بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ
وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
وَ عَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْد
اَشْھَدُ
اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ
مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ ۔
اَللّٰھُمَّ
صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی عَبْدِکَ الْمَسِیْحِ
الْمَوْعُوْدِ وَ بَارِکْ وَ سَلِّمْ ۔
دوستو! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مجھے اس سال پھر ذکرِ حبیب یعنی حضرت مسیح موعود بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے خاص خاص حالات اور نشانات اور اخلاقِ فاضلہ کے مضمون پر تقریر کرنے کے لئے کہا گیا ہے ۔ اس سے قبل اسی مضمون پر خدا کے فضل سے میری تین تقریریں ہوچکی ہیں ۔ پہلی تقریر ۱۹۵۹ء کے جلسہ سالانہ میں ہوئی تھی جو سیرتِ طیبہ کے نام سے چھپ چکی ہے اور انگریزی میں بھی اس کا ترجمہ ہوچکا ہے اس تقریر کا مرکزی نقطہ محبتِ الٰہی اور عشقِ رسولؐ تھا۔ خدا کے فضل سے یہ تقریر جماعت کے دوستوں اور غیر از جماعت اصحاب میں یکساں مقبول ہوئی کیونکہ اس کے لفظ لفظ میں حضرت مسیح موعود بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی عاشقی شان ہویدا ہے ۔ دوسری تقریر ۱۹۶۰ء کے جلسہ سالانہ میں ہوئی تھی جو درِّمنثور کے نام سے چھپ چکی ہے اور بہت دلچسپ اور دلکش روایات اور بعض نئی تحقیقاتوں پر مشتمل ہے اور انگریزی میں بھی اس کا ترجمہ ہوکر بیرونی ممالک میں پہنچ چکا ہے ۔ یہ تقریر بھی خدا کے فضل سے پہلی تقریر کی طرح بہت مقبول ہوئی اور اپنوں اور بیگانوں دونوں نے اسے پسند کیا۔ تیسری تقریر ۱۹۶۱ء کے جلسہ سالانہ میں ہوئی جو درِّ مکنون کے نام سے چھپی ہے اور انگریزی میں بھی اس کا ترجمہ ہوچکا ہے اور یہ انگریزی ترجمہ انشاء اللہ بہت جلد رسالہ کی صورت میں شائع ہوجائے گا ۔ اس تقریر میں زیادہ تر حضرت مسیح موعودؑ کے معجزات اور حضورؑ کے ہاتھ پر غلبۂ اسلام اور دعاؤں کی قبولیت کا ذکر ہے اور الحمد للہ کہ یہ تقریر بھی خدا کے فضل سے مقبول ہوئی اور میں امید کرتا ہوں کہ میرا آسمانی آقا مجھے ان تقریروں کے ثواب سے نوازے گا اور جماعت کے لئے بھی انہیں برکت و رحمت کا موجب بنائے گا۔
موجودہ تقریر اس سلسلہ کی چوتھی تقریر ہے ۔ میں نے اس تقریر کا نام ’’ آئینۂ جمال‘‘ رکھا ہے ۔ کیونکہ میرا ارادہ ہے کہ اس میں زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کی جمالی شان اور اس کے مختلف پہلوؤں کے متعلق کچھ بیان کروں ۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ
اِلَّا بِاللہ ِالْعَظِیْمِ ۔ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْہِ اُنِیْبُ ۔
(۱)
جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کا مرکزی نقطہ مہدویت اور مسیحیت کے دعویٰ کے اردگرد گھومتا ہے۔ آپ ٭نے خدا سے الہام پاکر دعویٰ کیا کہ اسلام میں جس مہدی کے ظہور کا آخری زمانہ میں وعدہ دیا گیا تھا وہ خدا کے فضل سے میں ہی ہوں اور اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ اس زمانہ میں اسلام کو دوبارہ غلبہ عطا کرے گا اور دنیا میں اسلام کا سورج پھر اسی آب و تاب کے ساتھ چمکے گا جیسا کہ وہ اپنے ابتدائی دور میں چمک چکا ہے ۔ آپ نے اس دعویٰ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ دراصل اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے دو بعثتیں مقرر کر رکھی تھیں۔ ایک بعثت اسلام کے دورِ اول کے ساتھ مخصوص تھی جو جلالی رنگ میں ظاہر ہوئی اور محمدیت کی شان کی مظہر تھی۔ اور دوسری بعثت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے جمالی نام احمد کے ساتھ وابستہ تھی آخری زمانہ میں حضور سرورِ کائنات ؐ کے ایک خادم اور نائب کے ذریعہ مقدر تھی۔ یہی وہ بعثت ہے جس کی طرف قرآنِ مجید کی سورۃ جمعہ میں آیت اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْکے الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ ’’یعنی آخری زمانہ میں ایک جماعت ظا ہر ہوگی جس کی رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ایک بروز اور نائب کے ذریعہ تربیت فرمائیں گے‘‘ ۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ والی آیت نازل ہوئی تو صحابہ ؓکے دریافت کرنے پر کہ یا رسول اللہ! یہ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ کی جماعت کون ہے؟ آپ نے اپنے صحابی حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ
’’اگر ایمان دنیا سے اُٹھ کر ثریّا کے دور دراز ستارے پر بھی چلا گیاتو پھر بھی ان اہلِ فارس میں سے ایک شخص اُسے دوبارہ دنیا میں اتار لائے گا۔‘‘
(بخاری کتاب التفسیر،تفسیر سورة جمعۃ )
سو اِس زمانہ میں جو لاریب اٰخَرِیْنَ کا زمانہ ہے اللہ تعالیٰ نے مقدر کررکھا ہے کہ رسول ِاکرم صلی اللہ علیہ و سلم (فداہ نفسی) کے احمد نام کی جمالی شان حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ جو نسلی لحاظ سے فارسی الاصل تھے دنیا میں ظاہر ہو اور اسلام اپنے وسطی دور کی کمزوری کے بعد پھر غیر معمولی ترقی اور عالمگیر غلبہ کی طرف قدم بڑھانا شروع کردے۔ چنانچہ جماعتِ احمدیہ کے وسیع فاتحانہ تبلیغی نظام کے ذریعہ جس نے خدا کے فضل سے ساری دنیا کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اس غلبہ کا بیج بویا جاچکا ہے۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے خدا سے علم پاکر لکھا ہے اب یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور پھلے گا اور کوئی نہیں جو اسے روک سکے۔ یہی وہ مقامِ مہدویت ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حدیث میں بڑی تحدی کے ساتھ فرماتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے کہ
’’اگر دنیا کی زندگی میں صرف ایک دن بھی باقی ہوگا تو تب بھی خدا اس دن کو لمبا کردے گا تاوقتیکہ وہ اس شخص کو مبعوث کردے جو میرے اہل یعنی میرے عزیزوں میں سے ہوگا اور اس کا نام میرے نام کے مطابق ہوگا اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام کے مطابق ہوگا (یہ استعارہ کے رنگ میں کامل موافقت کی طرف اشارہ ہے) اور وہ ظاہر ہوکر اپنے نورِ ہدایت کے ذریعہ دُنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ حالانکہ وہ اس سےپہلے ظلم وجَور سے بھری ہوئی ہوگی۔ ‘‘
(ابوداؤد کتاب الفتن اول کتاب المھدی )
یہ خیال کہ اسلام میں ایک خونی مہدی کی پیشگوئی کی گئی ہے جو اسلام کو دنیا میں جبر کے ساتھ پھیلائے گا بالکل باطل اور بے بنیاد ہے۔ اسلام میں کوئی ایسی پیشگوئی نہیں۔ یہ سب کوتہ بین لوگوں کے سطحی خیالات ہیں کہ استعارے کے کلام کو حقیقت پر محمول کرلیا گیا ہے۔ اس کے لئے بے شمار قرآنی صراحتوں کے علاوہ صرف یہی عقلی دلیل کافی ہے کہ جبر کے نتیجہ میں اخلاص کے بجائے نفاق پیدا ہوتا ہے یعنی یہ کہ دل میں کچھ ہو اور ظاہر کچھ اور کیا جائے اور اسلام سے بڑھ کر نفاق کا کوئی دشمن نہیں۔ قرآن تو یہاں تک فرماتا ہے کہ ’’منافق لوگ قیامت کے دن جہنم کے بدترین حصہ میں ڈالیں جائیں گے۔‘‘
(۲)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دوسرا بنیادی دعویٰ مسیحیت کا دعویٰ ہے یعنی آپ نے اُس مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا جس کی خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث میں امّت محمدیہ کے لئے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں مسلمانوں میں مسیح ناصری کا ایک مثیل ایسے وقت میں ظاہر ہوگا جبکہ دنیا میں مسیحیت کا بڑا زور ہوگا اور نصرانیت تمام اکنافِ عالم میں غلبہ پاکر اپنے مشرکانہ عقائد اور مادی نظریات کا زہر پھیلارہی ہوگی۔ امتِ محمدیہ کا یہ مسیح اسلام کی طرف سے ہوکر مسیحیت کے باطل عقائد کا مقابلہ کرے گا اور اپنے روشن دلائل اور روحانی طاقتوں کے ذریعہ مسیحیت کے غلبہ کو توڑ دے گا۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ
’’خدا ضرور ضرور اسی طرح مسلمانوں میں خلفاء بنائے گا جس طرح کہ اس نے اس سے پہلے (موسیٰ کی امت میں ) خلفاء بنائے اور ان خلفاء کے ذریعہ خدا اپنے دین کی حفاظت فرمائے گا اور (دین کے میدان میں ) مسلمانوں کی خوف کی حالت کو امن کی حالت سے بدل دے گا۔‘‘
(قرآن مجید ۔سورۂ نور)
اسی طرح حدیث میں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم تفصیل اور تشریح سے فرماتے ہیں۔ دوست غور سے سنیں کہ کس شان سے فرماتے ہیںکہ
’’مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں ضرورضرور مسیح ابنِ مریم اس شان سے کہ (گویا وہ آسمان سے اُتر رہا ہے ) جو حکم و عدل بن کر تمہارے اختلافات کا فیصلہ کرے گا اور وہ مسیحیت کے زور کے وقت میں ظاہر ہوکر صلیبی مذہب کی شوکت کو توڑ کر رکھ دے گا۔‘‘
(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزولِ عیسیٰ )
حضرت مسیح موعودؑ بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے خدا سے الہام پاکر دعویٰ کیا کہ میں وہی مہدی اور وہی مسیح ہوں جس کے ہاتھ پر بالآخر اسلام کا غلبہ اور مسلمانوں کی ترقی اور مسیحیت کی شکست مقدر ہے۔ اور دراصل غور کیا جائے تو مہدویت اور مسیحیت کے دعوے حقیقۃ ایک ہی ہیں ۔ کیونکہ وہ ایک دعوے کی دو شاخیں ہیں۔ صرف دو جہتوں کی وجہ سے انہیں دو مختلف نام دے دئیے گئے ہیں ۔اسی لئے ان دونوں پیشگوئیوں میں حالات بھی ایک جیسے بیان کئے گئے ہیں۔ مہدی ہونے کے لحاظ سے آنے والے کے ہاتھ پر اسلام کی تجدید مقدر تھی اور ازل سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ جب آخری زمانہ میں مسلمانوں میں تنزل کے آثار پیدا ہوں گے اور مسلمانوں کے عقائد میں فتور آجائے گا تو اس وقت اس امت کا مہدی ظاہر ہوکر مسلمانوں کے بگڑے ہوئے عقائد کی اصلاح کرے گا اور مسلمانوں کو اپنے آسمانی علمِ کلام اور باطنی نورِ ہدایت اور خداداد روحانیت کے زور سے بلندی کی طرف اٹھاتا چلا جائے گا ۔ دوسری طرف مسیح ہونے کے لحاظ سے آنے والے مصلح کا یہ کام تھا کہ وہ مسیحیت کے غلبہ کے وقت ظاہر ہو کر صلیب کے زور کو توڑ دے اور اسلام کو پھر اس کے دورِ اول کی طرح دنیا میں غالب کردے۔ سو دراصل یہ دونوںنام ایک ہی مصلح کو دئیے گئے ہیں اسی لئے ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایک حدیث میں صاف طور پر فرماتے ہیں کہ
لَا الْمَھْدِیُّ اِلَّا عِیْسیٰ
(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بابُ الصَّبْرِ عَلَی الْبَلَاءِ)
’’یعنی اے مسلمانو! سُن لو کہ آنے والے عیسیٰ کے سوا کوئی اور مہدیٔ موعود نہیں ہے۔‘‘
(۳)
جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں درحقیقت یہ دونوں نام جمالی صفات کے مظہر ہیں اور ضروری تھا کہ ایسا ہی ہوتا کیونکہ موجودہ زمانہ میں کسی قوم کی طرف سے مسلمانوں پر دین کے معاملہ میں جبر نہیں کیا جاتا اور ظاہر ہے کہ امن کی حالت میں جبکہ دین کے معاملہ میں کسی غیر قوم کی طرف سے مسلمانوں پر جبر نہ کیا جارہا ہو جبر سے کام لینا قرآن مجید کی صریح ہدایت لَا اِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ (یعنی دین کے معاملہ میں ہرگز کوئی جبر نہیں ہونا چاہیے)کے قطعی طور پر خلاف ہے بلکہ یہ ایک انتہائی ظلم و تعدی کا فعل ہے جس کی اسلام کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دیتا ۔ حضرت مسیح ناصریؑ حضرت موسیٰ ؑ کےبعد جن کے وہ خلیفہ تھے اور موسوی شریعت کے پابند تھے چودہ سو سال بعد جمالی رنگ میں مبعوث ہوئے اور یہودی لوگ اپنے زعمِ باطل میں جھوٹی امیدیں لگا کر ایلیا نبی کے نزول کے لئے جس کا ان کو وعدہ دیا گیا تھا (ملاکی باب ۴ آیت ۵ و متی باب ۱۱ آیت ۱۵) آسمان کی طرف دیکھتے رہ گئے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ بانیٔ سلسلہ احمدیہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے چودہ سو سال بعد عوام کی توقّع کے خلاف آسمان سے نازل ہونے کی بجائے زمین سے ظاہر ہوئے ۔ اور جس طرح حضرت مسیح ناصری نے امن کے ماحول میں جمالی رنگ میں اپنے دین کی خدمت کی اسی طرح مقدر تھا کہ مسیحِ محمدیؐ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی غلامی میں رہتے ہوئے جمالی رنگ میں جنگ و جدال کے بغیر اسلام کی خدمت کرے گا اور اپنے قولی اور قلمی جہاد اور روحانی نشانوں کے ذریعہ دنیا پر ثابت کردے گا کہ اسلام ایسا پیارا اور دلکش اور ایسا مدلل مذہب ہے کہ اس کی اشاعت کے لئے ہرگز ہرگز کسی جبر و تشدد کی ضرورت نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانیٔ سلسلہ احمدیہ اپنی بعثت کی غرض و غایت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ دوست غور سے سنیں
’’خدا نے اِس رسول کو یعنی کامل مجدد کو اِس لئے بھیجا ہے کہ تا خدااِس زمانہ میں یہ ثابت کرکے دِکھلا دے کہ اسلام کے مقابل پر سب دین اور تمام تعلیمیں ہیچ ہیں۔ اور اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو تمام دینوں پر ہر ایک برکت اور دقیقہ معرفت اور آسمانی نشانوں میں غالب ہے۔ یہ خدا کا اِرادہ ہے کہ اِس رسول کے ہاتھ پر ہر ایک طرح پراِسلام کی چمک دکھلاوے۔ کون ہے جو خدا کے اِرادوں کو بدل سکے۔ خدا نے مسلمانوں کو اور ان کے دین کو اِس زمانہ میں مظلوم پایا۔ اور وہ آیا ہے کہ تاان کمزور لوگوں اور ان کے دین کی مدد کرے ..... اوروہ ہر چیز پر قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے(خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ ) اپنی قوت اور امنگ کے ساتھ زمین پر چل یعنی لوگوں پر ظاہر ہوکہ تیرا وقت آگیا اور تیرے وجود سے مسلمانوں کا قدم ایک محکم اور بلند مینار پر جاپڑا محمدی غالب ہوگئے۔ وہی محمد ؐجو پاک اور برگزیدہ اور نبیوں کا سردار ہے۔ خدا تیرے سب کام درست کردے گا اورتیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ وہ (خدا) جو فوجوں کامالک ہے وہ اِس طرف توجہ کرے گا یعنی آسمان سے تیری بڑی مدد کی جائے گی ۔‘‘
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۶۶،۲۶۷)
(۴)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پُر زور علمِ کلام اور زبردست خدائی نشانات اور روحانی تعلیم و تلقین کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نقشِ قدم پر اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْکی جماعت قائم کی اور آپ کی اس جماعت نے خدا کے فضل سے اپنی غیر معمولی جدوجہد اور اپنی پُر امن تبلیغ اور اپنے وسیع لٹریچر اور اپنی بے نظیر مالی قربانی کے ذریعہ دنیا میں اسلام کی عالمگیر تبلیغ کا عظیم الشان نظام قائم کررکھا ہے۔ اور باوجود اس کے کہ یہ جماعت ابھی تک اپنی تعداد اور اپنی مالی طاقت اور اپنے دیگر ذرائع کے لحاظ سے بے حد کمزور ہے اور دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ پر گویا آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اس کے مبلّغ دنیا کے دور دراز ممالک میں پہنچ کر اسلام کا جھنڈا بلند کرنے اور رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے نام کا بول بالا کرنے میں دن رات لگے ہوئے ہیںحتّٰی کہ اس وقت پاکستان اور ہندوستان کو چھوڑ کر جماعتِ احمدیہ کا ایک سَو سے زائد مبلغ ایسا ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں اسلام کی تبلیغ کا کام سرانجام دے رہا ہے اور دنیا کی ہر قوم کے سنجیدہ طبقہ میں اسلام کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے ۔ اور یورپ اور امریکہ کے جو لوگ آج سے چالیس پچاس سال پہلے اسلام کی ہر بات کو شک اور اعتراض کی نظر سے دیکھتے تھے اب خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور روحانی توجہ کے طفیل ایسا تغیر پیدا ہوا ہے کہ وہی لوگ اسلام کی تعلیم کو تعریف اور قدر شناسی کی نظر سے دیکھنے لگ گئے ہیں اور اسلام کا جھنڈا چار اکنافِ عالم میں اپنے نظریاتی اثر و رسوخ کے لحاظ سے بلند سے بلندتر ہوتا چلا جارہا ہے۔ بے شک ابھی یہ ترقی الٰہی سنت کے مطابق صرف ایک بیج کے طور پر ہے مگر اس بیج کی اٹھان ایسی ہے کہ اہلِ عقل و دانش کی دور بین نگاہیں اس میں ایک عظیم الشان درخت کا نظارہ دیکھ رہی ہیں۔ اور مسیحیت جس نے اس سے پہلے گویا دنیا کی اجارہ داری سنبھال رکھی تھی اب اسلام کے مقابل پر برابر پسپا ہوتی چلی جارہی ہے۔ چنانچہ برّ اعظم افریقہ کے متعلق جو حضرت مسیحِ ناصریؑ کے منّادوں کا تازہ قلعہ بن رہا تھا۔ بعض مسیحی مبصّروں نے برملا تسلیم کیا ہے کہ
