Monday 12 June 2017

ختم نبوت کے بارے میں جماعت احمدیہ کی تشریح





8 فروری 1987ء کو منعقدہ مجلس سوال جواب میں شامل ایک غیر احمدی دوست نے سوال کیا کہ:
’’مولوی صاحبان سے یہ سُنا ہے کہ مرزاصاحب کوحضرت محمدرسول اﷲ ﷺکے بعدآخری نبی کہاجاتا ہے ۔ اِس بات کی وضاحت فرمائیں؟
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ :۔
’’…… یہ بات توہے ہی غلط کہ نعوذ باﷲ من ذالک ہم حضرت مرزاصاحب کوآخری نبی کہتے ہیں۔بالکل جھوٹ ہے۔
ہمارامسلک یہ ہے کہ زمانے کے لحاظ سے آخری ہونا کوئی فضیلت کامقام نہیں ہے۔یہ بنیادی مسلک ہے ۔ اِس پرغورہوجائے پھرباقی بات ساری سمجھ آجائے گی۔
ہم کہتے ہیں اِنسان کااِتفاقاً زمانے کے لحاظ سے بعدمیں ہونا اَورآخری ہوناکوئی فضیلت کی وجہ نہیں ۔ اَگریہ فضیلت کی وجہ ہوتوسب سے آخری اِنسان جودُنیامیں مَرے اُس کوسب سے زیادہ معزز ہونا چاہئے۔لیکن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ قیامت اشرارالنّاس پہ آئے گی۔(السنن الواردۃ فی الفتنۃ للدّانی: باب ماجاء أن السّاعۃ تقوم علٰی اشرارالنّاس۔ دلیل الفالحین للطرق ریاض الصالحین: مقدمۃ الشارح باب : باب الخوف)۔ 
سب سے زیادہ شریر لوگ ، بدمعاش اَورگندے لوگوں پرقیامت آئے گی وہ آخری ہوں گے ۔توآخری اِتّفاقاً گندا بھی ہو سکتا ہے اَوراِتّفاقاً اچھا بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن آخری ہونا فی ذاتہٖ کوئی خوبی کی بات نہیں ہے۔کلاس سے ایک آخری لڑکا نکلتا ہے اُس میں کیاخوبی ہے ؟
ہاں مضمون کے لحاظ سے آخری ہوجس کے بعد اَور کوئی نہ آتا ہو۔ مرتبہ کے لحاظ سے آخری ہو، مقام کے لحاظ سے تویہ ایک ایسی شاندار فضیلت ہے جس کادُنیامیں کوئی معقول آدمی اِنکارنہیں کرسکتا۔ توہماری بحث یہ چلتی ہے دوسرے علماء سے ۔
 ہم کہتے ہیں کہ اَگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم فضیلت کے مقام میں آخری ہیں توہم سوفیصدی متفق ہیں۔ آنحضورؐکے بعد کِسی کامقام ہی کوئی نہیں سوائے خداکے۔ اَﷲ اَورمحمدمصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم۔ اَوراِنسانی مرتبے کے لحاظ سے اَگراُونچائی کاتصوّر کریں توسب سے آخرپرحضورِاَکرم صلی اﷲ علیہ و سلم دِکھائی دیں گے ۔ اَور اَگر اَولیّت کومرتبے کے لحاظ سے پہلے سمجھیں توسب سے اَوّل بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم دِکھائی دیں گے۔ 
چنانچہ اَوّل اَورآخررسولِ اَکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کے لئے جب قرآن میں یاحدیث میں اِستعمال ہوتا ہے تو مرتبے میں اِستعمال ہوتا ہے نہ کہ زمانے میں،کیونکہ زمانے میں آپؐ اَوّل نہیں تھے۔ اُس کے باوجود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اَبھی آدم اپنی تخلیق کی مٹی میں کروٹیں بدل رہا تھا مَیں اُس وقت بھی خاتم النّبیّین تھا۔
( مسند احمدبن حنبل ؒ: حدیث عرباض بن ساریہ :حدیث نمبر16700:جلد4 صفحہ127۔ الطبعۃ الاولٰی : بیروت لبنان)
قرآنِ کریم آپ کواَوّل قرار دیتا ہے۔حضرت اِبراہیم علیہ السّلام کے لئے بھی لفظ اَوّل قرآنِ کریم اِستعمال فرماتا ہے۔ توزمانے کااَوّل توبالکل اِتّفاقی حادثات کی بات ہوتی ہے۔ مرتبے کااَوّل ہونا اَصل مقام ہے ۔ پس اَگرہمارا زور ہی اِس بات پرہے تومسیحِ موعود ؑ کوآخری کہہ کے ہم حاصل کیا کرسکتے ہیں ؟ ہم توکہتے ہی یہی ہیں کہ اِتّفاقاً آخری ہونا حقیقت میں باعثِ فضیلت ہی نہیں ہے۔
