Thursday 15 January 2015

کیا حیاتِ مسیؑح پرامّتِ مسلمہ کا اجماع ہے؟

کیا حیاتِ مسیؑح پرامّتِ مسلمہ کا اجماع ہے؟

انصر رضا ۔ مربی و مبلغ احمدیہ مسلم جماعت وان، کینیڈا

غیراحمدی علماء کی طرف سے عوام الناس کو یہ تأثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پچھلی چودہ صدیوں میں تمام امت مسلمہ متفقہ طور پر یہ مانتی آئی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے جسم سمیت زندہ آسمان پر اٹھالئے گئے تھے، ابھی تک اسی جسم سمیت وہاں زندہ موجود ہیں ، اور قرب قیامت میں اسی جسم اور زندگی کے ساتھ زمین پر اتریں گے اور یہ کہ احمدیہ مسلم جماعت نے وفاتِ مسیؑح کا عقیدہ پیش کرکے اس متفقہ عقیدہ کی مخالفت کی ہے اور گویا ایک نیا عقیدہ پیش کیا ہے۔احمدیہ مسلم جماعت کی طرف سے قرآن و سنّت سے حیاتِ مسیؑح کی تردید میں دلائل کے ساتھ ساتھ بزرگانِ امّت کے بھی ایسے حوالہ جات پیش کئے جاتے رہے ہیں جن میں وفاتِ مسیؑح کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں قدیم و جدید علماء کے ایسے چند مزید حوالہ جات پیش کئے جارہے ہیں جن میں صراحتًا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا فوت شدہ ہونا بیان کیا گیا ہے۔

اگر موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ زندہ ہوتے:
’’لو کان عیسیٰ حیا ما وسعہ الاتباعی‘‘ (الفقہ الاکبر از امام ابو حنیفہ ۔ صفحہ۔۱۰۱۔ناشر دار الکتب العربیۃ الکبریٰ(
اگر عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا چارہ نہ ہوتا۔

’’محمد ﷺ مبعوث الی جمیع الثقلین۔فرسالتہ عامۃ للجن والانس فی کل زمان۔ولو کان موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام حیین لکانا من اتباعہ۔‘‘(مدارج السالکین از علامہ ابن قیم الجوزی۔الجزء الثانی۔ صفحہ 492(
محمد ﷺ تمام عالم کی طرف مبعوث ہوئے ہیں۔پس ان کی رسالت ہر زمانے کے جن و انس کے لئے عام ہے۔ اور اگر موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام زندہ ہوتے تو وہ دونوں لازمًا ان کے پیروکاروں میں شامل ہوتے۔ 

’’لو کان موسیٰ و عیسیٰ حیین ما وسعھما الاتباعی‘‘ (الیواقیت والجواہر از علامہ عبدالوہاب الشعرانی۔الجزء الثانی صفحہ 174)
اگر موسیٰ اور عیسیٰ دونوں زندہ ہوتے تو ان دونوں کو میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔

’’ولو کان موسی و عیسی حیین لکانا من اتباعہ۔۔۔‘‘ (شرح العقیدۃ الطّحاویۃ ۔ صفحہ:511(
اور اگر موسیٰ اور عیسیٰ دونوں زندہ ہوتے تو وہ دونوں ضرور ان کے (یعنی نبی اکرم ﷺ کے) پیروکاروں میں شامل ہوتے۔

’’فاما حکایتہ لحالہ بعد ان رفع فھو مثلھا فی التوراۃ ذکر وفاۃ موسیٰ علیہ السلام۔ و معلوم ان ھذا الذی فی التوراۃ و الانجیل من الخبر عن موسیٰ و عیسیٰ بعد توفیھما۔لیس ھو مما انزلہ اللّٰہ و مما تلقوہ عن موسیٰ و عیسیٰ بل ھو مما کتبوہ مع ذلک للتعریف بحال توفیھما و ھذا خبر محض من الموجودین بعدھما عن حالھما لیس ھو مما انزلہ اللّٰہ علیھما ولا ھو مما امرا بہ فی حیاتھما ولا مما اخبرا بہ الناس‘‘ (مجموعہ الفتاویٰ از امام ابن تیمیہ ۔الجزء الثالث عشر۔کتاب مقدمۃ التفسیر۔ صفحہ:58(
پس جو ان کے رفع کے بعد کے حال کی باتیں ہیں تو وہ توراۃ میں موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے ذکر کی طرح ہیں۔ چنانچہ یہ معلوم بات ہے کہ موسیٰ اور عیسیٰ کے متعلق تورات اور انجیل میں جو خبریں ہیں وہ ان دونوں کی وفات کے بعد کی ہیں۔ان میں سے کچھ بھی نہ اللہ نے نازل کی ہیں اور نہ ہی انہیں موسیٰ و عیسیٰ سے حاصل کیا گیا ہے بلکہ وہ ان دونوں کی وفات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے۔ اور یہ خبریں وہاں موجود لوگوں سے ان کے احوال کے متعلق ان کے بعد لی گئی ہیں۔ نہ تو انہیں اللہ نے ان دونوں پر نازل کیا ، نہ ہی ان دونوں نے اپنی حیات میں اس کا حکم دیا اور نہ ہی ان دونوں نے لوگوں کو اس کی خبر دی۔