’’اگر افریقہ میں مسیحیت ایک انسان کو کھینچتی ہے تو اس کے مقابل اسلام دس لوگوں کو کھینچ کر لے جاتا ہے۔‘‘
(ورلڈ کرسچن ڈائجسٹ جون ۱۹۶۱ء)
یہ محض خدا کا فضل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانی توجہ اور دردبھری دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ اس وقت جماعت احمدیہ کی حقیر کوششوں سے پاکستان اورہندوستان کو چھوڑ کر صرف یورپ اور امریکہ اور افریقہ اور ایشیا کے بتیس مختلف ملکوں میں اسلام کے چونسٹھ تبلیغی مراکز قائم ہوچکے ہیں جن میں ایک سو اٹھارہ احمدی مبلغ دن رات اسلام کی تبلیغ میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں سے اڑسٹھ۶۸ پاکستانی ہیں جو مرکز کی طرف سے بھجوائے گئے ہیں اور پچاس ایسے ہیں جن کو لوکل طور پر تبلیغ کے کام میں لگایا گیا ہے۔ اور یہ لوگ بھاڑے کے ٹٹو نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دلی ذوق و شوق سے دینی تعلیم حاصل کرکے اپنی زندگیاں خدمتِ دین کے لئے وقف کررکھی ہیں اور یہ لوگ اِلَّا مَاشَآءَ اللہُ خدا کے فضل سے رَبّٰنِیُّوْنَ کی مقدس جماعت میں داخل ہیں جن کی قرآن مجید خاص طور پر تعریف فرماتا ہے ۔ یہی تیز رفتاری خدا کے فضل سے دیگر سامانِ جہاد کی تیاری میں نظر آتی ہے چنانچہ اس وقت تک جماعتِ احمدیہ کی کوشش سے خدائے واحد کی عبادت کے لئے مختلف بیرونی ملکوں میں گزشتہ چند سالوں میں دو سو نوّے مسجدیں تعمیر ہوچکی ہیں۔ اسی طرح یورپ اور امریکہ اور افریقہ میں جماعتِ احمدیہ کی قائم کردہ نئی درسگاہوں کی تعداد چوالیس ہے اور جماعت کی طرف سے بیرونی ملکوں میں شائع ہونے والے تبلیغی اخباروں اور رسالوں کی تعداد انیس ۱۹ہے جو پاکستانی اور ہندوستانی اخباروں کے علاوہ ہے اور قرآنِ مجید کے جو ترجمے اس وقت تک یورپین ..... اور افریقن زبانوں میں جماعتِ احمدیہ کی طرف سے تیار کئے جاچکے ہیں ان کی تعداد گیارہ ہے جن میں سے پانچ چھپ چکے ہیں اور بقیہ کے چھپنے کا انتظام کیا جارہا ہے۔ اور دیگر کثیر التعداد دینی لٹریچر اس کے علاوہ ہے۔ اور خدا کے فضل سے یہ سلسلہ دن بدن وسیع ہوتا جارہا ہے اور اِنْ شَاءَ اللہُ وہ وقت دور نہیں جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا سے علم پاکرفرماتے ہیں کہ
’’اے تمام لوگو سُن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلادے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا۔ اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی..... یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا۔ ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسیٰ ؑبن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا۔ اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسیٰ ؑبن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا۔ اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسٰیؑ اب تک آسمان سے نہ اُترا۔ تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے۔ اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۶،۶۷)
یہ عظیم الشان نتائج خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود ؑ کی دردمندانہ دعاؤں اور جماعتِ احمدیہ کی دن رات کی والہانہ تبلیغ اور اسلام کے لئے ان کی مخلصانہ کوششوں اور قربانیوں کے نتیجہ میں پیدا ہورہے ہیں اور پیدا ہوتے چلے جائیں گے تاوقتیکہ اسلام کے کامل غلبہ کا دن آجائے اور دنیا پر ظاہر ہوجائے کہ فتح و ظفر کی کلید خدا کے ہاتھ میں ہے اور یہ کہ اسلام کو اپنی اشاعت کے لئے کسی جبر و اکراہ کی ضرورت نہیں بلکہ وہ اپنے غیر معمولی حسن و جمال اور اپنی زبردست روحانی قوّت اور مسیح محمدیؐ کی بے نظیر جمالی کشش کے زور سے دنیا کو فتح کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور اسی آئینۂ جمال کو میں انشاء اللہ اپنے اس مضمون میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ وَمَا تَوْفِیْقِی اِلَّا بِاللہِ الْعَظِیْمِ ۔
(۵)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانیٔ سلسلہ احمدیہ ۱۳ ؍فروری ۱۸۳۵ء کو جمعہ کے دن قادیان میں پیدا ہوئے ۔ یہ سکھوں کا زمانہ اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کے آخری ایام تھے۔ اس کے بعد ۱۸۷۶ء میں آپ کے والد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی وفات ہوئی ۔ اور گو اس سے پہلے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر وحی و الہام کے نزول کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا لیکن اس وقت سے تو گویا خدائی رحمت کی تیز بارش مسلسل برسنی شروع ہوگئی اور والد کا سایہ اٹھتے ہی خدائی نصرت نے آپ کا ہاتھ مضبوطی کے ساتھ تھام لیا۔
اس کے بعد مارچ ۱۸۸۲ء میں حضرت مسیح موعودؑ کو ماموریت کا پہلا الہام ہوا (براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۳۸) جو اس عظیم الشان روحانی جہاد کا آغاز تھا جو آدم سے لے کر آج تک ہر مرسلِ یزدانی کے زمانہ میں ہوتا چلا آیا ہے لیکن اب تک بھی حضورؑ نے بیعت کا سلسلہ شروع نہیں کیا تھا اور نہ ہی جماعتِ احمدیہ کی بنیاد قائم کی گئی تھی ۔ جماعت کی بنیاد بالآخر خدائی حکم کے ماتحت ۱۸۸۹ء کے ابتداء میں آکر قائم ہوئی اور گویا خدائی خدمت گاروں کی باقاعدہ فوج بھرتی ہونی شروع ہوگئی ۔ اس کے جلد بعد ہی حضورؑ نے خدا سے الہام پاکر مسیح موعود اور مہدیٔ موعود ہونے کا دعویٰ کیا جس پر چاروں طرف سے مخالفت کا ایسا طوفان اٹھا کہ اَلْحَفِیْظ وَ الْاَمَان ۔ اور یہ مخالفت آپ کی تاریخِ وفات تک جو ۱۹۰۸ء میں ہوئی برابر تیزی کے ساتھ بڑھتی چلی گئی اور ہر قوم آپ کی مخالفت میں حصہ لینے کو فخر سمجھنے لگی اور جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے خدا کی یہ ازلی سنت پوری ہوئی کہ کوئی خدائی مصلح ایسا نہیں آتا جس کا انکار نہ کیا جاتا ہو اور اسے ہنسی ، مذاق اور طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنایا جاتا ہو۔ (سورۃ یٰسٓ آیت ۳۱)
ماموریت کے الہام کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کچھ اوپر چھبیس سال زندہ رہے اور بیعت کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد آپ نے اس دنیا میں قریباً بیس سال گزارے جو قمری حساب سے قریباً اکیس سال کا زمانہ بنتاہے اور یہ طویل زمانہ ایک طرف مخالفت کی انتہائی شدت اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود ؑ کی جمالی صفات کی غیر معمولی شان کے ظہور میں گزرا ۔ جیسا کہ خداتعالیٰ کی سنت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح حضرت مسیح موعودؑ کے بعض قریبی رشتہ داروں نے بھی آپ کی مخالفت کی ۔ آپ کی بستی والوں نے بھی مخالفت کی ۔ شہروں کے باشندوں نے بھی مخالفت کی ۔ دیہات کے رہنے والوں نے بھی مخالفت کی ۔ امیروںنے بھی مخالفت کی ۔ غریبوںنے بھی مخالفت کی ۔ مولویوںنے بھی مخالفت کی اور انگریزی خوانوں نے بھی مخالفت کی پھر مسلمانوں نے بھی مخالفت کی اور عیسائیوں نے بھی مخالفت کی اور ہندوؤںنے بھی مخالفت کی اور آزاد خیال لوگوں نے بھی مخالفت کی اور ہر طبقہ اور ہر ملت نے مخالفت کے ناپاک خون میں اپنے ہاتھ رنگے۔ لیکن ہر مخالفت کے وقت آپ کی جمالی صفات زیادہ آب و تاب کے ساتھ چمکیں اور دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ چودھویں رات کا روحانی چاند جس نے عرب کے سراجِ منیر سے نور حاصل کیا تھا ایسا نہیں کہ اس کی روشنی کسی عارضی سایہ سے متاثر ہوکر مدھم پڑ جائے ۔ چنانچہ آپ آہستہ آہستہ ہر طبقہ اور ہر فرقہ اور ہر مکتبِ خیال میں سے سعید الفطرت لوگوں کو کھینچتے چلے گئے حتیٰ کہ آپ کی وفات کے وقت چار لاکھ فدائی آپ کے روحانی حسن و جمال پر فریفتہ ہوکر آپ کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہوچکے تھے۔
چونکہ ہر خوبی اور ہر حسن کا منبع خدا کی ذاتِ والا صفات ہے اس لئے جمالی صفات کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کے حسن و جمال کی مثال دیتے ہوئے اپنے ایک لطیف شعر میں فرماتے ہیں
چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہوگیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمالِ یار کا
(سرمہ چشمِ آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۵۲)
’’یعنی چودھویں کے چاند کے حسن اور دلکشی اور دلربائی اور ٹھنڈک اور اس کی مسحور کردینے والی تاثیرکو دیکھ کر میں کل رات بالکل بے چین ہوگیا کیونکہ اس میں میرے آسمانی معشوق اور خالقِ فطرت کے حسن و جمال کی کچھ کچھ جھلک نظر آتی تھی۔‘‘
اسی نظم میں آگے چل کر آپ خدا کے عشق میں متوالے ہوکر فرماتے ہیں
ایک دم بھی کل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا
جاں گھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا
شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر
خوں نہ ہوجائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا
(۶)
حق یہ ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز کے حسن و جمال کا منبع صرف اور صرف خدا کی ذاتِ والا صفات ہے۔ وہی دنیا کی چیزوں کو جمال کی دلکشی عطا کرتا ہے اور وہی ہے جو ان کو جلال کی شان و شوکت سے زینت بخشتا ہے۔ ایک میں سورج کی روشنی کی طرح آنکھوں کو خیرہ کرنے والی تیزی ہے جس کی حِدّت اور رعب کی وجہ سے کسی کی مجال نہیں کہ اس کو طرف آنکھ اٹھا کردیکھ سکے۔ اور دوسرے میں چاند کی سی ٹھنڈک اور دلربائی ہے جو دیکھنے والے کو مسحور کرکے رکھ دیتی ہےاور خدا کی باریک در باریک حکمت نے تقاضہ کیا کہ اپنے رسولوں اور نبیوں میں بھی اسی جلال و جمال کا دور چلائے۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ حضرت موسٰی اور حضرت عیسٰی ؑایک ہی سلسلہ کے نبی تھے اور ایک ہی شریعت کے تابع تھے مگر دونوں کے زمانوں اور ان زمانوں کے الگ الگ حالات نے تقاضا کیا کہ حضرت موسٰی کو نئی شریعت کے ساتھ جلالی شان میں بھجوایا جائے اور حضرت عیسٰی ؑ کو جمالی شان میں موسوی شریعت کی خدمت اور اشاعت کے لئے مبعوث کیا جائے۔ حضرت عیسٰیؑ نے اپنی اس تابع حیثیت کو خود بھی انجیل میں برملا طور پر تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں
’’یہ نہ سمجھو کہ میں توراۃ یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیو نکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں (یعنی جب تک نئی روحانی زمین اور نیا روحانی آسمان پیدا نہ ہوجائے جو محمد رسول اللہ صلعم اور قرآنی شریعت کے ذریعہ پیدا ہوگیا ) ایک نقطہ یا ایک شوشہ تورات سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔‘‘
(متی باب ۵ ۔ آیت ۱۷ و ۱۸)
جلال و جمال کا یہی لطیف دَور محمدی ؐ سلسلہ میں بھی چلتا ہے چنانچہ ہمارے آقا حضرت سرورِ کائنات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم (فداہ نفسی) جلالی شان میں ظاہر ہوئے جن کے نور نے آسمانی بجلی کی چمک کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے سارے عرب بلکہ اس وقت کی ساری معلوم دنیا کو اپنی ضیا پاش کرنوں سے اس طرح منور کردیا کہ اقوامِ عالم کی آنکھیں خیرہ ہوکررہ گئیں۔ مگر آپ کے خادم اور ظلِّ کامل مسیحِ محمدیؐ بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے پہلی رات کے چاند کی طرح اپنی ٹھنڈی ٹھنڈی کرنوں کے ساتھ طلوع کیا اور اب آہستہ آہستہ بدرِ کامل بنتے ہوئے دنیا کے کناروں تک دیکھنے والوں کی آنکھوں پر جادو کرتا چلا جارہا ہے۔ الٰہی سلسلوں میں جلال و جمال کا نظام خداتعالیٰ کی عجیب و غریب حکمت پر مبنی ہے جب خدا نے کسی نئی شریعت کے نزول کے ذریعہ دنیا میں کوئی نیا سلسلہ قائم کرنا ہوتا ہے تو اس وقت اس کی سنت یہ ہے کہ وہ کسی جلالی مصلح کو مبعوث فرماتا ہے جو اپنی پختہ تنظیم اور مضبوط نظم و نسق کے ذریعہ ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھ کر اسے خدا کی نازل کردہ جدید شریعت پر قائم کردیتا ہے جس کے لئے کسی نہ کسی رنگ میں حکومت کے نظام کی ضرورت ہوتی ہے مگر جب کسی نئی شریعت کا نزول مقصود نہیں ہوتا بلکہ صرف سابقہ شریعت کی خدمت اور بگڑے ہوئے عقائد کی اصلاح اور قوم کی روحانی اور اخلاقی تربیت اصل غرض و غایت ہوتی ہے تو ایسے وقت میں جمالی مصلح مبعوث کیا جاتا ہے جو محبت اور نصیحت اور فروتنی اور تربیت اور اصلاحی پروگرام کے ذریعہ اپنا کام کرتا ہے مگر بہرحال دعاؤں اور معجزات کا سلسلہ دونوں نظاموں میں یکساں جاری رہتا ہے۔ کیونکہ یہی دو چیزیں ہر روحانی نظام کی جان ہیں۔ حضرت موسٰی جلالی شان کے ساتھ ظاہر ہوئے اور ان کے چودہ سو سال بعد خدائی پیشگوئی کے مطابق حضرت عیسٰیؑ نے جمالی شان کے ساتھ فروتنی کے لباس میں ظہور کیا اسی طرح ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم (فداہ نفسی ) جلالی شان کا جبّہ زیب تن کئے ہوئے جاہ و حشمت کے ساتھ منظرِ عالَم پر آئے اور آپ کے چودہ سو سال بعد آپ کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے شاگرد اور خادم حضرت مسیحِ محمدیؐ نے اپنے سفید جھنڈے کے ساتھ جمالی شان میں آسمانِ ہدایت سے نزول کیا۔ وَ تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّ عَدْلًا۔
(۷)
