Thursday 28 April 2016

احمدیوں کے عقائد کیا ہیں؟




احمدیوں کے عقائد کیا ہیں؟


(تفریح کی گھنٹی بجی ۔جمیل اور جلیل جھٹ میدان میں گھا س پر ایک طرف بیٹھ گئے )
جمیل :
بھائی جلیل !کل آپ نے امام مسجد صاحب سے پوچھا تھا کہ احمدیوں کے عقائد کیا ہیں؟ 
جلیل :
پوچھا تو تھا مگر وہ احمدیوں کا نام سنتے یہ لال پیلے ہو گئے اورناراضگی سے کہنے لگے کہ تمہیں احمدیوں اور احمدیوں کے عقائد سے کیا واسطہ ؟ایسی باتیں مت کیا کرو۔ 
جمیل :
میں نے اباجان سے پوچھا تھا کہ احمدی لوگ کیا عقائد رکھتے ہیں؟ انہوں نے بڑی محبت سے بتلایا کہ احمدی اللہ کی توحید کے قائل ہیں۔ وہ ایک ہی خدا مانتے ہیں۔ دو تین خدا نہیں مانتے ۔ 
جلیل :
مسلمان تو سارے ہی ایک خدا کو مانتے ہیں۔ 
جمیل :
منہ سے سب کا یہی اقرار ہے مگر بعض لوگ قبروں پر سجدہ بھی کرتے ہیں اور وفات یافتہ لوگوں سے مرادیں مانگتے ہیں ایسے لوگ توحید کے قائل قرار نہیں پا سکتے۔ 
جلیل :
اچھا اس بات کو چھوڑو۔ تم یہ بتائو کہ تمہارے اباجان نے اور کیا کیا فرق احمدی اور غیر احمدی میں بتلائے ہیں؟ 
جمیل :
انہوں نے فرمایا کہ چار باتوں کا فرق ہے۔ (۱) احمدی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ مانتے ہیں (۲) احمدی لوگ قرآن مجید کی کسی آیت یا حکم کو منسوخ نہیں ٹھہراتے بلکہ سارے قرآن مجید کو قائم دائم جانتے ہیں (۳) احمدی لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اب بھی قرآن مجید کے ماننے والوں سے پیار کی باتیں کرتا ہے یعنی ان پر الہام اور وحی نازل کرتا ہے۔ مگر یہ الہام شریعت اور احکام والا کلام نہیں ہوتا۔ (۴) چوتھا فرق یہ ہے کہ احمدی لوگ حضرت میرزا غلام احمد علیہ السلام کو امت مسلمہ کا مجدد اور مہدی اور مسیح موعود مانتے ہیں۔ بس یہ چار فرق ہیں۔ دوسراکوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ 
جلیل :
میں نے جب امام صاحب سے پوچھا تھا تو وہ ناراض ہو گئے تھے۔ مگر چلتے چلتے کہہ گئے تھے کہ مرزائی لوگ آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین نہیں مانتے ۔ 
جمیل :
یہ تو بالکل غلط بات ہے ۔ مجھے تو اباجان نے بار بار بتایا ہے کہ ہم احمدی آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔ 
(بات یہاں تک پہنچی تھی کہ گھنٹی بج گئی۔ دونوں بچے اپنی اپنی کلاس میں چلے گئے )

