Wednesday 29 April 2015

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ زندگی

قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے ماموروں کی جو سچی تاریخ پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے ماموروں کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل دعویٰ سے پہلے ان کی پاک زندگی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں شرک اور دوسری بدیوں سے محفوظ رکھتا ہے اور وہ قوم کے اندر ایک نہایت اعلیٰ اخلاق سے بھر پور زندگی گزارتے ہیں ۔ اورقوم ان کے پاک کردار کی گواہی دینے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔
دعویٰ کے بعد دشمن ان پر ہر طرح کے الزام لگاتا اور گند اچھالتا ہے مگر دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر کسی طرح بھی انگلی نہیں اٹھاسکتا ۔ پس دعویٰ کے بعد کے اعتراضات قابل توجہ نہیں کیونکہ وہ دشمنی کی نظر سے کئے جاتے ہیں ۔ بلکہ وہ پاک کردار لائق توجہ ہے جب وہ ایک عام فرد کی حیثیت سے زندگی گزار رہا ہوتا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمدقادیانی نے اس زمانہ میں خدا کے مامور ہونے کا دعویٰ کیا اور فرمایا کہ میں وہی موعود ہوں جس کا امت محمدیہ ﷺ چودہ سو سال سے انتظار کر رہی ہے ۔ آپ نے اپنی صداقت کے دلائل میں اپنی دعویٰ سے پہلے کی پاک زندگی کو بھی پیش فرمایا ہے ۔ آپ نے اپنے مخالفین کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا ۔

چیلنج

’تم کوئی عیب افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے ۔ تا تم خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا ۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کرسکتا ہے ۔ پس یہ خدا کا فضل ہے جو اس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے ۔ ‘ (تذکرۃ الشہادتین ، صفحہ ۶۲)
پھر فرمایا ۔
’ میری ایک عمر گزر گئی ہے مگر کون ثابت کرسکتا ہے کہ کبھی میرے منہ سے جھوٹ نکلا ہے ۔ پھر جب میں نے محض للہ انسانوں پر جھوٹ بولنا متروک رکھا اور بارہا اپنی جان اور مال کو صدق پر قربان کیا تو پھر میں خدا تعالیٰ پر کیوں جھوٹ بولتا ۔‘ (حیات احمد جلد اول ، صفحہ ۱۲۶)
اس چیلنج پر ایک سو سال ہونے کو آئے ہیں ۔ مگر کسی کو اس کا جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ دعویٰ کے بعد تو مخالفین ہر طرح کے الزام لگایا ہی کرتے ہیں ۔ مگر دعویٰ سے پہلے کی زندگی پر نہ صرف کوئی انگلی نہیں اٹھاسکا بلکہ بیسیوں لوگوں نے آپ کی پاکیزگی کی گواہی دی جنہوں نے آپ کو دیکھا اور جن کا آپ سے واسطہ پڑا ۔

مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی

مشہور اہل حدیث عالم مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی نے دعویٰ کے بعد آپ کی شدید مخالفت کی ۔ مگر اس سے پہلے انہوں نے آپ کی کتاب براہین احمدیہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ۔
’موء لف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے (واللہ حسیبہ) شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار اور صداقت شعار ہیں ۔ ‘ (اشاعۃ السنۃ جلد ۷ ، صفحہ ۹)

مولانا ابوالکلام آزاد صاحب

ہندوستان کے مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور صحافی ابوالکلام آزاد گواہی دیتے ہیں ۔
’کیریکٹر کے لحاظ سے مرزا صاحب کے دامن پر سیاہی کا چھوٹے سے چھوٹا دھبہ بھی نظر نہیں آتا ۔ وہ ایک پاکباز کا جینا جیا اور اس نے ایک متقی کی زندگی بسر کی ۔ غرضیکہ مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی کے پچاس سالوں نے بلحاظ اخلاق و عادات اور کیا بلحاظ خدمات و حمایت دین مسلمانان ہند میں ان کو ممتاز ، برگزیدہ اور قابل رشک مرتبہ پر پہنچا دیا ۔‘ (اخبار وکیل امرتسر ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء)

منشی سراج الدین صاحب

مشہور مسلم لیڈر اور صحافی اور شاعر مولانا ظفر علی خان صاحب کے والد بزرگوار منشی سراج الدین صاحب ایڈیٹر اخبار زمیندار گواہی دیتے ہیں ۔
’ ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے ۔۔۔ آپ بناوٹ اور افتراء سے بری تھے ۔‘ (اخبار زمیندار مئی ۱۹۰۸ء)

سیالکوٹ کے عوام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ سے پہلے عین جوانی کا کچھ عرصہ سیالکوٹ میں گزارا ۔ اور آپ کے تمام ملنے جلنے والے آپ کے تقویٰ اور نیکی کے دل سے قائل تھے ۔ جن لوگوں کے پاس آپ نے قیام فرمایا وہ آپ کو ولی اللہ قرار دیتے تھے ۔ (بحوالہ الفضل ۸ اکتوبر ، ۱۹۲۵ء)

سید میر حسن صاحب

ہندوستان میں علوم شرقیہ کے بلند پایہ عالم اور علامہ اقبال کے استاد مولوی سید میر حسن صاحب نے آپ کو اسی دور میں ۲۸ سال کی عمرمیں دیکھا اور بعد میں یوں گواہی دی ۔ آپ عزلت پسند اور پارسا اور فضول و لغو سے مجتنب اور محترز تھے ۔ ادنیٰ تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہوجاتا تھا کہ حضرت اپنے ہر قول و فعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں ۔ (سیرۃ المہدی ، جلد اول ، صفحہ ۱۵۴، ۲۷۰)

حکیم مظہر حسین صاحب

سیالکوٹ کے حکیم مظہر حسین صاحب جو بعد میں آپ کے شدید مخالف بنے انہوں نے آپ کے متعلق لکھا ۔
’ثقہ صورت ، عالی حوصلہ اور بلند خیالات کا انسان ‘ (اخبار الحکم ، ۷ اپریل ۱۹۳۴ء)

قادیان کا ہندو

آپ کے حق میں گواہی دینے والوں میں آپ کے گاؤں قادیان کا وہ ہندو بھی شامل ہے جس نے بچپن سے آخر تک آپ کو دیکھا ۔ وہ کہتا ہے ۔ ’ میں نے بچپن سے مرزا غلام احمد کو دیکھا ہے میں اور وہ ہم عصر ہیں ۔ اور قادیان میرا آنا جانا ہمیشہ رہتا ہے اور اب بھی دیکھتا ہوں جیسی عمدہ عادات اب ہیں ایسی ہی نیک خصلتیں اور عادات پہلے تھیں ۔ سچا امانت دار اور نیک ، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پرمیشور مرزا صاحب کی شکل اختیار کرکے زمین پر اتر آیا ہے ۔‘ (تذکرہ المہدی ، جلد ۲ صفحہ ۳۴)

مولوی غلام رسول صاحب

اس دور کے ایک بزرگ مولوی غلام رسول صاحب نے بچپن میں آپ کی پاکیزہ فطرت کو دیکھ کر فرمایا ۔ ’ اگر اس زمانے میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے ۔‘ (رجسٹر روایات ، نمبر ۱۲ ، صفحہ ۱۰۴)

وکیل کی گواہی

جوانی میں آپ کی راستبازی اور سچ گوئی کا شہرہ تھا ۔ آپ نے کئی خاندانی مقدمات میں اپنے خاندان کے خلاف گواہی دی اور ان کی ناراضگی مول لی مگر سچ کا دامن نہ چھوڑا ۔ دعویٰ سے پہلے ایک عیسائی نے آپ کے خلاف مقدمہ کیا جس میں آپ کے وکیل کے مطابق جھوٹ بولے بغیر نجات نہ تھی ۔ مگر آپ نے جھوٹ بولنے سے انکار کردیا ۔ اور خدا نے آپ کو فتح دی ۔ اس مقدمہ میں آپ کے وکیل فضل الدین صاحب آپ کی اس فوق العادت راست گفتاری کے گواہ تھے ۔ وہ کہتے ہیں ۔
’مرزا صاحب کی عظیم الشان شخصیت اور اخلاقی کمال کا میں قائل ہوں ۔۔۔۔ میں انہیں کامل راستباز یقین کرتا ہوں ۔ ‘ (الحکم ۱۴ نومبر ۱۹۳۴ء)

محمدشریف صاحب بنگلوری

نامور صحافی جناب مولانا شریف بنگلوری ایڈیٹر منشور محمدی نے آپ کے متعلق یہ کلمات استعمال فرمائے ۔
افضل العلماء فاضل جلیل جرنیل فخر اہل اسلام ہند مقبول بارگہ صمد جناب مولوی مرزا غلام احمد صاحب ۔ (منشور محمدی بنگلور ، ۲۵ رجب ۱۳۰۰ھ)

حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی

مشہور باکمال صوفی حضرت احمد جان صاحب لدھیانوی نے آپ کے خدمت دین کے بے پایاں جذبوں کو دیکھ کر فرمایا ۔
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے
حضرت مسیح موعود و مہدی موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے پاکیزہ کردار اور اعلیٰ اخلاق کے بارہ میں جتنی گواہیاں اوپردرج کی گئی ہیں ان میں کوئی ایک بھی احمدی نہیں ہے ۔ بلکہ کئی تو حضرت مرزا صاحب کے سخت مخالف ہیں ۔ مگر خدا نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کے حق میں ان کی زبان سے یہ کلمات جاری کروائے اور حضور ہی کے الفاظ میں سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے جس کی طرف سب نظریں اٹھ رہی تھیں ۔ خدا نے اسی کو مسیحا بنادیا ۔ کہیں ہم اس کو پہچاننے سے محروم تو نہیں رہ گئے ؟ سوچو ! سوچو ! سوچو ! اور غور کرو ۔
مکمل تحریر >>