جیسا کہ میں ابھی بیان کرچکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمالی مصلح تھے جو اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نیابت میں مبعوث کئے گئے جس طرح کہ اسرائیلی سلسلہ میں حضرت موسٰی کے بعد حضرت عیسٰیؑ جمالی رنگ میں ظاہر ہوئے۔ یہ درست ہے کہ جب کسی روحانی مصلح کو جمالی یا جلالی کہا جاتا ہے تو اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ اس کی ہر بات جمالی یا جلالی شان رکھتی ہے بلکہ اس کی طبیعت اور اس کے طریقِ کار کے غالب رجحان کی وجہ سے اسے جمالی یا جلالی کا نام دیا جاتا ہے ورنہ حق یہ ہے کہ ظِلُّ اللہ یعنی خدا کے نائب ہونے کی حیثیت میں ہر روحانی مصلح میں ایک حد تک جلالی اور جمالی دونوں شانیں پائی جاتی ہیں ۔ مگر جس مصلح میں خدائی مشیت اور زمانہ کے تقاضے کے ماتحت جلالی شان کا غلبہ ہو اُسے اصطلاحی طور پر جلالی مصلح قرار دیا جاتا ہے اور ایسے مصلح عموماً نئی شریعت کے قیام یا کسی زبردست نئی تنظیم کے استحکام کے لئے آتے ہیں ۔ دوسری طرف جس روحانی مصلح میں جمالی شان کا غلبہ ہوتا ہے اسے جمالی مصلح کا نام دیا جاتا ہے ۔ گو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ظل اللہ یا کامل عبد ہونے کی وجہ سے اس میں بھی کبھی کبھی جلالی شان کی جھلک پیدا ہوجاتی ہے مگر اس کے مقام کا مرکزی نقطہ بہرحال جمالی رہتا ہے۔ جلالی اور جمالی شانوں کا یہ لطیف دور ایک حد تک خلفاء کے سلسلہ میں بھی چلتا ہے چنانچہ حضرت ابوبکرؓ جمالی شان رکھتے تھے مگر حضرت عمرؓ جلالی شان کے ساتھ ظاہر ہوئے۔ اسی طرح سلسلہ احمدیہ کے پہلے خلیفہ حضرت مولوی نور الدین صاحب ؓ جمالی خلیفہ تھے مگر جیسا کہ مصلح موعود والی پیشگوئی میں مذکور ہے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ’’جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ‘‘ قرار دئیے گئے ۔ جلال اور جمال کے اس دَور میں بڑی گہری حکمتیں ہیں جن کے بیان کرنے کی اس جگہ ضرورت نہیں۔
بہرحال چونکہ حضرت مسیح موعودؑ بانیٔ سلسلہ احمدیہ مسیحِ ناصری ؑ کی طرح جمالی شان کے مصلح تھے اس لئے آپ کے تمام کاموں میں جمالی شان کا غلبہ نظر آتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شفقت و محبت اور پند و نصیحت اور عفو و کرم کے اس پیکر نے رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے احمد نام کی ظلیّت میں جنم لے لیا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے دنیا میں شادی بھی کی اور خدا نے آپ کو اولاد سے بھی نوازا اور آپ کو مخلص دوست بھی عطا کئے گئے اور دشمنی کرنے والوں نے بھی اپنی دشمنی کو انتہا تک پہنچا دیا اور ہر رنگ میں آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور آپ کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی گئیں اور جھوٹے مقدمات کھڑے کئے گئے اور حکومت کو آپ کے متعلق بد ظن کرنے کی تدبیریں بھی کی گئیں اور آپ کے ماننے والوں کو انتہائی تکالیف کا نشانہ بھی بنایا گیا مگر آپ نے نہ صرف اپنے عزیزوں اور دوستوں اور ہمسایوں کے لئے اور نہ صرف حکومت کے لئے جس کے آپ اسلامی تعلیم کے مطابق کامل طور پر وفادار تھے بلکہ اپنے جانی دشمنوں کے لئے بھی اپنی فطری رحمت کا ثبوت دیا اور اپنی جمالی شان کا ایسے رنگ میں مظاہرہ کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔
(۸)
میں نے اپنی ایک گزشتہ تقریر میں بیان کیا تھا کہ کس طرح کابل کے سابق حکمران امیر حبیب اللہ خان نے اپنے ملک کے ایک بہت بڑے رئیس اور پاک فطرت نیک بزرگ کو جنہوں نے اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کی تھی حضرت مسیح موعودؑ کو قبول کرنے پر زمین میں گاڑ کر بڑی بے رحمی سے سنگسار کرادیا تھا۔ اور اس عاشقِ مسیح کی روح آخر تک یہی پکارتی رہی کہ جس صداقت کو میں نے خدا کی طرف سے حق سمجھ کر پہچان لیا ہے اسے دنیا کی ادنیٰ زندگی کی خاطر کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔ جب صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب شہیدؓ کے قتل کا حکم دینے والا امیر حبیب اللہ خان اِس واقعہ کے بعد انگریزی حکومت کا مہمان بن کر ہندوستان آیا تو اخباروں میں یہ خبر چھپی کہ بعض اوقات امیر حبیب اللہ خان بوٹ پہنے ہوئے مسجد کے اندر چلا گیا اور اسی حالت میں نماز ادا کی اس پر بعض اخباروں میں اعتراض اٹھایا گیا کہ امیر کی یہ حرکت غیر اسلامی ہے اور آدابِ مسجد کے خلاف ہے ۔ اور کسی احمدی نے یہ خبر حضرت مسیح موعود کو بھی جاسنائی کہ امیر حبیب اللہ خان نے مسجد کی ہتک کی ہے اور جوتے پہن کر اندر چلا گیا ہے اور جوتوں میں ہی نماز ادا کی ہے۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے اعتراض کرنے والے کو فوراً ٹوک کر فرمایا کہ
’’اس معاملہ میں امیر حق پر تھا کیونکہ جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھنا جائزہے۔‘‘
(اخبار بدر ۱۱ ؍ا پریل ۱۹۰۷ءصفحہ ۳ )
سنانے والے نے تو یہ خبر اس لئےسنائی ہوگی کہ چونکہ امیر حبیب اللہ خان احمدیّت کا دشمن ہے اور اس نے ایک برگزیدہ اور پاکباز احمدی بزرگ صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحبؓ کو محض احمدیت کی وجہ سے انتہائی ظلم کے طریق پر سنگسار کرادیا ہے اس لئے غالباً حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُس کی دشمنی اور عداوت کی وجہ سے اُ س کا ذکر آنے پر اُس کے متعلق ناراضگی کا اظہار فرمائیں گے مگر اس پیکرِ انصاف و صداقت نے جو اپنے جانی دشمنوں کے لئے بھی حق و انصاف کا پیغام لے کر آیا تھا سنتے ہی فرمایا کہ
’’یہ اعتراض غلط ہے اس میں امیر کی کوئی غلطی نہیں کیونکہ جوتے پہن کر مسجد میں جانا جائز ہے‘‘
یہ اس وسیع رحمت کا ثبوت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاک دل میں دوستوں اور دشمنوں اور اپنوں اور بیگانوں اور چھوٹوں اور بڑوں سب کے لئے خالقِ فطرت کی طرف سے یکساں ودیعت کی گئی تھی۔
(۹)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وسیع عفو و رحمت کا ایک اور دلچسپ واقعہ بھی مجھے اس جگہ یاد آگیا۔ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ جو حضرت مسیح موعودؑ کے مشہور وقائع نگار تھے اپنی تصنیف ’’حیاتِ احمد ‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعود ؑ لاہور میں قیام فرماتھے اور ایک مقامی مسجد میں فریضۂ نماز ادا کرکے اپنی فرودگاہ کی طرف واپس تشریف لے جارہے تھے ایک قوی ہیکل شخص نے جو ان ایام میں مہدی ہونے کا مدّعی تھا اور محمد رسول اللہ کی بجائے مہدی رسول اللہ کا کلمہ پڑھتا تھا پیچھے کی طرف سے آکر حضرت مسیح موعود پر اچانک حملہ کردیا اور حضورؑ کو زور کے ساتھ اٹھا کر زمین پردے مارنے کی کوشش کی ۔ یہ بدبخت حضورؑ کو گرا تو نہ سکا مگر (میں نے دوسرے طریق سے سنا ہوا ہے کہ )اس کے اچانک حملہ سے حضورؑ کچھ ڈگمگا گئے اور حضورؑ کا عمامہ مبارک گرتے گرتے بچا۔ اس پر سیالکوٹ کے ایک مخلص دوست سید امیر علی شاہ صاحبؓ نے فوراً لپک کر اس شخص کو پکڑ لیا اور اسے دھکا دے کر الگ کرتے ہوئے ارادہ کیا کہ اسے اس گستاخی اور قانون شکنی اور مجرمانہ حملہ کی سزا دیں جب حضرت مسیح موعودؑ نے دیکھا کہ سید امیر علی شاہ صاحب اُسے مارنے لگے ہیں تو حضورؑ نے بڑی نرمی کے ساتھ مسکراتے ہوئے فرمایا
’’شاہ صاحب ! جانے دیں اور اِسے کچھ نہ کہیں ۔ یہ بے چارہ سمجھتا ہے کہ ہم نے اس کا (مہدی والا) عہدہ سنبھال لیا ہے۔‘‘
(حیاتِ احمد مصنفہ عرفانی صاحب جلد سوم صفحہ ۲۱۰)
شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد جب تک حضرت مسیح موعودؑ اپنی قیام گاہ تک نہیں پہنچ گئے حضورؑ بار بار پیچھے کی طرف منہ کرکے دیکھتے جاتے تھے تاکہ کوئی شخص غصہ میں آکر اسے مار نہ بیٹھے اور تاکید فرماتے جاتے تھے کہ اسے کچھ نہ کہا جائے۔ یہ وہی وسیع عفو و رحمت اور خاص جمالی شان ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ
گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو
رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے
لیکن خدائے غیور کی غیرت کا نظارہ دیکھو کہ حضرت مسیح موعودؑ نے تو اس وحشیانہ حملہ کرنے والے کو معاف کردیا اور اس کے ساتھ عفو و رحمت کا سلوک فرمایا مگر خدا نے اپنے محبوب مسیح کا انتقام لے لیا اور انتقام بھی ایسے رنگ میں لیا جو اسی کے شایانِ شان ہے۔ چنانچہ عرفانی صاحب ؓ بیان کرتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد اُس حملہ کرنے والے شخص کا حقیقی بھائی جس کا نام پیغمبرا سنگھ تھا احمدی ہوگیا اور اخلاص میں اتنا ترقی کرگیا کہ اس نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر نہ صرف اپنے بھائی کی طرف سے معافی مانگی بلکہ اُسی شہر لاہورکی ایک مجلس میں جہاں اس کے بھائی نے خدا کے مقدس مامور کی گستاخی کی تھی حضورؑ پر محبت اور عقیدت کے ساتھ پھول برسائے۔
اُس شخص نے اپنا نام پیغمبرا سنگھ اس لئے رکھا ہوا تھا کہ احمدی ہونے سے پہلے اُس کا دعویٰ تھا کہ وہ سکھوں کا گُرو یا اوتار ہے مگر جب اللہ تعالیٰ نے اُس پر حقیقت کھول دی تو اُس نے حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر حضور کے قدموں میں اپنے دل کی راحت پائی (حیاتِ احمد جلد سوم صفحہ ۲۱۰) یہ پیغمبرا سنگھ ایک بھاری بھرکم جسم کا انسان تھا اور احمدی ہونے کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ بڑا اخلاص رکھتا تھا اور اکثر اوقات حضور کی محبت اور تعریف میں شعر گاتا پھرتا تھا اور کبھی کبھی تبلیغ کی غرض سے حضرت بابانانک کے چولے کی طرح کا ایک چولہ بنا کر بھی پہنا کرتا تھا۔ یہ اسی قسم کا لطیف خدائی انتقام ہے جیسا کہ خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے جانی دشمن ابوجہل سے لیا تھا کہ اُس کی موت کے بعد اُس کا بیٹا عکرمہ آنحضرتؐ کی غلامی میں داخل ہوگیا اور اسلام کی بھاری خدمات سرانجام دیتا ہوا شہید ہوا۔ احمدیت میں خدا کے فضل سے ایسی مثالیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں ہیں کہ باپ مخالف تھا مگر بیٹے کو احمدیّت کا عاشقِ زار بننے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت مسیحِ موعودؑ نے تمثیلی رنگ میں کیا خوب فرمایا ہے کہ
’’گہ بصلحت کشندو گاہ بجنگ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ دوم روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۱۲۵)
’’یعنی کبھی تو لوگ تجھے صلح کے ذریعہ شکار کرتے ہیں اور کبھی جنگ کے طریق پر مارتے ہیں۔‘‘
(۱۰)
اسی قسم کی شفقت و رحمت کا ایک واقعہ قادیان کے ایک آریہ لالہ ملاوامل صاحب کے ساتھ بھی پیش آیا۔ لالہ صاحب نوجوانی کے زمانہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے مگر اپنے مذہبی اور قومی تعصب میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ حضرت مسیح موعود نے انہیں کئی دفعہ اُن خداداد نشانوں کی گواہی کے لئے بلایا جو اُن کی آنکھوں کے سامنے گزرے تھے اور وہ ان کے چشم دید اور گوش شنید گواہ تھے مگر وہ ہمیشہ مذہبی تعصب کی وجہ سے شہادت دینے سے گریز کرتے رہے۔ ایک دفعہ یہی ملاوامل صاحب دق کے مرض میں مبتلا ہوگئے اور حالت بالکل مایوسی اور ناامیدی کی ہوگئی۔ اس پر وہ ایک دن بے چین ہوکر حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی حالتِ زار بتا کر بہت روئے اور باوجود مخالف ہونے کے اُس اثر کی وجہ سے جو حضرت مسیح موعود ؑ کی نیکی کے متعلق ان کے دل میں تھا حضور سے عاجزی کے ساتھ دعا کی درخواست کی ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کی یہ حالت دیکھ کر رحم آگیا اور آپ کا دل بھر آیا اور آپ نے ان کے لئے خاص توجہ سے دعا فرمائی جس پر آپ کو خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ
یَا نَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلَامًا
’’یعنی اے بیماری کی آگ تُو اس نوجوان پر ٹھنڈی ہوجا اور اِس کے لئے حفاظت اور سلامتی کا موجب بن جا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۷۷)
چنانچہ اس کے بعد لالہ ملاوامل صاحب بہت جلد اس خطرناک مرض سے جو ان ایّام میں گویا موت کا پیغام سمجھی جاتی تھی شفایاب ہوگئے اور نہ صرف شفایاب ہوگئے بلکہ َسو سال کے قریب عمر پائی اور ملکی تقسیم کے کافی عرصہ بعد قادیان میں فوت ہوئے ۔ اور باوجود اس کے کہ وہ آخر دم تک مذہباً کٹّر آریہ رہے ان کی طبیعت پر حضرت مسیح موعودؑ کی نیکی اور تقویٰ اور آپ کی خدا داد روحانی طاقتوں کا اتنا گہرا اثر تھا کہ جب ملکی تقسیم کے وقت قادیان اور اس کے گردو نواح میں شدید فسادات رونما ہوئے اور سکھوں اور ہندوؤں نے اپنے مظالم کے ذریعہ مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا اور بہت سے بے گناہ مسلمان مرد اور عورتیں اور بچے اور بوڑھے اور بعض احمدی بھی بڑی بےدردی کے ساتھ مارے گئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اور جماعت کے اکثر دوست پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور صرف وہی پیچھے رہ گئے جن کو جماعتی انتظام کے ماتحت مقدس مقامات کی آبادی کے لئے ٹھہرے رہنے کا حکم دیا گیا تھا تو اس وقت لالہ ملاوامل صاحب نے اپنے بیٹے لالہ داتا رام کو بلا کر نصیحت کی کہ
’’دیکھو تم ہرگز احمدیوں کی مخالفت نہ کرنا کیونکہ مرزا صاحب نے پیشگوئی کی ہوئی ہے کہ ان کی جماعت قادیان پھر واپس آئے گی اور میں دیکھ چکا ہوں کہ جو بات مرزا صاحب کہا کرتے تھے وہ پوری ہوجایا کرتی تھی۔ ‘‘ (مسل رپورٹ ہائے از قادیان)
ایک کٹّر آریہ کا اپنی انتہائی مخالفت کے باوجود یہ تأثر حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت اور آپ کی نیکی اور روحانی تاثیر کی زبردست دلیل ہے۔ وَالْفَضْلُ مَا شَھِدَ تْ بِہِ الْاَعْدَاءُ ۔
(۱۱)
لالہ ملاوامل صاحب سے تعلق رکھنے والی روایت کے سلسلہ میں جماعتِ احمدیہ کے اپنے مرکز قادیان سے نکلنے اور پھر واپس آنے کی پیشگوئی کا ذکر ضمنی طور ہر اوپر گزرچکا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی دراصل اپنے اندر غیر معمولی شان رکھتی ہے اور جب خدا کے فضل سے اس پیشگوئی کا دوسرا حصہ جو قادیان کی واپسی سے تعلق رکھتا ہے پورا ہوگا تو اس کی شان اور بھی زیادہ آب و تاب سے ظاہر ہوگی اور دنیا کو معلوم ہوجائے گا کہ نہ صرف غیب کے علم کی کنجی خدا کے ہاتھ میں ہے بلکہ ہر قسم کی قدرت اور تصرف اور تقدیر خیر و شر کی کلید بھی اُسی آسمانی آقا کے قبضہ میں ہے۔ اِس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عرصہ ہوا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ دل دہلا دینے والا الہام ہوا تھا کہ
’’داغِ ہجرات‘‘
’’یعنی اے خدا کے مسیح ! تجھے یا تیری جماعت کو ایک دن ہجرت کا داغ دیکھنا ہوگا ۔‘‘ (ستمبر ۱۸۹۴ء بحوالہ تشحیذ الاذہان جون و جولائی ۱۹۰۸ء)
اس الہام کی بناء پر نیز انبیاء کی عمومی سنت کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو ہمیشہ یہ خیال رہتا تھا اور حضور کبھی کبھی ذکر بھی فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں یا ہمارے بعد ہماری جماعت کو ایک دن قادیان سے ہجرت کرنی پڑے گی۔ چنانچہ ۱۹۴۷ء میں آکر حضورؑ کا یہ الہام غیر معمولی حالات میں پورا ہوا اور وہ یہ کہ باوجود اس کے کہ ضلع گورداسپور کی آبادی میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور ملکی تقسیم کے متعلق سمجھوتہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے پاکستان کے حصّہ میں ڈالے جائیں گے فیصلہ کرنے والے افسروں نے قادیان کا علاقہ ہندوستان کے حصّہ میں ڈال دیا اور جماعت کے خلیفہ اور جماعت کے کثیر حصّہ کو کئی قسم کی تکلیفیں برداشت کرکے اور نقصان اٹھا کر اور قربانیاں دے کر پاکستان کی طرف ہجرت کرنی پڑی۔ اور اس طرح ظاہری حالات اور توقعات کے بالکل خلاف حضرت مسیح موعود ؑ کا ’’داغ ہجرت‘‘والا الہام اپنی انتہائی تلخی کے ساتھ پورا ہوا اور اس پیشگوئی کی پہلی شاخ جو ہجرت سے تعلق رکھتی تھی حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت کا ایک زبردست نشان بن گئی ۔ قادیان جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مولد و مسکن تھا اور وہیں حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی زندگی کے دن گزارے اور وہیں خدائے واحد کی عبادتیں کیں اور وہیں اپنی دعاؤں سے زمین و آسمان کو ہلایا اور وہیں حضور کا جسدِ مبارک اپنے بے شمار فدائیوں کے ساتھ اس دنیا کی آخری نیند سو رہا ہے وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ خدا کی یہ تقدیر بہرحال ایک بڑی تلخ تقدیر ہے اور جماعت کے لئے ایک زبردست امتحان بھی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ تقدیر آسمان سے یہ الارم بھی مسلسل دے رہی ہے کہ اب پیشگوئی کے دوسرے حصہ کے پورا ہونے کا وقت آرہا ہے۔ اس کے لئے گریہ و زاری سے دعائیں کرو اور خدا کی طرف سے نزولِ رحمت کے طالب بنو۔ چنانچہ قادیان کی واپسی کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک واضح الہام یہ ہے کہ
اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلیٰ مَعَادٍ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً۔
(کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ ٹائٹل پیج )
’’یعنی زمین و آسمان کا مالک خدا جس نے تجھ پر قرآن کی تبلیغ فرض کی ہے وہ تجھے ضرور ضرور ایک دن تیرے وطن(قادیان) کی طرف واپس لے جائے گا۔ اور میں تیری مدد کے لئے اپنی فوجوں کے ساتھ اچانک پہنچوںگا۔‘‘
یہ خدائے عرش کی وہ تقدیر ہے جو ہجرت والی پیشگوئی کی دوسری شاخ کے طور پر حضرت مسیح موعودؑ کے قلبِ صافی پر نازل کی گئی اور انشاء اللہ وہ ضرور اپنے وقت پر پوری ہوکر رہے گی۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ وقت کب آئے گا یہ غیب کی باتیں ہیں جو خدا کے ازلی علم کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں ۔ مگر ہم یہ بات قطعی طور پر جانتے ہیں اور ہماری نسلوں کو یہ بات اپنے پاس لکھ رکھنی چاہیے کہ قادیان جو خدا کے ایک مقدس رسول کا تخت گاہ ہے وہ انشاء اللہ ضرور ضرور ہمیں جس رنگ میں بھی خدا کو منظور ہوا ایک دن واپس ملے گا۔ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدا کی یہ تقدیر ایک ایسی پتھر کی لکیر ہے جو کبھی نہیں مٹ سکتی ۔ ہم کسی حکومت کے بدخواہ نہیں اور ہمیں خدا کا اور اس کے رسولؐ کا اور اپنے امام کا یہی حکم ہے کہ جس حکومت کے ماتحت بھی رہو اُس کے دل سے وفادار بن کر رہو۔ پس پاکستان کے احمدی پاکستان کے وفادار ہیں اور ہندوستان کے احمدی ہندوستان کے وفادار ہیں۔ اور اسی طرح ہر دوسرے ملک کے احمدی اپنے اپنے ملک کے وفادار ہیں اور جھوٹا ہے وہ شخص جو ہماری نیتوں کو شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ ہم خدا کے فضل سے ایک خدائی مامور کی جماعت ہیں جو نیکی اور راستی اور دیانت پر قائم کی گئی ہے اور جھوٹ بولنا لعنتی انسان کا کام ہے ۔ ہم وہی بات کہتے ہیں جو خدا نے ہمیں بتائی ہے اور دنیا کا امن بھی اسی اصول کا متقاضی ہے مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ تقدیر خدا کی ان تقدیروں میں سے ہے جو بَغْتَۃً کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں یعنی ان کی درمیانی کڑیاں نظرسے اوجھل رہتی ہیں اور آخری نتیجہ اچانک نمودار ہوکر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ۔ پس حضرت مسیح موعودؑ کے الہام کے مطابق یہی انشاء اللہ اس پیشگوئی کی صورت میں بھی ہوگا لیکن کب اور کس طرح ہوگا یہ خدائی غیب کی باتیں ہیں جن میں ہمیں قیاس آرائی کی ضرورت نہیں ۔ خدا کی قدرت تو اتنی وسیع ہے کہ وہ جب کسی بات کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی طرف سے محض کُن کا اشارہ ہونے پر اُس کے سامان ہونے شروع ہوجاتے ہیں ۔ پس مایوس نہ ہو اور اپنی ہمتوں کو بلند رکھو اور دعائیں کرتے چلے جاؤ اور نیکی اختیار کرو تاکہ خدا جلد اپنے وعدہ کا دن لے آئے۔ اسلام کا خدا تو اس بات پر بھی قادر ہے کہ اپنے خاص الخاص تصرّف کے ساتھ ایسے غیر متوقّع حالات پیدا کردے جس کے نتیجہ میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کسی ایسے فیصلہ کا رستہ کھل جائے جو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ہو۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت
اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے
جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
(۱۲)
میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ خدائی رحمت کے چھینٹے گرنے کا ذکر کررہا تھا ۔ یہ چھینٹا بلا امتیاز دوست و دشمن سب لوگوں اور سب طبقوں اور سب قوموں پر علیٰ قدر مراتب گرتا تھا مگر طبعاً یہ چھینٹا دوستوں پر زیادہ گرتا تھا لیکن دوسروں کے لئے بلکہ دشمنوں تک کے لئے بھی گاہے گاہے نشانِ رحمت کے طور پر گرتا رہتا تھا۔ ایک آریہ مخالف کے لئے تو اس رحمت کے چھینٹے کا ذکر اوپر گزرچکا ہے اب کابل سے آئی ہوئی ایک غریب مہاجر احمدی عورت کا بھی ذکر سن لو جس نے غیر معمولی حالات میں حضرت مسیح موعودؑ کے دمِ عیسوی سے شفا پائی۔ مسماۃ امۃ اللہ بی بی سکنہ علاقہ خوست مملکتِ کابل نے مجھ سے بیان کیا کہ جب وہ شروع شروع میں اپنے والد اور چچا سیّد صاحب نور اور سیّد احمد نور کے ساتھ قادیان آئی تو اس وقت اس کی عمر بہت چھوٹی تھی اور اس کے والدین اور چچا چچی حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہیدؓ کی شہادت کے بعد قادیان چلے آئے تھے ۔ مسماۃ امۃ اللہ کو بچپن میں آشوبِ چشم کی سخت شکایت ہوجاتی تھی اور آنکھوں کی تکلیف اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ انتہائی درد اور سرخی کی شدت کی وجہ سے وہ آنکھ کھولنے تک کی طاقت نہیں رکھتی تھی ۔ اس کے والدین نے اس کا بہت علاج کرایا مگر کچھ افاقہ نہ ہوا اور تکلیف بڑھتی گئی ۔ ایک دن جب اس کی والدہ اسے پکڑ کر اس کی آنکھوں میں دوائی ڈالنے لگی تو وہ ڈر کر یہ کہتے ہوئے بھاگ گئی کہ میں تو حضرت صاحب سے دم کراؤں گی چنانچہ وہ بیان کرتی ہے کہ میں گرتی پڑتی حضرت مسیح موعودؑ کے گھر پہنچ گئی اور حضور کے سامنے جاکر روتے ہوئے عرض کیا کہ میری آنکھوں میں سخت تکلیف ہے اور درد اور سرخی کی شدت کی وجہ سے میں بہت بے چین رہتی ہوں اور اپنی آنکھیں تک کھول نہیں سکتی۔ آپ میری آنکھوں پر دم کردیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تو میری آنکھیں واقعی خطرناک طور پر ابلی ہوئی تھیں اور میں درد سے بے چین ہو کر کراہ رہی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی انگلی پراپنا تھوڑا سا لعاب دہن لگایا اور ایک لمحہ کے لئے رُک کر (جس میں شاید حضور دل میں دعا فرمارہے ہوں گے ) بڑی شفقت اور محبت کے ساتھ اپنی یہ انگلی میری آنکھوں پر آہستہ آہستہ پھیر دی اور پھر میرے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا
’’بچی جاؤ اب خدا کے فضل سے تمہیں یہ تکلیف پھر کبھی نہیں ہوگی۔‘‘
(روایت مسماۃ امۃ اللہ بی بی مہاجرہ علاقہ خوست)
مسماۃ امۃ اللہ بیان کرتی ہے کہ اس کے بعد آج تک جبکہ میں ستّر سال کی بوڑھی ہوچکی ہوں کبھی ایک دفعہ بھی میری آنکھیں دکھنے نہیں آئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دم کی برکت سے میں اس تکلیف سے ہمیشہ بالکل محفوظ رہی ہوں حالانکہ اس سے پہلے میری آنکھیں اکثر دُکھتی رہتی تھیں اور میں بہت تکلیف اٹھاتی تھی۔ وہ بیان کرتی ہے کہ جب حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنا لعابِ دہن لگا کر میری آنکھوں پر دم کرتے ہوئے اپنی انگلی پھیری تو اس وقت میری عمر صرف دس سال کی تھی ۔ گویا ساٹھ سال کے طویل عرصہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے اس روحانی تعویذ نے وہ کام کیا جو اس وقت تک کوئی دوائی نہیں کرسکی تھی۔
دوستوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ دم کرنے کا طریق دراصل دعا ہی کی ایک قسم ہے جس میں قولی دعا کے ساتھ کرنے والے کی آنکھوں کی توجہ اور اس کے لمس کی برکت بھی شامل ہوجاتی ہے اور یہ وہی طریقہ علاج ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعض حدیثوں میں بھی مذکور ہے اور جس کے ذریعہ حضرت عیسٰی ؑ بھی بعض اوقات اپنے مریضوں کا علاج کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ کسی شاعر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم (فداہ نفسی) کی تعریف میں کیا خوب کہا ہے کہ
حسنِ یوسف، دمِ عیسیٰ ، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
’’یعنی تو یوسفؑ جیسے بے مثال حسن کا مالک ہے اور تو مریضوں کو اچھا کرنے میں عیسٰیؑ کے دمِ شفا کی غیر معمولی تاثیر بھی رکھتا ہے اور تجھے موسٰی کی طرح وہ چمکتا ہوا ہاتھ بھی حاصل ہے جس نے فرعون اور اس کے ساحروں کی نظروں کو خیرہ کردیا تھا ۔ پس لاریب تیرے اندر وہ ساری خوبیاں جمع ہیں جو دنیا کے کسی انسان کو کسی زمانہ میں حاصل ہوئی ہیں۔‘‘
دَم کے طریقۂ علاج کے متعلق یہ بات بھی ذکر کرنی ضروری ہے اور دوستوں کو یاد رکھنی چاہیئے کہ گو یہ طریقۂ علاج آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گاہے گاہے کے عمل سے ثابت ہے مگر اسے کثرت کے ساتھ اختیار کرنا اور گویا منتر جنتر بنا لینا ہرگز درست نہیں۔ کیونکہ بے احتیاطی کے نتیجہ میں اس سے بہت سی بدعتوں کا رستہ کھل سکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ جیسا کہ قرآن مجید نے فرمایا ہے دعا کا معروف طریق اختیار کیا جائے اور اگر کسی وقت دَم کے طریقۂ علاج کی ضرورت سمجھی جائے یا اس کی طرف زیادہ رغبت پیدا ہو تو ضروری ہے کہ کسی نیک اور متقی اور روحانی بزرگ سے دَم کرایا جائے ورنہ جیسا کہ حضرت مسیحِ موعودؑ نے فرمایا ہے اندیشہ ہوسکتا ہے کہ برکت کی بجائے بے برکتی کا دروازہ کھل جائے۔
(۱۳)
ابھی ابھی حضرت مسیح موعودؑ کی دعا سے ایک بد حال مریضہ کے شفاء پانے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ حضور کی زندگی میں ایسی معجزانہ شفایابی کی مثالیں ایک دو نہیں دس بیس نہیں بلکہ حقیقۃً بے شمار ہیں جن میں سے بعض حضور نے مثال کے طور پر اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں بیان فرمائی ہیں اور بعض لوگوں کے سینوں اور تحریری دستاویزات میں محفوظ ہیں ۔ ان میں سے اس جگہ میں صرف ایک بات نمونہ کے طور پر بیان کرتا ہوں۔
جماعت کے اکثر دوست ہمارے چھوٹے ماموں حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کو جانتے ہیں۔ انہوں نے حضرت خلیفۂ اول مولوی نور الدین صاحبؓ سے اور بعض دوسرے احمدی علماء سے علم حاصل کیا اور پھر اپنی فطری ذہانت اور مشق اور ذوق و شوق کے نتیجہ میں جماعت کے چوٹی کے علماء میں داخل ہوگئے۔ ان کا درسِ قرآنِ مجید اور درسِ حدیث سننے سے تعلق رکھتا تھا اور مناظرے کے فن میں تو انہیں ایسا ید طولیٰ حاصل تھا کہ بڑے بڑے جبّہ پوش مولوی اور عیسائی پادری اور آریہ پنڈت ان کے سامنے بحث کے وقت طفلِ مکتب نظر آتے تھے۔
انہی میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے بچپن کا ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ وہ سخت بیمار ہوگئے اور حالت بہت تشویشناک ہوگئی اور ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے متعلق دعا فرمائی تو عین دعا کرتےہوئے خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ
سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ
(بدر ۱۱ ؍ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ و الحکم ۱۷ ؍ مئی ۱۹۰۵ء)
’’یعنی تیری دعا قبول ہوئی اور خدائے رحیم و کریم اس بچے کے متعلق تجھے سلامتی کی بشارت دیتا ہے ‘‘
چنانچہ اس کے جلد بعد حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ بالکل توقع کے خلاف صحتیاب ہوگئے اور خدا نے اپنے مسیح کے دَم سے انہیں شفا عطا فرمائی اور اس کے بعد وہ چالیس سال مزید زندہ رہ کر اور اسلام اور احمدیت کی شاندار خدمات بجالا کر اور ملک و ملّت میں بہت سی نیکیوں کا بیج بو کر قریباً پچپن۵۵سال کی عمر میں خدا کو پیارے ہوئے۔ وَ کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَ یَبْقیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْالْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ۔
مگر اس واقعہ کے تعلق میں ایک بہت عجیب بلکہ بے حد عجیب و غریب اور نہایت درجہ لطیف خدائی کرشمہ یہ ظاہر ہوا کہ جب چالیس سال کے بعد حضرت میر صاحب کی اجل مسمیّٰ کا وقت آگیا اور خدائی حکم کے ماتحت آسمان کے فرشتوں نے ان کا نام پکارا تو اس وقت یہ عاجز ان کے پاس ہی کھڑا تھا اور وہ قریباً نیم بیہوشی کی حالت میں بستر میں پڑے تھے اور حافظ محمد رمضان صاحب مسنون طریق پر ان کے قریب بیٹھے ہوئے سورۂ یٰسٓ سنارہے تھے تو عین اس وقت جبکہ حافظ صاحب قرآنِ مجید کی اس آیت پر پہنچے جو حضرت میر صاحب کے بچپن کے زمانہ میں ان کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کو الہام ہوئی تھی یعنی سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ تو حضرت میر صاحب نے آخری سانس لیا اور خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگئے ۔ گویا بچپن میں اس خدائی رحمت کے پیغام نے ان کے لئے دنیا کی زندگی کا دروازہ کھولا اور چالیس سال بعد بڑھاپے میں انہی قرآنی الفاظ میں خدا کے فرشتوں نے اُنہیں اُخروی زندگی کے دروازے پر کھڑے ہوکر آواز دی ۔ بچپن کی بیماری میں حضرت مسیح موعودؑ کے اس الہام نے ان کے لئے جسمانی صحت کا پیغام دیا اور زندگی کی آخری بیماری میں فرشتوں نے انہیں انہی الفاظ میں جنت کے دروازے پر کھڑے ہوکر اھلا و سھلا کہا۔ یقیناً یہ کوئی اتفاقی بات نہیں بلکہ خدائی قدرت و رحمت کا عجیب و غریب کرشمہ ہے جو خدا نے اپنے اس نیک اور مجاہد بندے کے لئے ظاہر فرمایا کہ شروع میں انہی الفاظ میں اُسے بیماری کی حالت میں دنیوی زندگی کی بشارت دی اور پھر چالیس سال بعد انہی الفاظ کے ذریعہ اس کے لئے اُخروی نعمتوں کا دروازہ کھول دیا۔ دوست غور کریں کہ ہمارے علیم و خبیر خدا کا علم کتنا وسیع اور اس کی قدرت کتنی عجیب و غریب ہے کہ بجلی کے بٹن کی طرح ایک ہی سوِچ ایک وقت میں دنیا کی نعمتوں کا نظارہ دکھاتی ہے اور دوسرے وقت میں وہی سوِچ پردہ اٹھا کر جنت الفردوس کا نظارہ پیش کردیتی ہے۔ اور یہ دونوں نظارے حضرت میر صاحب کے لئے خدا کی غیر معمولی رحمت اور حضرت مسیح موعودؑ کی غیر معمولی جمالی شان سے معمور ہیں ۔ اَللّٰھُمِّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ وَ سَلِّمْ ۔
(۱۴)
اَب میں ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے رشتہ داروں بلکہ مخالف رشتہ داروں تک کے ساتھ رحیمانہ اور مشفقانہ سلوک تھا۔ دراصل چھوٹے چھوٹے گھریلو واقعات ہی زیادہ تر انسان کے اخلاق کا صحیح اندازہ کرنے کے لئے بہترین معیار ہوتے ہیں۔ کیونکہ اُن میں کسی قسم کے تکلف کا پہلو نہیں ہوتا اور انسان کی اصل فطرت بالکل عریاں ہو کر سامنے آجاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے ساتھ اپنے نئے بنے ہوئے حجرے میں اکٹھے کھڑے باتیں کررہے تھے کہ اُس وقت میں بھی اپنی بچپن کی عمر میں کسی لڑکے کے ساتھ کھیلتا ہوا اُس حجرے میں پہنچ گیا اور چونکہ اُس کمرے کے باہر کھڑکی کھلی تھی اور اُس کھڑکی میں سے ہمارے چچا یعنی حضرت مسیح موعودؑ کے چچا زاد بھائی مرزا نظام الدین صاحب کا مکان نظر آرہا تھا میں نے کسی بات کے تعلق میں اپنے ساتھ والے لڑکے سے کہا کہ ’’دیکھو وہ نظام الدین کا مکان ہے۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے یہ الفاظ کسی طرح سن لئے اور جھٹ پلٹ کر مجھے نصیحت کے رنگ میں ٹوک کر فرمایا کہ
