایک منصبِ جلیل کا ملنا ہوتا ہے جیسا کہ تعطیر الانام میں لکھا ہے۔
‘‘اَلنِّکَاحُ فِی الْمَنَامِ یَدُلُّ عَلٰی مَنْصَبٍ جَلِیْلٍ’’
یعنی خواب میں نکاح کسی بڑے منصب کے معنے پر دلالت کرتا ہے۔
پس گو حضرت مسیح موعودؑ نے اس کی تعبیریہ کی تھی کہ مرزا سلطان محمد توبہ کو ضرور توڑ دے گا اور پھر نئی میعاد مقرر ہو کر اس کی موت وقوع میں آئے گی اور پھر محمدی بیگم سے آپ کا نکاح ہو گا لیکن واقعات نے آپ کی زندگی میں ہی بتا دیا کہ مرزا سلطان محمد صاحب توبہ پر قائم رہے اس لئے پیشگوئی کی وہ تعبیر وقوع میں نہ آئی جو حضرت مسیح موعودؑ نے کی تھی۔ پھر ۱۹۰۶ء کے الہام نے بھییہ بتا دیا کہ یہ تعبیر وقوع میں نہیں آئے گی۔ چونکہ یہ پیشگوئی۱۸۸۶ء کی تھی جبکہ آپ کا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں تھا اس لئے ۱۸۹۱ء میں آسمانی نکاح کی تعبیر اس رنگ میں ظاہر ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو مسیح موعود کا منصب جلیل عطا فرما دیا۔ باقی رہی حضرت خلیفۃالمسیح اوّلکییہ تعبیر کہ محمدی بیگم کے خاندان کی کسی لڑکی سے مسیح موعودؑ کے خاندان کے کسی لڑکے کا نکاح بھی مراد ہو سکتا ہے۔ سو ایسی تعبیر بھی پیشگوئیوں کے اصول کے خلاف نہیں۔ چنانچہ تاریخ الخمیس جلد۲ صفحہ ۱۰۰پر لکھا ہے:۔
‘‘قَالَ السُّہَیْلیُّ قَالَ اَھْلُ التَّعْبِیْرِ رَأَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فِی الْمَنَامِ اُسَیْدَ بْنَ اَبِی الْعَیْصِ وَالِیًّا عَلٰی مَکَّۃَ مُسْلِمًا فَمَاتَ عَلَی الْکُفْرِ وَ کَانَتِ الرُّؤیَا لِوَلَدِہٖ عَتَّابَ حِیْنَ اَسْلَمَ۔’’
یعنیسُہَیلی نے کہا ہے کہ اہل تعبیر نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خواب میں اُسَیْد بن العیص کو مسلمان ہونے کی حالت میں مکّہ کا والی دیکھا۔ وہ تو کفر پر مر گیا اور رؤیا اس کے بیٹے عَتّاب کے حق میں پوری ہوئی جو مسلمان ہو گیا۔
پس اگر باپ کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے رؤیا کی تعبیر میں جبکہ نبی کی رؤیا وحی ہوتی ہے اس کا بیٹا مراد ہو سکتا ہے تو جس قسم کی تعبیر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے کی ہے وہ بھی شرعاً ممکن ہو سکتی ہے۔
اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رؤیا میں ابو جہل کے ہاتھ میں جنّت کے انگور کا خوشہ دیکھا۔ مگر ابو جہل تو کفر پر مر گیا اور اس کی تعبیریہ نکلی کہ اس کا بیٹا عکرمہ ایمان لے آیااور اس نے جنتیوں والے کام کئے۔
اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ ‘‘خواب کی حالت میں مجھے دنیا کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں۔ یہاں تک کہ میرے ہاتھ پر رکھ دی گئیں۔’’ مگر حضرت ابو ہریرہ اس کی تعبیریہ بتاتے ہیں کہ‘‘رسول کریمؐتو وفات پا گئے اور تم اے صحابہ! ان خزانوں کو لا رہے ہو۔’’
(ملاحظہ ہو بخاریکتاب التعبیر باب المفاتیح فی الید)
مولوی ابو الحسن صاحب کے تنقیدی جائزہ پر ہماری تنقید
مولوی ابو الحسن صاحب نے اپنی کتاب کے‘‘باب چہارم’’ میں تحریکِ قادیانیت کا تنقیدی جائزہ کے عنوان کے تحت جو مضمون لکھا ہے اس کی فصل اوّل میں انہوں نے ‘‘ایک مستقل مذہب اور ایک متوازیاُمّت ’’کے عنوان کے تحت احمدیت کے خلاف یہ غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کی ہے کہ احمدیت اسلام میں کوئی مکتبِ خیالیا مذہبی فرقہ اور جماعت نہیں بلکہ ایک مستقل مذہب ہے اور قادیانی ایک مستقل اُمّت ہیں جو دین اسلام اور اُمّتِاسلامیہ کے بالکل متوازی چلتے ہیں۔
(ملاحظہ ہو قادیانیت صفحہ ۱۶۸)
اس بات کے ثبوت کی کوشش میں وہ حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں جس کا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے سننا بیان کیا ہے کہ:۔
‘‘یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیحیااور چند مسائل میں ہے۔اللہ تعالیٰ کی ذات، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم، قرآن، نماز، روزہ، حج، زکوٰة غرضیکہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک جز میں ہمیں ان سے اختلاف ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۶۹بحوالہ خطبہ جمعہ مندرجہ الفضل ۳ـجولائی۱۹۳۱ء)
اوریہ کہ:۔
‘‘حضرت خلیفہ اوّل نے اعلان کیا تھا کہ ان کا(مسلمانوںکا) اسلام اور ہے اور ہمارا اسلام اور ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۶۹)
احمدیّت کے مستقل مذہب اور متوازیاُمّت ہونے کی تردید
یہ الزام سراسر غلط ہے واضح ہو کہ مولوی ابو الحسن صاحب نے اس بارہ میں سخن شناسی سے کام نہیں لیا بلکہ محض حقیقت کو نظر انداز کر کے غلط فہمی پھیلانے کے لئے اوپر کے بیانات سے ان کے اصل منطوق کے خلاف یہ غلط نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی ہے کہ جماعت احمدیہ اسلام کے بالمقابل ایک الگ دین اور متوازیاُمّت ہے۔ حالانکہ حقیقتیہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا نام خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ‘‘مسلمان فرقہ احمدیہ’’ رکھا ہے۔ لہذا احمدیّت اسلام سے کوئی الگ دین پیش نہیں کرتی بلکہ یہ دنیا میں صحیح اسلام کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لائے پھیلانے کے لئے ایک مخلصانہ تحریک ہے۔ اوپر کے بیانات کا مطلب صرف یہ ہے کہ احمدی اسلامی تعلیمات پر دوسرے فرقوں کی طرح غافلانہ عامل نہیں بلکہ ان پر پورے اخلاص اور وفاداری سے عامل ہیں۔ مفہوم ان بیانات کا یہ ہے کہ جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کی ذات، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور قرآن مجید کی شان و عظمت کی جو معرفت رکھتی ہے وہ مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کو کَمَا حَقّہٗحاصل نہیں۔ اسی طرح نماز، روزہ، حج، زکوٰة میں گو ہمارا دوسرے مسلمانوں سے بظاہر کوئی فرق نہیں۔ جو فرق ہے وہ ان کی کیفیت میں ہے جو یہ ہے کہ احمدی پورے اخلاص سے ان فرائض کو بجا لاتے ہیں اور دوسرے مسلمان فرقے پوری ذمّہ داری اور اخلاص سے ان فرائض کو بجا نہیں لاتے بلکہ ان کی ادائیگی میں کمال غفلت سے کام لیتے ہیں۔ نمازوں میں انہیں وہ ذوق و خشوع و خضوع حاصل نہیں جو صحابہ کرامکو حاصل تھا۔ زکوٰة کی ادائیگی کا اُن میں کوئی معقول انتظام نہیں۔ حج بھی ایک رسم کے طور پر کیا جاتا ہے صحیح روح کے ساتھ ادا نہیں کیا جاتا کیونکہ اس کے بعد اُن کے اعمال میں روحانی ترقی نہیں ہوتی۔ اِلَّا مَاشَآءَ اللّٰہ ۔
کیا مولوی ابو الحسن صاحب اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ مسلمانوں میں قبروں کو سجدہ کرنے والے اور اہلِ قبور سے حاجات مانگنے والے اب بھی موجود ہیں۔ کیایہ لوگ معرفت الٰہی سے عاری اور قرآن کریم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے سراسر غافل نہیں؟ اگر ایسے لوگ، روزہ اور حج کا فریضہ ادا کرتے بھی ہیں تو ساتھ ہی صریح شرک کے بھی مرتکب ہیں جو تمام نیکیوں کو حبط کر دینے والا ہے۔ پس گو بظاہر ان کی نماز، روزہ اور حج وغیرہ اپنی صورت و شکل میں احمدیوںکی نمازوں اور روزہ اور حج وغیرہ سے کوئی فرق نہیں رکھتے لیکن کیفیت کے لحاظ سے ان میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کی نماز، روزہ اور حج و زکوٰة کے ادا کرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔ احمدیوں کی نمازیں انہیں خدا کے فضل سے فحشاء اور منکر سے بچاتی ہیں اور وہ صحیحطور پر إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُکہنے والے ہیں کیونکہ ان کے عقائد و اعمال شرک کی ملونی سے پاک ہیں۔
پس ان گورپرست اور مُردہ پرست مسلمانوں کا اسلام واقعی اس اسلام سے مختلف ہے جس پر احمدی عامل ہیں۔ لیکن احمدیوں کا اسلام اس اسلام سے مختلف نہیں جسے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم لائے اور جس کی تجدید کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ کو مبعوث فرمایا ہے۔
پس احمدیّت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے علاوہ کوئی نیا دین نہیں رکھتی اور نہ احمدیت اسلام کے بالمقابل کوئی متوازیاُمّت ہے۔ جب حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اُمّتی ہیں تو اُمّتی نبی کے دعویٰ کے ساتھ وہ نیا دینیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کیاُمّت کے متوازیاُمّت بنانے والے قرار نہیں پاسکتے۔ جو خود اُمّتی بھی ہے وہ نئیاُمّت کیسے بنا سکتا ہے؟
رہا احمدیّت میں تبلیغ و اشاعتِ اسلام کے لئے ایک نظام کا قیام، سو یہ متوازی نظام قرار نہیں پا سکتا۔ کیونکہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے بوجہ مجدّدِ اسلام ہونے کے اسلام کے متوازی کوئی نظام پیدا نہیں کیا بلکہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا نظام قائم کر کے تجدیدِ دین کا فرض ہی ادا کیا ہے۔ متوازی نظام کا نام تو اسے دیا ہی نہیں جا سکتا۔ کیونکہ احمدیّت سے پہلے مسلمانوں میں اس زمانہ میں کوئی تبلیغی نظام موجود ہی نہ تھا اور نہ اب تک کوئی نظام موجود ہے تو اس نظام کو کسی قائم شدہ موجود نظام کے متوازی نظام کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہاں اُسے پرانے ختم شدہ نظامِ اشاعتِ دین کی البتہ تجدید ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔ اشاعتِ دین کا نظام تو ایک مجددِ اسلام کو چاہتا تھا اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے ظہور سے پہلے مسلمانوں میں کوئی مجدد اور امام موجود ہی نہ تھا جس کی طرف سے قائم کردہ نظام اشاعت موجود ہوتا بلکہ حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ کے ظہور کے وقت خود مسلمانوں میں تشتّت اور اِفتراق موجود تھا جس کا مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کو اعتراف ہے کیونکہ وہ اپنیاس کتاب میں مسلمانوں کے تشتّت اور اِفتراق کو ہی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ کے دعویٰ کے لئے سازگار حالات قرار دے رہے ہیں۔ اس زمانہ میں مسلمان فرقوں کا یہ حال تھا کہ سب ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رہے تھے لہذا ان میں تبلیغ اسلام کے لئے کوئی جوش اور ولولہ موجود نہ تھا۔ تمام فرقے ایک دوسرے سے چپقلش کے مرض میں مبتلا تھے۔ ان میں تبلیغ اسلام کے لئے کوئی تنظیم موجود نہ تھی۔ ہر فرقہ کے علماء اپنی الگ ڈفلی بجا رہے تھے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے تھے۔ اس نازک وقت میں خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑکو بطور مسیح موعود مبعوث کر کے اسلام کی دستگیری فرمائی اور آپ کے ذریعہ خدمتِ اسلام اور اشاعتِ دینِ خیرُ الاَنام کا سلسلہ جاری ہوا تاکہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئیکے مطابق مسیح موعودؑ کے ذریعہ تبلیغ و اشاعتِ اسلام کا کام جاری ہو اور اسلام کو اَدیانِ باطلہ پر غلبہ حاصل ہو۔
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا:۔
اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّةِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرنِ المائۃ)
یعنی بے شک اللہ تعالیٰ اِس اُمّت کے لئے ہر صدی کے سر پر ایسے شخص کو مبعوث کرتا رہے گا جو اِس اُمّت کے لئے اِس کے دین کی تجدید کرے گا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کییہ پیشگوئی چودھویں صدی کے سر پر حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے وجود میں پوری ہوئی۔ کیا مولوی ابو الحسن صاحب کے نزدیکیہ حدیث صحیح نہیں؟ اگر صحیح نہیں تو پھر اس کے مطابق حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے کیوں اپنے اپنے زمانہ میں دعویٰ مجددیّت کیا؟ اگر یہ حدیث مولوی ابو الحسن صاحب کے نزدیک صحیح ہے تو پھر وہ چودھویں صدی کا مجدد پیش کریں جس کو خدا تعالیٰ نے بطور مجددِ دین اسلام کے مبعوث فرمایا ہو۔ مولوی ابو الحسن صاحب کوئی ایسا مدعی پیش نہیں کر سکتے جس نے حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ کی طرح اشاعتِ اسلام کا کام جاری کر کے ایک ایسی جماعت خادمانِ اسلام کی تیار کی ہو جو اشاعتِ دین کا کام ایک نظام کے ماتحت کر رہی ہو اور اکنافِ عالم میں خدا تعالیٰ کی توحید اور رسالتِ محمدیہ کا عَلَم بلند کر رہی ہو۔
جس زمانہ میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا اُس زمانہ میں مسلمانوں کی پستی اِس حد تک بڑھ چکی تھی کہ مولوی الطاف حسین صاحب حالی مسلمانوں کی زبوں حالی کا نوحہ کرتے ہوئے اپنے مسدّس میں لکھتے ہیں:۔
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گِر کر نہ اُبھرنا دیکھے
مانےنہ کبھی کہ مَدّ ہے ہر جَزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
پھر وہ لکھتے ہیں:۔
کسی نے یہ بُقراط سے جا کے پوچھا
مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اُس کو ھذیان سمجھیں
سببیا علامتگر اُن کو سمجھائیں
تو تشخیص میں سو نکالیں خطائیں
دوا اور پرہیز سے جی چرائیں
یونہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں
طبیبوں سے ہرگز نہ مانوس ہوں وہ
یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آکے جس کا گھِرا ہے
کنارہ ہے دور اور طوفاں بپا ہے
گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی
پھر علماء وقت کی حالت وہ یوں بیان کرتے ہیں:۔
کوئی مسئلہ پوچھنے ان سے جائے
تو گردن پہ بارِ گراں لے کے آئے
اگر بد نصیبی سے شک اس میں لائے
تو قطعی خطاب اہلِ دوزخ کا پائے
اگر اعتراض اس کی نکلا زباں سے
تو آنا سلامتہے دشوار واں سے
کبھی وہ گلے کی رگیں ہیں پھلاتے
کبھی جھاگ پر جھاگ منہ پر ہیں لاتے
کبھی خُوک اور سَگ ہیں اُس کو بتاتے
کبھی مارنے کو عصا ہیں اٹھاتے
ستوں چشم بد دُور ہیں آپ دیں کے
نمونہ ہیںخُلْقِ رَسُولِ امیں کے
بڑھے جس سے نفرت وہ تقریر کرنی
جگر جس سے شَق ہوں وہ تحریر کرنی
مسلمان بھائی کی تکفیر کرنی
گناہ گار بندوں کی تحقیر کرنی
یہ ہے عالموں کا ہمارے طریقہ
یہ ہے ہادیوں کا ہمارے سلیقہ
پھر وہ مسلمانوں کی مشرکانہ حالت یوں بیان کرتے ہیں:۔
کرے غیر گر بُت کی پوجا تو کافر
جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہرِ سجدہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رُتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں پڑھائیں
شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
سدا اہل تحقیق سے دل میں بل ہے
حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خَلَل ہے
فتاووں پہ بالکل مدارِ عمل ہے
ہر اِک رائے قرآں کا نعم البدل ہے
کتاب اور سنت کا ہے نام باقی
خدا اور نبی سے نہیں کام باقی
بہت لوگ بن کر ہوا خواہِ اُمّت
سفیہوں سے مَنوا کے اپنی فضیلت
صدا گاؤں در گاؤں نوبت بہ نوبت
پڑے پھرتے ہیں کرتے تحصیلِ دولت
یہ ٹھہرے ہیں اسلام کے رہنما اب
لقب ان کا ہے وارث انبیا اب
پھر پِیروں کے متعلق فرماتے ہیں:۔
بہت لوگ پیروں کی اولاد بن کر
نہیں ذاتِ والا میں کچھ جن کے جوہر
بڑا فخر ہے جن کو لے دے کے اس پر
کہ تھے اُن کے اسلاف مقبول داور
کرشمے ہیں جا جا کے جھوٹے دکھاتے
مُریدوں کو ہیں لُوٹتے اور کھاتے
پھر متأسفانہ لکھتے ہیں:۔
وہ عِلم شریعت کے ماہر کدھر ہیں
وہ اخبارِ دیں کے مبصّر کدھرہیں
اصول کدھر ہیں مناظر کدھر ہیں
محدّث کہاں ہیں مفسّر کدھر ہیں
وہ مجلس جو کل سربسر تھی چراغاں
چراغ اب کہیں ٹمٹماتا نہیں واں
اُسے جانتے ہیں بڑا سب سے دشمن
ہمارے کرے عیب جو ہم پہ روشن
نصیحت سے نفرت ہے ناصح سے اَن بَن
سمجھتے ہیں ہم رہنماؤں کو رہزن
یہی عیب ہے سب کو کھویا ہے جس نے
ہمیں ناوٴ بھر کر ڈبویا ہے جس نے
مولوی الطاف حسینصاحب حالی نے مسلمانوں کی زَبُوں حالی کا جو نقشہ کھینچا ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہی وہ زمانہ تھا جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں پیشگوئی فرمائی تھی کہ:۔
یَأْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہٗ وَلَا یَبْقیٰ مِنَ الْقُرآنِ اِلَّا رَسْمُہٗ مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَةٌ وَ ھِی خَرَابٌ مِّنَ الْھُدیٰ عُلَمَاءُھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَآءِمِنْ عِنْدِھِمْتَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَ فِیْھِمْ تَعُوْدُ۔
(مشکوٰۃ المصابیح کتاب العلم الفصل الثالث)
ترجمہ:۔لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کی صرف تحریر باقی رہ جائے گی ان کی مسجدیں تو آباد ہوں گی مگر ہدایت کے لحاظ سے ویران ہوں گی۔ اُس زمانہ کے علماء آسمان کے نیچے بدترین وجود ہوں گے۔ اُن میں سے ایک فتنہ نکلے گا اور پھر انہی میں لوٹ جائے گا۔
اسی حدیث کے مطابق اقتراب الساعۃصفحہ ۱۲ پر لکھا گیا ہے:۔
‘‘اب اسلام کا صرف نام اور قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے۔ مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہیں لیکن بالکل ویران ہیں۔ علماء اس اُمّت کے بدترین اُن کے ہیں۔’’
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری لکھتے ہیں:۔
‘‘سچی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے قرآن مجید بالکل اٹھ چکا ہے۔ فرضی طور پر ہم قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں مگر واللہ دل سے اسے معمولی اور بہت معمولی اور بیکار کتاب جانتے ہیں۔’’
(اخبار اہلحدیث۱۴ـجون ۱۹۱۲ء)
غرض مسلمانوں کی اس زَبُوں حالی کے زمانہ میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوکر ایک جماعت مسلمانوں میں پیدا کی جو اشاعتِ اسلام اور خدمتِ قرآن کے جذبہ اور ولولہ سے سرشار ہے۔ اور اس جماعت میں ایسا نظام پیدا ہو چکا ہے کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقف کر کے اکناف عالم میں تبلیغ و اشاعت اسلام کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ مگر مولوی ابو الحسن صاحبیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِکا مصداق بن کر اس تنظیم کے متعلق یہ غلط فہمی پھیلانا چاہتے ہیں کہ یہ تنظیم اسلام کے بالمقابل کسی متوازی نظام کو قائم کر رہی ہے۔ حالانکہ جماعت احمدیہ صرف قرآن مجید کی اشاعت کے لئے سربکف ہے کیونکہ اس کے امام حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے انہیںیہ تعلیم دی ہے کہ:۔
‘‘میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔ حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولی ہیں اور باقی سب اس کے ظِلّتھے۔ سو تم قرآن کو تدبّر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو۔ ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایااَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔ افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں۔ تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے۔ کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔تمہارے ایمان کا مصدّقیامکذّب قیامتکے دن قرآن ہے اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہٴ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی…… پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے۔ یہ بڑی دولت ہے۔ اگرقرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مُضْغَہ کی طرح تھی۔ قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام کتابیں ہیچ ہیں۔’’
(کشتیٔ نوح، روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۲۶، ۲۷)
یہ وہ تعلیم ہے جو حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہؑ نے دی ہے۔ اس کی موجودگی میں مولوی ابو الحسن صاحب کا احمدیت کو اسلام کے بالمقابل ایک متوازی تحریک قرار دینا محض افتراء ہے۔ پس احمدیت کوئی نئیاُمّت نہیں اور نہ احمدیت کوئی نیا مستقل دین ہے بلکہ احمدیت اسلام کی تجدیدکے لئے ایک ایسا مکتبِ فکر ہے جسے خدا تعالیٰ نے اسلام کی نشأة ثانیہ کے لئے قائم کیا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ کو آنحضرتؐ کے صحابہؓ کے مثیل جاننے یا قادیان اور مقبرہ بہشتی کو ایک مقدس مقام قرار دینے اور سالانہ جلسہ کے اجتماع کو ظِلّی حج قرار دینے اور قبرمسیح موعودؑ کی زیارت کی تحریک کرنے سے ہرگز یہ لازم نہیں آجاتا کہ جماعت احمدیہ کی عقیدت کعبۃاللہ اور روضۂ رسولؐ سے نہیں رہی۔ اس افتراء کے جواب میں بجز اس کے ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ صریح غلط بیانی ہے۔ مولوی ابو الحسن ندوی صاحب نے ہمارا دل چیر کر تو نہیں دیکھا۔ انسان کے عقائد کا پتہ یا اُس کی زبان سے لگتا ہے یا عمل سے۔ سو ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ سرور کائنات، فخر الانبیاء سیّد المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں سے افضل اور اعلیٰ ہیں اور ہر نبی کو جو نبوّت بھی ملی وہ آپ کے فیض سے ملی ہے۔ پس ہماری محبت کا اصل مرکز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اور اس کے بعد وہ لوگ ہمارے محبوب ہیں جو آنحضرت ؐ سے محبت رکھنے کا ہمیں سبق دیں۔ اور اس زمانہ میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد علیہ السلام نے آنحضرتؐ سے انتہائی عشق رکھنے کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنی جماعت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے انتہائی محبت کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اس تلقین سے جماعت احمدیہ کے دلوں میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا ولولہ اور جذبہ پیدا کر دیا ہے کہ وہ سرفروشانہ خدمتِ اسلام میں کمربستہ ہیں۔ ان کی قربانیوں کی نظیر زمانہٴ حال کے دوسرے مسلمانوں میں کہیں پائی نہیں جاتی۔ ایسا عشق رسول اور جذبۂ خدمتِ اسلام صرف قُرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں میں ہی مل سکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ظِلّ اور عکس ہونے کے مدّعی ہیں جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ علیہالرحمۃ نے مسیح موعود کے متعلق فرمایا ہے:۔
‘‘یَنْعَکِسُ فِیْہِ اَنْوَارُ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ’’
اور نیز اس کے حق میں فرمایا:۔
‘‘ھُوَ شَرْحٌ لِلْاِسْمِالجَامِع ِالمُحَمَّدِیِّ ونُسْخَةٌ مُنْتَسِخَةٌ مِنْہُ’’
یعنی اُس میں سیّد المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار منعکس ہوں گے اور وہ اسم جامع محمدی کی تشریح اور اس کا دوسرا نسخہ ہو گا جو اسم جامع محمدی کے فیض سے ہوگا’’۔
جب مسیح موعود علیہ السلام کییہ شان اسلام میں مُسلّم ہے تو آپؑ کے صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کے مثیل سمجھنے میں کیا قباحت ہے لہذا اس بارہ میں مولوی ابو الحسن صاحب کا اعتراض ان کے احساسِ کمتری پر دال ہے۔
اِسی طرح اشاعتِ اسلام کو فروغ دینے کے لئے جلسہ سالانہ کے اجتماعات کو ظِلّی حج یا مجازاً حجِ اکبر قرار دینے کے بھییہ معنی نہیں ہیں کہ جب لوگوں پر حج بیت اللہ فرض ہو اس جلسہ میں شامل ہونے سے ان سے فریضہٴ حج ساقط ہو جاتا ہے۔ پس حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے جلسہ سالانہ کے اجتماع کو ظِلّی حج کہنے اور کسی کے اسے مجازاً حجِ اکبر کہہ دینے کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ احمدی حجِ بیت اللہ کے فریضہ سے منکر ہیں۔ احمدی خدا کے فضل سے ہر سال مکّہ معظمہ میں فریضہٴ حج ادا کرنے کے لئے جاتے ہیں اور روضہٴ نبوی کی زیارت سے بھی مشرف ہوتے ہیں۔
ظل اور مجاز کے الفاظ تو ایک اصل اور ایک حقیقت کو ماننے کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں نہ کہ اصل اور حقیقت کے انکار کے بعد۔ پس ظِلّی حج اور مجازی حجِ اکبر کے الفاظ حجِ بیت اللہ پر اعتقاد رکھنے کوثابت کرتے ہیں نہ کہ اس کی نفی کرتے ہیں۔ پس مولوی ابو الحسن صاحب کا اس پر اعتراض محض اُن کے تعصب کا کارنامہ ہے۔
قادیان مرکزِ اسلام
مسیح موعود علیہ السلام چونکہ قادیان میں رہتے تھے اس لئے اس زمانہ میں خداتعالیٰ نے قادیان کو تبلیغ و اشاعت اسلام کا مرکز بنا دیا۔ مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کو اس پر اعتراض ہے وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘ قادیانی اصحاب اس دینی اور روحانی تعلق کی بناء پر جو نئینبوّت اور نئے اسلام کا مرکز ہونے کی بناء پر قادیان کے ساتھ قائم ہوتا ہے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ قادیان مقاماتِ مقدسہ میں سے ایک اہم ترین اور عظیم ترین مقام ہے اور وہ مکہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ کے ساتھ قادیان کا نام لینا ضروری سمجھتے ہیں۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۷۲)
الجواب۔اس کے جواب میں واضح ہو کہ مسلمانوں نے تو پیروں اور مشائخ کی خانقاہوں کو بھیمقاماتِ مقدسہ قرار دے رکھا ہے او رہر سال وہاں عرس کی محفلیں قائمکرتے ہیں اور ان مشائخ کے مقامات کے ساتھ ‘‘شریف’’ کا لفظ بڑھا کر ان کی تقدیس بیان کرتے ہیں تو قادیان کو مسیح موعودؑ کے ظہور پر مرکزاسلام بن جانے کی وجہ سے اگر احمدی مقدس جانیں تو اس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ احمدی کسی نئینبوّت کے قائلہیں؟ احمدی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ظل ہییقین کرتے ہیں نہ کہ کوئی نیا مستقل نبییا تشریعی نبی۔جب مکہ معظمہ و مدینہ منوّرہ کے علاوہ بیت المقدس وغیرہ کو بھی مسلمان ایک مقدس مقام جانتے ہیں اور بغداد کو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کا مولد ہونے کی وجہ سے مقدس سمجھا جاتا ہے تو قادیان کو کیوں مقدس نہ سمجھا جائے جبکہ وہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک مقدس شخصیت کا بصورت مسیح موعود ظہور ہوا۔ مسلمانانِ پاکستان تو پاکستان کی ایک ایک انچ زمین کو مقدس قرار دیتے ہیں۔ اگر اس سے مکّہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ سے علیحدگی کا تصور پیدا نہیں ہوا تو پھر یہ مولوی ابوالحسن صاحب کا تعصب ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ احمدیوں کے قادیان کو مقدس مقام جاننے پر معترض ہیں جب کہ وہ خود ہی حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کا یہ قول بھی اپنی کتاب کے صفحہ۱۷۲ پر نقل کر رہے ہیں کہ ۔
‘‘ ہم مدینہ منوّرہ کی عزت کر کے خانہ کعبہ کی ہتک کرنے والے نہیں ہو جاتے، اسی طرح ہم قادیان کی عزّت کر کے مکّہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ کی توہین کرنے والے نہیں ہو سکتے۔خدا تعالیٰ نے ان تینوں مقامات کو مقدس کیا اور ان تینوں مقامات کو اپنی تجلّیات کے اظہار کے لئے چنا۔ ’’
(الفضل ۳ ستمبر ۱۹۳۵ء صفحہ۷)
قادیان کا مکّہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ کی تقدیس سے کوئی ٹکراؤ نہیں کیونکہ مکّہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ کی تقدیس بطور اصل کے ہے اور قادیان کی بطور ظِلّ کے ۔ لہذا یہ مقام غیرت نہیں بلکہ مقام شکر ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہندوسان کے صوبہ پنجاب میں مسیح موعود کو مبعوث فرما کر ہمارے ملک کو بھی ایک عزت بخشی۔
اس کے بعد مولوی ابوالحسن صاحب لکھتے ہیں:۔
‘‘خود مرزا غلام احمد صاحب نے قادیان کو سرزمین حرم سے تشبیہ و تمثیل دی ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔
زمین قادیان اب محترم ہے ہجومِ خلق سے ارضِ حرم ہے’’
گویا ہجومِ خلق کی وجہ سے قادیانکو ارضِ حرم کا سا نظارہ پیش کرنے والا قرار دینا بھی مولوی ابوالحسن صاحب کے نزدیک قابل اعتراض ہے۔ یَا لَلْعَجَب!
بے شک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشتہار منارة المسیح میں بطور اِشَارةُ النصّ قادیان کا قرآن مجید میں مذکور ہونا بیان کیا ہے ۔مگر مولوی ابوالحسن صاحب نے ان باتوں سے جو یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کی ہے کہ ۔
‘‘ان سب بیانات اور قادیان کے بارے میں اعتقادات کا منطقی اور طبعی نتیجہیہی ہونا چاہئے……کہ وہاں سال بسال حاضر ہونے کو حج ہی کا سا ایک مقدس عمل بلکہ ایک طرح کا حج سمجھا جانے لگے۔ ’’
ہمارے نزدیک مولوی ابوالحسن صاحب کا یہ نتیجہ غلط ہے کیونکہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تعلیم کے مطابق کوئی احمدی جو فریضہ حج بیت اللہ ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اگر خانہ کعبہ کا حج نہیں کرتا تو وہ عنداللہ قابل مواخذہ ہو گا۔ قادیان کے جلسہ پر ہر سال جانے سے یہ فریضہ ساقط نہیں ہو سکتا۔ پس ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ مولوی ابوالحسن صاحب جس امر کو منطقی اور طبعی نتیجہ قرار دے رہے ہیں وہ صرف ان کا ایک وہم ہے جو عصبیت کی پیداوار ہے۔
مولوی ابوالحسن صاحبقادیانیت کے صفحہ ۱۷۴ پر لکھتے ہیں۔
’’انفرادیت کا رجحان اور ایک مستقل دین اور نئی تاریخ کے آغاز کا احساس اتنا بڑھ گیا کہ قادیانی حضرات نے اپنی نئی تقویم کی بنیاد ڈال دی اور سال کے مہینوں کے نئے ناموں سے تاریخ لکھنے لگے۔ قادیانیت کے سرکاری ترجمان الفضل میں مہینوں کے جو نام چھپتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔ صلح، تبلیغ، امان، شہادت، ہجرت، احسان، وفا، ظہور، تبوک، اخاء، نبوّت، فتح۔‘‘
الجواب۔مولوی ابوالحسن صاحب ندوی نے نئی تقویم جاری کرنے کو بھی احمدیت کے مستقل دین ہونے کے ثبوت میں پیش کر دیا ہے حالانکہ اس تقدیم میں مہینوں کے جو نام رکھے گئے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں پیش آنےوالے واقعات سے متعلق ہیں۔ ان کا اشارہ احمدیت کی زندگی میں پیش آنے والے کسی واقعہ سے نہیں۔
ماہِ صُلح کا اشارہ صُلح حدیبیہ کی طرف ہے۔ تبلیغ کا اشارہ اس ماہ سے ہے جس ماہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت تبلیغ شروع فرمائی۔ اور امان کا اشارہ اس واقعہ کی طرف ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے غیر مسلموں کو امان دی۔ اسی طرح ہجرت کا اشارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ہجرت کے مہینہ کی طرف ہے۔ ان مہینوں میں ایک ماہ کا نام تبوک رکھا گیا ہے جو اس ماہ کی طرف اشارہ کرنے کی طرف روشن دلیل ہے جس ماہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ تبوک کے لئے روانہ ہوئے ۔ تبوک کے لفظ سے ہر مسلمان تاریخکی تھوڑی واقفیت رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ تبوک کا احمدیت کی تاریخ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ اس سے ہییہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ باقی مہینوں کے نام بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ کے واقعات سے متعلق ہیں۔
اِس تقویم کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ہجری سنہ سے یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ فلاں واقعہ کس موسم میں پیش آیا۔ وہ گرماکا موسم تھا یا سرما کا۔ کیونکہہجری سنہ قمری مہینوں کے لحاظ سے رائج ہے۔ اسلامی تاریخ کے واقعات کو معلوم کرنے کے لئے کہ یہ کس موسم میں ہوئے ہجری شمسی کی تقویم جاری کی گئی ۔ جس سے ہر مسلمان اسلام کی تاریخ جو قمری لحاظ سے بیان ہوتی ہے اس کا صحیح موسم معلوم کر سکتا ہے۔قمری مہینے تو اپنا موسم بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی ایک قمری مہینہ موسم گرما میں آتا ہے تو کبھی وہ موسم سرما میں آجاتا ہے۔ پس یہ نئی تقویم تاریخ اسلام سے فائدہ اٹھانے کی خاطر جاری کی گئی ہے اور اس کے مہینوں کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کے واقعات کے زمانہ کے لحاظ سے رکھے گئے ہیں۔ ان مہینوں سے احمدیت کے کسی مستقل دین ہونے کا وہم پیدا نہیں ہو سکتا۔ مگر تعصب ایسی بلا ہے کہ اس کی وجہ سے ہنر بھی بعض کو عیب دکھائی دینے لگ جاتا ہے۔ یہ سچ کہا گیا ہے۔
ہنر بچشمِ عداوت بزرگترعیبےست
گُل است سعدی و درچشمِ دشمناں خار است
ایک ہندو ڈاکٹر کے خیالات سے مولوی ابوالحسن صاحب کا استدلال
اِس فصل کے آخر میں مولوی ابوالحسن صاحب نے اپنی تائید میں ہندوستان کے ایک ہندو ڈاکٹر کا مضمون نقل کیا ہے اور مضمون نگار کی بڑی تعریف کی ہے کہ اُس نے اس نکتہ کے سمجھنے میں بڑی ذہانت کا ثبوت دیا ہے کہ قادیانیت ایک اسلامی فرقہ نہیں بلکہ ایک مستقل مذہب اور ایک متوازی قوم ہے جو خالص ہندوستانی بنیادوں پر ایک نئے مذہب اور نئے معاشرہ کی تعمیر کرتی ہے۔ (قادیانیت صفحہ ۱۷۶)
مضمون نگار نے لکھا تھا۔
‘‘ سب سے اہم سوال جو اس وقت ملک کے سامنے درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اندر کس طرح قومیّت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔کبھی ان کے ساتھ سو دے معاہدے اور پیکٹ کئے جاتے ہیں۔ کبھی لالچ دے کر ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ ہندوستانی مسلمان اپنے آپ کو ایک الگ قوم تصور کئے بیٹھے ہیں اور وہ دن رات عرب کے ہی گیت گاتے ہیں۔ اگر ان کا بس چلے تو وہ ہندوستان کو بھی عرب کا نام دے دیں۔
اِس تاریکی میں اس مایوسی کے عالم میں ہندوستانی قوم پرستوں پر اور محبّانِ وطن کو ایک ہی امید کی شعاع دکھائی دیتی ہے اور وہ آشا کی جھلک احمدیوں کی تحریک ہے۔ جس قدر مسلمان احمدیت کی طرف راغب ہوں گے وہ قادیان کو اپنا مکّہ تصور کرنے لگیں گے (یہ بالکل جھوٹ ہے۔ محمد نذیر) اور آخر میں محبِّ ہند اور قوم پرست بن جائیں گے۔ مسلمانوں میں احمدیہ تحریک کی ترقی ہی عربی تہذیب اور پان اسلامزم کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ آؤ ہم احمدیہ تحریک کا قومی نگاہ سے مطالعہ کریں۔ ’’
(قادیانیت صفحہ ۱۷۶،۱۷۷)
آگے چل کر لکھتے ہیں۔
‘‘ ایک مرزائی مسلمان کا عقیدہ ہے کہ
۱۔ خدا سمے سمے پر لوگوں کی رہبری کے لئے ایک انسان پیدا کرتا ہے جو اُس وقت کا نبی ہوتا ہے۔
۲۔ خدا نے عرب کے لوگوں میں اُن کی گراوٹ کے زمانہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو نبی بنا کر بھیجا۔
۳۔حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے بعد خدا کو ایک نبی کی ضرورت محسوس ہوئی اس لئے مرزا صاحب کو بھیجا کہ وہ مسلمانوں کی رہنمائی کریں۔’’
آگے لکھتے ہیں۔
‘‘ اب قوم پرست بھائی سوال کریں گے کہ ان عقیدوں سے ہندوستانی قوم پرستی کا کیا تعلق؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح ایک ہندو کے مسلمان ہو جانے پر اس کی شردھا اور عقیدت رام ،کرشن، وید، گیتا اور رامائن سے اٹھ کر قرآن اور عرب کی بُھومی میں منتقل ہو جاتی ہے اسی طرح جب کوئی مسلمان احمدی بن جاتا ہے تو اس کا زاویۂ نگاہبدل جاتا ہے۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) میں اس کی عقیدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ علاوہ بریں جہاں اس کی خلافت پہلے عرب اور ترکستان (ترکی) میں تھی اب وہ خلافت قادیان میں آجاتی ہے اور مکہ مدینہ اس کے لئے روایتیمقامات مقدسہ رہ جاتے ہیں۔ ’’
(قادیانیت صفحہ ۱۷۸)
الجواب۔اِس اقتباس کے جواب میں واضح ہو کہ ہندو مضمون نگار کا یہ بیان کہ:۔
‘‘ جب کوئی مسلمان احمدی ہو جاتا ہے…… تو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) میں اس کی عقیدت کم ہوتی چلی جاتی ہے’’
سراسر غلط اور دور از حقیقت ہے۔ بلکہ اصل حقیقتیہ ہے کہ احمدیّت نے احمدیوں کو ایسا زاویۂ نگاہ دیا ہے جس سے ان کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان تمام انبیاء اور اوّلین و آخرین سے برتر ہے۔ اور حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کے لائے ہوئے دین کے ایک خادم کی حیثیت رکھتے ہیں نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بالمقابل ایک مستقل حیثیت۔ رام اور کرشن کے بالمقابل آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ مستقل حیثیت رکھتے ہیں اس لئے ایک ہندو کے مسلمان ہونے پر اس کی شردھا کم ہو سکتی ہے لیکن احمدی جماعت میں داخل ہوئے ایک مسلمان کی شردھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتی ہے کیونکہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں تحریر فرمایا ہے کہ :۔
‘‘ پس میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) ہے (ہزار ہزار درود و سلام اس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہو سکتا۔ اور اس کی تاثیرِ قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی محبت میں اس کی جان گداز ہوئی۔ اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام ا وّلین اور آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اوروہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذرّیّت شیطان ہے۔ کیونکہ ہر ایکفضیلت کی کنجی اس کو دی گئی اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا۔ جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ ہم کافر نعمت ہوں گے اگراس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اس کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہی میسر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل کھڑے ہیں۔ ’’
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۱۸، ۱۱۹)
اس بیان سے ظاہر ہے کہ مضمون نگار ہندو ڈاکٹر نے احمدیت کو نہیں سمجھا۔ احمدیوں کے نزدیک حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیہ السلام سے محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بالمقابل ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمارے نزدیک تمام انسانوں میں سے محبت کے اصل اور اولین مرکز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں۔ پس ہندو ڈاکٹر کا یہ خیال صریح غلط ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب سے تعلق محبت کی وجہ سے ان کی توجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کم ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی بعثت کا مرکزی نقطہ اللہ تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بنی نوع انسان کا عشق پیدا کرنا ہے۔ حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے جو عشق تھا اگر اسے بے نظیر نہ سمجھا جائے تو نادرالمثال ضرور ہے۔ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں اپنے محبت کے گیت گاتے ہوئے فرماتے ہیں
برتر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے
جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے
پھر فرماتے ہیں
سب پاک ہیں پیمبر اِک دوسرے سے بہتر
لیک از خدائے برتر خیرالوریٰیہی ہے
حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی بعثت کی تو غرض ہییہ ہے کہ دین اسلام کی تجدید و اشاعت کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت تمام انبیاء کے مقابلہ میں قائم کر کے دنیا سے آپ کا خاتم النبیّین سید المرسلین اور افضل الانبیاء ہونا منوائیں اور تمام دنیا کے رہنے والوں کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی محبّت اور عشق پیدا کریں۔ پس احمدیوں کے دلوں میں مکّہ معظمہ کو بیت اللہ ہونے کی وجہ سے جو عظمت حاصل ہے وہ قادیان کو ہرگز حاصل نہیں۔ پس اس ہندو ڈاکٹر کا یہ استدلال ہمارے نزدیک بالکل غلط ہے کہ جس طرح ایک ہندو کے مسلمان ہو جانے سے اس کی عقیدت اور شردھا رام اور کرشن کے متعلق کم ہو جاتی ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق اس کی شردھا اور عقیدت بڑھ جاتی ہے ایک مسلمان کے احمدی جماعت میں شامل ہونے سے اس کی عقیدت اور شردھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق کم ہو جائے گی اور مرزا غلام احمد علیہ السلام کے متعلق بڑھ جائے گی۔ حضرت مرزا صاحبؑ تو فرماتے ہیں
یک قدم دُوری ازاں عالی جناب
نزدِ ما کفر است و خُسران و تَبَاب
پس ڈاکٹر شنکر داس کا یہ خیال کہ احمدیوں کی عقیدت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کم ہو گئی صریح غلط ہے۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ مسلمان احمدیوں کی مخالفت کرتے ہیں اور احمدیت کو مشکوک نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکال لیا کہ احمدی ان کی قومیت کو اختیار کر سکتے ہیں۔ مگر واقعات نے اُن کے اِس خیال کو غلط قرار دے دیا اور بتا دیا ہے کہ احمدی مسلمان بھی عام مسلمانوں کی طرح قوم کی بنیاد مذہب پر رکھنا پسند کرتے ہیں۔ اسی نظریہ کی وجہ سے امام جماعت احمدیہ اور جماعت احمدیہ نے پاکستان بنایا جانے کی پُر زور تائیدکی۔
ہندو ڈاکٹر صاحب جس قومیت کو پیش کرتے ہیں وہ سیاسی نوعیت کی قومیت کا تصوّر ہے۔ مسلمان بھی سیاسی لحاظ سے اس قومیّت کو اپنا سکتے تھے۔ لیکن ہندوؤں کی ہٹ دھرمی اور بخلا ور عدم رواداری نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ علیحدہ سلطنت کا مطالبہ کریں۔ ورنہ قائد اعظم تو پہلے پکّے کانگرسی تھے لیکن انہوں نے ہندوؤں کی بدسلوکی دیکھ کر ہی مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور پھریہ آواز اٹھائی کہ ملک تقسیم ہونا چاہئے۔
نبوّت محمدیہ کے خلاف بغاوت کے الزام کا ردّ
باب چہارم کی فصل دوم میں مولوی ابوالحسن صاحب ندوی نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر نبوّت محمدیہ کے خلافبغاوت کا الزام لگایاہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘ اسلام کے خلاف وقتاً فوقتاً جو تحریکیں اٹھیں اُن میں قادیانیت کو خاص امتیاز حاصل ہے۔ وہ تحریکیںیاتو نظامِ حکومت کے خلاف تھیںیا شریعت اسلامی کے خلاف لیکن قادیانیت درحقیقتنبوّت محمدی کے خلاف ایک سازش ہے۔ وہ اسلام کی ابدیّت اوراُمّت کی وحدت کو چیلنج ہے کہ اس نے ختم نبوّت سے انکار کر کے اس سرحدی خط کو بھی عبور کر لیا جو اس اُمّت کو دوسریاُمّت سے ممتاز و منفصل کرتا ہے اورجو کسی مملکت کی حدود کو حاضر کرنے کے لئے قائم کیا جاتا ہے۔………… الخ’’
(قادیانیت صفحہ ۱۸۳)
خط کشیدہ الفاظ مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کا صریح افتراء اور بہتان عظیم ہیں۔ مولوی ابوالحسن صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ۱۸۰ء پر ‘‘ختم نبوّت انعام خداوندی اور اُمّت اسلامیہ کا امتیاز ہے’’ کے ماتحت لکھا ہے۔
‘‘یہ عقیدہ کہ دین مکمل ہو چکا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمخدا کے آخری پیغمبر اور خاتم النبیّین ہیں اور یہ کہ اسلام خدا کا آخری پیغام اور زندگی کا مکمل نظام ہے ایک انعام خداوندی اور موہبتِ الٰہی تھا جس کو خدا نے اس اُمّت کے ساتھ مخصوص کیا۔ ’’
(قادیانیت صفحہ ۱۸۰)
واضح ہو کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ کو بھی مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کے اِن معنوں کے ساتھ اتفاق ہے کہ اسلام مکمل دین ہے اور رسول کریمؐ خاتم النبیّین ہیں اور نیا دین اور نیا پیغام لانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی آخری پیغمبرہیں۔ آپؑ اپنی کتاب حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۴۱ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس لحاظ سے آخری پیغمبر ہی مانتے ہیں۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں۔
‘‘ اللہ وہ ذات ہے جو ربّ العالمین اور رحمٰن اور رحیم ہے جس نےزمین اور آسمان کو چھ دن میں بنایا اور آدم کو پیدا کیا۔ اور رسول بھیجے اور کتابیں بھیجیں او ر سب کے آخر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کو پیدا کیا جو خاتم الانبیاء اور خیرالرسل ہے۔’’
(حقیقۃ الوحی،ر وحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۴۵)
پھر اپنی کتاب کشتیٔ نوح میں اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت فرماتے ہیں:۔
‘‘ نوعِ انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن ۔اور تمام آدمزادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلمسو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اُس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اُس کے غیر کو اُس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو۔ تا آسمانپرتم نجات یافتہ لکھے جاؤ۔ اوریاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہو گی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ بلکہ حقیقی نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اُس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی رسول ہے نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامتتک جاری رکھا اور آخر کار اس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لئے ضروری تھا۔ چونکہ یہ ضرور تھا کہ دنیا ختم نہ ہو جب تک محمدی سلسلہ کے لئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا۔ ’’
