مالی قربانی کی برکات و اہمیت ازقرآن کریم
اس حوالے
سے یہ یاد رہے کہ مالی قربانی کی تلقین اور مالی قربانی کے نتیجہ میں ملنے
والے فضائل وبرکات کا ذکر قرآن کریم میں بہت واضح رنگ میں موجود ہے ۔زکوۃ
کا حکم ہے ۔اس کے علاوہ مال کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے کا
ذکر بھی ملتا ہے ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَھَاجَرُواوَجَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ (الانفال :73)
وہ لوگ جو کہ
ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی ہے اور اللہ کے راستے میں اپنی جانوں اور
مالوں کے ذریعہ سے جہاد کے ذریعہ جہا د کیا ہے.
سورۃ صف میں اللہ تعالیٰ نے
ایک تجارت کے متعلق بتایا جس سے اللہ کی خوشنودی اور جنت کی بشارت دی گئی
ہے ۔
تُجَاھِدُوْنَ فِی سَبِیلِ اللّٰہ بِاَمْوَالِکُم وَاَنْفُسِکُم (الصف:12)
کہ تم اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔
آنحضرتﷺصحابہ ؓ کومالی قربانی کی تاکید فرماتے تھے
اس مالی جہادکے بارے میں سنت نبوی سے
پتا چلتا ہے کہ ضرورت کے وقف رسول کریم ؐ صحابہ کو مالی قربانی کی تحریکات
کرتے رہتے تھے ۔ جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے
۔ایک غزوہ کے موقع پر حضر ت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا
مال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے لے آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر
کا نصف مال لے آئے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اسی لیے غنی کہلائے کہ بہت
زیادہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے ۔ اسی طرح بے شمار صحابہ کی مثالیں
موجود ہیں ۔خود رسول کریم ؐ تیز آندھی کی طرح خدا کی راہ میں خرچ کیا کرتے
تھے ۔یہ سب خرچ کرنا زکوۃ کے علاوہ ہوتا تھا بلکہ رسول کریم ؐ نے تو ساری
زندگی زکوۃ نہیں دی کیونکہ زکوۃ کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری ہوتا ہے رسو ل
کریم ؐ تو سارا سال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے صاحب نصاب نہیں
بنتے تھے ۔اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ رسو ل کریم ؐ زکوۃکی فرضیت کے قائل
نہیں تھے بلکہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے دوسری صورتوں کو زیادہ اہمیت دیتے
تھے ۔ایسا خیال کرنے والایقینا راہ ہدایت سے بہت دور ہے ۔
جماعت احمدیہ میں لئے جانے والے چندہ کا مقصد
دنیا میں بھر میں جماعت احمدیہ قلمی
جہاد کر رہی ہے ۔اسلام اور قرآن کی تعلیمات کو عام کیا جارہا ہے ۔اور یہ
سارا ایک مضبوط نظام کے لیے ذریعہ ہورہا ہے۔منظم طور پر جاری یہ جہاد مال
کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔اس قلمی جہاد کے دائرے کی وسعت بہت بڑی سرمایہ کاری
کا تقاضا کرتی ہے ۔اس وجہ سے احباب جماعت احمدیہ قرآنی تعلیمات کے مطابق
خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اس جہاد میں اپنے مالوں کے ذریعہ حصہ
ڈالتے ہیں ۔یاد رہے کہ جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اسلام
کا احیائے نو اور قرآنی تعلیمات کو عام کرے اگر کوئی احمدی اپنے مال اور
اپنی جان کے ذریعہ اس جہاد میں حصہ نہیں ڈالتا تو عملاً اس بنیادسے دور جا
رہا ہے جس پر جماعت احمدیہ قائم ہے ۔اس لیے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ
احمدیت کے اصل مقصود کے حصول کے لیے جس قدر ممکن ہوسکتا ہے اپنا حصہ لازماً
ڈالے ۔وہ حصہ وصیت ،چندہ عام ،چندہ اجتماع،تحریک جدید ،وقف جدید کسی بھی
نام سے ہوسکتا ہے ۔یہ تمام چندے اپنے اپنے دائرے میں بھر پور مساعی رہے
