Friday 29 April 2016

بہائی صاحبان کے اعتراضات کے جواب





بہائی صاحبان کے اعتراضات کے جواب 
ایک کشمیری رسالہ پر نظر

دیباچہ کاخلاصہ 

جناب ابو ظفر صاحب کشمیر ی نے ایک رسالہ احمدی صاحبان کے لئے لمحہ فکریہ لکھا ہے ۔اس کے دیباچہ میں آپ نے تحریر کیا ہے ۔ کہ جس طرح مخالفین احمدیت کی تحریریں جماعت احمدیہ پر حجت نہیں ہیں ۔ اسی طرح اہل بہاء کے خلاف ان کے مخالفین کے لٹریچر سے سند پکڑنا درست نہیں پھر لکھتے ہیں ۔ 
’’بہا ئیوں کو صر ف حضرت باب وبہاء اللہ اور عبدالبہاء کی تحریریں مسلم ہیں ۔
اس پر سوال پیدا ہو تا ہے ۔ کہ جناب باب کی ساری وحی کو بہائی لوگ منسوخ مانتے ہیں پھر باب کی تحریرون کے مسلم ہونے کا کیا مطلب ہے ۔ باقی رہے جناب بہاء اللہ سو ان کی تیار کردہ کتاب الاقدس کو جو اہل بہاء کی شریعت ہے ۔ آپ لوگوں نے آج تک شائع نہیں کیا۔ پھر کس طرح کہا جاسکتا ہے ۔ کہ ان تحریروں میں کسی قسم کی کمی اور بیشی آپ لوگ نہیں کر رہے ۔
کیا یہ عجب بات نہیں کہ آپ لوگوں نے عمداًاصل کتابیں شائع نہیں کیں ۔ کیونکہ جناب بہاء اللہ نے آپ کو حکم دے رکھا ہے ۔
استم ذھبک وذھابک و مذھبک ،‘‘
’’کہ اپنے مال ۔ آمدروفت اور مذہب کہ مخفی رکھو‘‘      ( بھجۃ الصدور صفحہ ۸۳)
اور پھر بنا ء گفتگو یہ ٹھہرا رہے ہیں کہ ہم صرف باب بہاء اللہ اور عبدالبہاء کی تحریروں کو تسلیم کرتے ہیں ۔
جناب ابوظفر صاحب صرف تحریروں کو حجت قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ بہائی عقیدہ کے مطابق ان لوگوں کا قول بھی وحی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ تنگی دامن کا رویہ کسی مصلحت کے ماتحت تو اختیار نہیں کیا جا رہا ہمیں ہی یہ شکایت نہیں کہ بہائی لوگ اپنے اصلی لٹریچر کو شائع نہیں کرتے بلکہ خو د بہائی بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں ۔ چنانچہ جناب حشمت اللہ قریشی بہائی لکھتے ہیں ۔
’’عام طور پر حضرت باب حضرت بہاء اللہ اور حضرت عبدالبھا ء کی کتابوں کے کامیاب ہونے کی وجہ سے بعض تاریخی اور تعلیمی غلط فہمیاں پھیل گئی ہیں ۔(رسالہ بہاء اللہ کی تعلیمات صفحہ ۲)
ابو ظفر صاحب کہتے ہیں کہ :
’’بہائیوں کی تاریخ باب الحیاۃ یا مقالہ ساح یا عصر جدید یا اس قسم کی دوسری کتابیں ہیں جو بہائیوں کو مسلم ہیں  ان کے ذریعہ بہائیوں پر اتمام حجت ہو سکتی ہے ۔
