بشاراتِ محمدیہ ﷺ
(مکرم و محترم جناب شیخ عبد القادر صاحب۔ لاہور)
جناب پال ارنسٹ ’’ کلام حق ‘‘ کے خصوصی مقالہ نگار ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بشارات کے بارہ میں ایک عرصہ سے خامہ فرسائی کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک تورات میں رسالتماب صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے کوئی پیشگوئی نہیں ہے۔ جناب پال ارنسٹ کی ایک ایک دلیل کو ہم توڑ چکے ہیں۔ اب ہمارے جواب میں انہوں نے سلسلۂ مضمون شروع کیا ہے۔ عنوان ہے۔
’’ وادیٔ فاران اور جلوۂ فاران کا جواب ‘‘
(کلام حق کاشمارہ ۔ جون، جولائی، اگست 1982 ء ملاحظہ ہو )
داستان طویل ہے۔ صرف اشارات پر اکتفا کر رہا ہوں۔ ہمارے دلائل ، پال صاحب کی بحث کا خلاصہ اور اس کا جواب درج ذیل ہے۔
’’علامہ پال ارنسٹ ‘‘کا پہلا اعتراض یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وصیت میں کوئی پیشگوئی نہیں ہے۔
’’ خداوند سینا سے آیا۔ اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی۔ ‘‘ (استثناء 33/2)
اس میں سارے ماضی کے صیغے ہیں۔ سینا اور شعیر کی تجلی کا تعلق زمانہ گذشتہ سے ہے۔ فاران کا تعلق زمانہ آئندہ سے کیسے ہو سکتا ہے۔؟
اس کا جواب یہ ہے کہ تورات میں عبرانی متن مخدوش ہے Good News بائیبل 1976 ء کے حاشیہ میں ہے Hebrew unclearکہ عبرانی الفاظ غیر واضح ہیں۔ جیسا کہ آگے یہ واضح کر دیا جائے گا ۔ متبادل متن یہ ہے ۔ وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آتا ہے۔ گویا ماضی نہیں مضارع ہے۔
یہودیوں کی شائع کردہ تورات پر نوٹ ہے ۔
Heb Mimind Eshdath Obscure
عبرانی الفاظ ’’ میمنوا شداتھ‘‘ غیر اواضح اور مبہم ہیں۔
مسوراہی علماء نے جب تورات پر اعراب لگائے تو انہوںنے مزید ابہام ڈال دیا۔ دس ہزار واحد ہے۔ حرف ’’ب ‘‘ پر ایک نقطہ لگا کر اسے جمع بنادیا۔ اور ’’دسوں ہزار‘‘ کر دیا۔
دنیائے عیسائیت کے عظیم عالم آر۔ ایچ ۔ چارلس نے ’’ دی اپو کرفا آف اولڈ ٹیسٹا منٹ‘‘ میں صحیفہ حنوک کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔ اس صحیفہ میں تورات کی پیشگوئی حنوک پیغمبرسے منسوب ہے بایں الفاظ :۔
And behold ! He cometh with ten thousands of his holy ones, to execute Judjement upon all, and to destroy all the ungoldy : 1:9
تورات میں ہے کہ کلیم اللہ نے وفات سے پہلے برکت دی۔ اور دس ہزار قدوسیوں کا ذکر کیا۔ صحیفہ حنوک میں ہے کہ حنوک پیغمبر نے مندرجہ بالا الفاظ سے برکت دی۔
آر ۔ ایچ۔ چارلس نے صحیفہ حنوک کے اس حوالے پر مندرجہ زیل نوٹ دیا ہے: ۔
’’ صحیفہ حنوک میں استثناء 33/2 کے مسوراہی متن کی صدائے بازگشت ہے۔ فرق یہ ہے کہ مروجہ متن تورات میں ہے۔ وہ قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ اور صحیفہ حنوک نے تورات کا ایسا متن درج کیا ہے جس میں عبرانی لفظ ’’اٰتا‘‘ وارد ہوا ۔ یعنی ’وہ آتا ہے‘ ۔ جبکہ دوسرے متنوں میں ’’ اٰتہ‘‘ ہے یعنی ’’ وہ آیا‘‘ صحیفہ حنوک کے مرتب نے اصل متن اٰتا کی تصدیق کی۔ اور اتہ کو درست نہیں سمجھا۔ ‘‘
(The Apocrypha of Old Testament p. 172 )
اس حوالے سے صاف ظاہر ہے کہ تورات کے متن میں اختلاف ہے۔ ’’ قدوسیوں کے ساتھ آتا ہے۔ ‘‘متن بھی بہت پرانا ہے اور صحیفہ حنوک کا مصدقہ ہے۔
ساتویں صدی قبل مسیح میں حبقوق پیغمبر ہوئے ہیں۔ آپ نے بھی تورات کی اس بشارت کو دہرایا۔ آپ کے سامنے جو تورات تھی۔ اس میں تجلی فاران کا ذکر بطور پیشگوئی ہے۔ کوئی قصہ ماضی نہیں ۔ حبقوق کے صحیفہ میں ہے:۔
The Lord wil come with many thousands of his holly angels .
