Thursday 1 October 2015

احمدی کا مبارک امتیازی نام


احمدی کا مبارک امتیازی نام



اور سیاسی ملاؤں کی ایک حیرت انگیز نئی قلابازی (دوست محمد شاہد ۔ مؤرخ احمدیت)

اے عزیزو اس قدر کیوں ہو گئے تم بے حیا

کلمہ گو ہو کچھ تو لازم ہے تمہیں خوفِ خدا


انیسویں صدی کے آخری سال کا واقعہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے ۴؍نومبر ۱۹۰۰ء کو اشتہار دیا کہ ملک میں مردم شماری ہونے والی ہے جس میں ہر فرقہ اپنے لئے جو نام پسند کرتا ہے وہی نام سرکاری کاغذات میں لکھوائے گا۔ اس وقت تک پنجاب اور ہندوستان میں تیس ہزار مخلصین شامل ہوچکے تھے اس لئے حضرت اقدس علیہ السلام نے اس اشتہار میں اعلان فرمایا:


’’و ہ نام جو اس سلسلہ کے لئے موزوں ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلمان فرقہ احمدیہ ہے اور جائز ہے کہ احمدی مذہب کے مسلمان کے نام سے بھی پکاریں۔‘‘


اس نام کا پس منظر یہ بیان فرمایا کہ


’’ہمارے نبی ﷺ کے دو نام تھے ایک محمدﷺ اور ایک احمدﷺ۔۔۔ اسم محمد جلالی نام تھا۔۔۔ لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت ﷺ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے ۔۔۔ اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ رکھا جائے تا اس نام کو سنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے‘‘۔ (’اشتہار واجب الاظہار‘ بحوالہ مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعودؑ حصہ سوم صفحہ ۳۵۶۔۳۶۶)


۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کو دہلی میں ایک صاحب نے حضرت اقدسؑ سے عرض کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے، آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا ہے؟ یہ بات ھو سمّٰکم المسلمین (الحج:۷۹) کے برخلاف ہے۔ اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا:


’’اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے ۔ لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آ چکا ہے اسلام کے تہتر فرقے ہوگئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ انہی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہؓ کو سّب و شتم کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے ازواجِ مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں۔ اولیاء اللہ کو برا کہتے ہیں۔ پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔ خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہتے ہیں اور پھر بھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔ بلادِ شام میں ایک فرقہ یزیدیہ ہے جو امام حسینؓ پر تبرّہ بازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ اسی مصیبت کو دیکھ کر سلف صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی ، حنبلی وغیرہ تجویز کئے۔ آجکل نیچریوں کا ایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت ، دوزخ، وحی، ملائک سب باتوں کا منکر ہے یہاں تک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم ﷺ کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سن کر یہ قصے لکھ دیئے ہیں۔ غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے لئے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا‘‘۔


مزید ارشاد فرمایا:


’’ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے۔ اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو۔ خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔ بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہوسکتی۔ امام شافعیؒ اور حنبلؒ وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہو گئی تھیں۔ اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی۔ ہزارہا گندے آدمی ملے جلے رہتے۔ یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چاردیواری کے تھے۔ اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہو جاتا کہ بدعتی اور غیربدعتی میں تمیز نہ ہوسکتی۔ اب بھی ایسا زمانہ آگیا ہے کہ گھر گھر ایک مذہب ہے۔ ہم کو مسلمان ہونے سے انکار نہیں، مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھا گیا ہے۔‘‘


نیز فرمایا:


’’جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں، ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں۔ میں کوئی بدعت نہیں لایا۔ جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے ایسا ہی احمدی بھی نام ہے بلکہ احمد کے نام میں اسلام کے بانی احمد ﷺ کے ساتھ اتصال ہے اور یہ اتصال دوسرے ناموں میں نہیں۔ احمد، آنحضرت ﷺ کا نام ہے۔اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے۔ حدیث شریف میں محمدی رکھا گیا ہے۔ بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوتا ہے۔ احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے۔ آج کل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اول آخر کبھی نہیں ہوا۔ اس واسطے کوئی نام ضروری تھا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو مسلمان ہیں، وہ احمدی ہیں۔‘‘ (بدر ۳؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲۔۴، بحوالہ ملفوظات حضرت مسیح موعود ؑ جلد ۴ صفحہ ۵۰۰۔۵۰۲ جدید ایڈیشن)


خدا تعالیٰ نے اس مبارک نام کو قبولیت کا ایسا عالمی شرف بخشا ہے کہ حیرت آتی ہے۔ مصر سے دائرۃ المعارف الاسلامیہ کے نام سے ضخیم انسائیکلوپیڈیا شائع ہوئی ہے جس میں الاحمدیہ ہی کے زیر عنوان بہت قیمتی نوٹ چھپا ہے۔ علاوہ ازیں مجلتہ الازھر شعبان ۱۳۷۸ھ (فروری ۱۹۵۹ء) میں مدیر مذہبیات الدکتور محمد عبداللہ کے قلم سے جماعت احمدیہ کے جرمن قرآن پر تبصرہ کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا گیا ہے ’’نشرت ھذہ الترجمہ البعثۃ الاحمدیہ‘‘۔

پاکستان میں ’’اردو انسائیکلوپیڈیا‘‘ ، ’’اردو جامع انسائیکلوپیڈیا‘‘ اور ’’شاہکار انسائیکلوپیڈیا‘‘ بالترتیب فیروز سنز لاہور، غلام علی اینڈ سنز لاہور اور شاہکار بک فاؤنڈیشن کراچی کی طرف سے منظر عام پر آ چکے ہیں ان سب میں احمدی نام موجود ہے۔ حضرت قائد اعظم کی پریس ریلیز اخبار ڈان (DAWN) کی ۸ اکتوبر ۱۹۴۵ء کی اشاعت میں درج ذیل الفاظ میں چھپی:

"Ahmadiyya Community to support Muslim League"

ڈاکٹر سر محمد اقبال نے لکھا ’’جہاں تک میں نے اس تحریک کے منشا کو سمجھا ہے احمدیوں کا اعتقاد ہے کہ مسیح کی موت ایک عام فانی انسان کی موت تھی‘‘ (’اقبال اور احمدیت صفحہ ۹۰ مرتبہ بشیر احمد ڈار ناشر آئینہ ادب چوک مینار انارکلی لاہور)

پاکستان کے محقق و مؤرخ شیخ محمد اکرام صاحب ایم۔اے نے ’’موجِ کوثر‘‘ میں، جسٹس منیر اور جسٹس کیانی نے ’’رپورٹ تحقیقاتی عدالت‘‘ میں۔ جناب اصغر علی گھرال صاحب ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور نے اپنی کتاب ’’اسلام یا ملاّ ازم‘‘ میں بے دریغ احمدی ہی کا نام استعمال کیا ہے۔

پاکستانی پریس قیام پاکستان سے لے کر آج تک بے شمار مرتبہ یہ مبارک نام استعمال کرچکا ہے مثلاً’’ پاکستان ٹائمز‘‘ (۱۳؍نومبر ۱۹۸۰ء)،’’ مشرق‘‘ (۳۰ جون ۱۹۷۴ء) ’’نوائے وقت‘‘ (۱۲ ؍اپریل ۱۹۶۰ء)، ہفت روزہ ’’رضاکار ‘‘لاہور (۲۴ مئی ۱۹۷۳ء)۔

احمدیت کے مخالف لٹریچر میں بھی مدت سے احمدی نام کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ جناب ملک محمد جعفر خان نے احمدیت کی مخالفت میں جو کتاب لکھی ہے اس کا نام ہی ’’احمدیہ تحریک‘‘ رکھا ہے۔

مفکر احرار چوہدری افضل حق نے ’’فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیوں‘‘ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کو زبردست خراج تحسین ادا کرتے ہوئے انہیں احمدی کے ہی نام سے یاد کیا ہے۔ مولوی ظفر علی خان مدیر ’’زمیندار‘‘ نے ۱۹؍مارچ ۱۹۳۶ء کو تقریر کرتے ہوئے کہا کہ:

’’احمدیوں کی مخالفت کا احرار نے محض جلب زر کے لئے ڈھونگ رچا رکھا ہے۔‘‘ (تحریک مسجد شہید گنج صفحہ ۱۶۹۔ مؤلفہ جانباز مرزا)

نامور اہل حدیث عالم میر ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے ’’پیغام ہدایت در تائید پاکستان و مسلم لیگ‘‘ کے صفحہ ۱۱۲، ۱۱۳ پر کئی بار احمدی کا لفظ استعمال کیا۔ نیز لکھا:

’’احمدیوں کا اس اسلامی جھنڈے (تحریک پاکستان مراد ہے۔ ناقل) کے نیچے آ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔‘‘

’’اور اس امر کا اقرار کہ احمدی اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہیں ، مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی ہے‘‘

یہ حیرت انگیز واقعہ مجسٹریٹ درجہ اول کوئٹہ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے کہ نام نہاد ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے مولوی تاج محمد صاحب نے ۲۱؍دسمبر ۱۹۸۵ء کو بیان دیا کہ:

’’ یہ درست ہے کہ حضور رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جو آدمی نماز پڑھتا تھا، اذان دیتا تھا یا کلمہ پڑھتا تھا اس کے ساتھ مشرک یہی سلوک کرتے تھے جو اب ہم احمدیوں سے کر رہے ہیں۔‘‘

غرضیکہ کہاں تک بیان کیا جائے احمدی کا مبارک نام عرب و عجم اور احمدی اور غیر احمدی حلقوں میں قریباً ایک صدی سے استعمال ہو رہا ہے اور جماعت احمدیہ کی دائمی پہچان اور شناخت بن چکا ہے۔ اس ضمن میں قارئین الفضل کو یہ چونکا دینے والا انکشاف یقیناً ورطہ حیرت میں ڈال دے گا کہ سیاسی ملاؤں نے ۱۹۵۲ء کی ایجی ٹیشن کے دوران یہ فتوی دیا کہ:

’’مرزائی چونکہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی بجائے احمدی کہلاتے ہیں ۔۔۔ لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دے۔‘‘ (احراری اخبار ’’آزاد‘‘ لاہور ۱۱؍ستمبر ۱۹۵۲ء صفحہ۹ کالم ۲، مطالبہ نمبر)

اس ضمن میں مولوی عبدالحامد بدایونی صاحب نے ۹ جولائی ۱۹۵۲ء کو مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی کے زیر عنوان آرام باغ میں جو تقریر کی اس کا خلاصہ اخبار ‘‘آزاد‘‘ ۱۳؍جولائی ۱۹۵۲ء نے صفحہ نمبرایک پر پہلی سطر میں نہایت درجہ جلی قلم سے حسب ذیل الفاظ میں شائع کیا:

’’مرزائی اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی بجائے احمدی کہلاتے ہیں ان کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔

نیز رپورٹ میں مزید لکھا کہ:

’’آپ نے اس تجویز کو پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی دلیل یہ ہے کہ مرزائیوں نے اپنے آپ کو کبھی مسلمان نہیں کہلایا وہ خود اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔‘‘ (صفحہ۱ کالم۲)

اب ان سیاسی ملاؤں کی حالیہ قلابازی ملاحظہ ہو کہ پچھلے دنوں پاکستان کی نگران حکومت نے جب یہ شوشہ چھوڑا کہ پاکستانی سفارتخانوں کو یہ ہدایت کی جا رہی ہے کہ پاسپورٹوں میں قادیانی کی بجائے احمدی کا لفظ استعمال کیا جائے تو پاکستان کے علاوہ برطانیہ میں مقیم سیاسی ملاؤں نے بھی ایک زبردست ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اس ضمن میں روزنامہ جنگ لندن ۱۴ جنوری ۱۹۹۷ء نے صفحہ۷ پر ایک مفصل رپورٹ شائع کی جس کی دوہری سرخی یہ تھی:

’’قادیانیوں کو احمدی لکھنے کے فیصلے پر برطانیہ بھر کے علماء کا احتجاج۔نگران حکومت نے فیصلہ واپس نہ لیا تو مسلمان میدان میں آنے پر مجبور ہوں گے۔ دینی رہنماؤں کا ردّعمل‘‘

ازاں بعد لندن کے اخبار ’’دی نیشن‘‘ ۲۴ تا ۳۰؍ جنوری ۱۹۹۷ء کے صفحہ۵ پر لندن کی مرکزی جماعت اہل سنت کی اپیل پر ’’یوم تاجدار ختم نبوت‘‘ منائے جانے کی خبر اشاعت پذیر ہوئی جس میں کہا گیا کہ:

’’قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو پھر انہیں شعائر اسلام استعمال کرنے کی اجازت دینا تعلیمات مصطفوی سے انحراف ہے۔‘‘

بالفاظ دیگر ’’احمدی‘‘ کا نام شعائر اسلام میں سے ہے اس لئے جماعت احمدیہ کے لئے اس کا استعمال تعلیمات مصطفوی سے انحراف کے مترادف ہے۔ حالانکہ ایک صدی سے خود ان حضرات کے اکابر و اصاغر یہ نام استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر امت مسلمہ ’’یوم تاجدار ختم نبوت‘‘ منانے والے سیاسی ملاؤں اور طالع آزماؤں سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ اعلان کریں کہ جماعت کے لئے احمدی کا لفظ استعمال کرنے والوں کو کیا تعلیمات مصطفوی سے منحرف اور باغی قرار دیتے ہیں؟؟ علامہ شبلی نعمانی نے کیا خوب کہا تھا


کرتے ہیں مسلمانوں کی تکفیر شب و روز

بیٹھے ہوئے کچھ ہم بھی تو بیکار نہیں ہیں


پاکستان کے فاضل ادیب و کالم نویس جناب عنایت حسین صاحب بھٹی نے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور (۲۰ جنوری ۱۹۹۷ء) میں سیاسی ملاؤں کے اس طرز عمل پر ایک نہایت دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:

’’مولوی صاحبان نے احتساب کرانے کا بیڑہ اٹھایا تھا اور الیکشن سے لاتعلقی کا اعلان فرمایا۔ وہ احمدی اور قادیانی مسئلہ میں الجھ گئے یا الجھا دیئے گئے اور حسب سابق پٹڑی سے اتر گئے۔ لیکن مولوی حضرات سے ایک سوال کرنے کی جرأت کروں گا کہ قادیانی سوائے پاکستان کے پوری دنیا میں احمدی کہلاتے ہیں۔ پورے افریقہ میں ان کے مشن ہیں جو لوگوں کو تبلیغ کرکے ان کے مذاہب تبدل کرکے ان کو احمد کا نام دیتے ہیں۔ پورے یورپ اور دیگر ممالک میں وہ احمدی کہلاتے ہیں حتیٰ کہ بھارت میں بھی ان کو احمدی کہا جاتا ہے۔ مگر صرف پاکستان میں احمدی نہ کہا گیا تو کیا فرق پڑے گا۔ یہاں ایک لطیفہ سنئے کہ فیصل آباد کے گھنٹہ گھر پر ایک سکھ چڑھ گیا اور بارہ بجنے میں پانچ منٹ پر اس نے گھڑیال کا پنڈولم پکڑ لیا اور کہنے لگا اب میں زیادہ نہیں بجنے دوں گا۔ لوگ ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ سردار جی جب ساری دنیا کی گھڑیوں پر بارہ بج جائیں گے تو اگر ایک گھڑیال میں نہ بجے تو کیا فرق پڑے گا۔ مولوی حضرات سے گزارش ہے کہ قرآن میں ارشاد پروردگار ہے لا اکراہ فی الدین دین میں جبر نہیں، آپ سیاست کو چھوڑ کر دین کی تبلیغ کیوں نہیں کرتے۔ لوگوں کو دلائل سے قائل کیجئے کہ صحیح اسلام کیا ہے، دنیا میں اپنے تبلیغی مشن بھیجیں تاکہ لوگ صحیح دین سے متعارف ہوں، ڈنڈے سے کام تو وہ لیتا ہے جس کے پاس دلائل نہ ہوں۔‘‘




(الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍مئی ۱۹۹۷ء تا ۵؍جون ۱۹۹۷ء)
مکمل تحریر >>

Monday 28 September 2015

قومی اسمبلی 1974کی کا روائی پر تبصرہ


قومی اسمبلی 1974کی کا روائی پر تبصرہ


کتاب کا تعارف

          ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صا حب نے ایک مؤرخ کی حیثیت سے 1974ء سے قبل کے حالات اور قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی کارگزاری کا جائزہ لیا ہے۔ بحیثیت مؤرخ واقعات کی جستجو اور پڑتال کی غرض سے اس دور کی بعض سرکردہ شخصیات سے ملاقات کرکے ان کے انٹرویو بھی لئے۔
        قومی اسمبلی کی کارروائی خفیہ قرار دی گئی تھی۔ اب قریباً چار دہائیوں کے بعد قومی اسمبلی کی سپیکر محترمہ فہمیدہ مرزا صا حبہ کی زیر ہدایت اس سے پردہ اخفا اٹھالیا گیا ہے اور پابندی ختم کردی گئی ہے اور کارروائی سرکاری طور پر شائع بھی کردی گئی ہے مگر یہ کارروائی بالعموم دستیاب نہیں۔
        پاکستان کی نئی نسل اور علمی حلقوں میں اس کارروائی کے بارہ میں گہری دلچسپی پائی جاتی ہے اور بین الاقوامی سطح پر محققین بھی یہ جاننے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں کہ خصوصی کمیٹی کی کارروائی میں اسمبلی کے سامنے معاملہ کس رنگ میں زیر بحث لایا گیا ، اسمبلی کے آئینی اختیارات کیا تھے، جماعت احمدیہ کا مؤقف کیا تھا، امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب پر جو جرح کی گئی اس کا اثر اور ماحصل کیا تھا، قومی اسمبلی اس معاملے سے کس انداز سے نبرد آزما ہوئی اور کہاں تک اس نازک ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوسکی۔
         دریں اثنا مذکورہ واقعات کے بارہ میں ایک مؤرخ کا بیان قارئین کی خدمت میں ”خصوصی کمیٹی میں کیاگزری … تاریخ کا ایک باب“ کے عنوان سے پیش ہے۔ اس میں 7/ ستمبر 1974ء کی منظور کردہ آئینی ترمیم اور قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی کارگزاری اور پس منظر اور پیش منظر بیان کئے گئے ہیں جو قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوں گے۔

مضمون وار کتاب پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

مکمل کتا ب پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں


مکمل تحریر >>

حضرت مسیح ناصری کی آمد ثانی

حضرت مسیح ناصری کی آمد ثانی


سید احمد علی۔ نائب ناظر اصلاح و ارشاد۔ ربوہ

کامل شریعت قرآن کریم نے یہود و نصاری کے غلط عقائد کی طرف پرزور دلائل سے توجہ دلائی ہے۔ مثلاً یہ کہ جناب مسیح صلیب پر ہرگز نہ مرے تھے کہ ان کو جھوٹا اور لعنتی کہہ کر رد کر دیا جائے۔ اور نہ وہ زندہ ہو کر آسمان پر گئے اور نہ جسم عنصری کے ساتھ زمین کی طرف واپس آئیں گے کیونکہ حضرت مسیح نے واضح کر دیا تھا کہ : ’’آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سو ا اس کے جو آسمان سے اترا یعنی ابن آدم جو آسمان میں ہے‘‘۔(یوحنا باب ۳ آیت ۱۳)

اور فرمایا کہ:’’ میں آسمان سے اترا ہوں‘‘(یوحنا باب ۶ آیت ۳۸)

’’ ہمارا وطن آسمان میں ہے‘‘۔(فلپی باب ۳ آیت ۲۰)

ان بیانات میں حضرت مسیح اپنا اترنا آسمان سے اور چڑھنا اور پھر آسمان میں ہونے کا تمثیلی طورپر اظہار کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کے پیارے اور پاک لوگ ہر وقت آسمانی باتیں کرتے ہیں اور آسمان پرہوتے ہیں جیسا کہ (فلپی باب ۳ آیت ۲۰) کا بیان پڑھ چکے ہیں اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود

علیہ السلام بھی انہیں معنوں میں فرماتے ہیں ؂

ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیا کریں
آسماں پر رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار

پس جناب مسیح ناصریؑ نہ تو اس خاکی جسم کے ساتھ آسمان پرگئے اور نہ دوبارہ زمین پر آنے والے ہیں کیونکہ انجیل ’’متی‘‘ اور’’ یوحنا‘‘ جو ’’ رسول‘‘ کہلاتے ہیں (متی باب ۱۰ آیت ۲ اور ۳) اور حواری اور موقع کے گواہ تھے ان دونوں نے آسمان پر جانے کا قطعاً ذکر نہیں کیا۔ ہاں ’’مرقس ‘‘اور ’’لوقا ‘‘نے ذکر کیا ہے مگر یہ دونوں نہ حواری ، نہ رسول اور نہ موقع کے گواہ تھے ۔ان کا بیان حواریوں کے مقابلہ میں قطعاً قابل توجہ اور لائق قبول نہیں اور انہوں نے بھی لوگوں سے باتیں ’’دریافت‘‘ کرکے لکھی ہیں(لوقا باب ۱ آیت۳)249 نہ کہ کسی الہام سے ۔ اسی لئے امریکہ سے جو اب نئی بائبل (ریوائزڈ سٹینڈرڈ ورشن) نام سے شائع ہوئی ہے اس میں ’’مرقس‘‘ اور ’’ لوقا‘‘ کے آسمان پر جانے کے مضمون کو پرانی اناجیل کے خلاف اور الحاقی ہونے کی وجہ سے اس نئی بائبل سے بالکل خارج کر دیا ہے اور اب کسی بھی انجیل میں مسیح کے آسمان پر جانے کا کوئی ثبوت نہیں۔

دراصل مسیح کا آسمان پرجانا اورآنا تمثیلی کلام ہے (جیساکہ یوحنا باب ۳ آیت ۱۳ اور باب ۶ آیت ۳۸ ، فلپی باب ۳ آیت ۲۰ سے عیاں ہے) اورجو ٹھیک حضرت ایلیاہ نبی کی طرح کا ہے جن کے متعلق لکھا ہے کہ ’’ایلیاہ بگولے میں ہوکر آسمان پر جاتا رہا‘‘ (۲۔ سلاطین باب ۲

آیت ۱۱) اور پھر آسمان سے واپس آنے کی بھی یہ پیشگوئی تھی کہ:

’’ دیکھو خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیاہ نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا‘‘۔(ملاکی باب ۴ آیت ۵)

ان واضح پیش خبریوں کی بنا پر یہودی حضرت ایلیاہ نبی کی مسیح سے پہلے آمد کے شدت سے منتظر تھے مگر حضرت مسیحؑ نے اس مسئلہ کاحل یوں فرمایا کہ

’’ ایلیاہ کی روح اور قوت میں‘‘ (لوقا باب ۱ آیت ۱۷) اس کا مثیل بن کر کسی اور وجود کا آنا مراد ہے جیسا کہ لکھا ہے:

’’شاگردوں نے اس سے پوچھا کہ پھر فقیہ کیوں کہتے ہیں کہ ایلیاہ کا پہلے آنا ضروری ہے ۔ اس نے جواب میں کہا کہ ایلیاہ تو البتہ آ چکا وہ سب کچھ بحال رہے گا لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہ تو آ چکا اور اس کو انہوں نے نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیااسی طرح ابن آدم بھی ان کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا۔ تب شاگرد سمجھ گئے کہ اس نے ہم سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی بابت کہاہے‘‘۔(متی باب ۱۷ آیات ۱۱ تا ۱۳)

حضرت مسیح کے اس بیان میں دو باتیں واضح کر دی گئی ہیں:۔

اول:۔۔۔ یہ کہ ایلیاہ نبی جو آسمان پرگیا اور دوبارہ آنے والا تھا اس کی بجائے اس کامثیل آنا مراد ہے۔

دوم:۔۔۔ یہ کہ ایلیاہ نبی کے مثیل کو جس طرح نہ پہچان کر دکھ دئے گئے ابن آدم یعنی میں بھی جب دوبارہ آؤں گا تو خودنہیں بلکہ میرا مثیل بن کر کوئی شخص آئے گا اور وہ بھی یوحنا کی طرح دکھ اٹھائے گا۔

کیونکہ حضرت مسیح اس مسئلہ کو بوضاحت اور کھول کھول کر بیان کر چکے ہیں کہ :

۱۔۔۔’’ میں آگے کو دنیا میں نہیں ہونگا‘‘(یوحنا ۱۷: ۱۱)

۲۔۔۔ ’’ابن آدم نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا‘‘۔(متی باب ۱۹ آیت ۲۸)

اب کیا کوئی عیسائی یہ مان سکتا ہے کہ حضرت مسیح جب دو ہزارسال کی عمر میں آئیں گے تو وہ حضرت مریمؑ کے ہاں دوبارہ پیدا ہونگے؟ ہر گزنہیں۔ پس اس سے یہی مراد ہے کہ مسیح کی دوبار ہ آمد بھی ایلیاہ نبی کی طرح بطور مثیل کسی اوروجود میں ہوگی۔

۳۔۔۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے مجھے پھر ہرگز نہ دیکھو گے جب تک یہ نہ کہو گے کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے‘‘۔(متی۲۳:۳۹ ، لوقا۱۳:۳۵)

یہ بیان کتناصاف اور واضح اور اس عیسائی عقیدہ کو رد کرتا ہے کہ مسیح دوبارہ خود آئے گا۔ آپ فرماتے ہیں، تم مجھے پھر ہرگز نہ دیکھو گے ہاں میرے نام پر کوئی اور شخص ایلیاہ کی طرح میرا مثیل بن کر آئے گا۔ورنہ یہودیوں کو کیاجواب دیا جا سکتا ہے؟ اگر مسیح دوبارہ آ سکتا ہے تو ایلیاہ کو بھی خودآنا چاہئے۔ اگرایلیاہ دوبارہ نہیں آ سکتا تو مسیح بھی دوبارہ قطعاً نہیں آ سکتا۔ بلکہ اس کا مثیل بن کر آپ کے نام پرکوئی اور شخص آنا مراد ہے۔’’ اگر در خانہ کس است حرفے بس است‘‘

پس بائبل کے بیان کردہ حقائق کے پیش نظر ہم عیسائی حضرات کو دعوت دیتے ہیں کہ کامل مذہب اسلام ، نجات کا ذریعہ قرآن اور تمام دنیا کے لئے کامل نمونہ اورکامل تعلیم لے کر آنے والے حضرت محمد مصطفی ﷺ نبیوں کی پیشگوئیوں کے مصداق آ چکے جو حضرت موسیٰ کی مانند نبی صاحب شریعت اورعہد کے رسول ہیں۔ اور عیسائی عقائد کی اصلاح کے لئے پیشگوئیوں کے مطابق خدا نے حضرت مسیح ناصری کا مثیل بنا کر اسلام میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعود بنا کر مبعوث فرما دیا ہے آپ نے خدا سے الہام پا کر اعلان کیا کہ :

(الف): ’’مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تو آیا ہے‘‘۔(ازالہ اوہام)

(ب): ’’ مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو ‘‘(فتح اسلام )

(ج) :اور فرمایا کہ:’’ مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا ہے تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے سو میں صلیب کو توڑنے اور خنزیروں کو قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔

(فتح اسلام)

حضرت بانی جماعت احمدیہ مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نہ صرف قرآن و حدیث کے معیار وں کی رو سے بلکہ بائبل کے صادق ماموروں کی پہچان کے لئے بیان کردہ معیاروں کی رو سے بھی خدا کی طرف سے صادق و راستباز مامور ہیں۔ ملاحظہ ہو:

اول:۔۔۔ صادق مدعی کے دعویٰ سے پیشتر کی زندگی کا پاکیزہ اور بے عیب و مطہّر ہونا اس کے دعویٰ کی صداقت او ر حقانیت کا زبردست ثبوت ہوتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح ناصریؑ فرماتے ہیں:’’ تم میں سے کون مجھ پر گناہ ثابت کر سکتا ہے‘‘۔(یوحنا باب ۸ آیت ۴۶)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چیلنج کیا کہ :

’’ تم کوئی عیب ،افتراء یاجھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے‘‘۔(تذکرۃ الشہادتین )

چنانچہ کوئی مخالف آپ کی پہلی زندگی پر حرف نہ لا سکا بلکہ مولوی محمد حسین بٹالوی، مولانا میرحسن صاحب سیالکوٹی، مولوی ثناء اللہ امرتسری اور مولوی سراج الدین صاحب ایڈیٹر اخبار ’’زمیندار‘‘ لاہور وغیرہ نے آپ کی پاکیزگی کی تعریف کی ہے۔

دوم:۔۔۔ جناب مسیح ناصریؑ فرماتے ہیں :’’ جو پودا میرے آسمانی باپ نے نہیں لگایا وہ جڑ سے اکھاڑا جائے گا‘‘۔(متی باب ۱۵ آیت۱۳)

اگر بانی جماعت احمدیہ خدا کے صادق و راستباز مامور نہ ہوتے تو کب کے تباہ وبرباد ہو چکے ہوتے کیونکہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے ؂

لعنت ہے مفتری پہ خدا کی کتاب میں
عزت نہیں ہے ذرّہ بھی اس کی جناب میں

توریت میں بھی نیز کلامِ مجید میں

لکھا گیا ہے رنگ وعید شدید میں

کوئی اگر خدا پہ کرے کچھ بھی افتراء

ہو گا وہ قتل ہے یہی اس جرم کی سزا

سوم:۔۔۔جو خدا تعالیٰ کی طرف سے صادق مامور مدعی ہو خداتعالیٰ ہر موقع پر اس کی تائید و نصرت اور مدد فرماتا ہے اورکامیاب کرتا ہے جیسا کہ حضرت داؤد ؑ فرماتے ہیں کہ:

’’صادق کھجور کے درخت کی مانندسرسبز ہو گا۔ وہ لبنان کے دیودار کی طرح بڑھیگا‘‘۔(زبور باب۹۲آیات ۱۲،۱۳)

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ۱۸۸۹ء سے اب تک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنا اور دنیا کے ۱۵۳ ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں احمدیوں کا ہو جانا اور آپ کے ماننے والوں میں یہودیوں ، عیسائیوں، ہندو ؤں ، سکھوں اور مسلمانوں کے ۷۲فرقوں میں سے نکل نکل کر نیکی ، تقویٰ اور ایمانی وعملی حالت میں قدم آگے ہی آگے بڑھانے والوں کا ہونا آپ کے دعویٰ کی صداقت کا زبردست ثبوت اور روشن نشان ہے ؂

کبھی نصرت نہیں ملتی درمولیٰ سے گندوں کو
کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو

چہارم:۔۔۔ آخرمیں ہم عیسائی حضرات کو انجیل کا یہ بیان سنا کر مضمون ختم کرتے ہیں:

’’ملی ایل نامی ایک فریسی نے جو شرع کا معلم اور سب لوگوں میں عزت دار تھا عدالت میں کھڑے ہو کر کہا کہ میں تم سے کہتا ہوں کہ ان آدمیوں سے کنارہ کرو اور ان سے کچھ کام نہ رکھو ایسا نہ ہو کہ خدا سے بھی لڑنے والے ٹھہرو۔ کیونکہ یہ تدبیر یا کام اگر آدمیوں کی طرف سے ہے تو آپ برباد ہو جائے گا لیکن اگر خدا کی طرف سے ہے تو تم ان لوگوں کومغلوب نہیں کر سکو گے‘‘۔(اعمال باب ۵ آ یت ۳۴ تا ۳۹)

صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں
اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہو خوفِ کردگار

آؤ عیسائیو! ادھر آؤ! نورِ حق دیکھو راہ حق پاؤ

جس قدر خوبیاں ہیں فرقاں میں کہیں انجیل میں تو دکھلاؤ

*۔۔۔*۔۔۔*

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍فروری۱۹۹۸ء تا۱۹؍فروری ۱۹۹۸ء)

مکمل تحریر >>

کیا حضرت مسیح ؑ نے کہا تھا کہ وہ مرنے کےتین دن بعد پھر جی اٹھے گا


کیا حضرت مسیح ؑ نے کہا تھا کہ وہ مرنے کےتین دن بعد پھر جی اٹھے گا



مسعود احمد خان دہلوی ۔ جرمنی

اناجیل اربعہ میں ابن آدم یعنی ابن مریم کے متعلق اس امر کا متعدد بار ذکر آتا ہے کہ اس نے اپنے حواریوں اور درپئے جاں یہودیوں کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ لوگوں کی طرف سے اسے بہت دکھ دیا جائے گا حتی کہ دکھ جھیلنے کے دوران ہی وہ چل بسے گا لیکن مرنے کے تین دن بعد وہ پھر جی اٹھے گا۔ عیسائی حضرات اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ مسیح کی یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور ایسا ہی ظہور میں آیا یعنی مسیح مرنے کے بعد پھر جی اٹھا۔ چنانچہ وہ دوبارہ جی اٹھنے کے مزعومہ واقعہ کو ’’الوہیت مسیح‘‘ کے ایک ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

قبل اس کے کہ ہم انجیل میں مذکور پیشگوئیوں کے اصل الفاظ کے بارہ میں ایک مغربی محقق کی ریسرچ کا ماحصل پیش کریں، یہ بتانا ضروری ہے کہ گزشتہ صدی کے دوران جب عیسائی پادریوں نے ہندوستان کی پوری آبادی کو عیسائیت کا حلقہ بگوش بنانے کی غرض سے ایک زبردست مشنری مہم کا آغاز کیا تو بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہندوستان میں عیسائیت کی یلغار کو روکنے اور عیسائیت کے مشرکانہ عقائد کا پول کھولنے کے لئے عیسائیوں پر اتمام حجت کا فریضہ دو طرح سے ادا فرمایا۔ ایک تو آپؑ نے بڑے ہی محکم دلائل کے ساتھ اس امر کو بڑی شدومد اور تحدی سے پیش فرمایا کہ مسیح علیہ السلام طویل عمر پاکر طبعی موت سے فوت ہوگئے تھے اس لئے اب وہ اللہ تعالیٰ کی قدیمی سنت مستمرہ کے مطابق اسی جسد عنصری کے ساتھ واپس نہیں آئیں گے اور نہ وہ کبھی آ سکتے ہیں۔ دوسرے حضور علیہ السلام نے از روئے انجیل خود واقعاتی شہادتوں اور بیرونی شواہد کی روشنی میں اس امر کا حتمی اور یقینی ثبوت بہم پہنچایا کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے بلکہ صلیب پر سے زندہ اتارے جانے کے بعد آپ اسرائیل کے گمشدہ قبائل کی تلاش میں فلسطین سے خفیہ طور پر نکل کھڑے ہوئے اور جانب شرق سفر کرتے ہوئے کشمیر پہنچے اور پھر وہاں اپنا مشن پورا کرنے کے بعد آپ نے طبعی موت سے وفات پائی اور سرینگر کے محلہ خانیار میں دفن ہوئے جہاں ان کا مزار آج تک موجود ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جب مسیح علیہ السلام صلیب پر مرے ہی نہ تھے تو پھر اس امر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ تین دن کے بعد جی اٹھتے۔ اس سے دو ہی باتیں مستنبط ہوتی ہیں ایک یہ کہ اناجیل میں مندرج مسیح کی طرف منسوب کی جانے والی یہ پیشگوئی کہ وہ مرنے کے تین دن بعد جی اٹھے گا الحاقی ہے یا پھر عین ممکن ہے کہ مسیح علیہ السلام نے پیشگوئی کے طور پر کچھ اور فرمایا ہو جسے بدل کر کچھ کا کچھ کردیا گیا ہو۔ اس عقیدہ کو گزشتہ صدی کے ایک مغربی محقق نے اپنی کتاب میں حل کیا ہے۔ اس مغربی محقق کی تحقیق کا لبّ لباب پیش کرنا ہی فی الوقت ہمارے مدّنظر ہے۔

گزشتہ صدی میں ہوگزرنے والے اس برطانوی محقق کا نام تھا Mr. Keningale Cook M.A., LLD. (کیننگیل کک ایم۔اے، ایل۔ ایل۔ ڈی)۔ مسٹر کُک نے آج سے تقریباً ایک صدی سے بھی قبل کے زمانہ میں "The Fathers of Jesus" کے نام سے دو جلدوں پر مشتمل ایک کتاب مرتب کی جس میں اس امر پر روشنی ڈالی کہ مروجہ مسیحی عقائد کے اصل ماخذ کون کون سے ہیں یعنی قبل از مسیح کے زمانہ قدیم میں یورپ اور ایشیا میں جو مذہبی عقائد و نظریات رائج تھے ان کے بعض حصوں کو بعد کے مسیحیوں نے کس طرح اناجیل میں داخل کرکے مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دیا اور اسے خدا کی الوہیت میں شریک ٹھہرایا۔ اس کتاب کو اس وقت کے مشہور برطانوی اشاعتی ادارے Kegan Paul, Paternoster Square, London نے ۱۸۸۶ء میں شائع کیا۔ اس کی جلد اول کے باب دوم بعنوان "An Aryan Ancestor" (ایک آریائی مورث اعلیٰ) میں اس امر پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے کہ مسیح نے اپنے مرنے کے بارہ میں پیشگوئی کے طور پر جو کچھ کہا تھا بعد میں اسے اپنے تبدیل شدہ عقائد کی روشنی میں کچھ اور ہی معانی پہنا دئے گئے۔ مسٹر کُک نے ثابت یہ کیا ہے کہ یونانی زبان میں تحریر کردہ قدیم ترین نسخہ میں جو ایک مقدس مخطوطہ کے طور پر آج بھی محفوظ ہے مسیح کا مذکورہ قول درج کرتے ہوئے ’’مر کر جی اٹھنے‘‘ کے مفہوم کے طور پر جو یونانی لفظ استعمال ہوا ہے وہ مر کر جی اٹھنے کے معنوں میں استعمال ہی نہیں ہوتا۔ اس یونانی لفظ کا انگریزی تلفظ ہے ANASTASY۔ مسٹر کُک کا کہنا یہ ہے کہ قدیم یونانی زبان کا یہ لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک تو اس کے معنے ہیں بیٹھی ہوئی یا لیٹی ہوئی حالت سے اٹھ کر’’سیدھا کھڑا ہونا‘‘ اور دوسرے معنے ہیں ’’بیدار ہونا‘‘۔ جب اس قدیم یونانی مخطوطہ کو انگریزی میں منتقل کیا گیا تو اس یونانی لفظ کا ترجمہ تو Raise up ہی کیا گیا جس کے لفظی معنے کھڑا ہونا ہی ہیں لیکن عیسائی مترجمین نے اپنے بدلے ہوئے عقیدہ کو درست ثابت کرنے کے لئے اس انگریزی لفظ کے معانی میں ’’جی اٹھنے‘‘ کا مفہوم بھی داخل کردیا حالانکہ اس سے پہلے یہ لفظ اس مفہوم کا متحمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔

یہ ثابت کرنے کے بعد مسٹر کُک نے انجیل کی متعلقہ آیات درج کی ہیں۔ انہوں نے متعلقہ آیات درج کرتے وقت بریکٹ میں Raise up کا اصلی لفظی ترجمہ درج کرکے اس امر کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ مسیح کا اصل مطلب کیا تھا۔ ان کی درج کردہ آیات کا متن بریکٹ میں درج کئے ہوئے الفاظ سمیت بمعہ اردو ترجمہ ہم یہاں درج کرتے ہیں:

۱۔ جب یہودیوں نے مسیح سے نشان دکھانے کا مطالبہ کیا تو اس نے انہیں مخاطب ہوکر کہا:


"Destroy this temple, and in three days I will raise it up (literally "awaken it") . . . . . He spoke of his body" (John ii 19,21)


ترجمہ: اس ہیکل کو ڈھا دو اور میں اسے تین دن میں کھڑا کردوں گا (لفظی معنوں کی رو سے اسے ’’بیدار کردوں گا‘‘ ) ۔۔۔ اس نے یہ اپنے بدن کی ہیکل کی بابت کہا تھا۔ (یوحنا باب ۲، آیات ۱۹، ۲۱)

۲۔ جب یسوع مسیح اپنے حواریوں کے ساتھ گلیل نامی شہر میں پھرتا تھا تو اس نے ان سے کہا:


"The son of man is about to be delivered into the hands of men, and they will kill him, and the third day he will be raised (literally "awakened") (Matt. xvii, 22)


ترجمہ: انسان کا بیٹا آدمیوں کے ہاتھوں حوالہ کیا جائے گا اور وہ اسے مار دیں گے اور وہ تیسرے دن جی اٹھے گا (لفظی معنوں کی رو سے ’’وہ بیدار ہو جائے گا‘‘) ۔

(متی باب ۱۷، آیت ۲۲)

(۳) واقعہ صلیب کے بعد دوسرے روز جو تیاری کے بعد کا دن تھا سردار کاہنوں اور فریسیوں نے پیلاطوس کے پاس جمع ہوکر کہا:


"We remember that that deceiver said, while he was yet alive, after three days I am raised [literally, "am awakened"] (Matt xxvii 63)


ترجمہ: ہمیں یاد ہے کہ وہ دغاباز اپنے جیتے جی کہتا تھا کہ میں تین دن کے بعد جی اٹھوں گا [لفظی معنوں کی رو سے ’’میں بیدار ہو جاؤں گا‘‘] ۔ (متی باب ۲۷، آیت ۶۳)

(۴) اسی طرح مرقس نے اپنی انجیل میں لکھا ہے:


"He used to touch his disciples and say to them, the son of man is delivered up into the hands of men, and they will kill him, and though killed, after three days he will raise himself [literally "upstand himself"] But they understood not the saying and were afraid to ask him" (Mark ix-31,32)


ترجمہ: اس نے اپنے شاگردوں کو سکھلایا اور انہیں کہا کہ انسان کا بیٹا آدمیوں کے ہاتھوں میں حوالہ کیا جاتا ہے اور وہ اسے مار دیں گے اور اس طرح مارے جانے کے تیسرے دن وہ جی اٹھے گا [لفظی معنوں کی رو سے ’’خود بخود اٹھ کھڑا ہوگا‘‘] وہ اس بات کو نہ سمجھے اور اس کے پوچھنے سے ڈرے‘‘۔ (مرقس باب ۹۔ آیات ۳۱، ۳۲)

اناجیل کی مندرجہ بالا انگریزی عبارتیں اور ان کے درمیان بریکٹ میں دئے ہوئے توضیحی جملے مسٹر کیننگیل کُک کی مذکورہ کتاب کے صفحہ ۹۵، ۹۶ سے یہاں نقل کئے گئے ہیں۔ مسٹر کُک کی سطور بالا میں بیان کردہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب مسیح نے یہ کہا تھا کہ وہ مرنے کے تین دن بعد بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوگا تو اس میں یہ اشارہ مضمر تھا کہ جب وہ لوگوں کے حوالہ کیا جائے گا اور وہ اسے اپنی دانست میں مار ڈالیں گے تو وہ فی الحقیقت مرے گا نہیں بلکہ اس پر نیند کی طرح کی غشی طاری ہوجائے گی اور وہ تین دن بعد اس غشی سے باہر آکر یا بالفاظ دیگر نیند سے بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوگا۔ جب مسیح خود اپنے قول کے بموجب مرا ہی نہ تھا بلکہ وہ نیند سے بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوا تھا تو اس کے جی اٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی اس بیداری کو اس کی الوہیت کے ثبوت کے طور پر پیش کرنا سراسر بے معنیٰ ہے۔

مسٹر کیننگیل کک کا یہ نظریہ ۔۔۔ کہ جس قدیم یونانی لفظ کا ترجمہ مردوں میں سے جی اٹھنا کیا گیا ہے اس کے لفظی اور اصل معانی بیدار ہوکر اٹھ کھڑے ہونے کے ہیں نہ کہ مر کر جی اٹھنے کے ۔۔۔ ایک اور لحاظ سے بھی درست ثابت ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس نئے حوالہ کی جس سے یہ نظریہ سولہ آنے درست ثابت ہوتا ہے نشاندہی ازمنہ قدیم کی تاریخ اور بالخصوص تاریخ مذاہب قدیم کے برطانوی پروفیسر T. R. Glover کی کتاب "The Conflict of Religions in th Early Roman Empire" (سلطنت روما کے ابتدائی دور میں مذاہب کی آویزش باہمی) سے بھی ہوتی ہے۔ یہ کتاب لندن کے اشاعتی ادارہ Methuen & Co. Ltd. نے پہلی بار ۱۹۰۹ء میں شائع کی تھی اور ۱۹۱۸ء تک اس کے سات ایڈیشن شائع ہوچکے تھے۔ مسٹر گلوور نے اپنی اس کتاب میں ایک بات یہ بھی لکھی کہ ابتدائی صدیوں کے مسیحی ماہرین دینیات نے یہودیوں کو مسیحیت کا قائل کرنے کے لئے اس امر کو بڑی شدومد سے پیش کرنا شروع کیا کہ مسیح کی اپنی زندگی میں جو واقعات بھی پیش آئے ان میں سے ہر واقعہ کی عہد نامہ قدیم میں پہلے سے پیشگوئی موجود ہے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ان سب پیشگوئیوں کا مسیح کی ذات پر چسپاں ہونا اور اس کی حیات میں عملاً پورا ہونا اس کی صداقت کی بیّن دلیل ہے۔ چنانچہ قدیم مسیحی مخطوطات اور کتب کے حوالہ سے انہوں نے اپنی مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر ۱۸۵ پر ایسی پیشگوئیوں کی ایک فہرست بھی درج کی۔ اس میں انہوں نے مسیح کے مر کر جی اٹھنے کی پیشگوئی کے طور پر زبور کے ایک حوالہ کا مفہوم غالباً اپنے الفاظ میں یوں درج کیا:


"I slept and slumbered and I rose up because the Lord laid hold of me". (Ps. 3,5)


اس زبور کا ترجمہ یہ ہے کہ میں سوگیا اور محو خواب ہوا کیونکہ خدا میرا سہارا تھا اور اسی نے مجھے سنبھالا۔ زبور ۳ کی یہ آیت عہدنامہ قدیم کے پرانے نسخوں میں بایں الفاظ مذکور ہے:


I laid me down and slept; I awaked; for the Lord sustained me [Ps. 3, 5]


ترجمہ : میں لیٹ گیا اور سو رہا ، میں جاگ اٹھا کیونکہ خدا نے مجھے سنبھال لیا۔(ترجمہ از ’’ہولی بائبل مطبوعہ کیمبرج یونیورسٹی پریس لندن۔ ۱۸۴۶ء)

لندن کے اشاعتی ادارے Darton, Longman & Todd نے "The New Jerusalem Bible" کے نام سے ۱۹۸۵ء میں بائبل کا جو جدید نسخہ شائع کیا اس میں زبور کی اس آیت کو پیشگوئی کے طور پر ان الفاظ میں درج کیا:


"As for me, if I lie down and sleep, I shall awake for yahweh sustains me." [Ps. 3, 5]


ترجمہ: جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے اگر میں لیٹ جاؤں اور سو جاؤں تو میں جاگ اٹھوں گا کیونکہ مجھے سنبھالنے والا میرا خدا ہے۔

بہرحال زبور کے الفاظ جو بھی ہوں خود مسیحیوں کے اعتقاد کے بموجب عہد نامہ قدیم میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ مسیح پر اونگھ آئے گی اور وہ سو جائے گا اور وہ پھر بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوگا کیونکہ خدا خود اسے سہارا دے کر سنبھال لے گا اور اس کی نیند کو موت میں تبدیل نہیں ہونے دے گا۔ اندریں صورت مسیحی حضرات کا یہ کہنا کس طرح درست تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ مسیح صلیب پر مر گیا تھا اور مرنے کے بعد پھر جی اٹھا تھا۔ زبور کی اس پیشگوئی سے بھی یہ بات دو اور دوچار کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ مسیح فی الحقیقت صلیب پر مرا نہ تھا بلکہ اس پر نیند کی طرح کی غشی طاری ہوگئی تھی جسے رومی سپاہیوں نے موت قرار دے کر مسیح کو صلیب پر سے اتار لیا اور وہ بعد میں اسی طرح اٹھ کھڑا ہوا تھا جس طرح ایک سویا ہوا شخص بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ زبور کی اس پیشگوئی سے بھی جسے مسیحی خود دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح یہ کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ مرنے کے تین دن بعد پھر جی اٹھے گا۔ اس نے تو وہی کچھ کہنا تھا جو خودمسیحیوں کے اپنے اعتقاد کی رو سے پہلے ہی بطور پیشگوئی زبور میں بیان کردیا گیا تھا اور وہ یہی تھا کہ مجھ پر صرف نیند نما غشی طاری ہوگی اور میں بیدار ہوکر اٹھ کھڑا ہوں گا۔