اول تو یہ سوال ہے کہ آیا یہ کتابیں باب یا بہاء اللہ یا عبدالبھا ء کی تحریریں ہیں ۔ مقالہ سیاح کو محقیقین تو عبدالبھاء کی تصنیف قرار دیتے ہیں ۔ مگر بہائی اس کا کھلا اعتراف نہیں کرتے ۔ عصر جدید تو اس امریکن بہائی کی کتاب کا ترجمہ ہے ۔ اگر بہائیوں کو صر ف باب یا بہاء اللہ اور عصر البھاء کی تحریریں ‘‘ہی مسلم ہیں ۔ تو ان تاریخی کتابوں سے ان پر اتمام حجت کیونکر ہو گا ؟
یہ امر بھی موجب حیرت ہے کہ ابوظفر صاحب جناب علمی بہائی کے رسالہ کو کب ہند کے حوالہ جات ماننے سے بھی گزیر کر رہے ہیں ۔ حالانکہ جناب علمی کو ان بہائیوں میں صاحب البیعت ‘‘ہونے کی حیثیت حاصل ہے ۔
ابو ظفر جناب پروفیسر برائون پر ناراض ہیں کہ انہوں نے نکتہ انکاف میرزا کاشانی کی شائع کردی جس سے یابی اور بہائی تحریک کے بہت سے تاریک پہلو نمایاں ہو گئے حالانکہ پروفیسر برائون اہل بہاء کے نزدیک خاص مقرب شخص تھے جنہوں نے بابی اور بہائی تاریخ کا قریب سے مطالعہ کیا تھا۔ اس بارے میں عصر جدید کے مصنف نے لکھا ہے ۔
سوائے پر وفیسر برائون کی ملاقات کے جنہوں نے ۱۸۹۰ء؁ میں چار مرتبہ آپ (بہاء اللہ) سے ملاقات فرمائی اورہر متبہ ۲۰ یا۳۰منٹ تک آپ کے حضور میں رہے ۔ آپ نے کسی متنور مغربی اہل خیال سے ملاقات نہ فرمائی تھی ۔ 
(عصر جدید اردو صفحہ ۵۶)
ان حالات میں ابوظفر کی ناراضگی حقائق کو بدل نہیں سکتی ۔ اور تاریخی واقعات کو اس قسم کی حرکات سے مسخ نہیں کیا جاسکتا ۔ ہم ابو ظفر صاحب کو یقین دلاتے ہیں ۔ کہ ہم آپنے جوابا ت میں کوئی ایساحوالہ یا ایسی عبارت ان پر اتمام حجت کے طور پر پیش نہ کرینگے جوان کے مسلمات میں نہ ہو۔ اگرچہ ہمارے نزدیک بہت سے حقائق دوسرے مقامات پرمذکور ہیں  ۔اور ہم انہیں عندا لضرورت ذکر کرتے ہیں ۔
اس یقین دہانی کے ساتھ ساتھ ہم یہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔ کہ ابوظفر صاحب نے جماعت احمدیہ کے ساتھ بات کرتے وقت اصول کو مدنظر نہیں رکھا ۔ جس کا وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں ۔ گویا ان کے  دینے کے باٹ اور ہیں اور لینے کے اور اس حقیقت کا بیان ہمارے جوابات کے آئندہ صفحات میں آپ کی نظر سے گزر ے گا ۔