دوسرے ہم یہ کہتے ہیں کہ آخری جہاں جہاں فضیلت کے معنے رکھتا ہے وہاں وہاں ہم سو فیصدی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کوآخری مانتے ہیں ۔ مثلاًکتاب کاآخری ہونااِن معنوں میں کہ اِس کے بعد کوئی شریعت نازل نہیں ہونی ۔ حرفِ آخرہونا آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کاکہ آپ کاحکم قیامت تک نہیں ٹوٹے گا۔ حرفِ آخر اِس کواُردو میں کہتے ہیں ۔last wordانگریزی میں کہتے ہیں کہ جس کے بعد کوئی شخص ، کوئی authorityایسی نہ آسکے جواُس کے حکم کوتبدیل کردے ۔ اُس کی شریعت آخر،اُس کاحکم آخر، اُس کی سُنّت آخر، اُس کادین آخر! اِن سارے معنوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کوآخری نبی اَور خاتم النّبیّین مانتے ہیں اَوراُس کے لئے عقلی دلائل رکھتے ہیں۔
 تویہ جھوٹااِلزام ہے ہم پر،نعوذباﷲ من ذالک، بالکل جھوٹا اِلزام ہے کہ ہم آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کوفضیلت کے مقام پرآخری نہیں مانتے ۔
ہرعزّت اَور فضیلت کے مقام پرہم آنحضرت صلی اﷲ علیہ سلم کوآخری مانتے ہیں اَوراِن معنوں میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السّلام نے بارباراپنے دعوے کی وضاحت فرمائی ہے ۔فرماتے ہیں ہم نے توجو کچھ پایا ہے اُس سے پایاہے۔ ؂
سب ہم نے اُس سے پایاشاہد ہے تُوخدایا
وہ جس نے حق دِکھایا وہ مَہ لِقا یہی ہے 
کہ ہم نے توسب محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کے وسیلے سے پایا ہے اَوراَے خدا! تُوگواہ ہے اِس بات کاکہ اپنی طرف سے نہ ہم کچھ لائے ، نہ ہمیں کوئی فضیلت حاصل ہوئی اَورجس نے حق یعنی خدا دِکھایا ہے وہ محبوبِ اَزلی یہی محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم ہیں۔اَوراِسی مضمون کاشعر ہے۔ ؂
اُس نورپرفِدا ہوں اُس کاہی مَیں ہوا ہوں
وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں ،بس فیصلہ یہی ہے
……’اُس نُورپرفِدا ہوں اُس کاہی مَیں ہوا ہوں‘۔ مَیں تومحمدمصطفی ﷺکے حُسنِ اَزل پر، اُس کے نُورپرفِدا ہوچکا ہوں اَوراُسی کاہوگیا ہوں ۔ ’وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ‘۔ وہی ہیں ، مَیں ہے ہی کچھ نہیں ، میرا وجود ہی اُس کے اَندرمٹ چکا ہے کامل طورپر۔ یہ دعویٰ ہے جس کونعوذباﷲ من ذالک، گستاخی کادعویٰ اَوربرابر کی نبوّت کادعویٰ اَورمقابلے کادعویٰ بنا کرمسلمانوں کو مولوی اِشتعال دِلاتے ہیں اَوراِن بیچاروں کونہ اَپنے دین کاپتہ نہ کِسی اَورکے دین کا پتہ، اصل بات یہی ہے۔……۔
خَاتَم کے معنی
خَاتَم کامعنیٰ جواَصل لفظ ہے قرآنِ کریم میں اُس کامعنیٰ جماعت احمدیہ مختلف طریقے پر پرکھتی ہے، بتاتی ہے اُن کواَوریہ دعویٰ کرتی ہے کہ خَاتَم کے ہرمعنے پرجوثابت شدہ ہیں ہم یقین رکھتے ہیں اَورآپ نہیں رکھتے۔یہ مقابلہ کررہے ہیں ہم تومولویوں سے ۔وہ ہماری بات آپ تک پہنچنے نہیں دیتے۔ پاکستان گورنمنٹ نے ساری کتابیں ضبط کرلی ہیں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی بھی اَوراِس مضمون پرجوبھی کچھ لکھا جاتا ہے اُسے ضبط کرلیتے ہیں۔اَگرہماری بات بودی تھی، جھوٹی تھی، کھوکھلی تھی توحکومت کواپنے خرچ پرہماری باتیں لوگوں تک پہنچانی چاہئیں تھیں۔وہ روکیں کیوں ڈال رہے ہیں؟ ڈرتے ہیں۔ پتہ ہے یہ بات پہنچی تولوگ مان جائیں گے ……۔
ایک غیراحمدی مولوی صاحب سے دلچسپ گفتگو
ایک دفعہ ایک مولوی صاحب ربوہ تشریف لائے ۔ کئی دفعہ ایسا ہوا مگرایک دفعہ ایسا ہوا۔…… پُرانی بات ہے۔ مَیں خلیفہ اُس وقت نہیں تھا۔…… مَیں نے اُن سے کہا کہ آپ مجھ سے ختمِ نبوّت پہ بحث کرنے کے لئے آئے ہیں پہلے اُصول طے کرلیں۔ کہتے ہیں، کرو۔ مَیں نے کہا مَیں اِس بات پرمناظرہ کروں گاکہ ختمِ نبوّت پرمَیں کامل یقین رکھتا ہوں اَورآپ نہیں رکھتے۔ وہ تو ہڑبڑا اُٹھے۔ یہ اُلٹی بات، مَیں اِن کومجرم کرنے کے لئے آیا ہوں اَوریہ مجھے کہہ رہا ہے ، ملزم کررہا ہے کہ تم یقین نہیں رکھتے۔کہنے لگے ، کرومناظرہ !
