Thursday 30 April 2015

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بعثت کا مقصد

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’انبیا ء علیھم السلام کے دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی میں جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں۔ حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد ان کے آگے ہوتا ہے ۔ پس اس وقت بھی جو خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے ۔ اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک ہے جو سب نبیوں کی تھی۔ یعنی مَیں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے ؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف راہبری کرتا ہوں۔ ‘‘
                                                                                                   (ملفوظات جلد 3 صفحہ 11)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
  ’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں۔ اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں۔ اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہو گئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں۔ اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھلاؤں۔ اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ نمودار ہو تی ہیں حال کےذریعہ سے نہ محض قال سے اُن کی کیفیت بیان کروں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کے شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اب نابود ہو چکی ہے اس کا دوبارہ میں دائمی پودا لگا دوں۔ اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہو گا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہو گا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے ۔‘‘
                                                                           (لیکچر لاہور۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ 180)     
 
مکمل تحریر >>

مال کا جہاد اور اس کی اہمیت

مالی قربانی کی برکات و اہمیت ازقرآن کریم

اس حوالے سے یہ یاد رہے کہ مالی قربانی کی تلقین اور مالی قربانی کے نتیجہ میں ملنے والے فضائل وبرکات کا ذکر قرآن کریم میں بہت واضح رنگ میں موجود ہے ۔زکوۃ کا حکم ہے ۔اس کے علاوہ مال کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَھَاجَرُواوَجَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ (الانفال :73)
وہ لوگ جو کہ ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی ہے اور اللہ کے راستے میں اپنی جانوں اور مالوں کے ذریعہ سے جہاد کے ذریعہ جہا د کیا ہے.
سورۃ صف میں اللہ تعالیٰ نے ایک تجارت کے متعلق بتایا جس سے اللہ کی خوشنودی اور جنت کی بشارت دی گئی ہے ۔
تُجَاھِدُوْنَ فِی سَبِیلِ اللّٰہ بِاَمْوَالِکُم وَاَنْفُسِکُم (الصف:12)
کہ تم اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔


آنحضرتﷺصحابہ ؓ کومالی قربانی کی تاکید فرماتے تھے

اس مالی جہادکے بارے میں سنت نبوی سے پتا چلتا ہے کہ ضرورت کے وقف رسول کریم ؐ صحابہ کو مالی قربانی کی تحریکات کرتے رہتے تھے ۔ جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔ایک غزوہ کے موقع پر حضر ت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے لے آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر کا نصف مال لے آئے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اسی لیے غنی کہلائے کہ بہت زیادہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے ۔ اسی طرح بے شمار صحابہ کی مثالیں موجود ہیں ۔خود رسول کریم ؐ تیز آندھی کی طرح خدا کی راہ میں خرچ کیا کرتے تھے ۔یہ سب خرچ کرنا زکوۃ کے علاوہ ہوتا تھا بلکہ رسول کریم ؐ نے تو ساری زندگی زکوۃ نہیں دی کیونکہ زکوۃ کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری ہوتا ہے رسو ل کریم ؐ تو سارا سال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے صاحب نصاب نہیں بنتے تھے ۔اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ رسو ل کریم ؐ  زکوۃکی فرضیت کے قائل نہیں تھے بلکہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے دوسری صورتوں کو زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔ایسا خیال کرنے والایقینا راہ ہدایت سے بہت دور ہے ۔


