سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ا وّل رضی اللہ عنہ کی وفات پر جب حضرت مرزا
بشیر الدین محمود احمدرضی اللہ عنہ منصبِ خلافت پر متمکن ہوئے تو بعض لوگوں
نے آپ کی بیعت نہ کی اور قادیان کو چھوڑ کر لاہور کو اپنا مرکز بناتے
ہوئے اپنی ایک علیحدہ جماعت بنالی اور خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ سے وابستگی
رکھنے والوں کے خلاف ایک مہم شروع کردی۔ یہ گروہ غیر مبایعین ، اہل پیغام ،
پیغامی اور لاہوری احمدی جماعت کے نام سے معروف ہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے اس گروہ نے خلافت حقہ اسلامیہ سے وابستہ جماعت احمدیہ کے
خلاف اپنے وساوس انٹرنیٹ پرپھیلانے کی مہم شروع کر رکھی ہے اور ساتھ ہی
بڑی تعلّی سے دعویٰ کیا ہے کہ صرف لاہوری جماعت ہی حضرت مسیح موعودعلیہ
الصلوۃ والسلام کے دعاوی اور تعلیمات کو صحیح اور اصل شکل میں پیش کر رہی
ہے جبکہ خلافت سے وابستہ جماعت نے آپ کے دعاوی کو(نعوذباللہ) مسخ کرکے پیش
کیا ہے ۔ بتوفیقِ الٰہی ان وساوس کا جواب ذیل میں دیا جاتاہے۔
اس مضمون کوPDF میں ڈاؤن لوڈ کریں
اس مضمون کوPDF میں ڈاؤن لوڈ کریں
وسوسہ نمبر ایک
غیر مبایعین کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود
علیہ السلا م ہرگزنبی نہ تھے اور آپ نے ہر گز کہیں نبوت کا دعویٰ نہیں کیا
بلکہ آپ نے فرمایا کہ میں صرف مُحَدَّث ہوں یعنی وہ جس سے اللہ تعالیٰ
بکثرت کلام کرتاہے ۔مگر ’’جماعت قادیان‘‘ نے خواہ مخواہ آپؑ کو نبی بنالیا
ہے ۔
جواب
اس میں شک نہیں کہ شروع میں حضرت اقدس مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام
مسلمانوں میں عام طورپرمشہور تعریف نبوت کو ہی صحیح تعریفِ نبوت خیال
فرماتے رہے۔ آپ ۱۹۰۱ء تک یہی عقیدہ رکھتے رہے کہ چونکہ رسول اللہ ﷺخاتم
النبیین ہیں اس لئے آپ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آ سکتا ، خواہ پرانا
ہو یا نیا اورآپ اپنے الہامات میں موجود لفظ ’نبی‘ کی تاویل فرما دیتے
اورکہتے کہ اس سے مراد صرف مُحَدَّث ہے ۔ آپ نے اس بات کا اظہار کئی جگہوں
پر فرمایا۔ مثلاً ایک جگہ فرماتے ہیں :
’’۔۔۔قرآ ن کریم بعد خاتم النبیین کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا خواہ وہ نیا رسول ہو یا پرانا ہو کیونکہ رسول کوعلمِ دین بتوسط جبرائیل ملتاہے اور باب نزول جبرائیل بہ پیرایہ وحی ٔ رسالت مسدود ہے ‘‘۔(ازالہ اوہام حصہ دوم ۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۱۱۔مطبوعہ لندن)
مگر جب اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ پر متواتر اور بارباروحی کے ذریعہ اصل حقیقت
پوری طرح آشکار کر دی تو آپ ؑ نے باربار بتصریح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے
مجھے واضح طورپر بتایاہے کہ میں فی الحقیقت نبی ہوں مگر یاد رہے کہ مَیں
ظلّی نبی ہوں یعنی میں رسول اللہ ﷺکاامتی اورآپ تابع نبی ہوں اور بغیر کسی
نئی شریعت کے ہوں۔
اس کے بعد آپ ہمیشہ ہی ہر اس شخص کو جو آپ کے نبی ہونے کے بارہ میں شک
کرتاتھا ، اصرار کے ساتھ وضاحت سے بتاتے رہے کہ ان معنوں میں میں نبی ہوں۔
اور جہاں کہیں بھی آپ نے اس کے بعد نبوت کا انکار کیاہے ہمیشہ صرف ایسی
نبوت کا انکار کیا ہے جونبی کریم ﷺ کی تابع نہ ہو آپ سے فیض یافتہ نہ
ہواورنئی شریعت والی ہو۔آپ ؑ نے ’’ ختم نبوت‘‘ کے مروّجہ عام طورپرمفہوم
میں وحی الٰہی سے کی جانے والی اس تبدیلی کا ذکر بڑی وضاحت سے فرمایاہے
۔چنانچہ حقیقۃ الوحی میں آپؑ پہلے ایک معترض کا ایک اعتراض درج کرتے ہیں
اور پھراس کاجواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
’’سوال(۱) تریاق القلوب کے صفحہ ۱۵۷ میں (جو میری کتاب ہے) لکھاہے: اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گزرے کہ میں نے اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیح پرفضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک جزئی فضیلت ہے کہ جو غیرنبی کو نبی پر ہو سکتی ہے ۔ پھر ریویو جلد اول نمبر ۶ صفحہ ۲۵۷ میں مذکور ہے :خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے ۔ پھرریویو صفحہ ۴۷۸میں لکھاہے: مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میر ی جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتاہوں وہ ہرگز نہ کر سکتااوروہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہرگز د کھلا نہ سکتا ۔
خلاصہ اعتراض یہ کہ ا ن دونوں عبارتوں میں تناقض ہے ۔
الجواب: یاد رہے کہ اس بات کو اللہ تعالیٰ خوب جانتاہے کہ مجھے ان باتوں سے نہ کوئی خوشی ہے نہ کچھ غرض کہ میں مسیح موعود کہلاؤں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں بہتر ٹھیراؤں ۔ خدا نے میرے ضمیر کی اپنی اس پاک وحی میں آپ ہی خبر دی ہے جیساکہ وہ فرماتاہے قُلْ اُجَرِّدُ نَفْسِی مِنْ ضُرُوْبِ الْخِطَابِ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا تویہ حال ہے کہ میں کسی خطاب کو اپنے لئے نہیں چاہتا یعنی میرا مقصد اورمیری مراد ان خیالات سے برتر ہے۔ اور کوئی خطاب دینا یہ خدا کا فعل ہے۔ میرا اس میں دخل نہیں ہے۔
رہی یہ بات کہ ایساکیوں لکھا گیا اور کلام میںیہ تناقض کیوں پیدا ہو گیا، سو اس بات کوتوجہ کرکے سمجھ لوکہ یہ اُسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براہین احمدیہ میں میں نے یہ لکھا تھاکہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا، مگر بعد میں یہ لکھاکہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں۔ اس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگرچہ خد اتعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایاکہ تیرے آنے کی خبر خدا اوررسول نے دی تھی،مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پرجماہوا تھااورمیرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہونگے اس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پرحمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھا جوعام مسلمانوں کا تھااوراسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا ۔ لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الٰہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھاتوہی ہے ۔ اور ساتھ اس کے صدہانشان ظہور میں آئے اورزمین وآسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہو گئے اورخداکے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبرکرکے مجھے اس طر ف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح آنے والا میں ہی ہوں۔ ورنہ میرا اعتقاد تووہی تھا جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیانسبت ہے ؟وہ نبی ہے اور خداکے بزرگ مقربین میں سے ہے ۔اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کوجزئی فضیلت قرار دیتا تھا ۔ مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پرقائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیاگیامگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔۔۔۔۔۔۔ خلاصہ یہ کہ میری کلام میں کچھ تناقض نہیں ۔ میں توخداتعالیٰ کی وحی کا پیروی کرنے والا ہوں ۔ جب تک مجھے اس سے علم نہ ہوا میں وہی کہتا رہا جو اوائل میں میں نے کہا اور جب مجھ کو اس کی طرف سے علم ہوا تومیں نے اس کے مخالف کہا ۔ میں انسان ہوں۔ مجھے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں۔۔۔‘‘۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن
جلد۲۲ صفحہ ۱۵۲تا۱۵۴ )
اس سے ثابت ہوا کہ آپ ؑ نے نبوت کی عمومی تعریف میں خصوصاً اپنی نبوت کے
بارہ میں اپنے سابقہ موقف میں وحی الٰہی کی بناء پر تبدیلی فرمائی تھی ۔
آپ پہلے اپنے آپ کونبی نہ سمجھتے تھے بلکہ اپنے الہامات میں جہاں جہاں
’’نبی‘‘ کا لفظ پاتے اس کی تاویل فرماتے ۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے باربار
تصریح فرمائی کہ تو درحقیقت نبی ہے تو آپ ؑ نے علی الاعلان اس بات کا بار
بار اظہار فرمایا۔
مگر غیر مبایعین حضور ؑ کے صرف سابقہ عقیدہ کو ہی پیش کرتے ہیں اور آپ کے
وحی الٰہی کے تابع اس تصحیح شدہ عقیدہ سے جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لیتے
ہیں جس کا آپ نے بڑے اصرار کے ساتھ بارباراعلان فرمایا۔
حضرت مسیح موعود ؑ کا نبوت پراصرار
الفضل انٹرنیشنل کے ۴؍فروری ۲۰۰۰ء میں خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین
صاحب شمس رضی اللہ عنہ کا جو مقالہ نشر ہوا ہے اس میں آپ نے حضور اقدس
علیہ السلام کی متعدد تحریرات درج فرمائی ہیں جن میں حضورؑ نے باربار اپنی
ظلی نبوت کااعلان فرمایا ہے ۔ خاکسار یہاں بعض مزید مفید حوالے درج کرتاہے
جن میں سے بعض آپؑ کی عربی کتب سے ماخوذ ہیں۔یہ تحریرات مسئلہ نبوت کو
واضح کرنے کے ساتھ ساتھ آپؑ کی اپنے آقا ومولیٰ محمد مصطفی ﷺ سے حد درجہ
محبت وفدائیت پر بھی روشن دلیل ہیں ۔
(۱)۔ حضور اقدس علیہ السلام نے امریکی پادری ڈاکٹرجان الیگزانڈر ڈوئی (جو
بعد میں آپ کی دعا ئے مباہلہ سے واصل جہنم ہوا)کو مخاطب کرکے فرمایا:
ترجمہ:واللہ ، میں ہی وہ مسیح موعود ہوں جس کے آخری زمانہ میں، جبکہ ضلالت پھیل جائے گی، آنے کا وعدہ دیا گیاہے۔ عیسیٰ یقیناًفوت ہو گیاہے اور مذہب تثلیث جھوٹ اورباطل ہے۔ توُ یقیناًاپنے دعویٰ نبوت میں اللہ پر افتراء کر رہا ہے ۔ نبوت تو ہمارے نبی کریم ﷺ پرختم ہو گئی۔ اور اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن جو سابقہ صحف سے بہتر ہے اوراب کوئی شریعت نہیں مگر شریعت محمدیہ۔ تاہم میں خیرالبشر ؐ کی زبانِ مبارک سے ’’نبی‘‘ کا نا م دیا گیاہوں اوریہ ظلّی بات ہے اور آپؐ کی پیروی کی برکات کا نتیجہ ہے ۔ میں اپنے آپ میں کوئی ذاتی خوبی نہیں دیکھتا بلکہ میں نے جو کچھ بھی پایاہے اُسی مقدس نفس کے واسطہ سے ہی پایاہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے میری نبوت سے مراد صرف کثرت مکالمہ و مخاطبہ لیاہے۔ اور اس پراللہ کی لعنت ہے جواس سے زائد چاہے یا اپنے آپ کوکچھ سمجھے یا اپنی گردن کو نبی اکرم ﷺکی نبوت کے جوئے سے باہر نکالے۔ ہمارے رسول خاتم النبیین ہیں اوران پر نبیوں کا سلسلہ اختتام کو پہنچا ۔ پس اب کسی کا حق نہیں کہ ہمارے رسول مصطفی ؐکے بعد مستقل طورپر نبوت کا دعویٰ کرے ۔ آپ ؐ کے بعد صرف کثرت مکالمہ و مخاطبہ باقی ہے اور اس کے لئے بھی یہ شرط ہے کہ آپ ؐ کا متبع ہو ۔ آپؐ کی پیروی کے بغیر یہ بات بھی ممکن نہیں۔ اوراللہ کی قسم مجھے یہ مقام نہیں ملا مگر مصطفوی شعاعوں کی پیروی کی بدولت اور میں مجازی طورپرنبی کانام دیا گیاہوں نہ کہ حقیقی طورپر ۔ پس یہاں نہ اللہ کی غیرت بھڑکتی ہے نہ اس کے رسول کی ۔ کیونکہ میں تو نبی (کریم ﷺ) کے پروں تلے پرورش پاتاہوں اور میرا یہ قدم نبی کریم ﷺ کے (مبارک) قدموں تلے ہے۔
مزید برآں یہ کہ میں نے اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہا بلکہ میں نے تو اس کی پیروی کی ہے جومیرے رب کی طرف سے مجھے وحی کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد میں مخلوق کی دھمکیوں سے ڈرنے والا نہیں ۔ ہر کوئی اپنے عمل کے بارہ میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا اور کوئی چھپی ہوئی چیز بھی اللہ پر مخفی نہیں‘‘۔ (الاستفتاء ، ضمیمہ حقیقۃ الوحی صفحہ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲صفحات ۶۳۶ تا ۶۳۸)
(۲)۔ایک اور عربی تحریر میں فرماتے ہیں :
ترجمہ: یقیناًہم مسلمان ہیں ۔ اللہ کی کتاب فرقان پرہمار ا ایمان ہے ۔ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے آقاو مولا محمد (ﷺ) اس کے نبی اوررسول ہیں اور یہ کہ آپ بہترین دین لے کر آئے ہیں ۔نیز ہمارا ایمان ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں مگروہی جس نے آپ کے فیض سے پرورش پائی اور آپ کے وعدہ نے اسے ظاہر کیا۔ ۔۔۔۔۔۔ہمارے نزدیک ’’ختم نبوت ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کے کمالات ہمارے نبی جو کہ اللہ کے جملہ رسولوں اور انبیاء میں سب سے افضل ہیں ، پرختم ہو گئے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگامگر وہی جو آپ کی امت میں سے ہو اور آپؐ کے کامل ترین پیروکارو ں میں سے ہو اورجس نے آپ ؐہی کی روحانیت سے جملہ فیوض حاصل کئے ہوں اور آپ ؐ ہی کی روشنی سے روشن ہواہو۔ کیونکہ ایسی صورت میں کوئی غیر نہیں ہوتا اور نہ ہی غیرت کا کوئی سوال پیدا ہوتاہے اورکوئی اور نبوت نہیں بنتی اور نہ کوئی حیرت کی وجہ پیدا ہوتی ہے بلکہ احمد(ﷺ) ہی ہیں جو ایک اور آئینہ میں ہیں اورکوئی انسان اپنی اس تصویر پرغیرت نہیں کھاتا جو اسے اللہ تعالیٰ آئینے میں دکھاتاہے۔ شاگردوں اوربیٹوں پر بھلا کب غیرت بھڑکتی ہے۔۔۔۔