(کشتیٔ نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ۱۳، ۱۴)
مولوی ابوالحسن صاحب پر واضح ہو کہ مسیح موعود نبی اللہ کی آمد کی ساریاُمّت قائل ہے۔ کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث میں جو نواس بن سمعان سے باب خروج الدجال میں مروی ہے۔ آنے والے عیسیٰ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے چار دفعہ نبی اللہ فرمایا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں:
وَیُحْصَرُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیْسیٰ وَاَصْحَابُہٗ … فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیْسٰی وَاَصْحَابُہٗ ۔ ثُمَّ یَھْبِطُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَاَصْحَابُہٗ … فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُوَاَصْحَابُہٗ اِلَی اللّٰہِ۔
(صحیح مسلم کتاب الفتنباب ذکرالدجال و مشکوٰة باب العلامات بینیدی الساعۃ وذکرالدجال)
ہمارے نزدیک اس حدیث میںاُمّت محمدیہ میں آنے والے مسیح موعود کو استعارہ کے طور پر عیسیٰ کا نام دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے چار دفعہ نبی اللہکہا ہے اور اس حدیث کے مطابق ساریاُمّت محمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد ایکنبیّ اللّٰہکو مانتی چلی آئیہے۔ نیزاُمّت محمدیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم النبیّین بمعنی آخری شریعت لانے والے نبی کے معنوں میں تسلیم کیا ہے نہ کہ مطلق آخری نبی کے معنوں میں۔ کیونکہ عیسیٰنبیّ اللّٰہکا آنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اُمّت کو مسلّم رہا ہے۔ ہاں اُمّت میں اس بارہ میں اختلاف بھی رہا ہے کہ اُمّت محمدیہ میں آنے والا عیسٰی نبی اللہ مسیح ناصری علیہ السلام ہوں گے جو اسرائیلی نبی تھے یا اُن کا کوئی بروز ظاہر ہو گا ۔ چنانچہ مسلمانوں کے ایک طبقہ کا مذہب ‘‘ اقتباس الانوار’’ صفحہ ۵۲ میںیوں لکھا ہے :۔
‘‘ بعضے بر آنند کہ رُوحِ عیسٰی در مہدی بروز کندو نزول عبارت از ہمیں بروز است۔ مطابق ایک حدیث کہ لَا مَھْدِیَّ اِلَّا عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ۔’’
یعنی بعض لوگوں کا یہ مذہب ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی روحانیت مہدی میں بروز کرے گی اور نزول سے مراد یہی بروز ہے مطابق حدیث‘‘لَا مَھْدِیَّ اِلَّا عِیْسٰی کے کہ عیسیٰ اور مہدی ایک ہی شخص ہے۔
حضرت محی الدین ابن عربیؒ کی تفسیر میں لکھا ہے۔
‘‘ وَجَبَ نُزُوْلُہٗ فِی اٰخِرِ الزَّمَانِ بِتَعَلُّقِہٖ بِبَدَنٍ اٰخَرَ’’
(تفسیر محی الدین ابن عربی زیر آیت بَل رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ۔النساء: ۱۵۹)
یعنی حضرت عیسیٰ کا نزول کسی دوسرے بدن کے تعلق سے آخری زمانہ میں ضروری ہے۔
اسی طرح ‘‘خریدة العجائب و فریدة الرغائب’’ صفحہ ۲۱۴ پر لکھا ہے۔
قَالَتْ فِرْقَةٌ مِنْ نُزُوْلِ عِیْسٰی خُرُوْجُ رَجُلٍ یُشْبِہُ عِیْسٰی فِی الْفَضْلِ وَالشَّرَفِ کَمَا یُقَالُ لِلرَّجُلِ الْخَیْرِ مَلَکٌ وَلِلشَّرِیْرِ شَیْطَانٌ تَشْبِیْھًا بِھِمَا وَلَا یُرَادُ الْاَعْیَان۔
ترجمہ۔ ایک فرقہ نے نزول عیسیٰؑ سے ایک ایسے شخص کا ظہور مراد لیا ہے جو فضل و شرف میں عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہ ہو گا ۔ جیسے تشبیہ دینے کے لئے نیک آدمی کو فرشتہ اور شریر آدمی کو شیطان کہہ دیتے ہیں مگر اس سے مراد فرشتہ اور شیطان کی ذات نہیں ہوتی۔
واضح ہو کہ جماعت احمدیہ کا یہی مسلک ہے کہ اُمّت محمدیہ کا ایک فرد اُمّت میں سے عیسیٰ علیہ السلام کا مثیل ہو کر استعارہ کے طور پر پیشگوئیوں میں عیسیٰؑیا ابن مریمؑکے نام سے ذکر کیا گیا ہے ۔ ایسے استعارہ کو جو مثیل کے آنے کے متعلق ہو اصل کا بروز ہی قرار دیا جاتا ہے ۔ پس مسیح موعود کو جو حدیث نبوی میں چار دفعہ نبی اللہ کہا گیا ہے تو اس نبی اللہ کے الفاظ سے تشریعی نبی اللہ مراد نہیں۔ کیونکہ خاتم الانبیاء ہونے کی وجہ سے آخری تشریعی نبی جو شریعت تامّہ کاملہ اِلیٰیومِ القیامتلائے وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں۔ حقیقتیہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جب خاتم النبیّین بمعنی آخری نبی مانا جائے تو آپ کا آخری نبی ہونا چونکہ خاتم النبیّین کے لوازم میں سے ہے اس لئے آپ کو خاتم النبیّین اپنے تمام حقیقی اور لازم معنی کے ساتھ یعنی اپنی پوری حاصل کردہ حیثیت میں آخری نبی ماننا پڑے گا۔
اور خاتم النبیّین کی پوری حیثیتیہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جَامع جَمیع کمالاتِ انبیاء ہیں بلکہ نبوّت کے مرتبہ کے حصول میں انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے ہیں اور آپ اس طرح بھیخاتم ہیں کہ بطو ر علّتِ غائی آپ کی ذات تمام انبیاء کے ظہور میں مؤثر ہے اور آپ سب نبیوں کے مصدق ہیں اور ساتھ ہی آپ تمام انبیاء کرام میں سے آخری شریعت تامّہ مستقلہ اِلیٰیَومِ القیامۃ لانے والے نبی ہیں۔ نبوّت عامّہ کے ساتھ آخری نبی نہیں۔ کیونکہ اگر آپ نبوّت عامہ کے لحاظ سے آخری نبی ہوتے تو کبھی اپنے بعد ایک نبی اللہ کے ظہور کی پیشگوئی نہ فرماتے۔ پس آپ نبوّت مخصوصہ کے لحاظ سے آخری نبی ہیں نہ نبوّت عامّہ کے لحاظ سے۔
بزرگانِاُمّت نے آپ کو آخری شریعت لانے والے نبی کے معنوں میں ہی آخری نبی قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب مجدد صدی دو از دہم اپنی کتاب تفہیماتِ الٰہیہ میں لکھتے ہیں۔
‘‘ خُتِمَ بِہِ النَّبِیُّوْنَ اَیْ لَا یُوْجَدُ مَنْ یَّامُرُہُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ تَعَالٰی بِالتَّشْرِیْع ِعَلَی النَّاِس’’
(تفہیماتِ الٰہیہ جلد ۲ صفحہ ۸۵)
ترجمہ۔آنحضرتصلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ نبیوں پر اس طرح مہر لگائی گئی کہ آئندہ ایسا شخص نہیں پایا جائے گا جسے اللہ تعالیٰ لوگوں پر نئی شریعت دے کر مامور کرے۔
پھر وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘ اِمْتَنَعَ اَنْیَّکُوْنَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ مُسْتَقِلٌّ بِالتَّلَقِّیْ’’
(الخیرالکثیر صفحہ ۸۰ مطبوعہ مدینہ پریس بجنور)
یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد مستقل بِالتلقّییعنی شارع نبی کا آنا ممتنع ہے۔
پھر وہ موعود عیسٰیؑ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں۔
‘‘یَزْعَمُ الْعَامَّةُ اِنَّہُ اِذَا نَزَلَ اِلَی الْاَرْضِ کَانَ وَاحِدًا مِّنَ الْأُمَّةِ کَلَّابَلْ ھُوَ شَرْحٌ لِلْاِسْمِ الْجَامِعِ المُحَمَّدِیِّ وَنُسْخَةٌ مُّنْتَسِخَةٌ مِّنْہُ فَشَتَّانَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ اَحَدٍ مِّنَ الْاُمَّةِ۔’’
(الخیر الکثیر صفحہ ۷۲ مطبوعہ مدینہ پریس بجنور)
ترجمہ۔ عامۃ النّاس یہ گمان کرتے ہیں کہ جب مسیح موعود زمین کی طرف نازل ہو گا تو اس کی حیثیت محض ایکاُمّتی کی ہو گی ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی تشریح اور اس کا دوسرا نسخہ ہو گا جو اُسی کے فیض سے ہو گا۔ پس اس کے درمیان اور ایکاُمّتی کے درمیان بڑا فرق ہے۔
اس عبارت میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا کامل ظِل ہی قرار دیا ہے۔
حضرت مولوی عبدالحیٔ صاحب لکھنوی تحریر فرماتے ہیں۔
‘‘بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم یا زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مجرّد کسی نبی کا آنا محال نہیں بلکہ صاحبِ شَرعِ جدید ہونا البتہ ممتنع ہے۔ ’’
(دافع الوسواس فی اثر ابن عباس صفحہ ۱۶ ۔بار دوم ،مطبع یوسفی لکھنؤ)
نیز فرماتے ہیں:
‘‘علماء اہل سنت بھی اِس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عصر میں کوئی نبی صاحبِ شرع جدید نہیں ہو سکتا اور نبوّت آپ کیعام ہے اور جو بھی آپ کے ہم عصر ہو گا وہ متبع شرع محمدیہ ہو گا۔ ’’
(تحذیر الناس مطبوعہ خیر خواہ سرکار پریس سہارن پور)
پس جب علماء اہلسنت کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آخری تشریعی نبی ہیں اور مجرد کسی نبی کا ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد ممتنع نہیں اور علماء اہلسنت حضرت عیسیٰ نبی اللہ کی آمد کے بھی قائل ہیں سو اگر مولوی ابوالحسن صاحب ندوی علمائے اہل سنت میںسے ہیں تو ان کو بھی اس سے انکار نہیںہو سکتا۔ لہٰذا صاف ظاہر ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے اُمّتی نبی ہونے پر ندوی صاحب نے اُمّت محمدیہ سے بغاوت کا جو الزام لگایا ہے وہ سراسر نادرست بلکہ افترا ہے۔ اس دعویٰ سے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا قدم ہرگز اسلام کی راہ سے نہیں ہٹا کیونکہ آپ کا ہرگز یہ دعویٰ نہیں کہ آپ کوئی مستقل شریعتیا جدید دین لانے والے نبی ہیں بلکہ آپ کا یہی دعویٰ ہے کہ آپ متبع شریعت محمدیہ ہیں اور آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے افاضہٴ روحانیہ سے آپ کی کامل پیروی کے بعد اس طرح مقام نبوّت حاصل کیا ہے کہ آپ ایک پہلو سے نبی ہیںاور ایک پہلو سے اُمّتی بھی ہیں۔ لہذا مولوی ابو الحسن صاحب کا حضرت مسیح موعودؑ پر نئیاُمّت بنانے یانبوّت محمدیہ سے بغاوت کا الزام محض جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑاپنی کتاب حقیقۃ الوحی کےتتمہ کے صفحہ ۶۸ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘یہ کہنا کہ نبوّت کا دعویٰ کیا ہے(یعنی جدید تشریعییا مستقلّہ نبوّت کا۔ ناقل) کس قدر جہالت کس قدر حماقت اور کس قدر حق سے خروج ہے۔ اے نادانو! میری مراد نبوّت سے یہ نہیں کہ میں نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوّت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں۔ صرف مراد میرینبوّت سے کثرت مکالمت و مخاطبت الٰہیہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع سے حاصل ہے۔’’
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۵۰۳)
پس حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کینبوّت بلحاظ مسیح موعود ہونے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تابعیت میں ہے۔ اور مسیح موعود کینبوّت خود صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے کیونکہ آنے والے عیسیٰ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے چار دفعہ نبی اللہ قرار دیا ہے۔ اور علماء اُمّت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ مسیح موعود نبی بھی ہو گا اور اُمّتی بھی۔ چنانچہ امام علی القاری علیہالرحمۃ جو فقہ حنفیہ کے جلیل القدر امام اور محدث ہیں اپنی کتاب مرقاة شرح مشکوٰة میں تحریر فرماتے ہیں:
‘‘لَا مُنَافَاةَ بَیْنَ أَنْ یَّکُوْنَ نَبِیًّا وَأنْ یَّکُوْنَ مُتَتَابِعًا لِنَبِیِّنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلِیْہِ وَ سَلَّمَ فِیْ بَیَانِ اَحْکَامِ شَرِیْعَتِہٖ وَاِتْقَانِ طَرِیْقَتِہٖ وَ لَوْ بِالْوَحْیِ اِلَیْہِ کَمَا یُشِیْرُ اِلَیْہِ قَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُعَلَیْہِ وَ سَلَّمَ لَوْ کَانَ مُوْسیٰ حَیًّا لَمَا وَسِعَہُ اِلَّا اتِّبَاعِیْ۔ اَیْ مَعَ النُّبُوَّةِ وَ الرِّسَالَةِ وَاِلَّا فَمَعَ سَلْبِھِمَا فَلَا یُفِیْدُ زِیَادَۃَ المَزِیَّةِ۔’’
(مرقاة شرح مشکوٰۃ کتاب المناقب باب مناقب علی بن ابی طالب)
ترجمہ۔مسیح موعود کے نبی ہونے اور اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا تابع ہونے میں اور آپ کی شریعت کے احکام کے بیان کرنے اور آپ کی طریقت کے پختہ کرنے میں کوئی منافات نہیں خواہ وہ یہ کام اس وحی سے کرے جو اس کی طرف نازل ہوئی ہو جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا قول اس طرف اشارہ کرتا ہے‘‘ کہ اگر موسیٰؑ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا چارہ نہ ہوتا’’۔ مراد یہ ہے کہ موسیٰ اپنینبوّت اور رسالت کے ساتھ تابع ہوتے ورنہمسلوب النبوّت والرسالت ہونے کی صورت میں اُن کا تابع ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی فضیلت کو کوئی فائدہ نہیں دیتا۔
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ امام علی القاری علیہالرحمۃ کے نزدیک مسیح موعود کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبی اور اُمّتی ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی افضلیت بر انبیاء کو ثابت کرتا ہے نہ کہ ایسے نبی کا ہونا نبوّت محمدیہ سے بغاوت ہے۔
تمام اہل سنّت بموجب حدیث نبوی مندرجہ صحیح مسلم تسلیم کرتے ہیں کہ مسیحِ موعود اُمّتی نبی ہو گا تو یہ انصاف کا خون ہو گا کہ حضرت مرزا صاحب پر نبوّت محمدیہ سے بغاوت کا الزام لگایا جائے۔
مولوی ندوی صاحب! ہمارے اور آپ لوگوں کے درمیان اختلاف تو صرف مسیح موعود کی شخصیت میں ہے نہ کہ اس کےاُمّتی ہونے کے منصب میں۔ اگر آپ کے نزدیک اپنے مزعوم مسیح موعود کا اُمّتی نبی ہونا نبوّت محمدیہ سے بغاوت نہیں تو پھر آپ کے لینے اور دینے کے باٹ میں فرق کیوں ہے؟
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا نیا فلسفہ
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے اِسی فصل میں ایک نیا فلسفہ پیش کیا ہے اور یہ فلسفہ خاتم النبیّین کے متعلق اقبالی فلسفہ سے ماخوذ ہے۔ وہ فلسفہ یہ ہے:۔
‘‘عقیدہٴ ختم نبوّتدرحقیقت نوعِ انسانی کے لئے ایک شرفِ امتیاز ہے۔ وہ اِس بات کا اعلان ہے کہ نوعِ انسانی سنبلوغ کو پہنچ گئی ہے اور اس میںیہ لیاقت پیدا ہو گئی ہے کہ وہ خدا کے آخری پیغام کو قبول کرے۔ اب انسانی معاشرے کو کسی نئی وحی، کسی نئے آسمانی پیغام کی ضرورت نہیں۔ اس عقیدے سے انسان کے اندر خود اعتمادی کی روح پیدا ہوتی ہے اور اس کو یہ معلوم ہوتا ہےکہ دین اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ چکا ہے…… اب دنیا کو نئی وحی کے لئے آسمان کی طرف دیکھنے کی بجائے خدا کی پیدا کی ہوئی طاقتوں سے فائدہ اٹھانے اور خدا کے نازل کئے ہوئے دین و اخلاق کے بنیادی اصولوں پر زندگی کی تنظیم کے لئے زمین کی طرف اور اپنی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عقیدہ ختم نبوّت انسان کو پیچھے کی طرف لے جانے کی بجائے آگے کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ انسان کے سامنے اپنی طاقتوں کو صرف کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ وہ انسان کو اپنی جدو جہد کا حقیقی میدان اور رُخ بتلاتا ہے۔ اگر ختم نبوّت کا عقیدہ نہ ہو تو انسان ہمیشہ تذبذب اور بے اعتمادی کے عالم میں رہے گا۔ وہ ہمیشہ زمین کی طرف دیکھنے کی بجائے آسمان کی طرف دیکھے گا۔ وہ ہمیشہ اپنے مستقبل کی طرف سے غیر مطمئن اور متشکک رہے گا۔ اس کو ہر مرتبہ ہر نیا شخص یہ بتلائے گا کہ گلشنِ انسانیت اور روضہٴ آدم ابھی تک نامکمل تھا۔ اب وہ برگ و بار سے مکمل ہوا ہے۔اور وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہو گا کہ جب اس وقت تک یہ نامکمل رہا تو آئندہ کی کیا ضمانت ہے۔ اس طرح وہ بجائے اس کی آبیاری اور اس کے پھَلوں اور پھُولوں سے متمتع ہونے کے نئے باغبان کا منتظر رہے گا جو کہ اس کو برگ و بار سے مکمل کرے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۸۲،۱۸۳)
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا ختم نبوّت کے متعلق پیش کردہ یہ جدید فلسفہ علمائے اہل سنت کے عقائد و افکار سے صریح تضاد رکھتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولوی ندوی صاحب مسیح موعود کیاُمّت محمدیہ میں بعثت کے عقیدہ کو تمام علمائے اُمّت کے برخلاف نادانستہ ردّ کر رہے ہیں کیونکہ اس طرح ان کے نزدیک زمین کی بجائے اُمّت کو آسمان کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اور وہ اب کسی نئی وحی کے نزول کے قائل نہیں حالانکہ صحیح مسلم کی حدیث میں جس میں نزولِ عیسیٰ کا ذکر ہے۔ اس میں صاف طور پر یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس پر وحی بھی نازل ہو گی۔ پس مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا یہ عقیدہ خلافِ حدیث نبوی بھی ہے اور تمام علمائے اُمّت کے عقیدہ کے بھی خلاف ہے۔ ان کے اس فلسفہ کو جو سراقبال کے افکار سے ماخوذ ہے مِن و عَن کوئی عالمِ دین قبول کرنے کو تیار نہیں۔ یہ نیا فلسفہ پیش کر کے نادانستہ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے اہل السنت کے طریق سے بغاوت کی راہ اختیار کی ہے۔ اور چونکہ یہ فلسفہ نزول مسیح کی پیشگوئیوں کے خلاف ہے اس لئے میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ علمائے اہل السنت ان کے اس جدید فلسفہ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے کیونکہ علمائے اہل السنت مجرد کسی نبی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد ہونا محال نہیں جانتے۔ صرف شرع جدید لانے والے نبی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آنا ممتنع مانتے ہیں۔ چنانچہ اس بارہ میں علمائے اسلام کے بعض حوالہ جات قبل ازیں درج کئے جا چکے ہیں۔ جن سے ظاہر ہے کہ اس نئے فلسفہ کے ذریعہ کہ ‘‘اب زمین کی طرف دیکھنا چاہئے نہ نزول وحی کے لئے آسمان کی طرف’’ مولوی ابو الحسن صاحب اہل السنت کے مذہب پر تبر چلا رہے ہیں کیا وہ ان افکار ملحدانہ کے ذریعہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ان احادیث نبویہ کو ردّ نہیں کر رہے جن میں نزول ابن مریم کیاُمّت محمدیہ کے لئے بشارت دی گئی ہے؟ حالانکہ یہ احادیث نبویہ تواتر معنوی کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں۔ اور وحی کا دروازہ بھی قرآن کریم کے رو سے اُمّتیوں پر بند نہیں بلکہ خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔
اِنَّ الَّذِينَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَآئِكَةُ أَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۞ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۔
(حٰمٓالسجدۃ:۳۱،۳۲)
ترجمہ:۔ جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر استقامتدکھائی ان پر خدا کے فرشتے نازل ہوں گے کہ تم کوئی خوف اور غم نہ کرو اور اس جنت کی بشارت پاؤ جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے مددگار ہیں اور آخرت میں بھی۔
ملائکہ کا یہ نزول بشارات کے ساتھ سچے اور مستقیم الحال لوگوں پر اذنِ الٰہی سے ہی ہو سکتا ہے کیونکہ ملائکہ وہی کام کرتے ہیں جس کا خدا تعالیٰ سے اِذن پاتے ہیں۔ اگر نزولِ وحی کا دروازہ خاتم النبیّین صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کلیۃً بند کرنا خدا تعالیٰ کا مقصود ہوتا تو پھر یہ آیت قرآنِ مجید میں نازل نہ ہوتی۔ پس مولوی ابو الحسن صاحب کے اس جدید فلسفہ کو قرآنِ مجید کییہ آیت صریح طور پر ردّ کر رہی ہے۔ کیونکہیہ آیت مسلمانوں کی توجہ کو آسمان کی طرف اٹھاتی ہے نہ کہ زمین کی طرف۔ یہ ملائکہ کا نزول خدا کے تازہ نشانوں کے ساتھ شریعتِ محمدیہؐ پر کامل یقین پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے۔
بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم النبیّین قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے کئی امور میں تمام انبیائے کرام سے ممتاز کر دیا ہے مگر اس طرح کہ آپ اس لحاظ سے بھی ممتاز ہیں کہ تمام انبیاء کے ظہور میں آپ کا خاتم النبیّین ہونا بطور علّتِ غائی کے مؤثر ہے۔ اور یہامتیاز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم النبیّین کے حقیقی لُغوی معنوں کے لحاظ سے حاصل ہے۔ پھر ایکامتیاز بوجہ خاتم النبیّین ہونے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ حاصل ہے کہ آپ آخری شریعت مستقلّہ تامّہ کاملہ لانے والے نبی ہیں جس کا عمل قیامتتک رہے گا۔ اب آئندہ اس امتیاز کی وجہ سے دنیا کو کسی نئی شریعت کی ضرورت نہ ہو گی۔ لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آخری شریعت تامّہ کاملہ مستقلّہ اِلیٰیَومِالقِیَامۃ لانے کی وجہ سے آخری شارع نبی ہو نے کا بھیامتیاز رکھتے ہیں۔ اب اگر آپ کے امتیوں میں سے آپ کی پیروی اور افاضہٴ روحانیہ کے ذریعہ آپ کا کوئی روحانی فرزند آخری زمانہ میں مسیح ابن مریم کا مثیل ہو کر اس طرح مقامِ نبوّت پائے کہ وہ نبی بھی ہو اورآپؐکا اُمّتی بھی تو ایسے نبی کا آنابھی آپ کے ایکامتیاز اور ایک بلند شان کو ظاہر کرتا ہے اور اس بات کا ثبوت بہم پہنچا دیتا ہے کہ واقعی آپ انبیاء میں روحانی شہنشاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ روحانی شہنشاہ کی اتباع اور پیروی میں آپ کے کسی خلیفہ کا روحانی بادشاہ بن جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کیامتیازی شان کو ہی ظاہر کرتا ہے نہ کہ اسے مٹاتا ہے۔ پس مولوی ابوالحسن صاحب ندوی کا یہ جدید فلسفہ نہاہل سنّت کے علماء کو مسلّم ہو سکتا ہے نہ جماعت احمدیہ کو کیونکہ ان کا یہ فلسفہ قرآنِ مجید اور احادیث نبویہ کے صریح خلاف ہونے کی وجہ سے محض الحاد ہے۔ واضح ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے تابع اُمّتی نبی کا آنا کسی نئیاُمّت بنانے کے مترادف نہیں ہو سکتا کیونکہجب ایسا نبی خود بھیاُمّتی فرد ہے تو اسے نئیاُمّت بنانے والا قرار دینا محض تحکم اور انصاف کا خون ہے۔
مولوی ابو الحسن صاحب روضۂ آدم کے لئے کسی باغبان کی ضرورت کے قائل نہیں خواہ روضہٴ آدم کے اشجار یعنی بنی نوع انسان روحانیت کے لحاظ سے بالکل بے برگ و بار ہو جائیں اور دہریت اور الحاد کا شکار بنے رہیں۔
مولوی ابو الحسن صاحب یہ خیال پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ روضہٴ آدم کی خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی مجدد کے ذریعہ حفاظت اور نگرانی کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے خیالات کی اشاعت کر کے مولوی ابو الحسن صاحب اسلام دوستی کا ثبوت نہیں دے رہے بلکہ نادان دوست کا پارٹ ادا کر رہے ہیں۔ ان کا یہ فلسفہ ردّ کرنے کے قابل ہے کیونکہیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قوت قدسیہ اور افاضہٴ روحانیہ کو بند اور منقطع قرار دینے کے مترادف ہے۔
اپنے اس جدید فلسفہ کی بناء پر مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا یہ لکھنا کہ:۔
‘‘قادیانیت درحقیقت نبوّت محمدیہ کے خلاف ایک سازش ہے۔’’
( قادیانیت صفحہ ۱۸۳)
محض ان کا افتراء ہے۔ احمدیّتنبوّت محمدیہؐ کے خلاف نہ کوئی سازش ہے نہ نبوّت محمدیہ سے بغاوت ہے۔ بلکہ اس کا مقصد نبوّت محمدیہؐکو تمام انبیاء کینبوّتوں سے برتر اور اتم اور اکمل ثابت کرنا ہے۔ مولوی ابو الحسن صاحب کا یہ قول بھی محض غلط ہے کہ:۔
‘‘وہ (قادیانیت) اسلام کی ابدیت اور اُمّت کی وحدت کو چیلنج ہے۔ اس نے ختم نبوّت سے انکار کر کے اس سرحدی خط کو بھی عبور کر لیا ہے جو اس اُمّت کو دوسری اُمّتوں سے ممتازو منفصل کرتا ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ۱۸۳)
واضح ہو کہ خاتم النبیّین کینبوّت کے ذریعہ جو سرحدی خط کھینچا گیاہے وہ علمائے اہل سنت کے نزدیک صرف یہ مفہوم رکھتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آخری تشریعی نبی ہیں۔اس خط کو احمدیت نے عبور نہیں کیا۔ بلکہ و ہ لاکھوں انسانوں کو کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھوا کر اِس خط کا اُن سے اعتراف کرا رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آخری شریعت تامّہ مستقلّہ لانے والے نبی ہیں اور اپنے فیوض و برکات کے لحاظ سے آپ ایک زندہ نبی ہیں۔ کیونکہ آپ کا افاضہ روحانیہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ یہی خط ہے جو اُمّت محمدیہ کو تمام امتوں سے منفصل اور ممتاز کرتا ہے۔ افسوس ہے کہ مولوی ابو الحسن ختم نبوّت کو یہ معنی دے رہے ہیں کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا افاضہٴ روحانیہ منقطع ہو چکا ہے اور آئندہ آپ کی اتباع اور افاضہٴ روحانیہ سے کوئی شخص اُمّتینبوّت کا مقام پا کر مبعوث نہیں ہو سکتا۔
مولوی ابو الحسن صاحب کا جدید فلسفہ ختم نبوّتیہ ہے اب آسمان کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف زمین کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اُن کے نزدیک ایسی نئی وحی بھی جو پیشگوئیوں اور نشانوں پر مشتمل ہو انسان کو آگے لے جانے کی بجائے پیچھے کی طرف لے جانے والی ہو گی کیا ان کے اس عقیدہ سے یہ ظاہر نہیں کہ وہ تمام اُمّتِمسلمہ کے خلاف مسیح موعود کی آمد سے منکر ہیں کیا ان کے نزدیک وہ سب پیشگوئیاں (معاذ اللہ) غلط ہیں جو مسیح موعود کی آمد کے متعلق احادیث نبویہ میں مذکور ہیں؟ کیا ڈاکٹر اقبال کا تتبع کر کے مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے تمام علمائے اہل السنّت کے خلاف نادانستہ ایک جدید مذہب ایجاد کرنے کی کوشش نہیں کی جو ان کے اپنے عقیدہ متعلق نزولِ مسیح سے بھی تضاد رکھتا ہے جس میں انہوں نے ایسی حدیثوں کو تواترتک پہنچا ہوا قرار دیا ہے۔
(ملاحظہ ہو ‘‘قادیانیت’’ حاشیہ صفحہ ۶۹)
آسمانی سہارے کی ہمیشہ ضرورت ہے
ڈاکٹر اقبال کا یہ فلسفہ اس خیال پر مبنی ہے کہ اب ذہنی ارتقاء چونکہ کمال کو پہنچ چکا ہے اس لئے نوعِ انسانی کو اب آسمانی سہارے یعنی وحی الٰہی کی کوئی ضرورت نہیں حالانکہ باوجود ارتقائے ذہنی کے دنیا کا ایک کثیر حصّہ خلافِ اسلام اشتراکیّت اور سوشلزم کا شکار ہو کر دہریہ بن چکا ہے اور خدا تعالیٰ کی ہستی کا ہی قائل نہیں رہا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں ایسے آسمانی سہارے کی از بس ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ کی وحی کے بیان کردہ آسمانی نشانوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر زندہ ایمان پیدا کرنے کا موجب ہو سکے اور یہ قومیںیا تو اس سے استفادہ کر کے خدا تعالیٰ کی ہستی کی قائل ہو کر اسلام میں داخل ہو جائیںیا اتمام حجت کے بعد خدا تعالیٰ عذاب سے انہیں ملیا میٹ کر دے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے زمانہ کی خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے یُھْلِکَ اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلِّھَا اِلَّا الْاِسْلَامَ(تفسیرابن جریر طبری سورۃ آل عمران آیت ۵۶) کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ تمام ملتوں کو بجز اسلام کے ہلاک کر دے اور مفسرین تسلیم کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا وعدہهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهٗ بِالْهُدَىٰ وَ دِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖمسیح اور مہدی کے زمانہ میں پورا ہوگا۔ پس قرآن و حدیث تو مسلمانوں کی توجہ کو آسمان کی طرف پھراتے ہیں اور مولویابو الحسن صاحب ڈاکٹر اقبال کی پیروی میں اُن کی توجہ زمین کی طرف پھرانا چاہتے ہیں
بہ بیں تفاوتراہ از کجا ست تا بکجا
واضح ہو کہ حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ نے مسیح موعود ہو کر جس نبوّت کا دعویٰ کیا ہے چونکہ وہ اُمّتینبوّت ہے اس لئے نہ یہنبوّت کوئی نئیاُمّت بناتی ہے اور نہ نبوّت محمدیہؐ کے خلاف کوئی سازش قرار پا سکتی ہے۔ کیونکہیہنبوّت تو نبوّت تشریعیہ محمدؐیہ کی تائید اور دین اسلام کی اشاعت کے لئے ہے جو خود بھیاُمّتی ہو دوسریاُمّت بنا ہی کیسے سکتا ہے؟
ختمنبوّت کے متعلق سر اقبال کا فلسفہ!
علّامہ سر اقبال کا یہ فلسفہ کہ ارتقائے ذہنی حاصل ہو جانے کی وجہ سے اب نوعِ انسانی خارجی سہارے سے بے نیاز کر دی گئی ہے گویایہ مفہوم رکھتا ہے کہ اب دنیا کو ایسی وحی کی بھی ضرورت نہیں جو المبشرات یعنی امور غیبیہ پر مشتمل ہو اور جو اپنے روشن نشانوں سے خدا تعالیٰ کی ہستی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت پر تازہ اور زندہ گواہ ہو اور اس طرح زندہ ایمان پیدا کرنے کا موجب ہو۔ اس فلسفہ کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ بچے کو شروع میں اٹھنے اور چلنے کے لئے خارجی سہارے یعنی ماں باپ کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب اس کے اندر خود اٹھنے اور چلنے کی قوت پیدا ہو جائے تو پھر اسے کسی خارجی سہارے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ اس وقت ایسے سہارے کو اپنے لئے باعثِ شرم محسوس کرے گا۔ اسی طرح نوعِ انسانی چونکہ اس زمانے میں کامل ارتقائے ذہنی حاصل کر چکی ہے اس لئے اب وہ وحی کے خارجی اور آسمانی سہارے سے بے نیاز ہو چکی ہے اب ایسے خارجی سہارے کی تلاش اس لئے باعثِ شرم ہے۔ اگر اس فلسفہ کو درست تسلیم کر لیا جائے تو ارتقائے ذہنی کے پیدا ہونے پر کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اب ہمیں قرآن مجید کے خارجی سہارا کی بھی ضرورت نہیں رہی، ہم خود ہی اپنی حیاتِ دنیوی کے لئے لائحۂ عمل بنائیں گے اور اس پر عمل کریں گے۔ پس یہ فلسفہ چونکہ انسان کو قرآن مجید کی تعلیم سے بھی بے نیازی کا سبق دیتا ہے اور اس طرح اس کے ڈانڈے الحاد سے جا ملتے ہیں لہذا ہم اسے کوئی فلسفہ قرار دینے کی بجائے محض ایک شاعرانہ خیال جاننے پر مجبور ہیں کیونکہ اسلامی تعلیم تا قیامتانسان کو قرآن مجید کے خارجی سہارے اور المبشراتوالی وحی کے آئندہ نزول سے بے نیاز قرار نہیں دیتی۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ ہی غنی ہے تم سب اللہ کے محتاج ہو۔ پس حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کا دعویٰ المبشراتوالی وحیپانے کا ہے جو آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی اور افاضۂ روحانیہ سے حاصل ہے۔ تا الحاد و دہریت اور غلط فلسفوں کو مٹایا جائے۔
حضرت مسیح موعود بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام خود تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘یہ خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ نبوّت تشریعی کا دروازہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بالکل مسدود ہے اور قرآن مجید کے بعد اور کوئی کتاب نہیں جو نئے احکام سکھائے یا قرآنِ شریف کا حکم منسوخ کرے یا اس کی پیروی معطل کرے بلکہ اس کا عمل قیامتتک ہے۔’’
(الوصیّت، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۳۱۱حاشیہ)
نیز تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘نبی کے الفاظ سے اس زمانہ کے لئے خدا تعالیٰ کی صرف یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شرف مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ حاصل کرے اور تجدید دین کے لئے مامور ہو۔ یہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری شریعت لاوے کیونکہ شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں جب تک اس کو اُمّتی بھی نہ کہا جائے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا ہے نہ کہ براہِ راست۔’’
(تجلّیاتِ الٰہیہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۱ حاشیہ)
نیز تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘لعنت ہے اُس شخص پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فیض سے علیحدہ ہو کر نبوّت کا دعویٰ کرے۔ مگر یہنبوّت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کینبوّت ہے نہ کوئی نئینبوّت اور اس کا مقصد بھییہی ہے کہ اسلام کی حقّانیت دنیا پر ظاہر کی جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی سچائی دکھلائی جائے۔’’
(چشمۂ معرفت،ر وحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ۴۴۱)
ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ مولوی ابو الحسن صاحب کا یہ الزام کہ ‘‘قادیانیتنبوّت محمدیہ کے خلاف ایک سازش ہے اور اسلام کی ابدیّت اور وحدت کو چیلنج ہے’’ سراسر نا درست اور غلط ہے۔ ختم نبوّت سے انکار تب لازم آتا ہے جب کوئی شخص نئی شریعت لانے کا مدعی ہو لیکن جس شخص کا یہ دعویٰ ہے کہ شریعتِ محمدؐیہ کو ابدیت حاصل ہے اسے ختم نبوّت کا منکر قرار دینا سراسر ظلم ہے خواہ اس ظلم کا ارتکاب مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کریںیا علّامہ اقبال۔ لَا رَیب سر اقبال کا یہ بیان سچا ہے کہ ‘‘ایران میں بہائیوں نے ختم نبوّت کے اصول کو صریحاً جھٹلایا۔’’
احمدیت اور بہائیت میں فرق
اس کی وجہ ہمارے نزدیکیہ ہے کہ بہائیوں نے قرآنِ مجید کو منسوخ قرار دے کر اس کی بجائے ایک جدید شریعتپیش کی ہے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے آپ کو خود مسلمانوں سے ایک الگ اُمّت قرار دیا ہے۔ لیکن جماعت احمدیہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان معنوں میں آخری نبی تسلیم کرتی ہے کہ آپ آخری شریعت تامّہ کاملہ مستقلّہ لانے والے نبی ہیں جس کا عمل قیامتتک رہے گا۔ اور قرآنِ مجید کے بعد تا قیامتکوئی نئی شریعت نازل نہیں ہو گی۔ پس بہائی قرآنِ مجید کو منسوخ قرار دے کر نئی شریعت کے قائل ہیں اور جماعت احمدیہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہعلیہ السلام کے اپنے بیانات کے مطابق آپ کو ایک خادمِ اسلام اور اُمّتی نبییقین کرتی ہے جو تجدید دین کے لئے مامور ہوا اور اس کی بعثت کی غرض دنیا پر اسلام کی حقّانیت ظاہر کرنا ہے نہ کوئی نئی شریعت لانا۔
ختمنبوّت کی تفسیر از امام علی القاریؒ
امام علی القاری علیہالرحمۃ جو فقہ حنفیہ کے ایک امام اور جلیل القدر محدّث ہیں خاتم النبیّین کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
اَلْمَعْنٰی اَنَّہُ لَا یَاْتِینَبِیٌّ بَعْدَہٗ یَنْسِخُ مِلَّتَہٗ وَ لَمْ یَکُنْ مِّنْ اُمَّتِہٖ
(موضوعاتِ کبیرباب اللَّام)
ترجمہ: خاتم النبیّین کے معنییہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کی ملّت(شریعت) کو منسوخ کرے اور آپ کیاُمّت میں سے نہ ہو۔
جماعت احمدیہ خاتم النبیّین کے ان لازمی معنی کو صحیح تسلیم کرتی ہے۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی ایسے نبی کے آنے کے قائل نہیں جو شریعتمحمدیہ کو منسوخ کرنے والا ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع نبی کے آنے میں امام علی القاری علیہالرحمۃکے نزدیک آیت خاتم النبیّین مانع نہیں۔ تابع اور اُمّتی نبی کو نئیاُمّت بنانے والا نبی قرار دینا مولوی ابو الحسن صاحب کی صریح زیادتی اور سراسر بے انصافی ہے۔ مولوی ابو الحسن صاحب اور علّامہ اقبال کا احمدیّت پر یہ غلط الزام ہے کہ احمدیہ تحریک سے اسلام کی وحدت کو کوئی خطرہ ہے۔
عجیب بات ہے کہ جماعت احمدیہ تو اپنے تئیں مسلمانوں میں اسلام کی عام اور عرفی تعریف کے لحاظ سے شامل سمجھتی ہے اور یہ دونوں فلاسفر اسے اپنے غلط فلسفہ کو پیش کر کے اسلام کی وحدت کے لئے خطرہ قرار دیتے ہیں حالانکہ اسلام کی اشاعت و ترویج ہی جماعت احمدیہ کی غرض و غایت ہے اور اس کی اغراض میںیہ بھی شامل ہے کہ مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع کر کے ان میں جو فرقہ بندی کا انتشار ہے اسے دور کیا جائے تا ان میں سچی وحدت پیدا ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے پہلے اگر اُمّت میں انتشار موجود نہ ہوتا اور اس کی وحدت بہتر فرقوں میں منقسم ہو کر پارہ پارہ نہ ہو چکی ہوتی تو البتہ کسی ایسےاُمّتی نبی کی بھی ضرورت نہ ہوتی۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے مامور ہونے سے پہلے اُمّت کی وحدت بالکل پارہ پارہ ہو چکی ہوئی تھی اور آپ کی بعثت سے اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ انہیں پھر ایک ہاتھ پر جمع کر کے ان میں وحدت پیدا کی جائے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اُمّت محمدؐیہ کے مسیح موعود کو اپنی احادیث میں‘‘حَکَم عَدَل’’ قرار دیا ہے۔ پس مسیح موعود علیہ السلام اُمّتینبوّت کے ساتھ صرف منصبِ حکمیت رکھتے ہیں نہ نئی شریعت لانے کا منصب۔ مسیح موعود علیہ السلام کینبوّت خدا تعالیٰ کی طرف سے اُمّتِمحمدؐیہ کے اختلافات کو مٹانے کے لئے اور ان میں حقیقی وحدت پیدا کرنے کی غرض سے قائم ہوئی ہے۔ لہذا اسے وحدت اسلامیہ قائم کرنے کا ذریعہ سمجھا جانا چاہیئے نہ کہ وحدتِ اسلام کے لئے کوئی خطرہ۔
بنی اسرائیل میں شریعت لانے والے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے اور خدا تعالیٰ نے اس وجہ سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیلِ موسیٰ قرار دیا ہے کہ آپؐ شریعت ِ جدیدہ لانے والے نبی ہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کے بعد صدہا انبیاء بنی اسرائیل میں بمنصب حَکمیّت مامور ہوئے جو شریعت موسوی کے تابع تھے۔ سورہٴ نور کی آیتوَعَدَ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ (النّور :۵۶)میں خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ ایمان لا کر اعمالِ صالحہ بجا لانے والوں کو خلافتِ محمدؐیہ کی نعمت سے متمتع کیا جائے گا اور وہ سب پہلے گزرے ہوئے خلفاء یعنی موسوی زمانہ کے انبیاء کے مثیل ہوں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد خلفائے راشدین اور مجددین اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہو سلم کے خلفاء ہیں اور حسبِ حدیثنبوی‘‘عُلَمَآءُاُمّتِیْ کَاَنْبِیَاءِ بَنِی اِسْرَآئِیْل’’ کہ میریاُمّت کے علمائے ربّانی بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوں گے مثیل انبیاءبنی اسرائیل بھی ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی اور افاضہٴ روحانیہ کے واسطہ سے انہیں علیٰقدرِ مراتب المبشرات والینبوّت کا حصہ ملنا ضروری تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چونکہ اسلام کی نشأة ثانیہ کی غرض سے اس نبوّت سے کامل حصہ ملنے کی ضروت تھی اس لئے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نبی اللہ کا نام بھی دیا اور اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ(صحیح بخاری)اور فَاَمَّکُمْ مِنْکُمْ(صحیح مسلم) فرما کر اُمّت میں سے اُمّت کا امام بھی قرار دیا۔ پس وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق نبی اللہ بھی ہے اور آپ کا اُمّتی بھی۔ اور اسے عیسیٰ کا نام مثیل عیسیٰ ہونے کی وجہ سے مجازاً اور استعارہ کے طور پر دیا گیا ہے۔ اور طَبرانی کی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نبی اور رسول بتانے کے ساتھ ہی اپنا خلیفہ بھیقرار دیا ہے۔ پس حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ کے دعاوی احادیث نبویہ کے مطابق ہیں۔ لہذا آپ کی تحریک مسلمانوں کی وحدت کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے ذریعہ خدا کے فضل سے وحدت ِاسلامی کا قیام ہو گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبعوث ہونے پر ایک فائدہ اُمّت محمدؐیہ کو دمِ نقد یہ پہنچا ہے کہ اب بہتر فرقوں کی بجائے دو فرقے رہ گئے ہیں۔ ایک وہ جماعت جو مسیح موعود کو ماننے والی ہے یا آپ کے کام کو سراہتی ہے۔ دوسرا وہ گروہ جو آپ کا معاند ہے لیکن خدا ئی وعدہ کے مطابق ایسا ضرور ہو کر رہے گا کہ سارے مسلمان بالآخر تحریکِ احمدیت کو قبول کر لیں گے
قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا
رسول کریم نے یہ فرمایا ہے:۔
یُھْلِکُ اللّٰہُ فِی زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّھَا اِلَّا الْاِسْلَامَ
(تفسیر ابن جریرطبری، سورۃ آل عمران آیت ۵۹)
کہ اللہ تعالیٰ مسیح کے زمانہ میں اسلام کے سوا تمام ملتوں کو ہلاک کر دے گا۔
حضرت بانیٔسلسلہ احمدیہ کے نزدیک اسلام کو غلبہ تین سو سال کے اندر آپؑ کی تحریک کے ذریعے ضرور حاصل ہو جائے گا اور انشاء اللہ اسلام کا جھنڈا سارے عالم میں سربلند ہو گا۔ چونکہ خیر القرون کی تین صدیاں سنّتِ نبویؐ کے مطابق مسیح موعودؑ کے بعد خیر و برکت کا زمانہ ہے اِس لئے جماعت احمدیہ کے نزدیک کوئی اور نبی تین سو سال کے عرصہ میں ظاہر نہیں ہو سکتا۔ اور نبی کی ضرورت اسی وقت پیش آسکتی ہے جب تین صدیاں گزرنے کے بعد اُمّت میں پھر ایسا بگاڑ پیدا ہو جائے کہ عند اللہ آنحضرتؐ کی قوتِ اِفَاضہ سے خدا تعالیٰ کے نزدیک پھر کسی اور نبی کا بھیجنا ضروری ہو۔ امکان کی حد تک تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب اُمّتی نبی کی آمد آیت خاتم النبیّین کے منافی اور خلاف نہیں تو پھر ضرورت پڑنے پر ہزاروں نبی آسکتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا،لیکن امکان اور ضرورت میں فرق ہے جو اہلِ علم سے مخفی نہیں۔ نبی کا بھیجا جانا ضروری اسی وقت ہوتا ہے جبکہ اس کے آنے کے لئے ضرورت ِحقّہ موجود ہو۔ ضرورت ِحقّہ کے بغیر اللہ تعالیٰ کوئی نبی نہیں بھیجتا۔ جب اور جہاں وہ ضرورتِ حقّہ پاتا رہا ہے نبی ضرور بھیجتا رہا ہے۔ چنانچہ نوح کے بعد پے در پے نبی آئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا (المؤمنون :۴۵)
کہ پھر ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے
اِسی طرح اُمّتِموسوی میں بھی صدہا انبیاء کا ظہور ہوا۔ پس مولوی محمد علی صاحب کا جو اقتباس مولوی ابو الحسن صاحب نے اس موقع پر ‘‘قادیانیت’’ کے صفحہ ۹۰،۹۱ پر درج کیاہے وہ ان کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ ہمارے نزدیک آئندہ دھڑا دھڑ نبی آئیں گے تو احمدیہ جماعت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے رہیںگے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:۔
‘‘یاد رکھو اگر اسلام کو کل ادیان پر غالب کرنے کا وعدہ سچا ہے تو یہ مصیبت کا دن اسلام پر کبھی نہیں آسکتا کہ ہزاروں نبی اپنی ٹولیاں علیحدہ علیحدہ لئے پھرتے ہوں۔’’
مولوی محمد علی صاحب کو بوجہ احمدی ہونے کے یہ معلوم ہونا چاہیئے تھا کہ مسیح موعودؑ نے سنّتِ نبوی کے مطابق غلبہٴ اسلام کے لئے اپنا زمانہ تین صدیاں بیان فرمایا ہے۔ لہذا اس عرصہ میں کوئی اور نبی ظاہر نہیں ہو سکتا یا ایسے نبی نہیں آسکتے ہیں جو اپنی اپنی ٹولیاں الگ الگ لے کر احمدیّت کو جو وحدتِ اسلام اور غلبۂ اسلام کے لئے وجود میں آئی ہے پارہ پارہ کر سکیں۔ پس تین سو سال کے عرصہ میں کوئی سچا نبی مسیح موعود ؑ کے بعد ظاہر نہیں ہو سکتا۔ اور اگر کوئی دماغی خرابی کی وجہ سے دعویٰ کرے تو اس کا دعویٰ قابل اعتناء نہیں ہو گا اور وہ ناکام و نامراد رہے گا۔ اور اگر افتراء علی اللہ کر کے دعویٰ کرے تو وہ ناکام بھی رہے گا اور اس کی قطعِ وتین بھی ہو گی حسب آیت کریمہ:۔
لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ
(الحاقہ:۴۶، ۴۷)
سر اقبال تو اب زندہ نہیں لیکن اُن کو اپنی تائید میں پیش کرنے والے مولوی ابوالحسن صاحب بقید حیات ہیں وہ دیکھ لیں کہ سر اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی حالتِ زار اُن کے زمانہ میںیہ تھی جس کو دیکھ کر خود اُن کے دل میںیہ تڑپ پیدا ہو رہی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر تشریف لاویں۔ وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘ کاش کہ مولانا نظامی کی دعا اس زمانہ میں مقبول ہو اور رسول اللہؐ پھر تشریف لائیں اور ہندی مسلمانوں پر اپنا دین بے نقاب کریں۔’’
(مکاتیبِ اقبال حصہ اول صفحہ ۴۱، مکتوب۱۹ـجون ۱۹۱۶ء)
پھر سر اقبال اپنے محوّلہ بیانات کو جنہیں مولوی ابو الحسن صاحب نے پیش کیا ہے حرفِ آخر نہیں جانتے۔ کیونکہ وہ صاف لکھتے ہیں:۔
‘‘بانیٴ تحریک کا دعویٰ سلسلہٴ بروز پر مبنی ہے۔ مسئلۂ مذکور کی تحقیق تاریخی لحاظ سے از بس ضروری ہے۔’’
(مکاتیبِ اقبال حصّہ اوّل صفحہ ۴۱۹ مکتوب بنام پروفیسر الیاس برنی مورخہ ۲۷ـمئی۱۹۳۷ء)
پھر سر اقبال ملّتِ اسلامیہ کے نام اپنے پیغام کے صفحہ ۲۲،۲۳ پر لکھتے ہیں:۔
‘‘جہاں تک میں نے اس تحریک کے منشاء کو سمجھا ہے احمدیوں کا یہ اعتقاد کہ مسیح کی موت ایک عام فانی انسان کی موت تھی اور رجعتِ مسیح گویا ایسے شخص کی آمد ہے جو روحانی حیثیت سے اس کا مشابہ ہے اس خیال سے اس تحریک پر ایک طرح کا عقلی رنگ چڑھ جاتا ہے۔’’
سر اقبال نے احمدیّت کے خلاف جو مضمون لکھا ہے وہ ان کی سیاسی مجبوریوں کی بناء پر ہے۔ اپنے اس خط میں انہوں نے اُمّت کو اس غلط راہ پر ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ان معنوں میں آخری نبی ہیں کہ آپ کے بعد آئندہ کوئی بھیاُمّتی نبی نہیں ہو سکتا۔ نہ عیسیٰؑ کا مثیل اور نہ کوئی اور۔ انہوں نے ختم نبوّت کو اپنے ان جدید معنوں کے لحاظ سے احمدیت کے خلاف سیاسی حربہ کے طور پر استعمال کرنا چاہا ہے۔
سر اقبال کا یہ مضمون جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے حرفِ آخر نہیں۔ یہ۱۹۳۵ء کی تصنیف ہے لیکن وہ ۱۹۳۷ء میںبانیٔ سلسلہ احمدیہ کے دعویٰ کے بروز کے سلسلہ پر مبنی ہونے کی وجہ سے تاریخی لحاظ سے اس کی تحقیق کو ضروری قرار دیتے ہیں۔