مَیں نے کہا پہلے آپ مجھے بتائیں کہ وہ کون سا معنیٰ ہے آپ کے نزدیک جس پرآپ سمجھتے ہیں کہ مَیں یقین نہیں رکھتا اَورآپ رکھتے ہیں۔کہتے ’سب نبیوں کوختم کرنے والا‘۔ مَیں نے کہا پکّے ہوجائیں اچھی طرح اِس پہ ۔ ’پکّے پَیریں‘ کہتے ہیں ناں پنجابی میں۔ کہنے لگے پکّے پَیریں، پکّا ہوگیا اِس بات پہ۔ مَیں نے کہااَب بتائیں کِس طرح نبیوں کوختم کیا؟سب کوکیا؟ کہتے ہاں جی سب کوکیا۔ مَیں نے کہاحضرت عیسیٰ ؑ اُن میں شامل تھے؟تھوڑا ساڈرے، کہنے لگے ہاں تھے شامل۔مَیں نے کہا ختم کِس طرح کرتا ہے ایک آدمی دوسرے کو؟یاجسمانی طورپرقتل کرتا ہے یااُس کافیض ختم کرتاہے۔ تیسراتوکوئی معنیٰ نہیں ختم کا۔آپ کہتے ہیں کہ حضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و سلم سے پہلے جتنے نبی گزرے تھے وہ اَپنی موت آپ مَر گئے تھے اَورحضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے خود توقتل نہیں کیااُن کو۔test case صرف ایک باقی تھایعنی حضرت مسیحؑ، وہ اِتّفاقاً زندہ رہ گئے تھے۔اَورحضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و سلم اُن کوختم کرنے سے پہلے جسمانی معنوں میں آپ ختم ہوگئے۔اِتناشیطانی عقیدہ ہے ، اِتنا ظالمانہ عقیدہ ہے کہ آپ کے ترجمے کی رُو سے مسیحؑ خاتَم ہیں، نہ کہ حضرت محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم۔
 مَیں نے کہاآپ اَب یہ سوچئے۔ آپ پہلے پیدا ہوئے ہیں ۔( مسیحؑ بھی پہلے پیدا ہوئے ۔) آپ کاایک بیٹا آپ کے سامنے پیدا ہوتا ہے ، آپ کے سامنے فوت ہوجاتا ہے اَورآپ اُس سے چالیس سال بعدفوت ہوتے ہیں توآپ بعد میں فوت ہوئے ہیں یا وہ بعد میں فوت ہوا ہے۔پہلے بھی آپ اَوربعد میں بھی آپ۔ یہ ہے خاتمیّت!؟آپ کابیٹا آپ کے سامنے پیدا ہواچند دِن رہ کے مَرگیا وہ کہاں سے خاتَم بن گیا؟توحضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کے متعلق آپ کایہ گستاخانہ عقیدہ ہے کہ نام اُن کاخاتَم تھالیکن تھے مسیحؑ خاتَم۔ کیونکہ ایک وقت میں یہ دونبی زندہ تھے۔ایک ختم ہوگیا،(جسمانی معنیٰ جولے رہے ہیں،) اَوردوسراختم نہیں ہوا۔ وہ جاری رہا۔وہ بہت بعد میں جاکے ختم ہوگا۔ توخاتم وہ ہوگا جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کووفات پاتے دیکھ لیا،نہ کہ وہ جوپہلے مَرگیا۔
دوسرامعنٰی ہے فیض کا، فیض بند کردیا۔ مَیں نے کہاآپ بتایئے کہ جب اُمّتِ محمدیہ صلی اﷲ علیہ و سلم موت کے کنارے پہ پہنچ جائے گی، جان کنی کی حالت میں ہوگی، جب اُس کے بچنے نہ بچنے کی باتیں ہورہی ہوں گی اُس وقت کون آکے بچائے گااُس کو؟مسیحؑ آسمان سے آئے گااَوربچائے گاکہ نہیں؟کہتے ہاں۔مَیں نے کہافیض کہاں ختم ہوا اُس کا؟اُس نے توفیض جاری کردیااَپنااُمّتِ محمدیہ میں۔ محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اُمّت اُس کے زیرِاِحسان آگئی۔اَگرنہ وہ بچاتاتواُمّت ختم تھی۔ تومحسنِ اعظم کون ہوا؟فیض رَساں کون ہوا؟اَورکِس نے فیض قبول کیا؟ جس کی اُمّت کوبچانے والا باہرسے آیا وہ توہمیشہ کے لئے اُس کے زیرِاِحسان آگیا۔ اِتناظلم۔ بجائے اِس کے کہ فیض ختم کرتے، اُس کے فیض کے نیچے آپؐ آگئے؟ نعوذباﷲ من ذالک۔اَب بتایئے آپ خاتَم مانتے ہیں یامَیں خاتَم مانتا ہوں؟
کہتے نہیں ،نہیں اِس کا ایک اَورمطلب بھی ہے ۔ مطلب ذراسُنیں کیسا عجیب ہے ۔کہتے ہیں بعض دفعہ ایک ذلیل سے آدمی سے بھی فائدے اُٹھالیتے ہیں لوگ، اُس پراِحسان کرتے ہیں ۔ بادشاہ کسی سے خدمت قبول کرلیتے ہیں اَوراُن کااِحسان ہوتا ہے ۔ حضرت محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم توبادشا ہ ہیں ۔ مسیحؑ سے اُس پہ اِحسان کرکے خدمت قبول کرلی۔
