بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی
رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سیرتِ طیبہ
(حضرت
مسیح موعود ؑ کے خلق عظیم کے تین درخشاں پہلو)
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا
اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ
وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا
عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
آج حضرت میرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات پر نصف صدی سےکچھ اوپر گذرتا ہے ۔میں اس وقت قریباً پندرہ سال کا تھااور یہ وقت پورے شعور کا زمانہ نہیں ہوتا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق فاضلہ کے تین خاص پہلو اس قدر نمایاں ہو کر میری آنکھوں کے سامنے پھر رہے ہیں کہ گویا میں اب بھی اپنی ظاہری آنکھوں اور اپنے مادی کانوں سے ان کے بلند و بالا نقوش کو دیکھ رہا اور ان کی دلکش و دلآویز گونج کو سن رہا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلق عظیم کے یہ تین پہلو (اوّل) محبت الٰہی اور (دوم) عشق رسولؐ اور (سوم) شفقت علیٰ خلق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں اور انہی تین پہلوؤں کے چند جستہ جستہ واقعات کے متعلق میں اس جگہ کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں ۔میرا یہ بیان ایک طرح سے گویا دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کا رنگ رکھتا ہے اور کوزہ بھی وہ جو بہت چھوٹا اور بڑی تنگ سی جگہ میں محصور ہےـ ٭۔مگر خدا چاہے تو ایک مختصر سے بیان میں ہی غیر معمولی برکت ڈال سکتا ہے۔۔وَمَا تَوْفِیْقِی
اِلَّا بِاللہِ الْعَظِیْمِ۔ وَھُوَ الْمُسْتَعَانُ فِی کُلِّ حَالٍ وَ حِیْنٍ۔
محبت الٰہی
(۱)
سب سےپہلے اور سب سے مقدم محبت الٰہی کا نمبر آتا ہے کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو خالق و مخلوق کے باہمی رشتہ کا مضبوط ترین پیوند اور فطرت انسانی کا جزو اعظم ہے ۔ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اس روحانی پیوند کا جس عجیب و غریب رنگ میں آغاز ہوا اس کا تصور ایک صاحب دل انسان میں وجد کی سی کیفیت پیدا کر دیتا ہے ۔ حضرت مسیح موعود کا جوانی کاعالم تھا جبکہ انسان کے دل میں دنیوی ترقی اور مادی آرام و آسائش کی خواہش اپنے پورے کمال پر ہوتی ہے اور حضور کے بڑے بھائی صاحب ایک معزز عہدہ پر فائز ہوچکے تھے اور یہ بات بھی چھوٹے بھائی کے دل میں ایک گونہ رشک یا کم از کم نقل کا رجحان پیدا کر دیتی ہے۔ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود کے والد صاحب نے علاقہ کے ایک سکھ زمیندار کے ذریعہ جو ہمارےدادا صاحب سے ملنے آیا تھا حضرت مسیح موعود ؑ کو کہلا بھیجا کہ آجکل ایک ایسا بڑا افسر بر سر اقتدار ہے جس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں اس لئے اگر تمہیں نوکری کی خواہش ہو تو میں اس افسر کو کہہ کر تمہیں اچھی ملازمت دلا سکتا ہوں ۔یہ سکھ زمیندار حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہمارے دادا صاحب کا پیغام پہنچا کر تحریک کی کہ یہ ایک بہت عمدہ موقع ہے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے ۔ حضرت مسیح موعود نے اس کے جواب میں بلا توقف فرمایا۔حضرت والد صاحب سے عرض کر دو کہ میں ان کی محبت اور شفقت کا ممنون ہوں مگر
’’میری نوکری کی فکر نہ کریں میں نے جہاں نوکر ہونا تھا ہو چکا ہوں ‘‘
(سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۴۳)
یہ سکھ زمیندار حضرت دادا صاحب کی خدمت میں حیران و پریشان ہو کرواپس آیا اور عرض کیا کہ آپ کے بچے نے تو یہ جواب دیا ہے کہ ’’میں نے جہاں نوکر ہونا تھا ہوچکا ہوں‘‘ شاید وہ سکھ زمیندار حضرت مسیح موعود ؑ کے اس جواب کو اس وقت اچھی طرح سمجھا بھی نہ ہوگا مگر دادا صاحب کی طبیعت بڑی نکتہ شناس تھی کچھ دیر خاموش رہ کر فرمانے لگے کہ ’’اچھا غلام احمد نے یہ کہا ہے کہ میں نوکر ہو چکا ہوں ؟تو پھر خیر ہے اللہ اسے ضائع نہیں کرے گا‘‘۔اور اس کے بعد کبھی کبھی حسرت کے ساتھ فرما یا کرتے تھے کہ ’’سچا رستہ تو یہی ہے جو غلام احمد نے اختیار کیا ہے ہم تو دنیا داری میں الجھ کر اپنی عمریں ضائع کر رہے ہیں۔‘‘مگر باوجود اس کے وہ شفقت پدری اور دنیا کے ظاہری حالات کےماتحت اکثر فکر مند بھی رہتے تھے کہ میرے بعد اس بچہ کا کیا ہوگا؟اور لازمہ بشری کے ماتحت حضرت مسیح موعود کو بھی والد کے قرب وفات کے خیال سے کسی قدر فکر ہوا۔ لیکن اسلام کا خدا بڑا وفادار اور بڑا قدر شناس آقا ہے۔چنانچہ قبل اس کے کہ ہمارے دادا صاحب کی آنکھیں بند ہوں خدا نے اپنے اس نوکر شاہی کو جس نے اپنی جوانی میں اس کا دامن پکڑا تھا اس عظیم الشان الہام کے ذریعے تسلی دی کہ
’’اَلَیْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ‘‘
’’یعنی اے میرے بندے تو کس فکر میں ہے ؟کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ؟‘‘ (تذکرہ صفحہ ۲۰ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے اور بعض اوقات قسم کھا کر بیان فرماتے تھے کہ یہ الہام اس شان اور اس جلا ل کے ساتھ نازل ہوا کہ میرے دل کی گہرائیوں میں ایک فولادی میخ کی طرح پیوست ہوکر بیٹھ گیا۔اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں میری کفالت فرمائی کہ کوئی باپ یا کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست کیا کر سکتاتھا؟اور فرماتے تھے کہ اس کے بعد مجھ پر خدا کے وہ متواتر احسان ہوئے کہ ناممکن ہے کہ میں ان کا شمار کر سکوں۔
(کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۹۴ ۔۱۹۵ حاشیہ)
(۲)
ایک جگہ اس خدا ئی کفالت کے ایک پہلو کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی شکر کے انداز میں فرماتے ہیں کہ
’’لُفَاظَاتُ
الْمَوَائِدِ کَانَ اُکْلِـــیْ
وَ صِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ
الْاَھَالِیْ‘‘
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۹۶)
’’یعنی ایک زمانہ تھا کہ دوسروں کے دسترخوان سے بچے ہوئے ٹکڑے میری خوراک ہوا کرتے تھے مگر آج خدا کے فضل سے میرے دسترخوان پر خاندانوں کے خاندان پل رہے ہیں ۔‘‘
یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر مسجد میں یا اپنے چوبارے میں نماز اور روزہ اور تلاوتِ قرآن مجید اور ذکر الٰہی میں مصروف رہتےتھے اور اندر سے ہماری تائی صاحبہ جن کے ہاتھ میں سارا انتظام تھا بچا ہوا روکھا سوکھا کھانا آپؑ کو بھجوایا کرتی تھیں۔
خدائی نصرت اور خدائی کفالت کے اس عجیب و غریب واقعہ میں ہماری جماعت کے نوجوانوں اور خصوصاً واقف زندگی نوجوانوں کے لئے بھاری سبق ہے کہ اگر وہ بھی پاک و صاف نیت اور توکل علی اللہ کے خالص جذبہ کے ساتھ خدا کے نوکر بنیں گے تو وہ رحیم و کریم آقا جو سب وفاداروں سے بڑھ کر وفادار اور سب قدر شناسوں سے زیادہ قدر شناس ہے وہ انہیں بھی کبھی ضائع نہیں کرے گا۔کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص اپنا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دے اور وہ اس کے ہاتھ کو تھامنے سے انکار کرتے ہوئے اسے بے سہارا چھوڑ دے۔حضرت مسیح موعود ؑ نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے کیا خوب فرمایا ہے کہ
تجھے دنیا میں ہے کس نے پکارا کہ پھر خالی گیا قسمت کا مارا
تو پھر ہے کس قدر اس کو سہارا کہ جس کا تو ہی ہے سب سے پیارا
(بشیر احمد، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین مطبوعہ ۱۹۰۱ء درثمین صفحہ ۵۲)
(۳)
غالباً یہ بھی اسی سکھ زمیندار کا بیان ہے جس نے حضر ت مسیح موعود ؑ کو ہمارے دادا کی طرف سے نوکری کا پیغا م لاکر دیا تھا کہ ایک دفعہ ایک بڑےافسر یا رئیس نے ہمارے دادا صاحب سے پوچھا کہ سنتا ہوں کہ آپ کا ایک چھوٹا لڑکا بھی ہے مگر ہم نے اسے کبھی دیکھا نہیں۔دادا صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ہاں میرا ایک چھوٹا لڑکا تو ہے مگر وہ تازہ شادی شدہ دلہنوںکی طرح کم ہی نظر آتا ہے اگر اسے دیکھنا ہو تو مسجد کے کسی گوشہ میں جا کر دیکھ لیں وہ تو مسیتـڑ ہے ٭ ـ اور اکثر مسجد میں ہی رہتا ہے اور دنیا کے کاموں میں اسے کوئی دلچسپی نہیں ۔ہماری تائی صاحبہ کبھی کبھی بعد میں حضرت مسیح موعود ؑ کی خدا داد ترقی کو دیکھ کر اس روایت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کرتی تھیں کہ میرے تایا (یعنی ہمارے دادا صاحب) کو کیا علم تھا کہ کسی دن غلام احمد کی خوش بختی کیا پھل لائے گی۔ (سیرۃالمہدی جلد اوّل حصہ دوم صفحہ ۳۶۷)
٭ـ مسیتـڑ پنجابی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں جس کا اکثر وقت مسجد میں بیٹھ کر نماز اور ذکر الٰہی میں گذرتا ہے۔
٭ـ مسیتـڑ پنجابی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں جس کا اکثر وقت مسجد میں بیٹھ کر نماز اور ذکر الٰہی میں گذرتا ہے۔
خاکسار جب بھی یہ روایت سنتا ہے تو مجھے لازماً رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد آجاتی ہے جس میں آپ ؐ فرماتے ہیں کہ
رَجُلٌ کَانَ قَلْبُہٗ مُعَلَّقًا
بِالْمَسْجِدِ اِذَا خَرَجَ مِنْہُ حَتّٰی یَعُوْدَ اِلَیْہِ۔
(ترمذی ابواب الزھد باب ما جاء فی الحبّ فی اللہ )
’’یعنی وہ شخص خدا کے خاص فضل و رحمت کے سایہ میں ہے جس کا دل ہر وقت مسجد میں لٹکا رہتا ہے۔‘‘
مسجد میںدل کے لٹکے رہنے سے یہ مراد ہے کہ ایسا شخص خدا کی محبت اور اس کی عبادت میں اتنا منہمک رہتا ہے کہ اس کا زیادہ وقت مسجد میں ہی گذرتا ہے اور اگر وہ کسی کام وغیرہ کی غرض سے مسجد سے باہر آتا ہے تو اس وقت بھی وہ گویا اپنا دل مسجد میں ہی چھوڑ آتا ہے کہ کب یہ کام ختم ہو اور کب میں اپنے نشیمن میں واپس پہنچوں۔ ہونے والے ماموروں کی یہ بات ایسے حالات سے تعلق رکھتی ہے کہ جب وہ اپنے دعویٰ سے قبل ریاضات اور عبادات میں مشغول ہوتے ہیں ورنہ دعویٰ کے بعد تو ان کی زندگی مجسم جہاد کا رنگ اختیار کر لیتی ہے جس کا ہر لمحہ باطل کا مقابلہ کرنے اور ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچانے میں گزرتا ہے۔
(۴)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےدل میں خدا کی محبت اتنی رچی ہوئی اور اتنا غلبہ پائے ہوئے تھی کہ اس کے مقابل پر ہر دوسری محبت ہیچ تھی اور آپؑ اس ارشاد نبوی ؐ کا کامل نمونہ تھے کہ
’’اَلْحُبُّ
فِی اللہِ وَ الْبُغْضُ فِی اللہِ ‘‘۔
(ابوداؤد کتاب السنة باب مجانبة اہل الاہواء و بغضہم )
’’یعنی سچے مومن کی ہر محبت اور ہر ناراضگی خدا کی محبت اور خدا کی ناراضگی کے تابع اور اسی کے واسطے سے ہوتی ہے۔‘‘
چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ ایک فارسی نظم میں خدا کی حقیقی محبت کا پیمانہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ
ہر چہ غیرے خدا بخاطر تست آں بت تست اے بایماں سست
پر حذر باش زیں بتان نہاں دامن دل زد ست شاں برہاں
(براہین احمدیہ حصہ دوم روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۱۲۷،۱۲۸)
’’یعنی جو چیز بھی خدا کے سوا تیرے دل میں ہے وہ (اے سست ایمان والے شخص) تیرے دل کا ایک بت ہے ۔تجھے چاہیے کہ ان مخفی بتوں کی طرف ہوشیار رہ اور اپنے دل کے دامن کو ان بتوں کی دست برد سے بچا کر رکھ۔‘‘
(۵)
یہ ایک عجیب نظارہ ہے کہ ادھر حضرت مسیح موعود ؑ نے خدا کی خاطر دنیا سے منہ موڑا اور ادھر خدا نے آپ کو دین و دنیا کی نعمتیں عطا کر نی شروع کردیں ۔بلکہ حق یہ ہے کہ اس نے دونوں جہان آپؑ کی جھولی میں ڈال دئیے مگر آپ کی نظر میں خدا کی محبت اور اس کےقرب کے مقابل پر ہر دو سری نعمت ہیچ تھی۔چنانچہ ایک جگہ خدا کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ
اے سرو جان و دل و ہر ذرہ ام قربان تو
بر دلم بکشا زِ رحمت ہر درِ عرفانِ تو
فلسفی کز عقل مے جو ید ترا دیوانہ ہست
دور تر ہست ا ز خرد ہا آں رہ پنہانِ تو
از حریم تو ازیناں ہیچ کس آگہ نہ شد
ہر کہ آگہ شد ،شد از احسان بے پایان تو
عاشقان روئے خود را ہر دو عالم میدہی
ہر دو عالم ہیچ پیشِ دیدئہ غلمانِ تو
(چشمہ مسیحی روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۹۱،۳۹۲)
’’یعنی اے وہ کہ تجھ پر میرا سر اور میری جان اور میرا دل اور میرا ہر ذرہ قربان ہے تو اپنے رحم و کرم سے میرے دل پر اپنے عرفان کا ہر رستہ کھول دے ۔وہ فلسفی تو دراصل عقل سے کورا ہے جو تجھے عقل کے ذریعے تلاش کرتا ہے کیونکہ تیرا پوشیدہ رستہ عقلوں سے دور اور نظروں سے مستور ہے ۔یہ سب لوگ تیری مقدس بارگاہ سے بے خبر ہیں ۔تیرے دروازہ تک جب بھی کوئی شخص پہنچا ہے تو صرف تیرے احسان کے نتیجہ میں ہی پہنچا ہے ۔تو بے شک اپنے عاشقوں کو دونوں جہان بخش دیتا ہے مگر تیرے غلاموں کی نظر میں دونوں جہانوں کی کیا حقیقت ہے؟وہ تو صرف تیرے منہ کے بھوکے ہوتے ہیں ۔‘‘
دوست ان شعروں پر غور کریں ۔حضرت مسیح موعودؑ کس ناز سے فرماتے ہیں کہ اے میرے آسمانی آقا! تو نے بے شک مجھے گویا دونوں جہانوں کی نعمتیں دے دی ہیں مگر مجھے ان نعمتوں سے کیا کام ہے مجھے تو بس تو چاہیے۔یہ وہی بات ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کو خدا نے نبوت دی فرعون جیسے جبار بادشاہ پر غلبہ بخشا۔ایک قوم کی سرداری عطا کی مگر پھر بھی ان کی پکار یہی رہی رَبِّ اَرِنِیْ اَنْظُرْ اِلَیْکَ یعنی خدا یا! تیرے احسانوں کے نیچے میری گردن دبی ہوئی ہے مگر ذرا اپنا چہرہ بھی دکھا دیجئے ! یہی حال اپنے محبوب آقا حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ظلیت میں حضرت مسیح موعود ؑ کا تھا۔چنانچہ دوسری جگہ خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں
دردو عالم مرا عزیز توئی
و آنچہ میخواہم از تو نیز توئی
(دیباچہ براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۱۶)
’’یعنی دونوں جہانوں میں میرا تو بس تُو ہی محبوب ہے اور میں تجھ سے صرف تیرے ہی وصال کا آرزو مندہوں۔‘‘
(۶)
