Wednesday, 29 April 2015

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ زندگی

قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے ماموروں کی جو سچی تاریخ پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے ماموروں کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل دعویٰ سے پہلے ان کی پاک زندگی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں شرک اور دوسری بدیوں سے محفوظ رکھتا ہے اور وہ قوم کے اندر ایک نہایت اعلیٰ اخلاق سے بھر پور زندگی گزارتے ہیں ۔ اورقوم ان کے پاک کردار کی گواہی دینے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔
دعویٰ کے بعد دشمن ان پر ہر طرح کے الزام لگاتا اور گند اچھالتا ہے مگر دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر کسی طرح بھی انگلی نہیں اٹھاسکتا ۔ پس دعویٰ کے بعد کے اعتراضات قابل توجہ نہیں کیونکہ وہ دشمنی کی نظر سے کئے جاتے ہیں ۔ بلکہ وہ پاک کردار لائق توجہ ہے جب وہ ایک عام فرد کی حیثیت سے زندگی گزار رہا ہوتا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمدقادیانی نے اس زمانہ میں خدا کے مامور ہونے کا دعویٰ کیا اور فرمایا کہ میں وہی موعود ہوں جس کا امت محمدیہ ﷺ چودہ سو سال سے انتظار کر رہی ہے ۔ آپ نے اپنی صداقت کے دلائل میں اپنی دعویٰ سے پہلے کی پاک زندگی کو بھی پیش فرمایا ہے ۔ آپ نے اپنے مخالفین کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا ۔

چیلنج

’تم کوئی عیب افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے ۔ تا تم خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا ۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کرسکتا ہے ۔ پس یہ خدا کا فضل ہے جو اس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے ۔ ‘ (تذکرۃ الشہادتین ، صفحہ ۶۲)
پھر فرمایا ۔
’ میری ایک عمر گزر گئی ہے مگر کون ثابت کرسکتا ہے کہ کبھی میرے منہ سے جھوٹ نکلا ہے ۔ پھر جب میں نے محض للہ انسانوں پر جھوٹ بولنا متروک رکھا اور بارہا اپنی جان اور مال کو صدق پر قربان کیا تو پھر میں خدا تعالیٰ پر کیوں جھوٹ بولتا ۔‘ (حیات احمد جلد اول ، صفحہ ۱۲۶)
اس چیلنج پر ایک سو سال ہونے کو آئے ہیں ۔ مگر کسی کو اس کا جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ دعویٰ کے بعد تو مخالفین ہر طرح کے الزام لگایا ہی کرتے ہیں ۔ مگر دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر نہ صرف کوئی انگلی نہیں اٹھاسکا بلکہ بیسیوں لوگوں نے آپ کی پاکیزگی کی گواہی دی جنہوں نے آپ کو دیکھا اور جن کا آپ سے واسطہ پڑا ۔

مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی

مشہور اہل حدیث عالم مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی نے دعویٰ کے بعد آپ کی شدید مخالفت کی ۔ مگر اس سے پہلے انہوں نے آپ کی کتاب براہین احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ۔
’موء لف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے (واللہ حسیبہ) شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار اور صداقت شعار ہیں ۔ ‘ (اشاعۃ السنۃ جلد ۷ ، صفحہ ۹)

مولانا ابوالکلام آزاد صاحب

ہندوستان کے مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور صحافی ابوالکلام آزاد گواہی دیتے ہیں ۔
’کیریکٹر کے لحاظ سے مرزا صاحب کے دامن پر سیاہی کا چھوٹے سے چھوٹا دھبہ بھی نظر نہیں آتا ۔ وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی ۔ غرضیکہ مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی کے پچاس سالوں نے بلحاظ اخلاق و عادات اور کیا بلحاظ خدمات و حمایت دین مسلمانان ہند میں ان کو ممتاز ، برگزیدہ اور قابل رشک مرتبہ پر پہنچا دیا ۔‘ (اخبار وکیل امرتسر ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء)

منشی سراج الدین صاحب

مشہور مسلم لیڈر اور صحافی اور شاعر مولانا ظفر علی خان صاحب کے والد بزرگوار منشی سراج الدین صاحب ایڈیٹر اخبار زمیندار گواہی دیتے ہیں ۔
’ ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے ۔۔۔ آپ بناوٹ اور افتراء سے بری تھے ۔‘ (اخبار زمیندار مئی ۱۹۰۸ء)

سیالکوٹ کے عوام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ سے پہلے عین جوانی کا کچھ عرصہ سیالکوٹ میں گزارا ۔ اور آپ کے تمام ملنے جلنے والے آپ کے تقویٰ اور نیکی کے دل سے قائل تھے ۔ جن لوگوں کے پاس آپ نے قیام فرمایا وہ آپ کو ولی اللہ قرار دیتے تھے ۔ (بحوالہ الفضل ۸ اکتوبر ، ۱۹۲۵ء)

