حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک مضمون بعنوان’’گوشت
خوری پرایک مختصر نوٹ‘‘ ریویوآف ریلیجنزاردو ۱۹۱۹ء جلد ۱۸ نمبر ۱۰ میں
شائع ہوا۔ یہ مضمون آج کے حالات میں بھی بہت اہمیت رکھتا ہے اسلئے ذیل میں
آپ کا یہ مفید مضمون ہدیہ ٔ قارئین کیا جاتا ہے ۔
خوراک کے لحاظ سے دنیامیں دوبڑے گروہ پائے جاتے ہیں ۔ ایک وہ جوگوشت کھانے
کو ایک ظالمانہ کام سمجھتے ہیں اور صرف سبزیوں وغیرہ پر گزارہ کرنے کی
تعلیم دیتے ہیں۔ دوسرے وہ جو باستثناچند جانوروں کے جن کاگوشت طبی لحاظ سے
انسان کے جسم اورروح کے لئے مضر ہے باقی تمام جانوروں کا گوشت استعمال کرنے
کو ایسا ہی جائز قرار دیتے ہیں جیسا سبزیوں کا استعمال۔ اول الذکر جماعت
میں زیادہ تر ہندو اور بدھ مذہب کے لوگ ہیں لیکن ان خیالات کااثر حال میں
یورپین ممالک میں بھی پھیلتا نظرآتاہے کیونکہ ہم کو ہمارے ان مبلغوں سے
اطلاع ملی ہے جو یورپ میں کام کرتے ہیں کہ وہاں کے بعض تعلیم یافتہ لوگ اس
خیال کی طرف مائل نظرآتے ہیں کہ گوشت خوری ایک ظالمانہ کام ہے جس سے ہر
شریف آدمی کو پرہیز لازم ہے۔ ہم کو اس بات سے تعلق نہیں کہ یہ لوگ کس مذہب
و ملت کے ہیں اور یہ کہ آیا یہ لوگ مذہباً اپنے آپ کو کسی ایسے مذہب کی
طرف تو منسوب نہیں کرتے کہ جو گوشت خوری کو جائز اور حلا ل قرار دیتاہے اور
جس کے بانی اور بزرگ ہمیشہ قولاً اور فعلاً گوشت خوری کی تعلیم دیتے رہے
ہیں۔ کیونکہ ہمارا کام غلط عقائد اور غلط خیالات کی اصلاح ہے۔ پس خواہ ایسے
لوگ مذہباً کسی ہی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں ہم ان کی طرف توجہ کریں گے۔
غرض گوشت خوری پر ایک مبسوط مضمون لکھے جانے کی ضرورت ہے جس میں اس کی حکمت
اور اس کے فوائد پر مفصل علمی بحث ہو اور جس میں تاریخی واقعات کی مدد سے
یہ ثابت کیا جاوے کہ انسانی بقا اور ترقی کے لئے گوشت خوری بھی ایک حد تک
ضروری اور لابُدی ہے مگر ہم شروع میں ہی یہ بتا دیناچاہتے ہیں کہ ہمارا یہ
موجودہ مضمون اس ضرورت کو پورا کرنے والا نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے ہم کسی
اور مناسب وقت پر لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ موجودہ مضمون میں ہم گوشت خوری
کے متعلق جو اسلامی تعلیم ہے صرف اس کو پیش کرنا چاہتے ہیں اور مختصر
الفاظ میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس کے اندر کونسی حکمت مدنظر رکھی گئی ہے۔
مگر اصل مضمون شروع کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتاہے کہ اصولی طورپر
اسلامی احکام پرایک سرسری نظر ڈالی جاوے اور دیکھا جاوے کہ اسلامی شریعت کی
بنیاد کس اصول پر ہے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’جَعَلنٰکُم اُمَّۃً وَّسَطًا‘
یعنی اے مسلمانو! تم وسطی امت بنائے گئے ہو۔ یعنی تم افراط و تفریط کی
راہوں سے الگ کر کے وسطی طریقوں پر چلائے گئے ہو ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ
اسلام کے تمام احکام میں یہی اصول چلتاہے۔ اور درحقیقت اگر عقلاً بھی
دیکھا جاوے تو یہ ایک نہایت زرّیں اصول ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر امر
میں دو انتہائی نقطے ہوتے ہیں اورایک وسطی مقام ہوتا ہے اور وہ انتہائی
نقطے گو بعض حالات میں مفید ثابت ہوں لیکن بعض میں سخت نقصان دہ اور
ضرررساں نکلتے ہیں ۔ مثلاً مجرم کی پاداش کے متعلق ایک یہود کا اصول ہے جو