ہوتے ہیں اس لیے ان سب میں شمولیت ہی صحیح رنگ میں قربانی کہلا سکتی ہے
۔اسی طرح ذیلی تنظیمیں بھی اپنی اپنی سطح پر کام رہی ہوتی ہیں ان میں بھی
حصہ ڈالنا چاہیے ۔
مال کے بغیر کوئی نظام نہیں چلتا اس لیے مال کی ضرورت تو رہتی ہے ۔اصل چیز اس کا استعمال ہے کہ وہ کس طرح ہورہا ہے ۔اور کیا اسے چیک کیا جارہا ہے ۔ جماعت احمدیہ کا مالی نظام بہت مضبوط اور شفاف ہوتا ہے ۔شوریٰ میں بجٹ کی منظوری ہوتی ہے اورسب احباب جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے نمائندگان شوریٰ بجٹ کی منظوری دیتے ہیں ہر جماعت میں سیکرٹری مال ہوتا ہے جو چندہ کا حصول کرتا ہے۔چندہ سید بک پر لیا جاتا۔ روزنامچہ بنتا ہے اورہر فرد جماعت کا کھاتہ بنا ہوتا ہے ۔ہر جماعت کا مقامی آڈیٹراور محاسب اس مالی نظام کو چیک کرتے رہتے ہیں ۔اسی طرح ضلع کے آڈیٹر اور محاسب مقامی جماعت کے مالی نظام کو چیک کرتے ہیں پھر مرکزکے نمائندگان اس کی جانچ پڑتال کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔باقاعدہ انسپکٹران مقرر ہیں جو ان مالی نظام کو چیک کرتے رہتے ہیں ۔جس طرح اس مال کے حصول کے لیے باقاعدہ نظام ہے اسی طرح اس مال کے خرچ کو چیک کرنے کے لیے باقاعدہ نظام بنا ہوا ہے ۔
اس قدر مضبوط نظام کی وجہ سے جماعت احمدیہ دنیا میں اتنے بڑے بڑے کام کررہی ہے کہ دیکھنے والے حیران ہوتے ہیں کہ کس طرح اتنے بڑے پروجیکٹ مکمل ہورہے ہیں ۔شفاف مالی نظام کی وجہ سے نتائج میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے ۔
پھر جہاں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے وہاں پر باقاعدہ ٹیکس ادا کیا جاتا ہے اور ملکی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اپنے ذرائع آمد اور خرچ کے اعداد وشمار جمع کروائے جاتے ہیں ۔یہ بات بھی جماعت احمدیہ کے مالی نظام کے شفاف ہونے کی علامت ہے ۔
مال کے بغیر کوئی نظام نہیں چلتا اس لیے مال کی ضرورت تو رہتی ہے ۔اصل چیز اس کا استعمال ہے کہ وہ کس طرح ہورہا ہے ۔اور کیا اسے چیک کیا جارہا ہے ۔ جماعت احمدیہ کا مالی نظام بہت مضبوط اور شفاف ہوتا ہے ۔شوریٰ میں بجٹ کی منظوری ہوتی ہے اورسب احباب جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے نمائندگان شوریٰ بجٹ کی منظوری دیتے ہیں ہر جماعت میں سیکرٹری مال ہوتا ہے جو چندہ کا حصول کرتا ہے۔چندہ سید بک پر لیا جاتا۔ روزنامچہ بنتا ہے اورہر فرد جماعت کا کھاتہ بنا ہوتا ہے ۔ہر جماعت کا مقامی آڈیٹراور محاسب اس مالی نظام کو چیک کرتے رہتے ہیں ۔اسی طرح ضلع کے آڈیٹر اور محاسب مقامی جماعت کے مالی نظام کو چیک کرتے ہیں پھر مرکزکے نمائندگان اس کی جانچ پڑتال کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔باقاعدہ انسپکٹران مقرر ہیں جو ان مالی نظام کو چیک کرتے رہتے ہیں ۔جس طرح اس مال کے حصول کے لیے باقاعدہ نظام ہے اسی طرح اس مال کے خرچ کو چیک کرنے کے لیے باقاعدہ نظام بنا ہوا ہے ۔
اس قدر مضبوط نظام کی وجہ سے جماعت احمدیہ دنیا میں اتنے بڑے بڑے کام کررہی ہے کہ دیکھنے والے حیران ہوتے ہیں کہ کس طرح اتنے بڑے پروجیکٹ مکمل ہورہے ہیں ۔شفاف مالی نظام کی وجہ سے نتائج میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے ۔
پھر جہاں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے وہاں پر باقاعدہ ٹیکس ادا کیا جاتا ہے اور ملکی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اپنے ذرائع آمد اور خرچ کے اعداد وشمار جمع کروائے جاتے ہیں ۔یہ بات بھی جماعت احمدیہ کے مالی نظام کے شفاف ہونے کی علامت ہے ۔
0 comments:
Post a Comment