صادق مدعی کی ایک علامت 

جناب ابو ظفر صاحب نے دیباچہ کے بعد بابیت اور بہائیت کی سر سری ا و ر غیر مستند تاریخ میں چند سطور لکھنے کے بعد یہ سوال اٹھایا ہے ۔ کہ صادق مدعی کی یہ علامت ہوتی ہے ۔ کہ وہ تمام مدعیوں میں پہلا دعویٰ کرنے والا ہوتا ہے ۔ نیز چونکہ باب و بہاء نے مہدی اور مسیح ہونے کا دعویٰ حضرت میرزا غلام احمد علیہ السلام سے پہلے کیا تھا۔ اس لئے ثابت ہوا کہ باب و بہاء کا دعویٰ سچا تھا ۔ حضرت میرزا صاحب نے صرف ان کی نقل کی ہے ۔

حضرت مسیح موعود ؑ کی عبارتیں ۔

ابوظفر نے اس بات کے ثبوت کے لئے کہ صادق مدعی کا دعویٰ سب سے پہلے ہوتا ہے ۔ 
حضرت مسیح علیہ السلام کی کتاب چشمہ معرفت کتاب ضرورۃ الاسام سے نیز اخباربدر سے حوالے پیش کئے ہیں ۔ ابوظفر صاحب نے حوالہ جات کے نقل کرنے میں پوری احتیاط نہیں کی رہم پہلے متعلقہ عبارتیں اصلی کتاب سے درج کرتے ہیں:۔
۱۔ منجملہ لوازم خاصہ کے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے زمانہ میں اس کا ظہور سب مدعیوں سے پہلے ہوتا ہے ۔ جیسا کہ ہمارے نبی ﷺ نبیوں کا نام ونشان نہ تھا۔ اورجب ان کا نورزمین پر خوب روشن نہ تھا ۔ تب مسیلمہ کذاب اوراسود عنسی اورابن صیاد وغیرہ جھوٹے نبی ظاہر ہوئے تاجداد دکھاوے کہ کس  طرح وہ سچے کی حمایت کرتا ہے۔ اصلی بات یہ ہے کہ ۔ سچے نبی کے ظہور کیوقت بارش کے موسم کی طرح آسمان پرانتشار روحانیت ہوتا ہے ۔ اوراکثر لوگوں کو سچی خوابیں آنی شروع ہوجاتی ہے۔ الہام بھی ہونے لگتے ہیں۔ اس دھوکہ سے بعض جھوٹے نبی اپنی حد سے بڑھ کرنبوت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ 
(چشمہ معرفت صفحہ ۳۰۱ حاشیہ )
۲۔ ہمارے نبی ﷺ نے امام آخر الزماں کی ضرورت ہر ایک صدی کے لئے قائم کی ہے۔ اورصاف فرمادیا ہے۔ کہ جو شخص اس حالت میں خداتعالیٰ کی طرف آئے گا۔ کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا۔ وہ اندھا آئے گا۔ اورجاہلیت کی موت پر مریگا۔ اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے کسی علہم یا خواب بیں کا استثنیٰ نہیں کیا۔ جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے۔ کہ کوئی علہم یاخواب بین ہواگروہ امام الزماں کے سلسلہ میںداخل نہیں ہے۔ توا س کا خاتمہ خطر ناک ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ اس حدیث کے مخاطب تمام مومن اورمسلمان ہیں ۔ اوران میں ہرایک زمانہ میں ہزاروں خواب میں اورعلہم بھی ہوتے آئے ہیں۔ بلکہ سچ تویہ ہے۔ کہ امت محمدیہ میں کئی کروڑ ایسے بندے ہونگے ۔ جن کو الہام ہوگا ۔ پھر ماسوااس کے حدیث وقرآن سے ثابت ہے۔ کہ امام الزماں کے نور کا ہی پر تو ہوتا ہے۔ جومستعددلوں پر پڑتا ہے حقیقت یہ ہے۔ کہ جب دنیا میں کوئی امام الزمان آتا ہے۔ توہزاررہا انوار اس کے ساتھ آتے ہیں۔ اورآسمان میں ایک صورت انبسامی پیدا ہوجاتی ہے ۔ انتشار روحانیت اورنورانیت ہوکر نیک استعداد یں جاگ اٹھتی ہیں۔ پس جو شخص الہام کی استعداد رکھتاہے۔ اس کو سلسلہ الہام شروع ہوجاتاہے ۔ اورجوشخص فکروغور کے ذریعہ سے دینی تفقہ کی استعداد رکھتا ہے۔ اس کے تدبر اورسوچنے کی قوت کو زیادہ کیا جاتا ہے اورجس کوعبادت کی طرف رغبت ہو اس کو تعبداور پر ستش میں لذت عطا کی جاتی ہے۔ اورجو شخص غیر قوموں کے ساتھ مباحتات کرتا۔ اس کو استدلال اوراتمام حجت کی طاقت بخشی جاتی ہے اور یہ تمام باتیں درحقیقت اسی انتشار روحانیت کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ جوامام الزمان کے ساتھ آسمان سے اترتی اورہرایک مستعد کے دل پر نازل ہوئی ہے۔ ‘‘