تورات سے ماخوذہے کہ ہر صورت میں جرم کی سزا ضرور ی ہے اورکسی صورت میں بھی
عفو جائز نہیں۔ اور دوسرے مسیحیوں کا اصول ہے کہ بدی کا مقابلہ مطلقاً نہ
کرناچاہئے بلکہ ہر حالت میں عفو اور درگزر سے کام لینا چاہئے ۔ اب یہ دو
انتہائی نقطے ہیں جو ان مذاہب نے اختیار کئے ۔ حالانکہ دنیا میں ہمارا
تجربہ اور عقل ان دونوں کو باطل قرار دیتاہے کیونکہ نہ تو ہر حالت میں سزا
دینے کاا صول قاعدہ کلیہ کے طورپر مفید کہلا سکتاہے اور نہ ہی عفو و درگزر
کا اصول ہر حالت میں مفید صورت میں چلایا جا سکتاہے۔ بلکہ ان کے درمیان ایک
مقام ہے جو اصل قاعدہ بننے کے قابل ہے اوراسی کو اسلام نے اختیار کیاہے۔
چنانچہ فرمایا ’’جَزَآئُ سَیِّئَۃ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ‘‘ یعنی تمام جرائم کی سزا ہے لیکن اگر عفو سے اصلاح کی امیدہو توعفو کو اختیار کرنا چاہئے۔
اب یہ ایک ایسا اصول ہے کہ جو وسطی ہے اور یہی قاعدہ بننے کے قابل ہے ۔ غرض
اسلام نے تمام امور میں افراط اور تفریط کی راہوں سے ہم کوبچاکر وسطی طریق
پر چلایاہے۔ اس جگہ یہ بتا دینا ضروری معلوم ہوتاہے کہ بعض اوقات وسطی
طریق بظاہر قابل اعتراض معلوم ہوتاہے اور انتہائی مقاموں میں سے کوئی ایک
مقام درست اور صحیح نظر آتاہے ۔ جیساکہ اوپرکی مثال سے ظاہر ہے کہ مسیحیوں
کایہ اصول کہ کسی صورت میں بھی بدی کامقابلہ نہ کیا جاوے بظاہر بہت
خوشگوار نظر آتا ہے۔ مگرذرا غور سے دیکھو اور اس کے نتائج پر نظرڈالو اور
تجربہ کی روشنی میں اس کا امتحان کرو توفوراً اس کا بودہ پن نظرآنے
لگتاہے۔ اس لئے ہم کو اپنی ظاہری نظر پراعتماد نہ کرناچاہئے بلکہ ان اصول
کو استعمال میں لاناچاہئے جو کسی چیز کی خوبی اور سقم کا پتہ لگانے کے لئے
بطور معیارکے ہیں اور وہ یہ ہیں ۔ اول عقل، دوئم مشاہدہ ، سوئم تجربہ۔ یہ
تین ایسے چراغ ہیں کہ ان کی روشنی کے نیچے کوئی اندھیرا قائم نہیں رہ سکتا
اور ہر چیز کاحسن و قبح روز روشن کی طرح نظر آنے لگتاہے۔مجردعقل بعض اوقات
دھوکہ دیتی ہے ۔مگر جب اس کے ساتھ مشاہدہ کی مدداورتجربہ کی شہادت مل جاتی
ہے توپھریہ ایک قابل اعتبار چیزہو جاتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اسلام ہمیشہ وسطی مقام کواختیار کرتاہے اور انتہائی
طریقوں سے الگ رہنے کی تعلیم دیتاہے اوراگر کسی موقع پروسطی مقام اور
انتہائی نقطوں کے درمیان شک و شبہ پیدا ہو جاوے اور بظاہر ہم کو وسطی مقام
قابل اعتراض نظرآئے اور انتہائی طریقوں میں سے کوئی طریق زیادہ درست اور
پسندیدہ معلوم ہو تو پھراسکو عقل، مشاہدہ اورتجربہ کی متحدہ شمع کے سامنے
پیش کرناچاہئے جہاں اس کاتمام حسن و قبح عیاں ہوجائے گااورکوئی شک و شبہ کی
گنجائش نہ رہے گی۔
اس مختصر سی تمہید کے بعد ہم گوشت خوری کے متعلق اسلام کی تعلیم پیش کرتے
ہیں اور پھر اس پران اصول کے ماتحت نظرڈالیں گے جو ہم نے حق کی شناخت کے
لئے اوپر بیان کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے’’کُلُوا وَاشْربُوا وَلاَ تُسرِفوا‘‘۔
یعنی اے مسلمانو! جوچیزیں ہم نے تمہارے لئے حلال کی ہیں وہ سب کھاؤ پیو
لیکن ان میں سے کسی ایک قسم پر خاص زور نہ دو یعنی ایسانہ کرو کہ صرف گوشت
ہی کھاتے رہو یا یہ کہ صرف سبزیاں ہی کھاؤ اور گوشت قطعاً ترک کردو بلکہ
حالات کے مطابق خوراک کھاؤ ۔
یہ وہ تعلیم ہے جو کھانے پینے کے بارہ میں ہم کو اسلام سکھاتاہے جس کا مطلب
