ترجمہ: جب اللہ نے کہا اے عیسٰی میں تجھے تیری طبعی موت سے وفات دوں گا۔ اور تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور تجھے پاک کروں گا ان لوگوں سے جنہو ں نے کفر کیا اور تیرے متبعین کو قیامت تک تیرے منکرین پر غالب رکھوں گا۔ پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹ کر آنا ہے جس کے بعد میں تمہارے درمیان اُن باتوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔ ’’واضح ہو کہ قرآن شریف کی نصوص بیّنہ اسی بات پر بصراحت دلالت کررہی ہیں کہ مسیح اپنے اُسی زمانہ میں فوت ہو گیا ہے جس زمانہ میں وہ بنی اسرائیل کے مفسد فرقوں کی اصلاح کے لئے آیا تھا جیسا کہ اللہ جلَّ شَانُہ، فرماتاہے یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْااِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَتِہاب اس جگہ ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اِنّیْ مُتَوَفِّیْکَ پہلے لکھا ہے اور رَافِعُکَ بعد ا س کے بیان فرمایا ہےجس سے ثابت ہوا کہ وفات پہلے ہوئی اور رفع بعد ازوفات ہؤا۔اورپھراَور ثبوت یہ ہے کہ اس پیشگوئی میں اللہ جلَّ شَانُہ، فرماتا ہے کہ میں تیری وفات کے بعد تیرے متبعین کو تیرے مخالفوں پر جو یہودی ہیں قیامت کے دن تک غالب رکھوں گا۔ اب ظاہر ہے اور تمام عیسائی اور مسلمان اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ یہ پیشگوئی حضرت مسیح کے بعد اسلام کے ظہورؔ تک بخوبی پوری ہو گئی کیونکہ خدائے تعالیٰ نے یہودیوں کو اُن لوگوں کی رعیّت اورماتحت کردیا جو عیسائی یا مسلمان ہیں اورآج تک صدہا برسوں سے وہ ماتحت چلے آتے ہیں یہ تو نہیں کہ حضرت مسیح کے نزول کے بعد پھر ماتحت ہوں گے۔ ایسے معنے تو با لبداہت فاسد ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد3صفحہ 330تا331)
0 comments:
Post a Comment