قرآن مجید سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کے بے نظیر معنوی اور ظاہری محاسن کی وجہ سے بے حد عشق تھا مگر باوجود اس کے قرآنی محبت کی اصل بنیاد بھی خدا ہی کی محبت پر قائم تھی فرماتے ہیں
دل میںیہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے
(قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۵۷)
’’یعنی قرآن کی خوبیاں تو ظاہر و عیاں ہیں مگر اس کے ساتھ میری محبت کی اصل بنیاد اس بات پر ہے کہ اے میرے آسمانی آقا! وہ تیری طرف سے آیا ہوا مقدس صحیفہ ہے جسے بار بار چومنے اور اس کے اردگرد طواف کرنے کے لیے میرا دل بے چین رہتا ہے ۔‘‘
ایک صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پالکی میں بیٹھ کر قادیان سے بٹالہ تشریف لے جا رہے تھے اور یہ سفر پالکی کے ذریعہ قریباً پانچ گھنٹے کا تھا۔حضرت مسیح موعود ؑ نے قادیان سے نکلتے ہی اپنی حمائل شریف کھول لی اور سورئہ فاتحہ کو پڑھنا شروع کیا اور برابر پانچ گھنٹے تک اسی سورۃ کو اس استغراق کے ساتھ پڑھتے رہے کہ گویا وہ ایک وسیع سمندر ہے جس کی گہرائیوں میں آپ اپنے ازلی محبوب کی محبت و رحمت کے موتیوں کی تلاش میں غوطے لگا رہے ہیں۔
(سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ دوم صفحہ ۳۹۵)
(۷)
جب آپؑ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ ؑ کو اس کثرت اور اس تکرار کے ساتھ اپنی وفات کے قرب کے بارے میں الہام ہوئے کہ کوئی اور ہوتا تو اس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑجاتے مگر چونکہ آپؑ کو خدا کےساتھ کامل محبت تھی اور اُخروی زندگی پر ایسا ایمان تھا کہ گویا آپ ؑ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں ۔آپ ؑ ان پے در پے الہاموں کے باوجود ایسے شوق اور ایسے انہماک کے ساتھ دین کی خدمت میں لگے رہے کہ گویا کوئی بات ہوئی ہی نہیں بلکہ اس خیال سے اپنی کوششوں کو تیز سے تیز ترکر دیا کہ اب میں اپنے محبوب سے ملنے والا ہوں ۔اس لئے اس کے قدموں میں ڈالنے کے لئے جتنے پھول بھی چن سکوں چن لوں (سلسلہ احمدیہ صفحہ ۱)۔یہ اسی طرح کی کیفیت تھی جس کے ماتحت آپ ؑ کے آقا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں شوق کے ساتھ فرمایا تھا کہ
اَللّٰھُمَّ اَلرَّفِیْقَ الْاَعْلٰی۔اَللّٰھُمَّ
اَلرَّفِیْقَ الْاَعْلٰی۔
(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
’’یعنی خدایا ! اب میں تیرے قدموں میں حاضر ہو رہا ہوں اور تیری قریب ترین معیت کا آرزو مند ہوں‘‘۔
(۸)
خد انے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس محبت کو ایسی قدر شناسی سے نوازا کہ جو اسی کی بے پایاں رحمت کا حق اور اسی کی بے نظیر قدر شناسی کے شایان شان ہے چنانچہ آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔
اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ
تَوْحِیْدِیْ وَ تَفْرِیْدِیْ ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ وَلَدِیْ۔ اِنِّی مَعَکَ یَا ابْنَ رَسُوْلِ اللہِ۔
(تذکرۃ صفحہ ۵۳،۴۴۲،۴۹۰ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
’’یعنی چونکہ اس زمانہ میں تُو میری توحید کا علمبردار ہےاور توحید کے کھوئے ہوئے متاع کو دنیا میں دوبارہ قائم کررہا ہے اس لئے اے مسیح محمدی ! تو مجھے ایسا ہی پیارا ہے جیسے کہ میری توحید اور تفرید۔اور چونکہ عیسائیوں نے جھوٹ اور افتراء کےطورپر اپنے مسیح کو خدا کا اصلی بیٹا بنا رکھاہے اس لئے میری غیرت نے تقاضا کیا کہ میںتیرے ساتھ ایسا پیار کروں کہ جو اولاد کا حق ہوتا ہے تاکہ دنیا پر ظاہر ہو کہ محمد رسول اللہ ؐ کے شاگرد تک اطفال اللہ کے مقام کو پہنچ سکتے ہیں اور چونکہ تو میرے محبوب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خدمت میں دن رات مستغرق اور اس کی محبت میں محو ہے اس لئے میں تجھے اپنے اس محبوب کے روحانی فرزند کی حیثیت میں اپنی لا زوال محبت اور اپنی دائمی معیت کے تمغہ سے نوازتاہوں۔‘‘
(۹)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ کی اس محبت اور اس معیت اور اس غیرت پر ناز تھا۔چنانچہ جب آپ ؑ کو۵؍ ۱۹۰۴ ءمیں مولوی کرم دین والے مقدمہ میں یہ اطلاع ملی کہ ہندو مجسٹریٹ کی نیت ٹھیک نہیں اور وہ آپ ؑ کو قید کرنے کی داغ بیل ڈال رہاہے تو آپ اس وقت ناسازی طبع کی وجہ سے لیٹے ہوئے تھے ۔یہ الفاظ سنتے ہی جوش کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گئے اور بڑے جلال کے ساتھ فرمایاکہ
’’وہ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے!‘‘
(سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ اوّل صفحہ ۸۶)
چنانچہ اپنے ایک شعر میں بھی فرماتے ہیں کہ
جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبئہِ زار و نزار
اور اسی نظم میں دوسری جگہ فرماتے ہیںکہ
سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں
اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۱و۱۳۳)
دوستو! میں خدا کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑ کی بے نظیر محبت اور پھر حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ خدا کی لازوال محبت کی ایک بہت چھوٹی سی جھلک آپؑ کو دکھا رہا ہوں ۔ اب اس بیج کو اپنے دلوں میں پیدا کر نا اور پھر اس پودے کو خدائی محبت کے پانی سے پروان چڑھانا آپ لوگوں کا کام ہے۔قرآن کے اس زرّیں ارشاد کو کبھی نہ بھولوکہ
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلہِ (البقرۃ :۱۶۶)
’’یعنی مومنوں کے دلوں میں خدا کی محبت سب دوسری محبتوں پر غالب ہونی چاہیے‘‘۔
(۱۰)
محبت الٰہی کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ ایک جگہ ایسے رنگ میں گفتگو فرماتے ہیں کہ گویا آپ اس محبت کی شراب طہور میں مخمور ہو کر اپنے خدا سے ہمکلام ہورہے ہیں۔ فرماتے ہیں ۔
’’میں اُن نشانوں کو شمار نہیں کرسکتا جو مجھے معلوم ہیں ۔(مگر دنیا انہیں نہیں دیکھتی لیکن اے میرے خدا!) میں تجھے پہچانتا ہوں کہ تو ہی میرا خدا ہے اس لئے میری روح تیرے نام سے ایسی اچھلتی ہے جیسا کہ شیر خوار بچہ ماں کے دیکھنے سے (اچھلتا ہے) لیکن اکثر لوگوں نے مجھے نہیں پہچانا اور نہ قبول کیا۔‘‘ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۵۱۱)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کو گواہ رکھ کر فرماتے ہیں۔
’’ دیکھ! میری روح نہایت توکل کے ساتھ تیری طرف ایسی پرواز کر رہی ہے جیسا کہ پرندہ اپنے آشیانہ کی طرف آتاہے۔سو میںتیری قدرت کے نشان کا خواہش مند ہوں لیکن نہ اپنے لئے اور نہ اپنی عزت کے لئے بلکہ اس لئے کہ لوگ تجھے پہچانیں اور تیری پاک راہوں کو اختیار کریں۔‘‘
(ضمیمہ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۵۱۱)
(۱۱)
پھر اسی محبت الٰہی کے جوش میں اپنے اور اپنے مخالفوں کے درمیان حق و انصاف کا فیصلہ چاہتے ہوئے اپنی جان اور اپنے مال و متاع اور اپنی عزت و آبرو اور اپنے جمیع کاروبار کی بازی لگا تے ہوئے خدا کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں اور کس جذبہ اور ولولہ سے فرماتے ہیں۔
اے قدیر و خالق ارض و سما
اے رحیم و مہربان و رہنما
اے کہ میداری تو بردلہانظر
اے کہ از تو نیست چیزے مستتر
گر تومے بینی مرا پُر فسق و شر
گر تو دید استی کہ ہستم بدگہر
پارہ پارہ کن منِ بدکار را
شاد کن، ایںزمرۂ اغیار را
آتش افشاں ، بر در و دیوارِ من
دشمنم باش و تبہ کن کارِمن
ورمرا از بندگانت یافتی
قبلۂ من آستانت یافتی
در دل مَن آں محبت دیدۂ
کز جہاں آں راز را پوشیدۂ
بامن از روئے محبت کارکن
اند کے افشاء آں اسرار کن
اے کہ آئی سوئے ہر جویندۂ
واقفی از سوزِ ہر سوزندۂِ
زاں تعلق ہا کہ با تو داشتم
زاں محبت ہا کہ در دل کاشتم
خود بروں آ ازپئے ابرائِ من
اے تو کہف و ملجاء و ماوائے من
آتشے کاندر دلم افروختی
وزدمِ آں غیر خود را سوختی
ہم ازاںآتش رُخِ من بر فروز
وِیں شبِ تارم مبدّل کن بروز
(حقیقۃ المہدی روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۳۴)
’’یعنی اے میرے قادر و قدیر خدا! اے وہ جو زمین و آسمان کا واحد خالق و مالک ہے۔اے وہ جو اپنے بندوں پر بے انتہا رحم کرنے والا اور ان کی ہدایت کا بے حد آرزو مند ہے۔ہا ں اے میرے آسمانی آقا جو لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں پر نظر رکھتا ہے جس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں۔اگر تو دیکھتا ہے کہ میرا ا ندرونہ فسق و فساد اور فتنہ و شر کی نجاست سے بھراہوا ہے اگر تو مجھے ایک بد فطرت اور ناپاک سیرت انسان خیال کرتا ہے تو میں تجھے تیرے جبروت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھ بدکار کو پارہ پارہ کر کے رکھ دے اور میرے مخالفوں کے دلوں کو ٹھنڈا کر۔تو میرے درو دیوار پر اپنے عذاب کی آگ برسا اور میرا دشمن بن کر میرے کاموں کو تباہ و برباد کر دے۔لیکن اگر تو جانتا ہے کہ میں تیرا اور صرف تیرا ہی بندہ ہوں ۔اور اگر تو دیکھ رہا ہے کہ صرف تیرا ہی مبارک آستانہ میری پیشانی کی سجدہ گاہ ہے۔اگر تو میرے دل میں اپنی وہ بے پناہ محبت پاتا ہے جس کا راز اس وقت تک دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہے تو اے میرے پیارے آقا! تو مجھے اپنی محبت کا کرشمہ دکھا اور میرے عشق کے پوشیدہ راز کو لوگوں پر ظاہر فرمادے۔ہاں اے وہ جو ہر متلاشی کی طرف خود چل کر آتا ہے اور ہر اس شخص کے دل کی آگ سے واقف ہے جو تیری محبت میں جل رہا ہے میں تجھے اپنی اس محبت کے پودے کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو میں نے تیرے لیے اپنے دل کی گہرائیوں میںلگا رکھا ہے کہ تو میری بریت کے لئے باہر نکل آ۔ہاں ہاں اے وہ جو میری پناہ اور میرا سہارا اور میری حفاظت کا قلعہ ہے وہ محبت کی آگ جو تو نے اپنے ہاتھ سے میرے دل میں روشن کی ہے اور جس کی وجہ سے میرے دل و دماغ میں تیرے سوا ہر دوسرا خیال جل کر راکھ ہو چکا ہے تو اب اسی آگ کے ذریعہ میرے پوشیدہ چہرے کو دنیا پر ظاہر کر دے اور میری تاریک رات کو دن کی روشنی میں بدل دے۔‘‘
اس عجیب و غریب نظم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذات باری تعالیٰ کے ساتھ جس بے پناہ محبت کا اظہار کیا ہے وہ اتنی ظاہر و عیاں ہے کہ اس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں۔ان اشعار کے الفاظ اس اسفنج کے ٹکڑے کا رنگ رکھتے ہیں جس کے رگ و ریشہ میں مصفیٰ پانی کے قطرات اس طرح بھرے ہوئے ہوں کہ اسفنج کو پانی سے اور پانی کو اسفنج سے ممتاز کرنا ناممکن ہوجائے۔مگر میں ان اشعار کی تحدی اور خدائی نصرت پر کامل بھروسہ کے پہلو کے متعلق دوستوں کو ضرور تھوڑی سی توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔یہ اشعار جیسا کہ ہماری جماعت کے اکثر واقف کار اصحاب جانتے ہیں ۱۸۹۹ ء میں کہے گئے تھے جس پر اس وقت ساٹھ سال کا عرصہ گذراہے جس کا زمانہ پانے والے اس وقت ہزاروں لاکھوں لوگ موجود ہوں گے اور یہ عرصہ قوموں کی زندگی میں گویا کچھ بھی نہیں ۔مگر اس قلیل عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کے ان غیرت دلانے والے متحدیانہ الفاظ کے نتیجہ میں جس غیر معمولی رنگ میں ہزاروں مخالفتوں کے باوجود آپ ؑ کے سلسلہ کو ترقی دی اور اس کی نصرت فرمائی اور اسے پھیلایا اور اسے اوپر اٹھایا ہے اس کا چھوٹا سا نظارہ ہمارے سالانہ جلسوں میںنظر آتا ہے جب کہ دو تین سو کی تعداد سے ترقی کر کے جماعت احمدیہ کے نمائندے نہ کہ کل افراد جو آج کل جلسہ سالانہ کے موقع پر مرکز سلسلہ میں جمع ہوتے ہیں خدا کے فضل سے قریباً ستّر اسّی ہزار کی تعداد کو پہنچ جاتے ہیں اور احمدیت کے ذریعہ اسلام کا جھنڈا دنیا کے اکثر آزاد ملکوں میں ایشیا میں،افریقہ میں، یورپ میں، امریکہ میںبلند و بالا ہو کر لہرا رہا ہے اور جو لوگ اس سے پہلے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ گالیاں دیتے تھے وہ آج مسیح محمدی کے خدام کے ذریعہ حلقہ بگوش اسلام ہو کر آپ ؐ پر درود و سلام بھیج رہے ہیں۔ فَیٰاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْـمًا۔
(۱۲)
بالآخر میں اپنے مضمون کے اس حصہ کے متعلق جو محبت الٰہی کےساتھ تعلق رکھتا ہے صرف یہ بات کہہ کر اسے ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کےساتھ حضرت مسیح موعود ؑ کی محبت کا جذبہ آپ ؑ کی ذات تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ ؑ کو اس بات کی بھی انتہائی تڑپ تھی کہ یہ عشق کی چنگاری دوسروں کے دلوں میں بھی پیدا ہو جائے۔چنانچہ آپؑ اپنی مشہور و معروف تصنیف کشتی نوح میں فرماتے ہیں
’’ کیا بدبخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اُس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے۔ ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے۔ ہماری اعلیٰ لذّات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لائق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔ اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑوکہ وہ تمہیں سیراب کرے گا یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔ میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں۔ کس دَفْ سے میں باز اروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں‘‘۔ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۱،۲۲)
دوستو!ان الفاظ پرغور کرو اور اس محبت اور اس تڑپ کی گہرائی کا اندازہ لگانے کی کوشش کرو جو ان الفاظ کی تہہ میں پنہاں ہے۔آپ یقیناً اس کا صحیح اندازہ نہیں کر سکتے مگر جس قدر اندازہ بھی آپ اپنے ظرف کے مطابق کریں گے اس کے نتیجہ میں لازماً آپ کی روحانیت میں علیٰ قدر مراتب غیرمعمولی بلندی اور غیر معمولی ترقی اور غیر معمولی روشنی پیدا ہوگی۔
عشقِ رسولؐ
(۱)
محبت الٰہی کے بعد دوسرے نمبر پر عشق رسول ؐ کا سوال آتا ہے سو اس میدان میںبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام عدیم المثال تھا۔آپ ؐ اپنےا یک شعر میں فرماتے ہیں کہ