آپیہ بھی معلوم کر چکے ہیں کہ سر اقبال احمدیوں کی طرح وفاتِ مسیح کے قائل تھے اور احمدیّت کے اس عقیدہ کو کہ مسیح کی رجعت سے مراد ایسے شخص کی آمد ہے جو روحانی حیثیت سے اُس کا مشابہ ہے معقولیّت کا رنگ رکھنے والا قرار دے چکے ہیں۔
۱۳ـفروری۱۹۳۵ء کے اخبار مجاہد لاہور میں ان کا ایک بیان احمدیوں کے عقیدہ کے متعلق شائع ہوا تھا جس میں لکھا ہے:۔
‘‘یہ عقیدہ کہ حضرت عیسیٰؑ ایک فانی انسان کی مانند جامِ مرگ نوش فرما چکے ہیں نیزیہ کہ اُن کے دوبارہ ظہور کا مقصد یہ ہے کہ روحانی اعتبار سے ان کا ایک مثیل پیدا ہو گا کسی حد تک معقولیت کا پہلو لئے ہوئے ہے۔’’
پھر ختم نبوّت پر سراقبال نے جو مضمون سیاسی مجبوریوں کے ماتحت لکھا اس پر مسلمانوں کے سمجھدار اصحاب نے تنقید بھی کی ہے چنانچہ اخبار سیاست میں سیّد حبیب صاحب نے اُن کے بیان پر ناقدانہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:۔
‘‘علامہ اقبال احرار کی موجودہ فتنہ پروری کی آج حمایت کر رہے ہیں لیکن جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں مرزائیت کم و بیش تیس سال سے موجود ہے۔ اس طویل عرصہ میں
ہر کہ رمز مصطفٰے فہمیدہ است
شرک رادر خوفِ مضمر دیدہ است
کا نعرہ لگانے والے علّامہ اقبال کا طرزِ عمل وہی رہا ہے جس کی تائید و حمایت کی وجہ سے آج میرے ایسے مسلمان موردِ طعن ہو رہے ہیں… علامہ اقبال کی شخصیت، علمیت، ہردلعزیزی، شرافت، نجابت، قابلیت اور بلند اخلاق و شہرت کا حامل اگر وہ بات کہے جو ملّت کے لئے برباد کن ہو تو یقینا ہمیں حق حاصل ہوتا ہے کہ ہم ملّت کے مستقبل کا ماتم کریں اور نوحہ کریں کہ جن سے امیدِ ہدایت تھی وہی ملّت کو گمراہ کر کے تباہی و بربادی کی طرف لے جارہے ہیں۔
یہ حقیقت کہ تیس سال کی طویل میعاد تک علّامہ اقبال کا مسلک مرزائیوں کے متعلق وہی رہا جو آج ہم نے اختیار کر رکھا ہے ناقابلِ انکار ہے۔ علّامہ صاحب نے آج سے پہلے کبھییہ اعلان نہیں کیا کہ مرزائی ختم نبوّت کے دشمن ہیں۔ لہذا یا معاشر المسلمین! تم ان سے آگاہ رہو۔ بلکہ اس کے برعکس سیاسی، علمی، تمدنی اور معاشرتی مجالس میں ان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر یعقوب بیگ اور علّامہ اقبال یکساں بطور مسلمان انجمن حمایتِ اسلام کے رکن رہے اور علّامہ نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا……مسلم لیگ و مسلم کانفرنس میں چودھری ظفر اللہ خان اور علّامہ اقبال یکساں بطور مسلمان ممبر بنے رہے۔ علّامہ صاحب نے نہ صرف کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ معترضین کی تائید بھی نہیں کی اور خود چودھری صاحب کے ماتحت لیگ کے ممبر بنے رہے۔ علّامہ ممدوح لیگ اور کانفرنس کے صدر رہے لیکن آپ نے کبھی اس بات پر اعتراض نہیں کیا کہ ان مجالس میں قادیانی بھی بطور مسلمان شامل ہوئے ہیں۔ قادیان سے ان جماعتوں کو علّامہ صاحب کی صدارت میں مالی امداد ملی مگر علّامہ صاحب نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ پنجاب کونسل میں چودھری ظفر اللہ خان اور علّامہ اقبال دونوں مسلمانوں کے نمائندوں کی حیثیت سے پہلو بہ پہلو کام کرتے رہے۔ اور سائمن کمیٹی کے لئے جب چودھری صاحب کو بطور مسلمان ممبر منتخب کیا گیا تو علّامہ صاحب نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور انتہاء یہ ہے کہ جب حکومت نے گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی کانفرنس کی نیابت کے لئے علّامہ اقبال اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو بحیثیت مسلمان چنا تو نہ صرف علّامہ اقبال نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ وہ لنڈن میں چودھری صاحب کے دوش بدوش کام کرتے رہے… لیکن شاید کہا جائے کہ گزشتہ را صلوات آئندہ را احتیاط جو کچھ ہوا وہ غلط تھا آئندہ علّامہ صاحب ایسا نہ کریں گے۔ اول تو ممدوح کی حیثیت کے بلند فرد کے متعلق یہ عذر ہرگز عذرِ معقول نہیں کہلا سکتا تاہم اگر بہ فرضِ دلیل اس کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو علّامہ اقبال کے پاس اس کا کیا جواب ہے کہ حال ہی میں لنڈن میں جوبلی کے موقع پر جو جماعت اس غرض سے قائم ہوئی ہے کہ برطانیہ اور دنیائے اسلام کے تعلقات بہتر ہونے چاہئیں اس میں علامہ اقبال اور چودھری ظفر اللہ خان دونوں بطور مسلمان شامل ہیں۔ یہ لیگ کی خبر رائٹر نے دس مئی کو دی اور گیارہ مئی کے اخبارات میں شائع ہوئی۔ اس کے ممبر یا برطانیہ کے لارڈ ہو سکتے ہیںیا مسلمان۔ کوئی غیر مسلم غیر انگریز اس کا رکن نہیں ہو سکتا۔’’
(اخبار سیاست ۱۹۳۵ء بحوالہ الفضل )
اس مضمون سے پہلے اداریہ میں سید حبیب لکھتے ہیں:۔
‘‘علّامہ اقبال نے اس بیان میں احرار کی موجودہ شرارت کے جواز کی دلیلیہ پیش کی ہے کہ ختم نبوّت کے انکار کی وجہ سے مسلمانوں میں جو اختلاف پیدا ہوا ہے ہر پہلے اختلاف سے بدتر ہے۔ اگرچہ شیعہ اور سُنّی، حنفی اور وہابی اور دوسرے ایسے جھگڑوں کے متعلق ڈاکٹر صاحب کی رائے سے مجھے اختلاف ہے اور میں آپ سے عرض کرسکتا ہوں کہ شیعہ اور سُنّی اور حنفی اور وہابی اُسی طرح یکجا نماز نہیں پڑھتے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقاتِ ازدواج قائم نہیں کر تے جیسے احمدی اور غیر احمدی۔ تاہم اس دلیل کو ترک کر کے میں علامہ ممدوح سے استصواب کرنے کی جرأت کرتا ہوں کہ کیوں چودھری ظفر اللہ خان کے تقرر کے بعد ان کی محبت ختم رسل (فِدَاہُ اَبِیْ وَ اُمِّیْ) میں جوش آیا اور کیوں اس سے پہلے وہ اس میدان میں نہ اترے حالانکہ اس فتنہ کی عمر کشمیر کمیٹی اور چودھری صاحب کے تقرر سے کوئی تیس سال کے قریب زیادہ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ چودھری صاحب کے رکن پنجاب کونسل منتخب ہونے کے وقت یا ان کے سائمن کمیٹی کا ممبر منتخب ہونے یا ان کے اوّل مرتبہ سر فضل حسین کی جگہ مقرر ہونے پر یا مرزائیوں کی متعدد دیگر تحریکات کے زمانہ میں آپ نے اس گروہ کے خلافِ علم جہاد بلند نہ کیا۔’’
روزنامہ حق لکھنوٴ نے ۲۷ـجون ۱۹۳۵ء کے لیڈنگ آرٹیکل میں لکھا:۔
‘‘ہم کو ڈاکٹر سر محمد اقبال سے اِس حد تک پورا پورا اتفاق ہے کہ احمدیوں اور عام مسلمانوں میں اعتقادات کا بہت بڑا اختلاف ہے اور اگر اِس اختلاف کو شدّت پسندی کی نظر سے دیکھا جائے تو بعض صورتوں میں مذہبی اعتبار سے احمدی جماعت اور عام مسلمانوں کے درمیان اتحادِ عمل ناممکن سا نظر آتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ احمدیوں کو قطع نظرکر کے کیا اسی قسم کے اختلاف اہل سنّت اور اہل تشیّع میں کارفرما نہیں ہیں۔ کیا یہی تضاد اہل سُنّت کی مختلف العقیدہ جماعتوں میں نہیں ہے؟ وہابی اور حنفی، بریلوی اور دیوبندی اسی طرح مختلف اسکول ہر جماعت میں موجود نہیں ہیں؟ ان میں کی ہر شاخ دوسری شاخ کو اپنے نقطہٴ نظر سے مرتد اور کافر گردانتی ہے اور بطور مدبّرینِ فرنگ کے یہ تو مسلمانوں کا ایک عام مشغلہ ہے کہ اُن میں کاہر فرد دوسرے کو نہایتآسانی سے کافر کہہ دیتا ہے۔ خیریہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کون مومن ہے اور کون کافر لیکن اس تمام اختلاف کو دیکھتے ہوئے سب سے زیادہ محفوظ صورت یہ ہے کہ ہم ہر کلمہ گو کو مسلمان سمجھیں جو خدا کو ایک اور محمد رسول اللہ کو اس کا محبوب اور رسول سمجھتا ہو۔ اگر مسلمان کی تعریف صرف یہی تسلیم کر لی جائے تو جس طرح ایک حنفی کو، ایک وہابی کو، ایک مقلّد کو، ایک غیر مقلّد کو، ایک دیوبندی کو، ایک بریلوی کو مسلمان کہا جا سکتا ہے اسی طرح احمدیوں کو بھی دائرۂاسلام سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اور کسی کو غیر مسلم کہنے کا ہم کو حق ہی کیا ہے جب وہ خود اس پر مُصِر ہو کہ ہم مسلمان ہیں۔ اگر ہم اُس کو مسلمان نہ بھی سمجھیں تو ہمارے اس نہ سمجھنے سے کیاہو سکتا ہے اُس کا عمل خود اُس کے قول سے تسلیم کیا جائے گا۔’’
سر اقبال کا ایک سوال
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے نبوّتِ مسیح موعود کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیغمبر خیز قوت کا ثبوت ہونے کی تردید میں سر اقبال کا ایک سوال ذیل کی عبارت میں درج کیا ہے:۔
‘‘خود بانیٴ احمدیت کا استدلال جو قرونِ وسطیٰ کے متکلمین کے لئے زیبا ہو سکتا ہے یہ ہے کہ اگر کوئی دوسرا نبی نہ پیدا ہو سکے تو پیغمبرِ اسلام کی روحانیت نا مکمل رہ جائے گی۔ وہ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کہ پیغمبرِ اسلام کی روحانیت میں پیغمبر خیز قوت تھی خود اپنینبوّت کو پیش کرتا ہے لیکن آپ اس سے دریافت کریں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کیروحانیت ایک سے زیادہ نبی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہ خیال اس بات کے مترادف ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی نہیں۔ میں آخری نبی ہوں۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۸۶)
الجواب۔مندرجہ بالا اقتباس کا منطقی تجزیہ کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ علّامہ اقبال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پیغمبر خیز قوت پایا جانے کے منکر ہیں اور انکار کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اگر بانیٔ احمدیت کینبوّت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیغمبر خیز قوت کا ثبوت تسلیم کیا جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم میں اور نبی پیدا کرنے کی صلاحیت سے انکار کیا جائے تو بانیٔ احمدیت آخری نبی قرار پاتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی نہیں رہتے۔
مگر میں کہتا ہوں اقبال صاحب نے غورنہیں فرمایا کہ اگر ایک سے زیادہ نبی پیدا کرنے کی صلاحیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں تسلیم بھی کر لی جائے تو پھر بھی جو نبی اس صلاحیت سے سب سے آخر میں پیدا ہو گا اس پر بھی تو یہ اعتراض وارد ہو گا کہ وہ آخری نبی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مطلق آخری نبی نہیں رہتے۔
اصل حقیقتیہ ہے کہ خاتم النبیّین کے معنی محض آخری نبی نہیں بلکہ اس کے معنی جامع کمالاتِ انبیاء کے لئے مؤثر وجود کے ہیں اور لزوماً اس کے معنی آخری تشریعی نبی، شریعت کاملہ اور مستقلہ لانے والے کے ہیں نہ کہ مطلق آخری نبی کے۔ واضح ہو کہ بانیٔ احمدیت کی دلیل کا پہلا مقدمہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم میںنبوّت خیز قوت موجود ہے کیونکہ آپؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم النبیّین بمعنیبنی تراش قرار دیا ہے۔
(حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد۲۲، صفحہ۱۰۰حاشیہ)
ہمارے نزدیکبانیٔ سلسلہ احمدیہ کے استدلال کا یہ مقدمہ بالکل صحیح ہے اور علّامہ اقبال کا اس مقدمہ کو تسلیم نہ کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمتِ شان کے منافی ہے اور آپ کی صریح تنقیص ہے کیونکہ ایک اعلیٰ قوت کے ہونے کے مقابلہ میں اس قوت کی نفی تنقیصِ شان کا باعث ہو گی نہ کہ عظمتِ شان کا۔
علّامہ اقبال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں اس قوت کی نفی ظاہر کرنے کے لئے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ اگر یہ قوت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم میں موجود ہے تو پھر ایک ہی نبی کیوں پیدا ہوا جو خود بانیٔ احمدیت ہیں۔ ہم علّامہ صاحب کے اس مقدمہ کو درست نہیں مانتے جس پر موصوف نے اپنے استدلال کی عمارتکھڑی کی ہے۔ کیونکہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا عقیدہیہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کا مرکزی نقطہ ہیں اور مرکز سے محیط تک جتنے خطوط بھی ہیں ان میں جس قدرانبیاء و اولیاء پائے گئے اور پائے جاتے ہیں۔ ان سب کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود بطور علّتِ غائی مؤثر ہے۔ چنانچہ آپؑ سُرمہ چشم آریہ میں تحریر فرماتے ہیں:
‘‘بجز ایک نقطہ مرکز کے ( جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے۔ ناقل) اور جس قدر نقاطِ وتر ہیں ان میں دوسرے انبیاء و رُسل و اربابِ صدق و صفا بھی شریک ہیں اور نقطہٴ مرکز اُس کمال کی صورت ہےکہ جو صاحبِ وتر کو بہ نسبت جمیع دوسرے کمالات کے اعلیٰ و ارفع و اخص و ممتاز طور پر حاصل ہے جس میں حقیقی طور پر مخلوق میں سے کوئی اس کا شریک نہیں ہاں اِتّباع و پیروی سے ظِلّی طور پر شریک ہو سکتا ہے۔ اب جاننا چاہیئے کہ دراصل اسی نقطۂ وسطیٰ کا نام حقیقتِ محمدیہ ہے جو اجمالی طور پر جمیع حقائقِ عالم کا منبع واصل ہے اور درحقیقت اسی ایک نقطہ سے خطِ وتر انبساط و امتداد پذیر ہوا ہےاور اسی نقطہ کی روحانیت تمام خطِ وتر میں ایک ہویّتِ ساریہ ہے جس کا فیض اقدس اس سارے خط کو تعیّن بخش ہو گیا ہے…… غرض سر چشمہرموز غیبی و مفتاحکُنوزِ لَارَیْبِی اور انسانِ کامل دکھلانے کا آئینہیہی نقطہ ہے اور تمام اسرارمبدء و معاد کی علّتِ غائی اور ہریک زیر و بالا کی پیدائش کیلمّیتیہی ہے۔ جس کے تصوّر بِالکُنَہ اور تصور بَکُنَہ سے تمام عقول و افہام بشریہ عاجز ہیں۔ اور جس طرح ہر ایک حیات خدا تعالیٰ کی حیات سے مستفاض اور ہر ایک وجود اس کے وجود سے ظہور پذیر اور ہریک تعیّن اُس تعیّن سے خلعت پوش ہے۔ ایسا ہی نُقطہ محمدیہ جمیع مراتب اَکوان اورخَطائرِ اِمکان میں باذنہ تعالیٰ حسبِ استعداداتِ مختلفہ و طبائع متفاوتہ مؤثر ہے۔’’
(سرمہ چشم آریہ ، روحانی خزائن جلد۲ صفحہ ۲۶۷ تا ۲۷۱حاشیہ)
اس عبارت سے لاعلمی کی بناء پر علّامہ اقبال نے یہ خیال کر لیا کہ بانیٔ احمدیت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیغمبر خیز قوت کے ثبوت میں صرف اپنا ہی وجود پیش کرتے ہیں اور وہ اس امر سے ناواقف رہے کہ بانیٔ احمدیت تو آدم علیہ السلام سے لے کر قیامتتک کے لئے تمام انبیاء و اولیاء کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نقطہٴ نفسی کو بطور علّتِ غائی کے مؤثر قرار دیتے ہیں۔ پس الٰہی سکیم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت سے خاتم النبیّین ہیں جبکہ ابھی آدمؑ کا خمیر اٹھ رہا تھا۔ کیونکہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
اِنِّی عِنْدَ اللّٰہِفِیْ اُمِّ الْکِتَابِخَاتَمُالنَبِیِّیْن وَاِنَّ آدَمَلَمُنْجَدِلٌ فِیْ طِیْنَتِہٖ۔
(کنز العمال جلد ۱۱ حدیث نمبر ۳۲۱۱۴ شائع کردہ منشورات مکتبہ التراث الاسلامی۔ حلب، مطبعۃ الثقافۃ، الطبعۃ الاولیٰ ۱۹۷۴ء)
یعنی میں اس وقت بھی اللہ کے حضور خاتم النبیّین تھا جبکہ آدم ابھی گیلی مٹی میں لت پت تھا۔
لہذا آپ کا خاتم النبیّین ہونا بطور علّتِ غائی کے تمام انبیاء کے ظہور میں مؤثر رہا ہے خواہ وہ انبیاء تشریعی تھے یا غیر تشریعی۔
پس علّامہ اقبال کا یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیغمبر خیز قوت میں بانیٔ احمدیت نے صرف اپنے وجود کو ہی پیش کیاہے۔ بلکہ اصل حقیقتیہ ہے کہ بانیٔ احمدیت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوّت کو تمام انبیاء کے ظہور میں مؤثر قرار دیاہے۔آیت خاتم النبیّین کا سیاق بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ایسی ہی شان کا مظہر ہے۔ کیونکہ اس سیاق کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ابوالانبیاء کے مفہوم میں خاتم النبیّین قرار دیا گیا ہے۔ تفصیل اِس اِجمال کییوں ہے کہ آیت کے پہلے حصّے میںمَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ (الأحزاب:۴۱)میںیہ بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں گویا آپؐکی اَبُوّتِ جسمانی کی بالغ نرینہ اولاد کی رو سے نفی کی گئی ہے اور اس کے بعد مثبت جملوں وَلَٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ سے آپؐ کی روحانی اَبُوّت کا اس طرح اثبات کیا ہے کہ رسول ہونے کے لحاظ سے آپؐ کو اُمّت کا باپ اور خاتم النبیّین ہونے کے لحاظ سے انبیاء کا باپ قرار دیا گیا ہے۔ یہی تفسیر اس آیت کی مولوی محمد قاسم نانوتوی بانیٔ دارالعلوم دیوبند نے اپنی کتاب تحذیر الناس میں کی ہے۔ پس علّامہ اقبال کی دلیل کا مقدمہ باطل ہوا۔ اور ثابت ہو گیا کہ خاتم النبیّین کی تاثیر قدسیہ کے ثبوت میں بانیٔ احمدیت نے صرف اپنا وجود ہی پیش نہیں کیا بلکہ تمام انبیاء کو پیش کیا ہے۔
علّامہ اقبال کا یہ خیال کہ بانیٔ احمدیت کے بعد اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فیض سے کوئی نبی پیدا نہ ہو تو بانیٔ احمدیت آخری نبی بن جاتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی نہیں رہتے…… اس نتیجہ کے پیدا کرنے میں بھی علّامہ اقبال ایک غلط فہمی میں مبتلا تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے تابع آخری غیر تشریعیاُمّتی نبی کا وجود خواہ وہ کوئی بھی ہو ہرگز حقیقی خاتم النبیّین قرار نہیں پاتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبیّین محض آخری نبی کے معنوں میں نہیں۔ کیونکہ آخریّت خاتم النبیّین کے حقیقی معنی کو جو نبیوں کے لئے مؤثر وجود ہونے کے معنی میں اس مفہوم میں لازم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آخری شریعت تامہ کاملہ مستقلہ لانے والے نبی ہیں جس کا عمل قیامتتک رہے گا۔ ان معنوں میں نہ بانیٔ احمدیت آخری نبی ہو سکتے ہیں اور نہ تا قیامتکوئی اورشخص۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم آخری نبی اپنی تمام حیثیتِ حاصلہ کے ساتھ ہیں نہ کہ اس حیثیت حاصلہ نظر انداز کر کے صرف آخری نبی۔ پس کسی نبی کا صرف آخریاُمّتی نبی ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنی حیثیت حاصلہ کے ساتھ آخری نبی ہونے کی صفت کو نہیں چھینتا بلکہ اس کا آخریاُمّتی نبی ہونا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے فیضان اور آپؐ کے آخری شارع نبی ہونے کو ثابت کرتا ہے۔
پس علّامہ اقبال کا یہ سوال احمدیہ لٹریچر سے ناواقفی کا نتیجہ ہے اور مولوی ابو الحسن صاحب بھی ان کی تقلید میں ناواقفی سے غلط فہمی کا شکار ہیں۔
مولوی ابو الحسن صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۸۶ کے فٹ نوٹ میں سیاقِ عبارت سے علیحدہ کر کے حضرت بانیٔ احمدیت علیہ السلام کی ایک عبارت خطبہ الہامیہ سے مع ترجمہ بزعم خود علّامہ اقبال کی تائید میں پیش کی ہے۔ وہ عبارت مع ترجمہ از خطبہ الہامیہیہ ہے۔
‘‘فَکَانَ خَالِیًا مَوْضِعُ لَبِنَةٍ اَعْنِی المُنْعَمُ عَلَیْہِ مِنْ ھٰذِہِ العِمَارةِ فَاَرَادَ اللّٰہُ اَنْ یُّتِمَّ النَّبَأَ وَ یُکْمِلَ البِنَاءَ بِاللَّبِنَةِ الْاَخِیْرَةِ فَأَنَا تِلْکَ اللَّبِنَۃُاَیُّھَا النَّاظِرُوْنَ۔’’
(خطبہ الہامیہ روحانی خزائن، جلد ۱۶ صفحہ ۱۷۷، ۱۷۸)
ترجمہ۔اور اس عمارت میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی۔یعنی منعم علیھم کی پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیشگوئی کو پورا کرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بناء کو کمال تک پہنچاوے۔ پس میں وہی اینٹ ہوں۔
اِس عبارت سے ظاہر ہے کہ اس کے سیاق میں آپؑ کسی پیشگوئی کا ذکر کر رہے ہیں جس کا تعلق مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ کے اس زمانہ میں ظہور سے تھا۔ اور پھر اپنے ذریعہ اس پیشگوئی کی عمارت کی تکمیل بطور آخری اینٹ کے قرار دے رہے ہیں۔ اس سے پہلی عبارت کا جب مطالعہ کیا جائے تو اس سے ظاہر ہے کہ اس جگہ آپؑ نےاِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّآلِّينَکی دعا سے جو سورہٴ فاتحہ میں مذکور ہے ایک پیشگوئی کا استنباط فرمایا ہے جس کا یہ مفہوم ہے کہ اس میں آخری زمانہ میں مُنْعَمْ عَلَیْھِمْاور اَلْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ اور اَلضَّالِیْن کی خبر دی گئی تھی۔ پھر بتایا ہے کہ مسلمانوں میں جب مغضوب علیھم اور الضالین کے دونوں گروہ پیدا ہو چکے تو اب میرے ذریعہمنعم علیھم کا گروہ بھی ظاہر ہو گیا ہے اور میں اس خبر کے پورا ہونے پر اس کی عمارت کی تکمیل کے لئے بمنزلہ آخری اینٹ کے ہوں۔ یعنی اب میرے ظہور سے یہ پیشگوئی علی وجہ الکمال پوری ہو گئی ہے۔ اس عبارت کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ میں اس اُمّت میں آخریاُمّتی نبی ہوں اور میرے بعد کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہو سلم کی ظلّیت میں مقامِ نبوّت نہیں پا سکتا۔ چنانچہ خطبہ الہامیہ کے بعد کی کتاب لیکچر سیالکوٹ میںاِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی تفسیر میں ہی تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘لہٰذا ضرور ہوا کہ تمہیںیقین اور محبت کے مرتبہ پر پہنچانے کے لئے خدا کے انبیاء وقتاً بعد وقتٍ آتے رہیں جن سے تم وہ نعمتیں پاوٴ۔’’
(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۲۲۷)
نیز اشتہار ایک غلطی کا ازالہ میں اپنے تئیں محمد اور احمد کے نام سے متّصف ہو کر آیت اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ کا بطور بروز مصداق قرار دیتے ہیں اور تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘یہ ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنینبوّت کا بھی اظہار کریں۔’’
( ایک غلطی کا ازالہ،روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ۲۱۵)
ان عبارتوں سے ظاہر ہے کہ آپ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد وقتاً فوقتاً بروزی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی ظل مقام نبوّت پا سکتا ہے۔ لہذا آپ ان معنوں میں اپنے آپ کو کبھی آخری نبی قرار نہیں دے سکتے جس کے بعد کسی بروزی اور ظِلّی نبی کا امکان نہ ہو۔ پس خطبہالہامیہ صفحہ ۱۱۲ پر اپنے تئیں آخری اینٹ ان معنوں میں قرار دے رہے ہیں کہ آپ منعم علیہم گروہ کا اس زمانہ میں اکمل فرد ہیں۔ چنانچہ مولوی ابو الحسن صاحب کی طرف سے پیش کردہ عبارت سے دو سطر بعد آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
اِنِّیْ جُعِلْتُ فَرْدًا اَکْمَلُ مِنَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ فِیْ اٰخِرِ الزَّمَانِ وَلَافَخْرَ وَ لَا رِیَاءَ وَاللّٰہُ فَعَلَ کَیْفَ اَرَادَ وَ شَاءَ
(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۱۷۸)
مَیں اس آخری زمانہ میں منعم علیہم گروہ کا فرد اکمل بنا دیا گیا ہوں اور اس بیان میں کوئی فخر اور نمائش نہیں۔ اللہ نے جیسا چاہا کر دیا۔
پس منعم علیہم کی آخری اینٹ سے مراد خطبہ الہامیہ کی عبارت میں منعم علیہم کا اکمل فرد ہے۔ اسی طرح خطبہ الہامیہ میں آپ نے لکھا ہے:
‘‘اَنَا خَاتَمُ الْاَوْلِیَاءِ لَا وَلِیَّ بَعْدِیْ اِلَّا الَّذِیْ ھُوَ مِنِّیْ
وَ عَلٰی عَھْدِیْ۔ ’’
(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۷۰)
کہ میں خاتم الاولیاء ہوں۔ میرے بعد کوئی ولی نہیں سوائے اس کے جو مجھ سے ہو اور میرے عہد پر ہو۔
پس آپ نے اپنے تئیںاُمّت محمدیہ میں خاتم الخلفاء اور سلسلہ محمدیہ کا آخری خلیفہ بھی قرار دیا ہے مگر ان معنوں میں نہیں کہ خلافت منقطع ہو گئی ہے بلکہ یہ معنی مراد ہیں کہ اب آئندہ خلافت کے لئے آپ واسطہ ہوں گے۔ چنانچہ آپؑ لیکچر سیالکوٹ میں فرماتے ہیں:۔
‘‘چونکہیہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سر پر پیدا ہو۔ اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظل کے ہو۔’’
(لیکچر سیالکوٹ ، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۲۰۸)
مولوی محمد علی صاحب پریذیڈنٹ احمدیہ انجمن اشاعتِ اسلام لاہور نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ایک بیان کو جس میں ہزاروں انبیاء کے امکان کا ذکر ہے قابل اعتراض قرار دیاتھا۔
مولوی ابو الحسن صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کے اس بیان پر کہ
‘‘اگر اسلام کو کُل ادیان پر غالب کرنے کا وعدہ سچا ہے تو یہ مصیبت کا دن اسلام پر کبھی نہیں آسکتا کہ ہزاروں نبی اپنی اپنی ٹولیاں علیحدہ علیحدہ لئے پھرتے ہوں۔’’
حاشیہ میں اپنے ایک نوٹ میں مولوی محمد علی صاحب پر چوٹ کرتے ہوئے لکھا ہے:۔
‘‘میاں صاحب (یعنی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ۔ناقل) اس عقیدہ کے مصنّف یا موجد نہیں۔ انہوں نے تو صرف مرزا صاحب کی ترجمانی کی ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۹۰)
اِس حاشیہ سے ظاہر ہے کہ مولوی ابو الحسن صاحب یہ جانتے ہیں کہ حضرت بانیٔ احمدیت علیہ السلام نے اپنے بعد بھی انبیاء کے آنے کو ممکن قرار دیا ہے۔ لہذا مولوی ابوالحسن صاحب نے اپنے پچھلے بیان میں جو‘‘آخری اینٹ’’ کے الفاظ علّامہ اقبال کے اِس امر کی تائید میں پیش کئے ہیں کہ بانیٔ احمدیت اپنے بعد کسی اور نبی کا امکان نہیں مانتے اوراپنے آپ کو آخری نبی جانتے ہیں۔ اس کی تردید تو مولوی ابو الحسن صاحب کے اس حاشیہ سے ہی ہو جاتی ہے۔ اور اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ جان بوجھ کر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے خلاف یہ غلط الزام دے رہے تھے کہ آپ اپنے آپ کو آخری نبی جانتے ہیں اور اپنے بعد کسی نبی کے آنے کی نفی کرتے ہیں۔
افسوس ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کو اُمّتی انبیاء کا امکان تسلیم کرنے پر تو الگ الگ ٹولیاں بن جانے کے خیال سے اعتراض ہے لیکن خود انہوں نے غیر نبی ہوتے ہوئے خلافتِ احمدیہ کا انکار کر کے ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد اور اپنی الگ ٹولی بنانے سے احتراز نہیں کیا۔
حضرت مسیح موعودؑ کا ایک اقتباس
مولوی ابو الحسن صاحب اپنی کتاب کے صفحہ ۱۹۲ پر براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ۱۸۳ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذیل کا اقتباس ایک غلط مفروضہ کے عنوان کے تحت درج کرتے ہیں کہ:۔
‘‘ایسا نبی کیا عزّت اور کیا مرتبت اور کیا تاثیر اور کیا قوّتِ قدسیہ اپنی ذات میں رکھتا ہے جس کی پیروی کے دعویٰ کرنے والے صرف اندھے اور نابینا ہوں ۔اور خدا تعالیٰ اپنے مکالمات و مخاطبات سے ان کی آنکھیں نہ کھولے۔ یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وحی الٰہی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ہے اور آئندہ کو قیامتتک اس کی کوئی بھی امید نہیں۔ صرف قصّوں کی پوجا کرو۔ پس کیا ایسا مذہب کچھ مذہب ہو سکتا ہے جس میں براہِ راست خدا تعالیٰ کاکچھ بھی پتہ نہیں لگتا۔ جو کچھ ہیں قصّے ہیں۔ اور کوئی اگرچہ اس کی راہ میں اپنی جان بھی فدا کرے۔ اُس کی رضا جوئی میں فنا ہو جائے اور ہر ایک چیز پر اُس کو اختیار کرے تب بھی وہ اُس پر اپنی شناخت کا دروازہ نہیں کھولتا اور مکالمات اور مخاطبات سے اس کو مشرف نہیں کرتا۔
مَیں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس زمانہ میں مجھ سے زیادہ بیزار ایسے مذہب سے اور کوئی نہ ہو گا۔ مَیں ایسے مذہب کا نام شیطانی مذہب رکھتا ہوں نہ کہ رحمانی۔اور مَیںیقین رکھتا ہوں کہ ایسا مذہب جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔’’
(روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۳۵۳، ۳۵۴)
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کا مسیح موعودؑ کے اقتباس پر اعتراض
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ اقتباس پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
‘‘مرزا صاحب نے مکالمات اور مخاطباتِ الٰہیہ کو معرفت و نجات اور صداقت و حقّانیت کی شرط قرار دے کر اُس مذہب کو جس کو اللہ تعالیٰ نے سہل اور ہر شخص کے لئے قابلِ عمل قرار دیا تھا نہایت مشکل اور محدود بنا دیا ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۹۳)
اس کے بعد مولوی ابو الحسن صاحب لکھتے ہیں:۔
‘‘مکالمۂ الٰہی کو ہدایتو فلاح کی شرط قرار نہیں دیا گیا بلکہ اس کے برعکس ایمان بالغیب کو ہدایت کی پہلی شرط قرار دیا گیا ہے اور ایمان بالغیب کا مفہوم ہییہ ہے کہ نبی کے اعتماد پر (جس کو اللہ تعالیٰ اجتبائی طور پر مکالمہٴ الٰہی کے لئے انتخاب کرتا ہے) غیبی حقائق کو جو تنہا عقل اور حواسِ ظاہری کی مدد سے معلوم نہیں کئے جا سکتے تسلیم کیا جائے۔ اگر مرزا صاحب کا ارشاد تسلیم کر لیا جائے کہ مکالمۂ الٰہیمعرفت و نجات کے لئے شرط ہے تو ایمان بالغیب کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور اس پر قرآن مجید کا اصرار سمجھ میں نہیں آتا۔’’
(قادیانیت صفحہ۱۹۴، ۱۹۵)
پھر آگے چل کر صحابہ کرام کے متعلق لکھا ہے:۔
‘‘کوئی شخص جو اس دور کی تاریخ اور اس جماعت کے مزاج و حالات بلکہ انسانی طبائع اور نفسیات سے واقف ہے اس کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ایک لاکھ افراد سے متجاوز اس قدسی جماعت کو مکالمہ مخاطبۂ خداوندی حاصل تھا اور جب صحابہ کرام کا یہ حال تھا تو بعد کے لوگوں کا کیا ذکر۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۹۵)
الجواب
مولوی ابو الحسن صاحب کی طرف سے قرآن مجید میں شریعتِ تامہ کاملہ کے نازل ہو جانے کے بعد مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے انکار سخت قابلِ تعجب ہے۔ اس اقتباس سے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کا یہ مقصد نہیں کہ ہر مسلمان کو مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف کیا جانا ضروری ہے بلکہ آپ نے ایسے لوگوں کے لئے مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف کیا جانا ضروری قرار دیا ہے جوخدا کی رضا جوئی میں فنا ہو جائیں اور ہر ایک چیز پر اس کو اختیارکر لیں۔ دوسرے لوگ اس شخص کے مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے بالواسطہ فائدہ اٹھا کر اپنے ایمان کو تازہ کریں گے۔ آپ نے نجات کے لئے ہر شخص کے مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ حاصل کرنے کی شرط نہیں لگائی کہ اس سے اسلام جیسے سہل دین کا نجات پانے کے لئے مشکل ہونا لازم آجائے۔ آپ نے صاف طور پر فرما دیا ہوا ہے کہ:۔
‘‘زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ سے زندہ خدا ملے۔ زندہ خدا وہ ہے جو ہمیں بلاواسطہ مُلْھَمْکر سکے اور کم از کم ہم بلاواسطہ مُلْھَمْکو دیکھ سکیں۔ سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا اسلام کا خداہے۔’’
(تبلیغ رسالت جلد۶ صفحہ۱۵)
اِس اقتباس سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے نزدیک نجات پانے کے لئے ہر شخص کا مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے براہِ راست مشرف ہونا ضروری نہیں۔
خدا تعالیٰ کا متکلم ہونا اس کی ایک ازلی صفت ہے اس لئے یہ عقیدہ سراسر باطل ہے کہ کسی زمانہ سے خدا تعالیٰ کییہ صفت بالکل معطّل ہو جائے۔ اگر وہ پہلی اُمّتوں میں اپنی محبت سے سرشار اور دین کے لئے قربانیاں دینے والوں کو اپنی ہمکلامی کا شرف بخشتا رہا ہے تو یہ ناممکن ہے کہ وہ شریعتِ محمدیہ چلنے والوں اور خدا کی محبت میں فنا ہو جانے والوں کو اپنی ہمکلامی کے شرف سے محرورم رکھے۔ جبکہ شریعت محمدیہ ایک زندہ شریعت ہے اور قیامتتک باقی رہنے والی ہے۔ اس عقلی دلیل کے علاوہ واقعات کی طرف سے بھی آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ اُمّتِمحمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں اولیاء اللہ گزرے ہیں جو خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف رہے۔ خدا تعالیٰ توبنی اسرائیل کی عورتوں پر وحی نازل فرماتا رہا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کیاُمّت کو بالکل اس نعمت سے محروم کر دے۔ اور اس شخص کو بھی اس سے محروم رکھے جس نے اپنے تئیں اس کی محبت میں محو رکھا ہو۔ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو جو وحی ہوئی اس کا قرآن مجید میں ان الفاظ میں ذکر موجود ہے:۔
وَأَوْحَيْنَا إِلٰى أُمِّ مُوْسىٰ أَنْ أَرْضِعِيْهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيْهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِيْ وَلَا تَحْزَنِيْ إِنَّا رَادُّوْهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ (القصص :۸)
ترجمہ۔ اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو وحی کی کہ اس کو دودھ پلا اور جب تجھے اس کے بارہ میں ڈر ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور ڈر نہیں اور غم نہ کر۔ ہم اس کو تیری طرف لوٹا لائیں گے اور اس کو رسولوں میں سے ایک رسول بنائیں گے۔
اسی طرح حضرت مریم علیہا السلام سے خدا تعالیٰ فرشتہ کے ذریعہ ہمکلام ہوا۔ اور فرشتہ نے کہا إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا (مريم:۱۱)یعنی میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ تجھے لڑکا پیدا ہونے کی بشارت دوں۔
پس جب پہلی اُمّتوں میں ایسا مکالمہ جو امور غیبیہ پر مشتمل ہو ضروری تھا تو اُمّتِمحمدیہ میں اس کی ضرورت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے؟ اُمّتِمحمدیہ میں ہزاروں اولیاء مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ کی نعمت سے سرفراز ہوئے ہیں۔ ان کے الہامات کی بعض مثالیں بطور نمونہ ہم نے اپنی کتاب کے صفحہ ۲۰تا۲۲ پر درج کی ہیں جو سب قرآنی آیات پر مشتمل ہیں جو ان بزرگوں پر الہاماً نازل ہوئیں۔
حضرت مجدد الف ثانی علیہالرحمۃ اپنے مکتوبات میں تحریر فرماتے ہیں:۔
اِنَّ کَلَامَ اللّٰہِ قَدْ یَکُوْنُ شَفَاھًاوَ ذَالِکَ الْاَفْرَادُ مِنَ الْاَنْبِیَاءِ وَ قَدْ یَکُوْنُ لِبَعْضِ الْکُمَّلِ مِنْ مَّتَابِعِیْھِمْ۔
یعنی اللہ تعالیٰ کبھی اپنے بندوں سے بالمشافہ کلام کرتا ہے اور یہ لوگ انبیاء ہوتے ہیں اور کبھی انبیاء کے بعد اُن کے کامل متبعین سے بھی اس طرح کلام کرتا ہے۔
وَاِذَا کَثُرَ ھٰذَا القِسْمُ مَعَ وَاحِدٍ مِّنْھُمْ سُمِّیَ مُحَدَّثًا
یعنی جب انبیاء کے کسی کامل متبع سے خدا تعالیٰ اس قسم کا کلام بکثرت کرتا تو اس کا نام محدث یعنی مکلم من اللہ رکھا جاتا ہے۔
پھرحضرت مجدد الف ثانی علیہالرحمۃ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘ہمچنانکہ نبی علیہ الصلوٰة والسلام آں علم را از وحیاخذ مے کرد۔ ایں بزرگواران بطریق الہام آن علوم را از اصل اخذمے کنند۔ علماء ایں علوم را از شرائع اخذ کردہ بہ طریق اجمال آوردہ اند ہماں علوم چنانکہ انبیاءراعلیہم الصلوٰة والسلام حاصل بود تفصیلًا و کشفاً ایشان را نیز بہماننہج حاصل میشود اصالۃً وتبعیّۃً درمیانست بہ ایں قسم کمالِ ازاولیاءاکمل بعضے ایشاں را بعد از قرونِ متطاولہ واز منہٴ متباعدہ انتخاب مے فرمایند۔’’
(مکتوبات جلد۱ صفحہ ۴۰، مکتوب سی ام مطبوعہ نولکشور واقع کانپور)
ترجمہ۔ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم وہ علوم وحی سے حاصل کرتے تھے یہ بزرگوار الہام کے ذریعہ وہی علوم اصل یعنی خداتعالیٰ سے حاصل کرتے ہیں اور عام علماء ان علوم کو شریعتوں سے اخذ کر کے بطریق اجمال پیش کرتے ہیں وہی علوم جس طرح انبیاء کو تفصیلاً وکشفاً حاصل ہوتے ہیں ان بزرگوں کو بھی انہی طریقوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ دونوں کے علوم کے درمیانصرف اصالت اور تبعیّت کا فرق ہوتا ہے۔ ایسے باکمال اولیاء میں سے بعض کو صدیوں اور لمبا زمانہ گزرنے پر انتخاب کیا جاتا ہے۔
حضرت سید اسماعیل صاحب شہیدؒ اپنی کتاب منصبِ امامتمیں تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘باید دانست ازاں جملہ الہام است ہمیں الہام کہ بانبیاء ثابت است آں وحی گوئند و اگر بغیر ایشاں ثابت مے شود اوراتحدیث مے گوئند وگاہے درکتاب اللہ مطلق الہام را خواہ بانبیاء ثابت مے شود خواہ باولیاء اللہ وحی مے نامند۔’’
(منصبِ امامتصفحہ۳۱)
ترجمہ۔ خدا تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک الہام بھی ہے۔ یہ الہام جو انبیاء کو ہوتا ہے اسے وحی کہتے ہیں اور جو انبیاء کے علاوہ دوسروں کو ہوتا ہے اس کو تحدیث کہتے ہیں۔ کبھی مطلق الہام کو خواہ انبیاء کو ہو یا اولیاء کو قرآن مجید کی رو سے وحی کہتے ہیں۔
ان اقتباسات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُمّت محمدیہ کے اولیاء اللہ کو مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ کی نعمت سے محروم نہیں کیا گیا۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے محروم تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ گو اُن کے الہامات محفوظ رکھنے کا اہتمام نہیں کیا گیا پھر بھی بعض الہامات ایسے ملتے ہیں جن سے یہ ضرور پتہ لگ جاتا ہے کہ صحابہ کرامکو بھی خدا کی ہمکلامی کا شرف ضرور عطا کیا گیا تھا۔
الہامات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
حضرت ابو بکرؓ
کتاب اللمع میں لکھا ہے:۔
کَانَتْ لِاَبِیْ بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ جَارِیَةٌ حُبْلیٰ فَقَالَ اُلْقِیَ فِیْ رَوْعِیْ اَنَّھَا اُنْثٰی فَوَلَدَتْ اُنْثٰی۔
(کتاب اللمع لابی نصر عبد اللہ علی السراج القوسنی باب ذکر ابی بکر الصدیق ؓصفحہ ۱۲۳)
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی لونڈی حاملہ تھی، فرماتے ہیں مجھے الہام ہوا کہ حمل میں لڑکی ہے تو اس نے لڑکی جنی۔
حضرت عمر بن الخطابؓ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص کو ایرانیوں سے جنگ کے دوران جو تحریری فرمان بھجوایا اس میںیہ درج تھا کہ‘‘ مجھے القاء ہوا ہے کہ تمہارے مقابلہ میں دشمن کو شکست ہو گی’’۔
( الوثائق العباسیۃ۔سیاسی وثیقہ جات مرتبہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ حیدر آبادی فرمان بنام سعد بن ابی وقاص
صفحہ ۲۴۵ شائع کردہ مجلس ترقیٔ ادب ۲ نرسنگھ داس گارڈن کلب روڈ طبع اوّل ۱۹۶۰ء)
حضرت علیؓ
(ا)کان علی ؓ وَالفَضْلُ یَغْسِلَانِ رُسُوْلَ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہ عَلْیْہِ وَ سَلَّمَ فَنُوْدِیَ عَلِیٌّ اِرْفَعْ طَرْفکَ اِلَی السَّمَآءِ۔
(الخصائص الکبریٰ للسیوطی جلد۲باب ما وقع فی غسلہ صلی اللہ علیہ و سلم صفحہ ۲۷۶)
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور فضل(ابن عباس)دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم کو غسل دے رہے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آواز آئی کہ اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھا۔
حضرت علیؓ معہ دیگر صحابہؓ
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہِ تعالٰی عنھا قَالَتْ لَمَّا اَرَادُوْا غُسْلَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالُوْا وَاللّٰہِمَا نَدْرِیْ اَنُجَرِّدُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَمِنْ ثِیَابِہٖ کَمَا نُجَرِّدُ مَوْتَنَا اَمْ نَغْسِلَہُ وَ عَلَیْہِثِیَابُہٗ فَلَمَّااخْتَلَفُوْا اَلْقَی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْھِمُ النَّوْمَ حَتّٰی مَا مِنْھُمْ رَجُلٌ اِلَّا وَذَقَنُہٗ فِی صَدْرِہِ ثُمَّ کَلَّمَھُمْ مُکَلِّمٌ مِّنْ نَاحِیَةِ الْبَیْتِ لَا یَدْرُوْنَ مَنْ ھُوَ اَنِ اغْسِلُوْا النَّبِیَ صَلّی اللّٰہ ُعَلَیْہ وَ سَلَّم وَ عَلَیْہِثِیَابُہٗ اَخْرَجَہٗ اَبُوْ دَاوٴد والحاکم والبیھقی و حلیة ابو نعیم۔
(الخصائص الکبریٰ للسیوطی جلد۲باب ما وقع فی غسلہ صلی اللہ علیہ و سلمصفحہ ۲۷۵)
ترجمہ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔ انہوں نے کہا۔ جب صحابہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو کہنے لگے خدا کی قسم ہم نہیں جانتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑے اتار لیں جیسا کہ ہم مُردوں کے کپڑے اتار لیتے ہیںیا آپ کو آپ کے کپڑوں میں ہی غسل دیں۔ پس جب انہوں نے اختلاف کیا تو خدا نے سب پر نیند وارد کر دییہاں تک کہ اُن میں سے کوئی آدمی نہ رہا مگر اس کی ٹھوڑی اس کے سینے کو جا لگی۔ پھر ان سے ایک کلام کرنے والے نے گھر کی ایک طرف سے کلام کی۔ صحابہ نےنہ جانا کہ وہ کون ہے۔ اس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو کپڑوں سمیت غسل دو۔ (اس روایت کی تخریج ابو داؤد، الحاکم بیہقی اور حلیہ ابونعیم نے کی ہے ۔)
حضرت اُبَیّ بِنکَعبؓ
عَنْ اَنَسٍ قَال قَال ابیّابن کعب لَاَدْخُلَنَّ الْمَسْجِدَ فَلَاُصَلِّیَنَّ ولَاَحْمِدَنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ بِمَحَامِدٍ لم یحمد بھا احد فلما صلی و جلس لیحمد اللّٰہ تعالٰی و یثنی علیہ اذا ھو بصوت عال من خلف یقول اللھم لک الحمد کلہ ولک الملک کلہ بیدک الخیر کلہ و الیک یرجع الامر کلہ علا نیتہٗ و سرّہٗ لک الحمد انک علی کل شیء قدیر ،اِغفرلی ما مضی من ذنوبی واعصمنی فیما بقی من عمری وارزقنی اعمالا ذاکیة ترضی بھا منّی و تب علیّ۔ فَاتٰی رسول اللّٰہ فقصَّ علیہ فقال جبریل علیہ السلام۔
(روح المعانی جلد۷ صفحہ ۶۴ زیر تفسیر الاحزاب:۴۱)
حضرت انس سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے ابیّ بن کعب نے کہا کہ میں مسجد میں ضرور داخل ہوں گا پھر ضرور نماز پڑھوں گا اور ضرور اللہ تعالیٰ کی ایسے محامد کے ساتھ حمد کروں گا کہ کسی نے ایسی حمد نہ کی ہو۔ جب انہوں نے نماز پڑھی اور خدا کی حمد کرنے کے لئے بیٹھ گئے تو ناگاہ انہوں نے پیچھے سے ایک شخص کو بلند آواز سے یہ کہتے سنا۔ اے اللہ سب حمد تیرے لئے ہے۔ ملک تیرا ہے۔ سب بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ سب امور کا مرجع تو ہے خواہ وہ امور ظاہری ہوں یا باطنی حمد تیرے لئے ہی ہے بے شک تو ہر شَے پر قادر ہے۔ میرے گزشتہ گناہوں کو معاف کر دے اور مجھے باقی عمر محفوظ رکھ اور مجھے ایسے پاکیزہ اعمال کی توفیق دے کہ تو ان کے ذریعہ مجھ سے راضی ہو جائے۔ مجھ پر رحمت سے رجوع کر۔ پھر ابیّ بن کعب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور سارا واقعہ بیان کیا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ جبرائیل علیہ السلام تھے۔
عبد اللہ بن زید بن عبد ربّہ ؓ
حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو روٴیا میں اذان سکھائی گئی۔ اسی طرح حضرت عمرکو بھی۔ (مشکوٰة کتاب الصلوٰۃ باب الاذان الفصل الاوّل)
نمونہ کے طور پر مندرجہ بالا حوالہ جات بھی کافی ہیں۔ پس صحابہ رضی اللہ عنہم الہام نعمت سے محروم نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہےإِذْ يُوحِيْ رَبُّكَ إِلَى الْمَلَآئِكَةِ أَنِّيْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوْا(الانفال:۱۳)یعنی جب تیرا رب ملائکہ کی طرف وحی کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں سو تم مومنوں کو ثابت قدم بناوٴ۔
اِس آیت سے ظاہر ہے کہ جہاد کے موقع پر اس میں شامل ہونے والے تمام صحابہ پر ملائکہ کا نزول ہوا اور انہوں نے وحی الٰہی کے مطابق مسلمانوں کو حوصلہ دلایا۔
مولوی ابو الحسن صاحب پر واضح ہو کہ اگر امتمحمدیہ میں کسی زمانہ میںنبوّت کی ضرورت نہ ہوتی تو پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم مسیح نبی اللہ کے نزول کی پیشگوئی نہ فرماتے۔ اِس پیشگوئی سے صاف ظاہر ہے کہ آخری زمانہ میں گمراہی اپنی انتہاء کو پہنچ جانے والی تھی تبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نبی کے مبعوث کیا جانے کی خبر دی۔ ہمارا یہ زمانہ ایک ایسا زمانہ ہے جس میں دہریت اور ملحدانہ فلسفہ نشوونما پا رہا ہے۔ لہذا اگر خداتعالیٰ کو کسی زمانہ میں نبی کے بھیجنے کی ضرورت تھی۔ تو اِس زمانہ کے لئے ضرور ایک نبی کا بھیجا جانا مقدر ہونا چاہیئے تھا۔ کیونکہ اس زمانہ میں دہریت و الحاد بامِ عروج پر ہے اور ایسی اقوامِ عالم کو جو دہریت و الحاد کا شکار ہیں خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا کوئی ڈر نہیں کیونکہ حیاتِ آخرت پر انہیںیقین ہی حاصل نہیں۔ ایسے زمانہ کے لئے ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی بھیج کر اس کے ذریعہ آسمانی نشانات دکھا کر ان پر حجت پوری کی جاتی۔
مولوی ابو الحسن صاحب! بے شک ان مسلمانوں کے لئے ایمان بالغیب کافی تھا جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا اور جو آپ ؐکے ذاتی چال چلن سے آگاہ تھے اور آپ کو صادق و امین جانتے تھے ان کے لئے یہ دلیل بھی آپؐ کی رسالت کے سچا ہونے کے لئے کافی تھی۔ لیکن بعد والوں کے لئے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا نہیں ایمان بالغیب لانے کے لئے کچھ مزید دلائل بھی درکار تھے اور درکار ہیں۔چنانچہ ایسے لوگوں کو معجزات و نشانات دکھائے گئے اور پھر اسلام میں مجدّدین کا ایک سلسلہ جاری فرمادیا گیا جو ہر صدی میں روشن دلائل اور آسمانی نشانوں کے ساتھ اسلام کی صداقت کی گواہی دیتے رہے ہیں۔ ایمان بالغیب کے معنی بلا سوچے سمجھے مان لینا نہیں کیونکہ مومن Blind Faith نہیں رکھتے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کی شان میں فرمایا ہے۔ وَالَّذِيْنَ إِذَا ذُكِّرُوْا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوْا عَلَيْهَا صُمًّا وَّعُمْيَانًا(الفرقان:۷۴)کہ مومن وہ ہیں کہ جب انہیں اللہ کی آیاتیاد دلائی جائیں تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گر پڑتے یعنی ان کو سمجھ کر ان پر علیٰ وجہِ البصیرت ایمان لاتے ہیں۔ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرامکی شان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِٓيْ أَدْعُوْآ إِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ(يوسف:۱۰۹)
