Thursday 30 April 2015

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بعثت کا مقصد

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’انبیا ء علیھم السلام کے دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی میں جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں۔ حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد ان کے آگے ہوتا ہے ۔ پس اس وقت بھی جو خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے ۔ اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک ہے جو سب نبیوں کی تھی۔ یعنی مَیں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے ؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف راہبری کرتا ہوں۔ ‘‘
                                                                                                   (ملفوظات جلد 3 صفحہ 11)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
  ’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہو گئی ہے اس کو دور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں۔ اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں۔ اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہو گئی ہیں ان کو ظاہر کر دوں۔ اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھلاؤں۔ اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ نمودار ہو تی ہیں حال کےذریعہ سے نہ محض قال سے اُن کی کیفیت بیان کروں۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کے شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اب نابود ہو چکی ہے اس کا دوبارہ میں دائمی پودا لگا دوں۔ اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہو گا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہو گا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے ۔‘‘
                                                                           (لیکچر لاہور۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ 180)     
 
مکمل تحریر >>

مال کا جہاد اور اس کی اہمیت

مالی قربانی کی برکات و اہمیت ازقرآن کریم

اس حوالے سے یہ یاد رہے کہ مالی قربانی کی تلقین اور مالی قربانی کے نتیجہ میں ملنے والے فضائل وبرکات کا ذکر قرآن کریم میں بہت واضح رنگ میں موجود ہے ۔زکوۃ کا حکم ہے ۔اس کے علاوہ مال کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَھَاجَرُواوَجَاھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ (الانفال :73)
وہ لوگ جو کہ ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی ہے اور اللہ کے راستے میں اپنی جانوں اور مالوں کے ذریعہ سے جہاد کے ذریعہ جہا د کیا ہے.
سورۃ صف میں اللہ تعالیٰ نے ایک تجارت کے متعلق بتایا جس سے اللہ کی خوشنودی اور جنت کی بشارت دی گئی ہے ۔
تُجَاھِدُوْنَ فِی سَبِیلِ اللّٰہ بِاَمْوَالِکُم وَاَنْفُسِکُم (الصف:12)
کہ تم اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔


آنحضرتﷺصحابہ ؓ کومالی قربانی کی تاکید فرماتے تھے

اس مالی جہادکے بارے میں سنت نبوی سے پتا چلتا ہے کہ ضرورت کے وقف رسول کریم ؐ صحابہ کو مالی قربانی کی تحریکات کرتے رہتے تھے ۔ جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔ایک غزوہ کے موقع پر حضر ت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے لے آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر کا نصف مال لے آئے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اسی لیے غنی کہلائے کہ بہت زیادہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے ۔ اسی طرح بے شمار صحابہ کی مثالیں موجود ہیں ۔خود رسول کریم ؐ تیز آندھی کی طرح خدا کی راہ میں خرچ کیا کرتے تھے ۔یہ سب خرچ کرنا زکوۃ کے علاوہ ہوتا تھا بلکہ رسول کریم ؐ نے تو ساری زندگی زکوۃ نہیں دی کیونکہ زکوۃ کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری ہوتا ہے رسو ل کریم ؐ تو سارا سال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے صاحب نصاب نہیں بنتے تھے ۔اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ رسو ل کریم ؐ  زکوۃکی فرضیت کے قائل نہیں تھے بلکہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے دوسری صورتوں کو زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔ایسا خیال کرنے والایقینا راہ ہدایت سے بہت دور ہے ۔