یہ نیو انگلش بائیبل کا اقتباس ہے۔ گویا بروئے انجیل یہ ایک پیشگوئی ہے اور یہ بھی ہے کہ یہ پیشگوئی آدم کی ساتویں پشت میں برپا ہونے والے حنوک پیغمبر سے وقت سے چلی آتی ہے۔ ‘‘
(خط یہودا 1/14)
ان شواہد سے ظاہر ہے کہ دس ہزار کے ذکر میں ایک عظیم الشان بشارت ہے۔ یہودیوں کی تحریف نے اسے قصہ ماضی بنا دیا۔ انبیاء نبی اسرائیل اور صلحاء یہود نے بتایا کہ یہ ماضی کا واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک پیشگوئی ہے جو نسل آدم میں بڑے تواتر سے چلی آتی ہے۔
(۲)
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ’’ دس ہزار‘‘ ترجمہ عبرانی کی رو سے سراسر غلط ہے۔ اور ’’ لاکھوں‘‘ ہونا چاہئے۔ اس کے جواب میں ہم نے گڈ نیوز بائیبل (Good News Bible ) کو بطور شہادت پیش کیا۔
گڈ نیوز بائیبل دنیا کی ننانوے بائیبل سوسائٹیوں کا مصدقہ ترجمہ ہے جو کہ 1976ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ پاکستان بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ گڈ نیوز بائیبل میں بشارت تورات کا ترجمہ بایں الفاظ ہے
And shone on his people from mount Paran. Ten thousand angels were with him, a flaming fire at his right hand.
’’ اور خداوند کوہ فاران سے اپنے لوگوں پر جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار فرشتے اس کے ساتھ تھے۔ اس کے داہنے ہاتھ پر ایک شعلۂ نور تھا۔ ‘‘
حاشیہ میں ہے:۔
Probable text ten thousand…… right hand, hebrew unclear.
دس ہزار سے داہنے ہاتھ تک کا عبرانی متن غیر واضح ہے زیادہ درست متن ’’ دس ہزار‘‘ ہے۔
اب آئیے ایک نظر متن پر ڈالتے ہیں۔
متن کے غیر واضح ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ’’ دس ہزار ‘‘ کے لئے عبرانی متن میں ’’ رب ب تھ‘‘ ہے۔ یہ ۳۳ باب کی دوسری آیت ہے۔ اس میں جمع کے لئے ’’ واؤ ‘‘ نہیں ہے۔ متن کو مشتبہ کرنے کے لئے علماء نے رب ب تھ کی دوسری ’’ بے‘‘ پر ایک علامت لگا دی کہ یہاں واؤ بھی پڑھو۔ عجیب بات یہ ہے کہ آیت ۱۷ میں’’ رب ب و تھ‘‘ ہے گویا واؤ موجود ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ آیت ۲ میں رب ب تھ جمع نہیں بلکہ واحد ہے۔
یہ علامت واؤ مسوراہی علماء نے عہد وسطیٰ میں لگائی۔ یہ متن کا حصہ نہیں ہے۔
دوسرا اشتباہ صیغہ میں ہے۔ بشارت کے الفاظ صحیفہ حنوک میں دہرائے گئے۔ وہاں مضارع کا صیغہ ہے۔ انجیل میں دہرائے گئے وہاں بھی مضارع ہے۔ ّیہودا 1/14)
عیسائی دنیا کے عظیم عالم آر۔ ایچ۔ چارلس نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ تورات کے متن میں ایک متبادل قرأت اٰتا موجود تھی۔ موجودہ متن میں اتہ کوہے۔ اس کے معنے ہیں ۔ ’’ آیا‘‘ ۔ صحیفہ حنوک نے اٰتا کو صحیح سمجھا۔ اسے نقل کیا ہے اس کے معنے ہیں ۔ ’’ آتا ہے‘‘
ظاہر ہے جیسا کہ گڈ نیوز بائیبل کے حاشیہ پر ہے۔ متن غیر واضح ہے۔ ’’ دس ہزار‘‘ کو ’’ دس ہزاروں‘‘ بنا دیا۔ ’’ آتا ہے‘‘ کو ’’آیا‘‘ کر دیا۔ ایک غلطی گڈ نیوز بائیبل کے علماء نے نکال دی۔ دوسری غلطی کی نشاندہی آر۔ ایچ۔ چارلس نے کر دی۔