جماعت احمدیہ میں لئے جانے والے چندہ کا مقصد

دنیا میں بھر میں جماعت احمدیہ قلمی جہاد کر رہی ہے ۔اسلام اور قرآن کی تعلیمات کو عام کیا جارہا ہے ۔اور یہ سارا ایک مضبوط نظام کے لیے ذریعہ ہورہا ہے۔منظم طور پر جاری یہ جہاد مال کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔اس قلمی جہاد کے دائرے کی وسعت بہت بڑی سرمایہ کاری کا تقاضا کرتی ہے ۔اس وجہ سے احباب جماعت احمدیہ قرآنی تعلیمات کے مطابق خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اس جہاد میں اپنے مالوں کے ذریعہ حصہ ڈالتے ہیں ۔یاد رہے کہ جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اسلام کا احیائے نو اور قرآنی تعلیمات کو عام کرے اگر کوئی احمدی اپنے مال اور اپنی جان کے ذریعہ اس جہاد میں حصہ نہیں ڈالتا تو عملاً اس بنیادسے دور جا رہا ہے جس پر جماعت احمدیہ قائم ہے ۔اس لیے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ احمدیت کے اصل مقصود کے حصول کے لیے جس قدر ممکن ہوسکتا ہے اپنا حصہ لازماً ڈالے ۔وہ حصہ وصیت ،چندہ عام ،چندہ اجتماع،تحریک جدید ،وقف جدید کسی بھی نام سے ہوسکتا ہے ۔یہ تمام چندے اپنے اپنے دائرے میں بھر پور مساعی رہے ہوتے ہیں اس لیے ان سب میں شمولیت ہی صحیح رنگ میں قربانی کہلا سکتی ہے ۔اسی طرح ذیلی تنظیمیں بھی اپنی اپنی سطح پر کام رہی ہوتی ہیں ان میں بھی حصہ ڈالنا چاہیے ۔
مال کے بغیر کوئی نظام نہیں چلتا اس لیے مال کی ضرورت تو رہتی ہے ۔اصل چیز اس کا استعمال ہے کہ وہ کس طرح ہورہا ہے ۔اور کیا اسے چیک کیا جارہا ہے ۔ جماعت احمدیہ کا مالی نظام بہت مضبوط اور شفاف ہوتا ہے ۔شوریٰ میں بجٹ کی منظوری ہوتی ہے اورسب احباب جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے نمائندگان شوریٰ بجٹ کی منظوری دیتے ہیں ہر جماعت میں سیکرٹری مال ہوتا ہے جو چندہ کا حصول کرتا ہے۔چندہ سید بک پر لیا جاتا۔ روزنامچہ بنتا ہے اورہر فرد جماعت کا کھاتہ بنا ہوتا ہے ۔ہر جماعت کا مقامی آڈیٹراور محاسب اس مالی نظام کو چیک کرتے رہتے ہیں ۔اسی طرح ضلع کے آڈیٹر اور محاسب مقامی جماعت کے مالی نظام کو چیک کرتے ہیں پھر مرکزکے نمائندگان اس کی جانچ پڑتال کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔باقاعدہ انسپکٹران مقرر ہیں جو ان مالی نظام کو چیک کرتے رہتے ہیں ۔جس طرح اس مال کے حصول کے لیے باقاعدہ نظام ہے اسی طرح اس مال کے خرچ کو چیک کرنے کے لیے باقاعدہ نظام بنا ہوا ہے ۔
اس قدر مضبوط نظام کی وجہ سے جماعت احمدیہ دنیا میں اتنے بڑے بڑے کام کررہی ہے کہ دیکھنے والے حیران ہوتے ہیں کہ کس طرح اتنے بڑے پروجیکٹ مکمل ہورہے ہیں ۔شفاف مالی نظام کی وجہ سے نتائج میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے ۔
پھر جہاں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے وہاں پر باقاعدہ ٹیکس ادا کیا جاتا ہے اور ملکی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اپنے ذرائع آمد اور خرچ کے اعداد وشمار جمع کروائے جاتے ہیں ۔یہ بات بھی جماعت احمدیہ کے مالی نظام کے شفاف ہونے کی علامت ہے ۔
مکمل تحریر >>