یہ ہے کہ کھانے کے معاملہ میں کسی چیز کے استعما ل میں اسراف نہ ہوناچاہئے
۔ یعنی اگر کسی جگہ کے حالات اورآب و ہوا وغیرہ اس بات کے مقتضی ہیں کہ
گوشت اور سبزی ایک مقدار میں کھائی جاوے (جیساکہ منطقہ معتدلہ میں) تو اسی
طرح کھاؤ اور اگر کسی جگہ کی آب وہوا اور حالات یہ چاہتے ہیں کہ سبزی پر
زیادہ زور ہو اورگوشت کم استعمال ہو تو پھرایسا ہی کرنا چاہئے جیساکہ منطقہ
حارہ میں اور اگر کسی آب وہوا میں گوشت پر زیادہ زور دینامناسب ہو تو
وہاں یہی کرنا چاہئے جیسا کہ منطقہ منجمدہ اور اس کے قریب کے علاقہ جات
میں۔ غرض جوبھی کسی جگہ وہاں کے حالات کے ماتحت اسراف کی تصریف اور اس کی
حد ہو اس سے بچنا چاہئے اور وسطی طریق کو اختیار کرنا چاہئے۔ یہ تو ملکی
لحاظ سے تقسیم ہے ۔ اسی طرح بعض افراد کی طبائع میں بھی بعض ذاتی خصوصیات
ہوتی ہیںیعنی کسی طبیعت کے لئے سبزی کی کثرت کی ضرورت ہو گی تو کسی کے لئے
گوشت کی اورپھر کوئی ایسی بھی طبیعت ہوگی جس کے لئے دونوں کا ایک جیسا
استعمال مفید ہوگا اور ان طبائع کے مطابق ہر ایک کے لئے الگ الگ اسراف کی
حد ہوگی جس کے مطابق ہر ایک کو عمل کرنا چاہئے ۔
اب جبکہ ہم کو اس معاملہ میں اسلامی تعلیم کاعلم ہو گیا اور یہ بھی معلوم
ہو گیا کہ یہ ایک وسطی تعلیم ہے جو افراط اور تفریط سے الگ ہے۔ یعنی نہ تو
ہم کو خواہ مخواہ گوشت خوری پر زور دینے کو کہا گیا ہے اور نہ ہی گوشت خوری
سے بالکل علیحدگی کا حکم دیا گیا ہے بلکہ حالات کے مطابق بین بین کی مناسب
راہ اختیار کرنے کو کہا گیاہے اور یہی وسطی تعلیم کا مدعا ہے۔ اب ہم نے
دیکھنایہ ہے کہ آیا یہ وسطی تعلیم درست اور پسندیدہ اور بنی نوع انسان کے
لئے مفید ہے یا اس معاملہ میں انتہائی نقطوں میں سے کوئی مقام قابل ترجیح
ہے ؟ گویا اس لحاظ سے تین گروہ ہو گئے۔
اوّل وہ لوگ جو گوشت کھانا ناجائز قرا ر دیتے اور ایک ظالمانہ کارروائی خیال کرتے ہیں ۔
دُوسرے وہ لوگ جو گوشت خوری پر اس قدر زور دیتے ہیں کہ گویا سبزیوں کے استعمال سے کنار ہ کش ہو گئے ہیں۔
تیسرے وہ لوگ جو گوشت اور سبزیاں ہردو کا استعمال ضرور ی جانتے ہیں اور ان
میں سے کسی ایک کی نامناسب کثرت کو ناپسند کرتے ہیں اور موخرالذکر گروہ
وسطی امت ہے۔
ان تینوں جماعتوں میں سے کون سی جماعت حق پر ہے اور ان تینوں طریقوں میں سے
کون سا طریقہ بنی نوع انسان کے لئے مفید ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر اب ہم نے
غور کرنا ہے اور تینو ں کو عقل، مشاہدہ اور تجربہ کی روشنی کے سامنے رکھ
کر دیکھناہے۔ مگر اس سے پیشتر ذیل کے حقائق کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے ۔
(۱)۔الف۔۔۔:انسان اشرف المخلوقات ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی اس مخلوقات میں سے
جو عرف عام میں جاندار کے نام سے موسوم ہوتی ہے انسان کا درجہ سب سے اعلیٰ
ہے۔
ب۔۔۔:اگر کوئی جائز ضرورت پیش آوے تو ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کر دینا چاہئے جیساکہ قانون قدرت میں ہمارا مشاہدہ ہے ۔
ج۔۔۔: اخلاقی زندگی جسمانی زندگی سے افضل ہے۔
د۔۔۔:اقوام کی زندگی کا رتبہ افراد کی زندگی سے بالاتر ہے۔
(۲)۔۔۔علاوہ جسمانی اثر کے خوراک کاایک نہایت گہرا اثر انسان کے اخلاق پر
بھی پڑتا ہے ۔ یہ صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس کی تائید میں نہایت مضبوط طبی
اور تاریخی شہادات موجود ہیں جن کاانکار نہیں کیا جا سکتا اور سائنس نے اس