*۔۔۔*۔۔۔*

الفضل انٹرنیشنل ۴؍جولائی ۱۹۹۷ء ؁ تا۱۰؍جولائی ۱۹۹۷ء ؁


مکمل تحریر >>

علامہ اقبال کی علمی و سیاسی لغزشیں

علامہ اقبال کی علمی و سیاسی لغزشیں


شیخ عبدالماجد، لاہور

سراقبال ، مذہب اسلام میں الحاق و آمیزش کے بارے میں فرماتے ہیں:

۱۔۔۔ موبدانہ تخیل (قبل از اسلام زرتشتی ، یہودی، نصرانی اور صابی تخیل) مسلمانوں کی دینیات ، فلسفہ اور تصوف کے رگ و پے میں سرایت کئے ہوئے ہے ‘‘۔(اقبال کا مضمون ۔ قادیانی اور جمہور مسلمان۔ ۱۴؍مئی ۱۹۳۵؁ء)

۲۔۔۔ ’’اسلام، مذہبی اور ذہنی واردات کے حوالے سے نئی راہ پیدا کرناچاہتاتھا لیکن ہماری مغانہ وراثت نے اسلام کی زندگی کو کچل ڈالا اور اسلام کی روح و مقاصد کو ابھرنے کا کبھی موقع نہ دیا‘‘۔

۳۔۔۔اسلام کی ظاہری و باطنی تاریخ میں ایرانی عنصر کو بہت زیادہ دخل حاصل ہے‘‘۔(دین شا۔ پارسی کے جواب میں)

۴۔۔۔پھر فرماتے ہیں:

’’مذہب اسلام پر قرون اولیٰ سے ہی مجوسیت اور یہودیت غالب آ گئی۔ میری رائے ناقص میں اسلام آج تک بے نقاب نہیں ہوا‘‘۔(خط بنام راغب احسن’’جہان دیگر‘‘ صفحہ ۸۹۔ خط ۱۱؍دسمبر ۱۹۳۴؁ء)

راقم عرض کرتاہے کہ زمانے کی گمراہیوں ، مفاسد کے وسیع تر پھیلاؤ اورمذہب اسلام میں زبردست الحاق و آمیزش کے پیش نظر اقبال، اصلاح احوال کی طرف سے مایوس تھے۔ اس مایوسی کا انداز ہ ان کے درج ذیل تاثر سے بھی لگایا جا سکتاہے۔ لکھتے ہیں:

’’مجھے یقین ہے کہ اگرنبی کریم ؐ بھی دوبارہ زندہ ہوکراس ملک میں اسلام کی تعلیم دیں توغالباً اس ملک کے لوگ اپنی موجودہ کیفیت اوراثرات کے ہوتے ہوئے ’’حقائق اسلامیہ‘‘ نہ سمجھ سکیں‘‘۔(مکاتیب اقبال بنام خان نیازالدین صفحہ ۷۳۔ شائع کردہ اقبال اکادمی)
علامہ نے اپنے علی گڑھ لیکچر ’’ملت بیضا پر عمرانی نظر‘‘ میں ہندوستان میں اسلامی و قومی سیرت کی نشوونما کے مختلف اسلوب کی تاریخ بیان کی ہے ۔ اس ضمن میں آپ نے وسیع بنیادوں پرایسی ’’اسلامی جماعت‘‘ معرض وجود میں لانے کی تمنا ظاہر کی ہے جو ان تمام عناصر کی آمیزش سے اپنے وجود کوکمال احتیاط کے ساتھ پاک کردے جو اس کی روایات مسلمہ اور قوانین منضبطہ کے منافی ہوں۔

We must produce a type of character which at all costs holds fast to its own, ......it carefully excluded from its life all that is hostile to its cherished traditions & institutions.
علامہ کی نظروں میں پنجاب میں ایک ایسی ’’اسلامی جماعت‘‘ موجود تھی جسے تقلید کیلئے مسلمانان ہند کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا جا سکتاہے۔ یعنی جس نے کمال احتیاط کے ساتھ ہر نوع کی غیراسلامی روایات و عناصر سے اپنے وجود کو پاک کر رکھا تھا۔

علامہ سمجھتے تھے کہ ان کا علی گڑھ لیکچر تشنہ رہے گااگراس ’’اسلامی جماعت‘‘ کی نشاندہی نہ کردی جائے ۔ چنانچہ اگلی سطور میں علامہ اس کایوں اظہار کرتے ہیں:

’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ا س جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں‘‘۔
( لیکچرملت بیضا پر عمرانی نظر ۔ ۱۹۱۰؁ء)

A carefull observation of the Muslim community in India reveals the point on which the various lines of moral experience of the community are now tending to converge. In the Punjab the essentially Muslim type of character has found a powerful expression in the so-called Qadiyani sect.
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی وفات ۱۹۰۸؁ء میں ہوئی تھی۔ یہ لیکچر اس کے دو سال بعد کاہے۔

علامہ اقبال کی علمی لغزش


اگر علامہ کامطلب یہ ہے کہ لوگوں کو حقائق اسلامیہ سمجھانے اور اسلامی سیرت کے ٹھیٹھ نمونہ کی حامل جماعت پیدا کرنے کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ، حضرت مرزا صاحب سے کسی طرح کم تر مرتبہ رکھتے ہیں تویہ علامہ کی ایک بڑی لغزش ہے اور اس معاملہ میں جماعت احمدیہ ان کی ہمنوائی نہیں کر سکتی۔

حضرت بانی سلسلہ احمدیہؑ کی نظرمیں آنحضرت ﷺ کا مقام و مرتبہ کیاہے ؟ آپ کی قوت قدسیہ کے طفیل اصلاح عالم کا جو عظیم الشان کام ہوا، وہ کس درجہ بلند ہے؟ مناسب ہوگا یہاں دو ایک حوالے آپ کے ارشادات میں سے درج کر دئے جائیں ۔

حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ اگر ا س جگہ یہ استفسار ہو کہ اگریہ درجہ اس عاجز اور مسیح کے لئے مسلم ہے تو پھر جناب سید ناو مولانا سیدالکل و افضل الرسل خاتم النبیین محمد مصطفی ﷺ کے لئے کون سادرجہ باقی ہے؟ سو واضح ہو کہ وہ ایک اعلیٰ مقام ا ور برتر مرتبہ ہے جو اسی ذات کامل الصفات پرختم ہو گیا ہے جس کی کیفیت کو پہنچنا بھی کسی دوسرے کاکا م نہیں چہ جائیکہ وہ کسی اورکو حاصل ہو سکے ۔۔۔‘‘۔ (توضیح مرام روحانی خزائن جلد نمبر۳ مطبوعہ لندن صفحہ۶۲)
پھر فرماتے ہیں:

’’ میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللّٰہ ﷺ کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گزر چکے تھے سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ ﷺ نے کی، ہرگز نہ کر سکتے ‘‘۔(ملفوظات جلد دوئم مطبوعہ لندن صفحہ ۱۷۴)

علامہ اقبال کی دوسری علمی لغزش


ہمیں حیرت ہے کہ چالیس سال تک احمدیوں سے رشتۂ موانست قائم رکھنے کے بعد جب عمر کے آخری تین سالوں میں علامہ اقبال نے اپنے تئیں تعصب کی قباؤں میں لپیٹ کر احمدیوں کے خلاف محاذآرائی شروع کی تو آپ پرایکا ایکی درج ذیل قسم کے انکشافات ہونے لگے۔