شیعہ احباب سے چند سوالات

کیا امامت ارکانِ اسلام میں شامل ہے؟

قرآنِ کریم کی رو سے مسلمانوں کو اللہ، یومِ آخرت ، ملائکہ، الہامی کتابوں،اور رسولوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے اور اِن کا انکار کرنے والوں کو سخت گمراہ قرار دیا گیا ہے:
”نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف پھیرو۔ بلکہ نیکی اسی کی ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یومِ آخرت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر۔۔۔اور جو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے “ (2:178) ”اور جو اللہ کا انکار کرے اور اس کے فرشتوں کا اور اُس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور یومِ آخر کا تو یقینًا وہ بہت دور کی گمراہی میں بھٹک چکا ہے۔ (4:137)
لیکن شیعہ عقیدہ کے مطابق امامت بھی ارکان اسلام میں داخل ہے اور مسلمان ہونے کے لئے اس پر ایمان لانا بھی لازمی ہے۔ جبکہ قرآنِ کریم میں کسی جگہ بھی امامت یا اماموں پر ایمان لانے کا حکم نہیں ملتا۔ نہج البلاغہ میں، جو حضرت علیؓ کے خطبات کا مجموعہ ہے، جہاں بھی حضرت علیؓ ایمانیات کا ذکر فرماتے ہیں، وہاں صرف توحید و رسالت کی گواہی دیتے ہیں اور کسی جگہ بھی امامت پر ایمان لانے کا ذکر تک نہیں فرماتے۔

کیا ہرامام پہلے نبی ہوتا ہے؟

سورۃ البقرۃ کی آیت (2:125) سے شیعہ احباب استدلال کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کو پہلے نبی بنایا گیا۔ پھر چند کلمات کے ذریعے اُن کی آزمائش کی گئی۔ جب وہ اس امتحان میں پورا اترے تو انہیں امام بنادیا گیا۔ اس استدلال سے جہاں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام کا درجہ نبی سے برتر ہوتا ہے وہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا امام بنانے کا یہی طریقہ ہے تو پھرشیعہ احباب کو یہ ماننا پڑے گا کہ ان کے تمام ائمہ کرام کو پہلے نبی بنایا گیا، پھر اُن کو آزمایا گیا اور پھر انہیں امام بنادیا گیا۔ اس سے ایک طرف تو انہیں نبی اکرم ﷺ کے آخری نبی ہونے کا عقیدہ ترک کرنا پڑے گا اور اُن کے بعد بارہ انبیاءکا آنا ماننا پڑے گا اور دوسری طرف ایک بڑی الجھن یہ سلجھانی پڑے گی کہ اُن کے عقیدہ کے مطابق تو اُن کے ائمہ کرام پیدائشی امام اور معصوم ہوتے ہیں، تو کیا انہیں پیدائش سے پہلے نبی بنایا گیا اور پیدائش سے پہلے ہی اُنہیں آزمایا گیا اور پھر امامت کے درجے پر فائز کردیا گیا؟

کیا بیویاں اہل بیت میں شامل نہیں ہوتیں؟

شیعہ احباب کا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ازواجِ مطہّرات اُن کے اہل بیت میں شامل نہیں ہیں اور سورہ احزاب کی آیت (33:34) میں جن اہل بیت کا ذکر ہے اُن سے سیّدہ فاطمہ الزہراؓ، حضرت علی ؓ، حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ ہی مراد ہیں۔ جبکہ مندرجہ ذیل آیات میں حضرت ابراہیم ؑ کی بیوی اور حضرت موسیٰ ؑ کے ماں باپ اور بہن بھائیوں کوبھی اہلِ بیت میں شمار کیا گیا ہے۔ فرشتے حضرت ابراہیم ؑ کی بیوی کومخاطب کرکے کہتے ہیں:
” کیا تو اللہ کے فیصلے پر تعجب کرتی ہے۔ تم پر اللہ کی رحمت اور برکات ہوں اے اہلِ بیت“ (ھود ۔ 11:74)
جب حضرت موسیٰ ؑ نے بچپن میں فرعون کے گھر میں کسی بھی عورت کا دودھ پینے سے انکار کردیا تو اُن کی بہن نے فرعون کے گھر والوں سے کہا:
”کیا میں تمہیں ایسے اہل بیت کا پتہ دوں جو تمہارے لئے اس کی پرورش کرسکیں اور وہ اس کے خیرخواہ ہوں؟“ (28:13)

قرآن اور امام الگ الگ ہوگئے؟

شیعہ روایات کے بقول نبی اکرم ﷺ نے خطبہ حجّۃ الوداع میں ارشاد فرمایا تھا کہ میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں یعنی قرآن اور اپنی عترت (اولاد) چھوڑ کر جارہاہوں۔ جب تک انہیں پکڑے رکھوگے گمراہ نہ ہوگے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک حوض پر میرے پاس لوٹ نہ آئیں۔ یعنی قیامت تک ساتھ رہیں گے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ شیعہ احباب کے آخری یعنی بارھویں امام غائب ہیں اور قرآن ہمارے پاس رہ گیا ہے۔ اس صورت میں ہم مکمل ہدایت حاصل نہیں کرسکتے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بعض شیعہ عقائد کے مطابق اصل قرآن امام غائب کے پاس ہے۔ اس صورت میں ہم قرآن اور امام دونوں سے ہدایت حاصل نہیں کرسکتے۔ اب اگر ہم گمراہ ہوں تو اس میں کس کا قصور ہوگا؟
مکمل تحریر >>

احیائے موتٰی کی حقیقت

قرآنِ کریم الٰہی پیغام کے منکرین اور مخالفین کو مردہ کہہ کر پکارتا ہے [27:81, 35:23, 8:25] جبکہ نبی کی دعوت کو قبول کرنے والے مومنین اور خدا کی راہ میں اپنی جان دینے والوں کو زندہ قرار دیتا ہے۔ [36:71, 2:155] بدقسمتی سے غیر احمدی مسلمان علماءایسی آیات کی تعبیر و تشریح حقیقی روحانی معنوں کی بجائے ظاہری الفاظ کے مطابق کرتے ہیں۔ ایسی تشریحات کرتے ہوئے یہ علماءقرآنِ کریم کا وہ محکم اصول نظر انداز کردیتے ہیں جس کے مطابق مردے کبھی واپس نہیں آتے اور جو ایک دفعہ فوت ہوجاتا ہے وہ قیامت سے پہلے دوبارہ زندہ نہیں ہوگا۔ [21:96, 23:100 23:101, 36:32, 39:43]

سو سال مرنے کے بعد زندہ

یہ علماءکہتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی آیت (2:260) کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایک نبی کو سو سال کے لئے مار دیا اور پھر دوبارہ زندہ کردیا۔اس واقعے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ 586 قبل مسیح میں نوبخت نصر کے ہاتھوں یروشلم کی تباہی کے بعد حزقیل نبی نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ یہ شہر دوبارہ کب آباد ہوگا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خواب دکھایا جس میں بتایا گیا تھاکہ یہ شہر سو سال کے بعد دوبارہ آباد ہوگا۔ یہ خواب بائبل میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ (حزقیل۔37)۔ یہ قرآنِ کریم کا طرزِ بیان ہے کہ خواب میں دیکھے گئے واقعات (مثلًا حضرت یوسف ؑ کی خواب ۔ 12:5) کو بھی ایسے بیان کیا جاتا ہے گویا کہ وہ حقیقت میں دیکھے جارہے ہیں۔ بصورتِ دیگرحزقیل نبی کو سو سال کے لئے ماردینا اور پھر زندہ کردینا اُن کے سوال کا جواب نہیں ہوسکتا۔اُن کا سوال شہر کے دوبارہ آباد ہونے کے متعلق تھا جس کا جواب انہیں خواب میں نظارہ دکھا کر دے دیا گیا۔ یہ خواب بعد میں ویسے ہی پورا بھی ہوگیا اور ٹھیک ایک سو سال بعد یروشلم دوبارہ آباد ہوگیا۔ اُن کے کھانے کے تازہ رہنے اور گدھے کے زندہ ہونے کی طرف اشارہ کرنے کا بھی یہی مطلب تھا کہ وہ سو سال تک مرے نہیں رہے بلکہ یہ چند گھڑیوں کا ایک خواب تھا۔

ذبح شدہ پرندوں کا دوبارہ زندہ ہونا

بدقسمتی سے سورہ البقرۃ کی آیت (2:261) میں بیان کردہ واقعہ کی بھی ظاہری الفاظ میں تشریح کی جاتی ہے گویا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے ظاہری مردوں کے زندہ ہونے کے متعلق سوال کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے حقیقتًا چار پرندوں کو ذبح کیا، اُن کا قیمہ بنایا اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کرکے حضرت ابراہیم ؑ کو بتایا کہ اس طرح وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے۔اصل حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا تھا کہ روحانی طور پر مردہ یہ لوگ کیسے زندہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں پرندوں کی مثال کے ذریعے سمجھایا کہ جس طرح پرندوں کو سدھا کراپنے ساتھ مانوس کیا جاتا ہے اور پھر انہیں بلایا جائے تو اگر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی ہوں تو وہ وہاں سے بھی اُن کے پاس آجاتے ہیں۔اسی طرح انسانوں کے ساتھ بھی دلی تعلقات استوار کئے جائیں اور پھر انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بُلایا جائے تو وہ اُس کی طرف آسکتے ہیں۔ اس آیت میں ”فصرھن الیک“ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔ عربی زبان کے قواعد کے مطابق اگر ”صُر“ کے ساتھ ”الیٰ“ کا صلہ استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب اپنی طرف مائل کرنا ہوتا ہے۔ اس صلہ کے بغیر اس کا مطلب کاٹنا ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ یہاں پرندوں کا قیمہ کرنا مراد نہیں بلکہ اپنے ساتھ مانوس کرنا مراد ہے۔

