حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ختم نبوت
از قلم : حضرت خلیفۃ المسیح الرابع مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ
یہ عقیدہ کہ آنحضرتﷺ بطور آخری نبی مبعوث ہو کر گزر بھی گئے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ کہ آپ ﷺ کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام بحیثیت نبی اللہ نازل ہوں گے، متضاد عقائد ہیں جو ایک ہی وقت میں درست تسلیم نہیں کئے جا سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دو متغائر امور کا ملغوبہ قرونِ وسطیٰ کے بعض علماء کی اختراع ہے ورنہ نزول قرآن کے وقت تو ان دونوں کا باہمی تعلق کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
ایک نا واقف غیر مسلم قاری کی خاطر ہم اس مسئلہ کا تاریخی پس منظر بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں مبادا وہ سمجھ ہی نہ سکے کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ آیت خاتم النبیّین قرآن کریم کی بنیادی آیات میں سے ہے جو اپنے اندر بہت گہرے معانی رکھتی ہے اور جس کی کئی پہلوؤں سے تفسیر کی جاسکتی ہے لیکن اس آیت کے کسی ایک مفہوم میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ چنانچہ ملاؤں کا یہ موقف کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چوتھے آسمان پر اس وجہ سے اٹھائے گئے تھے کہ آیت خاتم النبیّین کا نزول ابھی مقدر تھا، حددرجہ مضحکہ خیز اور ڈرامائی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بجسد عنصری آسمان پر چڑھ جانے کا نہ توآیت خاتم النبیّین سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کسی اور آیت سے۔ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھانے کا خداتعالیٰ کو خیال تک نہ گزرا۔ سارا قرآن کریم اور آنحضرتﷺ کی احادیث خدا کی مقدس ذات کو اس لغو فعل سے مبرا قرار دیتی ہیں کیونکہ ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے کا ذکر تک نہیں ملتا۔ اس لئے علماء کا یہ اصرار کہ خدا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس لئے آسمان پر اٹھا لیا تھا تا کہ قرآن کریم کی آیت خاتم النبیّین کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مشکل کا پیشگی حل تلاش کیا جائے ایک سفید جھوٹ اور قرآن کریم پر ایک بے بنیاد الزام ہے۔ چنانچہ یہ ملاّں ہی ہے جس نے ازخود یہ مسئلہ کھڑا کیا اور پھر خود ہی اسے خدا کے نام پر حل کرنے کی کوشش کی۔ ملاؤں کے اس خود ساختہ اور بے بنیاد خیال کو قرآن کریم کی ایک بنیادی آیت سے منسلک کر دینا ایک خوفناک گستاخی ہے۔ جن وجوہات کی بنا پر قرون وسطیٰ کے مذہبی عمائدین نے یہ مسائل کھڑے کئے اور فریب دہی کے ایسے طریق اختیار کئے جن سے بالکل غیر متعلقہ مسائل کو باہم خلط ملط کر دیا گیا، اس وقت اس بحث کا بنیادی موضوع ہیں۔ اس پس منظر میں علماء کی ان بے سود کوششوں کے ذکر کے بعد ہمیں امید ہے کہ ان امور کو ذہن میں رکھتے ہوئے قاری اس مسئلہ کو خوب سمجھ سکے گا۔
اس حقیقت کے باوجود کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے یا اترآنے کا قرآن کریم کی آیت خاتم النبیّین سے دور کا بھی واسطہ نہیں، علماء یہی رٹ لگا رہے ہیں کہ ان دونوں میں ایک یقینی تعلق موجود ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ چونکہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نیا نبی مبعوث نہیں ہوسکتا اس لئے آپﷺ کے بعد عیسیٰ بن مریم نبی اللہ آسمان سے زمین پر واپس لائے جائیں گے۔ گو قدامت پسند مسلمانوں کو یہ من گھڑت نظریہ پسند ہے کہ نئی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آنحضر تﷺ کے ایک امتی کی بجائے کسی پرانے نبی کو مبعوث کیا جا رہا ہے لیکن ان کے اس جوش و خروش میں عوام ہرگز شریک نہیں۔ کوئی معمولی سی عقل رکھنے والا انسان بھی اس قسم کے دجل کو خدائے قادر و حکیم کی طرف ہرگز منسوب نہیں کر سکتا۔ یہ حرکت صرف ملاّں ہی کر سکتے ہیں اور بعینہٖ یہی کچھ وہ کر بھی رہے ہیں۔ ان کے خیال میں آنحضرتﷺ کے آخری نبی ہونے کے عقیدہ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس دنیا میں واپسی کے نظریہ سے جوڑ کر انہوںنے بزعم خود خداتعالیٰ کی ارفع ذات کو ان عواقب سے بچا لیا ہے جو ختم نبوت کے قبل از وقت اعلان سے پیدا ہوئے تھے۔ انہیں یہ بھی یقین ہے کہ اس طرح انہوں نے خدائے عزوجل کو تناقض کے مخمصہ سے بچا لیا ہے۔ ایسی سوچ ایک نادان ملاّں ہی کی ہو سکتی ہے اور اسی پر جچتی ہے۔ لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا کی ذات کے متعلق یہ کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ نعوذ باللہ وہ کسی کو اس علم کے باوجود کہ یہ وعدہ پورا نہیں ہو گا، آخری نبی قرار دے دے۔ پھر اپنے اس وعدہ کو اس طرح پورا کرنے کی کوشش کرے کہ ایک پرانے نبی کو اس آخری نبی کی وفات کے بعد دنیا میں بھیج دے۔ یہ تو محض تمسخر ہوا۔ یوں ملّاں خداتعالیٰ کو اپنی خود ساختہ کسوٹی پر پرکھتا ہے اور تضاد کا شرمناک فعل خدائے قدوس کی طرف منسوب کر دیتا ہے اور پھر خود ہی اس کا دفاع بھی کرتا ہے۔ ملّاںکی یہ بیہودہ کوشش بلا مقصد نہیں۔ اس کے نزدیک تو یہ ایک ایسا اعلیٰ منصوبہ ہے جس میں بہت سے فوائد مضمر ہیں۔
یہ نظریہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب کی لعنتی موت سے بچا کر دشمنوں کی طرف سے آپ ؑ کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ اس موقع پر ذرا یہودیوں کی جھنجھلاہٹ کا تصور کیجئے جبکہ انہیں پتہ چلا ہو گا کہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام ان کے چنگل سے نکل کراچانک ہوا میں غائب ہو گئے ہیں (بشرطیکہ چوتھے آسمان پر، جہاں وہ گئے ہیں، ہوا کا کوئی وجود بھی ہو)۔ لیکن اس سے خداتعالیٰ کیلئے ایک اور چھوٹا سا مسئلہ ضرور کھڑا ہو گیا ہو گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کب اور کیوں زمین پر واپس لایا جائے گا۔ انہیں قیامت تک اس آسمانی قرار گاہ میں کسی صورت بھی تنہا تو نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ خداتعالیٰ کے نزدیک تو کوئی مسئلہ نہیں ہے البتہ ملّاں کا یہ خود ساختہ مسئلہ اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ اس تضاد کو کیسے حل کیا جائے کہ آنحضرتﷺ کے آخری نبی ہونے کے باوجود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بحیثیت نبی اللہ دوبارہ مبعوث ہونے پر بھی ایمان لانا ضروری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ملّاں آیت خاتم النبیّین کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خیالی صعود سے جوڑتا ہے اور یہ کام وہ ایسی چالاکی سے کرتا ہے کہ عام مسلمان اس کی اس چال کو سمجھ نہیں سکتا۔ وہ اپنے موقف کی یوں تعمیرکرتا ہے:
.1 حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک خاص مقصدکی خاطر آسمان پر اٹھائے گئے اور انجام کار وہ
زمین پر واپس لائے جائیںگے۔
.2 آخری نبی کے ظہور کے بعد کسی پرانے نبی کا نزول خاتمیت کی مہر کو نہیں توڑتا۔
.3 خدائی فرمان میں تضاد پیدا کئے بغیر آخری زمانہ میں ایک نبی کی ضرورت بھی پوری ہو
جائے گی۔
بعض لوگ ایک تیر سے دو شکار کرنا بھی جانتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ اپنے ذہن کی کجی کو خدا کی طرف منسوب کر کے ایک نا قابل معافی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ لغو اور عجیب و غریب قصہ گھڑ کر دیگر فوائد کے علاوہ سب سے بڑافائدہ ملّاں یہ حاصل کرنا چاہتا ہے کہ وہ خودکسی نہ کسی طرح الٰہی فرستادہ کی اطاعت سے بچ جائے۔ یوں ایک طرف تو نبوت سے ہمیشہ ہمیش کیلئے جان چھوٹ گئی تو دوسری طرف جاہل مسلمانوں پر ملّاں کے مکمل اقتدار کے کھو جانے کا خوف بھی جاتا رہا۔ یہ عقیدہ کہ دو ہزار سالہ پرانا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا، دراصل اس بات کا ضامن ہے کہ اب کوئی بھی نہیں آئے گا اور سادہ لوح مسلمانوں پر وہ اپنا آمرانہ اقتدار ہمیشہ کیلئے برقرار رکھ سکے گا۔
مردے دنیا میں کبھی واپس نہیں آیا کرتے۔ کیونکہ جو شخص ایک دفعہ اس جہان فانی سے کوچ کر جائے وہ دوبارہ واپس نہیں آیا کرتا۔ خدا گزرے ہوئے لوگوں کو کبھی اس دنیا میں لوٹا یا نہیں کرتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جسمانی آمد کے قائل خواہ قیامت تک ان کا انتظار کرتے رہیں وہ کبھی نہیں آئیں گے اور نہ ہی ملّاں کبھی مسلمانوں کے جذبات سے کھیل کر حاصل ہونے والے اقتدار سے دستبردار ہو گا یعنی وہ ملاّں جو رحم و کرم کے نام تک سے واقف نہیں۔ بے چارے مسلم عوام بے فائدہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واپس آنے کے انتظار کے دھوکہ میں مبتلا رہیں گے جن کے ہاتھ میں ان کے دکھوں کے تیر بہدف علاج کا شیریں پیالہ ہوگا۔ ان مسلم ملاؤں کی آمرانہ حکومت کے ہاتھوں اسلام صدیوں تک پستا ہی چلا جائے گا۔
مزید برآں ہمارے خیال میں خاتمیت محمدی کے باوجود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کے سوال پر ملاّں کا مجوزہ حل ہر لحاظ سے ناقابل عمل ہے۔ موسوی امت کے کسی نبی کو بعد میں آنے والی مسلم امت کے مختلف النوع مسائل کے حل کیلئے مستعار لینا کسی طور سے بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ مسلمان علماء یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک مستعار نبی تو امت محمدیہ میں مبعوث ہو کر دراصل خاتم النبیّین آنحضرتﷺ کی خاتمیت کے نقوش کو ملیا میٹ کر دے گا نہ کہ وہ نبی جو اسی امت میں پیدا ہو کر آنحضرتﷺ کے روحانی فرزند کی حیثیت سے مبعوث ہو۔
علاوہ ازیں مندرجہ بالا جائزہ کی روشنی میں یہ بھی پیش نظر رہے کہ زیر بحث مسئلہ کے ضمن میںمحض وقت کی تقدیم و تاخیر کی بنیاد پر کسی نبی کے پرانے یا نئے ہونے کے بارہ میں فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایک نبی اپنی پہلی صفات کے ساتھ ہی دوبارہ دنیا میں آتا ہے تب تو اس کا آنا واقعی دوسری بعثت کہلائے گا لیکن اگر وہ اپنی ظاہری جسمانی خصوصیات اور فطری صلاحیتوں کے حوالہ سے مکمل طور پر تبدیل کر دیا جائے اور اس کا اپنے دشمنوں سے سلوک بنیادی طور پر پہلے سے مختلف ہو تو کسی صورت میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہی پرانا نبی دوبارہ مبعوث ہوا ہے۔ علاوہ ازیں جس روحانی مقام کا وہ حامل ہے، جو پیغام وہ لایا ہے، جو معجزات اس سے وقوع پذیر ہوتے ہیں اور جو تمام بنی نوع انسان کیلئے حکم و عدل ہے، اس کی تو انجیل میں مذکور مسیحؑ کی ذات سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس عیسیٰ کے نزول کا وعدہ آنحضرتﷺ نے دیا تھا ان کی تو پوری شخصیت ہی مسیح ناصری ؑ سے یکسر مختلف ہے۔ موعود عیسیٰ سے اسرائیلی نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہرگز مراد نہیں کیونکہ نہ تو وہ تورات کے تابع ہو ں گے اور نہ ہی انجیل کے جس کی تعلیم انہوں نے خود دی تھی۔ اس طرح ان کی عمل داری صرف اسرائیل کے گھرانہ تک محدود نہیں ہو گی۔ ان تمام حقائق کے باوجود اگر علماء یہ اصرار کریں کہ موعود عیسیٰ وہی اسرائیلی مسیح ہے تو انہیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا میں دوبارہ آنے سے قبل ان کی حالت بالکل تبدیل ہو جائے گی۔ نیز انہیں نبوت کی نئی ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔ اس صورت میں اگر یہ نئی نبوت نہیں تو پھر کیا ہے؟ کوئی ملّاں تسلیم نہیں کرے گاکہ مندرجہ بالا خصوصیات کا حامل عیسیٰ اس وقت تک اسلام میں شامل نہیں سمجھا جائے گا جب تک آنحضرتﷺ کی مہر ختمیت میں گنجائش نہ نکالی جائے۔ اس صورت میں ان کے لئے صرف یہی رستہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ بغیر کسی تبدیلی کے دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ ان کی دوبارہ آمد پر شجراسلام سے ان کی اس طرح پیوندکاری کی جائے گی کہ وہ ایک ایسے مصلح کے طور پر پرورش پا سکیںجسے عالمگیر مسلم نبی کہا جا سکے۔ ہم ملّاں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی حضرت عیسیٰ ؑ امت مسلمہ میں اجنبی ہی ہوں گے اور اپنے اسرائیلی تشخص کو چھوڑ نہیں سکیں گے۔ ان کی حیثیت اس پیوند کی سی ہوگی جسے کسی اور نوع کے درخت سے جوڑ دیا جائے۔ اگر کنول کی چیری کے درخت سے پیوندکاری ہو سکتی ہے یا جھڑبیری کی انناس سے، تو صرف اسی صورت میں اسلام سے قبل کے نبی کا اسلام کے درخت سے پیوند کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا کیا فائدہ؟ کیونکہ پیوند شدہ تنا اپنی اصل نہیں چھوڑ سکتا۔ اس لئے اسلام کے ساتھ جڑ جانے کے باوجود حضرت عیسیٰ ؑ کی حیثیت اسرائیلی نبی کی ہی رہے گی۔
پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مسلمانوں میں جسمانی نزول کے باوجود ان کی اصلی حیثیت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ قرآن کریم کے بیان کے مطابق وہ ہمیشہ اسرائیلی نبی ہی رہیں گے۔ اگر وہ کبھی آ بھی جائیں تو کوئی بھی جنونی مسلمان عالِم ان کے دعویٰ کو صرف اسی قرآنی تعلیم کی بنا پر بآسانی ردّ کر سکتا ہے۔ بلکہ انہیں تو مفتری قرار دے کر ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کس بنا پر انہوں نے اس قرآنی ارشاد کو منسوخ کر دیا کہ وہ تو محض بنی اسرائیل کے نبی ہیں۔ پس جب تک قرآن کریم انہیں اسرائیلی نبی قرار دیتا رہے گا ان کی یہ حیثیت کبھی تبدیل نہیں ہو سکے گی۔ آپؑ صرف اسرائیلی نبی تھے اور ہمیشہ اسرائیلی نبی ہی رہیں گے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔
رَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ (اٰل عمران50 : 3)
ترجمہ : وہ رسول ہو گا بنی اسرائیل کی طرف۔
آجکل بنیاد پرستوں نے توہین رسالت کا مسئلہ کھڑا کر کے مسلم عوام کے جذبات کو بہت زیادہ مشتعل کر دیا ہے۔ اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کو جتنا خطرہ یہودیوں سے درپیش تھا اس سے کہیں زیادہ متعصب مسلمانوں کے ہاتھوں درپیش ہو گا۔ علاوہ ازیں اپنی پہلی بعثت کے مقابلہ میں دوسری بعثت کے دوران آپ ؑ کو پہلے سے بھی زیادہ مختلف قسم کے خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے وقت میں یہودی جتنے فرقوں میں بٹے ہوئے تھے آج عالم اسلام تنگنظری اور مذہبی جنون کی وجہ سے ان سے کہیں زیادہ بٹا ہوا اور تفرقہ کا شکار ہے۔
اگر کبھی حضرت عیسٰیؑ اس دنیا میں آ گئے تو آپ ؑکی زندگی کو بیشمار خطرات لاحق ہوں گے خواہ آپؑ کسی بھی مسلمان مملکت میں نازل ہوں۔ مثلاً اگر آپؑ ایران میں نازل ہوئے تو یہ بات واضح ہے کہ آپؑ کو اپنے مذہبی عقائد کی بنا پر سخت امتحان میں سے گزرنا پڑے گا۔ کیا آپ ؑبارہ اماموں پر ایمان رکھتے ہیں یا نہیں۔؟ کیا آپ ؑکا حضرت ابوبکر۔ حضرت عمر۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت پر ایمان ہے؟ کیا آپؑ حضرت علی ؓ کی خلافت بلا فصل پر ایمان رکھتے ہیں؟ ان کے جواب میں اگر حضرت عیسٰیؑ کے عقائد شیعہ عقائد کے مطابق بھی ہوئے تب بھی بارہویں امام کی غیبوبت کے مسئلہ پر آپ ؑکی زندگی خطرے سے باہر نہیں ہو گی۔ آپ ؑسے پوچھا جائے گاکہ آپ ؑنے اکیلے زمین پر آنے کی جرأت کیسے کی جبکہ بارہواں مقدس امام (المہدی) ابھی کہیں چھپا ہوا ہے۔ چنانچہ آپؑ کو بارہویں امام کی تصدیق کے بغیر ہی نازل ہو جانے پر مورد الزام ٹھہرا کر اور جھوٹا قرار دے کر سزا دی جا ئے گی۔ لیکن اگر آپؑ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت کو صحیح سمجھنے کی وجہ سے مجرم گردانے گئے تب تو آپؑ یقینا مفتری قرار پائیں گے اور شیعہ قانون کے تحت آپؑ کی سزا ئے موت عام ضابطہ کی کارروائی ہو گی۔
تا ہم اگر مندرجہ بالا عقائد پر ایمان رکھتے ہوئے حضرت عیسٰی ؑ کسی سنی علاقہ میں نازل ہوئے تو زمین پر قدم رکھتے ہی آپؑ کو واپس آسمان پر بھجوا دیا جائے گا۔ لیکن سنی نظریات رکھنے کے باوجود بھی آپ ؑکی زندگی خطرہ سے خالی نہیں ہو گی۔ کیونکہ وہاں موجود ہر سنی فرقہ آپؑ سے اپنے عقائد کی تصدیق چاہے گا ورنہ کاذب قرار دے کر ردّ کر دے گا۔ یہ خیال مشکل ہے کہ جونہی حضرت عیسٰی ؑ ان ممالک میں تشریف لائیں گے تو یا توفوراً بریلوی اعتقادات تسلیم کر لیں گے یا وہابی بنیاد پرست بن جائیں گے۔ ان دونوں میںسے کس کے عقائد کو آپ ؑدرست قرار دے کر اپنائیں گے؟ ہر صورت میں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپؑ کو موت کے اس پروانہ پر دستخط کرنا ہوںگے جو ان دو فرقوں کے علماء میں سے کوئی ایک آپؑ کے خلاف جاری کرے گا۔
آپؑ کو معتوب کرنے کی وجہ صرف یہی نہیں ہو گی کہ آپؑ کا تعلق کسی اور فرقہ سے ہے بلکہ آپؑ کی سزائے موت کی بنیاد آپؑ کے جھوٹے دعوی ٔ نبوت پر ہوگی۔ مخالفین کی دلیل یہ ہو گی کہ کوئی بھی سچا نبی جھوٹے عقائد نہیں رکھ سکتا۔ ہر فرقہ حضرت عیسیٰ ؑ کو اپنے عقائد کی کسوٹی پر پرکھے گا نہ کہ اپنے عقائد کو ان کی کسوٹی پر۔
پھر یہ سوال اٹھے گا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کس فقہی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں؟ آپ حضرت امام مالکؒ۔ امام ابوحنیفہؒ۔ امام شافعیؒ یا امام احمد بن حنبلؒ میں سے کس مسلک کی پیروی کریں گے؟ چونکہ آپؑ کو فقہی اختلافات کا پہلے سے کوئی علم نہیں ہوگا اس لئے اس گورکھ دھندے میں پھنس کر آپ ؑخود کو بے یارومددگار پائیں گے۔ اس وقت ممکن ہے آپ ؑیہ خواہش کریں کہ کاش! میں زمین پر واپس ہی نہ آیا ہوتا۔ بالآخر آپؑ جس فرقہ کو بھی چنیں گے اس کے مخالف 71فرقے آپ کو رد کر دیں گے۔ مزید برآں آیت قرآنی کہ ’’آپؑ صرف بنی اسرائیل کے رسول ہیں‘‘ کی روشنی میں کیا تمام فرقے آپ ؑکو رد کرنے کا اختیار نہیں رکھتے؟
ممکن ہے کہ ہجوم میں سے کوئی سر پھرا جنونی یہ نعرہ بھی بلند کر دے کہ ’’آپؑ وہیں واپس چلے جائیے جہاں سے آپؑ آئے ہیں۔‘‘ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ؑسے سختی سے یہ مطالبہ بھی کیا جائے کہ ’’براہِکرم آپؑ اپنے جہاز کا رخ اسرائیل کی طرف موڑ لیجئے۔‘‘ اور یہ بھی کہا جائے کہ ’’اگر آپ ؑ اتنے ہی بہادر ہیں کہ آپؑ دوبارہ یہودی عدالت کا سامنا کر سکتے ہوں تو جائیے وہاں جا کر اپنا تشخص ثابت کیجئے۔‘‘
انسان سوچتا ہے کہ ان تازہ ترین بدلے ہوئے حالات میں خداتعالیٰ کیا ارشاد فرمائے گا۔ کیا وہ فرشتوں کو حکم دے گا کہ جلدی سے جا کر حضرت عیسیٰ ؑکو بچاؤ اور انہیں واپس اپنی اسی آسمانی قرارگاہ پر پہنچا دو یا خداتعالیٰ انہیں مسلم یا یہودی علماء کے رحم و کرم پر چھوڑدے گا؟ کیا آپ ؑ اسرائیل میں اسرائیلی سپاہیوں کے ہاتھوں دوبارہ مصلوب ہوں گے یا پھر کسی مسلم جلّاد کے ہاتھوں تختہ دار پر لٹکا دیئے جائیں گے؟ ان تمام سوالات کا جواب مستقبل ہی دے سکتا ہے بشرطیکہ آپؑ اس دکھ بھری دنیا میں دوبارہ تشریف لے آئیں۔ قصہ مختصر، آپ کی بعثت ثانیہ بھی بعثت اولیٰ سے کہیں بڑھ کر ناکا م ہو گی۔