علم کو اس حد تک یقینی بنادیاہے کہ اب کوئی بے وقوف ہی ہوگا کہ جو اس سے
انکار کرسکے۔ ہر قسم کی خوراک الگ الگ اپنا اثر دکھاتی ہے جو انسان کے جسم
اور اخلاق دونوں میں ظاہر ہوتاہے اور یہ اثر گو بعض خاص افراد میں بعض
خصوصیات کی وجہ سے زیادہ نمایاں طور پر ظاہر نہ ہو۔ لیکن اقوام کے اخلاق
میں ان کا ظہور پذیر ہونا بالکل یقینی اور قطعی ہوتاہے کیونکہ کسی قوم کے
اخلاق سے اس قوم کے اکثر افراد کے اخلاق مراد ہوتے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی
خاص قسم کی خوراک انسان کے رنگ میں زردی پیدا کرنے والی ہے تو اس خوراک کے
استعمال کرنے والی قوم کے اکثر افراد میں یہ صفت ظاہر ہو کر اس قوم کی قومی
خصوصیت بن جائے گی یا مثلاً اگر کسی خوراک میں انسان کے اندر عجلت اور بے
صبری پیدا کرنے والی خصوصیت ہے تو اس خوراک کے استعمال کرنے والی قوم میں
یہ صفات بطور قومی خلق کے ہو جائیں گی خواہ بعض افراد ان کمزوریوں سے آزاد
ہوں۔ خلاصہ کلام یہ کہ خوراک انسان کے جسم اور اخلاق پر گہرا اثر کرتی
ہے۔لیکن چونکہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ یہ اثر ہر فرد میں نمایاں طورپر ظاہر
ہو کیونکہ بعض افراد میں بعض ذاتی خصوصیات ہوتی ہیں یا ان کے اندر اس اثر
کا مقابلہ کرنے والی باتیں فطرتاً موجود ہوتی ہیں اس لئے ہم ہر فرد کے
متعلق تو نہیں مگر اکثرافراد کے متعلق یقینی طورپر فتویٰ لگاسکتے ہیں کہ وہ
اس کے اثر کے نیچے آ ئیں گے اور چونکہ کسی قوم کے اکثر افراد میں جوبات
پائی جاتی ہے وہی اس قوم کا قومی خلق کہلاتاہے اس لئے ہم یقین کے ساتھ کہہ
سکتے ہیں کہ خوراک کا اثر قومی خلق میں نمایاں طورپر ظاہر ہوتاہے ۔
اب ہم اصل بحث کو لیتے ہیں ۔ طبی لحاظ سے یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچی ہوئی
ہے کہ گوشت خوری کا اثر انسان میں شجاعت،بہادری ، جوش و خروش اور سختی اور
اسی قسم کی دوسری صفات کے رنگ میں ظاہر ہوتاہے اور سبزیوں کااثر نرمی ، حلم
اور صبرو برداشت اور اسی قسم کے دوسرے صفات کے رنگ میں ظہور پذیرہوتاہے
۔یہ ایک طبی تحقیق ہے اور صرف ایک تھیوری کے طورپر نہیں بلکہ مشاہدہ اور
تجربہ کے معیار سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو چکی ہے۔ حیوانات میں دیکھ لو
گوشت خور اور سبزی خور حیوانات علی الترتیب انہی صفات سے متصف نظرآئیں گے ۔
اس جگہ تفصیلات کی گنجائش نہیں ورنہ حیوانات میں اس رنگ کی تحقیقات کرنا
اور ہر ایک قسم کے حیوانات کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر اس کی خوراک کے
لحاظ سے اس کی صفات کا معائنہ کرنا ایک نہایت دلچسپ مضمون ہے اور اہل علم
نے اس کے متعلق بڑی تحقیقاتیں کی ہیں اور نہایت مفید معلومات اور تجارب کا
ذخیرہ پیدا کیا ہے۔ جانوروں سے ہٹ کر انسان پر نظر ڈالیں تویہاں بھی یہ فرق
نمایاں طورپر نظر آتاہے یعنی اگر گوشت خوری پر ناجائز اور نامناسب زور
دینے والی اقوام میں بہادری، جرات، جوش اور سخت دلی کی صفات نظرآتی ہیں تو
صرف سبزی کھانے والی اقوام میں یہ صفات قومی اخلاق کے طورپر مفقود ہیں اور
ان کی جگہ نرمی ، حلم، برداشت اور تحمل کی صفات پائی جاتی ہیں۔
جن لوگوں نے تاریخ پر اس لحاظ سے نظر ڈالی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ امتیاز
کسی خاص اقوام تک محدود نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی خوراک کاامتیاز موجود ہے