اب پال ارنسٹ کا تبصرہ ملاحظہ ہو:۔
’’ صرف 1976ء والے گڈ نیوز ترجمے میں ’’ دس ہزار فرشتے‘‘ ترجمہ کیا گیا۔ اور اس کے حاشیہ میں یہ نوٹ لکھا ہے کہ یہ قیاسی متن کا ترجمہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل عبرانی متن کا ترجمہ لاکھوں کروڑوں ہی ٹھیک ہے۔‘‘
تبصرہ کے یہ الفاظ قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں۔
گڈ نیوز بائیبل کے حاشیہ میں ’’ دس ہزار ‘‘ کے لئے probable textکے الفاظ ہیں۔ اس کے معنے اصل سے زیادہ قریب ہیں۔ زیادہ درست متن کے ہیں۔ علامہ صاحب جان بوجھ کر ’’ کلام حق ‘‘ کے قارئین کو ’’ کلام ناحق ‘‘ سنا رہے ہیں۔ اصل حقیقت سے خود بھی دور ہیں۔ لوگوں کو بھی دور لے جا رہے ہیں۔
(۳)
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اردو بائیبل کے علماء نے ’’ دس ہزار ترجمہ‘‘ کیوں کیا۔ پال ارنسٹ کہتے ہیں۔ یہ ترجمہ کی مجبوری تھی۔ مراد اس سے ’’ دس ہزار‘‘ نہیں بلکہ ’’ ہزارہا‘‘ ہے۔
ان کو مجبوراً ایسا کرنا پڑا ……دس ہزار در اصل ہزارہا کے معنوں میں ہے۔
یہ سفید جھوٹ ہے۔ 1870ء میں مرزا پور میں مطبوعہ اردو بائیبل ملاحظہ ہو۔ استثناء 33/2 میں ’’ دس ہزار‘‘ واحد ہے۔ آگے چل کر 33/17 میں ’’ دسوں ہزار‘‘ جمع ہے۔ اردو مترجمین کے نزدیک ’’ رب ب تھ‘‘ اور ’’ رب ب و تھ‘‘ واحد اور جمع ہیں۔ تورات کے ایک ہی ورق پر یہ لفظ پہلے واحد اور پھر جمع کی صورت میں آیا۔
اردو بائیبل 1870 ء کا ترجمہ ہے:۔
’’ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ ‘‘
آگے چل کر آیت نمبر 17کا ترجمہ یہ ہے:۔
’’ وے افرائیم کے دَسوں ہزار ہیں۔ ‘‘
صاف ظاہر ہے ۔ ترجمہ کی کوئی مجبوری نہیں تھی۔ دونوں لفظ موجود ہیں۔ واحد اور جمع۔ پہلے فقرہ میں واحد ہے آگے چل کر ’’ جمع ‘‘ ہے۔
فرمائیے۔ جناب پال ارنسٹ کو عبرانی زیادہ آتی ہے یا اردو بائیبل کے مترجمین اور دنیا کی ننانوے بائیبل سوسائٹیوں کو؟ سوچ سمجھ کر جواب دیجئے۔
پورے عہد نامہ عتیق کا ترجمہ کرنے والے کیا پال ارنسٹ جتنی عبرانی بھی نہیں جانتے تھے؟ پال ارنسٹ کی عبرانی شناسی کا پندار ٹوٹ چکا ہے۔
(۴)
فاران سے کیا مراد ہے؟ اس پر بھی پال ارنسٹ نے تبصرہ کیا ہے۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مکہ کی ایک پہاڑی کا نام فاران ہے۔ لیکن یہ پہاڑی مراد نہیں ہو سکتی۔ کیوں نہیں ہو سکتی اس کا کوئی جواب نہیں۔ ہم فاران پر سیر حاصل بحث کر چکے ہیں۔ اب ہم ایک حدیث کے درج کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ سے بیہقی میںیہ روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ تورات کے آخری حصہ کے ایک جملہ کا عربی ترجمہ یوں ہے۔
خدا آیا یا جلوہ گر ہوا۔ طور سینا سے اور نمودار ہوا ساعیر سے اور خود کو ظاہر کیا۔ جبالِ فاران سے۔