’’میاں آخر وہ تمہارا چچا ہے اِس طرح نام نہیں لیا کرتے ۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ ۲۸ روایت نمبر ۸)
جیسا کہ میں دوسری جگہ بیان کرچکا ہوں مرزا نظام الدین صاحب ہمارے چچا ہونے کے باوجود حضرت مسیح موعودؑ کے اشد ترین مخالف بلکہ معاند تھے۔ اور اِس مخالفت کی وجہ سے اُن کا ہمارے ساتھ کسی قسم کا تعلق اور راہ و رسم نہیں تھا اور اِسی بے تعلقی کے نتیجہ میں میرے منہ سے بچپن کی بے احتیاطی میں یہ الفاظ نکل گئے مگر حضرت مسیح موعود ؑ کے اخلاقِ فاضلہ کا یہ عالَم تھا کہ آپ نے مجھے فوراً ٹوکا اور تربیت کے خیال سے نصیحت فرمائی کہ اپنے چچا کا نام اِس طرح نہیں لیا کرتے اور آج تک میرے دل میں حضورؑ کی یہ نصیحت ایک آہنی میخ کی طرح پیوست ہے اور اس کے بعد میں نے کبھی اپنے کسی بزرگ کا نام تو درکنار کسی خورد کا نام بھی ایسے رنگ میں نہیں لیا جس میں کسی نوع کی تحقیر کا شائبہ پایا جائے۔ ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ اپنے بچوں اور بچیوں کے حالات اور اقوال کا بڑی توجہ کے ساتھ جائزہ لیتے رہیں اور جہاں بھی وہ دیکھیں کہ ان کے اخلاق و عادات میںکوئی بات اسلام اور احمدیت کی تعلیم یا آداب کے خلاف ہے اُس پر فوراً نوٹس لے کر اس کی اصلاح کردیں کیونکہ بچپن کی اصلاح بڑا وسیع اثر رکھتی ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اَلطَّرِیْقَۃُ کُلُّھَا اَدَبٌ یعنی دین کا رستہ تمام کا تمام ادب و تادیب کے میدان میں سے ہو کر گزرتا ہے۔ کاش! ہر احمدی باپ اور ہر احمدی ماں اس سنہری نصیحت کو حرزِ جان بنا لے۔
(۱۵)
اس تعلق میں ایک اور واقعہ بھی یاد آگیا۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کو یہ اطلاع ملی کہ یہی مرزا نظام الدین صاحب جو حضرت مسیح موعودؑ کے اشد ترین مخالف تھے بیمار ہیں۔ اِس پر حضور ان کی عیادت کے لئے بلا توقف اُن کے گھر تشریف لے گئے۔ اس وقت ان پر بیماری کا اتنا شدید حملہ تھاکہ اُن کا دماغ بھی اُس سے متاثر ہوگیا تھا۔ آپ نے اُن کے مکان پر جاکر ان کے لئے مناسب علاج تجویز فرمایا جس سے وہ خدا کے فضل سے صحتیاب ہوگئے ۔ ہماری امّاں جان حضرت ام المومنین رضی اللہ عنھا بیان فرماتی تھیں کہ باوجود اس کے کہ مرزا نظام الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت مخالف بلکہ معاند تھے آپ اُن کی تکلیف کی اطلاع پاکر فوراً ہی ان کے گھر تشریف لے گئے اور ان کا علاج کیا اور ان سے ہمدردی فرمائی۔
(سیرت المہدی حصہ سوم روایت ۵۲۲)
یہ وہی مرزا نظام الدین صاحب ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بعض جھوٹے مقدمات کھڑے کئے اور اپنی مخالفت کو یہاں تک پہنچا دیا کہ حضرت مسیح موعودؑ اور حضور کے دوستوںاور ہمسایوں کو دکھ دینے کے لئے حضور کی مسجد یعنی خدا کے گھر کا رستہ بند کردیا۔ اور بعض غریب احمدیوں کو ایسی ذلت آمیز اذیتیں پہنچائیں کہ جن کے ذکر تک سے شریف انسان کی طبیعت حجاب محسوس کرتی ہے۔ (سیرت المہدی حصہ اوّل روایت نمبر ۱۲۹،۱۳۰) مگر حضورؑ کی رحمت اور شفقت کا یہ عالَم تھا کہ مرزا نظام الدین صاحب جیسے معاند کی بیماری کا علم پاکر بھی حضور کی طبیعت بے چین ہوگئی۔
اس واقعہ سے حضور کے اس قول کی شاندار عملی تصدیق ہوتی ہے جسے میں نے گزشتہ سال کی تقریر میں بیان کیا تھا جس میں حضور فرماتے ہیں کہ ہمارا کوئی دشمن سے دشمن انسان بھی ایسا نہیں جس کے لئے ہم نے کم از کم دو تین دفعہ دعا نہ کی ہو(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۹۶ و صفحہ ۹۷) اللہ اللہ ! کیا دل تھا اور اس دل نے خدائی رحمت کے وسیع سمندر سے کتنا حصہ پایا تھا!! کاش جماعتِ احمدیہ کے مرد اور عورتیں اور بچے اور بوڑھے اور خواندہ اور ناخواندہ خدا کی طرف سے اسی قسم کی رحمت کا ورثہ پائیں تاکہ وہ اس جمالی شان کا آئینہ بن جائیں جو آسمان کے خالق و مالک کی طرف سے حضرت مسیح موعود ؑ کو عطا کی گئی تھی۔اٰمِیْن یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن۔
(۱۶)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی غیر معمولی جمالی صفات اور آپ کے بےمثال حُسن و احسان کے باوجود خدائی سنت کے مطابق دنیا کی ہر قوم نے حضرت مسیح موعودؑ کی انتہائی مخالفت کی اور کوئی دقیقہ آپ کو تکلیف پہنچانے اور ناکام رکھنے کا اٹھا نہیں رکھا اور ہر رنگ میں اپنے دروازے آپ پر بند کردئیے۔ میں اس تعلق میں ایک چھوٹاسا دلچسپ واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ۱۹۰۵ء کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ دہلی تشریف لے گئے جو آپ کی زوجہ مطہرہ یعنی ہماری اماں جان رضی اللہ عنھا کا مولد و مسکن تھا۔ مگر یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ وہاں جانے سے پہلے حضور نے ایک رؤیا دیکھا کہ حضور دلّی گئے ہیں لیکن حضور نے وہاں کے سب دروازوں کو بند پایا ہے۔ (تذکرہ صفحہ ۵۶۸) چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب آپ دہلی پہنچے تو ساری قوموں کی طرف سے آپ کی شدید مخالفت کی گئی اور ہر قوم اور ہر طبقہ نے آپ پر اپنا دروازہ بند کردیا۔ بے شک لوگ ملنے کے لئے آتے تھے اور کافی کثرت کے ساتھ آتے تھے لیکن اکثر لوگ تو مخالفت کی غرض سے ہی آتے تھے اور انکار کی حالت میں ہی استہزاء کرتے ہوئے واپس لوٹ جاتے تھے ۔ اور بعض بَرملا مخالفت تو نہیں کرتے تھے مگر بزدلی کی وجہ سے خاموش رہتے تھے اور بعض جن کے دل میں کچھ ایمان کی چنگاری روشن ہوتی تھی وہ مملکتِ روما کے ہرقل کی طرح اُس چنگاری کو اپنے ہاتھ سے بُجھا کر اپنی جھولی جھاڑتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے۔
دلّی نہ صرف بڑے بڑے جاہ و حشمت والے مسلمان بادشاہوں اور شان و شوکت والے حکمرانوں کا دارالحکومت رہا تھا بلکہ اس کی سرزمین میں بہت سے بزرگ اور اولیاء اور صلحاء بھی پیدا ہوئے تھے جن کے مزار آج دلّی کے زندہ انسانوں کی بجائے لوگوں کی زیادہ کشش کا موجب بنے ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی منکسرانہ طبیعت اور نیک لوگوں کی سنت کے مطابق ارادہ کیا کہ جو مجددین اور اولیاء کرام دلّی کی خاک میں مدفون ہیں اُن کی قبروں پر جاکر دعا کریں اور اُن کے لئے اور اہلِ دلّی کے لئے خدا سے خیر و برکت کے طالب ہوں ۔ چنانچہ حضور اس سفر کے دوران میں حضرت شیخ نظام الدین اولیاء اور حضرت سید ولی اللہ شاہ اور حضرت خواجہ باقی باللہ اور حضرت خواجہ بختیار کاکی اور حضرت خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہم کے مزاروں پر تشریف لے گئے اور ان کی قبروں پر کھڑے ہوکر دردِ دل سے دعا فرمائی۔ جب آپ حضرت شیخ نظام الدین اولیاء کے مزار پر تشریف لے گئے تو اُس وقت یہ عاجز بھی بچپن کی عمر میں آپ کے ساتھ تھا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ دعا کے بعد حضور نے فرمایا کہ اِس وقت اِس جگہ لوگوں کی کثرت ہے اور شور زیادہ ہے ورنہ میں یقین رکھتا ہوں کہ مجھے اس جگہ کشف کے ذریعہ بیداری کی حالت میں ہی حضرت شیخ نظام الدین اولیاء کی ملاقات ہوجاتی۔ اُس وقت خواجہ حسن نظامی صاحب مرحوم بالکل نوجوان تھے اور وہ حضور کے ساتھ ہوکر بڑے ادب کے طریق پر حضور کو درگاہ کی مختلف زیارت گاہیں دکھاتے پھرتے تھے۔
بالآخر جب حضرت مسیح موعودؑ دلّی کے سفر سے قادیان کو واپس روانہ ہونے لگے تو خواجہ حسن نظامی صاحب نے حضور سے درخواست کی کہ آپ حضرت نظام المشائخ کے مزار پر تشریف لے گئے تھے اس کے متعلق کچھ مناسب الفاظ تحریر فرماویں۔ حضور نے وعدہ فرمایا کہ قادیان جاکر لکھ دوں گا۔ چنانچہ قادیان واپس پہنچنے پر حضور نے خواجہ حسن نظامی صاحب کو ذیل کی تحریر لکھ کر بھجوادی جو دلّی کے حالاتِ سفر اور دلّی والوں کے انکار کی گویا ایک جیتی جاگتی تصویر ہے ۔ حضور اس تحریر میں فرماتے ہیں کہ
’’مجھے جب دہلی جانے کا اتفاق ہوا تو مجھے ان صلحاء اور اولیاء الرحمٰن کے مزاروں کی زیارت کا شوق پیدا ہوا جو خاک میں سوئے ہوئے ہیں کیونکہ جب مجھے دہلی والوں سے محبت اور انس محسوس نہ ہوئی تو میرے دل نے اس بات کے لئے جوش مارا کہ وہ اربابِ صدق و صفا اور عاشقانِ حضرت مولیٰ جو میری طرح اس زمین کے باشندوں سے بہت سا جورو جفا دیکھ کر اپنے محبوب حقیقی کو جاملے اُن کے متبرک مزاروں کی زیارت سے اپنے دل کو خوش کرلوں ۔ پس میں اسی نیت سے حضرت خواجہ شیخ نظام الدین اولیاء رضی اللہ عنہ کے مزارِ متبرک پر گیا ۔ اور ایسا ہی دوسرے چند مشائخ کے متبرک مزاروں پر بھی۔ خدا ہم سب کو اپنی رحمت سے معمور کرے۔ اٰمین ثم اٰمین ۔
الراقم عبد اللہ الصمد غلام احمد المسیح الموعود من اللہ الاحد ‘‘
(بدر ۲۴ ؍ نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۳)
حضرت مسیح موعود کی اس تحریر میں جس گہرے رنج و الم اور جس دلی حسرت کا اظہار نظر آرہا ہے وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں ۔ گویا یہ خیال کہ دلّی کا تاریخی شہر جس کی خاک میں سینکڑوں عالی مرتبہ بزرگ اور صلحاء اور اولیاء مدفون ہیں حضور کے لائے ہوئے نورِ ہدایت اور اسلام کے دورِ ثانی کی برکات سے محروم رہا جارہا ہے حضور کے دل کو بے چین کر رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضور گویا کشفی حالت میں اپنی آنکھوں کے سامنے ان کثیر التعداد بزرگوں کو دیکھ رہے تھے جو دلّی کے چپہ چپہ میں مدفون ہیں اور پھر ان سے ہٹ کر حضور کی نظر ان بزرگوں کی موجودہ اولاد کی طرف جاتی تھی جو اب اپنی جہالت اور تعصب کی وجہ سے اس نور کا انکار کررہی تھی جسے دیکھنے کے لئے ان کے لاکھوں کروڑوں باپ دادا ترستے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یہی وہ حسرت تھی جس نے حضور کے دل کو بے چین کردیا مگر حضرت مسیح موعودؑ کی یہ حسرت ہرگز مایوسی کے رنگ میں نہیں تھی بلکہ رنج اور افسوس اور دکھ کے رنگ میں تھی۔ اور یہ اسی قسم کی حسرت تھی جس کے متعلق خود خدائے عرش انبیاء کے انکار کا ذکر کرتے ہوئے قرآن میں فرماتا ہے کہ
یَا حَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ مَا یَأْتِیْھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُوْنَ۔
(سورۃ یٰسٓ آیت ۳۱)
’’یعنی حسرت ہے دنیا کے لوگوں پر کہ خدا کی طرف سے جو رسول بھی ان کی طرف آتا ہے وہ ہمیشہ اس کا انکار کرتے اور اس پر ہنسی اڑاتے ہیں۔‘‘
چنانچہ دوسری جگہ لوگوں کے اس انکار اور اپنی اس حسرت کے ساتھ ملاتے ہوئے اپنی آئندہ شاندار مقبولیت کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں کہ
امروز قومِ من نشناسد مقامِ من
روزے بگریہ یاد کند وقت خوشترم
(ازالۂ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۸۴)
’’یعنی آج میری قوم نے میرے مقام کو نہیں پہچانا لیکن وہ وقت آتا ہے جبکہ وہ رو رو کر بڑی حسرت کے ساتھ میرے مبارک زمانہ کو یاد کیا کرےگی۔‘‘
اور دوسری جگہ خدا تعالیٰ کی زبردست نصرت اور اپنے مشن کی یقینی اور قطعی کامیابی کے متعلق بڑی تحدی کے ساتھ فرماتے ہیں کہ
’’اے لوگو! تم یقیناًسمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفاکرے گا۔ اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دُعا نہیں سُنے گا اور نہیں رُکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کر لے۔ اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں۔ پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو۔ کاذبوں کے اور مُنہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اَور..... مَیں اس زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں جو جھوٹ اور افترا کے ساتھ ہو اور نیز اس حالت پر بھی کہ مخلوق سے ڈر کر خالق کے امر سے کنارہ کشی کی جائے.....یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا۔‘‘
(اربعین حصہ سوم روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۴۰۰،۴۰۱)
یہ وہ ایمان کامل اور یقین محکم ہے جو انبیاء کے دل پر آسمان کی بلندیوں سے نازل ہوتا ہے اور اس ایمان کو یہ زبردست طاقت حاصل ہوتی ہے کہ وہ پہاڑوں کو پاش پاش کرتا اور پانیوں کو چیرتا اور طوفانوں کو پھاندتا چلا جاتا ہے اور یہی وہ ایمان ہے جس میں خدا کی طرف سے دلوں کو فتح کرنے کی حیرت انگیز قوت ودیعت کی جاتی ہے۔
(۱۷)
اس جگہ میں جملۂ معترضہ کے طور پر کچھ اپنے متعلق کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ۱۹۶۲ء قریباً تمام کا تمام میری صحت کی خرابی میں گزرا ہے۔ اور بعض اوقات تو اس دوران میں میری صحت بہت زیادہ گرجاتی رہی ہے ۔ تین بیماریاں تو مجھے پرانی لگی ہوئی ہیں یعنی نقرس اور ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس جو تینوں کافی تکلیف دہ اور خطرناک ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر اوقات میری نبض بھی زیادہ تیز رہتی ہے جو گھبراہٹ اور بے چینی کا موجب ہوتی ہے ۔ مزید برآں ۱۹۶۲ء کے آخر میں آکر مجھے دل کی تکلیف کا بھی عارضہ ہوگیا اور میرے دل میں ایسا نقص پیدا ہوگیا کہ بار بار دل میں درد اٹھتا تھا جس کی لہر بائیںبازو کی طرف جاتی تھی جو ایک خراب علامت سمجھی جاتی ہے۔ دراصل ایک دفعہ ۱۹۵۴ء میں مجھے دل کی بیماری کا حملہ ہوا تھا جس کی وجہ سے میں چار ماہ تک موت و حیات کے درمیان لٹکتا رہا۔ مگر اس کے بعد میرے خدا نے مجھ پر رحم کیا اور کئی سال تک میری صحت ایسی رہی کہ گو میں بالکل تندرست تو نہیں ہوسکا مگر خدا کے فضل سے علمی کاموں میں توجہ دینے اور ایک حد تک محنت کرنے کے قابل ہوگیا لیکن ۱۹۶۲ءکے آخر میں جبکہ میری عمر شمسی حساب سے ستر سال ہورہی ہے غالباً زیادہ کام کرنے کی وجہ سے میری یہ تکلیف پھر عود کرآئی اور بعض اوقات روزانہ اور بعض اوقات وقفہ وقفہ کے ساتھ دل کی تکلیف کے دورے ہونے لگے اور کمزوری بہت بڑھ گئی ۔
حال ہی میں لاہور کے ایک قابل ڈاکٹر نے جو ماہرِ امراضِ قلب ہیں مجھے ربوہ میں آکر دیکھا اور میرے دل اور جگر اور سینے وغیرہ کا معائنہ کرنےا ور دل کا ای۔سی۔جی فوٹو لینے کے بعد انہوں نے بتایا کہ میرے دل کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے اور مزید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور تاکید کی کہ مجھے کچھ عرصہ تک محنت اور کوفت اور پریشانی والے کام سے کلّی طور پر اجتناب کرتے ہوئے مکمل آرام کرنا چاہیئے۔
اِن حالات میں مجھے موجودہ تقریر ذکر حبیب یعنی ’’آئینۂ جمال‘‘ کی تیاری میں اس دفعہ خاطر خواہ توجہ دینے کا موقعہ نہیں مل سکا ۔ یعنی نہ تو میں ٹھیک طرح روایات اور واقعات کا انتخاب کرسکا ہوں اور نہ ہی میں نے ان روایات اور واقعات کو مؤثر اور دلچسپ رنگ میں بیان کرنے کی طاقت پائی ہے بلکہ محض سرسری مطالعہ اور سرسری انتخاب کے نتیجہ میں جو عام روایتیں میرے علم میں آئیں انہیں سادہ زبان میں بیان کردیا ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ انسان کی زبان اور قلم میں تاثیر ڈالنے والا ہے اور میں اسی سے بہتری کی امید رکھتا ہوا اپنے دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر وہ ان حالات میں میرے اس مجموعہ میں کوئی خامی یا کمزوری دیکھیں تو مجھے معذور تصور فرمائیں۔ اور اگر کوئی خوبی پائیں تو اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریںاور صحت کی کنجی خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہی اپنے فضل سے سنانےوالے کو صحت کے ساتھ سنانے اور اپنے بیان میں اثر پیدا کرنے کی توفیق دے سکتا ہے اور وہی ہے جو سننے والوں کے دل و دماغ کی کھڑکیاں کھولنے کی طاقت رکھتا ہے۔