وہاں ساتھ ساتھ قومی اخلاق میں بھی خوراک کے مناسب حال امتیازات موجود
ہیں۔ہم اس ضمن میں کسی خاص قوم کا نام لیناپسند نہیں کرتے اور نہ اس جگہ ان
تفصیلات کی گنجائش ہے۔ مگر ہر شخص جو اپنے طورپر تحقیق کر ے گا وہ
یقیناًیقیناًاسی نتیجہ پرپہنچے گاجو ہم نے اوپر بیان کیاہے یعنی گوشت خوری
پر ناروا زور دینے والی اقوام بلند ہمت دلیر بہادرمگرجوشیلی اور سخت دل
نظرآئیں گی اور سبزیوں کا نامناسب طور پر زیادہ استعمال کرنے والی اور
گوشت سے بالکل الگ رہنے والی اقوام نرم، حلیم ، صابر مگر بزدل اورکم ہمت
نکلیں گی۔ ہاں اس تحقیقات کے لئے اس بات کومدنظر رکھناضروری ہے جو ہم نے
اپنے شروع مضمون میں ہی بیان کر دی تھی یعنی گوشت اور سبزی کے استعمال کی
حد ملک کی آب وہوا اور استعمال کنندگان کے حالات کے مطابق ہوگی مثلاً
انگلستان میں گوشت کے استعمال کی جومناسب حدہے جس سے اوپراس ملک میں اسراف
ہوگاوہ اس حد سے بڑھ کر ہے جو مثلاً افریقہ کے وسط میں ہے ۔اگر افریقہ
کارہنے والا اسی قدر گوشت کھاتاہے جو ایک انگریز اپنے ملک میں کھاتا ہے تو
وہ اس بارہ میں اسراف کرتاہے اور اس کے اندر گوشت کے ناروا استعمال سے جو
اخلاقی کمزوریاں پیداہوجاتی ہیں ضرورظاہر ہونگی۔ اوراگر ایک انگلستان کا
باشندہ اتنی سبزیاں کھاتاہے جو ایک وسط افریقہ کے باشندے کومناسب ہے
اورگوشت سے پرہیز کرتاہے تو وہ ان خوبیوں کو کھو بیٹھے گا جو گوشت کے جائز
استعمال سے پیدا ہوتی ہیں اور ان کمزوریوں کو اپنے اندرپیداکر لے گا جو
سبزی کے ناواجب استعمال کانتیجہ ہوتی ہیں ۔غرض ہر آب وہوا کے لئے الگ
اسراف ہے ۔ اسی طرح بعض طبائع بھی اپنی الگ الگ خصوصیات رکھتی ہیں اس لئے
اس معاملہ میں تحقیقات کرنے والوں کو لازم ہے کہ تحقیقات کے وقت ان باتوں
کو نظرانداز نہ کردیں کیونکہ اگر وہ ایساکریں گے تو ان کی تحقیقات کے نتائج
یقیناًغلط ہونگے۔ہاں ان باتوں کی جائز مراعات رکھتے ہوئے جو تحقیقات کی
جائے گی وہ یقیناًاسی نتیجہ پر پہنچائے گی جو ہم نے اوپر بیان کیاہے یعنی
گوشت خوراقوام بشرطیکہ وہ گوشت کاناروااستعمال کرتی ہوں بہادری اور جری
توہونگی مگر ساتھ ہی بیہودہ جوش و خروش ظاہر کرنے والی اور سخت دل بھی
ہونگی۔ اور سبزیوں پرنامناسب زوردینے والی اقوام یعنی وہ اقوام جو باوجود
ضرورت کے گوشت سے پرہیز کرتی ہیں حلیم اور نرم دل تو بے شک ہونگی مگر ساتھ
ہی کم ہمت اور بزدل بھی ہونگی ۔ یہ ایک نہایت دلچسپ مضمون ہے اور تاریخ
پڑھنے والوں سے ہم بڑے زور کے ساتھ تحریک کرتے ہیں کہ وہ تاریخ کے مطالعہ
کے وقت ان امور کو مدنظررکھیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان کی محنت رائیگاں
نہ جاوے گی بلکہ وہ نہایت دلچسپ مفیداور علمی معلومات کا ذخیرہ جمع کر
سکیں گے ۔ ہاں اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ صرف خوراک ہی نہیں جو
انسان کے اخلاق پراثر رکھتی ہے بلکہ اخلاق پراثر ڈالنے والی چیزیں اور بھی
ہیں اور ان کونظرانداز کرناغلط نتائج پیدا کرے گا۔
تاریخ سے پتہ لگتاہے کہ گوشت خور اقوام کا جب کبھی صرف سبزی کھانے والی
اقوام سے مقابلہ پڑاہے تو گوشت کھانے والوں کاپلّہ بھاری رہاہے اوروہ ہمیشہ
غالب آئے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی اور وجوہات پیدا ہو گئی ہوں جنہوں نے
اس اثر کو وقتی طورپر دبا دیاہو۔ ہاں جہاں مستقل مزاجی اور محنت اور توجہ