ہم خلوص نیت سے قاری کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ جب مذہب کی تشریح کسی معقولیت کے بغیر کی جائے اور ایمان سے عقل کا خانہ خالی ہو جائے تو بے حقیقت افسانے اور بے بنیاد روایات جنم لیا کرتی ہیں اور مذہب کے شعور سے عاری ٹھیکیدار خدائی حکمتوں کو مضحکہ خیز رنگ میں پیش کرنا شروع کر دیا کرتے ہیں۔ بے شک قرون وسطیٰ کے بڑے بڑے علماء جو ان پیشگوئیوں کا صحیح مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے جائز طور پر معذور قرار دیئے جا سکتے ہیں کیونکہ ان کا دور ایک مختلف دور تھا اور کائنات کے متعلق ان کا علم محض ظنّی تھا۔ لیکن عصرِ حاضر کے دقیانوسی علماء جو روشن خیالی کے اس جدید دور میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے ان کیلئے تو ہرگز کوئی جواز نہیں کہ وہ ان پیشگوئیوں کی ایسی غلط تفسیر کریں۔ خدا کے سچے بندے حضرت عیسٰی ؑ کی مقدس روح یقینا اپنے رب کی طرف لوٹ گئی تا وہ اپنے مقررہ اعلیٰ روحانی مقام پر قرارپکڑے۔ لیکن وہ عیسیٰ جس کے یہ منتظر ہیں وہ تو محض ان کے ذہنوں کی خام خیالی ہے۔ کسی کو اس سے کیا غرض کہ یہ خیالی وجود صلیب پر لٹکایا جائے، خنجر سے مارا جائے یا ہزار بار پھانسی دے دیا جائے۔ حضرت عیسیٰؑ کا جسمانی رفع اور ان کا آسمان میں کسی جگہ محفوظ رہنا اور مستقبل میں بطور نبی ان کا دوبارہ ظہور، انسانی عقل و فہم پر نہایت شاق گزرتا ہے۔ اس پر مستزادیہ کہ ایسی احمقانہ بات خدائے علیم و حکیم کی طرف منسوب کرنے کی جرأت کی جائے۔ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ ایسے لوگوں کے دماغ کس مادہ سے بنے ہوئے ہیں؟
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس وہم سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا حاصل کر لیں اور وہ ملّاں بھی جو اس میں رنگ آمیزی کرتے رہے ہیں نظروں سے اوجھل ہو جائیں۔ ان لوگوں کے دور کے خاتمہ ہی سے دراصل احیائے اسلام کا دور شروع ہوگا۔
آخری لیکن نہایت اہم اعترض اس نظریہ پر یہ اٹھتا ہے کہ اگر بنی اسرائیل کے ایک نبی کو کسی طرح تراش خراش کر امت مسلمہ کا نبی قرار دے بھی دیا جائے تو قدامت پسند علماء یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کی زمین سے غیرحاضری کے زمانہ میں قرآن کریم کا آنحضرتﷺ کے ساتھ ساتھ حضرت عیسیٰؑ پر بھی نزول ایک ناممکن اور ناقابل قبول امر ہے۔ تنقید کا یہ زاویہ علماء کیلئے بہت سے مشکل سوال اٹھاتا ہے۔ سب سے اہم سوال تو حضرت عیسیٰؑ کے حلقۂ اسلام میں داخل ہونے کا ہے۔ کب اور کس نے انہیں بتایا کہ نیچے صفحۂ زمین پر سب سے بڑا اور عظیم بنی ظاہر ہو گیا ہے۔ کیا آپؑ نے آنحضرتﷺ کی سچائی کی فوراً تصدیق کر دی تھی اور مومن بن گئے تھے؟ اگر آپ واقعۃً یہ خبر سنتے ہی فوراً ایمان لے آئے تھے تو آپؑ پہلے خلائی مومن ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کا علم حاصل کئے بغیر آپؑ نے اس پر عمل کرنا کہاں سے سیکھا؟
لہٰذا یہ بنیادی سوال کہ کیا قرآن کریم حضرت عیسیٰؑ پر براہ راست خداتعالیٰ کی طرف سے جبرائیل ؑ کی وساطت سے نازل کیا گیا تھا، بہت ہی اہم ہے اور اس کا جواب دیا جانا اتنا ہی ضروری بھی ہے۔ اگر تو قرآن کریم آپؑ پر اس وقت نازل کیا گیا جب آپؑ ابھی آسمان پر ہی تھے تو اس صورت میں آپ ؑیقینا آنحضرتﷺ کی نبوت میں شریک ہو جاتے ہیں جیسا کہ حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰؑ کی نبوت میں شریک تھے اور دونوں کا مقام و مرتبہ تقریباً ایک جیسا ہی تھا۔ اور اگر قرآن کریم براہ راست آپ ؑپر جبرائیل ؑکے ذریعہ نازل نہیں کیا گیا تھا تو زمین پر نزول سے پہلے آپ ؑکے ایمان کی نوعیت کیا ہو گی؟ کیا اس وقت تک آپ ؑ اپنی گزشتہ تعلیم پر ہی کاربند ہوں گے۔ حالانکہ خداتعالیٰ کب کا اسلام کو تمام بنی نوع انسان کیلئے آخری عالمگیر مذہب قرار دے چکا ہے۔ یا کیا آپ ؑسے کوئی استثنائی سلوک روا رکھا گیا ہو گا اور بانی ٔ اسلامﷺ کے مبعوث ہونے کے بعد بھی آپ ؑکو اسلام قبول نہ کرنے کی اجازت دی گئی ہو گی؟ بصورت دیگر اس منطقی نتیجہ سے ہرگز کوئی مفر نہیں کہ قرآن کریم آپ ؑ پر کسی نہ کسی طرح ضرور نازل ہوا ہو گا۔
کیا ملّاں یہ تجویز کریں گے کہ حضرت عیسیٰؑ کو یہ پیغام جبرائیل کی بجائے آنحضرتﷺ نے ہی بنفس نفیس پہنچایا ہو گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کا پیغام اپنے صحابہ کو پہنچایا تھا اس وقت توکوئی درمیانی واسطہ موجود نہیں تھا۔ جبرائیل ؑکے ذریعہ جو بھی آنحضورﷺ پر نازل کیا جاتا تھا آپﷺ براہ راست اسے اپنے صحابہ کو پہنچا دیا کرتے تھے۔ لیکن قرون وسطیٰ کے ملاّؤںکے مطابق حضرت عیسیٰؑ تو اس وقت کہیں آسمان پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا آنحضرتﷺ سے براہ راست کوئی رابطہ بھی نہ تھا۔ اس لئے اب دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو یہ سمجھنا چاہئے کہ جب تک حضرت عیسیٰؑ زمین پر واپس نہیں آجاتے اس وقت تک آپؑ وحی ٔ قرآن سے بالکل بے خبر ہوں گے۔ یا پھر قرآن کریم حضرت عیسیٰؑ کو آنحضرتﷺ کی طرف سے ایک پیغام کی صورت میں مل جائے۔ لیکن حضرت عیسیٰؑ تک ان کے خلا میں ہونے کی حالت میں قرآن کریم کا پیغام ان تک پہنچایا کیسے جا سکے گا جب تک کہ جبرائیل کو پھر اس کام پر مامور نہ کیا جائے۔ الغرض یہ منظر ایسا گستاخانہ اور توہین آمیز ہے جسے ایک سچا مومن ایک لمحہ کیلئے سوچ بھی نہیں سکتا۔ ذرا تصور تو کریں کہ جبرائیل ؑآنحضرتﷺ پر قرآن کریم اتار رہے ہیں اور پھر آنحضرتﷺ سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کو قرآن کریم دوبارہ سنائیں تا کہ وہ اسے خداتعالیٰ کی بجائے آنحضرتﷺ کی طرف سے بطور پیغام حضرت عیسٰی ؑکو پہنچا سکیں۔