بس اسی جملۂ معترضہ کے ساتھ میں اپنے اصل مضمون کی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنے بقیہ مضمون کو مختصر طور پر بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللہ ِالْعَظِیْمِ ۔
(۱۸)
میں اپنی گزشتہ سال کی تقریر میں اقتداری معجزات کی تشریح کے متعلق کچھ بیان کرچکا ہوں۔ ایسے معجزات خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی وحی و الہام کے نزول کے بغیر محض ایک مرسلِ یزدانی کی روحانی قوت سے وجود میں آتے ہیں اور اس کی صداقت اور خدائی نصرت کی زبردست دلیل بن جاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک زندگی میں ایسے بہت سے معجزات کی مثال ملتی ہے کہ جب آپ نے اپنی قوّتِ قدسیہ اور خداداد روحانی طاقت کے ذریعہ غیر معمولی معجزات کا عالَم پیدا کردیا۔ مثلاً بعض اوقات جبکہ کوئی فوری علاج میسر نہیں تھا آپ نے ایک عزیز صحابی کی بیمار آنکھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور وہ خدا کے فضل سے کسی قسم کے ظاہری علاج کے بغیر اچھی ہوگئی۔ (بخاری حالات غزوۂ خیبر ) یا آپ نے کسی اشد ضرورت کے وقت تھوڑے سے پانی کے برتن میں اپنی انگلیاں ڈالیں اور وہ آپ کے ہاتھ کی برکت سے جوش مار کر بہنے لگا اور صحابہ کی ایک بڑی تعداد اس سے سیراب ہوگئی۔ (بخاری باب شرب البرکۃ و الماء المبارک) یا غذا کی قلّت کے وقت میں آپ کی برکت سے تھوڑا سا کھانا کثیر التعداد صحابہ کے لئے کافی ہوگیا اور سب نے اس کھانے سے سیری حاصل کی۔ (بخاری ۔باب غزوہ خندق) یہ سب اقتداری معجزات کی روشن مثالیں ہیں جو خدائے عرش نے اپنے محبوب رسول کی خاطر اس کے ہاتھ پر ظاہر فرمائیں۔
اسی قسم کے اقتداری معجزات خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں بھی کافی تعداد میں ملتے ہیں۔ مثلاً آپ نے کسی بے چَین بیمار پر اپنا ہاتھ رکھا اور وہ محض آپ کے ہاتھ کے چھونے سے شفایاب ہوگیا۔ یا آپ نے کسی فوری ضرورت کے وقت تھوڑے سے کھانے میں اپنی انگلیاں ڈالیں اور وہ کثیر التعداد لوگوں کے لئے کافی ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔ بے شک جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے معجزات کا منبع صرف خداتعالیٰ کی ذات ہے اور کسی نبی یا رسول کو از خود یہ طاقت حاصل نہیں کہ وہ خدائی اذن کے بغیر کوئی معجزہ دکھائے (سورۂ مومن آیت ۷۹) اور نہ ہی نبیوں کی یہ شان ہے کہ وہ نعوذ باللہ مداریوں کی طرح تماشہ دکھاتے پھریں۔ مگر یہ بھی خدا ہی کی سنت ہے کہ بعض اوقات وہ اپنے خاص پیاروں اور مقبولوں کی خاطر مومنوں کے ایمان میں تازگی پیدا کرنے یا ان کے عرفان میں زیادتی کا رستہ کھولنے کے لئے اس قسم کے خارق عادت نشانات دکھاتا ہے کہ خدا کے اذن کے ساتھ ان کی طرف سے صرف اشارہ ہونے پر یا محض ہاتھ کے چھو جانے سے غیر معمولی نتائج پیدا ہوجاتے ہیں مگر جیسا کہ میںبتا چکا ہوں یہ طاقت کسی نبی یا رسول کو مستقل طورپر حاصل نہیں ہوتی بلکہ صرف استثنائی طور پر وقتی صورت میں خدا کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہے ۔ لیکن چونکہ ایسے اقتداری معجزات کی مفصل تشریح میری گزشتہ سال کی تقریر میں گزرچکی ہے (درّ مکنون صفحہ ۳۷ تا ۴۳) اس لئے اس جگہ اس کے متعلق زیادہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
یہاں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے صرف ایک دو واقعات ایسے بیان کرتا ہوں کہ جب گھر میں کھانا تھوڑا تھا اور اچانک مہمان بہت زیادہ آگئے اور منتظمین کو فکر پیدا ہوا تو حضرت مسیح موعودؑ کے دَم کی برکت سے یہ تھوڑا سا کھانا ہی کثیر التعداد مہمانوں کے لئے کافی ہوگیا۔
میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے جو حضرت مسیح موعودؑ کے بہت مخلص اور بڑے قدیم صحابی تھے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چند مہمانوں کی دعوت کی مگر عین اس وقت جبکہ کھانا کھانے کا وقت آیا زیادہ مہمان آگئے اور ’’مسجد مبارک مہمانوں سے بھر گئی‘‘۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت بیوی جی کو اندر کہلا بھیجا کہ ’’اور مہمان آگئے ہیں کھانا زیادہ بھجواؤ۔‘‘ اس پیغام کے جانے پر حضرت اماں جان نے گھبرا کر حضرت مسیح موعودؑ کو اندر بلوایا اور کہا کہ کھانا تو بہت تھوڑا ہے اور صرف اُن چند مہمانوں کے مطابق پکایا گیا تھا جن کے متعلق آپ نے فرمایا تھا۔ اب کیا کیا جائے؟ حضرت مسیح موعود ؑنے بڑے اطمینان کے ساتھ فرمایا کہ
’’گھبراؤ نہیں اور کھانے کا برتن میرے پاس لے آؤ۔‘‘
پھر حضرت مسیح موعود ؑنے اس برتن پر ایک رومال ڈھانک دیا اوررومال کے نیچے سے اپنا ہاتھ گزار کر اپنی انگلیاں چاولوں کے اندر داخل کردیں اور پھر یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لے گئے کہ
’’اب تم کھانا نکالو خدا برکت دے گا۔‘‘
میاں عبد اللہ صاحب روایت کرتے ہیں کہ یہ کھانا سب نے کھایا اور سب سیر ہوگئے اور کچھ بچ بھی گیا۔ (سیرت المہدی حصہ اول روایت۱۴۴ صفحہ ۱۳۴)
(۱۹)
میں نے جب میاں عبد اللہ صاحب کی یہ دلچسپ روایت حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا کے پاس بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ ایسے واقعات حضرت مسیح موعود ؑکی برکت سے ہمارے گھر میں بارہا ہوئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک لطیف واقعہ مثال کے طور پر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے بہت تھوڑا سا پلاؤ پکایا جو صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ہی کافی ہوسکتا تھا مگر اس دن نواب محمد علی خان صاحب جو ہمارے ساتھ والے مکان میں رہتے تھے وہ اور ان کی بیوی اور بچے وغیرہ سب ہمارے گھر آگئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا کہ ان کو بھی کھانا کھلاؤ۔ میں نے حضرت مسیح موعودؑ سے کہا کہ چاول تو بالکل ہی تھوڑے ہیں کیونکہ میں نے یہ چاول صرف آپ کے لئے ہی تیار کروائے تھے۔ اس پر حضرت مسیح موعود ؑ نے چاولوں کے پاس آکر ان پر دَم کیا اور مجھ سے فرمایا کہ
’’اب تم خدا کا نام لے کر ان چاولوں کو تقسیم کردو۔‘‘
حضرت اماں جان فرماتی تھیں کہ ان چاولوں میں ایسی فوق العادت برکت پیدا ہوئی کہ نواب صاحب کے سارے گھر والوں نے یہ چاول کھائے اور حضرت مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب کے گھروں میں بھی چاول بھجوائے گئے اور ان کے علاوہ کئی دوسرے لوگوں کو بھی دئیے گئے اور چونکہ وہ ’’برکت والے چاول ‘‘ مشہور ہوگئے تھے اس لئے بہت سے لوگوں نے ہم سے آ آکر چاول مانگے اور ہم نے سب کو دئیے اور خدا کے فضل سے وہ سب کے لئے کافی ہوگئے۔
(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ ۱۳۴،۱۳۵روایت نمبر ۱۴۴)
حضرت اماں جان ؓ فرماتی تھیں کہ اس قسم کے اور بھی بہت سے واقعات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں گزرے ہیں کہ خدا نے حضور کے دَم کی برکت سے عین وقت پر جبکہ کوئی انتظام نظر نہیں آتا تھا تھوڑے سے کھانے کو زیادہ کردیا ۔ در اصل چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تاکید فرماتے تھے کہ جو مہمان بھی آئے وہ کھانے سے محروم نہ رہے اور اکثر مہمان اچانک آجاتے تھے اور قادیان اُن دنوں میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہوتا تھا جس میں کھانے کی چیزیں نہیں ملتی تھیں اس لئے بہرحال جس طرح بھی میسر ہوتا تھا سب کے لئے وقت بےوقت کھانے کا انتظام کیا جاتا تھا اور خدا کے فضل سے وہ کافی ہوجاتا تھا۔
دنیا کے لوگ جو اپنے مادی قانون کے تصورات اور مادی مشاہدات سے گھِرے ہوئے ہیں وہ شاید ان باتوں کو نہ سمجھ سکیں کیونکہ وہ روحانی آنکھوں سے محروم ہیں مگر جن لوگوں نے خدا کو دیکھا اور پہچانا ہے اور اس کی وسیع قدرتوں کا مشاہدہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ حقیقتاً خدا ہی دنیا کا واحد خالق و مالک ہے اور خدا ہی ہے جس نے اپنی ازلی حکمت کے ماتحت دنیا میں خیر و شر کی تقدیر جاری کررکھی ہے اور وہی ہے جس نے زمین و آسمان کی چیزوں میں مختلف خواص ودیعت کئے ہیں ۔ اور پھر خدا اپنے بنائے ہوئے قانون کا غلام نہیں بلکہ جیسا کہ وہ قرآن میں خود فرماتا ہے وہ خاص حالات میں خاص ضروریات کے ماتحت اپنے قانون کو وقتی طور پر بدل بھی سکتا ہے ۔ اس لئے ایسے لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہیں کہ خدا کی طاقتیں اتنی وسیع اور اتنی عجیب و غریب ہیں کہ جن کی نہ کوئی حد ہے نہ حساب۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ لوگ اپنے مادی ماحول سے آگے نکل کر اپنی روحانیت کی آنکھیں کھولیں اور پھر وہ تماشہ دیکھیں جو ہزاروں نبیوں اور ہزاروں ولیوں کے زمانہ میں دنیا دیکھتی چلی آئی ہے ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
بیا در بزمِ مستاں تا بہ بینی عالمے دیگر
بہشتے دیگر و ابلیسِ دیگر آدمے دیگر
’’ یعنی خدا کی محبت میں مخمور ہوکر اس کے عاشقوں کے زمرہ میں داخل ہوجاؤ پھر تمیں اس مادی دنیا کے علاوہ ایک بالکل اور دنیا نظر آئے گی جس کا بہشت بھی اور ہے اور ابلیس بھی اور ہے اور آدم بھی اور ہے۔‘‘
(۲۰)
دوسرے نیک لوگوں نے تو اپنی اپنی استعداد اور اپنی اپنی روحانی طاقت کے مطابق بہشت دیکھے ہوں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا بہشت کلیۃً خدا کی ذاتِ والا صفات میں مرکوز تھا ۔ آپ خدا کے عشق میں اس قدر محو اور مخمور تھے کہ جزا اور سزا کے خیال سے اس طرح بالا ہوگئے تھے جس طرح کہ آسمان کا ایک بلند ستارہ زمین کی پستیوں سے بالا ہوتا ہے۔ میں آپ کے اس بے مثال عشق کی چند مثالیں اپنی تقریر سیرۃِ طیبہ میں بیان کرچکا ہوں جس میں محبتِ الٰہی اور عشقِ رسول کا مضمون میری تقریر کا مرکزی نقطہ تھا ۔ آپ کا نفس اِس طرح نظر آتا تھا کہ گویا وہ ایک عمدہ اسفنج کا ٹکڑا ہے جس میں خدا کی محبت کے سوا کسی اور کی محبت کے لئے جگہ باقی نہ تھی۔ ایک جگہ آپ اللہ تعالیٰ کے عشق میں متوالے ہوکر فرماتے ہیں کہ
’’ ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے۔ ہماری اعلیٰ لذّات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی۔ یہ دولت لینے کے لایق ہے اگرچہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگرچہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو۔ اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا ۔ یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔‘‘
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۱،۲۲)
دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں دوست غور سے سنیں کہ کس والہانہ انداز میں فرماتے ہیں کہ
’’ابتلا کے وقت ہمیں اندیشہ صرف اپنی جماعت کے بعض کمزور لوگوں کا ہوتا ہے میرا تو یہ حال ہے کہ اگر مجھے صاف آواز آئے کہ تو مخذول ہے اور تیری کو ئی مراد ہم پو ری نہیں کریں گےتو مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ پھر بھی میرے اس عشق ومحبت الٰہی اور خدمت دین میں کو ئی کمی واقع نہیں ہوگی۔اس لئے کہ مَیں تو اسے دیکھ چکا ہوں۔‘‘ اور پھرآپ نے یہ قرآنی آیت پڑھی کہ ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَـمِیًّا۔(یعنی کیا خدا جیسا بھی کوئی اور ہے جسے محبت کا حق دار سمجھا جاسکے؟)۔ ‘‘
(سیرت مسیح موعود ؑ مصنفہ مولوی عبد الکریم سیالکوٹی صاحب ؓ)
باقی رہی رسولؐ کی محبت سو وہ خدا کی محبت کا حصہ اور اسی کی ظل ہے۔ اور ناممکن ہے کہ ایک سچا مومن خدا کی محبت سے تو سرشار ہو مگر خدا کے بھیجے ہوئے افضل الرسلؐ کی محبت سے محروم رہے۔ بہرحال یہ وہ بہشت ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعودؑ نے جزا سزا کے خیال سے بالکل بالا ہوکر دین کی خدمت کی اور اسلام کا بول بالا کرنے کے لئے اپنی جان کی بازی لگادی اور یہی وہ بہشت ہے جس میں حضور اپنے آقا اور مقتدا اور محبوب حضرت محمد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ و سلم کی معیت میں جزا سزا کے دن خدا کے فضل سے جگہ پائیں گے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایک نظم میں خدا تعالیٰ کی محبت کے گُن گاتے ہوئے کیا خوب فرمایا ہے کہ
ہر اک عاشق نے ہے اِک بت بنایا
ہمارے دل میں یہ دلبر سمایا
وہی آرامِ جاں اور دل کو بھایا
وہی جس کو کہیں رب البرایا
مجھے اُس یار سے پیوندِ جاں ہے
وہی جنت وہی دارالاماں ہے
بیاں اس کا کروں طاقت کہاں ہے
محبت کا تو اِک دریا رواں ہے
بےشک اُخروی زندگی کی جنت بھی حق ہے اور دوزخ بھی حق ہے اور مومن اور کافر اپنے اپنے ایمان اور اعمال کے مطابق اس جنت و دوزخ میں جگہ پائیں گے مگر نبیوں اور رسولوں کی حقیقی جنت صرف خدا کی محبت اور خدا کے عشق میں ہوتی ہے بلکہ عام صلحاء کے لئے بھی اصل مقام رضائے الٰہی کا ہے اس لئے قرآن مجید میں جنت کی عام نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد رضوانِ الٰہی کا خاص طور پر علیحدہ صورت میں ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایا وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ اَکْبَرُ (سورۃ توبہ آیت ۷۲) ’’یعنی جنت کی نعمتوں میں خدا تعالیٰ کی رضا سب سے اعلیٰ نعمت ہے‘‘ اور یہی ہر سچے مومن کے سلوک کا منتہیٰ ہونا چاہیے کہ وہ ’’حور و قصور‘‘ کی جنت کے پیچھے لگنے کی بجائے خالقِ ارض و سما کی بے لوث محبت کی فضاؤں میں بسیرا کرے۔
(۲۱)
محبت محبت کو کھینچتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا اور اس کے محبوب حضرت افضل الرسل محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم (فداہ نفسی) سے ایسی شدید محبت کی جو حقیقۃً بے مثال تھی اور پھر ان دو محبتوں کے نتیجہ میں آپ نے مخلوق کی ہمدردی اور شفقت کو بھی انتہاء تک پہنچادیا ۔ اس سہ گونہ محبت کے نتیجہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی مخلص جماعت عطا فرمائی جو آپ کے ساتھ غیر معمولی اخلاص اور عقیدت کے جذبات رکھتی تھی اور اپنے ایمان کی مضبوطی اور اپنے جذبۂ قربانی اور معیارِ اطاعت میں خدا کے فضل سے صحابہؓ کے رنگ میں رنگین تھی۔ اور مخالفوں کی انتہائی مخالفت کے باوجود یہ الٰہی جماعت برابر ترقی کرتی چلی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اسے ہر رنگ میں بارآور اور برومند کیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے وقت آپ کے یہ حلقہ بگوش فدائی چار لاکھ کی تعداد کو پہنچ چکے تھے۔ اور ان میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعودؑ پر اس طرح جان دیتا تھا جس طرح ایک پروانہ شمع کے گرد گھومتا ہوا جان دیتا ہے۔ اور یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ حضرت مسیح ناصری ؑ کی اُس قلیل سی جماعت کے مقابلہ پر جو انہیں اپنی زندگی کے ایام میں میسر آئی مسیحِ محمدی کی اس کثیر التعداد جماعت کا مقامِ محبت اور اخلاص اور ایمان اور جذبۂ قربانی کتنا بلند تھا ! میں اِس جگہ صرف مثال کے طور پر پانچ احمدیوں کا ذکر کرتا ہوں جو جماعت احمدیہ کے مختلف طبقات سے تعلق رکھتے تھے اور یقیناًوہ سب کے سب ایسے نہیں تھے جو جماعت کے چوٹی کے ممبر سمجھے جاتے ہوں بلکہ ان میں سے بعض تو ایسے عام احمدیوں میں سے تھے جنہیں شاید جماعت کے اکثر دوست جانتے بھی نہیں۔