بعد از خدا بعشق محمد مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۱۸۵)
’’یعنی میں خدا کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مخمور ہوں۔اگر میرا یہ عشق کسی کی نظر میں کفر ہے تو خدا کی قسم میں ایک سخت کافر انسان ہوں ۔‘‘
(۲)
یہ خاکسار حضرت مسیح موعود ؑ کے گھر میں پیدا ہوا اور یہ خدا کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کے شکریہ کے لئے میری زبان میں طاقت نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ میرے دل میں اس شکریہ کے تصور تک کی گنجائش نہیں۔مگر میں نے ایک دن مر کر خدا کو جان دینی ہے۔میں آسمانی آقا کو حاضر وناظر جان کر کہتا ہوں کہ میرے دیکھنے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر بلکہ محض نام لینے پر ہی حضرت مسیح موعود ؑ کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھلی نہ آگئی ہو۔آپؑ کے دل و دماغ بلکہ سارے جسم کارؤاں رؤاں اپنے آقا حضرت سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق سے معمور تھا۔
(۳)
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ اپنے مکان کےساتھ والی چھوٹی سی مسجد میں جو مسجد مبارک کہلاتی ہے اکیلے ٹہل رہے تھے اور آہستہ آہستہ کچھ گنگناتے جاتے تھے اور اس کےساتھ ہی آپ ؐ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی تار بہتی چلی جارہی تھی ۔اس وقت ایک مخلص دوست نے باہر سے آکر سنا تو آپؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت حسان ؓ بن ثابت کا ایک شعر پڑھ رہے تھے جو حضرت حسان ؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر کہا تھا اور وہ شعر یہ ہے۔
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ
فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرُ
مَنْ شَاءَ بَعْدَ کَ فَلْیَمُتْ
فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ
(دیوان حسان ؓبن ثابت)
’’یعنی اے خدا کے پیارے رسول ! تو میری آنکھ کی پتلی تھا جو آج تیری وفات کی وجہ سے اندھی ہوگئی ہے۔اب تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے تو صرف تیری موت کا ڈر تھا جو واقع ہوگئی ۔‘‘
راوی کا بیان ہے کہ جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس طرح روتے ہوئے دیکھا اور اس وقت آپ مسجد میں بالکل اکیلے ٹہل رہے تھے تو میں نے گھبرا کر عرض کیا کہ حضرت ! یہ کیا معاملہ ہےاور حضور کو کون سا صدمہ پہنچا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میں اس وقت حسانؓ بن ثابت کا یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہو رہی تھی کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا۔‘‘
دنیا جانتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سخت سے سخت زمانے آئے۔ ہر قسم کی تنگی دیکھی۔طرح طرح کے مصائب برداشت کئے ۔حوادث کی آندھیاں سر سے گذریں۔مخالفوں کی طرف سے انتہائی تلخیوں اور ایذاؤں کا مزا چکھا ۔حتّٰی کہ قتل کے سازشی مقدمات میں سے بھی گزرنا پڑا۔بچوں اور عزیزوں اور دوستوں اور اپنے فدائیوں کی مو ت کے نظارے بھی دیکھے مگر کبھی آپ ؑ کی آنکھوں نے آپ ؑ کے قلبی جذبات کی غمازی نہیں کی لیکن علیحدگی میں اپنے آقا رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے متعلق (اور وفات بھی وہ جس پر تیرہ سو سال گذر چکے تھے) یہ محبت کا شعر یاد کرتے ہوئے آپ ؑ کی آنکھیں سیلاب کی طرح بہہ نکلیں اور آپ ؑ کی یہ قلبی حسرت چھلک کر باہر آگئی۔کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا!! اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حضرت حسان ؓ کا یہ شعر محبت رسول ؐ کے اظہار میں ہر دوسرے کلام پر فائق ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے دل میں عشق رسول کے کمال کی وجہ سے ہر غیر معمولی اظہار محبت کے موقع پر یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ کاش یہ الفاظ بھی میری ہی زبان سے نکلتے۔
(۴)
قادیان میں ایک صاحب محمد عبداللہ ہوتے تھے جنہیںلوگ پروفیسر کہہ کر پکارتے تھے وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن بہت مخلص تھے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو مختلف قسم کے نظاروں کی تصویریں دکھا کر اپنا پیٹ پالاکرتے تھے ۔مگر جوش اور غصے میں بعض اوقات اپنا توازن کھو بیٹھتے تھے ۔ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں کسی نے بیان کیا کہ فلاں مخالف نے حضور ؑ کے متعلق فلا ں جگہ بڑی سخت زبانی سے کام لیا ہے ۔اور حضور کو گالیاں دی ہیں۔پروفیسر صاحب طیش میں آکر بولے کہ اگر میں ہوتا تو اس کا سر پھوڑ دیتا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بے ساختہ فرمایا نہیں نہیں ایسا نہ چاہیے۔ ہماری تعلیم صبر اور نرمی کی ہے۔پروفیسر صاحب اس وقت غصے میں آپے سے باہر ہو رہے تھے جوش کے ساتھ بولے واہ صاحب واہ یہ کیا بات ہے آپ کے پیر یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی شخص برا بھلا کہے تو آپ فوراً مباہلہ کے ذریعے اسے جہنم تک پہنچانے کو تیار ہو جاتے ہیں مگرہمیں یہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص آپ کو ہمارے سامنے گالی دے تو ہم صبر کریں۔پروفیسر صاحب کی یہ غلطی تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھ کر صبر کس نے کیا ہے اور کس نے کرنا ہے مگر اس چھوٹے سے واقعہ میں عشق رسول ؐ اور غیرت ناموس رسول ؐ کی وہ جھلک نظر آتی ہے جس کی مثال کم ملے گی۔
(۵)
پنڈت لیکھرام کو کون نہیں جانتا وہ آریہ سماج کے بہت بڑے مذہبی لیڈر تھے۔اور اس کے ساتھ اسلام کے بد ترین دشمن بھی تھے جن کی زبان اسلام اور مقدس بانی اسلام کی مخالفت میں قینچی کی طرح چلتی اور چھری کی طرح کاٹتی تھی ۔انہوں نے ساری عمر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل پر کھڑے ہو کر اسلام اور مقدس بانی اسلام پر گندے سے گندے اعتراض کئے اور ہر دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو ایسے دندان شکن جواب دیئے کہ کوئی کیا دے گا۔مگر یہ صاحب رکنے والے نہیں تھے۔آخر حضر ت مسیح موعود علیہ السلام اور پنڈت لیکھرام کا یہ مقابلہ حضرت مسیح موعود ؑ کے ایک مباہلہ پر ختم ہوا جس کے نتیجہ میں پنڈت جی حضرت مسیح موعود کی دن دونی رات چوگنی ترقی دیکھتے ہوئے اور ہزاروں حسرتیں اپنے سینے میں لئے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔انہی پنڈت لیکھرام کایہ واقعہ ہے کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی سفر میں ایک سٹیشن پر گاڑی کا انتظار کر رہے تھے کہ پنڈت لیکھرام کا بھی ادھر گذرہو گیااور یہ معلوم کر کے کہ حضرت مسیح موعود کو اس جگہ تشریف لائے ہوئے ہیں پنڈت جی دنیاداروں کے رنگ میں اپنے دل کے اندر آگ کا شعلہ دبائے ہوئے آپ کےسامنے آئے۔آپؑ اس وقت نماز کی تیاری میں وضو فرمارہے تھے ۔پنڈت لیکھرام نے آپؑ کے سامنے آکر ہندووانہ طریق پر سلام کیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کاکوئی جواب نہیں دیا۔گویا کہ دیکھا ہی نہیں۔اس پر پنڈت جی نے دوسرے رخ سے ہو کر پھر دوسری دفعہ سلام کیا اور حضرت مسیح موعود ؑ پھر خاموش رہے۔جب پنڈت جی مایوس ہوکر لوٹ گئے تو کسی نے یہ خیال کر کے کہ شاید حضرت مسیح موعود ؑ نے پنڈت لیکھرام کا سلام سنا نہیں ہوگا حضور سے عرض کیا کہ پنڈت لیکھرام آئے تھے اور سلام کرتے تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی غیرت کے ساتھ فرمایا کہ
’’ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کر تاہے!!!‘‘
(سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ اول صفحہ ۲۵۴و سیرتمسیح موعودؑ مصنفہ عرفانی صاحب)
یہ اس شخص کا کلام ہے جو ہر طبقہ کے لوگوں کے لئے مجسم رحمت تھا ہندوؤں میں اس کے روز کے ملنے والے دوست تھے اور اس نے ہر قوم کےساتھ انتہائی شفقت اور انتہائی ہمدردی کا سلوک کیا مگر جب اس کے آقا اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیرت کا سوال آیا تو اس سے بڑھ کر ننگی تلوار دنیا میں کوئی نہیں تھی۔
(۶)
اسی قسم کا ایک واقعہ لاہور کے جلسہ وچھو والی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔آریہ صاحبان نے لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا اور اس میں شرکت کر نے کے لئے ہر مذہب و ملت کو دعوت دی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی باصرار درخواست کی کہ آپ بھی اس بین الاقوامی جلسہ کے لئے کوئی مضمون تحریر فرمائیں۔اور وعدہ کیا کہ جلسہ میں کوئی بات خلاف تہذیب اور کسی مذہب کی دلآزاری کا رنگ رکھنے والی نہیں ہوگی۔اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک ممتاز حواری حضرت مولوی نور الدین صاحب کو جوبعد میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ اول ہوئے بہت سے احمدیوں کے ساتھ لاہور روانہ کیا اور ان کے ہاتھ ایک مضمون لکھ کر بھیجا جس میں اسلام کے محاسن بڑی خوبی کے ساتھ اور بڑے دلکش رنگ میںبیان کئے گئے تھے۔مگر جب آریہ صاحبان کی طرف سے مضمون پڑھنے والے کی باری آئی تو اس بندہ خدا نے اپنی قوم کے وعدوں کوبالائےطاق رکھ کر اپنے مضمون میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اتنا زہر اگلا اور ایسا گند اچھالا کہ خدا کی پناہ۔جب اس جلسہ کی اطلاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہنچی اور جلسہ میں شرکت کرنے والے احباب قادیان واپس آئے تو آپ حضرت مولوی نور الدین صاحب اور دوسرے احمدیوں پر سخت ناراض ہوئے اور بار بار جوش کے ساتھ فرمایا کہ جس مجلس میں ہمارے رسول اللہ ؐ کو برا بھلا کہا گیا اور گالیاں دی گئیں تم اس مجلس میں کیوں بیٹھے رہے؟اور کیوں نہ فوراً اٹھ کر باہر چلے آئے؟تمہاری غیرت نے کس طرح برداشت کیا کہ تمہارے آقا کو گالیاں دی گئیں اور تم خاموش بیٹھے سنتے رہے؟اور پھر آپؑ نے بڑے جوش کےساتھ یہ قرآنی آیت پڑھی کہ
إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ
بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيثٍ غَيْرِهٖ ( النساء:۱۴۱)
’’(یعنی اے مومنو !) جب تم سنو کہ خدا کی آیات کا دل آزار رنگ میں کفر کیا جاتا اور ان پر ہنسی اڑائی جاتی ہے تو تم ایسی مجلس سے فوراً اٹھ جایا کرو تاوقتیکہ یہ لوگ کسی مہذبانہ انداز گفتگو کو اختیار کریں۔‘‘
اس مجلس میں حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول بھی موجود تھے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ پر ندامت کے ساتھ سر نیچے ڈالے بیٹھے رہے۔بلکہ حضرت مسیح موعود ؑ کے اس غیورانہ کلام سے ساری مجلس ہی شرم و ندامت سے کٹی جارہی تھی۔
(سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ اول صفحہ ۲۰۰،۲۰۱ روایت نمبر ۱۹۶)
(۷)
خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کو جماعت کے سب یا کم از کم اکثر دوست جانتے ہیں وہ ہماری بڑی والدہ صاحبہ کے بطن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے بڑے لڑکے تھے جو ڈپٹی کمشنر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے اور دنیا کا بڑا وسیع تجربہ رکھتے تھے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی بھر حضور کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے بلکہ حضور سے علیحدہ ہی رہے اور حضور کے خاندانی مخالفوں سے اپنا تعلق قائم رکھا۔گو بعد میں انہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کے زمانہ میں بیعت کرلی اور اس طرح آپ نے ہم تین بھائیوں کو چار کر دیا۔بہر حال خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے غیر احمدی ہونے کے زمانہ کی بات ہے ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ کے اخلاق و عادات کے متعلق کچھ دریافت کروں چنانچہ میرے پوچھنے پر انہوں نے فرمایاکہ
’’ایک بات میں نے والد صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود ؑ) میں خاص طور پر دیکھی ہے وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف والد صاحب ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ اگر کوئی شخص آنحضرت ؐ کی شان کے خلاف ذرا سی بات بھی کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور غصے سے آنکھیں متغیر ہونے لگتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تو والد صاحب کو عشق تھا۔ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا اور مرزا سلطان احمد صاحب نے اس بات کو با ر بار دہرایا۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ اول صفحہ ۲۰۰،۲۰۱روایت نمبر ۱۹۶)
یہ اس شخص کی شہاد ت ہے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میںشامل نہیں تھا جس نے حضرت مسیح موعود کو اپنی جوانی سے لے کر حضور کی وفات تک دیکھا جس نے اَسّی سال کی عمر میں وفات پائی۔جس کے تعلقات کا دائرہ اپنی معزز ملازمت اور اپنے ادبی کارناموں کی وجہ سے نہایت وسیع تھا اور جو اپنے سوشل تعلقات میں بالکل صحیح طور پر کہہ سکتا تھا کہ
جفت خوش حالاں و بد حالاں شدم
’’یعنی مجھے دنیا میں ہر قسم کے انسانوں سے واسطہ پڑا ہے‘‘
مگر حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں غیر احمدی ہونے کی باوجود اس کے عمر بھر کے مشاہدہ کا نچوڑ اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والد صاحب کو عشق تھا۔ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا۔‘‘
(۸)
ایک دفعہ بالکل گھریلو ماحول کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود کی طبیعت کچھ ناساز تھی اور آپؑ گھر میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا اور ہمارے ناناجان یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم بھی پاس بیٹھے تھے کہ حج کا ذکر شروع ہوگیا ۔حضرت نانا جان نے کوئی ایسی بات کہی کہ اب تو حج کے لئے سفر اور رستے وغیرہ کی سہولت پیدا ہو رہی ہے حج کو چلنا چاہیے۔ اس وقت زیارت حرمین شریفین کے تصور میں حضرت مسیح موعود ؑ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور آپ ؑ اپنے ہاتھ کی انگلی سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ حضرت نانا جان کی بات سن کر فرمایا