اب ہم حضرت عیسٰی ؑکے اسلام قبول کرنے کے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ آپؑ پر قرآن کریم نازل نہ ہونے کے باعث آنحضرتﷺ پر آپ ؑ کا ایمان انوکھا اور مبہم ہو تب بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ آپ ؑایک بے عمل مسلمان ہوں گے جو قرآنی تعلیمات سے نا آشنا ہوں۔ آپ ؑکے بالمقابل عام مسلمان جہالت کے باوجود آپ ؑسے بہتر مسلمان ہونے کا دعویٰ کر سکیں گے۔ پس جب ایسے عیسٰی ؑکا زمین پر نزول ہو گا تو بڑے بڑے مسلم علماء اور عمائدین انہیںکیسے خوش آمدید کہہ سکیں گے۔ لہٰذا اسلام کے متعلق اپنی لاعلمی دور کرنے کیلئے انہیں امام مہدی علیہ السلام کے حضور فی الفور حاضر ہو کر وقت ضائع کئے بغیر بیعت کرنا ہو گی۔ لیکن اسلام قبول کرنے کے معًا بعد کیا آپؑ کو باہم متصادم مسلم فرقوں پر حکم و عدل تسلیم کر لیا جائے گا؟ کب اور کون آپ ؑ کو اسلام کی اس رنگ میں تعلیم دے گا کہ آپ ؑ ایسی عظیم الشان ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ برآ ہو سکیں؟
اگر علماء اس بات پر مصر ہوں کہ حضرت عیسٰی ؑکے زمین پر نزول سے پہلے ہی انہیں آسمان پر ایک مسلمان نبی کی حیثیت سے دوبارہ مامور کر دیا گیا ہو گا تو اس صورت میں انہیں قبل از اسلام زمانہ کا نبی کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟
خلاصۂ کلام یہ کہ قبل از اسلام کے ایک نبی کو مستعار لینے کا مطلب یہ ہے کہ آخری نبیﷺ کے مبعوث ہونے کے بعد یا تو انہیں آسمان پر ہی اسلام کے نبی کی حیثیت سے مامور کیا جائے گا یا زمین پر اترنے کے بعد پہلے انہیں مسلمان بنایا جائے گا اور پھر بطور نبی مامور کیا جائے گا۔
اندورنی تضادات کا حامل ایسا بے سروپا نظریہ خواہ دنیا کو کتنا ہی لغو اور غیر معقول نظر کیوں نہ آئے کٹر اور قدامت پرست علماء کو اس کی ذرا بھی پروا نہیں۔ ان کے نزدیک آسمانی پیشگوئی کی تفہیم میں دلائل اور معقولیت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوا کرتا۔ یہ لوگ پیشگوئیوں کو ظاہر پر محمول کرتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ اس طرح اسلام کو کس قدر نقصان پہنچتا ہے۔ یہی دیوانگی دراصل ان کے فکر و تدبر، امیدوں اور خواہشات میں پائے جانے والے انتشار کا باعث ہے۔
المختصر یہ کہ قبل از اسلام کے ایک اسرائیلی نبی کو مستعار لینا اتنا مفید نہیں جتنا علماء سمجھتے ہیں۔ ان کی کمال درجہ کی ہٹ دھرمی کا کیا کہنا! وہ آسمانوں سے اترنے والے ایک اسرائیلی نبی کو تو قبول کرنے کیلئے تیار ہیںلیکن امت مسلمہ میں جنم لینے والے کسی نبی کو قبول کرنے کیلئے ہرگزتیار نہیں۔ وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑکی دوبارہ آمد کے اس من گھڑت قصہ سے انہیں اور بہت سے فوائد حاصل ہو جاتے ہیں۔ آسمانوں سے نازل ہونے والے عیسیٰ عام بشر نہیں ہوں گے بلکہ زمین پر اترنے سے پہلے وہ ایسی فوق البشر طاقتیں حاصل کر چکے ہوں گے جن کا اس سے قبل انبیاء کی پوری تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔
ظاہر ہے کہ حضرت عیسٰی ؑکا یہ خیالی نقشہ علماء نے اپنے اسی میلان کے نتیجہ میں تخلیق کیا ہے جس میں وہ پیشگوئیوں کے ظاہری الفاظ پر حد سے زیادہ زور دیتے ہیں۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دلائل اور عقل کو رد کر دینے کی احمقانہ کوشش کی وجہ سے انہیں کتنی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اسلام کا جو رہا سہا وقار اور عزت ہے آخری زمانہ میں اس کو بچانے کی ذمہ داری وہ حضرت عیسٰی ؑپر ڈال دیتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ حضرت عیسٰی ؑہی دجّال کے خلاف پورے کرہ ٔارض میںتن تنہا حملہ آور ہوں گے۔ اس خوفناک اور یک چشم کانے دجّال کو شکست دینے اور ہلاک کر دینے کے بعدحضرت عیسٰی ؑتمام دنیا کی حکومتوں کی چابیاں مسلمانوں کے حوالہ کریں گے۔ نیز جمعشدہ بے بہا دولت اور خزائن بھی ان میں تقسیم کر دیں گے۔ اس طرح دجّال کی لڑائی میں ہاتھ آنے والا تمام مال غنیمت مسلم امت کے قدموں میں ڈھیر کر دیا جائے گا۔
لوگوں کے سیاسی اور اقتصادی مسائل حل کرنے کے بعد حضرت عیسٰی ؑان پیشگوئیوں کی طرف توجہ دیں گے جن کا تعلق مذہب سے ہے۔ وہ اپنی مہم کا آغاز عیسائیت پر حملہ سے کریں گے۔ چنانچہ دنیا میں ہر قسم کی صلیب کو توڑنا خواہ وہ کسی چیز کی بنی ہوئی ہو، آپؑ کا فرض منصبی ہو گا اور صلیب کی تلاش میں آپؑ ہر خانقاہ، ہر گرجا، ہر معبد اور ہر راہب کے ٹھکانے پر جائیں گے اور ہر شہر کے ہر گلی کوچے میں گھومیںگے۔ وہ ہر رہگیر کو گھور گھور کے دیکھیں گے۔ خواتین شایدان کی خاص جستجو کا مرکز بنیں گی۔ کیونکہ حضرت عیسٰی ؑاُن کی اس قبیح عادت سے بخوبی واقف ہوں گے کہ وہ اپنے جواہرات اور زیورات پر صلیب کندہ کروا لیتی ہیں۔ وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہوں گے کہ خواتین صلیبوں کو اپنی گردن میں لٹکائے رکھتی ہیں۔ چنانچہ آپؑ ان کی ہر چوڑی، ہر کڑے، ہر لاکٹ اور ہر بُندے کو جس پر صلیب کا نشان ہو گا چھین لیں گے۔ افسوس ان خواتین پر جو حضرت عیسٰی ؑکے راستہ میں آنے کی جرأت کریں گی۔ لیکن یہ بے چاری قابل رحم خواتین کہاں جا کر چھپ سکیں گی کیونکہ حضرت عیسٰی ؑتو ہر گھر میں داخل ہوں گے۔ ہر زیور والی الماری اور صندوق کی تلاشی لیں گے۔ ہر دیوار اور ہر کونے کو چھان ماریں گے۔ چنانچہ تمام ظاہری صلیبیں توڑ پھوڑ کر دنیا سے نابودکر دی جائیں گی۔ آپ ؑجب تک یہ فرض پوری طرح ادا نہ کر لیں چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ یہ ہے وہ تصور جو قدامت پسند مسلمان حضرت عیسٰی ؑکی آمدِثانی کی غرض کے حوالہ سے رکھتے ہیں بشرطیکہ ان کی آمدِثانی اس رنگ میں واقعۃً وقوع پذیر بھی ہو۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ تثلیث کی اس نشانی کو مکمل طور پر نابود کرنے کے بعد حضرت عیسٰی ؑان دوسرے فرائض کی طرف توجہ دیں گے جن کا ذکر آسمانی پیشگوئیوں میں ملتا ہے بشرطیکہ انہیں ظاہری معنوں پر محمول کیا جائے۔ آپ بلا توقف دنیا میں موجود ہر غیر مسلم کو قتل کرنا شروع کریں گے۔ ان لوگوں کے پاس صرف ایک ہی رستہ ہو گا کہ یا تو مسلمان ہو جائیں یا مرنے کیلئے تیار ہو جائیں۔ قتل کرنے کے لئے آپؑ ایک انوکھا طریق اختیار کریں گے۔ آپؑ کسی افسانوی اژدہا کی طرح منہ سے آگ پھینکیں گے، اگرچہ دیومالائی کہانیاں بھی اس قسم کے تصور کی متحمل نہ ہوں۔ آپ کی دہکتی ہوئی سانس کے اثر سے کوسوں میل دور موجود کافر بھی جل کر راکھ ہو جائیں گے اور آپ کی تلوار کی زد میں آنے والوں کے سر قلم کر دیئے جائیں گے۔ ان کو حضرت عیسٰی ؑ فوراً ہی شناخت کر لیں گے کیونکہ ہر کافر کی پیشانی پر واضح طور پر ’الکافر‘ کا لفظ ابھر آئے گا۔ اس طرح آپ کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ سوائے مسلمانوں کے اور ان عیسائیوں کے جو اس وقت عیسائی نہیں رہے ہوںگے اور ان کے پاس عبادت کیلئے ایک بھی صلیب نہیں رہے ہو گی۔ اس خیالی عیسٰی ؑکے اس بے مثال قتل عام کے بعد کرۂ ارض بدبو اور شدید سڑاند سے بھر جائے گا جو مقتولوں اور جل کر مرے ہوئے انسانوں کی لاشوں سے اٹھ رہی ہو گی۔ اس کے بعد پردہ گر جائے گا۔ نفرت مزید نفرت کو جنم دے گی اور خونریزی مزید خونریزی کا باعث بنے گی۔