*۔۔۔آپ کو تحریک احمدیہ میں سامی اور آریائی تصوف کی عجیب و غریب آمیزش دکھائی دینے لگی۔

(A strange mixture of Sometic and Aryan mysticism).
*۔۔۔آپ کو تحریک احمدیہ ، اسلام کے رخساروں پر زردی کی صورت میں نظرآنے لگی۔

(Pallor of Ahmadism on the cheeks of Indian Islam)
*۔۔۔آپ نے انکشاف کیا کہ جو لوگ تحریک احمدیہ کا شکار ہوئے ہیں ان کی روحانیت فنا ہو چکی ہے ۔

(Destroyed the sipritual virility.)
*۔۔۔ آپ نے پنڈت نہرو کو یہ بھی لکھ دیا کہ تحریک احمدیہ کے ڈرامے میں حصہ لینے والے ایکٹر انحطاط کے ہاتھوں محض کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔

(Innocent instruments in the hands ofdecadents).
(پنڈت نہرو کے سوالات کے جواب میں ۔ مضمون جنوری ۱۹۳۶؁ء)

نیز پنڈت جی کو ایک علیحدہ خط کے ذریعہ لکھاکہ احمدی ، اسلام کے غدار(Traitors) ہیں۔

اس تعصب کو ذاتی و سیاسی وجوہ نے جنم دیا تھا ۔ تعصب ایک ایسی بلا ہے جو غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط کہنے پر اکساتی ہے۔ تحریک احمدیہ میں کیڑے نکالنے کے سلسلے میں اقبال کے ہاں یہی تصویر ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ دین کے معاملہ میں ہر ایک کو تعصب سے محفوظ رکھے ۔ سراقبال ہی کا کہناہے ؂

لاکھ اقوام کو دنیا میں اجاڑا اس نے
یہ تعصب کو مگر گھر کا دیا کہتے ہیں

(علامہ اقبال کی طرف سے متعصب علماء کی دربار نبویؐ میں شکایت ۔ نظم ابرگوہر بار)

( بعض اخبارا ت، سراقبال کے احمدیوں کے ساتھ چالیس سالہ رشتہ ٔ موانست کا ذکر کئے بغیر صرف تین سال کی ’’مخالفت احمدیت‘‘ کو اچھال کر وطن عزیز میں اشتعال کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔مثلاً دیکھئے روزنامہ ’’لشکر‘‘ ۷؍جون ۱۹۹۸؁ء اور ’’اوصاف‘‘ راولپنڈی ۷؍جون ۱۹۹۸؁ء ۔ مگر وہ اس حقیقت کو پردہ ٔ اخفاء میں رکھتے ہیں کہ مخالفت کا یہ دور کب شروع ہوا۔ کتنے عرصہ تک جاری رہا۔ اس کی وجوہات کیا تھیں۔ اگلی سطور میں ہم مخالفت کی ایک وجہ کی نشاندہی کررہے ہیں)۔

سر اقبال کی سیاسی لغزش


۱۹۳۵؁ء میں احمدیت کے خلاف سر اقبال کے بیانات میں جو شدت اور تلخی در آئی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حکومت برطانیہ نے وائسرائے کونسل ہند کے ممبر سر فضل حسین کی میعاد رکنیت ختم ہونے پر ان کی جگہ سر اقبا ل کو متعین کرنے کی بجائے سر ظفراللہ خان کاتقرر کر دیا۔ یہ تقرر خالصتاً سر ظفراللہ خان کی محنت ، دیانت، خلوص ، حسن تدبر اور آپ کی سابقہ عمدہ کارکردگی کی وجہ سے ہوا تھا اس میں جماعت احمدیہ کا کوئی دخل نہیں تھا۔ یہ تقرر ’’زمیندار‘‘ ، کانگرس، احرار وغیرہ کے لئے سوہان روح بناہوا تھا ۔ کیونکہ چوہدری صاحب مسلم حقوق کے لئے شمشیر برہنہ تھے مگر افسوس یہ تقرر سر اقبال کی طرف سے احمدیوں کی مخالفت کا ایک اہم اور فوری سبب بن گیا جسے بیان کرنے میں بہت بخل سے کام لیا جاتاہے۔ چوہدری صاحب نے مئی ۱۹۳۵؁ء میں اپنے عہدے کا چارج لے لیا۔ ادھر مئی ۱۹۳۵؁ء میں ہی سراقبال کااحمدیوں کے خلاف پہلا مضمون شائع ہوا جس کے ضمیمہ میں عیسائی حکومت کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ استحکام اسلام کے لئے احمدیوں کو اقلیت قرار دے دے۔ اس مطالبہ کے بانی مبانی دراصل احرار تھے اور احرار کے متعلق فرزند اقبال جناب ڈاکٹر جسٹس (ر) جاوید اقبال کی تحقیق یہ ہے :

’’مجلس احرار خلافت کمیٹی کی کوکھ سے نکلی تھی اوریہ جماعت کانگرس کی ہمنوا تھی‘‘۔(زندہ رود صفحہ ۵۸۹)
فرزند اقبال نے احرار کے ساتھ سر اقبال کے رابطے پر بھی روشنی ڈالی ہے اور دبے الفاظ میں تسلیم کیاہے کہ علامہ کامیلان اور تعلق احرار ٹولے کی طرف ہو چکا تھا۔ فرماتے ہیں :

’’جب اقبال کشمیر کمیٹی میں احمدیوں سے مایوس ہوئے تو عین ممکن ہے احراریوں نے اقبال سے مفاہمت کرنے کی کوشش کی ہو‘‘۔(زندہ رود صفحہ ۵۸۹)
پھر لکھتے ہیں:

’’کشمیر کمیٹی کے دوران ممکن ہے اقبال نے احراری رہنماؤں سے مفاہمت کرنے کے بعد ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہو‘‘۔(ایضاً)
واضح رہے جب تک سراقبال نے احمدیوں کے ساتھ بھائی چارے اور مؤانست کارشتہ قائم رکھا ، آپ کی سیاست مسلم اتحاد و یگانگت کے جذبہ سے عبارت رہی ۔بدقسمتی سے جب یہ صورت برقرار نہ رہی تو سیاست اقبال کی یہ خوبی دھندلی نظر آنے لگی ۔چنانچہ سر فضل حسین ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’اقبال اور بعض دیگر مسلم لیڈر اپنے سیاسی اغراض کے حصول کی خاطر مسلمانوں میں مذہبی فرقہ پرستی کو ہوا دے رہے ہیں‘‘۔( سرفضل حسین کے انگریزی خطوط مرتبہ وحید احمد صفحہ ۶۹۵)
( نوٹ: سر فضل حسین اپنی مخلصانہ کاوشوں کے سبب مسلمانوں کے ’’اورنگ زیب‘‘ مشہور تھے۔)

ایک اور مکتوب میں سر فضل حسین انکشاف فرماتے ہیں:

’’اقبال مسلمانوں کے اتحاد اور یک جہتی کو اندر سے توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ ( سرفضل حسین کے انگریزی خطوط مرتبہ وحید احمد )
پنجاب کی ۱۷۵نشستوں میں سے مسلم نشستیں ۸۹ تھیں ۔اقلیتوں کے لئے خصوصی مراعات کے پیش نظر احمدیوں کو الگ اقلیت قرار دے دیا جاتا تو انہیں ایک نشست تو ملنی تھی۔ اگر صرف ایک کا اور اضافہ ہو جاتا تو مسلم نشستیں ۸۷ رہ جاتیں اور غیر مسلم سیٹیں ۸۸ ہو جاتیں۔ مسلم اکثریت ، اقلیت میں بدل جاتی ۔ یہی کانگریس اور احرار کی تمنا تھی ۔ سراقبال کی یہ بھی ایک بڑی لغزش تھی کہ انہوں نے اپنا وزن احرارکے پلڑے میں ڈال دیا۔ یہ تو اللہ تعالی ٰ کا فضل ہوا کہ علامہ کا مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا اور اس وقت پنجاب کی مسلم سیاست تباہ ہونے سے بچ گئی۔

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل۲۳؍اپریل۱۹۹۹ء تا۲۹؍اپریل ۱۹۹۹ء)
مکمل تحریر >>