Wednesday 29 April 2015

مولانا قاری محمد طیب دیوبندی کا کلام الہام تھا ؟

قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند جو کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (ولادت ۱۸۳۳؁ء وفات۱۸۸۰؁ء) کے پوتے تھے۔ دیوبندی حلقوں میں انہیں ’’حکیم الاسلام‘‘ کے خطاب سے یاد کیا جاتاہے۔ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان نے ان کا ایک مجموعہ تقاریر ’’خطبات طیب‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے ۔ کتاب کے دیباچہ میں ان کے کلام کو پانچ مرتبہ ’’الہامات‘‘ سے موسوم کیا گیاہے۔


مکمل تحریر >>

اسلام کی فتح وفات مسیح کے عقیدہ میں ہے

حضرت مسیح موعود و امام مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
''میں نے کوئی بات قال اﷲ اور قال الرسول کے برخلاف نہیں کی۔ اگر قرآن اور حدیث میں جسم عنصری کا لفظ آیا ہوتا تو اس کا منکر کافر اور ملعون ہوتا مگر اصل حقیقت خدا تعالیٰ نے بذریعہ الہام کے مجھ پر ظاہر کر دی اور قرآن اور حدیث اور اجماعِ صحابہؓ اس کی تائید میں ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات صحابہؓ کے واسطے ایک بڑا صدمہ تھا۔باسٹھ (62)یا تریسٹھ(63) سال کوئی بڑی عمر نہیں۔ صحابہؓ کو اگر یہ کہا جاتا کہ عیسیٰ ؑتو زندہ ہے مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو اُن کے واسطے ایک پشت شکن صدمہ تھا۔ اسی واسطے حضرت ابو بکرؓ نے سب کو اکٹھا کر کے وعظ کیا اور ان کو سمجھایا کہ سب نبی مر گئے ۔ کوئی بھی زندہ نہیں۔اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے۔ صحابہؓ ایک عشق اور محبت کی حالت رکھتے تھے۔ وفات مسیح کے بغیر دوسرا پہلو وہ ہرگز مان نہ سکتے تھے۔ اسلام کبھی ایسا عقیدہ پیش نہیں کرسکتا جو آنحضرت افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہو۔ کوئی ہمیں بُرا یا بھلا کہے ہم تو اپنا کام کرتے چلے جائیں گے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی فتح اسی میں ہے۔ اگر ہم عیسائیوں کی ہاں میں ہاں ملادیں تو ہم ان کو کیونکر زیر کر سکتے ہیں۔ ہمارے مخالف مرنے کے بعد یقینا سمجھ لیں گے کہ وہ اسلام کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ عادت بھی ایک بُت ہوتا ہے اور یہ لوگ اس بُت کی پرستش کر رہے ہیں۔'' 
(ملفوظات جلد چہارم ، صفحہ 497)

مکمل تحریر >>

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ زندگی

قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے ماموروں کی جو سچی تاریخ پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے ماموروں کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل دعویٰ سے پہلے ان کی پاک زندگی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں شرک اور دوسری بدیوں سے محفوظ رکھتا ہے اور وہ قوم کے اندر ایک نہایت اعلیٰ اخلاق سے بھر پور زندگی گزارتے ہیں ۔ اورقوم ان کے پاک کردار کی گواہی دینے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔
دعویٰ کے بعد دشمن ان پر ہر طرح کے الزام لگاتا اور گند اچھالتا ہے مگر دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر کسی طرح بھی انگلی نہیں اٹھاسکتا ۔ پس دعویٰ کے بعد کے اعتراضات قابل توجہ نہیں کیونکہ وہ دشمنی کی نظر سے کئے جاتے ہیں ۔ بلکہ وہ پاک کردار لائق توجہ ہے جب وہ ایک عام فرد کی حیثیت سے زندگی گزار رہا ہوتا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمدقادیانی نے اس زمانہ میں خدا کے مامور ہونے کا دعویٰ کیا اور فرمایا کہ میں وہی موعود ہوں جس کا امت محمدیہ ﷺ چودہ سو سال سے انتظار کر رہی ہے ۔ آپ نے اپنی صداقت کے دلائل میں اپنی دعویٰ سے پہلے کی پاک زندگی کو بھی پیش فرمایا ہے ۔ آپ نے اپنے مخالفین کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا ۔

چیلنج

’تم کوئی عیب افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے ۔ تا تم خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا ۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کرسکتا ہے ۔ پس یہ خدا کا فضل ہے جو اس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے ۔ ‘ (تذکرۃ الشہادتین ، صفحہ ۶۲)
پھر فرمایا ۔
’ میری ایک عمر گزر گئی ہے مگر کون ثابت کرسکتا ہے کہ کبھی میرے منہ سے جھوٹ نکلا ہے ۔ پھر جب میں نے محض للہ انسانوں پر جھوٹ بولنا متروک رکھا اور بارہا اپنی جان اور مال کو صدق پر قربان کیا تو پھر میں خدا تعالیٰ پر کیوں جھوٹ بولتا ۔‘ (حیات احمد جلد اول ، صفحہ ۱۲۶)
اس چیلنج پر ایک سو سال ہونے کو آئے ہیں ۔ مگر کسی کو اس کا جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ دعویٰ کے بعد تو مخالفین ہر طرح کے الزام لگایا ہی کرتے ہیں ۔ مگر دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر نہ صرف کوئی انگلی نہیں اٹھاسکا بلکہ بیسیوں لوگوں نے آپ کی پاکیزگی کی گواہی دی جنہوں نے آپ کو دیکھا اور جن کا آپ سے واسطہ پڑا ۔

مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی

مشہور اہل حدیث عالم مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی نے دعویٰ کے بعد آپ کی شدید مخالفت کی ۔ مگر اس سے پہلے انہوں نے آپ کی کتاب براہین احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ۔
’موء لف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے (واللہ حسیبہ) شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار اور صداقت شعار ہیں ۔ ‘ (اشاعۃ السنۃ جلد ۷ ، صفحہ ۹)

مولانا ابوالکلام آزاد صاحب

ہندوستان کے مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور صحافی ابوالکلام آزاد گواہی دیتے ہیں ۔
’کیریکٹر کے لحاظ سے مرزا صاحب کے دامن پر سیاہی کا چھوٹے سے چھوٹا دھبہ بھی نظر نہیں آتا ۔ وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی ۔ غرضیکہ مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی کے پچاس سالوں نے بلحاظ اخلاق و عادات اور کیا بلحاظ خدمات و حمایت دین مسلمانان ہند میں ان کو ممتاز ، برگزیدہ اور قابل رشک مرتبہ پر پہنچا دیا ۔‘ (اخبار وکیل امرتسر ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء)

منشی سراج الدین صاحب

مشہور مسلم لیڈر اور صحافی اور شاعر مولانا ظفر علی خان صاحب کے والد بزرگوار منشی سراج الدین صاحب ایڈیٹر اخبار زمیندار گواہی دیتے ہیں ۔
’ ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے ۔۔۔ آپ بناوٹ اور افتراء سے بری تھے ۔‘ (اخبار زمیندار مئی ۱۹۰۸ء)

سیالکوٹ کے عوام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ سے پہلے عین جوانی کا کچھ عرصہ سیالکوٹ میں گزارا ۔ اور آپ کے تمام ملنے جلنے والے آپ کے تقویٰ اور نیکی کے دل سے قائل تھے ۔ جن لوگوں کے پاس آپ نے قیام فرمایا وہ آپ کو ولی اللہ قرار دیتے تھے ۔ (بحوالہ الفضل ۸ اکتوبر ، ۱۹۲۵ء)

سید میر حسن صاحب

ہندوستان میں علوم شرقیہ کے بلند پایہ عالم اور علامہ اقبال کے استاد مولوی سید میر حسن صاحب نے آپ کو اسی دور میں ۲۸ سال کی عمرمیں دیکھا اور بعد میں یوں گواہی دی ۔ آپ عزلت پسند اور پارسا اور فضول و لغو سے مجتنب اور محترز تھے ۔ ادنیٰ تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہوجاتا تھا کہ حضرت اپنے ہر قول و فعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں ۔ (سیرۃ المہدی ، جلد اول ، صفحہ ۱۵۴، ۲۷۰)

حکیم مظہر حسین صاحب

سیالکوٹ کے حکیم مظہر حسین صاحب جو بعد میں آپ کے شدید مخالف بنے انہوں نے آپ کے متعلق لکھا ۔
’ثقہ صورت ، عالی حوصلہ اور بلند خیالات کا انسان ‘ (اخبار الحکم ، ۷ اپریل ۱۹۳۴ء)

قادیان کا ہندو

آپ کے حق میں گواہی دینے والوں میں آپ کے گاؤں قادیان کا وہ ہندو بھی شامل ہے جس نے بچپن سے آخر تک آپ کو دیکھا ۔ وہ کہتا ہے ۔ ’ میں نے بچپن سے مرزا غلام احمد کو دیکھا ہے میں اور وہ ہم عصر ہیں ۔ اور قادیان میرا آنا جانا ہمیشہ رہتا ہے اور اب بھی دیکھتا ہوں جیسی عمدہ عادات اب ہیں ایسی ہی نیک خصلتیں اور عادات پہلے تھیں ۔ سچا امانت دار اور نیک ، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پرمیشور مرزا صاحب کی شکل اختیار کرکے زمین پر اتر آیا ہے ۔‘ (تذکرہ المہدی ، جلد ۲ صفحہ ۳۴)

مولوی غلام رسول صاحب

اس دور کے ایک بزرگ مولوی غلام رسول صاحب نے بچپن میں آپ کی پاکیزہ فطرت کو دیکھ کر فرمایا ۔ ’ اگر اس زمانے میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے ۔‘ (رجسٹر روایات ، نمبر ۱۲ ، صفحہ ۱۰۴)

وکیل کی گواہی

جوانی میں آپ کی راستبازی اور سچ گوئی کا شہرہ تھا ۔ آپ نے کئی خاندانی مقدمات میں اپنے خاندان کے خلاف گواہی دی اور ان کی ناراضگی مول لی مگر سچ کا دامن نہ چھوڑا ۔ دعویٰ سے پہلے ایک عیسائی نے آپ کے خلاف مقدمہ کیا جس میں آپ کے وکیل کے مطابق جھوٹ بولے بغیر نجات نہ تھی ۔ مگر آپ نے جھوٹ بولنے سے انکار کردیا ۔ اور خدا نے آپ کو فتح دی ۔ اس مقدمہ میں آپ کے وکیل فضل الدین صاحب آپ کی اس فوق العادت راست گفتاری کے گواہ تھے ۔ وہ کہتے ہیں ۔
’مرزا صاحب کی عظیم الشان شخصیت اور اخلاقی کمال کا میں قائل ہوں ۔۔۔۔ میں انہیں کامل راستباز یقین کرتا ہوں ۔ ‘ (الحکم ۱۴ نومبر ۱۹۳۴ء)

