Sunday, 3 May 2015

محمدی بیگم سے شادی کی پیشگوئی

محمدی بیگم و الی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی جو اپنی تمام شرائط اور تفصیلات کے ساتھ لفظاً لفظاً پوری ہو ئی۔ نیز اس پیشگوئی کا مقصود بھی کما حقہٗ حاصل ہوا۔

 معزّز قارئین! خدا تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَهَا (الاحزاب: ۳۸) کہ جب زیدؓ نے حضرت زینبؓ کو طلاق دیدی تو ہم نے آپؐ کے ساتھ (آسمان پر) اس کا نکاح پڑھ دیا۔


یہی لفظ زَوَّجْنٰکَھَا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعا لیٰ نے محمّدی بیگم کے بارہ میں فرمایا۔ وہاں شرائط کے تحقق کے باعث حضرت زینبؓ کا نکاح ہو گیا۔مگر پھر بھی مخالفین اس پر اعتراض کرنے سے باز نہ آئے اور آج تک اس پر ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔یہاں شرائط کے عدمِ تحقق کی وجہ سے محمّدی بیگم کا نکاح نہ ہوا، تو مخالفین اس پر بھی اعتراضات کر تے ہیں۔پس نکاح کا ہونا یا نہ ہونا باعثِ اعتراض نہیں بلکہ اس کا باعث وہ فطری بغض ہے جو روزِ اوّل سے معاندین و مکذّبین کے شاملِ حال رہا ہے۔لیکن جہاں تک اہلِ بصیرت کا تعلق ہے انہوں نے اس پیشگوئی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت و حقانیّت کی ایک بیّن دلیل سمجھا اور آپ ؑ پر ایمان لائے۔ حتیٰ کہ اس خاندان سے تعلق رکھنے والے بیسیوں افراد بھی حلقہ بگوشِ احمدیّت ہوئے۔مگر راشد علی اور’’ علماء ھم‘‘اپنے شیوہ استہزاء و تمسخر سے باز نہ آئے۔
اس پیشگوئی کے بارہ میں یہ بات مدِّنظر رکھنی چاہئے کہ یہ ایک وعیدی پیشگوئی تھی جولازماً توبہ اور رجوع سے مشروط تھی۔اور اس کا اصل مقصود متعلقہ لوگوں کے لئے عبرت اور اصلاح کے سامان مہیاّ کرنا تھا۔

پیشگوئی کا پس منظر

اس پیشگوئی کا سبب محمدی بیگم کے والد مرزا احمد بیگ اور اس کے دوسرے رشتہ دار تھے۔ یہ لوگ چچا کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھی رشتہ دار تھے ۔ان کی حالت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب ’’ آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ میں یوں بیان فرماتے ہیں
’’خدا تعاالیٰ نے میرے چچیرے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں( احمد بیگ وغیرہ) کو ملحدانہ خیالات اور اعمال میں مبتلا اور رسومِ قبیحہ اور عقائدِ باطلہ اور بدعات میں مستغرق پایا اور ان کو دیکھا کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے تابع ہیں اور خدا تعالیٰ کے وجود کے منکر اور فسادی ہیں۔‘‘( ترجمہ عربی عبارت ۔آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد ۵صفحہ۵۶۶)
پھر فرمایا
’’ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ ایک شخص روتا ہوا آیامیں اس کے رونے کو دیکھ کر خائف ہوا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کسی کے مرنے کی اطلاع ملی ہے؟ اس نے کہا نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت بات ہے۔میں ان لوگوں کے پاس بیٹھا ہو اتھا جو دینِ خداوندی سے مرتد ہو چکے ہیں ۔ پس ان میں سے ایک نے آنحضرت ﷺ کو نہایت گندی گالی دی۔ ایسی گالی کہ میں نے اس سے پہلے کسی کافر کے منہ سے بھی نہیں سنی تھی اور میں نے انہیں دیکھا کہ وہ قرآنِ مجید کو اپنے پاؤں تلے روندتے اور ایسے کلمات بولتے ہیں جن کے نقل کرنے سے زبان کانپتی ہے۔اور وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی خدا نہیں۔ خداکا وجود محض ایک مفتریوں کا جھوٹ ہے۔ ‘‘(ترجمہ عربی عبارت۔ آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد ۵صفحہ۵۶۸)

نشان طلبی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’ان لوگوں نے خط لکھا جس میں رسولِ کریمﷺ اور قرآن مجید کو گالیاں دیں اور وجودِ باری عزّ اسمہٗ کا انکار کیا اور اس کے ساتھ ہی مجھ سے میری سچائی اور وجودِ باری تعالیٰ کے نشانات طلب کئے اور اس خط کو انہوں نے دنیا میں شائع کر دیا* اور ہندوستان کے غیر مسلموں کی بہت مدد کی اور انتہائی سرکشی دکھائی۔‘‘ (ترجمہ عربی عبارت۔ آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۵۶۸) *یہ خط عیسائی اخبار چشمۂ نور۔اگست ۱۸۸۷ ؁ء میں شائع ہوا تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا

ان کی نشان طلبی پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائے قادرِ مطلق کے حضور ان لفاظ میں دعا کی
’’ یا ربّ انصرعبدک واخذل اعدائک......۔‘‘( آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد ۵صفحہ۵۶۸)
ترجمہ:۔ میں نے کہا اے میرے خدا! اپنے بندے کی مدد کر اور اپنے دشمنوں کو ذلیل کر......۔

خدا تعالیٰ کا جواب

اللہ تعالیٰ نے اس دردمندانہ دعا کو قبول کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً اطلاع دی کہ
’’ میں نے ان کی بدکرداری اور سرکشی دیکھی ہے۔پس میں عنقریب ان کومختلف قسم کے آفات سے ماروں گا اور آسمان کے نیچے انہیں ہلاک کروں گا اور عنقریب تو دیکھے گا کہ میں ان سے کیا سلوک کرتا ہوں اورہم ہر چیز پر قادر ہیں۔ میں ان کی عورتوں کو بیوائیں، ان کے بچوں کو یتیم اور گھروں کو ویران کر دوں گا۔تاکہ وہ اپنے کئے کی سزا پائیں لیکن میں انہیں یک دم ہلاک نہیں کروں گا بلکہ آہستہ آہستہ تاکہ وہ رجوع کریں اور توبہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں اور میری لعنت ان پر اور ان کے گھر کی چاردیواری پر، ان کے بڑوں پر، اور ان کے چھوٹوں پر،ان کی عورتوں اور مردوں پر اور ان کے مہمانوں پر جو ان کے گھروں میں اتریں گے،نازل ہونے والی ہے اور وہ سب کے سب ملعون ہونے والے ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائیں اور ان سے قطع تعلق کریں اور ان کی مجلسوں سے دور ہوں وہ رحمتِ الہٰی کے تحت ہوں گے۔‘‘ (ترجمہ از عربی عبارت۔ آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد ۵صفحہ۵۷۰،۵۶۹)
اس خاندان کے بارہ میں یہ ایک عمومی انذار پر مبنی الہام تھا ۔لیکن اس کے بعد خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوان لوگوں کے بارہ میں جس معیّن پیشگوئی پر اطلاع بخشی اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا
’’انہی ایاّم میں مرزا احمد بیگ والد محمّدی بیگم صاحبہ نے ارادہ کیا کہ اپنی ہمشیرہ کی زمین کوجس کا خاوند کئی سال سے مفقود الخبرتھا اپنے بیٹے کے نام ہبہ کرائے ، لیکن بغیر ہماری مرضی کے وہ ایسا کر نہیں سکتا تھا ۔اس لئے کہ وہ ہمارے چچا زاد بھائی کی بیوہ تھی ۔ اس لئے احمد بیگ نے ہماری جانب بعجز و انکسار رجوع کیا۔ اور قریب تھا کہ ہم اس ہبہ نامہ پر دستخط کر دیتے لیکن حسبِ عادت استخارہ کیا تو اس پر وحی الہٰی ہوئی جس کا ترجمہ یوں ہے۔’’ اس شخص کی بڑی لڑکی کے رشتہ کے لئے تحریک کراور اس سے کہہ! کہ وہ تجھ سے پہلے دامادی کا تعلق قائم کرے اور اس کے بعد تمہارے نور سے روشنی حاصل کرے۔ نیز اس سے کہو کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ زمین جو تو نے مانگی ہے دیدونگا اور اس کے علاوہ کچھ اور زمین بھی، نیز تم پر کئی او ر رنگ میں احسان کروں گا بشرطیکہ تم اپنی لڑکی کا مجھ سے رشتہ کردو اور یہ تمہارے اور میرے درمیان عہد و پیمان ہے جسے تم اگر قبول کرو گے تو مجھے بہترین قبول کرنے والا پاؤ گے۔اور اگر تم نے قبول نہ کیا تو یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس لڑکی کا کسی اور شخص سے نکاح نہ اس لڑکی کے حق میں مبارک ہو گا اور نہ تمہارے حق میں۔ اور اگر تم اس ارادہ سے باز نہ آئے تو تم پر مصائب نازل ہوں گے اور آخری مصیبت تمہاری موت ہوگی اور تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مرجاؤ گے بلکہ تمہاری موت قریب ہے جو تم پر غفلت کی حالت میں وارد ہوگی اور ایسا ہی اس لڑکی کا شوہر بھی اڑہائی سال کے اندر مر جائے گا اور یہ قضائے الٰہی ہے۔‘‘ پس تم جو کچھ کرنا چاہو کرو میں نے تمہیں نصیحت کر دی ہے۔‘‘(ترجمہ عربی عبارت۔ آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد صفحہ۵۷۳۔۵۷۲)
قارئینِ کرام! جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ کو اس کی توحید سب سے پیاری ہے اور اس کے بعد پھر وہ ذات سب سے پیاری ہوتی ہے جو اس دنیا میں اس کی توحید کی علمبردار ہوتی ہے ۔ان سب کے لئے وہ بیحدغیرت دکھاتا ہے ۔اور جہانتک اس معاشرے کا تعلق ہے جس کی یہاں بحث ہو رہی ہے جس میں یہ خاندان تھا،تو اس میں ایک مرد کے لئے سب سے ز یادہ جائے غیرت اس کے گھر کی عورت ہوتی ہے۔خدا تعالیٰ کے کاموں کی حکمتیں تو وہی جانتا ہے لیکن اس جگہ جو حالات نظر آتے ہیں۔ ان کے پیشِ نظر یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی غیرت کو بھڑکانے کے سامان کئے تھے بعینہٖ اسی طرح خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کی غیرت کی جگہوں کو ضرب لگائی تاکہ وہ نصیحت اور عبرت حاصل کریں اور توبہ کرتے ہوئے اس کی طرف رجوع کریں۔ ان لوگوں نے چونکہ ذاتِ باری تعالیٰ اور محبوبِ باری تعالیٰ حضرت محمّد مصطفی ﷺ کی شان میں گستاخیاں کی تھیں جن کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح میں غیرت کا ایک الاؤ بھڑک رہا تھا۔آپ ؑ کے دل سے خدا تعالیٰ کی توحید کے لئے اور اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمّد مصطفی ﷺکے لئے ناموس کے لئے التجائیں اٹھتی تھیں۔ بالآخر خدا تعالیٰ نے آپ ؑ کو الہاماً یہ خبر دی
’’کذّبوا بآیٰتنا وکانوا بھا یستھزء ون فسیکفیکھم اللّٰہ و یردّھا الیک لا تبدیل لکلمات اللّٰہ۔‘‘(اشتہار ۱۰ جولائی ۱۸۸۸ ؁ء)
ترجمہ:۔ان لوگوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا ہے اور ان کے ساتھ ٹھٹھا کرتے رہے ہیں۔پس اللہ تعالیٰ ان کے مقابلہ میں تیرے لئے کافی(سپر) ہو گا۔(یعنی انہیں عذاب دے گا)اور اس عورت کو تیری طرف لوٹائے گا۔خدا کے کلمات بدل نہیں سکتے۔‘‘
پھر ۱۵ جولائی والے اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حسبِ ذیل الہام بھی درج کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’رأیت ھذہ المرأۃ و أثر البکاء علٰی وجھھا فقلت أیّتھا المرأۃ توبی توبی فانّ البلاء علی عقبک والمصیبۃ نازلۃ علیک یموت و یبقٰی منہ کلابٌ متعدّدۃ۔‘‘ (اشتہار ۱۵ جولائی ۱۸۸۸ء۔حاشیہ تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ۱۲۰)
ترجمہ:۔ میں نے اس عورت (یعنی محمّدی بیگم کی نانی) کو( کشفی حالت میں) دیکھا اور رونے کے آثار اس کے چہرے سے ظاہر تھے۔پس میں نے اس سے کہا کہ اے عورت توبہ کر ! توبہ کر! کیونکہ بلا تیری اولاد پر ہے۔اور مصیبت تجھ پر نازل ہونے والی ہے۔ ایک مرد مر جائے گا اور اس کی طرف کتّے باقی رہ جائیں گے۔
پس اس امر کو بنیادی طور پر یاد رکھنا چاہئے کہ الہام ’’یردّھا الیک لا تبدیل لکلمات اللہ‘‘ توبہ نہ کرنے کی شرط سے مشروط ہے۔ اس کی وضاحت ۱۵ جولائی والے الہام سے ہوتی ہے۔ یعنی توبہ کے وقوع میں آنے سے پیشگوئی کا یہ حصہ جو محمّدی بیگم کی واپسی سے تعلق رکھتا ہے ٹل سکتا تھا۔
چنانچہ جب محمّدی بیگم کے باپ نے ان کا نکاح دوسری جگہ کر دیا تو پیشگوئی کے مطابق محمّدی بیگم کا والد مرزا احمد بیگ نکاح کرنے کے بعدچھ ماہ کے عرصہ میں پیشگوئی کی میعاد کے اندر ہلاک ہو گیا۔اس کی ہلاکت کا اس خاندان پرگہرا اثر پڑااور وہ پہلے سے بتائی ہوئی تقدیرِ الہٰی سے بیحد خوفزدہ ہوئے۔اسی اثر کے تحت محمّدی بیگم کے خاوند مرزا سلطان محمد نے بھی توبہ کی اور رجوع الیٰ اللہ کیا۔ اس پیشگوئی میں ابتدائی طور پر ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بات داخل فرمائی تھی کہ
’’...... میں انہیں یک دم ہلاک نہیں کروں گا۔بلکہ آہستہ آہستہ تاکہ وہ رجوع کریں اور توبہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔‘‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی کی اصل غرض اس خاندان کی توبہ اور اصلاح تھی۔اوریہی اس پیشگوئی کا حقیقی محور تھا۔جب تک شرط قائم رہی خدا تعالیٰ کی تقدیر قہری رنگ میں پوری ہوئی اور مرزا احمد بیگ اس کا نشانہ بنا۔ اس سے عبرت حاصل کرکے رجوع الیٰ اللہ کرنے والوں پر خدا تعالیٰ کی تقدیرِعفو جاری ہوئی۔ لا تبدیل لکلمات اللہکا یہی معنیٰ ہے کہ جب کوئی توبہ کرتا ہے اوراللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ اس کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ اس کو معاف کرتا ہے۔ اس کی اس تقدیر میں تبدیلی نہیں ہوتی۔پس اس خاندان کی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ سے خدا تعالیٰ کے نہ تبدیل ہونے والے کلمات قائم رہے اور اس پیشگوئی کا مقصود پورا ہو گیا۔ اور اس کے دوسرے حصے جو مشروط تھے وہ ٹل گئے۔چونکہ محمّدی بیگم کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف واپسی عدمِ توبہ کی شرط سے مشروط تھی اوریہ واپسی اس کے خاوند کے مرنے اور محمّدی بیگم کے بیوہ ہونے کے بعدہی ممکن تھی اس لئے پیشگوئی میں اس سے نکاح کی شق غیر مشروط نہ تھی۔جب اس کے خاوند نے شرطِ توبہ سے فائدہ اٹھایا تو خدا تعالیٰ کے عفو کے تحت آ کر موت سے بچ گیا۔اسی وجہ سے نکاح جو اس کی موت سے معلق اور مشروط تھا وہ ضروری الوقوع نہ رہا ۔
اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا یہ اجمالی نقشہ ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے، میعاد کے اندرمرزا سلطان محمّد کی موت نہ ہونے کا سبب اس کی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ تھا۔ الہٰی قوانین میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وعید کی پیشگوئی، خواہ اس میں شرط کا بیان نہ بھی ہو، ہمیشہ عدمِ توبہ کے ساتھ مشروط ہوتی ہے۔لہذا وہ لازماًتوبہ اور رجوع سے ٹل جاتی ہے ۔لیکن جہانتک اس پیشگوئی کا تعلق ہے ،اس میں خدا تعالیٰ نے توبہ کی شرط بیان فرما دی تھی۔ اس لئے محمّدی بیگم کے خاوند کی توبہ اور رجوع الیٰ سے نکاح والی شق ٹل کر کالعدم ہو گئی۔ پس خدا تعالیٰ کے الہامات پر کسی شخص کو یہ اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں کہ نکاح کیوں وقوع میں نہ آیا۔