حضرت عیسٰی ؑکی آخری ظالمانہ کارروائی روئے زمین سے سؤروں کی نسل کو نابود کرنا ہو گی۔ سؤروں کیلئے کوئی جائے پناہ باقی نہ رہے گی۔ تمام سؤر بمع ’اہل و عیال‘ ہلاک کر دیئے جائیں گے۔ دہکتی ہوئی سانس اور ہاتھ میں تلوار تھامے حضرت عیسٰی ؑشہر شہر، گاؤں گاؤں، گلی گلی، گھر گھر اور ہر باڑہ میں چھپے ہوئے ان بد ذاتوں کو تلاش کرتے پھریں گے۔ وہ ان کی تلاش میں تمام جھاڑیوں کو چھانٹ ماریں گے اور پھر جنوبی امریکہ کے گھنے جنگلات میں ان کا شکار کریںگے۔ ان کے حملہ سے نہ تو چین بچ پائے گا اور نہ ہی جاپان۔ بلکہ سؤر کی تلاش میں جنوبی بحرالکاہل کے جزائر جہاں اس کا گوشت مرغوب غذا شمار ہوتا ہے کو بھی خوب کھنگالا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ ساری انسانی تاریخ میں کسی نبی نے ایسا خونی اور غلیظ کام نہیں کیا جو قدامت پسند علماء حضرت عیسٰی ؑکی طرف منسوب کرتے ہیں۔ یہ وہ سلوک ہے جو مسلمانوں نے آنحضرتﷺ کے گہری حکمتوں پر مبنی کلام کے ساتھ روارکھا ہے۔ افسوس کہ یہ لوگ اس پیشگوئی کی گہرائی میں جا کر اس کی روح کو سمجھنے میں یکسر ناکام رہے ہیں۔
اس پیشگوئی میں مسیح موعود کا اصل کام یہ بتایا گیا ہے کہ وہ انسانی معاشرہ کو غیر انسانی طرزعمل اور ان بدعا دات سے پاک کرے جو سؤر کے ساتھ مخصوص ہیں۔ بہت سے جانور اور پرندے زندہ رہنے کے لئے کسان کی محنت پر انحصار کرتے ہیں لیکن محض کھیل تماشے کی خاطر فصلوں اور درختوں کو برباد نہیں کیا کرتے۔ تباہ و برباد کرنے کی اس خصلت میں سؤر منفرد ہے۔ خشکی کے تمام جانور وں میں صرف سؤر ہی اپنے مردہ بچوں کو کھا جانے کے اعتبار سے بد نام ہے۔ خون کا پیاسا شیر یا سفاک بھیڑیا اپنے مردہ بچوں کے پاس بھوک سے مر توسکتا ہے لیکن ان کو کھا جانے کا خیال اس کے دل میں نہیں آسکتا۔ حتیٰ کہ کتے بھی اپنے مردہ پلّوں کو نہیں کھاتے۔ یاد رہے کہ سؤر سبزی خور جانور ہے تاہم کسی بہیمانہ خصلت کی بنا پر وہ اپنے ہی مردہ بچوں کی لاشوں کوبڑے شوق سے ہڑپ کر جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی میں یہ پیغام مضمر تھا کہ ان انسانوں کی بگڑی ہوئی عادات کے خلاف ایک مقدس جنگ لڑی جائے جو کمزوروں کی نسل کشی اور ان کے حقوق غصب کرنے میں حد سے بڑھے ہوئے ہیں۔ سؤروں کی اپنے بچوں کو کھا جانے کی قبیح عادت کو موجودہ زمانہ میں بچوں کے ساتھ نامناسب سلوک سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ بچوں سے بدسلوکی خواہ اپنے بچوں سے ہو یا اوروں کے بچوں سے، بہرحال ایک خصلت ہے۔ آج کل چونکہ یہ مسئلہ ہمارے معاشرہ میں عام بحث کا موضوع بن گیا ہے اس لئے اس کی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔ کسی اور جانور کو اس برائی میں انسانوں سے کوئی نسبت ہی نہیں۔
انبیاء کا مقصد ہمیشہ برائی کے خلاف جہاد رہا ہے اس لئے اگر عیسٰی ؑبن مریم کا آنا استعارۃً خیال کیا جائے تو ان کی آمد کوئی عجیب بات نہیں۔ لیکن وہ عیسٰی ؑ جنہیں ملاّیت نے بت بنا رکھا ہے اور جو لفظاً سؤروں کو قتل کریںگے ایسے ہی عیسیٰ کی انہیں ضرورت ہے اوراس کیلئے وہ چشم براہ ہیں۔ اور جونہی ان کی آنکھوں کا یہ تارا نازل ہو کر عالم حیوانات سے سؤروں کا خاتمہ کر دے گا تو وہ زبردست خراجِ تحسین کا حقدار ٹھہرے گا اور اس کے آخری پُر شوکت اور جلالی ایام عزّت و تکریم سے یاد کئے جائیں گے۔
سمندروں، پہاڑوں اور وادیوں سے ’عیسیٰ زندہ باد‘ کا نعرہ بلند ہو گا۔ آپ کی قتل و غارتگری پر گرجوں کی گھنٹیاں تو خاموش رہیں گی لیکن مسجد کے مینار ے اس صدا سے ضرور گونج اٹھیں گے۔ ’’اللہ اکبر اللہ اکبر، ہمارا منجی عیسیٰ زندہ باد۔‘‘
بالآخر حضرت عیسٰی ؑکو دنیا سے کوچ کرنے سے پہلے ایک اور اہم کام سر انجام دینا ہو گا جس کیلئے آپ کو ملّاں کی مدد کی ضرورت پیش آئے گی۔ بقول ان ملّاؤں کے آپ ؑ کو ہمیشہ ہی ملّاں کا مفاد پیش نظر رہا اور اب چاہئے کہ ملاّں بھی کم از کم ایک مرتبہ تو حضرت عیسٰی ؑکا خیال کرے۔ ان عالمگیر کارناموں کے بعد آپ ؑکا ملّاں سے صرف اتنا مطالبہ ہو گا کہ وہ شادی کروانے میں ان کی مدد کریں۔ اتنے قتل و غار ت اور خونریزی کے بعد شادی ان کیلئے یقینا ایک بہت خوشگوار تبدیلی ہو گی۔ اگر ملاّں حضرات کو آسمانی پیشگوئیوں کو ظاہری معنوں میں لفظاً پورا کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو اب انہیں حضرت عیسٰی ؑکیلئے نہایت شاندار اور خوبرو دوشیزہ تلاش کرنی ہو گی جس سے حضرت عیسٰی کے ہاں اولاد بھی پیدا ہو۔ لیجئے ! اب حضرت عیسیٰ ؑشادی کیلئے تیار ہیں۔ لیکن اس مقدّس کام کیلئے کسی بڑے ملّاں کی ضرورت بھی ہو گی جو نکاح پڑھا سکے اور آپ ؑکے ہونے والے سسر سے دریافت کرے کہ کیا وہ اپنی دختر نیک اختر کا ہاتھ حضرت عیسیٰ ؑکے ہاتھ میں دینے کے لئے راضی ہے۔؟ اس منظوری کے بعد بالآخر حضرت عیسٰی ؑکی باری آئے گی جو اپنی رضا مندی ظاہر کریںگے۔ یہ کتنی مسرّت اور انبساط کے لمحات ہوں گے۔ کتنی سر مستی کی حالت ہو گی۔ دو ہزار سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ مجرد رہنے کے بعد آپؑ کھڑے ہوں گے اور فرمائیں گے ’’مجھے قبول ہے۔ میرے عزیز ملّاں۔ مجھے قبول ہے‘‘۔ آپ ؑکے کارہائے نمایاں کا جشن منانے کیلئے اس سے بہتر اور کونسا طریق ہو سکتا ہے۔ شمال سے جنوب۔ مشرق سے مغرب ہر جگہ آپ ؑکی تعریف میں گیت گائے جائیں گے۔ اس خوشی کے موقع پر شادی کے نغمات کی سریلی آوازوں سے پوری فضا معمور ہو جائے گی۔ اب حضرت عیسٰی ؑکا صرف ایک یہ کام باقی رہ جائے گاکہ آپ ؑاپنے پلوٹھے کی پیدائش کا انتظار کریں گے جس کے بعد مزید بیٹوں اور بیٹیوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اس طرح دو ہزار سال یا اس سے بھی زیادہ عمر ہونے کے باوجود آپ ؑکے ہاں بچوں کی پیدائش ان تمام معجزات سے بڑھ کر ایک معجزہ ہو گی جو آپؑ اُس وقت تک دکھا چکے ہوں گے۔ آپ ؑکی روح تو ہمیشہ سے توانا رہی ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؑکا جسم بھی کچھ کم طاقتور نہ ہو گا۔ کتنا عظیم الشان معجزہ ہو گا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ا ٓپؑ قوی سے قوی تر ہوتے چلے جائیں گے۔ جبکہ آپؑ کا بڑھاپا پہلی بعثت میں ہی کہیں دفن ہو چکا ہو گا۔ بالآخر موت کی گھڑی آپہنچے گی لیکن یہ موت بھی کیسی شاندار اور قابل رشک ہو گی۔ مبارک وہ دن جب آپؑ پید ا ہوئے اور مبارک وہ گھڑی جب آپؑ کی وفات ہو گی۔
