معاندین احمدیت الفضل کی ادھوری عبارت پیش کر کے حضرت مسیح موعود ؑ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی ذات پر (نعوذ باللہ) زنا کا الزام لگاتے ہیں ۔ معترضہ عبارت مندرجہ ذیل ہے :۔
حضرت مسیح موعودؑ ولی اللہ تھے۔اور ولی االلہ بھی کبھی کبھی زنا کرلیا کرتے ہیں۔اگر انھوں نے کبھی کبھار زنا کرلیا ۔تو اس میں حرج کیا ہوا۔پھر لکھا ہے۔ہمیں حضرت مسیح موعودپر اعتراض نہیں ۔کیونکہ وہ کبھی کبھی زنا کرتے تھے۔ہمیں اعتراض موجودہ خلیفہ پر ہے۔کیونکہ وہ ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے۔
(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان مؤ رخہ31اگست1938ء)
یہ بالکل غلط اور جھوٹا اعتراض ہے ۔ مخالفین احمدیت مخالفت کی آگ میں اسقدر اندھے ہوگئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے پیاروں سے رقابت اپنا شیوہ بنا رکھا ہے۔تحریف میں تو یہودیوں سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔یہ ایسی ہی طرز کا اعتراض ہے کہ جس طرح کوئی قرآن کریم کی آیت ’’لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ‘‘(النساء :44) کا حوالہ دیکر کہدے کہ نماز نہ پڑھنے کا حکم ہے، جبکہ اس کے بعد ’’وَاَنْتُمْ سُکٰرٰ ی ‘‘(جب تم پر مدہوشی کی کیفیت ہو)کے الفاظنہ پڑھے۔
الفضل کا نا مکمل حوالہ دے کر یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ نعوذ باللہ جماعت احمدیہ خود اس بات کو تسلیم کرتی ہے۔حالانکہ یہ تحریف اور افتراء کی وہ صورت ہے کہ جس سے نہ صرف حضر ت اقدس مسیح موعودؑ اورحضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ بلکہ خدا کے اولیاء اور نبیوں کی بھی ہتک کی جارہی ہےکہ وہ کبھی کبھار زنا کیا کرتے تھے۔یہ وہی روش ہے جو آنحضرت ﷺ پر اعتراض کرنے والے غیر مسلم اپناتے ہیں۔
حقیقت حال یہ ہے کہ معترضہ عبارت دراصل ایک منافق کی ہے جس نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کو بہت سے گمنام خطوط لکھے جن میں اپنی منافقت کا اظہار کرتے ہوئے اعتراضات کیے۔اسی کے ایک خط کو حضرت صاحب نے اپنے ایک خطبہ میں پیش کیا ۔آپؓ نے فرما یا کہ ایک طرف یہ شخص اپنے اخلاص کا اظہار کرتا ہے تو دوسری طرف سلسلہ سے دشمنی کا اظہار حضرت مسیح موعودؑ اور آپؓ پر اس قسم کے بے ہودہ الزام لگا کر کرتا ہے۔خطبہ کے اصل الفاظ یہ ہیں:۔
اس کی سلسلہ سے محبت کا اندازہ اسی سے ہوسکتا ہے کہ ایک خط میں جس کے متعلق اس نے تسلیم کیا ہے کہ وہ اسی کا لکھا ہوا ہے۔اس پر یہ تحریر کیا ہے کہ حضرت مسیح موعودولی اللہ تھے۔اور ولی اللہ بھی کبھی کبھی زنا کرلیا کرتے ہیں۔اگر انھوں نے کبھی کبھار زنا کرلیا ۔تو اس میں حرج کیا ہوا۔پھر لکھا ہے۔ہمیں حضرت مسیح موعودپر اعتراض نہیں ۔کیونکہ وہ کبھی کبھی زنا کرتے تھے۔ہمیں اعتراض موجودہ خلیفہ پر ہے۔کیونکہ وہ ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے۔اس اعتراض سے پتہ لگتا ہے۔کہ یہ شخص پیغامی طبع ہے۔اس لئے کہ ہما را حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق اعتقاد ہے کہ آپ نبی اللہ تھے ۔مگر پیغامی اس بات کو نہیں مانتے اور وہ آپ کو صرف ولی اللہ سمجھتے ہیں۔تو جب کو ئی شخص ایک سچائی پر اعترا ض کرتا ہے اسے لازماً دوسری سچا ئیوں پر بھی اعتراض کرنا پڑتا ہے۔
(الفضل قادیان دارالامان مؤ رخہ31اگست1938ءص6)
اب جو حوالہ مولوی پیش کرتے ہیں اسی سے اس الزام کا جھوٹا ہونا بھی خودی ثابت ہوتا ہے ، اس لیے متین خالد کذاب نے کتاب ثبوت حاضر ہیں میں اس حوالہ کے کچھ حصہ کو کالی سیاہی سے چھپا دیا ہے ۔
اس اعتراض کو دہرانے مین صرف یہ دیوبندی ، وہابی اور بریلوی ہی نہیں بلکہ کالم نگار بھی شرم نہیں کرتے ، یہ جھوٹ کی لعنت ایک کالم نگار اسرار بخاری نے بھی 8 جولائی 2010 کے نوائے وقت میں اپنے سر لی ہے ۔