اس امت میں جس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا مگراس نے یہ عقیدہ نہ رکھا کہ وہ ہمارے آقا و مولا خیرالبشر محمد(ﷺ )سے تربیت یافتہ ہے اور یہ یقین نہ رکھا کہ وہ اس اسوہ حسنہ کی پیروی کئے بغیر کچھ چیز نہیں اوریہ کہ قرآن کریم پرسب شریعتیں ختم ہوگئیں توایسا شخص یقیناًہلاک ہو گیا اوراس نے اپنے آپ کو کافروں اوربدکاروں میں شامل کرلیا ۔
جوشخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے مگر یہ ایمان نہ رکھے کہ وہ آپ ؐ کی امت میں سے ہے اور یہ کہ اس نے جوکچھ بھی پایا آپ ؐ ہی کے فیضان سے پایا اور یہ کہ وہ آپ ؐ ہی کے بستان کا پھل ہے اور آپ ہی کی موسلادھار بارش کا قطرہ ہے اور آپ ہی کی چمکار کی لَو ہے تو ایسا شخص لعنتی ہے ۔ اس پراوراس کے انصار ومددگار اور پیروکار ہیں اللہ کی لعنت ہے ۔(مواہب الرحمن ۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۸۵تا ۲۸۷)
(۳)۔ ایک اورجگہ فرمایا :
ترجمہ: اے مردان میدان اور فقہاء زمان اور علماء عصرِ حاضر ، اور فضلاء عالَم ، آپ لوگ مجھے ایک ایسے شخص کے بارہ میں فتویٰ دیں جو کہتاہے کہ میں اللہ کی طرف سے ہوں اوراس کے لئے خدا کی حمایت اس طرح ظاہر ہوئی ہے جیسے چاشت کے وقت کا سورج،اور اس کی صداقت کے انوا ر اس طرح روشن ہیں جیسے چودھویں کا چاند ۔ نیز اس کی خاطر اللہ نے روشن نشان دکھائے ہیں اور جس کام کو بھی کرنے کا اس نے ارادہ کیا خدا اس میں اس کی مدد کے لئے کھڑا ہو گیا ۔ نیز ا س نے ا س کی دعاؤں کو سنا ، خواہ وہ احباب کے بارہ میں تھیں یا دشمنوں کے بارہ میں ۔ یہ بندہ کوئی بات نہیں کہتامگر وہی جو نبی کریم ﷺ نے کہی ہو اور وہ ہدایت سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکالتا ۔ یہ شخص کہتاہے کہ یقیناًاللہ نے مجھے اپنی وحی کے ذریعہ نبی کا نام دیاہے ، نیزقبل ازیں بھی ہمارے رسول مصطفی کی زبان مبارک سے مجھے نبی کا نام دیا گیاہے۔ اورنبوت سے اس کی مراد بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بکثرت شرف مکالمہ پاتاہے اور اللہ سے بکثرت غیبی خبریں پاتاہے اوربکثرت وحی پاتاہے۔ نیز کہتاہے کہ نبوت سے ہماری مراد وہ نہیں ہے جو پہلے صحائف میں ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسا درجہ ہے جو ہمارے نبی خیرالوریٰ کی پیروی کئے بغیر نہیں مل سکتا ۔ اورجس کوبھی یہ درجہ ملتاہے ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ ایسا کلام کرتاہے جوبہت زیادہ اور بہت واضح ہوتاہے ۔ مگرشریعت اپنی اصل حالت پر ہی رہتی ہے ۔ نہ اس سے کوئی حکم کم ہوتاہے ، نہ اس میں کسی ہدایت کی زیادتی ہوتی ہے۔ نیز یہ مدعی کہتاہے کہ میں نبی اکرم ؐ کی امت کا ایک فرد ہوں ، اس کے باوجود اللہ نے نبوت محمدیہ کے فیوض کے تحت مجھے نبی کا نام دیاہے، اوراس نے میری طرف وہ وحی کی جو اس نے کی ۔پس نہیں ہے میری نبوت مگر آپؐ ہی کی نبوت۔ اور نہیں ہیں میرے دامن میں مگر آپؐ ہی کے انوار اور آپؐ ہی کی شعاعیں۔ اگر آپؐ نہ ہوتے تومیں ہرگز کوئی قابلِ ذکر چیز نہ ہوتا اور نہ ہی اس لائق تھا کہ میرا نام لیاجاتا۔
نبی تو اپنے روحانی فیض سے پہچانا جاتاہے ۔ پس یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے نبی اکرمؐ کے فیض ظاہر نہ ہوتے جبکہ آپ ؐ سب نبیوں سے افضل اورفیض رسانی میں سب سے بڑھ کر اور درجہ میں سب سے اعلیٰ اور ارفع ہیں۔ اُس دین کی بھلاحقیقت ہی کیاہے جس کا نو ر دل کوروشن نہ کرے اور جس کی دوا پیاس نہ بجھائے اور جس کا وجود دلوں کو نہ گرمائے اور جس کی طرف کوئی ایسی خوبی منسوب نہ کی جاسکے جس کا ظاہر ہونا حجت تمام کردے۔
پھر ایسا دین چیز ہی کیا ہے جو مومن کو کفروانکار کرنے والے سے ممتاز نہ کر دے اور جس میں داخل ہونے والا ایسا ہی رہے جیسا کہ اس سے نکل جانے والا اور دونوں میں کوئی فرق ہی نظر نہ آوے ۔۔۔۔۔۔ جس نبی میں فیض رسانی کی صفت ناپید ہو اس کی سچائی پرکوئی دلیل قائم نہیں ہو سکتی اور اس کے پاس آ کر بھی کوئی اسے نبی نہیں کہہ سکتا ۔ اس کی مثال ایسے چرواہے کی سی نہیں جو اپنی بھیڑ بکریوں پر پتے جھاڑتا ہو اور انہیں پانی پلاتا ہو بلکہ وہ تو انہیں پانی اور چارہ سے دور رکھتاہے۔
اور تم جانتے ہو کہ ہمارا دین زندہ دین ہے اور ہمارے نبیؐ مُردوں کو جِلا بخشتے ہیں اور آپ ؐ آسمان سے اترنے والی بارش کی طرح عظیم الشان برکات لے کر آئے ہیں ۔ کسی دین کی مجال نہیں کہ وہ ان اعلیٰ صفات میں اس کے آگے دم مار سکے۔اس نہایت روشن دین کے سواکسی اور دین میں یہ طاقت ہی نہیں کہ وہ انسان سے اس کے حجابوں کا بوجھ اتارے اور اللہ تعالیٰ کے قصر اور اس کے دَر تک پہنچائے۔ اور اس بات میں شک کرنے والا اندھا ہی ہوگا‘‘۔ (الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲۔صفحہ ۶۸۸،۶۸۹)
(۴)۔ پھرآپ ؑ فرماتے ہیں:
’’۔۔۔اورمیں اسی کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیم ؑ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا اور پھر اسحقؑ سے اوراسمعیلؑ سے اور یعقوب ؑ سے اور یوسفؑ سے اورموسیٰ ؑ سے اور مسیحؑ ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی ﷺ سے ایسا ہمکلام ہواکہ آپؐ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی، ایساہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شر ف بخشا ۔ مگریہ شرف مجھے محض آنحضرت ﷺ کی پیروی سے حاصل ہوا۔ اگر میں آنحضرت ﷺکی امت نہ ہوتا اورآپؐ کی پیروی نہ کرتا تو اگردنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ و مخاطبہ ہرگز نہ پاتا ۔ کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں ۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آ سکتا اوربغیر شریعت کے نبی ہو سکتاہے مگروہی جو پہلے امّتی ہو۔ پس اسی بناء پرمیں امتی بھی ہوں اورنبی بھی اور میر ی نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرتﷺ کی نبوت کا ایک ظل ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں ۔ وہی نبوت محمدیہ ہے جو مجھ میں ظاہرہوئی ہے۔ اور چونکہ میں محض ظلّ ہوں اور امّتی ہوں اس لئے آنجناب ؐ کی اس سے کچھ کسرِ شان نہیں۔۔۔‘‘۔ (تجلیات الٰہیہ ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۱۱،۴۱۲)
(۵)۔اسی طرح آپ نے تحریر فرمایاکہ :
’’یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوے میں نبی کا نا م سن کر دھوکہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویامیں نے اس نبوت کا دعویٰ کیاہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں ۔ میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت ﷺکے افاضۂ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا ۔ اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔ اور میر ی نبوت آنحضرت ﷺ کی ظل ہے نہ کہ اصلی نبوت اسی وجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیساکہ میرا نام نبی رکھا گیا ایساہی میرا 5 نام امتی بھی رکھا ہے تا معلوم ہو کہ ہرایک کمال مجھ کو آنحضرتﷺ کی اتباع اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے ‘‘۔ (حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۵۴۔ حاشیہ )
(۶)۔پھر فرمایا:
’’ ۔۔۔سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔(دافع البلاء ۔روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۳۱)
(۷)۔ نیزفرمایا:
’’ ۔۔۔دنیا میں کوئی نبی نہیں گزرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا ۔ سو جیسا کہ براہین احمدیہ میں خدا نے فرمایاہے میں آدمؑ ہوں، میں نوحؑ ہوں، میں ابراہیمؑ ہوں، میں اسحقؑ ہوں، میں یعقوب ؑ ہوں، میں اسماعیل ؑ ہوں ، میں موسیٰؑ ہوں ، میں داؤدؑ ہوں ، میں عیسیٰ ؑ ابن مریم ہوں ، میں محمد ﷺ ہوں یعنی بروزی طورپر جیساکہ خدا نے اسی کتاب میں یہ سب نام مجھے دئیے اور میری نسبت جَرِیُ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَاء فرمایا یعنی خدا کا رسول نبیوں کے پیرایوں میں ۔ سو ضرور ہے کہ ہرایک نبی کی شان مجھ میں پائی جاوے ۔۔۔۔۔۔‘‘۔(تتمہ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۲۱)
(۸)۔پھرآپؑ فرماتے ہیں:
’’نبوت اور رسالت کا لفظ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں میری نسبت صدہا مرتبہ استعمال کیا ہے مگراس لفظ سے صرف وہ مکالمات مخاطبات الٰہیہ مراد ہیں جو بکثرت ہیں اور غیب پر مشتمل ہیں ۔ اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔ ہر ایک شخص اپنی گفتگو میں ایک اصطلاح اختیار کر سکتاہے ۔لِکُلٍّ اَنْ یَّصْطَلِحَ۔ سوخدا کی یہ اصطلاح ہے جوکثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھاہے یعنی ایسے مکالمات جن میں اکثر غیب کی خبریں دی گئی ہیں۔ اور لعنت ہے اس شخص پر جو آنحضرت ﷺ کے فیض سے علیحدہ ہو کر نبوت کا دعویٰ کرے ۔مگر یہ نبوت آنحضرت ﷺکی نبوت ہے نہ کوئی نئی نبوت اور اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اسلام کی حقانیت دنیا پرظاہر کی جائے اورآنحضرت ﷺ کی سچائی دکھلائی جائے‘‘۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد ۲۳ مطبوعہ لندن صفحہ ۳۴۱)
(۹)۔ پھر تحریر فرمایا :
’’۔۔۔ میں اس کے رسول پردلی صدق سے ایمان لایاہوں اور جانتاہوں کہ تمام نبوتیں اس پرختم ہیں اوراس کی شریعت خاتم الشرائع ہے مگرایک قسم کی نبوت ختم نہیں یعنی و ہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے ۔وہ ختم نہیں کیونکہ و ہ محمدی نبوت ہے یعنی اس کا ظل ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہے اور اسی کا مظہرہے اوراسی سے فیضیاب ہے۔۔۔‘‘۔(چشمہ معرفت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۴۰)
نبی ٔمجازی اور نبی ٔحقیقی کا اصل مفہوم
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کے انکارمیں’’جماعت لاہور‘‘
کی طرف سے انٹرنیٹ پر ایک دلیل یہ دی گئی ہے کہ آپ نے خود فرمایاہے کہ میں
مستقل نبی نہیں ہو ں بلکہ میں علی سبیل المجاز والاستعارہ نبی ہوں۔
اہل پیغام کا یہ دھوکہ کسی ایسے شخص پرتو شاید چل جائے جس نے حضور ؑ کی
جملہ تحریرات نہ پڑھی ہوں مگران پرنہیں چل سکتا جنہوں نے حضرت اقدس ؑ کی
جملہ تحریرات پڑھی ہوں اور جن کا آپ کی زبان یاقلم مبارک سے نکلے ہوئے ایک
ایک لفظ پرسچاایمان ہو ۔ آپؑ نے خود ہرجگہ اپنے ’’غیرمستقل نبی‘‘ یا
’’مجازی نبی‘‘ یا علی سبیل الاستعارہ نبی‘‘ ہونے کی وضاحت فرمادی ہے ۔
اول
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے آخری سفر لاہور کے دوران اپنی وفات سے چند روز
قبل بعض معززین کو عشائیہ دیا جس میں آپ نے ایک خطاب فرمایا۔ آپ کی وفات
سے تین روز قبل ’اخبار عام ‘لاہور نے یہ غلط خبر اڑائی کہ نعوذباللہ آپ نے
اس لیکچر میں اپنے نبی ہونے کا انکار فرمایاہے ۔ حضور اقدس ؑ کو جونہی اس
کا علم ہوا آپ نے فوراً اس اخبار کے مدیر کو ایک وضاحتی خط تحریر فرمایا
۔(یہ خط حضرت اقدسؑ نے۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کو لکھا تھا اور ’’اخبار عام‘‘میں ہی
۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء میں آپ کی وفات کے روز شائع ہوا5 تھا)۔اس میں آپؑ نے اس خبر
کی تردید کرتے ہوئے فرمایا :
’’۔۔۔واضح ہو کہ اس جلسہ میں مَیں نے صرف یہ تقریر کی تھی کہ میں ہمیشہ
اپنی تالیفات کے ذریعہ سے لوگوں کو اطلاع دیتا رہاہوں اوراب بھی ظاہر
کرتاہوں کہ یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتاہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا
دعویٰ کرتاہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے معنے
ہیں کہ میں مستقل طورپر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتاہوں کہ قرآن شریف کی
پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپناعلیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ
بناتاہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتاہوں اور آنحضرت ﷺکی
اقتداء اور متابعت سے باہر جاتاہوں، یہ الزا م صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا
دعویٔ نبوت میرے نزدیک کفر ہے ۔ اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر کتاب میں ہمیشہ
میں یہی لکھتا آیاہوں کہ اس قسم کی نبوت کامجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ
سراسر میرے پرتہمت ہے۔ اور جس بنا پر میں اپنے تئیں نبی کہلاتاہوں وہ صرف
اس قدرہے کہ میں خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت
بولتااور کلام کرتاہے۔ اور میری باتوں کاجواب دیتاہے اور بہت سی غیب کی
باتیں میرے پر ظاہر کرتاہے اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پرکھولتاہے کہ
جب تک انسان کواُ س کے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو دوسرے پر5 وہ5 اسرار نہیں
کھولتا۔ اورانہیں امور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا ہے ۔ سو
میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اوراگر میں اس سے انکارکروں تو میرا گناہ
ہوگا۔اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتاہے تو میں کیونکر انکار کر
سکتاہوں۔ میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں۔
مگر میں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ گویا اسلام سے اپنے تئیں الگ کرتاہوں
یا اسلام کا کو ئی حکم منسوخ کرتاہوں ۔ میر ی گردن اس جوئے کے نیچے ہے جو
قرآن شریف نے پیش کیا اور کسی کی مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن
شریف کا منسوخ کرسکے ۔۔۔‘‘۔(اخبار عام ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء)
جہاں تک ’’نبی علی سبیل المجاز ‘‘ یا ’’نبی علی سبیل الاستعارہ‘‘ کا تعلق
ہے تو گزشتہسطور میں مذکور حوالہ جات میں سے سب سے پہلے حوالہ میں آپ نے
خود ہی وہیں اس کی وضاحت فرما دی ہے کہ:۔
’’ پس اب کسی کا حق نہیں کہ ہمارے رسول مصطفی ؐکے بعد مستقل طورپر نبوت کا
دعویٰ کرے ۔ آپ ؐ کے بعد صرف کثرت مکالمہ و مخاطبہ باقی ہے اور اس کے لئے
بھی یہ شرط ہے کہ آپ ؐکا متبع ہو ۔ آپؐ کی پیروی کے بغیر یہ بات بھی ممکن
نہیں۔اوراللہ کی قسم مجھے یہ مقام نہیں ملا مگر مصطفوی شعاعوں کی پیروی کی
بدولت اور میں مجازی طورپر نبی کا نام دیا گیاہوں نہ کہ حقیقی طورپر۔ پس
یہاں نہ اللہ کی غیرت بھڑکتی ہے نہ اس کے رسول کی کیونکہ میں تو نبی کریم
(ﷺ) کے پیروں تلے پرورش پاتاہوں اور میرا 5 یہ قدم نبی کریم ﷺ کے مبارک
قدموں تلے ہے‘‘۔
کیا ان الفاظ میں حضورؑ نے خود ہی اپنے مجازی طورپر نبی ہونے کی وضاحت نہیں
فرما دی کہ اس سے مراد یہ ہے کہ نہ میں مستقل (یعنی آزاد) نبی ہوں نہ
شرعی میں نے رسول اللہ ﷺ کے زیر سایہ پرورش و تربیت پائی ہے اور آپؐ کے
قدموں میں بیٹھنے کے طفیل ہی یہ مرتبہ مجھے ملاہے۔
پس جب اپنے مجازاً اور استعارۃً نبی ہونے کا مفہوم آپؑ خود بیان فرما رہے
ہیں تو اہل پیغام کو قطعاً یہ حق نہ تھاکہ آپ کے کلمات مبارکہ کی تاویل
کرتے خصوصاً ایسی تاویل جو آ پؑ کے بیان فرمودہ مفہوم کے سراسر خلاف ہو۔
یہ مذموم جسارت ، حددرجہ کی خیانت ہے اور خدا تعالیٰ کے دربار میں عجیب بے
باکی۔
خود اُن کے گھر سے گواہ
اگر اہل پیغام کو حضوراقدس علیہ السلام کے یہ دو حوالے کافی نہ ہوں تو
لیجئے ہم خود ان کے گھر سے گواہ پیش کردیتے ہیں ۔ ہماری مراد شیخ عبدالرحمن
مصری صاحب سے ہے ۔انہوں نے جماعت احمدیہ سے اخراج کی سزا پانے سے پہلے کے
زمانہ میں ایک بار ایک گواہی دی تھی جس میں وہ حضور اقدس ؑ کے ’’نبی علی
سبیل المجاز‘‘ ہونے کی یہ تفسیر کرتے ہیں:
’’۔۔۔۔۔۔میں اب بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو علی سبیل المجاز ہی نبی سمجھتاہوں ، یعنی شریعت جدیدہ کے بغیرنبی ، اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کی بدولت اور حضوؐر کی اطاعت میں فنا ہو کر حضوؐر کا کامل بروز ہوکر مقام نبوت کو حاصل کرنے والا نبی۔ میرے اس عقیدہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تقاریر و تحریرات اور جماعت احمدیہ کا متفقہ عقیدہ تھا‘‘۔(عبدالرحمن ، ہیڈماسٹر مدرسہ احمدیہ ۲۴؍اگست ۱۹۳۵ء)
دوم
امر واقع یہ ہے کہ حقیقت و مجاز کے الفاظ کا استعمال ایک نسبتی اور اضافی
امر ہے ۔ ایک چیز اپنی ذات میں ایک حقیقت ہوتی ہے مگر ایک دوسری چیز کی
نسبت سے وہ حقیقت نہیں رہتی بلکہ مجاز قرار پاتی ہے ۔ حضرت اقدس علیہ
السلام نے اپنی کتب میں ’’حقیقی نبوت‘‘کی اصطلاح بعض مقامات پر تشریعی اور
مستقل نبی کے معنوں میں استعمال فرمائی ہے اور بعض جگہ صرف تشریعی نبی کے
معنوں میں ۔ ان معنوں اور اصطلاح میں ہم آپ ؑ کو حقیقی نبی قرار نہیں دیتے
مگر ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا کامل ظل ہونے
کے لحاظ سے آپ یقیناًکامل نبی تھے اور ’’کامل ظلّی نبوت‘‘بھی اپنی ذات
میں ایک حقیقت ہے ، چنانچہ حضوراقدس ؑ فرماتے ہیں:
’’ایک قسم کی نبوت ختم نہیں یعنی وہ نبوت جو اس (یعنی آنحضرتﷺ) کی کامل پیروی سے ملتی ہے اورجو اس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے۔ وہ ختم نہیں کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے یعنی اس کا ظل‘‘۔(چشمہ ٔ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ۳۴۰)
’’حقیقی آدم‘‘ اور’’ حقیقی کتاب‘‘
مزید وضاحت کے لئے ہم ذیل میں حضرت اقدس ؑ کی ایسی تحریرات پیش کرتے ہیں جن
میں آپ نے ’’حقیقی‘‘ اور ’’مجازی‘‘ کے الفاظ کا استعمال فرمایا ہے ۔
انشاء اللہ العزیز اس سے بات بالکل کھل جائے گی۔ آ پ فرماتے ہیں :
’’ہمارے نبیﷺ روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدمِ ثانی تھے ، بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے‘‘۔(لیکچر سیالکوٹ ۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۰۷)
پھر آپؑ گزشتہ کتب سماویہ کا قرآن کریم سے موازنہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
’’وہ کتابیں حقیقی کتابیں نہیں تھیں بلکہ وہ صرف چند روزہ کارروائی تھی۔ حقیقی کتاب دنیا میں ایک ہی آئی جوہمیشہ کے لئے انسانوں کی بھلائی کے لئے تھی‘‘۔(منن الرحمن ، روحانی خزائن جلد۹ صفحہ ۱۵۲)
اب ’’اہل پیغام‘‘ بتائیں کہ جب حضور اقدس ؑ کے نزدیک نبی اکرم ﷺ ہی آدم
حقیقی تھے توکیاحضرت آدم ؑ اپنی ذات میں درحقیقت آدم نہ تھے؟ نیز جبکہ
حضور ؑ کے نزدیک تورات ،زبور، انجیل وغیرہ حقیقی کتب نہیں توکیا ان کتابوں
کو لانے والے رسول اپنی ذات میں حقیقی نبی نہ تھے؟
حق یہ ہے کہ حضرت آدم ؑ بھی حقیقی نبی تھے اور تورات و زبور وانجیل لانے
والے انبیاء بھی حقیقی نبی تھے۔ ہاں حضرت آدم ؑ ، نبی اکرم ﷺ کے مقابلہ
میں حقیقی نبی نہ تھے ۔ اس طرح حضرت موسیٰ ، داؤد ،عیسیٰ اوردیگر انبیاء
علیہم السلام گو سب اپنی ذات میں حقیقی نبی تھے مگرنبی کریم ﷺ کے مقابلہ
میں حقیقی نبی نہ تھے اور جب وہ حقیقی نبی نہ تھے تو اس نسبت سے مجازی نبی
تھے !! اورانہی معنوں میں حضرت مسیح موعودؑ بھی مجازی نبی تھے اگرچہ اپنی
ذات میں وہ حقیقی نبی تھے ۔
حقیقی مہدی یا مجازی مہدی؟!
آپ ؑ فرماتے ہیں:
’’حقیقی اور کامل مہدی دنیا میں صرف ایک ہی ہے یعنی محمد مصطفی ﷺ جو محض امّی تھا‘‘۔(اربعین نمبر ۲۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۶۰)
’’کامل اورحقیقی مہدی دنیا میں صرف ایک ہی آیا ہے جس نے بغیر اپنے ربّ کے کسی استاد سے ایک حرف نہیں پڑھا‘‘۔ (تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۲۵۵)
کیا اہلِ پیغام اس تحریر کی بنا پر حضور اقدس ؑ کے حقیقی مہدی ہونے سے انکار کردیں گے؟
بات یہ ہے کہ اگرچہ حضرت مسیح موعود ؑ بھی اپنی ذات میں حقیقی مہدی ہیں
لیکن نبی کریم ﷺ کی نسبت سے دوسرے تمام انبیاء کی طرح آپ کی حیثیت بھی ایک
ظلّی اورمجازی مہدی کی ہے ۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ اپنی ذات میں
توحقیقی نبی ہیں لیکن نبی اکرم ﷺ کی نسبت سے آ پ مجازی نبی ہیں کیونکہ آ پ
کو جو کچھ ملا وہ مجازی اور ظلی حیثیت ہی رکھتاہے۔ اسی لئے آپ نے اپنی
کتاب’’ الاستفتاء‘‘ میں فرمایا :
’’سُمِّیْتُ نَبِیًّا مِنَ اللّٰہِ عَلٰی طَرِیْقِ الْمَجَازِ لَا عَلٰی وَجْہِ الْحَقِیْقَۃِ‘‘
کہ میرا نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجازکے طور پر نبی رکھا گیاہے نہ کہ
حقیقی طورپر ۔ یعنی آپ نے مقام نبوت آنحضرت ﷺ کے طفیل اور واسطہ سے حاصل
کیا اور آپ ظلّی نبی یا امّتی نبی ہیں، نہ کہ تشریعی یامستقل نبی جسے نبی
اکرم ﷺ کی اتباع کی ضرورت نہ ہو۔
پس حضور کی تحریر میں ’’مجازی نبی‘‘ کے لفظ سے کسی کو نہ تو خود دھوکہ
کھانا چاہئے اور نہ ہی دوسروں کو دھوکہ دینے کی کوشش میں حقیقت اور امرواقع
کو جھٹلانے کی خیانت کرنی چاہئے کیونکہ یہاں ’’مجاز‘‘ کا لفظ نسبتی چیزہے ۔
جو مقام بھی کسی امتی کوملتاہے وہ اپنی ذات میں باوجود حقیقت ہونے کے ،
نبی کریم ﷺ کی نسبت سے مجازی یا ظلی یا طفیلی حیثیت اختیار کر جاتاہے
۔کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا ، بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی ﷺ کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ ہمیں جو کچھ ملتاہے ظلّی اور طفیلی طورپر ملتاہے‘‘۔(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۱۷۰)
یہ عبارت بالکل واضح ہے اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ امت میں جو شخص مومن ہو
وہ ظلّی طور پر مومن ہوتاہے۔ جو ولی ہو ، محدث ہو ، غوث ہو، قطب ہو، محدث
ہو ، وہ یہ مرتبہ اور مقام ظلّی طور پر ہی حاصل کرتاہے ۔ پس ظلّی کا لفظ جس
طرح ان مراتب کے حقیقی ہونے کی نفی نہیں کرتا بلکہ صرف واسطہ کو ظاہر
کرتاہے ، اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ کے لئے ’’ظلّی نبی‘‘ کی اصطلاح میں لفظ
’’ظلّی‘‘ صرف واسطہ کو ظاہر کرتاہے نہ کہ آپ کی نبوت کی نفی کرتاہے۔ یعنی
اس سے صرف یہ مراد ہے کہ یہ مرتبہ آپؐ کو آنحضرت ﷺ کے طفیل ملا ہے۔
حقیقی مُحَدَّث یا مجازی مُحَدَّث؟
اہل پیغام ، ذرا توجہ فرمائیے! حضورؑ کی مندرجہ بالا تحریر کی رو سے تو
’’محدّثیت‘‘ بھی ظلی اور طفیلی طورپر ہی ملتی ہے اورحضرت اقدس بھی ظلی اور
طفیلی طورپر ہی مُحَدَّث ٹھہرتے ہیں۔ پس آپ لوگ بتائیں کہ کیا آپ حضور
اقدس ؑ کو صرف ظلّی اور مجازی اور طفیلی طور پر ہی ’’مُحَدَّث‘‘ مانتے ہیں
یاحقیقی مُحَدَّث؟
حقیقی مسیح موعود یا مجازی مسیح موعود!؟
اسی طرح ’’اہل پیغام‘‘ سے درخواست ہے کہ حضور اقد س علیہ السلام کے درج ذیل اقتباس پر بھی ذرا غور فرمائیں:
’’یہ عاجز مجازی اورروحانی طورپر وہی مسیح موعود ہے جس کی قرآن اورحدیث میں خبر دی گئی ہے ‘‘۔ (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۳۱)
دیکھیں یہاں آپ ؑ نے اپنی مسیحیت کے بارہ میں بھی لفظ ’’مجاز‘‘ بالکل اسی
طرح استعمال فرمایا ہے جیسے اپنی نبوت کے بارہ میں استعمال فرمایا ہے ۔
’’اہل پیغام‘‘ بتائیں کہ وہ حضور اقدس ؑ کو حقیقی مسیح موعود مانتے ہیں کہ
صرف مجازی مسیح موعود؟مگر یاد رہے کہ انہیں اس بات سے مفرّ نہیں کہ حضرت
اقدس ؑ کوواقعۃً حقیقی مسیح موعوداور حقیقی مہدی معہود مانیں کیونکہ آپ ؑ
فرماتے ہیں:۔
’’جو شخص مجھے فی الواقع مسیح موعود و مہدی معہود نہیں سمجھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ‘‘۔ (کشتی نوح ۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۹)
حضور اقدس ؑ کی ان تحریرات سے بالکل واضح ہو گیاہے کہ غیر مستقل نبی، امتی
نبی،ظلی نبی،مجازی نبی،بروزی نبی،طفیلی نبی،غیرحقیقی نبی ، ناقص نبی جیسی
اصطلاحات سے آپ کی صرف یہ مراد ہے کہ آپؑ صاحبِ شریعت جدیدہ نبی نہیں
یانبی کریم ؐ کی پیروی سے آزاد نبی نہیں ہیں بلکہ آپ نبی کریم ؐ کے کامل
تابع نبی ہیں اور یہ کہ آپ کو یہ مرتبہ صرف اور صرف نبی کریم ﷺ کی کامل
محبت اور کامل اتباع ہی کے طفیل ملاہے ۔ یہ خالص موھبت الٰہی تھی اورفیوض
محمدیہ کا عظیم ثبوت ۔ ذٰلک فضلُ اللّٰہ یُؤْتِیہِ مَنْ یَشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیم ۔(سورۃالجمعۃ)
ایک اہم سوال