کے ساتھ کسی کام پر لگے رہنے کامقابلہ ہو تووہاں گوشت پر زیادہ زور دینے
والی قوم ہمیشہ پیچھے نظر آئے گی اور سبزی کا استعما ل کرنے والی اقوام
نمایاں حیثیت حاصل کر لیں گی ۔ یہ باتیں صرف دعویٰ کے طور پرنہیں ہیں بلکہ
ان کی مدد میں تاریخی شہادتیں اور زمانہ حال کی علمی اور طبی تحقیقاتیں
موجود ہیں مگر اس جگہ ان تفصیلات کی گنجائش نہیں۔
اب جب یہ ظاہر ہوگیاکہ :
(۱)۔۔۔:گوشت کااستعمال جہاں بعض اخلاقی خوبیوں کا پیدا کرنے والا ہوتا ہے
وہاں اس کا ناروا استعمال بعض اخلاقی کمزوریوں کو بھی پیداکرتاہے اور اسی
طرح سبزیوں کا استعمال جہاں بعض اخلاقی خوبیاں بھی پیدا کرتاہے وہاں گوشت
کو بالکل ترک کر کے سبزیوں پرناواجب زور دینا بعض اخلاقی کمزوریاں بھی پیدا
کر نے والا ہوتاہے۔
(۲)۔۔۔:خوراک کا یہ اثر گوبعض افراد میں بعض وجوہات سے نمایاں طورپر ظاہر
نہ ہو لیکن قومی خلق کے طور پر اس کا ظہور پذیر ہونا یقینی اور قطعی ہوتاہے
اور گو ہر فرد بشر کے اخلاق پوری طرح خوراک کے زیر اثر نہ ہوں لیکن ہر قوم
کے اخلاق پوری طرح خوراک کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ ان دو نتائج کے اخذ کرنے کے
بعد جو اوپر کے بیان سے واضح طورپر پیدا ہوتے ہیں ہم اصل مضمون کو لیتے
ہیں۔
گوشت خوری کیاہے ؟ ہم اس کاجواب سبزی کھانے والوں کی طرف سے دیتے ہیں ۔
گوشت خوری کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی جاندار مخلوق کو صرف اس غرض سے ہلاک
کیا جائے کہ اس کا گوشت انسان کے پیٹ میں جاوے۔ کیا یہ ظلم نہیں؟ ۔(ہمارا
جواب ) نہیں یہ ظلم نہیں بدیں وجہ۔
گوشت خوری کے یہ معنی ہیں کہ ایک جاندار کی زندگی کاخاتمہ کیا جاوے بہت
درست! گویا ہم اللہ کی مخلوق میں سے جو بمقابلہ انسان کے بہت کم درجہ کی ہے
ایک فرد کی جسمانی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں ۔ اس میں تین باتیں یاد رکھنے
کے قابل ہیں:
(۱)۔۔۔انسان کے مقابلہ میں بہت کم درجہ کی مخلوق کی زندگی۔
(۲)۔۔۔ ایک فرد کی زندگی۔
(۳)۔۔۔اس فرد کی جسمانی زندگی۔
یہ تین چیزیں ہم لیتے ہیں اور بے شک اگر بغیر جائز اور معقول وجہ کے ہم لیں
تو ہماری سخت غلطی ہوگی اور ہمارا یہ فعل ایک ناقابل معافی جرم ہوگا۔ اور
اسی لئے اسلام جانوروں کی جان لینا تو درکنار ان کو بے جا طورپر مشقت اور
تکلیف میں ڈالنے سے بھی نہایت سختی کے ساتھ روکتاہے مگر گوشت خوری کا
معاملہ ایک اور قسم کامعاملہ ہے ۔ اس میں ہم
بے شک اللہ کی مخلوقات میں سے ایک فرد کی جسمانی زندگی لیتے ہیں مگر یہ بھی
دیکھنا چاہئے کہ کس ضرورت کے لئے لیتے ہیں اور کس کے لئے لیتے ہیں؟ ظاہرہے
کہ(۱) اشرف المخلوقات کی(۲)اجتماعی(۳) اخلاقی زندگی کے بقا کے لئے لیتے
ہیں ۔ پس کون عقلمند ہے جو اس قربانی پر اعتراض کرے ۔
غور کرو ایک طرف اشرف المخلوقات کی زندگی ہے اوردوسری طرف اس سے بہت کم
درجہ کی مخلوق کی زندگی ہے۔ پھر ایک طرف انسان کی قومی اور اجتماعی زندگی
اور دوسری طرف حیوانات میں سے کسی فرد کی زندگی۔پھر ایک طرف انسان کی
اجتماعی اخلاقی زندگی ہے اوردوسری طرف حیوانات میں سے کسی فرد کی جسمانی
زندگی ۔ میں تو کہتاہوں کہ اگرانسانوں میں سے کسی فرد کی جسمانی زندگی کی
بقا کے لئے بھی حیوانات کی اجتماعی جسمانی زندگی کی قربانی درکار ہو تو
کوئی عقلمند اس قربانی سے نہیں رکے گا اور ہم عملاً دنیا میں دیکھتے ہیں کہ
کوئی نہیں رکتا۔ کیا اگرکسی سبزی خورکے بدن پر ایک زخم ہو تو وہ اس میں