مکمل تحریر >>

Tuesday 26 April 2016

مفکراحرار چوہدری افضل حق کی شاندار گواہی

مجلس احرار جو کہ جماعت احمدیہ کے ہمیشہ سے سخت مخالف رہی ہے ، ان کے مشہور و معروف لیڈر چوہدری افضل حق بھی جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات اور تبلیغی جوش کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
’’آریہ سماج کے معرض وجو د میں آنے سے پیشتر اسلام جسد بے جان تھا ۔جس میں تبلیغی حِس مفقود ہو چکی تھی۔سو امی دیانندکی مذہب اسلام کے متعلق بدظنی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لیے چو کنا کر دیا تھا مگر حسبِ معمول جلد ہی خواب گراں طاری ہو گئی۔مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پید ا نہ ہو سکی ہا ں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اُٹھا۔ ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے آگے بڑھا۔ اگر چہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہوا۔ تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیداکر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے۔‘‘
(فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلا بازیاں صفحہ ۴۶)
پھر اسی کتاب میں ایک جگہ کہتے ہیں :
’’سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دینی مکاتب ہندوستان میں جاری ہیں مگر سوائے احمدی مدارس و مکاتب کے کسی اسلامی مدرسہ میں غیر اقوام میں تبلیغ و اشاعت کا جذبہ طلباء میں پیدا نہیں کیا جاتا۔کس قدر حیر ت ہے کہ سارے پنجاب میںسوائے احمدی جماعت کے اور کسی فرقے کابھی تبلیغی نظام موجو دنہیں۔‘‘
( فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلا بازیاں صفحہ ۴۱ )





مکمل تحریر >>

Monday 25 April 2016

شورش کاشمیری کی گواہی جماعت احمدیہ کے حق میں

کسی بھی نبی کی جماعت کی شان نہ صرف عقائد بلکہ اس کے افراد کے اخلاق  سے بھی ہوتی ہے ، جناب شورش کاشمیری جو کہ مجلس احرار کے جنرل سیکرٹری اور جماعت احمدیہ کے شدید مخالف تھے ان کی ایک گواہی ذیل میں انہی کی کتاب سے پیش کی جاتی ہے کہ جیل کے دوران ایک احمدی افسر سے وہ کیسے متاثر ہوئے ۔
شورش کاشمیری اپنی کتاب '' پس دیوارزندان '' میں رقمطراز ہیں :
’’میجر حبیب اللہ شاہ کا سلوک بہر حال شریفانہ تھا ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ پکے قادیانی تھے ۔ انکی ہمشیرہ میر زا بشیر الدین محمود کے عقدمیں تھیں ۔ قادیان کے ناظر امور عامہ سیّد زین العابدین ولی اللہ ا ن کے بڑے بھائی تھے ۔ انہیں یہ کبھی علم تھا کہ میں آل انڈیا مجلس احرار کا جنرل سیکر ٹری ہوں اور احرار قادیا نیوں کے حریف ہیں بلکہ دونوں میںانتہائی  عداو ت ہے۔میجر حبیب اللہ شاہ نے اشارۃ ً بھی اس کا احساس نہ ہونے دیا ۔ انہوں نے اخلاق و شرافت کی انتہاکردی ۔ پہلے دن اپنے دفتر میں اس خوش دلی اور کشادہ قلبی سے ملے گویا مدۃ العمر کے آشنا ہیں ۔ انہوں نے مجھے بیماروں میں رکھا اور اچھی سے اچھی دوا و غذادینا شروع کی ۔ نتیجۃ ً میری صحت کے بال و پر پیدا ہوگئے اور میں چندہی ہفتوں میں تندرستی کی راہ پر آگیا ۔ وہ بڑے جسور ‘انتہائی حلیم ‘بے حد خلیق اور غایت درجہ کے دیا نت دار آفیسر تھے ۔ ان کے پہلو میں یقینا ایک انسان کا دل تھا ۔ ان کی بہت سی خوبیوں نے انہیں سیاسی قیدیوں میں مقبول و محترم بنا دیا تھا ۔ ‘‘
(پس دیوار زنداں ، صفحہ 257 تا 258 )

پھر اسی کتاب میں ایک مقام پر شورش کاشمیری نے میجر حبیب اللہ شاہ کی دینی غیرت کا ایک واقعہ بھی بتایا ہے ۔
'' لاہور کا ڈپٹی کمشنر ہینڈ ر سن تھا ۔ اس نے ایک دن اس سوال پر کوئی ناگوار بات کہی ۔میجر صاحب کو غصہ آگیا۔ ہینڈرسن کو فورا ٹوکا ’’آپ اذان یا قرآن کے بارے میں محتاط رہیں ۔میں نہیں روک سکتا۔‘‘ میجر صاحب ہینڈر سن سے الجھ پڑے ۔ ایک دفعہ پہلے بھی ہینڈرسن نے حضورﷺ کا نام بے ادبی سے لیا تو اس سے الجھے تھے ۔ تمام جیل میں ان کی اس حمیّت کا چرچا تھا ۔''
 (پس دیوار زندان ، صفحہ 310)