محمدشریف صاحب بنگلوری

نامور صحافی جناب مولانا شریف بنگلوری ایڈیٹر منشور محمدی نے آپ کے متعلق یہ کلمات استعمال فرمائے ۔
افضل العلماء فاضل جلیل جرنیل فخر اہل اسلام ہند مقبول بارگہ صمد جناب مولوی مرزا غلام احمد صاحب ۔ (منشور محمدی بنگلور ، ۲۵ رجب ۱۳۰۰ھ)

حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی

مشہور باکمال صوفی حضرت احمد جان صاحب لدھیانوی نے آپ کے خدمت دین کے بے پایاں جذبوں کو دیکھ کر فرمایا ۔
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے
حضرت مسیح موعود و مہدی موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے پاکیزہ کردار اور اعلیٰ اخلاق کے بارہ میں جتنی گواہیاں اوپردرج کی گئی ہیں ان میں کوئی ایک بھی احمدی نہیں ہے ۔ بلکہ کئی تو حضرت مرزا صاحب کے سخت مخالف ہیں ۔ مگر خدا نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کے حق میں ان کی زبان سے یہ کلمات جاری کروائے اور حضور ہی کے الفاظ میں سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے جس کی طرف سب نظریں اٹھ رہی تھیں ۔ خدا نے اسی کو مسیحا بنادیا ۔ کہیں ہم اس کو پہچاننے سے محروم تو نہیں رہ گئے ؟ سوچو ! سوچو ! سوچو ! اور غور کرو ۔
مکمل تحریر >>

شیعہ احباب سے چند سوالات

کیا امامت ارکانِ اسلام میں شامل ہے؟

قرآنِ کریم کی رو سے مسلمانوں کو اللہ، یومِ آخرت ، ملائکہ، الہامی کتابوں،اور رسولوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے اور اِن کا انکار کرنے والوں کو سخت گمراہ قرار دیا گیا ہے:
”نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف پھیرو۔ بلکہ نیکی اسی کی ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یومِ آخرت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر۔۔۔اور جو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے “ (2:178) ”اور جو اللہ کا انکار کرے اور اس کے فرشتوں کا اور اُس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور یومِ آخر کا تو یقینًا وہ بہت دور کی گمراہی میں بھٹک چکا ہے۔ (4:137)
لیکن شیعہ عقیدہ کے مطابق امامت بھی ارکان اسلام میں داخل ہے اور مسلمان ہونے کے لئے اس پر ایمان لانا بھی لازمی ہے۔ جبکہ قرآنِ کریم میں کسی جگہ بھی امامت یا اماموں پر ایمان لانے کا حکم نہیں ملتا۔ نہج البلاغہ میں، جو حضرت علیؓ کے خطبات کا مجموعہ ہے، جہاں بھی حضرت علیؓ ایمانیات کا ذکر فرماتے ہیں، وہاں صرف توحید و رسالت کی گواہی دیتے ہیں اور کسی جگہ بھی امامت پر ایمان لانے کا ذکر تک نہیں فرماتے۔

کیا ہرامام پہلے نبی ہوتا ہے؟

سورۃ البقرۃ کی آیت (2:125) سے شیعہ احباب استدلال کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کو پہلے نبی بنایا گیا۔ پھر چند کلمات کے ذریعے اُن کی آزمائش کی گئی۔ جب وہ اس امتحان میں پورا اترے تو انہیں امام بنادیا گیا۔ اس استدلال سے جہاں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام کا درجہ نبی سے برتر ہوتا ہے وہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا امام بنانے کا یہی طریقہ ہے تو پھرشیعہ احباب کو یہ ماننا پڑے گا کہ ان کے تمام ائمہ کرام کو پہلے نبی بنایا گیا، پھر اُن کو آزمایا گیا اور پھر انہیں امام بنادیا گیا۔ اس سے ایک طرف تو انہیں نبی اکرم ﷺ کے آخری نبی ہونے کا عقیدہ ترک کرنا پڑے گا اور اُن کے بعد بارہ انبیاءکا آنا ماننا پڑے گا اور دوسری طرف ایک بڑی الجھن یہ سلجھانی پڑے گی کہ اُن کے عقیدہ کے مطابق تو اُن کے ائمہ کرام پیدائشی امام اور معصوم ہوتے ہیں، تو کیا انہیں پیدائش سے پہلے نبی بنایا گیا اور پیدائش سے پہلے ہی اُنہیں آزمایا گیا اور پھر امامت کے درجے پر فائز کردیا گیا؟