مذکورہ بالا حوالوں میں دو باتیں وضاحت طلب ہیں۔ سب سے پہلا حوالہ جو فقہ اکبر سے لیا گیا ہے وہ کتاب جب مصر میں طبع ہوئی تو اس میں یہی الفاظ تھے ’’لو کان عیسیٰ حیا۔۔۔‘‘ لیکن جب وہی کتاب ہندوستان سے شائع ہوئی تو اس میں تحریف کرکے اسے ’’لو موسیٰ حیا۔۔۔‘‘ بنادیا گیا حالانکہ اس عبارت کے سیاق و سباق میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہی ذکر ہورہا ہے۔خاکسار کے پاس یہ دونوں نسخے موجود ہیں۔اسی طرح مندرجہ بالا حوالوں میں سب سے آخری حوالہ امام ابن تیمیہ ؒ کی کتاب سے لیا گیا ہے ۔ اس حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام دونوں کے لئے لفظ ’’توفیھما‘‘ ، یعنی ان دونوں کی وفات، استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابن تیمیہ ؒ توفی کا معنی وفات بمعنی موت ہی لے رہے ہیں ۔

بعثت النبی ﷺ کے وقت تمام انبیاء ؑ زمرۂ اموات میں داخل ہوچکے تھے:

آیت میثاق النبیین کی تشریح کرتے ہوئے علامہ القسطلانیؒ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے وقت تمام انبیاء علیہم السلام زمرۂ اموات میں داخل ہوچکے تھے،( اور ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ان میں شامل تھے)۔

’’و قیل معناہ: أن الأنبیاء۔ علیھم الصلاۃ والسلام ۔ کانوا یأخذون المیثاق من أممھم بأنہ اذا بعث محمد ﷺ أن یؤمنوا بہ و أن ینصروہ، و احتج لہ بان الذین أخذاللّٰہ المیثاق منہم یجب علیھم الایمان بمحمد ﷺ عند مبعثہ، و کان الأنبیاء عند مبعث محمد ﷺ من جملۃ الأموات، والمیت لا یکون مکلفًا، فتعین أن یکون المیثاق مأخوذًا علی الأمم۔‘‘ (المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ۔ تالیف العلامۃ احمد بن محمد القسطلانی(851-923ھجری)۔ الجزء الثالث۔ صفحہ 148.(
اور کہا جاتا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام نے اپنی امتوں سے یہ میثاق لیا تھا کہ جب محمد ﷺ مبعوث ہوں تو ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا۔ اور اس پر دلیل یہ دی گئی ہے کہ جن لوگوں سے اللہ نے یہ میثاق لیا ان پر واجب تھا کہ وہ محمد ﷺ پر ان کی بعثت کے وقت ایمان لائیں جبکہ تمام انبیاء پر محمد ﷺ کی بعثت کے وقت موت وارد ہوچکی تھی اور مردہ تو مکلّف نہیں ہوتا۔ لہذا یہ بات معین ہوگئی کہ یہ میثاق امتوں سے ہی لیا گیا تھا۔

عیسیٰ کہاں ہیں:

’’این آدم ابوالاولین والآخرین این نوح شیخ المرسلین این ادریس رفیع رب العالمین این ابراہیم خلیل الرحمٰن الرحیم این موسیٰ الکلیم من بین سائر النبیین والمرسلین این عیسیٰ روح اللّٰہ وکلمتہ راس الزاھدین و امام السائحین این محمد خاتم النبیین این اصحابہ الابرار المنتخبون۔۔۔‘‘ (کتاب سراج الملوک از ابی بکر الطرطوشی۔الباب الاول فی مواعظ الملوک۔صفحہ:14(

