Thursday 1 October 2015

سیرت حضرت مسیح موعودء ۔ اِکرَام ضَیْف (مہمان نوازی)

سیرت حضرت مسیح موعودء ۔ اِکرَام ضَیْف (مہمان نوازی)

از قلم: حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ
 اکرام ضیف یعنی مہمان نوازی ان اخلاق فاضلہ میں سے ہے جو سوسائٹی اور تمدن کے لئے بمنزلہ روح کے ہیں ۔مہمان نوازی سوسائٹی میں احترام اور امن کا جذبہ پیدا کرتی ہے ،اس سے عناد اور حسد دور ہوتاہے اور ایک دوسرے پر اعتماد بڑھتاہے۔
حضرت نبی اکرم ﷺ نے اکرام ضیف کے لئے خاص طور پر ہدایت فرمائی ہے بلکہ اس کو ایمان کے نتائج اور ثمرات میں سے قرار دیا ہے چنانچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا گیاہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مَن کاَنَ یُومنُ بِاللّٰہِ وَالیَومِ الآخِر فَلْیُکَرِمْ ضَیْفَہ یعنی جو شخص خدا تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتاہے اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔
ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک یہ اخلاقی قوت اس میں نشوونما نہیں پاتی۔ اکرام ضیف میں بہت سی باتیں داخل ہیں یا یہ کہو کہ اس کے مختلف اجزاء ہیں ۔ اس کے حقوق کی رعایت کرنا ، مرحبا کہنا ،نرمی کرنا، اظہار بشاشت کرنا ، حسب طاقت کھانا وغیرہ کھلانا اور اس کے آرام میں ایثار سے کام لینا اور جب وہ روانہ ہو تو اس کی مشایعت کرنا۔
اکرام ضیف انبیاء علیہم السلام کی سنت میں داخل ہے اور حقیقت میں یہ خلق کامل طور پر ان میں ہی پایا جاتاہے۔ اورپھر اس کا کامل ترین نمونہ آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ اور آپ کے بروز حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں موجود ہے ۔ خدا تعالیٰ کی ایک مخلوق ان کے پاس بغرض حصول ہدایت آتی ہے اوروہ حق پہنچانے کے لئے اپنے دل میں ایک جوش اور تڑپ رکھتے ہیں اور پھر سنت اللہ کے موافق ان کی مخالفت بھی شدید ہوتی ہے مگر ہر حالت میں وہ اپنے مہمانوں کے آرام اور خاطر مدارات میں کبھی فرق نہیں کرتے اور ان کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کے مہمانوں کو آرام ملے ۔

حضرت مسیح موعود ؑ کی خصوصیت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو خصوصیت سے اس کی طرف توجہ تھی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت آپ کو وحی الٰہی کے ذریعہ سے آنے والی مخلوق کی خبر دی تھی اور فرمایا تھا کہ تیرے پاس دوردراز سے لوگ آئیں گے اور ایساہی فرمایا لاَ تُصَعّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلاتَسْئَمْ مِنَ النٖاسِ ۔غرض یہاں تو پہلے ہی مہمانوں کے بکثرت آنے کی خبر دی گئی تھی اور پہلے ہی سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب کو وسعت اوردل میں حوصلہ پیدا کر رکھاتھا۔ اور مہمان نوازی کے لئے آپ گویا بنائے گئے تھے۔ اب میں آپ کی زندگی کے واقعات میں انشاء اللہ العزیز دکھاؤں گا کہ آ پ نے کس طرح پر مہمان نوازی کا حق ادا کیا اور ایک اسوہ حسنہ اکرام ضیف کا چھوڑا۔

اکرام ضیف کی روح آپ ؑ میں فطرتاً آئی تھی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے جس خاندان میں پیدا کیا وہ اپنی عزت و وقار کے لحاظ سے ہی ممتاز نہ تھا بلکہ اپنی مہمان نوازی اور جود و سخا کے لئے بھی مشار الیہ تھا۔ اس خاندان کا دستر خوان ہمیشہ وسیع تھا۔ جس عظیم خاتون کو حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام جیسا بیٹا جننے کا فخر حاصل ہے و ہ خاص طور پر مہمان نوازی کے لئے مشہور تھیں۔ قادیان میں پرانے زمانہ کے لوگ ہمیشہ ان کی اس صفت کا اظہار کیاکرتے تھے اور میں نے بلا واسطہ ان سے سنا جنہوں نے اس زمانہ ہی کو نہیں پایا بلکہ اس مائدہ سے حصہ لیا۔ چنانچہ حیات احمد جلداول کے صفحہ ۱۷۴،۱۷۵ پر حضرت مائی چراغ بی بی صاحبہ مرحومہ کا ذکر کر چکا ہوں اور ان کی اس اخلاقی خوبی کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے۔
’’مہمان نوازی کے لئے ان کے دل میں نہایت جوش اور سینہ میں وسعت تھی ۔ وہ لوگ جنہوں نے ان کی فیاضیاں اور مہمان نوازیاں دیکھی ہیں ان میں سے بعض اس وقت تک زندہ ہیں ،وہ بیان کرتے ہیں کہ انہیں اگر باہر سے یہ اطلاع ملتی کہ چار آدمیوں کے لئے کھانا مطلوب ہے تو اندر سے جب کھانا جاتا تو آٹھ آدمیوں سے بھی زائد کے لئے بھیجا جاتا اور مہمانوں کے آنے سے انہیں خوشی ہوتی‘‘۔(حیات احمد جلد اول صفحہ ۱۷۴،۱۷۵)
گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شیر مادر کے ساتھ مہمان نوازی کو پیاتھا ۔ جب سے آ پ نے آنکھ کھولی اس خوبی کو سیکھا ۔ اور پھر جب خد ا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے ان کو مسح کیا اور معطر فرمایا تو حالت ہی بدل گئی اور وہ قوتیں جو آپ میں بطور بیج کے تھیں ایک بہت بڑے درخت کی صورت میں نمودار ہو ئیں۔
آ پ پہلے سے خدا تعالیٰ کی وحی پا کر ان مہمانوں کے استقبال اور اکرام کے لئے تیار تھے جن کے آنے کا خدا نے وعدہ فرمایا تھا۔

قبل بعثت اور بعد بعثت کی مہمان نوازی

آپ کی مہمان نوازی پر کبھی کسی وقت نے کوئی خاص اثر نہیں پیداکیا ۔ جب آ پ خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور نہ ہوئے تھے اس وقت بھی بعض لوگ آپ کے پاس آتے تھے ۔ ان کی مہمان نوازی میں بھی آپ کا وہی طریق تھا جو ماموریت کے بعد تھا ۔ پہلے جب بہت ہی کم اور کبھی کبھار کوئی شخص آتا تھا اس وقت کوئی خاص التفات نہ تھی کہ خرچ کم ہے بعد میں جب سینکڑوں ہزاروں آنے لگے تو کوئی غیر التفاتی نہیں ہوئی کہ بہت آنے لگے ہیں۔
غرض ہر زمانہ میں آ پ کی شان مہمان نوازی یکساں پائی جاتی ہے، یعنی کیفیت وہی رہی ۔ مہمانوں کی کثرت نے اس میں ترقی کا رنگ پیدا کیا ، کو ئی کمی نہیں ہوئی۔ اب میں واقعات کی روشنی میں آپ کے اس خلق عظیم کی تصویر دکھاتاہوں۔

ایک عجیب واقعہ

حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحبؓ جب سے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں آنے لگے ہیں ان کو ایک خاص مذاق اور شوق رہا ہے کہ وہ اکثر باتیں حضرت کی نوٹ کر لیا کرتے اور دوستوں کو سنایا کرتے۔
انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اخلاق کا ذکر برادر منشی محمد عبداللہ بوتالوی سے کیا اور منشی محمد عبداللہ صاحب نے مجھے لکھ کر بھیجا جو میں نے ۲۱؍اپریل ۱۹۱۸ء کے الحکم میں سیر ت المہدی کا ایک ورق کے عنوان سے چھاپ دیا ۔ اس میں اکرا م ضیف کے عنوان کے نیچے یہ واقعہ درج ہے کہ :
’’ایک مرتبہ ایک مہمان نے آ کر کہا کہ میرے پاس بسترا نہیں ہے ۔حضرت صاحب نے حافظ حامد علی صاحب کو (جو ۱۹۱۸ء میں مختصر سی دوکان قادیان میں کرتے تھے اور حضرت کے پرانے مخلص خادم تھے اور اب فوت ہو چکے ہیں اللھم ارحمہ) کہا کہ اس کو لحاف دے دو۔ حافظ حامد علی صاحب نے عرض کیا کہ یہ شخص لحاف لے جائے گا وغیرہ وغیرہ ۔ اس پر حضرت نے فرمایا:
’’اگر لحاف لے جائے گا تو اس کا گناہ ہوگا اور اگر بغیر لحاف کے مر گیا تو ہمارا گناہ ہوگا‘‘۔
اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ وہ مہمان بظاہر کوئی ایساآدمی نہ معلوم ہوتاتھا جو کسی دینی غرض کے لئے آیاہو بلکہ شکل و صورت سے مشتبہ پایا جاتا تھا مگر آپ نے اس کی مہمان نوازی میں کوئی فرق نہیں کیا ۔ اور اس کی آسائش و آرام کو اپنے آرام پر مقدم کیا۔

مہمان نوازی کے لئے ایثار کلی کی تعلیم ایک کہانی کے رنگ میں

وہی صاحب حضرت مفتی صاحب کی روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مہمان کثر ت سے آ گئے ۔ بیوی صاحبہ (حضرت ام المومنین) گھبرائیں ۔(اس زمانہ میں مہمانوں کا کھانا سب اندر تیار ہوتاتھا اور تمام انتظام و انصرام اندرہوتا تھا اس لئے گھبرا جانا معمولی بات تھی۔عرفانی) مجھے (مفتی محمد صادق کو ) جو مکان حضرت صاحب نے دے رکھا تھا وہ بالکل نزدیک تھا۔(یہ وہ مکان ہے جہاں آج کل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رہتے ہیں ۔ اس وقت یہ مکان نہایت شکستہ حالت میں تھا۔ بعد میں خاکسا ر عرفانی نے اسے خرید لیا اور خدا نے اسے توفیق دی کہ اس کا 1/3 حصہ حضرت اقدس کے نام ہبہ کر دے۔ خدا تعالیٰ اسے قبول فرمائے ۔آمین۔ پھروہ سارا مکان حضرت کے قبضہ میں آ گیا۔ عرفانی)۔ میں سنتا رہا ۔ حضرت صاحب نے بیوی صاحبہ کو ایک کہانی سنانی شروع کی۔ فرمایا ایک شخص کو جنگل میں رات آ گئی۔ اس نے ایک درخت کے نیچے بسیرا کر دیا۔ اس درخت کے اوپر ایک کبوتر اور کبوتری کا گھونسلہ بنا ہوا تھا۔ وہ دونوں آپس میں باتیں کرنے لگے کہ ہمارے ہاں مہمان آیاہے ۔ اس کی کیاخاطر کریں۔ نر نے کہا کہ سردی ہے بسترا اس کے پاس نہیں ہم اپنا آشیانہ گرادیں اس سے آگ جلا کر یہ رات گزار لے گا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ انہوں نے سوچا اب اس کے واسطے کھانا نہیں ہے ہم دونوں اپنے آپ کو نیچے گرا دیں تاکہ وہ ہمیں بھی کھالے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس لطیف پیرایہ میں اکرام ضیف کی تاکید فرمائی حضرت ام المومنین کو اللہ تعالیٰ نے خود ایک وسیع حوصلہ دیا ہے اور وہ مہمانوں کی خدمت و دلداری میں جو حصہ لیتی ہیں اس سے وہ لوگ خوب واقف ہیں جن کی مستورات سالانہ جلسہ پر آتی ہیں ۔شروع شروع میں قادیان میں ضروری اشیاء بھی بڑی دقّت سے ملا کرتی تھیں تو مہمانوں کی کثرت بعض اوقات انتظامی دقتیں پیدا کر دیا کرتی تھی۔ یہ گھبراہٹ بھی انہیں دقتوں کے رنگ میں تھی۔ یہ واقعہ حضرت صاحب کی مہمان نوازی کا ہی بہترین سبق نہیں بلکہ مہمانوں کے لئے وہ اعلیٰ درجہ کی محبت و ایثار جو آپ میں تھا اور جو آپ اپنے گھر والوں کے دل میں پیدا کرنا چاہتے تھے اس کی بھی نظیر ہے پھر آپ کے حسنِ معاشرت پر بھی معاً روشنی ڈالتاہے کہ کس رفق اور اخلاق کے ساتھ ایسے موقعہ پر کہ انسان گھبرا جاتا ہے اصل مقصد کو زیر نظر رکھتے ہیں۔(عرفانی)۔

ڈاکٹر عبداللہ صاحب نومسلم کا واقعہ

ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نیاز حاصل کرنے کے لئے لاہور سے دو دن کی رخصت لے کر آیا۔ (ڈاکٹر صاحب انجمن حمایت اسلام کے شفا خانہ میں کام کرتے تھے ۔ایڈیٹر) رات کی گاڑی پر بٹالہ اترا اس لئے رات وہیں رہا۔ اور صبح سویرے اٹھ کر قادیان کو روانہ ہو گیا۔ اور ابھی سورج تھوڑا ہی نکلاتھا کہ یہاں پہنچ گیا۔ میں پرانے بازار کی طرف سے آ رہا تھا ۔ جب میں مسجد اقصیٰ کے قریب جو بڑ ی حویلی (ڈپٹی شنکر داس کی حویلی) ہے وہاں پہنچا تو میں نے اس جگہ (جہاں اب حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا مکان ہے۔ اور اس وقت یہ جگہ سپید ہی تھی)۔حضرت مسیح موعود ؑ کو ایک مزدور کے پاس جو اینٹیں اٹھا رہاتھا کھڑے ہوئے دیکھا ۔ حضرت صاحب نے بھی مجھے دیکھ لیا ۔ آ پ مجھے دیکھتے ہی مزدورکے پاس سے آ کر راستہ پر کھڑے ہوگئے۔ میں نے قریب پہنچ کر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا۔ آپ نے وعلیکم السلام فرمایا۔ اور فرمایا کہ اس وقت کہاں سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں رات بٹالہ رہا ہوں اور اب حضور کی خدمت میں وہاں سے سویرے چل کر حاضر ہوا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ پیدل آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں حضور۔ افسوس کے لہجے میں فرمایاکہ تمہیں بڑی تکلیف ہوئی ہوگی۔ میں نے عرض کیا حضور کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ آ پ نے فرمایا اچھا بتاؤ چائے پیو گے یا لسّی؟ میں نے عرض کیا کہ حضور کچھ بھی نہیں پیوں گا۔ آ پ نے فرمایا تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ، ہمارے گھر گائے ہے جو کہ تھوڑا سا دودھ دیتی ہے ۔ گھروالے چونکہ دہلی گئے ہوئے ہیں اس لئے اس وقت لسیّ بھی موجودہے اور چائے بھی ، جو چاہو پی لو۔ میں نے کہا حضور لسّی پیوں گا ۔ آپ نے فرمایا اچھا چلو مسجد مبارک میں بیٹھو۔ میں مسجد میں آ کر بیٹھ گیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد بیت الفکر کا دروازہ کھلا ۔ میں کیا دیکھتاہوں کہ حضور ایک کوری ہانڈی معہ کوری چپنی کے جس میں لسیّ تھی خود اٹھائے ہوئے درواز ہ سے نکلے، چپنی پر نمک تھا اور اس کے اوپر ایک گلاس رکھا ہوا تھا۔ حضورنے وہ ہانڈی میرے سامنے لا کر رکھ دی اور خود اپنے دست مبارک سے گلاس میں لسّی ڈالنے لگے میں نے خود گلاس پکڑ لیا ۔ اتنے میں چند اور دوست بھی آ گئے میں نے انہیں بھی لسّی پلائی اور خود بھی پی۔ پھر حضور خود وہ ہانڈی اور گلاس لے کر اندر تشریف لے گئے ۔ حضور کی اس شفقت اور نوازش کو دیکھ کر میرے ایمان کو بہت ترقی ہوئی اور یہ حضور کے اخلاق کریمانہ کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔
ڈاکٹر عبداللہ صاحب اِس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہیں اور یہ خود ان کا اپنا بیان ہے ۔ سادگی کے ساتھ اس واقعہ پر غور کرو کہ حضرت مسیح موعود کے کیریکٹر (سیرت) کے بہت سے پہلوؤں پر اس سے روشنی پڑتی ہے۔ آپ کی سادگی اور بے تکلفی کی ایک شان اس سے نمایاں ہے۔ اکرام ضیف کا پہلو واضح ہے ۔ اپنے احباب پر کسی بھی قسم کی برتری حکومت آپ کے قلب میں پائی نہیں جاتی۔ اور سب سے بڑھ کر جو پہلو اس مختصر سے واقعہ میں پایا جاتاہے وہ یہ ہے کہ آپ کو اپنے دوستوں جو آپ کے خادم کہلانے میں اپنی عزت و فخر یقین کرتے اور آپ کی کفش برداری اپنی سعادت سمجھتے ہیں کی تکلیف کا احساس از بس ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے پیدل چل کر آنے پر فوراً آپ کے قلب مطہر کواس تکلیف کا احساس ہوا جو عام طور پر ایک ایسے شخص کو جو پیدل چلنے کا عادی نہ ہو دس گیارہ میل کا سفر کرنے سے ہو سکتی ہے۔ غرض یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتاہے۔

مولوی علی احمد بھاگلپوری کا واقعہ

مولوی احمد علی صاحب ایم اے بھاگلپوری بیان کرتے ہیں کہ میں جب پہلی مرتبہ دارالامان میں فروری ۱۹۰۸ء میں آیا ۔ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ التحیۃ والسلا م کا وجود باجود ہم میں موجود تھا۔ یوں تو حضرت اقدس کی مہمان نوازی اور اکرام ضیف کے قصے زبان زد خاص و عام ہیں لیکن میں اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کرتاہوں جس سے معلوم ہوگا کہ علاوہ خلیل اللہ جیسی مہمان نوازی کے حضور کو اپنے ان خدام کے وابستگان کا جن کو اس دارفانی سے رحلت کئے ایک عرصہ گزر گیا تھا کتنا خیال تھا اور ان کی دلجوئی حضور فرماتے تھے ۔ میں جس دن یہاں پہنچا تو ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر مبلغ اسلام متعینہ نائجیریا نے حضور کو ایک رقعہ کے ذریعہ مجھ جیسے ہیچمریزآدمی کے آنے کی اطلاع کی اور اس میں اس تعلق کو بھی بیان کیا جو مجھے حضرت مولانا حسن علی صاحب واعظ اسلام رضی اللہ عنہ سے تھا جن کی وفات فروری ۱۸۹۶ء میں واقع ہوئی تھی۔ میں نے بچشم خود دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا کہ حضور نے مہمان خانہ کے مہتمموں کو بلا کر سخت تاکید میر ی راحت رسانی کی فرمائی۔ وہ بیچارے کچھ ایسے پریشان سے ہو گئے۔ میں نے انہیں یہ کہہ کر کہ میں یہاں آرام اٹھانے اور مہمان داری کرانے کے لئے نہیں آیا ہوں میں ا س مقصد کے حصول کی کوشش میں آیا ہوں جس کولے کر حضور مبعوث ہوئے ہیں ان کو مطمئن کیا۔