مرزا احمد بیگ اور اس کے داماد کی موت کی میعاد میں اختلاف کی حکمت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا احمد بیگ کو مخاطب کر کے لکھا تھا کہ
’’آخرالمصائب موتک تموت الیٰ ثلاث سنین بل موتک قریب‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن۔جلد صفحہ۵۷۳)
ترجمہ:۔ آخری مصیبت تیری موت ہے اور تو تین سال بلکہ اس سے قریب مدّت میں مر جائے گا۔
اسی جگہ محمّدی بیگم کے خاوند کے لئے اڑہائی سال کی مدّت بیان کی گئی ہے۔واقعات کے لحاظ سے’’ موتک قریب‘‘ کا الہام اس طرح پورا ہوا کہ مرزا احمد بیگ اپنی لڑکی کا نکاح مرزا سلطان محمّدسے کرنے کے بعدپیشگوئی کے مطابق چھ ماہ کے عرصہ میں ہی ہلاک ہو گیا۔ یہ ہلاکت اس کی بیباکی اور شوخی میں بڑھ جانے کا نتیجہ تھی۔ورنہ ممکن تھا کہ اس کا داماد پہلے مر جاتا۔ نیز اس میں یہ اشارہ تھا کہ اگر مرزا احمد بیگ کی موت اپنے داماد سے پہلے واقع ہو جائے تو پھر مرزا سلطان محمّد توبہ کر کے ضرور بچ جائے گا اور اس کے بارہ میں پیشگوئی ٹل جائے گی۔’’آخرالمصائب موتک ‘‘ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا احمد بیگ کی موت اس خاندان پرمصیبتوں میں سے آخری مصیبت ہو گی اور اس سے عبرت کے سامان ہونگے اور وہ خاندان دیگر مصیبتوں سے بچ جائے گا اور پیشگوئی کی اصل غرض یعنی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ اور اصلاح پوری ہوگی۔ 

مرزا سلطان محمّد کی توبہ

مرزا سلطان محمّد کی توبہ کی وجہ سے جب اس کی موت نہ ہوئی تو بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ اس کی موت پیشگوئی کے مطابق واقع نہیں ہوئی تو اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اعلان فرمایا
(ا) ’’ فیصلہ تو آسان ہے۔ احمد بیگ کے داماد سلطان محمّد سے کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘(انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۳۲ حاشیہ)
(ب) ’’ضرور ہے کہ یہ وعید کی موت اس سے تھمی رہے جب تک کہ وہ گھڑی نہ آ جائے کہ اس کو بیباک کر دے۔ سو اگر جلدی کرنا ہے تو اٹھواس کو بے باک اور مکذّب بناؤ اور اس سے اشتہار دلاؤ اور خدا کی قدرت کا تماشا دیکھو۔‘‘(انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۳۲ حاشیہ)
یہ دونوں اعلان ظاہر کرتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس چیلنج کے بعد اگر مرزا سلطان محمّد کسی وقت شوخی اور بے باکی دکھاتے یا مخالفین ان سے تکذیب کا اشتہار دلانے میں کامیاب ہو جاتے تو پھر اس کے بعد اس کی موت کے لئے جو میعاد خدا تعالیٰ قائم فرماتا وہ قطعی فیصلہ کن اور تقدیرِ مبرم ہوتی اور اس کے مطابق لازماًاس کی موت واقع ہوتی۔اورپھر اس کے بعد محمّدی بیگم کا نکاح حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ضروری اور اٹل ہو جاتا۔اس تفصیل کو جاننے کے بعد کسی کا یہ کہنا کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی بالکل بے بنیاد اور جھوٹ ہے۔