’’یہ تو ٹھیک ہے اور ہماری بھی دلی خواہش ہے مگر میں سوچا کرتاہوں کہ کیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا ؟‘‘
(روایات نواب مبارکہ بیگم صاحبہ)
یہ ایک خالصۃً گھریلو ماحول کی بظاہر چھوٹی سی بات ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس میں اس اتھا ہ سمندر کی طغیانی لہریں کھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں جو عشق رسول کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کے قلب صافی میں موجزن تھیں۔حج کی کس سچے مسلمان کو خواہش نہیں مگر ذرا اس شخص کی بے پایاں محبت کا اندازہ لگاؤ جس کی روح حج کے تصور میں پروانہ وار رسول پاک ؐ (فداہ نفسی) کے مزار پر پہنچ جاتی ہے اور وہاں اس کی آنکھیں اس نظارہ کی تاب نہ لا کر بند ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔
(۹)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی عشق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کی آل اولاد اور آپ ؐ کے صحابہ کے ساتھ بھی بے پناہ محبت تھی۔چنانچہ ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعود ؑ اپنے باغ میں ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے آپ ؑ نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم (سلمہا) اور ہمارےبھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے اپنےپاس بلایا اور فرمایا آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں۔‘‘ پھر آپؑ نے بڑے دردناک انداز میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات سنائے آپؐ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپ ؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپ ؐ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پوچھتے جاتے تھے۔اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپ ؐ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا۔
’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریم ؐ کے نواسے پر کروایا مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا۔‘‘
اس وقت آپ ؑ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کےتصور سے آپ ؑ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا اور یہ سب کچھ رسول پاک ؐ کے عشق کی وجہ سے تھا(روایات نواب مبارکہ بیگم صاحبہ) ۔چنانچہ اپنی ایک نظم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں
تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد
تیری خاطرسے یہ سب بار اٹھایا ہم نے
تیری الفت سے ہے معمور مرا ہر ذرہ
اپنے سینہ میں یہ اک شہر بسایا ہم نے
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۲۵)
(۱۰)
یہ اسی عشق کا نتیجہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہر وہ منظوم اور منثور کلام جو آپ ؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں رقم فرمایا ایسے شہد کے چھتے کا رنگ اختیار کرگیا تھا جس میں سے شہد کی کثرت کی وجہ سے عَسْلِ مُصَفّٰی کے قطرے گرنے شروع ہوجاتے ہیں چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں اور کس محبانہ انداز میں فرماتے ہیں کہ
عجب نوریست در جانِ محمدؐ
عجب لعلیست در کانِ محمدؐ
اگر خواہی دلیلے عاشقش باش
محمد ؐہست برہانِ محمدؐ
دریں رہ گر کشندم و ربسوزند
نتابم رو زِ ایوانِ محمدؐ
تو جانِ ما منور کردی از عشق
فدایت جانم اے جانِ محمدؐ
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۴۹)
’’یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں خدا نے عجب نور ودیعت کر رکھا ہے اور آپ ؐ کی مقدس کان عجیب و غریب جواہرات سے بھری پڑی ہے ۔سو اگر اے منکرو تم محمدؐ کی صداقت کی دلیل چاہتے ہو تو دلیلیں تو بے شمار ہیں مگر مختصر رستہ یہ ہے کہ اس کے عاشقوں میں داخل ہوجاؤ کیونکہ محمد کا وجود اس کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ واللہ اگر آپ ؐ کے رستہ میں مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے اور میرے ذرہ ذرہ کو جلا کر خاک بنا دیا جائے تو پھر بھی میں آپ ؐ کے دروازے سے کبھی منہ نہیں موڑوں گا ۔سو اے محمد کی جان! تجھ پر میری جان قربان تو نے میرے روئیں روئیں کو اپنے عشق سے منور کر رکھا ہے۔‘‘
(۱۱)
اسی طرح اپنی ایک عربی نظم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں
اُنْظُرْ
اِلَیَّ بِرَحْمَۃٍ وَ تَحَنُّنٍ
یَا سَیِّدِیْ اَ نَا اَحْقَرُ
الْغِلْمَانٖ
یَا حِبِّ اِنَّکَ قَدْ دَخَلْتَ
مَحَبَّۃً
فِیْ مُھْجَتِیْ وَ مَدَارِکِیْ
وَ جَنَانٖ
مِنْ ذِکْرِ وَجْھِکَ یَا حَدِیْقَۃَ
بَھْجَتِیْ
لَمْ اَخْلُ
فِی لَحْظٍ وَّ لَا
فِیْ اٰنٖ
جِسْمِیْ یَطِیْرُ اِلَیْکَ
مِنْ شَوْقٍ عَلَا
یَا لَیْتَ کَانَتْ قُوَّۃُالطَّیَرَانٖ
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۹۴)
’’یعنی اے میرے آقا! میری طرف رحمت اور شفقت کی نظر رکھ ۔ میں تیرا ایک ادنیٰ ترین غلام ہوں۔اے میرے محبوب! تیری محبت میرے رگ و ریشہ میں اور میرے دل میں اور میرے دماغ میں رچ چکی ہے ۔اے میری خوشیوں کے باغیچے مَیں ایک لمحہ اور ایک آن بھی تیری یاد سے خالی نہیں رہتا۔میری روح تو تیری ہو چکی ہے مگرمیرا جسم بھی تیری طرف پرواز کرنے کی تڑپ رکھتا ہے ۔اے کاش! مجھ میں اڑنے کی طاقت ہوتی۔‘‘
ان اشعار میں جس محبت اور جس عشق اور جس تڑپ اور جس فدائیت کا جذبہ جھلک رہا بلکہ چھلک رہاہے وہ کسی تبصرہ کا محتاج نہیں ۔کاش ہمارے احمدی نوجوان اس محبت کی چنگاری سے اپنے دلوں کو گرمانے کی کوشش کریں اور کاش ہمارے غیر احمدی بھائی بھی اس عظیم الشان انسان کی قدر پہچانیں جس کے متعلق ہم سب کے آقا اور سردار حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
’’یُدْفَنُ مَعِیْ فِیْ قَبْرِیْ‘‘
(کتاب الوفاء لابن الجوزی و مشکوٰۃو حجج الکرامۃ)
’’یعنی آنے والے مسیح کو میری روح کے ساتھ ایسی گہری مناسبت اور ایسا شدید لگاؤ ہوگا کہ اس کی روح وفات کے بعد میری روح کے ساتھ رکھی جائے گی۔‘‘
(۱۲)
عشق کا لازمی نتیجہ قربانی اور فدائیت اور غیرت کی صورت میں ظاہر ہوا کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں یہ جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ایک جگہ عیسائی پادریوں کے ان جھوٹے اور ناپاک اعتراضوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں جو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات پر کیا کرتے ہیں کہ
’’عیسائی مشنریوں نے ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بے شمار بہتان گھڑے ہیں اور اپنے اس دجل کے ذریعہ ایک خلق کثیر کو گمراہ کر کے رکھ دیا ہے۔میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتناکہ ان لوگوں کے اس ہنسی ٹھٹھا نے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسول پاک ؐ کی شان میں کرتے رہتے ہیں ۔ان کے دل آزار طعن و تشنیع نے جو وہ حضرت خیر البشر ؐ کی ذات والا صفات کے خلاف کر تے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے۔خدا کی قسم اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیئے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں ۔پس اے میرے آسمانی آقا! تو ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظرفرما اور ہمیں اس ابتلاء عظیم سے نجات بخش۔‘‘ ۱؎
(۱۳)
کیا اس زمانہ میں اس غیرت اور اس فدائیت کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے؟ اور یہ صرف منہ کا دعویٰ نہیں تھا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری زندگی اور زندگی کا ہر چھوٹا اور بڑا واقعہ اس عظیم الشان فدائیت پر عملی گواہ تھا جسے آپ ؑ کے مخالف بھی شدید مخالفت کے باوجود قبول کرنے کے لئے مجبور تھے چنانچہ آپ ؑ کی وفات پر جو تعزیتی مقالہ امرتسر کے غیر احمدی اخباروکیل نے لکھا اس میں مقالہ نگار لکھتا ہے۔
’’مرزا صاحب کی رحلت نے ان کے بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرادیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا ہے ۔اور اس کے ساتھ ہی مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا بھی جو اس کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی خاتمہ ہوگیا........مرزا صاحب کے لٹریچر کی قدر و عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کر نی پڑتی ہے۔ اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اُس ابتدائی اثر کے پر خچے اڑا دئیے جو سلطنت کےسایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہوکر اڑنے لگا........اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں بھی مرزا صاحب نے اسلام کی خاص خدمت سر انجام دی ہے ........آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جائے ناممکن ہے کہ مرزا صاحب کی یہ تحریریں نظر انداز کی جاسکیں۔‘‘
(اخبار وکیل امرتسر جون ۱۹۰۸ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ بےمثال قلمی جہاد جو آپ ؑ نے اسلام کی صداقت اور قرآن کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے عمر بھر کیا وہ بے شک بظاہر علمی نوعیت کا تھا اور بادی النظر میں اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے پہلو سے براہ راست کوئی تعلق نہیں مگر غور کیا جائے تو اسلام کو رسول پاک ؐ سے اور رسول پاک ؐ کو اسلام سے کسی طرح جدا نہیں کیا جاسکتا۔پس دراصل یہ ساری خدمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق اور آپؑ کے لائے ہوئے دین کے ساتھ والہانہ محبت ہی کا کرشمہ تھی۔
(۱۴)
یہی وجہ ہے کہ اپنی عدیم المثال خدمات کے باوجود جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو تے ہیں تو ایک وفا شعار شاگرد اور ایک احسان مند خادم کی حیثیت میں اپنا ہر پھول آپ ؑ کے قدموں میں ڈالتے چلے جاتے ہیں اور بار بار عاجزی کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ آقا! یہ سب کچھ آپ ہی کی طفیل ہے میرا تو کچھ بھی نہیں ۔چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں
’’میں اسی (خدا) کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیم سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور پھر اسحاق ؑ سے اور اسمعیلؑ سے اور یعقوب ؑ سے اور یوسفؑ سے اور موسیٰ ؑسے اور مسیح ؑابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہم کلام ہوا کہ آپؑ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی۔ایسا ہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا۔ اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت نہ ہوتا اور آپ ؐ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۱۱،۴۱۲)
ایک اور جگہ اپنی ایک نظم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں متوالے ہو کر فرماتے ہیں :۔
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے
اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
(قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۵۶)
ان اشعار میں حضرت مسیح موعود ؑ نے جس رنگ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار و فضائل کی وسعت اور ان کے افاضہ اور اس کے مقابل پر اپنی عاجزی اور انکساری اور آپؐ کے انوار سے اپنے استفاضہ کا ذکر فرمایا ہے وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں۔دنیا کی تمام برکتوں اور تمام نوروں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کی طرف منسوب کر کے اپنے آپ کو ان انوار کےساتھ اس طرح پیوست کیا ہے کہ جس طرح ایک بڑے طاقتور پاور سٹیشن کے ساتھ بجلی کی تاریں مل کر دنیا کو منور کیا کرتی ہیں۔
(۱۵)
اسی طرح آپ ؐ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات طیبات کا ذکر کرتے ہوئے دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ
’’ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر) درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہوگیا ۔اسی رات( میں نے) خواب میں دیکھا کہ( خدا کے فرشتے) آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں ۔اور ایک نے ان( فرشتوں) میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد ؐ کی طرف بھیجی تھیں۔صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۵۹۸)
الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےسا تھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسا عشق تھا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔آپ ؐ کی جان اس عشق میں بالکل گداز تھی۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا اور اپنے حواس ظاہری و باطنی سے محسوس کیا کہ آپ ؐ کا ذرہ ذرہ محمد ؐاور خدائے محمد ؐاور دین محمد ؐپر قربان تھا ۔آپؑ اپنی ایک نظم میں بڑے دردناک انداز میں فرماتے ہیں کہ:۔
دے چکے دل اب تن خاکی رہا
ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا
تم ہمیں دیتے ہو کافر کا خطاب
کیوں نہیں لوگوتمہیں خوف عقاب
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۱۴)
بس اس کے سوا میں اس جگہ عشق رسول کے بارے میں کچھ نہیںکہوں گا کیونکہ ایک وسیع سمندر میں سے انسان صرف چند چُلّو ہی بھر سکتا ہے۔اس لئے اس عنوان کے تحت اب میرے لئے صرف یہی دعا باقی ہے کہ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی عَبْدِکَ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔ وَ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــیْمًا۔