اصحابِ کہف

اصحابِ کہف کا واقعہ بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہے جسے قوانینِ قدرت سے بالا اور ایک مافوق الفطرت بات بنا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ اسی سورۃ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کہ کیا لوگ اصحابِ کہف کے واقعہ کو کوئی عجیب بات سمجھتے ہیں؟ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ابتدائی دور کے مسیحیوں کو خدائے واحد پر ایمان رکھنے کے باعث بت پرست رومیوں کے ہاتھوں بہت تکالیف اٹھانی پڑیں۔ یہ سلسلہ وقفوں کے ساتھ 300 سال تک جاری رہا یہاں تک کہ کانسٹنٹائن نامی بادشاہ خود عیسائی ہوگیا اور اس نے اپنے نئے مذہب کو روم کا قومی مذہب بنادیا۔ خود کو ان مظالم سے بچانے کے لئے ان بے بس مسیحیوں کو زمین دوز غاروں میں پناہ لینی پڑتی تھی جو ”کیٹاکومبز“ کے نام سے آج بھی روم اور سکندریہ کے گردونواح کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان غاروں کے دہانوں پر ان لوگوں نے کتے رکھے ہوتے تھے جو انہیں خطرے سے خبردار کرتے تھے۔ مسیحی اقوام میں کتے سے محبت اسی دور کی نشانی ہے۔ چنانچہ اصحابِ کہف چند عیسائی نوجوان نہیں بلکہ تین صدیوں تک رومیوں کے مظالم سے بچ کر غاروں میں پناہ لینے والے مؤحد مسیحی تھے۔
مکمل تحریر >>

ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے

ایک مولوی صاحب آئے اور انہوں نے سوال کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے۔ آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا ہے؟ یہ بات ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (الحج : 79) کے برخلاف ہے۔
اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا :
اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے۔ لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہے اسلام کے تہتّر (73) فرقے ہو گئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ انہی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہؓ کو سبّ و شتم کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواجِ مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں۔ اولیاء اﷲ کو بُرا کہتے ہیں۔پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو بُرا کہتے ہیں اورپھر بھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔ بلا دِ شام میں ایک فرقہ یزید یہ ہے جو امام حسینؓ پر تبرّہ بازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ اسی مصیبت کو دیکھ کر سلفِ صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی،حنبلی وغیرہ تجویز کئے۔ آجکل نیچریوں کا ایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت ،دوزخ،وحی،ملائک سب باتوں کا منکر ہے۔ یہانتک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سُن کر یہ قصے لکھ دیئے ہیں۔ غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے لیے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا۔
حضرت یہ تقریر کر رہے تھے کہ اس مولوی نے پھر سوال کیا کہ قرآن شریف میں تو حکم ہے کہ لَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران:104) اور آپ نے تو تفرقہ ڈال دیا۔
حضرت نے فرمایا: ہم تو تفرقہ نہیں ڈالتے بلکہ ہم تفرقہ دور کرنے کے واسطے آئے ہیں۔ اگر احمدی نام رکھنے میں ہتک ہے تو پھر شافعی حنبلی کہلانے میں بھی ہتک ہے، مگر یہ نام ان اکابر کے رکھے ہوئے ہیں جن کو آپ بھی صلحا مانتے ہیں۔ وہ شخص بدبخت ہوگا جو ایسے لوگوں پر اعتراض کرے اور اُن کو برا کہے۔ صرف امتیاز کے لیے ان لوگوں نے اپنے یہ نام رکھے تھے۔ ہمارا کا روبارخدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ہم پر اعتراض کرنے والا خدا تعالیٰ پر اعتراض کرتا ہے۔ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے۔
اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو۔ خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔ بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہو سکتی۔امام شافعی اور حنبل وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہو گئی تھیں۔ اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی۔ ہزار ہاگندے آدمی ملے جلے رہتے ۔یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے۔ اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہو جاتا کہ بدعتی اور غیربدعتی میں تمیز نہ ہو سکتی۔ اب بھی ایسا زمانہ آگیا ہے کہ گھر گھر ایک مذہب ہے۔ ہم کو مسلمان ہونے سے انکار نہیں،مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھاگیا ہے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت والوں سے اختلاف کیا اور عام نظروں میں ایک تفرقہ ڈالنے والے بنے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تفرقہ خود خدا ڈالتا ہے۔ جب کھوٹ اور ملاوٹ زیادہ ہو جاتی ہے تو خد اتعالیٰ خود چاہتا ہے کہ ایک تمیز ہو جائے۔
مولوی صاحب نے پھروہی سوال کیا کہ خدا نے تو کہا ہے کہ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (الحج : 79)
فرمایا: کیا اس میں رافضی اور بدعتی اور آجکل کے مسلمان شامل ہیں؟ کیا اس میں آجکل کے وہ لوگ شامل ہیں جو اباحتی ہو رہے ہیں؟ اور شراب اور زنا کو بھی اسلام میں جائز جانتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔اس کے مخاطب تو صحابہؓ ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ قرون ثلاثہ کے بعد فیج اعوج کا زمانہ ہو گا جس میں جھوٹ اور کذب کا افشا ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے لَیْسُوْا مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہُمْ ۔نہ اُن کا مجھ سے کوئی تعلق ہے نہ میرا اُن سے کوئی تعلق ہے۔ وہ لوگ مسلمان کہلائیں گے مگر میرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔
جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں۔ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں۔ میں کوئی بدعت نہیں لایا۔ جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے ایسا ہی احمدی بھی نام ہے بلکہ احمد کے نام میں اسلام کے بانی احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اِتّصال ہے۔ اور یہ اِتّصال دوسرے ناموں میں نہیں۔ احمد، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے۔ اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے۔ حدیث شریف میں محمدی رکھاگیا ہے۔ بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوتاہے۔ احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے۔ آجکل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اوّل آخر کبھی نہیں ہوا اس واسطے کوئی نام ضروری تھا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو مسلمان ہیں وہ احمدی ہیں‘‘۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 499 تا 502۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
مکمل تحریر >>

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مسلم مشاہیر

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے 1882ء میں دعویٰ فرمایا کہ میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اسلام اور قرآن کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے مامور کیا گیا ہوں ۔ اسی مقصد کی خاطر آپ نے ساری زندگی جدوجہد کی اور اس شان سے کی کہ آپ کے دعویٰ کو تسلیم نہ کرنے والوں نے بھی آپ کے شاندار کارناموں کو خراج تحسین پیش کیا اور خدا کی تقدیر نے ان کے پرزور الفاظ کو محفوظ کروادیاتاکہ بعد میں آنے والوں کی ہدایت کا باعث بنتے رہیں ۔
ذیل میں چند مسلم مشاہیر کے قلبی جذبات اور اعترافات درج کئے جاتے ہیں ۔

فرقہ اہل حدیث کے مشہور لیڈر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب

نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کی کتاب ’براہین احمدیہ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’ہماری نظر میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظرسے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی ۔۔۔۔ اور اس کا مو ء لف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی ولسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے ۔ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ و برہم سماج سے اس زور شورسے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کی نشاندہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت مالی وجانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑہ اٹھالیا ہو۔‘ (رسالہ اشاعۃ السنہ جلد 7نمبر6صفحہ169)

مشہور مفسر ، صحافی اور ماہر تعلیم مولانا ابولکلام آزاد صاحب

’ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پامال بنائے رکھا آئندہ بھی جاری رہے ۔۔۔۔ مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہوکر اسلام کیطرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے ، قائم رہے گا ۔‘ (اخبار ملت ، لاہور ۔ 7جنوری 1911ء)

حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف

’حضرت مرزا غلام احمد قادیانی حق پر ہیں اور اپنے دعویٰ میں راستباز اور صادق ہیں ۔ اور آٹھویں پہر اللہ تعالیٰ حق سبحانہ‘ کی عبادت میں مستغرق رہتے ہیں اور اسلام کی ترقی اور دینی امور کی سر بلندی کے لئے دل و جان سے کوشاں ہیں ۔میں ان میں کوئی مذموم اور قبیح چیز نہیں دیکھتا ۔ اگر انہوں نے مہدی اور عیسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ بھی ایسی بات ہے جو جائز ہے ۔‘ (اشارات فریدی جلد 3صفحہ 179ترجمہ فارسی)

چوہدری افضل حق صاحب مفکر احرار

’مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی ۔ ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کرکے اسلام کی نشرواشاعت کے لئے بڑھا ۔۔۔ اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے ۔ (فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں ، صفحہ 124)

ایڈیٹر کرزن گزٹ دہلی ، مرزا حیرت دہلوی صاحب

مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت تعریف کی مستحق ہیں ۔ اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کردی ۔ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کہ بلکہ ایک محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا ۔ (سلسلہ احمدیہ ، صفحہ 189)

مدیر سیاست مولانا سید حبیب صاحب

اس وقت کہ آریہ اور مسیحی مبلغ اسلام پر بے پناہ حملے کررہے تھے اکے دکے جو عالم دین بھی کہیں موجود تھے وہ ناموس شریعت حقہ کے تحفظ میں مصروف ہوگئے مگر کوئی زیادہ کامیاب نہ ہوا اس وقت مرزا غلام احمد صاحب میدان میں اترے اور انہوں نے مسیحی پادریوں اور آریہ اپدیشکوں کے مقابلہ میں اسلام کی طرف سے سینہ سپر ہونے کا تہیہ کرلیا ۔۔۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے ادا کیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کردےئے۔ (تحریک قادیان ، صفحہ 208)

ادیب ، شاعر ، ایڈیٹر علامہ نیاز فتحپوری صاحب

’اس میں کلام نہیں کہ انہو ں نے یقیناًاخلاق اسلامی کو دوبارہ زندہ کیا اور ایک ایسی جماعت پیدا کرکے دکھادی جس کی زندگی کو ہم یقیناًاسوہ نبی کا پرتو کہہ سکتے ہیں ۔ (ملاحظات نیاز فتحپوری ، صفحہ 29)