اسی طرح ’’اہل لاہور‘‘ سے التماس ہے کہ درج ذیل دو اہم امور کا جواب دیں۔
اول ۔۔۔یہ کہ اگر حضور اقدس ؑ فی الواقع اور درحقیقت نبی نہ تھے تو آپ نے
باربار لگاتار اور بڑی تاکید و اصرارکے ساتھ اپنے نبی ہونے کا اعلان کرکے
کیوں امت مسلمہ میں ایک قیامت برپاکردی اور خود اپنے ہاتھ سے اپنے مشن کے
خلاف روکیں کھڑی کردیں؟ سارے عالم اسلام بلکہ دوسرے ادیان کو بھی اپنے خلاف
کیوں بھڑکایا؟ ایسی حرکت تو ایک عام سلیم العقل شخص بھی نہیں کرتا چہ
جائیکہ وہ شخص ایساکرے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل علم کی بنا پر اس
زمانہ کی اصلاح کے لئے چنا تھا؟ کیا ان لوگوں کو خبر نہیں کہ آپ کا دعوی
ٔنبوت ہی تو تھا جو آپ پر ایمان لانے کی راہ میں لوگوں کے لئے سب سے بڑی
روک بن کر کھڑا ہو گیا تھا ؟ کیا انہوں نے پڑھا نہیں کہ بڑے بڑے جبہ پوش جو
پہلے آپ کے ثنا خوان تھے (جن میں مولوی محمد حسین بٹالوی سرفہرست ہیں)
آپ کے دعوی ٔ نبوت سے ہی تو سیخِ پا ہوتے تھے اور کتنے ہی ایسے تھے جوآپ
سے باربار مطالبہ کرتے رہے کہ صرف نبوت کا دعویٰ واپس لے لو تو ہم فوراً
تمہارے ساتھ ہوجاتے ہیں؟
پس ہمارا سوال یہ ہے کہ حضور ؑ نے کیوں ایسا دعویٰ کیاجس کی آپ لوگوں کے
زعم میں ایک وہم و خیال سے زیادہ حقیقت نہ تھی اورکیوں اس طرح ساری دنیا کو
اپنے آپ سے متنفر کردیا اور یوں غلبہ اسلام کے دن بظاہر دور کردئیے ؟ ان
مولویوں کے مطالبہ پر آپ نے اپنا دعویٰ ٔ نبوت کیوں واپس نہ لے لیا تاکہ
یہ سب مولوی ، سجادہ نشین اورمفتیان دین اپنے پیروکاروں سمیت فوج درفوج آپ
کے جھنڈے تلے جمع ہو جاتے اور آپ ان کے ساتھ مل کر ان کے شانہ بشانہ غلبہ
اسلام کے لئے کوشاں ہو جاتے جیسا کہ ’’اہل پیغام‘‘ نے جماعت مبایعین سے
علیحدہ ہونے کے بعد ایسی بے سود کوششیں کیں؟
دوم۔۔۔ قطع نظر اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کی کیا حقیقت
ہے اور کون سی شکل ہے، بات یہ ہے کہ جب آپؑ نے اپنی نبوت پر اس حد تک اور
ا س زور کے ساتھ ،باربار اور مسلسل اصرار کیاہے تو آپ کی پیروی میں ’’اہل
پیغام‘‘ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اورجو آ پؑ نے کہا ویسا کیوں نہیں کہتے اور
جیسے آپ نے باربار اعلانات فرمائے ویسے اعلان یہ لوگ کیوں نہیں کرتے
؟آپؑ کی طرح پورا اور مکمل سچ کیوں نہیں بولتے ؟ اس میں سے کچھ بتاکر باقی
کیوں چھپا دیتے ہیں؟آقا تو تا دم آخریں یہی اعلان کرتا رہا کہ ’’میں
خداکے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں انکار کروں تو میرا گناہ
ہوگا‘‘۔مگر یہ عجیب خدام ہیں کہ آقا ؑ کی نبوت کے انکار میں اتنے بے باک
ہیں ۔اس بات کو ویسے ہی گناہ نہیں سمجھتے جسے آقا مرتے دم تک سمجھتا رہا۔
کیاان لوگوں کو اس مداہنت نے دنیا کے ہاں کچھ فائدہ دیا یا وہ سمجھتے ہیں
کہ خداکے ہاں یہ بات انہیں کوئی فائدہ دے گی؟ ہرگز، ہرگزنہیں ۔ کیونکہ
مداہنت خدا کو پسند نہیں ۔
یہ لوگ گمان کرتے تھے کہ ا س ’’ اقدام ‘‘ سے دوسرے مسلمان انہیں اپنی صفوں
میں شامل ہونے دیں گے ۔ چنانچہ انہیں خوش کرنے کے لئے انہوں نے حضرت اقدس ؑ
کی نبوت کا ہی انکار کر دیا حالانکہ اللہ اور اس کا رسول اس بات کے زیادہ
حقدار تھے کہ یہ لوگ انہیں خوش کرتے ۔ مگر نتیجہ کیانکلا؟ یہ لوگ دوسرے
مسلمانوں کی نظر میں کافر کے کافر ہی رہے اور ’’مُذَبْذبِیْنَ بَیْنَ
ذٰلِکَ ‘‘ ہو کر نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ۔
خدا کے نام پر التماس
اس وسوسہ کے ردّ کے آخری حصہ میں ’’اہل پیغام ‘‘ سے درخواست ہے کہ خدا کے
لئے ذرا ٹھنڈے دل سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے کچھ سوچیں کہ وہ کیا کہہ رہے
ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ حضور اقدس ؑ کے درج ذیل الہامات پر بھی خدارا
ذراغور کریں کہ یہ بہت ڈرانے والے الہامات ہیں۔
۱۔۔۔۔’’وَقالُوا لَسْتَ مُرْسَلًا قُلْ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْکِتَابِ‘‘(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۴)
ترجمہ : اور انہوں نے کہا تورسول نہیں ہے۔ تو کہہ دے میرے اور تمہارے
درمیان اللہ بطور گواہ کافی ہے ، نیز وہ بھی جس کے پاس کتاب کا علم ہے ۔
۲۔۔۔۔’’وَیَقُولُ الْعَدُوُّ لَسْتَ مُرْسَلًا۔ سَنَأْخُذُہٗ مِنْ مَارِنٍ أَوْ خُرْطُوْمٍ‘‘۔(اربعین نمبر ۲ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۸۲)
ترجمہ: اور دشمن کہتاہے کہ تو رسول نہیں ہے ۔ ہم عنقریب اسے اس کی ناک یا تھوتھنی سے پکڑیں گے ۔
نیزان سے بڑے دردِ دل سے التماس ہے کہ درج ذیل آیات کریمہ کو پوری توجہ سے
اور خدا سے ڈرتے ہوئے پڑھیں تا اس میں مذکور وعید کے نیچے نہ آویں۔
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ
وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہٖ
وَیَقُوْلُوْنَ نُؤمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ
یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ
حَقًّا وَاَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا‘‘۔(النساء
:۱۵۱،۱۵۲)
ترجمہ : یقیناًوہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور
چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ
ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کر دیں گے اور چاہتے ہیں کہ اس
کے بیچ کی کوئی راہ اختیار کریں یہی لوگ ہیں جو پکے کافر ہیں اور ہم نے
کافروں کے لئے رُسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
وسوسہ نمبر ۲
’’اہل پیغام‘‘ کا دوسرا وسوسہ یہ ہے کہ خلفاء
اور جماعت مبایعین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کی تشریح بالکل
آپ کی منشا کے خلاف کی ہے کیونکہ ان لوگوں نے درحقیقت آپ ؑ کو مستقل
یعنی آزاد نبی تصور کر لیا ، دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دیا اور اپنے
آپ کوامت مسلمہ سے الگ سمجھ لیا ۔ اس کے باوجود دھوکہ دیتے ہوئے یہی کہتے
ہیں کہ ہم نے حضور اقدسؑ کوکبھی نبی کریم ؐ کی پیروی سے آزادنبی قرار نہیں
دیا ، نہ ہی کسی مسلمان کو کافر کہا ہے سوائے اس کے جو ہماری تکفیر کر کے
خود کافر بن جائے۔
اپنے اس الزام کی تائید میں’’اہل پیغام‘‘ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جماعت
مبایعین نے دیگر مسلمانوں سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کر لئے ہیں۔ نہ ان کے
پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں ، نہ ان کا جنازہ ادا کرتے ہیں ، نہ ان سے شادیاں
کرتے ہیں۔
نیز لکھاہے: ’’قادیانی حضرات‘‘ آپ سے اس بارہ میں کہیں گے کہ خود حضرت
مسیح موعود علیہ السلام ہی نے تو دوسرے مسلمانوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے
منع فرمایا تھا !
مگر امر واقع یہ ہے کہ آپؑ نے صرف مخصوص حالات میں دوسرے مسلمانوں کے
پیچھے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے یعنی صرف ایسے لوگوں کے پیچھے جو آپؑ
کو کافر کہتے ہیں۔ جو تکفیر نہیں کرتے ان کے پیچھے نماز سے منع نہیں
فرمایا۔
مندرجہ بالا اعتراضات بالکل اسی طرح انٹرنیٹ پر درج ہیں۔
جواب
حق یہ ہے کہ خلفاء احمدیت یا جماعت مبایعین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام
کی نبوت کو ہرگز ہرگز غلط رنگ میں پیش نہیں کیا ، نہ بگاڑا ہے ، نہ ہی آپ
کو کبھی ’’آزاد نبی‘‘ قراردیا ہے ، نہ ہی دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار
دیاہے ، نہ ہی امت مسلمہ سے اپنے آپ کو الگ قرار دیاہے، نہ ہی آپؑ کی
تعلیمات سے سرمو انحراف کیا بلکہ بعینہ ان پرعمل کیاہے ۔مسئلہ نبوت تو
گذشتہ سطور میں ذکر ہو چکا ۔باقی آئندہ سطور میں انشاء اللہ اس وقت روز
روشن کی طرح کھل جائے گی جب ہم ان حقائق کو حسب ذیل عناوین اور ترتیب کے
تحت پیش کریں گے : غیر احمدیوں سے شادی بیاہ ، غیر احمدیوں کا جنازہ ،
مسئلہ تکفیر اور نمازباجماعت ۔
غیر احمدیوں سے شادی بیاہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام غیراحمدیوں سے شادی بیاہ کے ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’غیر احمدیوں کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے کیونکہ اہل کتاب عورتوں سے بھی تو نکاح جائز ہے بلکہ اس میں تو فائدہ ہے کہ ایک اور انسان ہدایت پاتاہے ۔ اپنی لڑکی کسی غیراحمدی کو نہ دینی چاہئے ۔ اگر ملے تو بے بیشک لو ۔ لینے میں حرج نہیں اور دینے میں گناہ ہے‘‘۔ (الحَکَم جلد ۱۲ پرچہ ۲۷ صفحہ ۱ تا ۳۔ تاریخ ۱۴؍اپریل ۱۹۰۸ئ، ملفوظات جلد ۱۰ صفحہ ۲۳۰)
یہاں آپ ؑ نے’’بلکہ اس میں توفائدہ ہے کہ ایک اورانسان ہدایت پا تاہے‘‘
فرما کر اپنے اس فتویٰ کی حکمت بھی بیان فرما دی ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت
،مرد کے مقابلہ میں جلد اور زیادہ اثر قبول کرتی ہے جبکہ وہ مرد پر اپنا
اثر کم ڈال سکتی ہے۔ پس اگر ایک احمدی مرد کسی غیر احمدی لڑکی سے شادی کرے
گا تو وہ آہستہ آہستہ اس کی نیک سیرت سے متأثر ہو کر احمدی ہو جائے گی ۔
لیکن اگر ایک احمدی بچی کسی غیر احمدی شخص سے بیاہی جائے گی تو اس بات کا
غالب امکان ہے کہ وہ اس کے زیر اثر احمدیت سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے یا اس کی
اولاد خاوند کے زیر اثر غیر احمدی ہو جائے ۔
اسی طرح آپ ؑ نے ایک اشتہار دربارہ رشتہ ناطہ دیا جس میں فرمایا :
’’۔۔۔ظاہر ہے کہ جو لوگ مخالف مولویوں کے زیر سایہ ہو کر تعصب اور عناد اور بخل اور عداوت کے پورے درجہ تک پہنچ گئے ہیں ان سے ہماری جماعت کے نئے رشتے غیرممکن ہو گئے ہیں جب تک کہ وہ توبہ کرکے اسی جماعت میں داخل نہ ہوں۔ اور اب یہ جماعت کسی بات میں ان کی محتاج نہیں۔ مال میں ،دولت میں،علم میں ، فضیلت میں ، خاندان میں ، پرہیز گاری میں، خداترسی میں سبقت رکھنے والے اس جماعت میں بکثرت موجود ہیں اور ہر ایک اسلامی قوم کے لوگ اس جماعت میں پائے جاتے ہیں توپھر اس صورت میں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگوں سے ہماری جماعت نئے تعلق پیدا کرے جوہمیں کافر کہتے اور ہمار ا نام دجال رکھتے یا خود تو نہیں مگر ایسے لوگوں کے ثناخواں اور تابع ہیں ۔ یاد رہے کہ جو شخص ایسے لوگوں کو چھوڑ نہیں سکتا وہ ہماری جماعت میں داخل ہونے کے لائق نہیں ۔ جب تک پاکی اور سچائی کے لئے ایک بھائی بھائی کو نہیں چھوڑ ے گا اور ایک باپ بیٹے سے علیحدہنہیں ہوگا تب تک وہ ہم میں سے نہیں۔
سو تمام جماعت توجہ سے سن لے کہ راستباز کے لئے ان شرائط پر پابند ہونا ضروری ہے ۔۔۔‘‘۔(اشتہار ۷؍جون ۱۸۹۸ء بعنوان’’اپنی جماعت کے لئے ضروری اشتہار‘‘۔ مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۰،۵۱)
’’ایک شخص کی درخواست پیش ہوئی کہ میری ہمشیرہ کی منگنی مدت سے ایک غیر احمدی کے ساتھ ہو چکی ہے ۔اب اس کو قائم رکھنا چاہئے یا نہیں؟ فرمایا: ’’ناجائز وعدہ کو توڑنا اور اصلاح کرنا ضروری ہے ۔ آنحضرت ﷺنے قسم کھائی تھی کہ شہد نہ کھائیں گے ۔ خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ ایسی قسم کو توڑ دیا جاوے ۔ علاوہ ازیں منگنی تو ہوتی ہی اسی لئے ہے کہ اس عرصہ میں تمام حسن و قبح معلوم ہو جاویں۔ منگنی نکاح نہیں ہے کہ اس کو توڑنا گناہ ہو‘‘۔ (اخباربدر پرچہ ۷؍جون ۱۹۰۷ء ۔ ملفوظات جلد ۹صفحہ ۳۰۰،۳۰۱)
ایک مرتبہ ایک دوست نے بذریعہ خط حضور اقدس ؑ سے عرض کی کہ میری غیر احمدی
ہمشیرہ اپنے غیر احمدی بیٹے کے لئے میری بیٹی کا رشتہ مانگتی ہے۔ مجھے کیا
کرناچاہئے ؟اس پر حضور اقدسؑ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کو
جواب لکھوایا ۔ حضرت مفتی صاحبؓنے اس دوست کو لکھا کہ :
’’برادرم مکرم ! السلام علیکم۔ آپ کا خط ملا ۔ حضرت صاحب(مسیح موعودؑ ) کی
خدمت میں ایک مناسب موقع پر پیش ہوا۔ حضرت فرماتے ہیں کہ یہ امر بالکل
ہمارے طریق کے برخلاف ہے کہ آپ اپنی لڑکی ایک ایسے شخص کو دیں جو کہ اس
جماعت میں داخل نہیں۔ یہ گناہ ہے ۔
فرمایا :ان کو لکھو یہی آپ کے واسطے امتحان کاوقت ہے ۔ دین کو دنیا پر
مقدم کرنا چاہئے ۔ صحابہؓ نے دین کی خاطر باپوں اور بیٹوں کو قتل کر دیا
تھا۔ کیا تم دین کی خاطر اپنی بہن کو ناراض بھی نہیں کر سکتے؟
فرمایا :آپ کی بہن اور اس کا بیٹا بالغ عاقل ہیں۔ خدا کے نزدیک وہ مجرم
ہیں کہ سلسلہ حقہ میں داخل نہیں ہوتے۔ ان کو سمجھاؤ ۔اگر سمجھ جائیں تو