مرزا سلطان محمّد کی توبہ کا قطعی ثبوت

مرزا سلطان محمّد نہ صرف یہ کہ حقیقۃً توبہ کر چکے تھے بلکہ اس پیشگوئی کی صداقت کے مصدّق بھی تھے ۔نیز یہ بھی کہ اس کی تصدیق پر نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قائم رہے بلکہ صدقِ دل سے اپنی موت تک اس پر ثبات دکھایا،اس کا ثبوت یہ ہے کہ کتاب ’’انجامِ آتھم‘‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا چیلنج کے شائع ہونے پرآریوں اور عیسائیوں میں سے بعض لوگ ان کے پاس پہنچے اور انہیں ایک خطیر رقم دینے کا وعدہ کیا تا وہ حضرت اقدس ؑ پر نالش کریں۔
مرزا سلطان محمّد جن سے محمّدی بیگم کی شادی ہوئی انہوں نے نہ صرف یہ کہ توبہ کی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقیدتمندبن گئے اور اس پیشگوئی کی صداقت کے گواہ بنے۔ان کی گواہی انتہائی وزنی اور حتمی اس لئے ہے کہ ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی موت اور پھر اس کی بیوہ کے اپنے نکاح میں آنے کی پیشگوئی کی تھی اور اپنی متعدد کتب و اشتہارات میں اس کا ذکر بھی فرمایا تھا ، ان کو تو آپ ؑ سے طبعاً دشمنی اور عناد ہونا چاہئے تھا۔لیکن وہ چونکہ نیک فطرت انسان تھے اس لئے انہوں نے کسی منفی جذبے کو اپنی فطری سچائی پر غالب نہ آنے دیا۔ اس کا ناقابلِ ردّ ثبوت یہ ہے کہ حافظ جمال احمد صاحب فاضل مبلغِ سلسلہ نے ان کا ایک انٹرویو لیا جواخبار الفضل۔ ۹؍۱۳ جون ۱۹۲۱ ؁ء میں ’’مرزا سلطان محمّد صاحب کا ایک انٹرویو‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے بیان کیا کہ
’’میرے خسر جناب مرزا احمد بیگ صاحب واقع میں عین پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئے، مگر خدا تعالیٰ غفور الرحیم ہے، اپنے دوسرے بندں کی بھی سنتا ہے اور رحم کرتا ہے......... میں ایمان سے کہتا ہوں کہ یہ نکاح والی پیشگوئی میرے لئے کسی قسم کے بھی شکّ و شبہ کا باعث نہیں ہوئی۔ باقی رہی بیعت کی بات، سو میں قسمیّہ کہتا ہوں کہ جو ایمان اور اعتقاد مجھے حضرت مرزا صاحب پر ہے میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی جو بیعت کر چکے ہیں اتنا نہیں ہو گا۔.......باقی میرے دل کی حالت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے وقت آریوں نے لیکھرام کی وجہ سے اور عیسائیوں نے آتھم کی وجہ سے مجھے لاکھ لاکھ روپیہ دینا چاہا، تا میں کسی طرح مرزا صاحب پر نالش کروں۔ اگر میں وہ روپیہ لے لیتا تو امیر کبیر بن سکتا تھا۔ مگر وہی ایمان اور اعتقاد تھا جس نے مجھے اس فعل سے روکا۔‘‘(الفضل ۱۳/۹ جون ۱۹۲۱ء)
مرزا سلطان محمّد صاحب کا یہ بیان ان کی زندگی میں ہی شائع ہوا۔انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کو مومنانہ سوچ اور بصیرت کی نظر سے دیکھا توباوجود ایک طرح سے فریقِ مخالف ہونے کے ، خود اس کی صداقت کے گواہ بن گئے۔چونکہ وہ حقیقی توبہ کر چکے تھے اور پیشگوئی کی صداقت کے قائل تھے اس لئے وہ اس گراں بہا لالچ دئے جانے پر بھی کسی قسم کی بے باکی اور شوخی کے لئے تیّار نہ ہوئے۔
اسی طرح حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدؓ کی مرزا سلطان محمّد صاحب سے ملاقات کے بارہ میں حلفیہ شہادت ہے ۔اس ملاقات میں انہوں نے بعینہٖ انہی جذبات کا اظہار کیا جو مذکورہ بالا انٹرویو میں بیان ہوئے ہیں۔
حضرت مولوی ظہورحسین مجاہدِ بخارا نے مرزا سلطان محمّد سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے یہ حلفیہ شہادت دی کہ انہوں نے بتایا کہ
ان کے پاس مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی آئے تھے اور شدید اصرار کیا کہ وہ انہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک ایسی تحریر دیدیں جس میں یہ بیان ہو کہ یہ پیشگوئی غلط ثابت ہوئی۔مرزا سلطان محمّد نے بیان کیا کہ’’ مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب یہی رٹ لگاتے رہے جس پر میں نے ایسی تحریر دینے سے صاف طور پرانکار کر دیا اور وہ بے نیلِ مرام واپس چلے گئے۔...... حضرت مرزا صاحب کے متعلق میری عقیدت ہی تھی جس کی وجہ سے میں نے ان کی ایک بھی نہ مانی۔ ... ... عیسائی اور آریہ قوم کے بڑے بڑے لیڈروں نے بھی مجھ سے اس قسم کی تحریر لینے کی خواہش کی مگر میں نے کسی کی نہ مانی اور صاف ایسی تحریر دینے سے انکار کرتا رہا۔‘‘
علاوہ ازیں انہوں نے اپنے ایک احمدی دوست کے نام اپنے ایک خط میں بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ وہ لکھتے ہیں
’’از انبالہ چھاؤنی ۲۱؍۳؍۱۳
برادرم سلّمہٗ
نوازش نامہ آپ کا پہنچا ۔یاد آوری کا مشکور ہوں۔ میں جناب مرزا جی صاحب مرحوم کو نیک ۔بزرگ۔ اسلام کا خدمت گذار۔ شریف النفس۔خدا یاد پہلے بھی اور اب بھی خیال کررہاہوں۔ مجھے ان کے مریدوں سے کسی قسم کی مخالفت نہیں ہے۔ بلکہ افسوس کرتا ہوں کہ چند ایک امورات کی وجہ سے ان کی زندگی میں ان کا شرف حاصل نہ کر سکا۔
نیازمند سلطان محمّد از انبالہ

پیشگوئی کی عین مطابق، محمدی بیگم کے والد مرزا احمد بیگ کی موت سے اس خا ندان کی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ کا نتیجہ تھا کہ اس میں سے بہت سے افراداس پیشگوئی کے مصدّق ہو کر حلقہ بگوشِ احمدیّت ہو ئے۔ جن کی تفصیل ذیل میں درج ہے۔
۱۔اہلیہ مرزا احمد بیگ صاحب (والدہ محمّدی بیگم۔ یہ موصیہ تھیں)
۲۔ ہمشیرہ محمّدی بیگم
۳ ۔مرزا محمّد احسن بیگ جو مرزا احمد بیگ کے داماد ہیں اور اہلیہ مرزا احمد بیگ کے بھانجے ہیں
۴ ۔عنایت بیگم ہمشیرہ محمّدی بیگم
۵ ۔مرزا محمّد بیگ صاحب پسر مرزا احمد بیگ صاحب
۶۔مرزا محمود بیگ صاحب پوتا مرزا احمد بیگ صاحب
۷ ۔دختر مرزا نظام دین صاحب اور ان کے گھر کے سب افراد
۸۔مرزا گل محمّد پسر مرزا نظام دین صاحب
۹۔اہلیہ مرزا غلام قادر صاحب ( موصیہ تھیں)
۱۰۔محمودہ بیگم ہمشیرہ محمّدی بیگم صاحبہ
۱۱۔مرزا محمّد اسحاق بیگ صاحب ابن مرزا سلطان محمّد صاحب۔
یہ سب محمدی بیگم کے بالکل قریبی رشتہ دار ہیں اوریہ سب اس پیشگوئی کے بعد اس کی صداقت کو دیکھ کر حلقہ بگوشِ احمدیت ہوئے ۔ ان میں سے مرزا اسحق بیگ صاحب ، محمدی بیگم کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ کی منشا کے عین مطابق اس پیشگوئی کے عملاً وقوع کی شہادت دی بلکہ اس کے علمی پہلوؤں پر بھی ایک جامع بحث کی۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں
’’ بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
احبابِ کرام ! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ‘
پیشتر اس کے کہ میں اپنا اصل مدّعا ظاہر کروں، یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ واﷲ میں کسی لالچ یا دنیوی غرض یا کسی دباؤ کے ماتحت جماعتِ احمدیہ میں داخل نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ایک لمبے عرصہ کی تحقیقِ حق کے بعد اس بات پر ایمان لایا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب اپنے ہر دعوٰی میں صادق اور مامور من اﷲ ہیں اور اپنے قول وفعل میں ایسے صادق ثابت ہوئے ہیں کہ کسی حق شناس کو اس میں کلام نہیں ہو سکتا۔آپ کی تمام پیشگوئیاں ٹھیک ٹھیک پوری ہوئیں۔یہ الگ سوال ہے کہ بعض لوگ تعصّب یا نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض پیشگوئیوں کو پیش کر کے عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ مثلاً ان میں سے ایک پیشگوئی مرزا احمد بیگ صاحب وغیرہ کے متعلق ہے۔اس پیشگوئی کو ہر جگہ پیش کر کے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کا پورا ہونا ثابت کرو۔حالانکہ وہ بھی صفائی کے ساتھ پوری ہو گئی۔ میں اس پیشگوئی کے متعلق ذکر کرنے سے پیشتر یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی تھی اور ایسی انذاری پیشگوئیاں خدا تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ اس لئے کرایا کرتا ہے کہ جن کے متعلق ہوں ان کی اصلاح ہو جائے۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ ماَ نُرْسِلُ بِالاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا کہ ہم انبیاء کو نشانات اس لئے دیتے ہیں کہ لوگ ڈر جائیں۔
اس میں اﷲ تعالیٰ نے یہ اصل بیان فرما دیا کہ ایسی انذاری پیشگوئیاں لوگوں کی اصلاح کی غرض سے کی جاتی ہیں۔ جب وہ قوم اﷲ تعالیٰ سے ڈر جائے اور اپنی صلاحیّت کی طرف رجوع کرے تو اﷲ تعالیٰ اپنا معلّق عذاب بھی ٹال دیتا ہے۔جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ نیز حضرت موسٰی ؑ کی قوم کے حالات وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْھِمُ الرِّجْز سے ظاہر ہے۔اس صورت میں انذاری پیشگوئی کا لفظی طور پر پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔یہی نقشہ یہاں نظر آتا ہے کہ جب مرزا صاحبؑ کی قوم اور رشتہ داروں نے گستاخی کی ، یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی ہستی سے انکار کیا، نبی کریمﷺ اور قرآنِ پاک کی ہتّک کی اور اشتہار دے دیا کہ ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے تو اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ کے مامور کے ذریعہ پیشگوئی فرمائی۔اس پیشگوئی کے مطابق میرے نانا جان مرزا احمد بیگ صاحب ہلاک ہو گئے اور باقی خاندان ڈر کر اصلاح کی طرف متوجّہ ہو گیا۔جس کا ناقابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثر نے احمدیّت قبول کر لی۔تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی صفتِ غفورالرحیم کے ماتحت قہر کو رحم میں بدل دیا۔
میں پھر زور دار الفاظ میں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔
میں ان لوگوں سے جن کو احمدیّت قبول کرنے میں یہ پیشگوئی حائل ہے عرض کرتا ہوں کہ وہ مسیح الزمان ؑ پر ایمان لے آئیں۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، یہ وہی مسیحِ موعود ؑ ہیں جن کی نسبت نبی کریم ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی اور ان کا انکار نبی کریمﷺ کا انکار ہے۔حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے کیا درست فرمایا ہے
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیّت کا ہوں حصار
اِک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا
پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار
خاکسار مرزا محمّد اسحٰق بیگ، پٹی ضلع لاہور حال وارد چک ۱۶۵۔۲بی۔‘‘
(مطبوعہ ۔الفضل ۲۶ فروری ۱۹۳۲ صفحہ ۹)
الغرض یہ پیشگوئی وعیدی پیشگوئیوں کے اصولوں کے عین مطابق ،خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی تفصیلات کے ساتھ پوری ہوئی ۔ نیز اس کی اصل غرض بھی پوری ہوئی یعنی اس خاندان کی اصلاح ہوئی اور وہ اللہ تعالی کی طرف لوٹ آئے۔ ایک ہی فرد کی ہلاکت سے باقی سارے خاندان نے عبرت حاصل کی۔ان میں سے بعض نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عجزو نیاز سے خط بھی لکھے اور دعا کی درخواست کی۔ان خطوط کا ذکر آپ ؑ نے اپنی کتاب ’’حقیقۃ الوحی‘‘(روحانی خزائن۔جلد۲۲ صفحہ۱۹۵) میں کیا ہے۔