مکمل تحریر >>

داڑھی کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ کا لطیف ارشاد



داڑھی کے بارے میں آج کل بعض احمدی مسلمان نوجوان بھی لا پرواہی کرتے نظر آتے ہیں ، اس لیے ضروری معلوم ہوا کہ حضرت مصلح موعود مرزا بشیرالدین محمود احمد ؓ کا یہ لطیف بیان آپ کے سامنے پیش کیا جائے ۔
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں :
’’ تیسری بات جس کی میں جماعت کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے افراد اپنے عمل میں درستی پیدا کریں ۔چھوٹی چھوٹی باتیں جن کے چھوڑنے میں کوئی دقت نہیں ، میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک انہی باتوں کو ہماری جماعت کے افراد نہیں چھوڑ سکے، مثلاً داڑھی رکھنا ہے ۔ میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو داڑھی نہیں رکھتے۔ حالانکہ اس میں کونسی دقت ہے آخر ان کے باپ دادا داڑھی رکھتے تھے یا نہیں ؟ اگر رکھتے تھے تو پھر اگر وہ بھی داڑھی رکھ لیں تو اس میں کیا حرج ہے؟پھر باپ دادا کو جانے دو سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داڑھی رکھتے تھے یا نہیں؟ اگررکھتے تھے تو آپؐ کی طرف منسوب ہونے والے افراد کیوں داڑھی نہیں رکھ سکتے؟ مجھ سے ایک دفعہ ایک نوجوان نے بحث شروع کردی کہ داڑھی رکھنے میں کیا فائدہ ہے ۔وہ میرا عزیز تھا اورہم کھانا کھاکر اس وقت بیٹھے ہوئے تھے ۔اورچونکہ فراغت تھی اس لئے بڑی دیر تک باتیں ہوتی رہیں ۔جب میں نے دیکھا کہ کج بحثی کررہا ہے تو میں نے اسے کہا میں مان لیتا ہوں کہ داڑھی رکھنے میں کوئی فائدہ نہیں ۔اس پر وہ خوش ہوا کہ اس کی بات تسلیم کرلی گئی ہے ۔میں نے کہا میں تسلیم کرلیتا ہوں کہ اس میں کوئی بھی خوبی نہیں مگر تم بھی ایک بات مان لو اوروہ یہ کہ محمد رسول اللہ علیہ وسلم کی بات مان لینے میں ساری خوبی ہے۔ بے شک داڑھی رکھنے میں کوئی خوبی بھی نہ ہو۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لینے میں ساری خوبی ہے۔ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ داڑھی رکھو۔ تم بے شک سمجھو کہ یہ چیز ہر رنگ مضر اور نقصان دہ ہے مگر کیا بیسیوں مضر چیزیں ہم اپنے دوستوں کی خاطر اختیار نہیں کرلیا کرتے ؟ اول تو مجھے داڑھی رکھنے میں کوئی ضرر نظر نہیں لیکن سمجھ لو کہ یہ مضر چیز ہے پھر بھی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ داڑھی رکھیں ۔ آخر ایک شخص کو ہم نے اپنا آقا اورسردار تسلیم کیا ہواہے۔ جب ہماراآقا اورسردار کہتا ہے کہ ایسا کرو تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے پیچھے چلیں خواہ اس کے حکم کی ہمیں کوئی حکمت نظر نہ آئے۔ صحابہ ؓ کو دیکھو ان کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا عشق تھا ۔داڑھی کے متعلق تو ہم دلیلیں دے سکتے ہیں اورداڑھی رکھنے کی معقولیت بھی ثابت کرسکتے ہیں ۔ لیکن صحابہ بعض دفعہ اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر اس پر عمل کرنے کے لئے بے تاب ہوجاتے تھے کہ بظاہر اس کی معقولیت کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہوتی تھی۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریر فرمارہے تھے کہ آپؐ نے کناروں پر کھڑے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھ کر فرمایا’’ بیٹھ جائو‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اس وقت گلی میں آرہے تھے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ ان کے کانوں میں پڑگئے اور وہیں گلی میں بیٹھ گئے اور بچوں کی طرح گھسٹ گھسٹ کر انہوںنے مسجد کی طرف بڑھنا شروع کیا ۔ ایک دوست ان کے پاس سے گزرے تو انہیں کہنے لگے عبداللہ بن مسعود! تم اتنے معقول آدمی ہوکر یہ کیا کررہے ہو؟ انہوںنے کہا ۔ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میرے کان میں آئی تھی کہ بیٹھ جائو ۔اس پر میں بیٹھ گیا ۔انہوںنے کہایہ بات ان لوگوں سے کہی تھی جو مسجد میں آپؐ کے سامنے کھڑے تھے۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو ، بے شک آپؐ کا یہی مطلب ہوگا لیکن مجھے یہ خیال آیا کہ اگر میں مسجد میں پہنچنے سے پہلے مرگیا تو ایک بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بغیر عمل کے رہ جائے گی ۔ اس لئے میں گلی میں ہی بیٹھ گیا تاکہ آپ کے حکم پر عمل کرنے کا ثواب حاصل کرسکوں۔
یہ ایمان ہے جوصحابہؓ کے اندر پایا جاتا تھا اوریہی ایمان ہے جو انسان کی نجات کا باعث بنتا ہے ۔‘‘
   (الفضل ، ۱۴ اپریل  ۱۹۴۸ء)