کیا بیویاں اہل بیت میں شامل نہیں ہوتیں؟

شیعہ احباب کا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ازواجِ مطہّرات اُن کے اہل بیت میں شامل نہیں ہیں اور سورہ احزاب کی آیت (33:34) میں جن اہل بیت کا ذکر ہے اُن سے سیّدہ فاطمہ الزہراؓ، حضرت علی ؓ، حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ ہی مراد ہیں۔ جبکہ مندرجہ ذیل آیات میں حضرت ابراہیم ؑ کی بیوی اور حضرت موسیٰ ؑ کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کوبھی اہلِ بیت میں شمار کیا گیا ہے۔ فرشتے حضرت ابراہیم ؑ کی بیوی کومخاطب کرکے کہتے ہیں:
” کیا تو اللہ کے فیصلے پر تعجب کرتی ہے۔ تم پر اللہ کی رحمت اور برکات ہوں اے اہلِ بیت“ (ھود ۔ 11:74)
جب حضرت موسیٰ ؑ نے بچپن میں فرعون کے گھر میں کسی بھی عورت کا دودھ پینے سے انکار کردیا تو اُن کی بہن نے فرعون کے گھر والوں سے کہا:
”کیا میں تمہیں ایسے اہل بیت کا پتہ دوں جو تمہارے لئے اس کی پرورش کرسکیں اور وہ اس کے خیرخواہ ہوں؟“ (28:13)

قرآن اور امام الگ الگ ہوگئے؟

شیعہ روایات کے بقول نبی اکرم ﷺ نے خطبہ حجّۃ الوداع میں ارشاد فرمایا تھا کہ میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں یعنی قرآن اور اپنی عترت (اولاد) چھوڑ کر جارہاہوں۔ جب تک انہیں پکڑے رکھوگے گمراہ نہ ہوگے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک حوض پر میرے پاس لوٹ نہ آئیں۔ یعنی قیامت تک ساتھ رہیں گے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ شیعہ احباب کے آخری یعنی بارھویں امام غائب ہیں اور قرآن ہمارے پاس رہ گیا ہے۔ اس صورت میں ہم مکمل ہدایت حاصل نہیں کرسکتے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بعض شیعہ عقائد کے مطابق اصل قرآن امام غائب کے پاس ہے۔ اس صورت میں ہم قرآن اور امام دونوں سے ہدایت حاصل نہیں کرسکتے۔ اب اگر ہم گمراہ ہوں تو اس میں کس کا قصور ہوگا؟
مکمل تحریر >>

احیائے موتٰی کی حقیقت

قرآنِ کریم الٰہی پیغام کے منکرین اور مخالفین کو مردہ کہہ کر پکارتا ہے [27:81, 35:23, 8:25] جبکہ نبی کی دعوت کو قبول کرنے والے مومنین اور خدا کی راہ میں اپنی جان دینے والوں کو زندہ قرار دیتا ہے۔ [36:71, 2:155] بدقسمتی سے غیر احمدی مسلمان علماءایسی آیات کی تعبیر و تشریح حقیقی روحانی معنوں کی بجائے ظاہری الفاظ کے مطابق کرتے ہیں۔ ایسی تشریحات کرتے ہوئے یہ علماءقرآنِ کریم کا وہ محکم اصول نظر انداز کردیتے ہیں جس کے مطابق مردے کبھی واپس نہیں آتے اور جو ایک دفعہ فوت ہوجاتا ہے وہ قیامت سے پہلے دوبارہ زندہ نہیں ہوگا۔ [21:96, 23:100 23:101, 36:32, 39:43]

سو سال مرنے کے بعد زندہ

یہ علماءکہتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی آیت (2:260) کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایک نبی کو سو سال کے لئے مار دیا اور پھر دوبارہ زندہ کردیا۔اس واقعے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ 586 قبل مسیح میں نوبخت نصر کے ہاتھوں یروشلم کی تباہی کے بعد حزقیل نبی نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ یہ شہر دوبارہ کب آباد ہوگا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خواب دکھایا جس میں بتایا گیا تھاکہ یہ شہر سو سال کے بعد دوبارہ آباد ہوگا۔ یہ خواب بائبل میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ (حزقیل۔37)۔ یہ قرآنِ کریم کا طرزِ بیان ہے کہ خواب میں دیکھے گئے واقعات (مثلًا حضرت یوسف ؑ کی خواب ۔ 12:5) کو بھی ایسے بیان کیا جاتا ہے گویا کہ وہ حقیقت میں دیکھے جارہے ہیں۔ بصورتِ دیگرحزقیل نبی کو سو سال کے لئے ماردینا اور پھر زندہ کردینا اُن کے سوال کا جواب نہیں ہوسکتا۔اُن کا سوال شہر کے دوبارہ آباد ہونے کے متعلق تھا جس کا جواب انہیں خواب میں نظارہ دکھا کر دے دیا گیا۔ یہ خواب بعد میں ویسے ہی پورا بھی ہوگیا اور ٹھیک ایک سو سال بعد یروشلم دوبارہ آباد ہوگیا۔ اُن کے کھانے کے تازہ رہنے اور گدھے کے زندہ ہونے کی طرف اشارہ کرنے کا بھی یہی مطلب تھا کہ وہ سو سال تک مرے نہیں رہے بلکہ یہ چند گھڑیوں کا ایک خواب تھا۔