جماعت احمدیہ کے چندہ لینے پر اعتراض کا جواب

اللہ تعالیٰ جب کسی الٰہی جماعت کی بنیاد رکھتا ہے تو اس جماعت کے ماننے والوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے ان سے کچھ قربانیوں کا تقاضا فرماتا ہے ، یا یوں سمجھ لیجئے کہ خدا تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کو پانے کے لئے قربانی ایک لازمی شرط ہے ، اور یہ قربانی کیا ہے ؟ یہ اپنے اپنے وقت اور زمانے کےحالات پر منحصر ہوا کرتی ہے ۔ مثلاً آنحضرتﷺ کے زمانے میں مال کی قربانی بھی تھی لیکن جان کی قربانی زیادہ اہمیت رکھتی تھی کیونکہ کفار کی طرف سے  مسلمانوں پر مظالم کا ایک سلسلہ جاری تھا اور انہی مظالم کے تحت مسلمانوں کو جنگ کے میدان میں بھی کھینچا گیا تھا۔
            لیکن اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں مسیح محمدی کے دور کےلئے آنحضرتﷺ نے ’’یَضَعُ الْحَرْب‘‘کی نوید سنا کر قرونِ اولیٰ کی مانند جنگوں اور تلوار کے جہاد کو موقوف فرما دیا اور مسیح محمدی کے فرائض میں قلمی جہاد کو شامل فرما کر مالی قربانی کو جاری رکھا کیونکہ قلمی جہاد کے لئے مال کا ہونا لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مالی قربانی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :۔
  لَنْ تَنَالُواالْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ                                         
 (آل عمران :93)
تم کامل نیکی کو ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ اپنی پسندیدہ اشیاء میں سے (خدا کے لئے )خرچ نہ کرو۔
حضرت رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ  کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو۔ ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کرہی دیا کرے گا۔ اپنے روپوں کی تھیلی کا منہ (بخل کی راہ سے )بند کر کے نہ بیٹھ جانا ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا۔جتنی طاقت ہے دل کھول کر خرچ کیا کرو۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’کیسا یہ زمانہ برکت کا ہے ۔ کہ کسی سے جانیں مانگی نہیں جاتیں۔ اور یہ زمانہ جانوں کے دینے کا نہیں بلکہ مالوں کے بشرط استطاعت خرچ کرنے کا ہے ۔ ‘‘
                                                          (الحکم قادیان ، 10جولائی 1903ء)
            پس جماعت احمدیہ میں موجود چندوں کا نظام قرآن و حدیث میں موجود مالی قربانی کے احکام کو مدنظر رکھ کر ہی قائم کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اسکا قرب حاصل کرنے کے لئے اپنے مال میں سے کچھ حصہ اس کی راہ میں قربان کرنا نہایت اہمیت ہے اور ہمیشہ سے انبیاء اس کی تلقین اپنے ماننے والوں کو کرتے آئے ہیں۔
مکمل تحریر >>

Wednesday 29 April 2015

مولانا قاری محمد طیب دیوبندی کا کلام الہام تھا ؟

قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند جو کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (ولادت ۱۸۳۳؁ء وفات۱۸۸۰؁ء) کے پوتے تھے۔ دیوبندی حلقوں میں انہیں ’’حکیم الاسلام‘‘ کے خطاب سے یاد کیا جاتاہے۔ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان نے ان کا ایک مجموعہ تقاریر ’’خطبات طیب‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے ۔ کتاب کے دیباچہ میں ان کے کلام کو پانچ مرتبہ ’’الہامات‘‘ سے موسوم کیا گیاہے۔


مکمل تحریر >>

اسلام کی فتح وفات مسیح کے عقیدہ میں ہے

حضرت مسیح موعود و امام مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
''میں نے کوئی بات قال اﷲ اور قال الرسول کے برخلاف نہیں کی۔ اگر قرآن اور حدیث میں جسم عنصری کا لفظ آیا ہوتا تو اس کا منکر کافر اور ملعون ہوتا مگر اصل حقیقت خدا تعالیٰ نے بذریعہ الہام کے مجھ پر ظاہر کر دی اور قرآن اور حدیث اور اجماعِ صحابہؓ اس کی تائید میں ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات صحابہؓ کے واسطے ایک بڑا صدمہ تھا۔باسٹھ (62)یا تریسٹھ(63) سال کوئی بڑی عمر نہیں۔ صحابہؓ کو اگر یہ کہا جاتا کہ عیسیٰ ؑتو زندہ ہے مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو اُن کے واسطے ایک پشت شکن صدمہ تھا۔ اسی واسطے حضرت ابو بکرؓ نے سب کو اکٹھا کر کے وعظ کیا اور ان کو سمجھایا کہ سب نبی مر گئے ۔ کوئی بھی زندہ نہیں۔اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے۔ صحابہؓ ایک عشق اور محبت کی حالت رکھتے تھے۔ وفات مسیح کے بغیر دوسرا پہلو وہ ہرگز مان نہ سکتے تھے۔ اسلام کبھی ایسا عقیدہ پیش نہیں کرسکتا جو آنحضرت افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہو۔ کوئی ہمیں بُرا یا بھلا کہے ہم تو اپنا کام کرتے چلے جائیں گے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی فتح اسی میں ہے۔ اگر ہم عیسائیوں کی ہاں میں ہاں ملادیں تو ہم ان کو کیونکر زیر کر سکتے ہیں۔ ہمارے مخالف مرنے کے بعد یقینا سمجھ لیں گے کہ وہ اسلام کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ عادت بھی ایک بُت ہوتا ہے اور یہ لوگ اس بُت کی پرستش کر رہے ہیں۔'' 
(ملفوظات جلد چہارم ، صفحہ 497)