(ضرورۃ الامام صفحہ ۴)
۳۔ فرمایا پیغمبر خدا ﷺ کے زمانہ میں بھی بہت سے جھوٹے نبی پید اہوئے تھے ۔مگر جھوٹا ہمیشہ بعد میں پیدا ہوتا ہے۔ سچا پہلے ظاہر ہوجاتاہے۔ توپھر اس کی ریس کرکے جھوٹے بھی نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے دعویٰ سے پہلے کوئی نہیں کہ سکتا کہ کس نے اس طرح خدا تعالیٰ سے الہام پاکر مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہو ۔ مگر ہمارے دعویٰ کے بعد چراغ دین اورعبدالحکیم اورکئی ایک دوسر ے ایسے پیدا ہوگئے ہیں۔ 
(بدریکم اگست ۱۹۰۷ء؁ جلد ۶)
(نمبر ۳۱صفحہ ۱۰)
جناب ابوظفر صاحب کشمیر ی ان حوالہ جات کے بعد لکھتے ہیں :۔
’’ازالہ وہام ایڈیشن ثالث صفحہ ۲۷۹ نورالحق جلد دوم صفحہ ۱۵ ‘وصفحہ ۱۶۰ وخطبہ الہامیہ صفحہ ۱۲۴ و اخبار بدرقادیان جلد ۶ نمبر ۳۱ ۱۹۰۷ء؁ پر بڑے زوردار الفاظ میں فرماتے ہیں۔ کہ مسیح موعود کا ظہور چودھویں صدی سے پہلے یا چودھویں صدی کے سرپر ہوگا۔ اس سے تجاوز نہ کرے گا۔ یہ عاجزایسے وقت میں آیا ہے۔ جس وقت میں مسیح موعود کو آنا چاہیئے تھا۔ دوسرے ملکوں میں یہاں تک کہ بلاد عرب شام ایسے مدعی کے وجود سے خالی ہیں۔یہ دعویٰ تیرہ سوبرس سے آج تک بجز اس عاجز (مرزاصاحب )کے کسی نے نہیں کیا ہے۔ ‘‘
گویا آپ کا سوال یہ ہے کہ جب باب اوربہاء اللہ نے حضرت مرزا صاحب علیہ السلام سے پہلے مہدی اورمسیح ہونے کا دعویٰ کررکھا تھا۔ توحضرت مرزا صاحب یہ کس طرح کہتے ہیں۔ کہ ان سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا۔ نیز یہ کہ پہلے دعویدار ہونے کے باعث باب اوربہاء اللہ کو سچا ماننا چاہیئے ۔ 
اس سوال کے جواب کی وضاحت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل حوالہ جات خاص طور پر قابل توجہ ہیں ۔ حضور تحریر فرماتے ہیں :۔
(الفؔ)مجھے عین چودھویں صدی کے سر پر جیسا کہ مسیح ابن مریم چودھویں صدی کے سرپر آیا تھا۔ مسیح الاسلام کرکے بھیجا ۔ اورمیرے لئے اپنے زبردست نشان دکھلا رہا ہے اور آسمان کے نیچے کسی مخالف مسلمان یا یہودی یا عیسائی وغیرہ کو طاقت نہیں کہ ان کا مقابلہ کرسکے ۔ ‘‘
                            (کشتی نوح ؑ صفحہ ۵۰) 
(بؔ)’’اس آیت کی تشریح میںیہ حدیث ہے ۔ لوکان الایمان معلقا ً بالثر یالسنالہ رجل من فارس 
اورچونکہ ا س فارسی شخص کی طرف وہ صفت منسوب کی گئی ہے۔ جو مسیح موعوداورمہدی سے مخصوص ہے۔ یعنی زمین جو ایمان اورتوحید سے خالی ہوکر ظلم سے بھر گئی ہے۔ پھر اس کو  عدل سے پر کرنا ۔ لہذا یہی شخص مہدی اورمسیح موعود ہے  اوروہ میں موں اورجس طرح کی دوسرے مدعی مہدویت کے وقت میں کسوف خسوف رمضان میں آسمان پرنہیں ہوا۔ ایسا ہی تیرہ سوبرس کے عرصہ میں کسی نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر یہ دعویٰ نہیں کیا ۔ کہ اس پیشگوئی لنالہ رجل من فارس کا مصداق میں ہوں ۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۸ طبع سوم )

