اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تفسیر نویسی کا چیلنج دیا۔ جب پیر مہر علی شاہ گولڑوی مقابلہ میں آئے تو آپؑ نے گویا مقابلہ سے راہ ِ فرار اختیار کی۔
1896ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب “انجام آتھم”میں جن
سجادہ نشینوں کو دعوت ِ مباہلہ دی تھی ان میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی کا
نام بھی تھا۔کچھ عرصہ بعد پیر صاحب میدان ِ مخالفت میں آگئے اور جنوری
1900ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اردو میں “شمس الھدایۃ فی
اثبات حیات المسیح “نامی کتاب شائع کی جو درحقیقت ان کے ایک مرید مولوی
محمد غازی کی تالیف کردہ تھی ۔
حضرت مسیح موعودؑ نے 20جولائی 1900کو پیر مہر علی شاہ گولڑوی صا حب کو
حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لئےتفسیر نویسی میں علمی مقابلہ کرنے کے لئے
دعوت دی کہ لاہور میں ایک جلسہ کرکے اور قرعہ اندازی کے ذریعہ قرآن شریف
کی کو ئی سورۃ نکال کر دعا کرکے چا لیس آیات کے حقا ئق اور معارف فصیح اور
بلیغ عربی زبان میں فریقین عین اسی جلسہ میں سات گھنٹے کے اندر لکھ کر تین
اہل علم کے سپرد کریں جن کا اہتمام اور انتخاب پیر صا حب کے ذمہ ہوگا۔
حضرت مسیح موعودؑ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہو ئے فرما تے ہیں:۔
“لاہور میں جو ایک قابل شرم کارروائی پیر مہر علی شاہ صاحب سے ہوئی وہ
یہ تھی کہ انہوں نے بذریعہ ایک پُرفریب حیلہ جوئی کے اُس مقابلہ سے انکار
کر دیا جس کو وہ پہلے منظور کر چکے تھے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب میری طرف
سے متواتر دنیا میں اشتہارات شائع ہوئے کہ خدا تعالیٰ کے تائیدی نشانوں میں
سے ایک یہ نشان بھی مجھے دیا گیا ہے کہ مَیں فصیح بلیغ عربی میں قرآن شریف
کی کسی سُورة کی تفسیر لکھ سکتا ہوں اور مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم
دیا گیا ہے کہ میرے بالمقابل اور بالمواجہ بیٹھ کر کوئی دُوسرا شخص خواہ وہ
مولوی ہو یا کوئی فقیر گدی نشین ایسی تفسیر ہرگز لکھ نہیں سکے گا اور اس
مقابلہ کے لئے پیر جی موصوف کو بھی بُلایا گیا تا وہ اگر حق پر ہیں تو ایسی
تفسیر بالمقابل بیٹھ کر لکھنے سے اپنی کرامت دِکھلاویں یا ہمارے دعویٰ کو
قبول کریں۔ تو اوّل تو پِیر جی نے دُور بیٹھے یہ لاف مار دی کہ اِس نشان کا
مقابلہ مَیں کر وں گا۔ لیکن بعد اس کے اُن کو میری نسبت بکثرت روائتیں
پہنچ گئیں کہ اس شخص کی قلم عربی نویسی میں دریاکی طرح چل رہی ہے اور پنجاب
و ہندوستان کے تمام مولوی ڈر کر مقابلہ سے کنارہ کش ہو گئے ہیں تب اُس وقت
پیرجی کو سُوجھی کہ ہم بے موقعہ پھنس گئے۔ آخر حسب مثل مشہور کہ مرتاکیا
نہ کرتا انکار کے لئے
یہ منصوبہ تراشا کہ ایک اشتہار شائع کر دیا کہ ہم بالمقابل بیٹھ کر تفسیر
لکھنے کے لئے تیار تو ہیں مگر ہماری طرف سے یہ شرط ضروری ہے کہ تفسیر لکھنے