شفقت علیٰ خلق اللہ
اب میں خد اکے فضل سے اپنے اس مضمون کے تیسرے حصہ کی طرف آتا ہوں جو شفقت علیٰ خلق اللہ سے تعلق رکھتا ہے۔میں نے اس مختصر سے مقالہ کے لئے (اول) محبت الٰہی اور (دوم ) عشق رسولؐ اور (سوم) شفقت علیٰ خلق اللہ کے عنوان اس لئے منتخب کئے ہیں کہ یہ ہمارے دین و مذہب کا خلاصہ اور ایک مسلمان کے ایمان واخلاق کا مرکزی نقطہ ہیں حتّٰی کہ ایک مامور من اللہ کی روحانیت اور اس کے اخلاق و کردار اور اس کی قدر و منزلت کو پہچاننے کے لئے بھی اس سے بڑھ کر کوئی اور کسوٹی نہیں ۔منبع حیات یعنی ذات باری تعالیٰ کے ساتھ گہرا پیوند ہو۔پیغام الٰہی کے لانے والے رسول کی محبت روح کی غذا ہو اور مخلوق خدا کی ہمدردی کا جذبہ دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہو۔ـ’’بس ہمیں آمد نشان کاملاں‘‘
(۱)
میںنہایت اختصار کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جذبہ محبت الٰہی اور عشق رسول ؐ کے متعلق بیان کر چکا ہوں اب مختصر طور پر آپ ؑ کے جذبہ شفقت علیٰ خلق اللہ کے متعلق کچھ بیان کرتا ہوں۔اس تعلق میں سب سے پہلے میرے سامنے وہ مقدس عہد آتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدائی حکم کے ماتحت ہر بیعت کرنے والے سے لیتے تھے اور اسی پر جماعت احمدیہ کی بنیاد قائم ہوئی۔ یہ عہد دس شرائط بیعت کی صورت میں شائع ہو چکا ہے اور گویا یہ احمدیت کا بنیادی پتھر ہے ۔اس عہد کی شرط نمبر ۴ اور شرط نمبر ۹ کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ ہر بیعت کرنے والا عہد کرے کہ :۔
’’عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصا اپنے نفسانی جوشوںسے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔‘‘
اور
’’عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا۔اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔‘‘
(اشتہار تکمیل تبلیغ مورخہ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ءکتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۳۴۷)
یہ وہ عہدبیعت ہے جو احمدیت میں داخل ہونے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائی حکم کے ماتحت مقرر فرمایا اور جس کے بغیر کوئی احمدی سچا احمدی نہیں سمجھا جا سکتا ۔اب مقام غور ہے کہ جو شخص اپنی بیعت اور اپنے روحانی تعلق کی بنیاد ہی اس بات پر رکھتا ہے کہ بیعت کرنے والا تمام مخلوق کے ساتھ دلی ہمدردی اور شفقت کا سلوک کرے گا اور اسے ہر جہت سے فائدہ پہنچانے کے لئے کوشاں رہے گا اور اسے کسی نوع کی تکلیف نہیں دے گا۔اس کا اپنا نمونہ اس بارے میں کیسا اعلیٰ اور کیسا شاندار ہونا چاہیے اور خدا کے فضل سے ایسا ہی تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ میں کسی شخص کا دشمن نہیں ہوں اور میرا دل ہر انسان اور ہر قوم کی ہمدردی سے معمور ہے۔چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوئوں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔ میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر۔ میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے۔ انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بدعملی اور ناانصافی اور بد اخلاقی سے بیزاری میرا اصول۔‘‘
(اربعین نمبر ۱روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۴۴)
(۲)
یہ ایک محض زبانی دعویٰ نہیں تھا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپؑ کی زندگی کا ہر لمحہ مخلوق خدا کی ہمدردی میں گذرتا تھا اور دیکھنے والے حیران ہوتے تھے کہ خدا کا یہ بندہ کیسے ارفع اخلاق کا مالک ہے کہ اپنے دشمنوں تک کے لئے حقیقی ماؤں کی سی تڑپ رکھتا ہے چنانچہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب جو آپ کے مکان ہی کے ایک حصہ میں رہتے تھے اور بڑے ذہین اور نکتہ رس بزرگ تھے روایت کرتے ہیں کہ جن دنوں پنجاب میں طاعون کا دور دورہ تھا اوربے شمار آدمی ایک ایک دن میں اس موذی مرض کا شکار ہورہے تھے انہوں نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علیحدگی میں دعا کرتے سنا اور یہ نظارہ دیکھ کر محو حیرت ہوگئے۔حضرت مولوی صاحب کے الفاظ یہ ہیں کہ :۔
’’اس دعا میںآپ ؑ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پتہ پانی ہوتا تھا۔اور آپ اس طرح پرآستانہ الٰہی پر گریہ وزاری کرتے تھے جیسے کوئی عورت درد زہ سے بیقرار ہو۔ میں نے غور سے سنا تو آپ مخلوق الٰہی کے لئے طاعون کے عذاب سے نجات کے لئے دعا کرتے تھےکہ الٰہی اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہوجائیںگے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔‘‘
(سیرۃ مسیح موعود شمائل و اخلاق حصہ سوم صفحہ ۳۹۵ مؤلفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی)
ذرا غور کرو کہ آپ ؐ کے مخالفوںپر ایک عذاب الٰہی نازل ہو رہا ہے اور عذاب الٰہی بھی وہ جو ایک خدائی پیشگوئی کے مطابق آپ کی صداقت میں ظاہر ہوا ہےاور پیشگوئی بھی ایسی جس کے ٹلنے سے جلد باز لوگوں کی نظر میں آپ کی صداقت مشکوک ہو سکتی ہے مگر پھر بھی آپ مخلوق خدا کی ہلاکت کے خیال سے بے چین ہوئے جاتے ہیں اور خدا کے سامنے تڑپ تڑپ کر عرض کرتے ہیں کہ خدایا ! تو رحیم و کریم ہے تو اپنی مخلوق کو اس عذاب سے بچالے اور ان کے ایمان کی سلامتی کے لئے اپنی جناب سے کوئی اور رستہ کھول دے۔
(۳)
اس سے بڑھ کر یہ کہ جب آریہ قوم میںسے اسلام کا دشمن نمبر ۱ یعنی پنڈت لیکھرام آپ کی پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہوا تو آپ نے جہاں اس بات پر کہ خدا کی ایک پیشگوئی پوری ہوئی ہے اور اسلام کی صداقت کا ایک زبردست نشان ظاہر ہوا ہے طبعًا شکر اور خوشی کا اظہار فرمایا وہاں آپ ؑ کو پنڈت جی کی موت کا افسوس بھی ہوا کہ وہ صداقت سے محروم ہونے کی حالت میں ہی چل بسے۔چنانچہ فرماتے ہیں :۔
’’ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے۔ درد بھی ہے اور خوشی بھی۔ درد اس لئے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بدزبانیوں سے باز آجاتا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کیلئے دعا کرتا۔ اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہوجاتا۔‘‘
(سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۲۸)
(۴)
ایک دفعہ بعض عیسائی مشنریوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اقدام قتل کا سراسر جھوٹامقدمہ دائر کیا اور ان مسیحی پادریوں میں ڈاکٹر مارٹن کلارک پیش پیش تھے ۔مگر خدا نے عدالت پر آپ کی صداقت کھول دی اور آپ اس مقدمہ میں جس میں عیسائیوں کے ساتھ مل کر آریوں اور بعض غیر احمدی مخالفین نے بھی آپ کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا کہ کسی طرح آپ سزا پا جائیں۔ عزت کے ساتھ بری کئے گئے ۔جب عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تو کیپٹن ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے جو بعد میں کرنیل کے عہدہ تک پہنچے اور ابھی حال ہی میں فوت ہوئے ہیں آپ سے مخاطب ہو کر پوچھا:۔
’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر (اس جھوٹی کارروائی کی وجہ سے)مقدمہ چلائیں؟ اگر آپ (مقدمہ چلانا) چاہتےہیں تو آپ کو (اس کا قانونی) حق ہے۔‘‘آپ نے بلا توقف فرمایا کہ’’ میں کوئی مقدمہ کرنا نہیں چاہتا۔میرا مقدمہ آسمان پردائر ہے۔‘‘
(سیرۃ مسیح موعود مصنفہ عرفانی صاحب حصہ اوّل صفحہ ۱۰۷)
(۵)
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی رئیس فرقہ اہل حدیث کو کون نہیں جانتا۔وہ جوانی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوست اور ہم مکتب ہوتے تھے اور حضور ؑ کی پہلی تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ پر انہوں نے بڑا شاندار ریویو بھی لکھا تھا اور یہاں تک لکھا تھا کہ گزشتہ تیرہ سو ۱۳۰۰سال میں اسلام کی تائید میں کوئی کتاب اس شان کی نہیں لکھی گئی مگر مسیح موعود کے دعویٰ پر یہی مولوی صاحب مخالف ہوگئے اور مخالف بھی ایسے کہ انتہاء کو پہنچ گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لگایا اور دجّال اور ضالّ قرار دیا۔ اور آپ ؑ کے خلاف ملک بھر میں مخالفت کی آگ بھڑکادی ۔انہی مولوی محمد حسین صاحب کا ذکر ہے کہ وہ ایک دفعہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کے اقدام قتل والے مقدمہ میں آپ کے خلاف عیسائیوں کی طرف سے بطور گواہ پیش ہوئے۔اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وکیل مولوی فضل دین صاحب نے جو ایک غیر احمدی بزرگ تھے مولوی محمد حسین صاحب کی شہادت کو کمزور کرنے کے لئے ان کے خاندان اور حسب ونسب کے متعلق بعض طعن آمیز سوالات کرنے چاہے مگر حضرت مسیح موعود ؑ نے انہیں یہ کہہ کر سختی سے روک دیا کہ میں آپ کو ایسے سوالات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا اور یہ الفاظ فرماتے ہوئے آپ ؑ نے جلدی سے مولوی فضل دین صاحب کے منہ کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ کہیں ان کی زبان سے کوئی نا مناسب لفظ نہ نکل جائے اور اس طرح اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر اپنے جانی دشمن کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمائی۔اس کے بعد مولوی فضل دین صاحب موصوف ہمیشہ اس واقعہ کا حیرت کے ساتھ ذکر کیا کرتے تھے کہ مرزا صاحب عجیب اخلاق کے انسان ہیں کہ ایک شخص ان کی عزت بلکہ جان پر حملہ کرتا ہے اور اس کے جواب میں جب اس کی شہادت کو کمزور کرنے کے لئے اس پر بعض سوالات کئے جاتے ہیں تو آپ ؑ فوراً روک دیتے ہیں کہ میں ایسے سوالا ت کی اجازت نہیں دیتا۔
(سیرۃ المہدی حصہ اول صفحہ ۲۴۷،۲۴۸ )
یہ وہی مولوی محمد حسین صاحب ہیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس شعر میں ذکر کیاہے کہ :۔
قَطَعْتَ وَدَادًا قَدْ غَرَسْنَاہُ
فِی الصَّبَا
وَ
لَیْسَ فُؤَادِیْ فِی الْوَدَادِ یُقَصِّرٗ
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۳۵)
’’یعنی تو نے اس محبت کے درخت کو اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا جو ہم نے جوانی کے زمانہ میں اپنے دلوں میں نصب کیا تھامگر میرا دل تو کسی صورت میں محبت کے معاملہ میں کمی اور کوتاہی کرنے والا نہیں ۔‘‘
(۶)
دوستی اور وفاداری کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دل حقیقۃً بے نظیر جذبات کا حامل تھا۔آپ ؑ نے کسی کے ساتھ تعلقا ت قائم کرکے ان تعلقات کو توڑنے میں کبھی پہل نہیں کی اور ہر حال میںمحبت اور دوستی کے تعلقات کو کمال وفاداری کے ساتھ نبھایا۔چنانچہ آپ ؑ کے مقرب حواری حضرت مولوی عبد الکریم صاحب روایت کرتے ہیں کہ :۔
’’حضرت مسیح موعود نے ایک دن فرمایا میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص عہد دوستی باندھے مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہو تی ہے کہ وہ شخص کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے میں اس سے قطع تعلق نہیں کر سکتا ہاں اگر وہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لاچار ہیں ورنہ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں میںسے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گرا ہوا ہو تو ہم بلا خوف لومۃ لائم اسے اٹھاکر لے آئیں گے۔فرمایا:عہد دوستی بڑا قیمتی جوہر ہے اس کو آسانی سے ضائع نہیںکر دینا چاہیے۔اور دوستوں کی طرف سے کیسی ہی ناگوار بات پیش آجائے اس پر اغماض اور تحمل کاطریق اختیار کرنا چاہیے۔‘‘
(سیرۃ مسیح موعود مصنفہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب صفحہ ۴۶)
اسی روایت کے متعلق حضرت مولوی شیر علی صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نہایت مخلص صحابی تھے بیان کرتے تھے کہ اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا کہ اگر ایسا شخص شراب میں بے ہوش پڑا ہو تو ہم اسے اٹھا کر لے آئیں گے اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کریں گے اور جب وہ ہوش میں آنے لگے گا تو اس کے پاس سے اٹھ کر چلے جائیں گے تاکہ وہ ہمیں دیکھ کر شرمندہ نہ ہو۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ دوم صفحہ ۳۸۱ مطبوعہ ۲۰۰۸ء)
اس سے یہ مراد نہیں کہ نعوذ باللہ شرابیوں اور فاسقوں فاجروںکواپنا دوست بنانا چاہیے بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی دوست ہو اوروہ بعد میں کسی کمزوری میں مبتلا ہوجائے تو اس وجہ سے اس کا ساتھ نہیں چھوڑدینا چاہیے بلکہ وفا داری کے طریق پر اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔احباب جماعت غور کریں کہ کیا وہ ان اخلاق پر قائم ہیں ؟اور یاد رکھو کہ احمدیت کی اخوت کا عہد دوستی کے عہد سے بھی زیادہ مقدس ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب فرمایا ہے :۔
اُنْصُرْ اَخَاکَ ظَالِمًا اَوْ مَظْلُوْمًا
(بخاری کتاب المظالم و الغصب باب أعن اخاک ظالمًا او مظلومًا)
’’یعنی اپنے ہر دینی بھائی کی مدد تمہارا فرض ہے خواہ وہ ظالم ہے یا کہ مظلوم ہے۔‘‘
صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مظلوم کی مدد تو ہم سمجھتے ہیں مگر ظالم کی مدد کس طرح کی جائے؟آپ نے فرمایا ظالم کی مدد اسے ظلم سے روکنے کی صورت میں کرو مگر بہر حال اخوت کے عہد کو کسی صورت میںٹوٹنے نہ دو۔
(۷)