دونوں دعووں میں فرق

ان دوعبارتوں کو ابوظفر صاحب کے ذکر کردہ حوالہ جات کے ساتھ ملانے سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے مدعیوں کا ذکر فرمارہے ہیں۔جن کے دعویٰ کی نوعیت اورکیفیت ایک ہو۔ اوروہ ایک ہی زمانہ اورعلاقے میں ہوں جن کے بارے میں باسبدایت سمجھا جاسکے ۔ کہ پہلے مدعی کے بعد دوسروںنے اس کی ریس کرکے دعوے کئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے مدعیوں میں سے پہلے دعویٰ کرنے والے کو ترجیح حاصل ہوگی۔ اوراگر دیگر دلائل صداقت کے لوازم خاصہ میں سے ایک بھی شمار ہوگا۔ کہ اس نے سب سے پہلے دعویٰ کیا ہے۔ 
اس وضاحت کی روشنی میں یہ  سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ چونکہ باب اوربہاء نے حضرت میرزا صاحب سے پہلے دعویٰ کردیا تھا ۔ اس لئے کیوں نہ ان کو صادق سمجھا جائے اورحضرت میرزا صاحب کو ان کی ر یس کرنے والا قرار دیا جائے کیونکہ بہائیوں کے پیشوائوں اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے ٰ میں زمین وآسمان کا فر ق ہے یا درہے کہ :۔
(۱)باب اوربہاء نے اللہ تعالیٰ کی وحی کے ماتحت کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا بلکہ وہ تواپنے ہر قول کو الہام دوحی قرار دیتے تھے۔ اوران کا دعویٰ اسی طرح الوہیت کا دعویٰ تھا جس طرح عیسائی حضرت مسیح کو اللہ اورابن اللہ قرار دیتے ہیں۔ 
(۲)باب اوربہاء نے مہدی اورمسیح کو الگ الگ قرار دیا اورایک ایک دعویٰ اپنالیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح اورمہدی کو ایک وجود قرار دیکر خود دعویٰ فرمایا 
(۳)باب اوربہاء کے دعووں کا مقصد یہ تھا ۔ کہ قرآن مجید منسوخ ہوگیا۔ اب نئی شریعت البیان یاالاقدس پر عمل کرنا چاہیئے ۔ اسلام بھی منسوخ اس لئے یہ لوگ تومسیح الاسلام نہ تھے۔ بلکہ ناسخ الاسلام تھے ۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نصب العین یہ تھا۔ کہ قرآنی شریعت محکم زندہ اورقائم ہے ۔ اوراسلام زندہ مذہب ہے۔ حضور تحریر فرماتے ہیں۔ 
(الفؔ)’’ خدا تعالیٰ اس شخص کا دشمن ہے جو قرآن شریف کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہے ۔ اورمحمدی شریعت کے برخلاف چلتا ہے۔ اوراپنی شریعت چلانا چاہتاہے۔ ‘‘
(چشمہ معرفت صفحہ ۳۲۴)
(ب)اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہوسکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تینسخ یاکسی ایک حکم کا تبدیل یا تغیر کرسکتا ہو ۔ اگر کوئی ایسا خیال کرے ۔تووہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اورملحداورکافر ہے۔‘(لفالہ ادہام صفحہ ۶۰ ،صفحہ ۶۱)
اس صورت حالات کی موجودگی میں کوئی انتہائی فریبی یا فریب خورہ انسان ہی کہہ سکتاہے کہ حضرت مرزا صاحب علیہ السلام باب وبہاء کے دعویٰ کی نقل کی ہے۔ 
جب بہاء اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ تویہ کہنا کہ چونکہ بہاء نے پہلے دعویٰ کردیا تھا۔ اس لئے انہیں بہر طو ر سچا مانا جائے گا۔ اورحضرت مرزا صاحب کو بہرحال ان کی نقل کرنے والا ٹھہرایا جائے گا۔ انتہائی غلط بیانی ہے۔ پس ابوظفر صاحب کے تقدیم وتاخر دعویٰ والے سوال کا پہلا جواب تویہ ہے۔

سچے مسیح موعود سے پہلے جھوٹے مدعیوں کا وجود ضروری تھا 

دوسرا جواب ابوظفر صاحب کے سوال کا یہ ہے کہ مشابہت اورپیشگوئیوں کے مطابق ضروری تھا۔ کہ سچے مسیح موعود سے پہلے کا ذب مدعی پیدا ہوئے تھے ۔ گملی ایل فریسی نے تبلیغ کرنے والے حواریوں کے متعلق کہاتھا کہ 
’’اے اسرائیلیو! ان آدمیوں کے ساتھ جوکچھ کیا چاہتے ہو ہوشیاری سے کرنا ۔ کیونکہ ان دنوں سے پہلے تھیوداس نے اٹھ کر دعویٰ کیا تھا کہ میں بھی کچھ ہوں اورتخمینا ً چار سوآدمی اس کے ساتھ ہوگئے تھے مگر وہ مارا گیا۔ اورجتنے اس کے ماننے والے تھے سب تتر بتر ہوگئے ۔ اورمٹ گئے۔ اس شخص کے بعد یہوداہ گلیلی اسم نویسی کے دنوں میں اٹھا ۔ اورکچھ لوگ اپنی ف کرلئے وہ بھی ہلاک ہوا ۔۔۔۔ الخ (اعمال  5\38,36)
پس مسیح موعودؑ کی مسیح ناصری ؑ سے مشابہت کے باعث تھیود اس اوریہوداہ گلیلی کے مظہر باب وبہاء کا آپ سے پہلے کا ذب مدعی ہونا ضروری تھا پیشگوئیوں میں اسے احادیث نبویہ میں تفریح موجود ہے ۔ کہ مسیح الدجال پہلے ظاہر ہوگااوردین اسلام میں نقص پیدا کرنے کی کوشش کریگا اورپھر مسیح الموعو د مبعوث ہوگا جواسلام کو زندہ کریگا اس لحاظ سے بھی باب بہاء کا دعویٰ پہلے ہونا لازمی تھا ۔ چنانچہ ایساہی ہوا ۔ زہر کے بعد نزیاق اوربیماری کے بعد علاج کا انتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگیا۔الحمد اللہ (باقی آئندہ )