اور فاران ایک عبرانی نام ہے……اس سے مراد جبال بنی ہاشم ہیں۔ جن میں سے ایک پہاڑ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم عبادت و ریاضت کے لئے تشریف لے جاتے۔ اور وہیں وحی کی ابتدا ہوئی۔ پس فاران سے مراد مکہ کے تین پہاڑ ہیں۔ ایک کا نام ابو قیس، دوسرا قعیقان اور تیسرا حرا۔ حرا گویا مشرقی فاران ہے اور قعیقان سے بطن وادی کی جانب ملا ہوا ہے اور اس کو شعب بن ہاشم کہتے ہیں۔ اور اسی جگہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت ہوئی۔
(بحوالہ نور الابصار فی مناقب اٰل بیت النبی المختار تصنیف الشیخ سید مومن بن حسن مومن الشبلنجی صفحہ23)
اس حوالے سے ظاہر ہے کہ جبال مکہ، جبال فاران ہیں۔ یہ ان کاایک قدیمی نام ہے۔
(۵)
اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ انبیائے بنی اسرائیل نے تورات کے الفاظ سے کیا سمجھا؟
بشارات تورات کو انبیائے بنی اسرائیل برابر دہراتے رہے۔ حضرت سلیمان ؑ کے غزل الغزلات ملاحظہ ہوں:۔
’’ تیرے محبوب کو دوسروں پر کیا فضیلت ہے۔کہ تُو ہمیں اس طرح قسم دیتی ہے۔‘‘
جواب ملاحظہ ہو:۔
’’ میرا محبوب سرخ و سفید ہے۔ وہ دس ہزار میں افضل ہے۔‘‘
اس غزل کے آخر میں ہے:۔
’’اور وہ سراپا حسن انگیز (محمدیم) ہے۔ اے یروشلم کی بیٹیو میرا محبوب ایسا ہے۔ میرا پیارا ایسا ہے۔ ‘‘
(غزل الغزلات 5/9-16کیتھولک بائیبل 1958ء)
غزل کے شروع میں ہے:۔
’’جیسی تیرے لطیف عطروں کی خوشبو ۔ سو تیرا نام ہے۔‘‘ (1/3)
آگے استعارہ کے رنگ میں فرستادہ حق کی امت بول رہی ہے۔
’’ اے یروشلم کی بیٹیو! مَیں سیاہ فام پر جمیلہ ہوں۔ قیدار کے خیموں کی مثل اور سلمہ کے پردوں کی مانند۔‘‘ (1/5 کیتھولک بائیبل 1958ء)
قیدار حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بیٹے کا نام ہے۔ آنحضرت ﷺ بنو قیدار میں سے تھے۔ یہاں سلمہ کا لفظ غیر واضح ہے۔ بعض نے سمجھا ’’ سلیمان کا محل‘‘مراد ہے۔ سلم کے معنے سلامتی۔ سلمہ سلامتی والا۔ مراد یہ ہے کہ امت قیدار سلامتی کے گھر اور اس پر ڈالے گئے پردوں سے وابستہ ہے۔
غزل سے ظاہر ہے کہ محبوب سلیمان کا نام عطر میں بسا ہوا ہے ۔ اس کی امت دار السلام اور بنو قیدار سے متعلق ہے وہ محمدیم ہے۔ یعنی سراپا محمد۔ آنحضرت ﷺ بنو قیدار سے تھے۔ کعبۃ اللہ سے وابستہ امت کے آپ محبوب و مقصود تھے۔
اردو بائیبل 1870ء مطبوعہ مرزا پور میں غزل اول پر سرنامہ ملاحظہ ہو:۔
’’ کلیسیا کے مسیح پر عاشق ہونے کی بابت اس بیان میں کہ وہ اپنی بد صورتی مان لیتی اور منت کرتی کہ مسیح کے گلے میں شامل ہونے کے لئے راہنمائی پاوے۔ مسیح اے گڈریوں کے خیموں تک راہ بتلاتا۔ اور اپنا پیار دکھلا کے کئی ایک لطیف وعدے اس سے کرتا ہے۔ کلیسیا اور مسیح ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔‘‘
اس کے برعکس جناب پال ارنسٹ کہتے ہیں:۔
’’غزل الغزلات میں در اصل میاں بیوی کی محبت کا نمونہ پیش کیا گیا۔ یعنی ایک مرد کی صرف ایک بیوی ہونا چاہیے۔ اس میں نہ کوئی پیشگوئی ہے اور نہ کسی پیغمبر کے آنے کی اس میں کوئی خبر پائی جاتی ہے۔‘‘