پیشگوئی کا تجزیہ

اس پیشگوئی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو عملاً اس کے پانچ حصے ہیں۔جن میں سے پہلے تین حصے لفظاً پورے ہوئے اور وعیدی پیشگوئی ہونے کی وجہ سے باقی دو حصے مرزا سلطان کی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ سے ٹل گئے۔کیونکہ وعیدی پیشگوئیوں کے بارہ میں سنت اللہ یہ ہے کہ وہ توبہ کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں۔لہٰذا پیشگوئیوں کے اصول اوران کے بارہ میں سنت اللہ کی رو سے نفسِ پیشگوئی پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا۔
پیشگوئی کے یہ پانچ حصے جوحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ اور ’’شہادۃ القرآن‘‘ سے مأخوذ ہیں، درجِ ذیل ہیں۔
حصہ اوّل:۔اگر مرزا احمد بیگ اپنی بڑی لڑکی کا نکاح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے نہ کرے گاتو پھر وہ اس وقت تک زندہ رہے گا کہ اپنی اس لڑکی کا نکاح کسی دوسری جگہ کرے۔
حصہ دوم:۔نکاح تک وہ لڑکی بھی زندہ رہے گی۔
حصہ سوم:۔ دوسری جگہ نکاح کرنے کے بعد مرزا احمد بیگ تین سال کے اندر بلکہ بہت جلد ہلاک ہو جائے گا۔
حصہ چہارم:۔ دوسری جگہ نکاح کے بعد اس لڑکی کا خاوند اڑہائی سال کے اندر ہلاک ہو جائے گا۔(بشرطیکہ وہ توبہ اور رجوع الیٰ اللہ نہ کرے کیونکہ وعیدی پیشگوئی لازماً مشروط بعدمِ توبہ ہوتی ہے۔)
حصہ پنجم:۔خاوند کی ہلاکت کے بعد وہ لڑکی بیوہ ہوگی۔اور بیوہ ہونے کے بعد حضرت اقدس کے نکاح میں آئے گی۔یعنی پیشگوئی کا یہ آخری حصہ اس لڑکی کے خاوند کی موت سے مشروط تھا۔
نشان اوّل:۔ پیشگوئی کا پہلا حصہ بطور نشان اوّل پورا ہوگیا۔ اگر محمّدی بیگم کا باپ اس کا نکاح کرنے سے پہلے وفات پا جاتا تو پیشگوئی کاحصہ اوّل پورا نہ ہوتا مگر یہ صفائی کے ساتھ پورا ہوا۔ کیونکہ پیشگوئی یہ تھی کہ’’تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مر جاؤ گے بلکہ تمہاری موت قریب ہے۔‘‘
نشان دوم:۔پیشگوئی کے دوسرے حصہ کے مطابق لڑکی نکاح تک زندہ رہ کر نشان بنی۔ اگر وہ نکاح سے پہلے مر جاتی تو پیشگوئی کا دوسرا حصہ بھی پورا نہ ہوتا۔ مگر یہ حصہ بھی نہایت صفائی کے ساتھ پورا ہوا۔
نشان سوم:۔دوسری جگہ نکاح کے بعد لڑکی کا باپ چھ ماہ کے عرصہ میں ہلاک ہو گیا۔ اگر اس کی موت تین سال سے تجاوز کر جاتی تو پیشگوئی کایہ حصہ بھی پورا نہ ہوتا۔لیکن یہ حصہ بھی نہایت صفائی کے ساتھ پورا ہوا۔
اس طرح یہ تینوں حصے پورے ہو کر اس پیشگوئی کی صداقت کے نشان بن گئے۔

باقی دو حصوں کا ظہور

پچھلے دو حصے اس طرح ظہور پذیر ہوئے کہ محمّدی بیگم کے خاوند مرزا سلطان محمّد پر اپنے خسر کی موت سے سخت ہیبت طاری ہوئی اور اس نے توبہ اور استغفار کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کیااور وعیدی پیشگوئی کی شرطِ توبہ سے فائدہ اٹھا کر موت سے بچ گیا۔ شرطِ توبہ سے فائدہ اٹھا نے کے باعث اس سے موت تو ٹل گئی لیکن پیشگوئی کی اصل غرض یعنی
’’تاکہ وہ رجوع کریں اور توبہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں‘‘
بڑے جلال اور کمال کے ساتھ پوری ہوئی۔جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ کی وجہ سے ان سے وہ عذاب ٹل گیا تھا جو حضرت یونس علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ان پر چالیس دن پورے ہو جانے کے بعد لازماً وارد ہونے والا تھا۔
چونکہ مرزا سلطان محمّدکی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ سے اس سے موت ٹل گئی اور حضرت اقدس سے محمّدی بیگم کا نکاح اس کے بیوہ ہو جانے سے مشروط تھا اس لئے اب اس کا وقوع میں آنا ضروری نہ رہا۔اس طرح پیشگوئی کے یہ آخری دو حصے اس کی اصل غرض کے حاصل ہو جانے کے رنگ میں پورے ہوئے۔
اب نکاح کا وقوع صرف اس بات سے معلق ہو کررہ گیا کہ مرزا سلطان محمّد از خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں کسی وقت بیباکی اور شوخی دکھائے اور پیشگوئی کی تکذیب کرے۔یہ تکذیب محض امکانی تھی ،ضروری الوقوع نہ تھی۔اور نکاح کے اس طرح معلق ہونے کی حد بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی تک ہی تھی۔مگر محمّدی بیگم کا خاوند مرزا سلطان محمّد، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی توبہ پر قائم رہا اور بعد میں بھی۔ اسی طرح اس خاندان کے دوسرے افراد نے بھی اصلاح کر لی تو اس وعیدی پیشگوئی کی اصل غرض جو اس خاندان کی اصلاح تھی پوری ہو گئی۔کیونکہ اس خاندان کے افراد نے الحاد اور دہریّت کے خیالات کو ترک کر دیا اور اسلام کی عظمت کے قائل ہو گئے اور ان میں سے اکثر نے احمدیت کو قبول کیا۔یہاں خدا تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ
مَا کَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ‏ (الانفال:۳۴)
ترجمہ:۔ اللہ ان لوگوں کو عذاب دینے والا نہیں ہے اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔
خدا تعالیٰ کے اس قانون کے مطابق اب مرزا سلطان محمّد پر عذاب صرف اسی صورت میں نازل ہو سکتا تھا کہ وہ توبہ کو توڑ دیتا اور پیشگوئی کی تکذیب کر دیتا اور پھر اس کی موت کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے نئی میعاد مقرر ہوتی۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب انجامِ آتھم کے صفحہ۳۲ پر نکاح کی پیشگوئی کومرزا سلطان محمّد کی طرف سے آئندہ اس پیشگوئی کی تکذیب کرنے اور بیباکی اور شوخی دکھانے سے اور اس کے لئے نئی میعاد مقرر ہونے سے معلق قرار دے دیا۔ایسا ہونا اس لئے ضروری تھا کہ یہ امکان ابھی باقی تھا کہ مرزا سلطان محمّد کسی وقت اگرتکذیب کر دیتا تو پیشگوئی میں لوگوں کے لئے اشتباہ پیدا ہو جاتا۔
وعیدی پیشگوئی کی اصل غرض چونکہ توبہ اور استغفار اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع دلانا اور خدا تعالیٰ کی عظمت کا سکّہ دلوں پر بٹھانا اور اصلاح ہوتی ہے اس لئے جب یہ شرط پوری ہو جائے تو پھر سنت اللہ کے مطابق عذاب بالکل ٹل جایا کرتا ہے ۔ اور اگر انہوں نے توبہ پر قائم نہ رہنا ہو تو پھر سنت اللہ یوں ہے کہ عذاب میں اس وقت تک تاخیر ہو جاتی ہے کہ وعیدی پیشگوئی کے متعلقین پھر بے باکی اور شوخی دکھاتے ہوئے توبہ توڑ دیں۔چنانچہ ملاحظہ فرمائیں

حضرت یونس علیہ السلام اور وعیدی پیشگوئی

کتبِ تفاسیر میں لکھا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم کو وعید کرتے ہوئے یہ پیشگوئی کی تھی کہ
’’انّ اجلکم اربعون لیلۃ‘‘
ترجمہ:۔تمہاری مدّت چالیس راتیں ہیں۔
لیکن قوم نے توبہ کر لی اور عذاب ٹل گیا۔ چنانچہ لکھا ہے
’’فتضرّعوا الیٰ اللّٰہ و رحمھم و کشف عنھم‘‘ ( تفسیر کبیر از حضرت امام رازیؒ ۔جلد ۵ صفحہ ۴۲)
ترجمہ:۔ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑائے تو اس نے ان پر رحم کیا اور ان سے عذاب دور کر دیا۔
ایسا ہی مضمون تفسیر فتح البیان۔سورہ الصافّات۔زیر آیت’’ فساھم فکان من المدحَضین‘‘ بھی بیان ہوا ہے۔(ملاحظہ فرمائیں۔جلد۸ صفحہ ۱۲۸۔مطبوعہ دار الفکر العربی )
چونکہ یہ لوگ اپنی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ میں مخلص تھے اور اس پر پھر ہمیشہ قائم رہے اس لئے ان سے عذاب بھی مستقلاً ٹلا رہا اور خدا تعالیٰ نے ان سے اپنی پہلی سنت کے مطابق معاملہ کیا۔
خدا تعالیٰ کی دوسری سنت کا سلوک فرعون اور آلِ فرعون میں دکھائی دیتا ہے کہ آلِ فرعون جب عذاب آنے پرحضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کرتی تھی اور ایمان لانے کا وعدہ کرتی تھی تو خدا تعالیٰ ان سے عذاب ٹال دیتا تھا۔ پھر چونکہ وہ اپنے وعدہ پر قائم نہیں رہتی تھی اس لئے پھر عذاب میں پکڑی جاتی تھی۔ بالآخرآلِ فرعون مع فرعون توبہ پر قائم نہ رہنے کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا تعاقب کرنے پرموعودہ عذاب میں پکڑی گئی اور سمندر میں غرق ہو گئی۔ اس قوم سے خدا تعالیٰ نے اپنی دوسری سنت یعنی تأخیرِ عذاب کے مطابق سلوک کیا۔