اے نبی کہہ دو یہ میرا راستہ ہے کہ میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میں اور میرے متبعین اس پر علیٰ وجہِ البصیرت قائم ہیں۔
مولوی ابو الحسن صاحب! ایمانیقین سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ آنکھیں بند کر کے مان لینا ایمان بالغیب نہیں۔ ایمان بالغیب بھی بصیرت کو چاہتا ہے اور بصیرت کے حصول کے لئے بھی کچھ ذرائع اور اسباب ہوتے ہیں۔ پھر یقین کا صرف ایک ذریعہ ایمان بالغیب ہی نہیں ایمان بالغیب کی حد علم الیقین تک ہوتی ہے۔ اس کے بعد عین الیقین کا مرتبہ ہوتا ہے اور پھر حق الیقین کا۔ گو علم الیقین مومن کی نجات کا موجب ہو جاتا ہے مگر بعض کی علمی پیاس اس سے نہیں بجھتی تو وہ اپنے مجاہدات اور قربانیوں سے اگلی منزلِ علم کے متلاشی ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی پیاس کو اللہ تعالیٰ اپنے مکالمہ مخاطبہ سے بھیجتا ہے اور پھر اُن کے ذریعہ دنیا کو روشن آسمانی نشانوں کے ذریعہ زندہ ایمان اور یقین بخشتا ہے۔ اور اس طرح لوگوں کا ایمان بالغیب گویا رؤیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔
ارتقائے ذہنی کا جو فلسفہ علّامہ اقبال نے پیش کیا ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا ہرگز درست نہیں کہ نوعِ انسانی کو اب الہام اور وحی کی ضرورت نہیں رہی۔ کیونکہ باوجود ارتقائے ذہنی کے دنیا تو دہریت اور الحاد کی طرف جا رہی ہے۔ پس ارتقائے ذہنی کی وجہ سے اگر وحی کی ضرورت سے انکار کر دیا جائے تو یہ امر دنیا میں دہریت اور الحاد کے بڑھنے کا موجب ہو گا نہ کہ دور ہونے کا۔ پس اِس زمانہ کا انسان آسمانی مدد کے بغیر دہریت والحاد کی دلدل سے نہیں نکل سکتا۔
شریعتِ اسلامیہ کے مآخذ اور تفسیر خاتم النبیّین
شریعتِ اسلامیہ کے مآخذ قرآن مجید، سُنّتِ نبوی، احادیث نبویہ، اجماعِ اُمّت اور قیاس ہیں۔ قیاس اس وقت حُجّتِ شرعی بنتا ہے جبکہ وہ کسی نَصِّ شرعییعنی قرآن و حدیث اور اجماع کے خلاف نہ ہو۔ بعض علماء نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد الہامِ الٰہی کو حجت قرار دیا ہے۔
مولوی ابو الحسن صاحب نے خاتم النبیّین کے معنوں میں ڈاکٹر اقبال کے قیاس کو بار بار پیش کیا ہے اور گویا اسے مسلمانوں کے سامنے بطور حجّتِ شرعی کے پیش کیا ہے اور اُن کے قیاس سے اتفاق کیا ہے مگر اسلام میں قیاس اُس وقت حجت ہوتا ہے جبکہ کوئی مسئلہ قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت نہ ہو اور اس کا کسی اور شرعی جزئی پر قیاسکیا جائے۔ اگر قیاس قرآن و حدیث کی کسی نص کے خلاف ہو تو پھر وہ مسلمانوں کے لئے ہرگز حجت نہیں ہوتا خواہ وہ قیاس کسی امام اور مجتہد کا ہی کیوں نہ ہو۔
اِس سلسلہ میں مولوی ابو الحسن صاحب نے بہت بڑی فروگذاشت سے کام لیا ہے۔ بلکہ ہم اس کو قرآن و حدیث سے بغاوت بھی قرار دیں تو اس میں حق بجانب ہیں۔
سیاق آیت سے خاتم النبیّین کی تفسیر
سیاقِ آیت خاتم النبیّین سے یہ امر ثابت ہے کہ ان الفاظ کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ابو الانبیاء ثابت کرنا مقصود ہے سو ولٰـکن رسول اللّٰہ کے جملہ سے آپ کو اُمّت کا باپ قرار دیا گیا ہے پھر اسی جملہ پر خاتم النبیّین کا عطف کر کے پہلی حالت سے ترقییافتہ شان بیان کرنے کے لئے آپ کو ابو الانبیاء قرار دیا گیا ہے۔سب سے پہلے جملہ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے نرینہ بالغ اولاد کی نفی کی گئی ہے۔ اور پھر ابتر کے اعتراض کو دور کر نے کے لئے وَلٰـكِنْ رَّسُولَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ سے بطور استدارک آپ کو معنوی اور روحانی لحاظ سے اُمّت کا بھی باپ قرار دیا گیا ہے اور نبیوں کا بھی باپ قرار دیا گیا ہے۔ اگر لٰـکن سے پہلے جملہ منفی ہو جیسے اس آیت میںمَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ کا جملہ ہے تو لٰـکن کے بعد جملہ ہمیشہ مثبت مفہوم رکھتا ہے۔ لہذا خاتم النبیّین کے معنی علی الاطلاق آخری نبی قرار دینا منفی مفہوم پر مشتمل ہے۔ کیونکہ اس کا مفہوم تو یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ نہ مسیح اور نہ کوئی اور۔
مندرجہ بالا تفسیر کی تائید حضرت مولوی محمد قاسم نانوتوی بانیٴ دار العلوم دیوبند کے بیان سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں۔ مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم و تأخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ پھر مقامِ مدح میں لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ فرمانا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔’’
(تحذیر الناس صفحہ۳۔ مطبوعہ خیر خواہ سرکار پریس سہارن پور)
اس بیان سے ظاہر ہے کہ خاتم النبیّین کے معنی محض‘‘آخری نبی’’ صرف عوام النّاس کے معنی ہیں نہ اہل ِفہم کے۔
اہل فہم کے معنی ان کے نزدیک یہ ہیں کہ:۔
‘‘آپ (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم)موصوف بوصفِ نبوّت بالذات ہیں۔ اور سوا آپ کے اور نبی موصوف بوصف نبوّتبالعرض اوروں کینبوّت آپ کا فیض ہےپرآپ کینبوّت کسی اور کا فیض نہیں۔ آپ پر سلسلہ نبوّت مختتم ہو جاتا ہے غرضجیسے آپ نبی اللہ ہیں ویسے ہی نبی الانبیاء بھی ہیں’’۔
(تحذیر الناس صفحہ۴مطبوعہ خیر خواہ سرکار پریس سہارن پور)
پھر آیت خاتم النبیّین کے سیاقکو مطابق لغت عربی ملحوظ رکھ کر خاتم النبیّین کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘جیسےخاتم بفتحِ تاء کا اثر اور نقش مختوم علیہ میں ہوتا ہے ایسے ہی موصوف بالذات کا اثر موصوف بالعرض میں ہوتا ہے(یعنی تمام انبیاء میں۔ ناقل) حاصل مطلب آیہ کریمہ اس صورت میںیہ ہو گا کہ ابوّت معروفہ (جسمانی نرینہ اولاد کا باپ ہونا۔ ناقل) تو رسول اللہ صلعم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوّتِ معنوی (روحانی باپ ہونا۔ ناقل) اُمّتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے۔ انبیاء کی نسبت تو فقط خاتم النبیّین شاہد ہے کیونکہ اوصافِ معروض (مثلاً اِس جگہ دیگر انبیاء کینبوّتیں۔ ناقل)وموصوف بالعرض(مثلاً اس جگہ دیگر انبیاء۔ ناقل) موصوف بالذات (اِس جگہ خاتم النبیّین۔ ناقل) کی فرع ہوتے ہیںموصوف بالذات اوصافِ عرضیہ کا اصل ہوتا ہے اور وہ اس کی نسل…… اور اُمّتیوں کی نسبت لفظ رسول اللہ میں غور کیجئے’’۔
(تحذیر الناس صفحہ ۱۰، ۱۱مطبوعہ خیر خواہ سرکار پریس سہارن پور)
خاتمالنبیّین کے اِن سیاق والے معنییعنی نبیوں کے لئے مؤثر وجود اور ابو الانبیاء کے پیشِ نظر رکھتے ہیں:۔
‘‘اگر خاتمیّت بمعنی اِتّصافِ ذاتی بوصف نبوّت لیجئے جیساکہ اس ہیچمدان نے عرض کیا ہے تو پھرسوا رسول اللہ صلعم کے کسی کو افراد مقصود بالخلق میں سے مماثل نبوی صلعم نہیں کہہ سکتے بلکہ اس صورت میں انبیاء کے افراد خارجی (انبیائے سابقین۔ ناقل) ہی پر آپ کی فضیلت ثابت نہ ہو گی افرادِ مقدّرہ (جن انبیاء کا آئندہ آنا تجویز ہو۔ ناقل) پر بھی آپ کی افضلیّت ثابت ہو جائے گی بلکہبالفرض اگر بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیّتِ محمدیؐ میں کچھ فرق نہ آئے گا’’۔
(تحذیر الناس صفحہ ۲۸مطبوعہ خیر خواہ سرکار پریس سہارن پور)
پس اصل معنی خاتم النبیّین کے انبیاء کے لئے مؤثر وجود ہوئے اور خاتمیّتِ زمانی بصورت آخری شریعتِ تامہ مستقلہ لانے کے جس کا عمل قیامتتک رہنے والا ہے۔ آپؐ آخری تشریعی نبی ہیں اور یہ مفہوم خاتم النبیّین کے اصل معنی انبیاء کے لئے مؤثر وجود کو لازم ہے۔ اس لئے بالفرض بعد زمانۂ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کسی نبی کے پیدا ہونے کی صورت میں خاتمیّتِ محمدییعنی خاتمیّت بالذات اور خاتمیتِ زمانی میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ کیونکہ جو نبی پیدا ہو گا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خاتم بالذات کا اثر ہوگا۔ اور بوجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے آخری شریعت تامہ کاملہ مستقلہ اِلیٰیوم القیامۃلانے والے نبی ہونے کے آپ کا ماتحت ہو گا اور اپ کا اُمّتی ہو گا۔ پس اُمّتی نبی کے پیدا ہونے میں آیت خاتم النبیّین بلحاظ سیاقِ آیت ہرگز مانع نہیں۔
امام علی القاری علیہالرحمۃ جو فقہ حنفیہ کے جلیل القدر امام ہیں خاتم النبیّین کے معنی آخری نبی کی وضاحت میں لکھتے ہیں:۔
اَلْمَعْنٰی اَنَّہُ لَا یأْتِیْ نَبِیٌّبَعْدَہٗ یَنْسَخُ مِلَّتَہ وَلَمْ یَکُنْ مِنْ اُمَّتِہ
(موضوعات کبیر، باب اللام)
کہ خاتم النبیّین کے معنییہ ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپؐ کی ملّت (شریعت) کو منسوخ کرے اور آپؐ کیاُمّت میں سے نہ ہو۔
اس سے ظاہر ہے کہ آیت خاتم النبیّین غیر تشریعی نبی کی آمد میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اُمّتی ہو مانع نہیں۔ پس آیت خاتم النبیّین کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لزوماً آخری تشریعی نبی قرار پائے نہ کہ مطلق آخری نبی۔
اگراُمّتی کے لئے غیر تشریعینبوّت کا دروازہ بھی آیت خاتم النبیّین کے رو سے بند ہو جاتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم یہ کبھی نہ فرماتے:۔
اَبُوْ بَکْرٍ اَفْضَلُ ھٰذِہِ الْاُمَّةِ اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ نَبِیٌّ
(کنوز الحقائق فی حدیث خیر الخلائقصفحہ۶ حاشیہ مطبوعہ مصر)
یعنی ابو بکر اس اُمّت میں افضل ہیں بجز اس کے کہ آئندہ کوئی نبی پیدا ہو۔
اگر آیت خاتم النبیّیناُمّت میں نبی پیدا ہونے میں مانع ہوتی تو آنحضرت اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ نَبِیٌّکے الفاظ سے استثناء نہ فرماتے:۔
پھر آیت خاتم النبیّین کے نزول سے چند سال بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہو سلم کے لخت جگر صاحبزادہ ابراہیم وفات پا گئے تو آپ نے فرمایا:۔
لَوْ عَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا
(رواہ ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الصلوٰۃ علی ابن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم و ذکر وفاتہ)
یعنی اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور صدیق نبی ہوتا۔
حضرت امام علی القاری علیہالرحمۃ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں:۔
لَوْ عَاشَ اِبْرَاھِیْمَ وَصَارَ نَبِیًّا وَکَذَا لَوْ صَارَ عُمَرُ نَبِیًّا لَکَانَا مِنْ اَتْبَاعِہٖ عَلَیْہِ السَّلام……فَلَا یُنَاقِضُ قَوْلَہٗ تَعَالیٰ خَاتَمَالنَّبِیّیْنَ۔
(موضوعات کبیر،باب اللام)
یعنی اگر صاحبزادہ ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہو جاتے اور اسی طرح حضرت عمرنبی ہو جاتے تو دونوں آپؐ کے متبعین میں سے ہوتے (یعنی بعد از نبوّت بھی متبع ہوتے۔ ناقل) پس ان دونوں کا نبی ہو جانا آیت خاتم النبیّین کے خلاف نہ ہوتا۔
خلاف اس لئے نہ ہوتا کہ خاتم النبیّین کی آیت ناسخ شریعت غیراُمّتی نبی کے آنے میں مانع ہے جیسا کہ اوپر ان کا قول موضوعات کبیرباب اللّام سے درج ہوا ہے۔ وہ اوپر والا قول فلا یناقض قولہٗ تعالیٰ خاتم النّبیّینکے مذکورہ معنوں کے خلاف نہ ہوتا۔ کیونکہ وہ دونوں تابع نبیہوتے۔
پھر حضرت عائشہ الصدیقہ معلّمہ نصف الدین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:۔
قولوا خاتم النبیّین ولا تقولوا لا نبیّ بعدہ۔
(در منثور زیر آیت خاتم النبیّین۔ الاحزاب:۴۱)
کہ تم لوگیہ تو کہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبیّین ہیں مگر یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔
اولیاء اللہ نے اسلام میں ایک قسم کینبوّت کو جاری قرار دیا ہے۔چنانچہ حضرت محی الدین ابن عربی علیہالرحمۃ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’المقربون‘‘مقامھم بین الصدیقیة والنبوة التشریعیة و ھو مقام جلیل جھلہ اکثر الناس من اھل طریقتنا کأبی حامد وأمثالہ لأن ذوقہ عزیز و ھو مقام النبوة المطلقة۔
(فتوحات مکیہ جلد۲ صفحہ۱۹۔ الباب الثالث والسبعون)
ترجمہ۔ کچھ مقربین الٰہی کا مقام صدّیقیت اور نبوّتِ تشریعیہ کے درمیان واقع ہے۔ وہ ایک شاندار مقام ہے جس سے ہمارے طریقہ کے اکثر لوگ جیسے ابو حامد اور ان کے امثال ناواقف ہیں۔ کیونکہ اُس کا ذوق نادر ہے اور وہ نبوّتِ مطلقہ کا مقام ہے۔
پھر وہ اس نبوّت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:۔
فالنبوة ساریة الٰی یوم القیامة فی الخلق وان کان التشریع قد انقطع فالتشریع جزء من اجزاءِ النبوة۔
(فتوحات مکیہ جلد۲ صفحہ ۹۰ السؤال الثانی والثمانون)
ترجمہ۔نبوّت مخلوق میںقیامتتک جاری ہے گو تشریعینبوّت منقطع ہو گئی ہے پس شریعت کا لانا نبوّت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔
پھر وہ اس نبوّت کے جاری رہنے پر یہ دلیل دیتے ہیں:۔
اذ یستحیل ان ینقطع خبر اللّٰہ واخبارہٗ من العالم اذ لو انقطع لم یبق للعالم غذاء یتغذی بہ فی بقاء وجودہ۔
ترجمہ: یہ محال ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے امور غیبیہ اور اخبار الٰہیہ کا دنیا کو ملنا منقطع ہو جائے۔ کیونکہ اگر یہ منقطع ہو جائے تو دنیا کے لئے کوئی (روحانی) غذا باقی نہیں رہے گی جس سے وہ اپنے (روحانی) وجود کو باقی رکھ سکے۔
یہ مضمون ان کا قرآن مجید کیآیت إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَآئِكَةُ أَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَأَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَنَحْنُ أَوْلِيَآؤُكُمْ فِي الْحَيَاۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (حٰمٓ سجدہ:۳۱،۳۲) کے مطابق ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے۔ بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر استقامتدکھائی ان پر خدا کے فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ تم کوئی خوف نہ کرو اور کوئی غم نہ کرو اور جنّت (رضاءِ الٰہی کے مقام) کی بشارت پاوٴ جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے مددگار ہیں اور آخرت میں بھی۔
حضرت شیخ اکبرمحی الدین ابنِ عربی نے اس آیت کو اپنی کتاب فتوحاتِ مکیہ کے باب الاستقامۃ میں درج کر کے فرمایا ہے۔
ھذا التنزیل ھو النبوة العامة لا نبوة التشریع
(فتوحات مکیہ جلد۲ صفحہ ۲۱۷باب معرفۃ مقام الاستقامۃ)
اِسنبوّت عامہ کو وہ نبوّت الولایت قرار دیتے ہیں اور محدثین کو اس سے کچھ حصہ پانے والے اور مسیح موعود کو اس نبوّت الولایت کے ساتھ نبوّتِ مطلقہ کا حامل قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔
ینزل ولیا ذا نبوةٍ مطلقةٍ
(فتوحات مکیہ جلد۲ صفحہ ۴۹ السؤال الثالث عشر)
کہ وہ ایسے ولی کی صورت میں نازل ہو گا جو نبوّتِ مطلقہ رکھتا ہو گا۔
پھر حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن العربینبوّت تشریعیہ کو نبوّتِ عامہ کا جزوِ ذاتی نہیں بلکہ جزوِ عارض جانتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:۔
اَنَّ التشریع فی النبوۃ امر عارض بکون عیسیٰ ینزل فینا حکما من غیر تشریع و ھو نبی بلا شکٍ۔
یعنی شریعت کا لانا امر عارض ہے (امر ذاتی نہیں) کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام ہم میں بغیر شریعت کے نازل ہوں گے اور وہ بلا شک نبی ہوں گے۔
(فتوحات مکیہ جلد۱ صفحہ ۵۴۵۔ وصل فی اختلاف الصلاۃ)
پھر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بروزی نزول کے قائل ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
وجب نزولہ فی اٰخر الزمان بتعلقہ ببدنٍ اٰخر
(تفسیر محی الدین ابن العربی بر حاشیہ عرائس البیان)
کہ مسیح علیہ السلام کا نزول آخری زمانہ میں کسی دوسرے بدن کے تعلق سے ہوگا۔
اِس سے ظاہر ہے کہ اُن کے نزدیک وہ اصالتًا نازل نہیں ہوں گے بلکہ ان کا نزول بروزی رنگ میں ہوگا۔
امام عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمۃنبوّت مطلقہ کو جاری قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
اعلم ان مطلق النبوة لم ترتفع وانما ارتفعت نبوة التشریع۔
(الیواقیت والجواہر جلد۲ صفحہ شائع کردہ دار احیاء التراث العربی بیروت طبع اولیٰ ۱۹۹۷ء)
حضرت عبد الکریم جیلانی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں:۔
فانقطع حکم نبوة التشریع بعدہ و کان محمد صلیاللّٰہ علیہ و سلم خاتم النبیّین لانہ جاء بالکمال ولم یجیٴ احد بذالک۔
(الانسان الکامل جلد۱ صفحہ ۹۸)
یعنی شریعت والینبوّت کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد منقطع ہو گیا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبیّین ہیں کیونکہ آپ کمال (شریعت کاملہ) لے کر آئے ہیں اور کوئی اور نبی ایسے کمال کے ساتھ نہیں آیا۔
پھر حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن العربی حدیثلا نبیّ بعدی ولا رسول کی تشریح میں فرماتے ہیں:۔
اِنّ النبوة التی انقطعت بوجود رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم انما ھی نبوة التشریع لا مقامھا فلا شرع یکون ناسخا لشرعہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم ولا یزید فی حکمہ شرعاً اٰخر و ھذا معنی قولہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم ان الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی ای لا نبی بعدی یکون علی شرع یخالف شرعی بل اذا کان یکون تحت حکم شریعتی۔
(الفتوحاتالمکّیہ، المجلد الثانی صفحہ۳ مطبوعہ دار صادر بیروت)
ترجمہ۔ وہ نبوّت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر منقطع ہو گئی ہے وہ صرف تشریعینبوّت ہے نہ مقامِ نبوّت۔ اب کوئی شریعت نہیں ہو گی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کو منسوخ کرے اور یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت میں کسی حکم کا اضافہ کرے اور یہی معنی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس قول کے کہ ان الرسالة والنبوة قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبیّ۔ یعنی آپ کی مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا نبی آئندہ نہیں ہوگا جو میری شریعت کے خلاف کسی اور شریعت پر ہو۔ بلکہ جب کبھی کوئی نبی ہو گا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہو گا۔
امام عبد الوہاب شعرانی اسی مذہب کا خلاصہ یوں پیش کرتے ہیں:۔
و قولہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم‘‘فلا نبیّبعدی ولا رسول’’ المراد بہ لا مشرع بعدی۔
(الیواقیت والجواہر جلد۲ صفحہ ۳۴۶، شائع کردہ دار احیاء التراث العربی طبع اولیٰ ۱۹۹۷ء)
ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قول لا نبیّ بعدی و لا رسول بعدی سے یہ مراد ہے کہ آپ کے بعد خاص شریعت لانے والا کوئی نبی نہ ہوگا۔
اس سے پہلے ان کا یہ قول درج کیا جا چکا ہے کہ مطلق نبوّت منقطع نہیں ہوئی۔حضرت مولانا جلال الدین رومیتحریر فرماتے ہیں
بہرِ ایں خاتم شد ست او کہ بجود
مثل او نے بود نے خواہند بود
چونکہ در صنعت برد استاد دست
نے تو گوئی ختمِ صنعت بر تو است
(مثنوی مولانا روم دفتر ششم صفحہ۱۰ مطبوعہ نولکشور)
ترجمہ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس وجہ سے خاتم ہیں کہ سخاوت (فیض پہنچانے میں) نہ آپ جیسا کوئی ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ جب کوئی کاریگر اپنی کاریگری میں کمال پر پہنچ جاتا ہے تو اے شخص کیا تو نہیں کہتا کہ تجھ پر کاریگر ہونے کی مہر لگ گئی ۔ تو سب سے کامل کاریگر ہے۔
پھر وہ فرماتے ہیں
مکر کن درراہ نیکو خدمتے
تانبوّتیابیاندر اُمّتے
(مثنوی مولانا روم۔ دفتر پنجم صفحہ ۱۸)
کہ نیکی کی راہ میں ایسی تدبیر کر کہ تجھے اُمّت میں نبوّت مل جائے
حضرت شاہ ولی اللہ علیہالرحمۃ مجدد صدی دواز دہم تحریر فرماتے ہیں:۔
لانّ النبوة تتجزّیٰ و جزء منھا باق بعد خاتم الانبیاء۔
(المسوی شرح الموٴطا جلد۲ صفحہ ۲۱۶ مطبوعہ دہلی)
ترجمہ۔ کیونکہنبوّت قابلِ تقسیم ہے اور اس کی ایک جزء خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد باقی ہے۔
نیز فرماتے ہیں:۔
امتنع ان یّکون بعدہ نبی مستقلّ بالتَلقّی
(الخیر الکثیر صفحہ۸۰ مطبوعہ بجنور)
ترجمہ۔یہ امر ممتنع ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی مستقل بالتلقییعنی تشریعی نبی ہو۔
چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:۔
ختم بہ النبیون ای لا یوجد بعدہ من یامرہ اللّٰہ سبحانہ بالتشریع علی الناس
(تفہیمات الٰہیہ جلد۲ صفحہ ۸۵مؤلّفہ شاہ ولی اللہ دہلوی تفہیم ۵۴)
ترجمہ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر نبوّت ختم ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اب کوئی ا یسا شخص پیدا نہیں ہو گا جسے خدا تعالیٰ شریعت دے کر لوگوں کی طرف مامور کرے۔
علّامہ مولوی عبد الحی صاحب لکھنوی فرنگی محِلّی تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘بعد آنحضرت کے یا زمانے میں آنحضرت کے مجرد کسی نبی کاہونا محال نہیں بلک صاحبِ شرع جدید ہوناالبتہ ممتنع ہے۔’’
(دافع الوسواس فی اثر ابن عباس بار دوم صفحہ۱۶ مطبوعہ مطبع یوسفی لکھنؤ)
علّامہ صوفی محمد حسین صاحب مصنف غایۃ البرہان تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘الغرض اصطلاح میںنبوّت بخصوصیّتِ الٰہیہ خبر دینے سے عبارت ہے وہ دو قسم پر ہے۔ ایکنبوّت تشریعی جو ختم ہو گئی اور دوسرینبوّت بمعنی خبردادن وہ غیر منقطع ہے پس اس کو مبشرات کہتے ہیں۔ اپنے اقسام کے ساتھ اس میں روٴیا بھی ہیں۔’’
(الکواکب الدّریّہ صفحہ ۱۴۷،۱۴۸)
امام راغب آیت قرآنیہ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَالنَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصَّالِحِیْنَکی تفسیر میں فرماتے ہیں:
ممن انعم اللّٰہ علیھم من الفرق الاربع فی المنزلة والثواب النبیّ بالنبیّ والصدیق بالصدیق والشھید بالشھید والصالح بالصالح۔
(تفسیر البحر المحیط جلد۲ زیر سورۃ نساءآیت ۶۴)
کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرنے والوں کو ان پچھلے چار گروہوں سے درجہ اورثواب میں شامل کر دے گا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے۔ اس اُمّت کے نبی کو کسی پہلے نبی کے ساتھ اور اس اُمّت کے صدیق کو کسی پہلے صدیق کے ساتھ اور اس اُمّت کے شہید کو کسی پہلے گزرے ہوئے شہید کے ساتھ اور اس اُمّت کے صالح کو کسی پہلے گزرے ہوئے صالح کے ساتھ۔
پس خلاصہ ان سب حوالہ جات کا یہ ہے کہ آیت خاتم النبیّین، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد صرف تشریعی نبی کی آمد کو منقطع قرار دیتی ہے۔ اُمّت محمدیہ میں کسیاُمّتی کے مقام ِ نبوّت غیر تشریعیہ کے پانے میں مانع نہیں بلکہ اس کے امکان کو ثابت کرتی ہے۔ کیونکہ آنحضرت بوجہ خاتم النبیّین خاتم کمالات ہیں۔ لہذا آپ کا فیض بھی کامل ہے۔
مکالماتِ الٰہیہ اسلام کے زندہ ہونے کا ثبوت
ہم نے قرآن کریم کی آیات، احادیث نبویہ اور اقوالِ بزرگانِ دین سے اس بات کا ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کے بعد مکالمات و مخاطباتِ الٰہیہ کا دروازہ کلیۃً بند نہیں ہوا بلکہ المبشرات پر مشتمل الہامات کا دروازہ جنہیں حدیث نبویہ میںنبوّت کا ایک حصہ قرار دیا گیا ہے، کھلا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے۔اَلَآإِنَّ أَوْلِيَاءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ … الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (يونس :۶۳و۶۵)یعنی اولیاء اللہ پر بشارتوں کا دروازہ دنیا میں بھی کھلا ہے۔ یہ مکالمات و مخاطبات الٰہیہ تو حقیقت میں اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ثبوت ہیں کیونکہ زندہ مذہب وہی مذہب کہلا سکتا ہے جس کی اتباع کرنے والوں کا خدا سے تعلق پیدا ہو۔ اور خدا سے تعلق پیدا ہونے کا ثبوت یہی ہے کہ اس مذہب کے ماننے والوں میں ایسے اولیاء اللہ پائے جائیں جو اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف رکھتے ہوں۔
اب یہ فخر صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کیاُمّت ہی کو حاصل ہے کہ اس میں ہزارہا اولیاء اللہ پیدا ہوئے جو خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوئے۔ اب دوسرے تمام مذاہب میں اسلام کے سوا اس کی نظیر نہیں مگر مولوی ابو الحسن صاحب کو اس قسم کا تعلق باللہ ہو سکنے سے انکار ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
‘‘مرزا غلام احمد صاحب کے فلسفہٴ تسلسل و بقاء وحی اور مکالمات و مخاطبات الٰہیہ کے عموم اور لزوم پر اگر دقتِ نظر سے غور کیا جائے اور اس کی عملی تحلیل و تجزیہ کیا جائے تو اس میں ختم نبوّت کی بجائے سلسلہٴنبوّت کے انکار کی روح نظر آئے گی اور ہدایت اور معرفت الٰہی بھی مسمریزم اور جدید تحریک استحضار ارواح (سپرچولزم) وغیرہ کی طرح ایک روحانی تجربہ اور عمل بن کر رہ جائے گی۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۹۶،۱۹۷)
مولوی ابو الحسن صاحب کی سلسلۂنبوّت میں تشکیک
واضح ہو کہ اس بیان سے مولوی ابوالحسن صاحب ندوی نے سارے کے سارے سلسلۂ نبوّت کو ہی مشتبہ اور مشکوک بنا دینے کی کوشش کی ہے جو ان کی دین سے نادان دوستی کا ثبوت ہے کیونکہ اگر مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ کی حیثیت مسمریزم اور استحضار ارواح وغیرہ کا تجربہ کہلا سکتی ہے تو مولوی ابو الحسن صاحب کے اس بیان پر یقین کر لینے والے دہریہ اور ملحدین انبیاء سابقین کے مکالمات و مخاطبات الٰہیہ کو بھی اس قسم کا ایک تجربہ قرار دے کر ردّ کر سکتے ہیں۔ پس مولوی ابو الحسن صاحب کا یہ بیان ایسا گمراہ کن ہے کہ یہ بے دینوں کے لئے سارے سلسلہ نبوّت کو رد کرنے کی راہ ہموار کرنے والا ہے۔ اِس بیان سے انہوں نے آدم سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تک آنے والے تمام انبیاء کے مکالمات و مخاطبات الٰہیہ کو مشکوک بنا دیا ہے۔
مولوی ابوالحسن صاحب پر واضح ہو کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو مسمریزم اور استحضار ارواح کا کوئی تجربہ نہ تھا نہ ہی آپؑ نے اپنی جماعت کو اس راہ پر ڈالا ہے اور نہ خود ارواح کو حاضر کرنے کا کبھی کوئی کرشمہ دکھلایا ہے بلکہ آپؑ نے اپنی جماعت کو یہی تلقین فرمائی ہے کہ وہ صرف ان راہوں کو اختیار کرے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلائی اور دکھلائی ہیں۔ انہی راہوں کے سچا ہونے کا ثبوت حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہؑ نے اپنے روشن نشانوں سے فراہم کیا ہے۔ وہ اطاعت نبوی کی راہیں ہیں جن پر چلنے سے حسب آیتوَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُولَ فَأُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ(النساء:۷۰)وہ انعامات مل سکتےہیں جو پہلوں کو ملے۔
مولوی ابو الحسن کے متضاد خیالات
اوپر کے بیان میں مولوی ابو الحسن صاحب نےبقاء وحی اور مکالمات و مخاطباتِ الٰہیہ کو ختمِنبوّت کی بجائے سلسلۂنبوّت کے انکار کی روح پر مشتمل قرار دیا ہے۔ ایسے بیانات میں وہ دراصل ڈاکٹر اقبال صاحب کے فلسلفہ کی تقلید کر رہے ہیں۔ کیا اس سے صاف ظاہر نہیں کہ مولوی ابو الحسن صاحب ان احادیث نبویہ کے منکر ہیں جن میں حضرت مسیح ؑ کے نزول اُن کے نبی اللہ ہونے اور اُن پر وحی نازل کئے جانے کا ذکر ہے؟ لیکن اس کے برخلاف اُن کی کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسیح کو خارق عادت اور معجزانہ طور پر صدیوں سے آسمان پر زندہ مانتے ہیں اور ان کے اصالتًا نزول کے قائل ہیں۔ چنانچہ وہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی کتاب سُرمہ چشم آریہ کے متعلق لکھتے ہیں:۔
‘‘مرزا صاحب نے اپنی اس کتاب میں نہ صرف اس معجزہ (شقّ القمر۔ ناقل) کی بلکہ معجزاتِ انبیاء کی پُرزور مدلّل وکالت کی ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ معجزات و خوارق کا وقوع عقلاً ممکن ہے۔ محدود انسانی عقل اور علم اور محدود انفرادی تجربات کو اس کا حق نہیں کہ وہ ان معجزات و خوارق کا انکار کریں اور وسیع کائنات کے احاطہ کا دعویٰ کریں۔’’
(قادیانیت صفحہ ۶۲)
پھر وہ اپنے اس نوٹ کی بناء پر لکھتے ہیں:۔
‘‘واقعہ یہ ہے کہ بعد میں انہوں نے رفع و نزولِ مسیح ؑ کے بارے میں اور حضرت مسیح ؑکے صدیوں تک آسمان پر رہنے پر جو عقلی اشکال پیش کئے ہیں اور بعد میں ان کے اندر جو عقلیت کا رجحان پایا جاتا ہے اس کی تردید میں اس کتاب سے زیادہ موزوں کوئی اور چیز نہیں۔’’
(قادیانیت صفحہ۳۶)
مولوی ابو الحسن صاحب کے اِس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وفات مسیح علیہ السلام اور ان کی اصالتًا آمد کے امتناع کو سُرمہ چشم آریہ کی عبارت سے ردّ کرنا چاہتے ہیں اور خود صدیوں سے انہیں آسمان پر زندہ مانتے ہیں اور ان کے اصالتًا نزول کے قائل ہیں۔ اُن کا یہ بیان درست سمجھا جائے تو ختمِ نبوّت کی بحث میں ڈاکٹر اقبال کی پیروی میں انہوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کی تردید کے لئے ان کا صرف مندرجہ بالا اقتباس ہی کافی و وافی ہے۔ جب وہ حیات مسیح اور مسیح کے اصالتًا نزول کے قائل ہیں تو ختم نبوّت کا یہ مفہوم باطل ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم علی الاطلاق آخری نبی ہیں بلکہ انہیں ہماری طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو آخری تشریعی نبی ماننا پڑا۔ جب احادیث نبویہ میں مسیح موعود پر وحی کے نزول کا ذکر بھی موجود ہے تو ان کا یہ بیان بھی باطل ہو گیا کہ بقاءِ وحی اور مکالمات و مخاطبات الٰہیہ سے ختم نبوّت کی بجائے سلسلۂ نبوّت کے انکار کی روح نظر آئے گی۔ اب اگر اپنے مزعوم مسیح موعود پر وحی کے نزول کو وہ اس حیثیت کا نہیں جانتے کہ اس سے سلسلۂ نبوّت کے انکار کی روح نظر آتی ہے تو پھر بانیٔ سلسلہ احمدیہ پر اُن کے اعتراض کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے وفات مسیح کو صرف عقلی دلائل سے ہی ثابت نہیں کیا بلکہ آیاتِ قرآنیہ اور نصوصِ حدیثیہ سے ثابت کرنے کے بعد عقلی دلائل کو محض تائیدی طور پر پیش کیا ہے۔ اس بحث کا انحصار محض عقلی دلائل پر نہیں رکھا۔ یہی حال شق القمر کے معجزہ کا ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوا۔ چونکہ عقل معجزات کا احاطہ نہیں کر سکتی اس لئے انسان کی محدود عقل کی رو سے اُسے ردّ نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع و نزول کے کہیں معجزہ قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ یہود کے بارہ میں فرمایا ہے مَكَرُوْا وَمَكَرَ اللّٰهُ وَاللّٰهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (اٰل عمران:۵۵)کہ یہود نے مسیح کو صلیب پر مارنے کی تدبیر کی اور اللہ نے بچانے کی تدبیر کی اور اللہ بہتر ہے تدبیر کرنے والوں سے۔ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے معاملہ میں خدا نے تدبیر سے کام لیا نہ کسی معجزہ سے ۔ فتدبّر۔
مکالمات کے سرچشمہ کی تعیین
مولوی ابو الحسن صاحب اپنی کتاب کے باب چہارم کی فصل دوم کے آخر میں ‘‘مکالمات کے سرچشمہ کا تعین’’ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:۔
‘‘پھر ان مکالمات و مخاطباتِ الٰہیہ کی تنقید کا کیا معیار ہے؟ اور اس کی کیا ضمانت ہے کہ انسان جو کچھ سن رہا ہے وہ خود اس کے باطن کی آواز یا اس کے ماحول اور تربیت کی صدائے بازگشت یا اس کی اندرونی خواہشات اور سوسائٹی کے اثرات کا نتیجہ نہیں…… خود مرزا صاحب کے مکالمات و مخاطبات کا کتنا حصہ ان کے زمانہ ماحول اور تربیت کے تحت الشعور اثرات کا نتیجہ اور اس انحطاط پذیر اور مائل بزوال معاشرے کا عکس معلوم ہوتا ہے جس میں کہ انہوں نے نشو و نما پایا اور جس میں وہ اپنی دعوت لے کر کھڑے ہوئے بلکہ کتنا بڑا حصہ وہ ہے جس کے متعلق ایک مبصر کو جو ہندوستان کی سیاسی تاریخ سے واقف ہے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا سرچشمہ عالم غیب کی بجائے ہندوستان کا سیاسی اقتدار اعلیٰ ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۹۷، ۱۹۸)
یہ لکھنے کے بعد مولوی ابوالحسن صاحب نے ڈاکٹر اقبال صاحب کا ایک اقتباس بطور مبصّر ہندوستان کے درج کیا ہے جو یوں ہے کہ:۔
‘‘میں یہ ضرور کہوں گا کہ بانیٔ احمدیّت نے ایک آواز سنی، اِس امر کا تصفیہ کہ یہ آواز اس خدا کی طرف سے تھی جس کے ہاتھ میں زندگی اور طاقت ہے یا لوگوں کے روحانی افلاس سے پیدا ہوئی۔ اس تحریک کی نوعیت پر منحصر ہونا چاہئے جو اس آواز کی آفریدہ ہے اور ان افکار و جذبات پر بھی جو اس آواز نے اپنے سننے والوں میں پیدا کئے ہیں …… جب کسی قوم کی زندگی میں انحطاط شروع ہو جاتا ہے تو انحطاط ہی الہام کا مأخذ بن جاتا ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۱۹۸ بحوالہ حرفِ اقبال صفحہ ۱۵۷، ۱۵۸)
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی اور ڈاکٹر اقبال صاحب دونوں کے مندرجہ بالا اقتباسات کسی صحیح فلسفہ پر مبنی نہیں بلکہ محض ایک سفسطہ ہیں اور وہم کی پیداوار ہیں کہ مکالماتِ خداوندی کا تجزیہ کرتے ہوئے کسی زمانہ میں اگر روحانیت کا افلاس اور زوال نظر آئے تو سمجھ لینا چاہئے کہ ان مکالمات کا سرچشمہ خدا تعالیٰ نہیں بلکہ قوم کا روحانی افلاس اور کسی دوسری قوم کا اقتدارِ اعلیٰ ہے۔ اگر اس وہم کو درست مان لیا جائے تو اس سے ان تمام انبیاء کرام کے مکالمات و مخاطباتِ الٰہیہ مشکوک ہو جاتے ہیں جو ایسے زمانہ میں مبعوث ہوئے جبکہ روحانیت ان کی قوم سے زائل ہو چکی تھی یا رو بزوال تھی اور وہ قوم اور وہ نبی دوسری قوم کے اقتدارِ اعلیٰ کے تحت زندگی بسر کر رہے تھے۔
ایک ضروری سوال
اِس جگہ ایک نہایت ضروری سوال پیدا ہوتا ہے۔ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی بتائیں کہ حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیھم السلام کے الہامات کے سرچشمہ کے متعلق اُن کا کیا خیال ہے جبکہ خود یہ نبی اور ان کی قوم یہود رومن حکومت کے اقتدار اعلیٰ کے تحت زندگی بسر کر رہی تھی۔ اور روحانی لحاظ سے بھی افلاس میں مبتلا تھی۔ حضرت بانیٔ سلسلہ تو اپنے آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مثیل ہی قرار دیتے ہیں۔ اگر مثیل کی قوم کے روحانی افلاس اور انگریزی حکومت کے اقتدار اعلیٰ کو ان کے الہامات کا سرچشمہ قرار دیا جائے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اُن تمام نبیوں کی نبوّت مشکوک ہو کر رہ جائے گی جو قوم کے روحانی افلاس کے وقت مبعوث ہوئے اور ان کی قوم اس وقت اقتدارِ اعلیٰ سے محروم تھی اور وہ انبیاء خود بھی اس دوسری اقتدارِ اعلیٰ رکھنے والی قوم کے ماتحت زندگی بسر کرتے رہے۔
پھر جب ہمارے پیارے نبی سرورِ انبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے تو اس وقت ساری دنیا روحانی افلاس میں مبتلا تھی۔عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معبود مان رہے تھے اور یہودی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انکار کی لعنت کے نیچے روحانی افلاس کا شکار تھے۔ ہندوستانی ہندو تنتیس کروڑ دیوتاؤں کی پوجا کر کررہے تھے۔ ایرانی آتش پرست تھے۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایسے زمانہ میں مبعوث ہوئے جو خدا کے قول کے مطابق ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ کا مصداق تھا۔ اس زمانہ کا یہ روحانی افلاس اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو ایک عظیم الشان نبی کی بعثت کا تقاضا کر رہا تھا چنانچہ اس نے اس انتہائی گمراہی اور روحانی افلاس کے زمانہ میں جو ساری دنیا میں پایا جا رہا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمایا۔ اس وقت مکّہ کا اقتدارِ اعلیٰ مشرکین مکّہکے ہاتھ میں تھا۔ اپنے زمانہ کے اقتدارِ اعلیٰ کے خلاف نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عَلَمِ بغاوت بلند کیانہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول انجیل میں درج ہے کہ جو قیصر کاہے وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو۔ اس میں اشارہ تھا کہ مَیں قیصر کا باغی نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مکہ والوں کے نامناسب رویّہ کے بعد جب طائف میں تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں نے بھی آپ سے انتہائی بُرا سلوک کیا۔ آپ کی پنڈلیاں لہولہان کر دیں اور آپ کے پیچھے بچے لگا دیئے جو آوازے کستے تھے۔ جب آپ واپس مکّہ مکرمہ میں داخل ہونے کے لئے تشریف لائے تو مکّہ والوں نے آپؐ کا حقِ شہریت چھین لیا۔ لیکن آپؐ نے ان کے قانون کو نہیں توڑا۔ بلکہ ایک مشرک کی حمایت سے مکہ میں داخل ہوئے اور اس طرح دوبارہ شہریت کے حقوق حاصل کئے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ والوں کے ظلم سے تنگ آکر جب وہ آپ کی جان لینے کے درپے ہو گئے تو خدا کے حکم کے تحت مدینہ منورہ میں ہجرت فرمائی اور وہاں جا کر آپؐ کو خدا کے فضل سے اقتدارِ اعلیٰ حاصل ہو گیا کیونکہ آپؐ تشریعی نبی تھے۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی ساری عمر اقتدارِ اعلیٰ سے محروم رہے۔ مولوی ابوالحسن صاحب ان سب نبیوں کے بارہ میں یہ کہنے کو تیار نہیں ہو سکتے کہ ان کے کچھ الہامات کا سرچشمہ خدا کی قوت نہ تھی بلکہ اُن کے زمانہ کا روحانی افلاس اور اقتدارِ اعلیٰ کا نہ رکھنا تھا۔ اسی طرح ہزاروں انبیاء اقتدارِ اعلیٰ کے بغیر مبعوث ہوئے اور مولوی ابو الحسن صاحب ان کے الہامات کا سرچشمہ خدا کی قوت کو ہی جانتے ہیں تو پھر یہ کس قدر بے انصافی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کا سرچشمہ وہ خدا کی قوت کو نہیں جانتے بلکہ قوم کے روحانی افلاس اور اقتدارِ اعلیٰ سے محرومی کو آپ کے الہامات کاسرچشمہ قرار دینا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر اقبال صاحب نے اپنے ایک شعر میں بھی اپنے اس وہم کو پیش کرتے ہوئے لکھا تھا
محکوم کے الہام سے اللہ بچائے
غارت گرِ اقوام ہے وہ صورتِ چنگیز
اس پر مولوی اسلم صاحب جیرا جپوری نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا:۔
‘‘یہ خالص شاعرانہ استدلال ہے غالب کی طرح جس نےکہا ہے
کیوں ردّ قدح کرے ہے زاہد
مے ہے مگس کی قے نہیں ہے
جس طرح مگس کی قے کہہ دینے سے شہد کی لطافت اور شیرینی میں فرق نہیں آسکتا اسی طرح محکومیت کی نسبت سے الہام بھی اگر حق ہو غارت گرِ اقوام نہیں ہو سکتا۔ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام رومی سلطنت کے محکوم تھے جن کی نسبت ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے ۔
فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا
نبی عفت و غمخواری و کم آزاری
جب کہ اکثر انبیاء علیھم السلام محکوم اقوام میں مبعوث کئے گئے جن کے خاص اسباب و علل تھے جس کے بیان کی یہاں گنجائش نہیں۔ دراصل نبوّت کی صداقت کا معیار حاکمیت یا محکومیت نہیں بلکہ خود الہام کی نوعیت ہے۔’’
(نوادرات صفحہ ۱۲۳،۱۲۴ مجموعہ مضامین اسلم جیراجپوری)
الہامات کو پرکھنے کے قرآنی معیار
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ کے لوگ بھی آپ کے الہامی دعویٰ کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان میں سے بعض قرآن مجید کے کلام الٰہی کو شاعرانہ کلام قرار دیتے تھے اور بعض اس کا سرچشمہ کہانت کو قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحاقہ میں ان ہر دو خیالات کو رد کرتے ہوئے قرآن مجید کو کلام الٰہی قرار دیا۔ چنانچہ فرمایا:۔
(۱)۔مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ۞ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُونَ۞تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِينَ۞ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ۞ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ۞ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ ۞ فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ۞ وَإِنَّهٗ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ ۞ وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنْكُمْ مُّكَذِّبِينَ ۞ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكَافِرِينَ۞وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ ۞ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ ۞
(الحاقۃ۴۲تا ۵۳)
ترجمہ۔ یہ قرآن کسی شاعر کا کلام نہیں مگر تم کم ہی ایمان لاتے ہو۔ نہ یہ کسی کاہن کا کلام ہے۔ تم کم ہی نصیحت حاصل کر تے ہو۔ یہ ربّ العالمین خدا کی طرف سے اتارا گیا ہے اور اگر یہ شخص (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) ہم پر کوئی جھوٹا قول باندھ لیتا تو ہم اسے یقینا دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے پھر ہم اُس کی رگِ گردن کاٹ دیتے۔ سو تم میں سے کوئی بھی خدا کو اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔ یہ تو یقیناپرہیزگاروں کے لئے نصیحت ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے بعض جھٹلانے والے ہیں اور یقینا وہ کافروں کے لئے حسرت کا موجب ہے۔اور اس کی سچائی حق الیقین کی طرح ظاہر ہے۔ پس تو (اے نبی!) اپنے عظمت والے ربّ کے نام کی تسبیح کرتا رہ۔
اِن آیات سے ظاہر ہے کہ جب قرآن مجید کودنیا کے روحانی افلاس کو دور کرنے کے لئے نازل کیا گیا تو اس کے متعلق بعض لوگ سخت بدظنی میں مبتلا تھے۔ بعض اسے شاعرانہ کلام کہتے تھے اور بعض کہانت کی باتیں قرار دیتے تھے۔ اور اس کا سرچشمہ خدا کی قوت کو قرار نہیں دیتے تھے۔ اِس پر خدا تعالیٰ نے اس کے اپنی طرف سے نازل شدہ وحی ہونے کی دلیل یہ دی کہ اگر یہ مدعی وحی کوئی قول اپنی طرف سے گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کرتا تو ہم اپنی قدرت کے ہاتھ سے اس مدعی کو ناکام کر دیتے اور پھر اس کی رگِ گردن کاٹ دیتے اور تم میں سے کوئی شخص اسے میرے ہاتھ سے بچا نہ سکتا۔ لہذا چونکہ اس مدعیٔ وحی الٰہی نے اپنے دعویٰ کے بعد تئیس سال کی لمبی عمر پائی ہے اور ایک کامیاب زندگی گزاری ہے اور یہ قتل کیا جانے سے بچایا گیا ہے لہذا اس کی وحی کا سرچشمہ یقینا خدا تعالیٰ کی قوتِ تکلّم ہے۔
اب اسی معیار پر جب ہم حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے الہامات کو پرکھتے ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ اپنے الہامی دعویٰ کے بعد انہوں نے بھی ۲۳ سال سے زائد عرصہ مہلت پائی ہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں اور قتل کیا جانے سے بچائے گئے ہیں۔ لہذا ان کے الہامات کا سرچشمہ بھی اللہ تعالیٰ کی قوتِ تکلم کو قرار دینا پڑے گا۔ اگر ان کے الہامات کا سرچشمہ خدا تعالیٰکے سوا کسی اور شے کو قرار دیا جائے تو یہ آیت معاذ اللہ دشمنانِ اسلام کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت پر دلیل نہیں رہے گی۔ کیونکہ اے مولوی ابو الحسن صاحب! ایک مخالف اسلام آپ کو کہہ سکے گا کہ جب اِس معیارِ صداقت کی موجودگی میں تم لوگ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے الہامات کا سرچشمہ خدا تعالیٰ کی قوتِ تکلّم کو قرار نہیں دیتے اور ان کی تکذیب کرتے ہو تو پھر تم کس منہ سے اس دلیل کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس دعویٰ کے ثبوت میں پیش کر سکتے ہو کہ آپؐ پر قرآنِ مجید خداوند تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے؟ پس اگر آپ حضرت بانیٔ احمدیت علیہ السلام کے الہامات کے منجانب اللہ ہونے سے انکار کریں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں یہ دلیل قرآنی آپ کے ہاتھ سے جاتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بڑے شَدّ و مَدّ سے قرآنِ مجید کی ان آیات میں قرآنِ مجید کے منجانب اللہ ہونے کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔
پس حضرت بانیٔ احمدیت علیہ السلام کا انکار کوئی معمولی بات نہیں کیونکہ ان کے انکار کی صورت میں قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے کے حق میں یہ دلیل بھی منکرینِ اسلام کے نزدیک حجّت نہیں رہے گی۔ لہذامولوی ابو الحسن صاحب کو اپنا نفع نقصان سوچنا چاہئے اور آنکھیں بند کر کے ڈاکٹر اقبال کے اس شاعرانہ تخیّل کو کہ روحانی افلاس کے زمانہ کے الہام اور محکوم کے الہام کا سرچشمہ اللہ نہیں ہو سکتا قبول کر کے تمام انبیاء ِکرام علیہم السلام کے انکار کرنے والوں کے لئے انکار کی ر اہ ہموار نہیں کرنی چاہئے جو اُن پر نازل شدہ وحی کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