جواباً گذارش ہے کہ پال ارنسٹ کا یہ تبصرہ سراسر غلط ہے برا ہو تعصب کا کہ وہ آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا ہے۔ انہی غزلات میں یہ عبارت ملاحظہ ہو۔
’’ حضرت سلیمان کے گھر میں رانیاں ساٹھ ہیں۔ حرمیں اسّی‘‘ ۔ (غزل الغزلات 6/8)
بتائیے ! تعدد ازدواج ہے یا ایک مرد کی ایک بیوی پر حصر۔ کیا یہی مطالعۂ بائیبل ہے۔ جس پر علامہ پال ارنسٹ کو فخر ہے۔ غزل اول کے علاوہ اب غزل پنجم کا سر نامہ ملاحظہ ہو:۔
’’ اس بیان میں کہ مسیح کلیسیا کے نام لے کے اسے جگاتا ہے۔ کلیسیا مسیح کی محبت سے حظ اٹھا کے عشق میں بیمار ہو جاتی ہے۔ مسیح کی خوبصورتی کا تفصیل وار بیان ہونا۔‘‘
ان سر ناموں سے ظاہر ہے کہ
چرچ کے نزدیک اس غزل میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے۔ سراپا عشق انگیز (محمدیم) مسیح کی تعریف کے لئے آیا ہے۔
پال ارنسٹ صاحب سرے سے بشارت کے منکر ہیں۔ جبکہ غزل الغزلات کے ہر باب پر یہ سر نامہ مرقوم ہے کہ یہ کلیسیا اور مسیح کے لئے پیشگوئی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ پیشگوئی مسیح کے لئے نہیں بلکہ سراپا محمدؐ کے لئے ہے ﷺ۔
بتائیے! سچا کون ہے؟ آپ کے گھر کا معاملہ ہے۔
’’ کلام حق ‘‘ والے بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس حوالے میں پیشگوئی ہے یا نہیں۔
(۶)
ایک پھلجڑی ’’عبرانی زبان‘‘ کی بھی چھوڑی گئی ہے۔ عبرانی لغت میں حرفِ خیھ ہے۔ اس کے نیچے حرفِ ح کے سب الفاظ آتے ہیں۔ مثلاً حبرون بھی حروف خیھ سے ہے۔ حمدان کو بھی حرف خیھ سے لکھا گیا ہے۔ ان کو ح سے پڑھیں گے نہ کہ حرف خ سے۔ اسی طرح محمدیم میں حرفِ خیھ ہے۔ پادری صاحب کہتے ہیں۔ یہ محمدیم نہیں ۔ مخمدیم ہے۔ ان کو اتنا پتہ نہیں کہ عبرانی میں ’’حٰمد ‘‘روٹ سے ’’ حمدان‘‘ ہے۔ یہ اسم معرفہ ہے۔ یہ نام اردو بائیبل میں ’’ خمدان‘‘ نہیں ۔ بلکہ’’ حمدان‘‘ کی صورت میں آیا ہے۔ (پیدائش 36/26)
بتائیے! پال ارنسٹ درست تلفظ کرتے ہیں یا علماء بائیبل ۔ یہ کون علامہ ہیں؟ جو ننانوے بائیبل سوسائٹیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ جو کلیسیا کی شرح مندرجہ بائیبل کو نہیں مانتے۔ جو پاکستان بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور کے منظور شدہ ترجمہ میں کیڑے نکالتے ہیں اور علماء کے تلفظ کو بھی درست نہیں مانتے۔
(۷)
پال ارنسٹ کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ عبرانی میں ’’ محمد‘‘ نہیں ’’ مخمد‘‘ ہے۔ یہ بات سرا سر دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ تلفظ اور لہجہ کے فرق سے روٹ بدل تو نہیں جاتا ۔ جیسے پشتو میں ’’ محمد‘‘ کے لہجے کے فرق کے باعث ’’ مخمد‘‘ کہتے ہیں۔ ح اور خ کی درمیانی آواز میں۔ جس کا نام محمد ہو۔ اسے ’’ مخمدے‘‘ کر کے بلاتے ہیں۔ دکنی لہجہ میں ’’قانتہ ‘‘ کو ’’ خانتہ‘‘ کہیں گے۔ اس سے سہ حرفی روٹ تو نہیں بدل جاتا۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بستی الخلیل کو بائیبل میں حبرون کیا گیا۔ اسے خبرون کیوں نہیں پڑھتے۔
عبرانی میں حٰمد مادہ ہے۔ اس سے حمدان اسم معرفہ ہے اسے بائیبل میں خمدان کیوں نہیں لکھا گیا؟ اگر ’’ حبرون‘‘ اور ’’ حمدان‘‘ درست ہے تو ’’ محمدیم‘‘ کیوں درست نہیں۔
بنی اسرائیل کے تلفظ میں بالفرض اگر ’’ محمد‘‘ کو ’’ مخمد‘‘ بولتے ہیں تو روٹ اس کا ’’ حمد‘‘ ہی رہے گا ۔ لب و لہجہ کے فرق سے لغت کی حقیقت تبدیلی تو نہیں ہو جاتی۔ پادری صاحب تلفظ کے تغیر کو اٹھا کر لغت میں لے آئے ہیں یہ ان کی بنیادی غلطی ہے۔ یاد رہے کہ
محمدیم میں ’’ یم ‘‘ جمع کی نہیں بلکہ عظمت اور شان کی ہے۔ جیسے بعلیم، الوہیم میں ہے۔ لفظ ’’ محمدیم‘‘ بائیبل میں صرف ایک ہی مرتبہ یعنی زیر بحث آیت غزل الغزلات میں آیا ہے۔ دوسری جگہ نہیں۔ اس لفظ کے آخر میں ’’ یم‘‘ استعمال ہونے کی مترجمین بائیبل کو نہیں چاہئے تھا کہ وہ اس کا ترجمہ کرتے جیسے بعلیم اور الوہیم کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ حضرت سلیمان کے خطاب وِ کل محمدیم کے معنے ہیں ۔ وہ ہستی مطلق محمد عظیم ہے۔ وہ ہر لحاظ سے اور ہر پہلو سے محمد صاحب ِ عظمت ہے۔ وہ سراپا محمد ہے۔ اس بشارت کو حبقوق نبی نے دہرایا ہے۔
’’ خدا جنوب سے آتا ہے۔ اور قدوس کوہ فاران سے اس کا جلال آسمان پر چھا گیا۔ اور زمین اس کی حمد سے معمور ہو گئی۔ اس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی۔‘‘ (حبقوق 3/3-4)
(۸)
یہاں سے واضح رہے کہ جیسے عربی میں حمد سے محمد ہے۔ اسی طرح عبرانی میں حٰمد سے محمٰد ہے۔ یہ مذکر ہے۔ معنے ہیں ۔ ’’ جسے کوئی چاہتا ہے۔‘‘ (لغات عبرانی اردو۔ از پادری ولیم ہوپر زیر لفظ حمد صفحہ119)
اب محمد کے بعد یم لگا دیجئے۔ عظمت کے معنے پیدا ہو جائیں گے جیسے الوہ سے الوہیم ، بعل سے بعلیم۔ نفتالی سے نفتالیم ۔ ظاہر ہے کہ ’’ محمدیم‘‘ کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ جیسے الوہیم، بعلیم، نفتالیم کا ترجمہ ہم نہیں کرتے۔
(۹)
یہ عجیب بات ہے کہ عبرانی عہد عتیق میں ’’ محمدیم‘‘ یکتا اور منفرد ہے۔ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے زیر نظر غزل میں ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے کا نام نفتالی ہے۔ اسے انجیل میں دو دفعہ ’’ نفتالیم‘‘ لکھا گیا۔ (متی 4/14-15)
ظاہر ہے کہ ’’ یم‘‘ عظمت کے لئے ہے۔ نفتالیم کا ترجمہ نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح غزل سلیمان میں محمدیم کے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سراپا محمدؐ ہے۔
یہ سادہ ترجمہ ہر لحاظ سے درست ہے۔
چیلنج کا جواب
پال ارنسٹ کہتے ہیں۔ ’’محمدیم کا معنوی لحاظ سے لفظ ’’محمدؐ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ‘‘
یہ تو ہم بتا چکے ہیں ۔ یہ لفظ در اصل محمدیم ہے۔ اس کا روٹ حمد ہے۔ محمدیم کے معنے عشق انگیز کے ہیں۔ محمد کے معنے ہیں جس کی بے انتہا تعریف کی جائے۔ حسن و احسان کے پیش نظر تعشق کے رنگ میں ، جو سراپا تعریف ہو ۔ ؎
محمد ہست برہان محمد
فرمائیے ! معنوی تطابق ہے یا نہیں؟