( ماہنامہ الفرقان جون جولائی 1959 )
مکمل تحریر >>

Thursday 28 April 2016

احمدیوں کے عقائد کیا ہیں؟




احمدیوں کے عقائد کیا ہیں؟


(تفریح کی گھنٹی بجی ۔جمیل اور جلیل جھٹ میدان میں گھا س پر ایک طرف بیٹھ گئے )
جمیل :
بھائی جلیل !کل آپ نے امام مسجد صاحب سے پوچھا تھا کہ احمدیوں کے عقائد کیا ہیں؟ 
جلیل :
پوچھا تو تھا مگر وہ احمدیوں کا نام سنتے یہ لال پیلے ہو گئے اورناراضگی سے کہنے لگے کہ تمہیں احمدیوں اور احمدیوں کے عقائد سے کیا واسطہ ؟ایسی باتیں مت کیا کرو۔ 
جمیل :
میں نے اباجان سے پوچھا تھا کہ احمدی لوگ کیا عقائد رکھتے ہیں؟ انہوں نے بڑی محبت سے بتلایا کہ احمدی اللہ کی توحید کے قائل ہیں۔ وہ ایک ہی خدا مانتے ہیں۔ دو تین خدا نہیں مانتے ۔ 
جلیل :
مسلمان تو سارے ہی ایک خدا کو مانتے ہیں۔ 
جمیل :
منہ سے سب کا یہی اقرار ہے مگر بعض لوگ قبروں پر سجدہ بھی کرتے ہیں اور وفات یافتہ لوگوں سے مرادیں مانگتے ہیں ایسے لوگ توحید کے قائل قرار نہیں پا سکتے۔ 
جلیل :
اچھا اس بات کو چھوڑو۔ تم یہ بتائو کہ تمہارے اباجان نے اور کیا کیا فرق احمدی اور غیر احمدی میں بتلائے ہیں؟ 
جمیل :
انہوں نے فرمایا کہ چار باتوں کا فرق ہے۔ (۱) احمدی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ مانتے ہیں (۲) احمدی لوگ قرآن مجید کی کسی آیت یا حکم کو منسوخ نہیں ٹھہراتے بلکہ سارے قرآن مجید کو قائم دائم جانتے ہیں (۳) احمدی لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اب بھی قرآن مجید کے ماننے والوں سے پیار کی باتیں کرتا ہے یعنی ان پر الہام اور وحی نازل کرتا ہے۔ مگر یہ الہام شریعت اور احکام والا کلام نہیں ہوتا۔ (۴) چوتھا فرق یہ ہے کہ احمدی لوگ حضرت میرزا غلام احمد علیہ السلام کو امت مسلمہ کا مجدد اور مہدی اور مسیح موعود مانتے ہیں۔ بس یہ چار فرق ہیں۔ دوسراکوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ 
جلیل :
میں نے جب امام صاحب سے پوچھا تھا تو وہ ناراض ہو گئے تھے۔ مگر چلتے چلتے کہہ گئے تھے کہ مرزائی لوگ آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے ۔ 
جمیل :
یہ تو بالکل غلط بات ہے ۔ مجھے تو اباجان نے بار بار بتایا ہے کہ ہم احمدی آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔ 
(بات یہاں تک پہنچی تھی کہ گھنٹی بج گئی۔ دونوں بچے اپنی اپنی کلاس میں چلے گئے )

مکمل تحریر >>

Tuesday 26 April 2016

مفکراحرار چوہدری افضل حق کی شاندار گواہی

مجلس احرار جو کہ جماعت احمدیہ کے ہمیشہ سے سخت مخالف رہی ہے ، ان کے مشہور و معروف لیڈر چوہدری افضل حق بھی جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات اور تبلیغی جوش کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
’’آریہ سماج کے معرض وجو د میں آنے سے پیشتر اسلام جسد بے جان تھا ۔جس میں تبلیغی حِس مفقود ہو چکی تھی۔سو امی دیانندکی مذہب اسلام کے متعلق بدظنی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لیے چو کنا کر دیا تھا مگر حسبِ معمول جلد ہی خواب گراں طاری ہو گئی۔مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پید ا نہ ہو سکی ہا ں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اُٹھا۔ ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے آگے بڑھا۔ اگر چہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہوا۔ تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیداکر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے۔‘‘
(فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلا بازیاں صفحہ ۴۶)
پھر اسی کتاب میں ایک جگہ کہتے ہیں :
’’سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دینی مکاتب ہندوستان میں جاری ہیں مگر سوائے احمدی مدارس و مکاتب کے کسی اسلامی مدرسہ میں غیر اقوام میں تبلیغ و اشاعت کا جذبہ طلباء میں پیدا نہیں کیا جاتا۔کس قدر حیر ت ہے کہ سارے پنجاب میںسوائے احمدی جماعت کے اور کسی فرقے کابھی تبلیغی نظام موجو دنہیں۔‘‘
( فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلا بازیاں صفحہ ۴۱ )