سے پہلے عقائد میں بحث ہو جائے کہ کس کے عقائد صحیح اور مسلّم اور مدلّل
ہیں اور مولوی محمد حسین بٹالوی کہ جو نزول مسیح میں انہیں کے ہم عقیدہ ہیں
اس تصفیہ کے لئے منصف مقرر کئے جائیں پھر اگر مولوی صاحب
موصوف یہ کہہ دیں کہ پیر جی کے عقائد صحیح اور مسیح ابن مریم کے متعلق جو
کچھ انہوں نے سمجھا ہے وُہی ٹھیک ہے تو فی الفور اُسی جلسہ میں یہ راقم ان
کی بیعت کرے اور اُن کے خادموں اور مُریدوں میں داخل ہو جائے اور پھر تفسیر
نویسی میں بھی مقابلہ کیا جائے۔ یہ اشتہار ایسا نہ تھا کہ اُس کا مکر اور
فریب لوگوں پر کُھل نہ سکے آخر عقلمند لوگوں نے تاڑ لیا کہ اس شخص نے ایک
قابلِ شرم منصوبہ کے ذریعہ سے انکار کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے
بعد بہت سے لوگوں نے میری بیعت کی اور خود اُن کے بعض مُرید بھی اُن سے
بیزار ہو کر بیعت میں داخل ہوئے۔ یہاں تک کہ ستّر ہزار کے قریب بیعت کرنے
والوں کی تعداد پہنچ گئی اور مولویوں اور پیرزادوں اور گدی نشینوں کی حقیقت
لوگوں پر کُھل گئی کہ وہ ایسی کارروائیوں سے حق کو ٹالنا چاہتے ہیں۔ منہ”
(نزول المسیح ۔روحانی خزائن جلد18حاشیہ ص431تا432)
ایک دوسرے موقع پر آپؑ فرماتے ہیں:۔
“چونکہ میں اپنی کتاب انجام آتھم کے آخیر میں وعدہ کر چکا ہوں کہ آئندہ
کسی مولوی وغیرہ کے ساتھ زبانی بحث نہیں کرونگا اس لئے پیر مہر علی شاہ
صاحب کی درخواست زبانی بحث کی جو میرے پاس پہنچی میں کسی طرح اس کو منظور
نہیں کر سکتا افسوس کہ انہوں نے محض دھوکا دہی کے طور پر باوجود اس علم کے
کہ میں ایسی زبانی بحثوں سے برکنار رہنے کے لئے جن کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا
خدا تعالیٰ کے سامنے وعدہ کر چکا ہوں کہ میں ایسے مباحثات سے دور رہونگا
پھر بھی مجھ سے بحث کرنے کی درخواست کردی ۔ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ ان
کی درخواست محض اس ندامت سے بچنے کے لئے ہے کہ وہ اس اعجازی مقابلہ کے وقت
جو عربی میں تفسیر لکھنے کا مقابلہ تھا اپنی نسبت یقین رکھتے تھے۔ گویا
عوام کے خیالات کو اور طرف الٹا کر سُرخرو ہو گئے اور پردہ بنا رہا۔
ہر ایک دل خدا کے سامنے ہے اور ہر ایک
سینہ اپنے گناہ کو محسوس کر لیتا ہے۔ لیکن میں حق کی حمایت کی وجہ سے ہر گز
نہیں چاہتا کہ یہ جھوٹی سُرخروی بھی اُن کے پاس رہ سکے اس لئے مجھے خیال
آیا کہ عوام جن میں سوچ کا مادہ طبعًا کم ہوتا ہے وہ اگرچہ یہ بات تو سمجھ
لیں گے کہ پیر صاحب عربی فصیح میں تفسیر لکھنے پر قادر نہیں تھے اسی وجہ سے
توٹال دیا لیکن ساتھ ہی انکو یہ خیال بھی گذریگا کہ منقولی مباحثات پر
ضرور وہ قادر ہونگے تبھی تو درخواست پیش کر دی۔ اور اپنے دلوں میں گمان
کریں گے کہ اُن کے پاس حضرت مسیح کی حیات اور میرے دلائل کے رد میں کچھ
دلائل ہیں اور یہ تو معلوم نہیں ہوگا کہ یہ زبانی مباحثہ کی جرأت بھی میرے
ہی اس عہد ترک بحث نے اُن کو دلائی ہے جو انجام آتھم میں طبع ہو کر لاکھوں