مکمل تحریر >>

مولانا محمد قاسم نانوتوی اور تحذیر الناس





مولانا محمد قاسم نانوتوی کسی تعارف کے محتاج نہیں ، مولانا اپنی گہری علمی قابلیت کی وجہ سے نا صرف ہندوستان بلکہ ہندوستان سے باہر بھی معروف تھے ، آج بھی دیوبندی مسلک کے بڑے بزرگ شمار کیے جاتے ہیں ، ان کی ایک نامور کتاب تحذیر الناس اصل میں ان کی مقبولیت کی وجہ بنی ، جس میں آیت خاتم النبیین اور اثر ابن عباس پر نہایت علمی بحث فرمائی ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہلِ علم تو ان کی علمی قابلیت کے اور بھی معترف ہو گئے لیکن بعض ایسے علماء جو محض پرانی تفسیروں اور اپنے مسلک کے بزرگوں کو ذریعہ نجات سمجھتے ہیں ، ایسے علماء نے اس کتاب کی وجہ سے مولانا صاحب پر کفر کے فتویٰ کا بازار گرم کر دیا ۔ کتاب کا بنیادی نکتہ اس بات کے گرد گھومتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نہ صرف خاتم النبیین ہیں بلکہ باقی انبیاء کی نبوت بھی ظلی ہے اور اصل مصدر آنحضرت ﷺ ہی ہیں ، خاتم النبیین کی یہی تفسیر جماعت احمدیہ کرتی ہے تو ان پر قادیانی کافر کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں ، حضرت مولوی محمد قاسم صاحب نے ایک قطعی اور اصولی فیصلہ یہ فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں لفظ خاتم النّیین رسول مقبول ﷺ کے لئے مقامِ مدح میں استعمال ہواہے اور مقامِ مدح میں اس لفظ کا استعمال افضل النّبیین کے معنوں میں ہی مستعمل قرارپاسکتا ہے فضیلت کو تقدم یا تأخر زمانی سے کچھ واسطہ نہیں۔
مولانا تحریر فرماتے ہیں:۔ 
 ’’اوّل معنی خاتم النّبیین معلوم کرنے چاہئیں تاکہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو۔ سو عوامؔ کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ ؐ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تأخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقامِؔ مدح میں ولٰکن رسُول اللہ وخاتم النّبیین فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتاہے؟ ہاں اگر اس وصف کو اوصافِ مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیّت باعتبار تأخر زمانی صحیح ہوسکتی ہے مگر مَیں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی۔‘‘ (تحذیر النّاس ص۳)
خاتم کے مطلب کو واضح کرنے کے لیے بادشاہ کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
’’جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ علم سے اوپر کوئی ایسی صفت نہیں جس کو عالم سے تعلق ہو تو خواہ مخواہ اس بات کا یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ پر تمام مراتبِ کمال اسی طرح  ختم ہوگئے جیسے بادشاہ پر مراتبِ حکومت ختم ہوجاتے ہیں۔ اس لئے جیسے بادشاہ کو خاتمؔ الحکام کہہ سکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو خاتم ؔ الکاملین اور خاتمؔ النّبیین کہہ سکتے ہیں۔‘‘
 (رسالہ حجۃ الاسلام شائع کردہ کتب خانہ رحیمیہ دیوبند ص۴۵)
 ’’سوائے آپ کے اور کسی نبی نے دعویٰ خاتمیت نہ کیا بلکہ انجیل میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا یہ ارشاد کہ جہاں کا سردار آتا ہے خود اس بات پر شاہد ہے کہ حضرت عیسٰی خاتم نہیں۔ کیونکہ حسب اشارہ مثال خاتمیتِ بادشاہ خاتم وہی ہوگا جو سارے جہاں کا سردار ہو۔ اس وجہ سے ہم رسول اللہ ﷺ کو سب میں افضل سمجھتے ہیں۔ پھر یہ آپ کا خاتم ہونا آپ کے سردار ہونے پر دلالت کرتا ہے۔‘‘ (حجۃ ؔالاسلام ص۴۵۔۴۶)