سید ممتاز علی صاحب امتیاز

مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے ۔ اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے جو سخت سے سخت دل کو تسخیر کرلیتی تھی وہ نہایت باخبر عالم ، بلند ہمت مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے ۔ ہم انہیں مذہباً مسیح موعود تو نہیں مانتے لیکن ان کی ہدایت اور رہنمائی مردہ دلوں کے لئے واقعی مسیحائی تھی ۔ (تہذیب النسواں لاہور ،1908ء)

اخبار ’صادق الاخبار‘ ریواڑی

مرزا صاحب نے اپنی پرزور تقریروں اور شاندار تصانیف سے مخالفین اسلام کو ان کے لچر اعتراضات کے دندان شکن جواب کے لئے ہمیشہ کے لئے ساکت کردیا ہے ۔ اور کردکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے ۔ اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایت اسلام کا کما حقہ ادا کرکے خدمت دین اسلام میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ۔ ( بحوالہ بدر 20 اگست1908ء صفحہ6)
مکمل تحریر >>

Tuesday 28 April 2015

جماعت احمدیہ مسلم کا مختصر تعارف

بانی

جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہیں۔ آپ نے اسلامی کیلنڈر کے مطابق تیرھویں صدی ہجری کے آخر اور چودھویں صدی کے شروع میں یہ دعویٰ فرمایا کہ میں وہی مسیح اور مہدی ہوں جس کا امت محمدیہ ﷺ چودہ سو برس سے انتظار کررہی ہے۔ اور میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو دوبارہ دنیا میں غالب کیا جائے۔

مقصد بعثت

آپ نے اس بات کی اچھی طرح وضاحت فرمائی کہ اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری دین، آنحضرت ﷺ خاتم النبیین اور قرآن کریم آخری شرعی کتاب ہے اور اس میں ہرگز کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ مسیح اور مہدی کا مقصد تو درحقیقت مسلمانوں کو اسلام پر دوبارہ قائم کرنا اور ایمان کو دلوں میں زندہ کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کی اتباع اور برکت کے طفیل اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ مقام عطا فرمایا ہے۔

مثیل مسیح

اس دعویٰ کے ساتھ ہی آپ نے قرآن کریم، احادیث نبویہ ﷺ اور امت کے مسلمہ بزرگوں کی تحریرات سے یہ ثابت کیا کہ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے والے حضرت مسیح ؑ آسمان پر زندہ موجود نہیں بلکہ وفات پاچکے ہیں اور امت محمدیہ ﷺ میں مبعوث ہونے والے مامور کو حضرت مسیح ؑ سے بہت سی مشابہتوں کی وجہ سے تمثیلی طور پر مسیح کا لقب دیاگیا ہے جیسا کہ کسی بڑے سخی کو حاتم طائی اور بہت بہادر کو شیر کہہ دیتے ہیں۔

مسیح اور مہدی ایک ہی وجود ہے

آپ نے ثابت کیا کہ مسیح اور مہدی ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اور اس کی جو علامات قرآن کریم میں اشارۃً اور احادیث نبویہ ﷺ میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں اور بزرگان امت پر خدا نے انکشافات فرمائے وہ سب آپ کے زمانہ اور آپ کی ذات میں پورے ہورہے ہیں۔

انتظار اور ظہور

تیرہویں صدی کے آخر تک یہ علامات ایک ایک کرکے پوری ہورہی تھیں اور تمام عالم اسلام اس موعود کے انتظار میں گھڑیاں گن رہا تھا کہ آپ نے ۱۸۸۲ء میں خدا کے الہام سے ماموریت کا دعویٰ فرمایا اور اسلام کے حق میں تمام مذاہبِ باطلہ خصوصاً عیسائیت کے خلاف عظیم قلمی اور روحانی جہاد شروع کیا جس کی وجہ سے اس دور کے علماء نے اقرار کیا کہ اسلام کے تیرہ سو سال میں ایسی خدمت کسی نے نہیں کی اور آپ کو فتح نصیب جرنیل قرار دیا۔

جماعت کی بنیاد

۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو آپ نے ایک جماعت کی بنیاد رکھی اور پیشگوئیوں کے مطابق اس کا نام جماعت احمدیہ رکھا جس کے ابتدائی ممبر چالیس تھے اور اب کروڑہا تک اس کی تعداد پہنچ چکی ہے۔

نشانات

آپ کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی آسمانی اور زمینی نشانات دکھائے جن میں خصوصیت کے ساتھ ۱۸۹۴ء میں چاند سورج گرہن اور ۱۹۰۲ء میں طاعون کا نشان قابل ذکر ہیں۔ ان کا ذکر الٰہی نوشتوں میں موجود ہے۔ آپ کے دعویٰ کے بعد پیشگوئیوں کے مطابق آپ کی سخت مخالفت ہوئی اور آپ اور آپ کی جماعت کو سخت ابتلاؤں سے گزرنا پڑا۔ مگر وہ بتدریج اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے اور اب دنیا کے ایک سے نوے (۱۹۰) سے زیادہ ممالک میں جماعت احمدیہ کی مضبوط شاخیں قائم ہوچکی ہیں۔

خلافت احمدیہ

حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء (بمطابق ۱۴ شوال ۱۲۵۰ھ) کو قادیان میں پیدا ہوئے اور ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء (بمطابق ۲۴ ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ) کو آپ خدا کے حضور حاضر ہوگئے۔ آپ کے بعد جماعت احمدیہ میں خلافت کا سلسلہ جاری ہوا۔ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد جماعت نے اپنا مرکز ربوہ پاکستان میں بنایا۔

ملت واحدہ

اب جماعت کے پانچویں خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمدصاحب ہیں جن کی سکونت اس وقت لندن میں ہے اور وہاں سے اسلام کی اشاعت کی تمام کاروائیوں کی نگرانی فرمارہے ہیں۔ آپ کا خطبہ جمعہ اور دیگر اہم خطابات سیٹیلائیٹ کیے ذریعہ تمام دنیا میں دیکھے اور سنے جاتے ہیں۔ اور جماعت احمدیہ کے ذریعہ تمام قوموں اور علاقوں اور زمانوں کے افراد ملت واحدہ بن رہے ہیں۔

خدمات

جماعت احمدیہ نے اسلام کی جو عظیم الشان خدمات کی ہیں ان کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
* ۱۰۰ سے زائد زبانوں میں قرآن کریم اور احادیث رسول ﷺ کی اشاعت۔
* دنیا بھر میں ہزارہا مساجد کی تعمیر جن میں سپین میں ۷۰۰ سال کے بعد پہلی مسجد اور براعظم آسٹریلیا کی پہلی مسجد بھی شامل ہے۔
* دکھی انسانیت کی خدمت کے وسیع پروگرام جن میں ہسپتال، سکول ، کالج ، غرباء کے لئے مکانات اور موسمی امداد شامل ہے۔
* بوسنیا، بھارت، اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے لئے خطیر رقم اور دوسری امداد۔
* عالم اسلام کے وقار کو بلند کرنا، آزادی کی تحریکوں میں امداد خصوصاً تحریک پاکستان میں گرانقدر خدمات۔ مسلمانوں کے علمی، اخلاقی، تعلیمی اور اقتصادی معیار کو بڑھانے کی بھرپورکوشش جن کا غیرمتعصب مسلمان رہنماؤں کو بھی اعتراف ہے، جن کو جمع کریں تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔

شرائط بیعت

احمدیت کا پیغام انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلام اور عالم اسلام کی زندگی کا پیغام ہے۔ اس کی ایک دلیل وہ شرائط ہیں جن کو تسلیم کرکے ایک شخص جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہے ۔ ان کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ شرک سے اجتناب
۲۔ جھوٹ، زنا اور دیگر بدیوں سے بچنا
۳۔ نماز پنجگانہ اور تہجد کی ادائیگی، درود شریف اور استغفار پڑھنا اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء کرنا
۴۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو تکلیف نہ دینا
۵۔ اللہ کے ساتھ وفاداری اور اس کی رضا پر راضی رہنا
۶۔ قرآن کریم کی تعلیمات پر کاربند ہونا
۷۔ تکبر اور نخوت سے بچاؤ
۸۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا
۹۔ ہمدردی خلق
۱۰۔ امام مہدی سے پختہ تعلق
ان شرائط کو پڑھ کر خوب واضح ہوجاتا ہے کہ احمدیت کوئی نیا دین اور شریعت پیش نہیں کرتی۔ اور یہ شرائط قرآن و حدیث کہ خلاصہ کے طور پر اخذ کی گئی ہیں۔ جماعت احمدیہ کا کلمہ، ارکان دین، ارکان اسلام اور دیگر اصولی امور وہی ہیں جن پر امت مسلمہ کاربند ہے۔

دعوت

اگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ سچا ہے تو پھر ہر ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ خدا کے مامور کی آواز پر لبیک کہے اور آنحضرت ﷺ کی وصیت کے مطابق امام مہدی کی بیعت کرے۔ یہ دعویٰ قرآن کریم کی روشنی میں پرکھنے کی ہم آپ کو خلوص دل کے ساتھ دعوت دیتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا سے دعا کریں کہ وہ آپ کی رہنمائی کرے اور حق کی راہ دکھائے۔ آمین!
مزید معلومات کے لئے درج ذیل کتب کا مطالعہ کریں: 
مکمل تحریر >>

جہاد کی حقیقت

جہاد کے لغوی معنی

جہاد۔ جہد سے مشتق ہے اور جہد کے معانی ہیں مشقت برداشت کرنا اور جہاد کے معنی ہیں کسی کام کے کرنے میں پوری طرح کوشش کرنا اور کسی قسم کی کمی نہ کرنا۔ (تاج العروس)
مولاناسید سلیمان ندوی صاحب لکھتے ہیں:۔
’’جہاد کے معنی عموماً قتال اور لڑائی کے سمجھے جاتے ہیں۔ مگر مفہوم کی یہ تنگی قطعاً غلط ہے ۔۔۔۔۔۔ لغت میں اس کے معنی محنت اور کوشش کے ہیں‘‘ (سیرۃ النبی جلد۵ صفحہ ۲۱۰ طبع اول۔ دارالاشاعت کراچی نمبر۱)