بہتر ورنہ خدا کو کسی کی کیا پرواہ ہے ۔پس یہ قطعی حکم ہے کہ جو لڑکا احمدی
نہ ہو اس کو لڑکی دینا گناہ ہے۔والسلام ۔ عاجز محمد صادق عفا اللہ عنہ ۔
از قادیان ۱۹۰۷۔۴۔۱۷۔ (مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام مولوی فضل
الرحمن صاحب۔ قصبہ ہیلاں ضلع گجرات)
کیاجماعت مبایعین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انہی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں؟
غیر احمدیوں کا جنازہ
جہاں تک غیر احمدیوں کی نماز جنازہ کا تعلق ہے تو یاد رہے کہ جماعت مبایعین
اس بارہ میں بھی سو فیصد ی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات پرعمل
کرتی ہے ۔ اس ضمن میں آپ کے چند فتاوی ٰ پیش ہیں:
ایک بار آپؑ نے فرمایا :
’’رسول اللہ ﷺ نے ایک منافق کو کرتہ دیا اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھی۔ ممکن ہے اس نے غرغرہ کے وقت توبہ کر لی ہو۔ مومن کا کام ہے کہ حسن ظن رکھے ۔ اسی لئے نماز جنازہ کا جواز رکھاہے کہ ہرایک کی پڑھ لی جائے ۔ ہاں اگرسخت معاند ہو یافساد کا اندیشہ ہو توپھرنہ پڑھنی چاہئے ۔ ہماری جماعت کے سر پر فرضیت نہیں ہے ۔بطوراحسان کے ہماری جماعت دوسرے غیر از جماعت کا جنازہ پڑھ سکتی ہے ‘‘۔ (بدرجلد ۱پرچہ ۳ صفحہ ۱۸،۱۹۔ تاریخ ۱۴؍نومبر ۱۹۰۲ء ۔ ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۱۵۴)
’’ایک صاحب نے پوچھا کہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہے اوراکثر مخالف مکذب مرتے ہیں ، ان کا جنازہ پڑھا جاوے کہ نہ؟ فرمایا کہ : ’’یہ فرض کفایہ ہے۔ اگرکنبہ میں سے ایک آدمی بھی چلا جاوے تو ہو جاتاہے۔ مگر اب یہاں ایک توطاعون زدہ ہے کہ جس کے پاس جانے سے خدا روکتاہے۔ دوسرے وہ مخالف ہے ۔خواہ نخواہ تداخل جائز نہیں ہے۔ خدا فرماتاہے کہ تم ایسے لوگوں کو بالکل چھوڑ دو اوراگر وہ چاہے گاتو ان کو خود دوست بنا دے گا یعنی مسلمان ہو جاویں گے ۔ خدا تعالیٰ نے منہاج نبوت پراس سلسلہ کو چلا یاہے ۔ مداہنہ سے ہرگز فائدہ نہ ہو گا بلکہ اپنا حصہ ایمان کا بھی گنوا ؤ گے ‘‘۔(بدر جلد ۲پرچہ ۱۷ صفحہ ۱۲۹،۱۳۰۔ مورخہ ۱۵؍مئی ۱۹۰۳ء۔ ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۴۰۵)
’’سوال ہوا کہ جو آدمی اس سلسلہ میں داخل نہیں اس کا جنازہ جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا : ’’اگر اس سلسلہ کا مخالف تھا اور ہمیں برا کہتا اور سمجھتاتھا تواس کا جنازہ نہ پڑھو اور اگر خاموش تھا اور درمیانی حالت میں تھا تو اس کا جنازہ پڑھ لینا جائز ہے بشرطیکہ نماز جنازہ کاامام تم میں سے کوئی ہو ۔ ورنہ کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘ ۔
فرمایا :’’ اگر کوئی ایسا آدمی جو تم میں سے نہیں اور اس کاجنازہ پڑھنے اور پڑھانے والے غیر لوگ موجود ہوں اور وہ پسند نہ کرتے ہوں کہ تم میں سے کوئی جنازہ کاپیش امام بنے اور جھگڑے کا خطرہ ہو تو ایسے مقام کوترک کر و اور اپنے کسی نیک کام میں مصروف ہو جاؤ‘‘۔ (الحکم جلد ۶نمبر۱۶۔ صفحہ ۷ پرچہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۲ء ۔ ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۷۶،۲۷۷)
ایک اور موقعہ پر فرمایا :
’’اگرمُتَوَفّیّٰٰ بالجہر مکفّر اور مکذّب نہ ہو تو اس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں کیونکہ علاّم الغیوب خداکی پاک ذا ت ہے‘‘۔ فرمایا :’’ جو لوگ ہمارے مکفّرہیں اور ہم کو صریحاً گالیاں دیتے ہیں ان سے السلام علیکم مت لو اور نہ ان سے مل کر کھانا کھاؤ ۔ ہاں خریدوفروخت جائز ہے۔ اس میں کسی کا احسان نہیں‘‘۔
’’جو شخص ظاہر کرتاہے کہ میں نہ اُدھر کاہوں اور نہ اِدھر کا ہوں اصل میں وہ بھی ہمارا مکذب ہے ۔ اور جو ہمارا مُصَدِّق نہیں اور کہتا ہے کہ میں ان کو اچھا جانتا ہوں وہ بھی مخالف ہے ۔ ایسے لوگ اصل میں منافق طبع ہوتے ہیں ۔ ان کا یہ اصول ہوتا ہے کہ با مسلماں اللہ اللہ، با ہند و رام رام۔ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہوتا ۔بظاہر کہتے ہیں کہ ہم کسی کا دل دکھانا نہیں چاہتے۔ مگر یاد رکھو کہ جو شخص ایک طرف کا ہوگا اس سے کسی نہ کسی کا دل ضرور دکھے گا‘‘۔(بدر جلد ۲پرچہ ۱۴ صفحہ ۱۰۵۔ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء ۔ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۲۹۴)
اسی طرح اخبار’’ الحَکَم‘‘ میں مذکور ہے :
’’مرزا امام الدین جو اپنے آپ کو ہدایت کنندہ قوم لال بیگیاں
مشہورکرتااورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سخت ترین دشمنوں میں
سے تھا ۶؍جولائی کو فوت ہو گیا۔ چنانچہ اس کے جنازہ پر رسمی طورپر ہمارے
معزز و مکرم دوست سید محمد علی شاہ صاحب بھی چلے گئے اورجنازہ پڑھ لینے کے
پیچھے آپ کو اپنے اس عمل پر تاسّف ہوا اور آپ نے ذیل کا توبہ نامہ شائع
کیا جو ہم ناظرین’’ الحَکَم‘‘ کی دلچسپی کے لئے درج کرتے ہیں کہ :
’’میں بذریعہ توبہ نامہ ہذا اس امر کو شائع کرتا ہوں کہ میں نے سخت غلطی کی
ہے اور وہ یہ کہ میں نے غلطی سے مرزا امام الدین کا جو ۶؍جولائی کوفوت
ہواہے اور جس نے اپنی کتابوں میں ارتداد کیاہے جنازہ پڑھا ۔ پس میں بذریعہ
اشتہار ہذا یہ توبہ نامہ شائع کرتاہوں اور ظاہر کرتاہوں کہ میں امام الدین
اور ان لوگوں سے بیزار ہوں جواس کے جنازہ میں شامل ہوئے اوربالآخر دعائے
جنازہ واپس لیتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے اپنے گناہ کو واپس لیتاہوں اور
خداتعالیٰ سے اپنے اس گناہ کی مغفرت چاہتا ہوں۔ خاکسار ۔ محمد علی شاہ۔۔۔
اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ:
’’ کوئی شخص کسی بات پر ناز نہ کرے۔ فطرت انسان سے الگ نہیں ہوا کرتی۔ جس فطرت پرانسان اول قدم مارتاہے پھر وہ اس سے الگ نہیں ہوتا۔ یہ بڑے خوف کامقام ہے۔ حسن خاتمہ کے لئے ہر ایک کو دعاکرنی چاہئے۔ عمرکا اعتبار نہیں ۔ ہر شئے پر اپنے دین کو مقدم رکھو۔ زمانہ ایساآ گیا ہے کہ پہلے تو خیالی طورپر اندازہ عمرکا لگایا جاتاتھامگر اب تو یہ بھی مشکل ہے ۔ دانشمند کو چاہئے کہ ضرور موت کاانتظام کر ے ۔ میں اتنی دیر سے اپنی برادری سے الگ ہوں ۔میرا کسی نے کیابگاڑ دیا؟ خدا تعالیٰ کے مقابل پرکسی کو معبود نہیں بنانا چاہئے۔
ایک غیر مومن کی بیمار پرسی اور ماتم پرسی تو حسن اخلاق کانتیجہ ہے لیکن اس کے واسطے کسی شعائر اسلام کو بجا لانا گناہ ہے۔ مومن کاحق کا فرکو دینا نہیں چاہئے اور نہ منافقانہ ڈھنگ اختیار کرنا چاہئے‘‘۔ (الحکم جلد ۷پرچہ ۲۶ صفحہ ۱۰،۱۱ تاریخ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۴۴،۴۶)
جماعت مبایعین حضرت اقدس علیہ السلام کی انہی وصایا اورفتاویٰ پر اہل دنیا
کی طعن و تشنیع سے بے پرواہ بدل و جان عمل کررہی ہے۔ چنانچہ عام طورپر ہم
غیر احمدیوں کے جنازے پڑھنے سے احتراز کرتے ہیں لیکن استثنائی حالات میں
ایسے غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھ بھی لیتے ہیں جو مخالف و مکذب ومکفر نہ ہوں
بشرطیکہ امام احمد ی ہو۔ مثلاً حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے عہد
خلافت میں ایک یورپین ملک میں ایک غیر احمدی فوت ہو گیا ۔ اس کے ورثاء وہاں
نہ تھے اور نہ ہی کوئی اور مسلمان کہ اس کا جنازہ پڑھ سکے ۔ احمدی احباب
کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے یہ صورتحال حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی
خدمت میں پیش کی تو آپؒ نے فرمایا کہ اس کاجنازہ آپ لوگ پڑھیں کیونکہ
کوئی مسلمان بغیر نماز جنازہ کے دفن نہیں ہونا چاہئے۔ چنانچہ احمدی احباب
نے اس غیراحمدی کی نماز جنازہ پڑھی۔
مسئلۂ تکفیر
جہاں تک مسئلہ تکفیر کا تعلق ہے تو اس ضمن میں ’’اہل پیغام‘‘ کے سامنے ہم
حضرت اقدس ؑ کا درج ذیل اقتباس پیش کرنے پرہی اکتفا کرتے ہیں اور ان سے
التماس کرتے ہیں کہ اسے ذرا غور سے پڑھیں کہ آپ لوگوں نے اسے بھلا دیا ہے۔
حضوراقدس علیہ السلام معترضین کے مطاعن کا جواب ارشاد فرماتے ہوئے پہلے ایک معترض کا اعتراض یوں درج کرتے ہیں :
’’سوال:حضور عالی نے ہزاروں جگہ تحریر فرمایا ہے کہ کلمہ گو اوراہل قبلہ کوکافر کہنا کسی طرح صحیح نہیں ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ علاوہ ان مومنوں کے جوآپ کی تکفیر کرکے کافربن جائیں صرف آپ کے نہ ماننے سے کوئی کافر نہیں ہو سکتا۔ لیکن عبدالحکیم خان کو آ پ لکھتے ہیں کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے ۔ اس بیان اور پہلی کتابوں کے بیان میں تناقض ہے ۔ یعنی پہلے آپ تریاق القلوب وغیرہ میں لکھ چکے ہیں کہ میرے نہ ماننے سے کوئی کافرنہیں ہوتا۔ اوراب آپ لکھتے ہیں کہ میرے انکار سے کافر ہو جاتاہے‘‘۔ اس کے جواب میں آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’الجواب: یہ عجیب بات ہے کہ آپ کافر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھیراتے ہیں حالانکہ خدا کے نزدیک ایک ہی قسم ہے کیونکہ جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اسی وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ علاوہ اس کے جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا کیونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی پیشگوئی موجودہے یعنی رسول اللہ ﷺنے خبر دی تھی کہ آخری زمانہ میں میری امت میں سے ہی مسیح موعود آئے گا۔ ۔۔۔۔۔۔ پھرجب کہ دو سو مولوی نے مجھے کافر ٹھیرایا اور میرے پر کفر کا فتویٰ لکھا گیا اور انہی کے فتوے سے یہ بات ثابت ہے کہ مومن کو کافرکہنے والا کافر ہو جاتاہے اورکافرکومومن کہنے والا بھی کافر ہو جاتاہے تو اب اس بات کا سہل علاج ہے کہ اگر دوسرے لوگوں میں تخم دیانت اور ایمان ہے اور وہ منافق نہیں ہیں تو ان کو چاہئے کہ ان مولویوں کے بارے میں ایک لمبا اشتہار ہرایک مولوی کے نام کی تصریح سے شائع کردیں کہ یہ سب کافر ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کافر بنایا ۔ تب میں ان کو مسلما ن سمجھ لوں گا بشرطیکہ ان میں کوئی نفاق کا شبہ نہ پایا جاوے اور خدا کے کھلے کھلے معجزات کے مُکذّب نہ ہوں ۔ ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے’’ اِنَّ المُنَافقِینَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّار‘‘۔(النساء ۱۴۶) یعنی منافق دوزخ کے نیچے کے طبقے میں ڈالے جائیں گے ۔اور حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ ’مَا زَنَا زانٍ وَھُو مُؤمنٌ وَمَا سَرَقَ سَارقٌ وَھُوَ مُؤمِنٌ‘ یعنی کوئی زانی زناکی حالت میں اورکوئی چور چوری کی حالت میں مومن نہیں ہوتا۔ پھرمنافق نفاق کی حالت میں کیونکر مومن ہو سکتاہے ۔ اگر یہ مسئلہ صحیح نہیں ہے کہ کسی کوکافر کہنے سے انسان خود کافر ہو جاتاہے تو اپنے مولویوں کافتویٰ مجھے دکھلا دیں میں قبول کر لوں گا ۔ اوراگر کافر ہو جاتاہے تو دو سومولوی کے کفرکی نسبت نام بنام ایک اشتہار شائع کردیں ۔ بعد اس کے حرام ہوگا کہ میں ان کے اسلام میں شک کروں بشرطیکہ کوئی نفاق کی سیرت ان میں نہ پائی جائے‘‘۔(حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۶۷تا ۱۶۹)
نماز با جماعت
جماعت مبایعین کا غیراحمدیوں کے پیچھے خواہ وہ مُکفّر ومُکذّب ہوں یا نہ
ہوں نماز نہ پڑھنا بھی خالصۃً حضور اقدس ؑ کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ انٹرنیٹ
پر ’’اہلِ پیغام‘‘ کا یہ کہنا کہ حضور ؑ نے صرف تکفیر کرنے والوں کے پیچھے
نماز پڑھنے سے منع کیا ہے ،ایک باطل دعویٰ ہے ۔ اس کی قطعاً کوئی بنیاد
نہیں ۔ حضور ؑ کے ارشادات اس ضمن میں ملاحظہ ہوں۔
امام الصلوٰۃ کے بارہ میں عام ارشاد ات
نماز باجماعت میں امام جو کردار ادا کرتاہے اس کی نزاکت بیا ن کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا:
’’پرہیز گار کے پیچھے نماز پڑھنے سے آدمی بخشا جاتاہے ۔ نماز تو تمام برکتوں کی کنجی ہے ۔ نماز میں دعا قبول ہوتی ہے۔ امام بطور وکیل کے ہوتا ہے۔ اس کا اپنا دل سیاہ ہو تو پھر وہ دوسروں کو کیا برکت دے گا‘‘۔ (الحکم جلد۵ پرچہ ۲۸ صفحہ ۳،۴۔ تاریخ ۳۱؍جولائی ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۱۸)
’’نماز دعا اور اخلاص کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ۔ مومن کے ساتھ کینہ جمع نہیں ہوتا ۔ متقی کے سوا دوسرے کے پیچھے نماز کو خراب نہیں کرنا چاہئے‘‘۔ (الحکم جلد ۵ پرچہ ۱۰ صفحہ ۹۔ تاریخ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۲۲۵)