انسانوں میں مشتہر ہو چکا ہے۔ لہذا میں یہ رسالہ لکھ کر اس وقت اقرار صحیح
شرعی کرتا ہوں کہ اگر وہ اس کے مقابل پر کوئی رسالہ لکھ کر میرے ان تمام
دلائل کو اول سے آخر تک توڑ دیں۔ اور پھر مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب
بٹالوی ایک مجمع بٹالہ میں مقرر کرکے ہم دونوں کی حاضری میں میرے تمام
دلائل ایک ایک کرکے حاضرین کے سامنے ذکر کریں اور پھر ہر ایک دلیل کے مقابل
پر جس کو دہ بغیر کسی کمی بیشی اور تصرف کے حاضرین کو سُنا دیں گے۔ پیر
صاحب کے جوابات سُنا دیں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہیں کہ یہ جوابات
صحیح ہیں اور دلیل پیش کردہ کی قلع قمع کرتے ہیں تو میں مبلغ پچاس روپیہ
انعام بطور فتحیابی پیر صاحب کو اسی مجلس میں دے دونگا۔اگر پیر صا حب تحر
یر فر ما ئیں تو میں یہ مبلغ روپیہ پہلے سے مولو ی محمد حسین صا حب کے پا س
جمع کر ا دوں گا مگر یہ پیر صاحب کا ذمہ ہوگا کہ وہ مولوی محمد حسین صاحب
کو ہدایت کریں کہ تا وہ مبلغ پچاس روپیہ اپنے پاس بطور امانت جمع کرکے
باضابطہ رسید دیدیں اور مندرجہ بالا طریق کی پابندی سے قسم کھا کران کو
اختیار ہوگا کہ وہ بغیر میرے اجازت کے پچاس روپیہ پیر صاحب کے حوالہ کر
دیں۔ قسم کھانے کے بعد میری شکایت اُن پر کوئی نہیں ہوگی۔ صرف خدا پر نظر
ہوگی جس کی وہ قسم کھائیں گے۔ پیر صاحب کا یہ اختیار نہیں ہوگا کہ یہ فضول
عذرات پیش کریں کہ میں نے پہلے سے ردّ کرنے کے لئے کتاب لکھی ہے۔ کیونکہ
اگر انعامی رسالہ کا انہوں نے جواب نہ دیا تو بلا شبہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ
وہ سیدھے طریق سے مباحثات پر بھی قادر نہیں۔
(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17ص36)
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے ایک اشتہار 15دسمبر 1900 میں بالقاء ربانی تفسیر لکھنے کی ایک اور تجویز پیش کی اور فرما یا:۔
“افسوس کہ علمی نشان کے مقابلہ میں نادان لوگوں نے پیر مہر علی شاہ
گولڑوی کی نسبت ناحق جھوٹی فتح کا نقارہ بجا دیا اور مجھے گندی گالیاں دیں
اور مجھے اس کے مقابلہ پر جاہل اور نادان قرار دیا۔ گویا مَیں اس نابغہ وقت
اور سحبان زمان(معنی, فصیح و بلیغ لوگ.ناقل) کے رعب کے نیچے آکر
ڈر گیا ورنہ وہ حضرت تو سچے دل سے بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لئے طیّار
ہو گئے تھے اور اسی نیت سے لاہور تشریف لائے تھے۔ پر مَیں آپ کی جلالتِ شان
اور علمی شوکت کو دیکھ کر بھاگ گیا اے آسمان جھوٹوں پر لعنت کر آمین۔
پیارے ناظرین کاذب کے رسوا کرنے کے لئے اسی وقت جو ۷/دسمبر۱۹۰۰ءء روز جمعہ
ہے خدا نے میرے دل میں ایک بات ڈالی ہے اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر
کہتا ہوں جس کا جہنم جھوٹوں کے لئے بھڑک رہا ہے کہ مَیں نے سخت تکذیب کو
دیکھ کر خود اس فوق العادت مقابلہ کے لئے درخواست کی تھی۔ اور
اگر پیر مہر علی شاہ صاحب مباحثہ منقولی اور اس کے ساتھ بیعت کی شرط پیش