جماعت احمدیہ میں لئے جانے والے چندہ کا مقصد

دنیا میں بھر میں جماعت احمدیہ قلمی جہاد کر رہی ہے ۔اسلام اور قرآن کی تعلیمات کو عام کیا جارہا ہے ۔اور یہ سارا ایک مضبوط نظام کے لیے ذریعہ ہورہا ہے۔منظم طور پر جاری یہ جہاد مال کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔اس قلمی جہاد کے دائرے کی وسعت بہت بڑی سرمایہ کاری کا تقاضا کرتی ہے ۔اس وجہ سے احباب جماعت احمدیہ قرآنی تعلیمات کے مطابق خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اس جہاد میں اپنے مالوں کے ذریعہ حصہ ڈالتے ہیں ۔یاد رہے کہ جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اسلام کا احیائے نو اور قرآنی تعلیمات کو عام کرے اگر کوئی احمدی اپنے مال اور اپنی جان کے ذریعہ اس جہاد میں حصہ نہیں ڈالتا تو عملاً اس بنیادسے دور جا رہا ہے جس پر جماعت احمدیہ قائم ہے ۔اس لیے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ احمدیت کے اصل مقصود کے حصول کے لیے جس قدر ممکن ہوسکتا ہے اپنا حصہ لازماً ڈالے ۔وہ حصہ وصیت ،چندہ عام ،چندہ اجتماع،تحریک جدید ،وقف جدید کسی بھی نام سے ہوسکتا ہے ۔یہ تمام چندے اپنے اپنے دائرے میں بھر پور مساعی رہے ہوتے ہیں اس لیے ان سب میں شمولیت ہی صحیح رنگ میں قربانی کہلا سکتی ہے ۔اسی طرح ذیلی تنظیمیں بھی اپنی اپنی سطح پر کام رہی ہوتی ہیں ان میں بھی حصہ ڈالنا چاہیے ۔
مال کے بغیر کوئی نظام نہیں چلتا اس لیے مال کی ضرورت تو رہتی ہے ۔اصل چیز اس کا استعمال ہے کہ وہ کس طرح ہورہا ہے ۔اور کیا اسے چیک کیا جارہا ہے ۔ جماعت احمدیہ کا مالی نظام بہت مضبوط اور شفاف ہوتا ہے ۔شوریٰ میں بجٹ کی منظوری ہوتی ہے اورسب احباب جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے نمائندگان شوریٰ بجٹ کی منظوری دیتے ہیں ہر جماعت میں سیکرٹری مال ہوتا ہے جو چندہ کا حصول کرتا ہے۔چندہ سید بک پر لیا جاتا۔ روزنامچہ بنتا ہے اورہر فرد جماعت کا کھاتہ بنا ہوتا ہے ۔ہر جماعت کا مقامی آڈیٹراور محاسب اس مالی نظام کو چیک کرتے رہتے ہیں ۔اسی طرح ضلع کے آڈیٹر اور محاسب مقامی جماعت کے مالی نظام کو چیک کرتے ہیں پھر مرکزکے نمائندگان اس کی جانچ پڑتال کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔باقاعدہ انسپکٹران مقرر ہیں جو ان مالی نظام کو چیک کرتے رہتے ہیں ۔جس طرح اس مال کے حصول کے لیے باقاعدہ نظام ہے اسی طرح اس مال کے خرچ کو چیک کرنے کے لیے باقاعدہ نظام بنا ہوا ہے ۔
اس قدر مضبوط نظام کی وجہ سے جماعت احمدیہ دنیا میں اتنے بڑے بڑے کام کررہی ہے کہ دیکھنے والے حیران ہوتے ہیں کہ کس طرح اتنے بڑے پروجیکٹ مکمل ہورہے ہیں ۔شفاف مالی نظام کی وجہ سے نتائج میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے ۔
پھر جہاں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے وہاں پر باقاعدہ ٹیکس ادا کیا جاتا ہے اور ملکی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اپنے ذرائع آمد اور خرچ کے اعداد وشمار جمع کروائے جاتے ہیں ۔یہ بات بھی جماعت احمدیہ کے مالی نظام کے شفاف ہونے کی علامت ہے ۔
مکمل تحریر >>