غیر احمدیوں کے پیچھے نماز
عام غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارہ میں حضورؑ کے بعض ارشادات ملاحظہ ہوں۔
’’ایک شخص نے بعد نماز مغرب بیعت کی اور عرض کیا کہ ’’الحَکَم‘‘ میں لکھا ہوا دیکھا ہے کہ غیر از جماعت کے پیچھے نماز نہ پڑھو!؟ فرمایا: ٹھیک ہے۔ اگر مسجد غیروں کی ہے تو گھر میں اکیلے پڑھ لو۔ کوئی حرج نہیں۔ اور تھوڑی سی صبر کی بات ہے ۔ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مسجدیں برباد کرکے ہمارے حوالہ کردے گا ۔ آنحضرت ﷺکے زمانہ میں بھی کچھ عرصہ صبر کرنا پڑا تھا‘‘۔ (بدر جلد ۱ پرچہ ۵،۶۔ صفحہ ۳۷۔تاریخ ۲۸؍نومبر و ۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء ۔ ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۲۴۰،۲۴۱)
*۔۔۔’’کسی نے سوال کیا کہ جو لوگ آپؑ کے مرید نہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے آپؑ نے اپنے مریدوں کو کیوں منع فرمایا ہے ؟ حضرتؑ نے فرمایا : ’’جن لوگوں نے جلد بازی کے ساتھ بدظنی کرکے اس سلسلہ کو جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے ردّ کر دیاہے اوراس قدر نشانوں کی پرواہ نہیں کی اور اسلام پر جو مصائب ہیں اس سے لا پرواہ پڑے ہیں، ان لوگوں نے تقویٰ سے کام نہیں لیا۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتاہے’اِنَّمَا یَتَقبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْن‘۔ خدا صرف متقی لوگوں کی نماز قبول کرتاہے ۔ اس واسطے کہا گیاہے کہ ایسے آدمی کے پیچھے نماز نہ پڑھو جس کی نماز خود قبولیت کے درجہ تک پہنچنے والی نہیں‘‘۔ (الحکم جلد ۵ پرچہ ۱۰ صفحہ ۸۔ تاریخ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۲۱۵)
*۔۔۔ایک اور موقعہ پر فرمایا:
’’صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز مت پڑھو ۔ بہتری اور نیکی اسی میں ہے اور اسی میں تمہاری نصرت اور فتحِ عظیم ہے اور یہی اس جماعت کی ترقی کا موجب ہے۔ دیکھو دنیا میں روٹھے ہوئے اور ایک دوسرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن کو چاردن منہ نہیں لگاتے اور تمہاری ناراضگی اور روٹھنا تو خدا کے لئے ہے ۔ تم اگر ان میں رَلے مِلے رہے تو خدا تعالیٰ جو خاص نظر تم پر رکھتاہے وہ نہیں رکھے گا ۔ پاک جماعت جب الگ ہو تو پھر اس میں ترقی ہوتی ہے ‘‘۔(الحکم جلد ۵ پرچہ ۲۹۔ صفحہ ۳،۴۔ تاریخ ۱۰؍اگست ۱۹۰۱۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۲۱)
اے خدا کے پاک مسیح موعودؑ ! تو نے کیا ہی سچ اور حق فرمایا ۔ تیری دی ہوئی
بشارت کے عین مطابق وہ جماعت جو تیری ان تعلیمات پر عمل پیرا رہی خدا نے
اس میں برکت پر برکت ڈالی ۔ ان کی باربار نصرت کی۔ انہیں فتح عظیم کے بعد
فتح عظیم عطا کی ۔ مگر وہ گروہ جس نے تیری ان وصایا کو پسِ پشت ڈال دیا اور
غیروں میں ’’رَلے مِلے‘‘رہنے پر زور دیا ان سے برکت چھین لی گئی اور
ناکامی و نامرادی ان کا مقدر بن گئی ۔
مخالف و معارض کے پیچھے نماز
حضور علیہ السلام نے فرمایا :
’’مخالف کے پیچھے نماز بالکل نہیں ہوتی ۔ پرہیز گار کے پیچھے نماز پڑھنے سے آدمی بخشا جاتا ہے۔ نماز تو تمام برکتوں کی کنجی ہے ۔ نماز میں دعا قبول ہوتی ہے ۔ امام بطور وکیل کے ہوتاہے۔ اس کا اپنا دل سیاہ ہو تو پھر وہ دوسروں کو کیا برکت دے گا‘‘۔ (الحکم جلد ۵ پرچہ ۲۸۔ صفحہ ۳،۴۔ تاریخ ۳۱؍جولائی ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۱۸)
مکفر و مکذب کے پیچھے نماز
’’دو آدمیوں نے بیعت کی ۔ ایک نے سوال کیا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا : ’’وہ لوگ ہم کو کافر کہتے ہیں ۔ اگر ہم کافر نہیں ہیں تو و ہ کفر لوٹ کر ا ن پر پڑتاہے۔ مسلمان کو کافر کہنے والا خود کافر ہے۔ اس واسطے ایسے لوگوں کے پیچھے نماز جائز نہیں‘‘۔(بدر جلد ۱نمبر ۳۹ صفحہ ۲ مورخہ ۱۵؍دسمبر ۱۹۰۵ء ۔ ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۲۸۲)
متردّد کے پیچھے نماز
’’ اہل پیغام‘‘ نے انٹرنیٹ پر بڑی بے باکی سے اعلان کیا ہے کہ حضرت اقدس
مسیح موعود علیہ السلام نے ان لوگوں کے پیچھے نماز سے منع نہیں فرمایا جو
نہ تکذیب کرتے ہیں نہ تکفیر بلکہ بین بین ہیں۔ لیجئے ایسے متردّد لوگوں کے
بارہ میں حضورؑ کے فتاویٰ ملاحظہ فرمائیے:
’’پھر ان کے درمیان جو لوگ خاموش ہیں وہ بھی انہیں میں شامل ہیں ۔ ان کے پیچھے بھی نماز جائزنہیں کیونکہ وہ اپنے دل کے اندر کوئی مذہب مخالفانہ رکھتے ہیں جوہمارے ساتھ بظاہر شامل نہیں ہوتے ‘‘۔ (بدر جلد ۱نمبر ۳۹ صفحہ ۲ مورخہ ۱۵؍دسمبر ۱۹۰۵ء ۔ ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۲۸۲)
’’ سوال ہواکہ اگر کسی جگہ امام نماز حضور ؑ کے حالات سے واقف نہیں تواس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں؟ فرمایا :’’ پہلے تمہارا فرض ہے کہ اسے واقف کرو ۔ پھر اگر تصدیق کرے تو بہتر ورنہ اس کے پیچھے اپنی نماز ضائع نہ کرو۔ اوراگر کوئی خاموش رہے ، نہ تصدیق کرے نہ تکذیب کرے تو وہ بھی منافق ہے۔ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو‘‘۔ (الحکم جلد ۶ نمبر ۱۶ صفحہ ۷ پرچہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۲ء ۔ ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۷۷)
اسی طرح حضرت اقدس ؑ نے ایک اور موقع پر فرمایا :
’’ بعض لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ ایسے لوگ جوبرا نہیں کہتے مگر پورے طورپر اظہار بھی نہیں کرتے محض اس وجہ سے کہ لوگ برا کہیں گے ، کیا ان کے پیچھے نماز پڑھ لیں؟ میں کہتاہوں ہرگز نہیں۔ اس لئے کہ ابھی تک ان کے قبول حق کی راہ میں ایک ٹھوکر کا پتھر ہے اور وہ ابھی تک اسی درخت کی شاخ ہیں جس کا پھل زہریلا اورہلاک کرنے والا ہے۔ اگر وہ دنیا داروں کو اپنا معبود اور قبلہ نہ سمجھتے تو ان سارے حجابوں کو چیر کر باہر نکل آتے اور کسی کے لعن طعن کی ذرا بھی پرواہ نہ کرتے اور کوئی خوف شماتت کا انہیں دامنگیر نہ ہو تا بلکہ وہ خدا کی طرف دوڑتے ۔ پس تم یاد رکھو کہ تم ہر کام میں دیکھ لو کہ اس میں خدا راضی ہے یا مخلوقِ خدا۔ جب تک یہ حالت نہ ہو جاوے کہ خدا کی رضا مقدم ہو جاوے اور کوئی شیطان اور رہزن نہ ہو سکے اس وقت تک ٹھوکر کھانے کا اندیشہ ہے‘‘ ۔(الحکم جلد ۵ پرچہ ۳۷۔ صفحہ ۱تا ۳۔ تاریخ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۶۱)
ایک عرب دوست قادیان تشریف لائے اور بیعت کے بعد ایک عرصہ تک حضور اقدس ؑ
کی صحبت سے فیضیاب ہوتے رہے۔ پھر اپنے ملک جانے سے قبل انہوں نے حضور اقدس
علیہ السلام سے نماز کے بارہ میں خصوصی طورپر دریافت کیا۔ اس کی تفصیل
’’الحکم ‘‘ میں یوں درج ہے:
’’سیدعبداللہ صاحب عرب نے سوال کیا کہ میں اپنے ملک عرب میں جاتاہوں وہاں میں ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں؟
فرمایا ’’مصدقین کے سوا کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھو‘‘۔
عرب صاحب نے عرض کیا : وہ لوگ حضورؑ کے حالات سے واقف نہیں ہیں۔ اور ان کو
تبلیغ نہیں ہوئی ؟فرمایا: ’’ان کو پہلے تبلیغ کر دینا پھر یا وہ مصدق ہو
جائیں گے یا مکذب‘‘۔
عرب صاحب نے عرض کیا کہ ہمار ے ملک کے لوگ بہت سخت ہیں اور ہماری قوم شیعہ
ہے ؟ فرمایا :’’تم خدا کے بنو ۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کا معاملہ صاف ہو
جائے اللہ تعالیٰ آ پ اس کا متولی اور متکفل ہو جاتاہے ‘‘۔ (الحکم جلد ۵
نمبر ۳۵ صفحہ ۶۔ تاریخ ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۴۲،۳۴۳)
اسی طرح ایک اورمجلس میں فرمایا :
’’جو شخص ظاہر کرتاہے کہ میں نہ اُدھر کا ہوں نہ اِدھر کا ہوں اصل میں وہ بھی ہمارا مکذب ہے۔ اور جو ہمارا مصدق نہیں اورکہتاہے کہ میں ان کو اچھا جانتاہوں وہ بھی مخالف ہے ۔ ایسے لوگ اصل میں منافق طبع ہو تے ہیں ۔ ان کا یہ اصول ہوتاہے کہ ’با مسلماں اللہ اللہ، با ہندو رام رام ‘۔ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہوتا ۔ بظاہر کہتے ہیں کہ ہم کسی کا دل دکھانا نہیں چاہتے مگر یاد رکھو کہ جوشخص ایک طرف کا ہو گااس سے کسی نہ کسی کا دل ضرو ر دُکھے گا‘‘۔(بدر جلد ۲ پرچہ ۱۴ صفحہ ۱۰۵ تاریخ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء ۔ ملفوظات جلد ۵ مطبوعہ لندن صفحہ ۲۹۴)
’’خان عجب خان صاحب تحصیلدار نے حضرت اقدس ؑ سے استفسار کیا کہ اگر کسی
مقام کے لوگ اجنبی ہوں اور ہمیں علم نہ ہو کہ وہ احمدی جماعت میں ہیں یا
نہیں توان کے پیچھے نماز پڑھی جاوے کہ نہ؟
فرمایا ’’ ناواقف امام سے پوچھ لو ۔اگر وہ مصدق ہو تو نماز اس کے پیچھے
پڑھی جاوے ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک الگ جماعت بنانا چاہتاہے اس لئے اس
کے منشاء کی کیوں مخالفت کی جاوے۔ جن لوگوں سے وہ جدا کرنا چاہتاہے باربار
ان میں گھسنا یہی تو اس کے منشاء کے مخالف ہے ‘‘۔ (البدر جلد ۲ پرچہ ۵ صفحہ
۳۴ ،۳۵۔ تاریخ ۲۰؍فروری ۱۹۰۳ء ۔ ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۳۸)
’’اہل پیغام‘‘ کو ڈرنا چاہئے کہ وہ منشاء الٰہی کی مخالفت کر رہے ہیں ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو ہمیں واضح نصیحت فرما رہے ہیں کہ اللہ
تعالیٰ ایک الگ جماعت بنانا چاہتاہے اس لئے اس کی منشاء کے خلاف کیوں کیا
جائے۔ مگر’’اہل پیغام‘‘ اس نصیحت کے برخلاف عمل پر مصر ہیں اور بار بار پھر
ان لوگوں میں ’’گھسنا‘‘ چاہتے ہیں ۔ ان کی یہ جسارت واقعی بڑی حیران کن ہے
؟
تردّد میں پڑے لوگوں کے پیچھے نماز کے بارہ میں اس وقت تک ہم نے حضور اقدس ؑ
کے جو ارشادات پیش کئے ہیں وہ جماعت کے ان اخبارات سے ماخوذہیں جو حضور
اقدس ؑ کے زمانہ میں حضور ؑ اور جماعت کے ترجما ن تھے ۔ بلا شبہ یہ حوالہ
جات ایسے واضح ہیں کہ ہر بات پوری طرح کھل گئی ہے ۔ تاہم آخر پر اب حضور
اقدس ؑ کا ایک ایسا ارشاد پیش کیا جاتاہے جو آپؑ نے اپنے قلم مبارک سے
اپنی ایک کتاب میں درج فرمایاہے ۔ یہ بڑا انذاری ارشادہے اورایسا واضح اور
قطعی ہے کہ اس کا سمجھنا کسی پر مشکل نہیں اور نہ ہی کوئی اس کی بے جاتاویل
کرسکتاہے سوائے اس کے جسے عناد وحسد اور تکبر نے پوری طرح اندھا کر دیا
ہو۔
حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کو جو الہامات ہوئے ان میں ایک الہام درج ذیل آیت قرآنیہ کی شکل میں تھا:’’تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَہَبٍ وَّ تَبَّ‘‘۔ اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں :
’’اس کلام الٰہی سے ظاہر ہے کہ تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہے اس لئے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے۔ کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتاہے ؟ پس یاد رکھو کہ جیساکہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پرحرام ہے اور قطعی حرام ہے کہکسی مکفّر اور مکذّب یا متردّد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو ۔ اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ اِمَامُکُمْ مِنْکُم یعنی جب مسیح نازل ہوگا توتمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلا م کرتے ہیں بکلّی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔ پس تم ایساہی کرو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ خد ا کا الزام تمہارے سر پرہو اور تمہارے عمل حبط ہو جائیں اور تمہیں کچھ خبر نہ ہو ۔ جو شخص مجھے دل سے قبول کرتاہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتاہے اور ہریک حال میں مجھے حَکَم ٹھیراتاہے اور ہریک تنازعہ کا مجھ سے فیصلہ چاہتاہے۔ مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پاؤ گے ۔ پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں ہے کیونکہ وہ میری باتوں کوجومجھے خدا سے ملی ہیں عزّت سے نہیں دیکھتا۔ اس لئے آسمان پراس کی عزّت نہیں ‘‘۔ ( اربعین نمبر ۳ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷۔ صفحہ ۴۱۷حاشیہ)
وسوسہ نمبر ۳
انٹرنیٹ پرایک وسوسہ یہ پھیلایاگیاہے کہ حضرت
مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’الوصیت‘‘ میں خود فرمایاہے کہ’’
انجمن‘‘ ہی میرے بعد میرا خلیفہ ہوگی!