 مَیں نے کہا مولوی صاحب فرضی باتوں سے بات نہیں بنے گی۔ذراغورسے اِس مضمون کوپھر سوچیں۔ ایک بادشاہ خواہ کتنا عظیم الشان بادشا ہ ہو اَگروہ بھوکا مَررہا ہوکِسی شکارمیں ، کِسی جگہ گھوم کرتوکوئی اَدنیٰ سے اَدنیٰ آدمی روٹی کاایک ٹکڑا دے کر اُس کی جان بچاتا ہے تووہ محسن بن جاتا ہے اَورہمیشہ کے لئے وہ بادشاہ اُس کے ممنونِ اِحسان ہوتا ہے ۔ کہتا ہے کہ جومانگومَیں دیتا ہوں ۔ بعض کہتے ہیں کہانیوں میں، آدھی سلطنت میں شریک کرلیتا ہوں۔ وقت پڑے پرجوخدمت کرتا ہے وہاں خدمت لینے والا زیر ِاِحسان ہوتا ہے نہ کہ خدمت کرنے والا۔وہ خدمت اَورہے کہ بادشاہ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اَورآپ ایک سبزپتہ بھی لے کے چلے جائیں توبادشاہ قبول کرتا ہے ۔ یہ تونہیں کہ اُس کواِس کافائدہ پہنچا ہے ۔وہ اِحسان کے طورپر خدمت قبول کرتا ہے ۔آپ یہ مضمون نہیں بیان کررہے ۔ آپ یہ اِیمان رکھتے ہیں کہ اَگرمسیحؑ نازل نہ ہوتواُمّتِ محمدیہ ختم ہوجائے گی ، ہلاک ہوجائے گی۔اَوراُس کوبچانے والااُمّت میں سے ایک بھی شخص نہیں۔ مہدیؔ آچکا ہے پھربھی نہیں بچی۔ پھربھی مسیح کی ضرور ت ہے اَورجب تک وہ غیرقوم کانبی نہ آئے اُس وقت تک یہ اُمّت بچتی نہیں۔ آپ کہتے ہیں یہ اِحسان ہوگیا۔اُس پراِحسان ہوگیا۔……یہ جوعقیدہ ہے ،اُمّتِ محمدیہ کوہمیشہ کے لئے ذلیل ورسوا کرنے والا عقیدہ ہے ۔اَورخاتم مسیحؑ کومانتا ہے جس کاآخری فیض دُنیانے دیکھا۔ 
اَب زمانے کے لحاظ سے بھی دیکھیں! اَگرمسیحؑ آگیا، وہ پرانا مسیحؑ آگیا تو مؤرّخ کیا لکھے گا کہ آخری رسول جس نے بنی نوع اِنسان کوعظیم الشّان فیض پہنچایاتھاوہ کون تھا؟مسیح اِبنِ مریمؑ۔ وہ آیااَوراُمّت کے دِن پھرے اَوراُمّتِ محمدیہ کوغالب کرگیاساری دُنیاپر، فیضِ عظیم عطاکرگیا۔اِس لئے خاتَم توپھروہی بنتے ہیں ۔مَیں نے کہاکہ اِن دومعنوں میں ختم کردیا۔ اَب آپ بتایئے کہ کون ہے ؟
ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ لازماً مرچکے تھے اَورہرنبی مَرچکاتھارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی بعثت کے وقت۔ اِس لئے آپؐ خاتمِ کُلتھے۔
نمبردو:ہم مانتے ہیں کہ ہرنبی کافیض بھی ختم ہوچکاتھاصرف ایک نبی کافیض جاری تھاجومحمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کافیض تھااَور قرآنِ کریم کی دوسری آیت خاتمیت کے اِس مضمون کوخود بیان کررہی ہے اَورشک سے بالا بیان کررہی ہے ۔اِس کے بعد آپ کے پاس ہم پراِلزام رکھنے کی کیا بات رہ جاتی ہے؟ وہ ہے وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا(النساء:70)۔ ختمِ نبوّت کا جواِعلان کرنے والے مولوی ہیں یہ آیت بتاتے ہی نہیں آپ کو،یہ چھپاکررکھ لیتے ہیں۔اُن کوپتہ ہے کہ یہ سامنے آئی توختمِ نبوّت کامضمون کھل جائے گا۔ ہمارا سارا دھوکہ فریب ختم ہوجائے گا۔
اِس آیت میں وہ اِعلان ہے جومَیں نے اَبھی بیان کیا ہے۔ اِس آیت کا مضمون سمجھنے سے پہلے ایک اَوربات بھی سمجھ لیں وہ بھی مَیں نے مولوی صاحب سے کی اَورآپ کے سامنے بھی رکھتاہوں کہ خاتم کواَگراِسم فاعل کے طورپرلیں، دوسروں کوختم کرنے والا ،توخودکشی کرنے والاتونہیں ناں بنے گا۔ تمام نبیوں کوختم کرنے والااَگراَپنے آپ کوبھی ختم کرلے پھرتوقصّہ ہی ختم ہوگیا۔پھرتوتعریف کی بات ہی نہ رہی۔ قاتل دوسرے کومقتول بناتا ہے ۔ ضاربِ دوسرے کومضروب بناتا ہے ۔مارنے والادوسرے کومارتا ہے ۔ جواَپنے آپ کومارنے لگ جائے وہ توپھرپاگل پن کامضمون شروع ہوجاتا ہے۔وہ توتعریف کامضمون ہی نہیں رہتا۔وہ آیت جو مَیں نے اَب پڑھی ہے اُس میں وہ جواب ہے ۔ وہ آیت بیان فرماتی ہیمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ جوکوئی بھی اَﷲ کی اَوراِس رسول کی یعنی محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اِطاعت کرے ۔ باقی سب نبیوں پراِیمان لانافرض، لیکن اِس آیت نے سب نبیوں کی اطاعت کااعلان کردیا۔ یہ نہیں فرمایامَنْ یُطِعِ الرُّسُلَ ۔ فرمایا جوکوئی بھی محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اطاعت ،اَﷲ کے بعداِس رسول کی اطاعت کرے گا۔ کیا ہوگااُس سے ؟ اَب آپ سوچیے، کیاہوناچاہئے؟کوئی جرم کیا ہے اُس نے ؟ سزاملنی چاہئے؟ کیاجواب ہے ؟ نہیں ، اِنعام ملنا چاہئے۔ جوشخص بھی اَﷲ کی اطاعت کرے ، محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اطاعت کرے ۔ آگے اِنعاموں کااَوراَنوارکادروازہ کھل جانا چاہئے۔ 