حضرت مولوی حسن علی صاحبؓ کا واقعہ اور اعتراف مہمان نوازی

حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری پہلے اسلامی مشنری تھے جنہوں نے ۱۸۸۶ء میں ایک سکو ل کی ہیڈماسٹری سے استعفیٰ دے کر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کااہم فریضہ اپنے ذمہ لیا۔ وہ ۱۸۸۷ء میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسہ پر تشریف لائے اور امرتسر میں بابو محکم الدین صاحب مختار عدالت اور دوسرے لوگوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر سنا ۔ اس وقت آپ نے کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا۔ اور نہ ابھی بیعت لیتے تھے البتہ براہین احمدیہ اور دوسری کتابیں شائع ہو چکی تھیں۔ اکثر نیک دل اور سلیم الفطرت لوگ آپ سے فیض پانے کے لئے قادیان بھی آتے رہتے تھے ۔ مولوی حسن علی صاحب مرحوم نے اپنے واقعہ کا خود اپنی قلم سے ذکر کیا جو ان کی کتاب تائید حق میں چھپاہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’جب میں امرتسر گیا تو ایک بزرگ کا نام سنا۔ جو مرزا غلا م احمد کہلاتے ہیں ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں قادیان نامی میں رہتے ہیں اور عیسائیوں ،برہمو اور آریہ سماج والوں سے خوب مقابلہ کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک کتاب براہین احمدیہ نام بنائی ہے جس کا بڑاشہرہ ہے ۔ ان کا بہت بڑا دعویٰ یہ ہے کہ ان کو الہام ہوتاہے۔ مجھ کویہ دعویٰ معلوم کر کے تعجب نہ ہوا۔ گو میں ابھی تک اس الہام سے محروم ہوں جو نبی کے بعد محدث کو ہوتا رہاہے لیکن میں اس بات کو بہت ہی عجیب نہیں سمجھتا تھا۔ مجھ کو معلوم تھا کہ علاوہ نبی کے بہت سے بندگان خدا ایسے گزرے ہیں جو شرف مکالمہ الٰہیہ سے ممتاز ہوا کئے ہیں۔ غرض میرے دل میں جنا ب مرزا غلام احمد صاحب سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ امرتسر کے دو ایک دوست میرے ساتھ چلنے کو مستعد ہوئے ۔ ریل پر سوار ہو کر بٹالہ پہنچا۔ ایک دن بٹالہ میں رہا پھر بٹالہ سے یکہ کی سواری ملتی ہے اس پر سوار ہو کر قادیان پہنچا ۔ مرزا صاحب مجھ سے بڑے تپاک اور محبت سے ملے۔ جناب مرزا صاحب کے مکان پر میرا وعظ ہوا ۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کے لئے چندہ بھی ہوا۔ میرے ساتھ جو صاحب تشریف لے گئے وہ مرزا صاحب کے دعویٰ الہام کی وجہ سے سخت مخالف تھے اور مرزا صاحب کو فریبی اور مکار سمجھتے تھے ۔ لیکن مرزا صاحب سے مل کر ان کے سارے خیالات بدل گئے اور میرے سامنے انہوں نے جناب مرزا صاحب سے اپنی سابق کی بدگمانی کے لئے معذرت کی، مرزا صاحب کی مہمان نوازی کو دیکھ کر مجھ کو بہت تعجب سا گزرا ۔ ایک چھوٹی سی بات لکھتاہوں جس سے سامعین ان کی مہمان نوازی کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ مجھ کو پان کھانے کی بری عادت تھی ۔ امرتسر میں تو مجھے پان ملا۔ لیکن بٹالہ میں مجھ کو کہیں پان نہ ملا ناچار الائچی وغیرہ کھا کر صبر کیا۔ میرے امرتسر کے دوست نے کما ل کیاکہ حضرت مرزا صاحب سے نہ معلوم کس وقت میری اس بری عادت کا تذکرہ کر دیا ۔ جناب مرزا صاحب نے گورداسپور ایک آدمی روانہ کیا دوسرے دن گیارہ بجے دن کے جب کھانا کھا چکا تو پان موجود پایا۔ سولہ کوس سے پان میرے لئے منگوایا گیا تھا‘‘۔(تائید حق صفحہ ۵۵،۵۶)
یہ واقعہ اس شخص نے بیان کیا ہے جو اسلامی جوش تبلیغ اور اپنی قربانی کے لحاظ سے بے غرض اور صاف گو تھا اور واقعہ اس زمانہ کا ہے جب کہ آپ کا کوئی دعویٰ مسیحیت یا مہدویت کا نہ تھا اور نہ آپ بیعت لیتے تھے۔ ایک مہمان کی ضرورت سے واقف ہو کر اس قدر تردد اور کوشش کہ سولہ کوس کے فاصلہ سے پان منگوا یا گیا۔
مہمان نوازی کے اس وصف نے اس شخص کو جو ہندوستان کے تمام حصوں میں پھرچکا تھا اور بڑے بڑے آدمیوں کے ہاں مہمان رہ چکا تھا ، حیران کر دیا۔ اس کی سعادت اور خوش قسمتی تھی کہ اسے سات سال بعد ۱۸۹۴ء میں پھر قادیان لائی اور اس کو حضرت اقدس کی غلامی کی عزت بخشی جس پر وہ ساری عزتوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گیا ۔ غرض یہ واقعہ بھی اپنی نوعیت میں ایک عجیب روشنی آپ کے وصف مہمان نوازی پر ڈالتاہے۔

حضرت میر حامد شاہ صاحبؓ کا ایک واقعہ

حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نے ایک واقعہ اپنی ذات کے متعلق تحریر فرمایا کہ :
’’ ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے اور ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اس عاجز نے حضور مرحوم و مغفور کی خدمت میں قادیان میں کچھ عرصہ قیام کے بعد رخصت حاصل کرنے کے واسطے عرض کیا ۔ حضور اندر تشریف رکھتے تھے اور چونکہ حضور کی رافت و رحمت بے پایاں نے خادموں کو اندر پیغام بھجوانے کاموقعہ دے رکھا تھا اس واسطے اس عاجز نے اجازت طلبی کے واسطے پیغام بھجوایا۔ حضور نے فرمایا کہ :
’وہ ٹھہریں ہم ابھی باہر آتے ہیں‘
یہ سن کر میں بیرونی میدان میں گول کمرہ کے ساتھ کی مشرقی گلی کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اور باقی احباب بھی یہ سن کر کہ حضور باہر تشریف لاتے ہیں پروانوں کی طرح ادھر ادھر سے اس شمع انوار الٰہی پر جمع ہونے کے لئے آ گئے۔ یہاں تک کہ سیدنا مولانا نورالدین صاحب بھی تشریف لے آئے اور احباب کی جماعت اکٹھی ہو گئی۔ ہم سب کچھ دیر انتظار میں خم بر سرراہ رہے کہ حضور اندر سے برآمد ہوئے ۔ خلاف معمول کیا دیکھتا ہوں کہ حضور کے ہاتھ میں دودھ کا بھرا ہوا لوٹا ہے اور گلاس شاید حضرت میاں صاحب کے ہاتھ میں ہے اور مصری رومال میں ہے۔ حضور گول کمرہ کی مشرقی گلی سے برآمد ہوتے ہی فرماتے ہیں کہ شاہ صاحب کہاں ہیں؟میں سامنے حاضر تھا فی الفور آگے بڑھا اور عرض کیا حضور حاضر ہوں۔ حضور کھڑے ہو گئے اور مجھ کو فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ میں اسی وقت زمین پر بیٹھ گیا۔ گلا س میں دودھ ڈالا گیا اور مصری ملائی گئی۔ مجھے اس وقت یہ یاد نہیں رہا کہ حضرت محمود نے میرے ہاتھ میں گلاس دودھ بھرا دیا یا خود حضور نے (میں اس واقعہ کا دیکھنے والا ہوں خود حضرت نے گلاس اپنے ہاتھ سے دیا اور میری آنکھ اب تک اس موثر نظارے کو دیکھتی ہے گویا وہ بڑا گلاس حضرت کے ہاتھ سے میر صاحب کو دیا جا رہا ہے۔ ایڈیٹر) مگر یہ ضرور ہے کہ حضرت محمود اس کرم فرمائی میں شریک تھے۔ (صورت یہ تھی کہ حضرت نے مصری گھول کر لوٹے میں ڈالی اور اس کو ہلایا اور گلاس میں دودھ ڈال کر اچھی طرح سے ہلایا۔ پھر حضرت گلاس میں ڈالتے اور گلاس حضرت محمود کے ہاتھ میں ہوتا۔ پھر حضرت گلاس لے کر میر صاحب کو دیتے ۔ بعض دوستوں نے خود یہ کام کرنا چاہا مگر حضرت نے فرمایا نہیں نہیں کچھ حرج نہیں۔ ایڈیٹر)۔ میں نے جب وہ گلاس پی لیا تو پھر دوسرا گلاس پر کر کے عنایت فرمایا گیا میں نے وہ بھی پی لیا ۔ گلاس بڑاتھا میرا پیٹ بھر گیا۔ پھر اسی طر ح تیسرا گلاس بھراگیا میں نے بہت شرمگین ہو کر عرض کیا کہ حضور اب تو پیٹ بھر گیاہے ۔ فرمایا اور پی لو ۔ میں نے وہ تیسرا گلاس بھی پی لیا۔ پھر حضور نے اپنی جیب خاص سے چھوٹی چھوٹی بسکٹیں نکالیں اور فرمایا کہ جیب میں ڈا ل لو راستہ میں اگر بھوک لگی تو یہ کھا نا ۔ میں نے وہ جیب میں ڈال لیں ۔ حضرت محمود لوٹا اور گلاس لے کر اندر تشریف لے گئے۔ اور حضور نے فرمایا کہ چلو آ پ کو چھوڑ آئیں۔ میں نے عرض کیا کہ حضور اب میں سوار ہو جاتاہوں اور چلا جاؤں گا حضور تکلیف نہ فرمائیں مگر اللہ رے کرم و رحم کہ حضور مجھ کو ساتھ لے کر روانہ ہو پڑے۔
باقی احباب جو موجود تھے ساتھ ہو لئے اور یہ پاک مجمع اسی طرح اپنے آقا مسیح موعود کی محبت میں اس عاجز کے ہمراہ روانہ ہوا۔ حضور حسب عادت مختلف تقاریر فرماتے ہوئے آگے آگے چلتے رہے یہاں تک کہ بہت دور نکل گئے ۔ تقریر فرماتے تھے اور آگے بڑھتے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت سیدناو مولانا مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ نے قریب آ کر مجھے کان میں فرمایا کہ:آگے ہو کر عرض کرو اور رخصت لو جب تک تم اجازت نہ مانگو گے حضور آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔ میں حسب ارشاد والا آگے بڑھا اور عرض کیا کہ حضور اب سوار ہوتاہوں حضور تشریف لے جائیں۔ اللہ اللہ ! کس لطف سے اور مسکراتے ہوئے فرمایا کہ :’’اچھا ہمارے سامنے سوار ہو جاؤ‘‘۔ میں یکہ میں بیٹھ گیااور سلام عرض کیا تو پھر حضور واپس ہوئے۔
مجھے یاد ہے کہ محمد شادی خان صاحب بھی اس وقت بٹالہ جانے کے واسطے میرے ساتھ سوار ہوئے تھے ۔ انہوں نے حضور کی اس کریمانہ عنایت خاص پر تعجب کیا اور دیر تک راستہ میں مجھ سے تذکرہ کرتے رہے اور ہم خوش ہو ہوکر آپ کے اخلاق کریمانہ کے ذکر سے مسرور ہوتے تھے ۔
’’اے خدا کے پیار ے اور محمد ؐکے دلارے مسیح موعود تجھ پر ہزاروں سلام ہوں کہ تو اپنے خادموں کے ساتھ کیسامہربان تھا۔ تیری محبت ہمارے ایمانوں کے لئے اکسیر تھی ۔ جس سے ہمارے مس خام کو کندن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ تیرے اخلاق کریمانہ اب بھی یاد آ آ کر خدا تعالیٰ کے حضور میں ہمارے قرب کا موجب ہو رہے ہیں‘‘۔
حضرت میر حامد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ خودراقم الحروف کی آنکھوں کے سامنے گزرا ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے بہت سے واقعات کا عینی شاہد اللہ کے فضل سے ہے۔ اس واقعہ کو پیش کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی اور سیرت کے میں صر ف اس اسوہ ہی کو پیش نہیں کر رہا ہوں جو مہمان نوازی، اکرام ضیف اور مشایعت مہمان کے پہلوؤں پر حاوی ہے بلکہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضور کو اپنا کام آپ کرنے میں قطعاً تامل نہ ہوتا تھا اور معاً یہ واقعہ آپ کی صداقت کی بھی ایک زبردست دلیل ہے ۔ اگر تکلف اور تصنع کو آپ کے اخلاق کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا تو آپ اپنے مخلص اور جانثار مریدوں کے درمیان اس طرح پرکھڑے ہو کر اپنے ایک خادم کو دودھ نہ پلاتے جیسے ایک خادم اپنے آقا کو پلاتاہے ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ محبت اور ہمدردی مخلوق کے اس مقام پر کھڑا تھا جہاں انسان باپ سے بھی زیادہ مہربان اور شفیق ہوتا ہے ۔ وہ اپنے خادموں کو غلام نہیں بلکہ اپنے معزز اور شریف بھائی سمجھتا تھا۔ ان کے اکرام و احترام سے وہ سبق دیتا تھا کہ ہم کوکس طرح پر اپنے بھائیوں سے سلوک کرنا چاہئے اور کس طرح ایک دوسرے سے احترام کے اصول پر کاربند ہو کر اس حقیقی عزت و احترام کا دائرہ وسیع کرنا چاہئے جو مومنین کا خاصہ ہے۔
کیا دنیا کے پیروں اور مرشدوں میں اس کی نظیر پائی جاتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہاں یہ نظیر اگر ملے گی تو اس جماعت میں جو انبیاء علیہم السلام کی جماعت ہے اور یاان لوگوں میں ملے گی جنہوں نے منہاج نبوت پر خدا تعالیٰ کی تجلیوں اور فیوض کوحاصل کیاہے۔

منشی عبدالحق نو مسلم کاواقعہ

منشی عبدالحق بی اے جو مولوی چراغ الدین صاحب قصوری مدرس مشن سکول لاہور کے فرزند رشید ہیں اور ایک زمانہ میں عیسائی ہو گئے تھے اور لاہورمشن کالج میں بی اے کلاس میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے الحکم اور حضرت اقدس کی بعض تحریروں کو پڑھ کر حضرت اقدس کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا تھاکہ وہ اسلام کی حقانیت اور صداقت کوعملی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس پر حضرت خلیفۃ اللہ نے ان کو لکھ بھیجا تھا کہ وہ کم از کم دوماہ کے لئے قادیان آ جائیں ۔ چنانچہ وہ ۲۳؍دسمبر ۱۹۰۱ء کو بعد دوپہر قادیان پہنچے۔ حضرت اقدس کی طبیعت ان ایام میں ناساز تھی مگر باوجود ناسازی مزاج کے آپ دوسرے مہمانوں اور اس حق جوُمہمان کے لئے باہر تشریف لے آئے اور سیر کو تشریف لے گئے۔ اور تمام راستہ میں آتی اور جاتی دفعہ برابر تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس تبلیغ کا نتیجہ تو آخر میں یہ ہواکہ یہ نوجوان مسلمان ہوگیا او ر برہان الحق ایک رسالہ بھی تالیف کیا اور بھی چھوٹے چھوٹے رسالے لکھے ۔ مگر میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کر رہاہوں وہ یہ ہے کہ باوجود ناسازی طبیعت آپ مہمان نوازی کے اعلیٰ مقام پر ہونے کے باعث باہر تشریف لائے اور یہ دیکھ کر کہ وقت کو غنیمت سمجھناچاہئے آپ نے پوری تبلیغ فرمائی اور آخر میں منشی عبدالحق صاحب کو فرمایا :
’’آپ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان وہی آرام پا سکتا ہے جو بے تکلف ہو پس آپ کو چاہئے کہ جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بلا تکلف کہہ دیں‘‘۔
پھر جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ:
’’دیکھو یہ ہمارے مہمان ہیں اور تم میں سے ہر ایک کو مناسب ہے کہ ان سے پورے اخلاق سے پیش آوے اور کوشش کرتا رہے کہ ا ن کوکسی قسم کی تکلیف نہ ہو ‘‘۔(اخبار الحکم ،۳۱؍جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ ۳،۴)
منشی عبدالحق صاحب پر تو جو اثر حضرت کی تبلیغ کا ہوا اس کو آپ کے اس خُلقِ مہمان نوازی نے اور بھی قوی کر دیا اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے منشی صاحب مسلمان ہو گئے ۔ اور اب تک مسلمان ہیں۔ انہوں نے میاں سراج الدین صاحب بی اے کابھی ذکر کیا ۔( یہ وہی سراج الدین ہے جس کے نام پر سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب شائع ہوا ہے)۔ اس نے حضرت اقدس کی اعلیٰ درجہ کی اخلاقی خوبی کو خدا جانے کس آنکھ سے دیکھا ۔ جب وہ یہاں سے گیا ہے تو حضرت اقدس اس کو چھوڑنے کے لئے تین میل تک چلے گئے تھے ۔اس کا ذکر اس نے منشی عبدالحق سے ان الفاظ میں کیا:
’’جب میں آیا تھا تو وہ تین میل تک مجھے چھوڑنے آئے تھے ‘‘۔
میں اس موقع پر سلیم الفطرت قلوب سے اپیل کروں گا کہ وہ غور کریں ۔ حضرت مسیح موعود ایک شخص کو (جو عیسائی ہو گیا تھا اور اس کے رشتہ دار وغیرہ اسے قادیان اس غرض سے لائے تھے کہ اسے کچھ فائدہ پہنچے۔ چونکہ وہ دراصل اپنے بعض مقاصد کو لے کر عیسائی ہوگیاتھا اس لئے کچھ فائدہ نہ اٹھا سکا) چھوڑنے جا رہے ہیں۔ کیا یہ کسی ذاتی غرض و مقصد کا نتیجہ ہے یا محض شفقت اور ہمدردی لئے جارہی تھی۔ آپ کی فطرت میں یہ جوش تھا کہ کسی نہ کسی طرح یہ روح بچ جاوے اور اس وقت اور موقع کو غنیمت سمجھ کر آ پ نے اکرام ضیف بھی کیا اور تبلیغ بھی کی مگر وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔
الغرض منشی عبدالحق صاحب جب تک یہاں رہے حضرت کی مہمان نوازی کے معترف رہے اور اس کا ان کے قلب پر خاص اثر تھا۔ میں نے ان ایام میں دیکھا کہ حضرت قریباً روزانہ منشی عبدالحق کو سیر سے واپس لوٹتے وقت یہ فرماتے کہ :
’’آپ مہمان ہیں ، آپ کو جس چیز کی تکلیف ہو مجھے بے تکلف کہیں کیونکہ میں تو اندر رہتاہوں اور نہیں معلوم ہوتاکہ کس کو کیاضرورت ہے۔ آج کل مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے بعض اوقات خادم بھی غفلت کر سکتے ہیں ۔ آپ اگر زبانی کہنا پسند نہ کریں تو مجھے لکھ کر بھیج دیا کریں۔ مہمان نوازی تو میرا فرض ہے‘‘۔(اخبار الحکم ،۷؍فروری ۱۹۰۲ء صفحہ ۵)

ایک ہندو سادھو کی تواضع

اکتوبر ۱۹۰۲ء میں ایک ہندوسادھو کوٹ کپورہ سے آیا اور حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ مسلمانوں کے لئے تو خاص تردد اور تکلیف نہیں ہو سکتی کیونکہ لنگر جاری تھا اور جاری ہے وہاں انتظام ہر وقت رہتاہے لیکن ایک ہندو مہمان کے لئے خصوصیت سے انتظام کرنا پڑتا ہے اور چونکہ وہ انتظام دوسروں کے ہاں کرانا ہوتا ہے اس لئے مشکلات ظاہر ہیں تاہم حضرت اقدس ہمیشہ ایسے موقعہ پر بھی پورا التزام مہمان نوازی کا فرماتے تھے ۔ ۶؍اکتوبر کی شام کو اس نے حضرت اقدس سے ملاقات کی ۔ آپ ؑ نے نہایت شفقت سے فرمایا کہ :
’’ یہ ہمارا مہمان ہے اس کے کھانے کا انتظام بہت جلد کر دینا چاہئے۔ ایک شخص کو خاص طورپر حکم دیا کہ ایک ہندو کے گھر اس کے لئے بندوبست کیا جاوے‘‘۔
چنانچہ فوراً یہ انتظام ہو گیا۔ آپ کے دسترخوان پر دوست دشمن کی کوئی خاص تمیز نہ تھی ۔ ہر شخص کے ساتھ جو آپ کے یہا ں مہمان آ جاتا آ پ پورے احترام اور فیاضی سے برتاؤ کرتے تھے۔ اور اکثرفرمایا کرتے تھے کہ مہمان کا دل شیشے سے بھی نازک ہوتاہے اس لئے بہت رعایت اور توجہ کی ضرورت ہے اور باربار لنگر خانہ کے خدام کو خود تاکید فرمایا کرتے تھے ۔ اور محض اسی خیال سے کہ مہمانوں کو کوئی تکلیف نہ ہو آپ نے اپنی حیات میں لنگر خانہ کا انتظام اپنے ہاتھ میں رکھا تاکہ بعض ضوابط اور قواعد کی پابندیاں کسی کے لئے تکلیف کا موجب نہ ہو جائیں۔ اور آپ کا یہ بھی معمول تھا کہ آپ ہرمہمان کے متعلق اس امر کا بھی التزام رکھتے تھے کہ وہ کس قسم کی عادات کھانے کے متعلق رکھتاہے ۔ مثلاً اگر حیدرآباد یاکشمیر سے کوئی مہمان آتا تو آپ اس کے کھانے میں چاول کا خاص طور پر التزام فرماتے کیونکہ وہاں کی عام غذا چاول ہے ۔ اور اس امر کی خاص تاکید کی جاتی اور کوشش یہ رہتی تھی کہ مہمان اپنے آپ کو اجنبی نہ سمجھے بلکہ وہ یہی سمجھے کہ اپنے گھر میں ہے ۔
حضرت اقدس کے معمولات میں یہ بات بھی تھی کہ جب وہ مہمانوں کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھتے تو ہمیشہ سب مہمانوں کے کھا چکنے کے بعد بھی بہت دیر تک کھاتے رہتے اور غرض یہ ہوتی تھی کہ کوئی شخص حجاب نہ کرے اور بھوکا نہ رہے اس لئے آپ بہت دیر تک کھانا کھاتے رہتے ۔ اگرچہ آپ کی خوراک بہت ہی کم تھی غرض آپ کی مہمان نوازی عدیم المثال تھی اور آپ کا دسترخوان بہت وسیع تھا۔

مولانا ابوالکلام آزاد کے بڑے بھائی ابونصر آہ مرحوم کاواقعہ

مولوی ابوالکلام آزاد (جو آج کل مسلمانوں کے سیاسی لیڈروں میں مشہورہیں) کے بڑے بھائی مولوی ابونصر آہ مرحوم ۳؍مئی ۱۹۰۵ء کو قادیان تشریف لائے تھے اور اخلاص و محبت سے آئے تھے ۔ حضرت اقدس نے ان سے خطاب کر کے ایک مختصر سی تقریر کی تھی۔ انہوں نے قادیان سے جانے کے بعد امرتسر کے اخبار وکیل میں اپنے سفر قادیان کاحال شائع کیاتھا۔
اگرچہ اس میں بعض دوسری باتوں کا بھی ذکر ہے اور اگر میں صرف اس حصہ کو یہاں درج کر دیتا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی پر روشنی ڈالتاہے تو اس بات کے موضوع کے لحاظ سے مناسب تھا مگر اس مضمون کے ناتمام چھاپنے سے وہ اثر جوبھیئت مجموعی پڑتا ہے کم ہو جاتا ہے اس لئے میں ان خیالات کو پورا درج کر دیتاہوں۔ وہ فرماتے ہیں:
’’میں نے اورکیا دیکھا؟ قادیان دیکھا۔ مرزا صاحب سے ملاقات کی ، مہما ن رہا ۔ مرزا صاحب کے اخلاق اور توجہ کا مجھے شکریہ ادا کرناچاہئے۔ میرے منہ میں حرارت کی وجہ سے چھالے پڑ گئے تھے اور میں شور غذائیں کھا نہیں سکتا تھا۔ مرزا صاحب نے (جب کہ دفعتاً گھر سے باہر تشریف لے آئے تھے ) دودھ اور پاؤ روٹی تجویز فرمائی ‘‘۔
’’آج کل مرزا صاحب قادیان سے باہر ایک وسیع اور مناسب باغ (جو خود ان ہی کی ملکیت ہے) میں قیام پذیر ہیں ۔ بزرگان ملت بھی وہیں ہیں۔قادیان کی آبادی قریباً تین ہزار آدمیوں کی ہے ۔ مگر رونق اور چہل پہل بہت ہے ۔ نواب صاحب مالیر کوٹلہ کی شاندار اور بلند عمارت تمام بستی میں صرف ایک ہی عمارت ہے ۔ راستے کچے اور ناہموار ہیں بالخصوص وہ سڑک جو بٹالہ سے قادیان تک آتی ہے۔ یکہ میں مجھے جس قدر تکلیف ہوئی تھی نواب صاحب کے رتھ نے لوٹنے کے وقت نصف کی تخفیف کر دی‘‘۔
’’اگر مرزا صاحب کی ملاقات کا اشتیاق میرے دل میں موجزن نہ ہوتا تو شاید آٹھ میل تو کیا آٹھ قدم بھی میں آگے نہ بڑھ سکتا‘‘ ۔
اکرا م ضیف کی صفت خا ص اشخاص تک محدود نہ تھی ۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا ساسلوک کیا۔ اور مولانا حاجی حکیم نورالدین صاحب جن کے اسم گرامی سے تمام انڈیا واقف ہے اور مولانا عبدالکریم صاحب جن کی تقریر کی پنجاب میں دھو م ہے ۔ مولوی مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر بدر جن کی تحریروں سے کتنے انگریز یورپ میں مسلمان ہو گئے ہیں۔ جناب میر ناصر نواب صاحب دہلوی جو مرزا صاحب کے خسر ہیں۔ مولوی محمد علی صاحب ایم ۔ اے ۔ ایل ۔ایل۔ بی ، ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز ، مولوی یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر الحکم ۔ جناب شاہ سراج الحق صاحب وغیرہ وغیرہ پرلے درجہ کی شفقت اور نہایت محبت سے پیش آئے ۔افسوس کہ مجھے اور اشخاص کا نام یاد نہیں ورنہ میں ان کی مہربانیوں کا بھی شکر یہ ادا کرتا۔ مرزا صاحب کی صورت نہایت شاندارہے جس کا اثر بہت قوی ہوتاہے ۔آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے ۔ طبیعت منکسر مگر حکومت خیز۔ مزاج ٹھنڈا مگر دلوں کو گرما دینے والا اور بردباری کی شان نے انکساری کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیاہے۔ گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے گویا متبسم ہیں رنگ گورا ہے بالوں کوحنا کا رنگ دیتے ہیں ۔جسم مضبوط اور محنتی ہے سر پرپنجابی وضع کی سپید پگڑی باندھتے ہیں۔ سیاہ یا خاکی لمبا کوٹ زیب تن فرماتے ہیں پاؤں میں جراب اور دیسی جوتی ہوتی ہے ۔ عمر قریباً چھیاسٹھ سال کی ہے‘‘۔
’’مرزا صاحب کے مریدوں میں میں نے بڑی عقیدت دیکھی اور انہیں بہت خوش اعتقاد پایا۔ میری موجودگی میں بہت سے معزز مہمان آئے ہوئے تھے جن کی ارادت بڑے پایہ کی تھی۔ اور بے حد عقیدت مند تھے ‘‘۔
’’مرزا صاحب کی وسیع الاخلاقی کا یہ ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثنائے قیام کی متواتر نوازشوں کے خاتمہ پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقعہ دیا۔’’ہم آپ کو اس وعدہ پر اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھرآئیں اور کم از کم دوہفتہ قیام کریں‘‘۔ (اس وقت کا تبسم ناک چہرہ اب تک میری آنکھوں میں ہے)۔
’’میں جس شوق کو لے کر گیا تھا ساتھ لایا۔ اور شاید وہی شوق مجھے دوبارہ لے جائے واقعی قادیان نے اس جملہ کو اچھی طرح سمجھا ہے حسن خُلقکَ وَلَو مَعَ الکُفٖار۔۔۔ میں نے اور کیا دیکھا بہت کچھ دیکھا مگر قلم بند کرنے کا موقع نہیں سٹیشن جانے کا وقت سر پر آ چلا ہے پھر کبھی بتاؤں گا کہ میں نے کیا دیکھا ۔راقم آہ دہلوی‘‘۔( الحکم ۲۴؍ مئی۱۹۰۵ء صفحہ ۱۰)
افسوس ہے کہ مولانا ابونصر آہ کو موت نے فرصت نہ دی ورنہ وہ دوبارہ قادیان میں آتے اور ضرور آتے اور جو وعدہ کر کے یہاں سے گئے تھے اسے پورا کرتے ۔ سلسلہ کے لئے ایک محبت اور اخلاص کی آگ ان کے سینہ میں سلگ چکی تھی اور ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کے اس اخلاص کا نیک بدلہ انہیں دے گا۔ مولانا ابونصر کی یہ تحریر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے شمائل و اخلاق کا ایک مختصر سا مرقع ہے۔

خاکسار مؤلف کا اپنا واقعہ

میں پہلی مرتبہ ۱۸۹۳ء کے مارچ مہینے کے اواخر میں قادیان آیا۔ راستہ سے ناواقف تھا اور بٹالہ گاڑی شام کے قریب آتی تھی۔ دن تھوڑا ساباقی تھا۔ میرے پاس کچھ سامان سبزی وغیرہ قسم کا تھا۔ مجھے یکہ کوئی نہ ملا۔ میں نے ایک مزدور جو بٹالہ میں جوتوں کی مرمت کیا کرتا تھا ساتھ لیا ۔ وہ بڈھا آدمی تھا اور اس کا گھر دوانی وال تھا۔راستہ میں جب وہ اپنے گاؤں کے قریب پہنچا تو اس نے کہا کہ میں گھر سے ہو آؤں اور گھر والوں کو اطلاع دے آؤں کہ قادیان جاتاہوں۔ اسے گھر میں اچھی خاصی دیر ہو گئی اور آفتاب غروب ہو گیا۔ میں نے بٹالہ میں راستہ کی کچھ تفصیلات معلوم کی تھیں کہ نہر آئے گی اس سے آگے ایک چھوٹی سے پُلی آئے گی وہاں سے قادیان کو راستہ جاتاہے۔ رات اندھیری تھی ہم دونوں چلے آئے مگر وہ بھی راستہ سے پورا واقف نہ تھا ۔ نہر پہنچے تو چونکہ نہر بند تھی ہمیں کچھ معلوم نہ ہواکہ نہر آ گئی ہے اور اس لئے آگے جو نشان بتایا گیا تھا اس کا بھی پتہ نہ لگا۔ اور ہم ہرچووال کی نہر پر جا پہنچے مگر سفر کی طوالت وقت کے زیادہ گزرنے سے معلوم ہوئی تھی گو شوق کی وجہ سے کچھ تکان نہ تھی۔ میں نے ا س بڈھے مزدور سے کہا کہ تم کہتے تھے میں راستہ سے واقف ہوں اور ہم کو بٹالہ سے چلے ہوئے بہت عرصہ ہو گیا ابھی تک وہ موڑ نہیں آتا یہ کیا بات ہے؟ اس نے کہاکچھ پتہ نہیں۔ الغرض جب ہم ہرچووال پہنچے تو جا کر معلوم ہوا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں۔ اتفاقاً وہاں ایک آدمی مل گیا اور اس نے ہم کو ہماری غلطی پر آگاہ کیا۔ اور ہم واپس ہوئے اور لیل کلاں کے قریب آ کر پھر بھولے مگر اس وقت دو تین آدمی لیل سے باہر نکل کر باہر جارہے تھے کہ انہوں نے ہم کو سیدھے راستہ پر ڈال دیا۔
اس پریشانی میں اس رفیق سفر پر بہت غصہ آتا تھا مگراس کا نتیجہ کچھ نہ تھا۔ آخر اس راستہ پر جو لیل سے قادیان کو آتا ہے ہم قادیان کے باغ کے قریب پہنچے۔ باغ کے پاس آئے تو آگے پانی تھا ۔ باغ کی طرف سے ہم نے آوازدی تو ایک شخص نے کہا چلے آؤ پانی پایاب ہے۔ غرض وہاں سے گزر کر مہمان خانہ پہنچے۔ رمضان کا آغاز تھا او ر لوگ اس وقت اٹھ رہے تھے مہمان خانہ کی کائنات صر ف دو کوٹھریاں ایک دالان تھا جو مطب والا ہے۔ باقی موجودہ مہمان خانہ تک پلیٹ فارم ہی تھا۔ حضرت حافظ حامد علی مرحوم کو خبر ہوئی کہ کوئی مہمان آیاہے۔ اس وقت مہمان خانہ کے مہتمم کہو، داروغہ کہو، خادم سمجھو سب کچھ وہی تھے۔ میرے وہ واقف وآشنا تھے۔جب وہ آ کر ملے تو محبت اور پیار سے انہوں نے مصافحہ اور معانقہ کیا اور حیرت سے پوچھا کہ اس وقت کہاں سے۔ میں نے جب واقعات بیان کئے تو بیچارے بہت حیران ہوئے ۔ میں نے وہ سبزی وغیرہ ان کے حوالے کی وہ لے کر اسی وقت اندر گئے ۔ اور حضرت صاحب کو اطلاع کی ۔ میرا خیال ہے کہ تین بجے کے قریب قریب وقت تھا ۔ حضرت صاحب نے اسی وقت مجھے گول کمرہ میں بلا لیا۔ اوروہاں پہنچنے تک پرتکلف کھانا بھی موجود تھا۔ میں اس ساعت کو اپنی عمر میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ کس محبت اور شفقت سے باربار فرماتے تھے آپ کو بڑی تکلیف ہوئی ۔ میں عرض کرتا رہا نہیں حضور تکلیف تو کوئی نہیں ہوئی معلوم بھی نہیں ہوا۔ مگر آپ بار بار فرماتے ہیں راستہ بھول جانے کی پریشانی بہت ہوتی ہے۔ اور کھانا کھانے کے لئے تاکید فرمانے لگے۔ مجھے شرم آتی تھی کہ آپ کے حضور کس طرح کھاؤں میں نے تامّل کیا مگر آپ نے خود اپنے دست مبارک سے کھانا آگے کر کے فرمایا کہ کھاؤ ، بہت بھوک لگی ہوگی۔سفر میں تکان ہو جاتا ہے۔ آخر میں نے کھانا شروع کیا تو پھر فرمانے لگے کہ خوب سیر ہو کر کھاؤ شرم نہ کرو ۔ سفر کر کے آئے ہو۔
حضرت حامد علی صاحب بھی پاس ہی بیٹھے تھے اور آپ بھی تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ حضور آ پ آرام فرمائیں میں اب کھا لوں گا۔ حضرت اقدس نے اس وقت محسوس کیا کہ میں آپ کی موجودگی میں تکلف نہ کروں ۔ فرمایا ’’اچھا حامد علی تم اچھی طرح سے کھلاؤ اور یہاں ہی ان کے لئے بستر بچھا دو تا کہ یہ آرام کر لیں اور اچھی طرح سے سو جائیں‘‘۔ آ پ تشریف لے گئے مگر تھوڑی دیر بعد ایک بسترا لئے ہوئے پھر تشریف لے آئے ۔ میر ی حالت اس وقت عجیب تھی ایک طرف تو میں آپ کے اس سلوک پر نادم ہو رہا تھا کہ ایک واجب الاحترام ہستی اپنے ادنیٰ غلام کے لئے کس مدارات میں مصروف ہے ۔ میں نے عذر کیا کہ حضور کیوں تکلیف فرمائی ۔فرمایا ’’نہیں نہیں تکلیف کس بات کی آپ کو آج بہت تکلیف ہوئی ہے اچھی طرح آرام کر و‘‘۔
غرض آپ بسترا رکھ کر تشریف لے گئے اور حافظ حامد علی صاحب میرے پاس بیٹھے رہے ۔ انہوں نے محبت سے کھانا کھلایا اور بسترا بچھا دیا۔ میں لیٹ گیا تو مرحوم حافظ حامد علی نے میری چاپی کرنی چاہی تو میں نے بہت ہی عذر کیا تو وہ رکے مگر مجھے کہاکہ حضرت صاحب نے مجھے فرمایا تھا کہ ذرا دبا دینا بہت تھکے ہونگے ۔ ان کی یہ بات سنتے ہی میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل گئے کہ اللہ ! اللہ! کس شفقت اور محبت کے جذبات اس دل میں ہیں ۔ اپنے خادموں کے لئے وہ کس درد کا احساس رکھتا ہے۔فجر کی نماز کے بعد جب آپ تشریف فرما ہوئے تو پھر دریافت فرمایا کہ نیند اچھی طرح آگئی تھی ۔ اب تکان تونہیں۔غرض اس طرح پر اظہار شفقت فرمایا کہ مجھے مدت العمر یہ لطف اور سرو ر نہ بھولے گا۔ میں چند روز تک رہا اور ہر روز آپ کے لطف و کرم کو زیادہ محسوس کرتا تھا۔ جانے کے لئے اجازت چاہی تو فرمایا نوکر ی پر تو جانا نہیں اور دو چار روز رہو میں پھر ٹھہر گیا ۔ آخر آپ کی محبت و کرم فرمائی کے جذبات کا ایک خاص اثر لے کر گیا اور وہ کشش تھی کہ مجھے ملازمت چھڑا کر یہاں لائی اور پھر خدا تعالیٰ نے اپنا فضل کیا کہ مجھے اس آستانہ پر دھونی رما کر بیٹھ جانے کی توفیق عطا فرمائی۔ والحمدللہ علی ذالک۔
میں نے مختصراً اس واقعہ کو صاف اور سادہ الفاظ میں بیان کر دیا ہے ۔ میں اس وقت ایک غریب طالب علم تھا اور کسی حیثیت سے کوئی معروف درجہ نہ رکھتا تھا۔مگر حضرت اقدس کی مہما ن نوازی اور وسعت اخلاق سب کے لئے یکساں تھی۔ وہ ہر آنے والے کو سمجھتے تھے کہ یہ خدا کے مہمان ہیں۔ ان کی آسائش ، تالیف قلوب اور ہمدردی میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھتے تھے آپ کی پیاری پیاری باتوں اور آرام دہ برتاؤ کو دیکھ کر گھر بھی بھول جاتا تھا۔ ہر ملاقات میں پہلے سے زیادہ محبت اور شفقت کا اظہار پایا جاتا تھا۔ اور مخفی طور پر خادم مہمان خانہ کوہدایت ہوتی تھی کہ مہمانوں کے آرام کے لئے ہر طرح خیال رکھو۔ اور براہ راست انتظام اپنے ہاتھ میں اس لئے رکھا تھا کہ مہمانوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے پائے۔