سامی زبانوں میں ’’ حمد‘‘ روٹ کے قریب قریب دو ہی معنے ہیں۔ جو عربی میں ہیں۔ آنکھیں بند کر لی جائیں۔ تو سورج بھی نظر نہیں آتا۔ آنکھیں کھولئے۔ نور علم کو دیکھئے۔ ہمارے سامنے عبرانی انگریزی کی لغت ہے۔ السنہ سامیہ کے تقابلی مطالعہ کی سب سے بڑی ڈکشنری۔ عظیم علماء کا سرمایہ۔ ڈاکٹر فرانس براؤن نے اسے از سر نو مرتب کیا۔ 1955ء میں آکسفورڈ سے شائع ہوئی۔ اس میں حٰمد روٹ نکالئے اس کے نیچے لکھا ہے۔
’’ عبرانی میں حٰمد آرامی میں حَمَد سریانی میں احمودا عربی میں حَمِدَ سبائی کتبات میں یہ لفظ حمدم کی صورت میں ہے۔‘‘
اس ڈکشنری میں سامی زبانوں میں ’’ حمد‘‘ کے جو معنے دئیے ہیں ۔ ان میں اشتراک ہے۔ یہ لغت کی سب سے بڑی سند ہے۔ آپ کا دعویٰ ہے کہ لفظ محمد سے عبرانی لفظ کا کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ عبرانی میں حمد نہیں خمد ہے۔ یہ کتنی بڑی علمی غلطی ہے۔
ماہرین السنہ سامیہ، عربی کے حَمِد روٹ میں سامی زبانوں کو مشترک قرار دیتے ہیں۔
عبرانی کا حٰمد اور عربی کا حمد ایک ہی ہے۔
افسوس! مذہبی تعصب کے باعث مقصدیت ختم ہو چکی۔ مطمع نظر یہ ہے کہ کہیں کوئی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں ثابت نہ ہو جائے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
(۱۰)
بشاراتِ تورات کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سات سو سال بعد حضرت حبقوق نبی نے دہرایا۔ صحیفہ حبقوق میں ہے :۔
’’ خداوند جنوب سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آئے گا۔‘‘ (کیتھولک بائیبل 1925ء حبقوق 3/3)
یہاں ماضی نہیں ، مضارع ہے۔ پال ارنسٹ کہتے ہیں ۔ یہ استقبال بمعنے ماضی ہے۔
عجیب تضاد ہے۔ آنے والے مسیح کے لئے بصیغہ ماضی جو اشارات ہیں وہاں استقبال مراد ہے۔ آنے والے عظیم الشان پیغمبر کے لئے بصیغہ استقبال اگر کوئی پیشگوئی ہے۔ اسے عہد رفتہ پر چسپاں کر لو ۔ ؎
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ارشاد ہوتا ہے ۔ اس میں کوئی پیشگوئی نہیں ہے۔ بلکہ یہ بات ماضی کے واقعات کے بارہ میں ہے لیکن حبقوق نبی کے صحیفہ میں ہے:۔
’’ کیونکہ رؤیا مقررہ وقت کے لئے ہے۔ وہ سر انجام ہو گا۔ اور خطا نہ کرے گا۔ اگر چہ دیر بھی کرے۔ تو بھی انتظار کرتے رہنا۔ کیونکہ وہ یقینا وقوع میں آئے گا۔ اور تاخیر نہ کرے گا۔ ‘‘ (2/3-4)
اس کے بعد تجلی فاران کی پیشگوئی درج ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے۔
(۱۱)
ہم نے لکھا تھا کہ تورات کی پیشگوئی کو نہ صرف انبیاء بنی اسرائیل نے دہرایا ۔ بلکہ اس کے الفاظ عبرانی کے ادبیات عالیہ میں شامل ہو گئے اور ایک محاورہ بن گئے۔ مثلاً یشوع بن سیراخ میں ہے۔ ’’ دس ہزار‘‘ کے نعرہ سے ’’داؤد ‘‘ کی توصیف کی گئی ۔ زبو رمیں ہے:۔
’’ تیرے آس پاس ایک ہزار (جاں نثار) گر جائیں گے اور تیرے دہنے ہاتھ کی طرف دس ہزار لیکن (ویران کرنے والی ہلاکت ) تیرے نزدیک نہ آئے گی۔ ‘‘ (زبور 91/7)