حضرت عیسٰی ؑکی یہ وہ دلفریب داستان ہے جو اگر حقیقت کا روپ دھار لے تو ملّاں حضرات تمام اسلامی مدارس میں اسے سال ہا سال نسلاً بعد نسلٍ دہراتے چلے جائیں گے۔
جاہل مادہ پرست علماء نے آسمانی پیشگوئیوں کا جو حشر کیا ہے مذہب کی پوری تاریخ میں اس سے زیادہ دلخراش مثال نہیں ملتی۔ لیکن یہ بات صرف مسلم علماء سے ہی مخصوص نہیں ہے۔ جب بھی کسی بھی جگہ ملّائیت مذہبی نظام پر قابض ہو جاتی ہے تو وہ اسی طرح حقائق کو افسانوں اور دیومالائی کہانیوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ جب انسان اپنے ایمان کو عقلِ سلیم اور شعور سے عاری ملائیت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے جو صحیح اور غلط میں امتیاز نہ کر سکے تو اسے ہمیشہ اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ملائیت کا کردار کچھ بھی کیوں نہ ہو معقولیت نام کی کوئی چیز ان کے ہاں نہیں پائی جاتی۔
دنیا کے تمام مذہبی لیڈروں میں سب سے زیادہ افسوسناک حالت مسلم ملائیت کی ہے۔ اسلام کی آخری فتح کیلئے ان کی لاحاصل تمنائیں دراصل پیشگوئیوں کی حد درجہ غلط توجیہات پر مبنی ہیں جن کی حیثیت کسی سراب یا واہمہ سے زیادہ نہیں۔ اسلام تو درکنار یہ تو اب کسی معمولی سی مذہبی تنظیم کی قیادت کے اہل بھی نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کسی نبی کی اطاعت کے اہل رہے ہیں خواہ پرانا نبی ہو یا نیا۔
حضرت عیسٰی ؑ کے زورِبازو سے حاصل ہونے والی اسلام کی آخری فتح کے بارہ میں علماء کا تصور انہیں اسلام کی آخری فتح کی جدوجہد میں کسی بھی قسم کا کردار ادا کرنے سے فارغ کر دیتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان علماء کو ایک نبی کی نہیں بلکہ ایک غلام جنّ کی ضرورت ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جس قسم کے عیسیٰ کی وہ امید لگائے بیٹھے ہیں تمام سلسلہ انبیاء میں آج تک کبھی کوئی ایک بھی ایسا مبعوث نہیں ہوا۔ قرآن کریم یا دیگر الہامی کتب میں کسی بھی ایسے نبی کا ذکر نہیں ملتا جو اپنی قوم کے غلبہ کیلئے تن تنہا لڑاہو اور اس کی قوم ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھی رہی ہو۔ یہی مطالبہ یہود نے حضرت موسیٰؑ سے کیا تھا لیکن اسے ردّ کر دیا گیا تھا۔ اگر کسی مذہب کی آخری فتح بغیر قربانی اور بغیر کسی محنت کے حاصل ہو سکتی ہے تو پھر کسی نبی کی ضرورت ہی کیا ہے۔ نبی تو ہمیشہ قربانیوں کی طرف ہی بلایا کرتا ہے۔ ان علماء کا اس قسم کے شاہ خرچ عیسیٰ کا تصور کسی جنّ بھوت کے تصور کے مشابہ تو ہو سکتا ہے لیکن ایک آسمانی مصلح کے مشابہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ان کا اصل مسئلہ ایک پرانے یا نئے نبی میں سے کسی ایک کے انتخاب کا نہیں بلکہ جنّ اور نبی میں سے کسی ایک کے انتخاب کا ہے۔ ان کا یہ طرز عمل ایک مشہور الف لیلوی داستان کی یاد تازہ کرتا ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جادو گر، پھیری والے کے لباس میں بغداد کی گلیوں میں یہ آواز لگاتا پھرتا تھا کہ ’’پرانے چراغ کے بدلے نئے چراغ لے لو۔پرانے چراغ کے بدلے نئے چراغ لے لو۔‘‘ بہت سی خواتین یہ آواز سن کر باہر آگئیں تا کہ پرانے چراغ کے بدلے نیا چراغ حاصل کر سکیں۔ ان کے خیال میں واقعۃً یہ ایک اچھا سودا تھا۔ تاہم اس میں ایک استثناء بھی تھا اور وہ یہ کہ ان خواتین میں سے ایک کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے پرانے چراغ میں جو اس نے اس جادوگر کو دے دیا، ایک لامحدود طاقتوں والا جنّ مقیّد ہے۔ اس کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس چراغ کا مالک جنّ کا مالک بھی بن جاتا ہے۔ اس دھوکہ باز پھیری والے کی دلچسپی چراغ میں مقیّد جنّ سے تھی نہ کہ چراغ سے۔ اگر لاکھوں نئے چراغوں کے بدلے ایک پرانا چراغ حاصل کر کے جنّ پر قبضہ ہو جائے تو اس سے بہتر اور کونسا سودا ہو سکتا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ملّاں کی دلچسپی نہ تو آنحضرتﷺ کے روشن کردہ نئے نورانی چراغ سے ہے اور نہ ہی موسوی امت کے پرانے چراغ سے۔ انہیں تو صرف اس شاہ خرچ عیسیٰ سے دلچسپی ہے جو ان کی خیالی دنیا میں محصور ہے۔ ان کی نظر میں آسمانی مشعل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ نہ تو انہیں نبی کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کی کوئی پرواہ۔ انہیں تو صرف ایک غلام جنّ کی ضرورت ہے جو ان کے اشاروں پر دنیا بھر کی دولت ان کے قدموں میں ڈھیر کر دے۔
ان کی تمنا تو صرف یہ ہے کہ وہ پوری دنیا پر سیاسی اور اقتصادی اقتدار حاصل کر لیں جس کے حصول کیلئے ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ انہیں صرف اسی کام میں مہارت ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کا گلا کاٹتے اور خون بہاتے رہیں۔
کسی مسلم ملک میںملاّں کا لایا ہوا خونی انقلاب دوسروں کو کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ کر دے۔ یہ انقلاب کسی طرح بھی طاقت کے توازن کو نہیں بگاڑ سکتا۔ سائنسی اور تکنیکی ترقی کے بغیر دنیا پر غلبہ کا خواب، اقتصادیات اور صنعت میں انقلاب لائے بغیر طاقت کے موجودہ توازن کو بدلنے کی خواہش اور اسی طرح جدید ترین اور حساس سامان حرب کو خود بنانے کی قابلیت حاصل کئے بغیر دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو چیلنج کرنا پاگل پن کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ا س مقصد کے حصول کیلئے تمہارے پاس ہے ہی کیا؟