مکمل تحریر >>

Monday 25 April 2016

شورش کاشمیری کی گواہی جماعت احمدیہ کے حق میں

کسی بھی نبی کی جماعت کی شان نہ صرف عقائد بلکہ اس کے افراد کے اخلاق  سے بھی ہوتی ہے ، جناب شورش کاشمیری جو کہ مجلس احرار کے جنرل سیکرٹری اور جماعت احمدیہ کے شدید مخالف تھے ان کی ایک گواہی ذیل میں انہی کی کتاب سے پیش کی جاتی ہے کہ جیل کے دوران ایک احمدی افسر سے وہ کیسے متاثر ہوئے ۔
شورش کاشمیری اپنی کتاب '' پس دیوارزندان '' میں رقمطراز ہیں :
’’میجر حبیب اللہ شاہ کا سلوک بہر حال شریفانہ تھا ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ پکے قادیانی تھے ۔ انکی ہمشیرہ میر زا بشیر الدین محمود کے عقدمیں تھیں ۔ قادیان کے ناظر امور عامہ سیّد زین العابدین ولی اللہ ا ن کے بڑے بھائی تھے ۔ انہیں یہ کبھی علم تھا کہ میں آل انڈیا مجلس احرار کا جنرل سیکر ٹری ہوں اور احرار قادیا نیوں کے حریف ہیں بلکہ دونوں میںانتہائی  عداو ت ہے۔میجر حبیب اللہ شاہ نے اشارۃ ً بھی اس کا احساس نہ ہونے دیا ۔ انہوں نے اخلاق و شرافت کی انتہاکردی ۔ پہلے دن اپنے دفتر میں اس خوش دلی اور کشادہ قلبی سے ملے گویا مدۃ العمر کے آشنا ہیں ۔ انہوں نے مجھے بیماروں میں رکھا اور اچھی سے اچھی دوا و غذادینا شروع کی ۔ نتیجۃ ً میری صحت کے بال و پر پیدا ہوگئے اور میں چندہی ہفتوں میں تندرستی کی راہ پر آگیا ۔ وہ بڑے جسور ‘انتہائی حلیم ‘بے حد خلیق اور غایت درجہ کے دیا نت دار آفیسر تھے ۔ ان کے پہلو میں یقینا ایک انسان کا دل تھا ۔ ان کی بہت سی خوبیوں نے انہیں سیاسی قیدیوں میں مقبول و محترم بنا دیا تھا ۔ ‘‘
(پس دیوار زنداں ، صفحہ 257 تا 258 )

پھر اسی کتاب میں ایک مقام پر شورش کاشمیری نے میجر حبیب اللہ شاہ کی دینی غیرت کا ایک واقعہ بھی بتایا ہے ۔
'' لاہور کا ڈپٹی کمشنر ہینڈ ر سن تھا ۔ اس نے ایک دن اس سوال پر کوئی ناگوار بات کہی ۔میجر صاحب کو غصہ آگیا۔ ہینڈرسن کو فورا ٹوکا ’’آپ اذان یا قرآن کے بارے میں محتاط رہیں ۔میں نہیں روک سکتا۔‘‘ میجر صاحب ہینڈر سن سے الجھ پڑے ۔ ایک دفعہ پہلے بھی ہینڈرسن نے حضورﷺ کا نام بے ادبی سے لیا تو اس سے الجھے تھے ۔ تمام جیل میں ان کی اس حمیّت کا چرچا تھا ۔''
 (پس دیوار زندان ، صفحہ 310)