ذبح شدہ پرندوں کا دوبارہ زندہ ہونا

بدقسمتی سے سورہ البقرۃ کی آیت (2:261) میں بیان کردہ واقعہ کی بھی ظاہری الفاظ میں تشریح کی جاتی ہے گویا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے ظاہری مردوں کے زندہ ہونے کے متعلق سوال کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے حقیقتًا چار پرندوں کو ذبح کیا، اُن کا قیمہ بنایا اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کرکے حضرت ابراہیم ؑ کو بتایا کہ اس طرح وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے۔اصل حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا تھا کہ روحانی طور پر مردہ یہ لوگ کیسے زندہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں پرندوں کی مثال کے ذریعے سمجھایا کہ جس طرح پرندوں کو سدھا کراپنے ساتھ مانوس کیا جاتا ہے اور پھر انہیں بلایا جائے تو اگر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی ہوں تو وہ وہاں سے بھی اُن کے پاس آجاتے ہیں۔اسی طرح انسانوں کے ساتھ بھی دلی تعلقات استوار کئے جائیں اور پھر انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بُلایا جائے تو وہ اُس کی طرف آسکتے ہیں۔ اس آیت میں ”فصرھن الیک“ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔ عربی زبان کے قواعد کے مطابق اگر ”صُر“ کے ساتھ ”الیٰ“ کا صلہ استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب اپنی طرف مائل کرنا ہوتا ہے۔ اس صلہ کے بغیر اس کا مطلب کاٹنا ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ یہاں پرندوں کا قیمہ کرنا مراد نہیں بلکہ اپنے ساتھ مانوس کرنا مراد ہے۔

اصحابِ کہف

اصحابِ کہف کا واقعہ بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہے جسے قوانینِ قدرت سے بالا اور ایک مافوق الفطرت بات بنا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ اسی سورۃ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کہ کیا لوگ اصحابِ کہف کے واقعہ کو کوئی عجیب بات سمجھتے ہیں؟ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ابتدائی دور کے مسیحیوں کو خدائے واحد پر ایمان رکھنے کے باعث بت پرست رومیوں کے ہاتھوں بہت تکالیف اٹھانی پڑیں۔ یہ سلسلہ وقفوں کے ساتھ 300 سال تک جاری رہا یہاں تک کہ کانسٹنٹائن نامی بادشاہ خود عیسائی ہوگیا اور اس نے اپنے نئے مذہب کو روم کا قومی مذہب بنادیا۔ خود کو ان مظالم سے بچانے کے لئے ان بے بس مسیحیوں کو زمین دوز غاروں میں پناہ لینی پڑتی تھی جو ”کیٹاکومبز“ کے نام سے آج بھی روم اور سکندریہ کے گردونواح کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان غاروں کے دہانوں پر ان لوگوں نے کتے رکھے ہوتے تھے جو انہیں خطرے سے خبردار کرتے تھے۔ مسیحی اقوام میں کتے سے محبت اسی دور کی نشانی ہے۔ چنانچہ اصحابِ کہف چند عیسائی نوجوان نہیں بلکہ تین صدیوں تک رومیوں کے مظالم سے بچ کر غاروں میں پناہ لینے والے مؤحد مسیحی تھے۔
مکمل تحریر >>

ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے

ایک مولوی صاحب آئے اور انہوں نے سوال کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے۔ آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا ہے؟ یہ بات ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (الحج : 79) کے برخلاف ہے۔
اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا :
اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے۔ لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہے اسلام کے تہتّر (73) فرقے ہو گئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ انہی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہؓ کو سبّ و شتم کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواجِ مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں۔ اولیاء اﷲ کو بُرا کہتے ہیں۔پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو بُرا کہتے ہیں اورپھر بھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔ بلا دِ شام میں ایک فرقہ یزید یہ ہے جو امام حسینؓ پر تبرّہ بازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ اسی مصیبت کو دیکھ کر سلفِ صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی،حنبلی وغیرہ تجویز کئے۔ آجکل نیچریوں کا ایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت ،دوزخ،وحی،ملائک سب باتوں کا منکر ہے۔ یہانتک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سُن کر یہ قصے لکھ دیئے ہیں۔ غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے لیے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا۔
حضرت یہ تقریر کر رہے تھے کہ اس مولوی نے پھر سوال کیا کہ قرآن شریف میں تو حکم ہے کہ لَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران:104) اور آپ نے تو تفرقہ ڈال دیا۔
حضرت نے فرمایا: ہم تو تفرقہ نہیں ڈالتے بلکہ ہم تفرقہ دور کرنے کے واسطے آئے ہیں۔ اگر احمدی نام رکھنے میں ہتک ہے تو پھر شافعی حنبلی کہلانے میں بھی ہتک ہے، مگر یہ نام ان اکابر کے رکھے ہوئے ہیں جن کو آپ بھی صلحا مانتے ہیں۔ وہ شخص بدبخت ہوگا جو ایسے لوگوں پر اعتراض کرے اور اُن کو برا کہے۔ صرف امتیاز کے لیے ان لوگوں نے اپنے یہ نام رکھے تھے۔ ہمارا کا روبارخدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ہم پر اعتراض کرنے والا خدا تعالیٰ پر اعتراض کرتا ہے۔ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے۔
اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو۔ خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔ بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہو سکتی۔امام شافعی اور حنبل وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہو گئی تھیں۔ اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی۔ ہزار ہاگندے آدمی ملے جلے رہتے ۔یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے۔ اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہو جاتا کہ بدعتی اور غیربدعتی میں تمیز نہ ہو سکتی۔ اب بھی ایسا زمانہ آگیا ہے کہ گھر گھر ایک مذہب ہے۔ ہم کو مسلمان ہونے سے انکار نہیں،مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھاگیا ہے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت والوں سے اختلاف کیا اور عام نظروں میں ایک تفرقہ ڈالنے والے بنے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تفرقہ خود خدا ڈالتا ہے۔ جب کھوٹ اور ملاوٹ زیادہ ہو جاتی ہے تو خد اتعالیٰ خود چاہتا ہے کہ ایک تمیز ہو جائے۔
مولوی صاحب نے پھروہی سوال کیا کہ خدا نے تو کہا ہے کہ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (الحج : 79)
فرمایا: کیا اس میں رافضی اور بدعتی اور آجکل کے مسلمان شامل ہیں؟ کیا اس میں آجکل کے وہ لوگ شامل ہیں جو اباحتی ہو رہے ہیں؟ اور شراب اور زنا کو بھی اسلام میں جائز جانتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔اس کے مخاطب تو صحابہؓ ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ قرون ثلاثہ کے بعد فیج اعوج کا زمانہ ہو گا جس میں جھوٹ اور کذب کا افشا ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے لَیْسُوْا مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہُمْ ۔نہ اُن کا مجھ سے کوئی تعلق ہے نہ میرا اُن سے کوئی تعلق ہے۔ وہ لوگ مسلمان کہلائیں گے مگر میرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔
جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں۔ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں۔ میں کوئی بدعت نہیں لایا۔ جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے ایسا ہی احمدی بھی نام ہے بلکہ احمد کے نام میں اسلام کے بانی احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اِتّصال ہے۔ اور یہ اِتّصال دوسرے ناموں میں نہیں۔ احمد، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے۔ اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے۔ حدیث شریف میں محمدی رکھاگیا ہے۔ بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوتاہے۔ احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے۔ آجکل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اوّل آخر کبھی نہیں ہوا اس واسطے کوئی نام ضروری تھا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو مسلمان ہیں وہ احمدی ہیں‘‘۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 499 تا 502۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
مکمل تحریر >>

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مسلم مشاہیر

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے 1882ء میں دعویٰ فرمایا کہ میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اسلام اور قرآن کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے مامور کیا گیا ہوں ۔ اسی مقصد کی خاطر آپ نے ساری زندگی جدوجہد کی اور اس شان سے کی کہ آپ کے دعویٰ کو تسلیم نہ کرنے والوں نے بھی آپ کے شاندار کارناموں کو خراج تحسین پیش کیا اور خدا کی تقدیر نے ان کے پرزور الفاظ کو محفوظ کروادیاتاکہ بعد میں آنے والوں کی ہدایت کا باعث بنتے رہیں ۔
ذیل میں چند مسلم مشاہیر کے قلبی جذبات اور اعترافات درج کئے جاتے ہیں ۔

فرقہ اہل حدیث کے مشہور لیڈر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب

نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کی کتاب ’براہین احمدیہ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’ہماری نظر میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظرسے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی ۔۔۔۔ اور اس کا مو ء لف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی ولسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے ۔ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ و برہم سماج سے اس زور شورسے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشاندہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی وجانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑہ اٹھالیا ہو۔‘ (رسالہ اشاعۃ السنہ جلد 7نمبر6صفحہ169)

مشہور مفسر ، صحافی اور ماہر تعلیم مولانا ابولکلام آزاد صاحب

’ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پامال بنائے رکھا آئندہ بھی جاری رہے ۔۔۔۔ مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہوکر اسلام کیطرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے ، قائم رہے گا ۔‘ (اخبار ملت ، لاہور ۔ 7جنوری 1911ء)

حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف

’حضرت مرزا غلام احمد قادیانی حق پر ہیں اور اپنے دعویٰ میں راستباز اور صادق ہیں ۔ اور آٹھویں پہر اللہ تعالیٰ حق سبحانہ‘ کی عبادت میں مستغرق رہتے ہیں اور اسلام کی ترقی اور دینی امور کی سر بلندی کے لئے دل و جان سے کوشاں ہیں ۔میں ان میں کوئی مذموم اور قبیح چیز نہیں دیکھتا ۔ اگر انہوں نے مہدی اور عیسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ بھی ایسی بات ہے جو جائز ہے ۔‘ (اشارات فریدی جلد 3صفحہ 179ترجمہ فارسی)

چوہدری افضل حق صاحب مفکر احرار

’مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی ۔ ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کرکے اسلام کی نشرواشاعت کے لئے بڑھا ۔۔۔ اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے ۔ (فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں ، صفحہ 124)

ایڈیٹر کرزن گزٹ دہلی ، مرزا حیرت دہلوی صاحب

مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت تعریف کی مستحق ہیں ۔ اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کردی ۔ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کہ بلکہ ایک محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا ۔ (سلسلہ احمدیہ ، صفحہ 189)