پیشگوئی میں اجتہادی خطا

بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی طرف سے شرط کے مذکور نہ ہونیکی وجہ سے یا شرط کی طرف سے بھول ہو جانے کے باعث پیشگوئیوں میں اجتہادی خطا واقع ہو سکتی ہے۔ ایسی اجتہادی خطا قابلِ اعتراض نہیں ہوتی۔چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام سے وحی الہٰی کے سمجھنے میں اجتہادی غلطی ہوئی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ‌ؕ (ہود:۴۱)
ترجمہ:۔ یہانتک کہ جب ہمارا فیصلہ آ پہنچا اوربڑے جوش سے چشمے پھوٹ پڑے تو ہم نے (نوحؑ سے )کہا کہ اس (کشتی) میں ہر قسم کے جوڑوں میں سے دو دو سوار کر اور اپنے اہل کو بھی سوائے اس کے جس کے خلاف فیصلہ گزر چکا ہے اور (اسے بھی سوار کر) جو ایمان لایا ہے۔
اوراس سے قبل حضرت نوح علیہ السلام کو یہ حکم دیا جا چکا تھا
وَلَا تُخَاطِبْنِىْ فِىْ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا‌ؕ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ‏ ۔ (ہود: ۳۸)
ترجمہ:۔اور جن لوگوں نے ظلم کیا ان کے بارہ میں مجھ سے کوئی بات نہ کر۔یقیناً وہ غرق کئے جانے والے ہیں۔
حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا جب غرق ہونے لگا تو انہوں نے خدا تعالیٰ کو اس کا وعدہ یاد دلایا اور کہا
اِنَّ ابْنِىْ مِنْ اَهْلِىْ وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَـقُّ ۔(ہود:۴۶)
ترجمہ:۔ یقیناً میرا بیٹا بھی میرے اہل سے ہے اور تیرا وعدہ ضرور سچّاہے۔ (یعنی اسے وعدہ کے مطابق بچنا چاہئے)
یہ وعدہ یاد دلانے میں حضرت نوح علیہ السلام کو پیشگوئی کی اس شرط سے ذہول ہوگیاجو ’’ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ‘‘ ا ور ’’وَلَا وَلَا تُخَاطِبْنِىْ فِىْ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا‌ؕ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ‏ ‘‘کے الفاظ میں بیان ہوئی تھی۔ اور وہ غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ خدائی وعدہ کے مطابق میرا یہ بیٹا بھی غرق ہونے سے بچنا چاہئے لیکن ان کا یہ اجتہاد درست نہ تھا۔اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کے وعدہ یاد دلانے پر انہیں یہ جواب دیا کہ
إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ  (ہود :۴۷)
ترجمہ:۔یقیناً وہ تیرے اہل میں سے نہیں ۔بلاشبہ وہ تو سراپا ایک ناپاک عمل تھا۔پس مجھ سے وہ نہ مانگ جس کا تجھے کچھ علم نہیں۔میں تجھے نصیحت کرتا ہوں مبادا تو جاہلوں میں سے ہو جائے۔
پس پیشگوئی کرنے والے سے کسی شرط کا نظر انداز ہو جانا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اپنے دعاوی میں من جانب اللہ نہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا سلطان محمّد کے متعلق اڑہائی سالہ میعاد گزر جانے کے بعداس پیشگوئی کے شرطِ توبہ والے الہام یعنی ’’ایّتھا المرأۃ توبی توبی فانّ البلاء علی عقبک و المصیبۃ نازلۃ علیک‘‘کے نظر انداز ہو جانے کی وجہ سے اصل پیشگوئی کے الہامی الفاظ’’لا مبدّل لکلمات اللّٰہ‘‘کے پیش نظر اجتہاد کیا کہ پیشگوئی میں تأخیر ڈال دی گئی ہے ،یہ ٹلی نہیں۔اس لئے آپ ؑ نے اس قسم کی عبارتیں یقین اور وثوق پر مشتمل تحریر فرمائیں کہ محمّدی بیگم کا خاوند ضرور مرے گا اور وہ بیوہ ہو کرآپ ؑ کے نکاح میں آئے گی۔ایسی عبارتیں کسی جدید الہام پر مبنی نہ تھیں کیونکہ پیشگوئی کی اڑہائی سالہ میعاد گزر جانے کے بعد ۱۹۰۶ ؁ء تک آپؑ کو اس بارہ میں کوئی نیا الہام نہیں ہوا اور الہام ’’لا تبدیل لکلمات اللّٰہ‘‘جس اشتہار میں درج تھااسی کے تتمّہ میں پیشگوئی کی الہامی شرط توبہ بھی ’’ایّتھا المرأۃ توبی توبی۔۔۔۔‘‘ والے الہام میں درج تھی مگر اس شرط کی طرف عدمِ توجہ کی وجہ سے حضرت اقدسؑ نے یہی اجتہاد کیا کہ سلطان محمّد کسی وقت ضرور توبہ توڑ دے گا۔پھر اس کے نتیجہ میں وہ ہلاک ہوگااور اس کے بعد محمّدی بیگم ضرور آپؑ کے نکاح میں آئے گی۔یہ اجتہاد کرنے کا آپؑ کو بہرحال حق تھا اور آپ ؑ نے الہامات کے الفاظ کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ اجتہاد فرمایا کہ سلطان محمّدکا توبہ کو توڑنا ضروری ہے۔اس لئے پیشگوئی فی نفسہٖ ٹلی نہیں بلکہ اس کی موت میں صرف تأخیر ہوئی ہے ، مگر خدا تعالیٰ نے آپؑ کو اس اجتہاد پر قائم نہ رہنے دیا اور ۱۶ فروری ۱۹۰۶ ؁ء کو آپؑ پر یہ الہام نازل فرمایا
’’تکفیک ھذہٖ الامرأۃ‘‘ (تذکرہ۔صفحہ۵۹۶ ۔ایڈیشن ۱۹۶۹ء۔مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ)
کہ تمہارے لئے یہ عورت جو تمہارے نکاح میں ہے کافی ہے۔ اس الہام کے نزول پر آپؑ نے اپنے اجتہاد میں اصلاح فرما لی اور تتمہ حقیقۃ الوحی میں صاف لکھ دیا کہ
’’جب ان لوگوں نے شرط (توبہ۔ناقل) کوپورا کر دیا تو نکاح فسخ ہو گیا یا تأخیر میں پڑ گیا۔‘‘
اس جدید اجتہاد سے جو نئے الہام کی روشنی میں کیا گیا اب حضرت اقدسؑ کا درمیانی زمانہ کا اجتہاد جس میں آپؑ نے محمّدی بیگم کے خاوند کے توبہ توڑنے کو اور اس کے بعد نکاح کو ضروری قرار دیا تھا،قابلِ حجّت نہ رہا۔
پس یہ پیشگوئی اپنی الہامی شرائط کے مطابق ظہور پذیر ہوئی۔لہٰذااس کے بارہ میں الہامات پر کسی قسم کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری اجتہاد بھی سنت اللہ کے عین مطابق تھا۔ اس لئے اس پر بھی کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا۔اس نئے الہام کی وجہ سے درمیانی زمانہ کے اجتہاد جو سلطان محمّد کی موت کو ضروری اور اس کے بعدنکاح کو مبرم قرار دیتے تھے ،اس شرط کے ساتھ مشروط سمجھے جائیں گے کہ اگر کسی وقت سلطان محمّداز خود توبہ توڑ دے تو اس کی ہلاکت اور پھر اس کے بعدحضرت اقدسؑ کا محمّدی بیگم سے ضرورنکاح ہوگا ورنہ نہیں۔پس جدید اجتہاد کی بنا پر پیش کردہ عبارتیں اوپر کی شرط سے مشروط ہوگئیں۔اس لئے اب عبارتوں کی ترتیب حسبِ ذیل ہوگی۔

عبارتوں کی ترتیب

۱:۔(اگر مرزا سلطان محمّد کسی وقت توبہ توڑ کر پیشگوئی کی تکذیب کرے )تو اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آ جانا یہ تقدیرِ مبرم ہے۔جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لئے الہامِ الٰہی میں یہ کلمہ موجود ہے۔لا تبدیل لکلمات اللہ یعنی میری بات ہرگز نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے۔(اعلان ۶ ستمبر ۱۸۹۶ ؁ء)
۲:۔ ’’ایک حصہ پیشگوئی کایعنی احمد بیگ کا میعاد کے اندر فوت ہو جانا حسبِ منشائے پیشگوئی صفائی سے پورا ہو گیا اور دوسرے کی انتظار ہے۔‘‘ (بشرطیکہ مرزا سلطان محمّد توبہ توڑ دے اور پیشگوئی کی تکذیب کرے) (تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن۔جلد۱۷ صفحہ۱۵۴)
۳:۔ ( اگر کسی وقت سلطان محمّد توبہ توڑ کر میری زندگی میں پیشگوئی کی تکذیب کرے تو) ’’یاد رکھو کہ اس کی دوسری جزو پوری نہ ہوئی تو میں ہر یک بد سے بدتر ٹھہروں گا۔اے احمقو ! یہ کسی انسان کا افتراء نہیں، یہ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں۔ یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کا سچّا وعدہ ہے۔وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں۔‘‘(ضمیمہ انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۳۳۸)
۴:۔ ( اگر کسی وقت میری زندگی میں سلطان محمّد نے توبہ توڑ دی تو)’’جس وقت یہ سب باتیں پوری ہو جائیں گی ......اس دن......نہایت صفائی سے(مخالفین کی) ناک کٹ جائے گی اور ذلت کے سیاہ داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں اور سؤروں کی طرح کر دیں گے۔‘‘(ضمیمہ انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد ۱۱صفحہ۳۳۷)
۵:۔ ’’وحی الٰہی میں یہ نہیں تھا کہ دوسری جگہ بیاہی نہیں جائے گی۔یہ تھا کہ ضرور ہے اوّل دوسری جگہ بیاہی جائے.....خدا اس کو تیری طرف لے آئے گا۔‘‘(بشرطیکہ اس کا خاوند توبہ نہ کرے یا توبہ کر کے توڑ دے)( الحکم۔ ۳۰ جون۱۹۰۵ ؁ء)


پیشگوئی پر اعتراضات کے جوابات

اعتراض اوّل:۔

حضرت مرزا صاحب نے ’’ازالہ اوہام‘‘ میں ۱۸۹۱ ؁ء میں لکھا کہ خدا تعالیٰ ہر طرح سے اس کو ( یعنی محمّدی بیگم کو)تمہاری طرف لائے گا۔باکرہ ہونے کی حالت میں یا بیوہ کر کے اور ہر ایک روک کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔ کوئی نہیں جو اس کام کو روک سکے۔‘‘
تو ایسا لکھنے کے باوجود درمیانی روکیں کیوں نہ اٹھائی گئیں؟
الجواب:۔ محمّدی بیگم باکرہ ہونے کی حالت میں اس وجہ سے نکاح میں نہ آئی کہ اس کے باپ نے شوخی کی راہ اختیار کر کے اس کا نکاح مرزا سلطان محمّد آف پٹی سے کر دیا۔اس کا یہ عمل پیشگوئی کے اس حصہ کو پورا کرنے کی بنیاد بن گیا جو ایسی صورت میں اس کی ہلاکت کے بارہ میں تھا۔چنانچہ وہ چھ ماہ کے اندر مر گیا۔اس سے محمّدی بیگم کے خاوند پر پیشگوئی کی ہیبت طاری ہو گئی اور اس نے توبہ اور استغفار سے کام لیا اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی اپنی اس توبہ پر قائم رہا اور آپ ؑ کے بعد بھی۔پس اس کے اس شرطِ توبہ سے فائدہ اٹھانے کی وجہ سے نکاح والا حصہ منسوخ ہو گیا۔یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اجتہاد تھا کہ سب روکیں اٹھا دی جائیں گی، نہ کہ الہام۔
جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے ’’ مَا کَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ‏ ‘‘( الانفال:۳۴) کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان کو عذاب دے جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں۔یعنی توبہ و استغفار کی روک کو جبراً اٹھانا اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے۔ چونکہ مرزا سلطان محمّدنے اس شرط سے فائدہ اٹھاکر اس پیشگوئی کی اصل غرض کو پورا کر دیا تھا اس لئے اس کے دوسرے حصے کے نفوذ کی ضرورت نہیں تھی لہٰذا وہ حصہ ٹل گیا۔