بڑاجواب
نہایت افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ان لوگوں نے حضور اقدس ؑ کے اس
ارشاد کو اس کے سیاق و سباق سے الگ پیش کیا ہے اور یوں تحریف الکَلِم عن
مواضعہ کی مکروہ جسارت کی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ راشد اور انجمن میں زمین و آسمان کافرق ہے۔’’اہل
پیغام‘‘ کے لیڈر یقیناًاچھی طرح جانتے ہوں گے انہیں جاننا چاہئے کہ امر
واقع یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے رسالہ ’’الوصیت‘‘ میں اپنے قرب
وفات اور اپنے بعد خلافت قائم ہونے کا ذکر ایک ہی عنوان کے تحت اور ایک ہی
وقت میں فرمایاہے جبکہ ’’انجمن‘‘ کے کاموں کا ذکر ایک علیحدہ عنوان کے تحت
اور دوسرے وقت میں کیاہے ۔ اس اجمال کی تفصیل درج ذیل ہے۔
رسالہ الوصیت کا تجزیاتی مطالعہ
یاد رکھنا چاہئے کہ موجودہ کتاب ’’الوصیت‘‘ کے ٹائیٹل سمیت ۳۴ صفحات ہیں اور یہ تین مختلف حصوں اور تین مختلف عناوین پرمشتمل ہے۔
پہلا حصہ: یہ اصل ’’وصیت ‘‘ہے اور ۲۴صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کی تصنیف حضور
اقدس ؑ نے ۲۰؍دسمبر ۱۹۰۵ء کو مکمل فرمائی اور ۲۴؍دسمبر کو اسے شائع فرما
دیا ۔ اسی حصہ میں آپ نے اپنی وفات کے دن قریب آ جانے کا ذکر فرمایاہے
اور احباب جماعت کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں
کیونکہ میرے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ قدرت ثانیہ (خلافتِ حقہ) ظاہر کرے گا۔
نیز فرمایا ہے کہ ایک فرشتے نے مجھے میری قبر کی جگہ رؤیا میں دکھائی ہے
اور ایک اور جگہ دکھا کر بتایا ہے کہ یہ بہشتی مقبرہ ہے اور جماعت کے صلحاء
اس میں دفن ہونگے ۔
اس حصہ اوّل کے مندرجات کچھ آگے چل کر ہم ذرا تفصیل سے زیر بحث لائیں گے۔
حصہ دوم: کتاب’’الوصیت‘‘ کے دوسرے حصہ کا عنوان ’’ضمیمہ متعلقہ رسالہ
الوصیت ‘‘ہے جو سات صفحات پر مشتمل ہے ۔ جیساکہ اس کے نام سے ظا ہر ہے اس
حصہ کو حضور نے بعد میں تحریرفرما کر اصل’’ رسالہ الوصیت ‘‘کے ساتھ ملحق
کیا ۔ اسے حضورؑ نے ۶؍جنوری ۱۹۰۶ء کوتحریر فرمایا ہے اور اسی ماہ و سال میں
مجلہ ریویو آف ریلیجنز اردو میں شائع کیا ۔
اس حصہ میں آپ ؑ نے ان صلحاء کے لئے جو اس بہشتی مقبرہ میں دفن ہونگے
مختلف نصائح اور شرائط درج فرمائی ہیں ۔ نیز اس کمیٹی کے لئے نصائح اور
تعلیمات درج کی ہیں جواس بہشتی مقبرہ کے کاموں کی نگران ہوگی۔ اس کمیٹی کا
نام حضور نے’’ انجمن کارپرداز مصالح قبرستان‘‘ تجویز فرمایا۔ اس نام کو
اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ اس میں حضور ؑ نے اس انجمن کے دائرہ کار
اور دائرہ اختیار کو خوب واضح فرمادیا ہے۔
ہم آئندہ سطورمیں اس حصہ میں مذکور شرائط اور نصائح ذرا تفصیل سے درج کرکے تبصرہ کریں گے ۔ انشاء اللہ۔
حصہ سوم: یہ حصہ صرف تین صفحات پرمشتمل ہے ۔ یہ انجمن کے پہلے اجلاس کی
رپورٹ پرمشتمل ہے جو حضرت مولوی حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ کی صدارت میں
ہوا۔
حصہ اول کا خلاصہ
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیاہے اسی حصہ میں حضور اقدس ؑ نے اپنی وفات کے دن
قریب آ جانے کی خبر دی ہے اورجماعت کو تسلی دیتے ہوئے فرمایاہے کہ خدا
میرے بعد قدرت ثانیہ تمہارے لئے بھیج دے گا ۔ چنانچہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ
کی اپنے انبیاء کے ساتھ یہ سنت قدیمہ ہے کہ :
’’۔۔۔۔۔۔ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے
ساتھ رکھتاہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اورتشنیع کا موقعہ دے
دیتاہے۔ اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کرچکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت
کا دکھاتاہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتاہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی
قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔
غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتاہے۔
(۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت دکھاتاہے۔
(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا
پیداہوجاتاہے اوردشمن زور میں آ جاتے ہیں اورخیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ
گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت
کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور ا ن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی
بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ
اپنی زبردست قدرت ظاہر کر تاہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتاہے ۔ پس
وہ جو اخیر تک صبر کرتاہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتاہے جیساکہ حضرت
ابوبکر صدیقؓ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی
گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے
دیوانہ کی طرح ہو گئے ۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو کھڑا کر کے
دوبارہ اپنی قدرت کانمونہ دکھایا اوراسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھا م لیا
اوراس وعدہ کو پورا کیاجو فرمایا تھا وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جمادیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔
۔۔۔سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں
دکھلاتاہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلادے سو اب ممکن
نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کردیوے ۔ اس لئے تم میری اس
بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ
ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اوراس کا
آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع
نہیں ہوگا ۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں ۔ لیکن میں
جب جاؤں گا تو پھرخدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ
تمہارے ساتھ رہے گی جیساکہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے۔ اور وہ وعدہ
میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتاہے
کہ میں اس جماعت کو جوتیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دو ں گا۔ سو
ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تابعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی
وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے ۔ وہ
سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے ۔ اگرچہ یہ دن دنیا
کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ
دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی ۔
میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم
قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اوروجود ہونگے جو دوسری قدرت کا مظہرہونگے ۔سو
تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو ۔ اور چاہئے
کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہوکردعا میں لگے رہیں تا
دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایساقادر
خدا ہے‘‘۔(الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۴ تا ۳۰۶)
پھراس کے بعد اسی حصہ اول میں بہشتی مقبرہ کے سلسلہ میں انجمن کی ضرورت کے ضمن میں فرماتے ہیں:
’’اس قبرستان کی زمین موجودہ بطور چندہ کے میں نے اپنی طرف سے دی ہے لیکن
اس احاطہ کی تکمیل کے لئے کسی قدر اور زمین خریدی جائے گی جس کی قیمت
اندازاً ہزار روپیہ ہوگی ۔۔۔۔۔۔ سو پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اس
قبرستان میں مدفون ہونا چاہتاہے و ہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف کے لئے
چندہ داخل کرے ۔۔۔۔۔۔ بالفعل یہ چندہ اخویم مکرم مولوی نورالدین صاحب کے
پاس آنا چاہئے ۔ لیکن اگر خداتعالیٰ نے چاہا تو یہ سلسلہ ہم سب کی موت کے
بعد بھی جاری رہے گا ۔ اس صورت میں ایک انجمن چاہئے کہ ایسی آمدنی کا
روپیہ جو وقتاً فوقتاً جمع ہوتارہے گا اعلائے کلمہ اسلام اور اشاعت توحید
میں جس طرح مناسب سمجھیں خرچ کریں ‘‘۔ ( الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ
۳۱۸)
حصہ دوم کا خلاصہ
قبل ازیں ہم یہ اشارہ کرچکے ہیں کہ اس حصہ میں حضرت اقدس ؑ نے ان صلحاء
جماعت کے لئے کچھ مزید شرائط درج کی ہیں جو اپنے اموال اور جائیدادوں کا
ایک حصہ اشاعت اسلام کے لئے وقف کرنے کے لئے تیار ہوں اور یوں نظام وصیت
میں داخل ہو کر ’’بہشتی مقبرہ ‘‘ میں دفن ہونے کے خواہشمند ہوں۔
اسی طرح اس حصہ میں آپؑ نے ’’بہشتی مقبرہ‘‘کے کاموں اور ان موصیان کے
اموال کے حساب کتاب اور نگرانی کرنے والی اس ’’انجمن‘‘ کے لئے بھی مزید
ہدایات درج کی ہیں ۔ یہ کل ۲۰شرائط ہیں ان میں سے چند اہم شرائط درج ذیل
ہیں:
*.... ’’انجمن جس کے ہاتھ میں ایسا روپیہ ہوگا اس کواختیار نہیں ہوگاکہ بجز
اغراض سلسلہ احمدیہ کے کسی اور جگہ وہ روپیہ خرچ کرے اور ان اغراض میں سے
سب سے مقدم اشاعت اسلام ہوگی ۔ اور جائز ہوگاکہ انجمن باتفاق رائے اس روپیہ
کوتجارت کے ذریعہ سے ترقی دے‘‘۔ (شرط نمبر ۹)
*.... ’’انجمن کے تمام ممبر ایسے ہونگے جو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوں اور
پارسا طبع اوردیانت دار ہوں۔ او ر اگرآئندہ کسی کی نسبت یہ محسوس ہوگا کہ
وہ پارسا طبع نہیں ہے یا یہ کہ وہ دیانتدار نہیں یایہ کہ وہ ایک چالباز ہے
اوردنیا کی ملونی اپنے اندر رکھتاہے تو انجمن کا فرض ہوگا کہ بلا توقف ایسے
شخص کو اپنی انجمن سے خارج کر ے اوراس کی جگہ اورمقرر کرے‘‘۔( شرط نمبر
۱۰)
*.... ’’ چونکہ انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے اس لئے انجمن کو
دنیاداری کے رنگوں سے بکلی پاک رہنا ہوگا اوراس کے تمام معاملات نہایت صاف
اور انصاف پرمبنی ہونے چاہئیں‘‘۔(شرط نمبر ۱۳)
*.... ’’یہ ضروری ہوگاکہ مقام اس انجمن کاہمیشہ قادیان رہے کیونکہ خدا نے
اس مقام کو برکت دی ہے۔ اور جائز ہوگا کہ وہ آئندہ ضرورتیں محسوس کر کے اس
کام کے لئے کوئی کافی مکان تیار کریں‘‘۔( شرط نمبر ۱۵)
*.... اسی حصہ دوم کے آخرپر آپ ؑ فرماتے ہیں:
’’ میں یہ نہیں چاہتا کہ تم سے کوئی مال لوں اور اپنے قبضہ میں کر لوں بلکہ
تم اشاعت دین کے لئے ایک انجمن کے حوالے اپنے مال کروگے اوربہشتی زندگی
پاؤ گے ‘‘۔(الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۲۵۔۳۲۶۔ ۳۲۹)
منطقی نتائج
’’الوصیت ‘‘کے حصہ اول و دوم میں مذکوراہم امور کایہ خلاصہہے جسے پڑھنے کے بعد ایک دیانتدار شخص لازمی درج ذیل نتائج اخذ کرے گا :
۱۔۔۔: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اصل رسالہ الوصیت (یعنی حصہ