اِس سے پہلے ایک اَورسوال بھی اُٹھادیتا ہوں اُس پربھی سادہ دِل سے ، صاف دِل سے غورکرلیں۔ پہلے بھی تولوگ اَﷲ کی اَورنبیوں کی اطاعت کیا کرتے تھے۔اُن کوبھی اِنعام ملا کرتے تھے۔سب کوملتے تھے۔اَب جب اَﷲ کہہ رہا ہے کہ جواَﷲ اَوراِس نبی کی اطاعت کرے گااُس کے بعد کیا یہ اعلان ہوگا کہ اُس کوپہلوں سے کم اِنعام ملیں گے یاکم اَز کم اُتنے ملیں گے ۔اَگرکہیں گے کہ کم اِنعام ملیں گے توپتہ چلے گاکہ سب نبیوں سے کمتَرنبی آیا ہے، نعوذباﷲ من ذالک۔پہلے تمام نبیوں کی پیروی خدا کی پیروی کے بعدہرقسم کے اِنعامات کاوارث کردیتی تھی ۔ مگرقرآن یہ اِعلان کررہا ہے کہ اِس نبی کی پیروی سارے اِنعام نہیں دے گی، کچھ رکھ لے گی اَورکچھ دے گی توکیاثابت ہوگا؟اعلیٰ نبی آیا ہے یانعوذباﷲ من ذالک کمترنبی آیا ہے؟
اَب دیکھئے یہ آیت کیااعلان کرتی ہے ۔ پھرمضمون کھل جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہیمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ۔ اَب صرف یہی لوگ ہوں گے جواِنعام پانے والوں میں شمار کئے جائیں گے۔ دوسروں کافیض بنداِس کاجاری۔ اَوراِنعام پانے والے گروہ میں اَب صرف یہی لوگ شمار ہوں گے جومحمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی پیروی کریں گے۔
 اَب تشریح رہ جاتی ہے۔ باقی کون سے اِنعام؟ سارے اِنعام یاچنداِنعام؟پیروی سے ملنے والے اِنعام کیا ہیں؟ فرمایا مِنَ النَّبِیّٖنَنبیوں میں سے، وَالصِّدِّیْقِیْنَاَورصدیقوں میں سے، وَالشُّھَدَآءِ اَورشہیدوں میں سے،وَالصَّالِحِیْنَاَورصالحین میں سے، وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًایہ رفاقت ہے جوسب سے حَسین رفاقت ہے ۔اُمّتِ محمدیہ ایسے لوگوں میں شمار کی جائے جہاں نبوّت کے اِنعام بھی مل رہے ہوں، صدیقیت کے بھی مل رہے ہوں،شہادت کے بھی مل رہے ہوں، صالحیت کے بھی مل رہے ہوں۔ یہ ہے شان۔ یہ اعلان کیا ہے اِس آیت نے۔ اَورعلماء کہتے ہیں، نہیں۔ اُن سے پوچھیں توکہیں گے یہ اعلان ہے کہمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ جوشخص بھی اَﷲ اَوراِس رسول کی اِطاعت کرے گااُسے وہ سارے اِنعام نہیں ملیں گے جوپہلے نبیوں کی اطاعت سے ملا کرتے تھے۔پہلے نبیوں کی اطاعت سے نبوّت مل جایا کرتی تھی ۔ اِس نبی کی اطاعت کی فہرست سے ہم نے نبوّت کاٹ دی ہے۔ صرف صدّیق، شہیداَورصالح بنانے والانبی آیا اَوراِس کی اُمّت میں اَب کبھی نبوّت قائم نہیں ہوگی۔ یہ اعلان کررہی ہے۔اَگریہ اعلان سچا ہے توپھرمرتبہ اُونچا ہوگایاکم ہوگا؟پہلے نبی گَر،نبی آتے رہے اَب صرف کمتَردرجہ دینے والا نبی آیا ہے۔ نعوذباﷲ من ذالک۔ اِتنا گستاخانہ تصوّر ہے اَورقرآن کی آیت اِس تصوّر کوجھٹلارہی ہے۔
اَگراُمّتی نبی بھی بند ہے ، یہ ہے مسئلہ صرف توجہاں اُمّتیوں کاذکرکیا ہے وہاں سب سے پہلے فہرست میں نبیوں کاذکرکیوں کردیا؟مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ۔اِنعام پانے والے لوگوں میں یہ لوگ ہیں۔ اَوراِنعام پانے والے کون ہیں؟فہرست کیاشمارکی؟مِنَ النَّبِیّٖنَپہلے نبیوں کانام رکھا۔اِس لئے جماعت احمدیہ کاعقیدہ ہی سچی اطاعت کاعقیدہ ہے۔ سچے عشقِ محمد مصطفی ؑکاعقیدہ ہے اَورخالصۃً قرآنِ کریم پرمبنی ہے۔ایک اَدنیٰ بھی فساد اِس عقیدہ میں نہیں ہے۔ اَورجویہ بیان کرتے ہیں اُن میں ذراچھان بین کرکے آگے بڑھیں آپ کوفساد نظرآجائے گا۔گستاخی نظرآجائے گی۔ ……‘‘
٭……٭……٭