مکمل تحریر >>

داڑھی کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ کا لطیف ارشاد



داڑھی کے بارے میں آج کل بعض احمدی مسلمان نوجوان بھی لا پرواہی کرتے نظر آتے ہیں ، اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ حضرت مصلح موعود مرزا بشیرالدین محمود احمد ؓ کا یہ لطیف بیان آپ کے سامنے پیش کیا جائے ۔
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں :
’’ تیسری بات جس کی میں جماعت کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے افراد اپنے عمل میں درستی پیدا کریں ۔چھوٹی چھوٹی باتیں جن کے چھوڑنے میں کوئی دقت نہیں ، میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک انہی باتوں کو ہماری جماعت کے افراد نہیں چھوڑ سکے، مثلاً داڑھی رکھنا ہے ۔ میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو داڑھی نہیں رکھتے۔ حالانکہ اس میں کونسی دقت ہے آخر ان کے باپ دادا داڑھی رکھتے تھے یا نہیں ؟ اگر رکھتے تھے تو پھر اگر وہ بھی داڑھی رکھ لیں تو اس میں کیا حرج ہے؟پھر باپ دادا کو جانے دو سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داڑھی رکھتے تھے یا نہیں؟ اگررکھتے تھے تو آپؐ کی طرف منسوب ہونے والے افراد کیوں داڑھی نہیں رکھ سکتے؟ مجھ سے ایک دفعہ ایک نوجوان نے بحث شروع کردی کہ داڑھی رکھنے میں کیا فائدہ ہے ۔وہ میرا عزیز تھا اورہم کھانا کھاکر اس وقت بیٹھے ہوئے تھے ۔اورچونکہ فراغت تھی اس لئے بڑی دیر تک باتیں ہوتی رہیں ۔جب میں نے دیکھا کہ کج بحثی کررہا ہے تو میں نے اسے کہا میں مان لیتا ہوں کہ داڑھی رکھنے میں کوئی فائدہ نہیں ۔اس پر وہ خوش ہوا کہ اس کی بات تسلیم کرلی گئی ہے ۔میں نے کہا میں تسلیم کرلیتا ہوں کہ اس میں کوئی بھی خوبی نہیں مگر تم بھی ایک بات مان لو اوروہ یہ کہ محمد رسول اللہ علیہ وسلم کی بات مان لینے میں ساری خوبی ہے۔ بے شک داڑھی رکھنے میں کوئی خوبی بھی نہ ہو۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لینے میں ساری خوبی ہے۔ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ داڑھی رکھو۔ تم بے شک سمجھو کہ یہ چیز ہر رنگ مضر اور نقصان دہ ہے مگر کیا بیسیوں مضر چیزیں ہم اپنے دوستوں کی خاطر اختیار نہیں کرلیا کرتے ؟ اول تو مجھے داڑھی رکھنے میں کوئی ضرر نظر نہیں لیکن سمجھ لو کہ یہ مضر چیز ہے پھر بھی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ داڑھی رکھیں ۔ آخر ایک شخص کو ہم نے اپنا آقا اورسردار تسلیم کیا ہواہے۔ جب ہماراآقا اورسردار کہتا ہے کہ ایسا کرو تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے پیچھے چلیں خواہ اس کے حکم کی ہمیں کوئی حکمت نظر نہ آئے۔ صحابہ ؓ کو دیکھو ان کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا عشق تھا ۔داڑھی کے متعلق تو ہم دلیلیں دے سکتے ہیں اورداڑھی رکھنے کی معقولیت بھی ثابت کرسکتے ہیں ۔ لیکن صحابہ بعض دفعہ اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر اس پر عمل کرنے کے لئے بے تاب ہوجاتے تھے کہ بظاہر اس کی معقولیت کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہوتی تھی۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریر فرمارہے تھے کہ آپؐ نے کناروں پر کھڑے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھ کر فرمایا’’ بیٹھ جائو‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اس وقت گلی میں آرہے تھے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ ان کے کانوں میں پڑگئے اور وہیں گلی میں بیٹھ گئے اور بچوں کی طرح گھسٹ گھسٹ کر انہوںنے مسجد کی طرف بڑھنا شروع کیا ۔ ایک دوست ان کے پاس سے گزرے تو انہیں کہنے لگے عبداللہ بن مسعود! تم اتنے معقول آدمی ہوکر یہ کیا کررہے ہو؟ انہوںنے کہا ۔ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میرے کان میں آئی تھی کہ بیٹھ جائو ۔اس پر میں بیٹھ گیا ۔انہوںنے کہایہ بات ان لوگوں سے کہی تھی جو مسجد میں آپؐ کے سامنے کھڑے تھے۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو ، بے شک آپؐ کا یہی مطلب ہوگا لیکن مجھے یہ خیال آیا کہ اگر میں مسجد میں پہنچنے سے پہلے مرگیا تو ایک بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بغیر عمل کے رہ جائے گی ۔ اس لئے میں گلی میں ہی بیٹھ گیا تاکہ آپ کے حکم پر عمل کرنے کا ثواب حاصل کرسکوں۔
یہ ایمان ہے جوصحابہؓ کے اندر پایا جاتا تھا اوریہی ایمان ہے جو انسان کی نجات کا باعث بنتا ہے ۔‘‘
   (الفضل ، ۱۴ اپریل  ۱۹۴۸ء)

مکمل تحریر >>