ایسی دوا نہیں ڈلوائے گا جوکیڑے مارنے والی ہو۔ ظاہر ہے کہ وہ ایسا ضرور
کرے گا اور ہرگز اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ اتنے جاندار کیڑوں کی زندگی
اس کے آرام کے لئے جاتی ہے کیونکہ وہ اشرف المخلوقات ہے اور باقی مخلوقات
اس کے فائدہ کے لئے ہیں۔ پس اگرکسی وقت اس کے فائدہ کے لئے کسی اور مخلوق
کی زندگی کی اسے ضرورت ہوگی تو وہ اسے لینے سے دریغ نہ کرے گا۔ دیکھو مثلاً
پانی میں بے شمار باریک کیڑے ہوتے ہیں لیکن چونکہ پانی انسان کی جسمانی
زندگی کے لئے ضروری ہے اس لئے کوئی ایسا شخص پانی کے استعمال سے اس وجہ سے
نہیں رکتاکہ اس کے استعمال سے بے گنا ہ کیڑوں کی جان جاتی ہے۔
پس جب انسان کی جسمانی زندگی کے بقا کے لئے حیوانات کی قربانی کی جاتی ہے
اور کوئی شخص اس پرمعترض نہیں حتی کہ سخت ترین سبزی خور بھی روزانہ اپنے
ہاتھوں سے یہ قربانی کرتے ہیں توانسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی کے بقا کے
لئے اگرکسی حیوان کی جسمانی زندگی کی قربانی کی ضرورت ہو تواس سے رکنا ایک
ابلہانہ بات ہے ۔ یہ رحم ایک جھوٹا رحم ہے اور اسی قسم کارحم ہے کہ کوئی
شخص اپنے زخم کے کیڑوں کو اس واسطے نہ ہلاک کرے کہ ان کی جان جاتی ہے اور
اس طرح اپنے آپ کو ہلاک کردے ۔ اس رحم کے یہ معنی ہیں کہ دو چیزوں کو رحم
کی ضرورت ہے ۔ ایک انسان کو اورایک حیوان کو۔ اور دونوں میں سے صرف ایک
پررحم ہو سکتاہے بلکہ ایک پررحم کرنے کا یہ نتیجہ ہے کہ دوسرے کو ہلاک
کیاجاوے یعنی اگر حیوان پررحم ہو تو انسان کی جان جاتی ہے اور اگر انسان
پررحم ہو تو حیوان کی جان لینی پڑتی ہے۔ اب بتاؤ ان میں سے کس کواختیارکرو
گے؟ کیاانسان کوہلاک ہونے دو گے صرف اس لئے کہ کسی حیوان کی جان بچ جاوے۔
اگرایسا کرو گے تو تم قانون قدرت و قانون فطرت کے خلاف چلو گے اور اس صورت
میں تم رحیم نہیں ہوگے بلکہ ظالم کہلاؤ گے ۔ انسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی
کے لئے جیساکہ سبزی ضروری ہے ویسا ہی گوشت کا مناسب استعمال بھی ضروری ہے ۔
پس کیا انسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی پر موت وارد کرو گے اسلئے کہ کسی
حیوان کی جسمانی زندگی کو نقصان نہ پہنچے۔ دیکھو خوراک کا اثر انسان کے
اخلاق پر یقینی اور قطعی ہے ۔ یہ ممکن ہے کہ کسی خاص فرد میں ظاہر نہ ہو یہ
بھی ممکن کہ کسی قوم میں یہ فوراً ظہور پذیر نہ ہو مگر آہستہ آہستہ یہ
اپنا اثر پیدا کرتاہے اور بالآخر یقیناًیقیناًقومی خلق میں اپنا رنگ ظاہر
کرتاہے طبی تحقیقات اور تاریخی شہادت اس کے مؤید ہیں اور کوئی عقلمند نہیں
جو اس سے انکار کر سکے۔ ایک ظاہر بین شخص جس کی نظرعام طور پر صرف محسوسات
تک محدود ہوتی ہے ان باتوں کو نہیں دیکھ سکتا مگر یہ ہر وقت اپناکام کر
رہی ہوتی ہیں اور اسی قسم کے اثرات بالآخر اقوام کی کایا پلٹ دیتے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ کوئی قوم جری ہے تو کوئی بزدل ۔ کوئی جوش اور امنگ والی ہے
تو کوئی ڈھیلی اور مدھم۔ پھر کوئی صبر اور برداشت والی ہے تو کوئی جلد باز
اور غیرمستقل مزاج ۔ پھر کوئی سخت گیر اور سخت دل ہے تو کوئی حلیم اورنرم
دل ہے۔ غرض کوئی کسی طرف جھکی ہوئی ہے تو کوئی کسی طرف۔ کیا خالق ہستی نے
ان کوا س رنگ پرچلایاہے؟ نہیں بلکہ خدا کی طرف سے تو سب کو اعلیٰ اور معتدل
اخلاق کی طاقتیں ودیعت کی گئی ہیں اور یہ صرف بیرونی تاثیرات ہیں کہ جو