ان میں سب سے اول نمبر پر حضرت مولوی نور الدین صاحب ؓ تھے جو غیر منقسم ہندوستان کے مشہور ترین علماء اور قابل ترین اطباء میں شمار کئےجاتے تھے انہوں نے بیعت کا سلسلہ شروع ہوتے ہی پہلے نمبر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور پھر حضور پر ایسے گرویدہ ہوئے کہ اپنا وطن چھوڑ کر قادیان میں ہی دھونی رما کر بیٹھ گئے۔ اور حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پر جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ بنے۔ ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کا معیار ایسا شاندار اور ایسا بلند تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ ان کے متعلق فرمایا ہے کہ’’ وہ میرے پیچھے اس طرح چلتے ہیں جس طرح کہ انسان کے ہاتھ کی نبض اُس کے دل کی حرکت کے پیچھے چلتی ہے۔
(آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۸۶ترجمہ از عربی)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب حضرت مسیح موعودؑ نے دلّی سے حضرت مولوی نور الدین صاحب کو کسی کام کے تعلق میں قادیان کے پتے پر ایک تار دلوائی اور تار لکھنےوالے نے یہ الفاظ لکھ دئیے کہ ’’بلا توقف دلّی پہنچ جائیں‘‘۔ اس وقت حضرت مولوی صاحب اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے روز مرّہ کے کام میں مصروف تھے اس تار کے ملنے پر آپ فورًا وہیں سے اُٹھ کر بغیر اس کے کہ گھر جائیں یا سفر کے لئے گھر سے کوئی خرچ منگوائیں یا بستر ہی تیار کرائیں یا اور ضروری سامانِ سفر ساتھ لیں قادیان کے اڈے کی طرف روانہ ہوگئے۔ اور جب کسی نے اس کیفیت کو دیکھ کر کہا حضرت آپ اس طرح بغیر کسی سامان کے لمبے سفر پر جارہے ہیں ! تو حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ امام نے بلایا ہے کہ ’’بلا توقف آجاؤ‘‘ اس لئے اب میرا ایک منٹ کے لئے بھی رکنا جائز نہیں اور میں جس طرح بھی ہو ابھی جارہا ہوں خدا نے بھی آپ کے اس توکل کو غیر معمولی قبولیت سے نوازا۔ چنانچہ رستہ میں ہی غیبی طریق پر سارے انتظامات بلا روک ٹوک ہوتے چلے گئے اور آپ اپنے امام کی خدمت میں بلاتوقف حاضر ہوگئے ۔ یہ وہی حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ ہیں جن کی نیکی اور تقویٰ اور علم اور فراست اور محبت اور عقیدت اور قربانی کو دیکھ کر حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے ایک شعر میں فرمایا ہے کہ
چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بُودے
ہمیں بُودے اگر ہر دل پُر از نورِ یقیں بودے
’’یعنی کیا ہی اچھا ہو کہ امت کا ہر فرد نورِ دین بن جائے اور یقیناً ایسا ہی ہو اگر ہر مسلماں کا دل یقین کے نور سے بھر جائے‘‘
لا ریب حضرت مولوی صاحب کے علم اور اخلاص اور تقویٰ اور توکل اور اطاعتِ امام کا مقام بہت ہی بلند اور ہر لحاظ سے قابلِ رشک تھا۔
دوسری مثال جیسا کہ میں اپنی سابقہ تقریر میں بھی تفصیل سے بیان کرچکا ہوں حضرت مولوی سید عبد اللطیف صاحب شہیدؓ کی ہے۔ یہ بزرگ مملکتِ افغانستان کے رہنے والے تھے اور اس علاقہ کے چوٹی کے دینی علماء میں سے سمجھے جاتے تھے اور ساتھ ہی بڑے با اثر رئیس بھی تھے حتّٰی کہ انہوں نے ہی امیر حبیب اللہ خان کی تاج پوشی کی رسم ادا کی تھی۔ جب صاحبزادہ صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ سنا تو تحقیقات کے لئے قادیان آئے اور اپنے نورِ فراست سے آپ کو دیکھ کر اور آپ کے دعویٰ کو پہچان کر فوراً قبول کر لیا۔ اُن کے واپس جانے پر کابل کے علماء نے ان کے متعلق کفر کا فتویٰ دیا اور واجب القتل قرار دے کر امیر کے پاس ان کے سنگسار کئے جانے کی سفارش کی ۔ چنانچہ اس فتویٰ کی بناء پر امیر حبیب اللہ خان نے آپ کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا، اس پر حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کو بڑے ظالمانہ طریق پر کمر تک زمین میں گاڑ دیا گیا اور امیر نے خود موقعہ پر جاکر ان کو آخری دفعہ سمجھایا کہ اب بھی وقت ہے کہ اس عقیدے سے باز آجائیں مگر وہ ایک پہاڑ کی طرح اپنے ایمان پر قائم رہے اور یہی کہتے ہوئے پتھروں کی بے پناہ بوچھاڑ میں جان دے دی کہ ’’ جس صداقت کو میں نے خدا کی طرف سے حق سمجھ کر دیکھا اور پہچانا ہے اسے کبھی نہیں چھوڑ سکتا ۔‘‘ اور اس طرح بہت سے لوگوں کے بعد آنے کے باوجود خدا کی راہ میں آگے نکل گئے ۔ حضرت مسیح موعود ؑ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ
پُر خطر ہست ایں بیابانِ حیات
صد ہزاراں اژدہایش در جہات
صد ہزاراں فرسخے تا کوئے یار
دشتِ پُر خار و بلایش صد ہزار
بنگر ایں شوخی ازاں شیخِ عجم
ایں بیاباں کرد طے از یک قدم
(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۶۰)
’’یعنی یہ زندگی کا بیابان جنگل خطروں سے بھرا پڑا ہے جس میں ہزاروں زہریلے سانپ ادھر اُدھر بھاگتے پھرتے ہیں اور آسمانی معشوق کے رستے میں لاکھوں کروڑوں میل کا فاصلہ ہے جس میں بے شمار خاردار جنگلوں اور لاکھوں امتحانوں میں سے گزرنا پڑتا ہے مگر اس عجمی شیخ کی ہوشیاری اور تیز رفتاری دیکھو کہ اس خطرناک جنگل کو صرف ایک قدم سے طے کرگیا۔‘‘
پھر ایک چوہدری رستم علی صاحب تھے جو حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے صحابی تھے اور بڑے سادہ مزاج بزرگ اور مخلص انسان تھے ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ نے جماعت میں کسی خاص موقع پر چندے کی تحریک کی اور چوہدری رستم علی صاحب کو بھی خط لکھا ۔ اسی دن اتفاق سے اُن کو اُن کی خاص ترقی کے احکام آئے تھے اور وہ سب انسپکٹر پولیس سے انسپکٹر بنا دئیے گئے تھے اور اُن کی تنخواہ میں اسّی روپے ماہوار کا اضافہ ہوگیا تھا مسیحِ محمدیؐ کے اس پروانے نے حضرت مسیح موعودؑ کو لکھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ میری یہ ترقی صرف حضور کی دعا اور توجہ کے نتیجہ میں ہوئی ہےکیونکہ ادھر حضور کا مکتوب گرامی پہنچا اور اُدھر میری اس ترقی کا آرڈر آگیا اِس لئے میں یہ ساری ترقی کی رقم حضور کی خدمت میں بھجواتا ہوں اور انشاء اللہ آئندہ بھی ہمیشہ بھجواتا رہوں گا ۔ چنانچہ جب تک وہ زندہ رہے اپنی اس غیر معمولی ترقی کی ساری رقم حضور کی خدمت میں اسلام کی تبلیغ کے لئے بھجواتے رہے اور اس کے علاوہ اپنا سابقہ چندہ پچیس روپے ماہوار بھی بدستور جاری رکھا اور خود نہایت قلیل رقم پر گزارہ کرتے رہے اور قربانی کا ایک ایسا اعلیٰ نمونہ قائم کیا جس کی نظیر بہت کم ملتی ہے۔
(بدر ۱۴؍ جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۲و الفضل یکم مئی ۱۹۶۲ء )
پھر ایک گاؤں کے رہنے والے بابا کریم بخش صاحب ہوتے تھے۔ وہ زیادہ تعلیم یافتہ تو نہیں تھے مگر بے شمار دوسرے احمدیوں کی طرح حضرت مسیح موعودؑ کی محبت اور اطاعت میں گداز تھے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ قادیان کی مسجد میں کچھ وعظ فرمارہے تھے اور پیچھے آنے والے لوگ پچھلی صفوں میں کھڑے ہوکر سن رہے تھے اور ان سے بعد میں آنیوالوں کے لئے رستہ رکا ہوا تھا۔حضرت مسیح موعودؑ نے انتظام کی سہولت کی غرض سے ان لوگوں کو آواز دے کر فرمایا کہ ’’بیٹھ جاؤ‘‘ اُس وقت بابا کریم بخش صاحب مسجد کی گلی میں سے ہو کر مسجد کی طرف آرہے تھے اُن کے کانوں میں اپنے امام کی یہ آواز پہنچی تو وہیں رستہ میں ہی زمین پر بیٹھ گئے اور پھر آہستہ آہستہ رینگتے ہوئے مسجد میں پہنچے تاکہ امام کے حکم کی نافرمانی نہ ہو۔ وہ بیان کیا کرتے تھے کہ میں نے خیال کیا کہ اگر میں اِسی حالت میں مرگیا تو خدا کو اس بات کا کیا جواب دوں گا کہ اُس کے مسیح کی آواز میرے کانوں میں پہنچی اور میں نے اس پر عمل نہ کیا۔
(سیرت المہدیحصہ سوم روایت نمبر۷۴۱ صفحہ۶۷۲ ۔ ۶۷۳)
پھر ایک منشی عبد العزیز صاحبؓ دیہاتی پٹواری تھے یہ بھی پرانے صحابیوں میں سے تھے اور بڑے نیک اور قربانی کرنے والے خدمت گزار انسان تھے انہوں نے مجھ سے خود بیان کیا کہ ایک دفعہ جب ایک مقدمہ کے تعلق میں حضرت مسیح موعودؑ گورداسپور تشریف لے گئے تو اُس وقت حضور بیمار تھے اور حضور کو پیچش کی سخت تکلیف تھی اور حضور بار بار قضائے حاجت کے لئے جاتے تھے ۔ میں حضور کے قریب ہی ٹھہر گیا اور جب بھی حضور رفع حاجت کے لئے اٹھتے تھے میں فوراً حضور کی خدمت میں پانی کا لوٹا حاضر کردیتا تھا۔ حضور مجھے بار بار فرماتے تھے کہ میاں عبد العزیز آپ سو جائیں اگر ضرورت ہوئی تو میں آپ کو جگا لوں گامگر میں ساری رات مسلسل جاگتا رہا تاکہ ایسا نہ ہو کہ حضور مجھے کسی وقت آواز دیں اور میں نیند کی حالت میں حضور کی آواز کو نہ سن سکوں اور حضور کو تکلیف ہو۔ صبح اٹھ کر حضرت مسیح موعود نے مجلس میں خوش ہوکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا فضل ہے کہ مسیح ناصریؑ ایک شدید ابتلاءکے وقت میں لوگوں سے بار بار کہتا تھا کہ ’’ جاگتے رہو اور دعا کرو‘‘ مگر وہ سو جاتے تھے(متی باب ۲۶ آیت ۳۹ تا ۴۶) مگر ہم ایک عام بیماری کی حالت میں منشی عبد العزیز صاحب سے بار بار کہتے تھے کہ ’’ سو جاؤ‘‘ مگر وہ ہماری وجہ سے ساری رات جاگتے رہے اور آنکھ تک نہیں جھپکی۔ (سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۷۰۱صفحہ ۶۳۹)
یہ پانچ مثالیں میں نے محض بطور نمونہ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابیوں کے مختلف طبقات میں سے منتخب کی ہیں ورنہ آپ کے صحابہؓ خدا کے فضل سے آپ کی محبت اور عقیدت اور اخلاص اور قربانی اور نیکی میں حقیقۃً اس زمانہ میں دنیا کے لئے ایک پاک اسوہ اور حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت کی زبردست دلیل تھے۔ حضرت مسیحِ ناصریؑ کا یہ قول کتنا سچا اور کتنی گہری حقیقت پر مبنی ہے کہ
درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے
مگر افسوس ہے کہ حضرت مسیح ناصریؑ کو اپنی فلسطینی زندگی میں اپنے درخت کے شیریں پھل دیکھنے نصیب نہ ہوئے اور مسیح کے آخری ابتلاء میں جو صلیب کی شکل میں رونما ہوا مسیح کے حواریوں نے بڑی کمزوری اور بے وفائی دکھلائی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسولؐ کی برکت سے مسیحِ محمدی کو بڑی کثرت کے ساتھ نہایت شیریں پھل عطا کئے ۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ اس خاص فضلِ الٰہی کا ذکر کرتے ہوئے بڑے شکر و امتنان کے ساتھ فرماتے ہیں کہ
’’میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں جو سچے دل سے میرے پر ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ بجالاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت ایسے روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہوجاتے ہیں ۔ میںاپنے ہزار ہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیرو ان سے جو ان کی زندگی میں اُن پر ایمان لائے تھے ہزار درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں اور ان کے چہروں پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں۔۔۔ میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے۔ ہزارہا آدمی دل سے فدا ہیں۔ اگر آج ان کو کہا جائے کہ اپنے تمام اموال سے دستبردار ہوجاؤ تو وہ دستبردار ہونے کے لئے مستعد ہیں۔ پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سناتا مگر دل میں خوش ہوں۔ ‘‘
(الذکر الحکیم نمبر ۴ صفحہ ۱۶ ،۱۷)
سچ ہے اور پھر سچ ہے کہ ’’درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے‘‘ خدا کرے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ کا لگایا ہوا خدائی پودا قیامت تک اسی قسم کے شیریں پھل پیدا کرتا چلا جائے اور ہماری نسلیں اور پھر نسلوں کی نسلیں اس مقدس ورثہ کی قدر و قیمت کو پہچانیں جو حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ کے ذریعہ جماعت کو حاصل ہوا ہے۔
(۲۲)
مجھے ایک اور واقعہ یاد آیا جس میں ایک طرف مخلصینِ جماعت کی محبت اور عقیدت اور دوسری طرف حضرت مسیح موعودؑ کے حسنِ تادیب و تربیت کی بڑی دلچسپ مثال ملتی ہے۔ جیسا کہ اکثر دوست جانتے ہیں دنیا کے لوگوں میں کسی عوامی لیڈر کے ساتھ اپنی دلچسپی اور عقیدت کےاظہار کا ایک معروف طریق یہ بھی ہے کہ بعض اوقات جب کوئی ہر دلعزیز لیڈر کسی شہر میں جاتا ہے تو اس شہر کے لوگ اس کی گاڑی میں گھوڑے جوتنے کی بجائے اس کے اکرام و احترام کی غرض سے اُس کی گاڑی میں خود لگ جاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے اس کی گاڑی کو کھینچتے ہیں۔ چنانچہ ایک دفعہ آخری ایام میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لے گئے تو چند جوشیلے احمدی نوجوانوں کو دنیا کی نقل میں خیال آیا کہ ہم بھی اپنے پیارے امام کو گاڑی میں بٹھا کر اُس کی گاڑی کو خود اپنے ہاتھوں سے کھینچیں اور اس طرح اپنی دلی محبت اور عقیدت کا ثبوت دیں چنانچہ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ آج ہم حضور کی گاڑی کو کھینچنے کا شرف حاصل کریں گے لیکن حضرت مسیح موعود ؑ نے اس تجویز کو ناپسندیدگی کے ساتھ ردّ فرمادیا اور نوجوانوں کی تربیت کے لئے فرمایا کہ
’’ہم انسانوں کو حیوان بنانے کے لئے دنیا میں نہیں آئے بلکہ حیوانوں کو انسان بنانے کے لئے آئے ہیں۔‘‘
(روایات میاں عبد العزیز صاحب مغل بحوالہ حیاتِ طیبہ صفحہ ۴۵۶، ۴۵۷)
یہ ایک سادہ سا بے ساختہ نکلا ہوا کلام ہے مگر ان الفاظ سے حضرت مسیح موعودؑ کے قلبِ صافی کے اُن گہرے جذبات پر کتنی لطیف روشنی پڑتی ہے جو آپ اپنے آسمانی آقا کی طرف سے لے کر دنیا میں نازل ہوئے تھے ۔ اگر کوئی دنیا دار انسان ہوتا تو نوجوانوں کی اس پیشکش پر خوش ہوتا اور اسے اپنی عزت افزائی سمجھتا مگر اس ’’آئینۂ جمال ‘‘ کی شان دیکھو کہ اس کے نزدیک اس کے نفس کی عزت کا کوئی سوال نہیں تھا بلکہ صرف اور صرف اُس پیغام کی عزت کا سوا ل تھا جو وہ خدا کی طرف سے لے کر آیا تھا۔حق یہ ہے کہ اِس وقت دنیا کا کثیر حصہ اپنے فطری روحانی جوہر کو کھو کر عملاً حیوانیت کی طرف جھک گیا ہے اور مادیت کے دبیز ظلماتی پردوں میں اس کی روحانیت اس طرح چھپ گئی ہے جس طرح کہ سورج گرہن کے وقت اُس کی تیز روشنی پردوں کے سایہ کے پیچھے چھپ جایا کرتی ہے اسی لئے جب خدا نے حضرت مسیح موعودؑ کو مبعوث فرمایا تو حضور کو یہ الہام کیا کہ
یُحْیِ الدِّیْنَ وَ یُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ۔
(تذکرہ صفحہ۵۵و۵۴۲مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
’’یعنی ہمارا یہ مسیح دین کو اس کے کمزور ہوجانے کے بعد پھر زندہ کرے گا اور اسلامی شریعت کو دنیا میں پھر دوبارہ قائم کردے گا۔‘‘
بے شک مقابلہ سخت ہے اور بے حد سخت۔ اور کفر و شرک کی فوجیں چاروں طرف سے اسلام پر حملہ آور ہورہی ہیں اور مادیت کی طاقتیں روحانیت کو کچلنے کے درپے ہیں مگر آخری فتح یقیناً حق کی ہوگی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خداداد مشن کامیاب ہوکررہے گا ۔ حضور ایک جگہ خدا سے علم پاکر اپنے مشن کی کامیابی اور اسلام کے آخری غلبہ کے متعلق فرماتے ہیں ۔ دوست غور سے سنیں