میاں رحمت اللہ باغانوالہ کا واقعہ

میاں رحمت اللہ باغانوالہ سیکرٹری انجمن احمدیہ بنگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص خادموں میں سے ہیں اور بنگہ کی جماعت میں ان کے بعد خدا تعالیٰ نے بڑی برکت اور ترقی بخشی ۔ ۱۹۰۵ء میں جبکہ حضرت اقدس باغ میں تشریف فرما تھے ۔ میاں رحمت اللہ قادیان آئے ہوئے تھے اور وہ مہمان خانہ میں حسب معمول ٹھہرے ہوئے تھے ۔ میاں نجم الدین مرحوم لنگر خانہ کے داروغہ اور مہتمم تھے ۔ ان کی طبیعت کسی قدر اکھڑسی واقع ہوئی تھی۔ اگرچہ اخلاص میں وہ کسی سے کم نہ تھے۔ اور سلسلہ کی خدمت اور مہمانوں کے آرام کا اپنی طاقت اور سمجھ کے موافق بہت خیال رکھتے تھے۔ اور مجتہدانہ طبیعت پائی تھی۔ میاں رحمت اللہ صاحب نے کچھ تکلف سے کام لیا ۔ روٹی کچی ملی اور وہ بیمار ہو گئے ۔ مجھ کو خبر ہوئی میں نے ان سے وجہ دریافت کی تو بتایا کہ روٹی کچی تھی۔ اور تنور کی روٹی عام طور پر کھانے کی عاد ت نہیں مجھ ان کی تکلیف کااحساس ہوا۔ میری طبیعت بے دھڑک سی واقعہ ہوئی ہے ۔ میں سیدھا حضرت صاحب کے پاس گیا۔ اطلاع ہونے پر آ پ فوراً تشریف لے آئے ۔ اور باغ کی اس روش پر جومکان کے سامنے ہے ٹہلنے لگے ۔ اور دریافت فرمایا کہ میاں یعقوب علی کیابات ہے؟ میں نے واقعہ عرض کر کے کہا کہ حضور !یا تو مہمانوں کو سب لوگوں پر تقسیم کر دیاکرو اور یاپھر انتظام ہو کہ تکلیف نہ ہو۔ میں آج سمجھتاہوں اور اس احساس سے میرا دل بیٹھنے لگتا ہے۔ کہ میں نے خدا تعالیٰ کے مامور و مرسل کے حضور اس رنگ میں کیوں عرض کی؟ مگر اس رحم و کرم کے پیکر نے اس کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کی کہ میں نے کس رنگ میں بات کی ہے فرمایا ،’’آپ نے بہت ہی اچھا کیا کہ مجھ کو خبر دی میں ابھی گھر سے چپاتیاں پکوانے کا انتظام کردوں گا۔ اورمیاں نجم الدین کو بھی تاکید کرتاہوں اسے بلا کر میرے پاس لاؤ۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ اگر کسی مہمان کو تکلیف ہو تو فوراً مجھے بتاؤ۔ لنگر خانہ والے نہیں بتاتے اور ان کو پتہ بھی نہیں لگ سکتا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ میاں رحمت اللہ کہا ں ہیں؟ وہ زیادہ بیمار تو نہیں ہو گئے اگر وہ آ سکتے ہیں تو ان کو بھی یہاں لے آؤ۔
میں نے واپس آ کر میاں رحمت اللہ صاحب سے ذکر کیا ۔ وہ بیچارے بہت محجوب ہوئے کہ آپ نے کیوں حضرت کو تکلیف دی۔ میری طبیعت اب اچھی ہے۔ خیر میں ان کو حضرت کے پاس لے گیا اور میاں نجم الدین صاحب کی بھی حاضری ہوئی۔ حضرت نے میاں رحمت اللہ صاحب سے بہت عذر کیا کہ بڑی غلطی ہو گئی۔ آپ کو تکلف نہیں کرنا چاہئے تھے۔ میں باغ میں تھا ورنہ تکلیف نہ ہوتی۔ اب انشاء اللہ انتظام ہو گیاہے۔ جس قدرحضرت عذر اور دلجوئی کریں میں او ر میاں رحمت اللہ اندر ہی اندر نادم ہوں اور پھر جتنے دن وہ رہے حضرت نے روزانہ مجھ سے دریافت فرمایا کہ تکلیف تونہیں۔ میاں نجم الدین صاحب کو بھی بہت تاکید اور وعظ فرمایا کہ یہ خدا تعالیٰ کے مہمان ہیں یہ خداکے لئے آتے ہیں اور گھروں کا آرام چھوڑ کر آتے ہیں۔ اگر ان کی صحت ہی درست نہ رہے تو یہ اس غرض کو کیونکر حاصل کر سکیں گے جس کے لئے یہاں آتے ہیں۔ بہت کچھ ان کو سمجھایا اور وہ اپنے طریق کے موافق عذر کرتے رہے۔
میرا مطلب اس سے یہ دکھانا ہے کہ اگر کسی مہمان کو ذرا سی بھی تکلیف ہو تو آ پ فوراً بے قرار ہو جاتے تھے اور جب تک اس کو اطمینان اور آرام کی حالت میں نہ دیکھ لیں آ پ صبر نہ کرتے تھے ۔

مہمان نوازی پر اجمالی نظر

آپ کی مہما ن نوازی کے واقعات اور مثالیں اس کثر ت سے ہیں کہ اگر ان سب کو جمع کیا جاوے تو بجائے خود ایک مستقل کتاب ہو سکتی ہے اللہ تعالیٰ جس کو توفیق دے گاوہ اس خصوص میں ایسا ذخیرہ جمع کردیگا۔
آپ کی عام خصوصیات مہمان نوازی میں یہ تھیں کہ :
(۱)۔۔۔ آپ مہمان کے آنے سے بہت خوش ہوتے تھے اور آ پ کی انتہائی کوشش ہوتی تھی کہ مہمان کو ہر ممکن آرام پہنچے ۔ اور آپ نے خدام لنگر خانہ کو ہدایت کی ہوئی تھی کہ فوراً آ پ کو اطلاع دی جائے ۔ اور یہ بھی ہدایت تھی کہ جس ملک اور مذاق کا مہمان ہو اس کے کھانے پینے کے لئے اسی قسم کا کھانا تیار کیاجاوے۔مثلاً اگر کوئی مدراسی، بنگالی یا کشمیری آ گیاہے توان کے لئے چاول تیار ہوتے تھے۔ ایسے موقعہ پر فرمایا کرتے تھے کہ اگر ان کی صحت ہی درست نہ رہی تو وہ دین کیا سیکھیں گے ۔
ایک مرتبہ سید محمد رضوی صاحب وکیل ہائی کورٹ حیدرآباد دکن حیدرآباد سے ایک جماعت لے کر آئے ۔ سید صاحب ان ایام میں ایک خاص جوش اور اخلاص رکھتے تھے ۔ حیدرآبادی لوگ عموماً ترش سالن کھانے کے عادی ہوتے ہیں ۔آپ نے خاص طور پر حکم دیا کہ ان کے لئے مختلف قسم کے کھٹے سالن تیار ہواکریں تاکہ ان کو تکلیف نہ ہو۔ ایسا ہی سیٹھ اسماعیل آدم بمبئی سے آئے تو ان کے لئے بلاناغہ دونوں وقت پلاؤ اور مختلف قسم کے چاول تیار ہوتے تھے۔ کیونکہ وہ عموماً چاول کھانے کے عادی تھے ۔ مخدومی حضرت سیٹھ عبدالرحمان صاحب مدراسی رضی اللہ عنہ بھی ان ایام میں قادیان میں ہی تھے ۔ غرض آپ اس امر کا التزام کیاکرتے تھے کہ مہمانوں کو کسی قسم کی تکلیف کھانے پینے میں نہ ہو۔
(۲)۔۔۔ یہ امر بھی آپ کی مہمان نوازی کے عام اصولوں میں داخل تھا کہ جس وقت کوئی مہمان آتا تھا اسی وقت اس کے لئے موسم کے لحاظ سے چاء لسی یا شربت مہیاکرتے ۔ اور اس کے بعد کھانے کافوری انتظام ہوتا تھا اور اگر جلد تیار نہ ہو سکتا ہو یا موجود نہ ہو تو دودھ ڈبل روٹی یا اور نرم غذا فواکہات غرض کچھ نہ کچھ فوراً موجو د کیا جاتا۔ اور اس کے لئے کوئی انتظار آ پ روانہ رکھتے۔ بعض اوقات دریافت فرما لیتے اور بعض اوقات کھانا ہی موجود کرتے ۔ ایسے واقعات ایک دو نہیں سینکڑوں سے گزر کر ہزاروں تک ان کا نمبر پہنچتاہے۔
جناب قاضی امیر حسین صاحب بھیروی جو عرصہ دراز سے ہجرت کر کے قادیان بیٹھے ہوئے تھے ایک زمانہ میں امرتسر کے مدرسۃ المسلمین میں ملازم تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں امرتسر سے قادیان میں آیا اور حضرت صاحب کو اطلاع دی ۔ آپ فوراً تشریف لائے اور شیخ حامد علی صاحب کو بلاکر حکم دیا کہ قاضی صاحب کے لئے جلد چائے لاؤ۔ یہ ایک واقعہ نہیں علی العموم ایساہی ہوتا تھا۔
(۳)۔۔۔ آپ کی مہمان نوازی کی تیسری خصوصیت یہ تھی کہ آپ مہمان کے جلدی واپس جانے سے خوش نہ ہوتے تھے بلکہ آپ کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ وہ زیادہ دیر تک رہے ۔ تا کہ پورے طور پر اس کے سفر کا مقصد پورا ہو اور آپ کی دعوت کی تبلیغ ہو سکے۔ اس لئے جلد اجازت نہ دیتے تھے۔ بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ ابھی کچھ دن اور رہو آ پ کے جو پرانے خدام ہوتے تھے ان کے ساتھ خصوصیت سے یہی برتاؤ ہوتاتھا۔
ایک مرتبہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی یہاں آئے وہ ا ن دنوں میں مجسٹریٹی کے ریڈرتھے وہ ایک دو دن کے لئے یونہی موقع نکال کر آئے تھے مگر جب اجازت مانگیں تو یہی ہوتارہا کہ چلے جانا ابھی کون سی جلدی ہے اور اس طرح پران کو ایک لمبا عرصہ یہاں ہی رکھا۔
اصل بات یہ ہے کہ آپ دل سے یہی چاہتے تھے کہ احباب زیادہ دیر تک ٹھہریں ۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ہمیشہ حضرت کی اس سیرت سے کہ بہت چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے پاس رہیں ۔ یہ نتیجہ نکالا کرتا ہوں کہ یہ آپ کی صداقت کی بڑی بھاری دلیل ہے اور آپ کی روح کو کامل شعور ہے کہ آپ منجانب اللہ اور راست باز ہیں ۔ جھوٹا آدمی ایک دن میں گھبرا جاتاہے اور وہ دوسروں کو دھکے دے کر نکالتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اس کا پول کھل جائے۔
(۴)۔۔۔ آپ کی مہمان نوازی کی چوتھی خصوصیت یہ تھی کہ مہمان کے ساتھ تکلف کابرتاؤ نہیں ہوتاتھا۔ بلکہ آپ اس سے بالکل بے تکلفانہ برتاؤ کرتے تھے ۔ اور وہ یقین کرتا تھا کہ وہ اپنے عزیزوں اور غمگسار دوستوں میں ہے۔ اور اس طرح پر وہ تکلف کی تکلیف سے آزاد ہو جاتاتھا۔ حضرت خلیفہ نورالدین صاحب آف جموں (جو حضرت اقدس کے پرانے مخلصین میں سے ہیں اور جنہوں نے بعض اوقات سلسلہ کی خاص خدما ت کی ہیں جیسے قبر مسیح کی تحقیقات کے لئے انہوں نے کشمیر کا سفر کیا اور اپنے خرچ پر ایک عرصہ تک وہاں رہ کر تمام حالات کو دریافت کیا)۔ بیان کرتے ہیں کہ جن ایام میں حضرت مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ نواب صاحب کی درخواست پر مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے تھے میں قادیان آیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول تھاکہ مجھے دونوں وقت کھانے کے لئے اوپر بلا لیتے اور میں اور آپ دونوں ہی مل کر کھانا کھاتے ۔اور بعض اوقات گھنٹہ گھنٹہ ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھے رہتے او ر انوسینٹ ریکری ایشن (تفریح بے ضرر ) بھی ہوتی رہتی۔ ایک دن ایک چاء دانی چائے سے بھری ہوئی اٹھا لائے ۔ اور فرمایا کہ خلیفہ صاحب یہ تم نے پینی ہے یا میں نے ۔ خلیفہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ حضور اس کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا ہمارے گھر والوں پر حرام ہے اس سے اور بھی تعجب خلیفہ صاحب کو ہوا ۔ ان کو متعجب پا یا تو فرمایا یہ حرام طبی ہے شرعی نہیں۔ ان کی طبیعت اچھی نہیں اور چائے ان کے لئے مضر ہے۔ غرض یہ بظاہر ایک لطیفہ سمجھا جا سکتا ہے مگر آپ کی غرض اس واقعہ سے یہ بھی تھی کہ خلیفہ صاحب خوب سیر ہو کر پئیں کیونکہ گھر میں تو کسی نے چائے پینی نہ تھی اور حضرت کو یہ خیال تھا کہ خلیفہ صاحب بوجہ کشمیر میں رہنے کے چائے کے عادی سمجھے جاسکتے ہیں اور چائے بہت پیتے ہونگے۔ اس لئے آپ ان کی خاطر داری کے لئے بہت سی چائے بنوا کر لائے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ تم نے اورمیں نے ہی پینی ہے تا کہ ایک قسم کی مساوات کے خیال سے ان کو تکلف نہ رہے غرض مہمانوں میں کھانے پینے اور اپنی ضروریات کے متعلق بے تکلفی پیدا کر دیتے تھے تا کہ وہ اپنا گھر سمجھ کر آزادی اور آرام سے کھا پی لیں۔
اسی بے تکلفی پیدا کرنے کے لئے کبھی کبھی شہتوت بیدانہ کے ایام میں باغ میں جاکر ٹوکرے بھروا کر منگواتے اور مہمانوں کو ساتھ لے کر خود بھی انہی ٹوکروں میں سے سب کے ساتھ کھاتے۔ آہ ! وہ ایام کیا مبارک اور پیارے تھے ۔ ا ن کی یاد آتی ہے تو تڑپا جاتی ہے۔
دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے

بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا جانئے کیا یاد آیا
سفر میں بھی جب کبھی ہوتے تو اپنے مہمانوں کا خاص خیال رکھتے ۔ جن ایام میں گورداسپور مقدمہ کی پیروی کے لئے گئے ہوئے تھے احباب کو معلوم ہے کہ کس طرح پر مہمانوں کی خاطر مدارات کا خیال رکھا جاتاتھا۔ آموں کے موسم میں آموں کے ٹوکرے منگوا کر اپنے خدام کے سامنے رکھتے۔
ایک مرتبہ خواجہ صاحب کے لئے آموں کا ایک بار خر خریدا گیا۔ احباب مذاق کرتے تھے کہ خواجہ صاحب آموں کا گدھا کھا گئے۔خواجہ صاحب کو کھانے پینے کا بہت شوق تھا اور حضرت اقدس ان کے احساسات کاخیال رکھتے تھے اس لئے ان کے لئے خاص طور پر اہتمام ہوتا ۔ اور خود خواجہ صاحب بھی شب دیگ وغیرہ پکاتے رہتے۔ میرا مطلب ا ن واقعات کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ اپنے مہمانوں اور خادموں کے ساتھ بے تکلفی کا برتاؤ کیا کرتے تھے۔ ایسا ہی حضرت مولوی شیر علی صاحب کی روایت ہے حضرت صاحبزادہ صاحب نے سیرت المہدی میں ایک واقعہ لکھاہے کہ مولوی صاحب اور چند اور آدمی جن میں خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب بھی تھے حضرت اقد س کی ملاقات کو اندر مکان میں حاضر ہوئے۔ آ پ نے خربوزے کھانے کو دئے۔ اور مولوی صاحب کوایک موٹا سا خربوزہ دیا اور فرمایا کہ اسے کھا کر دیکھیں کیساہے؟پھر آپ ہی مسکرا کر فرمایا کہ موٹا آدمی منافق ہوتاہے پھیکا ہی ہوگا۔ چنانچہ وہ پھیکا ہی نکلا۔ یہ لطیفہ بھی بے تکلفی کی ایک شان اپنے اندر رکھتاہے۔
(۵)۔۔۔ آپؑ کی مہمان نوازی کی ایک یہ بھی خصوصیت تھی کہ آپ مہمانوں کے آرام کے لئے نہ صرف ہر قسم کی قربانی کرتے تھے بلکہ ہر ممکن خدمت سے کبھی مضائقہ نہ فرماتے تھے۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنا ایک واقعہ بیان کیاہے اور اسے شائع کیا ہے کہ چار برس (۱۸۹۶ء کا غالباً واقعہ ہے کیونکہ ۱۹۰۰ء میں آپ نے یہ بیان شائع کیا تھا ۔ عرفانی) کا عرصہ گزرتا ہے کہ آپ کے گھر کے لوگ لودہانہ گئے ہوئے تھے ۔ جون کا مہینہ تھا مکان نیا نیا بناتھا۔ میں دوپہر کے وقت وہاں چارپائی بچھی ہوئی تھی اس پر لیٹ گیا۔ حضرت ٹہل رہے تھے ۔ میں ایک دفعہ جاگا تو آپ فرش پر میری چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے ۔ میں ادب سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا آپ نے بڑی محبت سے پوچھا ۔ آپ کیوں اٹھے ۔ میں نے عرض کیا کہ آپ نیچے لیٹے ہوئے ہیں میں اوپر کیسے سو رہوں۔ مسکرا کر فرمایا،’’میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا ۔ لڑکے شور کرتے تھے انہیں روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے‘‘۔ (’’سیرت مسیح موعود‘‘ مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب صفحہ ۴۱)
یہ محبت یہ دلسوزی اور خیر خواہی ماں باپ میں بھی کم پائی جاتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ ان لوگوں میں ہی ودیعت کی جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کی مخلوق کی ہدایت کے لئے مامور ہو کر آتے ہیں۔ اور اگریہ ہمدردی مخلوقِ الٰہی کے لئے ان کے دل میں نہ ہو تو وہ ان مشکلات کے پہاڑوں اور مصائب کے دریا ؤں سے نہ گزر سکیں جو تبلیغ حق کی راہ میں آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم ﷺ کی اس انتہائی دلسوزی اور غم خواری کا نقشہ قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان کیاہے:لَعَلٖکَ بَاخِعٌ نٖفْسَکَ اَلاٖ یَکُونُوا مُؤمِنِیْنَ۔ یعنی اس ہم و غم میں کہ لوگ کیوں خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتے اور صراط مستقیم کو اختیار کر کے اس مقصد زندگی کو پورا نہیں کرتے جس کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے تو اپنے آپ کو ہلاک کر دے گا۔ یہ جوش مخلوق کی ہدایت کے لئے اور ان کی ہمدردی کے لئے خاصۂ انبیاء علیہم السلام ہے۔
میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کی خصوصیات بیان کر رہا تھا اور اس میں حضرت مولوی عبدالکریم رضی اللہ عنہ کے متعلق ایک واقعہ بیان کیاہے کہ کس طرح پر آ پ ان کے آرام کے لئے ایک پہرہ دار کی طرح کام کرتے تھے۔
(۶)۔۔۔ چھٹی خصوصیت آپ کی مہمان نوازی کی یہ تھی کہ حفظ مراتب کی ہدایت کے ساتھ عام سلوک اور تعلقات میں آپ مساوات کے برتاؤ کو کبھی نہیں چھوڑتے تھے ۔ اس بات کا بے شک لحاظ ہوتاتھا کہ مہمانوں کو ان کے مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے اتارا جاتااور یہ حضرت نبی کریم ﷺ کے ارشاد کی تعمیل تھی۔ مگر خبرگیری اور مہمان نوازی کے عام معاملات میں کوئی امتیاز نہیں ہوتاتھا۔ ۱۹۰۵ء کے سالانہ جلسہ پرکھانے وغیرہ کا انتظام میرے سپرد تھا اور میر ی مددکے لئے اور چند دوست ساتھ تھے ہم نے مولوی غلام حسین صاحب پشاوری اور ان کے ہمراہیوں کے لئے خاص طور پر چند کھانوں کا انتظام کرنا چاہا۔ حضرت اقدس تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کیفیت طلب فرماتے تھے کہ کھانے کا کیاانتظام ہے،کس قدر تیار ہو گیا ، کس قدر باقی ہے ، کیا پکایاگیاہے اس سلسلہ میں یہ بھی میں نے عرض کیا کہ ان کے لئے خاص طورپر انتظام کر رہے ہیں ۔فرمایا کہ :
’’میرے لئے سب برابر ہیں اس موقع پر امتیاز اور تفریق نہیں ہو سکتی۔ سب کے لئے ایک ہی قسم کا کھاناہو نا چاہئے۔ یہاں کوئی چھوٹا بڑا نہیں۔ مولوی صاحب کے لئے الگ انتظام ا ن کی لڑکی کی طرف سے ہو سکتاہے اور وہ اس وقت میرے مہما ن ہیں اور سب مہمانوں کے ساتھ ہیں اس لئے سب کے لئے ایک ہی قسم کا کھانا تیار کیاجائے خبردار کوئی امتیاز کھانے میں نہ ہو‘‘۔
اور بھی بہت کچھ فرمایا اورغربائے جماعت کی خصوصیت سے تعریف کی اور فرمایا کہ :
’’جیسے ریل میں سب سے بڑی آمدنی تھرڈ کلاس والوں کی طرف سے ہوتی ہے اس سلسلہ کے اغراض و مقاصد کے پورا کرنے میں سب سے بڑا حصہ غرباء کے اموال کا ہے اور تقویٰ طہارت میں بھی یہی جماعت ترقی کر رہی ہے‘‘۔ غرض اس طرح نصیحت کی فَطُوبی لِلغُرَباء۔
آپ ہرگز عام برتاؤاور سلوک میں کوئی امتیاز نہیں رکھتے تھے گو منازل و مراتب مناسبہ کو بھی ہاتھ سے نہ دیتے تھے اور یہ حضرت نبی کریم ﷺ کے ارشاد کی تعمیل تھی۔
(۷)۔۔۔ ساتویں خصوصیت یہ تھی کہ آپ چاہتے تھے کہ ہمارے دوست خصوصاً کثرت سے آئیں اور بہت دیر تک ٹھہریں اگرچہ زیادہ دیر تک ٹھہرنا وہ سب کا پسند کرتے تھے ۔ غیروں کے لئے اس لئے کہ حق کھل جائے اور اپنوں کے لئے اس لئے کہ ترقی کریں۔ کثرت سے آنے جانے والوں کو ہمیشہ پسند فرمایا کرتے تھے۔ اس کی تہ میں جو غرض اور مقصود تھا و ہ یہی تھا کہ تا وہ اس مقصود کو حاصل کر لیں جس کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیاہے۔ حضرت مولاناعبدالکریم رضی اللہ عنہ نے آپ کی اس خصوصیت کے متعلق لکھا ہے کہ :
’’حضرت کبھی پسند نہیں کرتے تھے کہ خدام ان کے پاس سے جائیں۔ آنے پر بڑے خوش ہوتے ہیں اور جانے پر کرہ سے رخصت دیتے ہیں اور کثرت سے آنے جانے والوں کو بہت ہی پسند فرماتے ہیں ۔ اب کی دفعہ دسمبر میں (۱۸۹۹ء کاواقعہ ہے) بہت کم لوگ آئے اس پر بہت اظہار افسوس کیااور فرمایاہنوز لوگ ہمارے اغراض سے واقف نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں کہ وہ کیا بن جائیں ۔ و ہ غرض جو ہم چاہتے ہیں اورجس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے وہ پوری نہیں ہو سکتی جب تک لوگ یہاں باربار نہ آئیں اور آنے سے ذرا بھی نہ اکتائیں اور فرمایا جو شخص ایسا خیال کرتاہے کہ آنے میں اس پر بوجھ پڑتاہے یاایسا سمجھتاہے کہ یہاں ٹھہرنے میں ہم پر بوجھ ہوگااسے ڈرنا چاہئے کہ شرک میں مبتلا ہے۔ ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ اگر سارا جہان ہماراعیال ہو جاوے تو ہمارے مہمات کا متکفل خدا ہے ہم پر ذرا بھی بوجھ نہیں۔ ہمیں تو دوستوں کے وجود سے بڑی راحت پہنچتی ہے۔ یہ وسوسہ ہے جسے دلوں سے نکال دینا چاہئے۔ میں نے بعض کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہم یہاں بیٹھ کر کیوں حضرت کو تکلیف دیں۔ ہم تو نکمے ہیں یونہی بیٹھ کر روٹی کیوں توڑاکریں ۔ وہ یاد رکھیں یہ شیطانی وسوسہ ہے جو شیطان نے ان کے دلوں میں ڈالاہے کہ ان کے پیر یہاں جمنے نہ پائیں۔ ایک روز حکیم فضل الدین صاحب (رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا کہ حضور میں یہاں نکما بیٹھا کیا کرتاہوں مجھے حکم ہو تو بھیرہ چلا جاؤں وہاں درس قرآن ہی کروں گا۔ یہاں مجھے بڑی شرم آتی ہے کہ میں حضور کے کسی کام نہیں آتا اور شاید بیکار بیٹھنے میں کوئی معصیت ہو۔ فرمایا آ پ کایہاں بیکار بیٹھنا ہی جہادہے اور یہ بیکاری بڑا کام ہے ۔ غرض بڑے دردناک اور افسوس بھرے لفظوں میں نہ آنے والوں کی شکایت کی اور فرمایا یہ عذر کرنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہﷺ کے حضور میں عذر کیا تھااِنٖ بُیُوتَنَا عَورَۃٌ اور خدا تعالیٰ نے ان کی تکذیب کردی’’ اِنْ یُرِیدُونَ اِلاٖ فِرَارًا‘‘۔ (سیرت مسیح موعود مصنفہ حضرت مولانا عبدالکریم ؓ صفحہ ۴۹،۵۰)
غرض آپ کو اپنے خدام کے متعلق خصوصیت سے یہ خواہش رہتی تھی کہ آپ بہت باربار آئیں اور کثرت سے آئیں اور ان کے قیام کی وجہ سے جو کچھ بھی اخراجات ہوں ان کو برداشت کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے ۔
(۸)۔۔۔ آٹھویں خصوصیت یہ تھی کہ مہمان نوازی کے لئے دوست دشمن کا امتیاز نہ تھا بلکہ بریں خوان یغماچہ دشمن چہ دوست کا مضمون آ پ کے دسترخوان پر نظر آتاتھا۔ جیسا کہ میں نے آپ کے اخلاق عفو و درگزر میں دکھایا ہے کہ یہ خلق خادموں اور دوستوں تک محدود نہ تھا اسی طرح مہمان نوازی بھی وسیع اورعام تھی ۔ کسی خاص قوم اور فرقہ تک محدود نہ تھی۔ بلکہ ہندو، مخالف الرائے مسلمان،عیسائی یا کسے باشد جو بھی آ جاتا اس کے ساتھ اسی محبت سے پیش آتے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت المہدی میں بروایت مولوی عبداللہ صاحب سنوری لکھا ہے کہ :
’’حضرت مسیح موعود بیت الفکر میں (مسجد مبارک کے ساتھ والا حجرہ جو حضرت صاحب کے مکان کا حصہ ہے) لیٹے ہوئے تھے اور میں پاؤں دبا رہا تھا کہ حجرہ کی کھڑکی پر لالہ شرمپت یا شاید لالہ ملاوا مل نے دستک دی ۔ میں اٹھ کر کھڑکی کھولنے لگامگر حضرت صاحب نے بڑی جلد ی اٹھ کر تیزی سے جا کر مجھ سے پہلے زنجیر کھول دی اور پھراپنی جگہ بیٹھ گئے اور فرمایا آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہئے۔ (جلد اول صفحہ ۷۲)
اسی طرح ایک مرتبہ بیگووال ریاست کپورتھلہ کا ایک ساہوکار اپنے کسی عزیز کے علاج کے لئے آیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اطلاع ہوئی۔ آپ نے فوراً اس کے لئے نہایت اعلیٰ پیمانہ پر قیام و طعام کا انتظام فرمایا اور نہایت شفقت اور محبت کے ساتھ ان کی بیماری کے متعلق دریافت کرتے رہے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کو خاص طور پر تاکید فرمائی۔ اس سلسلہ میں آ پ نے یہ بھی ذکر کیا کہ سکھوں کے زمانہ میں ہمارے بزرگوں کو ایک مرتبہ بیگووال جانا پڑا تھا ۔اس گاؤں کے ہم پر حقوق ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی وہاں آ جاتا تو آ پ ان کے ساتھ خصوصاً بہت محبت کا برتاؤ فرماتے ۔
ایک دفعہ مولوی عبدالحکیم جو نصیر آبادی کہلاتا تھا قادیان میں آیا۔ یہ بہت مخالف تھا اور وہی مولوی تھا جس نے لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ۱۸۹۲ء میں مباحثہ کیا تھا اور اس مباحثہ کے کاغذات لے کر چلا گیاتھا ،وہ قادیان آیا۔ حضرت کو اطلاع ہوئی۔ حضرت نواب صاحب نے اپنا مکان قادیان میں بنوا لیاتھا اور وہ اس وقت کچا تھا اس کے ایک عمدہ کمرہ میں اس کو اتارا گیا اور ہر طرح اس کی خاطر تواضع کے لئے آپ نے حکم دیا اور یہ بھی ہدایت کی کہ کوئی شخص اس سے کوئی ایسی بات نہ کرے جو اس کی دلشکنی کا موجب ہو ۔ وہ چونکہ مخالف ہے اگر کوئی ایسی بات بھی کرے جو رنج دہ او ردل آزاری کی ہو تو صبر کیا جاوے۔ چنانچہ و ہ رہا ۔ میں اس مباحثہ میں جو لاہور فروری ۱۸۹۲ء میں ہواتھا موجود تھا اور مجھے معلوم تھاکہ اس مباحثہ کے کاغذات وہ لے گیاتھااور واپس نہ کئے تھے ۔میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ جناب مجھے آپ کی بڑ ی تلاش تھی آپ کے پاس مباحثہ کے پرچے ہیں ۔ مہربانی کر کے مجھے دے دیں۔ آ پ کے کام کے نہیں اور اگر اپنا پرچہ نہ بھی دیں تو حرج نہیں مگر حضرت اقدس والے پرچے ضرور دیدیں۔
مولوی عبدالحکیم صاحب کو خیال تھا کہ شاید اسے اور کوئی نہیں جانتا اور حضرت صاحب نے تو اس مباحثہ کا ذکر بھی نہیں فرمانا تھا کہ اسے ندامت نہ ہو بلکہ اخلاق و مروت کا اعلیٰ برتاؤ فرماتے رہے۔ مولوی صاحب بڑے جوش سے آئے تھے کہ میں مباحثہ کروں گا اور وہ اپنے مکان پرمخالفت کرتے تھے اور بڑے جوش سے کرتے تھے ۔ ہم ان کی مخالفت کو سنتے اور جیسا کہ حکم تھا نہایت ادب اور محبت سے ان کی تواضع کرتے رہے آخر جب ان سے میں نے مباحثہ لاہور کے پرچے مانگے تو اس کے بعد وہ بہت جلد تشریف لے گئے اور وعدہ کر گئے کہ جاتے ہی بھیج دوں گا۔ ان کے ساتھ ہی وہ مباحثہ کے کاغذا ت ختم ہوئے باوجودیکہ وہ مخالفت پر اتر آیا تھا اور مخالفت کرتارہا مگر حضرت اقدس نے اس لئے کہ وہ مہمان تھا اس کے اکرام اور تواضع کے لئے ہم سب کو حکم دیا اور سب نے اس کی تعمیل کی ۔ اس نے مباحثہ وغیرہ تو کوئی نہ کیا اور چپکے سے چل دیا۔

بغدادی مولوی کا واقعہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی کوئی دعویٰ نہ کیا تھا ۔ آپ مجاہدات کر رہے تھے اور عام آدمیوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ ایک مولوی آیا جو بغدادی مولوی کے نام سے مشہور تھا۔ خصوصیت سے وہ وہابیوں کا بہت دشمن تھا اور جہاں جاتا ان کی بہت مخالفت کرتا تھا۔ و ہ قادیان میں بھی آیا تھا باوجودیکہ وہ بہت گالیاں دیتاتھاحضرت اقدس نے اس کی بہت خدمت و تواضع کی اور اکرام مہمان کے شعار کو ہاتھ سے نہ دیا۔ وہ اپنے وعظ میں وہابیوں کو گالیاں دیتا رہا۔ بعد میں لوگوں نے کہاکہ جس کے گھر میں تم ٹھہرے ہوئے ہو وہ بھی تو وہابی ہے پھروہ چپ ہو گیا۔ حضرت اقدس نے اس واقعہ کو خود بیان کیاہے مگر اس کا نام نہیں لیا۔ احسان کے متعلق تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ایک عرب ہمارے ہاں آیا ۔ وہ وہابیوں کا سخت مخالف تھا یہاں تک کہ جب اس کے سامنے وہابیوں کا ذکر بھی کیا جاتا تو گالیوں پر اتر آتا ۔ اس نے یہاں آ کر بھی سخت گالیاں دینی شروع کیں۔ اور وہابیوں کو برا بھلا کہنے لگا ۔ ہم نے اس کی کچھ پرواہ نہ کرکے اس کی خدمت خوب کی اور اچھی طرح سے اس کی دعوت کی اور ایک دن جبکہ و ہ غصہ میں بھرا ہوا وہابیوں کو خوب گالیاں دے رہا تھا کسی شخص نے اسکو کہا کہ جس کے گھر تم مہمان ٹھہرے ہو وہ بھی تو وہابی ہے ۔ اس پر وہ خاموش ہو گیا۔ اس شخص کا مجھ کو وہابی کہنا غلط نہ تھا کیونکہ قرآن شریف کے بعد صحیح احادیث پر عمل کرنا ہی ضروری سمجھتا ہوں‘‘۔(بدر ۱۴؍جولائی ۱۹۰۷ء)

ڈاکٹر پینل کا واقعہ

بنوں کے ایک میڈیکل مشنری ڈاکٹر پینل تھے ۔ یہ شخص بڑا دولت مند اور آنریری طورپر کام کرتاتھا۔بنوں اور اس کے نواح میں اس نے اپنا دجل پھیلایا ۔ ایک مرتبہ وہ ہندوستان کے سفر پر بائیسکل پر نکلا اور اس نے اپنے ساتھ کچھ نہیں لیا تھا۔ ایک مسلمان لڑکا بھی اس کے ساتھ تھا ۔ وہ قادیان میں آیا اور یہاں ٹھہرا۔ حضرت اقدس نے باجودیکہ وہ عیسائی اور سلسلہ کا دشمن تھا۔ اس کی خاطر تواضع اور مہمان داری کے لئے متعلقین لنگر خانہ اور دوسرے احباب کو خاص طورپر تاکید فرمائی اور ہر طرح اس کی خاطر و مدارات ہوئی ۔ اس نے اپنے اخبار تحفہ سرحد بنوں میں غالباً اس کا ذکر بھی کیا تھا۔ او ر آپ کا یہ طریق تھا کہ آ پ مہمانوں کے آنے پر لنگر خانہ والوں کو خاص تاکید فرمایا کرتے تھے ۔چنانچہ ایک مرتبہ ۲۵؍دسمبر ۱۹۰۳ء کو جب کہ بہت سے مہمان بیرونجات سے آ گئے تھے میاں نجم الدین صاحب مہتمم لنگر خانہ کو بلا کر فرمایا کہ :
’’دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو۔ سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو۔ تم پر میرا حسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو ان سب کی خوب خدمت کرو ۔ اگر کسی گھر یامکا ن میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کرو‘‘۔ (اخبار البدر ۸؍جنوری صفحہ ۳۔۴)
اور یہ ایک مرتبہ نہیں ہمیشہ ایسی تاکید کرتے رہتے۔ بعض وقت یہ بھی فرماتے کہ میں نے تم پر حجت پوری کر دی ہے ۔ اگر تم نے غفلت کی تواب خدا کے حضور تم جواب دہ ہوگے۔
ایسا ہی ایک مرتبہ ۲۲؍اکتوبر۱۹۰۴ء کو فرمایا:
’’لنگر خانہ کے مہتمم کو تاکید کردی جاوے کہ و ہ ہر ایک شخص کی احتیاج کو مدنظر رکھے مگر چونکہ وہ اکیلا آدمی ہے اورکام کی کثرت ہے ممکن ہے کہ اسے خیال نہ رہتاہو اس لئے کوئی دوسرا شخص یاد دلادیا کرے ۔کسی کے میلے کپڑے وغیرہ دیکھ کر اس کی تواضع سے دستکش نہ ہونا چاہئے کیونکہ مہمان تو سب یکساں ہی ہوتے ہیں اور جو نئے ناواقف آدمی ہیں تو ہمارا حق ہے کہ ان کی ہر ایک ضرورت کو مدنظر رکھیں۔ بعض وقت کسی کو بیت الخلاء کا ہی پتہ نہیں ہوتا تو اسے سخت تکلیف ہوتی ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ مہمانوں کی ضروریات کا بڑا خیال رکھا جاوے۔ میں تو اکثر بیمار رہتاہوں اس لئے معذور ہوں۔ مگر جن لوگوں کو ایسے کاموں کے لئے قائم مقام کیا ہے یہ ان کا فرض ہے کہ کسی قسم کی شکایت نہ ہونے دیں۔(اخبار الحکم ۲۴؍ نومبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۔۲)
*۔۔۔*۔۔۔*

(الفضل انٹرنیشنل ۳۱؍جولائی ۱۹۹۸ء تا۲۷؍اگست ۱۹۹۸ء)
مکمل تحریر >>

احمدی کا مبارک امتیازی نام


احمدی کا مبارک امتیازی نام



اور سیاسی ملاؤں کی ایک حیرت انگیز نئی قلابازی (دوست محمد شاہد ۔ مؤرخ احمدیت)

اے عزیزو اس قدر کیوں ہو گئے تم بے حیا

کلمہ گو ہو کچھ تو لازم ہے تمہیں خوفِ خدا


انیسویں صدی کے آخری سال کا واقعہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے ۴؍نومبر ۱۹۰۰ء کو اشتہار دیا کہ ملک میں مردم شماری ہونے والی ہے جس میں ہر فرقہ اپنے لئے جو نام پسند کرتا ہے وہی نام سرکاری کاغذات میں لکھوائے گا۔ اس وقت تک پنجاب اور ہندوستان میں تیس ہزار مخلصین شامل ہوچکے تھے اس لئے حضرت اقدس علیہ السلام نے اس اشتہار میں اعلان فرمایا:


’’و ہ نام جو اس سلسلہ کے لئے موزوں ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلمان فرقہ احمدیہ ہے اور جائز ہے کہ احمدی مذہب کے مسلمان کے نام سے بھی پکاریں۔‘‘


اس نام کا پس منظر یہ بیان فرمایا کہ


’’ہمارے نبی ﷺ کے دو نام تھے ایک محمدﷺ اور ایک احمدﷺ۔۔۔ اسم محمد جلالی نام تھا۔۔۔ لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت ﷺ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے ۔۔۔ اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ رکھا جائے تا اس نام کو سنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے‘‘۔ (’اشتہار واجب الاظہار‘ بحوالہ مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعودؑ حصہ سوم صفحہ ۳۵۶۔۳۶۶)


۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کو دہلی میں ایک صاحب نے حضرت اقدسؑ سے عرض کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے، آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا ہے؟ یہ بات ھو سمّٰکم المسلمین (الحج:۷۹) کے برخلاف ہے۔ اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا:


’’اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے ۔ لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آ چکا ہے اسلام کے تہتر فرقے ہوگئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ انہی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہؓ کو سّب و شتم کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے ازواجِ مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں۔ اولیاء اللہ کو برا کہتے ہیں۔ پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔ خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہتے ہیں اور پھر بھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔ بلادِ شام میں ایک فرقہ یزیدیہ ہے جو امام حسینؓ پر تبرّہ بازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ اسی مصیبت کو دیکھ کر سلف صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی ، حنبلی وغیرہ تجویز کئے۔ آجکل نیچریوں کا ایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت ، دوزخ، وحی، ملائک سب باتوں کا منکر ہے یہاں تک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم ﷺ کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سن کر یہ قصے لکھ دیئے ہیں۔ غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے لئے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا‘‘۔


مزید ارشاد فرمایا:


’’ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے۔ اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو۔ خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔ بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہوسکتی۔ امام شافعیؒ اور حنبلؒ وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہو گئی تھیں۔ اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی۔ ہزارہا گندے آدمی ملے جلے رہتے۔ یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چاردیواری کے تھے۔ اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہو جاتا کہ بدعتی اور غیربدعتی میں تمیز نہ ہوسکتی۔ اب بھی ایسا زمانہ آگیا ہے کہ گھر گھر ایک مذہب ہے۔ ہم کو مسلمان ہونے سے انکار نہیں، مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھا گیا ہے۔‘‘


نیز فرمایا:


’’جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں، ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں۔ میں کوئی بدعت نہیں لایا۔ جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے ایسا ہی احمدی بھی نام ہے بلکہ احمد کے نام میں اسلام کے بانی احمد ﷺ کے ساتھ اتصال ہے اور یہ اتصال دوسرے ناموں میں نہیں۔ احمد، آنحضرت ﷺ کا نام ہے۔اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے۔ حدیث شریف میں محمدی رکھا گیا ہے۔ بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوتا ہے۔ احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے۔ آج کل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اول آخر کبھی نہیں ہوا۔ اس واسطے کوئی نام ضروری تھا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو مسلمان ہیں، وہ احمدی ہیں۔‘‘ (بدر ۳؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲۔۴، بحوالہ ملفوظات حضرت مسیح موعود ؑ جلد ۴ صفحہ ۵۰۰۔۵۰۲ جدید ایڈیشن)


خدا تعالیٰ نے اس مبارک نام کو قبولیت کا ایسا عالمی شرف بخشا ہے کہ حیرت آتی ہے۔ مصر سے دائرۃ المعارف الاسلامیہ کے نام سے ضخیم انسائیکلوپیڈیا شائع ہوئی ہے جس میں الاحمدیہ ہی کے زیر عنوان بہت قیمتی نوٹ چھپا ہے۔ علاوہ ازیں مجلتہ الازھر شعبان ۱۳۷۸ھ (فروری ۱۹۵۹ء) میں مدیر مذہبیات الدکتور محمد عبداللہ کے قلم سے جماعت احمدیہ کے جرمن قرآن پر تبصرہ کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا گیا ہے ’’نشرت ھذہ الترجمہ البعثۃ الاحمدیہ‘‘۔

پاکستان میں ’’اردو انسائیکلوپیڈیا‘‘ ، ’’اردو جامع انسائیکلوپیڈیا‘‘ اور ’’شاہکار انسائیکلوپیڈیا‘‘ بالترتیب فیروز سنز لاہور، غلام علی اینڈ سنز لاہور اور شاہکار بک فاؤنڈیشن کراچی کی طرف سے منظر عام پر آ چکے ہیں ان سب میں احمدی نام موجود ہے۔ حضرت قائد اعظم کی پریس ریلیز اخبار ڈان (DAWN) کی ۸ اکتوبر ۱۹۴۵ء کی اشاعت میں درج ذیل الفاظ میں چھپی:

"Ahmadiyya Community to support Muslim League"

ڈاکٹر سر محمد اقبال نے لکھا ’’جہاں تک میں نے اس تحریک کے منشا کو سمجھا ہے احمدیوں کا اعتقاد ہے کہ مسیح کی موت ایک عام فانی انسان کی موت تھی‘‘ (’اقبال اور احمدیت صفحہ ۹۰ مرتبہ بشیر احمد ڈار ناشر آئینہ ادب چوک مینار انارکلی لاہور)

پاکستان کے محقق و مؤرخ شیخ محمد اکرام صاحب ایم۔اے نے ’’موجِ کوثر‘‘ میں، جسٹس منیر اور جسٹس کیانی نے ’’رپورٹ تحقیقاتی عدالت‘‘ میں۔ جناب اصغر علی گھرال صاحب ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور نے اپنی کتاب ’’اسلام یا ملاّ ازم‘‘ میں بے دریغ احمدی ہی کا نام استعمال کیا ہے۔

پاکستانی پریس قیام پاکستان سے لے کر آج تک بے شمار مرتبہ یہ مبارک نام استعمال کرچکا ہے مثلاً’’ پاکستان ٹائمز‘‘ (۱۳؍نومبر ۱۹۸۰ء)،’’ مشرق‘‘ (۳۰ جون ۱۹۷۴ء) ’’نوائے وقت‘‘ (۱۲ ؍اپریل ۱۹۶۰ء)، ہفت روزہ ’’رضاکار ‘‘لاہور (۲۴ مئی ۱۹۷۳ء)۔

احمدیت کے مخالف لٹریچر میں بھی مدت سے احمدی نام کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ جناب ملک محمد جعفر خان نے احمدیت کی مخالفت میں جو کتاب لکھی ہے اس کا نام ہی ’’احمدیہ تحریک‘‘ رکھا ہے۔

مفکر احرار چوہدری افضل حق نے ’’فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیوں‘‘ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کو زبردست خراج تحسین ادا کرتے ہوئے انہیں احمدی کے ہی نام سے یاد کیا ہے۔ مولوی ظفر علی خان مدیر ’’زمیندار‘‘ نے ۱۹؍مارچ ۱۹۳۶ء کو تقریر کرتے ہوئے کہا کہ:

’’احمدیوں کی مخالفت کا احرار نے محض جلب زر کے لئے ڈھونگ رچا رکھا ہے۔‘‘ (تحریک مسجد شہید گنج صفحہ ۱۶۹۔ مؤلفہ جانباز مرزا)

نامور اہل حدیث عالم میر ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے ’’پیغام ہدایت در تائید پاکستان و مسلم لیگ‘‘ کے صفحہ ۱۱۲، ۱۱۳ پر کئی بار احمدی کا لفظ استعمال کیا۔ نیز لکھا:

’’احمدیوں کا اس اسلامی جھنڈے (تحریک پاکستان مراد ہے۔ ناقل) کے نیچے آ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔‘‘

’’اور اس امر کا اقرار کہ احمدی اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہیں ، مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی ہے‘‘

یہ حیرت انگیز واقعہ مجسٹریٹ درجہ اول کوئٹہ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے کہ نام نہاد ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے مولوی تاج محمد صاحب نے ۲۱؍دسمبر ۱۹۸۵ء کو بیان دیا کہ:

’’ یہ درست ہے کہ حضور رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جو آدمی نماز پڑھتا تھا، اذان دیتا تھا یا کلمہ پڑھتا تھا اس کے ساتھ مشرک یہی سلوک کرتے تھے جو اب ہم احمدیوں سے کر رہے ہیں۔‘‘

غرضیکہ کہاں تک بیان کیا جائے احمدی کا مبارک نام عرب و عجم اور احمدی اور غیر احمدی حلقوں میں قریباً ایک صدی سے استعمال ہو رہا ہے اور جماعت احمدیہ کی دائمی پہچان اور شناخت بن چکا ہے۔ اس ضمن میں قارئین الفضل کو یہ چونکا دینے والا انکشاف یقیناً ورطہ حیرت میں ڈال دے گا کہ سیاسی ملاؤں نے ۱۹۵۲ء کی ایجی ٹیشن کے دوران یہ فتوی دیا کہ:

’’مرزائی چونکہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی بجائے احمدی کہلاتے ہیں ۔۔۔ لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دے۔‘‘ (احراری اخبار ’’آزاد‘‘ لاہور ۱۱؍ستمبر ۱۹۵۲ء صفحہ۹ کالم ۲، مطالبہ نمبر)

اس ضمن میں مولوی عبدالحامد بدایونی صاحب نے ۹ جولائی ۱۹۵۲ء کو مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی کے زیر عنوان آرام باغ میں جو تقریر کی اس کا خلاصہ اخبار ‘‘آزاد‘‘ ۱۳؍جولائی ۱۹۵۲ء نے صفحہ نمبرایک پر پہلی سطر میں نہایت درجہ جلی قلم سے حسب ذیل الفاظ میں شائع کیا:

’’مرزائی اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی بجائے احمدی کہلاتے ہیں ان کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔

نیز رپورٹ میں مزید لکھا کہ:

’’آپ نے اس تجویز کو پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی دلیل یہ ہے کہ مرزائیوں نے اپنے آپ کو کبھی مسلمان نہیں کہلایا وہ خود اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔‘‘ (صفحہ۱ کالم۲)

اب ان سیاسی ملاؤں کی حالیہ قلابازی ملاحظہ ہو کہ پچھلے دنوں پاکستان کی نگران حکومت نے جب یہ شوشہ چھوڑا کہ پاکستانی سفارتخانوں کو یہ ہدایت کی جا رہی ہے کہ پاسپورٹوں میں قادیانی کی بجائے احمدی کا لفظ استعمال کیا جائے تو پاکستان کے علاوہ برطانیہ میں مقیم سیاسی ملاؤں نے بھی ایک زبردست ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اس ضمن میں روزنامہ جنگ لندن ۱۴ جنوری ۱۹۹۷ء نے صفحہ۷ پر ایک مفصل رپورٹ شائع کی جس کی دوہری سرخی یہ تھی:

’’قادیانیوں کو احمدی لکھنے کے فیصلے پر برطانیہ بھر کے علماء کا احتجاج۔نگران حکومت نے فیصلہ واپس نہ لیا تو مسلمان میدان میں آنے پر مجبور ہوں گے۔ دینی رہنماؤں کا ردّعمل‘‘

ازاں بعد لندن کے اخبار ’’دی نیشن‘‘ ۲۴ تا ۳۰؍ جنوری ۱۹۹۷ء کے صفحہ۵ پر لندن کی مرکزی جماعت اہل سنت کی اپیل پر ’’یوم تاجدار ختم نبوت‘‘ منائے جانے کی خبر اشاعت پذیر ہوئی جس میں کہا گیا کہ:

’’قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو پھر انہیں شعائر اسلام استعمال کرنے کی اجازت دینا تعلیمات مصطفوی سے انحراف ہے۔‘‘

بالفاظ دیگر ’’احمدی‘‘ کا نام شعائر اسلام میں سے ہے اس لئے جماعت احمدیہ کے لئے اس کا استعمال تعلیمات مصطفوی سے انحراف کے مترادف ہے۔ حالانکہ ایک صدی سے خود ان حضرات کے اکابر و اصاغر یہ نام استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر امت مسلمہ ’’یوم تاجدار ختم نبوت‘‘ منانے والے سیاسی ملاؤں اور طالع آزماؤں سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ اعلان کریں کہ جماعت کے لئے احمدی کا لفظ استعمال کرنے والوں کو کیا تعلیمات مصطفوی سے منحرف اور باغی قرار دیتے ہیں؟؟ علامہ شبلی نعمانی نے کیا خوب کہا تھا


کرتے ہیں مسلمانوں کی تکفیر شب و روز

بیٹھے ہوئے کچھ ہم بھی تو بیکار نہیں ہیں


پاکستان کے فاضل ادیب و کالم نویس جناب عنایت حسین صاحب بھٹی نے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور (۲۰ جنوری ۱۹۹۷ء) میں سیاسی ملاؤں کے اس طرز عمل پر ایک نہایت دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:

’’مولوی صاحبان نے احتساب کرانے کا بیڑہ اٹھایا تھا اور الیکشن سے لاتعلقی کا اعلان فرمایا۔ وہ احمدی اور قادیانی مسئلہ میں الجھ گئے یا الجھا دیئے گئے اور حسب سابق پٹڑی سے اتر گئے۔ لیکن مولوی حضرات سے ایک سوال کرنے کی جرأت کروں گا کہ قادیانی سوائے پاکستان کے پوری دنیا میں احمدی کہلاتے ہیں۔ پورے افریقہ میں ان کے مشن ہیں جو لوگوں کو تبلیغ کرکے ان کے مذاہب تبدل کرکے ان کو احمد کا نام دیتے ہیں۔ پورے یورپ اور دیگر ممالک میں وہ احمدی کہلاتے ہیں حتیٰ کہ بھارت میں بھی ان کو احمدی کہا جاتا ہے۔ مگر صرف پاکستان میں احمدی نہ کہا گیا تو کیا فرق پڑے گا۔ یہاں ایک لطیفہ سنئے کہ فیصل آباد کے گھنٹہ گھر پر ایک سکھ چڑھ گیا اور بارہ بجنے میں پانچ منٹ پر اس نے گھڑیال کا پنڈولم پکڑ لیا اور کہنے لگا اب میں زیادہ نہیں بجنے دوں گا۔ لوگ ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ سردار جی جب ساری دنیا کی گھڑیوں پر بارہ بج جائیں گے تو اگر ایک گھڑیال میں نہ بجے تو کیا فرق پڑے گا۔ مولوی حضرات سے گزارش ہے کہ قرآن میں ارشاد پروردگار ہے لا اکراہ فی الدین دین میں جبر نہیں، آپ سیاست کو چھوڑ کر دین کی تبلیغ کیوں نہیں کرتے۔ لوگوں کو دلائل سے قائل کیجئے کہ صحیح اسلام کیا ہے، دنیا میں اپنے تبلیغی مشن بھیجیں تاکہ لوگ صحیح دین سے متعارف ہوں، ڈنڈے سے کام تو وہ لیتا ہے جس کے پاس دلائل نہ ہوں۔‘‘




(الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍مئی ۱۹۹۷ء تا ۵؍جون ۱۹۹۷ء)
مکمل تحریر >>

Monday 28 September 2015

قومی اسمبلی 1974کی کا روائی پر تبصرہ


قومی اسمبلی 1974کی کا روائی پر تبصرہ


کتاب کا تعارف

          ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صا حب نے ایک مؤرخ کی حیثیت سے 1974ء سے قبل کے حالات اور قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی کارگزاری کا جائزہ لیا ہے۔ بحیثیت مؤرخ واقعات کی جستجو اور پڑتال کی غرض سے اس دور کی بعض سرکردہ شخصیات سے ملاقات کرکے ان کے انٹرویو بھی لئے۔
        قومی اسمبلی کی کارروائی خفیہ قرار دی گئی تھی۔ اب قریباً چار دہائیوں کے بعد قومی اسمبلی کی سپیکر محترمہ فہمیدہ مرزا صا حبہ کی زیر ہدایت اس سے پردہ اخفا اٹھالیا گیا ہے اور پابندی ختم کردی گئی ہے اور کارروائی سرکاری طور پر شائع بھی کردی گئی ہے مگر یہ کارروائی بالعموم دستیاب نہیں۔
        پاکستان کی نئی نسل اور علمی حلقوں میں اس کارروائی کے بارہ میں گہری دلچسپی پائی جاتی ہے اور بین الاقوامی سطح پر محققین بھی یہ جاننے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں کہ خصوصی کمیٹی کی کارروائی میں اسمبلی کے سامنے معاملہ کس رنگ میں زیر بحث لایا گیا ، اسمبلی کے آئینی اختیارات کیا تھے، جماعت احمدیہ کا مؤقف کیا تھا، امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب پر جو جرح کی گئی اس کا اثر اور ماحصل کیا تھا، قومی اسمبلی اس معاملے سے کس انداز سے نبرد آزما ہوئی اور کہاں تک اس نازک ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوسکی۔
         دریں اثنا مذکورہ واقعات کے بارہ میں ایک مؤرخ کا بیان قارئین کی خدمت میں ”خصوصی کمیٹی میں کیاگزری … تاریخ کا ایک باب“ کے عنوان سے پیش ہے۔ اس میں 7/ ستمبر 1974ء کی منظور کردہ آئینی ترمیم اور قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی کارگزاری اور پس منظر اور پیش منظر بیان کئے گئے ہیں جو قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوں گے۔

مضمون وار کتاب پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

مکمل کتا ب پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں


مکمل تحریر >>

حضرت مسیح ناصری کی آمد ثانی

حضرت مسیح ناصری کی آمد ثانی


سید احمد علی۔ نائب ناظر اصلاح و ارشاد۔ ربوہ

کامل شریعت قرآن کریم نے یہود و نصاری کے غلط عقائد کی طرف پرزور دلائل سے توجہ دلائی ہے۔ مثلاً یہ کہ جناب مسیح صلیب پر ہرگز نہ مرے تھے کہ ان کو جھوٹا اور لعنتی کہہ کر رد کر دیا جائے۔ اور نہ وہ زندہ ہو کر آسمان پر گئے اور نہ جسم عنصری کے ساتھ زمین کی طرف واپس آئیں گے کیونکہ حضرت مسیح نے واضح کر دیا تھا کہ : ’’آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سو ا اس کے جو آسمان سے اترا یعنی ابن آدم جو آسمان میں ہے‘‘۔(یوحنا باب ۳ آیت ۱۳)

اور فرمایا کہ:’’ میں آسمان سے اترا ہوں‘‘(یوحنا باب ۶ آیت ۳۸)

’’ ہمارا وطن آسمان میں ہے‘‘۔(فلپی باب ۳ آیت ۲۰)

ان بیانات میں حضرت مسیح اپنا اترنا آسمان سے اور چڑھنا اور پھر آسمان میں ہونے کا تمثیلی طورپر اظہار کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے پیارے اور پاک لوگ ہر وقت آسمانی باتیں کرتے ہیں اور آسمان پرہوتے ہیں جیسا کہ (فلپی باب ۳ آیت ۲۰) کا بیان پڑھ چکے ہیں اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود

علیہ السلام بھی انہیں معنوں میں فرماتے ہیں ؂

ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں
آسماں پر رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار

پس جناب مسیح ناصریؑ نہ تو اس خاکی جسم کے ساتھ آسمان پرگئے اور نہ دوبارہ زمین پر آنے والے ہیں کیونکہ انجیل ’’متی‘‘ اور’’ یوحنا‘‘ جو ’’ رسول‘‘ کہلاتے ہیں (متی باب ۱۰ آیت ۲ اور ۳) اور حواری اور موقع کے گواہ تھے ان دونوں نے آسمان پر جانے کا قطعاً ذکر نہیں کیا۔ ہاں ’’مرقس ‘‘اور ’’لوقا ‘‘نے ذکر کیا ہے مگر یہ دونوں نہ حواری ، نہ رسول اور نہ موقع کے گواہ تھے ۔ان کا بیان حواریوں کے مقابلہ میں قطعاً قابل توجہ اور لائق قبول نہیں اور انہوں نے بھی لوگوں سے باتیں ’’دریافت‘‘ کرکے لکھی ہیں(لوقا باب ۱ آیت۳)249 نہ کہ کسی الہام سے ۔ اسی لئے امریکہ سے جو اب نئی بائبل (ریوائزڈ سٹینڈرڈ ورشن) نام سے شائع ہوئی ہے اس میں ’’مرقس‘‘ اور ’’ لوقا‘‘ کے آسمان پر جانے کے مضمون کو پرانی اناجیل کے خلاف اور الحاقی ہونے کی وجہ سے اس نئی بائبل سے بالکل خارج کر دیا ہے اور اب کسی بھی انجیل میں مسیح کے آسمان پر جانے کا کوئی ثبوت نہیں۔

دراصل مسیح کا آسمان پرجانا اورآنا تمثیلی کلام ہے (جیساکہ یوحنا باب ۳ آیت ۱۳ اور باب ۶ آیت ۳۸ ، فلپی باب ۳ آیت ۲۰ سے عیاں ہے) اورجو ٹھیک حضرت ایلیاہ نبی کی طرح کا ہے جن کے متعلق لکھا ہے کہ ’’ایلیاہ بگولے میں ہوکر آسمان پر جاتا رہا‘‘ (۲۔ سلاطین باب ۲

آیت ۱۱) اور پھر آسمان سے واپس آنے کی بھی یہ پیشگوئی تھی کہ:

’’ دیکھو خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیاہ نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا‘‘۔(ملاکی باب ۴ آیت ۵)

ان واضح پیش خبریوں کی بنا پر یہودی حضرت ایلیاہ نبی کی مسیح سے پہلے آمد کے شدت سے منتظر تھے مگر حضرت مسیحؑ نے اس مسئلہ کاحل یوں فرمایا کہ

’’ ایلیاہ کی روح اور قوت میں‘‘ (لوقا باب ۱ آیت ۱۷) اس کا مثیل بن کر کسی اور وجود کا آنا مراد ہے جیسا کہ لکھا ہے:

’’شاگردوں نے اس سے پوچھا کہ پھر فقیہ کیوں کہتے ہیں کہ ایلیاہ کا پہلے آنا ضروری ہے ۔ اس نے جواب میں کہا کہ ایلیاہ تو البتہ آ چکا وہ سب کچھ بحال رہے گا لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہ تو آ چکا اور اس کو انہوں نے نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیااسی طرح ابن آدم بھی ان کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا۔ تب شاگرد سمجھ گئے کہ اس نے ہم سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی بابت کہاہے‘‘۔(متی باب ۱۷ آیات ۱۱ تا ۱۳)

حضرت مسیح کے اس بیان میں دو باتیں واضح کر دی گئی ہیں:۔

اول:۔۔۔ یہ کہ ایلیاہ نبی جو آسمان پرگیا اور دوبارہ آنے والا تھا اس کی بجائے اس کامثیل آنا مراد ہے۔

دوم:۔۔۔ یہ کہ ایلیاہ نبی کے مثیل کو جس طرح نہ پہچان کر دکھ دئے گئے ابن آدم یعنی میں بھی جب دوبارہ آؤں گا تو خودنہیں بلکہ میرا مثیل بن کر کوئی شخص آئے گا اور وہ بھی یوحنا کی طرح دکھ اٹھائے گا۔

کیونکہ حضرت مسیح اس مسئلہ کو بوضاحت اور کھول کھول کر بیان کر چکے ہیں کہ :

۱۔۔۔’’ میں آگے کو دنیا میں نہیں ہونگا‘‘(یوحنا ۱۷: ۱۱)

۲۔۔۔ ’’ابن آدم نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا‘‘۔(متی باب ۱۹ آیت ۲۸)

اب کیا کوئی عیسائی یہ مان سکتا ہے کہ حضرت مسیح جب دو ہزارسال کی عمر میں آئیں گے تو وہ حضرت مریمؑ کے ہاں دوبارہ پیدا ہونگے؟ ہر گزنہیں۔ پس اس سے یہی مراد ہے کہ مسیح کی دوبار ہ آمد بھی ایلیاہ نبی کی طرح بطور مثیل کسی اوروجود میں ہوگی۔

۳۔۔۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے مجھے پھر ہرگز نہ دیکھو گے جب تک یہ نہ کہو گے کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے‘‘۔(متی۲۳:۳۹ ، لوقا۱۳:۳۵)

یہ بیان کتناصاف اور واضح اور اس عیسائی عقیدہ کو رد کرتا ہے کہ مسیح دوبارہ خود آئے گا۔ آپ فرماتے ہیں، تم مجھے پھر ہرگز نہ دیکھو گے ہاں میرے نام پر کوئی اور شخص ایلیاہ کی طرح میرا مثیل بن کر آئے گا۔ورنہ یہودیوں کو کیاجواب دیا جا سکتا ہے؟ اگر مسیح دوبارہ آ سکتا ہے تو ایلیاہ کو بھی خودآنا چاہئے۔ اگرایلیاہ دوبارہ نہیں آ سکتا تو مسیح بھی دوبارہ قطعاً نہیں آ سکتا۔ بلکہ اس کا مثیل بن کر آپ کے نام پرکوئی اور شخص آنا مراد ہے۔’’ اگر در خانہ کس است حرفے بس است‘‘

پس بائبل کے بیان کردہ حقائق کے پیش نظر ہم عیسائی حضرات کو دعوت دیتے ہیں کہ کامل مذہب اسلام ، نجات کا ذریعہ قرآن اور تمام دنیا کے لئے کامل نمونہ اورکامل تعلیم لے کر آنے والے حضرت محمد مصطفی ﷺ نبیوں کی پیشگوئیوں کے مصداق آ چکے جو حضرت موسیٰ کی مانند نبی صاحب شریعت اورعہد کے رسول ہیں۔ اور عیسائی عقائد کی اصلاح کے لئے پیشگوئیوں کے مطابق خدا نے حضرت مسیح ناصری کا مثیل بنا کر اسلام میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعود بنا کر مبعوث فرما دیا ہے آپ نے خدا سے الہام پا کر اعلان کیا کہ :

(الف): ’’مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تو آیا ہے‘‘۔(ازالہ اوہام)

(ب): ’’ مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو ‘‘(فتح اسلام )

(ج) :اور فرمایا کہ:’’ مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا ہے تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے سو میں صلیب کو توڑنے اور خنزیروں کو قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔

(فتح اسلام)

حضرت بانی جماعت احمدیہ مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نہ صرف قرآن و حدیث کے معیار وں کی رو سے بلکہ بائبل کے صادق ماموروں کی پہچان کے لئے بیان کردہ معیاروں کی رو سے بھی خدا کی طرف سے صادق و راستباز مامور ہیں۔ ملاحظہ ہو:

اول:۔۔۔ صادق مدعی کے دعویٰ سے پیشتر کی زندگی کا پاکیزہ اور بے عیب و مطہّر ہونا اس کے دعویٰ کی صداقت او ر حقانیت کا زبردست ثبوت ہوتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح ناصریؑ فرماتے ہیں:’’ تم میں سے کون مجھ پر گناہ ثابت کر سکتا ہے‘‘۔(یوحنا باب ۸ آیت ۴۶)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چیلنج کیا کہ :

’’ تم کوئی عیب ،افتراء یاجھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے‘‘۔(تذکرۃ الشہادتین )

چنانچہ کوئی مخالف آپ کی پہلی زندگی پر حرف نہ لا سکا بلکہ مولوی محمد حسین بٹالوی، مولانا میرحسن صاحب سیالکوٹی، مولوی ثناء اللہ امرتسری اور مولوی سراج الدین صاحب ایڈیٹر اخبار ’’زمیندار‘‘ لاہور وغیرہ نے آپ کی پاکیزگی کی تعریف کی ہے۔

دوم:۔۔۔ جناب مسیح ناصریؑ فرماتے ہیں :’’ جو پودا میرے آسمانی باپ نے نہیں لگایا وہ جڑ سے اکھاڑا جائے گا‘‘۔(متی باب ۱۵ آیت۱۳)

اگر بانی جماعت احمدیہ خدا کے صادق و راستباز مامور نہ ہوتے تو کب کے تباہ وبرباد ہو چکے ہوتے کیونکہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے ؂

لعنت ہے مفتری پہ خدا کی کتاب میں
عزت نہیں ہے ذرّہ بھی اس کی جناب میں

توریت میں بھی نیز کلامِ مجید میں

لکھا گیا ہے رنگ وعید شدید میں

کوئی اگر خدا پہ کرے کچھ بھی افتراء

ہو گا وہ قتل ہے یہی اس جرم کی سزا

سوم:۔۔۔جو خدا تعالیٰ کی طرف سے صادق مامور مدعی ہو خداتعالیٰ ہر موقع پر اس کی تائید و نصرت اور مدد فرماتا ہے اورکامیاب کرتا ہے جیسا کہ حضرت داؤد ؑ فرماتے ہیں کہ:

’’صادق کھجور کے درخت کی مانندسرسبز ہو گا۔ وہ لبنان کے دیودار کی طرح بڑھیگا‘‘۔(زبور باب۹۲آیات ۱۲،۱۳)

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ۱۸۸۹ء سے اب تک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنا اور دنیا کے ۱۵۳ ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں احمدیوں کا ہو جانا اور آپ کے ماننے والوں میں یہودیوں ، عیسائیوں، ہندو ؤں ، سکھوں اور مسلمانوں کے ۷۲فرقوں میں سے نکل نکل کر نیکی ، تقویٰ اور ایمانی وعملی حالت میں قدم آگے ہی آگے بڑھانے والوں کا ہونا آپ کے دعویٰ کی صداقت کا زبردست ثبوت اور روشن نشان ہے ؂

کبھی نصرت نہیں ملتی درمولیٰ سے گندوں کو
کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو

چہارم:۔۔۔ آخرمیں ہم عیسائی حضرات کو انجیل کا یہ بیان سنا کر مضمون ختم کرتے ہیں:

’’ملی ایل نامی ایک فریسی نے جو شرع کا معلم اور سب لوگوں میں عزت دار تھا عدالت میں کھڑے ہو کر کہا کہ میں تم سے کہتا ہوں کہ ان آدمیوں سے کنارہ کرو اور ان سے کچھ کام نہ رکھو ایسا نہ ہو کہ خدا سے بھی لڑنے والے ٹھہرو۔ کیونکہ یہ تدبیر یا کام اگر آدمیوں کی طرف سے ہے تو آپ برباد ہو جائے گا لیکن اگر خدا کی طرف سے ہے تو تم ان لوگوں کومغلوب نہیں کر سکو گے‘‘۔(اعمال باب ۵ آ یت ۳۴ تا ۳۹)

صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں
اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوفِ کردگار

آؤ عیسائیو! ادھر آؤ! نورِ حق دیکھو راہ حق پاؤ

جس قدر خوبیاں ہیں فرقاں میں کہیں انجیل میں تو دکھلاؤ

*۔۔۔*۔۔۔*

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍فروری۱۹۹۸ء تا۱۹؍فروری ۱۹۹۸ء)

مکمل تحریر >>

کیا حضرت مسیح ؑ نے کہا تھا کہ وہ مرنے کےتین دن بعد پھر جی اٹھے گا


کیا حضرت مسیح ؑ نے کہا تھا کہ وہ مرنے کےتین دن بعد پھر جی اٹھے گا



مسعود احمد خان دہلوی ۔ جرمنی

اناجیل اربعہ میں ابن آدم یعنی ابن مریم کے متعلق اس امر کا متعدد بار ذکر آتا ہے کہ اس نے اپنے حواریوں اور درپئے جاں یہودیوں کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ لوگوں کی طرف سے اسے بہت دکھ دیا جائے گا حتی کہ دکھ جھیلنے کے دوران ہی وہ چل بسے گا لیکن مرنے کے تین دن بعد وہ پھر جی اٹھے گا۔ عیسائی حضرات اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ مسیح کی یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور ایسا ہی ظہور میں آیا یعنی مسیح مرنے کے بعد پھر جی اٹھا۔ چنانچہ وہ دوبارہ جی اٹھنے کے مزعومہ واقعہ کو ’’الوہیت مسیح‘‘ کے ایک ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

قبل اس کے کہ ہم انجیل میں مذکور پیشگوئیوں کے اصل الفاظ کے بارہ میں ایک مغربی محقق کی ریسرچ کا ماحصل پیش کریں، یہ بتانا ضروری ہے کہ گزشتہ صدی کے دوران جب عیسائی پادریوں نے ہندوستان کی پوری آبادی کو عیسائیت کا حلقہ بگوش بنانے کی غرض سے ایک زبردست مشنری مہم کا آغاز کیا تو بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہندوستان میں عیسائیت کی یلغار کو روکنے اور عیسائیت کے مشرکانہ عقائد کا پول کھولنے کے لئے عیسائیوں پر اتمام حجت کا فریضہ دو طرح سے ادا فرمایا۔ ایک تو آپؑ نے بڑے ہی محکم دلائل کے ساتھ اس امر کو بڑی شدومد اور تحدی سے پیش فرمایا کہ مسیح علیہ السلام طویل عمر پاکر طبعی موت سے فوت ہوگئے تھے اس لئے اب وہ اللہ تعالیٰ کی قدیمی سنت مستمرہ کے مطابق اسی جسد عنصری کے ساتھ واپس نہیں آئیں گے اور نہ وہ کبھی آ سکتے ہیں۔ دوسرے حضور علیہ السلام نے از روئے انجیل خود واقعاتی شہادتوں اور بیرونی شواہد کی روشنی میں اس امر کا حتمی اور یقینی ثبوت بہم پہنچایا کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے بلکہ صلیب پر سے زندہ اتارے جانے کے بعد آپ اسرائیل کے گمشدہ قبائل کی تلاش میں فلسطین سے خفیہ طور پر نکل کھڑے ہوئے اور جانب شرق سفر کرتے ہوئے کشمیر پہنچے اور پھر وہاں اپنا مشن پورا کرنے کے بعد آپ نے طبعی موت سے وفات پائی اور سرینگر کے محلہ خانیار میں دفن ہوئے جہاں ان کا مزار آج تک موجود ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جب مسیح علیہ السلام صلیب پر مرے ہی نہ تھے تو پھر اس امر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ تین دن کے بعد جی اٹھتے۔ اس سے دو ہی باتیں مستنبط ہوتی ہیں ایک یہ کہ اناجیل میں مندرج مسیح کی طرف منسوب کی جانے والی یہ پیشگوئی کہ وہ مرنے کے تین دن بعد جی اٹھے گا الحاقی ہے یا پھر عین ممکن ہے کہ مسیح علیہ السلام نے پیشگوئی کے طور پر کچھ اور فرمایا ہو جسے بدل کر کچھ کا کچھ کردیا گیا ہو۔ اس عقیدہ کو گزشتہ صدی کے ایک مغربی محقق نے اپنی کتاب میں حل کیا ہے۔ اس مغربی محقق کی تحقیق کا لبّ لباب پیش کرنا ہی فی الوقت ہمارے مدّنظر ہے۔

گزشتہ صدی میں ہوگزرنے والے اس برطانوی محقق کا نام تھا Mr. Keningale Cook M.A., LLD. (کیننگیل کک ایم۔اے، ایل۔ ایل۔ ڈی)۔ مسٹر کُک نے آج سے تقریباً ایک صدی سے بھی قبل کے زمانہ میں "The Fathers of Jesus" کے نام سے دو جلدوں پر مشتمل ایک کتاب مرتب کی جس میں اس امر پر روشنی ڈالی کہ مروجہ مسیحی عقائد کے اصل ماخذ کون کون سے ہیں یعنی قبل از مسیح کے زمانہ قدیم میں یورپ اور ایشیا میں جو مذہبی عقائد و نظریات رائج تھے ان کے بعض حصوں کو بعد کے مسیحیوں نے کس طرح اناجیل میں داخل کرکے مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دیا اور اسے خدا کی الوہیت میں شریک ٹھہرایا۔ اس کتاب کو اس وقت کے مشہور برطانوی اشاعتی ادارے Kegan Paul, Paternoster Square, London نے ۱۸۸۶ء میں شائع کیا۔ اس کی جلد اول کے باب دوم بعنوان "An Aryan Ancestor" (ایک آریائی مورث اعلیٰ) میں اس امر پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے کہ مسیح نے اپنے مرنے کے بارہ میں پیشگوئی کے طور پر جو کچھ کہا تھا بعد میں اسے اپنے تبدیل شدہ عقائد کی روشنی میں کچھ اور ہی معانی پہنا دئے گئے۔ مسٹر کُک نے ثابت یہ کیا ہے کہ یونانی زبان میں تحریر کردہ قدیم ترین نسخہ میں جو ایک مقدس مخطوطہ کے طور پر آج بھی محفوظ ہے مسیح کا مذکورہ قول درج کرتے ہوئے ’’مر کر جی اٹھنے‘‘ کے مفہوم کے طور پر جو یونانی لفظ استعمال ہوا ہے وہ مر کر جی اٹھنے کے معنوں میں استعمال ہی نہیں ہوتا۔ اس یونانی لفظ کا انگریزی تلفظ ہے ANASTASY۔ مسٹر کُک کا کہنا یہ ہے کہ قدیم یونانی زبان کا یہ لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک تو اس کے معنے ہیں بیٹھی ہوئی یا لیٹی ہوئی حالت سے اٹھ کر’’سیدھا کھڑا ہونا‘‘ اور دوسرے معنے ہیں ’’بیدار ہونا‘‘۔ جب اس قدیم یونانی مخطوطہ کو انگریزی میں منتقل کیا گیا تو اس یونانی لفظ کا ترجمہ تو Raise up ہی کیا گیا جس کے لفظی معنے کھڑا ہونا ہی ہیں لیکن عیسائی مترجمین نے اپنے بدلے ہوئے عقیدہ کو درست ثابت کرنے کے لئے اس انگریزی لفظ کے معانی میں ’’جی اٹھنے‘‘ کا مفہوم بھی داخل کردیا حالانکہ اس سے پہلے یہ لفظ اس مفہوم کا متحمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔

یہ ثابت کرنے کے بعد مسٹر کُک نے انجیل کی متعلقہ آیات درج کی ہیں۔ انہوں نے متعلقہ آیات درج کرتے وقت بریکٹ میں Raise up کا اصلی لفظی ترجمہ درج کرکے اس امر کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ مسیح کا اصل مطلب کیا تھا۔ ان کی درج کردہ آیات کا متن بریکٹ میں درج کئے ہوئے الفاظ سمیت بمعہ اردو ترجمہ ہم یہاں درج کرتے ہیں:

۱۔ جب یہودیوں نے مسیح سے نشان دکھانے کا مطالبہ کیا تو اس نے انہیں مخاطب ہوکر کہا:


"Destroy this temple, and in three days I will raise it up (literally "awaken it") . . . . . He spoke of his body" (John ii 19,21)


ترجمہ: اس ہیکل کو ڈھا دو اور میں اسے تین دن میں کھڑا کردوں گا (لفظی معنوں کی رو سے اسے ’’بیدار کردوں گا‘‘ ) ۔۔۔ اس نے یہ اپنے بدن کی ہیکل کی بابت کہا تھا۔ (یوحنا باب ۲، آیات ۱۹، ۲۱)

۲۔ جب یسوع مسیح اپنے حواریوں کے ساتھ گلیل نامی شہر میں پھرتا تھا تو اس نے ان سے کہا:


"The son of man is about to be delivered into the hands of men, and they will kill him, and the third day he will be raised (literally "awakened") (Matt. xvii, 22)


ترجمہ: انسان کا بیٹا آدمیوں کے ہاتھوں حوالہ کیا جائے گا اور وہ اسے مار دیں گے اور وہ تیسرے دن جی اٹھے گا (لفظی معنوں کی رو سے ’’وہ بیدار ہو جائے گا‘‘) ۔

(متی باب ۱۷، آیت ۲۲)

(۳) واقعہ صلیب کے بعد دوسرے روز جو تیاری کے بعد کا دن تھا سردار کاہنوں اور فریسیوں نے پیلاطوس کے پاس جمع ہوکر کہا:


"We remember that that deceiver said, while he was yet alive, after three days I am raised [literally, "am awakened"] (Matt xxvii 63)


ترجمہ: ہمیں یاد ہے کہ وہ دغاباز اپنے جیتے جی کہتا تھا کہ میں تین دن کے بعد جی اٹھوں گا [لفظی معنوں کی رو سے ’’میں بیدار ہو جاؤں گا‘‘] ۔ (متی باب ۲۷، آیت ۶۳)

(۴) اسی طرح مرقس نے اپنی انجیل میں لکھا ہے:


"He used to touch his disciples and say to them, the son of man is delivered up into the hands of men, and they will kill him, and though killed, after three days he will raise himself [literally "upstand himself"] But they understood not the saying and were afraid to ask him" (Mark ix-31,32)


ترجمہ: اس نے اپنے شاگردوں کو سکھلایا اور انہیں کہا کہ انسان کا بیٹا آدمیوں کے ہاتھوں میں حوالہ کیا جاتا ہے اور وہ اسے مار دیں گے اور اس طرح مارے جانے کے تیسرے دن وہ جی اٹھے گا [لفظی معنوں کی رو سے ’’خود بخود اٹھ کھڑا ہوگا‘‘] وہ اس بات کو نہ سمجھے اور اس کے پوچھنے سے ڈرے‘‘۔ (مرقس باب ۹۔ آیات ۳۱، ۳۲)

اناجیل کی مندرجہ بالا انگریزی عبارتیں اور ان کے درمیان بریکٹ میں دئے ہوئے توضیحی جملے مسٹر کیننگیل کُک کی مذکورہ کتاب کے صفحہ ۹۵، ۹۶ سے یہاں نقل کئے گئے ہیں۔ مسٹر کُک کی سطور بالا میں بیان کردہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب مسیح نے یہ کہا تھا کہ وہ مرنے کے تین دن بعد بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوگا تو اس میں یہ اشارہ مضمر تھا کہ جب وہ لوگوں کے حوالہ کیا جائے گا اور وہ اسے اپنی دانست میں مار ڈالیں گے تو وہ فی الحقیقت مرے گا نہیں بلکہ اس پر نیند کی طرح کی غشی طاری ہوجائے گی اور وہ تین دن بعد اس غشی سے باہر آکر یا بالفاظ دیگر نیند سے بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوگا۔ جب مسیح خود اپنے قول کے بموجب مرا ہی نہ تھا بلکہ وہ نیند سے بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوا تھا تو اس کے جی اٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی اس بیداری کو اس کی الوہیت کے ثبوت کے طور پر پیش کرنا سراسر بے معنیٰ ہے۔

مسٹر کیننگیل کک کا یہ نظریہ ۔۔۔ کہ جس قدیم یونانی لفظ کا ترجمہ مردوں میں سے جی اٹھنا کیا گیا ہے اس کے لفظی اور اصل معانی بیدار ہوکر اٹھ کھڑے ہونے کے ہیں نہ کہ مر کر جی اٹھنے کے ۔۔۔ ایک اور لحاظ سے بھی درست ثابت ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس نئے حوالہ کی جس سے یہ نظریہ سولہ آنے درست ثابت ہوتا ہے نشاندہی ازمنہ قدیم کی تاریخ اور بالخصوص تاریخ مذاہب قدیم کے برطانوی پروفیسر T. R. Glover کی کتاب "The Conflict of Religions in th Early Roman Empire" (سلطنت روما کے ابتدائی دور میں مذاہب کی آویزش باہمی) سے بھی ہوتی ہے۔ یہ کتاب لندن کے اشاعتی ادارہ Methuen & Co. Ltd. نے پہلی بار ۱۹۰۹ء میں شائع کی تھی اور ۱۹۱۸ء تک اس کے سات ایڈیشن شائع ہوچکے تھے۔ مسٹر گلوور نے اپنی اس کتاب میں ایک بات یہ بھی لکھی کہ ابتدائی صدیوں کے مسیحی ماہرین دینیات نے یہودیوں کو مسیحیت کا قائل کرنے کے لئے اس امر کو بڑی شدومد سے پیش کرنا شروع کیا کہ مسیح کی اپنی زندگی میں جو واقعات بھی پیش آئے ان میں سے ہر واقعہ کی عہد نامہ قدیم میں پہلے سے پیشگوئی موجود ہے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ان سب پیشگوئیوں کا مسیح کی ذات پر چسپاں ہونا اور اس کی حیات میں عملاً پورا ہونا اس کی صداقت کی بیّن دلیل ہے۔ چنانچہ قدیم مسیحی مخطوطات اور کتب کے حوالہ سے انہوں نے اپنی مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر ۱۸۵ پر ایسی پیشگوئیوں کی ایک فہرست بھی درج کی۔ اس میں انہوں نے مسیح کے مر کر جی اٹھنے کی پیشگوئی کے طور پر زبور کے ایک حوالہ کا مفہوم غالباً اپنے الفاظ میں یوں درج کیا:


"I slept and slumbered and I rose up because the Lord laid hold of me". (Ps. 3,5)


اس زبور کا ترجمہ یہ ہے کہ میں سوگیا اور محو خواب ہوا کیونکہ خدا میرا سہارا تھا اور اسی نے مجھے سنبھالا۔ زبور ۳ کی یہ آیت عہدنامہ قدیم کے پرانے نسخوں میں بایں الفاظ مذکور ہے:


I laid me down and slept; I awaked; for the Lord sustained me [Ps. 3, 5]


ترجمہ : میں لیٹ گیا اور سو رہا ، میں جاگ اٹھا کیونکہ خدا نے مجھے سنبھال لیا۔(ترجمہ از ’’ہولی بائبل مطبوعہ کیمبرج یونیورسٹی پریس لندن۔ ۱۸۴۶ء)

لندن کے اشاعتی ادارے Darton, Longman & Todd نے "The New Jerusalem Bible" کے نام سے ۱۹۸۵ء میں بائبل کا جو جدید نسخہ شائع کیا اس میں زبور کی اس آیت کو پیشگوئی کے طور پر ان الفاظ میں درج کیا:


"As for me, if I lie down and sleep, I shall awake for yahweh sustains me." [Ps. 3, 5]


ترجمہ: جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے اگر میں لیٹ جاؤں اور سو جاؤں تو میں جاگ اٹھوں گا کیونکہ مجھے سنبھالنے والا میرا خدا ہے۔

بہرحال زبور کے الفاظ جو بھی ہوں خود مسیحیوں کے اعتقاد کے بموجب عہد نامہ قدیم میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ مسیح پر اونگھ آئے گی اور وہ سو جائے گا اور وہ پھر بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوگا کیونکہ خدا خود اسے سہارا دے کر سنبھال لے گا اور اس کی نیند کو موت میں تبدیل نہیں ہونے دے گا۔ اندریں صورت مسیحی حضرات کا یہ کہنا کس طرح درست تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ مسیح صلیب پر مر گیا تھا اور مرنے کے بعد پھر جی اٹھا تھا۔ زبور کی اس پیشگوئی سے بھی یہ بات دو اور دوچار کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ مسیح فی الحقیقت صلیب پر مرا نہ تھا بلکہ اس پر نیند کی طرح کی غشی طاری ہوگئی تھی جسے رومی سپاہیوں نے موت قرار دے کر مسیح کو صلیب پر سے اتار لیا اور وہ بعد میں اسی طرح اٹھ کھڑا ہوا تھا جس طرح ایک سویا ہوا شخص بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ زبور کی اس پیشگوئی سے بھی جسے مسیحی خود دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح یہ کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ مرنے کے تین دن بعد پھر جی اٹھے گا۔ اس نے تو وہی کچھ کہنا تھا جو خودمسیحیوں کے اپنے اعتقاد کی رو سے پہلے ہی بطور پیشگوئی زبور میں بیان کردیا گیا تھا اور وہ یہی تھا کہ مجھ پر صرف نیند نما غشی طاری ہوگی اور میں بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوں گا۔


*۔۔۔*۔۔۔*

الفضل انٹرنیشنل ۴؍جولائی ۱۹۹۷ء ؁ تا۱۰؍جولائی ۱۹۹۷ء ؁


مکمل تحریر >>

علامہ اقبال کی علمی و سیاسی لغزشیں

علامہ اقبال کی علمی و سیاسی لغزشیں


شیخ عبدالماجد، لاہور

سراقبال ، مذہب اسلام میں الحاق و آمیزش کے بارے میں فرماتے ہیں:

۱۔۔۔ موبدانہ تخیل (قبل از اسلام زرتشتی ، یہودی، نصرانی اور صابی تخیل) مسلمانوں کی دینیات ، فلسفہ اور تصوف کے رگ و پے میں سرایت کئے ہوئے ہے ‘‘۔(اقبال کا مضمون ۔ قادیانی اور جمہور مسلمان۔ ۱۴؍مئی ۱۹۳۵؁ء)

۲۔۔۔ ’’اسلام، مذہبی اور ذہنی واردات کے حوالے سے نئی راہ پیدا کرناچاہتاتھا لیکن ہماری مغانہ وراثت نے اسلام کی زندگی کو کچل ڈالا اور اسلام کی روح و مقاصد کو ابھرنے کا کبھی موقع نہ دیا‘‘۔

۳۔۔۔اسلام کی ظاہری و باطنی تاریخ میں ایرانی عنصر کو بہت زیادہ دخل حاصل ہے‘‘۔(دین شا۔ پارسی کے جواب میں)

۴۔۔۔پھر فرماتے ہیں:

’’مذہب اسلام پر قرون اولیٰ سے ہی مجوسیت اور یہودیت غالب آ گئی۔ میری رائے ناقص میں اسلام آج تک بے نقاب نہیں ہوا‘‘۔(خط بنام راغب احسن’’جہان دیگر‘‘ صفحہ ۸۹۔ خط ۱۱؍دسمبر ۱۹۳۴؁ء)

راقم عرض کرتاہے کہ زمانے کی گمراہیوں ، مفاسد کے وسیع تر پھیلاؤ اورمذہب اسلام میں زبردست الحاق و آمیزش کے پیش نظر اقبال، اصلاح احوال کی طرف سے مایوس تھے۔ اس مایوسی کا انداز ہ ان کے درج ذیل تاثر سے بھی لگایا جا سکتاہے۔ لکھتے ہیں:

’’مجھے یقین ہے کہ اگرنبی کریم ؐ بھی دوبارہ زندہ ہوکراس ملک میں اسلام کی تعلیم دیں توغالباً اس ملک کے لوگ اپنی موجودہ کیفیت اوراثرات کے ہوتے ہوئے ’’حقائق اسلامیہ‘‘ نہ سمجھ سکیں‘‘۔(مکاتیب اقبال بنام خان نیازالدین صفحہ ۷۳۔ شائع کردہ اقبال اکادمی)
علامہ نے اپنے علی گڑھ لیکچر ’’ملت بیضا پر عمرانی نظر‘‘ میں ہندوستان میں اسلامی و قومی سیرت کی نشوونما کے مختلف اسلوب کی تاریخ بیان کی ہے ۔ اس ضمن میں آپ نے وسیع بنیادوں پرایسی ’’اسلامی جماعت‘‘ معرض وجود میں لانے کی تمنا ظاہر کی ہے جو ان تمام عناصر کی آمیزش سے اپنے وجود کوکمال احتیاط کے ساتھ پاک کردے جو اس کی روایات مسلمہ اور قوانین منضبطہ کے منافی ہوں۔

We must produce a type of character which at all costs holds fast to its own, ......it carefully excluded from its life all that is hostile to its cherished traditions & institutions.
علامہ کی نظروں میں پنجاب میں ایک ایسی ’’اسلامی جماعت‘‘ موجود تھی جسے تقلید کیلئے مسلمانان ہند کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا جا سکتاہے۔ یعنی جس نے کمال احتیاط کے ساتھ ہر نوع کی غیراسلامی روایات و عناصر سے اپنے وجود کو پاک کر رکھا تھا۔

علامہ سمجھتے تھے کہ ان کا علی گڑھ لیکچر تشنہ رہے گااگراس ’’اسلامی جماعت‘‘ کی نشاندہی نہ کردی جائے ۔ چنانچہ اگلی سطور میں علامہ اس کایوں اظہار کرتے ہیں:

’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ا س جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں‘‘۔
( لیکچرملت بیضا پر عمرانی نظر ۔ ۱۹۱۰؁ء)

A carefull observation of the Muslim community in India reveals the point on which the various lines of moral experience of the community are now tending to converge. In the Punjab the essentially Muslim type of character has found a powerful expression in the so-called Qadiyani sect.
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی وفات ۱۹۰۸؁ء میں ہوئی تھی۔ یہ لیکچر اس کے دو سال بعد کاہے۔

علامہ اقبال کی علمی لغزش


اگر علامہ کامطلب یہ ہے کہ لوگوں کو حقائق اسلامیہ سمجھانے اور اسلامی سیرت کے ٹھیٹھ نمونہ کی حامل جماعت پیدا کرنے کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ، حضرت مرزا صاحب سے کسی طرح کم تر مرتبہ رکھتے ہیں تویہ علامہ کی ایک بڑی لغزش ہے اور اس معاملہ میں جماعت احمدیہ ان کی ہمنوائی نہیں کر سکتی۔

حضرت بانی سلسلہ احمدیہؑ کی نظرمیں آنحضرت ﷺ کا مقام و مرتبہ کیاہے ؟ آپ کی قوت قدسیہ کے طفیل اصلاح عالم کا جو عظیم الشان کام ہوا، وہ کس درجہ بلند ہے؟ مناسب ہوگا یہاں دو ایک حوالے آپ کے ارشادات میں سے درج کر دئے جائیں ۔

حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ اگر ا س جگہ یہ استفسار ہو کہ اگریہ درجہ اس عاجز اور مسیح کے لئے مسلم ہے تو پھر جناب سید ناو مولانا سیدالکل و افضل الرسل خاتم النبیین محمد مصطفی ﷺ کے لئے کون سادرجہ باقی ہے؟ سو واضح ہو کہ وہ ایک اعلیٰ مقام ا ور برتر مرتبہ ہے جو اسی ذات کامل الصفات پرختم ہو گیا ہے جس کی کیفیت کو پہنچنا بھی کسی دوسرے کاکا م نہیں چہ جائیکہ وہ کسی اورکو حاصل ہو سکے ۔۔۔‘‘۔ (توضیح مرام روحانی خزائن جلد نمبر۳ مطبوعہ لندن صفحہ۶۲)
پھر فرماتے ہیں:

’’ میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللّٰہ ﷺ کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گزر چکے تھے سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ ﷺ نے کی، ہرگز نہ کر سکتے ‘‘۔(ملفوظات جلد دوئم مطبوعہ لندن صفحہ ۱۷۴)

علامہ اقبال کی دوسری علمی لغزش


ہمیں حیرت ہے کہ چالیس سال تک احمدیوں سے رشتۂ موانست قائم رکھنے کے بعد جب عمر کے آخری تین سالوں میں علامہ اقبال نے اپنے تئیں تعصب کی قباؤں میں لپیٹ کر احمدیوں کے خلاف محاذآرائی شروع کی تو آپ پرایکا ایکی درج ذیل قسم کے انکشافات ہونے لگے۔

*۔۔۔آپ کو تحریک احمدیہ میں سامی اور آریائی تصوف کی عجیب و غریب آمیزش دکھائی دینے لگی۔

(A strange mixture of Sometic and Aryan mysticism).
*۔۔۔آپ کو تحریک احمدیہ ، اسلام کے رخساروں پر زردی کی صورت میں نظرآنے لگی۔

(Pallor of Ahmadism on the cheeks of Indian Islam)
*۔۔۔آپ نے انکشاف کیا کہ جو لوگ تحریک احمدیہ کا شکار ہوئے ہیں ان کی روحانیت فنا ہو چکی ہے ۔

(Destroyed the sipritual virility.)
*۔۔۔ آپ نے پنڈت نہرو کو یہ بھی لکھ دیا کہ تحریک احمدیہ کے ڈرامے میں حصہ لینے والے ایکٹر انحطاط کے ہاتھوں محض کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔

(Innocent instruments in the hands ofdecadents).
(پنڈت نہرو کے سوالات کے جواب میں ۔ مضمون جنوری ۱۹۳۶؁ء)

نیز پنڈت جی کو ایک علیحدہ خط کے ذریعہ لکھاکہ احمدی ، اسلام کے غدار(Traitors) ہیں۔

اس تعصب کو ذاتی و سیاسی وجوہ نے جنم دیا تھا ۔ تعصب ایک ایسی بلا ہے جو غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط کہنے پر اکساتی ہے۔ تحریک احمدیہ میں کیڑے نکالنے کے سلسلے میں اقبال کے ہاں یہی تصویر ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ دین کے معاملہ میں ہر ایک کو تعصب سے محفوظ رکھے ۔ سراقبال ہی کا کہناہے ؂

لاکھ اقوام کو دنیا میں اجاڑا اس نے
یہ تعصب کو مگر گھر کا دیا کہتے ہیں

(علامہ اقبال کی طرف سے متعصب علماء کی دربار نبویؐ میں شکایت ۔ نظم ابرگوہر بار)

( بعض اخبارا ت، سراقبال کے احمدیوں کے ساتھ چالیس سالہ رشتہ ٔ موانست کا ذکر کئے بغیر صرف تین سال کی ’’مخالفت احمدیت‘‘ کو اچھال کر وطن عزیز میں اشتعال کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔مثلاً دیکھئے روزنامہ ’’لشکر‘‘ ۷؍جون ۱۹۹۸؁ء اور ’’اوصاف‘‘ راولپنڈی ۷؍جون ۱۹۹۸؁ء ۔ مگر وہ اس حقیقت کو پردہ ٔ اخفاء میں رکھتے ہیں کہ مخالفت کا یہ دور کب شروع ہوا۔ کتنے عرصہ تک جاری رہا۔ اس کی وجوہات کیا تھیں۔ اگلی سطور میں ہم مخالفت کی ایک وجہ کی نشاندہی کررہے ہیں)۔

سر اقبال کی سیاسی لغزش


۱۹۳۵؁ء میں احمدیت کے خلاف سر اقبال کے بیانات میں جو شدت اور تلخی در آئی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت برطانیہ نے وائسرائے کونسل ہند کے ممبر سر فضل حسین کی میعاد رکنیت ختم ہونے پر ان کی جگہ سر اقبا ل کو متعین کرنے کی بجائے سر ظفراللہ خان کاتقرر کر دیا۔ یہ تقرر خالصتاً سر ظفراللہ خان کی محنت ، دیانت، خلوص ، حسن تدبر اور آپ کی سابقہ عمدہ کارکردگی کی وجہ سے ہوا تھا اس میں جماعت احمدیہ کا کوئی دخل نہیں تھا۔ یہ تقرر ’’زمیندار‘‘ ، کانگرس، احرار وغیرہ کے لئے سوہان روح بناہوا تھا ۔ کیونکہ چوہدری صاحب مسلم حقوق کے لئے شمشیر برہنہ تھے مگر افسوس یہ تقرر سر اقبال کی طرف سے احمدیوں کی مخالفت کا ایک اہم اور فوری سبب بن گیا جسے بیان کرنے میں بہت بخل سے کام لیا جاتاہے۔ چوہدری صاحب نے مئی ۱۹۳۵؁ء میں اپنے عہدے کا چارج لے لیا۔ ادھر مئی ۱۹۳۵؁ء میں ہی سراقبال کااحمدیوں کے خلاف پہلا مضمون شائع ہوا جس کے ضمیمہ میں عیسائی حکومت کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ استحکام اسلام کے لئے احمدیوں کو اقلیت قرار دے دے۔ اس مطالبہ کے بانی مبانی دراصل احرار تھے اور احرار کے متعلق فرزند اقبال جناب ڈاکٹر جسٹس (ر) جاوید اقبال کی تحقیق یہ ہے :

’’مجلس احرار خلافت کمیٹی کی کوکھ سے نکلی تھی اوریہ جماعت کانگرس کی ہمنوا تھی‘‘۔(زندہ رود صفحہ ۵۸۹)
فرزند اقبال نے احرار کے ساتھ سر اقبال کے رابطے پر بھی روشنی ڈالی ہے اور دبے الفاظ میں تسلیم کیاہے کہ علامہ کامیلان اور تعلق احرار ٹولے کی طرف ہو چکا تھا۔ فرماتے ہیں :

’’جب اقبال کشمیر کمیٹی میں احمدیوں سے مایوس ہوئے تو عین ممکن ہے احراریوں نے اقبال سے مفاہمت کرنے کی کوشش کی ہو‘‘۔(زندہ رود صفحہ ۵۸۹)
پھر لکھتے ہیں:

’’کشمیر کمیٹی کے دوران ممکن ہے اقبال نے احراری رہنماؤں سے مفاہمت کرنے کے بعد ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہو‘‘۔(ایضاً)
واضح رہے جب تک سراقبال نے احمدیوں کے ساتھ بھائی چارے اور مؤانست کارشتہ قائم رکھا ، آپ کی سیاست مسلم اتحاد و یگانگت کے جذبہ سے عبارت رہی ۔بدقسمتی سے جب یہ صورت برقرار نہ رہی تو سیاست اقبال کی یہ خوبی دھندلی نظر آنے لگی ۔چنانچہ سر فضل حسین ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’اقبال اور بعض دیگر مسلم لیڈر اپنے سیاسی اغراض کے حصول کی خاطر مسلمانوں میں مذہبی فرقہ پرستی کو ہوا دے رہے ہیں‘‘۔( سرفضل حسین کے انگریزی خطوط مرتبہ وحید احمد صفحہ ۶۹۵)
( نوٹ: سر فضل حسین اپنی مخلصانہ کاوشوں کے سبب مسلمانوں کے ’’اورنگ زیب‘‘ مشہور تھے۔)

ایک اور مکتوب میں سر فضل حسین انکشاف فرماتے ہیں:

’’اقبال مسلمانوں کے اتحاد اور یک جہتی کو اندر سے توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ ( سرفضل حسین کے انگریزی خطوط مرتبہ وحید احمد )
پنجاب کی ۱۷۵نشستوں میں سے مسلم نشستیں ۸۹ تھیں ۔اقلیتوں کے لئے خصوصی مراعات کے پیش نظر احمدیوں کو الگ اقلیت قرار دے دیا جاتا تو انہیں ایک نشست تو ملنی تھی۔ اگر صرف ایک کا اور اضافہ ہو جاتا تو مسلم نشستیں ۸۷ رہ جاتیں اور غیر مسلم سیٹیں ۸۸ ہو جاتیں۔ مسلم اکثریت ، اقلیت میں بدل جاتی ۔ یہی کانگریس اور احرار کی تمنا تھی ۔ سراقبال کی یہ بھی ایک بڑی لغزش تھی کہ انہوں نے اپنا وزن احرارکے پلڑے میں ڈال دیا۔ یہ تو اللہ تعالی ٰ کا فضل ہوا کہ علامہ کا مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا اور اس وقت پنجاب کی مسلم سیاست تباہ ہونے سے بچ گئی۔

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل۲۳؍اپریل۱۹۹۹ء تا۲۹؍اپریل ۱۹۹۹ء)
مکمل تحریر >>