اعتراض دوم:۔

مرزا صاحب اسی کتاب میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ
’’اس کے بعد اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی۔ یہانتک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیت بھی کر دی گئی۔ اس وقت گویا یہ پیشگوئی آنکھوں کے سامنے آگئی اور یہ معلوم ہو رہا ہے کہ آخری دم ہے کل جنازہ نکلنے والا ہے۔تب میں نے اس پیشگوئی کی نسبت خیال کیا کہ شاید اس کے اور معنے ہوں گے جو میں نہ سمجھ سکا۔تب اسی حالت میں قریب الموت مجھے الہام ہوا۔ الحق من ربّک فلا تکن من الممترین۔ یعنی یہ بات تیرے رب کی طرف سے سچ ہے تو کیوں شک کرتا ہے۔‘‘(ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۷۹۸)
اس سے ظاہر ہے کہ اس الہام نے تصدیق بھی کر دی تھی کہ نکاح ضرور ہو گا مگر پھر نکاح کیوں وقوع میں نہ آیا؟
الجواب:۔اس الہام کے الفاظ سے صاف واضح ہے کہ اس کا مقصود صرف یہ ہے کہ پیشگوئی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا برحق امر ہے ،اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ۔ لہٰذا آپؑ کو نفسںِ پیشگوئی میں شک نہیں کرنا چاہئے۔ اس الہام سے یہ ظاہر کرنا مقصود نہ تھا کہ پیشگوئی کا ظہور کس رنگ میں ہو گا۔ کیونکہ ’’ازالہ اوہام‘‘ ۱۸۹۱ ؁ء کی کتاب ہے ۔ اس کے بعد مرزا احمد بیگ ہلاک ہو گیا اور پیشگوئی کے اس حصہ کا سچّا اور برحق ہونا روزِ روشن کی طرح ثابت ہو گیا۔دوسرا حصہ یعنی مرزا احمد بیگ کے داماد کی موت اور اس کی لڑکی کابیوہ ہوجانے کے بعد حضرت اقدس سے نکاح، پیشگوئیوں کے اصول کے مطابق ٹل گیا اور اس طرح پیشگوئی کی اصل غرض یعنی اس خاندان کی اصلاح وقوع میں آئی۔ایسی پیشگوئیوں میں مخفی شرائط کے باعث محو و اثبات ہوتا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
يَمْحُوْا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُ‌ۖ ۔(الرعد :۴۰)
ترجمہ:۔ اللہ جو چاہے مٹا دیتا ہے اور قائم بھی رکھتا ہے۔

اعتراض سوم:۔

نکاح آسمان پر پڑھا جا چکا تھا تو تأخیر میں کیسے پڑ گیا۔
الجواب:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ’’ نکاح آسمان پر پڑھاگیا‘‘ الہام ’’زوّجنٰکھا‘‘ کا یہ مفہوم ظاہر کرنے کے لئے کہے گئے تھے کہ نکاح اس وعیدی پیشگوئی کا ایک حصہ ہے۔آپؑ اجتہاداً اسے مبرم سمجھتے رہے یعنی یہ امر کہ محمّدی بیگم کا خاوند مرزا سلطان محمّد کسی وقت توبہ توڑ دے گا۔حالانکہ اس بارہ میں آپ ؑ کو کوئی جدید الہام نہیں ہوا تھا۔آخری الہام جو ہوا وہ ’’ تکفیک ھٰذہٖ الإمرأ ۃ ‘‘ تھا۔ کہ یہ عورت جو آپؑ کے نکاح میں ہے ،آپؑ کے لئے کافی ہے۔ اس سے یہ قوی فیصلہ ہو گیا کہ محمّدی بیگم سے نکاح کا وقوع منسوخ ہو گیا ہے۔
چونکہ تکذیب کرنے اور توبہ توڑنے کا عقلی امکان ابھی باقی تھا اس لئے آپؑ نے تتمہ حقیقۃ الوحی میں یہ توجیہہ کی کہ نکاح فسخ ہو گیا ہے یا تأخیر میں پڑ گیا ہے۔لیکن بعد کے واقعات نے یہ شہادت دی کہ عند اللہ یہ پیشگوئی ٹل چکی تھی اس لئے بعد میں آپؑ نے اخبار بدر ۲۳ اپریل ۱۹۰۸ ؁ء میں یہ شائع فرما دیا کہ یہ پیشگوئی ٹل گئی ہے۔ اور وعیدی پیشگوئی کا ٹل جاناآیت’’ يَمْحُوْا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُ‌ۖ ‘‘ کے مطابق ہوا ہے۔
ما سوا اس کے کہ الہام ’’ زوجنٰکھا ‘‘ کا مفہوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ قرار دیا کہ بعد واپسی کے ہم نے اس سے تیرانکاح کر دیا۔(انجامِ آتھم۔صفحہ۶۰) اور یہ نکاح سلطان محمّد کی توبہ کی وجہ سے وقوع میں نہ آیاتاہم ایک دوسری تعبیر سے بھی یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہو گئی کہ اس کے بعدحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ’’ مسیح موعود‘‘ کا منصبِ جلیل عطا ہوا۔نکاح کے تعبیری معنے منصبِ جلیل کے ملنے کے ہیں۔ چنانچہ ’’تعطیرالانام ‘‘ میں لکھا ہے۔
’’النکاح فی المنام یدلّ علی المنصب الجلیل۔‘‘ ترجمہ:۔خواب میں نکاح کسی بڑے منصب کے ملنے پر دلالت کرتا ہے۔
ماسوا اس کے طبرانی اور ابنِ عساکر نے ابو امامہ سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ
’’ان رسول اللہﷺ قال لخدیجۃ اما شعرتِ انّ اللہ زوّجنی مریم ابنۃ عمران و کلثوم اخت موسٰی و امرأۃ فرعون قالت ھنیئاً لک یا رسول اللہ۔‘‘(تفسیر فتح البیان۔جلد۷ صفحہ۱۰۰۔مطبو عہ دارالفکر العربی)
ترجمہ:۔رسول اللہﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ نے میرا نکاح (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ) مریم بنت عمران، موسیٰ علیہ السلام کی بہن کلثوم اور فرعون کی بیوی کے ساتھ کر دیا ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ! آپ کو مبارک ہو۔
نبی کریم ﷺ کے یہ تینوں نکاح آسمانی تھے جن کی تعبیر اس رنگ میں پوری ہوئی کہ ان عورتوں کے خاندانوں کے بہت سے لوگ آنحضرت ﷺ پر ایمان لے آئے۔اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی پر ایمان لا کرمرزا احمد بیگ کے خاندان کے بہت سے افراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع میں آ گئے جن میں سے بعض کے اسماء پہلے درج کئے جا چکے ہیں۔
پس جس خاندان کے ساتھ اس پیشگوئی کا براہِ راست تعلق تھا وہ تو اس پیشگوئی کے مصدّق ہو گئے مگردوسرے اس پر محض اپنا بغض ظاہر کر رہے ہیں اور اس پیشگوئی کی آخری شق کو پورا کرنے میں مصروف ہیں۔

اعتراض چہارم:۔

یہ پیشگوئی الہامی تھی تونکاح کے لئے حضرت مرزا صاحب نے خطوط وغیرہ کے ذریعہ کوشش کیوں کی؟
الجواب:۔پیشگوئی کو پورا کرنے کی کوشش کرنا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ مثلاً
ا:آنحضرت ﷺ کو جنگِ بدر کی فتح کا وعدہ دیا گیا تھا ۔ اس کے باوجود آپ ؐ نے مقابلہ کے لئے ہر ممکن تیاری اور کوشش بھی کی اور دعائیں بھی انتہائی تضرّع وابتہال اور گریہ و زاری کے ساتھ کیں۔
ب:حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ کنعان کی زمین انہیں دی جائے گی۔لیکن اس زمین کے حصول کیلئے آپؑ کی قوم نے کوشش نہ کی۔یہ ایک ناپسندیدہ امر تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ زمین ان پر چالیس سال کے لئے حرام کر دی گئی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ
يٰقَوْمِ ادْخُلُوْا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِىْ کَتَبَ اللّٰهُ لَـکُمْ ( المائدہ:۲۲)
ترجمہ:۔ اے میری قوم! ارضِ مقدّسہ(کنعان) میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ چھوڑی ہے۔
یہاں’’کَتَبَ اللّٰهُ لَـکُمْ‘‘ کے الفاظ صریحاً پیشگوئی پر دلالت کر رہے ہیں ۔ مگر قوم نے جواب یہ دیا کہ
فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ‏ (المائدہ:۲۵)
ترجمہ:۔ پس جا تو اور تیرا رب دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔
اس پر خدا تعالیٰ نے ان پر وہ زمین چالیس سال کے لئے حرام کر دی اور ان کیلئے سرگردان پھرنا مقدّر کر دیا۔کیا معترضین کے نزدیک ان کا یہ جواب ایک پسندیدہ امر ہے ؟ سچ یہ ہے کہ پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے کوشش نہ کرنا یقیناً ناپسندیدہ امر ہے ۔اس کو پورا کرنے کی کوشش کرنا خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق اور اس کی تقدیر کے رخ پر چلنے کے مترادف ہے اور یہی سنتِ انبیاء ہے۔پس پیشگوئی پر یہ اعتراض کہ اس کو پورا کرنے کے لئے کوشش کیوں کی؟بہرحال ایک ناپسندیدہ سوال ہے۔
مکمل تحریر >>

Friday, 1 May 2015

نبی پاک ﷺ کی 12 لڑکیاں اور 11 لڑکے تھے ؟

ایک اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اٹھایا جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے  سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے غلطی کی ہے اور جو حوالہ دیا جاتا ہے وہ یہ ہے ،
'' دیکھو ہمارے پیغمبرِ خدا کے ہاں ۱۲ لڑکیاں ہوئیں ۔ ''  (ملفوظات جلد 3 صفحہ 372 )



اس اعتراض کی حقیقت یہ ہے کہ ملفوظات خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ سے لکھی کوئی کتاب نہیں بلکہ اس میں وہ فرمان شامل کر کے شائع کیے گئے تھے جو ان کے صحابہ نے سن کر تحریر کیے ، اور جہاں سے یہ اعتراض لیا گیا ہے وہاں اس خطاب کو لکھنے والے صاحب خود یہ بتا رہے ہیں کہ یہ خطاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اندرونہ خانہ خواتین سے فرمایا جہاں ان کے ساتھ بچے بھی تھے اور اسے دروازے سے باہر کھڑے ہو کر لکھا گیا ، جس کی وجہ سے غلطی کا امکان ظاہر ہے ۔ ذیل میں ملفوظات جلد 3 صفحہ 369 کا عکس اس بات کے ثبوت میں دیا جا رہا ہے کہ اس خطاب کو لکھنے والے صاحب نے  بچوں  کے شور کا بتا کر خود غلطی کے امکان کو ظاہر کر دیا ہے ۔


ایک دوسرا اعتراض بھی اس طرح کا کیا جاتا ہے کہ ایک اور غلطی  سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے کی ہے اور اس کے لیے یہ حوالہ دیا جاتا ہے ۔
'' تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے گھر میں گیارہ لڑکے پیداہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہوگئے تھے '' 
( روحانی خزائن ۔  جلد ۲۳- چشمہ مَعرفت: صفحہ 299 )
 اس کا جواب یہاں دیکھا جا سکتا ہے
مکمل تحریر >>

Thursday, 30 April 2015

شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کا عقیدہ وفات مسیح

حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ لکھا کہ 
فاضل و محدث و مفسر ابن تیمیہ و ابن قیّم جو اپنے اپنے وقت کے امام ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں۔
(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 221)
اور اس کا ثبوت مانگا جاتا ہے کہ حوالہ دکھایا جائے کہاں ان دونوں بزرگوں نے حضرت عیسیٰ کی وفات کا اقرار کیا ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں : 

فَأَمَّا حِكَايَتُهُ لِحَالِهِ بَعْدَ أَنْ رُفِعَ فَهُوَ مِثْلُهَا فِي التَّوْرَاةِ ذَكَرَ وَفَاةَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ وَمَعْلُومٌ أَنَّ هَذَا الَّذِي فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ مِنْ الْخَبَرِ عَنْ مُوسَى وَعِيسَى بَعْدَ تَوَفِّيهِمَا لَيْسَ هُوَ مِمَّا أَنْزَلَهُ اللَّهُ وَمِمَّا تَلَقَّوْهُ عَنْ مُوسَى وَعِيسَى بَلْ هُوَ مِمَّا كَتَبُوهُ مَعَ ذَلِكَ لِلتَّعْرِيفِ بِحَالِ تَوَفِّيهِمَا وَهَذَا خَبَرٌ مَحْضٌ مِنْ الْمَوْجُودِينَ بَعْدَهُمَا عَنْ حَالِهِمَا لَيْسَ هُوَ مِمَّا أَنْزَلَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَلَا هُوَ مِمَّا أَمَرَا بِهِ فِي حَيَاتِهِمَا وَلَا مِمَّا أَخْبَرَا بِهِ النَّاسَ.
(مجموعہ الفتاویٰ از امام ابن تیمیہ ۔الجزء الثالث عشر ۔ صفحہ ۵۸ )