جہاد کی اقسام

قرآن اور حدیث سے جہاد کی چار بڑی اقسام ثابت ہوتی ہیں۔
۱۔ نفس اور شیطان کے خلاف جہاد ۲۔ جہاد بالقرآن یعنی دعوت و تبلیغ ۳۔جہاد بالمال ۴۔ جہاد بالسیف (دفاعی جنگ)

نفس اور شیطان کے خلاف جہاد

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔
وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70)
ترجمہ:۔ اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشتے ہیں۔
آنحضرت ﷺ نے ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پر فرمایا۔
’’تم جہاد اصغر یعنی چھوٹے جہاد سے لوٹ کر جہاد اکبر یعنی بڑے جہاد کی طرف آئے ہو (اور جہاد اکبر) بندہ کا اپنی خواہشات کے خلاف جہاد ہے‘‘۔(کنز العمال۔ کتاب الجہاد فی الجہاد الاکبر من الاعمال جلد۴حدیث۱۱۲۶۰۔ مطبوعہ مکتبہ التراث الاسلامي حلب)
جماعت احمدیہ کے افراد اس جہادمیں بھر پور حصہ لے رہے ہیں اور دوسرے مسلمانوں سے آگے ہیں۔ جس کا اعتراف غیر بھی کرتے ہیں۔
۱۔شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال لکھتے ہیں:۔
’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا‘‘ (زندہ رود۔ صفحہ۵۷۶از ڈاکٹر جاوید اقبال)
۲۔ مقبول الرحیم مفتی روزنامہ مشرق میں لکھتے ہیں:۔
’’جماعت احمدیہ کے اندر اہل، باصلاحیت اور محنتی افراد ہونے کا ایک سبب بلکہ اہم ترین سبب یہ ہے کہ انہوں نے پچھلی ایک صدی کے دوران ہر سطح پر ہر قسم کے جھگڑوں اور اختلافات سے کنارہ کشی کا راستہ اختیار کر کے اپنی جماعت اور جماعت کے افراد کی اصلاح و فلاح کے لئے منصوبہ بندی کے ساتھ کوشش و محنت کی ہے‘‘۔(روزنامہ مشرق۔ احمدی مسلم کشمکش کا حل مخاصمت یا مکالمہ از مقبول الرحیم مفتی ۲۴ فروری۱۹۹۴ء)
۳۔ شیخ محمد اکرم صاحب ایم اے لکھتے ہیں:۔
’’ان (مسلمانوں۔۔۔ ناقل) کے مقابلے میں احمدیہ جماعت میں غیرمعمولی مستعدی، جوش، خود اعتمادی اور باقاعدگی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تمام دنیا کے روحانی امراض کاعلاج ان کے پاس ہے‘‘۔ (موج کوثر۔ صفحہ۱۹۲)

جہاد بالقرآن

اس جہاد سے مراد یہ ہے کہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی فکر کی جائے نیز توحید کے قیام کے لئے بھر پور کوشش کی جائے اور قرآنی تعلیم کی نشر و اشاعت کی جائے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
فَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِيْنَ وَ جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا کَبِيْرًا‏ (الفرقان:۵۳)
ترجمہ:۔ پس تو کافروں کی بات نہ مان اور اس (یعنی قرآن کریم) کے ذریعہ سے ان سے جہاد کر۔
جماعت احمدیہ اس جہاد میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔
۱۔ مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر اخبار زمیندار لاہور نے لکھا:۔
’’گھر بیٹھ کر احمدیوں کو برا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان میں اور دیگر یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں‘‘ (اخبار زمیندار لاہور دسمبر ۱۹۲۶ء)
۲۔ حکیم عبد الرحیم صاحب اشرف مدیر رسالہ المنیر لائلپور لکھتے ہیں:۔
’’قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جوہر موجود ہیں ان میں اولین اہمیت اس جدو جہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ قرآن مجید کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں تثلیث کو باطل ثابت کرتے ہیں۔ سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں اور جہاں کہیں ممکن ہو اسلام کو امن و سلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں‘‘ (ہفت روزہ المنیر لائل پور۔ صفحہ۱۰۔ ۲ مارچ۱۹۵۶ء)
۳۔ قاضی محمد اسلم صاحب سیف فیروز پوری بعنوان ’’دینی جماعتوں کے لئے لمحہ فکریہ‘‘ لکھتے ہیں:
’’قادیانیوں کا بجٹ کروڑوں روپوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ تبلیغ کے نام پر دنیا بھر میں وہ اپنے جال پھیلا چکے ہیں ان کے مبلغین دور دراز ملکوں کی خاک چھان رہے ہیں۔ بیوی ، بچوں اور گھر بار سے دور قوت لایموت پر قانع ہو کر افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤوں میں یورپ کے ٹھنڈے سبزہ زاروں میں، آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکہ میں قادیانیت کی تبلیغ کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں‘‘ (ہفت روزہ اہلحدیث لاہور ۱۱ ستمبر ۱۹۹۲ء۔ صفحہ ۱۱۔۱۲)
۴۔ جناب عبد الحق صاحب بھریا روڈ سندھ اپنے مضمون ’’علمائے اسلام سے گذارش‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’قادیانی ٹیلیویژن پاکستان کے گھر گھر میں داخل ہو چکا ہے قرآن مجید کی تلاوت و تفسیر، درس احادیث، حمد و نعت اور تمام قوموں کے قادیانیوں خصوصا عربوں کو بار بار پیش کر کے قادیانی ہماری نوجوان نسل کے ذہن پر بری طرح چھا رہے ہیں‘‘۔ (ہفت روزہ الاعتصام ۲۴جنوری۱۹۹۷ء۔ جلد۴۹۔ شمارہ نمبر۴۔ صفحہ۱۷)
۵۔ مولوی منظور احمد صاحب چنیوٹی نے ایک انٹرویو میں کہا:۔
’’روسی زبان میں قادیانی جماعت نے قرآن کریم کا ترجمہ کروا کر پورے روس میں تقسیم کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ کم از کم سو زبانوں میں قادیانیوں نے تراجم شائع کروائے ہیں جو پوری دنیا میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔‘‘ (ہفت روزہ وجود کراچی۔ جلد نمبر ۲۔ شمارہ ۴۷۔ ۲۲ تا ۲۸ نومبر؁ ۲۰۰۰ء ۔ صفحہ ۳۱)

جہاد بالمال

اللہ تعالیٰ کی راہ میں دین کی اشاعت کے لئے مال خرچ کرنے کو بھی جہاد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اس جہاد کا حکم ان الفاظ میں آیا ہے
وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ‌ؕ (التوبہ:۴۱)
ترجمہ:۔ اور اپنے اموال اور جانوں کے ذریعہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرو۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ اس جہاد میں بھی ایک بے مثال اور ممتاز مقام رکھتی ہے۔
۱۔ عبد الرحیم اشرف صاحب مدیر المنیر فیصل آباد نے لکھا:۔
’’ان (جماعت احمدیہ) کے بعض دوسرے ممالک کی جماعتوں اور افراد نے کروڑوں روپوں کی جائیدادیں صدر انجمن احمدیہ ربوہ اور صدر انجمن احمدیہ قادیان کے نام وقف کر رکھی ہیں‘‘ (ہفت روزہ المنیر۲مارچ۱۹۵۶ء۔ صفحہ۱۰)
۲۔ مولوی منظور احمد چنیوٹی صاحب نے ایک انٹرویو میں کہا:۔
’’ہر قادیانی اپنی آمدنی کا دسواں حصہ اپنے مذہب کی ترویج و اشاعت کے لئے قادیانی جماعت کو دیتا ہے، ہزاروں افراد اپنی جائیداد کے دسویں حصہ کے لئے وصیت کر چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ۵لاکھ روپے فی گھنٹہ کے حساب سے قادیانی جماعت نے T.V لیا ہوا ہے۔ ۲۴گھنٹے T.V چینل چلتا ہے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں‘‘۔( ہفت روزہ وجود کراچی۔ جلد۲۔ ۲۲ تا ۲۸ نومبر۲۰۰۰ء۔ شمارہ ۴۷۔ صفحہ۳۱)
۳۔ مسلک اہل حدیث کا ترجمان ہفت روزہ الاعتصام لکھتا ہے:۔
’’ایک تجزےے کے مطابق دنیا میں موجود ہر قادیانی اپنی ماہوار آمدنی کا دس فیصد رضاکارانہ طور پر اپنے مذہب کی تبلیغ پر صرف کرتا ہے۔ کسی ہنگامی ضرورت پر خرچ کرنا اس کے علاوہ ہے انہی ماہانہ فنڈز کی بدولت اس وقت ایک مستقل T.V اور ریڈیو اسٹیشن قائم کیا جاچکا ہے جس سے چوبیس گھنٹے قادیانیت کا تبلیغی مشن جاری رہتا ہے‘‘۔(اداریہ از حافظ عبد الوحید۔ الاعتصام ۱۱ فروری ۲۰۰۰ء۔ جلد۵۲۔ شمارہ ۵۔ صفحہ۴)