مکمل تحریر >>

Thursday 23 March 2017

23 مارچ ، یوم مسیح موعود اور جماعت احمدیہ کے اغراض و مقاصد



بیعت کیا ہے

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بیعت ہے کیا۔ اس کی وضاحت مَیں احادیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات سے کرتا ہوں۔
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں : ’’ یہ بیعت جو ہے اس کے معنے اصل میں اپنے تئیں بیچ دینا ہے۔ اس کی برکات اور تاثیرات اسی شرط سے وابستہ ہیں جیسے ایک تخم زمین میں بویا جاتا ہے تو اس کی ابتدائی حالت یہی ہوتی ہے کہ گویا وہ کسان کے ہاتھ سے بویا گیا اور اس کا کچھ پتہ نہیں کہ اب وہ کیا ہو گا۔ لیکن اگر وہ تخم عمدہ ہوتا ہے اور اس میں نشوونما کی قوت موجود ہوتی ہے تو خدا کے فضل سے اور اس کسان کی سعی سے وہ اُوپر آتا ہے اور ایک دانہ کا ہزار دانہ بنتا ہے۔ اسی طرح سے انسان بیعت کنندہ کو اوّل انکساری اور عجز اختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنی خودی اور نفسانیت سے الگ ہونا پڑتا ہے تب وہ نشوونما کے قابل ہوتا ہے لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتاہے اسے ہرگز فیض حاصل نہیں ہوتا۔ ‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 455`454جدید ایڈیشن)

بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے

پھر آپ ؑ فرماتے ہیں : ’’ بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم نے اپنی جان آج خدا تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دی۔ یہ بالکل غلط ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں چل کر انجام کار کوئی شخص نقصان اٹھاوے۔ صادق کبھی نقصان نہیں اٹھا سکتا۔ نقصان اسی کا ہے جو کاذب ہے۔ جو دنیا کے لئے بیعت کو اور عہد کو جو اﷲ تعالیٰ سے اس نے کیا ہے توڑ رہا ہے۔ وہ شخص جو محض دنیا کے خوف سے ایسے امور کا مرتکب ہو رہا ہے ، وہ یاد رکھے بوقتِ موت کوئی حاکم یا بادشاہ اسے نہ چُھڑا سکے گا۔ اس نے اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْن کے پاس جانا ہے جو اس سے دریافت کرے گا کہ تُو نے میرا پاس کیوں نہیں کیا؟ اس لئے ہر مومن کے لئے ضروری ہے کہ خدا جو مَلِکُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْض ہے اس پر ایمان لاوے اور سچی توبہ کرے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 23جدید ایڈیشن)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان ارشادات سے واضح ہے کہ بیعت چیز کیا ہے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک یہ بات سمجھ جائے کہ میری ذات اب میری اپنی ذات نہیں رہی۔ اب ہمیں بہر حال اﷲ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنی ہو گی، ان کا تابع ہونا ہو گا اور ہمارا ہر فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو گا تو یہی خلاصہ ہے دس شرائط بیعت کا۔
اب مَیں مختلف احادیث پیش کرتا ہوں جن میں بیعت کے متعلق مختلف الفاظ ملتے ہیں۔
عائذ اﷲ بن عبد اﷲ روایت کرتے ہیں کہ عبادہ بن صامت ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے غزوۂ بدر میں شمولیت اختیارکی اور جنہوں نے بیعت عقبہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ عبادہؓ بن صامت نے انہیں بتایا کہ رسول اﷲ ﷺنے یہ بات اس وقت فرمائی جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت موجود تھی کہ آؤ میری اس شرط پر بیعت کرو ’’ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ شَیْئًا‘‘ کہ تم اﷲ کا کسی چیز کو بھی شریک نہ قرار دوگے اور نہ تم چوری کروگے اور نہ ہی تم زنا کروگے اور نہ تم اپنی اولاد کو قتل کرو گے اور نہ تم بہتان طرازی کروگے اور نہ ہی تم کسی معروف بات میں میری نافرمانی کروگے۔
پس تم میں سے جس نے اس عہد بیعت کو پورا کر دکھایا تو اس کو اجر دینا اﷲ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اور جس نے اس عہد میں کچھ بھی کمی کی اور اس کی اسے دنیا میں سزا مل گئی تو یہ سزا اس کے لئے کفارہ بن جائے گی۔اور جس نے ا س عہد بیعت میں کچھ کمی کی پھر اﷲ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تو اس کا معاملہ اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر چاہے تو اسے سزا دے اور اگر وہ پسند فرمائے گا تو اس سے درگزر فرمائے گا۔
(صحیح بخاری۔ کتاب مناقب الانصار۔ باب وفود الانصار الی النبی ؐ بمکۃ وبیعۃ العقبۃ) 
پھر ایک حدیث ہے۔حضرت عبادہ بن صامت ؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول ﷺکی بیعت اس شرط پر کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔آسانی میں بھی اور تنگی میں بھی ، خوشی میں بھی اور رنج میں بھی اور ہم اُولوالامر سے نہیں جھگڑیں گے اور جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے حق پر قائم رہیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ 
(نسائی ،کتاب البیعۃ ،باب البیعۃ علی السمع والطاعۃ)
اُمُّ الْمُؤْمِنِیْن حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ آیت کریمہ ﴿ یَااَ یُّھَا النَّبِیُّ اِذَا جَاءَ کَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْھِنَّ وَاَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْلَھُنَّ اللَّہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ (الممتحنۃ : 13)
(یعنی اے نبی! جب تیرے پاس عورتیں مسلمان ہو کر آئیں اور بیعت کرنے کی خواہش کریں، اس شرط پر کہ وہ اﷲ کا شریک کسی کو نہیں قرار دیں گی اور نہ ہی چوری کریں گی اور نہ ہی زنا کریں گی اور نہ ہی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ ہی کوئی جھوٹا بہتان کسی پر باندھیں گی۔ اور نیک باتوں میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی۔ تو ان کی بیعت لے لیا کر، اور ان کے لئے استغفار کیا کر۔ اﷲ بہت بخشنے والا (اور) بے حد رحم کرنے والا ہے) کے مطابق عورتوں کی بیعت لیتے تھے۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ بیعت لیتے وقت رسول اﷲ ﷺ کا دستِ مبارک کسی عورت کے ہاتھ سے مس نہ ہوتا تھا سوائے اس عورت کے جو آپ کی اپنی ہوتی۔ (صحیح بخاری ، کتاب الاحکام ، باب بیعۃ النساء )
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت لینے کے آغاز سے قبل بعض نیک فطرت اور اسلام کا درد رکھنے والے بزرگوں کو یہ احساس تھا کہ اس وقت اسلام کی اس ڈولتی کشتی کو ڈوبنے سے بچانے والا اور اسلام کا صحیح درد رکھنے والا اگر کوئی شخص ہے تو وہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہی ہیں اور یہی مسیح و مہدی بھی ہیں۔ چنانچہ لوگ آپ سے درخواست کیا کرتے تھے کہ آپ بیعت لیں لیکن حضور ابتدا ء ً ہمیشہ یہی جواب دیتے تھے کہ ’’ لَسْتُ بِمَأْ مُوْرٍ ‘‘ (یعنی میں مامور نہیں ہوں) چنانچہ ایک دفعہ آپ نے میر عباس علی صاحب کی معرفت مولوی عبدالقادر صاحب ؓ کو صاف صاف لکھا کہ ’’ اس عاجز کی فطرت پر توحید اور تفویض الی اﷲ غالب ہے اور ………… چونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خداوند کریم کی طرف سے کچھ علم نہیں۔ اس لئے تکلف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں ۔ لَعَلَّ اللّٰہُ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا- مولوی صاحب اخوت دین کے بڑھانے میں کوشش کریں۔ اور اخلاص اور محبت کے چشمہ صافی سے اس پودا کی پرورش میں مصروف رہیں تو یہی طریق انشاء اﷲ بہت مفید ہو گا۔ 
(حیات احمد جلد دوم نمبر دوم صفحہ 13`12)

اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے کا حکم

آخر چھ سات برس بعد 1888ء کی پہلی سہ ماہی یعنی شروع کے تین مہینوں میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بیعت لینے کا ارشاد ہوا۔ یہ ربانی حکم جن الفاظ میں پہنچا وہ یہ تھے۔ ’’ اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا- اَلَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُاللّٰہُ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ - ‘‘
 (اشتہار یکم دسمبر 1888ء صفحہ 2)
یعنی جب تو عزم کر لے تو اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ کر اور ہمارے سامنے اور ہماری وحی کے تحت کشتی تیار کر۔ جو لوگ تیرے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ اﷲ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہو گا۔
حضرت اقدس کی طبیعت اس بات سے کراہت کرتی تھی کہ ہر قسم کے رطب و یابس لوگ اس سلسلہ بیعت میں داخل ہو جائیں۔ اور دل یہ چاہتا تھا کہ اس مبارک سلسلہ میں وہی مبارک لوگ داخل ہوں جن کی فطرت میں وفاداری کا مادہ ہے اور کچے نہیں ہیں۔ اس لئے آپ کو ایک ایسی تقریب کا انتظار رہا۔ کہ جو مخلصوں اور منافقوں میں امتیاز کر دکھلائے۔ سو اﷲ جَلَّ شَانُہٗ نے اپنی کمال حکمت و رحمت سے وہ تقریب اسی سال نومبر 1888ء میں بشیر اول کی وفات سے پیدا کر دی (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ بیٹے تھے)۔ ملک میں آپ کے خلاف ایک شور مخالفت برپا ہوا اور خام خیال بدظن ہو کر الگ ہو گئے لہٰذا آپ کی نگاہ میں یہی موقعہ اس بابرکت سلسلے کی ابتداء کے لئے موزوں قرار پایا۔ اور آپ نے یکم دسمبر 1888ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ سے بیعت کا اعلان عام فرما دیا۔حضرت اقدس نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ استخارہ مسنونہ کے بعد بیعت کے لئے حاضر ہوں۔
(اشتہار تکمیل تبلیغ 12؍جنوری 1889ء)
یعنی پہلے دعا کریں، استخارہ کریں، پھر بیعت کریں۔
اس اشتہار کے بعد حضرت اقدس قادیان سے لدھیانہ تشریف لے گئے اور حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کے مکان واقع محلہ جدید میں فروکش ہوئے۔
(حیات احمد جلد سوم حصہ اول صفحہ 1)

بیعت کے اغراض و مقاصد

یہاں سے آپ نے 4؍ مارچ 1889ء کو ایک اور اشتہار میں بیعت کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا۔
’’ یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ مُتَّقِین یعنی تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے ۔ تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے اور ان کا اتفاق اسلام کے لئے برکت و عظمت و نتائج خیر کا موجب ہو۔ اور وہ ببرکت کلمۂ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک و مقدس خدمات میں جلد کام آسکیں اور ایک کاہل اور بخیل و بے مصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوں نے اپنے تفرقہ و نا اتفاقی کی و جہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے خوبصورت چہرہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگا دیا ہے اور نہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں۔ اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ بھی غرض نہیں اور بنی نوع کی بھلائی کے لئے کچھ جوش نہیں بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں ۔ یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الٰہی اور ہمدردی ء بندگانِ خدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آئے …… خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے تا دنیا میں محبت الٰہی اور توبہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے۔ سو یہ گروہ اس کا ایک خاص گروہ ہو گا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا۔ اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا۔ اور وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشینگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزارہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا۔ وہ خود اس کی آب پاشی کرے گا اور اس کو نشوونما دے گا ۔ یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے۔ وہ اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہر یک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی اس ربِّ جَلیل نے یہی چاہا ہے وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ہر یک طاقت اور قدرت اسی کو ہے۔ ‘‘
اسی اشتہار میں آپ نے ہدایت فرمائی کہ بیعت کرنے والے اصحاب 20؍ مارچ کے بعد لدھیانہ پہنچ جائیں ۔
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 196تا 198)