مولانا نبی کے آنے کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
 ’’غرض اختتام اگر بایںؔ معنی تجویز کیا جاوے جو میں نے عرض کیا تو آپؑ کا خاتم ہونا انبیاء گذشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا۔ بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ؔ ہو جب بھی آپ کا خاتمؔ ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔ ‘‘ (تحذیرؔ الناس ص۱۴)
 ’’اگر خاتمیت ؔ بمعنی اتصافؔ ذاتی بوصف نبوت لیجئے۔ جیساکہ اس ہیچمدان نے عرض کیا ہے تو پھر سوا رسُول اللہ صلعم اور کسی کو افراد مقصود بالخلق میں سے مماثل نبوی صلعم نہیں کہہ سکتے بلکہ اس صورت میں فقط انبیاءؔ کے افرادخارجیؔ ہی پر آپ کی افضلیت ثابت نہ ہوگی۔ افراد مقدرہؔ پر بھی آپ کی افضلیت ثابت ہوجائے گی۔ بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعیم بھی کوئی بنی پیدا ہوتوپھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ چہ جائیکہ آپ کے معاصر کسی اور زمین میں یا فرض کیجئے اسی زمین میں کوئی اور نبی تجویز کیا جائے۔‘‘ (تحذیرؔ الناس ص۲۸)
ان دو۲ عبارتوں سے واضح ہے کہ جو معنی حضرت مولانا محمد قاسم صاحب بانیٔ مدرسہ دیوبند خاتم النّبیین کے سجمھتے ہیں ان کے رُو سے آنحضرت ﷺ کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا بھی خاتمیت محمدیہ کے منافی نہیں کیونکہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء موصوف بوصف النّبوۃ بالذات ہیں ۔ اور آپ کے سوا کوئی اور نبی بالذات اس وصف سے نہ متصف ہوا ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ 