مدیر سیاست مولانا سید حبیب صاحب

اس وقت کہ آریہ اور مسیحی مبلغ اسلام پر بے پناہ حملے کررہے تھے اکے دکے جو عالم دین بھی کہیں موجود تھے وہ ناموس شریعت حقہ کے تحفظ میں مصروف ہوگئے مگر کوئی زیادہ کامیاب نہ ہوا اس وقت مرزا غلام احمد صاحب میدان میں اترے اور انہوں نے مسیحی پادریوں اور آریہ اپدیشکوں کے مقابلہ میں اسلام کی طرف سے سینہ سپر ہونے کا تہیہ کرلیا ۔۔۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے ادا کیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کردےئے۔ (تحریک قادیان ، صفحہ 208)

ادیب ، شاعر ، ایڈیٹر علامہ نیاز فتحپوری صاحب

’اس میں کلام نہیں کہ انہو ں نے یقیناًاخلاق اسلامی کو دوبارہ زندہ کیا اور ایک ایسی جماعت پیدا کرکے دکھادی جس کی زندگی کو ہم یقیناًاسوہ نبی کا پرتو کہہ سکتے ہیں ۔ (ملاحظات نیاز فتحپوری ، صفحہ 29)

سید ممتاز علی صاحب امتیاز

مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے ۔ اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے جو سخت سے سخت دل کو تسخیر کرلیتی تھی وہ نہایت باخبر عالم ، بلند ہمت مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے ۔ ہم انہیں مذہباً مسیح موعود تو نہیں مانتے لیکن ان کی ہدایت اور رہنمائی مردہ دلوں کے لئے واقعی مسیحائی تھی ۔ (تہذیب النسواں لاہور ،1908ء)

اخبار ’صادق الاخبار‘ ریواڑی

مرزا صاحب نے اپنی پرزور تقریروں اور شاندار تصانیف سے مخالفین اسلام کو ان کے لچر اعتراضات کے دندان شکن جواب کے لئے ہمیشہ کے لئے ساکت کردیا ہے ۔ اور کردکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے ۔ اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایت اسلام کا کما حقہ ادا کرکے خدمت دین اسلام میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ۔ ( بحوالہ بدر 20 اگست1908ء صفحہ6)
مکمل تحریر >>

Tuesday 28 April 2015

جماعت احمدیہ مسلم کا مختصر تعارف

بانی

جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہیں۔ آپ نے اسلامی کیلنڈر کے مطابق تیرھویں صدی ہجری کے آخر اور چودھویں صدی کے شروع میں یہ دعویٰ فرمایا کہ میں وہی مسیح اور مہدی ہوں جس کا امت محمدیہ ﷺ چودہ سو برس سے انتظار کررہی ہے۔ اور میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو دوبارہ دنیا میں غالب کیا جائے۔

مقصد بعثت

آپ نے اس بات کی اچھی طرح وضاحت فرمائی کہ اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری دین، آنحضرت ﷺ خاتم النبیین اور قرآن کریم آخری شرعی کتاب ہے اور اس میں ہرگز کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ مسیح اور مہدی کا مقصد تو درحقیقت مسلمانوں کو اسلام پر دوبارہ قائم کرنا اور ایمان کو دلوں میں زندہ کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کی اتباع اور برکت کے طفیل اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ مقام عطا فرمایا ہے۔

مثیل مسیح

اس دعویٰ کے ساتھ ہی آپ نے قرآن کریم، احادیث نبویہ ﷺ اور امت کے مسلمہ بزرگوں کی تحریرات سے یہ ثابت کیا کہ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے والے حضرت مسیح ؑ آسمان پر زندہ موجود نہیں بلکہ وفات پاچکے ہیں اور امت محمدیہ ﷺ میں مبعوث ہونے والے مامور کو حضرت مسیح ؑ سے بہت سی مشابہتوں کی وجہ سے تمثیلی طور پر مسیح کا لقب دیاگیا ہے جیسا کہ کسی بڑے سخی کو حاتم طائی اور بہت بہادر کو شیر کہہ دیتے ہیں۔

مسیح اور مہدی ایک ہی وجود ہے

آپ نے ثابت کیا کہ مسیح اور مہدی ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اور اس کی جو علامات قرآن کریم میں اشارۃً اور احادیث نبویہ ﷺ میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں اور بزرگان امت پر خدا نے انکشافات فرمائے وہ سب آپ کے زمانہ اور آپ کی ذات میں پورے ہورہے ہیں۔

انتظار اور ظہور

تیرہویں صدی کے آخر تک یہ علامات ایک ایک کرکے پوری ہورہی تھیں اور تمام عالم اسلام اس موعود کے انتظار میں گھڑیاں گن رہا تھا کہ آپ نے ۱۸۸۲ء میں خدا کے الہام سے ماموریت کا دعویٰ فرمایا اور اسلام کے حق میں تمام مذاہبِ باطلہ خصوصاً عیسائیت کے خلاف عظیم قلمی اور روحانی جہاد شروع کیا جس کی وجہ سے اس دور کے علماء نے اقرار کیا کہ اسلام کے تیرہ سو سال میں ایسی خدمت کسی نے نہیں کی اور آپ کو فتح نصیب جرنیل قرار دیا۔

جماعت کی بنیاد

۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو آپ نے ایک جماعت کی بنیاد رکھی اور پیشگوئیوں کے مطابق اس کا نام جماعت احمدیہ رکھا جس کے ابتدائی ممبر چالیس تھے اور اب کروڑہا تک اس کی تعداد پہنچ چکی ہے۔