جہاد بالسیف یا دفاعی جنگ

جہاد کی چوتھی قسم دفاعی جنگ یا جہاد بالسیف ہے یعنی جب دشمن دینی اقدار کو ختم کرنے اور دین کو تباہ و برباد کرنے کے لئے دین پر حملہ آور ہو تو اس وقت دفاعی جنگ کرنے کو جہاد بالسیف کہتے ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسے جہاد اصغر قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا‌ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَـصْرِهِمْ لَـقَدِيْرُۙ‏ ۔ ۨالَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ‌ؕ (الحج:۴۰۔۴۱)
یعنی وہ لوگ جن سے (بلاوجہ) جنگ کی جارہی ہے ان کو بھی (جنگ کرنے کی) اجازت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے (یہ وہ لوگ ہیں) جن کو ان کے گھروں سے صرف ان کے اتنا کہنے پر کہ اللہ ہمارا رب ہے بغیر کسی جائز وجہ کے نکالا گیا۔
علماء نے دفاعی جنگ کی بعض شرائط بیان کی ہیں جن کی موجودگی کے بغیر یہ جہاد جائز نہیں۔ چنانچہ سید نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:۔
’’جہاد کی کئی شرطیں ہیں جب تک وہ نہ پائی جائیں جہاد نہ ہوگا‘‘(فتاویٰ نذیریہ جلد۳کتاب الامارۃ والجہاد صفحہ۲۸۲۔ناشر اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور)
مولانا ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر اخبار زمیندار لاہور نے درج ذیل شرائط کا ذکر کیا ہے:۔
’’۱۔ امارت ۲۔ اسلامی نظام حکومت ۳۔ دشمنوں کی پیش قدمی و ابتدا‘‘ (اخبار زمیندار ۱۴جون ۱۹۳۴ء)
خواجہ حسن نظامی نے جہاد کے لئے ۱۔ کفار کی مذہب میں مداخلت ۲۔امام عادل ۳۔ حرب و ضرب کے سامان کے ہونے کا ذکر کیا ہے۔ (رسالہ شیخ سنوسی)
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لکھا کہ :۔
۱۔مسلمانوں میں امام و خلیفہ وقت موجود ہو ۲۔ مسلمانوں میں ایسی جمیعت حاصل جماعت موجود ہو جس میں ان کو کسر شوکت اسلام کا خوف نہ ہو۔ (الاقتصاد فی مسائل الجہاد از مولوی محمد حسین بٹالوی صفحہ۵۱۔۵۲۔مطبع وکٹوریہ پریس)
خلاصہ یہ کہ علماء کے نزدیک جہاد بالسیف کے لئے پانچ شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے اور ان میں سے کسی ایک کے بھی نہ ہونے سے دینی قتال نہیں ہوسکتا اور وہ شرائط یہ ہیں کہ ۱۔امام وقت کا ہونا ۲۔اسلامی نظام حکومت ۳۔ ہتھیار و نفری جو مقابلہ کے لئے ضروری ہو ۴۔ کوئی ملک یا قطعہ ہو ۵۔دشمن کی پیش قدمی اور ابتدائ۔

ہندوستان میں جہاد بالسیف اور علماء زمانہ

۱۔ اہل حدیث کے مشہور عالم و راہنما سید نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:۔
’’جبکہ شرط جہاد کی اس دیار میں معدوم ہوئی تو جہاد کرنا یہاں سبب ہلاکت و معصیت ہوگا‘‘ (فتاویٰ نذیریہ جلد۳کتاب الامارۃ والجہاد صفحہ۲۸۵۔ناشر اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور)
۲۔ مولوی محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں:۔
’’اس زمانہ میں بھی شرعی جہاد کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ اس وقت نہ کوئی مسلمانوں کا امام موصوف بصفات و شرایط امامت موجود ہے اور نہ ان کو ایسی شوکت و جمیعت حاصل ہے جس سے وہ اپنے مخالفوں پر فتح یاب ہونے کی امید کرسکیں‘‘ (الاقتصاد فی مسائل الجہاد از مولوی محمد حسین بٹالوی صفحہ۷۲۔مطبع وکٹوریہ پریس)
۳۔ حضرت سید محمد اسماعیل صاحب شہیدسے ایک شخص نے انگریزوں سے جہاد کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:۔
’’ایسی بے رو ریا اور غیر متعصب سرکار پر کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں ہے اس وقت پنجاب کے سکھوں کا ظلم اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ ان پر جہاد کیا جائے‘‘ (سوانح احمدی۔ صفحہ۵۷۔ مرتبہ محمد جعفر تھانیسری صوفی پرنٹنگ اینڈ پبلشنگ کمپنی لمیٹڈ اسلامیہ سٹیم پریس لاہور)
۴۔ خواجہ حسن نظامی صاحب لکھتے ہیں:۔
’’انگریز نہ ہمارے مذہبی امور میں دخل دیتے ہیں نہ اور کسی کام میں ایسی زیادتی کرتے ہیں جس کو ظلم سے تعبیر کر سکیں۔ نہ ہمارے پاس سامانِ حرب ہے ایسی صورت میں ہم لوگ ہر گز ہر گز کسی کا کہنا نہ مانیں گے اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالیں گے،، (رسالہ شیخ سنوسی۔ صفحہ۱۷)
۵۔ مفتیان مکہ کے فتاویٰ کے بارہ میں شورش کاشمیری مدیر چٹان لکھتے ہیں:۔
’’جمال دین ابن عبد اللہ، شیخ عمر، حنفی مفتی مکہ معظمہ، احمد بن ذنبی شافعی مفتی مکہ معظمہ اور حسین بن ابراہیم مالکی مفتی مکہ معظمہ سے اس مطلب کے فتوے حاصل کئے گئے کہ ہندوستان دارالسلام ہے‘‘ (کتاب سید عطاء اللہ شاہ بخاری مؤلفہ شورش کاشمیری۔ صفحہ۱۴۱۔ مطبع چٹان پرنٹنگ پریس۔ ۱۹۷۳ء)
۶۔ سرسید احمد خان صاحب لکھتے ہیں:۔
’’مسلمان ہمارے گورنمنٹ کے مست امن تھے کسی طرح گورنمنٹ کی عملداری میں جہاد نہیں کر سکتے تھے‘‘ (اسباب بغاوت ہند مؤلفہ سرسید احمد خان صفحہ۳۱۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور)

حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد بالسیف کو کیوں ملتوی کیا؟

حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد کے التوا کا اعلان اپنی طرف سے ہر گز نہیں فرمایا بلکہ آنحضرت ؐ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ مسیح موعود اور امام مہدی کے زمانہ میں مذہبی جنگوں کا التوا ہو جائے گا۔ چنانچہ فرمایا:۔
’’یَضَعُ الْحَرْبَ‘‘ (وہ جنگ کو موقوف کر دے گا) (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم)
اسی طرح فرمایا
اس کے زمانہ میں جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے گی۔ (الدر المنثور فی التفسیر بالماثور از امام جلال الدین سیوطی۔ دارالمعرفۃ بیروت لبنان)
ان پیشگوئیوں میں یہ اشارہ تھا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اس جہاد کی شرائط موجود نہیں ہوں گی۔ چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جو مسیح اور مہدی ہونے کے مدعی تھے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے عین مطابق قتال کی شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کے عارضی التوا کا اعلان فرمایا۔ آپ نے لکھا:۔
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کیلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر
کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر
فرما چکا ہے سید کونین مصطفیٰ
عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا
یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا
اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے
(تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷۔ صفحہ ۷۷۔۷۸)
پھر آپ فرماتے ہیں:۔
’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس زمانہ میں اور اس ملک میں جہاد کی شرائط مفقود ہیں ۔۔۔ امن اور عافیت کے دور میں جہاد نہیں ہوسکتا‘‘ (تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷۔ صفحہ ۸۲)
پس حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد بالسیف کو منسوخ قرار نہیں دیا بلکہ آنحضرتؐ کی پیشگوئی کے مطابق اس کی شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کے عارضی التوا کا اعلان فرمایا۔ اور یہ بھی بیان فرمایاکہ اگر جہاد بالسیف کی شرائط موجود ہوں تو پھر یہ جہاد بھی ضروری ہے۔ آپ نے واضح فرمایا
’’ہم (اہل اسلام کو) یہ بھی حکم ہے کہ دشمن جس طرح ہمارے خلاف تیاری کرتا ہے ہم بھی اس کے خلاف اسی طرح تیاری کریں‘‘ (حقیقۃ المہدی۔ روحانی خزائن جلد۱۴۔ صفحہ۴۵۴)
نیز یہ قرآنی اصول بیان فرمایا کہ
’’اگر دشمن باز نہ آئیں تو تمام مومنوں پر واجب ہے کہ ان سے جنگ کریں‘‘ (نور الحق حصہ اول۔ روحانی خزائن جلد۸۔ صفحہ۶۲)