( نوٹ : سکین کو فل سائز میں دیکھنے کے لیے دیے گئے سکین پیج کے اوپر کلک کریں )
حضرت مسیح موعودؑ ولی اللہ تھے۔اور ولی االلہ بھی کبھی کبھی زنا کرلیا کرتے ہیں۔اگر انھوں نے کبھی کبھار زنا کرلیا ۔تو اس میں حرج کیا ہوا۔پھر لکھا ہے۔ہمیں حضرت مسیح موعودپر اعتراض نہیں ۔کیونکہ وہ کبھی کبھی زنا کرتے تھے۔ہمیں اعتراض موجودہ خلیفہ پر ہے۔کیونکہ وہ ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے۔
(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان مؤ رخہ31اگست1938ء)
یہ بالکل غلط اور جھوٹا اعتراض ہے ۔ مخالفین احمدیت مخالفت کی آگ میں اسقدر اندھے ہوگئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے پیاروں سے رقابت اپنا شیوہ بنا رکھا ہے۔تحریف میں تو یہودیوں سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔یہ ایسی ہی طرز کا اعتراض ہے کہ جس طرح کوئی قرآن کریم کی آیت ’’لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ‘‘(النساء :44) کا حوالہ دیکر کہدے کہ نماز نہ پڑھنے کا حکم ہے، جبکہ اس کے بعد ’’وَاَنْتُمْ سُکٰرٰ ی ‘‘(جب تم پر مدہوشی کی کیفیت ہو)کے الفاظنہ پڑھے۔
الفضل کا نا مکمل حوالہ دے کر یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ نعوذ باللہ جماعت احمدیہ خود اس بات کو تسلیم کرتی ہے۔حالانکہ یہ تحریف اور افتراء کی وہ صورت ہے کہ جس سے نہ صرف حضر ت اقدس مسیح موعودؑ اورحضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ بلکہ خدا کے اولیاء اور نبیوں کی بھی ہتک کی جارہی ہےکہ وہ کبھی کبھار زنا کیا کرتے تھے۔یہ وہی روش ہے جو آنحضرت ﷺ پر اعتراض کرنے والے غیر مسلم اپناتے ہیں۔
حقیقت حال یہ ہے کہ معترضہ عبارت دراصل ایک منافق کی ہے جس نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کو بہت سے گمنام خطوط لکھے جن میں اپنی منافقت کا اظہار کرتے ہوئے اعتراضات کیے۔اسی کے ایک خط کو حضرت صاحب نے اپنے ایک خطبہ میں پیش کیا ۔آپؓ نے فرما یا کہ ایک طرف یہ شخص اپنے اخلاص کا اظہار کرتا ہے تو دوسری طرف سلسلہ سے دشمنی کا اظہار حضرت مسیح موعودؑ اور آپؓ پر اس قسم کے بے ہودہ الزام لگا کر کرتا ہے۔خطبہ کے اصل الفاظ یہ ہیں:۔
اس کی سلسلہ سے محبت کا اندازہ اسی سے ہوسکتا ہے کہ ایک خط میں جس کے متعلق اس نے تسلیم کیا ہے کہ وہ اسی کا لکھا ہوا ہے۔اس پر یہ تحریر کیا ہے کہ حضرت مسیح موعودولی اللہ تھے۔اور ولی اللہ بھی کبھی کبھی زنا کرلیا کرتے ہیں۔اگر انھوں نے کبھی کبھار زنا کرلیا ۔تو اس میں حرج کیا ہوا۔پھر لکھا ہے۔ہمیں حضرت مسیح موعودپر اعتراض نہیں ۔کیونکہ وہ کبھی کبھی زنا کرتے تھے۔ہمیں اعتراض موجودہ خلیفہ پر ہے۔کیونکہ وہ ہر وقت زنا کرتا رہتا ہے۔اس اعتراض سے پتہ لگتا ہے۔کہ یہ شخص پیغامی طبع ہے۔اس لئے کہ ہما را حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق اعتقاد ہے کہ آپ نبی اللہ تھے ۔مگر پیغامی اس بات کو نہیں مانتے اور وہ آپ کو صرف ولی اللہ سمجھتے ہیں۔تو جب کو ئی شخص ایک سچائی پر اعترا ض کرتا ہے اسے لازماً دوسری سچا ئیوں پر بھی اعتراض کرنا پڑتا ہے۔
(الفضل قادیان دارالامان مؤ رخہ31اگست1938ءص6)
اب جو حوالہ مولوی پیش کرتے ہیں اسی سے اس الزام کا جھوٹا ہونا بھی خودی ثابت ہوتا ہے ، اس لیے متین خالد کذاب نے کتاب ثبوت حاضر ہیں میں اس حوالہ کے کچھ حصہ کو کالی سیاہی سے چھپا دیا ہے ۔
اس اعتراض کو دہرانے مین صرف یہ دیوبندی ، وہابی اور بریلوی ہی نہیں بلکہ کالم نگار بھی شرم نہیں کرتے ، یہ جھوٹ کی لعنت ایک کالم نگار اسرار بخاری نے بھی 8 جولائی 2010 کے نوائے وقت میں اپنے سر لی ہے ۔
( نوٹ : سکین کو فل سائز میں دیکھنے کے لیے دیے گئے سکین پیج کے اوپر کلک کریں )
0 comments:
Post a Comment