’’یقیناً سمجھو کہ (کفر و اسلام کی ) اس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجز دشمن کی طرح صلح جوئی کی حاجت نہیں بلکہ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے جیسا کہ وہ پہلے کسی وقت اپنی ظاہری طاقت دکھلا چکا ہے۔ یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلّت کے ساتھ پسپا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا۔ حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں،کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آویں مگر انجام کار ان کے لئے ہزیمت ہے۔ میں شکر نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ اسلام کی اعلیٰ طاقتوں کا مجھ کو علم دیا گیا ہے جس علم کی رو سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اسلام نہ صرف فلسفہ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ (زمانۂ )حال کے علوم مخالفہ کو جہالتیں ثابت کردے گا۔ اسلام کی سلطنت کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں ہے جو فلسفہ اور (علومِ) طبعی کی طرف سے ہورہے ہیں اس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۵۴، ۲۵۵حاشیہ)
(۲۳)
میں اپنی تقریر کے شروع میں بیان کرچکا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کی دو بڑی غرضیں تھیں۔ ایک غرض اسلام کے احیاء تجدید اور غلبہ سے تعلق رکھتی تھی اور دوسری غرض کا تعلق کسرِ صلیب سے تھا۔ یعنی مسیحیت کے زور کو توڑ کر اور دنیا میں مسیح پرستی کو مٹا کر سچی توحید کو قائم کرنا۔ بے شک حضرت مسیح ناصریؑ خدا کے ایک برگزیدہ نبی تھے جن کی ہم دل و جان سے عزت کرتے ہیں مگر ان کے بعد ان کی قوم نے یہ خطرناک ظلم ڈھایا کہ حق و صداقت کے رستہ کو چھوڑ کر انہیں خدا کا بیٹا بنالیا اور اس طرح دنیا میں ایک بھاری شرک کی بنیاد رکھ دی ۔ حالانکہ مسیح کی ساری زندگی اور زندگی کا ہر لمحہ اس بات پر شاہدِ ناطق ہے کہ وہ خدا یا خدا کا بیٹا ہرگز نہیں تھابلکہ وہ دوسرے انسانوں کی طرح ایک عورت کے بطن سے پیدا ہوا اور کمزوری کی حالت میں ہی دنیا میں زندگی گزاری اور عاجزی اور فروتنی کے طریق پر اپنے خداداد مشن کی تبلیغ کی اور ہمیشہ خدائے واحد کی پرستش میں اپنا وقت گزارا ۔ اور پھر بدبخت یہودیوں نے اس مقدس انسان کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ کھڑا کرکے اسے صلیب کی سزا دلوادی مگر خدا نے اپنی معجزانہ تقدیر سے اسے اس لعنت کی موت سے بچالیا۔ مسیح کا کوئی ایک قول یا اس کی زندگی کا کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جو اسے دوسرے نبیوں سے ممتاز کرتا ہو بلکہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو حضرت موسیٰ کی شریعت کے تابع اور اسرائیلی سلسلہ کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ اور ایک غیر تشریعی نبی کے طور پر پیش کرتا رہا۔ اور چونکہ حضرت مسیح موعودؑ بانی سلسلہ احمدیہ بھی ایک مرسَلِ یزدانی تھے اس لئے نہ صرف آسمانی برادری میں شامل ہونے کی حیثیت میں بلکہ مثیلِ مسیح ہونے کی حیثیت میں بھی آپ مسیح ناصریؑ سے محبت کرتے اور اسے عزت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ مگر چونکہ آپ افضل الرسل خاتم النبیین سید ولد آدم کے قدموں میں ظاہر ہونے والے خاتم الخلفاء تھے اس لئے لازماً آپ کا درجہ خدا کے فضل سے مسیح ناصریؑ سے بلند تھا۔ چنانچہ آپ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اُس سے بہتر غلامِ احمد ہے
(دافع البلاء روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۴۰)
دوسری طرف چونکہ مسیحیت کے عقائد بگڑ چکے تھے اور توحید کی جگہ تثلیث نے لے لی تھی جو شرک کا ہی دوسرا نام ہے اس لئے حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے فرضِ منصبی کے لحاظ سے مسیحیت کے باطل خیالات کا مقابلہ کرنے اور صلیب کے زور کو توڑنے میں انتہائی توجہ دی اور تقریر اور تحریر کے ذریعہ ان کے غلط عقائد کا پورا پورا کھنڈن کیا حتّٰی کہ مخالفوں تک نے آپ کو عیسائیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ’’فتح نصیب جرنیل‘‘ کے لقب سے یاد کیا اور اس کے مقابل پر مسیحیوں نے بھی ہر رنگ میں حضرت مسیح موعودؑ کا مقابلہ کرنے اور حضور کو نیچا دکھانے کی سر توڑ کوشش کی اور ہر طرح کی امکانی چالوں سے کام لیتے ہوئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر مقابلہ میں کامیاب اور سر بلند کیا اور آپ خدا کے فضل سے اس دارِ فانی سے کامیابی اور فتح و ظفر کا پرچم لہراتے ہوئے رخصت ہوئے اور اب آپ کے بعد آپ کی جماعت اپنے نہایت محدود ووسائل کے باوجود آزاد دنیا کے قریباًہر ملک میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے میں دن رات لگی ہوئی ہے اور مسیحیت پسپا ہورہی ہے اور اسلام ترقی کررہاہے۔
اس تعلق میں ایک عجیب واقعہ مجھے یاد آیا کہ ایک دفعہ بٹالہ کے مسیحیوں نے جو قادیان کے قُرب کی وجہ سے زیادہ تعصب رکھتے تھے اور حسد سے جلے جاتے تھے حضرت مسیح موعودؑ کے دلائل اور زور دار علمِ کلام کے سامنے عاجز آکر حضور کی خدمت میں یہ چیلنج بھیجا کہ اگر آپ واقعی خدا کی طرف سے ہیں تو ہم ایک خط کے اندر کچھ عبارت لکھ کر اور اُسے سربمہر لفافے میں بند کرکے آپ کے سامنے میز پر رکھ دیتےہیں اگر آپ سچے ہیں تو اپنی روحانی طاقت کے ذریعہ اس لفافہ کے اندر کا مضمون بتادیں۔ ان کا خیال ہوگا کہ غالباً حضرت مسیح موعودؑ اس عجیب و غریب چیلنج کو ٹال دیں گے اور انہیں حضور کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے کا موقعہ مل جائے گا مگر حضرت مسیح موعودؑ نے اس چیلنج کے ملتے ہی غیرت کے ساتھ فرمایا کہ
’’میں اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں اور اس مقابلے کے لئے تیار ہوں کہ دعا اور روحانی توجہ کے ذریعہ آپ کے بند خط کا مضمون بتادوں مگر شرط یہ ہے کہ اس کے بعد آپ لوگوں کو مسلمان ہونا ہوگا‘‘
(اصحابِ احمد جلد چہارم صفحہ۱۰۴)
حضرت مسیح موعودؑ کے اس تحدی والے جواب کا عیسائیوں پر ایسا رعب پڑا کہ وہ ڈر کر بالکل خاموش ہوگئے اور خود اپنی طرف سے چیلنج دینے کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے آنے کی جرأت نہ پائی اورمسیحیت کو شکست ہوئی اور اسلام کا بول بالا ہوا ۔ یہ درست ہے کہ جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے خدا کے رسولوں کو از خود غیب کا علم حاصل نہیں ہوتا (سورہ انعام آیت ۱۰۹) مگر یہ بھی درست ہے اور خدا کی ازلی سنت میں داخل ہے کہ وہ اکثر اپنی مشیت اور اپنے مصالح کے ماتحت نبیوں پر غیب کی خبریں ظاہر فرماتا رہتا ہے تاکہ خدائی دین کو خدائی نشانوں کے ذریعہ تقویت حاصل ہو۔
یاد رکھنا چاہیئے کہ عیسائیوں کے اس چیلنج کے جواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے جو یہ فرمایا تھا کہ اگر میں بند خط کا مضمون بتادوں تو پھر آپ لوگوں کو مسلمان ہونا ہوگا تو یہ کوئی رسمی جواب اور کوئی معمولی شرط نہیں تھی بلکہ حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت اور اسلام کی سچائی کی ایک زبردست دلیل تھی۔ خدا کے مامور کوئی فضول اور عبث کام نہیں کیا کرتے اور نہ وہ نعوذ باللہ دنیا کے مداریوں کی طرح لوگوں کو تماشہ دکھاتے پھرتے ہیں بلکہ ان کی غرض و غایت صرف حق کی تائید کرنا اور صداقت کی طرف لوگوں کو دعوت دینا ہوتی ہے۔ اور وہ صرف وہی کام کرتے اور صرف اسی جگہ ہاتھ ڈالتے ہیں جہاں انہیں اپنے خداداد مشن کی تائید اور صداقت کی تصدیق کا کوئی سنجیدہ پہلو نظر آئے ۔ کاش بٹالہ کے عیسائی اس موقعہ پر مردانہ جرأت سے کام لے کر آگے آتے اور خدا اسلام کی تائید میں کوئی چمکتا ہوا نشان ظاہر کرتا جس سے دنیا کی روحانیت کو فائدہ پہنچتا اور حق کا بول بالا ہوتا۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنی ایک نظم میں عیسائیوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں
آؤ عیسائیو ادھر آؤ
نور حق دیکھو! راہ حق پاؤ !
جس قدر خوبیاں ہیں فرقاں میں
کہیں انجیل میں تو دکھلاؤ!
سر پہ خالق ہے اس کو یاد کرو
یونہی مخلوق کو نہ بہکاؤ!
ہے یہ فرقاں میں اک عجیب اثر
کہ بناتا ہے عاشقِ دلبر
کوئے دلبر میں کھینچ لاتا ہے
پھر تو کیا کیا نشاں دکھاتا ہے
اس کے منکر جو بات کہتے ہیں
یونہی اِک واہیات کہتے ہیں
بات جب ہو کہ میرے پاس آویں
میرے منہ پر وہ بات کہہ جاویں
مجھ سے اُس دلستاں کا حال سنیں
مجھ سے وہ صورت و جمال سنیں
آنکھ پھوٹی تو خیر کان سہی
نہ سہی یونہی امتحاں سہی
(براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۹۸تا ۳۰۰)
مگر عیسائی دنیا یاد رکھے کہ وہ اس قسم کی ہوشیاری اور حیلہ جوئی سے بچ نہیں سکتے۔ مسیحیت کے دن اب گنے جاچکے ہیں ۔ صلیب ٹوٹ کر رہے گی اور اسلام بہرحال فتح پائے گا اور غالب ہوگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے..... میں کبھی کا اس غم سے فنا ہوجاتا اگر میرا مولا اور میرا قادر توانا (خدا ) مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر توحید کی فتح ہے۔ غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے۔ مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا..... اس نے چاہا ہے کہ ان دونو کی جھوٹی معبودانہ زندگی کو (دلائل اور براہین کے ذریعہ) موت کا مزہ چکھاوے۔ سو اب دونو مریں گے ۔ کوئی ان کو بچا نہیںسکتا۔ اور وہ تمام خراب استعدادیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کرلیتی تھیں۔ نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا۔اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ ۷)
(۲۴)
یہ سب کچھ جو ابھی بیان کیا گیا ہے خدائے عرش نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً بتایا اور حضور نے دنیا پر ظاہر فرمایا اور وہ اپنے وقت پر پورا ہوگا اور ضرور ہوگا اور یہ ایک اٹل آسمانی تقدیر ہے جس کی تمام نبی اور تمام آسمانی پیغامبر اپنے اپنے وقت میں خبر دیتے آئے ہیں اور ہمارے آقا حضرت سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمْ (فَدَاہُ رُوْحِیْ وَ جَنَانِیْ) نے خاص طور پر خدا کی قسم کھا کرخبر دی تھی کہ مہدی اور مسیح کے ظہور سے آخری زمانہ میں اسلام کےدوسرے اور دائمی غلبہ کا دور آئے گا اور صلیبی عقائد اور صلیبی طاقتوں کا ہمیشہ کے لئے زور ٹوٹ جائے گا اور ایک نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان۔ مگر یہ بھی خدا کا ہی بنایا ہوا ازلی قانون ہے کہ اُس نے ہر امر میں کامیابی کے لئے تقدیر اور تدبیر کا مخلوط اور مشترکہ نظام قائم کررکھا ہے۔ تقدیر خدا کی مشیت اور خدا کے حکم کے ماتحت آسمان کی بلندیوں سے نازل ہوتی ہے اور اس کی تاریں فرشتوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں جو خدا کے حکم سے پردۂ غیب میں رہتے ہوئے خدائی نظام کو چلاتے ہیں۔ اور تدبیر کی تاریں خدائے علیم و حکیم نے بندوں کے ہاتھ میں دے رکھی ہیں ۔ چنانچہ جب کسی مامور و مرسَل کے ذریعہ دنیا میں کوئی نیا نظام قائم ہوتا ہے تو مومنوں کا گروہ خدا کی انگلی کو دیکھ کر اس کی تقدیر کے حق میں اپنی تدبیروں کو حرکت دینا شروع کردیتا ہے۔ اور پھر یہ دونوں حرکتیں مل کر دنیا میں ایک عظیم الشان تبدیلی پیدا کردیتی ہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہؓ نے خدا کی طرف سے فتح اور غلبہ کی عظیم الشان بشارتوں کے باوجود ظاہری تدبیر کے ماتحت اسلام کی خدمت کے لئے اتنی قربانیاں کیں کہ دنیا کی تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی ۔ اِسی طرح جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آئندہ ہونے والے غیر معمولی تغیرات اور اسلام و احمدیت کے عالمگیر غلبہ کی پیشگوئی فرمائی ہے وہاں حضور نے اپنی جماعت کو بھی زبردست تحریک کے ذریعہ ہوشیار کیا ہے کہ اِس الٰہی تقدیر کے پیچھے اپنی تدبیر کے گھوڑے ڈال دو اور پھر خدا کی قدرت کا تماشہ دیکھو۔ چنانچہ حضور فرماتے ہیں
’’سچائی کی فتح ہو گی اور اسلام کے لئے پھر اُ س تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے۔ لیکن ابھی ایسا نہیں۔ ضرور ہے کہ آسمان اُسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم (اپنے )سارے آراموں کو اُس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لیے ساری ذلّتیں قبول نہ کرلیں۔ اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔ وہ (فدیہ)کیا ہے ؟ہمارا اسی راہ میں مرنا۔ یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی ،مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے۔‘‘
(فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۰،۱۱)
اور بالآخر اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ دوست غور سے سنیں کہ کس محبت اور کس درد کے ساتھ فرماتے ہیں کہ
’’اے میرے عزیزو ! میرے پیارو !میرے درختِ وجود کی سر سبز شاخو ! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو۔ اگرچہ میں جانتا ہوں..... میرا دوست کون ہے ؟ اورمیرا عزیز کون ؟ وہی جو مجھے پہچانتا ہے۔ مجھے کون پہنچاتا ہے؟ صرف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں (خدا کی طرف سے)بھیجا گیا ہوں اور مجھے اُس طرح قبول کرتا ہے جس طرح وہ لوگ قبول کئے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں۔ دنیا مجھے قبول نہیں کرسکتی کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں۔ مگر جن کی فطرت کو اُس عالم کا حصّہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے۔ جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اُس کو چھوڑ تا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اُس سے کرتا ہے جس کی طرف سے میں آیا ہوں میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اُس روشنی سے حصّہ لے گا مگر جو شخص وہم اور بدگمانی کی وجہ سے دُور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جا ئے گا۔ اس زمانہ کا حِصنِ حصین میَں ہوں ۔جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزّاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا مگر جو شخص میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے ! اور اُس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی(یعنی روحانی رنگ میں اس کا نام و نشان تک مٹ جائے گا)۔ مجھ میں کون داخل ہوتا ہے ؟ وہی جو بدی کو چھوڑتا اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور کجی کو چھوڑتا اور راستی پر قدم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خدا تعالیٰ کا ایک بندئہ مطیع بن جاتاہے۔ ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور مَیں اُس میں ہوں۔‘‘
(فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۴)
خدا کرے کہ ہم اور ہماری نسلیں ہمیشہ ہمیش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ’’درختِ وجود کی سرسبز شاخیں ‘‘ بن کر رہیں اور ہمارے ذریعہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نامِ نامی اوراسماء گرامی چار اکنافِ عالم میں فتح و ظفر کے نقاروں کے ساتھ گونجیں اور خدا کا یہ کلام اپنی شان کے ساتھ پورا ہو کہ
’’پائے محمدیاں بر منارِ بلند تر محکم افتاد‘‘
اٰمِیْن
یَا رَبَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِیْنَ
خاکسار
مرزا بشیر احمد
ربوہ ۲۸ ؍دسمبر۱۹۶۲ء
ربوہ ۲۸ ؍دسمبر۱۹۶۲ء