قادیان میں ایک صاحب لالہ بڈھا مل ہوتے تھے۔یہ صاحب بہت کٹر قسم کے آریہ تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان کی بڑی مسجد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے ایک مینار کی بنیاد رکھی تو قادیان کے ہندوؤں نے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے پاس شکایت کی کہ اس مینار کی تعمیر روک دی جائے کیونکہ اس سے ہماری عورتوں کی بے پردگی ہوگی یہ ایک فضول عذر تھا کیونکہ اول تو مینار کی چوٹی سے کسی کو پہچاننا بہت مشکل ہوتا ہے اور پھر اگر بالفرض کوئی بے پردگی تھی بھی تو وہ سب کے لئے تھی جس میں احمدی جماعت بھی شامل تھی بلکہ جماعت احمدیہ پر اس کا زیادہ اثر پڑتا تھا کیونکہ یہ مینار احمدیہ محلہ میں تھا مگر ڈپٹی کمشنر نے حکومت کے عام طریق کے مطابق ہندوؤں کی یہ شکایت مجسٹریٹ صاحب علاقہ کے پاس رپورٹ کے لئے بھجوادی ۔یہ ڈپٹی صاحب قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود ؑ سے ملے اور مینار کی تعمیر کے متعلق حالات دریافت کئے۔حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ ہم نے یہ مینار کوئی سیر و تفریح یا تماشا کے لئے نہیں بنایا بلکہ محض ایک دینی غرض کے لئے بنایا ہے تاکہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی پوری ہواور تا ایک بلند جگہ سے اذان کی آواز لوگوں کے کانوں تک پہنچائی جائے اور روشنی کا انتظام بھی کیا جائے۔ورنہ ہمیں اس پر روپیہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیںتھی۔ڈپٹی صاحب نے کہا کہ یہ ہندو صاحبان بیٹھے ہیں ان کو اس پر اعتراض ہے کہ ہمارے گھروں کی بے پردگی ہوگی۔حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا یہ اعتراض درست نہیں بلکہ ان لوگوں نے محض ہماری مخالفت میں یہ درخواست دی ہے ورنہ بے پردگی کا کوئی سوال نہیں۔اور اگر بالفرض کوئی بے پردگی ہے بھی تو وہ ہماری بھی ہے۔پھر آپ نےلالہ بڈھا مل کی طرف اشارہ کیا جو بعض دوسرے ہندوؤں کے ساتھ مل کر ان ڈپٹی صاحب کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑکے پاس آئے تھے اور فرمایا کہ یہ لالہ بڈھا مل بیٹھے ہیں آپ ان سے پوچھیں کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ میرے لئے ان کو فائدہ پہنچانے کا کوئی موقع پیدا ہوا ہو اور میں نے ان کی امداد میں دریغ کیا ہو ۔اور پھرا ن سے یہ بھی پوچھیں کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے نقصان پہنچانے کا انہیں کوئی موقع ملا ہو اور یہ نقصان پہنچانے سے رکے ہوں؟حافظ روشن علی صاحب جو سلسلہ احمدیہ کے ایک جید عالم تھے بیان کیا کرتے تھے کہ اس وقت لالہ بڈھا مل پاس بیٹھے تھے مگر شرم اور ندامت کی وجہ سے انہیں جرأت نہیںہوئی کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی بات کاجواب دینا تو درکنار حضور کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکیں۔حقیقۃً یہ مخالفوں اور ہمسایوں پر شفقت کی ایک شاندار مثال ہے۔ (سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ اول صفحہ ۱۳۸ روایات نمبر ۱۴۸)
(۸)
ہماری جماعت کے اکثر پرانے دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائیوں مرزا امام دین صاحب اور مرزا نظام دین صاحب کو جانتے ہیں یہ دونوں اپنی بے دینی اور دنیا داری کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت ترین مخالف تھے بلکہ حقیقۃً وہ اسلام کے ہی دشمن تھے۔ایک دفعہ انہوں نے محض حضرت مسیح موعود ؑ کی ایذا رسانی کے لئے حضور کے گھر کے قریب والی مسجد مبارک کے رستہ میں دیوار کھینچ دی اور مسجد میں آنے جانے والے نمازیوں اور حضر ت مسیح موعود کے ملاقاتیوں کا رستہ بند کردیا جس کی وجہ سے حضور ؑ کو اور قادیان کی قلیل سی جماعت احمدیہ کو سخت مصیبت کا سامنا ہوا اور وہ گویا قید کے بغیر ہی قید ہو کر رہ گئے۔لاچار اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے وکلاء کے مشورہ سے قانونی چارہ جوئی کرنی پڑی اور ایک لمبے عرصے تک یہ تکلیف دہ مقدمہ چلتا رہا اور بالآخر خدائی بشارت کے مطابق حضرت مسیح موعود ؑ کو فتح ہوئی اور یہ دیوار گرائی گئی۔اس پر حضرت مسیح موعود ؑکے وکیل نے حضور ؑ سے اجازت لینے بلکہ اطلاع تک دینے کے بغیر مرزا امام دین صاحب اور مرزا نظام دین صاحب کے خلاف خرچہ کی ڈگری حاصل کرکے قرقی کا حکم جاری کرالیا۔اس پر مرزا صاحبان نے جن کے پاس اس وقت اس قرقی کی بے باقی کے لئے پورا روپیہ نہیں تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بڑی لجاجت کا خط لکھا اور یہاں تک کہلا بھیجا کہ بھائی ہو کر اس قرقی کے ذریعہ ہمیں کیوں ذلیل کرنے لگےہو؟حضرت مسیح موعود کو ان حالات کا علم ہوا تو آپ اپنے وکیل پر سخت خفا ہوئے کہ میری اجازت کے بغیر خرچہ کی ڈگری کیوں کرائی گئی ہے؟ اسے فوراً واپس لو۔اور دوسری طرف مرزا صاحبان کو جواب بھجوادیا کہ آپ بالکل مطمئن رہیں کوئی قرقی نہیں ہوگی۔یہ ساری کارروائی میرے علم کے بغیر ہوئی ہے۔
(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر ۲۴۲و سیرۃ مسیح موعود مصنفہ عرفانی صاحب صفحہ ۵ تا ۱۹)
دوست سوچیں اور غور کریں کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے شرکاء کا جن کی دشمنی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی حضور کو دکھ دینے کے لئے اور حضور کی مٹھی بھر جماعت کو( اس وقت جماعت مٹھی بھر ہی تھی) پریشان کر کے منتشر کرنے کے لئے ایک خطرناک تدبیر کرتے ہیں اور پھر اس تدبیر کو کامیاب بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں اور جھوٹا سچا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔مگر جب وہ ناکام ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعود ؑ کی اطلاع کے بغیر ان پر خرچہ کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے تو بھاگتے ہوئے حضرت مسیح موعود کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ظالم ہوتے ہوئے گلہ کرتے ہیں کہ ہم پر یہ بوجھ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود ؑ مظلوم ہوتے ہوئے بھی اپنے دشمنوں سے معذرت کرتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے وکیل نے مجھ سے پوچھے بغیر یہ ڈگری جاری کرادی ہے۔ یہ سلوک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کے اس عدیم المثال سلوک کی اتباع میں تھا جو آپ نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے مفتوح اور مغلوب دشمنوں سے فرمایا تھا۔آپ نے فرمایا۔
اِذْھَبُوْٓا اَنْتُمُ الطُّلَقَٓاءُ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ۔
(بخاری و زرقانی و تاریخ الخمیس)
’’یعنی جاؤ تم آزاد ہو میری طرف سے تم پر کوئی گرفت نہیں ۔‘‘
(۹)
پھر اپنے دوستوں اور خادموںکے لئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجسم عفو و شفقت تھے۔چنانچہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اپنی تصنیف سیرۃ مسیح موعودؑ میں حضرت مولوی نور الدین صاحب (خلیفہ اول) کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کی شفقت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:۔
’’ایک دفعہ ایسااتفاق ہوا کہ جن دنوں حضرت مسیح موعوداپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام کا عربی حصہ لکھ رہے تھے ۔حضور نے مولوی نورالدین ؓ صاحب خلیفہ اول کو ایک بڑا دو ورقہ اس زیر تصنیف کتاب کے مسودہ کا اس غرض سے دیا کہ فارسی میں ترجمہ کرنے کے لئے مجھے پہنچا دیا جائے۔وہ ایسا مضمون تھا کہ اس کی خدا داد فصاحت و بلاغت پر حضرت کو ناز تھا ۔مگر مولوی صاحب سے یہ دو ورقہ کہیں گر گیا۔چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے ہر روز کا تازہ عربی مسودہ فارسی ترجمہ کے لئے ارسال فرمایا کرتے تھے اس لئے اس دن غیر معمولی دیر ہونے پر مجھے طبعًا فکر پیدا ہوئی اور میں نے مولوی نور الدین صاحب سے ذکر کیا کہ آج حضرت کی طرف سے مضمون نہیںآیا اور کاتب سر پر کھڑا ہے اور دیر ہو رہی ہے معلوم نہیں کیا بات ہے یہ الفاظ میرے منہ سے نکلنے تھے کہ مولوی نور الدین صاحب کا رنگ فق ہوگیا۔ کیونکہ یہ دو ورقہ مولوی صاحب سے کہیں گر گیا تھا۔بے حد تلاش کی مگر مضمون نہ ملا اور مولوی صاحب سخت پریشان تھے۔حضرت مسیح موعود کو اطلاع ہوئی تو حسب معمول ہشاش بشاش مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور خفا ہونا یا گھبراہٹ کا اظہار کرناتو درکنار الٹا اپنی طرف سے معذرت فرمانے لگے کہ مولوی صاحب کو مسودہ کے گم ہونے سے ناحق تشویش ہوئی۔ مجھے مولوی صاحب کی تکلیف کی وجہ سے بہت افسوس ہے ۔میرا تو یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے گم شدہ کاغذ سے بہتر مضمون لکھنے کی توفیق عطا فرمادے گا۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ اول روایت نمبر ۲۹۲ صفحہ ۲۶۰،۲۶۱)
اس لطیف واقعہ سے ایک طرف حضرت مسیح موعود ؑ کے غیر معمولی جذبہ شفقت اور دوسری طرف اپنے آسمانی آقا کی نصرت پر غیر معمولی توکل پر خاص روشنی پڑتی ہے غلطی حضرت مولوی نور الدین صاحب سے ہوئی تھی کہ ایک قیمتی مسودہ کی پوری حفاظت نہیں کی اور اسے ضائع کر دیامگر حضرت مسیح موعود کی شفقت کا یہ مقام ہے کہ خود پریشان ہو ئے جاتے ہیں اور معذرت فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو مسودہ گم ہونے سے اتنی تکلیف ہوئی ہے اور پھر توکل کا یہ مقام ہے کہ ایک مضمون کی فصاحت و بلاغت اور اس کے معنوی محاسن پر ناز ہونے کے باوجود اس کے کھوئے جانے پر کس استغناء کے رنگ میں فرماتے ہیں کہ کوئی فکر کی بات نہیں خدا ہمیں اس سے بہتر مضمون عطا فرمادے گا!! یہ شفقت اور یہ توکل اور یہ تحمل خدا کے خاص بندوں کے سوا کسی اور میں پایا جانا ممکن نہیں۔
(۱۰)
ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم کا ایک قریبی عزیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان میں آکر کچھ عرصہ رہا تھا ایک دن سردی کے موسم کی وجہ سے ہمارے نانا جان مرحوم نے اپنا ایک مستعمل کوٹ ایک خادمہ کے ہاتھ اسے بھجوایا تاکہ یہ عزیز سردی سے محفوظ رہے۔مگر کوٹ کے مستعمل ہونے کی وجہ سے اس عزیز نے یہ کوٹ حقارت کے ساتھ واپس کر دیا کہ میں استعمال شدہ کپڑا نہیں پہنتا ۔اتفاق سے جب یہ خادمہ اس کوٹ کو لے کر میر صاحب کی طرف واپس جا رہی تھی تو حضرت مسیح موعود ؑ نے اسے دیکھ لیا اور پوچھا کہ یہ کیسا کوٹ ہے اور کہاں لئے جاتی ہو؟اس نے کہا میر صاحب نے یہ کوٹ اپنے فلاں عزیز کو بھیجا تھا مگر اس نے مستعمل ہونے کی وجہ سے بہت بُرا مانا ہے اور واپس کر دیا ہے ۔حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا
’’واپس نہ لے جاؤ اس سے میر صاحب کی دل شکنی ہوگی ۔تم یہ کوٹ ہمیں دے جاؤ۔ہم پہنیں گے ۔اور میر صاحب سے کہہ دینا کہ میں نے رکھ لیا ہے۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ دوم صفحہ ۳۰۵)
یہ ایک انتہائی شفقت اور انتہائی دلداری کا مقام تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ نےیہ مستعمل کوٹ خود اپنے لئے رکھ لیا تاکہ حضرت ناناجان کی دل شکنی نہ ہو ورنہ حضرت مسیح موعود ؑ کو کوٹوں کی کمی نہیں تھی اور حضور کے خدام حضور کی خدمت میں بہتر سے بہتر کوٹ پیش کرتے رہتے تھےاور ساتھ ہی یہ انتہائی سادگی اور بے نفسی کا بھی اظہار تھا کہ دین کابادشاہ ہو کر اترے ہوئے کوٹ کے استعمال میں تامل نہیں کیا۔
(۱۱)
انسان کے اخلاق کا ایک نمایاں پہلو اپنے اہل خانہ کے ساتھ سلوک سے تعلق رکھتا ہے۔میں اس معاملہ میں زیادہ بیان کرتے ہوئےطبعًا حجاب محسوس کرتا ہوں اس لئے صرف اس مختصر سی بات پر اکتفا کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس ارشاد نبویؐ کا کامل نمونہ تھے کہ :۔
خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ
(ترمذی ابواب المناقب باب فضل ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
’’یعنی خد ا کے نزدیک تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ سلوک کرنے میں بہتر ہے۔‘‘
اس کی تشریح میں اس تأثر کو بیان کرنے میں حرج نہیں جو اس معاملہ میں حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں جماعت کے دلوں میں پایا جاتا تھا۔حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو ساری جماعت جانتی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مقرب صحابی تھے۔ایک دفعہ ان کا اپنی بیوی کے ساتھ کسی امر میں کچھ اختلاف ہو گیا اور حضرت مفتی صاحب اپنی بیوی پر خفا ہوئے۔مفتی صاحب کی اہلیہ نے اس خانگی ناراضگی کا حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی بڑی بیوی کے ساتھ ذکر کیا ۔غالباً ان کا منشاء یہ تھا کہ اس طرح بات حضرت اماں جان تک اور پھر حضرت مسیح موعود ؑ تک پہنچ جائےگی۔حضرت مولوی عبد الکریم صاحب طبیعت کے بہت ذہین اور بڑے بذلہ سنج تھے۔اس رپورٹ کے پہنچنے پر مفتی صاحب سے فرمایا ’’مفتی صاحب جس طرح بھی ہو اپنی بیوی کو منالیں کیا آپ نہیں جانتے کہ آج کل ملکہ کا راج ہے؟ لطیفہ اس بات میں یہ تھا کہ ان ایام میں ہندوستان پرملکہ وکٹوریہ کی حکومت تھی اور حضرت مولوی صاحب کے الفاظ میں یہ بھی اشارہ تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ مستورات کے حقوق کا بہت خیال رکھتے اور ان معاملات میں اپنے اہل خانہ کے مشورہ کو زیادہ وزن دیتے ہیں۔مفتی صاحب مولوی صاحب کا اشارہ سمجھ گئے اور فوراً جا کر بیوی کو منا لیا۔اس طرح گھر کی ایک وقتی رنجش جنت ارضی والے سکون اور راحت میں بدل گئی۔
(سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ دوم صفحہ ۳۹۱ روایت ۴۳۲)
(۱۲)
انسان کے اہل خانہ میں اس کی اولاد بھی شامل ہے اور اس میدان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسوہ بہت بلند تھا۔آپ اپنے بچوں کے ساتھ بڑی شفقت اور بڑی محبت کا سلوک فرماتے تھے مگر لازماً دوسری محبتوں کی طرح یہ محبت بھی محبت الٰہی کے تابع تھی چنانچہ جب ہمارا سب سے چھوٹا بھائی مبارک احمد بیمار ہوا اور یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حضرت مسیح موعود ؑ کو بڑی کثرت سے قرب وفات کے الہامات ہو رہے تھے تو آپ نے انتہائی توجہ اور جاں سوزی کےساتھ اس کی تیمارداری فرمائی اور گویا تیمارداری میں دن رات ایک کر دیا۔مگر جب وہ قضاء الٰہی سے فوت ہو گیا تو آپؑ اس کی وفات پر یہ شعر فرما کر کامل صبر کا نمونہ دکھاتے ہوئے پورے شرح صدر کےساتھ راضی برضاء الٰہی ہوگئےاور خدا کی یاد میں مرنے والے بچے کو اس طرح بھول گئے کہ گویا وہ کبھی تھا ہی نہیں ۔فرماتے ہیں :۔