اول) تحریر اور شائع فرمانے کے تقریباً دو ہفتوں بعد اس کا حصہ دوم تحریر
فرما کر طبع فرمایا اور اسے الوصیت کا ضمیمہ قرار دیا۔
۲۔۔۔: حصہ اول میں آپ ؑ نے اپنی وفات کے دن قریب آ جانے اور وفات کے بعد
قدرت ثانیہ کے ظہور کی خبردی ۔ پھر اسی حصہ اول ہی میں آپ نے اس کمیٹی
یعنی انجمن کے قیام کی ضرورت کا ذکر فرمایا جس نے بہشتی مقبرہ کے کام اور
اموال سنبھالنے تھے ۔جیسا کہ اس کے نام سے بھی عیاں ہے ۔
۳۔۔۔: باوجودیکہ آپؑ نے اس حصہ اول میں اپنے قرب وفات اور ’’ انجمن‘‘ کے
قیام کا بھی ذکر فرمایا ہے مگر آپ نے یہاں قطعاً یہ نہیں فرمایا کہ
’انجمن‘ آپ ؑ کی خلیفہ ہوگی۔
۴۔۔۔: بلکہ اس کے برعکس آپؑ نے (اس حصہ اول میں ) اپنے قرب وفات کا ذکر
فرما کر قدرت ثانیہ کے ظہور کی بشارت دی ہے ۔ پھر یہ بتانے کے لئے کہ ظہور
قدرت ثانیہ سے آپ ؑ کی کیا مراد ہے ، آپ ؑ نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی
مثال دی تاکہ کسی قسم کا التباس واشکال نہ رہے ۔ گویا بتایاکہ جیسے
نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک فردِ واحد حضرت ابوبکر صدیق
رضی اللہ عنہ کو بطور خلیفہ کھڑا کیا ، ایسے ہی میرے بعد بھی فردی خلافت ہی
ہوگی یعنی ایک فرد واحد میرا خلیفہ ہوا کرے گا نہ کہ کوئی انجمن یاکمیٹی۔
’’انجمن ‘‘ کو ہرگزقدرت ثانیہ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ابوبکر سے مشابہت
رکھتی ہو ۔
۵۔۔۔: ’’انجمن‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلیفہ قرار نہیں دی جاسکتی
کیونکہ ’’انجمن‘‘ تو آپ ؑ کی زندگی میں ہی موجود تھی اور آ پؑ کے ساتھ
کام کر رہی تھی ۔ مگر حضور ؑ تو فرماتے ہیں ’’وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی
جب تک میں نہ جاؤں‘‘۔
۶۔۔۔:جماعت احمدیہ کو ’’قدرت ثانیہ ‘‘ کے بغیر چارہ نہیں ۔ بالفاظ دیگر
جماعت احمدیہ میں خلافت کا وجود لازمی وحتمی ہے کیونکہ حضور ؑ اعلان فرماتے
ہیں کہ انبیاء کی وفات کے بعد ’’ قدرت ثانیہ‘‘ کا ظہور خدا کی قدیم سنت ہے
اور’’ اب ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کردیوے ‘‘۔
اس سے اہل لاہور کا یہ دعویٰ بھی باطل ہو گیا کہ احمدیت میں خلافت کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی ۔
۷۔۔۔: نیز یہ بھی طے ہوگیا کہ جماعت احمدیہ میں فردی خلافت ہمیشہ رہنی
چاہئے کیونکہ آپ قدرت ثانیہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ ’’ہمیشہ تمہارے
ساتھ رہے گی‘‘۔
اس سے اہل پیغام کا یہ دعویٰ بھی باطل ہو گیا کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے بعد کسی کو خلیفہ منتخب کرنے کی حاجت نہیں ۔
۸۔۔۔: یہ جملہ امور مجموعی طورپر یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ ؑ کے ارشاد :
’’چونکہ انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے اس لئے انجمن کو
دنیادار ی کے رنگوں سے بکلی پاک رہنا ہوگا ‘‘ کا ہرگز یہ مطلب نہ تھا کہ
’’انجمن‘‘ آپ ؑ کے بعدعام معروف معنی میں آپ کی خلیفہ سمجھی جائے گی ۔ اس
سے آپ ؑ کی مراد صرف اتنی تھی کہ ’’انجمن‘‘بہشتی مقبرہ کے معاملات اور
اموال کی نگرانی میں آپ کی نیابت کرے گی جیسا کہ اس نام سے عیاں ہے جو آپ
ؑ نے اس انجمن کو دیا یعنی ’’انجمن کارپرداز مصالح قبرستان‘‘۔ سواس انجمن
کا دائرہ کار صر ف اور صر ف بہشتی مقبرہ کے انتظامات و اموال تک محدود تھا ۔
پس کجا یہ کہ ’’انجمن ‘‘بہشتی مقبرہ اور اس کے انتظامات اور اموال کی
نگرانی کرنے میں حضور اقدس ؑ کی مددگار اور مشیر کے طورپر کام کرے اور کجا
یہ کہ و ہ خود کو خلیفۃ المسیح سمجھ بیٹھے ۔
بابرکت مقام سے فرار
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر بڑا فضل کیا تھا کہ انہیں حضرت مسیح موعودؑ کے
قرب سے نوازا۔ حضور ؑ نے ذرہ نوازی کرتے ہوئے جماعت کے کاموں میں انہیں
اپنا معین و مددگار بننے کا شرف بخشا مگر یہ الٹے کفران نعمت کر بیٹھے ۔
یہاں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ’’خلیفۃ اللہ کی جانشین ،
انجمن‘‘ کے دفاع کا دعویٰ کرنے والے یہ لوگ مسیح پاک کی مبارک بستی قادیان
دارالامان سے بھاگ نکلے۔
لاہور میں جا کر ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا لی اور مسیح پاک کا یہ واضح
ارشادبھلا دیا کہ ’’یہ ضروری ہوگاکہ مقام اس انجمن کا ہمیشہ قادیان رہے
کیونکہ خدا نے اس مقام کو برکت دی ہے ‘‘۔
مگر وہ جماعت جوخلفاء احمدیت کے تابع ہے ( اور جسے اب یہ لوگ ہمارے اور
اپنے آقاحضرت مسیح موعودؑ کے مخالفین کی نقل کرتے ہوئے قادیانیت،قادیانیت
کہہ کر پکارتے ہیں ) اس مبارک مقام قادیان دارالامان سے نہایت ہولناک حالات
کے باوجود ہمیشہ چمٹی رہی اور برکت پاتی رہی۔ اس نے بڑی دلیری سے اور بڑی
قربانیاں دے کر اس مقام کی حفاظت کی خصوصاًتقسیم ہند کے خونی فسادات کے
دوران، اورمسیح پاک کی وصیت کے مطابق قادیان ہی کو اپنا مرکز بناکر وہیں سے
اسی ’’انجمن‘‘ کوچلارہی ہے جس کی بنیاد اس مردِ خدا نے خود رکھی تھی۔
نصیحت ہے غریبانہ
’’اہل پیغام‘‘ کے انٹرنیٹ پر پھیلائے ہوئے شبہات کے جواب سے اب ہم بحمداللہ
فارغ ہو چکے۔ خدا گواہ ہے کہ ہماری اس گفتگو کا مقصد کسی کا دل دکھانا نہ
تھا بلکہ ہمار امقصد صرف اور صرف دو امور تھے ۔
اول ۔ یہ کہ حق کے دفاع کے فرض سے حق با ت کہہ کر سبکدوش ہو جائیں خواہ وہ کسی کو قدرے کڑوا لگے۔
دوم۔ یہ کہ سرور دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے روحانی فرزند حضرت مسیح
موعود علیہ السلام کی طرف کسی طرح بھی منسوب ہونے والوں میں سے جس
کوبچایاجا سکتاہے بچایاجائے ۔
اور چونکہ سچی اور پرخلوص نصیحت ضرور فائدہ دیتی ہے اور ہم دونوں جماعتوں
کے پیارے مسیح موعود علیہ السلام بھی فرماتے ہیں کہ: جس کی فطرت نیک ہے
آئے گا وہ انجام کار، اس لئے لاہور کے اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں سے صدق دل
سے التماس ہے کہ وہ خدا کے لئے اس کی فعلی شہادت پر ذرا نظرکریں ، یعنی یہ
دیکھیں کہ خداتعالیٰ نے ہم دونوں گروہوں سے کس طرح کا سلوک کیاہے تا وقت
ہاتھ سے نکل جانے سے پہلے پہلے انہیں علم ہو جائے کہ حق کس کے ساتھ ہے ۔
اے بھائیو! قرآن کریم تو باربار اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتاہے کہ جب بھی
حق و باطل آپس میں ٹکرائیں گے تو یہ محال ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل حق کو
چھوڑ کر اہل باطل کی مدد کرے ۔ ہو نہیں سکتا کہ یہ دونوں فریق معرکہ آراء
ہوں پھر اللہ تعالیٰ طیب و خبیث میں فرق نہ کردے۔ اگروہ ایسا نہ کرے تودنیا
اندھیرہو جائے،ہر بات مشتبہ ہو جائے اور مخلوق گمراہی اورکفرکے گڑھے میں
پڑی رہے حالانکہ اللہ اپنے بندوں کے لئے کفروضلالت پسند نہیں کرتا۔
قرآن کریم نے متعددمقامات پر اس سنت الٰہی کا ذکرکیاہے ۔ چنانچہ فرمایا : ’’کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ‘‘۔(سورۃ المجادلہ۲۲) یعنی اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ ضرور مَیں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔
پھر فرمایا :’’اِنَّا لَنَنْصُرُرُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ ‘‘ ۔
(مومن :۵۲) یقیناًہم اپنے رسولوں کی اور اُن کی جو ایمان لائے اِس دنیا کی
زندگی میں بھی مدد کریں گے اور اُس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔
نیز کفار کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :
’’اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَأتِی الْاَرْض نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا اَفَہُمُ الْغَالِبُوْن‘‘(انبیاء :۴۵)۔ پس کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم (ان کی )زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں؟ تو کیا وہ پھر بھی غالب آسکتے ہیں؟
سو خدا را دیکھیں کہ ہم دونوں فریقوں میں سے کس کو خداکی طرف سے نصرت کے
بعد نصرت اور فتح کے بعد فتح اور ترقی کے بعد ترقی نصیب ہوتی رہی ہے اور ہو
رہی ہے ۔ کیا یہ سچ نہیں کہ وہ گروہ جو’’ اہل پیغام‘‘ کے راہنماؤں کی نظر
میں حق پر تھا برکتوں سے محروم کر دیا گیا ۔ ان کی زمین کم سے کم ہوتی چلی
گئی ۔مگر وہ گروہ جسے ’’اہل پیغام ‘‘کے راہنماؤں نے ’’اہل باطل‘‘ قرار دیا
اس کوملنے والی کا میابیوں کا شمار تو اب امر محال ہوگیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے
ان کے لئے فتح کے بعد فتح رکھ دی ۔ ہر میدان میں ان کا ساتھ دیا۔ انہیں
اتنا بڑھایا اور پھلدار کیا کہ اب وہ دنیا کے کونے کونے میں پائے جاتے ہیں
اور کروڑوں تک جا پہنچے ہیں اور بڑی تیزی سے شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی
آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ عددی اکثریت و برتری اپنی ذات میں کوئی معنی نہیں رکھتی
مگر خاکسار تو یہاں حق و باطل کے درمیان ہونے والے اس معرکہ کے نتیجہ کی
طرف توجہ مبذول کرا رہا ہے۔ کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ فتح ، اہل
باطل کے نصیب میں آوے اور شکست اہل حق کا مقدر بن جائے؟ ہرگز نہیں۔ عقل اس
کو رد ّ کرتی ہے، قرآن اس کے مخالف ہے، تاریخ انبیاء اس کے خلاف گواہ
کھڑی ہے ۔
کیا تم نے دیکھا نہیں کہ وہ فریق جو تمہارے اکابر کے نزدیک ’’باطل‘‘ پرتھا
اور ’’کمزور ‘‘ تھا وہ باوجود مشکلات کے مسلسل بڑھتا ، پھولتا اور پھلتا
رہا اس کھیتی کی طرح جو اپنی کونپل نکالے پھر اُسے مضبوط کرے پھر وہ موٹی
ہوجائے اور اپنے ڈنٹھل پر کھڑی ہوجائے اور کاشتکاروں کو خوش کردے تاکہ خدا
ان کی وجہ سے کفار کو غیظ دلائے۔ یا اس کی مثال اس شجرہ طیبہ کی سی ہے جس
کی جڑیں زمین میں خوب پیوستہ ہیں اوراس کی شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی
ہیں ۔ وہ اپنا پھل ہروقت اپنے رب کے حکم سے دیتاہے۔
مگر وہ فریق جو آپ کے اکابر کی نظر میں حق پر تھا ، طاقتور تھااور شروع
میں عددی غلبہ بھی رکھتا تھا وہ فریق مسلسل انحطاط کا شکار رہا حتیٰ کہ اس
شجرہ ٔ خبیثہ کی طرح ہو گیا جو اپنی اصل زمین سے اکھاڑ دیا گیاہو اور اسے
کوئی استقرار نصیب نہ ہو ۔
آخر پر بڑے درد کے ساتھ مسیح پاک علیہ السلام ہی کے اس درد بھرے شعر کو دہرا کر عرض کرتاہوں
کوئی جو پاک دل ہووے دل وجاں اس پہ قرباں ہے
اعتراف: خاکسار نے اس مضمون کی تیاری میں حضرت قاضی محمد نذیر لائلپوری
صاحب مرحوم کی تحریرات خصوصاً کتاب ’’غلبۂ حق‘‘ سے استفادہ کیا ۔ جزاہ
اللہ احسن الجزاء۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگ ہستیوں کی نیکیوں اور خوبیوں کا
ہمیں اور ہماری نسلوں کو وارث بنائے ۔آمین۔
نوٹ: حضور اقدس ؑ کی کتب و ملفوظات سے اقتباس شدہ حوالہ جات لندن میں طبع شدہ ایڈیشن کے مطابق ہیں۔