جہاد بالسیف اور جماعت احمدیہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں جہاد بالسیف کے التوا کا اعلان فرمایا وہاں یہ بھی فرمایا کہ جب اس جہاد کی شرائط موجود ہوں گی تو یہ جہاد بھی ہوگا۔ چنانچہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد جب حالات تبدیل ہوئے تو جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ نے فرمایا:۔
۱۔’’ایک زمانہ ایسا تھا کہ غیر قوم ہم پر حاکم تھی۔ اور وہ غیر قوم امن پسند تھی۔ مذہبی معاملات میں وہ کسی قسم کا دخل نہیں دیتی تھی اس کے متعلق شریعت کا حکم یہی تھا کہ اس کے ساتھ جہاد جائز نہیں‘‘
۲۔’’اب حالات بالکل مختلف ہیں اب اگر پاکستان سے کسی ملک کی لڑائی ہو گئی تو حکومت کے ساتھ (تائید میں) ہوکر ہمیں لڑنا پڑے گا اور حکومت کی تائید میں ہمیں جنگ کرنی پڑے گی‘‘
۳۔’’جیسے نماز پڑھنافرض ہے اسی طرح دین کی خاطر ضرورت پیش آنے پر لڑائی کرنا بھی فرض ہے‘‘
۴۔’’جن امور کو اسلام نے ایمان کا اہم ترین حصہ قرار دیا ہے ان میں سے ایک جہاد بھی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا کہ جو شخص جہاد کے موقع پر پیٹھ دکھاتا ہے وہ جہنمی ہوجاتا ہے‘‘
۵ ’’جب کبھی جہاد کا موقع آئے تو ۔۔۔ اس میدان میں بھی ہم سب سے بہتر نمونہ دکھانے والے ہوں‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء۔ صفحہ۹۔۱۲۔۱۴)
پاکستان کے ہر مشکل وقت میں احمدی مجاہدین نے شاندار کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ۔ نمونۃً ملاحظہ ہوں:۔
۱۔ جماعت احمدیہ کے دوسرے امام اور صدر کشمیر کمیٹی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مولانا سید حبیب صاحب مدیر ’’سیاست‘‘ لاہور نے لکھا :۔
’’میں ببانگ دہل کہتا ہوں کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب صدر کشمیر کمیٹی نے تندہی محنت، ہمت ،جانفشانی اور بڑے جوش سے کام کیا ہے اور اپنا روپیہ بھی خرچ کیا اور اس کی وجہ سے میں انکی عزت کرتا ہوں‘‘ (تحریک قادیان۔ صفحہ۴۲۔ مطبع مقبول عام پریس لاہور)
۲۔قیام پاکستان کے معاً بعد کشمیر میں ہونے والی لڑائی میں احمدی مجاہدین نے ’’فرقان بٹالین‘‘ کی صورت میں بھر پور حصہ لیا۔
چنانچہ گلزار احمد صاحب فدا ؔ ایڈیٹر اخبار جہاد سیالکوٹ نے۱۶جون ۱۹۵۰ء میں لکھا :۔
’’فرقان بٹالین نے مجاہدین کشمیر کے شانہ بشانہ ڈوگرہ فوجوں سے جنگ کی اور اسلامیان کشمیر کے اختیار کردہ مؤقف کو مضبوط بنایا‘‘ (اخبار جہاد سیالکوٹ۔ ۱۶ جون ۱۹۵۰ء)
۳۔ میجر جنرل اختر حسین ملک صاحب:۔ ان کے متعلق ۱۹۶۵ء کی جنگ میں شاندار خدمات پر ہفت روزہ الفتح کراچی اپنے کالم مااحوال واقعی میں لکھتا ہے:۔
’’۱۹۶۵ء کی جنگ میں انہوں نے انتہائی دانشمندی، اعلیٰ ماہرانہ صلاحیتوں اور بہادری سے کام لیتے ہوئے دشمن کے چھکے چھوڑا دئے ۔۔۔ فوجی ماہرین کا کہنا ہے اگر کمان اختر ملک کے پاس رہتی تو کشمیر فتح ہوگیا تھا‘‘( ہفت روزہ الفتح کراچی۔ ۱۳تا ۲۰ فروری ۱۹۷۶ء۔ صفحہ۸)
۴۔ میجر جنرل افتخار جنجوعہ شہید:۔ آپ نے۱۹۶۵ء میں رن کچھ میں اور ۱۹۷۱ء کی جنگ میں چھمب کے محاذ پر زبردست کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔ چھمب افتخار آباد کے نام سے موسوم ہوکر آج بھی آپ کی یاد تازہ کر رہا ہے۔
۵۔ برگیڈئیرعبد العلی ملک ہلال جرأت: ؁۱۹۶۵ء کی جنگ میں چونڈہ کے محاذ پر ٹینکوں کی عظیم جنگ میں پاکستانی فوج کی کمان کی اور ایسے کارنامے سرانجام دئیے کہ تاریخ حرب کے ماہرین حیران و ششدر رہ گئے۔ (امروز لاہور۔ ۲۳ اگست ۦ؁۱۹۶۹ء)
پس جماعت احمدیہ کسی بھی جہاد کے میدان میں نہ صرف پیچھے نہیں بلکہ اتنی آگے ہے کہ کوئی دوسرا اس کی دھول کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ خواہ وہ اصلاح نفس کا جہاد ہو یا دعوت قرآن کا۔ وہ مالی جہاد ہو یا جہاد بالسیف۔ ہر میدان میں اس جماعت نے کامیابیوں کے وہ جھنڈے نصب کئے ہیں کہ دشمن بھی اس کے معترف ہیں۔
مکمل تحریر >>

امت محمدیہ میں آنے والے مہدی و مسیح کی علامات

آخری زمانہ میں جہاں فرقہ بندی، فتنہ و فساد، دجالوں و کذابوں کے ظہور اور ان کے ذریعہ ہونے والی تباہی و بربادی کی خبر دی گئی ہے وہاں اس امت مرحومہ کو ہلاکت سے بچانے کے لئے عیسیٰ بن مریم جیسے عظیم الشان وجود کے نجات دہندہ بن کر ظاہر ہونے کی بھی بشارت دی گئی ہے جسے امام مہدی کے لقب سے بھی نوازا گیا ہے جیسے آنحضرت ﷺ نے فرمایا :۔
لا المھدی الا عیسی بن مریم (ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدة الزمان)
یعنی عیسیٰ ہی مہدی ہوں گے۔ اس آنے والے موعود کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر اس کی علامات و نشانات، ظہور کا مقام اور ملک تک بیان کر دئیے گئے ہیں جن کا اجمالی تذکرہ پیش ہے۔

مسیح موعود و مہدی معہود کی ذاتی علامات

خاندان

احادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا موعود فارسی الاصل ہو گا۔ چنانچہ جب آیت و اخرین منھم لما یلحقوا بھم (الجمعہ:62:4) نازل ہوئی تو نبی کریم ﷺ سے یہ سوال کیا گیا کہ آخرین کون لوگ ہیں۔ اس پر آپ نے مجلس میں موجود حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:۔
”اگر ایمان ثریا پر بھی چلا جائے گا تو ضرور اہل فارس میں سے کچھ اشخاص یا ایک شخص اسے واپس لے آئے گا“(بخاری کتاب التفسیر زیر آیت و آخرین منھم)
حضرت بانی جماعت احمدیہ کا خاندان اس پیشگوئی کے عین مطابق فارسی الاصل ہے اور آپ کے شدید مخالف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی آپ کا فارسی الاصل ہونا تسلیم کیا ۔(اشاعۃ السنہ نمبر۷ صفحہ۱۹۳)

آنے والے موعود کا نام

آنحضرت ﷺ نے فرمایا:۔
”اللہ تعالیٰ اہل بیت میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جس کا نام میرا نام اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کا نام ہوگا“ (ابو داؤد کتاب المہدی)
اس حدیث میں آنے والے موعود کی آنحضرت ﷺ کے ساتھ کامل موافقت کا ذکر کیا گیا ہے اور مراد یہ ہے کہ مہدی کی صفات آنحضرت ﷺ جیسی ہوں گی اور وہ آنحضرت ﷺ کی سیرت کے مطابق لوگوں کو ہدایت دے گا۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفتن جلد۹ حدیث ۵۴۵۲)
علاوہ ازیں اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مہدی کی ظاہری نام کے لحاظ سے بھی آنحضرت ﷺ سے موافقت ہوگی۔ چنانچہ احادیث میں مہدی کا نام ”احمد“ بھی لکھا ہے۔
(کتاب الفتن باب فی سیرۃ المہدی صفحہ ۹۸ از حافظ ابو عبداللہ نعیم بن حماد)
قرآن کریم اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ایک نام احمد بھی تھا۔ چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی کا اصل نام احمد ہی ہے جیسا کہ الہامات میں بھی بار بار اللہ تعالیٰ نے آپ کو احمد کے نام سے خطاب فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا یَا اَحمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیکَ(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر۵ صفحہ۵۵۰)

آنے والے موعود کا حلیہ

آنحضرت ﷺ نے بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے والے مسیح کا حلیہ یہ بیان فرمایا کہ:۔
”وہ سرخ رنگ کے گھنگریالے بال اور چوڑے سینے والے تھے“(بخاری کتاب الانبیاءباب واذکر فی الکتاب مریم)
لیکن آپ نے امت محمدیہ میں دجال کے بالمقابل ظاہر ہونے والے مسیح کا حلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
”اس کے بال لمبے اور رنگ گندمی ہوگا“ (بخاری کتاب اللباس باب الجعد)
دونوں مسیحوں کے الگ الگ حلیے بیان کرنے سے صاف ظاہر ہے کہ آنے والا مسیح اور مسیح ناصری علیہ السلام جدا جدا وجود ہیں۔ آنے والے موعود کے حلیہ کے متعلق یہ بھی ذکر ہے کہ :۔
”مہدی کی پیشانی کشادہ اور ناک اونچی ہوگی“(ابو داؤد کتاب المہدی حدیث نمبر۷)
حضرت بانی جماعت احمدیہ کا حلیہ بعینہ اس کے مطابق ہے۔

شادی اور اولاد

مسیح موعود کی ایک علامت یہ بیان ہوئی ہے کہ :۔
”وہ شادی کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی“(مشکوٰة کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ)
جہاں تک حضرت مسیح موعود کی اس علامت کا تعلق ہے کہ وہ شادی کریں گے اور ان کے ہاں اولاد ہو گی اس سے مراد یہ ہے کہ مسیح موعود مجرد نہیں رہیں گے بلکہ شادی کریں گے اور مبشر اولاد پائیں گے جو ان کا مشن اور کام جاری رکھنے والی ہوگی۔ چنانچہ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود کی شادی بھی ہوئی اور آپ کو خدا نے دین کی عظیم الشان خدمات بجا لانے والی اولاد بھی عطا فرمائی۔

آنیوالے موعود کی عمر

زیادہ تر ثقہ روایات میں مسیح موعود کی مدت قیام چالیس سال بیان کی گئی ہے اور حضرت مرزا صاحب نے قمری لحاظ سے 76 سال عمر پائی ہے۔ 40 سال کی عمر میں آپ پر الہام کا آغاز ہوا اور الہام کے بعد بھی اسی کے لگ بھگ آپ نے زمانہ پایا۔

مقام ظہور

آنحضرت ﷺ نے مسیح موعود کا مقام ظہور دمشق سے مشرقی جانب بیان فرمایا ہے۔ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)
اسی طرح مہدی کی راہ ہموار کرنے والی جماعت کا تعلق بھی مشرق ہی سے بیان کیا گےا ہے۔ (ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی)
مندرجہ بالا احادیث میں آنے والے موعود کا مقام ظہور دمشق سے مشرق (یعنی ہندوستان) بتایا گیا ہے اور حضرت بانی جماعت احمدیہ مدعی مسیحیت و مہدویت کا مقام ظہور قادیان ہندوستان دمشق سے مشرق کی جانب واقع ہے۔