اولین و آخرین کے باپ آدم کہاں ہیں، شیخ المرسلین نوح کہاں ہیں، رفیع رب العالمین ادریس کہاں ہیں، خلیل الرحمان الرحیم ابراہیم کہاں ہیں، تمام انبیاء و مرسلین میں سے کلیم موسیٰ کہاں ہیں، روح اللہ، کلمۃ اللہ، زاہدین کے سربراہ اور سیاحوں کے امام عیسیٰ کہاں ہیں، خاتم النبیین محمد ﷺ کہاں ہیں اور ان کے منتخب ابرار صحابہ کہاں ہیں۔۔۔

عیسیٰ ؑ نے مقررہ وقت پر وفات پائی:
"The same homogeneity of ideas obtains on that considerably lower plane on which an unnamed spokesman for the Byzantines and the Muslim jurist, al-Qaffal (d. 976), exchanged their invectives in support of their sovereigns\' campaigns in 966-67.The Christian announces that he will conquer the East and spread the religion of the Cross by way of force:And Jesus, His throne is high above the heavens. Who is allied with Him reaches his goal (i.e., salvation) on the day of Strife (i.e., Judgment Day).But your companion (i.e., Mohammad), the moisture (of the grave) annihilated him below the ground, and he has turned (a heap of) splinters among those decayed bones.The Muslim shaik retorts in the same vein:Whoever desires the conquest of East and West propagandizing for the belief in a cross is the meanest of all who nourish desires.Who serves the crosses and wishes to obtain right guidance through them is an ass with a brand mark on his nose.And if the Prophet Mohammad has had to die, he (only) followed the precedent set by every exalted prophet. And Jesus, too, met death at a fixed term, when he passed away as do the prophets of Adam's seed." 
’’خیالات کی یہی یکسانیت ایک بہت ہی نچلی سطح پر بھی نظر آتی ہے جب بازنطین کے ایک گمنام عیسائی ترجمان اور مسلمان قانون دان القفّال نے 966-967 میں اپنی اپنی حکومتوں کی تائید کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف تنقیدی حملے کئے۔عیسائی نے اعلان کیا کہ وہ مشرق کو فتح کرلے گا اور صلیبی مذہب کو بزورِ طاقت پھیلادے گا : اور یسوع (کو دیکھو)، کہ اس کا تخت آسمانوں سے بلند ہے۔ جو اُس (یسوع) کے ساتھ وابستہ ہوگا وہ عدالت کے روز اپنی مراد کو پہنچے گا۔ لیکن تمہارا صاحب (یعنی محمد وہ ہے جس) کو قبر کی نمی نے زیرِ زمین فنا کردیا اور وہ بوسیدہ ہڈیوں کے درمیان ہڈیوں کا ڈھیر بن گیا۔ اس پر مسلمان شیخ نے اُسی لب و لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا: جو بھی مشرق اور مغرب کو فتح کرنا چاہتا ہے اور صلیبی مذہب کا پرچار کرنا چاہتا ہے وہ ان تمام لوگوں سے زیادہ کمینہ ہے جو اپنی خواہشات کی پرورش کرتے رہتے ہیں۔ جو بھی صلیب کی خدمت کرتا ہے اور اُن کے ذریعے ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ ایسے گدھے کی مانند ہے جس کی ناک داغی گئی ہو۔ اور اگر محمد ﷺ پر موت آئی تو انہوں نے اس نمونہ کی پیروی کی جو عظیم الشان انبیاء نے قائم کیا تھا۔ اور یسوع نے بھی وقت مقررہ پر وفات پائی اور اسی طرح گزر گئے جس طرح اولادِ آدم میں سے دوسرے انبیاء گزر گئے۔‘‘( Dr. Gustave E. von Grunebaum \"Medieval Islam \" ۔ صفحہ 18, 19۔بحوالہ: ’’ہزار سال پہلے کا تاریخ اسلام کا ایک ورق ۔ حضرت مسیؑح کی وفات کا اعلان ‘‘ از شیخ عبدالقادر صاحب محقّق۔ ’’الفرقان ‘‘ اپریل 1977 ؁ء(

عیسیٰ ؑ موت سے مجبور: 

مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب بانی دارالعلوم دیوبند عیسائیوں کے ساتھ ایک مناظرہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور شری کرشن و شری رام چندر کی الوہیت کی تردید میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ ان سب کو موت آچکی ہے لہٰذا یہ سب معبود نہیں کہلائے جاسکتے۔

’’پھر اس اجمال کی تفصیل کرتے ہوئے بھری مجلس میں آپ بار بار اس کا اعادہ فرماتے رہے، کہ’’خاص کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور سری رام چندر اور سری کرشن کو معبود کہنا یوں بھی عقل میں نہیں آسکتا، کہ وہ کھانے پینے کے محتاج تھے۔ پاخانہ، پیشاب، مرض اور موت سے مجبور تھے۔‘‘ صفحہ 14میلہ خدا شناسی‘‘ (سوانح قاسمی حصہ دوم۔ صفحہ436,437(

حیات و وفاتِ مسیؑح کا اقرار یا انکار کفر تو کیا گمراہی بھی نہیں!