مکمل تحریر >>

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ زندگی

قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے ماموروں کی جو سچی تاریخ پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے ماموروں کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل دعویٰ سے پہلے ان کی پاک زندگی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں شرک اور دوسری بدیوں سے محفوظ رکھتا ہے اور وہ قوم کے اندر ایک نہایت اعلیٰ اخلاق سے بھر پور زندگی گزارتے ہیں ۔ اورقوم ان کے پاک کردار کی گواہی دینے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔
دعویٰ کے بعد دشمن ان پر ہر طرح کے الزام لگاتا اور گند اچھالتا ہے مگر دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر کسی طرح بھی انگلی نہیں اٹھاسکتا ۔ پس دعویٰ کے بعد کے اعتراضات قابل توجہ نہیں کیونکہ وہ دشمنی کی نظر سے کئے جاتے ہیں ۔ بلکہ وہ پاک کردار لائق توجہ ہے جب وہ ایک عام فرد کی حیثیت سے زندگی گزار رہا ہوتا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمدقادیانی نے اس زمانہ میں خدا کے مامور ہونے کا دعویٰ کیا اور فرمایا کہ میں وہی موعود ہوں جس کا امت محمدیہ ﷺ چودہ سو سال سے انتظار کر رہی ہے ۔ آپ نے اپنی صداقت کے دلائل میں اپنی دعویٰ سے پہلے کی پاک زندگی کو بھی پیش فرمایا ہے ۔ آپ نے اپنے مخالفین کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا ۔

چیلنج

’تم کوئی عیب افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے ۔ تا تم خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا ۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کرسکتا ہے ۔ پس یہ خدا کا فضل ہے جو اس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے ۔ ‘ (تذکرۃ الشہادتین ، صفحہ ۶۲)
پھر فرمایا ۔
’ میری ایک عمر گزر گئی ہے مگر کون ثابت کرسکتا ہے کہ کبھی میرے منہ سے جھوٹ نکلا ہے ۔ پھر جب میں نے محض للہ انسانوں پر جھوٹ بولنا متروک رکھا اور بارہا اپنی جان اور مال کو صدق پر قربان کیا تو پھر میں خدا تعالیٰ پر کیوں جھوٹ بولتا ۔‘ (حیات احمد جلد اول ، صفحہ ۱۲۶)
اس چیلنج پر ایک سو سال ہونے کو آئے ہیں ۔ مگر کسی کو اس کا جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ دعویٰ کے بعد تو مخالفین ہر طرح کے الزام لگایا ہی کرتے ہیں ۔ مگر دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر نہ صرف کوئی انگلی نہیں اٹھاسکا بلکہ بیسیوں لوگوں نے آپ کی پاکیزگی کی گواہی دی جنہوں نے آپ کو دیکھا اور جن کا آپ سے واسطہ پڑا ۔

مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی

مشہور اہل حدیث عالم مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی نے دعویٰ کے بعد آپ کی شدید مخالفت کی ۔ مگر اس سے پہلے انہوں نے آپ کی کتاب براہین احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ۔
’موء لف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے (واللہ حسیبہ) شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار اور صداقت شعار ہیں ۔ ‘ (اشاعۃ السنۃ جلد ۷ ، صفحہ ۹)

مولانا ابوالکلام آزاد صاحب

ہندوستان کے مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور صحافی ابوالکلام آزاد گواہی دیتے ہیں ۔
’کیریکٹر کے لحاظ سے مرزا صاحب کے دامن پر سیاہی کا چھوٹے سے چھوٹا دھبہ بھی نظر نہیں آتا ۔ وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی ۔ غرضیکہ مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی کے پچاس سالوں نے بلحاظ اخلاق و عادات اور کیا بلحاظ خدمات و حمایت دین مسلمانان ہند میں ان کو ممتاز ، برگزیدہ اور قابل رشک مرتبہ پر پہنچا دیا ۔‘ (اخبار وکیل امرتسر ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء)