نہ کرتے جس سے میرا مدعا بکلّی کالعدم ہو گیا تھا تو اگر لاہور اور قادیاں
میں برف کے پہاڑ بھی ہوتے اور جاڑے کے دن ہوتے تو مَیں تب بھی لاہور پہنچتا
اور ان کو دکھلاتا کہ آسمانی نشان اس کو کہتے ہیں۔ مگر
انہوں نے مباحثہ منقولی اور پھر بیعت کی شرط لگا کر اپنی جان بچائی اور اس
گندے مکر کے پیش کرنے سے اپنی عزت کی پرواہ نہ کی۔ لیکن اگر پیرجی صاحب
حقیقت میں فصیح عربی تفسیر پر قادر ہیں اور کوئی فریب انہوں نے نہیں کیا تو
اب بھی وہی قدرت اُن میں ضرور موجود ہوگی۔ لہٰذا مَیں اُن کو خدا تعالیٰ
کی قسم دیتا ہوں کہ اسی میری درخواست کو اس رنگ پر پورا کر دیں کہ میرے
دعاوی کی تکذیب کے متعلق فصیح بلیغ عربی میں سورة فاتحہ کی ایک تفسیر لکھیں
جو چار ۴ جز سے کم نہ ہو اور مَیں اسی سورة کی تفسیر بفضل اللہ وقوتہ اپنے
دعویٰ کے اثبات کے متعلق فصیح بلیغ عربی میں لکھوں گا۔ انہیں اجازت ہے کہ
وہ اس تفسیرمیں تمام دنیا کے علماء سے مدد لے لیں۔ عرب کے بلغاء فصحاء
بلالیں۔ لاہور اور دیگر بلاد کے عربی دان پروفیسروں کو بھی مدد کے لئے طلب
کر لیں۔ 15دسمبر1900 سے ستر70 دن تک اس کام کے لئے ہم دونوں کو مہلت ہے ایک دن بھی زیادہ نہیں ہوگا۔
اگر بالمقابل تفسیر لکھنے کے بعد عرب کے تین نامی ادیب ان کی تفسیر کو
جامع لوازم بلاغت و فصاحت قرار دیں اور معارف سے پُر خیال کریں تو مَیں
پانسو رو 500رو پیہ نقد ان کو دوں گا۔ اور تمام اپنی کتابیں جلا دوں گا اور
ان کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا۔ اور اگر قضیہ برعکس نکلا یا اس مدت تک یعنی
ستر۷۰ روز تک وہ کچھ بھی لکھ نہ سکے تو مجھے ایسے لوگوں سے بیعت لینے کی
بھی ضرورت نہیں اور نہ روپیہ کی خواہش صرف یہی دکھلاؤں گا کہ کیسے انہوں نے
پیر کہلاکر قابل شرم جھوٹ بولا اور کیسے سراسر ظلم اور سفلہ پن اور خیانت
سے بعض اخبار والوں نے ان کی اپنی اخباروں میں حمایت کی۔ مَیں اس کام کو
انشاء اللہ تحفہ گولڑویہ کی تکمیل کے بعد شروع کر دوں گااور جو شخص ہم میں
سے صادق ہے وہ ہر گز شرمندہ نہیں ہوگا۔ اب وقت ہے کہ اخباروں والے جنہوں نے
بغیر دیکھے بھالے کے ان کی حمایت کی تھی ان کواس کام کیلئے اٹھاویں۔ ستر70
دن میں یہ بات داخل ہے کہ فریقین کی کتابیں چھپ کر شائع ہو جائیں۔ منہ
(اربعین روحانی خزائن جلد 17 ص 448تا450)
اس اعلان کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی خاص تا ئید سے حضرت
اقدس مسیح موعودؑ نے مدت معینہ کے اندر23فروری1901 کو اعجاز المسیح کے نام
سے فصیح و بلیغ عربی زبان میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر شا ئع کردی اور اس تفسیر
کے لکھنے کی غرض یہ بیان فرما ئی کہ تا پیر مہر علی شاہ صا حب کا جھوٹ
ظاہر ہو کہ وہ قرآن کا علم رکھتا ہے۔لیکن پیر صا حب کو گھر بیٹھ کر بھی
بالمقابل تفسیر لکھنے کی جر أت نہ ہو ئی۔
1 comments:
jazak-allah
Post a Comment