(۲)قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
وَالَّذِيْنَ يُحَآجُّوْنَ فِي اللّٰهِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِيْبَ لَهٗ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَّلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۔
(الشورىٰ:۱۷)
ترجمہ۔ وہ لوگ جو اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں بعد اس کے کہ اُسے قبولیت حاصل ہو چکی یعنی بہت سے لوگوں نے اُسے قبول کر لیا ان کی دلیل ان کے رب کے حضور توڑی جانے والی ہے اور ان پر غضب نازل ہو گا اور ان کے لئے سخت عذاب مقدّر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں یہ بتایا ہے کہ جب اسلام کو ایک بڑی تعداد نے قبول کر لیا ہے تو اس کے مقابلہ میں منکرین کی حجت اللہ کے حضورکامیاب نہیں ہو گی بلکہ توڑ دی جائے گی اور وہ ناکام رہیں گے اور عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ پس ہر وہ سلسلہ جس کا داعی خدا تعالیٰ کی طرف مامور ہونے کا دعویٰ کرے اور دنیا میں اُسے قبولیت حاصل ہو جائے تو یہسمجھا جانا چاہئے کہ یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم ہوا ہے۔ اس کی مخالفت کرنے والوں کی دلیل اللہ کے حضور کوئی وزن نہیں رکھتی۔ وہ انجام کار ناکام رہیں گے اور ان کی ساری بحثیں بیکار ہو جائیں گی۔
اِس آیت میں بھی سچائی کو پرکھنے کے لئے ایک روشن معیار بیان کیا گیا ہے۔ اسلام میں جب غلط خیالات راہ پا گئے تو خدا تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا کہ مسیح موعود علیہ السلام کو بھیج کر اس کی تجدید کی جائے۔ علماءِ اسلام مسیح موعود کا آنا تو مانتے تھے مگر وہ اس غلطی میں مبتلا تھے کہ مسیح موعود حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے آخری زمانہ میں دوبارہ بھیجنے کے لئے آسمان پر زندہ اٹھا لیا۔ وہ جب آسمان سے نازل ہوں گے تو ان کے ذریعہ اسلام کی نشأۃِ ثانیہ ہو گی اور اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک اُمّتی اور فرزندِ جلیل ہیں مسیح موعود قرار دے دیا اور آپ پر الہامًا واضح فرما دیا کہ ‘‘مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔(تذکرۃصفحہ۱۴۸،ایڈیشن ۲۰۰۴)’’علماء آپ کی مخالفت پر کمربستہ ہو گئے اس وجہ سے کہ ان کے نزدیک حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ کا یہ دعویٰ اس لئے باطل تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں اور وہ اصالتًا آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔اس پر حیات و وفاتِ مسیح پر بحثیں چلیں۔ اور آج یہ حال ہے کہ جماعت احمدیہ اکنافِ عالم میں پھیل چکی ہے اور وہ وفاتِ مسیح کی قائل ہے اور مسیح موعود کے نزول کی پیشگوئی کا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے وجود میں پورا ہونا مانتی ہے اور لکھوکھہا پڑھے لکھے مسلمان بھی حیاتِ مسیح کے عقیدہ کو چھوڑ چکے ہیں حتّٰی کہ ڈاکٹر اقبال صاحب جن کے اقتباسات مولوی ابو الحسن صاحب اپنی کتاب ‘‘قادیانیت’’ میں پیش کر چکے ہیں وفات مسیح کے قائل تھے اور انہوں نے احمدیوں کے اس عقیدہ کو کہ حضرت مسیح کے نزول سے مراد یہ ہے کہ کوئی اور شخص اُن کے رنگ میں رنگین ہو کر آئے گامعقولیت کا پہلو رکھنے والا قرار دیا ہے۔ گو سیاست کے چکر میں پڑ جانے پر وہ حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ کو مسیح موعود ماننے سے انکار کر گئے۔ سیاست کے چکر میں پڑنے سے پہلے انہوں نے بیان کیا تھا۔
‘‘جہاں تک مَیں نے اس تحریک کی منشاء کو سمجھا ہے احمدیوں کا یہ اعتقاد ہے کہ مسیح کی موت ایک عام فانی انسان کی موت تھی اور رَجعتِ مسیح گویا ایسے شخص کی آمد ہے جو روحانی حیثیت سے اُس کے مشابہ ہو اِس خیال سے یہ تحریک معقولی رنگ رکھتی ہے۔’’
(خطبات مدراس)
مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم، ڈاکٹر انعام اللہ خان سالاری بلوچستان کے ایک استفسار مرقومہ ۶ـاپریل۱۹۵۶ء کے جواب میں لکھتے ہیں:۔
‘‘وفاتِ مسیح ؑ کا ذکر خود قرآنِ مجید میں ہے۔ مرزا صاحب کی تعریف اور بُرائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔’’
(ملفوظاتِ آزاد مرتبہ محمد اجمل خان صفحہ ۱۲۹، ۱۳۰ مطبوعہ مکتبہ ماحول کراچی)
نواب اعظم یار جنگ مولوی چراغ علی صاحب آیت یٰعِیْسیٰٓ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ (اٰل عمران:۵۶) اور آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ (المائدۃ:۱۱۸)کے بارہ میں لکھتے ہیں۔ ان دونوں آیتوں میں وفات کا ذکر ہے اور یہ موت کی دلیل ہے۔
(انتخاب مضامین تہذیب الاخلاق جلد سوم صفحہ ۲۱۱ تا۲۱۳ مطبوعہ ۱۸۹۶ء)
مولانا عبید اللہ سندھی اپنی تفسیر الہام الرحمٰن فی تفسیر القرآن الجزء الثانی صفحہ ۴۹ پر عربی زبان میں لکھتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے:۔
‘‘مُتَوَفِّیْکَکے معنی ہیں مَیں تجھے موت دوں گا اور عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بارہ میں جو کچھ لوگوں میں مشہور ہے وہ ایک یہودی اور صابی افسانہ ہے…… یہ بات مخفی نہیں کہ علومِ اسلامی کا مَرجع قرآنِ عظیم ہے اور اس میں ایک آیت بھی ایسی نہیں جو صراحت کے ساتھ ثابت کرتی ہو کہ عیسیٰ علیہ السلام نے وفات نہیں پائی اور کہ وہ زندہ ہیں اور عنقریب نازل ہوں گے۔ سوائے (بعض لوگوں کے) استنباطات اور تفاسیر کے اور یہ آراء و استدلالات شک و شبہ سے بالا نہیں ہیں۔ پس ان کو ایک اسلامی عقیدہ کی بنیاد کس طرح مانا جا سکتا ہے؟’’
سرسید احمد خان بانی علی گڑھ یونیورسٹی بھی وفاتِ مسیحؑ کے قائل تھے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘اب ہم کو قرآنِ مجید پر غور کرنا چاہئے کہ اس میں کیا لکھا ہے قرآنِ مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے متعلق چار جگہ ذکر آیا ہے…… پہلی تین آیتوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا طبعی موت سے وفات پا جانا ظاہر ہے مگر چونکہ علماءِ اسلام نے بتقلید بعض فِرقِ نصاریٰ کے قبل اس کے کہ قرآن پر غور کریں یہ تسلیم کر لیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں۔ اس لئے انہوں نے ان آیتوں کے بعض الفاظ کو اپنی غیر محقّق تسلیم کے مطابق کرنے کی کوشش کی۔’’(پوری تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر احمدی مصنفہ سر سیداحمد خان، جلد۲ صفحہ ۴۸)
علماءِ عرب میں سے بھی کئی علماء نے وفات مسیح کا اعتراف کیا ہے بلکہ حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی اِس تحقیق کی بھی تصدیق کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کشمیر کی طرف ہجرت کی اور وہاں وفات پائی۔ چنانچہ علامہ رشید رضا سابق مفتی مصراور ایڈیٹر رسالہ المنار ‘‘القول بھجرۃ المسیح الی الھند و موتہ فی بلدۃ سرینکر فی کشمیر’’کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:۔
‘‘ففرارہ الی الھند و موتہ فی ذالک البلدۃ لیس ببعید عقلا و نقلا۔’’
(رسالہ المنار جلد۵ صفحہ۹۰۰ ،۹۰۱)
ترجمہ۔ مسیح کا ہندوستان ہجرت کر جانا اور شہر سرینگر میں وفات پانا عقل و نقل کی رو سے بعید نہیں۔
علّامہ مفتی محمد عبدہ نے اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ کے معنوں کی تائید میں لکھا ہے:۔
‘‘التوفی ھو الاماتۃ کما ھو الظاھر المتبادر’’
کہ یہاں توفّی سے موت مراد ہے اور ظاہر اور متبادر الفہم یہی معنی ہیں۔
الاستاذ محمود شَلتوت سابق مفتی مصر اور منتظم اعلیٰ ازہر یونیورسٹی قاہرہ نے اپنے ایک فتویٰ میں تفصیلی طور پر وفاتِ مسیح پر بحث کی ہے جس کا خلاصہ یہ لکھا ہے:۔
(۱)‘‘انہ لیس فی القراٰن الکریم ولا فی السنۃ المطھرۃ مستند یصلح لتکوین عقیدۃ یطمئن الیھا القلب باَنّ عیسیٰ رفع بجسدہ الی السماء وانہ الی الاٰن فیھا’’۔
(۲)‘‘ان کل ما تفید الایات الواردۃ فی ھذا الشّان ھو وعد اللہ عیسیٰ بانہ ھو متوفیہ اجلہ و رافعہ الیہ و عاصمہ من الذین کفروا وان ھذا الوعد قد تحقّق و لم یقتلہ اعداءہ و لم یصلّبوہ و لٰکن وفّاہ اللّٰہ اجلہ و رفعہ الیہ’’۔
(الرسالۃ ۱۵ـمئی ۱۹۴۲ء جلد۱ صفحہ ۶۴۲ والفتاوی ٰعلّامہ محمود شلتوت
مطبوعہ الادارۃ للثقافۃ الاسلامیۃ بالازھر)
ترجمہ۔(۱) قرآنِ کریم اور سُنّت مطہّرہ میں کوئی ایسی مستند نص نہیں ہے جو اِس عقیدہ کی بنیاد بن سکے اور جس پر دل مطمئن ہو سکے کہ عیسیٰ علیہ السلام مع اپنے جسم کے آسمان پر اٹھائے گئے اور وہ اب تک وہاں زندہ موجود ہیں۔
(۲)اس بارہ میں جتنی آیات (قرآنِ کریم میں) وارد ہیں ان کا مفاد صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عیسیٰ علیہ السلام سے وعدہ تھا کہ وہ خود اُن کی عمر پوری کر کے وفات دے گا اور اُن کا اپنی طرف رفع کرے گا اور اُنہیں اُن کے منکرین سے محفوظ رکھے گا اور یہ وعدہ پورا ہو چکا ہے چنانچہ اُن کے دشمنوں نے نہ انہیں قتل کیا، نہ صلیب پر مار سکے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مقدرعمر پوری کی اور پھر ان کا رفع اپنی طرف کیا۔
علّامہ الاستاذ احمد العجوز اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں جس کا عکس ہمارے پاس موجود ہے:۔
ان السید المسیح قد مات فی الارض حسب قول اللّٰہ تعالٰی ‘‘اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ اَیْ مُمِیْتُکَ’’ والموت امر کائن لا محالۃ اذ قال اللّٰہ عن لسانہ‘‘ وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ’’
ترجمہ۔ یقینا سیدنا مسیح زمین میں وفات پا چکے ہیں اللہ تعالیٰ کے قولاِنِّی مُتَوَفِّیْکَکے مطابق جس کے معنی ہیں کہ میں تجھے موت دینے والا ہوں۔ اور موت بہرحال واقع ہونے والی چیز ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے مسیح کی زبان سے فرمایا کہ سلامتی ہو مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا۔
الاستاذ مصطفیٰ المراغی اپنی تفسیر میں زیر آیت یٰعِیْسیٰٓ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَلکھتے ہیں:۔
التّوفّی ھو الاماتۃ العادیۃ وان الرفع بعدہ للروح و المعنیٰ اِنِّیْ مُمِیْتُکَ و جاعلک بعد الموت فی مکان رفیع عندی۔
(التفسیر المراغی الجزء الثالث صفحہ ۱۶۵)
ترجمہ۔ توفّی سے روزمرہ کی موت مراد ہے اوررَفع موت کے بعد روح کا ہوا ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ میں تجھے موت دوں گا اور موت کے بعد تجھے اپنے حضور بلند مرتبہ پر فائز کروں گا۔
اسی طرح الاستاذ عبد الکریم شریف اور الاستاذ عبد الوہاب النجّار اور ڈاکٹر احمد زکی ابو شادی وغیرہ علماء نے وفاتِ مسیح کے ثبوت میں مضامین لکھے ہیں:۔
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا یہ مسلک کہ آپ روحانی حیثیت میں عیسیٰ علیہ السلام کے مثیل ہو کر نزولِ مسیح کی پیشگوئیوں کے مصداق ہیں ایک صحیح مسلک ہے۔ کیونکہ وفات مسیح ثابت ہو جانے کے بعد نزولِ مسیح کی پیشگوئی کی یہی تعبیر تسلیم کی جا سکتی ہے کہ موعود مسیح اُمّت محمدیہ میں سے پیدا ہونے والا تھا۔ چنانچہ مسلمانوں کا ایک طبقہ اسی عقیدہ کا قائل چلا آیا ہے۔ جیسا کہ اقتباس الانوار صفحہ ۵۲ میں امام مہدی کو ہی بُروز کے طور پر نزولِ عیسیٰ کی پیشگوئی کا حسب حدیث لَا مھدیّ اِلّا عیسیٰ مصداق قرار دیا گیا ہے اور خریدۃ العجائب اور فریدۃ الرغائب صفحہ ۲۶۳ مطبوعہ مصطفیٰ البابی الحلبی و اولادہ بمصر طبع ثانیہ میں صاف لکھا ہے:۔
‘‘قَالَتْ فِرْقَۃٌ نُزُوْلُ عِیْسیٰ خُرُوْجُ رَجُلٍ یُشَبِّہُ عِیْسیٰ فِی الفَضْلِ وَالشَّرَفِ کَمَا یُقَالُ لِلرَّجُلِ الخَیْرِ مَلَکٌ وَلِلشَّرِیْرِ شَیْطَانٌ تَشْبِیْھًا بِھِمَا وَلَا یُرَادُ الْاَعْیَانُ’’
ترجمہ۔ ایک گروہ نے نزولِ عیسیٰ سے ایک ایسے شخص کا ظہور مراد لیا ہے جو فضل و شرف میں عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہ ہو گا جیسے تشبیہ دینے کے لئے نیک آدمی کو فرشتہ اور شریر کو شیطان کہتے ہیں مگر اس سےمراد فرشتہ یا شیطان کی ذات نہیں ہوتی۔
یہ ہر دو عقیدے جماعت احمدیہ کو مسلّم ہیں اور وہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو نزول مسیح کی پیشگوئی کا مصداق جانتی ہے اور اب وہ تمام اکنافِ عالم میں پھیل چکی ہے اور جماعت کے بہت سے نوجوان اپنی زندگیاں منظم طریق سے خدمتِ اسلام کے لئے وقف کر کے تبلیغِ اسلام کا فریضہ اطرافِ عالم میں بجا لا رہے ہیں۔ پس یہ سچائی دنیا میں قائم ہو چکی ہے و لو کرہ الکافرون۔ اور یہ امر اس بات کی دلیل ہے کہ مخالفین کی دلیل توڑ دی گئی ہے اور قرآن کریم کے اِس معیار کی رُو سے جو سورۂ شوریٰ کی آیت ۱۷ میں مذکورہے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی سچائی روزِ روشن کی طرح ثابت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر وفاتِ مسیح ؑ اور اپنے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں جو الہام ہوا اس کی سچائی دنیا میں مانی جا رہی ہے۔ اور قرآنِ مجید کی مندرجہ بالا دونوں آیتوں کی رو سے آپ کا یہ الہامی دعویٰ ثابت ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں اور آپؑ خدا تعالیٰ کے مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہیں۔ اور اس مکالمہ و مخاطبہ کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی قوتِ تکلّم ہے نہ کہ قوم کا روحانی افلاس یا انگریزوں کا اقتدارِ اعلیٰ، روحانی افلاس دُور کرنے کے لئے تو انبیاء بھیجے جاتے ہیں اور زمانہ کاروحانی افلاس تو ان کے مبعوث ہونے اور ان کی ضرورت کو ثابت کرتا ہے۔ اگر انگریزوں کا اقتدار ِاعلیٰ آپ کے الہامات کا سرچشمہ ہوتا تو پھر آپ حیاتِ مسیح کے قائل ہوتے نہ کہ اس بات کے قائل کہ مسیح صلیبی موت سے بچائے گئے اور انہوں نے کشمیر کی طرف ہجرت کی اور وہاں اپنی عمر کے ستاسی سال گزار کر وفات پائی یہ عقیدہ تو انگریزوں کے عقیدۂ صلیب کو پاش پاش کرنے والا ہے۔ کوئی عقلمند اس الہام کا سرچشمہ انگریزوں کے اقتدار اعلیٰ کو قرار نہیں دے سکتا۔ سوائے اس کے کہ وہ احمدیت کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنا چاہتا ہو، اور یہی مولوی ابو الحسن صاحب کا مقصد ہے۔
مسیح موعود کا مطمح نظر
واضح ہو کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑکا مقصد ہندوستان کا اقتدارِ اعلیٰ حاصل کرنے سے بلند تر اور وسیع تر تھا۔ آپؑ یہ پروگرام لے کر کھڑے ہوئے کہ یورپ، امریکہ، افریقہ بلکہ تمام دنیا کے دلوں پر حضرت سیدنا و مولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانی حکومت قائم کریں تا اسلام کا جھنڈا تمام اکنافِ عالم میں لہرائے۔ پس جس کا پروگرام ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنا ہو اس کی نظر میں انگریزوں سے لڑ کر ہندوستان کا اقتدار چھیننا ایک ادنیٰ بات ہے وہ شخص تو تمام دنیا میں اسلام کے اقتدارِ اعلیٰ کو قائم کرنے کا مشن رکھتا ہے۔ پس محض ہندوستان کے اقتدار اعلیٰ کو حاصل کرنا اور حکومت سے اُلجھ کر تبلیغ کے مقصد کو نقصان پہنچانا مناسب نہ تھا جبکہ انگریزی حکومت نے ہندوستان کے اندر مذہبی آزادی دے رکھی تھی اور تمام دنیا میں جہاں جہاں برٹش راج قائم تھا آپ کے لئے تبلیغ کے راستے کھل گئے تھے۔ پس حکومتِ وقت سے ٹکر لے کر اسلام کی تبلیغ ناممکن تھی۔ چونکہ آپ مثیلِ مسیح تھے اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح آپؑ کا پروگرام بھی محبت، آشتی، صلح اور رواداری سے لوگوں کو خدا کا پیغام پہنچانا تھا۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ نے تبلیغ اسلام کا پورا حق ادا کر دیا ہے اور وہ کبھی اس بارہ میں انگریزوں کے عقائد کی تردید سے خائف نہیں ہوئے۔ اُن کی سلطنت میں رہتے ہوئے آپ نے نہ صرف عیسائیوں کے صلیبی عقیدہ پر کاری ضربیں لگائیں بلکہ اُسے پاش پاش کر دیا ہے اور ملکہ وکٹوریہ کو جو ہندوستان میں اقتدارِ اعلیٰ رکھتی تھیں صلیبی عقیدہ کی تردید کر کے اسلام کی دعوت دی۔ کیا اُس جری اور بطلِ اسلام کا یہ کارنامہ دیکھ کر بھی مولوی ابو الحسن صاحب کو یہ سبق نہیں ملتا کہ وہ آپ کے الہامات کا سرچشمہ انگریزوں کے اقتدار اعلیٰ کو قرار نہ دیں؟ مگر وہ آنکھیں بند کر کے ڈاکٹر اقبال کے پیچھے چل پڑے ہیں جو کوئی مذہبی پیشوا نہ تھے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ایک وقت تک خود ڈاکٹر اقبال بھی انگریزوں کی قصیدہ خوانی میں رطب اللسان تھے اور حضرت بانیٔٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات کے بعد جو ۱۹۰۸ء میں ہوئی۔ جب انگریزی حکومت میں کمزوری کے آثار پیدا ہونے شروع ہوئے تو پھر وہ مدح خوانوں کی صف سے نکل گئے لیکن وہ انگریزوں سے تلوار کے ذریعہ حکومت نہیں لینا چاہتے تھے بلکہ آئینی طریق سے انگریزی حکومت کے اقتدارِ اعلیٰ کو ختم کرنے کے حامی تھے۔ انگریزوں کے اقتدارِ اعلیٰ کو ختم کرنے میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تربیت یافتہ اور منظم جماعت نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب قائد اعظم محمد علی جناح نے عبوری حکومت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تو اس وقت پاکستان بننے کا خیال موہوم بن کر رہ گیا۔ اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد (خلیفۃ المسیح الثانیؓ) خدا تعالیٰ کے ایماء پر دہلی میں جا بیٹھے اور نواب بھوپال کی وساطت سے قائداعظم کو اِس بات کا قائل کیا کہ عبوری حکومت میں شامل نہ ہونے سے پاکستان نہیں بن سکتا۔ قائد اعظم کے لئے عبوری حکومت میں اپنی پارٹی کو شامل کرنے میں اب وقار مانع تھا کیونکہ وہ اس کا بائیکاٹ کر چکے تھے۔ جب قائد اعظم نے اپنی اس مشکل کا اظہارکیا تو حضرت امام جماعت احمدیہ کی کوشش سے لارڈ ماونٹ بیٹن گورنر جنرل ہند سے یہ اعلان کروایا گیا کہ مسلم لیگ کے لئے اب بھی عبوری حکومت میں شامل ہونے کا راستہ کھُلا ہے۔ چونکہ قائد اعظم کو تیار کیا جاچکا تھا اس لئے اس اعلان کے ہوتے ہی قائد اعظم نے مسلم لیگ کو عبوری حکومت میں شامل کر دیا ۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان وجود میں آگیا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
اُس وقت صوبہ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی۔ جس میں ہندو بھی شامل تھے۔ اس کے وزیر اعظم خضر حیات خان تھے۔ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی کوشش سے اُن سے استعفٰی دلایا گیا۔ اگر حضرت امام جماعت احمدیہ کوشش نہ کرتے تو پاکستان بننے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوتا۔
اب میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ذیل میں ڈاکٹر اقبال کے برٹش گورنمنٹ کی مدح میں بہت سے اشعار میں سے چند منتخب اشعار اِس جگہ نقل کر دوں جس سے قارئین کرام اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ڈاکٹر اقبال بھی حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی زندگی میں انگریزوں کے مدح خوان تھے۔ ہم اُن پر منافقت کا الزام لگانے کی جرأت نہیں کر سکتے۔
ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر اقبال نے (اشکِ خون) دس صفحات کا ایک لمبا مرثیہ دس بندوں میں لکھا۔ اس میں لکھتے ہیں
میّت اٹھی ہے شاہ کی تعظیم کے لئے
اقبال اڑ کے خاک سرِ راہ گزار ہو
ملکہ وکٹوریہ کا انتقال۲۲ـ جنوری ۱۹۰۰ء کو ہوا۔ اتفاق سے اُس روز عید الفطر تھی اس لئے سر اقبال نے لکھا:۔
آئی اِدھر نشاط، اُدھرغم بھی آگیا
کل عید تھی تو آج محرّم بھی آگیا
(باقیاتِ اقبال صفحہ۷۴)
کہتے ہیں آج عید ہوتی ہے ہؤا کرے
اِس عید سے تو موت ہی آئے خدا کرے
اِس روز رنج و غم سے تو آسان تھی یہی
محشر کی صبح ہو نہ گئی آشکار آج
(باقیات اقبال صفحہ۷۶)
دل کا تو ذکر کیا ہے کہ دل کا قرار بھی
سیماب کی طرح سے ہؤا بے قرار آج
مثلِ سموم تھی یہ خبر کس کی موت کی
گلزارِ دل میں آکے لگے غم کے خارآج
اقلیمِ دل کی آہ شہنشاہ چل بسی
ماتم کدہ بنا ہے دلِ داغدار آج
(باقیاتِ اقبال صفحہ۷۷، ۷۸)
اے ہند تیری چاہنے والی گزر گئی
غم میں ترے کراہنے والی گزر گئی
دردِ اجل کی تاک بھی کیسی غضب کی تھی
انگشتری جو دل کے نگینوں کی تھی گئی
اے ہند تیرے سر سے اٹھا سایۂ خدا
اک غمگسار تیرے مکینوں کی تھی گئی
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۸۰، ۸۱)
لکھتا ہوں شعر دیدۂ خوں بار سے مگر
کاغذ کو رشکِ باغِ گلستاں کئے ہوئے
برطانیہ تُو آج گلے مل کے ہم سے رو
سامان بحر ریزیٔ طوفان لئے ہوئے
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۸۵، ۸۶)
شہرہ ہؤا جہاں میں یہ کسی کی وفات کا
ہے ہر ورق سیاہ بیاضِ حیات کا
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۸۸)
دونی تھی جن کی شان سے ہیروں کی آبرو
وہ آج کر گئے ہیں جہاں سے سفر کہیں
اے کوہِ نور تو نے تو دیکھے ہیں تاجور
دیکھا ہے اس طرح کا کوئی تاجور کہیں
دیتے ہیں تجھ کو دامن کہسار کی قسم
اس شان کا ملا ہے تجھے داد گر کہیں
بن کر چراغ سارے زمانے میں ڈھونڈنا
کہنا ہمیں بھی ایسا جو آئے نظر کہیں
تو کیا کسی پہ گوہرِ جاں تک نثار تھے
پیداجہاں میں ہوتے ہیں ایسے بشر کہیں
ہلتا ہے جس سے عرش یہ رونا اُسی کا ہے
زینت تھی جس سے تجھ کو جنازااسی کا ہے
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۸۹، ۹۰)
جس کا دلوں پہ راج ہو مرتا نہیں کبھی
صدیاں ہزار گردشِ دوراں گزاردے
وکٹوریہ نہ مُرد کہ نامِ نکو گزاشت
ہے زندگی یہی جسے پروردگار دے
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۹۱)
مرحوم کے نصیب ثوابِ جزیل ہو
ہاتھوں میں اپنے دامنِ صبرِ جمیل ہو
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۹۲)
انجمن حمایتِ اسلام کے جلسہ ۱۹۰۲ء میں ہزآنرسر میکورتھ ینگ لیفٹیننٹ گورنر پنجاب اور ڈائریکٹر سر رشتہ تعلیم پنجاب ڈبلیو بل تشریف لائے۔ اقبال نے اس موقع پر خیر مقدم کی نظم پڑھی جس کے چند اشعار ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:۔
خوشا نصیب وہ گوہر ہے آج زینتِ بزم
کہ جس کی شان سے ہے آبروئے تاج و سریر
وہ کون زیب دہِ تختِ صوبۂ پنجاب
کہ جس کے ہاتھ نے کی قصرِ عدل کی تعمیر
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۹۹)
جو بزم اپنی ہے طاعت کے رنگ میں رنگین
تو درس گاہِ رموز ِ وفا کی ہے تفسیر
اسی اصول کو ہم کیمیا سمجھتےہیں
نہیںہے غیرِ اطاعت جہان میں اکسیر
(باقیات اقبال صفحہ۱۰۰)
دسمبر۱۹۱۱ء میں شہنشاہ جارج پنجم کی تاجپوشی کے موقع پر یادگار کے طور پر ‘‘ہمارا تاجدار’’ نظم لکھ کر پڑھی:۔
ہمائے اوجِ سعادت ہو آشکار اپنا
کہ تاج پوش ہوا آج تاجدار اپنا
اِسی کے دم سے ہے عزت ہماری قوموں میں
اِسی کے نام سے قائم ہے اعتبار اپنا
اِسی سے عہد وفاہندیوں نےباندھا ہے
اِسی کے خاکِ قدم پر ہے دل نثار اپنا
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۲۰۶ بحوالہ مخزن جنوری ۱۹۱۲ء)
جنگِ عظیم کے دوران سر مائیکل اڈوائر گورنر پنجاب کی فرمائش پر ایک نظم لکھی جو ۱۹۱۸ کے ایک مشاعرہ میں پڑھی گئی۔ اس میں سے چند شعر ملاحظہ ہوں
وقت آگیاکہ گرم ہو میدان کارزار
پنجاب ہے مخاطبِ پیغام شہریار
اہل وفا کے جو ہرِ پنہاں ہوں آشکار
معمور ہو سپاہ سے پہنائے روزگار
تاجر کازر ہو اور سپاہی کا زور ہو
غالب جہاں میں سطوتِ شاہی کا زور ہو
اہل وفا کا کام ہے دنیا میں سوز و ساز
بے نور ہے وہ شمع جو ہوتی نہیں گداز
پردے میں موت کے ہے نہاں زندگی کا راز
سرمایۂ حقیقتِ کبریٰ ہے یہ مجاز
سمجھو توموت ایک مقامِ حیات ہے
قوموں کے واسطے یہ پیامِ حیات ہے
اخلاص بے غرض ہے صداقت بھی بے غرض
خدمت بھی بے غرض ہے اطاعت بھی بے غرض
عہدِوفا و مہر و محبت بھی بے غرض
تخت شہنشہی سے عقیدت بھی بے غرض
لیکن خیالِ فطرت انساں ضرور ہے
ہندوستاں پہ لطف نمایاں ضرور ہے
جب تک چمن کی جلوۂ گل پر اساس ہے
جب تک فروغ لالہ احمر لباس ہے
جب تک نسیم صبح عنادل کو راس ہے
جب تک کلی کو قطرۂ شبنم کی پیاس ہے
قائم رہے حکومتِ آئین اسی طرح
دبتار ہے چکور سے شاہیں اسی طرح
(باقیاتِ اقبال صفحہ ۲۱۶تا ۲۱۹)
ہماری نصیحت
ہم مولوی ابو الحسن صاحب کو خیر خواہانہ مشورہ دیتے ہیں کہ خدائی فیصلہ سے ٹکر نہ لیں۔ جس مسیح موعود کا بھیجنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئی میں مقصود تھا وہ آچکا اور یقینا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ادیانِ باطلہ پر غلبہ کا آپ کے ذریعہ ہی پورا ہو گا۔ آپ فرماتے ہیں:۔
لوائے ما پنہِ ہر سعید خواہد بود
ندائے فتحِ نمایاں بنامِ ما باشد
مسیح موعودؑ کی سترہ پیشگوئیاں ایک غیر جانبدار محّقق کے قلم سے
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔
سَنُرِيْهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِيْ أَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ
(حٰمٓ السّجدۃ: ۵۴)
ترجمہ۔ ہم ان لوگوں کو نشانات آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے نفسوں میں بھی۔ یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ سچ ہے۔
اِس آیت میں نشانات سےمراد وہ امور غیبیہ ہیں جو مامور من اللہ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی تائید و نصرت کے لئے عطا ہوتے ہیں۔ یہ امور غیبیہ خدا تعالیٰ کے خالص غیب پر مشتمل ہوتے ہیں جن میں قیاس اور تخمینے کا کوئی دخل متصور نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:۔
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ إِلَّا هُوَ ۔
(الانعام :۶۰)
یعنی الغیب کی کنجیاں خدا کے پاس ہیں۔ اسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ البتہ وہ فرماتا ہے:۔
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضىٰ مِنْ رَّسُولٍ۔
(الجنّ:۲۷،۲۸)
یعنی خدا عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو کثرت سے اطلاع نہیں دیتا۔ بجز اس کے جو اس کا برگزیدہ رسول ہو۔
پس جو شخص مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرے اس کے پرکھنے کا ایک معیار اس کے نشانات بھی ہوتے ہیں جو تَبْیِیْنِ حق کا موجب ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت سی پیشگوئیاں جو آفاقی اور انفسی ہیں محیّر العقول طور پر پوری ہو چکی ہیں۔ پس ان الہامات کا سرچشمہ جو اس طرح پورے ہو چکے ہوں نہ تحت الشعور اور ماحول کو قرار دیا جا سکتا ہے جس میں مامور نے تربیت پائی ہو اور نہ قوم کا روحانی افلاس اور انگریزوں کا اقتدارِ اعلیٰ ان کا سرچشمہ قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ صاف ثابت ہوتا ہے کہ ان کا سر چشمہ صرف خدا تعالیٰ ہے۔
اس جگہ ہم حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی سترہ پیشگوئیاں ایک غیر جانبدار مبصّر کے رسالہ ‘‘اظہار حق’’ سے نقل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ رسالہ مولوی سمیع اللہ خان صاحب فاروقی جالندھری نے تقسیم ہند سے قبل نذیر پرنٹنگ پریس امرتسر میں باہتمام سید مسلم حسن زیدی پرنٹر طبع کرا کر شائع کیا تھا۔ اس میں جماعت احمدیہ کے عقائد اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئیوں کے متعلق اپنی غیر جانبدارانہ تحقیق علماءِ اسلام کے سامنے بطور استفسار پیش کی تھی۔ یہ رسالہ ۳۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ مبصّر موصوف اس رسالہ کے صفحہ۷ اور۸ پر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئیوں کو آٹھ قسم کی قرار دے کر آٹھویں قسم کے متعلق لکھتے ہیں:
‘‘بعض پیشگوئیاں ایسی بھی ہیں جو حیرت انگیز طریق پر پوری ہوئیں اور اُن کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک شخص کئی سال پہلے ایسی محیّر العقول باتیں کہہ دے جن کی نسبت بظاہرکوئی قرائن موجود نہ ہوں۔’’
اس کے بعد مبصّر موصوف جماعت احمدیہ کے بعض عقائد کو زیر بحث لانے اور اُن کے متعلق اپنی رائے ظاہر کرنے کے بعد حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی سترہ پیشگوئیاں درج کرتے ہیں اور اپنے رسالہ کے صفحہ ۱۳ پر ان کے درج کرنے سے پہلے لکھتے ہیں:۔
‘‘آپ کے اس دعویٰ (غیر تشریعی، اُمّتی، ظِلّی اور بروزی نبوّت) کے ثبوت میں احمدی حضرات مرزا صاحب کے الہامات اور پیشگوئیاں پیش کرتےہیں۔ ان میں سے بعض پیشگوئیاں واقعی محیّر العقول ہیں۔ جنہیں ہم درج کرتے ہوئے علمائے اسلام سے دریافت کرتے ہیں کہ ایک معمولی انسان جس کا خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق نہ ہو کیونکر بعض آنے والے واقعات کی خبر کئی سال پیشتر دے سکتا ہے؟ ہم علماء اسلام کی خدمت میں مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ جذبات سے قطع نظر فرماتے ہوئے دلائل سے ثابت کریں کہ اس قسم کی پیشگوئیوں کا ظہور کسی ایسے انسان سے کیونکر ہو سکتا ہے جو اپنے دعویٰ میں سچا نہ ہو۔’’
(اظہارِ حق صفحہ ۱۳)
اب ہم رسالہ اظہارِ حق سے مولوی سمیع اللہ صاحب فاروقی کے مضمون کا وہ حصہ ذیل میں درج کرتے ہیں جو ‘‘مرزا صاحب کی پیشگوئیاں’’ کے عنوان کے تحت انہوں نے لکھا ہے۔
مرزا صاحب کی پیشگوئیاں
(۱) ۱۸۹۳ء میں مرزا صاحب کو معلوم ہوا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مرنے سے پہلے میرا مومن ہونا تسلیم کر لیں گے۔ اس پیشگوئی کے پورے بیس برس بعد ۱۹۱۴ء میں جب کہ مرزا صاحب کو فوت ہوئے چھ برس گزر چکے تھے گوجرانوالہ کی ایک عدالت میں بیان دیتے ہوئے تسلیم کر لیا کہ فرقہ احمدیہ بھی قرآن اور حدیث کو مانتا ہے اور ہمارا فرقہ کسی ایسے فرقے کو جو قرآن اور حدیث کو مانے کافر نہیں کہتا۔
(دیکھو مقدمہ نمبر ۱۳۰۰ بعدالت لالہ دیو کی نند مجسٹریٹ درجہ اوّل)
واضح رہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مرزا صاحب کے سخت مخالف تھے حتّٰی کہ آپ نے مرزا صاحب پر کفر کے فتوے لگائے ۔ عین اس زمانہ میں مرزا صاحب نے پیشگوئی کی کہ مولانا موصوف وفات سے قبل میرا مومن ہونا تسلیم کر لیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مولوی صاحب کو عدالت میں یہ بیان دینا پڑا کہ ان کا فرقہ جماعتِ مرزائیہ کو مطلقاً کافر نہیں کہتا۔ یہ ایک ایسا بدیہی نشان ہے جس سے انکار نہیں ہو سکتا۔
(۲) پنڈت لیکھرام کی وفات کی مرزا صاحب نے پیشگوئی کی اور کہا کہ ‘‘عید اس نشان کے دن سے بہت قریب ہو گی۔’’ یعنی لیکھرام کی وفات اور عید کا دن متّصل ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور پنڈت لیکھرام عید کے دوسرے دن مقتول ہوئے۔ یقینا یہ بات انسان کے بس کی نہیں ہے۔ ایک شخص عرصہ پہلے یہ کہہ دے کہ فلاں شخص فلاں موقع پر قتل ہو گا اور پھر ایسا ہی ہو۔ یقینا اس قسم کے واقعات انسانی عقل سے بہت بالا ہیں۔
(۳) ۲۶، ۲۷، ۲۸ ـ دسمبر ۱۸۹۶ء کو لاہور میں جلسہ مذاہب ہونے والا تھا جس میں دوسرے مذاہب کے نمائندوں کے علاوہ مرزا صاحب نے بھی تقریر کرنی تھی۔ عجیب بات یہ ہےکہ ۲۱ ـدسمبر ۱۸۹۶ء کو مرزا صاحب کو بقول ان کے اللہ تعالیٰ سے اطلاع ملی کہ ان کا مضمون سب سے بلند رہے گا چنانچہ اسی روز آپ نے اشتہار کے ذریعہ اعلان بھی کر دیا کہ ہمارا ہی مضمون غالب رہے گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا صاحب کا مضمون سب پر غالب رہا اور سول اینڈ ملٹری گزٹ، پنجاب اوبزرور اور دوسری اخباروں نے صاف صاف لکھ دیا کہ مرزا صاحب کا مضمون بہت بلند تھا۔ خود صدر جلسہ نے جلسہ کی کارروائی کی جو رپورٹ مرتب کی اس میں بھی اس مضمون کی خوبیوں کا اعتراف کیا۔
یہ ایسی باتیں نہیں ہیں جنہیں اتفاقی کہا جائے۔ ایک شخص کئی روز پہلے یہ اعلان کرتا ہے کہ اس کا مضمون سب پر بازی لے جائے گا۔ حالانکہ دوسرے مقرر بھی کچھ کم پایہ کے لوگ نہ تھے۔ بالضرور اس میں تصرّفِ الٰہی کے کرشمے نمودار ہیں۔
(۴) ۲۲ مئی ۱۹۰۵ ء کو آپ نے رؤیا دیکھا۔‘‘آہ نادر شاہ کہاں گیا’’ یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ نادر خان ابھی بچہ ہی ہو گا اور اس وقت دنیا کے تمام بادشاہوں میں کوئی نادر شاہ بادشاہ نہ تھا۔ لیکن حیرانی ہے کہ بعد میں ایک شخص غیر متوقع طور پر نادر خان سے نادرشاہ بنا اور وہ طبعی موت سے بھی نہ مرا۔ بلکہ ایسے طریق سے قتل ہوا کہ اس وقت ہر زبان پر یہی لفظ جاری تھے کہ‘‘آہ نادر شاہ کہاں گیا’’۔
یہ اِس قسم کی باتیں ہیں جنہیں کوئی انسان قرائن سے نہیں سمجھ سکتا اور بغیر تصرّفِ الٰہی کے ۱۹۳۰ء میں ہونے والے ایک واقعہ کی خبر ۱۹۰۵ء میں دینا ناممکن ہے۔ پس اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس اطلاع میں خدا تعالیٰ کا تصرف کام کر رہا تھا۔
(۵)مرزا صاحب کو الہام ہوتا ہے غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْ اَدْنَی الْاَرْضالخ اور یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی ہے۔ اگر تصرّفِ الٰہی کام نہیں کرتا تو یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک شخص عرصہ پہلے ایک ایسی بات کہہ دے جس کے حصول میں اُسے مطلق کوئی دسترس حاصل نہ ہو اور پھر وہ بات بجنسہٖ پوری بھی ہو جائے۔ روم کے معاملہ میں مرزا صاحب یا آپ کی جماعت کو ذرّہ بھر بھی دخل حاصل نہ تھا۔ روم کے مغلوب ہونے میں مرزائیوں کا کچھ بھی ہاتھ نہ ہو سکتا تھا اور پھر مغلوب ہونے کے بعد دوبارہ غلبہ حاصل کرنے میں بھی مرزائیوں کی کوئی طاقت بررُوئے کار نہ آسکتی تھی لیکن اس کامل بے بسی کے عالم میں محولہ بالا پیشگوئی کی گئی ۔ جس نے تھوڑا ہی عرصہ بعد پوری ہو کر لوگوں کو محوِ حیرت کر دیا۔
(۶)دسمبر ۱۹۰۵ء میں آپ کو اطلاع ملتی ہے کہ ‘‘میں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذریّت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا اور اس کے ذریعہ حق ترقی کرے گا اور بہت سے لوگ سچائی قبول کریں گے۔’’
اِس پیشگوئی کو پڑھو اور بار بار پڑھو۔ اور پھر ایمان سے کہو کہ کیا یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی ہے اس وقت موجودہ خلیفہ ابھی بچے ہی تھے اور مرزا صاحب کی جانب سے انہیں خلیفہ مقرر کرانے کے لئے کسی قسم کی وصیّت بھی نہ کی گئی تھی بلکہ خلافت کا انتخاب رائے عامہ پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ چنانچہ اُس وقت اکثریت نے حکیم نور الدین صاحب کو خلیفہ تسلیم کر لیا۔ جس پر مخالفین نے محوّلہ صدر پیشگوئی کا مذاق بھی اڑایا۔ لیکن حکیم صاحب کی وفات کے بعد مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ مقرر ہوئے اور یہ حقیقت ہے کہ آپ کے زمانہ میں احمدیت نے جس قدر ترقی کی وہ حیرت انگیز ہے۔
خود مرزا صاحب کے وقت میں احمدیوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔ خلیفہ نور الدین صاحب کے وقت میں بھی خاص ترقی نہ ہوئی تھی لیکن موجودہ خلیفہ کے وقت میں مرزائیت قریبًا دنیا کے ہر خطہ تک پہنچ گئی اور حالات یہ بتلاتے ہیں کہ آئندہ مردم شماری میں مرزائیوں کی تعداد ۱۹۳۱ء کی نسبت دُگنی سے بھی زیادہ ہو گی۔ بحالیکہ اس عہد میں مخالفین کی جانب سے مرزائیت کے استیصال کے لئے جس قدر منظم کوششیں ہوئی ہیں پہلے کبھی نہ ہوئی تھیں۔
الغرض آپ کی ذریّت میں سے ایک شخص پیشگوئی کے مطابق جماعت کے انتظام کے لئے قائم کیا گیا اور اس کے ذریعہ سے جماعت کو حیرت انگیز ترقی ہوئی۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی بھی مِن و عن پوری ہوئی۔
(۷)اپریل۱۹۰۶ء میں آپ کو اطلاع ملی کہ ‘‘تزلزل در ایوانِ کسریٰ فتاد’’اس پیشگوئی کی اشاعت سے تھوڑا ہی عرصہ بعد شاہِ ایران تخت سے معزول کئے گئے اور یہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔
(۸)۱۹۰۵ء میں لارڈ کرزن وائسرائے ہند نے بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ وائسرائے بہادر کے اس اقدام سے بنگالی مشتعل ہو گئے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ بنگال کو دوبارہ متحد کر دیا جائے۔ وائسرائے نے انکار کیا۔ بنگالیوں نے انارکی شروع کر دی۔ چنانچہ صوبہ بنگال میں تشدد کا دور دورہ شروع ہو گیا۔ انارکسٹ پارٹی نے بم سازی اور بمباری شروع کر دی۔ کئی انگریزوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ پولیٹکل ڈاکوؤں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ الغرض بنگال کی حالت بے حد خطرناک ہو گئی لیکن وائسرائے بہادر نے صاف طور پر اعلان کر دیا کہ وہ تقسیم بنگال کو ہرگز منسوخ نہ کریں گے۔ اس حالت میں کون سمجھ سکتا تھا کہ وائسرائے کا یہ حکم منسوخ ہو جائے گا۔ اور بنگالیوں کی دلجوئی ہو گی۔
مگر قارئین متعجب ہوں گے کہ ۱۹۰۶ء میں مرزا صاحب کو اطلاع ملی کہ ‘‘پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیاتھا اب ان کی دلجوئی ہو گی۔’’
اس کے بعد بھی حکومت کی طرف سے یہی کہا جاتا تھا کہ اس حکم میں کوئی ترمیم نہ ہو گی۔ لیکن ۱۹۱۱ء میں شاہ جارج پنجم ہندوستان میں تشریف لائے اور آپ نے تقسم بنگال کو منسوخ کر کے بنگالیوں کی دلجوئی کر دی۔گویا پانچ سال بعد خود بادشاہ کے ہاتھوں مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری ہو گئی یقینا اس پیشگوئی کے پورا ہونے میں صاحبِ نظر لوگوں کے لئے سبق ہے اور اصحابِ دانش کے لئے غور و فکر کا موقع ہے۔
۲۹ جولائی ۱۸۹۷ء کو آپ نے دیکھا کہ حکّام کی طرف سے ڈرانے کی کچھ کاررروائی ہو گی۔ پھر آپ نے دیکھا کہ مومنوں پر ایک ابتلاء آیا۔ پھر تیسری مرتبہ ایک اور اطلاع ملی کہ
صادق آں باشد کے ایّامِ بلا
مےگذارد بامحبت باوفا
اِن تمام اطلاعات کا نتیجہ یہ ہوا کہ عبد الحمید نامی ایک شخص نے عدالت فوجداری امرتسر میں یہ بیان دیا کہ مجھے مرزا غلام احمدنے ڈاکٹر ہنری مارٹن کو قتل کرنے پر متعیّن کیا ہے۔ اس بیان پر مجسٹریٹ امرتسر نے مرزا صاحب کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیئے۔ لیکن بعد میں مجسٹریٹ کو معلوم ہوا کہ وہ وارنٹ کےاجراء کا مجاز نہ تھا۔ چنانچہ اس نے وارنٹ واپس منگوا لئے اور مسل گورداسپور بھجوا دی۔ جس پر صاحبِ ضلع نے مرزا جی کو ایک معمولی سمن کے ذریعے طلب کیا۔ یہاں خدا کا کرنا یہ ہوا کہ خود عبد الحمیدنے عدالت میں اقرار کر لیا کہ عیسائیوں نے مجھ سے یہ جھوٹا بیان دلوایا تھا۔ ورنہ مجھے مرزا صاحب نے قتل کے لئے کوئی ترغیب نہیں دی۔ مجسٹریٹ نے یہ بیان سن کر مرزا صاحب کو بَری کر دیا اور اس طرح سے مذکورہ بالا اطلاعات پوری ہوئیں۔
(۱۰)امریکہ کا ایک عیسائی ڈوئی نامی جو اسلام کا سخت دشمن تھا۔ اس نے نبوّت کا دعویٰ کیا۔ مرزا صاحب نے اس کو بہت سمجھایا کہ وہ اپنے دعویٰ سے باز آئے مگر وہ باز نہ آیا بلکہ مرزا صاحب اور ڈوئی کے درمیان مباہلہ ہوا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو نقد سات کروڑ روپیہ کا نقصان پہنچا۔ اُس کی بیوی اور بیٹا اُس کے دشمن ہو گئے۔ اُس پر فالج کا حملہ ہوا اور بالآخر وہ پاگل ہو کر مارچ ۱۹۰۷ء میں فوت ہو گیا۔ اس سے پہلے اگست ۱۹۰۳ءمیں مرزا صاحب کو یہ اطلاع ملی تھی کہ‘‘اس کے صیحون پر جلد تر ایک آفت آنے والی ہے’’۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے آباد کردہ شہر صیحون سے نہایت ذلّت کے ساتھ نکالا گیا۔
اِس مباہلہ اور اطلاع سے صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ دونوں باتیں مِن و عَن پوری ہوئیں۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ہونا محض ایک اتفاقی بات تھی یا اس کے ساتھ خدائی امداد شامل تھی؟ حالات اس امر کا بدیہی ثبوت ہیں کہ یہ باتیں اتفاقی نہ تھیں بلکہ بتلانے والے کا تصرّف اس کے ساتھ شامل تھا۔ اب قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تصرّفاتِ الٰہی سے کسی خائن اور کاذب کی بھی امداد ہوا کرتی ہے؟ یقینا یہ بات فطرۃ اللہ کے قطعاً خلاف ہے۔ پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئیوں کا صحیح نکلنا اُن کی صداقت پر اٹل دلیل کی حیثیت رکھتا ہے۔
(۱۱)مولوی کرم الدین صاحب نے مرزا صاحب کے خلاف ازالۂ حیثیت عُرفی کا ایک دعویٰ گورداسپور کی عدالت میں دائر کیا۔ بنائے دعویٰمرزا صاحب کے یہ الفاظ تھے جو انہوں نے کرم الدین کے خلاف استعمال کئے تھے۔ یعنی لئیم اور کذّاب۔ عدالت ابتدائی نے مرزا صاحب کو ملزم قرار دیتے ہوئے سزا دے دی۔ لیکن مرزا صاحب کو اطلاع ملی۔ ‘‘ہم نے تمہارے لئے لوہے کو نرم کر دیا۔ ہم کسی اور معنے کو پسند نہیں کرتے…… ان کی کوئی شہادت قبول نہیں کی جائے گی۔’’ اس کے بعد مرزا صاحب نے اپیل دائر کی جس پر صاحب ڈویژنل جج نے لکھا کہ کذاب اور لئیم کے الفاظ کرم الدین کے حسبِ حال ہیں۔ چنانچہ مرزا صاحب کو بری کر دیا۔
(۱۲)محّولہ بالا مقدمہ کے مجسٹریٹ سماعت کنندہ مسٹر آتمارام کے متعلق مرزا صاحب کو اطلاع ملی کہ‘‘ آتمارام اپنی اولاد کے ماتم میں مبتلا ہو گا’’ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بیس پچیس دن کے عرصہ میں یکے بعد دیگرے اس کے دو بیٹے وفات پاگئے۔
(۱۳)اپریل ۱۹۰۵ء میں آپ کو اطلاع ملی کہ
‘‘زاؔر بھی ہو گا تو ہو گا اُس گھڑی باحالِ زار’’
یہ اُس وقت کی بات ہے کہ جب زَار اپنی پوری قوت اور طاقت کے ساتھ روس کے کروڑہا بندگانِ خدا پر خود مختارانہ حکومت کر رہا تھا لیکن چند ہی سال بعد انقلابِ روس کے موقع پر بالشویکوں کے ہاتھ سے زَارِ روس کی جوگَت بنی وہ نہایت ہی عبرت انگیز ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا خودمختار بادشاہ پائے بجولاں ہے۔ اس کے خاندان کے تمام ارکان پابندِ سلاسل ہیں۔ اور باغی اپنی سنگینوں اور بندوقوں سے خاندانِ شاہی کے ایک ایک رکن کو ہلاک کرتے ہیں۔ جب زؔار کے تمام بچوں اور بیوی کو باغی تڑپا پڑپا کرمار چکتے ہیں توزاؔر کو نہایت بے رحمانہ طریق پر قتل کر دیتےہیں۔
(۱۴)۱۸۷۷ء کی بات ہے کہ مرزا صاحب نے عالم رؤیا میں دیکھا کہ ‘‘رلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لئے مجھے بھیجا ہے اور میں نے اسے مچھلی کی طرح تل کر واپس کر دیا ہے’’۔ اس رؤیا کے بعد مرزا صاحب نے رلیا رام وکیل کے اخبار میں چھپنے کے لئے ایک مضمون بھیجا اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا (مرزا صاحب کو یہ علم نہ تھا کہ پیکٹ میں خط رکھنا قانونِ ڈاکخانہ کی رو سے جرم ہے) رلیارام وکیل جانتا تھا کہ مرزا صاحب کا یہ فعل قانونی طور پر جرم ہے اور اس کی سزا پانچ صد روپیہ جرمانہ اور چھ ماہ قید ہے۔
رلیا رام نے اس خط کی مخبری کر دی۔ جس پر افسرانِ ڈاک نے مرزا صاحب پر مقدمہ چلا دیا۔ عدالت گورداسپور سے طلبی ہوئی۔ مرزا صاحب نے وکیلوں سے مشورہ کیا تو ان سب نے یہی کہا کہ سوائے جھوٹ بولنے کے کوئی چارہ نہیں ہے لیکن مرزا صاحب نے جھوٹ بولنے سے انکار کر دیا بلکہ عدالت میں اقبال کیا کہ یہ میرا خط ہے۔ پیکٹ بھی میرا ہے۔ میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا۔ مگر میں نے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا۔ افسر ڈاکخانہ نے جو مدعی تھا مرزا صاحب کو پھنسانے کی بہتیری کوشش کی لیکن اس کے دلائل کا عدالت پر کچھ اثر نہ ہوا۔ چنانچہ عدالت نے مرزا صاحب کو بَری کر دیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ عرصہ پہلے رلیا رام کا سانپ بھیجنا اور مرزا صاحب کا تلی ہوئی مچھلی لوٹانا اور پھر اس مقدمہ کا رلیا رام کے ہاتھ سے ہی شروع ہونا اور مرزا صاحب کا باعزت طریق پر بَری ہونا اپنے اندر کئی سبق رکھتا ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص اٹکل پچو طریق پر ایسی پیشگوئی کر دے جو حرف بحرف پوری ہو کر رہے۔
چشم بصیرت رکھنے والے لوگوں کے لئے ان پیشگوئیوں کی صداقت میں شبہ کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ بعض لوگ کیوں مرزا دشمنی میں اپنے آپ کو مبتلا کر رہے ہیں اور ایسے شواہد کی جانب سے چشم پوشی کر رہے ہیں جن کی تکذیب محال ہے۔ علمائے اسلام سے مؤدبانہ التماس ہے کہ وہ بتلائیں کہ کئی کئی سال پہلے پتہ کی باتیں کہہ دینا سوائے تائیدِ خداوندی کے کسی اور صورت میں بھی ممکن ہے؟ اگر نہیں تو ایک ایسےآدمی کی تکفیر کرنا از روئے اسلام کہاں تک جائز ہے؟
(۱۵)۱۸۸۳ء میں مرزا صاحب کو یہ خبر تواتر سے دی گئی کہ
‘‘میں تمہاری مدد کروں گا’’
اب دیکھنے والے یہ دیکھتے ہیں اور جاننے والے یہ جانتے ہیں کہ عیسائیوں نے بلکہ خود مسلمانوں نے آپ کے خلاف کئی مقدمے کھڑے کئے اور ہر مقدمہ میں بالآخر مرزا صاحب کو ہی فتح اور کامرانی حاصل ہوئی۔ سلسلہ احمدیہ کے مٹانے اور درہم برہم کرنے کے لئے چاروں طرف سے حملے کئے گئے۔ مگر یہ امرِ واقعہ ہے کہ احمدیت بڑے زور سے ترقی کرتی رہی اور کر رہی ہے۔
جن دنوں میں محوّلہ بالا پیشگوئی کی گئی اُن دنوں میں مرزاصاحب کے پیروؤں کی تعداد شاید انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ لیکن آج یہ حالت ہے کہ ہندوستان کا شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو گا جس میں مرزائیت روزافزوں ترقی نہ کررہی ہو اور احرار کی شدید ترین مخالفت کے باوجود مرزائیت پھیلتی جارہی ہے۔
(۱۶)۱۸۹۱ء میں آپ کو اطلاع ملی کہ
‘‘میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا اور تیرا ذکر بلند کروں گا۔’’
اُس وقت بظاہر اِس پیشگوئی کے پورا ہونے کے کوئی اسباب موجود نہ تھے لیکن ہم حیرت سے دیکھتے ہیں کہ اس بے کسی کے عالم میں کی ہوئی پیشگوئی آج حرف بحرف پوری ہو رہی ہے اور مرزائیت دنیا کے دور دراز ممالک میں پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ یورپ کے قریبًا تمام ممالک میں مرزائی مبلغ پہنچ چکے ہیں اور بڑے بڑے لوگ مرزائیت کے حلقہ بگوش بن رہے ہیں۔ اگرچہ یہ باتیں بادی النظر میں معمولی معلوم ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بے کسی اور بے بسی کے عالم میں ایک شخص کا اتنا بڑا دعویٰ کر دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس وقت کون جانتا تھا کہ چند سال بعد ہی مرزائیوں میں اتنی قوت و طاقت پیدا ہو جائے گی کہ وہ لاکھوں روپیہ سالانہ خرچ سے اپنے مبلغ بلاد یورپ میں بھجوا دیں گے اور پھر کون سمجھ سکتا تھا کہ بڑے بڑے لارڈ مرزائیت کو قبول کر لیں گے۔ یہ تمام باتیں دور از فہم تھیں جو آج بڑی حد تک پوری ہو چکی ہیں۔ اور آثار و قرائن بتلاتے ہیں کہ بہت جلد یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہو کر رہے گی۔
اِن حالات کے مطالعہ سے فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی طاقت ہے جو کئی کئی سال پہلے ایک ایسی بات منہ سے نکلوا دیتی ہے جو آخر کار پوری ہو کر رہتی ہے۔ کاش اہل خرد سوچیں اور علمائے اسلام دلائل عقلی سے ثابت کریں کہ کیونکر ایک کاذب ایسی ٹھکانے کی بات کہہ سکتا ہے اور پوری کمزوری کے عَالَم میں کس طرح ایک مفتری کو یہ جرأت ہو سکتی ہے کہ وہ نہایت بلند آہنگی سے اعلان کر دے کہ اُسے عزت اور غلبہ حاصل ہو گا۔
ہم مان لیتے ہیں کہ ایک خدا کا خوف نہ رکھنے والا انسان اتنا بڑا طوفان باندھ سکتا ہے۔ لیکن کیا خدا ئے تعالیٰ کی یہ عادت ہے کہ وہ مفتریوں اور خائنوں کی تائید اور حمایت کرے۔ کیا خدائے تعالیٰ کذب اور زُور کی بھی سرپرستی کیا کرتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کے دعاوی اور پیشگوئیاں وضعی اور جعلی نہ تھیں بلکہ وہ خدا کی طرف سے تھیں۔
(۱۷)نواب محمد علی خان آف مالیر کوٹلہ کی بیوی ابھی تندرست تھیں کہ مرزا صاحب کو ان کی وفات کی اطلاع ملی اور اس کے ساتھ ہی دکھلایا گیا کہ
‘‘دردناک دکھ اور دردناک واقعہ’’
اس کی اطلاع نواب صاحب کو دی گئی۔ خدا کی قدرت کوئی چھ ماہ بعد بیگم صاحبہ کو سِل کا عارضہ لاحق ہو گیا اور آپ کچھ عرصہ بعد وفات پاگئیں۔
ظاہر ہے کہ سِل کا مرض نہایت تکلیف دِہ ہوتا ہے اور اس مرض کا مریض دردناک دکھ میں مبتلا ہو کر راہی ملکِ عدم ہوتا ہے۔
بیگم صاحبہ کی صحت کی حالت میں اس قسم کی اطلاع کی اشاعت یقین کامل کے بغیر ناممکن ہے۔ اور یقینِ کامل خدا پر مضبوط ایمان اور اس کی جانب سے حتمی اطلاع کے بغیر محال ہے۔ ان تمام واقعات سے یہ امر سورج کی طرح روشن ہو جاتا ہے کہ مرزا صاحب کو شرح صدر حاصل تھا اور آپ کو مکالمہ و مکاشفہ کا شرف حاصل تھا۔
کون بدبخت کہہ سکتا ہے کہ خدا پر جھوٹ باندھنے والا بھی دنیا میں کامیاب و بامراد ہو سکتا ہے اور اس کا سلسلہ روز افزوں ترقی کر سکتا ہے۔ سلسلہ احمدیہ کی مسلسل ترقیاں اور اس جماعت کی پیہم کامیابیاں اس امر کی روشن دلیل ہیں کہ نصرت الٰہی ان کے ساتھ ہے۔ خود مرزا صاحب نے فرمایا ہے کہ
کبھی نصرت نہیں ملتی درِ مولا سے گندوں کو
کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو
محوّلہ بالا شعر ہی بتلاتا ہے کہ مرزا صاحب کو خدائے تعالیٰ پر کامل توکّل اور پورا بھروسہ تھا ورنہ جس کی طبیعت کے اندر گندگی اور پلیدگی ہو اسے کیونکر جرأت ہو سکتی ہے کہ وہ اعلان کرے کہ نُصرتِ الٰہی گندوں کے لئے نہیں بلکہ پاک بازوں کے لئے ہے۔
الغرض اس قسم کی بیسیوں پیشگوئیاں ہیں جو پوری ہوئیں اور جن کے اندر عظیم الشان نشانات موجود ہیں۔ ان واقعات کے متعلق اس امر کا اقرار ناگزیر ہے کہ مرزا صاحب کو ضرور اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف حاصل تھا۔’’
مولوی ابو الحسن صاحب کی بانیٔ احمدیّت کی وفات کے متعلق غلط بیانی
ہم نے قرآنی معیاروں اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے روشن نشانوں سے آپ کے دعویٰ کی صداقت کو ثابت کر دیا ہے۔ مگر مولوی ابو الحسن صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کو غلط رنگ میں پیش کر کے آپ کی صداقت پر دُھول ڈالنے کی کوشش کی ہے وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘مرزا غلام احمد صاحب نے جب ۱۸۹۱ء میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ پھر ۱۹۰۱ء میں نبوّت کا دعویٰ کیا تو علمائےاسلام میں ان کی تردید و مخالفت شروع کی۔ تردید و مخالفت کرنے والوں میں مشہور عالم مولانا ثناء اللہ امرتسری مدیر اہل حدیث پیش پیش اور نمایاں تھے۔ مرز ا صاحب نے ۱۵ ـاپریل ۱۹۰۷ء میں ایک اشتہار جاری کیا۔ جس میں مولانا کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا……اگر مَیں کذّاب اور مفتری نہیں ہوں اور خدا کے مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہوں اور مسیح موعود ہوں تو مَیں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ سُنّت اللہ کے موافق آپ مکذّبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ خدا کے ہاتھوں سے ہے یعنی طاعون، ہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں وارد نہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔’’
(قادیانیت صفحہ۲۸، ۲۹)
اس کے بعد مولوی ابو الحسن صاحب نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے مولوی ثناءاللہ صاحب سے پہلے ۲۶ مئی ۱۹۰۸ کو وفات پا جانے کا ذکر کیا ہے اور حاشیہ میں لکھا ہے :۔
‘‘مولانا نے مرزا صاحب کی وفات کے پورے چالیس برس بعد ۱۵مارچ۱۹۴۸ء میں اسّی برس کی عمر میں وفات پائی۔’’
مولوی ابو الحسن صاحب کی حق پوشی
مولوی ابو الحسن صاحب پرواضح ہو کہ محوّلہ خط میں تو یہ بھی لکھا تھا کہ یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہیں۔اور جو اقتباس آپ نے پیش کیا ہے اس میں‘‘ سنت اللہ کے موافق مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے’’ کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ اور سنت اللہ یہ ہے کہ فریقین میں مباہلہ واقعہ ہو جائے تو پھر جھوٹا سچے کی زندگی میں ہلاک ہو سکتا ہے۔ ویسے تو انبیاء وفات پاتے رہے اور اُن کے بعد اُن کے اشد مخالفین زندہ رہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم وفات پاگئے اور مسیلمہکذّاب آپ کے بعد زندہ رہا۔ پس اگر مولوی ثناء اللہ صاحب جنہیں اس خط میں مخاطب کیا گیا تھا اس فیصلہ پر مستعد ہو جاتے کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں ہلاک ہو اور اس صورت میں مولوی ثناء اللہ کی بجائے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات پہلے ہو جاتی تو پھر مولوی ابو الحسن صاحب کو آپ کی تکذیب کا حق پہنچ سکتا تھا۔ لیکن مولوی ثناء اللہ صاحب نے تو اس خط کو اپنے اخبار میں چھاپ کر اس کے نیچے صاف لکھ دیا تھا:۔
‘‘یہ تحریر تمہاری مجھے منظور نہیں اور نہ کوئی دانا اسے منظور کر سکتا ہے۔’’
(اہل حدیث ۲۶ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ۶)
پس جب فریقین کے درمیان اس طریق فیصلہ پر اتفاق ہی نہیں ہوا تو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے خط کے مسودہ کو اُن کے خلاف حجت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر مولوی ثناء اللہ صاحب اس طریق فیصلہ پر مستعد ہو جاتے کہ کاذب صادق سے پہلے مرے تو وہ ضرور پہلے مرتے۔ اور جب خود مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس طریق فیصلہ کو قبول نہیں کیا تو خط کا یہ مسودہ حجّت نہ رہا۔کیونکہ یہ کسی الہام یا وحی کی بناء پر پیشگوئی نہ تھی اور سنّت اللہ کے مطابق مباہلہ کے وقوع پر ہی کاذب صادق سے پہلے مر سکتا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک سوال پر خود فرماتے ہیں:۔
‘‘یہ کہاں لکھا ہے کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مرجاتا ہے۔ ہم نے تو یہ لکھا ہے کہ مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہو تو سچے کی زندگی میں مر جاتا ہے۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سب اعداء ان کی زندگی میں ہلاک ہو گئے تھے؟ بلکہ ہزاروں اعداء آپؐ کی وفات کے بعد زندہ رہے تھے۔ایسے ہی ہمارے مخالف بھی ہمارے مرنے کے بعد زندہ رہیں گے……… ہم تو ایسی باتیں سن سن کر حیران ہوتے ہیں۔ دیکھو ہماری باتوں کو کیسے اُلٹ پَلٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور تحریف کرنے میں وہ کمال حاصل کیا ہے کہ یہودیوں کے بھی کان کاٹ دیئے ہیں۔ کیا یہ کسی نبی، ولی، قطب، غوث کے زمانہ میں ایسا ہوا ہے کہ سب اعداء مر گئے ہوں بلکہ کافر منافق باقی رہ ہی گئے تھے۔ ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ سچے کے ساتھ جو جھوٹے مباہلہ کرتے ہیں تووہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہوتے ہیں…… ایسے اعتراض کرنے والے سے پوچھیں کہ ہم نے کہاں لکھا ہے کہ بغیر مباہلہ کرنے کے ہی جھوٹے سچے کی زندگی میں تباہ اور ہلاک ہو جاتے ہیں۔
(الحکم ۱۰۔اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ۹)
پس مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کو جو خط لکھا گیا تھا وہ بھی مباہلہ کا مسودہ تھا اور چونکہ فریقین میں مباہلہ وقوع میں نہیں آیا۔ کیونکہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس طریق فیصلہ کو منظور نہ کیا تھا۔ اس لئے مولوی ابو الحسن صاحب کا اس خط کی تحریر کو یکطرفہ پیش کرنا اور مولوی ثناء اللہ صاحب نے اس کا جو جواب دیا تھا اسے پبلک سے مخفی رکھنا محض حق پوشی اور ناحق کوشی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات آپؑ کی پیشگوئیوں کے مطابق ہوئی ہے جو آپؑ کے رسالہ الوصیّت میں درج ہیں۔ جس میں یہ الہام بھی درج ہے کہ قَرُبَ اَجَلُکَ المُقَدَّرُ، قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ۔ لہذا مولوی ابوالحسن صاحب نے آپؑ کی وفات کے معاملہ کو غلط رنگ میں پیش کر کے انصاف کا خون کیا ہے۔
آپؑ کی وفات ہیضہ سے بھی نہیں ہوئی کیونکہ ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ سے ظاہر ہےکہ آپ کی وفات اسہال کی پرانی بیماری کی وجہ سے واقعہ ہوئی تھی۔
حضرت میر ناصر نواب صاحب کی روایت بوجہ اعاد روایت ہونے کے قابلِ قبول نہیں۔ مریض کے اپنی مرض کی متعلق اپنے بیان کے مقابلہ میں ڈاکٹروں کی رائے ہی وقیع قرار دی جا سکتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب سے حضرت اقدس نے استفہامًا و استخبارًا وبائی ہیضہ کا ذکر کیا ہو جسے وہ جملہ خبریہ سمجھ بیٹھے اور روایت کر دیا۔ بہر حال بہ روایت میڈیکل سرٹیفیکیٹ کی رو سے بصورت جملہ خبریہ مردُود ہے۔
تنقیدی جائزہ کی فصل سوم پر ہماری تنقید
تنقیدی جائزہ کی فصل سوم میں ‘‘قادیانیت کی لاہوری شاخ اور اس کا عقیدہ اور تفصیل’’ کے عنوان کے تحت مولوی ابو الحسن صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس کا مخاطب احمدیوں کا لاہوری فریق ہے۔ اس میں انہوں نے ہماری شاخ کے متعلق لکھا ہے:۔
‘‘اِس شاخ نے واضح اور قطعی موقف اختیار کیا ہے اور اپنی اخلاقی جرأت کا ثبوت دیا ہے۔ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ مرزا صاحب کے منشاء کی صحیح ترجمانی و نمائندگی اور ان کی تعلیمات و تصریحات کی محض صدائے بازگشت ہے۔ لیکن لاہوری شاخ کا موقف (جس کی قیادت مولوی محمد علی صاحب کرتے ہیں) بڑا عجیب اور ناقابل فہم ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۲۰۰، ۲۰۱)
واضح ہو کہ مولوی ابو الحسن صاحب کو لاہوری شاخ کا موقف سمجھانا اور اسے قابلِ فہم ظاہر کرنا ‘‘لاہوری شاخ’’ کا کام ہے۔ جہاں تک اُن سے بحثوں کے نتیجہ میں ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوّت میں ان کی ہم سے محض لفظی نزاع ہے۔
مولوی ابو الحسن صاحب لاہوری شاخ کے متعلق لکھتے ہیں:۔
‘‘وہ ثابت کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے کہیں اصطلاحی نبوّت کا دعویٰ نہیں کیا۔’’
اِس بارہ میں واضح ہو کہ اصطلاحی نبوّت سےمراد لاہوری شاخ کی تشریعی اور مستقلہ نبوّت ہوتی ہے یعنی ایسی نبوّت جس کا حامل کامل شریعت یا بعض احکام جدیدہ لائے یا کسی دوسرےنبی کا اُمّتی نہ ہو۔ اس قسم کا نبی ہماری جماعت بھی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ کو نہیں جانتی۔ کیونکہ اس قسم کی نبوّت کا آپ نے کہیں اور کسی وقت بھی دعویٰ نہیں کیا۔ آپ کا دعویٰ یہ ہےکہ آپ ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے اُمّتی اور یہ مقام آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ظلّیتِ کاملہ کی وجہ سےملا ہےلاہوری شاخ کو بھی اس سے انکار نہیں۔ مولوی ابو الحسن صاحب نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی طرف جو مستقل تشریعی نبوّت کا دعویٰ منسوب کیا ہے اسے ہماری جماعت اور لاہوری شاخ ہر دو مفتریانہ الزام جانتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوّت کے معنی دونوں فریق کے نزدیک مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ اور امورِ غیبیہ کی کثرت ہیں۔ ہم میں اور اُن میں نزاع صرف اس بات میں ہے کہ لاہوری شاخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوّت کو محدّثیت کے مقام تک محدود قرار دیتی ہے اور ہماری جماعت آپ کا مقام محدّثینِاُمّت سے بالا تر یقین کرتی ہے۔ چنانچہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام اشتہار ‘‘ایک غلطی کا ازالہ’’ میں خودتحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘ جس کے ہاتھ پر اخبارِ غیبیہ من جانب اللہ ظاہر ہوں گے بالضرورت اس پر مطابق آیتلَا یُظْھِرُ عَلیٰ غَیْبِہٖکے مفہوم نبی کا صادق آئے گا۔’’
(روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۸)
نیز لکھتے ہیں:۔
‘‘ یاد رکھنا چاہئے کہ اِن معنوں کی رُو سے مجھے نبوّت اور رسالت سے انکار نہیں ہے۔ اِسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا گیا ۔ اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کِس نام سے اُس کو پکارا جائے۔ اگر کہو کہ اس کا نام محدّث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنی کسی لُغت کی کتاب میں اظہارِ غیب نہیں ہے۔ مگر نبوّت کے معنی اظہار امرغیب ہے۔’’
(ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۰۹)
بے شک ایک وقت تک حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنی نبوّت سے مراد تاویلًا محدثیت لی۔ مگر بعد میں آپ پر منکشف ہو گیا کہ آپ نے صریح طور پر نبی کا خطاب پایا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۵۳، ۱۵۴)
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں جو آخری کتابوں میں سے ہےیہ بھی تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘یہ کہنا کہ نبوّت کا دعویٰ (تشریعی و مستقلہ نبوّت کا دعویٰ ۔ ناقل) کیا ہے کس قدر جہالت کس قدر حماقت اور کس قدر حق سے خروج ہے۔ اے نادانو! میری مراد نبوّت سے یہ نہیں ہے کہ مَیں نعوذباللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابل پرکھڑا ہو کر نبوّت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں۔ صرف مراد میری نبوّت سے کثرت مکالمت و مخاطبتِ الٰہیہ ہے۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے۔ سو مکالمہ مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں۔ پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی۔ یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ مخاطبہ رکھتےہیں۔ میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم الٰہی نبوّت رکھتا ہوںوَ لِکُلٍّ اَنْ یَّصْطَلِحَ۔
(تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ۵۰۳)
پس جب احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان بھی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے نزدیک آپ کی نبوّت کے بارے میں صرف نزاع لفظی ہے تو لاہوری شاخ اور ہماری جماعت کے درمیان تو بدرجہ اولیٰ نزاع لفظی ہوئی۔
مولوی ابو الحسن صاحب نے آپ پر مستقل صاحبِ شریعت نبی کے دعویٰ کا الزام دیا تھا جس کی تردید حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی متعدد عبارتوں سے کر دی گئی اور بتایا گیا ہے کہ آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ آپ ایک پہلو سے نبی ہیں اور ایک پہلو سے اُمّتی، گویا آپ کو نبیٔ نائب ہونے کا دعویٰ ہے نہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بالمقابل کسی نئی نبوّت کا دعویٰ۔ ذیل کی عبارت بھی اس بارہ میں فیصلہ کُن ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘خدا تعالیٰ نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہو جائیں زمانۂ محمدی کے آخری حصہ میں ڈال دی۔ جو قُربِ قیامتکا زمانہ ہے اور اِس تکمیل کے لئے اِسی اُمّت میں سے ایک نائب مقرر کیا ۔ جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اُسی کا نام خاتم الخلفاء ہے۔ پس زمانہ محمدی کے سر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اور اُس کے آخر میں مسیح موعود ہیں۔ اور ضرور تھا کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ وہ پیدا نہ ہولے۔ کیونکہ وحدت اقوامی کی خدمت اسی نائب النبوّت کے عہد سے وابستہ کی گئی ہے اور اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے هُوَ الَّذِيْ أَرْسَلَ رَسُولَهٗ بِالْهُدٰى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّينِ كُلِّهٖ۔’’
(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۹۰، ۹۱)
پس مسیح موعود کی بعثت تکمیل اشاعتِ ہدایت کے لئے ہے نہ تکمیل شریعت کے لئے۔ کیونکہ آپؑ کی حیثیت نائب النبوۃ کی ہے نہ تشریعی نبی کی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی نبوّت کے متعلق مولوی ابو الحسن صاحب جو غلط فہمی پھیلانا چاہتے ہیں اس کے ردّ کے لئے یہ اکیلا حوالہ ہی کافی و وافی ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بالمقابل نبی نہیں بلکہ آپؑ کی نبوّت نبوّت محمدیہ کی نیابت میں ہے۔ فاندفعت جمیع الاوھام بحذافیرہٖ۔
مولوی ابو الحسن نے یہ الزام بھی دیا تھا کہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ بطور ہندوؤں کے تناسخ اور حلول کے مسیح موعود اور مہدی معہود کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مولوی ابو الحسن صاحب کا یہ الزام بھی احمدیت کی دونوں شاخوں کے نزدیک درست نہیں۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے خود ایسے الزام کی تردید فرمادی ہوئی ہے۔ آپؑ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘اگرچہ مَیں نے اپنی بہت سی کتابوں میں اِس بات کی تشریح کر دی ہے کہ میری طرف سے یہ دعویٰ کہ مَیں عیسیٰ مسیح ہوں اور نیز محمد مہدی ہوں اس خیال پر مبنی نہیں ہے کہ میں درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں اور نیز درحقیقت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں مگر پھر بھی وہ لوگ جنہوں نے غور سے میری کتابیں نہیں دیکھیں وہ اس شبہ میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ گویا میں نے تناسخ کے طور پر اس دعویٰ کو پیش کیا ہے اور گویا میں اس بات کا مدعی ہوں کہ سَچ مُچ ان دوبزرگ نبیوں کی روحیں میرے اندر حلول کر گئیں لیکن واقعی امر ایسا نہیں…… یہ وہ طریق ظہور ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں۔ ’’
(ضمیمہ رسالہ جہاد صفحہ ۱تا۸۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۳تا ۲۸)
مولوی ابو الحسن صاحب کی مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر پر نکتہ چینی اور ہماری تنقید!
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے ‘‘قادیانیت’’ کے صفحہ ۲۰۳ سے صفحہ ۲۱۶ تک مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر ‘‘بیان القرآن’’ کی بعض آیات کی تفسیر پر نکتہ چینی کی ہے۔ مگر مولوی ابو الحسن صاحب جانتے ہوں گے۔ سابقہ تفسیریں اختلافات سے بھری پڑی ہیں اور غلط اور صحیح روایات سے مملو ہیں۔ بالخصوص قصص انبیاء کے متعلق سابقہ تفاسیر میں اسرائیلی روایات پر انحصار کیا گیا ہے۔ اور قرآن کریم کے سیاق و سباق کو اس بارہ میں بہت ہی کم مدِّنظر رکھا گیا ہے۔ مسلمان مفسّرین کو جب قصص انبیاء کے بارے میں قرآنی آیات کی وضاحت مطلوب ہوتی تھی تو وہ یہودی علماء کی طرف رجوع کرتے تھے اور وہ انہیں بسا اوقات مَضحکہ خیز باتیں بتا دیتے تھے جنہیں مفسّرین اپنی تفاسیر میں نقل کر دیتے تھے۔ یہ تفسیریں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں۔ موجودہ زمانہ کے دور عقلیت میں جب مسلمان نوجوانوں نے سائنس کے جدید علوم کی تعلیم حاصل کی وہ ایسی تفسیروں کی وجہ سے اسلام سے بیزار اور بدظن ہو کر دہریّت اور الحاد کی گود میں جا رہے تھے اس لئے یہ ضروری تھا کہ ان کے لئے قرآن مجید کی ایسی تفسیر کی جاتی جس سے وہ زندقہ، الحاد اور دہریت سے بچ جائیں اور ان کے دلوں میں قرآن مجید کی قدر و منزلت پیدا ہو۔ ہاں اس بات کا بھی لحاظ ضروری ہے کہ انبیاء کی زندگیوں میں اگر کسی واقعہ میں اعجاز کا ذکر ہے تو اس کو معقول رنگ میں ثابت کیا جائے۔ تا نوجوان طبقہ سرے سے معجزات کا منکر نہ ہو جائے۔ پھر احمدی اپنی تفاسیر میں اس بات کو ملحوظ رکھتے ہیں کہ کسی آیت کی ایسی تفسیر نہ کی جائے جو شانِ الوہیت، شانِ انبیاء اور شان ملائکۃ اللہ کے خلاف ہو۔ اور ان کی ایسی تصویر سامنے نہ آئے جو عقل سے مستبعد ہو۔ حالانکہ سابق مفسّرین سے اس بارہ میں سخت فروگزاشت ہوئی ہے اور انہوں نے انبیاء اور ملائکۃ اللہ وغیرہ کے متعلق ہتک آمیز باتیں اپنی تفسیروں میں لکھ دی ہیں جو تعلیم یافتہ طبقہ کو ملحد اور دہریہ بنانے میں ممد ہوتی ہیں۔
اگر مولوی ابو الحسن صاحب اسلام پر مستشرقین کے اعتراضات پڑھیں تو پھر انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ احمدیت نے تفسیر القرآن کے سلسلہ میں بھی اسلام کی ایک عظیم الشان خدمت سرانجام دی ہے اور اپنی تفسیر سے اس زمانہ کے فلسفہ اور سائنس میں تعلیم یافتہ مسلمان طبقہ کو سہارا دیا ہے جو سابقہ قرآنی تفاسیر پڑھ کر مذہب سے ہی بدظن ہو رہا تھا اور یہ اثر لے رہاتھا کہ قرآن مجید بھی خدا کا کلام نہیں بلکہ پرانے لوگوں کے توہمات پر مشتمل کہانیوں سے پُر ہے۔
مولوی ابو الحسن صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر ‘‘بیان القرآن’’ پر چند مواقع سے تفسیر پیش کر کے تنقید کی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اُن کی تفسیر مفسّرینِ سابقین کے خلاف ہے ہمیں بھی بعض آیات کی تفسیر میں مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر سے اختلاف ہے۔ لیکن جن آیات کی تفسیر پر مولوی ابو الحسن صاحب نے اعتراض کیا ہے ہم اُن کو اِس اعتراض میں حق بجانب نہیں پاتے کہ خوارق اور معجزات سے اِباء کے نتیجہ میں ان آیات کی تفسیر کی گئی ہے۔ اُن کی تفاسیر سے ہمیں کسی جگہ اختلاف تو ہو سکتا ہے اور اُن کی کسی تحقیق میں خامی بھی ہو سکتی ہے لیکن بحیثیت مجموعی جن آیات کی تفسیر مولوی ابو الحسن صاحب نے بطور نمونہ پیش کی ہے وہ مسلمانوں کی نئی نسل کے لئے اسلام سے بُعد کو دور کرنے کا موجب ہو سکتی ہے اور انہیں الحاد کی راہوں سے بچانے میں ممد ہو سکتی ہے۔
(۱)مولوی محمد علی صاحب نے آیت وَإِذِ اسْتَسْقٰى مُوسىٰ لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ(البقرۃ:۶۱) میں حضرت موسیٰؑ کے چٹان پر عصا مارنے کا ذکر بھی کیا ہے اور اس آیت کے یہ معنی بھی بیان کئے ہیں کہ اپنی جماعت کے ساتھ پہاڑ پر چلے جاؤ۔ مولوی ابو الحسن صاحب کو یہ مسلّم ہے کہ کلامِ عرب کی خاص ترکیب اور خاص محاورات کے تحت یہ معنی لئے گئے ہیں۔ مگر اِسی جگہ چٹان پر عصا مارنے کا ذکر بھی اس تفسیر میں موجود ہے بلکہ ترجمہ بھی آپ نے یہی کیا ہے ‘‘اپنا عصا چٹان پر مار’’۔
(بیان القرآن جلد اول صفحہ ۴۴)
ایک ایسی قوم کو جسے بیابان میں پانی نہیں ملتا خدا تعالیٰ کے بتانے سے پانی مل جانا خواہ چٹان پر عصا مارنے سے ہو یا قوم کو کسی چٹان پر لے جانے سے حاصل ہو اس سے اعجاز میں کوئی فرق نہیں آتا۔ مولوی ابو الحسن صاحب نے چٹان پر عصا مارنے کی تفسیر درست قرار دی ہے اور اس میں اعجاز جانا ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر اعجازی صورت تو پھر اس قصے میں مذکور ہے جس میں مفسرین یہ بیان کرتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس ایک پتھر ہوتا تھا اور جہاں ضرورت پڑتی اس پر سوٹا مارتے تو اس میں سے پانی جاری ہو جاتا تھا۔ آخر اس تفسیر سے مولوی ابو الحسن صاحب کی طبیعت نے کیوں اِباء کیا ہے؟ اس کی وجہ وہی بتا سکتے ہیں۔
(۲)آیت وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيْهَا(البقرۃ:۷۳) میں مولوی محمد علی صاحب نے تفسیر القرآن بالقرآن کے اصول کو ملحوظ رکھا ہے اور اُس نفس سے جسے یہودیوں نے اپنے زعم میں قتل کر دیا تھا مسیح علیہ السلام مراد لئے ہیں۔ جس پر فَادَّارَأْتُمْ کو ان معنوں کے لئے قرینہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کی دوسری آیت إِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِسے ظاہر ہے کہ واقعۂ قتل و صلیب کے وقت یہودیوں کو یہ شک پڑ گیا تھا کہ مسیح حقیقت میں قتل نہیں ہوا۔فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا الآیۃکی تفسیر جو مولوی محمد علی صاحب نے ضمائر کے لحاظ سے کی ہے۔ اگر مولوی ابو الحسن صاحب کو اس میں تکلف نظر آتا ہے تو فَاضْرِبُوْہُکی ضمیر کا مَرجَع فعل قتل قرار دے کر اِس آیت کے یہ معنی لے سکتے ہیں کہ یہودیوں کے اُس فعل قتل کا بعض اس جیسے اور واقعات سے مقابلہ کرو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ خدا کا بیان ‘‘مَا قَتَلُوْہُ’’ یقینا سچا تھا کہ یہودی مسیح کو یقینی طور پر نہ مار سکے اور مسیح کے درحقیقت قتل ہوجانے کے متعلق ان کا دعویٰ درست نہ تھا۔ ہاں اسرائیلی روایت کے مطابق اس آیت کی پرانی تفسیر بھی تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(۳)تیسری آیت مولوی ابو الحسن صاحب نے أَنِّٓي أَخْلُقُ لَـكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّٰہِ(آلِ عمران: ۵۰)پیش کی ہے اور لکھتے ہیں:۔
‘‘قرآنِ مجید نے حضرت مسیح کا یہ قول بار بار دہرایا ہے کہ میں بطور معجزہ اور ثبوتِ نبوّت کے تمہارے سامنے مٹی کے جانور بناتا ہوں اور پھر ان کو پھونک مار کر پرندوں کی طرح ہوا میں اڑاتا ہوں۔’’
(قادیانیت صفحہ ۲۰۸)
اور مولوی محمد علی صاحب پر یہ اعتراض کیا ہے:۔
‘‘اس میں بے جان چیزوں میں روح ڈالنے کے معجزہ سے بچنے کے لئے مولوی محمد علی صاحب نے اس آیت کو تمام تر استعارات پر مشتمل بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں برنگِ استعارہ یہاں طیر سےمراد ایسے لوگ ہیں جو زمین اور زمینی چیزوں سے اوپر اٹھ کر خدا کی طرف پرواز کر سکیں اور یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ کس طرح نبی کے نَفخ سے انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زمینی خیالات کو ترک کر کے عَالم روحانیت میں پرواز کرے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۲۰۸)
مولانا ابو الحسن صاحب! اِس آیت کے ظاہری معنی بھی اس حد تک تو لئے جا سکتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ مٹی سے پرندے کی جو شکل بناتے تھے۔ وہ ان کے معجزانہ نَفخ یعنی پھونک مارنے سے پرواز تو کرتی تھی مگر نظروں سے غائب ہو جانے پر گر جاتی تھی اور مٹی کی مٹی رہ جاتی تھی۔ قرآن میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ پرندوں کی اس صورت و شکل میں جان، خون، گوشت پوست اور ہڈیاں پیدا ہو جاتی تھیں اور وہ دوسرے پرندوں سے مل جل جاتے تھے اور اِس طرح خدا تعالیٰ اور مسیحؑ کے پیدا کردہ پرندوں میں کوئی امتیاز نہیں رہ جاتا تھا۔ خدا تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں یہ فرمایا ہے۔أَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (الرعد:۱۷) یعنی کیا ان لوگوں نے اللہ کے لئے ایسے شریک تجویز کئے ہیں جنہوں نے اُس کی طرح کچھ مخلوق پیدا کی ہے جس کی وجہ سے اُس کی مخلوق اُن کے لئے مشتبہ ہو گئی۔ تو ان سے کہہ دے اللہ ہی ہر ایک چیز کا خالق ہے اور وہ یکتا، کامل اقتدار رکھنے والا ہے۔
پھر فرمایا وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْئًا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ۔ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَآءٍ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ(النحل:۲۱،۲۲)وہ لوگ جنہیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں۔ وہ سب وفات پا چکے ہیں۔ کوئی ان میں سے زندہ نہیں اور ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔
اِن آیات سے ظاہر ہے کہ حقیقی خَلق صرف خدا تعالیٰ کی قدرت سے وقوع میں آتا ہے اور جن کی دنیا میں پرستش کی جاتی ہے، جیسے حضرت مسیح علیہ السلام ، ان سے حقیقی خلق وقوع میں نہیں آیا جس سے خدا کی مخلوق اور بندے کی مخلوق میں امتیاز نہ ہو سکے، بلکہ وہ تو خود اموات میں داخل ہو چکے ہیں اور زندہ نہیں اور انہیں علم نہیں کہ وہ دوبارہ کب زندہ ہوں گے۔
جب مسیح علیہ السلام بھی عیسائیوں کے نزدیک معبود مانے جاتے ہیں تو ان آیات کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ حقیقی خَلق کو ان کے اس قراردادہ شریک سے بھی منسوب نہیں کرتا۔
پس مسیح ؑ کا یہ خَلق بھی خدا تعالیٰ کے خَلق کے بالمقابل مجازی ماننا پڑے گا اور اگر مٹی سے پرندے کی ظاہری شکل بنانا مراد لی جائے تو یہ خَلق اُسی حد تک متصوّر ہو سکتا ہے کہ نظر سے غائب ہو جانے کے بعد پرندے کی وہ صورت مُردے کی طرح گر جاتی تھی اور وہ مٹی ہی مٹی رہتا تھا اُس میں جان، خون، گوشت اور ہڈیاں پیدا نہیں ہو جاتے تھے۔ مولوی محمد علی صاحب نے یہ معنی بھی بیان القرآن صفحہ ۳۲۰ پر درج کئے ہوئے ہیں۔
ہاں جب اس جگہ خَلق مجازی ہی مراد ہوا تو مجاز کے استعمال میں وسعت ہے۔ اس لئے کسی مفسّر کو یہ بھی حق پہنچ سکتا ہے کہ جب خَلَق کا لفظ مجازًا استعمال ہوا ہے تو طیر کو بھی وہ مجازی معنوں میں لے اور پرواز سے روحانی پرواز مراد لے۔
لفظ طیر حدیث نبوی میں بھی بطور استعارہ استعمال ہوا ہے۔ احادیث شہداء کے سلسلہ میں مذکور ہے کہارواحھم عند اللّٰہ کطیر خضر (ابن ماجہ) کہ اللہ کے حضور شہداء کی ارواح سبز پرندوں کے مشابہ ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے ارواحھم فی اجواف طیر خضر۔(صحیح مسلم) کہ شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹوں میں ہیں۔
شہیدوں کی ارواح کے لئے پرندوں کا جوف تجویز کرنا بھی استعارہ ہی ہے۔ کیونکہ پہلی حدیث میں ان کی ارواح کو طیر سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اِس لحاظ سے مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر کو درست ماننے میں کوئی حرج نہیں۔
شیخ اکبر محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ نے بھی اِس آیت میں خَلقِ طَیر سے روحانی خَلق مراد لیا ہے۔(ملاحظہ ہو تفسیر محی الدین ابن عربیؒ برحاشیہ عرائس البیان)
(۴)مولوی ابو الحسن صاحب آیتیَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ (النّمل:۱۷) کی اُس تفسیر پر بھی معترض ہیں جو مولوی محمد علی صاحب نے کی ہے لیکن خود انہوں نے بیان نہیں کیا کہ مَنْطِقُ الطَّیر سے ان کے نزدیک کیا مراد ہے۔
مولوی محمد علی صاحب نے مَنْطِقُ الطَّیرسے مجازًا پرندوں کے ذریعہ نامَہ بَری کا کام مراد لیا ہے۔ یہ معنی انہوں نے اس وجہ سے لئے ہیں کہ پرانے زمانے میں پرندوں سے نامہبَری کا کام لیا جاتا تھا۔
پرندے درحقیقت کوئی بولی نہیں رکھتے اور مَنطق بولی کو کہتے ہیں، جس میں مضمون کو ادا کرنے کے لئے الفاظ ہوتے ہیں اور دوسرا شخص جو اس زبان کو سمجھتا ہو نَاطِق کی مراد کو سمجھ لیتا ہے۔ پس اگر ظاہری پرندے مراد لئے جائیں تو ان کے لئے نُطق کے لفظ اور مَنطق کے لفظ کا اِطلاق مجازی ہو گا۔ یعنی پرندوں کی مختلف آوازوں سے،مختلف اَصوات سے اُن کی مراد سمجھ لینے کا علم۔ اس کا حضرت سلیمان علیہ السلام کو کیا فائدہ پہنچ سکتا تھاجس کی وجہ سے اُن کی بادشاہت میں اس کا جاننا ضروری ہو؟ مولوی ابو الحسن صاحب کو اس پر روشنی ڈالنی چاہئے تھی مگر وہ خود خاموش ہیں اور مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر پر معترض ہیں۔ آخر مبلغِ اسلام اسلام کو غیر مسلموں میں تبلیغ کرتے ہوئے جب مَنْطِقُ الطَّیر کے سمجھانے کی ضرورت پیش آئے اور وہ اس کی معقول توجیہ نہ کریں تو مخالف مضحکہ اڑائے گا۔ پرندوں کی بولی جاننے سے سلیمان کی حکومت کے لئے کوئی فائدہ متصوّر نہیں ہو سکتا۔
پھر اگر مَنطق سے حقیقی معنی میں مَنطق مراد لی جائے توالطَّیر کو مجازی معنی ہی میں لینا پڑے گا اور مراد اس سے عالم اور اہلُ اللہ ہوں گے اور یہ معنی زیادہ قرین قیاس ہیں۔ کیونکہ نبیوں کو علماء اور اہل اللہ کے طریق اظہار سے اور طریق تکلّم سے ضرور آگاہ کیا جاتا ہے۔ اور انہیں اپنے بزرگوں کے علم کلام سے حصۂ وافر عطا کیا جاتا ہے۔
ہمارے نزدیک یہ معنی زیادہ معقول اور قرین قیاس ہیں۔ اگر نامہ بَری کے معنی انہیں پسند نہیں تو مولوی ابو الحسن صاحب یہ دوسرے معنی اختیار کر سکتے ہیں۔
اسی ذیل میں مولوی ابو الحسن صاحب نے آیت حَتّٰٓى إِذَآ أَتَوْا عَلَى وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَّا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسَاكِنَكُمْ (النّمل: ۱۹)کی تفسیر پریہ اعتراض کیا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے مشہور تفسیر اور متبادر معنی کے مطابق چیونٹیوں کا گاؤں نہیں بلکہ ایک عرب قبیلہ بنی نملہ نام کی وادی مراد لی ہے اور نملۃ اُسی کا ایک فرد تھا۔
ہمارے نزدیک بھی یہی تفسیر معقول اور متبادر الفہم ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ وادیٔ نمل ساحل سمندر پر یوروشلم کے مقابل یا اس کے قریب دمشق سے حجاز کی طرف آتے ہوئے اندازًا سو میل نیچے کی طرف واقعہ ہے۔ ان علاقوں میں حضرت سلیمانؑ کے وقت تک عرب اور مَدیَن کے بہت سے قبائل بستے تھے۔ (دیکھو نقشہ فلسطین وشام بعہدِ قدیم و جدید ونیلسنز انسائیکلو پیڈیا) اور نَملہ ایک قوم تھی جو وہاں رہتی تھی۔ طائف کے قریب ایک نالہ سے سونے کے ذرّات چننے والی ایک قوم بھی نَملہ کہلاتی ہے۔ نَملہ کی انسانی قوم کو چھوڑ کر وادیٔ نَمل سے چیونٹیوں کا گاؤں مراد لینا اور پھر یہ خیال کرنا کہ چیونٹی بول پڑی اور اس نے دوسری چیونٹیوں سے کہا کہ مکانوں میں گھس جاؤ معقول تفسیر نہیں نَملہ کا قولاً‘‘اُدْخُلُوْا مَسَاکِنَکُم’’کہنا اور حضرت سلیمان کا اُس کو سن کر متبسم ہونا نَملہ کو انسان ہی ثابت کرتا ہے۔
قرآنِ کریم کی آیت حُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ (النّمل :۱۸)سے ظاہر ہے کہ اُن کا لشکر تین حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلا حصّہ جنّوں یعنی پہاڑی قبائلیوں پر مشتمل تھا اور دوسرا حصّہ عام لشکریوں اور تیسرا حصہ اہل علم اور اہلاللہ پر مشتمل تھا۔ تا وہ باقی لشکریوں کی اخلاقی نگرانی بھی کر سکیں۔
پس قرآنِ کریم کی مندرجہ بالا آیت سے یہ ظاہر ہےکہ حضرت سلیمان کا لشکر تین گروہوں پر مشتمل تھا۔ چونکہ لشکر جنگ کرنے والے سپاہیوں پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے پرندوں کا لڑائی میں جوانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں کوئی دخل متصوّر نہیں ہوسکتا۔ پس جنّ اور طَیر دونوں لفظ اس جگہ مَجَاز عُرفی کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ اور جِنّ سے مراد آیت میں جِنُّ الْاِنْسِ اور طَیر سے مراد طَیر الانس اور انس کے گروہ سے عام انسان مراد ہیں۔ پھر اس آیت میں لشکر کو ترتیب دینے کا ذکر ہے جیسا کہ فَھُمْ یُوْزَعُوْنَ کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ یہ ترتیب خود بتاتی ہے کہ یہ جِنّ غیر مرئی ہستیاں نہ تھے بلکہ مرئی وجود تھے جن کو صفوں میں دیکھا جا سکتا تھا اور وہ پرّا باندھ کر کھڑے کئے گئے۔
مولوی ابو الحسن صاحب کے نزدیک اس جگہ الجنّکے لفظ سے غیر مرئی ہستیاں اور طَیر سے عام پرندے مراد ہیں۔ لیکن قرآنِ کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ اَلْجِنّ سے وہ لوگ مراد ہیں جو بڑے جفاکش اور محنتی تھے۔ کیونکہ قرآنِ شریف میں اُن کے عمارات بنانے، سٹیچو بنانے، بڑے بڑے لگن، بڑی بڑی دیگیں جو ایک جگہ نصب رہتی تھیں بنانے اور سمندر میں غوطہ زنی کرکے موتی نکالنے کا ذکر ہے۔ فرمایا يَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا يَشَآءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ رَّاسِيَاتٍ(سبا:۱۴)نیز فرمایا۔ یہ پہاڑوں کے قبائلی لوگ تھے جنہیں حضرت سلیمانؑ کے لئے مسخر کیا گیا تھا اور آیتيَا جِبَالُ أَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ میں جِبَال سے مَجاز مُرسل کے طور پر اہل جَبل ہی مراد ہیں اور الطَّیر سے عام لوگ اور اِس آیت کے مطابق ان جِنُّ النَّاس اور عالموں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ داؤد کے ساتھ مل کر عبادت کریں۔
قرآنِ کریم کی کسی آیت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انبیاء کی بعثت انسانوں کے علاوہ کسی غیر مرئی مخلوق کی طرف بھی ہوتی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جو سیدالانبیاء ہیں ان کی شان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےوَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا (النساء:۸۰)قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّيْ رَسُولُ اللّٰہِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا(الاعراف: ۱۵۹) ان آیات سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت صرف انسانوں کے لئے تھی لہذا قرآنِ کریم میں جہاں جِنّوں کے کلام الٰہی سُن کر آپ پر ایمان لانے کا ذکر ہےوہاں جن سے مراد جِنُّ الْاِنْس ہی ہیں۔ اور آیت يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ(الزمر:۷۲)سے ظاہر ہے کہ جِنّو اِنس سے نبی آئے۔ مگر قرآنِکریم میں کسی غیر مرئی جنّ نبی کے مبعوث ہونے کا ذکر نہیں بلکہ تمام انبیاء بشر ہی تھے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نےجن و انس سے رسول بھیجے اور کسی غیر مرئی جنّ نبی کا ذکر قرآن کریم میں موجودنہیں اس لئے یہ مَعشر الجِنّ، جِنُّ النَّاس ہی ہیں نہ کہ کوئی غیر مرئی مخلوق، غیر مرئی مخلوق کے لئے انسان کو نبی بنانا قرآن کریم میں مذکور نہیں۔
حدیث نبوی میں وارد ہےکَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ اِلٰی قَوْمِہٖ خَآصَّۃً وَبُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ عَامَّۃً(صحیح بخاری کتاب التیمّم باب نمبر ۱) کہ پہلے نبی اپنی اپنی مخصوص قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے اور میں تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ پس کوئی نبی بھی مولوی ابو الحسن کے غیر مرئی مزعوم جِنّوں کی طرف مبعوث نہیں ہوا لہذا قرآن کریم کے عُرفِ خاص میں اَلْجِنُّسے مراد وہ سردارانِ قوم اور بڑے بڑے لوگ بھی ہیں جو عوامُ النّاس سے کم اختلاط رکھتے ہیں یا مخفی رہ کر تحریکیں چلاتے ہیں۔ انہیں کا ذکر قرآنِ کریم کی اس آیت میں ہے۔رِجَالٌ مِّنَ الْإِنْسِ يَعُوذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ (الجن:۷)کہ عام انسان اپنے سرداروں کی جو عام نگاہوں سے مخفی رہتے تھے پناہ میں ہوتے تھے۔
آیت يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْإِنْسِ(الانعام:۱۲۹) سے بھی ظاہر ہےکہ اکثر اور بہت سے انسان جِنّوں کے قابو میں ہوتے ہیں اور وہ جِنّ اُن سے فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ انہی کی تحریکات عوامُ النَّاس میں چلتی ہیں۔وَإِذَا خَلَوْا إِلٰى شَيَاطِيْنِهِمْ (البقرة:۱۵) میں ایسے ہی مخالفین اسلام کا ذکر ہے جو شیطان کی طرح مخفی رہ کر اسلام کے خلاف تحریک چلاتے تھے۔ شیطان کے متعلق بھی آیا ہے۔كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهٖ(الكهف:۵۱) بعض انبیاء کے لئے جِنُّ النَّاس مسخر کئے گئے اور اُن کو مختلف کاموں پر لگایا گیا جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت میں ہوا۔ ہمارے تجربہ میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ غیر مرئی جِنّوں سے انسانوں کا واسطہ رہا ہو۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت میں پہاڑوں میں علیحدہ رہنے والے قبائل اپنی سخت طبیعت اور انانیّت کی وجہ سے جِنّ قرار دیے گئے ہیں۔ اُن میں سے بعض کی انانیّت اس شدّت کی تھی کہ وہ حضرت سلیمان کی حکومت میں اطاعت قبول کرنے کو تیار نہ ہوئے۔ ایسے لوگوں کے متعلق قرآن کریم میں آیا ہے وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ (صٓ:۳۹)کہ کچھ اور تھے جن کو بیڑیاں پہنا کر قید کر دیا گیا تھا۔ پس کسی غیر مرئی ہستی کو بیڑیاں پہنانا ممکن نہیںیہ وہ پہاڑی لوگ تھے جنہوں نے سلیمانؑ کی اطاعت نہ کی اور انہیں قید کرنا پڑا۔یہ آیت اِس بات کے لئے قوی قرینہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے زمانہ کے جنّ جو ان کے لئے مسخر کئے گئے تھے غیر مرئی ہستیاں نہ تھے بلکہ یہ وہ اَکھّڑ لوگ تھے جو متمدّن دنیا سے علیحدہ رہنے کی وجہ سے عرفاً جنّ کہلاتے تھے۔ چونکہ یہ جنّ، جنّ النَّاس تھے اس لئے قرآن کریم میں الناس کی دو صنفیں ہو جانے کی وجہ سے بعض کو جنّ اور بعض کو اِنس کہا گیا ہے۔ قرآن و حدیث کے بیان سے ظاہر ہے کہ انبیاء کی بعثت انسانوں کی طرف تھی۔ لہذا سلیمانؑ کے لشکر میں جو جنّ تھے وہ قبائلی پہاڑی لوگ تھے جن کو تربیت دے کر فوجی خدمت پر مامور کیا گیا اور اُن کی فوج کے حصہ کا نام جنّ ہی رکھا گیا تا امتیاز قائم رہے۔
اَلطَّیْر: قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی جس فوج کو اَلطَّیر کا نام دیا گیا ہے وہ انسانوں میں سے علم و معرفت رکھنے والے لوگوں کا طبقہ تھا۔ جنہیں روحانیت یا علوم میں بلند پروازی یعنی مہارت کی بناء پر اَلطَّیر کا نام دیا گیا۔ ورنہ پرندوں کے لشکر کا حصّہ ہونے کے کوئی معنی نہیں۔ جُندی یا لشکری جنگ کرنے کے لئے رکھے جاتے ہیں اور وہ تمام جنگی امور سرانجام دیتے ہیں۔ پرندے لشکری یا فوجی کام نہیں دے سکتے۔ پس یہ عقلی قرینہ ہے کہ اَلطَّیر کی فوج سے مراد ایسے فوجی تھے جو علوم و معرفت میں ترقی یافتہ لوگ تھے اور ان سے بھی لڑائی میں عظیم الشان خدمات لی جاتی تھیں۔ بہت ممکن ہے کہ اُن سپاہیوں کے نام بھی خاص پرندوں کے نام پر رکھے گئے ہوں۔ چنانچہ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنمیں سے ایک طَائِر (فوجی) کا نام ہُد ہُد تھا۔ ھُدَدْ نام کے کئیآدمی بنی اسرائیل میں گزرے ہیں جیسا کہ بائیبل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔ عربی میں ھُدَدْ، ھُدْ ھُدْبن گیا جیسا کہ عربی میں یسوع سے عیسیٰ بن گیا۔
معلوم ہوتا ہے کہ بائیبل میں تفاؤل کے طور پر کسی شخص کا نام ہُد ہُد پرندے کے نام پر رکھ دیا جاتا تھا۔ یا بعد میں اس کے کمال کو دیکھ کر ہُد ہُد لقب بن جاتا تھا۔ بہرحال فوج کا ہُد ہُد حضرت سلیمان کے وقت الطَّیر فوج کا ایک عظیم فرد تھا۔ کیونکہ قرآنِ کریم کی آیت وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَآ أَرَى الْهُدْهُدَ (النّمل:۲۱)سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت سلیمانؑ نے فوج کے حصہ الطَّیر کا معائنہ کیا تو اس میں ہد ہد کی بڑی شخصیت کو غائب پایا۔ اور چونکہ ہد ہد بلا اجازت غائب تھا اس لئے حضرت سلیمان علیہ السلام ناراض ہوئے اور کہا اَمْ کَانَ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ لَأُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهٗ أَوْ لَيَأْتِيَنِّيْ بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ (النّمل ۲۱،۲۲)یعنی کیا وہ غائب ہو گیا ہے۔ اگر وہ ایسا ہے تو مَیں اُسے سخت عذاب دوں گا یا اُسے قتل کر دوں گا۔ ورنہ اسے واضح دلیل پیش کرنا ہو گی۔ یعنی سزا سے تب بچ سکتا ہے کہ وہ اپنی غیر حاضری کے لئے واضح دلیل پیش کرے۔ اب واضح دلائل تو انسان ہُدہُد ہی پیش کر سکتا ہے نہ کہ ہُد ہُد پرندہ ۔یہ ہُد ہُد جب لشکر میں واپس آتا ہے تو اس کی جواب طلبی ہوتی ہے تو وہ یہ عذر پیش کرتا ہے أَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَّقِيْنٍ(النّمل:۲۳) کہ اے سلیمان! میں نے اُس چیز کا پورا علم حاصل کر لیا ہے جو تمہیں پورے طور پر معلوم نہیں۔ اور میں تیرے پاس ملک سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوں۔ یہ بیان ہُد ہُد کا الفاظ میں ہی ہو سکتا ہے۔ وہ آگے بتاتا ہےإِنِّي وَجَدْتُ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ(النّمل:۲۴) وہ یقینی خبر یہ ہے کہ مَیں نے دیکھا ہے کہ سبا کے رہنے والوں کی حاکم ایک عورت ہے جسے ہر ضروری سامان حاصل ہے اور اس کا ایک عظیم الشان تخت ہے۔ آگے کہا وَجَدْتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللَّهِ(النّمل:۲۵) مَیں نے اُس ملکہ اور اُس کی قوم کو اللہ کےسوا سورج کے آگے سجدہ کرتے دیکھا ہے۔وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيْلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُوْنَ (النّمل:۲۵)شیطان نے اُن کے اعمال کو خوبصورت کر کے دکھایا ہے اور انہیں سچے راستہ سے روک دیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے۔ (ملاحظہ ہو سورۃ النّمل)
ہُد ہُدکے اِس بیان سے ظاہر ہے کہ یہ معرفتِ الٰہی رکھنے والا انسان تھا اور توحیدِ الٰہی کے متعلق اُسے اچھا علم حاصل تھا اور وہ شیطان کو بھی پہچانتا تھا اور ان لوگوں سے بحث کر کے وہ اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ شیطان نے غیر اللہ کی عبادت کے فعل کو انہیں ایسا خوبصورت کر کے دکھایا ہے اور انہیں صحیح راہ سے اس طرح روک دیا ہے کہ وہ ہدایت نہیں پاتے۔ پس جس ہُد ہُد نے اُس قوم کو توحید کی تبلیغ کر کے یہ معلوم کر لیا کہ وہ شیطانی اثرات کے تحت گمراہ اور ہدایت سے دور ہیں اس ہُد ہُد کو عام پرندہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ اُس خاص انسان کا نام ہُد ہُد پرندے کے نام پر رکھا گیا تھا جو پانی کی تلاش کر لیتا ہے۔
حضرت سلیمانؑ نے اس کے عذر پر مشتمل تقریر سنی تو اُس کے ذمّہ یہ ڈیوٹی سپرد کی کہ ملکہ سبا کے پاس وہی آپ کا خط لے کر جائے۔ چنانچہ حضرت سلیمانؑ نے کہااِذْهَبْ بِّكِتَابِيْ هٰذَا فَأَلْقِهْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُونَ(النّمل:۲۹) کہ میرا یہ خط لے کر جا اور ان لوگوں کو پیش کر دے۔ پھر ان سے ایک طرف ہو کر دیکھتے رہنا کہ وہ کن خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
اِس آیت سے ظاہر ہے کہ سلیمانؑ نے ہُد ہُد کو شاہی آداب بھی سکھائے کہ وہ براہِراست خط ملکہ کے سامنے پیش نہ کرے بلکہ اس کے درباریوں کے واسطے سے پیش کرے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور وہ خط ملکہ کے سامنے پیش ہوا۔
اِس عبارت سے بھی ظاہر ہے کہ ہُد ہُد انسان تھا۔ جس کو ہدایت کی گئی کہ وہ علیحدہ ہو کر اُن کی باتیں سنے اور خط کے ردِّ عمل کو معلوم کرے۔ سو یہ کام انسان ہی کر سکتا تھا نہ کہ کوئی پرندہ۔ پس ہُد ہُد کا سارا بیان جو اس نے عذر میں پیش کیا اور حضرت سلیمانؑ کی اُسے یہ ہدایت کہ وہ اُن کا رَدِّ عمل بھی معلوم کرے، اُس ہُد ہُد کے انسان ہونے پر روشن دلیل ہے اور اس سے یہ بات صاف ظاہر ہو جاتی ہے کہ جس طَیْر کے لشکر کا وہ ایک معزّز فرد تھا وہ لشکر سارے کا سارا اہل علم اور فضلاء پر مشتمل تھا۔ اس لئے ہماری ہی پیش کردہ تفسیر درست ہے اور عام مفسّرین کے خیالات موجودہ سائنٹیفک زمانہ کے اہل علم کے لئے قابلِ قبول اور تسلّی بخش نہیں۔
بعض علماء نے لفظ اَلْقِہْ اِلَیْھِمْ سے یہ خیال کر لیا ہے کہ ہُد ہُد نے خط اوپر سے پھینک دیا۔ انہوں نے یہ سوچا کہ اَلْقِہْ کا لفظ اس جگہاَبْلِغْہُکے معنی میں استعمال ہوا ہے کہ اس خط کو انہیں پہنچا دو۔ لُغت میں لکھا ہے ۔ اَلْقٰی اِلَیْہِ الْقَوْلَ اَوِ الْکَلَامَ: اَبْلَغَہٗ اِیَّاہُ۔ سو یہ لفظ کتاب بمعنی رسالت کے لئے جو کلام پر مشتمل تھا استعمال کیا گیا ہے۔ پس اس فقرہ کے یہ معنی ہوئے کہ میرا خط ملکہ سبا کے درباریوں کو پہنچاؤ۔
اَیُّکُمْ یَأْتِیْنِیْ بِعَرْشِھَا سے مفسّرین نے یہ سمجھا کہ حضرت سلیمانؑ بلکہ بلقیس کا تخت چوری منگوانا چاہتے تھے۔ یہ امر تو عصمتِ انبیاء کے خلاف ہے۔ چوری کے امر کو معجزہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پس عَرْشِھَا میں اِضَافتتَمْلِیْکینہیں بلکہ اضافت بادنیٰ ملابست ہے۔ یعنی وہ تخت لاؤ جو ملکہ کی آمد پر اُس کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تخت بنانے کا آرڈر پہلے دیا جا چکا تھا اور اب اس کا منگوانا مطلوب تھا۔ آپ نے اہلِ مجلس سے پوچھا کون لائے گا۔ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الجِنِّ یعنی جو مشکل کام کرنےمیں ماہر تھا۔ اس نے غلطی سے یہ سمجھا کہ یہ اُس تخت کو منگوانا چاہتے ہیں جو بلقیس کی ملکیت ہے۔ اس لئے اس نے کہا أَنَا اٰتِيكَ بِهٖ قَبْلَ أَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ وَإِنِّيْ عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ(النّمل:۴۰)۔ کہ وہ تخت میں تمہارے پاس یہاں سے کوچ کرنے سے پہلے لے آوں گا اور مجھے قوت ہے۔ یعنی میں لَڑ بھِڑ کر لا سکتا ہوں اور مَیں امین ہوں۔ یعنی میں اپنی ڈیوٹی کو خوب جانتا ہوں۔ حضرت سلیمانؑ سمجھ گئے کہ یہ میرے کلام کا مطلب نہیں سمجھا اس لئے اسے اس کام پر مامور نہ کیا تو دوسرا شخص جو اس راز سے واقف تھا اور جس کے پاس ایسے کاموں کا ریکارڈ ہوتا تھا وہ چونکہ سلیمانؑ کی بات کو صحیح طور پر سمجھ گیا اِس لئے اُس نے کہا میں فورًا حاضر کر سکتا ہوں۔ اسے ریکارڈ کی بناء پر علم تھا کہ وعدہ کے مطابق تخت تیار ہو چکا ہے اس لئے اس نے کہا کہ میں ابھی حاضر کرتا ہوں۔ یہ مفہوم ہے اس آیت قرآنیہ کا کہ قَالَ الَّذِيْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا اٰتِيكَ بِهٖ قَبْلَ أَنْ يَّرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ (النّمل:۴۱) ریکارڈ کا علم رکھنے والا یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ مَیں ابھی چوری کر کے لاتا ہوں۔ نہ اس آیت سے اُس کا جن ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ وہ کوئی اسرائیلی تھا جو ایسے کاموں کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلام کا معتمد علیہ تھا۔ چنانچہ اس نے جھٹ تخت حاضر کیا اور حضرت سلیمانؑ نے اس پر شکریہ ادا کیا کہ دورانِ سفر میں ہی ایسا اعلیٰ درجے کا تخت تیار ہوا حالانکہ ہم مرکز سے دور آچکے ہیں۔ یہ تخت اس وقت بنایا گیا تھا جب ملکہ سبا کو ملاقات کے لئے دعوت دی گئی تھی جیسا کہ خط کے الفاظ وَأْتُوْنِیْ مُسْلِمُیْنَ(النّمل: ۳۲) میں دعوت کا اشارہ ہے کہ فرمانبردار ہو کر تم میری ملاقات کے لئےاپنے مصاحبین کے ساتھ آؤ ـــــ بلقیس کا اصل تخت منگوانا معجزہ نہیں بن سکتا کیونکہ ایسا فعل چوری بنتا ہے اور چوری پر اعجاز کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ اعجاز کی ہتک ہے۔ پھر بفرضِ محال اگر یہ معجزہ بھی ہو اور چوری نہ سمجھی جائے اور اُس کے اِس طرح لانے میں کوئی اخلاقی گراوٹ بھی نہ سمجھی جائے پھر بھی یہ سلیمانؑ کا معجزہ نہ ہوتا بلکہ ایک دوسرے آدمی کا معجزہ ہوتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اخلاق کا علم رکھنے والے چوری کو معجزہ نہیں سمجھ سکتے اور نہ اُسے نبی کی طرف منسوب کر سکتے ہیں۔
ایک اور قرینہ اِس بات کے لئے کہ یہ تخت بلقیس کا مملوکہ نہ تھا یہ ہے کہ بلقیس کے سلیمانؑ کی ملاقات کے لئے آنے پر سلیمانؑ نے اس سے پوچھا اَھٰکَذَا عَرْشُکِ(النّمل: ۴۳) سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ بلقیس کا مملوکہ تخت تھا تو اُس پر اپنی شوکت کا رُعب ڈالنے کے لئے یہ سوال کرنا چاہئے تھااَھٰکَذَا عَرْشُکِ ؟ تشبیہ پر مشتمل سوال پیش کرنا اِس بات کی روشن دلیل ہے کہ وہ تختِ بلقیس نہ تھا کیونکہ مشبّہ اور مشبّہ بِہٖ میں مغائرت ہوتی ہے اور وہ دونوں ایک شَے نہیں ہو سکتے۔ پس بلقیس کا تخت اس سوال میں مشبّہ بِہٖ ہے۔ اور جس تخت کا ذکر سلیمانؑ سوال میں کر رہے تھے وہ مشبہ تھا۔ پس جب اس فقرے کی حقیقتِ لُغویّہ یہ ہے تو اس تخت کو بلقیس کا مملوکہ تخت سمجھ لینا درست نہیں۔ بلقیس نے بھی صحیح جواب دیاکَانَّہٗ ھُوَ(النّمل:۴۳)کہ یہ تخت ہُو بہُو میرے تخت سے مشابہ ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ اُسے یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ تخت میرا مملوکہ ہے۔ اور وہ مملوکہ تھا بھی نہیں۔ وہ اب اُس کا تخت اُس تعلق کی وجہ سے قرار دیاگیا تھا کہ یہ تخت اس کی خاطر تیار کروایا گیا تھا۔ پس اُس تخت کو بلقیس کا مملوکہ تخت قرار دینا اور چوری کے ذریعہ حاصل کرنا معجزہ نہیں کہلا سکتا۔ البتہ اس تخت کا بنوا لیا جانا اپنے اندر ضرور ایک کرامتاور اعجاز کا رنگ رکھتا ہے کیونکہ دورانِ سفر میں تھوڑی سی مدت میں ہی ایسا عظیم الشان تخت تیار ہو جاتا ہے جو بلقیس جیسی ملکہ کے عظیم الشان تخت کو بھی مات کر رہا تھا۔ پس یہ معنے تو نئے تعلیم یافتہ قبول کر سکتے ہیں لیکن ابو الحسن صاحب ندوی کے معنی جو انہوں نے تفسیروں سے لئے ہیں ان سے حضرت سلیمانؑ کی طرف چوری کا فعل منسوب کرنا پڑتا ہے جو عصمتِ انبیاء کے مَنَافِی ہے۔ لہذا ایسے معنوں سے ہمارے اِس غور کرانے کے بعد ہر اہل علم اور ہر سلیمُ العقل انسان اجتناب کرے گا جو عصمتِ انبیاء کے منافی ہوں۔
(۶)سورۃ سبا میں حضرت سلیمانؑ کے متعلق ارشاد ہے۔فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلٰى مَوْتِهٖ إِلَّا دَآبَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهٗ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَّوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوْا فِيْ الْعَذَابِ الْمُهِيْنِ(سبا:۱۵) اِس آیت کی تفسیر میں مولوی محمد علی صاحب نے بیان کیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کی وفات کے جلد ہی بعد ان کی سلطنت کی حالت خراب ہو گئی۔ حضرت سلیمانؑ کے بیٹے رحبعام کے تخت نشین ہونے کے تھوڑا عرصہ بعد یربعام کی انگیخت پر بنی اسرائیل نے کچھ مطالبات پیش کئے۔ اس وقت حضرت سلیمان کے پرانے مشیروں نے رحبعام کو مشورہ دیا کہ وہ قوم کو تنگ نہ کرے اور ان کے مطالبات کو قبول کر لے مگر اس نے بجائے اُن مشیروں کی بات سننے کے اپنے نوجوان ساتھیوں کے کہنے پر بنی اسرائیل کے مطالبات کا سخت جواب دیا اور اُن پر سختی کرنے کی ٹھانی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دس قومیں باغی ہو گئیں اور حضرت سلیمانؑ کی سلطنت برباد ہو گئی اور رحبعام کی حکومت صرف ایک چھوٹی سی شاخ رہ گئی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ غیر اسرائیلی اقوام بھی آزاد ہو گئیں۔(سلاطین باب۱۲)
پس دَآبّۃُ الْاَرْضِیہی رحبعام حضرت سلیمان کا بیٹاہے جس کی نظر صرف زمین تک محدود تھی اور سلیمان کے عصا کا کھایا جانا اُس کی سلطنت کی بربادی ہے اور جن سے مراد غیر قومیں ہیں جنہوں نے اب تک بنی اسرائیل کی ماتحتی کا جُوَا نہ اٹھایا ہوا تھا۔
اس تفسیر کے بالمقابل جو معقول معلوم ہوتی ہے۔ مولوی ابو الحسن صاحب نے مولوی شبیر احمد عثمانی کے ترجمۃ القرآن کے حاشیہ کی بناء پر یہ لکھا ہے:۔
‘‘مفسرین کی اس تفسیر میں لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جِنّوں کے ہاتھ سے مسجد بیت المقدس کی تجدید کرا رہے تھے۔ جب معلوم ہوا کہ میری موت آپہنچی ۔ جنّوں کو نقشہ بتا کر آپ ایک شیشہ کے مکان میں دربند کر کے عبادت الٰہی میں مشغول ہو گئے۔ جیسا کہ آپ کی عادت تھی کہ مہینوں خَلوت میں رہ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ اُسی حالت میں فرشتہ نے روح قبض کر لی۔ اورآپ کی نعش مبارک لکڑی کے سہارے کھڑی رہی۔ کسی کو آپ کی وفات کا احساس نہ ہو سکا۔ وفات کے بعد مدّت تک جن بدستور تعمیر کرتے رہے۔ جب تعمیر پوری ہو گئی۔ جس عصا پر ٹیک لگا رہے تھے گھُن کے کھانے سے گِرا۔ تب سب کو وفات کا حال معلوم ہوا۔ اس سے جِنّات کو خود اپنی غیب دانی کی حقیقت کھل گئی اور ان کے معتقد انسانوں کو بھی پتہ لگ گیا کہ اگر انہیں غیب کی خبر ہوتی تو کیا اس ذلّت آمیز تکلیف میں پڑے رہتے۔’’
یہ قصہ جو مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے بعض اسرائیلی روایات پرمشتمل معلوم ہوتا ہے۔ ان روایات میں بھی سلیمانؑ کی سلطنت کی بربادی کے واقعہ کو تمثیل میں ہی بیان کیا گیا تھا۔ مگر مولوی ابو الحسن صاحب تمثیل کو حقیقت پر محمول کر رہے ہیں۔ جس روایت میں شیش محل کا ذکر آیا ہے اس میں یہ مذکور ہے کہ شیش محل کا کوئی دروازہ نہ تھا۔ لیکن ایک دوسری روایت سے ظاہر ہے کہ وہ شیشمحل کی بجائے ایک ایسے مکان میں داخل ہوئے تھے جس میں دونوں طرف ہوا کی آمدو رفت کے لئے سوراخ تھے اور اندر داخل ہو کر ایک جن نے اُن کی وفات کا علم حاصل کیا۔ لیکن شیش محل کی روایت سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ عمارت بنانے والے معمار جن باہر سے ہی دیکھتے رہتے تھے کہ سلیمانؑ اندر زندہ موجود ہیں۔ ان دونوں روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کھڑے ہو کر لاٹھی کہ سہارے عبادت کر رہے تھے مگر ابو الحسن صاحب کو سوچنا چاہئے کہ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ایک شخص لاٹھی کے سہارے کھڑا ہو اور اس کی وفات ہو جائے اور وہ ویسے کا ویسا مدّت تک کھڑا رہ جائے۔ یہ نظارہ دنیا کی آنکھ کبھی نہیں دیکھ سکتی۔ کیونکہ روح کے پرواز کر جانے کے بعد اگر وفات کھڑے ہونے کی حالت میں ہو تو لاٹھی کے سہارے کوئی نعش کھڑی نہیں رہ سکتی ۔ اس کا لازماً گرنا ضروری ہے۔ اب اگر مولوی ابو الحسن صاحب اسے حضرت سلیمانؑ کا معجزہ قرار دیں تو اس کے معجزہ ہونے پر آیت کا کوئی لفظ دلالت نہیں کرتا۔ اور نہ روایتوں کے الفاظ دلالت کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ لاٹھی کا سہارا قرار دیتے ہیں اور اسے لاش کے کھڑا رہنے کا سبب قرار دیتے ہیں تو یہ امر تو کسی معجزہ کے عدم وقوع پر دلیل ہے کیونکہ لاش کے کھڑا ہونے کا سبب معلوم ہے جو لاٹھی کا سہارا تھا۔ اور معجزہ ایسا امر ہوتا ہے جس کا سبب غیر معلوم ہو۔
اصل حقیقت یہی ہے کہ اسرائیلی روایات میں بھی گھُن سے مراد تمثیلاً رحبعام ہی تھا۔جیسا کہ سلاطین کے وضاحتی بیان سے ظاہر ہے اور بعد از وفات حضرت سلیمانؑ کے گرنے سے اُن کی سلطنت کا گرنا مراد ہے نہ کہ خود اُن کی نعش کا گرنا۔ تفسیر دُرِّ مَنْثُور کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ملک الموت سے کہہ دیا تھا کہ جب میری موت قریب آئے تو مجھے بتا دینا۔ چنانچہ ملک الموت نے بتا دیا اور آپ نے ایک کمرے میں عُزلت اختیار کر لی اور جبریل سےکہا کہ میری موت کو مخفی رکھا جائے۔ اِس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کمرے میں داخل ہو کر وہ جلد وفات پا گئے۔ اور جو یہ قصّہ ہے کہ ایک سال بعد اُن کی وفات ہوئی اسے علّامہ المراغی نے تسلیم نہیں کیا بلکہ اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ:۔
‘‘روزانہ ان کی خوراک وغیرہ کا بندوبست ہوتا ہو گا۔ اور جب تک وہ زندہ رہے لوگوں کو ان کی زندگی کا علم ہوگا۔’’
پس معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کی وصیّت کے مطابق اُن کی وفات کو ایک وقت تک مخفی رکھا گیا اور سوائے خاص آدمیوں کے اِس بات کا عام لوگوں کو کوئی علم نہ تھا۔ اُن کی عُزلت کے زمانہ میں ان کا بیٹا بطور نمائندہ سلطنت کا کام چلا رہا تھا کہ اِس دوران یربعام کی انگیخت پر بنی اسرائیل کے دس قبائل نے بعض مراعات طلب کیں لیکن رحبعام اپنے نالائق مشیروں کے مشورہ میں آکردآبۃُ الارض یعنی سِفلی خیالات رکھنے والا ثابت ہوا اور اس نے عصائے سلطنت کو اپنی غلط پالیسی سے توڑ ڈالا۔ اس سے بنی اسرائیل کے ان دس قبائل کو جب سلیمانؑ کی پالیسی کے خلاف نئی پالیسی اختیار کرنے کا علم ہوا تو وہ جان گئے کہ اب سلیمانؑ زندہ نہیں۔ کیونکہ وہ یہ پالیسی بنی اسرائیل کے متعلق کبھی اختیار نہیں کر سکتے تھے۔
جب حضرت سلیمانؑ کی وفات کا راز فاش ہو گیا تو جن النَّاس معماروں نے بھی جان لیا کہ ہم یونہی کافی عرصہ بیگار کے عذاب میں مبتلا رہے۔ اگر ہمیں پہلے سے علم ہو جاتا تو اِس عذاب سے بچ جاتے۔ قرآن کی آیت لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْب سے ہرگز یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ جِنّوں کو علم غیب رکھنے کا دعویٰ تھا۔ اِس فقرے میں تو انہوں نے اپنی غیب دانی کا انکار کیا ہے اور اُن کی غیب دانی کے دعویٰ کاذکر اس سے پہلے بھی موجود نہیں۔
مِنْسَأَۃٌاُس بہت بڑے ڈنڈے کو کہتے ہیں جس سے اونٹ ہانکے جائیں اور رو کے جائیں۔ المنجد میں لکھا ہے۔ اَلْمِنْسَأَۃُ: اَلْعَصَا الْعَظِیْمَۃُ الّتِیْ تَکُوْنُ مَعَ الرَّاعِیْ کَأَنَّہٗ یُبْعِدُ بِھَا الشَّیءَ و یَدْفَعُ ـــــــ مِنْسَأَۃٌ سے وہ بڑا ڈنڈا مراد ہےجس سے چرواہا جانوروں کو دور ہٹاتا ہے ـــــــچنانچہ (مفردات القرآن) میں لکھا ہے۔ اَلْمِنْسَأُ عَصًا یُنْسَأُ بِہِ الشَّیْءُ اَیْ یُؤَخَّرُ۔ قَالَ: (تَأْکُلُ مِنْسَأَتَہٗ )وَنَسَأَتِ الْاِبِلُ فِیْ ظَمَئِھَا یَوْمًا أَوْ یَوْمَیْنِ اَیْ أَخَّرَتْ۔(مفردات امام راغب زیر لفظ نَسَأَ)
پس مِنْسَأَۃٌسے مراد چھڑی یا لاٹھی نہیں ہو سکتی۔ جس پر ٹیک لگائی جائے بلکہ اس سے وہ بڑی لاٹھی مراد ہوتی ہے جو اونٹوں کو پیچھے ہٹانے کے کام آئے۔ پس جب یہ لاٹھی سہارے والی قرار نہیں پاتی تو اس کا مجازی معنوں میں استعمال اس مفہوم میں قرار دینا پڑے گا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت میں ایسی خرابی آگئی کہ سرکش لوگوں کو شرارتوں سے ہٹانے کے لئے جو طاقت چاہئے تھی وہ کمزور پڑگئی۔ عربی زبان میں عصا کا لفظ مِنْسَأَۃٌکے مقابلہ میں عام لفظ ہے اور مِنْسَأَۃٌعَصَا کے مقابلہ میں خاص لفظ ہے۔ عصا سے ٹیک لگانے اور معمولی مدافعت کا کام تو لیا جا سکتا ہے لیکن بڑے جانوروں کو ہٹانے کے لئے مِنْسَأَۃٌاستعمال ہوتا ہے۔ پس عبادت کے لئے کمرے میں جاتے ہوئے مِنْسَأَۃٌ کا ٹیک لگانے کے لئے ساتھ لے لینا غیر معقول بات ہے اور یہ امر قرینہ حالیہ ہے کہ مِنْسَأَۃٌسے حکومتِ سلیمان کی قوتِ مدافعت ہی مراد ہے اور اسی قرینہ سے خرّسے سلیمان علیہ السلام کی حکومت کی گراوٹ اور کمزوری مراد ہے۔ بعض اسرائیلی روایتوں میں یہ آیا ہے کہ عبادت گاہ میں وہ لاٹھی کے سہارے کھڑے تھے کہ ان کی موت واقعہ ہو گئی۔ اور ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ انہیں حنوط کیا گیا اور کفن پہنایا گیا اور وہ ایک کرسی پر عبادت گاہ میں بیٹھ گئے اور ڈنڈا ٹھوڑی کے نیچے رکھ لیا کہ اِسی حالت میں اُن کی وفات ہو گئی۔ پس اِس بارےمیں روایات میں بھی بہت اختلاف ہے۔ حنوط لاش کو کیا جاتا ہے نہ کہ زندہ کو اورکفن بھی مُردہ کو پہنایا جاتا ہے نہ کہ زندہ کو لیکن اگر جِنّوں کو شیش محل سے یہ دکھانا مقصود ہوتا کہ سلیمانؑ زندہ ہیں تو پھر کفن پہنانے کی ضرورت نہ تھی۔ پس یہ روایات متضاد ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتماد ہیں۔ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اُن کی وفات کو مخفی رکھا گیا اور جِنّوں کو اُن کی وفات کا علم تب ہوا جب سلطنت کی قوتِ مدافعت میں کمزوری آگئی۔
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کہتےہیں کہ قرآن کے عَرَبِیٌّ مُّبِیْن میں نازل ہونے کا ذکر آیا ہے۔ (بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ۔الشعراء:۱۹۶) قرآنِ کریم تو بے شک لسان عربی مبین میں ہے لیکن قرآن کریم کے عربی مبین ہونے سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ اس میں تمثیلات، مجاز اور استعارہ سے کام نہیں لیا گیا۔ اس آیت میں خود لفظ لسان بھی لغت کے لئے بطور استعارہ استعمال ہوا ہے۔ خود قرآنِ مجید نے بتایا ہے:۔
مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَأْوِيلِهٖ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيْلَهٗ إِلَّااللّٰهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّآ أُولُوْ الْأَلْبَابِ (آل عمران :۸)
ترجمہ۔ خدا وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب نازل کی ہے۔ جس کی بعض آیتیں محکم ہیں۔ وہ اس کتاب کی جڑ ہیں اور کچھ اَور متشابہ ہیں۔ پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ تو فتنہ کی غرض سے اِس کتاب کو اس کی حقیقت سے پھیر دینے کے لئے اُن آیات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جومتشابہ ہیں۔ اور ان کی تاویل اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ راسخ فی العلم کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے۔ سب ہمارے رب کی طرف سے ہی ہے۔ اور عقلمندوں کے سوا ان سے کوئی نصیحت حاصل نہیں کر سکتا۔
پس متشابہات کی تفسیر میں عقلی کو کام میں لانا ضروری ہے تا ان کے معنی محکمات کے مطابق رہیں۔
بات اصل میں یہ ہے کہ پرانے مفسّرین عمومًا متشابہات کی تاویل سے بچتے رہے اور قصَصِ انبیاء کے بارے میں اسرائیلی روایات پر انحصار کرتے رہے۔ نصیحت کا پہلو تو انہوں نے ان واقعات سے نکالا ہے لیکن وہ اس بات کا دعویٰ نہیں کرتے کہ یہ اسرائیلی روایات اپنے اندر قطعیت رکھتی ہیں اس لئے متشابہات کی تاویل میں بہت گنجائش ہوتی ہے اور ان کی تفسیر معقول ہونی چاہئے جو آیات محکمات سے تعارض نہ رکھے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب احادیث کی چھان پھٹک کی جاتی ہے۔ جن کے جمع کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیا گیا اور ان میں بھی بہت سی روایات جعلی ثابت ہو جاتی ہیں تو قرآن کریم کی تفسیر میں اس کے متن میں تدبّر کئے بغیر اسرائیلی روایات پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ آیات متشابہات میں عمومًا مجاز و استعارہ کا دخل ہوتا ہے۔ پس پہلوں نے اِن قصوں سے جو کچھ سمجھا اُس پر انحصار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اسرائیلی روایات کو قطعی اور یقینی نہیں سمجھا گیا ـــــ مگر مولوی ابو الحسن صاحب یہی چاہتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی بعض آیات کا پہلوں نے اسرائیلی روایات کی بناء پر جو مفہوم اخذ کیا ہے آنکھیں بند کر کے اُسی پر انحصار کر لیاجائے۔ کیونکہ بزرگوں نے ان روایات کو تفسیر کا ماخذ قرار دیا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے کہ قرآنِ کریم میں تدّبر سے کام لیں۔ چنانچہ فرمایا أَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ أَقْفَالُهَا(النّسآء:۸۳) پس قرآنِ کریم میں دلوں کے قُفل کھول کر تدبّر سے کام لینا چاہئے اور چونکہ یہ نئے علوم کا زمانہ ہے اس لئے آج کل قرآنِ کریم کی ایسی تفسیر نہیں کرنی چاہئے جو سائنٹیفک دنیا کو اپیل نہ کر سکے۔ جب یونانی فلسفے کا پرانے زمانے میں زور تھا۔ اُس وقت متکلّمینِ اسلام مجبور تھے کہ رائج فلسفہ کی رعایت سے قرآنِ کریم کی تفسیر کرتے۔ آج نئے علوم نے تفسیر القرآن کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے جسے ندوی صاحب بند کرنا چاہتے ہیں۔ مگر عجمی نژاد تو کیا اب تو خود اہل عرب کے مفسّرین کا رُخ بھی تفسیر القرآن میں نئے علوم نے بدل کر رکھ دیا ہے۔ آپ علّامہ طنطاوی کی تفسیر پڑھ کر دیکھ لیں۔ آپ کو ایسی تفسیر آیاتِ قرآنیہ کی ملے گی جو پہلے لوگوں کے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔ یہی حال دیگر علماءِ عصر کا ہے سوائے یہاں کے متعصّب علماء کے جو احمدیت کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کے لئے مسلمانوں کی آنکھیں میں دُھول ڈالنا چاہتےہیں اور عوام النّاس کو پرانے ڈگر پر ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر جوں جوں علوم ترقی کر رہے ہیں قرآنی معارف بھی زیادہ کھلتے جا رہے ہیں۔ اب دنیا میں احمدیوں کی تفسیر قبول کی جائے گی۔ کیونکہ وہ موجودہ تحقیقات کے اصولوں کے مطابق ہے۔
ہم پرانے مفسّرین کی کوششوں کی ناقدر ی نہیں کرتے لیکن اُن کی تفسیر کو خدا کا کلام بھی نہیں جانتے۔ لہذا جب وہ عقل سلیم کی روشنی اور تحقیقات کے صحیح اصولوں کے خلاف ہو تو قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔
(۷)مولوی ابو الحسن صاحب کے نزدیک سورۃ جِنّکیآیت قُلْ أُوْحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا(الجنّ:۲)میں جن جِنّوں کا مخفی طور پر آکر کلامِ الٰہی سننا مذکور ہے وہ غیر مرئی مخلوق تھے۔ مگر ہم ثابت کر چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت صرف انسانوں کی طرف تھی نہ کسی غیر مرئی افسانوی جِنّوں کی طرف۔ اس لئے یہ نَفَرٌ مِّنَ الجِنِّبھی جِنُّ النَّاس ہی تھے جنہیں مخفی طور پر کلامِ الٰہی سن کر جانے سے اَلْجِنّ یعنی چھپ کر آنے والے لوگ قرار دیا گیا۔ احادیث نبویّہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جِنّوں کا ایک وفد ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ملاقات کے لئے بھی آیا تھا۔ اور اس نے نخلہ میں رات کے وقت ڈیرہ لگایا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ان کی ملاقات کے لئے رات کے وقت گئے تھے۔ چونکہ صحابہؓ کو یہ بتایا نہیں گیا تھا اس لئے وہ پریشان ہوئے۔صبح کے وقت جب حضورؐ واپس تشریف لائے تو روایت ہے کہ آپ نے فرمایا۔ اَتَانِیْ دَاعِیَ الْجِنِّ فَاَتَیْتُھُمْ فَقَرَأْتُ عَلَیْھِمُ القُرْاٰنَ۔ راوی کہتا ہے فَانْطَلَقَ فَاَرَانَا اٰثَارَھُمْ وَ اٰثَارَ نِیْرَانِھِمْ۔ یہ روایت ترمذی میں حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ میرے پاس جِنّوں کی طرف سے بلانے والا آیا تھا سو میں اُن کے پاس آیا اور انہیں قرآن سنایا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہم صحابہ کو ساتھ لے گئے اور ہمیں اُن کے آثار اور اُن کے چولہے دکھائے جن میں آگ جلائی گئی تھی۔
اِس روایت سےظاہر ہے کہ صحابہؓ اُن جِنّوں کو کوئی غیر مرئی ہستیاں نہیں سمجھتے تھے۔ کیونکہ غیر مرئی ہستیوں کا اپنے لئے آگ کا استعمال کوئی معنی نہیں رکھتا۔
تفسیرروح المعانی سورۃ حج زیر آیت ۲۶ لکھا ہے۔ کَانُوْا تِسْعَۃَ نَفَرٍ مِّنْ اَھْلِ نَصِیْبیْنَ فَجَعَلَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ رُسُلًا اِلٰی قَوْمِھِمْ۔ یعنی یہ نصیبین کے رہنے والے نو شخص تھے جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اُن کی قوم کی طرف مبلغ بنا کر بھیجا۔
حضرت ابن عباسؓ بھی فرماتے ہیں کہ وہ اہل نصیبین کے نو شخص تھے جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی قوم کی طرف مبلغ بنا کر بھیجا تھا۔
(دُرِّمَنْثُور۔ تفسیر سورۃ کہف آیت نمبر۵)
لُغت عربی سے ظاہر ہے کہ بڑے آدمیوں کو بھی جن کہتے ہیں۔ چنانچہ المنجد میں لکھا ہے:جِنُّ النَّاس : مُعْظَمُھُمْ لِاَنَّ الدَّاخِلَ فِیْھِمْ یَسْتَتِرُبِھِمْ۔
کہ لوگوں میں سے جن اُن کے بڑے آدمی ہیں۔ کیونکہ جب کوئی اُن میں داخل ہو جاتا ہے تو وہ بھی اُن کے ذریعہ (لوگوں کی نگاہوں سے) چھُپ جاتا ہے۔
اِس سے ظاہر ہے کہ بڑے آدمی عوامُ النّاس سے چونکہ الگ تھلگ اور پوشیدہ رہتے ہیں اس لئے اس اخفاء کی وجہ سے جِنّ کہلاتے ہیں۔
نصیبین کے ایسے ہی لوگوں کا وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو ملا تھا جو ایسے سعید طبع تھے کہ قرآنِ مجید سنتے ہی ایمان لے آئے۔ قرآنِ کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تورات کے ماننے والے تھے۔ سورۃ جِنّ میں بھی جن جِنّوں کی آمد اور قرآن سننے کی خبر دی گئی ہے قرآنِ مجید سے ہی ظاہر ہے کہ وہ تورات کے ماننے والے تھے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جِنّ اس طرح دو دفعہ مدینہ منورہ میں آئے تھے۔ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم انہیں مدینہ سے باہر مخفی طور سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے تھے اور دوسری دفعہ وہ لوگ خود مخفی طور پر آئے اور قرآنِ مجید سن کر واپس چلے گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی اس طرح آمد کا علم وحی الٰہی کے ذریعہ دیا گیا۔
احمدیت نے اسلام کو کیا دیا؟
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے اپنی کتاب کے آخر میں فصل چہارم کے ذیل میں ‘‘قادیانیت نے عالم اسلام کوکیا عطا کیا’’ کے عنوان کے تحت لکھا ہے:۔
‘‘اب جب ہم اپنی اِس تحقیق کی آخری منزل تک پہنچ گئے ہیں اور اس کتاب کی آخری سطریں زیر تحریر ہیں ہم کو ایک عملی اور حقیقت پسند انسان کے نقطۂ نظر سے تحریکِ قادیانیت کا تاریخی جائزہ لینا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ اس نے اسلام کی تاریخِ اصلاح و تجدید میں کون سا کارنامہ انجام دیا اور عالم اسلام کی جدید نسل کو کیا عطا کیا۔ نصف صدی کی اِس پُر شور اور ہنگامہ خیز مدّت کا حاصل کیا ہے۔ تحریک کے بانی نے اسلامی مسائل اور متنازعہ فیہ امور پر جو ایک وسیع اور مہیب کتب خانہ یادگار چھوڑا ہے اور جو تقریباً ستر برس سے موضوع بحث بنا ہوا ہے اس کا خلاصہ اور ماحصل کیا ہے؟ قادیانیت عصرِ جدید کے لئے کیا پیغام رکھتی ہے؟’’
(قادیانیت صفحہ ۲۱۷)
‘‘مہیب کتب خانہ’’ کے لفظ پر حاشیہ دے کر لکھتے ہیں:۔
‘‘مرزا صاحب کی تصانیف کی تعداد ۸۴ سے کم نہیں ہے۔ ان میں اکثر نہایت ضخیم اور کئی کئی جلدوں کی کتابیں ہیں۔’’
مولوی ابو الحسن صاحب کے نزدیک عالَم اسلامی کی حالت اور
روحانی شخصیت کی ضرورت کا احساس
واضح ہو کہ ہمارے نزدیک بھی یہ سوال نہایت اہم ہے مگر افسوس ہے کہ مولوی ابو الحسن ندوی صاحب نے اس باب میں بھی حقیقت پسندی سےکام نہیں لیا بلکہ متعصبانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہو گا۔ اس موقع پر مولوی ابو الحسن صاحب نے عالَم اسلامی پر نظر ڈالی ہے تا یہ بتائیں کہ کن حالات میں تحریکِ احمدیت کا ظہور ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘یہ دیکھنا چاہئے کہ انیسویں صدی کے نصف آخر میں اس (عالَم اسلامی۔ ناقل) کی کیا حالت تھی اور اس کے کیا حقیقی مسائل و مشکلات تھے؟ اس عہد کا سب سے بڑا واقعہ جس کو کوئی مؤرخ اور کوئی مُصلح نظر انداز نہیں کر سکتا یہ تھا کہ اسی زمانہ میں یورپ نے عالمِ اسلام پر بالعموم اور ہندوستان پر بالخصوص یورش کی تھی اوراس کے جلو میں جو نظامِ تعلیم تھا وہ خدا پرستی اور خدا شناسی کی روح سے عاری تھا۔ جو تہذیب تھی وہ الحاد اور نفس پرستی سے معمور تھی۔ عالمِ اسلام ایمان، علم اور مادی طاقت میں کمزور ہو جانے کی وجہ سے اس نوخیز و مسلّح مغربی طاقت کا آسانی سے شکار ہو گیا۔ اس وقت مذہب میں (جس کی نمائندگی کے لئے صرف اسلام ہی میدان میں تھا) اور یورپ کی ملحدانہ اور مادہ پرست تہذیب میں تصادم ہوا۔ اس تصادم نے ایسےنئے سیاسی، تمدنی، علمی اور اجتماعی مسائل پیدا کر دئے جن کو صرف طاقتور ایمان و راسخ و غیر متزلزل عقیدہ و یقین و وسیع اور عمیق علم و غیر مشکوک اعتقاد و استقامتہی سے حل کیا جا سکتا تھا۔ اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک طاقتور علمی و روحانی شخصیت کی ضرورت تھی جو عالم اسلام میں روحِ جہاد اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کر دے۔ جو اپنی ایمانی قوت اور دماغی صلاحیت سے دین میں ادنیٰ تحریف و ترمیم قبول کئے بغیر اسلام کے ابدی پیغام اور عصرِ حاضر کے بے چین روح کے درمیان مصالحت اور رفاقت پیدا کر سکے اور شوخ اور پُرجوش مغرب سے آنکھیں ملا سکے۔
دوسری طرف عالَم اسلام مختلف دینی و اخلاقی بیماریوں اور کمزوریوں کا شکار تھا۔ اس کے چہرہ کا سب سے بڑا داغ وہ شرک جَلی تھا جو اُس کے گوشہ گوشہ میں پایا جاتا ہے۔ قبریں اور تعزیے بے محابا پُج رہے تھے۔ غیر اللہ کے نام کی صاف صاف دہائی دی جاتی تھی۔ بدعات کا گھر گھر چرچا تھا۔ خرافات و توہمات کا دور دورہ تھا۔ یہ صورتِ حال ایک ایسے دینی مصلح اور داعی کا تقاضا کر رہی تھی جو اسلامی معاشرہ کے اندر جاہلیت کے اثرات کا مقابلہ اور مسلمانوں کے گھروں میں اس کا تعاقب کر ے جو پوری وضاحت اور جرأت کے ساتھ توحید و سنت کی دعوت دے اور اپنی پوری قوت کے ساتھاَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ کا نعرہ بلند کرے۔
اسی کے ساتھ بیرونی حکومت اور مادہ پرست تہذیب کے اثر سے مسلمانوں میں ایک خطرناک اجتماعی انتشار اور افسوسناک اخلاقی زوال رونما تھا۔ اخلاقی انحطاط فسق وفجور کی حد تک تعیّش و اسراف نفس پرستی کی حد تک۔ حکومت اور اہلِ حکومت سے مرعوبیّت ذہنی غلامی اور ذلّت کی حد تک۔ مغربی تہذیب کی نقّالی اور حکمران قوم (انگریز) کی تقلید کُفر کی حد تک پہنچ رہی تھی۔ اس وقت ایک ایسے مصلح کی ضرورت تھی جو اس اخلاقی و ذہنی انحطاط کی بڑھتی ہوئی رَو کو رو کے اور اس خطرناک رجحان کا مقابلہ کرے جو محکومیّت اور غلامی کے اس دور میں پیدا ہو گیا تھا۔
تعلیمی و علمی حیثیت سے حالت یہ تھی کہ عوام اور محنت کش طبقہ دین کے مبادیِٔ اوّلیات سے ناواقف اور دین کے فرائض سے بھی غافل تھا۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ شریعتِ اسلامیٔ تاریخ اسلام اور اپنے ماضی سے بے خبر اور اسلام کے مستقبل سے مایوس تھا۔ اسلامی علوم روبہ زوال اور پرانے تعلیمی مرکز عَالَمِ نَزع میں تھے۔ اس وقت ایک طاقتور تعلیمی تحریک اور دعوت کی ضرورت تھی۔ نئے مکاتب اور مدارس کے قیام، نئی اور مؤثر اسلامی تصنیفات اور نئے سلسلۂ نشر و اشاعت کی ضرورت تھی جو اُمّت کے مختلف طبقوں میں مذہبی واقفیت، دینی شعور اور ذہنی اطمینان پیدا کرے۔
اس سب کے علاوہ اور سب سے بڑھ کر عَالَم اسلام کی بڑی ضرورت یہ تھی کہ انبیاء علیہم السلام کے طریق دعوت کے مطابق اس اُمّت کو ایمان اور عمل صالح اور صحیح اسلامی زندگی اور سیرت کی دعوت دی جائے جس پر اللہ تعالیٰ نے فَتح و نُصرت، دشمنوں پر غلبہ اور دین دنیا میں فلاحی و سربلندی کا وعدہ فرمایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عَالَم اِسلام کی ضرورت دینِ جدید نہیں ایمانِ جدید ہے۔ کسی دور میں بھی اس کو نئے دین اور نئے پیغمبر کی ضرورت نہیں تھی دین کے ان ابدی حقائق و عقائد اور تعلیمات پر نئے ایمان اور نئے جوش کی ضرورت تھی۔’’
(قادیانیت صفحہ ۲۱۷ تا ۲۲۰)
مولوی ابو الحسن صاحب ندوی نے مسلمانوں کی حالت کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ سراسر درست ہے۔ اِس کو بیان کرتے ہوئے انہیں بار بار یہ احساس ہوا ہے کہ ‘‘یہ صورتِ حال ایک ایسے دینی مُصلح اور دَاعی کا تقاضا کر رہی تھی جو اسلامی معاشرہ کے اندر جاہلیت کے اثرات کا مقابلہ اور مسلمانوں کے گھروں میں اس کا تعاقب کرے اور جو پوری وضاحت اور جرأت کے ساتھ توحید و سنّت کی دعوت دے۔’’ انہیں اِس بات کا بھی احساس ہوا ہے کہ ‘‘عالم اسلام کی سب سے بڑی ضرورت یہ تھی کہ انبیاء علیہم السلام کے طریق کے مطابق اِس اُمّت کو ایمان اور عمل صالح اور صحیح اسلامی زندگی اور سیرت کی دعوت دی جائے جس پر اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت، دشمنوں پر غلبہ اور دین و دنیا میں فلاح و سعادت اور سر بلندی کا وعدہ فرمایا ہے۔’’
کتاب قادیانیت کے پچھلے کسی باب کے اقتباسات سے آپ معلوم کر چکے ہیں کہ مولوی ابو الحسن صاحب نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی بعثت سے بدیں وجہ انکار کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے روحانی افلاس کی پیداوار ہیں۔ شکر ہے کہ اس کے برخلاف اپنی کتاب کے آخر میں اُمّتِمحمدیہ کے روحانی افلاس کو بیان کرتے ہوئے انہیں اس امر کی ضرورت محسوس ہوگئی ہے کہ یہ صورتِ حال کسی مُصلح اور داعی کی ضرور متقاضی تھی جو انبیاء علیہم السلام کے طریق کے مطابق دعوتِ اسلام کر کے ان کی اصلاح کرتا ۔
مولوی ابو الحسن صاحب کی شکر گزاری
مگر افسوس ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی سُنّت کے مطابق جس شخص کو اس وقت مسلمانوں کی اصلاح اور فلاح و کامیابی کے لئے کھڑا کر دیا اُسے وہ حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور لکھتے ہیں:۔
‘‘ ایک ایسے نازک وقت میں عالَم اسلام کے نازک ترین مقام ہندوستان میں جو ذہنی و سیاسی کشمکش کا خاص میدان بنا ہوا تھا (گویا سب سے بڑا تقاضا یہ تھا کہ اس نازک ترین مقام ہندوستان میں کوئی روحانی شخصیت مامور کی جاتی ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس سرزمین میں جو ذہنی و سیاسی کشمکش کا خاص میدان بنا ہوا تھا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانیؑ کو اصلاح کے لئے مامور فرمایا مگر وہ مولوی ابو الحسن صاحب کی نظر میں نہیں جچتے چنانچہ وہ لکھتے ہیں) مرزا غلام احمد صاحب اپنی دعوت اور تحریک کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ وہ عالَم اسلام کے حقیقی مسائل اور مشکلات اور وقت کے اصلاحی تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں علم و قلم کی طاقت ایک ہی موضوع اور مسئلہ پر مرکوز کر دیتے ہیں۔ وہ مسئلہ کیا ہے؟ وفاتِ مسیح اور مسیحِ موعود کا دعویٰ۔ اس مسئلہ سے جو کچھ وقت بچتا ہے وہ حُرمت ِجہاد اور حکومتِ وقت کی وفاداری اور اخلاص کی نذر ہو جاتا ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۲۲۱)
آگے صفحہ ۲۲۲،۲۲۳ پر لکھتے ہیں:۔
‘‘ انہوں نے عالَم اسلام میں بلا ضرورت ایک ایسا انتشار اور ایک ایسی نئی تقسیم پیدا کر دی جس سے مسلمانوں کی مشکلات میں ایک نیا اضافہ اور عصرحاضر کے مسائل میں نئی پیچیدگی پیدا کر دی۔
مرزا غلام احمد صاحب نے درحقیقت اسلام کے علمی اور دینی ذخیرہ میں کوئی ایسا اضافہ نہیں کیا جس کے لئے اصلاح و تجدید کی تاریخ ان کی معترف اور مسلمانوں کی نسل جدید اُن کی شکرگزار ہو۔ انہوں نے نہ تو کوئی عمومی دینی خدمت انجام دی جس کا نفع دنیا کے سارے مسلمانوں کو پہنچے۔ نہ وقت کے جدید مسائل میں سے کسی مسئلہ کو حل کیا نہ ان کی تحریک موجودہ انسانی تہذیب کے لئے جو سخت مشکلات اور موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہے کوئی پیغام رکھتی ہے۔ نہ اس نے یورپ اور ہندوستان کے اندر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کی جدوجہد کا تمام تر میدان مسلمانوں کے اندر ہے اور اس کا نتیجہ صرف ذہنی انتشار اور غیر ضروری مذہبی کشمکش ہے۔ جو اس نے اسلامی معاشرہ میں پیدا کر دی۔’’
(قادیانیت صفحہ۲۲۳)
مولوی ابو الحسن صاحب کی یہ سب عبارتیں اُس نعمت کی شکر گزاری پر مبنی ہیں جو خدا تعالیٰ نے تحریک احمدیت کے وجود میں اِس زمانہ کو عطا کی ہے۔ مولوی ابو الحسن صاحب ندوی کے نزدیک دعویٰ مسیح موعود اور وفاتِ مسیح پرمضامین لکھنے اور حُرمتِ جہاد کے سوا حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے کوئی کام ہی نہیں کیا۔ یہ افسوسناک ناقدر شناسی ہے جو حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کر لینے کا نتیجہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبلیغی کارنامے
(۱)آپ نے سب سے پہلے جو کتاب چار حصوں میں تصنیف فرمائی وہ براہین احمدیہ ہے۔ اس پر ریویو کرتے ہوئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں:۔
‘‘ہماری رائے میں یہ کتاب (براہین احمدیہ ۔ ناقل) اِس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں۔ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْرًا۔ اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے۔’’
(رسالہ اشاعۃ السنہ جلد۷ صفحہ۶)
مشہور صحافی جناب مولانا محمد شریف صاحب بنگلوری ایڈیٹر ‘‘منشور محمدی’’ بنگلور مسلمانوں کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں:۔
‘‘ کتاب براہین احمدیہ ثبوتِ قرآن و نبوّت میں ایک ایسی بے نظیر کتاب ہے جس کا ثانی نہیں۔ مصنّف نے اسلام کو ایسی کوششوں اور دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ ہر منصف مزاج یہی سمجھے گا کہ قرآن کتاب اللہ اور نبوّت پیغمبرِ آخر الزمان حق ہے۔ دین اسلام منجانب اللہ اور اس کی کا پیرو حق آگاہ ہے۔ عقلی دلیلوں کا انبار ہے۔ خَصم کو نہ جائے گریز اور نہ طاقتِ انکار ہے۔ جو دلیل ہے بیّن ہے جو بُرہان ہے روشن ہے۔ آئینۂ ایمان ہے۔ لُبّ لُبابِ قرآن ہے۔ ہادیٔ طریقِ مستقیم، مشعلِ راہِ قویم، مخزنِ صداقت، معدنِ ہدایت، برقِ خِرْمَنِ اَعداء، عدو سوز ہر دلیل ہے۔ مسلمانوں کے لئے تقویتِ کتاب الجلیل ہے۔ اُمّ الکتاب کا ثبوت ہے۔ بے دین حیران ہے، مبہوت ہے۔’’
(منشور محمدی ۲۵ رجب المراجب ۱۳۰۰ھ)
(۲)۱۸۹۶ء میں حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے جلسہ مذاہبِ اَعظم لاہور کے لئے ایک لیکچر تحریر فرمایا جو ‘‘اسلامی اصول کی فلاسفی’’ کے نام سے اردو کے علاوہ انگریزی، عربی، فارسی، فرانسیسی، ہسپانوی، چینی، بَرمی، سَنہالی اور گجراتی وغیرہ زبانوں میں شائع ہو چکا ہے۔ یہ لیکچر مندرجہ ذیل پانچ سوالوں کے جواب پر مشتمل ہے۔
۱۔ انسان کی جسمانی ، اخلاقی اور روحانی حالتیں۔
۲۔ انسان کی زندگی کی بعد کی حالت یعنی عقبیٰ۔
۳۔ دنیا میں انسان کی ہستی کی اصل غرض کیا ہے؟ وہ غرض کس طرح پوری ہو سکتی ہے؟
۴۔کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا اور عاقبت میں کیا ہوتا ہے؟
۵۔ علم یعنی گیان و معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں؟
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ نے اسلام کی روشنی میں ان پانچ سوالات کا جامع جواب دیتےہوئے اس امر کو سختی سے ملحوظ رکھا کہ ہر دعویٰ اور اس کی دلیل اسلام کی الہامی کتاب قرآنِ مجید سے دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت بذریعہ الہام آپؑ کو مطلع فرمایا کہ:۔
‘‘یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا’’
آپؑ نے اِس الہام کی اشاعت ایک اشتہار کے ذریعہ مورخہ ۲۱ دسمبر۱۸۹۶ء کو فرما دی جس میں یہ بھی لکھا کہ:۔
‘‘جو شخص اِس مضمون کو اوّل سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب میں سُنے گا تو مَیں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہو گا اور ایک نیا نور اس میں چمک اٹھے گا اور خدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ آجائے گی۔ یہ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف و گزاف کے داغ سے منزّہ ہے۔ مجھے اس وقت محض بنی آدم کی ہمدردی نے اس اشتہار کے لکھنے کے لئےمجبور کیا ہے کہ تا وہ قرآنِ شریف کے حسن و جمال کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کے ہمارے مخالفوں کا کس قدر ظلم ہے کہ وہ تاریکی سےمحبت کرتے اور نور سے نفرت رکھتے ہیں۔ مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ‘‘ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا۔’’
(تبلیغِ رسالت حصہ پنجم صفحہ ۷۸ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ۶۱۴)
یہ جلسۂِ مذاہب عالم لاہور میں ۲۶، ۲۷، ۲۸ دسمبر۱۸۹۶ء کو اسلامیہ کالج لاہور کے ہال میں منعقد ہوا۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ کے مضمون کو مکمل کرنے کے لئے جلسے کا ایک دن اور بڑھانا پڑا۔ چنانچہ منتظمین جلسہ مذاہب نے اپنی جلسۂ مذاہب کی رپورٹ میں لکھا:۔
‘‘پنڈت گوردھن داس صاحب کی تقریر کے بعد نصف گھنٹہ کا وقفہ تھا لیکن چونکہ بعد از وقفہ ایک نامی وکیل اسلام کی طرف سے تقریر کا پیش ہونا تھا اس لئے اکثر شائقین نے اپنی اپنی جگہ کو نہ چھوڑا۔ ڈیڑھ بجنے میں ابھی بہت سا وقت رہتا تھا کہ اسلامیہ کالج کا وسیع مکان جلد جلد بھرنے لگا اور چند ہی منٹوں میں تمام مکان پُر ہو گیا۔ اُس وقت کوئی سات اور آٹھ ہزار کے درمیان مجمع تھا۔ مختلف مذہب و ملل اور مختلف سوسائیٹیوں کے مُعتد بِہ اور ذِی علم آدمی موجود تھے اگرچہ کرسیاں اور میزیں اور فرش نہایت وسعت کے ساتھ مہیّا کیا گیا لیکن صد ہا آدمیوں کو کھڑا ہونے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑا۔ اور اُن کھڑے ہوئے شائقینوں میں بڑے بڑے رؤسا، عمائدِ پنجاب، علماء، فضلاء، بیرسٹر، وکیل، پروفیسر، ایکسٹرا اسسٹنٹ، ڈاکٹر غرضیکہ اعلیٰ طبقہ کے مختلف برانچوں کے ہر قسم کے آدمی موجود تھے۔ ان لوگوں کے اس طرح جمع ہو جانے اور نہایت صبر و تحمل کے ساتھ جوش سے برابر پانچ چار گھنٹہ اُس وقت ایک ٹانگ پرکھڑا رہنے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ان ذِی جاہ لوگوں کو کہاں تک اِس مقدّس تحریک سے ہمدردی تھی مصنف تقریر اِصَالتًا تو شریکِ جلسہ نہ تھے لیکن خود انہوں نے اسے ایک شاگردِ خاص جناب مولوی عبد الکریم صاحبسیالکوٹی مضمون پڑھنے کے لئے بھیجے ہوئے تھے۔ اس مضمون کے لئے اگرچہ کمیٹی کی طرف سے صرف دو گھنٹے ہی مقرر تھے لیکن حاضرینِ جلسہ کوعام طور پر اس سے کچھ ایسی دلچسپی پیدا ہو گئی کہ موڈریٹر صاحبان نے نہایت جوش اور خوشی کے ساتھ اجازت دی کہ جب تک یہ مضمون ختم نہ ہو تب تک کارروائی جلسہ کو ختم نہ کیا جاوے…… یہ مضمون قریباً چار گھنٹہ میں ختم ہؤا۔ اورشروع سے اخیر تک یکساں دلچسپی و مقبولیت اپنے ساتھ رکھتا تھا۔’’
[رپورٹ جلسہ مذاہب عالم (دھرم مہوتسو) بمقام اسلامیہ کالج لاہور صفحہ۷۹، ۸۰ مطبوعہ مطبع صدیقی لاہور]
جناب ایڈیٹر صاحب اخبار ‘‘ چودھویں صدی’’ اس جلسہ کے بارہ میں رقمطراز ہیں:۔
‘‘ان لیکچروں میں سب سے عمدہ لیکچر جو جلسہ کی روحِ رواں تھا مرزا غلام احمد قادیانی کا لیکچر تھا۔ جس کو مشہور فصیح البیان مولوی عبد الکریم سیالکوٹی نے نہایت خوبی اور خوش اسلوبی سے پڑھا۔ یہ لیکچر دو دن میں تمام ہؤا۔ ۲۷دسمبر کو تقریبًا چار گھنٹے اور ۲۹دسمبر کو دو گھنٹے تک ہوتا رہا۔ کُل چھ گھنٹے میں یہ لیکچر تمام ہؤا جو حجم میں سو صفحے کلاں تک ہو گا۔ غرضیکہ مولوی عبد الکریم صاحب نے یہ لیکچر شروع کیا اور کیسا شروع کیا کہ سامعین لَٹّو ہو گئے۔ فقرہ فقرہ پر صدائے آفرین و تحسین بلند ہوتی تھی اور بسا اوقات ایک ایک فقرہ کو دوبارہ پڑھنے کے لئے حاضرین کی طرف سے فرمائش کی جاتی تھی۔ عمر بھر ہمارے کانوں نے ایسا خوش آنند لیکچر نہیں سنا۔ دیگر مذاہب میں سے جتنے لوگوں نے لیکچر دیئے سچ تو یہ ہے کہ وہ جلسہ کے مستفسرہ سوالوں کے جواب بھی نہ تھے۔ عمومًا سپیکر صرف چوتھے سوال پر ہی رہے اور باقی سوالوں کو انہوں نے بہت ہی کم پیش کیا اور زیادہ تر اصحاب تو ایسے ہی تھے جو بولتے تو بہت تھے لیکن اس میں جاندار بات کوئی بھی نہیں تھی۔ بجز مرزا صاحب کے لیکچر کے جو ان سوالات کا علیحدہ علیحدہ، مفصّل اور مکمل جواب تھا اور جس کو حاضرین نے نہایت ہی توجہ اور دلچسپی سے سنا اور بڑا بیش قیمت اور عالی قدر خیال کیا۔
ہم مرزا صاحب کے مرید نہیں ہیں اور نہ اُن سے ہم کو کوئی تعلق ہے لیکن انصاف کا خون ہم کبھی نہیں کر سکتے اور نہ کوئی سلیم الفطرت اور صحیح کانشنس اس کو روا رکھ سکتا ہے۔ مرزا صاحب نے کل سوالوں کے جواب (جیسا کہ مناسب تھا) قرآن شریف سے دیئے اور عام بڑے بڑے اصول و فروعاتِ اسلام کو دلائلِ عقلیہ سے اور براہین فلسفہ کے ساتھ مُبرہن و مزیّن کیا۔ پہلے عقلی دلائل سے الٰہیات کے فلسفہ کو ثابت کرنا اُس کے بعد کلامِ الٰہی کو بطور حوالہ پڑھنا ایک عجیب شان رکھتاتھا۔
مرزا صاحب نے نہ صرف مسائل قرآن کی فلاسفی بیان کی بلکہ الفاظِ قرآن کی فلالوجی اور فلاسفی بھی ساتھ ساتھ بیان کر دی۔ غرضیکہ مرزا صاحب کا لیکچر بحیثیت مجموعی ایک مکمل اور حاوی لیکچر تھا جس میں بے شمار معارف و حقائق وحِکَم واَسرار کے موتی چمک رہے تھے اور فلسفۂ الٰہیہ کو ایسے ڈھنگ سے بیان کیا گیا تھا کہ تمام اہل مذاہب ششدر ہو گئے تھے۔ کسی شخص کے لیکچر کے وقت اتنے آدمی جمع نہیں تھے جتنے مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت۔ تمام ہال اوپر نیچے سے بھر رہا تھا اور سامعین ہمہ تن گوش ہو رہے تھے۔ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت خَلقت اس طرح آ آ کر گری جس طرح شہدپر مکھیاں۔ مگر دوسرے لیکچروں کے وقت بوجہ بے لطفی بہت سے لوگ بیٹھے بیٹھے اٹھ جاتے تھے۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا لیکچر بالکل معمولی تھا وہی ملّانی خیال تھے جن کو ہم ہر روز سنتے ہیں۔ اُس میں کوئی عجیب و غریب بات نہ تھی اور مولوی صاحب موصوف کے دوسرے لیکچر کے وقت کئی شخص اٹھ کر چلے گئے تھے۔ مولوی صاحب ممدوح کو اپنا لیکچر پورا کرنے کے لئے چند منٹ زائد کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ ’’
(اخبار چودھویں صدی راولپنڈی مؤرخہ یکم فروری ۱۸۹۷ء)
اِسی طرح جناب ایڈیٹر صاحب اخبار ‘‘سول اینڈ ملٹری گزٹ’’ نے اس مضمون کےمتعلق اپنا تأثر ان الفاظ میں بیان کیا ہے:۔
‘‘سب مضمونوں سے زیادہ توجہ اور دلچسپی سے مرزا غلام احمد قادیانی کا مضمون سنا گیا جو اسلام کے بڑے بھاری مؤیّد اور عالم ہیں۔ اس لیکچر کے سننے کے لئے دور و نزدیک سے ہر مذہب و ملّت کے لوگ بڑی کثرت سے جمع تھے۔ چونکہ مرزا صاحب خود شامل جلسہ نہیں ہو سکے اس لئے مضمون اُن کے ایک قابل اور فصیح شاگرد مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھا۔ ۲۷ تاریخ والا مضمون قریبًا ساڑھے تین گھنٹے تک پڑھا گیا اور گویا ابھی پہلا سوال ہی ختم ہوا تھا۔ لوگوں نے اس مضمون کو ایک وجد اور محویّت کے عَالَم میں سنا اور پھر کمیٹی نے اس کے لئے جلسہ کی تاریخوں میں ۲۹ دسمبر کی زیادتی کر دی۔’’
(سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور۔ دسمبر ۱۸۹۶ء)
افسوس ہے کہ مولوی ابو الحسن ندوی صاحب کو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ کی کتابوں میں وفاتِ مسیح اور دعویٰ مسیح موعود پر ہی زورِ قلم صرف کرنا نظر آیا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان کا ایسا لکھنا حقائق سے آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتابوں میں اسلامی علوم کا ایک بحر زَخَّار ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔
(۳)کتاب ‘‘جنگ مقدس’’ ۔ یہ کتاب ایک تحریری مباحثہ پر مشتمل ہے۔ جس میں عیسائی پادری عبد اللہ آتھم اور ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک سے آپ کا عقائد مسیحیّت پر تحریری مناظرہ ہوا جو امرتسر میں پندرہ دن تک جاری رہا۔ اِس مناظرہ میں آپ نے نہایت بیش قیمت علمی حقائق اسلام کی تائید میں بیان فرمائے ہیں اور عیسائیوں کو دندان شکن جواب دے کر ساکت کیا ہے۔
پھر آپ نے عیسائیوں کے بالمقابل تائیدِ قرآن شریف میں کتاب ‘‘نور الحق’’ عربی زبان میں تألیف فرمائی اور عیسائیوں کو للکارا کہ وہ اس کے جواب دینے والے کو پانچ ہزار روپیہ انعام دیں گے۔
(۴)سِرّالخلافۃ۔ اِس کتاب میں آپ نے مسئلہ خلافت پر سَیر حاصل بحث فرمائی ہے اور خلفاء اربعہ کا بَرحق ہونا ثابت فرمایا ہے۔ یہ رسالہ بھی عربی میں تصنیف فرمایا اور اس کے جواب کے لئے شیعوں کو فصیح و بلیغ عربی میں رسالہ لکھ کر پیش کرنے کی دعوت دی۔ آپ کی یہ کتاب شیعہ اور سُنّی کے درمیان ایک حَکَم کی حیثیت رکھتی ہے۔
(۵)مننُ الرحمٰن۔ یہ کتاب آپ کا عظیم الشان کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یادگار رہے گا۔ اس میں آپ نے ثابت کیا ہے کہ عربی زبان اُمّ الْالسنہ ہےاور اسی لئے خدائے قادر مطلق کی وحی آنحضرتؐ پر اِسی زبان میں نازل ہوئی جس سے تمام زبانیں نکلیں چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘یہ ایک نہایت عجیب و غریب کتاب ہے جس کی طرف قرآن شریف کی بعض پُر حکمت آیات نے ہمیں توجہ دلائی…… واضح ہو کہ اس کتاب میں تحقیق الالسنہ کی رُو سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دنیا میں صرف قرآن شریف ایک ایسی کتاب ہے جو اُس زبان میں نازل ہوا ہے جو اُمّ الْاَلسنہ اور الہامی اور تمام بولیوں کا منبع اور سرچشمہ ہے۔’’
(ضیاء الحق صفحہ ۲، روحانی خزائن جلد۹ صفحہ ۲۵۰)
آپ نے اس کتاب میں ثابت کیا ہے:۔
‘‘اوّل۔ عربی کے مفردات کا نظام کامل ہے
دوم۔ عربی اعلیٰ درجہ کی وجوہِ تسمیہ پر مشتمل ہے۔ جو فوق العادت ہیں۔
سوم۔ عربی کا سلسلہ اطراد اور مواد اکمل و اتم ہے۔
چہارم۔ عربی ترکیب میں الفاظ کم اور معانی زیادہ ہیں۔
پنجم۔ عربی زبان انسانی ضمائر کا پورا نقشہ کھینچنے کے لئے پوری طاقت اپنے اندر رکھتی ہے۔’’
پھر لکھا ہے:۔
‘‘اب ہریک کو اختیار ہے کہ ہماری کتاب چھپنے کے بعد اگر ممکن ہو تو یہ کمالات سنسکرت یا کسی اور زبان میں ثابت کرے…… ہم نے اس کتاب کے ساتھ پانچ ہزار روپیہ کا انعامی اشتہار شائع کر دیا ہے …… کہ فتح یابی کی حالت میں بغیر جرح کے وہ روپیہ اُن کو وصول ہو جائے گا۔’’
(ضیاء الحق، روحانی خزائن جلد۹ صفحہ ۳۲۱،۳۲۲)
(۶)معیار المذاہب۔ اِس رسالہ میں آپ نے تمام مذاہب کا فطرتی معیار کے لحاظ سے مقابلہ کیا ہے۔ خصوصًا آریہ اور عیسائی مذہب نیز اسلام کی خدا تعالیٰ کے متعلق تعلیم بیان فرماتے ہوئے اسلامی عقیدہ کو فطرت کے مطابق ثابت فرمایا۔
(۷)آریہ دھرم۔ اِس کتاب کے لکھنے کی دو وجوہات تھیں:۔
اوّل یہ کہ قادیان کے آریہ سماجیوں نے عیسائیوں کے نقشِ قدم پر چل کر آنحضرتؐ کی ذات بابرکات پر گندے الزام لگائے اور اس کی تشہیر کی۔
دوم یہ کہ پنڈت دیانند صاحب کو جو کہ آریہ سماج کے لیڈر تھے اپنی تالیفات میں آریہ سماج پر زور دے رہے تھے کہ وہ نیوگ کو اپنی بیویوں اور بہو بیٹیوں میں وید کے مسئلہ کے مطابق رائج کریں۔ اس کتاب میں آپ نے کمال تحقیق کے بعد آریوں کو ان کی غلطیوں پر متنبہ کیا اور واضح فرمایا کہ نیوگ توزنا ہے۔ اس سلسلہ میں اسلام کے مسئلۂ طلاق و تعدّدِازدواج پر روشنی ڈالی جن پر آریہ معترض تھے اور اسلامی تعلیم کی برتری ثابت فرمائی۔
(۸)ست بچن۔ آریہ سماج کے سرگروہ پنڈت دیانند نے بابا نانکؒ صاحب پر بے جا الزامات لگائے تھے۔ اُن کے ردّ میں آپ نے یہ کتاب تصنیف فرمائی اور اس میں ثابت کیا کہ بابا صاحب سچے اور مخلص مسلمان تھے۔ انہوں نے ویدوں سے اپنی براءت کا اظہار کیا ہے اور تعلیماتِ اسلامی پر کاربند رہے ہیں۔
(۹)سراج منیر، برنشانہائے ربِّ قدیر۔ اس کتاب میں آپ ؑنے بہت پہلے کی گئی سینتیس پیشگوئیوں کے ظہور پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس رسالہ کو شائع کرنے کی غرض یہ بیان کی ہے کہ۔
‘‘تا منکرینِ حقیقتِ اسلام و مکذّبینِ رسالت حضرت خیر الانام علیہ و آلہ الف الف سلام کی آنکھوں کے آگے ایسا چمکتا ہوا چراغ رکھا جائے جس کی ہر ایک سمت سے گوہرِ آبدار کی طرح روشنی نکل رہی ہے اور بڑی بڑی پیشگوئیوں پر جو ہنوز وقوع میں نہیں آئیں مشتمل ہے۔’’
(۱۰)برکات الدعاء۔ سر سیّد احمد خان صاحب نے غیر مسلموں کے اسلام پر اعتراضات اور حملوں سے گھبرا کر اسلام کے بعض متفقہ عقائد اور بیّن تعلیمات کی تاویلیں شروع کر دیں۔ مثلاً انہوں نے لفظی یا خارجی وحی اور وجودِ ملائکہ اور قبولیتِ دعا کا انکار کر دیا۔ اس کتاب میں مسئلۂ دعا پر روشنی ڈالی گئی ہے اور سر سید احمدخان کے دلائل کا معقول طور پر ردّ کیا گیا ہے۔ آپ نے برکات الدعاء کے صفحہ۱۲ پر لکھا ہے:۔
‘‘ مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی بعض دعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت سیّد صاحب کو اطلاع دوں گا اور نہ صرف اطلاع بلکہ چھپوا دوں گا مگر سیّد صاحب ساتھ ہی یہ بھی اقرارکریں کہ وہ بعد ثابت ہو جانے میرے دعویٰ کے اپنے اس غلط خیال سے رجوع کریں گے۔’’
(برکات الدعاء، روحانی خزائن جلد۶ صفحہ ۱۲)
اس کتاب کے آخر میں آپ نے پنڈت لیکھرام کے متعلق اپنی قبول شدہ دعا کا ذکر فرمایا اور سر سید صاحب کو لکھا:۔
‘‘از دعا کن چارۂ آزارِ انکارِ دعا
چوں علاج مے زِمے وقتِ خمار و التہاب
اے کہ گوئی گر دعا ہا را اثر بودے کجاست
سوئے من بشتاب بنمائم تُرا چوں آفتاب
ہاں مکن انکارزیں اسرسر قدر تہائے حق
قصہ کوتاہ کن بہ بیں از ما دعائے مستجاب
یہ دعائے مستجاب جس کا اس آخری مصرع میں ذکر ہے پنڈت لیکھرام کے متعلق تھی۔ چنانچہ سر سید مرحوم کی زندگی میں پیشگوئی کے مطابق ۶ مارچ ۱۸۹۷ کو لیکھرام مشیّتِ ایزدی سے آنحضرتؐ کے خلاف گندہ دہنی کرنے کی پاداش میں پُراسرار طور پر قتل ہو گیا اوراس کا قاتل حکومت اور آریوں کی انتہائی کوشش کے باوجود نہ مل سکا۔
آپؑ نے سر سید احمد خان کی خواہش پر اس کتاب میں قرآن کریم کی تفسیر کے سات معیار بھی تحریر فرمائے ہیں۔
(۱۱)حجۃ الاسلام۔ یہ کتاب آپ نے عیسائیت کے ردّ میں تحریر فرمائی اور عیسائی زعماء اور بعض دوسرے پادریوں کو اس عظیم الشان دعوت کے لئے بلایا ہے کہ اب زندہ مذہب صرف اسلام ہی ہے اور آسمانی نور اور روشنی رکھنے والا دین یہی ہے اور عیسائی مذہب اِس کے مقابلہ میں تاریکی میں پڑا ہوا ہے اور اس میں اب زندہ مذہب کی علامات مفقود ہیں۔ اس کے بعد ‘‘جنگِ مقدس’’ کا مباحثہ وقوع میں آیا جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔
(۱۲)آئینہ کمالات اسلام۔ یہ کتاب بھی قرآنی معارف کا ایک بیش بہا خزانہ ہے۔ اس میں آپ نے دینِ اسلام کے منجانب اللہ ہونے، اس کی حقّانیت، افضلیت اور اکملیت کو ثابت فرمایا ہے اور اسلام کے محاسن ایسے رنگ میں پیش فرمائے ہیں جس سے ان تمام اوہام اور وساوس کا ازالہ ہو جاتا ہے جو موجودہ زمانہ کے دہریہ، عیسائی اور آریہ معترضین نے اسلام سے بدظن کرنے کے لئے تراش رکھے تھے۔
(۱۳)چشمۂ معرفت۔ یہ کتاب اسلام کی حقّانیت پرایک قیمتی مضمون پر مشتمل ہے اور اس میں آریوں کے اسلام پر اعتراضات کی معقول طور پر تردید کی گئی ہے اور آریوں کے اصولوں کو باطل ثابت کیا گیا ہے۔
اِسی طرح اور بہت سی کتابیں آپ نے اسلام کی تائید اور عیسائیت کی تردید میں لکھیں۔ جیسے ‘‘چشمۂِ مسیحی’’ اور ‘‘سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب’’ آپ نے ۸۰ کے قریب کتب اور سینکڑوں اشتہار تحریرفرمائے ہیں۔ جن میں اسلامی حقائق کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ اس جگہ صرف چند کتب سے قارئین کرام کو روشناس کرایا گیا ہے۔
چونکہ آپ کی بعثت بموجب احادیثِ نبویّہ کسرِ صلیب اور اسلام کو اَدیانِ باطلہ پر غالب کرنے کے لئے تھی اس لئے تبلیغی مسائل کی طرف آپ کا توجہ کرنا ضروری تھا۔
وفاتِ مسیح کے اثبات میں آپؑ کو اس لئے لکھنا پڑا کہ غلط فہمی سے مسلمانوں کی آنکھیں آسمان کی طرف حضرت عیسیٰؑ کی آمدِ ثانی کے لئے لگی ہوئی تھیں۔ خدا نے اپنے الہام کے ذریعہ آپ پر ظاہر کیا کہ ’’مسیح ابنِ مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے‘‘۔* اس لئے آپ کے لئے ضروری تھا کہ مسلمانوں کی اس غلط فہمی کا ازالہ کریں کیونکہ یہ غلط فہمی ان کے آپؑ کو مسیح موعود قبول کرنے میں روک تھی۔ احادیثِ نبویّہ میں اس موعود کو نبی اللہ بھی کہا گیا ہے اور اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ کہہ کر اُمّتیوں میں سے اُمّت کا امام بھی قرار دیا گیا۔ اس لئے یہ امر بھی آپ کے لئے ضروری تھا کہ آپ اس بات پر روشنی ڈالتے کہ آیت خاتم النبیّین ایسے نبی کے آنے میں مانع نہیں جو ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اُمّتی ہو۔ سو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ نبی دیا ہے جس کی اُمّت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور عیسیٰ کہلا سکتا ہے حالانکہ وہ اُمّتی ہے۔ آپ نے ثابت کیا کہ اُمّتی نبی کا آنا حضرت خاتم النبیّین ؐ کے افاضۂروحانی کی بدولت ہے اور آنحضرتؐ کے بعد جو نبوّت منقطع ہوئی ہے وہ مستقلہ اور تشریعی نبوّت ہے۔ مولوی ابو الحسن صاحب کو ضرورت کا احساس توہو چکا ہے کہ اس زمانہ میں ایک طاقتور علمی اور روحانی شخصیّت کی ضرورت تھی اور یہ بھی اُن کو اعتراف ہے کہ عَالَم اسلام کی سب کی بڑی ضرورت یہ تھی کہ:۔
‘‘انبیاء علیہم السلام کے طریق دعوت کے مطابق اِس اُمّت کو ایمان اور عمل صالح اور صحیح اسلامی زندگی اور سیرت کی دعوت دی جائے جس پر اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت، دشمنوں پر غلبہ اور دین و دنیا میں فلاح و سعادت اور سربلندی کا وعدہ فرمایا ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۲۲۰)
مسیح موعودؑ کے ذریعہ مسلمانوں کی اصلاح
واضح ہو کہ یہ کام تو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہؑ نے کر دکھایا ہے۔ چنانچہ آپؑ نے مسلمانوں میں ایسی جماعت پیدا کی ہے جو ایمان اور عمل صالح کی نعمت سے متمتّع ہے اور انبیاء علیہم السلام کے طریق دعوت کے مطابق ساری دنیا میں اس کے ذریعہ بڑے جوش اور ولولہ کے ساتھ دعوتِ اسلام کا فرض ادا کیا جا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو خالص توحید پر قائم کیا ہے۔ وہ شرکِ جَلی مثلاً قبروں کو سجدہ کرنے، تعزیوں کی پوجا کرنے اور غیر اللہ کے نام کی دہائی دینے اور بدعات کا ارتکاب کرنے اور خرافات اور توہمات سے پاک ہے۔ وہ خدا کے فضل سے ایسی روحانی بیماریوں میں مبتلا نہیں۔ مولوی ابو الحسن صاحب نے عالَم اسلام کی روحانی بیماریوں کا ذکرکر کے بھی ایک ایسے دینی مُصلح اور دَاعی کی ضرورت کا احساس کیا ہے جو‘‘اسلامی معاشرہ کے اندر جاہلیت کے اثرات کا مقابلہ اور مسلمانوں کے گھروں میں اُس کا تعاقب کرے۔ جو پوری وضاحت اور جرأت کے ساتھ توحید و سُنّت کی دعوت دے اور اپنی پوری قوت کے ساتھ اَلَا لِلّٰہ الدِّیْنُ الْخَالِصُکا نعرہ بلند کرے۔’’(قادیانیت صفحہ ۲۱۹)
سو یہ کام حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے بطریقِ اَحسن سر انجام دیا ہے۔ اب یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ مولوی ابو الحسن جیسے عالم اِس داعی کی دعوت کو ردّ کر کے اس کوشش میں ہیں کہ مسلمانوں کو آپ سے بدظن کریں۔ تا وہ اتحاد جس کے پیدا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کو بھیجا وجود میں نہ آئے۔ مولوی ابو الحسن صاحب تو صرف ایسی شخصیت چاہتے ہیں جو اِن صفاتِ خاصہ کے ساتھ تلوار کا جہاد کر کے مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرے۔ مگر رسول کریمؐ مسیح موعود کے حق میں فرماتے ہیں:۔
یَضَعُ الحَرْبَکہ وہ جنگ کو روک دے گا
مولوی ابو الحسن صاحب نے چونکہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کو اپنے خیالِ باطل کے مطابق جنگ کی تلقین کرنے والا نہیں پایا اس لئے اُنہیں آپ کی مسیحیّت سے انکار ہے۔ وہ سوچیں کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ تو مثیل مسیح ہونے کا ہی ہے اور پہلے مسیح ؑنے بھی تو جنگ نہیں کی تھی اور علمائے یہود کو اُن پر یہی اعتراض تھا کہ انہوں نے اسرائیل کی بادشاہت قائم نہیں کی اور ہمیں داؤد کا تخت نہیں دلایا۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پروگرام لمبا تھا۔ اُن کا اصل مقصد قوم میں اعمال کی حقیقی روح پیدا کرنا تھا لیکن بد قسمتی سے علمائے یہود نے ان کی شدید مخالفت کی۔ حتّی کہ انہیں صلیب دینے کی کوشش بھی کی۔ یہ تو محض خدا کا فضل تھا کہ وہ انہیں صلیب پر مارنے پر قادر نہ ہو سکے۔
پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے پر قوم میں جو تفرقہ پیدا ہوا علماء کی مخالفت کی وجہ سے ہوا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کی غرض تو یہی تھی کہ ان کی قوم کے سب لوگ ان کے ہاتھ پر جمع ہوں۔ پس مولوی ابو الحسن صاحب کا کسی ایسے مسیح اور مہدی کا انتظار کرنا جو آتے ہی سب مسلمانوں کو متّحد کر دے اور پھر تلوار چلا کر تمام دنیا کو مسلمان بنا دے ایک طمع خَام ہے۔اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ اسلام اب حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی تحریک سے پُر امن طریقوں کے ذریعہ پر دنیا پر غالب آئے گا نہ جنگ کے ذریعہ سے۔
مولوی ابو الحسن صاحب آپؑ کی تحریک کے متعلق لکھتے ہیں:۔
‘‘نہ اُن کی تحریک موجودہ انسانی تہذیب کے لئے جو سخت مشکلات اور موت و حیات کی کشمکش سے دو چار ہے کوئی پیغام رکھتی ہے اور نہ اُس نے یورپ اور ہندوستان کے اندر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کی جدو جہد کا تمام تر میدان مسلمانوں کے اندر ہے۔’’
(قادیانیت صفحہ ۲۲۲)
تحریکِ احمدیّت کا مقصد
حضرت بانیٔ تحریکِ احمدیت کا بجز اس کے اور کوئی مقصد نہیں کہ اسلام کو ساری دنیا میں پھیلایا جائے اور اس دین اور اس کی تہذیب و تمدن کو دنیا میں غالب کیا جائے۔ مولوی ابو الحسن صاحب سچائی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتےہیں مگر جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت کا بے نظیر نظام قائم ہو چکا ہے اور اگر وہ آنکھیں کھولیں تو انہیں یہ نظام نظر آسکتا ہے۔
نشر و اشاعت کا کام
جماعت احمدیہ کے ذریعہ ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جماعت ہذا مختلف ممالک میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ بابرکات پر عیسائیوں اور دہریوں کی طرف سے جو رکیک حملے اور اعتراضات کئے جاتے ہیں اُن کا جواب لوگوں تک پہنچانے کے لئے وسیع پیمانہ پر اسلامی لٹریچر شائع کرتی رہتی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کے ہر محاذ پر احمدی مبلّغینِ اسلام کامیابی حاصل کر رہے ہیں اور ان کے ذریعہ لاکھوں افراد اسلام قبول کر چکے ہیں۔
تبلیغی مراکز
اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے پاکستان سے باہر قریبًا سات سو تبلیغی مراکز مختلف ممالک میں قائم ہو چکے ہیں۔ ان ممالک میں پاکستانی مبلغین کے علاوہ مقامی مبلغ بھی تیار ہوکر تبلیغ اسلام کا کام رہے ہیں۔ اور مختلف زبانوں میں اسلامی لٹریچر شائع ہو رہا ہے۔ یہ مشن انگلینڈ، جرمنی، سوئٹزرلینڈ ، ہالینڈ، ناروے، ڈنمارک، سویڈن، اسپین، سکاٹ لینڈ، شمالی امریکہ، کینیڈا میں اور جنوبی امریکہ میں برٹش گی آنا، ڈچ گی آنا اور مشرقی افریقہ میں یوگنڈا، تنزانیہ، کینیا میں اور مغربی افریقہ میں سیرالیون، نائیجیریا، غانا، آئیوری کوسٹ، لائبیریاا ور گیمبیا میں قائم ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ عدن، جاپان، انڈونیشیا، بورنیو، سنگاپور، سیلون، جزائر فیجی اور ماریشس میں بھی مشن قائم ہیں اور ان مشنوں کے ذریعے خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں افراد حلقہ بگوشِ اسلام ہو چکے ہیں اور لاتعداد روحیں اسلام کی صداقت کی قائل ہو رہی ہیں۔ فَالْحَمْدُ للِّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔
تراجم قرآنِ کریم
جماعت احمدیہ کے ذریعہ اِس وقت تک دنیا کی قریبًا سولہ زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم ہو چکے ہیں۔ جن میں سے انگریزی کے علاوہ جرمن، ڈچ، سواحیلی، اسپرانٹو اور انڈونیشین زبان کے تراجم اپنا وسیع حلقۂ اثر اور شہرت قائم کر چکے ہیں۔ ہمارے موجودہ امام حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ترجمۃ القرآن کی اشاعت کےلئے ایک خاص ادارہ قائم فرمایا ہے تا کہ لکھوکھہا کی تعداد میں قرآنِ مجید کے تراجم کیا شاعت دنیا کے مختلف حصوں میں کی جائے اور نہایت معمولی ہدیہ پر یہ تراجم لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچا دیئے جائیں۔ چنانچہ انگریزی ترجمۃُالقرآن کے ہزار ہا نسخے مختلف ممالک کے لئے شائع کئے اور بھجوائے جا رہے ہیں تا کہ غیر مسلم سعید روحیں کلامِ پاک کے نور سے منور ہو سکیں۔
مساجد
اِس وقت ہندو پاکستان سے باہر دوسرے ممالک میں قریبًا چھ صد سے زائد مساجد تعمیر ہو چکی ہیں جن میں سے بعض ایسی ہیں جو پانچ پانچ چھ چھ لاکھ روپیہ سے تعمیر ہوئی ہیں اور بعض مساجد کی تعمیر خالصۃً مستورات کے چندہ سے ہوئی ہے۔ ان مساجد میں پانچوں وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور ہزار ہا لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہو کر انہیں آباد کررہے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی ان تبلیغی کوششوں کا یہ اثر ہے کہ وہ لوگ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دیا کرتے تھے اب پانچوں وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپؐ کی آل پر درود بھیجتے ہیں۔
تعلیمی ادارے
چونکہ تعلیمی اداروں کا لوگوں پر نہایت نیک اثر ہو سکتا تھا اس لئے مرکزی مردانہ و زنانہ سکولوں اور کالجوں اور مشنری کالج بنام جامعہ احمدیہ کے علاوہ جماعت احمدیہ نے بیسیوں سکول اور کالج بیرونی ممالک بالخصوص مغربی افریقہ میں جاری کئے ہیں۔ جن میں دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ لوگوں کا رجحان ان سکولوں کی طرف روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
اخبارات
اللہ تعالیٰ کے فضل سے مرکزی اخبارات و رسائل کے علاوہ جماعت کے بیرونی مراکز سے ۱۹ اخبارات و رسائل مختلف زبانوں میں باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں تا کہ اسلامی تعلیم کی حقّانیّت کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف اعتراضات کا مؤثر اور مکمل دفاع ہوتا رہے۔ یہ اخبارات بھی اپنا اچھا حلقہ اثر پیدا کر رہے ہیں اور ان کے ذریعہ تبلیغ اسلام کا کام مؤثر طریق پر سر انجام دیا جا رہا ہے۔
طِبّی مراکز
یہ امر ضروری سمجھا گیا ہے کہ اسلامی تبلیغ کا فریضہ اُس وقت تک کَمَا حَقّہٗ ادا نہیں ہو سکتا جب تک خدمتِ خلق نہ کی جائے۔ سو اِس غرض کے لئے ہمارے امام نے براعظم افریقہ میں مختلف مقامات پر طبّی مراکز کھولے ہیں جن میں ایسے ڈاکٹر کام کر رہے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں خدمتِ اسلام کے نقطۂ نگاہ سے وقف کی ہیں اور وہ نہایت محنت اور توجہ سے اور دعاؤں سے کام لے کر اپنے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ اُن کی اس نیک نیّتی کے ساتھ خدمتِ خلق کا یہ اثر ہے کہ جو مریض اُن کی طرف رجوع کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جلد شفا یاب ہو جاتے ہیں اور یہ طبّی مراکز ایسی شہرت حاصل کر رہے ہیں کہ لوگ سرکاری ہسپتالوں کو چھوڑ کر ہمارے ہسپتالوں کی طرف رجوع کر رہے ہیں اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید اُن ڈاکٹروں کے شامل حال ہے جو ان مراکز میں کام کرتے ہیں۔ اس سے اُن لوگوں کے دل میں اسلام کی طرف رغبت پیدا ہو رہی ہے۔
جناب ایڈیٹر صاحب ماہنامہ ‘‘جدو جہد’’ لاہور، جماعت احمدیہ کی تین خوبیوں کے عنوان سے لکھتے ہیں:
‘‘ پاکستان اور بھارت میں بیسیوں فرقے موجود ہیں جن کو نام سے غرض ہے کام سے کوئی واسطہ نہیں۔ بحث و تمحیص میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جارہے ہیں لیکن عمل مفقود ــــ حالانکہ صرف عمل کر کے دکھلانا ہی اسلام کی خوبی ہے ورنہ مسلمان کا ہر دعویٰء عاشقی ایک مجذوب کی بَڑسے کم نہیں۔ قطع نظر عقائد کے عملی طور پر مرزائی (احمدی۔ ناقل) فرقہ باقی فرقوں سے تین باتوں سے فوقیت رکھتا ہے۔
۱۔اسلامی مساوات
ان میں اونچ نیچ شریف رذیل ادنیٰ و اعلیٰ کی تمیز کم ہے۔
سب کی عزّت کرتے ہیں۔
۲۔ بیت المال کا قیام
یہ ایک باقاعدہ شعبہ ہے جس میں ہر مرزائی (احمدی۔ ناقل)کو اپنی ماہوار آمدنی کا ۱/۱۰ حصہ لازماً دینا پڑتا ہے۔ صدقات، خیرات فطرانہ وغیرہ سب جمع کر کے یہ رقم صدقاتِ جاریہ میں خرچ کی جاتی ہے۔
نوٹ از مصنف کتاب ہذا:آمدنی کے۱۰/۱حصہ کی ادائیگی صرف وصیت کرنے والوں کے لئے لازمی ہے۔ جو وصیت نہیں کرتے ان کے لئے۶ ۱/۱ حصہ کی ادائیگی مقرر ہے۔
۳۔تبلیغ اسلام
یہ فخر صرف اِسی فرقہ کو حاصل ہے کہ سُنّی، شیعہ، وہابی، دیوبندی، چکڑالوی فرقہ کے لوگوں سے تعداد میں کم ہوتے ہوئے پھر بھی لاکھوں روپیہ سالانہ خرچ کر کے اپنے بَل پر تبلیغی مشن غیر اسلامی ممالک کو بھیجتے ہیں۔ اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا پیغام غیر مسلموں تک پہنچاتے ہیں۔
ہمارے دیس میں بڑے بڑے مخیّر لوگ موجود ہیں اور فلاحی انجمنیںقائم ہیں۔ مثلاً انجمن حمایتِ اسلام لاہور جو لاکھوں روپیہ تعلیم پر خرچ کرتی ہے لیکن کوئی اللہ کا بندہ یا انجمن اس طرف توجہ نہیں دےرہی۔ ’’
(ماہنامہ جدّو جہد لاہور۔ جولائی ۱۹۵۸ء)
انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے ریمارکس
انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے:۔
‘‘جماعت احمدیہ کا ایک وسیع تبلیغی نظام ہے۔ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ مغربی افریقہ، ماریشس اور جاوا میں بھی۔ اس کے علاوہ برلن، شکاگو اور لندن میں بھی ان کے تبلیغی مشن قائم ہیں۔ ان کے مبلّغین نے خاص کوشش کی ہے کہ یورپ کے لوگ اسلام قبول کریں اور اس میں انہیں مُعتد بِہ کامیابی بھی ہوئی ہے۔ ان کے لٹریچر میں اسلام کو اس شکل میں پیش کیا جاتا ہے کہ جو نو تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے باعثِ کشش ہے۔ اس طریق پر نہ صرف غیر مسلم ہی اُن کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں بلکہ اُن مسلمانوں کے لئے بھی یہ تعلیمات کشش کا باعث ہیں جو مذہب سے بیگانہ ہیں یا عقلیات کی رو میں بہہ گئے ہیں۔ ان کے مبلغین ان کے حملوں کا دفاع بھی کرتے ہیں جو عیسائی مناظرین نے اسلام پر کئے۔’’
(انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا مطبوعہ ۱۹۴۷ء جلد ۱۲ صفحہ ۷۱۱، ۷۱۲)
انسائیکلوپیڈیا آف اسلام لائیڈن یونیورسٹی ہالینڈ کے ریمارکس
‘‘جماعت کی مساعی پُر جوش اور مؤثر تبلیغ کرنے کے علاوہ سکول اور کالج قائم کرنے پر بھی مشتمل ہے۔ قادیان ہندوستان کا نمایاں اور سب سے تعلیم یافتہ شہر معلوم ہوتا ہے۔ جماعت احمدیہ کثیر لٹریچر شائع کرتی ہے۔ ان کی اپنی مساجد ہیں۔ ریڈ کلف کے مختلف فیہ فیصلہ کی وجہ سے جماعت کو اپنا مرکز قادیان سے پاکستان میں ایک نئی جگہ قائم کرنا پڑا جو پہلے بیابان تھا۔ اس کا نام ربوہ ہے۔ اب وہاں ایک نیا شہر آباد کیا جا رہا ہے۔ بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی پچھتر*سے زیادہ کتابیں ہیں جو موجودہ جماعت کی طرف سے دوبارہ شائع کی جا رہی ہیں۔ غالباً سب سے اہم کتاب ‘‘اسلامی اصول کی فلاسفی’’ ہے۔ جس کے متعدّد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ …… جماعت نے قرآنِ مجید کے مختلف زبانوں میں تراجم شائع کئے ہیں مزید برآں جماعت نے مختلف زبانوں میں روزانہ، ہفتہ وار اور ماہوار اخبار جاری کر رکھے ہیں۔’’
(زیر لفظ احمدیت)
مجلّۃ الازھر (مصر)
جولائی ۱۹۵۸ء کی اشاعت میں رقمطراز ہے:۔
‘‘ فرزندانِ احمدیت کی سرگرمیاں تمام امور میں انتہائی طور پر کامیاب ہیں۔ اُن کے مدارس بھی کامیابی سے کام کر رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ان کے مدارس کے تمام طلباء ان کی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے۔’’
ہفت روزہ ‘‘ہماری زبان’’ علی گڑھ
نے لکھا:۔
‘‘موجودہ زمانہ میں احمدی جماعت نے منظّم تبلیغ کی جو مثال قائم کی ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ لٹریچر، مساجد و مدارس کے ذریعہ سے یہ لوگ ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکہ کے دور دور گوشوں تک اپنی کوششوں کا سلسلہ قائم کر چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے غیر مسلم جماعتوں میں ایک گونہ اضطراب پایا جاتاہے۔ کاش دوسرے لوگ بھی اِن کی مثال سے سبق لیتے۔’’
(ہماری زبان علی گڑھ ۲۳ دسمبر ۱۹۵۸ء)
مولانا عبد الماجد دریا بادی
‘‘ایک تبلیغی خبر’’ کے زیر عنوان ‘‘صدق جدید’’ لکھنؤ میں لکھتے ہیں:۔
‘‘مشرقی پنجاب کی ایک خبر ہے کہ اچاریہ ونو بھا بھاوے جب پیدل سفر کرتے کرتے وہاں پہنچے تو انہیں ایک وفد نے قرآنِ مجید کا ترجمہ انگریزی اور سیرۃ النبویؐ پر انگریزی میں کتابیں پیش کیں۔ یہ و فد قادیان کی جماعت احمدیہ کا تھا۔ خبر پڑھ کا اِن سطور کے راقم پر تو جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا۔ اچاریہ جی نے دَورہ اَودھ کا بھی کیا بلکہ خاص قصبہ دریاباد میں قیام کرتے ہوئے گئے لیکن اپنے کو اس قسم کا کوئی تحفہ پیش کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ نہ اپنے کو نہ اپنے کسی ہم مسلک کو نہ ندوی، دیوبندی، تبلیغی اسلامی جماعتوں میں سے۔ آخر یہ سوچنے کی بات ہے یا نہیں کہ جب بھی کوئی موقع تبلیغی خدمت کا پیش آتا ہے یہی خارج از اسلام جماعت ‘‘شاہ’’ نکل آتی ہے اور ہم دیندار منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
(صدق جدید لکھنؤ ۱۹ جون ۱۹۶۹ء)
تحریکِ شُدھی
ہندوستان میں آریہ سماجیوں نے مسلمانوں کو مرتد کرنے کے لئے تحریک شدھی کے نام سے (جو دراصل اشدھی تھی) ایک تحریک چلائی۔ مسلمان فرقوں میں سے صرف جماعت احمدیہ نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آریوں کو اس تحریک میں ناکام کر دیا۔ اس موقع پر اخبار ‘‘زمیندار’’ لاہور نے لکھا:۔
‘‘ احمدی بھائیوں نے جس خلوص، جس ایثار، جس جوش اور جس ہمدردی سے اِس کام میں حصہ لیا ہے وہ اِس قابل ہے کہ ہر مسلمان اِس پر فخر کرے۔’’
(زمیندار ۸۔اپریل ۱۹۲۳)
پھر ۲۴۔جولائی ۱۹۲۳ء کی اشاعت میں لکھا :۔
‘‘مسلمانانِ جماعت احمدیہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں۔ جو ایثار، کمربستگی، نیک نیّتی اور توکّل عَلَی اللہ اُن کی جانب سے ظہور میں آیا ہے وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں توبے انداز عزت اور قدردانی کے قابل ضرور ہے۔ جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجّادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں اِس اولو العزم جماعت نے عظیم الشان خدمتِ اسلام کر کے دکھا دی۔’’
پھر یہی اخبار اپنی اشاعت دسمبر۱۹۲۶ء میں رقمطراز ہے:۔
‘‘ گھر بیٹھ کر احمدیوں کو بُرا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اِس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان میں اور دیگر یورپین ممالک بھی بھیج رکھے ہیں۔ کیا ندوۃ العلماء، دیوبند، فرنگی محل اور دوسرے علمی اور دینی مرکزوں سے نہیں ہو سکتا کہ وہ بھی تبلیغ و اشاعت حق کی سعادت میں حصہ لیں؟’’
(زمیندار۔ دسمبر ۱۹۲۶ء)
مولوی ابو الحسن صاحب کے لئے مقامِ غیرت و عبرت ہے کہ ندوۃ العلماء کو اور دیگر اسلامی اداروں کو آج ۱۹۷۲ء تک بھی احمدیہ جماعت بُرا بھلا کہنے کے سوا غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق نہیں ملی۔ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَار۔
مولانا عبد الحلیم شرر لکھنوی ایڈیٹر‘‘دلگداز ’’لکھتے ہیں:
‘‘آج کل احمدیوں اور بہائیوں میں مقابلہ و مناظرہ ہو رہا ہے۔ باہم ردّ و قدح کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر دونوں میں اصل فرق یہ ہے کہ احمدی مسلک شریعتِ محمدیّہ کو اسی قوت اور شان سے قائم رکھ کر اس کی مزید تبلیغ و اشاعت کرتا ہے اور بہائی مذہب شریعتِ عرب (اسلام) کو ایک منسوخ شدہ غیر واجب الاتباع دین بتاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ بابیت اسلام کو مٹانے کو آئی ہے اور احمدیّت اسلام کو قوت دینے کے لئے اور اسی کی برکت ہے کہ باوجود چند اختلافات کے احمدی فرقہ اسلام کی سچی اور پُرجوش خدمت ادا کرتا ہے اور دوسرے مسلمان نہیں۔’’
(رسالہ ’’دل گداز‘‘ لکھنؤ ماہ جون ۱۹۲۶ء)
مولانا محمد علی جوہر ایڈیٹر‘‘ہمدرد’’دہلی رقمطراز ہیں:۔
‘‘ ناشکر گزاری ہو گی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور اُن کی منظّم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلافِ عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں۔ یہ حضرات اس وقت اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاسیات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف تبلیغ اور مسلمانوں کی تنظیم و تجارت میں بھی انتہائی درجہ سے منہمک ہیں۔ اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظّم فرقہ کا طرزِ عمل سوادِ اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور اُن اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گُنبدوں میں بیٹھ کر خدماتِ اسلام کے لئے بلند بانگ دور باطن ہیچ دعاوی کے خوگر ہیں مشعلِ راہ ثابت ہو گا۔’’
(ہمدرد دہلی ۲۶ ۔ستمبر ۱۹۲۷ء)
شاعرِ مشرق علّامہ اقبال فرماتے ہیں:۔
‘‘پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقۂ قادیانی کہتے ہیں۔’’
(مِلّتِ بَیضاء پر ایک عمرانی نظر صفحہ ۱۷، ۱۸)
علّامہ نیاز فتحپوری لکھتے ہیں:۔
‘‘اس وقت تمام ان جماعتوں میں جو اپنے آپ کو اسلام سے منسوب کرتی ہیں صرف ایک جماعت ایسی ہے جو بانیٔ اسلام کی متعیّن کی ہوئی شاہراہِ زندگی پر پوری استقامتکے ساتھ گامزن ہے۔ گو اس کا احساس تنہا مجھ ہی کو نہیں بلکہ احمدی جماعت کے مخالفین کو بھی ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ مجھے اس کے اظہار میں باک نہیں اور ان کو رعونتِ نفس یا احساسِ کمتری اس اعتراف سے باز رکھتا ہے۔’’
(رسالہ ’’نگار‘‘ ماہ نومبر ۱۹۵۹ء)
پھر رسالہ نگار بابت ماہِ جولائی ۱۹۶۰ء میں لکھتے ہیں:۔
‘‘اس وقت مسلمانوں میں ان کو (احمدیوں کو۔ ناقل) بے دین اور کافر کہنے والے تو بہت ہیں لیکن مجھے تو آج ان مدعیانِ اسلام کی جماعتوں میں کوئی جماعت ایسی نظر نہیں آتی جو اپنی پاکیزہ معاشرت، اپنے اسلامی رکھ رکھاؤ، اپنی تابِ مقاومت اور خوئے صبر و استقامتمیں احمدیوں کے خاکِ پا کو بھی پہنچتی ہو۔’’
نیز وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘ مرزا غلام احمد صاحب نے اسلام کی مدافعت کی اور اس وقت کی جب کوئی بڑے سے بڑا عالم دین بھی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔ انہوں نے سوتے ہوئے مسلمانوں کو جگایا اٹھایا اور چلایا یہاں تک کہ وہ چل پڑے اور ایسا چل پڑے کہ آج روئے زمین کا کوئی گوشہ نہیں جو ان کے قدم سے خالی ہو اور جہاں وہ اسلام کی صحیح تعلیم نہ پیش کر رہے ہوں۔’’
(نگار ماہِ اکتوبر ۱۹۶۰ء)
جناب اشفاق حسین صاحب مختار میونسپل پراسیکیوٹر و سابق میونسپل کمشنر مراد آباد کا تاثر
وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘ ہم سات کروڑ ہیں لیکن ہم سات کروڑ آدمیوں کی بھیڑ ہیں، ہم اپنے آپ کو جماعت نہیں کہہ سکتے۔ البتہ احمدی صاحبان اپنے آپ کو جماعت کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کی تنظیم اچھی ہے مشہور عربی مقولہہے یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ یعنی اللہ کا ہاتھ جماعت کے اوپر ہوتا ہے۔ یعنی اللہ اُن کی مدد کرتا ہے جو تنظیم کر کے اپنی جماعت بنا لیتے ہیں۔ خدا بھیڑ کی مدد نہیں کرتا کیونکہ ہم بھیڑ ہیں اس لئے خدا نے اپنا مددگار ہاتھ ہمارے اوپر سے اٹھا لیا۔’’
(‘‘خون کے آنسو’’ صفحہ ۶۷ ناشر حافظ محمد دین اینڈ سننز کشمیری بازار لاہور)
جماعتِ احمدیہ اور عیسائی دنیا کا تأثّر
ایک امریکن پادری Jack Manbolsorm ، نے حال ہی میں ایک کتاب ‘‘گاڈ۔ اللہ اینڈجو جو’’ شائع کی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:۔
‘‘اسلام کی روز افزوں ترقی میں احمدیّت کے اثرات اس طرح داخل ہوئے ہیں کہ گویا یہ تانے بانے میں داخل ہیں۔ یہ بات بغیر تردّد کے کہی جا سکتی ہے کہ احمدیہ جماعت سب سے زیادہ کام کرنے والی اور سب سے زیادہ وسیع اسلامی جماعت ہے جو افریقہ میں کام کر رہی ہے۔’’
انگلستان سے چھپنے والے ایک اخبار ‘‘ٹائمز برٹش کالونیز ریویو’’ نے لکھا ہے:۔
‘‘اسلام کی روز افزوں ترقی کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جارہا اور یہ بات کچھ بعید نہیں کہ عیسائی اور مشرک علاقے بالآخر اسلام کے سمندر میں غرق ہو کر رہ جائیں گے۔’’
برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری ریورنڈ جے ۔ٹی۔ واٹس نے کیپ ٹاؤن میں اس خیال کا اظہار کیا کہ:۔
‘‘یہ بات عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں اسلام افریقہ کے عوامی مذہب کی حیثیت سے عیسائیت کو شکست دے کر اس کی جگہ لے لے۔’’
انہوں نے مزید کہا:۔
‘‘ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام افریقہ میں برابر ترقی کر رہا ہے۔ اگر ایک شخص عیسائیت قبول کرتا ہے۔ تو اسلام اس کے مقابلہ میں دو افراد کو حلقہ بگوش بنا لیتا ہے۔ ابھی موقع ہے کہ ہم اپنے آپ کو سنبھال لیں۔ ہمیں اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ لیکن اس امر کا قوی امکان ہے کہ ہم اس موقع کو گنوا دیں گے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ اسلام عیسائیت سے بازی لے جائے گا۔’’
سوئٹزر لینڈ کے ایک اخبار Appensellersontr Gsblaft نے اپنی۱۳- مئی ۱۹۶۱ءکی اشاعت میں لکھا:۔
‘‘عیسائی حلقے مسلسل اِس طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ افریقہ میں اسلام عیسائیت کے لئے خطرہ بن گیا ہے اور یہ خطرہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔’’
‘‘ڈیلی ٹائمز’’ نائیجیریا اپنی اشاعت ۷۔ دسمبر ۱۹۵۷ء میں پادریوں کی ایک میٹنگ کی روئداد پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:۔
‘‘عیسائی تنظیم اسلام کی ترقی سے خائف ہے۔’’
۱۳-جنوری ۱۹۵۸ء کو اسی اخبار نے خبر دی کہ:۔
‘‘پادریوں کی ایک میٹنگ نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ چند ہی سالوں میں افریقہ میں اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ عیسائیت یہاں باقی رہ سکے گی یا نہیں۔’’
غانا یونیورسٹی کے ایک عیسائی پروفیسر ایس جی ولیم سن لکھتے ہیں:۔
‘‘غانا کے شمالی حصّہ میں رومن کیتھولک کے سوا عیسائیت کے تمام اہم فرقوں نے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم )کے پیروؤں کےلئے میدان خالی کر دیاہے۔ اشانٹی اور گولڈ کوسٹ کے جنوبی حصوں میں آج کل عیسائیت ترقی کر رہی ہے لیکن جنوب کے بعض حصوں میں خصوصًا ساحل کے ساتھ احمدیہ جماعت کو عظیم الشان فتوحات حاصل ہو رہی ہیں۔’’
غیر ملکی اخباروں وغیرہ کے اِن بیانات سے ظاہر ہے کہ تحریکِ احمدیت صرف مسلمانوں کی اصلاح ہی کا کام نہیں کر رہی بلکہ غیر مسلموں میں بھی اسلام کے غلبہ کے لئے بے نظیر خدمات انجام دے رہی ہے۔ اور اس تحریک کی برکت سے لاکھوں انسان سچائی کو قبول کر چکے ہیں اور کروڑوں انسان اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کا سمجھدار طبقہ جماعت احمدیہ کی ان مخلصانہ خدمات کو نہایت شکر گزاری کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ اگر مولوی ابو الحسن صاحب چاند کی طرف پروپیگنڈے کی خاک اڑانا چاہیں تو ان کے پروپیگنڈے سے چاند کی روشنی میں فرق نہیں آسکتا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کیا گیا ہے۔ تا آنکہ ساری دنیا کو منور کر دے۔ پس جوں جوں قلوبِ انسانی کی کھڑکیاں کھلتی چلی جائیں گی اسلام کے اس بدرِ تَام کی روشنی اُن کے سینوں کو منور کرتی چلی جائے گی تا آنکہ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖکی پیشگوئی پوری شان کے ساتھ ظاہر ہو جائے اور قرآنِ کریم کی تعلیم دنیا کے ہر انسان تک پہنچ جائے۔
بالآخر عرض ہے کہ مولوی ابو الحسن صاحب نے یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِکا مرتکب ہو کر حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے خلاف اُن کی تکذیب کے لئے جو بہت سے غلط الزامات لگائے ہیں وہ ہمارے نزدیک قابلِ تعجب نہیں۔ کیونکہ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
اِذَا خَرَجَ ھٰذَا الْاِمَامُ الْمَھْدِیُّ فَلَیْسَ لَہٗ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ اِلَّا الْفُقَھَاءُ خَآصَّۃً۔
(فتوحات مکیہ جلد۲ صفحہ ۲۴۲)
ترجمہ۔ جب امام مہدی ظاہر ہوں گے تو اُس کے کھلے دشمن بالخصوص فقہاء ہی ہوں گے۔
حضرت مجدّد الف ثانی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں:۔
‘‘نزدیک است کہ علمائے ظواہر مجتہدات اور اعلیٰ نبیّنا و علیہ الصلوٰۃ والسلام از کمالِ دقت و غموض ماخذ انکار نمائند و مخالفِ کتاب و سُنّت دانند۔’’
(مکتوبات امام ربانیٔ جلد۲ صفحہ ۵۵)
ترجمہ۔قریب ہے کہ علمائے ظواہر امام موصوف کے اجتہادات کا اس پر اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر صلوٰۃ و سلام ہو ان کے ماخذ کی کامل باریکی اور گہرائی کی وجہ سے انکار کر دیں اور انہیں کتاب و سنت کے مخالف جانیں۔
مولوی ابو الحسن صاحب کے ذریعہ بھی ان دونوں بزرگوں کے اس کلام کی تصدیق ہو گئی ہے۔ کیونکہ انہوں نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تکذیب کے لئے آپؑ کی عبارتوں کو غلط رنگ دے کر پیش کیا ہے اور پڑھنے والوں کو سچائی سے دور رکھنے کے لئے محض غلط پروپیگنڈا سے کام لیا ہے۔ ہم تو پھر بھی ان کے لئے خدا سے ہدایت کے ہی طالب ہیں۔
جماعت کے روشن مستقبل کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئیاں
اب میں اس مضمون کو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی دو پیشگوئیوں پر ختم کرتا ہوں جو خدا سے علم پا کر آپ نے جماعت کے روشن مستقبل کے متعلق فرمائی ہیں:۔
(۱)‘‘اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ وہ اپنی اِس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلاوے گا۔ اور حجّت اور برہان کی رُو سے سب پراِن کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزّت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اِس مذہب اور اِس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کوجو اس کے معدوم کرنے کی فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامتآجائے گی۔’’
(تذکرۃ الشہادتین ، روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ ۶۶)
(۲)‘‘خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا۔ اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اِس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نُور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔ بہت سے روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھادے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا…… سو اے سننے والو! اِن باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا۔’’
(تجلیّاتِ الٰہیہ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۰۹ ،۴۱۰ )
واٰخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العٰلمین
خاکسار
قاضی محمد نذیر لائلپوری
۱۷دسمبر ۱۹۷۲ء