حضرت داؤد کے جان نثار اسے کہتے ہیں:۔
’’ اگر ہم آدھے مارے جائیں تو بھی (ہمارے دشمنوں کو ) کچھ پروا نہ ہو گی۔ کیونکہ تُو ہم میں سے ’’دس ہزار‘‘ کے برابر ہے۔ ‘‘ (سموئیل نمبر ۲ 18/3)
یہاں وہی محاورہ بول رہا ہے جو تورات میں ہے ۔ اس کے داہنے ہاتھ ’’دس ہزار‘‘ قدسی ہیں۔ اس کے جواب میں پال ارنسٹ نے اول استہزا سے کام لیا۔
’’ شیخ صاحب کی بولی میں ہر حوالے میں دس ہزار کا لفظ بشارت تورات کا عطیہ ہے۔‘‘
اب بائیبل میں ’’ دس ہزار دشمنوں‘‘ ۔’’دس ہزار بھیڑوں‘‘ ۔ ’’ دس ہزار توڑے چاندی‘‘ کی مثالیں دے کر کہتے ہیں:۔
’’ اے شیخ صاحب کس طرح بشارت تورات بنائیں گے؟‘‘
اسے کہتے ہیں کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ۔ بھان متنی نے کنبہ جوڑا۔
پال ارنسٹ نے دوسری بات یہ کہی ۔ صحیفہ یشوع بن سیراخ میں ’’ دس ہزار ‘‘ کا نعرہ داؤد کے ہاتھوں دس ہزار مارے جانے والوں کے بارے میں ہے۔
پال ارنسٹ کا یہ استدلال درست نہیں ۔ کتاب مقدس کے الفاظ یہ ہیں۔
شاؤل نے مارا ہزاروں کو ۔ داؤد نے مارا لاکھوں کو ۔ (سموئیل نمبر ۱ 18/7)
اگر نعرۂ توصیف میں دشمنوں کو ذکر ہوتا تو دس ہزار کی بجائے لاکھوں کے نعرے سے توصیف کی جاتی۔ داؤد کے داہنے ہاتھ دس ہزار جان نثاروں کا ذکر اور دس ہزار کے نعرے سے توصیف۔ بشارتِ تورات کی صدائے بازگشت ہے۔ لہٰذا تورات کے متن میں ’’ دس ہزار‘‘ کے الفاظ حقیقی ہیں ۔ ’’ لاکھوں‘‘ مراد لینا درست نہیں ہے۔
پال ارنسٹ حوالوں کے انبار میں حقائق کو یوں چھپاتے ہیں جیسے آنجناب موافق کتاب نہیں بلکہ مخالفِ حقائق ہیں ۔
ہمارے جواب میں جویائے حق کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
حرف آخر
پال ارنسٹ کے مضمون کا حرف آخر:۔
’’شیخ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ تورات کے غزل الغزلات تک ایک سراپائے محمد، تعریف پیغمبر کا انتظار ہے۔ان کا یہ دعویٰ بھی بالکل غلط ہے۔ حق یہ ہے کہ پیدائش سے ملاکی تک سراپا نجات مسیحا کا انتظار ہے۔‘‘
اس کے جواب میں گذارش ہے کہ انتظار کرنے والے پال ارنسٹ نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے علماء کے کہنے پر حضرت یحیٰ علیہ السلام سے پوچھا:۔
کیا تُو آنے والا مسیح ہے؟ آپ نے جواب دیا ۔ میں تو المسیح نہیں ہوں۔ تب انہوں نے اس سے پوچھا۔ پھر کیا تو الیاس ہے؟ اس نے کہا۔ کہ میں نہیں ہوں۔ پھر کیا تو النبی ہے جس کا ہمیں انتظار ہے۔ اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ (یوحنا 1/20-22)
اردو بائیبل مطبوعہ سوسائٹی آف سینٹ پال روما 1958ء میں ’’ النبی ‘‘ کا لفظ ہے۔ اور نیو انگلش بائیبل کے الفاظ ہیں
Are you the prophet we await?
کیا تُو وہ پیغمبر ہے۔ جس کا ہمیں انتظار ہے۔
پال ارنسٹ صرف مسیحا کے انتظار کے قائل ہیں۔ انجیل میں ہے ۔ کاہن، لاوی اور عوام الناس ، مسیحا کے علاوہ ایک عظیم الشان پیغمبر’’ النبی‘‘ کے لئے بھی چشم براہ ہیں۔
اب بتائیے! پال ارنسٹ سچے ہیں یا انجیل مقدس۔
(انصار اللہ نومبر 1982ء صفحہ20تا31)