احمد رضا خان بریلوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ حیات و وفاتِ مسیؑح کا اقرار یا انکار کفر تو درکنار گمراہی بھی نہیں۔

’’قادیانی صدہا وجہ سے منکر ضروریاتِ دین تھا اور اس کے پس ماندے حیات و وفات سیدنا عیسیٰ رسول اللہ علی نبینا الکریم و علیہ صلوات اللہ و تسلیمات اللہ کی بحث چھیڑتے ہیں، جو خود ایک فرعی سہل خود مسلمانوں میں ایک نوع کا اختلافی مسئلہ ہے جس کا اقرار یا انکار کفر تو درکنار ضلال بھی نہیں۔‘‘ (الجراز الدیانی علی المرتد القادیانی ۔ مصنف احمد رضا خان بریلوی ص5 (

بڑے بڑے علماء کا وفاتِ مسیؑح کے قائل ہونے کا اقرار:
ا
یک مشہور دیوبندی عالم محمد یوسف بنوری صاحب کے صاحبزادے سلیمان یوسف بنوری صاحب اپنے والد صاحب کی کتاب کا مقدمہ لکھتے ہوئے اقرار کرتے ہیں کہ بڑے بڑے علماء، جن کی عظمت کے یہ خود قائل ہیں، وفاتِ مسیؑح کے قائل تھے۔

’’آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ بڑا ہی پُرفتن دور ہے، نسل انسانیت عمومًا اور مسلمان خصوصًا قسم قسم کے فتنوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ مسلمان بحیثیت مسلمان آج جتنے خطرناک حالات سے دوچار ہیں شاید ماضی کی تاریخ ایسی مثالوں سے خالی ہو، ہر سمت سے قصر اسلام پر فتنوں کی ا یسی یلغار ہے کہ الامان و الحفیظ! طرح طرح کے فتنے ظاہر ہورہے ہیں، اعتقادی، عملی ظاہری اور باطنی، ہر ایک دوسرے سے بڑھتا جارہا ہے، مگر سب سے خطرناک فتنے وہ ہیں جن کا تعلق اعتقاد سے ہو، ان اعتقادی فتنوں میں سے ایک فتنہ عقیدۂ نزولِ مسیح علیہ السلام سے یکسر انکار کرنا یا کم از کم اس کی اساسی حیثیت تسلیم کرنے سے اعراض کرنا اور اس کو غیر ضروری ماننا بھی ہے حتیٰ کہ بعض ایسے اہل علم و قلم بھی جن کی رفعت شان کی طرف اگر ہم نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ان کے علم و عمل، فضل و کمال اور ان کی عظمت کو اپنی بے پناہ بلندی کی وجہ سے ہماری نگاہیں سر نہیں کرسکتیں وہ بھی اس رو میں بہہ گئے ہیں۔۔۔مولوی ابوالکلام آزاد صاحب، مولوی جاراللہ صاحب، مولانا عبیداللہ صاحب سندھی وغیرہ کی تحریرات میں یہ چیز آئی اور مولانا آزاد نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ: ’’اگر یہ عقیدہ نجات کے لیے ضروری ہوتا تو قرآن میں کم از کم (واقیموا الصلاۃ) جیسی تصریح ضروری تھی اور ہمارا اعتقاد ہے کہ کوئی مسیح اب آنے والا نہیں‘‘۔ (مقدمہ از سلیمان یوسف بنوری ۔عقیدہ نزولِ مسیح علیہ السلام قرآن، حدیث اور اجماع امت کی روشنی میں۔ مصنف یوسف بنوری(

وفاتِ مسیؑح اسلامی عقیدہ:

مشہور مصری عالم محمد الغزالی اپنی کتاب ’’عقیدۃ المسلم‘‘ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’لانہ فی حیاتہ عبد ضعیف، و بعد مماتہ رفات مواری فی حفرۃ من التراب‘‘ (صفحہ۔50(
کیونکہ وہ زندگی میں ایک بندۂ ناتواں تھے اور مرنے کے بعد ہڈیوں اور گوشت کا ایک ڈھیر جو مٹی کے ایک گڑھے میں چھپادیا گیا تھا۔