سلسلۂ بیعت کا آغاز

چنانچہ اس کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 23؍ مارچ 1889ء کو صوفی احمد جان صاحب کے مکان واقع محلہ جدید میں بیعت لی اور حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب ؓ  کی روایت کے مطابق بیعت کے تاریخی ریکارڈ کے لئے ایک رجسٹر تیار کیا گیا جس کا نام ’’ بیعت توبہ برائے تقویٰ و طہارت‘‘ رکھا گیا۔
اس زمانہ میں حضور علیہ السلام بیعت کرنے کے لئے ایک کمرے میں ہر ایک کو الگ الگ بلاتے تھے اور بیعت لیتے تھے۔ چنانچہ سب سے پہلی بیعت آپ نے حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کی لی۔ بیعت کرنے والوں کو نصائح فرماتے ہوئے حضرت اقدس فرماتے ہیں :۔
’’ اس جماعت میں داخل ہو کر اوّل زندگی میں تغیر کرنا چاہئے کہ خدا پر ایمان سچا ہو اور وہ ہر مصیبت میں کام آئے۔ پھر اس کے احکام کو نظر خِفّت سے نہ دیکھا جائے بلکہ ایک ایک حکم کی تعظیم کی جائے اور عملاً اس تعظیم کا ثبوت دیا جائے۔ ‘‘
’’ ہمہ وجوہ اسباب پر سرنگوں ہونا اور اسی پر بھروسہ کرنا اور خدا پر توکل چھوڑ دینا یہ شرک ہے اور گویا خدا کی ہستی سے انکار۔ رعایت اس حد تک کرنی چاہئے کہ شرک لازم نہ آئے۔ ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم رعایت اسباب سے منع نہیں کرتے مگر اس پر بھروسہ کرنے سے منع کرتے ہیں۔ دست درکار دل بایا روالی بات ہونی چاہئے۔ ‘‘
آپ فرماتے ہیں : ’’ دیکھو تم لوگوں نے جو بیعت کی ہے اور اس وقت اقرار کیا ہے اس کا زبان سے کہہ دینا تو آسان ہے لیکن نباہنا مشکل ہے۔ کیونکہ شیطان اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ انسان کو دین سے لاپرواہ کر دے۔ دنیا اور اس کے فوائد کو تو وہ آسان دکھاتا ہے اور دین کو بہت دور۔ اس طرح دل سخت ہو جاتا ہے اور پچھلا حال پہلے سے بدتر ہو جاتا ہے۔ اگر خدا کو راضی کرنا ہے تو اس گناہ سے بچنے کے اقرار کو نبھانے کے لئے ہمت اور کوشش سے تیار رہو۔ ‘‘
فرمایا : ’’ فتنہ کی کوئی بات نہ کرو۔ شر نہ پھیلائو۔ گالی پر صبر کرو۔ کسی کا مقابلہ نہ کرو۔ جو مقابلہ کرے اس سے بھی سلوک اور نیکی کے ساتھ پیش آئو۔ شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلائو۔ سچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا راضی ہو جائے۔ اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کر کے یہ شخص وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ مقدمات میں سچی گواہی دو۔ اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ پورے دل ، پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جائے۔ ‘‘  (ذکر حبیب صفحہ 436تا 438)
مارچ 1903میں عید کا دن تھا ، چند احباب بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا :۔
’’ دیکھو جس قدر آپ لوگوں نے اس وقت بیعت کی ہے (لگتا ہے بیعت کے لئے لوگ آئے ہوئے تھے) اور جو پہلے کر چکے ہیں ان کو چند کلمات بطور نصیحت کے کہتا ہوں ۔ چاہئے کہ اسے پوری توجہ سے سنیں۔ ‘‘
’’ آپ لوگوں کی یہ بیعت ، بیعتِ توبہ ہے۔ توبہ دو طرح ہوتی ہے۔ ایک تو گزشتہ گناہوں سے یعنی ان کی اصلاح کرنے کے واسطے جو کچھ پہلے غلطیاں کر چکا ہے۔ ان کی تلافی کرے اور حتی الوسع ان بگاڑوں کی اصلاح کی کوشش کرنا اور آئندہ کے گناہوں سے باز رہنا اور اپنے آپ کو اس آگ سے بچائے رکھنا۔
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ توبہ سے تمام گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ وہ توبہ صدق دل اور خلوص نیت سے ہو اور کوئی پوشیدہ دغابازی دل کے کسی کونہ میں پوشیدہ نہ ہو۔ وہ دلوں کے پوشیدہ اور مخفی رازوں کو جانتا ہے۔ وہ کسی کے دھوکہ میں نہیں آتا۔ پس چاہئے کہ اس کو دھوکہ دینے کی کوشش نہ کی جاوے اور صدق سے ، نہ نفاق سے ، اس کے حضور توبہ کی جاوے۔ توبہ انسان کے واسطے کوئی زائد یا بے فائدہ چیز نہیں ہے اور اس کا اثر صرف قیامت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سے انسان کی دنیا اور دین دونو سنور جاتے ہیں۔ اور اسے اس جہان میں اورآنے والے جہان دونو میں آرام اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد 3صفحہ 144`143 جدید ایڈیشن)

انتخاب از کتاب : 


مکمل تحریر >>