کسی کو ایک طرف جھکا دیتی ہیں تو کسی کو دوسری طرف ۔ پس ان پرغورکرنا اور
ان کی حقیقت کو سمجھنا ہمارا فرض ہے اور ہم کو لازم ہے کہ ایسے طریق اختیار
کریں کہ ہمارے فطری قویٰ اورفطری طاقتیں تمام کی تمام معتدل راستہ
پرنشوونما پائیں اور کوئی قوت نامناسب طور پر حد اعتدال سے گزر کر دوسروں
کو اپنے نیچے نہ دبا لے ۔ اگر ہم اس معاملہ میں غفلت کریں گے تو اس کا
لازمی نتیجہ ہماری اجتماعی اخلاقی موت ہوگی۔ ان طرق میں سے ہماری خوراک
کادرست ہونا بھی ایک نہایت زبردست طریق ہے ۔
پس چاہئے کہ شراب استعمال کرنے والی اقوام غورکریں کہ اس کا استعمال ان کے
اجتماعی اخلاق پر بالآخر کیا اثرات پیدا کر ے گا اور کر رہا ہے۔سؤر کھانے
والی اقوام سوچیں کہ سؤر کاگوشت ان کو بحیثیت مجموعی کیا بنا دے گااور
بنا رہا ہے ۔ سبزیوں پر زور دینے والی اور گوشت کو کلیۃً ترک کردینے والی
اقوا م تدبر سے کام لیں کہ اس اسراف کاکیا نتیجہ ہوگا اور ہو رہا ہے ۔ گوشت
کا نامناسب استعمال کرنے والی اقوام خیال کریں کہ یہ عاد ت ان کو کس طر ف
لے جا رہی ہے۔ بغیر غوراور تدبر کے یونہی رحم رحم پکارناآسان ہے مگرخدارا
غور توکرو کہ اس رحم کے کیامعنی ہیں۔ اس کے معنی ہیں انسان پرظلم کرنا۔ ایک
حیوان جو انسان ہی کی خاطربنایاگیاہے اس کے گلے پرچھُری پھرتی ہوئی تم کو
تکلیف دیتی ہے لیکن انسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی پر موت وارد کرنا تم کو
بھلا معلوم ہوتاہے۔ اس کی کیاوجہ ہے ؟ یہی کہ حیوان کی جسمانی زندگی نکلتے
ہوئے تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو لیکن انسان کی اجتماعی اخلاقی موت
دیکھنے کے لئے تمہاری ان آنکھوں میں طاقت نہیں۔ ایک مذبوح جانور تمہارے
سامنے تڑپتاہے اور تمہارا دل بھر آتاہے لیکن نسل انسانی کی اخلاقی زندگی
کی مذبوحی حرکات تمہیں نظر نہیں آتیں اس لئے تم کواس کی پرواہ نہیں ۔ سنو!
تم ایک معمولی سپاہی کی زندگی پر جھوٹا ترس کھا کر ایک نہایت آزمودہ کار
اور قابل جرنیل کو اپنے ہاتھوں سے کھو رہے ہو۔ نہیں یہ مثال بھی غلط ہے
کیونکہ ایک سپاہی اورجرنیل میں پھربھی کوئی نسبت ہے لیکن ایک حیوان کی
جسمانی زندگی اور نسل انسانی کی اخلاقی زندگی کے درمیان سچ پوچھوتو کوئی
نسبت ہی نہیں۔ پس نتائج پرغورکرو۔ جھوٹے جذبات کے پیچھے نہ چلو۔ خداداد عقل
مشاہد ہ اور تجربہ کی روشنی میں اپنی نظرسے کام لو ۔ پھر تم اشیا ء کی کنہ
تک پہنچو گے اور تمہاری نظر حقائق کے پاتال کو چھیدتی ہوئی نکل جائے گی۔
ہاں یہ بھی تو غور کرو کہ کوئی مذہب و ملت ایسا نہیں کہ جس کے سلف گوشت
خوری سے پرہیز کرتے ہوں اور صرف سبزیوں پر گزارہ کرتے ہوں۔ آج ہندو مذہب
سبزی خوروں میں سب سے نمایاں حیثیت رکھتاہے مگر کون جانتاہے کہ ہندوؤں کے
بزرگ اور ان کے مذہب کے بانی گوشت کھاتے اور خوب کھاتے تھے۔ یورپ کے
عیسائیوں میں اسوقت بعض سبزی خور ی کی طرف مائل نظرآتے ہیں اور گوشت خوری
کو ظلم قرار دیتے ہیں مگر کیایہ سچ نہیں کہ مسیحیت کا بانی گوشت خورتھا
اوربنی اسرائیل کے تمام گزشتہ انبیاء گوشت کھاتے تھے۔ یہ اس لئے کہ وہ لوگ
اس حقیقت کوسمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ ایک جانور کی جسمانی زندگی نسل
انسانی کی اخلاقی زندگی کے مقابلہ میں قربان کردینے کے قابل ہے۔
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۴؍جون۱۹۹۹ء تا۱۰؍جون ۱۹۹۹ء)