ختم نبوت اور حیاتِ مسیؑح متضاد عقائد:

مشہور دیوبندی عالم ظفر احمد عثمانی صاحب کے صاحبزادے قمر احمد عثمانی صاحب اپنی کتاب ’’عقیدہ ختم نبوت اور نزولِ مسیؑح‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ دونوں عقیدے یعنی ختم نبوت اور حیاتِ مسیؑح ایک دوسرے سے متضاد ہیں اور یہ کہ بہت سے نامور علماء وفاتِ مسیؑح کے قائل تھے ۔

’’حضرت عبداللہ ابن عباسؓ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل تھے، اور علمائے متقدمین میں امام ابن حزم اور امام ابن تیمیہ نے نزولِ مسیؑح کے مسئلہ کو اختلافی مسئلہ قرار دیا ہے (دیکھئے ’’مراتب الاجماع، لابن حزم اور نقد مراتب الاجماع، لامام ابن تیمیہؒ ) ہمارے زمانے میں مولانا عبیداللہ سندھیؒ ، مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ تمنا عمادی پھلواریؒ ، علامہ مولانا موسیٰ جاراللہؒ ، شیخ نور محمد مرشد المکیؒ ، علامہ شاہ محمد جعفر ندوی، علامہ اقبالؒ ، شیخ محمود شلتوت مصری، علامہ سید رشید رضا مصری، اور مولانا امین احسن اصلاحی جیسے نامور علمائے دین اور ارباب علم و دانش نزولِ مسیؑح اور ظہورِ مہدی کے عقیدوں کی صحت کو تسلیم نہیں کرتے۔‘‘ (صفحہ۔6,7(

’’عقیدۂ ختم نبوت کی موجودگی میں حیاتِ مسیؑح اور نزولِ مسیؑح کا تصور قلب و ذہن میں ہمیشہ ہی کھٹکتا رہا کہ یہ دونوں تصورات ایک جگہ نہیں ٹھہر سکتے۔اگر عقیدہ ختم نبوت برحق ہے تو کسی نبی کے آنے اور دین اسلام کو حقیقی غلبہ دلانے کا کوئی جواز نہیں بنتا‘‘ (صفحہ:8,9(

ان تمام مذکورہ بالا حوالہ جات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ابھر کر سامنے آجاتی ہے کہ نہ تو حیاتِ مسیؑح کے عقیدہ پر امتِ مسلمہ کا کبھی اجماع رہا ہے اور نہ ہی اس سے اختلاف کرنے والوں پر کفر کا فتویٰ عائد کیا گیا ہے۔ لیکن موجودہ دور کے احمدیت مخالف چند علماء نے ایک نیا دین گھڑ لیا ہے جس میں نہ صرف قرآن و حدیث بلکہ اسلاف کے عقائدسے بھی متضاد عقائد شامل کئے گئے ہیں۔

اصل حوالہ جات دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں  ۔Click Here

4 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

ماشاء اللہ عمدہ جواب ہے اس جواب میں جو حوالے استعمال ہوئے ہیں اگر انکا اصل سکین بھی نیچے لگا دیا جائے تو عام قاری کے لیے اس جواب کا اثر دوگنا ہوجاتا ہے اور جو دوست ان اصل حوالہ جات سے استفادہ کرنا چاہیں ان کے لیے یہ اچھا تحفہ ہوگا۔ اگر ہر سوال کے جواب میں مستعمل حوالون کا سکین لگ جائے تو بہت مفید ہوگا کیونکہ آجکل ملا کا دوسرا ملہ یہی ہوتا ہے کہ اصل حوالہ دکھاؤ اس کی وجہ یہ بی ہے کہ ملا نے کافی کتب سے اہم حوالے غائب کر کے نیا ایڈیشن بنا دیئے ہیں ۔ اس لیے ہمیں اصل حوالوں کو محفوظ اور افادہ عام کے لیے پھیلانا چاہئے

Ahmadi Muslim نے لکھا ہے کہ

مضمون کے آخر میں اصل حوالہ جات کا لنک دے دیا گیا ہے ، جو بہن بھائی دیکھنا چاہیں تو لنک پر کلک کر کےدیکھ سکتے ہیں

Unknown نے لکھا ہے کہ

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء اور نزول من السماء پر اجماع امت کا ثبوت

http://ahtisaab.blogspot.hk/2015/11/blog-post.html

Ahmadi Muslim نے لکھا ہے کہ

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء اور نزول من السماء پر اجماع امت کے دعویٰ کی حقیقت
http://ehtisaab.blogspot.com.tr/2015/11/blog-post_9.html