جماعت احمدیہ کے چندہ لینے پر اعتراض کا جواب

اللہ تعالیٰ جب کسی الٰہی جماعت کی بنیاد رکھتا ہے تو اس جماعت کے ماننے والوں کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے ان سے کچھ قربانیوں کا تقاضا فرماتا ہے ، یا یوں سمجھ لیجئے کہ خدا تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا کو پانے کے لئے قربانی ایک لازمی شرط ہے ، اور یہ قربانی کیا ہے ؟ یہ اپنے اپنے وقت اور زمانے کےحالات پر منحصر ہوا کرتی ہے ۔ مثلاً آنحضرتﷺ کے زمانے میں مال کی قربانی بھی تھی لیکن جان کی قربانی زیادہ اہمیت رکھتی تھی کیونکہ کفار کی طرف سے  مسلمانوں پر مظالم کا ایک سلسلہ جاری تھا اور انہی مظالم کے تحت مسلمانوں کو جنگ کے میدان میں بھی کھینچا گیا تھا۔
            لیکن اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں مسیح محمدی کے دور کےلئے آنحضرتﷺ نے ’’یَضَعُ الْحَرْب‘‘کی نوید سنا کر قرونِ اولیٰ کی مانند جنگوں اور تلوار کے جہاد کو موقوف فرما دیا اور مسیح محمدی کے فرائض میں قلمی جہاد کو شامل فرما کر مالی قربانی کو جاری رکھا کیونکہ قلمی جہاد کے لئے مال کا ہونا لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مالی قربانی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :۔
  لَنْ تَنَالُواالْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ                                         
 (آل عمران :93)
تم کامل نیکی کو ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ اپنی پسندیدہ اشیاء میں سے (خدا کے لئے )خرچ نہ کرو۔
حضرت رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ  کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو۔ ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کرہی دیا کرے گا۔ اپنے روپوں کی تھیلی کا منہ (بخل کی راہ سے )بند کر کے نہ بیٹھ جانا ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا۔جتنی طاقت ہے دل کھول کر خرچ کیا کرو۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’کیسا یہ زمانہ برکت کا ہے ۔ کہ کسی سے جانیں مانگی نہیں جاتیں۔ اور یہ زمانہ جانوں کے دینے کا نہیں بلکہ مالوں کے بشرط استطاعت خرچ کرنے کا ہے ۔ ‘‘
                                                          (الحکم قادیان ، 10جولائی 1903ء)
            پس جماعت احمدیہ میں موجود چندوں کا نظام قرآن و حدیث میں موجود مالی قربانی کے احکام کو مدنظر رکھ کر ہی قائم کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اسکا قرب حاصل کرنے کے لئے اپنے مال میں سے کچھ حصہ اس کی راہ میں قربان کرنا نہایت اہمیت ہے اور ہمیشہ سے انبیاء اس کی تلقین اپنے ماننے والوں کو کرتے آئے ہیں۔
مکمل تحریر >>

Wednesday 29 April 2015

مولانا قاری محمد طیب دیوبندی کا کلام الہام تھا ؟

قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند جو کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (ولادت ۱۸۳۳؁ء وفات۱۸۸۰؁ء) کے پوتے تھے۔ دیوبندی حلقوں میں انہیں ’’حکیم الاسلام‘‘ کے خطاب سے یاد کیا جاتاہے۔ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان نے ان کا ایک مجموعہ تقاریر ’’خطبات طیب‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے ۔ کتاب کے دیباچہ میں ان کے کلام کو پانچ مرتبہ ’’الہامات‘‘ سے موسوم کیا گیاہے۔


مکمل تحریر >>

اسلام کی فتح وفات مسیح کے عقیدہ میں ہے

حضرت مسیح موعود و امام مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
''میں نے کوئی بات قال اﷲ اور قال الرسول کے برخلاف نہیں کی۔ اگر قرآن اور حدیث میں جسم عنصری کا لفظ آیا ہوتا تو اس کا منکر کافر اور ملعون ہوتا مگر اصل حقیقت خدا تعالیٰ نے بذریعہ الہام کے مجھ پر ظاہر کر دی اور قرآن اور حدیث اور اجماعِ صحابہؓ اس کی تائید میں ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات صحابہؓ کے واسطے ایک بڑا صدمہ تھا۔باسٹھ (62)یا تریسٹھ(63) سال کوئی بڑی عمر نہیں۔ صحابہؓ کو اگر یہ کہا جاتا کہ عیسیٰ ؑتو زندہ ہے مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو اُن کے واسطے ایک پشت شکن صدمہ تھا۔ اسی واسطے حضرت ابو بکرؓ نے سب کو اکٹھا کر کے وعظ کیا اور ان کو سمجھایا کہ سب نبی مر گئے ۔ کوئی بھی زندہ نہیں۔اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے۔ صحابہؓ ایک عشق اور محبت کی حالت رکھتے تھے۔ وفات مسیح کے بغیر دوسرا پہلو وہ ہرگز مان نہ سکتے تھے۔ اسلام کبھی ایسا عقیدہ پیش نہیں کرسکتا جو آنحضرت افضل الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہو۔ کوئی ہمیں بُرا یا بھلا کہے ہم تو اپنا کام کرتے چلے جائیں گے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی فتح اسی میں ہے۔ اگر ہم عیسائیوں کی ہاں میں ہاں ملادیں تو ہم ان کو کیونکر زیر کر سکتے ہیں۔ ہمارے مخالف مرنے کے بعد یقینا سمجھ لیں گے کہ وہ اسلام کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ عادت بھی ایک بُت ہوتا ہے اور یہ لوگ اس بُت کی پرستش کر رہے ہیں۔'' 
(ملفوظات جلد چہارم ، صفحہ 497)

مکمل تحریر >>