بر س تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اسے بلایا
بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
بچوں کی تربیت کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود ؑ نصیحت کرنے اور بری صحبت سے بچانے کے علاو ہ دعاؤں پر بہت زور دیتے تھے ۔چنانچہ جو اشعار آپ نے اپنے بچوں کے ختم قرآن کے موقع پر آمین کے رنگ میں فرمائے وہ اس روحانی طریق تربیت کی ایک بڑی دلکش مثال ہیں۔میں یہاں نمونہ کے طور چند شعر بیان کر تا ہوں فرماتے ہیں۔
ہو شکر تیرا کیونکر اے میرے بندہ پرور
تونے مجھے دئیے ہیں یہ تین تیرے چاکر
تیرا ہوں میں سراسر تو میرا ربّ اکبر
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
یہ تین جو پسر ہیں تجھ سے ہی یہ ثمر ہیں
یہ میرے بارو بر ہیں تیرے غلامِ در ہیں
تو سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھرہیں
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
شیطاںسے دور رکھیو اپنے حضور رکھیو
جاں پُر زِنور رکھیو دل پُر سرور رکھیو
ان پر میں تیرے قرباں! رحمت ضرور رکھیو
یہ روز کر مبارکسُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
اور دوسری آمین میں فرماتے ہیں:۔
مرے مولیٰ مری یہ اِک دعا ہے
تری درگاہ میں عجز و بکا ہے
مری اولاد جو تیری عطا ہے
ہر اک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے
تری قدرت کے آگے روک کیا ہے
وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے
عجب محسن ہے تو بحر الایادی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ
نجات ان کو عطا کر گندگی سے
برات ان کو عطا کر بندگی سے
رہیں خوشحال اور فرخندگی سے
بچانا اے خدا !بد زندگی سے
وہ ہوں میری طرح دیں کے منادی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ
یقیناً ہماری کمزوریوں کے باوجود ہماری زندگیوں کی ہر برکت انہی پاک دعاؤں کا ثمرہ ہے۔
(۱۳)
انسان کے اخلاق میں مہمان کا بھی ایک خاص مقام ہوتا ہے اس تعلق میںایک مختصر سی بات کے بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ ایک بہت شریف اور بڑے غریب مزاج احمدی سیٹھی غلام نبی صاحب ہوتےتھے جو رہنے والے تو چکوال کے تھے مگر راولپنڈی میں دکان کرتے تھے۔انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میںحضرت مسیح موعود کی ملاقات کے لئے قادیان آیا۔سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہو رہی تھی ۔میں شام کے وقت قادیان پہنچاتھا۔رات کو جب میں کھانا کھا کر لیٹ گیا اور کافی رات گذر گئی اور قریباً بارہ بجے کاوقت ہوگیا تو کسی نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی ۔میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعود کھڑے تھے ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین تھی۔میں حضور کو دیکھ کر گھبرا گیا مگر حضورنے بڑی شفقت سے فرمایا۔کہیں سے دودھ آگیا تھا میں نے کہا آپ کو دے آؤں۔آپ یہ دودھ پی لیں۔آپ کو شاید دودھ کی عاد ت ہوگی۔اس لئے یہ دودھ آپ کے لئے لے آیا ہوں۔سیٹھی صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے کہ سبحان اللہ کیا اخلاق ہیں ! یہ خدا کا برگزیدہ مسیح اپنے ادنیٰ خادموں تک کی خدمت اور دلداری میں کتنی لذت پاتا اور کتنی تکلیف اٹھاتا ہے۔
(سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ سوم صفحہ ۷۷۰ روایت ۸۶۸)
(۱۴)
سیٹھی صاحب تو خیر مہمان تھے مجھے ایک اور صاحب نے سنایا کہ میں اپنی جوانی کے زمانہ میں کبھی کبھی حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ خادم کے طور پر حضور کے سفروں میں ساتھ چلا جایا کرتا تھا۔حضرت مسیح موعود ؑ کا قاعدہ تھا کہ سواری کا گھوڑا مجھے دے دیتے تھے کہ تم چڑھو اور آپ ساتھ ساتھ پیدل چلتے تھے یا کبھی مَیں زیادہ اصرار کرتا تو کچھ وقت کے لئے خود سوار ہوجاتے تھے اور باقی وقت مجھے سواری کے لئے فرماتے تھے اور جب ہم منزل پر پہنچتے تھے تو چونکہ وہ زمانہ بہت سستا تھا حضور مجھے کھانے کے لئے چار آنے کے پیسے دیتے تھے اور خود ایک آنہ کی دال روٹی منگوا کر یا چنے بھنوا کر گذارہ کر تےتھے اور آپ کی خوراک بہت ہی کم تھی۔
(سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ دوم صفحہ ۶۲۷،۶۲۸روایت نمبر ۶۸۰)
(۱۵)
حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کا ذکر اوپر گذر چکا ہے وہ بہت ممتاز صحابہ میں سے تھے اور انہیں حضرت مسیح موعود ؑ کی قریب کی صحبت کا بہت لمبا موقع میسر آیا تھا۔وہ بیان فرماتےتھے کہ ایک دفعہ گرمی کا موسم تھا اور حضرت مسیح موعود ؑ کے اہل خانہ لدھیانہ گئے ہوئے تھے۔ میں حضور کو ملنے اندرون خانہ گیا۔کمرہ نیانیا بنا تھا اور ٹھنڈا تھا میں ایک چارپائی پر ذرا لیٹ گیا۔اور مجھے نیند آگئی۔حضور اس وقت کچھ تصنیف فرماتے ہوئے ٹہل رہے تھے۔جب میں چونک کر جاگا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ میری چارپائی کے پاس نیچے فرش پر لیٹے ہوئے تھے۔میں گھبرا کر ادب سے کھڑ اہو گیا ۔حضرت مسیح موعود ؑ نے بڑی محبت سے پوچھا مولوی صاحب ! آپ کیوں اٹھ بیٹھے؟میں نے عرض کیا حضور نیچے لیٹے ہوئے ہیں میں اوپر کیسے سو سکتا ہوں ؟مسکرا کر فرمایا آپ بے تکلفی سے لیٹے رہیں میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا ۔بچے شور کر تے تھے تو میں انہیں روکتا تھا تاکہ آپ کی نیند میں خلل نہ آئے۔اللہ اللہ ! شفقت کا کیا عالم تھا!! (سیرت مسیح موعودؑ مصنفہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب صفحہ ۳۶)
(۱۶)
اب ذرا غریبوں اور سائلوں پر شفقت کا حال بھی سن لیجئے ۔ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کے گھر میں کسی غریب عورت نے کچھ چاول چرالئے ۔لوگوں نے اسے دیکھ لیا اور شور پڑ گیا۔حضرت مسیح موعود اس وقت اپنے کمرے میں کام کر رہے تھے شور سن کر باہر تشریف لائے تو یہ نظارہ دیکھا کہ ایک غریب خستہ حال عورت کھڑی ہے اور اس کے ہاتھ میں تھوڑے سے چاولوں کی گٹھڑی ہے۔حضرت مسیح موعود ؑ کو واقعہ کا علم ہوا اور اس غریب عورت کاحلیہ دیکھا تو آپ کا دل پسیج گیا ۔فرمایا یہ بھوکی اور کنگال معلوم ہوتی ہے اسے کچھ چاول دے کر رخصت کر دو اور خدا کی ستاری کا شیوہ اختیار کرو۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ مصنفہ عرفانی صاحب حصہ اول صفحہ ۹۸)
اس واقعہ پر کوئی جلد باز شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ با ت تو چوری پر دلیری پیدا کر نے والی ہے مگر دانا لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ جب مال خود حضرت مسیح موعود کا اپنا تھا اور لینے والی عورت ایک بھوکوں مرتی کنگال عورت تھی تو یہ چوری پر اعانت نہیںبلکہ حقیقتاً اطعام مسکین میں داخل ہے۔حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے حالات میں جبکہ چوری کرنے والا بہت غریب ہو اور انتہائی بھوک کی حالت میں کوئی کھانے کی چیز اٹھا لے تو اسے سارق نہیں گردانا بلکہ چشم پوشی سے کام لیا ہے۔
(۱۷)
ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعود چہل قدمی سے واپس آکر اپنے مکان میں داخل ہو رہےتھے کسی سائل نے دور سے سوا ل کیا ۔مگر اس وقت ملنے والوں کی آوازوں میں اس سائل کی آواز گم ہو کر رہ گئی اور حضرت مسیح موعود اندر چلے گئے۔مگر تھوڑی دیر کے بعد جب لوگوں کی آوازوں سے دور ہوجانے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کے کانوں میں اس سائل کی دکھ بھری آواز کی گونج اٹھی تو آپ نے باہر آکر پوچھا کہ ایک سائل نے سوال کیا تھا ۔وہ کہاں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت وہ تو اسی وقت یہاں سے چلا گیا تھا ۔اس کے بعد آپ اندر ون خانہ تشریف لے گئے مگر دل بے چین تھا۔تھوڑی دیر کے بعد درواز ہ پر اسی سائل کی پھر آواز آئی اور آپ لپک کر باہر آئے اور اس کے ہاتھ پر کچھ رقم رکھ دی اور ساتھ ہی فرمایا کہ میری طبیعت اس سائل کی وجہ سے بے چین تھی اور میں نےدعا بھی کی تھی کہ خدا اسے واپس لائے۔
(سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ اول روایت ۲۹۸ صفحہ ۲۶۹)
الغرض حضرت مسیح موعود کا وجود ایک مجسم رحمت تھا۔وہ رحمت تھا اپنے عزیزوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے دوستوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے دشمنوں کے لئے ،اور رحمت تھا اپنے ہمسائیوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے خادموں کے لئے اور رحمت تھا سائلوں کےلئے اور رحمت تھا عامۃالناس کے لئے اور دنیا کا کوئی چھوٹا یا بڑا طبقہ ایسا نہیں ہے جس کے لئے اس نے رحمت اور شفقت کے پھول نہ بکھیرے ہوں۔بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ وہ رحمت تھا اسلام کے لئے جس کی خدمت اور اشاعت کے لئے اس نے انتہائی فدائیت کے رنگ میں اپنی زندگی کی ہر گھڑی اور اپنی جان تک قربان کر رکھی تھی۔
(۱۸)
بالآخر ایک جامع نوٹ پر اپنے اس مقالہ کو ختم کر تاہوں۔ہمارے بڑے ماموں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم نے میری تحریک پر حضرت مسیح موعود ؑؑ کے اخلاق و اوصاف کے متعلق ایک مضمون لکھا تھا۔اس مضمون میں وہ فرماتے ہیں:۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت رؤف و رحیم تھے۔ سخی تھے۔ مہمان نواز تھے۔ اشجع الناس تھے۔ ابتلاؤں کے وقت جبکہ لوگوں کےدل بیٹھے جاتے تھے آپ شیر نر کی طرح آگےبڑھتے تھے ۔عفو،چشم پوشی ،فیاضی،خاکساری ، وفاداری،سادگی، عشق الٰہی، محبت رسولؐ، ادب بزرگان دین،ایفائے عہد ، حسن معاشرت، وقار، غیرت، ہمت ،اولو العزمی، خوش روئی اور کشادہ پیشانی آپ ؑ کے ممتاز اخلاق تھے........میںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس وقت دیکھا جب میں دو برس کا بچہ تھا۔پھر آپ میری ان آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں ستائیس سال کا جوان تھا۔مگر میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے آپ سے بہتر، آپ سے زیادہ خوش اخلاق ،آ پ سے زیادہ نیک،آپ سے زیادہ بزرگانہ شفقت رکھنے والا، آپ سے زیادہ اللہ اور رسول ؐ کی محبت میں غرق رہنے والا کوئی شخص نہیں دیکھا۔آپ ایک نور تھے ۔جو انسانوں کے لئے دنیا پر ظاہر ہوا ۔اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور اسے شاداب کر گئی۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد ۱ حصہ سوم روایت ۹۷۵ صفحہ ۸۲۴تا ۸۲۷)
یہی میری بھی چشم دید شہادت ہے اور اسی پر میں اپنے اس مضمون کو ختم کر تا ہوں۔اَللّٰہُمَّ
صَلِّ عَلَیْہِ وَعَلٰی مُطَاعِہٖ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ وَ سَلِّمْ وَ آخِرُ
دَعْوَانَا اَنِ الْـحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
خاکسار
مرز ا بشیر احمد
ربوہ
۳ ؍ دسمبر ۵۹ء
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ
الْکَرِیْمِ
حضرت اماں جان
بلند اخلاق ۔اعلیٰ روحانیت اور غیر معمولی
مقام توکل
ضمیمہ رسالہ سیرتِ طیبہ
کچھ عرصہ ہوا میں نے ایک مختصر سا نوٹ حضرت اماں جان٭ مرحومہ مغفورہ کے بلند اخلاق اور بلند مقام توکل پر لکھا تھا سو اب جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ طیبہ پر ایک رسالہ چھپ رہا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ مختصر سا نوٹ بھی ضمیمہ کے طور پر اس کےسا تھ شامل کر دیا جائے تاکہ جس طرح دنیامیں یہ بزرگ ہستیاں ایک دوسرے کی رفیق حیات تھیں اسی طرح اس ذکر خیر میں بھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور میرے دل و دماغ بھی اس معنوی رفاقت سے سکون و راحت پائیں۔
٭ سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ حرم محترم حضرت مسیح موعود علیہ السلام
٭ سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ حرم محترم حضرت مسیح موعود علیہ السلام
حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا اپریل ۱۹۵۲ء میں فوت ہوئی تھیں۔اس عرصہ میں مجھے کئی دفعہ ان کی سیرۃ کے متعلق کچھ لکھنے کی خواہش پیدا ہوئی مگر ہر دفعہ جذبات سے مغلوب ہو کر اس ارادہ کو ترک کرنا پڑا۔اب بعض احباب کی تحریک پر ذیل کی چند مختصر سی سطور لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں۔وَاللہُ الْمُوَفِّقُ وَالْمُسْتَعَانُ۔
(۱)
حضرت اماں جان ؓ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ان کی شادی خاص الٰہی تحریک کے ماتحت ہوئی تھی۔اور دوسرا امتیاز یہ حاصل ہے کہ یہ شادی ۱۸۸۴ ءمیں ہوئی اور یہی وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعویٰ مجددیت کا اعلان فرمایا تھا اور پھر سارے زمانہ ماموریت میں حضرت امان جان مرحومہ مغفورہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفیقہ حیات رہیں۔ اور حضرت مسیح موعود انہیں انتہائی درجہ محبت اور انتہائی درجہ شفقت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کی بے حد دلداری فرماتے تھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ زبردست احساس تھا کہ یہ شادی خدا کے خاص منشاء کے ماتحت ہوئی ہے اور یہ کہ حضور کی زندگی کے مبارک دور کے ساتھ حضرت اماں جان کو مخصوص نسبت ہے چنانچہ بعض اوقات حضرت اماں جان بھی محبت اور ناز کے انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کرتی تھیں کہ میرے آنے کے ساتھ ہی آپ کی زندگی میں برکتوں کا دور شروع ہوا ہے جس پر حضرت مسیح موعود مسکرا کر فرماتے تھے کہ’’ ہاں یہ ٹھیک ہے‘‘ ۔دوسری طرف حضرت اماں جانؓ بھی حضرت مسیح موعود کے متعلق کامل محبت اور کامل یگانگت کے مقام پر فائز تھیں اور گھر میں یوں نظر آتا تھا گویا دو سینوں میں ایک دل کام کر رہا ہے۔
(۲)
حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے اخلاق فاضلہ اور آ پ کی نیکی اور تقویٰ کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں مگر اس جگہ میں صرف اشارہ کے طور پر نمونۃً چند باتوں کے ذکر پر اکتفاء کرتاہوں ۔آپ کی نیکی اور دینداری کا مقدم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا۔پانچ فرض نمازوں کا تو کیا کہنا ہے حضرت اماں جان نماز تہجد اور نماز ضحیٰ کی بھی بے حد پابند تھیں اور انہیں اس ذوق و شوق سے ادا کرتی تھیں کہ دیکھنے والوں کے دل میں بھی ایک خاص کیفیت پیدا ہونے لگتی تھی۔بلکہ ان نوافل کے علاوہ بھی جب موقع ملتا تھا نماز میں دل کا سکون حاصل کرتی تھیں ۔میں پوری بصیرت کےساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فدا ہُ نفسی) کی یہ پیاری کیفیت کہ جُعِلَتْ قُرَّةُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوةِ (یعنی میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے) حضرت اماں جان کو بھی اپنے آقا سے ورثے میں ملی تھی۔
(۳)
پھر دعا میں بھی حضرت اماں جا ن کو بے حد شغف تھا ۔اپنی اولاد اور دوسرے عزیزوں بلکہ ساری جماعت کے لئے جسے وہ اولاد کی طرح سمجھتی تھیں بڑے درد و سوز کےساتھ دعا فرمایا کرتی تھیں اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے ان کے دل میں غیر معمولی تڑپ تھی۔
اولاد کے متعلق حضرت اماں جان کی دعا کا نمونہ ان اشعار سے ظاہر ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ نے حضرت اماں جان کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کی طرف سے اور گویا انہی کی زبان سے فرمائے۔خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے آپ عرض کرتے ہیں:۔
کوئی ضائع نہیں ہوتا جو ترا طالب ہے
کوئی رسوا نہیں ہوتا جو ہے جویاں تیرا
آسماں پر سے فرشتے بھی مدد کرتے ہیں
کوئی ہوجائے اگر بندئہ فرماں تیرا
اس جہاں میں ہی وہ جنت میں ہے بے ریب و گماں
وہ جو اک پختہ توکل سے ہے مہماں تیرا
میری اولاد کو تُو ایسی ہی کر دے پیارے
دیکھ لیں آنکھ سے وہ چہرہ نمایاں تیرا
عمر دے رزق دے اور عافیت و صحت بھی
سب سے بڑھ کر یہ کہ پا جائیں وہ عرفاں تیرا
اپنی ذاتی دعاؤں میں جو کلمہ حضرت اماں جان کی زبان پر سب سے زیادہ آتا تھا وہ یہ مسنون دعا تھی کہ
یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ
اَسْتَغِیْثُ۔
’’یعنی اے میرے زندہ خدا اور اے میرے زندگی بخش آقا! میں تیری رحمت کا سہارا ڈھونڈتی ہوں۔‘‘
یہ وہی جذبہ ہے جس کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شعر فرمایا ہے کہ ۔
تری رحمت ہے میرے گھر کا شہتیر
مری جاں تیر ے فضلوں کی پنہ گیر
(۴)
جماعتی چندوں میں بھی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیتی تھیں اور تبلیغ اسلام کے کام میں ہمیشہ اپنی طاقت سے بڑھ کر چندہ دیتی تھیں۔تحریک جدید کا چندہ جس سے بیرونی ممالک میں اشاعت اسلام کا کام سر انجام پاتا ہے اس کے اعلان کے لئے ہمیشہ ہمہ تن منتظر رہتی تھیں اور اعلان ہوتے ہی بِلاتوقف اپنا وعدہ لکھا دیتی تھیں بلکہ وعدہ کے ساتھ ہی نقد ادائیگی بھی کر دیتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ زندگی کا اعتبار نہیں۔وعدہ جب تک ادا نہ ہوجائے دل پر بوجھ رہتا ہے۔دوسرے چندوں میں بھی یہی ذوق و شوق کا عالَم تھا۔
(۵)
صدقہ و خیرات اور غریبوں کی امداد بھی حضرت اماں جان نَوَّرَ اللہُ مَرْقَدَھَا کا نمایاں خلق تھا اور اس میں وہ خاص لذت پاتی تھیں اور اس کثرت کے ساتھ غریبوں کی امداد کرتی تھیں کہ یہ کثرت بہت کم لوگوں میں دیکھی گئی ہے ۔جو شخص بھی ان کے پاس اپنی مصیبت کاذکر لے کر آتا تھا حضرت اماں جان اپنے مقدور سے بڑ ھ کر اس کی امداد فرماتی تھیں اور کئی دفعہ ایسے خفیہ رنگ میں مدد کرتی تھیں کہ کسی اور کو پتہ تک نہیں چلتا تھا ۔اسی ذیل میں ان کا یہ بھی طریق تھا کہ بعض اوقات یتیم بچوں اور بچیوں کو اپنے مکان پر بلا کر کھانا کھلاتی تھیں اور بعض اوقات ان کے گھروں پر بھی کھانا بھجوادیتی تھیں ۔ایک دفعہ ایک واقف کار شخص سے دریافت فرمایا کہ کیاآپ کو کسی ایسے شخص (احمدی یا غیر احمدی یا غیر مسلم) کا علم ہے جو قرض کی وجہ سے قید بھگت رہا ہو(اوائل زمانے میں ایسے سول(CIVIL) قیدی بھی ہوا کرتے تھے) اور جب اس نے لاعلمی کا اظہار کیا تو فرمایا کہ تلاش کرنا میں اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں تا قرآن مجید کے اس حکم پر عمل کر سکوں کہ معذور قیدیوں کی مدد بھی کارِ ثواب ہے۔
قرض مانگنے والوں کو فراخ دلی کے ساتھ قرض بھی دیتی تھیں مگر یہ دیکھ لیتی تھیں کہ قرض مانگنے والا کوئی ایسا شخص تو نہیں جو عادی طور پر قرض مانگا کرتاہے اور پھر قرض کی رقم واپس نہیں کیا کر تا۔ایسے شخص کو قرض دینے سے پرہیز کرتی تھیں تاکہ اس کی یہ بری عادت ترقی نہ کرے مگر ایسے شخص کو بھی حسب گنجائش امداد دےدیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ میرے سامنے ایک عورت نے ان سے کچھ قرض مانگا۔اس وقت اتفاق سے حضرت اماں جان کے پاس اس قرض کی گنجائش نہیں تھی۔مجھ سے فرمانے لگیں میاں ! (وہ اپنے بچوں کو اکثر میاں کہہ کر پکارتی تھیں) تمہارے پاس اتنی رقم ہو تو اسے قرض دےد و۔یہ عورت لین دین میں صاف ہے۔چنانچہ میں نے مطلوبہ رقم دے دی اور پھر اس غریب عورت نے تنگ دستی کے باوجود عین وقت پر اپنا قرضہ واپس کر دیا جو آج کل کے اکثر نوجوانوں کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے۔
(۶)
حضرت اماں جان نَوَّرَ اللہُ مَرْقَدَھَا کو اسلامی احکام کے ماتحت یتیم بچوں کی پرورش اور تربیت کا بھی بہت خیال رہتا تھا۔میں نے جب سے ہوش سنبھالا ان کے سایہ عاطفت میں ہمیشہ کسی نہ کسی یتیم لڑکی یا لڑکے کو پلتے دیکھااور وہ یتیموں کو نوکروں کی طرح نہیں رکھتی تھیں بلکہ ان کے تمام ضروری اخراجات برداشت کرنے کے علاوہ ان کے آرام و آسائش اور ان کی تعلیم و تربیت اور ان کےو اجبی اکرام اور عزتِ نفس کا بھی بہت خیال رکھتی تھیں۔اس طرح ان کے ذریعہ بیسیوں یتیم بچے جماعت کے مفید وجود بن گئے۔بسا اوقات اپنے ہاتھ سے یتیموں کی خدمت کرتی تھیں۔مثلاً یتیم بچوں کو نہلانا ۔ان کے بالوں میں کنگھی کرنا ۔کپڑے بدلوانا وغیرہ وغیرہ۔مجھےیقین ہے کہ حضرت اماں جان رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت سے انشاء اللہ ضرور حصہ پائیںگے کہ اَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیْمِ کَھَاتَیْنِ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی ضمّ الیتیم) یعنی قیامت کے دن میں اور یتیموں کی پرورش کرنے والا شخص اس طرح اکٹھے ہوں گے جس طرح کہ ایک ہاتھ کی دو انگلیاں باہم پیوست ہوتی ہیں۔
(۷)
مہمان نوازی بھی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے اخلاق کا طرَّئہ امتیاز تھا۔ اپنے عزیزوں اور دوسرے لوگوں کو اکثر کھانے پر بلاتی رہتی تھیںاور اگر گھر میں کوئی خاص چیز پکتی تھی تو ان کے گھروں میں بھی بھجوادیتی تھیں۔خاکسار راقم الحروف کو علیحدہ گھر ہونے کے باوجود حضرت اماں جان نے اتنی دفعہ اپنے گھر سے کھانا بھجوایا ہے کہ اس کا شمار ناممکن ہے اور اگر کوئی عزیزیا کوئی دوسری خاتون کھانے کے وقت حضرت اماں جانؓ کے گھر میں جاتی تھیں تو حضرت اماں جان کا اصرار ہوتا تھا کہ کھانا کھا کر واپس جاؤ۔چنانچہ اکثر اوقات زبردستی روک لیتی تھیں۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مہمان نوازی ان کی روح کی غذا ہے۔
عیدوں کے دن حضرت اماں جان کا دستور تھا کہ اپنےسارے خاندان کو اپنے پاس کھانے کی دعوت دیتی تھیں اور ایسے موقعوں پر کھانا پکوانے اور کھانا کھلانے کی بذات خود نگرانی فرماتی تھیں ۔اور اس بات کا بھی خیال رکھتی تھیں کہ فلاں عزیز کو کیا چیز مرغوب ہےاور اس صورت میں حتی الوسع وہ چیز ضرور پکواتی تھیں۔ جب آخری عمر میں زیادہ کمزور ہو گئیں تو مجھے ایک دن حسرت کےسا تھ فرمایا کہ اب مجھ میں ایسے اہتمام کی طاقت نہیں رہی میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی مجھ سے رقم لے لے اور میری طرف سے کھانے کاانتظام کردے۔
وفات سے کچھ عرصہ قبل جب کہ حضرت اماں جان بے حد کمزور ہو چکی تھیں اور کافی بیمار تھیں ۔مجھے ہماری بڑی ممانی صاحبہ نے جو ان دنوں میں حضرت اماں جان کے پاس ان کی عیادت کے لئے ٹھہری ہوئی تھیں فرمایا کہ آج آپ یہاں روزہ کھولیں ۔میں نے خیال کیا کہ شاید یہ اپنی طرف سے حضرت اماں جان کی خوشی اور ان کا دل بہلانے کے لئے ایسا کہہ رہی ہیں چنانچہ میں وقت پر وہاں چلا گیا تو دیکھا کہ بڑے اہتمام سے افطاری کا سامان تیار کر کے رکھا گیا ہے۔اس وقت ممانی صاحبہ نے بتایا کہ میں نے تو اماں جان کی طرف سے ان کے کہنے پر آپ کو یہ دعوت دی تھی۔
(۸)
حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا میں بے حد محنت کی عادت تھی اور ہر چھوٹے سے چھوٹا کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں راحت پاتی تھیں ۔میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے بارہا کھانا پکاتے، چرخہ کاتتے،نواڑبُنتے بلکہ بھینسوں کے آگے چارہ تک ڈالتے دیکھا ہے۔بعض اوقات خود بھنگنوں کے سر پر کھڑے ہو کر صفائی کرواتی تھیں اور ان کے پیچھے لوٹے سے پانی ڈالتی جاتی تھیں۔ گھر میں اپنے ہاتھ سے پھولوں کے پودے یا سیم کی بیل یا دوائی کی غرض سے گلو کی بیل لگانے کا بھی شوق تھا اور عموماً انہیں اپنے ہاتھ سے پانی دیتی تھیں۔
(۹)
مریضوں کی عیادت کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی احمدی عورت کے متعلق یہ سنتیں کہ وہ بیمار ہے تو بلا امتیاز غریب و امیر خود اس کے مکان پر جاکر عیادت فرماتی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق تسلی دیا کرتی تھیں کہ گھبراؤ نہیں خدا کے فضل سے اچھی ہو جاؤ گی۔
ان اخلاق فاضلہ کا یہ نتیجہ تھا کہ احمدی عورتیں حضرت اماں جان پر جان چھڑکتی تھیں اور ان کے ساتھ اپنی حقیقی ماؤں سے بھی بڑھ کر محبت کرتی تھیں اور جب کوئی فکر کی بات پیش آتی تھی یا کسی امر میں مشورہ لینا ہوتا تھا تو حضرت اماں جان کے پاس دوڑی آتی تھیں ۔اس میں ذرہ بھر بھی شبہ نہیں کہ حضرت امان جان کا مبارک وجود احمدی مستورات کے لئے ایک بھاری ستون تھا۔بلکہ حق یہ ہے کہ ان کا وجود محبت اور شفقت کا ایک بلند اور مضبوط مینار تھا جس کے سایہ میں احمدی خواتین بے انداز راحت اور برکت اور ہمت اور تسلی پاتی تھیں۔
(۱۰)
مگر غالباً حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا کے تقویٰ اور توکل اور دینداری اور اخلاق کی بلندی کا سب سے زیادہ شاندار اظہار ذیل کے دو واقعات میں نظر آتا ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض اقرباء پر اتمام حجت کی غرض سے خدا سے علم پا کر محمدی بیگم والی پیشگوئی فرمائی تو اس وقت حضرت مسیح موعود نے ایک دن دیکھا کہ حضرت اماں جان علیحدگی میں نماز پڑھ کر بڑی گریہ وزاری اور سوز و گداز سے یہ دعا فرما رہی ہیں کہ خدایا تو اس پیشگوئی کو اپنے فضل اور اپنی قدرت نمائی سے پورا فرما جب وہ دعا سے فارغ ہوئیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے دریا فت فرمایا کہ تم یہ دعا کر رہی تھیں اور تم جانتی ہو کہ اس کے نتیجہ میں تم پرسوکن آتی ہے؟حضرت اماں جان نے بے ساختہ فرمایا:۔
’’خواہ کچھ ہو مجھے اپنی تکلیف کی پرواہ نہیں ۔میری خوشی اسی میں ہے کہ خدا کے منہ کی بات اور آپ کی پیشگوئی پوری ہو۔‘‘
دوست سوچیں اور غور کریں کہ یہ کس شان کا ایمان اور کس بلند اخلاقی کا مظاہرہ اور کس تقویٰ کا مقام ہے کہ اپنی ذاتی راحت اور ذاتی خوشی کو کلیتہً قربان کرکے محض خدا کی رضا کو تلاش کیا جا رہا ہے اور شاید منجملہ دوسری باتوں کے یہ ان کی اسی بے نظیر قربانی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مشروط پیشگوئی کو اس کی ظاہری صورت سے بدل کر دوسرے رنگ میں پورا فرمادیا۔
(۱۱)
پھر جب حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی (اور یہ میری آنکھوں کے سامنے کا واقعہ ہے) اور آپ کے آخری سانس تھے تو حضرت اماں جان نَوَّرَ اللہُ مَرْقَدَھَا وَ رَفَعَھَا فِی اَعْلیٰ عِلِّیِّیْن آپ کی چارپائی کے قریب فرش پر آکر بیٹھ گئیں اور خدا سے مخاطب ہو کر عرض کیا کہ
’’خدایا! یہ تو اب ہمیں چھوڑ رہے ہیں مگر تو ہمیں نہ چھوڑیو۔‘‘
یہ ایک خاص انداز کا کلام تھا جس سے مراد یہ تھی کہ تو ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا۔اور دل اس یقین سے پُر تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔اللہ اللہ ! خاوند کی وفات پر اور خاوند بھی وہ جو گویا ظاہری لحاظ سے ان کی ساری قسمت کا بانی اور ان کی تمام راحت کا مرکز تھا توکّل اور ایمان اور صبر کا یہ مقام دنیا کی بے مثال چیزوں میں سےا یک نہایت درخشاں نمونہ ہے۔
مجھے اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وہ بے حد پیارا اور مضبوطی کے لحاظ سے گویافولادی نوعیت کا قول یاد آرہا ہے جو آپ ؓ نے کامل توحید کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم (فِدَاہُ نَفْسِیْ ) کی وفات پر فرمایا کہ
اَلَامَنْ کَانَ یَعْبُدُمُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًا
قَدْ مَاتَ وَ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللہَ فَاِنَّ اللہَ حَیٌّ لَا یَـمُوْتُ۔(بخاری کتاب اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لو کنت متّخذا خلیلا۔۔۔۔)
’’یعنی اے مسلمانو! سنو کہ جو شخص رسول اللہ کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں مگر جو شخص خدا کا پرستار ہے وہ یقین رکھے کہ خدا زندہ ہے اور اس پر کبھی موت نہیں آئے گی۔‘‘
بس اس سے زیادہ میں اس وقت کچھ نہیں کہنا چاہتا۔وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
۔ وَ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی عَبْدِکَ
الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ وَ بَارِکْ وَ سَلِّمْ۔
خاکسار
راقم آثم
مرزا بشیر احمد
ربوہ
ربوہ