نشانات

آپ کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی آسمانی اور زمینی نشانات دکھائے جن میں خصوصیت کے ساتھ ۱۸۹۴ء میں چاند سورج گرہن اور ۱۹۰۲ء میں طاعون کا نشان قابل ذکر ہیں۔ ان کا ذکر الٰہی نوشتوں میں موجود ہے۔ آپ کے دعویٰ کے بعد پیشگوئیوں کے مطابق آپ کی سخت مخالفت ہوئی اور آپ اور آپ کی جماعت کو سخت ابتلاؤں سے گزرنا پڑا۔ مگر وہ بتدریج اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے اور اب دنیا کے ایک سے نوے (۱۹۰) سے زیادہ ممالک میں جماعت احمدیہ کی مضبوط شاخیں قائم ہوچکی ہیں۔

خلافت احمدیہ

حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء (بمطابق ۱۴ شوال ۱۲۵۰ھ) کو قادیان میں پیدا ہوئے اور ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء (بمطابق ۲۴ ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ) کو آپ خدا کے حضور حاضر ہوگئے۔ آپ کے بعد جماعت احمدیہ میں خلافت کا سلسلہ جاری ہوا۔ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد جماعت نے اپنا مرکز ربوہ پاکستان میں بنایا۔

ملت واحدہ

اب جماعت کے پانچویں خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمدصاحب ہیں جن کی سکونت اس وقت لندن میں ہے اور وہاں سے اسلام کی اشاعت کی تمام کاروائیوں کی نگرانی فرمارہے ہیں۔ آپ کا خطبہ جمعہ اور دیگر اہم خطابات سیٹیلائیٹ کیے ذریعہ تمام دنیا میں دیکھے اور سنے جاتے ہیں۔ اور جماعت احمدیہ کے ذریعہ تمام قوموں اور علاقوں اور زمانوں کے افراد ملت واحدہ بن رہے ہیں۔

خدمات

جماعت احمدیہ نے اسلام کی جو عظیم الشان خدمات کی ہیں ان کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
* ۱۰۰ سے زائد زبانوں میں قرآن کریم اور احادیث رسول ﷺ کی اشاعت۔
* دنیا بھر میں ہزارہا مساجد کی تعمیر جن میں سپین میں ۷۰۰ سال کے بعد پہلی مسجد اور براعظم آسٹریلیا کی پہلی مسجد بھی شامل ہے۔
* دکھی انسانیت کی خدمت کے وسیع پروگرام جن میں ہسپتال، سکول ، کالج ، غرباء کے لئے مکانات اور موسمی امداد شامل ہے۔
* بوسنیا، بھارت، اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے لئے خطیر رقم اور دوسری امداد۔
* عالم اسلام کے وقار کو بلند کرنا، آزادی کی تحریکوں میں امداد خصوصاً تحریک پاکستان میں گرانقدر خدمات۔ مسلمانوں کے علمی، اخلاقی، تعلیمی اور اقتصادی معیار کو بڑھانے کی بھرپورکوشش جن کا غیرمتعصب مسلمان رہنماؤں کو بھی اعتراف ہے، جن کو جمع کریں تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔

شرائط بیعت

احمدیت کا پیغام انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلام اور عالم اسلام کی زندگی کا پیغام ہے۔ اس کی ایک دلیل وہ شرائط ہیں جن کو تسلیم کرکے ایک شخص جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہے ۔ ان کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ شرک سے اجتناب
۲۔ جھوٹ، زنا اور دیگر بدیوں سے بچنا
۳۔ نماز پنجگانہ اور تہجد کی ادائیگی، درود شریف اور استغفار پڑھنا اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء کرنا
۴۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو تکلیف نہ دینا
۵۔ اللہ کے ساتھ وفاداری اور اس کی رضا پر راضی رہنا
۶۔ قرآن کریم کی تعلیمات پر کاربند ہونا
۷۔ تکبر اور نخوت سے بچاؤ
۸۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا
۹۔ ہمدردی خلق
۱۰۔ امام مہدی سے پختہ تعلق
ان شرائط کو پڑھ کر خوب واضح ہوجاتا ہے کہ احمدیت کوئی نیا دین اور شریعت پیش نہیں کرتی۔ اور یہ شرائط قرآن و حدیث کہ خلاصہ کے طور پر اخذ کی گئی ہیں۔ جماعت احمدیہ کا کلمہ، ارکان دین، ارکان اسلام اور دیگر اصولی امور وہی ہیں جن پر امت مسلمہ کاربند ہے۔

دعوت

اگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ سچا ہے تو پھر ہر ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ خدا کے مامور کی آواز پر لبیک کہے اور آنحضرت ﷺ کی وصیت کے مطابق امام مہدی کی بیعت کرے۔ یہ دعویٰ قرآن کریم کی روشنی میں پرکھنے کی ہم آپ کو خلوص دل کے ساتھ دعوت دیتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا سے دعا کریں کہ وہ آپ کی رہنمائی کرے اور حق کی راہ دکھائے۔ آمین!
مزید معلومات کے لئے درج ذیل کتب کا مطالعہ کریں: 
مکمل تحریر >>