منشی سراج الدین صاحب

مشہور مسلم لیڈر اور صحافی اور شاعر مولانا ظفر علی خان صاحب کے والد بزرگوار منشی سراج الدین صاحب ایڈیٹر اخبار زمیندار گواہی دیتے ہیں ۔
’ ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے ۔۔۔ آپ بناوٹ اور افتراء سے بری تھے ۔‘ (اخبار زمیندار مئی ۱۹۰۸ء)

سیالکوٹ کے عوام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ سے پہلے عین جوانی کا کچھ عرصہ سیالکوٹ میں گزارا ۔ اور آپ کے تمام ملنے جلنے والے آپ کے تقویٰ اور نیکی کے دل سے قائل تھے ۔ جن لوگوں کے پاس آپ نے قیام فرمایا وہ آپ کو ولی اللہ قرار دیتے تھے ۔ (بحوالہ الفضل ۸ اکتوبر ، ۱۹۲۵ء)

سید میر حسن صاحب

ہندوستان میں علوم شرقیہ کے بلند پایہ عالم اور علامہ اقبال کے استاد مولوی سید میر حسن صاحب نے آپ کو اسی دور میں ۲۸ سال کی عمرمیں دیکھا اور بعد میں یوں گواہی دی ۔ آپ عزلت پسند اور پارسا اور فضول و لغو سے مجتنب اور محترز تھے ۔ ادنیٰ تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہوجاتا تھا کہ حضرت اپنے ہر قول و فعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں ۔ (سیرۃ المہدی ، جلد اول ، صفحہ ۱۵۴، ۲۷۰)

حکیم مظہر حسین صاحب

سیالکوٹ کے حکیم مظہر حسین صاحب جو بعد میں آپ کے شدید مخالف بنے انہوں نے آپ کے متعلق لکھا ۔
’ثقہ صورت ، عالی حوصلہ اور بلند خیالات کا انسان ‘ (اخبار الحکم ، ۷ اپریل ۱۹۳۴ء)

قادیان کا ہندو

آپ کے حق میں گواہی دینے والوں میں آپ کے گاؤں قادیان کا وہ ہندو بھی شامل ہے جس نے بچپن سے آخر تک آپ کو دیکھا ۔ وہ کہتا ہے ۔ ’ میں نے بچپن سے مرزا غلام احمد کو دیکھا ہے میں اور وہ ہم عصر ہیں ۔ اور قادیان میرا آنا جانا ہمیشہ رہتا ہے اور اب بھی دیکھتا ہوں جیسی عمدہ عادات اب ہیں ایسی ہی نیک خصلتیں اور عادات پہلے تھیں ۔ سچا امانت دار اور نیک ، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پرمیشور مرزا صاحب کی شکل اختیار کرکے زمین پر اتر آیا ہے ۔‘ (تذکرہ المہدی ، جلد ۲ صفحہ ۳۴)

مولوی غلام رسول صاحب

اس دور کے ایک بزرگ مولوی غلام رسول صاحب نے بچپن میں آپ کی پاکیزہ فطرت کو دیکھ کر فرمایا ۔ ’ اگر اس زمانے میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے ۔‘ (رجسٹر روایات ، نمبر ۱۲ ، صفحہ ۱۰۴)

وکیل کی گواہی

جوانی میں آپ کی راستبازی اور سچ گوئی کا شہرہ تھا ۔ آپ نے کئی خاندانی مقدمات میں اپنے خاندان کے خلاف گواہی دی اور ان کی ناراضگی مول لی مگر سچ کا دامن نہ چھوڑا ۔ دعویٰ سے پہلے ایک عیسائی نے آپ کے خلاف مقدمہ کیا جس میں آپ کے وکیل کے مطابق جھوٹ بولے بغیر نجات نہ تھی ۔ مگر آپ نے جھوٹ بولنے سے انکار کردیا ۔ اور خدا نے آپ کو فتح دی ۔ اس مقدمہ میں آپ کے وکیل فضل الدین صاحب آپ کی اس فوق العادت راست گفتاری کے گواہ تھے ۔ وہ کہتے ہیں ۔
’مرزا صاحب کی عظیم الشان شخصیت اور اخلاقی کمال کا میں قائل ہوں ۔۔۔۔ میں انہیں کامل راستباز یقین کرتا ہوں ۔ ‘ (الحکم ۱۴ نومبر ۱۹۳۴ء)