ترجمہ : پس جو ان کے رفع کے بعد کے حال کی باتیں ہیں تو وہ توراۃ میں موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے ذکر کی طرح ہیں۔ چنانچہ یہ معلوم بات ہے کہ موسیٰ اور عیسیٰ کے متعلق تورات اور انجیل میں جو خبریں ہیں وہ ان دونوں کی وفات کے بعد کی ہیں۔ان میں سے کچھ بھی نہ اللہ نے نازل کی ہیں اور نہ ہی انہیں موسیٰ و عیسیٰ سے حاصل کیا گیا ہے بلکہ وہ ان دونوں کی وفات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے۔ اور یہ خبریں وہاں موجود لوگوں سے ان کے احوال کے متعلق ان کے بعد لی گئی ہیں۔ نہ تو انہیں اللہ نے ان دونوں پر نازل کیا ، نہ ہی ان دونوں نے اپنی حیات میں اس کا حکم دیا اور نہ ہی ان دونوں نے لوگوں کو اس کی خبر دی۔  



امام ابن قیم فرماتے ہیں :

مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَبْعُوثٌ إِلَى جَمِيعِ الثِّقْلَيْنِ. فَرِسَالَتُهُ عَامَّةٌ لِلْجِنِّ وَالْإِنْسِ، فِي كُلِّ زَمَانٍ. وَلَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى عَلَيْهِمَا السَّلَامُ حَيَّيْنِ لَكَانَا مِنْ أَتْبَاعِهِ.
(مدارج السالکین از علامہ ابن قیم الجوزی ، الجزء الثانی ، صفحہ ۴۹۶ )

ترجمہ : محمد ﷺ تمام عالم کی طرف مبعوث ہوئے ہیں۔پس ان کی رسالت ہر زمانے کے جن و انس کے لئے عام ہے۔ اور اگر موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام زندہ ہوتے تو وہ دونوں لازمًا ان کے پیروکاروں میں شامل ہوتے۔



مکمل تحریر >>

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رؤیا و کشوف اور پیشگوئیاں

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں کو ان کی صداقت کے نشان کے طور پر فرماتاہے۔ عالم الغیب خدا انہیں نہ صرف قبل از وقت غیب کی خبریں دیتابلکہ ان پرغلبہ بخشتاہے اور مستقبل میں ظاہر ہونے والی باتوں سے متعلق غیر معمولی علم عطا فرماتا ہے۔ (الجن:۲۷) جس کا ذریعہ وحی و الہام اور رؤیا و کشوف ہیں (الشوریٰ :۵۲) ۔ سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو ’’بشیر اور نذیر‘‘ کے القابات سے نوازا گیا۔ آپ کو قرآن شریف میں بیان فرمودہ اصولی بشارات اور تنبیہات کی تفاصیل رؤیاو کشوف کے ذریعہ عطا فرمائی گئیں۔ اور امت مرحومہ میں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کے نظارے اس جزئی تفصیل کے ساتھ آپ کو کروائے گئے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاً ایک نظارہ نماز کسوف کے دوران آپ کو کروایاگیا جس کے بارے میں (اس نماز کے بعد) صحابہ کے اس استفسار پر کہ آپ حالت نماز میں آگے بھی بڑھے اور پیچھے بھی ہٹے تو اس کاکیا سبب تھا؟ آپ ؐنے اپنے اس کشف کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایامجھے ابھی اس مقام پر آئندہ کے وہ تمام نظارے کروائے گئے جن کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ جنت و دوزخ (کی کیفیات) بھی (دکھائی گئیں) ۔ اس واضح اور جلی کشف میں بعض نعماء جنت اپنے سامنے دیکھ کر آپ انہیں لینے کے لئے آگے بڑھے اور جہنم کی شدت و تمازت کا نظارہ کرکے پیچھے ہٹے۔(بخاری کتاب الکسوف)
نبی کریم ﷺ کے ا ن رؤیا و کشوف کی تفاصیل کتب احادیث میں موجود ہیں جن کے مطالعہ سے ان کی مختلف انواع اور کیفیات کا پتہ چلتا ہے جن میں سے بعض کا ذکر اس جگہ مناسب ہوگا۔

۱

وہ کشوف اور پیشگوئیاں جو نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی ظاہری رنگ میں پوری ہو گئیں مثلاً آنحضرت ﷺ کو حضرت عائشہؓ کے ساتھ شادی سے قبل آپؐ کو ان کی تصویر دکھاکر بتایا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہے ۔ اس پیشگی غیبی خبر پر کامل ایمان کے باوجود آپ نے کما ل احتیاط سے اس کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا ظاہری رنگ میں پورا ہونا ہی مراد ہے تو وہ خود اس کے سامان پیدا فرما دے گا۔ (بخاری کتاب النکاح) اور پھر بظاہر ناموافق حالات کے باوجود ایسا ہی ہوا۔

۲

وہ کشوف اور پیشگوئیاں جو آنحضرت ﷺکی زندگی میں پوری ہو گئیں مگر ظاہراً نہیں بلکہ ایسی تعبیر کی شکل میں جو اس وقت واضح نہیں تھی۔ ایسے کشوف کثرت سے پائے جاتے ہیں جیسے غزوۂ احد سے قبل حضور کا حالت کشف میں چند گائیوں کا ذبح کرنا او ر اپنی تلوار کو لہرانا اور اس کااگلا حصہ ٹوٹ جانا۔ (بخاری کتاب التعبیر)
ُاحد میں ستّر مسلمانوں کی شہادت کی قربانی اور خود رسول اللہ ﷺ کے زخمی ہونے اور دندان مبارک کے شہید ہونے کے رنگ میں ظاہر ہوئی تو پتہ چلا کہ اس رؤیا کی یہ تعبیر تھی۔

۳

وہ رؤیا و کشوف جن کی تعبیر رسول کریم ﷺ کی زندگی میں ظاہر تو ہو گئی مگراس تعبیر سے مختلف رنگ میں ظاہر ہوئی جو نبی کریم ﷺ نے اولاً اس سے مراد لی تھی گویا کشف کے وقت اس کی تعبیر کی تفہیم کئی حکمتوں کے پیش نظر بیان نہیں فرمائی گئی۔ تعبیر ظاہر ہونے پر کھلا کہ مفہوم کیاتھا ۔ جیسے نبی کریم ؐ کو ایک کھجوروں والی جگہ دارالہجرت کے طور پر دکھائی گئی۔ اوّل آپ نے یمامہ کی سرزمین مراد لی مگر بعدمیں کھلا کہ اس سے مراد یثرب یعنی مدینۃ الرسول تھا۔(بخاری کتاب التعبیر)

۴

رسول کریم ﷺکے وہ کشوف جو بظاہر نظر آپ ؐ کی ذات والا صفات کے بارہ میں معلوم ہوتے ہیں مگر ان کی تعبیر کی تفہیم کے مطابق آپ نے اپنی وفات کے بعد ان کے ظہور کی پیشگوئی فرمائی۔ اور پھر ایسا ہی ظہور میں آیا۔ جیساکہ دو کذّاب مدعیان نبوت کے بارہ میں کشف میں نبی کریم ﷺ نے خود بیان فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن ہیں اور میں نے ان کو ناپسند کرتے ہوئے کاٹ دیا ہے ۔ پھر مجھے اذن ہوا اور میں نے ان دونوں کو پھونک ماری اوروہ دونوں اُڑ گئے۔ میں نے اس کی تعبیر دو کذابوں سے کی جو (میرے بعد) خروج کریں گے ۔ عبیداللہ کہتے تھے ان سے مراد اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب تھے ۔(بخاری کتاب المغازی و کتاب التعبیر)
اسی طرح حضور ﷺ نے بیان فرمایا کہ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں یہاں تک کہ میں نے اپنے ہاتھوں میں رکھیں ۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ تو وفات پا گئے اور اب تم ان خزانوں کوحاصل کر رہے ہو ۔(بخاری کتاب التعبیر)