مسیح موعود کے زمانہ کی علامات

(۱) دابۃ الارض

امام مہدی کے زمانہ کی ایک علامت دابۃ الارض بیان کی گئی ہے۔(مسلم کتاب الفتن باب فی الاٰیات التی تکون قبل الساعۃ)
دابۃ کے معنی جانور یا کیڑا کے ہوتے ہیں علامہ توربشتی متوفی ۶۳۰ھ نے اس سے طاعون کا کیڑا مراد لیا ہے۔(عقائد مجددیہ الصراط السوی ترجمہ عقائد توربشتی از علامہ شہاب الدین توربشتی منزل نقشبندیہ کشمیری بازار لاہور)
اس زمانہ میں حضرت مرزا صاحب نے اللہ سے علم پاکر طاعون کی پیشگوئی فرمائی جس کے مطابق طاعون سے ایک ایک ہفتہ میں تیس تیس ہزار آدمی لقمہء اجل بن گئے اور لاکھوں افراد طاعون کا شکار ہوئے۔

(۲)۔ یاجوج ماجوج کا خروج

مسیح موعود کے زمانہ کی ایک علامت یاجوج ماجوج کا خروج ہے۔ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)
یاجوج ماجوج دجال کا سیاسی بہروپ ہے جس کے معنی آگ سے کام لینے والی طاقتوں کے ہیں۔ آج کی طاقت ور اور ترقی یافتہ مغربی اقوام ہی یاجوج ماجوج ہیں۔ چنانچہ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے لکھا۔
کھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حدب ینسلون

(۳) غیر معمولی زلازل کا آنا

اسی طرح حدیث میں آخری زمانہ کی علامت میں مشرق اور مغرب اور عرب میں خسف ہونا بیان کیا گیا ہے۔ (مسلم کتاب الفتن باب فی الایات التی تکون قبل الساعۃ)
یہاں خسف سے مراد خوفناک زلزوں کا آناہے اور حضرت بانی جماعت احمدیہ کے زمانہ میں یہ علامت بھی پوری ہوئی اور آپ کی بیان کردہ پیشگوئیوں کے عین مطابق ایسے ایسے خوفناک زلزلے آئے کہ زمین تہہ و بالا ہو گئی اور ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔

(۴) جدید سواریوں کی ایجاد

قرآن کریم میں آخری زمانہ کی ایک علامت اونٹنیوں کا متروک ہونا بھی بیان کی گئی ہے۔ (التکویر:81:5)
اسی طرح حدیث میں مسیح موعود کے زمانہ کی ایک علامت یہ بیان کی کہ اونٹوں کا استعمال (تیز رفتاری کے لئے) متروک ہو جائے گا۔(مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ بن مریم)
مسیح موعود کے زمانہ میں یہ علامت بھی پوری ہو چکی ہے اور گزشتہ ایک صدی سے جدید سواریاں‘ موٹریں ریل اور جہاز وغیرہ ایجاد ہوئے۔ اور مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہونے والے دجال کے گدھے سے بھی یہی سواریاں مراد ہیں جیسا کہ احادیث میں بیان فرمودہ تفصیلی علامات سے ظاہر ہے۔

مسیح موعود اور مہدی معہود کے کام

احادیث میں مسیح اور مہدی کے کام بھی ایک جیسے بتائے گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح اور مہدی ایک ہی شخص کے دو لقب ہیں۔

(۱) حکم عدل

بخاری کتاب الانبیاءباب نزول عیسیٰ میں روایت ہے کہ :مسیح موعود حکم اور عدل بن کر آئے گا۔ مراد یہ ہے کہ وہ انصاف کے ساتھ امت کے مذہبی اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے امت مسلمہ میں موجود اختلافات کا حل پیش فرمایا اور ایسی جماعت تیار کر دی جس نے تمام اختلافات ختم کر کے اتحاد و یگانگت کا بے مثال نمونہ پیش کیا۔

(۲) کسر صلیب

وہ کسر صلیب کرے گا۔ یعنی عیسائی مذہب کا جھوٹ ظاہر کر دے گا۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ الٰہی تقدیر میں مسیح موعود کی آمد عیسائیت کے غلبہ کے زمانہ میں مقدر تھی اسلام کو مسیح موعود نے دلائل و براہین سے عیسائیت پر غالب کر دکھانا تھا۔ چنانچہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود نے عیسائیت کے خلاف ایسی عظیم الشان خدمات سر انجام دیں جن کا اعتراف کرتے ہوئے مولوی نور محمد صاحب نقشبندی نے یہاں تک لکھا کہ حضرت مرزا صاحب نے عیسائیت کے خلاف ایسے عظیم الشان دلائل پیش کئے کہ ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دی۔(دیباچہ از مولوی نور محمد نقشبندی قرآن شریف مترجم۔ نور محمد آرام باغ کراچی)

(۳) قتلِ خنزیر

خنزیر کو قتل کرے گا۔ یعنی دشمنانِ اسلام کو علمی میدان میں شکست دے کر غلبہ حاصل کرے گا۔ کیونکہ حدیث میں آخری زمانہ کے علماءسوءکو بھی ان کے بد خصائل‘ نقالی‘ بد عملی اور جھوٹ کے باعث بندر اور سؤر کے الفاظ سے یاد کیا گیا ہے۔(کنز العمال جلد نمبر۷ صفحہ۲۸۰ حدیث۳۸۷۳۷ حلب)
یہ کارنامہ بھی حضرت بانی جماعت احمدیہ نے سر انجام دیا اور تمام مذاہب کے بڑے بڑے لیڈروں کو علمی اور روحانی میدان میں اسلام کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی اور اسلام کی فوقیت کو ظاہر کیا۔

(۴) التواءقتال

مسیح موعود کا ایک کام یضع الحرب لکھا ہے۔(بخاری کتاب الانبیاءباب نزول عیسیٰ)
یعنی وہ جنگ کو موقوف کردے گا جس سے مراد یہ ہے کہ مسیح موعود مذہب کی خاطر جنگ نہیں کرے گا۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ کے زمانہ میں چونکہ اسلام کے خلاف تلوار کی بجائے قلم اور دلائل سے حملے کئے جارہے تھے اس لئے آپ نے اسلام کے دفاع اور اس کی برتری کے لئے بالمقابل قلمی جہاد کیا اور جہاد بالسیف کی شرائط مفقود ہونے کی وجہ سے حدیث کے عین مطابق اس کے التواءکا اعلان فرمایا۔

(۵) تقسیم اموال

وہ مال تقسیم کرے گا مگر کوئی اسے قبول نہیں کرے گا۔(بخاری کتاب الانبیاءباب نزول عیسیٰ)
مراد یہ ہے کہ وہ قرآنی معارف اور دین کے حقائق کو بیان کرے گا مگر دنیا انہیں قبول نہیں کرے گی۔ چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے قرآنی معارف اور حقائق پر مشتمل 84 سے زائد کتب لکھ کر روحانی خزائن دنیا میں تقسیم کئے لیکن دنیا کے لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں۔

(۶) قتلِ دجال

مسیح موعود کا ایک کام دجال کا مقابلہ کر کے اسے ہلاک کرنا تھا۔ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)
دجال سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والے کو کہتے ہیں اور اپنی کثرت سے ساری زمین پر پھیل جانے والے اور سامانِ تجارت سے روئے زمین کو ڈھانک دینے والے گروہ کو بھی دجال کہا گیا ہے۔ (لسان العرب)
یہ صفات عیسائی قوم کے دینی علماءمیں بدرجہ اتم موجود ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ کو خدا بنا کر سب سے بڑے جھوٹ کا ارتکاب کیا اور اپنے دجل کا جال ساری دنیا میں پھیلا دیا۔ چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اس دجال کا خوب مقابلہ کیا اور اسے شکستِ فاش دی۔

(۷) مسیح موعود کا حج

حدیث میں مسیح موعود کے حج کرنے کی پیشگوئی بھی موجود ہے ۔(بخاری کتاب الانبیاءباب واذکر فی الکتاب مریم)
جس سے مراد کعبہ کی عظمت کا قیام اور اسلام کی حفاظت ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے رویاءمیں مسیح کو دجال کے ساتھ طوافِ کعبہ کرتے دیکھا جس کی تعبیر یہ کی گئی کہ مسیح موعود کی بعثت کی غرض کعبہ کی عظمت اور اسلام کی حفاظت ہوگی۔(مظاہر الحق شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد۵ کتاب الفتن باب علامات القیامۃ)
چنانچہ مسیح موعود علیہ السلام کو اسلام کی خدمت کی یہ توفیق بھی خوب عطا ہوئی۔

مہدی کی سچائی کے دو نشانات

حدیث میں مہدی کی سچائی کے دو نشانات رمضان کے مہینہ میں خاص تاریخوں پر چاند اور سورج کو گرہن لگنا تھا۔(دار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ الخسوف والکسوف)
چنانچہ مشہور اہل حدیث عالم حافظ محمد لکھو کے والے ان نشانات کی تاریخوں کا یوں ذکر کرتے ہیں۔
”تیرھویں چن ستیویں سورج گرہن ہوسی اس سالے“ (احوال الاخرت منظوم پنجابی مصنفہ ۱۳۰۵ھ صفحہ۲۳ زیر عنوان علامات قیامت کبریٰ)
چنانچہ یہ نشان اس حدیث کے عین مطابق رمضان ۱۳۱۱ھ بمطابق ۱۸۹۴ءمیں معینہ تاریخوں پر ظاہر ہوا اور حضرت مرزا صاحب نے بڑی شان اور تحدی سے اسے اپنے حق میں پیش کرتے ہوئے لکھا:۔
”ان تیرہ سو برسوں میں بہتیرے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا مگر کسی کے لئے یہ آسمانی نشان ظاہر نہ ہوا .... مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری تصدیق کے لئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا ہے“۔ (تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۱۴۲۔۱۴۳)
اللہ تعالیٰ ہمیں موعود مسیح اور مہدی کو قبول کرنے اور اس کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بخشے۔ آمین
مکمل تحریر >>