ان ملاّؤں کو خوب جان لینا چاہئے کہ اسلام کے مقدس بانی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیمالشان پیشگوئیوں کو دیدہ دلیری سے مسخ کر نے کی اس گھناؤنی حرکت کی سزا انہیں ضرور ملے گی۔ ان ملاّؤں اور ان کے حواریوں کے مقدر میں سوائے ناکامی اور تباہی کے اور کچھ نہیں۔ یہ وہ سزا ہے جو انہیں خدائی حکمت کو مسخ کرنے کی جسارت کی پاداش میں بہرحال بھگتنا ہو گی۔ انہیں چاہئے کہ وہ چپ چاپ وقت گزرنے دیں اور اپنے کان آسمان سے اترنے والے عیسیٰ کے قدموں کی آہٹ سننے کی طرف لگائے رکھیں۔ یاد رکھیں کہ وہ نسلاً بعد نسلٍ اسی امید اور انتظار میں جیئیں گے اور اسی حسرت کے ساتھ مریں گے۔ لیکن ان کو ان کی کج فہمی اور قول و فعل کے تضاد کے جال سے نکالنے والا کبھی نہیں آئے گا۔ ہر لمحہ اور ہر پل جو گزرتا ہے وہ ان کے دلوں سے خدا کا خوف ختم کرتا جا رہا ہے۔ دیانتداری، انصاف،بے لوث قربانی، باہمی اخوت اور دوسروں کی املاک کا احترام جیسے اخلاق قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔ ان کا ذکر تو بڑے زور شور سے کیا جاتا ہے لیکن انہیں اپنایا نہیں جاتا۔ ان کے متعلق جوش و خروش تو بہت دکھایا جاتا ہے اور بڑے پیار اور محبت سے اخلاق عالیہ کا ذکر تو کیا جاتا ہے لیکن صرف خیال کی حد تک۔
چوری، ڈاکہ، قتل، بچوں سے بدسلوکی، اغوا، زنا، بدکاری، عصمت فروشی اور دھوکہ دہی جیسے جرائم کی وہی لوگ پولیس میں رپورٹ درج کرواتے ہیں جو ان کا شکار ہوتے ہیں اور جن کے ساتھ یہ سانحہ گزرا ہوتا ہے۔ باقی لوگ اسی گندے ماحول میں رہ کر ہی اس غلیظ زندگی سے صلح کر لیتے ہیں۔ مزید برآں امن و سلامتی کے نام نہاد محافظ ہی دن دہاڑے اجتماعی زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ رشوت، بددیانتی اور کھلے بندوں دیدہ دلیری سے قانون شکنی کی جسارت ان اعلیٰ عدالتوں کے ان منصفین کا شیوہ ہے جو انصاف کے محافظ سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے معاشرہ میں یہی سلامتی کے رکھوالے لوگوں کے ناحق قتل اور شر کی اشاعت کے ذمہ دار ہیں جس کی وجہ سے فتنہ و فساد روزمرہ کا دستور بن جاتے ہیں۔ تا ہم یہ عجیب بات ہے کہ ابھی تک یہ معاشرہ اچھے اور برے کی تمیز سے عاری نہیں ہوا۔ معاشرہ جس برائی کو جنم دیتا ہے اسی سے نفرت بھی کرتا ہے۔ جن خوفناک جرائم کا مرتکب ہوتا ہے انہی سے کراہت بھی محسوس کرتا ہے۔ اپنی ہی پھیلائی ہوئی گندگی سے گھن بھی کھاتا ہے۔ اپنی ہی پیداکردہ برائیوں کی جگہ جگہ اور ہمہ وقت مذمت بھی کی جاتی ہے۔ ان برائیوں پر اس زورشور اور تکرار سے تنقید اور لعنت ملامت کی جاتی ہے کہ اس کی بازگشت اقتدار کے اونچے ایوانوں سے لے کر غریب کی کٹیاتک سنائی دیتی ہے۔ حیرت ہے کہ اس کے باوجود روز مرہ کی زندگی میں معاشرہ کے ہر طبقہ میں اور ہر سطح پر ان برائیوں کو بلا تردداختیار بھی کیا جاتا ہے۔ ان کا عمل ان کے قول سے متصادم ہوتاہے۔ اس جھوٹ کے ساتھ وہ زندہ رہتے ہیں اور اس موت کا مزہ وہ روز چکھتے ہیں جسے وہ زندگی کا نام دیتے ہیں۔ کہاں ہیں اسلامی اقدار کے پاسدار اور کہاں ہیں تہذیب کے علمبردار؟ کیا اِن میںسے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو ان تلخ حقائق کو دیکھ کر اپنے آرام اور سکون کا ایک لمحہ بھی قربان کر سکے؟ آخر ان کے نزدیک اس صورتِحال کی اہمیت ہی کیا ہے، اور اگر ہو بھی تو ملاّں کی بلا سے! ایسے معاشرہ میں اس سے کیا فرق پڑ سکتا ہے جسے یہ یقین دلادیا گیاہو کہ خدائی تقدیر بالآخر ضرور ظاہر ہو گی اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اپنی آسمانی قرار گاہ سے زمین پر نازل ہو کر مسلمانوں کو حکومت و اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچا دیں گے اور مسلمان ہی اس وقت سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے۔ اس طرح ملاّں مسلم عوام کو اس وقت تک لوریاں دے کر سلاتے رہیں گے جب تک مغرب کی عیسائی دنیا کا خدا ان سے منہ موڑ کر پوری شان سے مشرق کے مسلمانوں کا آقا بن کر جلوہ گر نہ ہو جائے۔ ملاّں کو کیا پڑی ہے کہ اپنے مریدوں کے ریوڑ کے اخلاقی دیوالیہ پن کی فکر کرے، ان کی اصلاح کی کوشش کرے اور ان کی بیمار اور مایوس اخلاقی حالت کے علاج کی بے سود کوشش کرتا پھرے۔ بس صبر اور انتظار ہی اس کا واحد علاج ہے۔ پس اس گھڑی کا انتظار کرتے رہو۔ اور اگر بغرض محال یہ تقدیر پوری ہو جائے تو وہ لمحہ کتنا خوف ناک ہو گا ! خدا کی پناہ اس سے بڑھ کر اور کیا بدبختی ہو سکتی ہے کہ مخلوق خدا ملّاں کے زیر تسلط آجائے۔ کیا حضرت عیسیٰ نعوذ باللہ اتنا گر سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ اور کیا وہ ایسے صریح جرم میں کبھی شریک ہو سکتے ہیں؟ نہیں۔ ہرگز نہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام ہوں یا خدا کا کوئی اور نبی، وہ کبھی اس حد تک نہیں گر سکتا کہ ایسے بدکردار لوگوں کی حمایت میں بھی کھڑا ہو جائے۔ یہ کام تو اقتدار کے بھوکے اور لوگوں کے سفلی جذبات سے کھیلنے والے ان سیاستدانوں کو ہی زیب دیتا ہے جنہیں درندہ صفت انسان تو کیا، درندوں کا حاکم بننے میں بھی تامّل نہیں ہواکرتا۔ ایسے شخص کو خواہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مدد حاصل ہو یا نہ ہو، اپنے نا پاک عزائم کی تکمیل کے لئے وہ اپنے زعم میںمقدس نبیوں کے کندھوں پر سوار ہو کر بھی اپنا مطلب نکالنے سے نہیں ہچکچاتا۔
ملاّں کے خواب تو پاگلوں کی حرکات سے بھی زیادہ احمقانہ ہوتے ہیں لیکن کیا یہ خواب کبھی شرمندہ ٔ تعبیرہو سکتے ہیں۔ ایسے خواب کبھی بھی تاریکی کو روشنی میں تبدیل نہیں کر سکتے اور نہ ہی کبھی ان سے کوئی نیا دن طلوع ہو سکتا ہے۔ یہ نئی سحر ہی ہے جو اس قسم کے خوابوں کا تاروپود بکھیر دیا کرتی ہے۔ ملاّں کو ہمیشہ کیلئے سونے دیں اور اسے اپنے ذہن کے نہاں خانوں میں اقتدار کی لا محدود خواہشیں اور اس کے فریب اور وہم سے بہلنے دیں۔مگر کا ش! مسلمان بیدار ہو جائیں اور ملّاں کو یونہی قیامت تک خوابِ خرگوش کے مزے لینے دیں۔ اور ملاّں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی گہری نیند میں ڈوبا رہے اور خدا کے لئے آنحضرتﷺ کی امّت کو تنہا چھوڑ دے تا اسے پھر سے دن کی روشنی دیکھنا نصیب ہو۔
انتخاب از کتاب : الہام، عقل، علم اور سچائی
انتخاب از کتاب : الہام، عقل، علم اور سچائی
0 comments:
Post a Comment