محمدشریف صاحب بنگلوری

نامور صحافی جناب مولانا شریف بنگلوری ایڈیٹر منشور محمدی نے آپ کے متعلق یہ کلمات استعمال فرمائے ۔
افضل العلماء فاضل جلیل جرنیل فخر اہل اسلام ہند مقبول بارگہ صمد جناب مولوی مرزا غلام احمد صاحب ۔ (منشور محمدی بنگلور ، ۲۵ رجب ۱۳۰۰ھ)

حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی

مشہور باکمال صوفی حضرت احمد جان صاحب لدھیانوی نے آپ کے خدمت دین کے بے پایاں جذبوں کو دیکھ کر فرمایا ۔
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے
حضرت مسیح موعود و مہدی موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے پاکیزہ کردار اور اعلیٰ اخلاق کے بارہ میں جتنی گواہیاں اوپردرج کی گئی ہیں ان میں کوئی ایک بھی احمدی نہیں ہے ۔ بلکہ کئی تو حضرت مرزا صاحب کے سخت مخالف ہیں ۔ مگر خدا نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کے حق میں ان کی زبان سے یہ کلمات جاری کروائے اور حضور ہی کے الفاظ میں سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے جس کی طرف سب نظریں اٹھ رہی تھیں ۔ خدا نے اسی کو مسیحا بنادیا ۔ کہیں ہم اس کو پہچاننے سے محروم تو نہیں رہ گئے ؟ سوچو ! سوچو ! سوچو ! اور غور کرو ۔
مکمل تحریر >>

شیعہ احباب سے چند سوالات

کیا امامت ارکانِ اسلام میں شامل ہے؟

قرآنِ کریم کی رو سے مسلمانوں کو اللہ، یومِ آخرت ، ملائکہ، الہامی کتابوں،اور رسولوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے اور اِن کا انکار کرنے والوں کو سخت گمراہ قرار دیا گیا ہے:
”نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف پھیرو۔ بلکہ نیکی اسی کی ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یومِ آخرت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر۔۔۔اور جو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے “ (2:178) ”اور جو اللہ کا انکار کرے اور اس کے فرشتوں کا اور اُس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور یومِ آخر کا تو یقینًا وہ بہت دور کی گمراہی میں بھٹک چکا ہے۔ (4:137)
لیکن شیعہ عقیدہ کے مطابق امامت بھی ارکان اسلام میں داخل ہے اور مسلمان ہونے کے لئے اس پر ایمان لانا بھی لازمی ہے۔ جبکہ قرآنِ کریم میں کسی جگہ بھی امامت یا اماموں پر ایمان لانے کا حکم نہیں ملتا۔ نہج البلاغہ میں، جو حضرت علیؓ کے خطبات کا مجموعہ ہے، جہاں بھی حضرت علیؓ ایمانیات کا ذکر فرماتے ہیں، وہاں صرف توحید و رسالت کی گواہی دیتے ہیں اور کسی جگہ بھی امامت پر ایمان لانے کا ذکر تک نہیں فرماتے۔

کیا ہرامام پہلے نبی ہوتا ہے؟

سورۃ البقرۃ کی آیت (2:125) سے شیعہ احباب استدلال کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کو پہلے نبی بنایا گیا۔ پھر چند کلمات کے ذریعے اُن کی آزمائش کی گئی۔ جب وہ اس امتحان میں پورا اترے تو انہیں امام بنادیا گیا۔ اس استدلال سے جہاں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام کا درجہ نبی سے برتر ہوتا ہے وہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا امام بنانے کا یہی طریقہ ہے تو پھرشیعہ احباب کو یہ ماننا پڑے گا کہ ان کے تمام ائمہ کرام کو پہلے نبی بنایا گیا، پھر اُن کو آزمایا گیا اور پھر انہیں امام بنادیا گیا۔ اس سے ایک طرف تو انہیں نبی اکرم ﷺ کے آخری نبی ہونے کا عقیدہ ترک کرنا پڑے گا اور اُن کے بعد بارہ انبیاءکا آنا ماننا پڑے گا اور دوسری طرف ایک بڑی الجھن یہ سلجھانی پڑے گی کہ اُن کے عقیدہ کے مطابق تو اُن کے ائمہ کرام پیدائشی امام اور معصوم ہوتے ہیں، تو کیا انہیں پیدائش سے پہلے نبی بنایا گیا اور پیدائش سے پہلے ہی اُنہیں آزمایا گیا اور پھر امامت کے درجے پر فائز کردیا گیا؟