خاتمیت زمانی کا وہ عام مفہوم جو عوام کے خیال میں ہے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب اس سے اتفاق نہیں فرماتے جیسا کہ تحذیرؔ الناس کے صفحہ ۳ پر آپ نے اس مفہوم کی واضح تردید فرمائی ہے۔ ہاں البتہ آپ نے آنحضرت ﷺ؍ کو ان معنوں میں خاتم زمانی قرار دیا ہے کہ آپ نے اور نبیوں کی شرائع کو منسوخ فرمایا مگر آپ کی شریعت ابدالآباد تک قائم رہے گی۔ چنانچہ تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
’’خاتم مراتب نبوّت کے اوپرؔ اور کوئی عہدہ یا مرتبہ ہی نہیں ۔ جو ہوتا ہے اس کے ماتحتؔ ہوتا ہے اس لئے اس کے احکام اوروں کے احکام کے ناسخ ہوںگے۔ اوروں کے احکام اس کے ناسخ نہ ہوں گے۔ اور اسلئے یہ ضرور ہے کہ وہ خاتم زما نی بھی ہو۔‘‘
(مباحثہ ؔشاہجہانپور ص۲۵)
’’ آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اگر حضرت موسٰیؑ بھی زندہ ہوتے تومیرا ہی اتباع کرتے۔ علاوہ بریں بعد نزول حضرت عیسٰیؑ کا آپ کی شریعت پر عمل کرنا اسی بات پر مبنی ہے۔‘‘ (تحذیرؔالناس ص۴)
قارئین کرام غور فرمائیں کہ مولانا محمد قاسم صاحب نے مباحثہؔ شاہجہانپور ص۲۵ کی مذکورہ بالا میں ’’ماتحت‘‘ صاحبِ عہدہ ومرتبہ کو خاتم مراتب نبوت کے منافی قرار نہیں دیا اور تحذیرؔ الناس ص۴ میں مسیح موعود کو شریعت محمدیہ پر عمل کرنے والا قرار دیاہے گویا آپ کے نزدیک آنحضرت ﷺ انہی معنوں میں خاتم زمانی ہیں کہ آپ کی شریعت آخری ہے اب جو آئے گا۔ وہ آپ کے ماتحتؔ ہوگا۔ اور آپ ؑکی شریعت کے تابع ہوگا۔ 

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا حیات مسیح کے قائل تھے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ تسلیم کرتے تھے ، اس بارے مولانا کے یہ اقتباس واضح ثبوت ہیں کہ ان کے بزدیک ہر نبی وفات پا گیا ۔
(۱) ’’حضرت آدم علیہ السلام سے لیکرجس قدر انبیاءؔ ہوئے سب مرگئے جس قدر بادشاہ اس زمانہ سے پہلے ہوئے وہ سب مرگئے۔ بزور دین کوئی چھوٹتا تو انبیاء چھوٹتے ۔ اوربزور دنیا کوئی بچتا تو بادشاہ بچتے۔‘‘
(لطائف قاسمیہ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ص۲۲)
(۲) ’’اسی زمانے میں اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو ان کو چاروناچار رسول عربی ﷺ ہی کا اتباع کرنا پڑتا۔‘‘
(مباحثہؔ شاہجہانپور ص۳۳)

جماعت احمدیہ خاتم النّبیین کے معنوں اور تشریح میں اسی مسلک پر قائم ہے جو ہم نے بطور بالامیں جناب مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کے حوالہ جات سے ذکر کیا ہے۔ زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں ۔ حضرت مسیح موعودؑ بانیٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے ایک اقتباس پر اس مضمون کو ختم کرتے ہیں۔ حضورتحریر فرماتے ہیں :۔
’’عقیدہ کی رُو سے جو خدا تم سے چاہتا وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد ﷺ اس کی نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی طورسے محمدیت کی چادر پہنائی گئی کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جُدا نہیں اور نہ شاخ اپنی بیخ سے جُدا ہے پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہوکر خدا سے نبی کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں جیسا کہ تم جب آئینہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہوسکتے۔ بلکہ ایک ہی ہو اگرچہ بظاہر دونظر آتے ہیں۔ صرف ظلّ اور اصل کا فرق ہے سو ایسا ہی خدا نے مسیح موعود میں چاہا۔‘‘
(کشتیٔ نوح ص۲۲۔۲۳)

نوٹ : اس مضمون کے لیے ماہنامہ الفرقان کی اکتوبر 1964 کی اشاعت سے فائدہ اٹھایا گیا ہے ۔
مکمل تحریر >>