۵

وہ رؤیا و کشوف جن کا تعلق آخری زمانہ سے ہے ۔ اس میں انذاری اور تبشیری دونوں قسم کے کشوف شامل ہیں جن کی تعبیرات رسول اللہ ؐ پر ظاہر نہیں کی گئیں ، نہ ہی آپ ؐ نے ان کا ذکر فرمایا البتہ بعد میں اپنے وقت پر بعض تعبیرات کے ظہور پر خود زمانہ نے گواہی دی اور بعض کے ظہور کا ہنوز انتظار ہے مثلاً رؤیا میں رسول کریم ﷺ نے مسیح موعود اور دجاّل کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا۔(بخاری کتاب التعبیر)
بعض دوسری احادیث صحیحہ کے مطابق چونکہ دجاّل مکّہ میں داخل نہیں ہوگا ا سلئے علماء امت نے اس کشف کی تعبیر یہ کی کہ دجال کے طوافِکعبہ سے مراد اسلام کی تباہی و بربادی کی کوشش ہیں اور مسیح موعود کے طواف سے مراد خانہ کعبہ اور دین حق کی حفاظت کی سعی ہے۔(مظاہر الحق شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد ۴ صفحہ ۳۵۹ عالمگیر پریس لاہور)
اسی طرح نبی کریم ﷺ کو آپ کی امت کی کثرت اور شان و شوکت کے نظارے بھی کرائے گئے ۔ آپؐنے فرمایا کہ اس کثرت کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا جس نے میدان بھرے ہوئے تھے ۔(مسند احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۳،۴ دارالفکر بیروت)
امت کے بعض ایسے ہی خوش نصیب گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا میری امت جو ہندوستان سے جہاد کرے گی اور دوسری وہ جماعت جو مسیح موعود کے ساتھ ہوگی۔(نسائی کتاب الجہاد)
اس پیشگوئی کا پہلا حصہ بڑی شان کے ساتھ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس وقت پورا ہوا جب محمد بن قاسم کے ذریعہ سندھ کی فتح سے ہندوستان کی فتوحات کا آغاز ہوا اور انہوں نے سندھ کے باسیوں کو وہاں کے ظالم حکمرانوں سے نجات دلاکر عدل وانصاف کی حکومت قائم کی اوراپنے اعلیٰ کردار اور پاکیزہ اقدار سے اہل سندھ کو اپنا گرویدہ کرلیا اوریوں یہاں اسلام کا آغاز ہوا۔
پیشگوئی کے دوسرے حصے کا تعلق حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ اورآپؑ کی جماعت سے ہے جسے مسیح موعود ؑ کی روحانی قیادت میں دین کی خاطر جدوجہد اور قربانیوں کی توفیق عطا ہونا تھی اور جن کے بارہ میں رسول خدا نے شوق ومحبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ میرے بھائی ہیں ۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۳۰۰ دارالفکر بیروت) جنہوں نے مجھے دیکھا ہے مگر میری محبت کی خاطرقربانیاں کریں گے(مسند دارمی کتاب الرقاق) ۔ انہی غلامانِ مسیح موعودؑ کے ذریعہ دین اسلام کا وہ غلبہ مقدر ہے جس کے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس مسیح موعود کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ تمام مذاہب اور ملتوں کوہلاک کر دے گا سوائے اسلام کے۔ (ابوداؤد کتاب الملاحم)
اسلام کی عالمگیر فتوحات کا یہی وہ زمانہ معلوم ہوتا ہے جس میں نبی کریم ﷺ کے اس کشف کی تعبیر بھی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہو گی جس میں آپ ؐ نے بیان فرمایا کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کے مشرق اورمغرب کے کنارے سمیٹ کر دکھائے ‘‘۔ اور پھر اس کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میری امت کی حکومت بالآخر ضرور اَور سرزمینوں پر قائم ہوگی جو مجھے عالم رؤیا میں دکھائی گئی ہیں۔(مسلم کتاب الفتن)۔
آئندہ زمانہ میں ان رؤیا و کشوف کی تعبیرات کے ظہور پر ہمار ا ایمان اور یقین اس وقت اور پختہ ہو جاتاہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں ہمارے آقا و مولا مخبر صادق حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اس سے بھی کمزور زمانہ میں اپنے رؤیا و کشوف کی بناء پر جواحوال بیان فرمائے وہ پوری آب و تاب کے ساتھ پورے ہو چکے ہیں ۔ اس جگہ دو کشوف کا تفصیلی تذکرہ بطور نمونہ کیاجاتاہے ۔ ایک نہایت اہم اور غیر معمولی شان کا حامل لطیف کشف وہ ہے جس کا نظارہ نبی کریم ﷺ کو غزوہ احزاب کے اس ہولناک ابتلامیں کروایا گیا جب اہل مدینہ ایک طرف کفارِ مکہ کے امکانی حملے سے بچنے کی خاطر شہر کے گرد خندق کھود رہے تھے اور دوسری طرف اندرونی طور پر وہ سخت قحط سالی کا شکار تھے اور جب کہ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ ؐ کے صحابہ خندق کی کھدائی میں مصروف تھے اور مسلسل تین دن سے فاقہ سے تھے۔دریں اثنا کھدائی میں ایک سخت چٹان آ گئی جو ٹوٹتی نہ تھی ۔ رسو ل کریم ﷺ نے فرمایا اس پر پانی پھینکو پھر آپ نے اللہ کانام لے کر کدال کی ضرب لگائی تو وہ ریزہ ریزہ ہو گئی ۔ اچانک نظر پڑی تو کیا دیکھتاہوں کہ (فاقہ کی شدت سے ) حضور ﷺ نے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہے۔ (بخاری کتاب المغازی)
حضرت براء بن عازبؓ اس واقعہ کی مزید تفصیل بیان کرتے ہیں کہ خندق کی کھدائی کے دوران نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جب ایک پتھریلی چٹان کے نہ ٹوٹنے کی شکایت کی گئی اور آپ ؐنے اللہ کانام لے کر کدال کی پہلی ضرب لگائی تو پتھر شکستہ ہو گیا اور اس کا ایک بڑاحصہ ٹوٹ گراآپؐ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور فرمایا کہ شام کی کنجیاں میر ے حوالے کی گئی ہیں اور خداکی قسم! میں شام کے سرخ محلات اپنی اس جگہ سے دیکھ رہا ہوں ۔ پھرآپ نے اللہ کا نام لے کر کدال کی دوسری ضرب لگائی ، پتھرکا ایک اور حصہ شکستہ ہو کرٹوٹا اور رسول کریم ﷺ نے اللہ اکبرکا نعرہ بلند کر کے فرمایا مجھے ایران کی چابیاں عطا کی گئی ہیں اور خدا کی قسم میں مدائن اوراس کے سفید محلات اس جگہ سے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہاہوں ۔پھر آپ نے اللہ کا نام لے کر تیسری ضر ب لگائی اور باقی پتھر بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔ آپ نے تیسری مرتبہ اللہ اکبر کانعرہ بلند کر کے فرمایا ’’مجھے یمن کی چابیاں سپر د کی گئی ہیں اورخدا کی قسم میں صنعاء کے محلات کا نظارہ اپنی اس جگہ سے کر رہا ہوں۔(مسنداحمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۳۰۳ دارالفکر بیروت)
یہ عظیم الشان روحانی کشف آنحضرت ﷺ اور آپؐ کے صحابہ کے زبردست یقین پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ایک طرف فاقہ کشی کے اس عالم میں جب دشمن کے حملے کے خطرے سے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور خود حفاظت کے لئے خندق کھودنے کی دفاعی تدبیروں میں مصروف ہیں لیکن الٰہی وعدوں پر ایسا پختہ ایمان ہے کہ اپنے دور کی دو عظیم طاقتور سلطنتوں کی فتح کی خبر کمزور نہتے مسلمانوں کو دے رہے ہیں اور وہ بھی اس یقین پر قائم نعرہ ہائے تکبیر بلند کر رہے ہیں کہ بظاہر یہ انہونی باتیں ایک دن ہو کر رہیں گی اور پھر خدا کی شان دیکھو کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانۂ خلافت سے ان فتوحات کا آغازہو جاتاہے۔ حضرت خالدبن ولیدؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ اسلامی فوجوں کے ساتھ شام کوفتح کرتے ہیں اور حضرت عمرؓ کے زمانہ ٔخلافت میں ا ن فتوحات کی تکمیل ہو جاتی ہے اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کی سرکردگی میں مسلمان ایران کی فتوحات حاصل کرتے ہیں اور صرف چند سال کے مختصر عرصہ میں دنیا کی دو بڑی سلطنتیں روم و ایران ان فاقہ کشوں مگر الٰہی وعدوں پر یقین محکم رکھنے والے مسلمانوں کے زیر نگیں ہوجاتی ہیں۔
دوسرے عظیم الشان کشف کا تعلق اسلامی بحری جنگوں سے ہے ۔ مدنی زندگی کے اس دور میں جب برّی سفر وں اور جنگوں کے پورے سامان بھی مسلمانوں کو میسرنہیں تھے نبی کریم ﷺ کو مسلمانوں کی بحری جنگوں کی خبردیتے ہوئے نظارہ کروایاگیا۔ حضرت امّ حرامؓ بنت ملحان بیان کرتی ہیں کہ حضور ہمارے گھر محوِ استراحت تھے کہ عالم خواب سے اچانک مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔ میں نے سبب پوچھا توفرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اس سمندر میں اس شان سے سفر کریں گے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھے ہوتے ہیں ۔ اُمّ حرامؓکہتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آ پ دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان لوگوں میں سے بنا دے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا کی کہ اے اللہ اسے بھی ان میں شامل کر دے۔ پھر آپ ؐ کو اونگھ آ گئی اور آنکھ کھلی تو مسکرا رہے تھے ۔ میں نے وجہ پوچھی تو آپ نے پہلے کی طرح اُمّت کے ایک گروہ کا ذکر کیا جو خدا کی راہ میں جہا د کی خاطر نکلیں گے اور بادشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھے سمندری سفر کریں گے ۔ حضرت اُمّ حرامؓ نے پھر دعا کی درخواست کی کہ وہ ا س گروہ میں بھی شامل ہوں ۔ آپؐ نے فرمایا آپ گرو ہ ’’اولین ‘‘میں شامل ہو اور گروہ’’ آخرین‘‘ میں شریک نہیں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ پھر ام حرامؓ فاختہ بنت قرظہ زوجہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان کے ساتھ سمندری سفر میں شامل ہوئیں ۔ اوراسی سفر میں واپسی پر سواری سے گر کر وفا ت پائی۔(بخاری کتاب الجہاد)
اس حدیث میں جزیرہ قبرص کی طرف اشارہ ہے جو حضرت معاویہؓ کے زمانہ میں فتح ہوا، جب وہ شام کے گورنر تھے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں حضرت معاویہؓ کو پہلے عظیم اسلامی بحری بیڑے کی تیاری کی توفیق ملی۔ حالانکہ اس سے قبل مسلمانوں کو کوئی کشتی تک میسر نہ تھی اور پھر حضرت عثمانؓ کے زمانۂ خلافت میں ہی حضرت معاویہؓ نے اسلامی فوجوں کی بحری کمان سنبھالتے ہوئے جزیرہ قبرص کی طرف بحری سفر اختیار کیا جواسلامی تاریخ میں پہلا بحری جہادتھا۔ جس کے نتیجے میں قبرص فتح ہوا۔ اور بعد میں ہونیوالی بحری فتوحات کی بنیاد یں رکھی گئیں۔ اور بنی کریم ﷺ کے مبارک منہ کی و ہ بات پوری ہوئی جو آپ نے فرمایا تھا کہ دین اسلام غالب آئے گایہاں تک کہ سمندر پار کی دنیاؤں میں بھی اس کا پیغام پہنچے گا ۔ اور مسلمانوں کے گھڑ سوار دستے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے سمندروں کوبھی چیر جائیں گے۔(کنزالعمال جلد۱۰ صفحہ ۲۱۲ مطبعۃ الاصیل حلب)
یہ پیشگوئی اس شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئی کہ اس زمانہ کی زبردست ایرانی اوررومی بحری قوتوں کے مقابل پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں نے اپنی بحری قوت کالوہامنوایا اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کی سرکردگی میں اسلامی بحری بیڑے نے بحیرہ روم کے پانیوں میں اپنی دھاک بٹھاکر اسلامی حکومت کی عظمت کو چار چاند لگا دئے۔ چنانچہ فتح قبرص کے بعد کی اسلامی مہما ت میں جہاں مسلمان ایک طرف بحیرہ احمر کے اس پارپہنچے تو دوسری طرف مسلمان فاتحین نے بحیرہ روم کو عبور کر کے جزیرہ رُودس ، صقلیہ اور قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ تیسری طرف طارق بن زیادہ فاتح سپین نے بحیرہ روم کو چیرتے ہوئے بحر اوقیانوس کے کنارے جبرالٹر پر پہنچ کرہرچہ بادا باد کہہ کر اپنے سفینے جلا دئے ۔ تو چوتھی طرف محمد بن قاسم نے بحیرہ عرب اور بحر ہند کے سینے چیر ڈالے اور یوں مسلمانوں نے جریدہ عالم پربحری دنیا میں کیا بلحاظ سمندری علوم میں ترقی ، کیا بلحاظ صنعت اور کیا بلحاظ جہازرانی انمٹ نقوش ثبت کئے جورہتی دنیا تک یاد رہیں گے۔ نئی بندرگاہیں تعمیر ہوئیں ، جہاز سازی کے کارخانے بنے ، بحری راستوں کی نشاندہی اورسمندروں کی پیمائش کے اصول وضع ہوئے۔ اورمسلمان سمندروں پربھی حکومت کرنے لگے اور رسول خدا ﷺکے رؤیا وکشوف کما ل شان کے ساتھ پورے ہوئے ۔
اوریہ بات آج بھی ہمارے لئے ازدیاد ایمان ویقین کا موجب ہے کہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے وہ وعدے بھی ضروربالضرور پورے ہونگے جو ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ذریعہ ہم سے کئے گئے۔ سچ ہے؂
جس بات کو کہوں کہ کرو ں گا یہ میں ضرور ٹلتی نہیں وہ با ت خدائی یہی تو ہے
(مطبوعہ : الفضل انٹرنیشنل یکم جنوری ۱۹۹۹ء تا ۷ جنوری ۱۹۹۹ء)
مکمل تحریر >>