کیا بیویاں اہل بیت میں شامل نہیں ہوتیں؟

شیعہ احباب کا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ازواجِ مطہّرات اُن کے اہل بیت میں شامل نہیں ہیں اور سورہ احزاب کی آیت (33:34) میں جن اہل بیت کا ذکر ہے اُن سے سیّدہ فاطمہ الزہراؓ، حضرت علی ؓ، حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ ہی مراد ہیں۔ جبکہ مندرجہ ذیل آیات میں حضرت ابراہیم ؑ کی بیوی اور حضرت موسیٰ ؑ کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کوبھی اہلِ بیت میں شمار کیا گیا ہے۔ فرشتے حضرت ابراہیم ؑ کی بیوی کومخاطب کرکے کہتے ہیں:
” کیا تو اللہ کے فیصلے پر تعجب کرتی ہے۔ تم پر اللہ کی رحمت اور برکات ہوں اے اہلِ بیت“ (ھود ۔ 11:74)
جب حضرت موسیٰ ؑ نے بچپن میں فرعون کے گھر میں کسی بھی عورت کا دودھ پینے سے انکار کردیا تو اُن کی بہن نے فرعون کے گھر والوں سے کہا:
”کیا میں تمہیں ایسے اہل بیت کا پتہ دوں جو تمہارے لئے اس کی پرورش کرسکیں اور وہ اس کے خیرخواہ ہوں؟“ (28:13)

قرآن اور امام الگ الگ ہوگئے؟

شیعہ روایات کے بقول نبی اکرم ﷺ نے خطبہ حجّۃ الوداع میں ارشاد فرمایا تھا کہ میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں یعنی قرآن اور اپنی عترت (اولاد) چھوڑ کر جارہاہوں۔ جب تک انہیں پکڑے رکھوگے گمراہ نہ ہوگے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک حوض پر میرے پاس لوٹ نہ آئیں۔ یعنی قیامت تک ساتھ رہیں گے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ شیعہ احباب کے آخری یعنی بارھویں امام غائب ہیں اور قرآن ہمارے پاس رہ گیا ہے۔ اس صورت میں ہم مکمل ہدایت حاصل نہیں کرسکتے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بعض شیعہ عقائد کے مطابق اصل قرآن امام غائب کے پاس ہے۔ اس صورت میں ہم قرآن اور امام دونوں سے ہدایت حاصل نہیں کرسکتے۔ اب اگر ہم گمراہ ہوں تو اس میں کس کا قصور ہوگا؟
مکمل تحریر >>

احیائے موتٰی کی حقیقت

قرآنِ کریم الٰہی پیغام کے منکرین اور مخالفین کو مردہ کہہ کر پکارتا ہے [27:81, 35:23, 8:25] جبکہ نبی کی دعوت کو قبول کرنے والے مومنین اور خدا کی راہ میں اپنی جان دینے والوں کو زندہ قرار دیتا ہے۔ [36:71, 2:155] بدقسمتی سے غیر احمدی مسلمان علماءایسی آیات کی تعبیر و تشریح حقیقی روحانی معنوں کی بجائے ظاہری الفاظ کے مطابق کرتے ہیں۔ ایسی تشریحات کرتے ہوئے یہ علماءقرآنِ کریم کا وہ محکم اصول نظر انداز کردیتے ہیں جس کے مطابق مردے کبھی واپس نہیں آتے اور جو ایک دفعہ فوت ہوجاتا ہے وہ قیامت سے پہلے دوبارہ زندہ نہیں ہوگا۔ [21:96, 23:100 23:101, 36:32, 39:43]

سو سال مرنے کے بعد زندہ

یہ علماءکہتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی آیت (2:260) کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایک نبی کو سو سال کے لئے مار دیا اور پھر دوبارہ زندہ کردیا۔اس واقعے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ 586 قبل مسیح میں نوبخت نصر کے ہاتھوں یروشلم کی تباہی کے بعد حزقیل نبی نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ یہ شہر دوبارہ کب آباد ہوگا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خواب دکھایا جس میں بتایا گیا تھاکہ یہ شہر سو سال کے بعد دوبارہ آباد ہوگا۔ یہ خواب بائبل میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ (حزقیل۔37)۔ یہ قرآنِ کریم کا طرزِ بیان ہے کہ خواب میں دیکھے گئے واقعات (مثلًا حضرت یوسف ؑ کی خواب ۔ 12:5) کو بھی ایسے بیان کیا جاتا ہے گویا کہ وہ حقیقت میں دیکھے جارہے ہیں۔ بصورتِ دیگرحزقیل نبی کو سو سال کے لئے ماردینا اور پھر زندہ کردینا اُن کے سوال کا جواب نہیں ہوسکتا۔اُن کا سوال شہر کے دوبارہ آباد ہونے کے متعلق تھا جس کا جواب انہیں خواب میں نظارہ دکھا کر دے دیا گیا۔ یہ خواب بعد میں ویسے ہی پورا بھی ہوگیا اور ٹھیک ایک سو سال بعد یروشلم دوبارہ آباد ہوگیا۔ اُن کے کھانے کے تازہ رہنے اور گدھے کے زندہ ہونے کی طرف اشارہ کرنے کا بھی یہی مطلب تھا کہ وہ سو سال تک مرے نہیں رہے بلکہ یہ چند گھڑیوں کا ایک خواب تھا۔

ذبح شدہ پرندوں کا دوبارہ زندہ ہونا

بدقسمتی سے سورہ البقرۃ کی آیت (2:261) میں بیان کردہ واقعہ کی بھی ظاہری الفاظ میں تشریح کی جاتی ہے گویا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے ظاہری مردوں کے زندہ ہونے کے متعلق سوال کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے حقیقتًا چار پرندوں کو ذبح کیا، اُن کا قیمہ بنایا اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کرکے حضرت ابراہیم ؑ کو بتایا کہ اس طرح وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے۔اصل حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا تھا کہ روحانی طور پر مردہ یہ لوگ کیسے زندہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں پرندوں کی مثال کے ذریعے سمجھایا کہ جس طرح پرندوں کو سدھا کراپنے ساتھ مانوس کیا جاتا ہے اور پھر انہیں بلایا جائے تو اگر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی ہوں تو وہ وہاں سے بھی اُن کے پاس آجاتے ہیں۔اسی طرح انسانوں کے ساتھ بھی دلی تعلقات استوار کئے جائیں اور پھر انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بُلایا جائے تو وہ اُس کی طرف آسکتے ہیں۔ اس آیت میں ”فصرھن الیک“ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔ عربی زبان کے قواعد کے مطابق اگر ”صُر“ کے ساتھ ”الیٰ“ کا صلہ استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب اپنی طرف مائل کرنا ہوتا ہے۔ اس صلہ کے بغیر اس کا مطلب کاٹنا ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ یہاں پرندوں کا قیمہ کرنا مراد نہیں بلکہ اپنے ساتھ مانوس کرنا مراد ہے۔

اصحابِ کہف

اصحابِ کہف کا واقعہ بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہے جسے قوانینِ قدرت سے بالا اور ایک مافوق الفطرت بات بنا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ اسی سورۃ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کہ کیا لوگ اصحابِ کہف کے واقعہ کو کوئی عجیب بات سمجھتے ہیں؟ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ابتدائی دور کے مسیحیوں کو خدائے واحد پر ایمان رکھنے کے باعث بت پرست رومیوں کے ہاتھوں بہت تکالیف اٹھانی پڑیں۔ یہ سلسلہ وقفوں کے ساتھ 300 سال تک جاری رہا یہاں تک کہ کانسٹنٹائن نامی بادشاہ خود عیسائی ہوگیا اور اس نے اپنے نئے مذہب کو روم کا قومی مذہب بنادیا۔ خود کو ان مظالم سے بچانے کے لئے ان بے بس مسیحیوں کو زمین دوز غاروں میں پناہ لینی پڑتی تھی جو ”کیٹاکومبز“ کے نام سے آج بھی روم اور سکندریہ کے گردونواح کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان غاروں کے دہانوں پر ان لوگوں نے کتے رکھے ہوتے تھے جو انہیں خطرے سے خبردار کرتے تھے۔ مسیحی اقوام میں کتے سے محبت اسی دور کی نشانی ہے۔ چنانچہ اصحابِ کہف چند عیسائی نوجوان نہیں بلکہ تین صدیوں تک رومیوں کے مظالم سے بچ کر غاروں میں پناہ لینے والے مؤحد مسیحی تھے۔
مکمل تحریر >>