سید میر حسن صاحب

ہندوستان میں علوم شرقیہ کے بلند پایہ عالم اور علامہ اقبال کے استاد مولوی سید میر حسن صاحب نے آپ کو اسی دور میں ۲۸ سال کی عمرمیں دیکھا اور بعد میں یوں گواہی دی ۔ آپ عزلت پسند اور پارسا اور فضول و لغو سے مجتنب اور محترز تھے ۔ ادنیٰ تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہوجاتا تھا کہ حضرت اپنے ہر قول و فعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں ۔ (سیرۃ المہدی ، جلد اول ، صفحہ ۱۵۴، ۲۷۰)

حکیم مظہر حسین صاحب

سیالکوٹ کے حکیم مظہر حسین صاحب جو بعد میں آپ کے شدید مخالف بنے انہوں نے آپ کے متعلق لکھا ۔
’ثقہ صورت ، عالی حوصلہ اور بلند خیالات کا انسان ‘ (اخبار الحکم ، ۷ اپریل ۱۹۳۴ء)

قادیان کا ہندو

آپ کے حق میں گواہی دینے والوں میں آپ کے گاؤں قادیان کا وہ ہندو بھی شامل ہے جس نے بچپن سے آخر تک آپ کو دیکھا ۔ وہ کہتا ہے ۔ ’ میں نے بچپن سے مرزا غلام احمد کو دیکھا ہے میں اور وہ ہم عصر ہیں ۔ اور قادیان میرا آنا جانا ہمیشہ رہتا ہے اور اب بھی دیکھتا ہوں جیسی عمدہ عادات اب ہیں ایسی ہی نیک خصلتیں اور عادات پہلے تھیں ۔ سچا امانت دار اور نیک ، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پرمیشور مرزا صاحب کی شکل اختیار کرکے زمین پر اتر آیا ہے ۔‘ (تذکرہ المہدی ، جلد ۲ صفحہ ۳۴)

مولوی غلام رسول صاحب

اس دور کے ایک بزرگ مولوی غلام رسول صاحب نے بچپن میں آپ کی پاکیزہ فطرت کو دیکھ کر فرمایا ۔ ’ اگر اس زمانے میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے ۔‘ (رجسٹر روایات ، نمبر ۱۲ ، صفحہ ۱۰۴)

وکیل کی گواہی

جوانی میں آپ کی راستبازی اور سچ گوئی کا شہرہ تھا ۔ آپ نے کئی خاندانی مقدمات میں اپنے خاندان کے خلاف گواہی دی اور ان کی ناراضگی مول لی مگر سچ کا دامن نہ چھوڑا ۔ دعویٰ سے پہلے ایک عیسائی نے آپ کے خلاف مقدمہ کیا جس میں آپ کے وکیل کے مطابق جھوٹ بولے بغیر نجات نہ تھی ۔ مگر آپ نے جھوٹ بولنے سے انکار کردیا ۔ اور خدا نے آپ کو فتح دی ۔ اس مقدمہ میں آپ کے وکیل فضل الدین صاحب آپ کی اس فوق العادت راست گفتاری کے گواہ تھے ۔ وہ کہتے ہیں ۔
’مرزا صاحب کی عظیم الشان شخصیت اور اخلاقی کمال کا میں قائل ہوں ۔۔۔۔ میں انہیں کامل راستباز یقین کرتا ہوں ۔ ‘ (الحکم ۱۴ نومبر ۱۹۳۴ء)

محمدشریف صاحب بنگلوری

نامور صحافی جناب مولانا شریف بنگلوری ایڈیٹر منشور محمدی نے آپ کے متعلق یہ کلمات استعمال فرمائے ۔
افضل العلماء فاضل جلیل جرنیل فخر اہل اسلام ہند مقبول بارگہ صمد جناب مولوی مرزا غلام احمد صاحب ۔ (منشور محمدی بنگلور ، ۲۵ رجب ۱۳۰۰ھ)

حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی

مشہور باکمال صوفی حضرت احمد جان صاحب لدھیانوی نے آپ کے خدمت دین کے بے پایاں جذبوں کو دیکھ کر فرمایا ۔
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے
حضرت مسیح موعود و مہدی موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے پاکیزہ کردار اور اعلیٰ اخلاق کے بارہ میں جتنی گواہیاں اوپردرج کی گئی ہیں ان میں کوئی ایک بھی احمدی نہیں ہے ۔ بلکہ کئی تو حضرت مرزا صاحب کے سخت مخالف ہیں ۔ مگر خدا نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کے حق میں ان کی زبان سے یہ کلمات جاری کروائے اور حضور ہی کے الفاظ میں سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے جس کی طرف سب نظریں اٹھ رہی تھیں ۔ خدا نے اسی کو مسیحا بنادیا ۔ کہیں ہم اس کو پہچاننے سے محروم تو نہیں رہ گئے ؟ سوچو ! سوچو ! سوچو ! اور غور کرو ۔

0 comments: