Sunday 18 January 2015

مقربان الہی کی سرخروئی

مقربان الہی کی سرخروئی روح کافر گری کے ابتلاء میں از مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت


مکمل تحریر >>

عیسائیت کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح ہتھیار

’’ایک شخص عبد الحق نام جو اپنے آپ کو صوفی ابوالخیر صاحب کے مرید بتلاتے تھے، چند طالب علموں کے ساتھ آئے۔ اَور بھی دہلی والے آموجود ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا کہ کیا تم سب دہلی کے ہو؟ انہوں نے کہا۔ ہاں۔ پھر میاں عبد الحق صاحب نے سوال کیا کہ مَیں تشفّی کے واسطے ایک بات پوچھتا ہوں۔ حضرت نے اجازت دی۔

عبد الحق: کیا آپ اُس مسیح اور مہدی کو یا ددلانے والے ہیں جو کہ آنے والا ہے یا کہ آپ خود مسیح اور مہدی ہیں؟

حضرت اقدس: مَیں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ قرآن اور حدیث کے مطابق اور اس الہام کے مطابق کہتا ہوں جو خد اتعالیٰ نے مجھے کہا۔ جو آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں۔ جس کے کان ہوں وہ سنے اور جس کی آنکھ ہو وہ دیکھے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے اور پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رؤیت کی گواہی دی۔ دونوں باتیں ہوتی ہیں قول اور فعل۔ یہاں اللہ تعالیٰ کا قول اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل موجود ہے۔ شبِ معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ کو دیگر گزشتہ انبیاء کے درمیان دیکھا۔ ان دو شہادتوں کے بعد تم اور کیا چاہتے ہو؟ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے صدہا نشانات سے تائید کی۔ جو طالبِ حق ہو اور خوف خدا رکھتا ہو اس کے سمجھنے کے واسطے کافی سامان جمع ہو گیا ہے۔ ایک شخص پہلی پیشگوئی کے مطابق، قال اللہ اور قال الرسول کے مطابق عین ضرورت کے وقت دعویٰ کرتا ہے۔یہ وہ وقت ہے کہ عیسائیت اسلام کو کھا رہی ہے۔ خدا تعالیٰ نے اسلام کی حمایت کے واسطے جو بات پیش کی ہے اس سے بڑھ کر کوئی اَور بات نہیں ہو سکتی۔ انیس سو سال سے عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰ خدا ہے اور معبود ہے اور چالیس کروڑ عیسائی اس وقت موجود ہے۔ اس پر پھر مسلمانوں کی طرف سے اُن کی تائید کی جاتی ہے کہ بیشک عیسیٰ اب تک زندہ ہے، نہ کھانے کا محتاج نہ پینے کا محتاج ۔ سب نبی مر گئے پر وہ زندہ آسمان پر بیٹھا ہے۔ اب آپ ہی بتلائیں کہ اس سے عیسائیوں پر کیا اثر ہوگا۔

عبد الحق: عیسائیوں پر تو کوئی اثر ہو نہیں سکتا جب تک کہ شمشیر نہ ہو۔

حضرت اقدس: یہ بات غلط ہے۔ تلوار کی اب ضرورت نہیں ہے اور نہ تلوار کا اب زمانہ ہے۔ابتدا میں بھی تلوار ظالموں کے حملہ کے روکنے کے واسطے اٹھائی گئی تھی ورنہ اسلام کے مذہب میں جبر نہیں۔ تلوار کا زخم تو مل جاتا ہے پر حجت کا زخم نہیں ملتا۔ دلائل اور براہین کے ساتھ اس وقت مخالفین کو قائل کرنا چاہیے۔ مَیں آپ لوگوں کی خیر خواہی کی ایک بات کہتا ہوں۔ ذرا غور سے سنو۔ ہر دو پہلوئوں پر توجہ کرو۔ اگر عیسائیوں کے سامنے اقرار کیا جائے کہ وہ شخص جس کو تم خدا اور معبود مانتے ہو بیشک وہ اب تک آسمان پر موجود ہے۔ ہمارے نبی تو فوت ہو گئے پر وہ اب تک زندہ ہے اور قیامت تک رہے گا۔ نہ کھانے کا محتاج نہ پینے کا محتاج۔ اگر ہم ایسا کہیں تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ اور اگر ہم عیسائیوں کے سامنے یہ ثابت کر دیں کہ جس شخص کو تم اپنا معبود اور خدا مانتے ہو وہ مر گیا۔ مثل دوسرے انبیاء کے فوت ہو کر زمین میں دفن ہے اور اس کی قبر موجود ہے، اس کا کیا نتیجہ ہوگا۔ بحثوں کو جانے دو اورمیری مخالفت کے خیال کو چھوڑو۔ میں پروا نہیں کرتا کہ مجھے کوئی کافر کہے، دجّال کہے یا کچھ اور کہے۔ تم یہ کہو کہ ان ہر دو باتوں میں سے کونسی بات ہے جس سے عیسائی مذہب بیخ و بنیاد سے اُکھڑ جاتا ہے۔

اس تقریر کا میاں عبد الحق صاحب پر بہت اثر ہوا؛ چنانچہ فوراً کھڑا ہو کر حضرت اقدس علیہ السلام کے ہاتھ چومے اور کہا: میں سمجھ گیا۔ آپ اپنا کام کرتے جائیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ترقی دے۔ انشاء اللہ ضرور آپ کی ترقی ہو گی۔ یہ بات صحیح ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 492-494۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
مکمل تحریر >>

تبلیغ کی راہ میں مشکلات اور ان کا حل

عام طور پر اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ہم لوگ تبلیغ کرنے سے جھجکتے ہیں اور اس ذمّہ داری کو اٹھانے سے گھبراتے ہیں۔ کیونکہ انہیں یا تودینی علم کی کمی کا احساس ہوتا ہے یا پھر دوستوں سے تعلقات کی خرابی کا ڈر ہوتا ہے۔ تبلیغ کے متعلق اِن غلط فہمیوں کو دور کرنے کی یہاں کوشش کی جارہی ہے۔

کیا تبلیغ کے لئے عالمِ دین ہونا ضروری ہے؟


جب بھی کسی کو تبلیغ کرنے کے لئے کہا جائے تو فوری طور پر اس کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کام کس طرح کیا جائے کیونکہ مجھ میں تو تبلیغ کرنے کی قابلیت ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو اپنے اندر دینی علم کی کمی کا احساس ہوتا ہے اور انہیں اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ مخاطب کوئی ایسی بات پوچھ لے جس کا جواب انہیں نہ آتا ہو ۔یہ محض ایک غلط فہمی ہے کہ تبلیغ صرف علماءِ دین کا کام ہے۔ لفظ ’تبلیغ ‘ کا مادہ ’ بَلَغَ ‘ ہے جس کا مطلب ہے پہنچانا۔ اگر حکمت اور احسن رنگ میں صرف یہ پیغام پہنچادیا جائے کہ مسیح و مہدی علیہ السلام تشریف لا چکے ہیں اور اب دنیا کی نجات اسلام کو ماننے میں ہی ہے تو تبلیغ کا فرض پورا ہوجاتا ہے۔ اس پیغام کی حقانیت کو اپنے کردار و عمل سے تقویت پہنچانی چاہئے جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پھل اپنے درخت سے پہچانا جاتا ہے (متی 7:20)۔ ہمارا مسکراتا ہوا چہرہ، اعلیٰ کردار اور ہر ایک سے دوستانہ برتاؤ دوسروں میں ہمارے متعلق دلچسپی پیدا کرسکتا ہے اور اس طرح وہ ہمارے قریب آسکتے ہیں۔

کیا تبلیغ کرنا باعثِ شرمندگی ہے؟


بعض لوگ تبلیغ کو باعثِ شرمندگی سمجھتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم نے کسی سے دین کے موضوع پر گفتگو کرنی چاہی اور وہ شخص منہ پھیر کر چل دیا تو ہماری بے عزّتی ہوجائے گی۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کے دین کی ترویج و ترقی کی خاطر اپنی جان، مال اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی آبرو کی قربانی کا بھی عہد کیا ہوا ہے۔ لہٰذا اگر اس راہ میں ہمیں شرمندگی اٹھانی پڑے تو ہمیں اس کے لئے بھی ہر دم تیار رہنا چاہئے۔ اگر کم علمی کے باعث گفتگو میں شرمندگی کا خوف ہو تو اس کا حل یہ ہے کہ جتنی بات آپ کرسکتے ہیں وہ ضرور پہنچائیں اور اس کے بعد اپنے زیرِ تبلیغ دوست کاکسی مربی صاحب یا کسی اور عالم سے رابطہ کروادیں۔

کیا تبلیغ کرنے سے ہمارے دوستوں سے تعلقات بگڑ سکتے ہیں؟


اگر کوئی دوست باہمی تعلقات بگڑنے کے اندیشے سے دینی گفتگو سے پرہیز کرے تو اسے سمجھائیں کہ آپ اس وقت جس مذہب پر ہیں اگر اس کے بانی محض اس بناءپر تبلیغ کا کام ترک کردیتے کہ کہیں ان کے لوگوں سے تعلقات بگڑ نہ جائیں تو آج اس دین کا نشان بھی نہ ملتا۔ انہیں بتائیں کہ ہمارا کام محبت اور برادارانہ جذبے کے ساتھ محض پیغام پہنچانا ہے۔ جس کے بعد ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ اب آپ اسے اختیار کرنے یا رد کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہیں۔ جس دوست کو آپ تبلیغ کررہے ہوں ان کے عقیدے پر تنقیدنہ کریں بلکہ ان کے اور اپنے مذہب میں مشترک باتیں تلاش کرنے کی کوشش کریں۔

دعا کا نشان


اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ کو دعا کا ایک خاص نشان عطا فرمایا ہے۔ اپنے دوستوں کے ساتھ اتنے اخلاص و وفا سے پیش آئیں کہ وہ آپ پر بھروسہ کرتے ہوئے آپ کو اپنی ذاتی پریشانیوں اور تکالیف کے رازدار بنائیں اور پھر آپ نہ صرف خود ان کے لئے دردِ دل سے دعا کریں بلکہ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح کو بھی ان کے متعلق دعا کے لئے لکھیں اور اُن دوست کو یہ بتائیں کہ آپ ان کے لئے دعا کررہے ہیں ۔ یقینًا اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کو دور فرمائے گا اور جماعت کے حق میں ایک نشان ظاہر فرمائے گا۔


کیا تبلیغ یکطرفہ ٹریفک ہے؟


ایک عام غلط فہمی جو ہمارے اندر پائی جاتی ہے یہ ہے کہ ہم اپنا پیغام تو لوگوں کو سنانا چاہتے ہیں لیکن اُن کی باتیں سننا نہیں چاہتے۔آج کے دور میں جبکہ لوگ مذہب کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتے، ایک بہترین طریق یہ ہے کہ دوسروں سے اُن کے مذہب کے متعلق استفسار کیا جائے اور پھر گفتگو کے دوران حکمت کے ساتھ اور احسن رنگ میں اسلامی عقائد کو پیش کیا جائے۔
مکمل تحریر >>

بابیت اور بہائیت ۔ ایک جائزہ

انیسویں صدی عیسوی میں اسلام کے خلاف بہت سے فتنے کھڑے ہوئے اور تحریکیں اٹھیں۔ ان تحریکوں میں سے ایک تحریک بابیت اور بہائیت ہے جس نے شریعتِ اسلامیہ کو منسوخ قرار دیا اور ایک نئی شریعت بنا کر پیش کی گئی۔
اس تحریک نے پوشیدہ رہ کر اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اس تحریک کا آغاز کیسے ہوا۔ اسلام کے خلاف اس نے کیسی کیسی خوفناک سازشیں کیں اور پھر اس کی قیادت کس طرح انتشار کا شکار ہو گئی اس کا مختصر جائزہ درج ذیل سطور میں پیش کیا جاتا ہے۔

علی محمد باب

بابی مذہب کے بانی علی محمد ایک تاجر شیعہ گھرانے میں یکم محرم ۱۲۳۶ھ / ۹۔اکتوبر ۱۸۲۰ء کو شیراز (ایران ) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم شیخ عابد سے حاصل کی جو فرقہ شیخیہ کے بانی شیخ زین الدین احسائی (۱۱۵۴ھ تا ۱۲۴۲ھ) کے شاگرد سید کاظم رشتی (وفات ۱۸۴۳ء) کے مرید تھے۔ ایک دفعہ سفر کربلا کے دوران علی محمد کی ملاقات سید کاظم رشتی سے ہوئی اور ان سے تعلیم پانے لگے۔ یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔

باب ہونے کا دعویٰ

سید کاظم رشتی کا خیال تھا کہ امام غائب کے ظہور کا وقت قریب آ چکا ہے اس لئے انہوں نے اپنی وفات سے قبل امام غائب کی تلاش میں اپنے مریدوں کو ایران میں پھیلا دیا۔ سید کاظم رشتی کی وفات کے پانچ ماہ بعد ان کے ایک مرید ملا حسین بشروئی شیراز میں علی محمد سے ملے ان کی تحریک پر علی محمد نے ۲۳ مئی ۱۸۴۴ء کو باب ہونے کا دعویٰ کیا۔ (تاریخ نبیل صفحہ ۳۴‘ ۳۵ نبیل زرندی تلخیص زینا سہراب جی ناشر بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)
ملا حسین بشروئی کے متعلق خود بہاء اللہ نے لکھا ہے۔
’’اگر وہ نہ ہوتا تو خدائے بزرگ و برتر مقام رحمت پر جلوہ فرمانہ ہوتا اور اپنے تختِ عزت و جلال پر نزول نہ فرماتا‘‘۔(قرنِ بدیع صفحہ ۳۸ شوقی افندی ترجمہ سید ارتضیٰ حسین ناشر مؤسستہ مطبوعات ملی بہائیاں پاکستان)
شیعہ عقائد کی رو سے باب امام مہدی اور لوگوں کے درمیان واسطے کو کہتے ہیں ابتداءً علی محمد نے باب ہونے کے دعویٰ پر ہی اکتفا کیا لیکن کچھ عرصہ بعد صاحب شریعت اور تمام نبیوں سے افضل ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ چنانچہ بہاء اللہ نے لکھا:۔
’’۔۔۔ ایسا نقطہ ہیں جس کے گرد تمام انبیاء اور رسولوں کی حقیقت گھومتی ہے اور آپ کا مرتبہ تمام انبیاء سلف سے بڑھ چڑھ کر ہے اور آپ کا ظہور تمام برگزیدہ انبیاء کے خیال اور تصور سے بالاتر ہے۔‘‘ (قرنِ بدیع صفحہ ۹۴ از شوقی افندی ترجمہ سید ارتضیٰ حسین ناشر مؤسستہ مطبوعات ملی بہائیاں پاکستان)

بابیت کی تبلیغ

علی محمد نے اپنے ابتدائی اٹھارہ مریدوں کو حروف حیٔ کا نام دیا جنہوں نے کھلم کھلا تبلیغ شروع کر دی اور حکومتی معاملات میں بھی دخل اندازی کرنے لگے ان کے مرید مسجدوں میں جا کر اذان دیتے جس میں علی محمد باب کا ذکر تھا اور زبردستی ممبروں پر چڑھ کر تبلیغ کرتے۔ (تاریخ نبیل صفحہ ۶۹‘ ۱۶۳ از نبیل زرندی تلخیص زینا سہراب جی)

علی محمد کی گرفتاری اور دعویٰ سے دستبرداری

متشدّدانہ تبلیغی سرگرمیوں کی وجہ سے علی محمد باب کے مریدوں کا عوام الناس سے تصادم ہونے لگا جس کی وجہ سے حکومت نے امن عامہ کی خاطر علی محمد باب کو حراست میں لے لیا اور ملاقات پر پابندی عائد کر دی لیکن علی محمد باب نے اپنی خفیہ سرگرمیاں جاری رکھیں جس کا حکومت نے سختی سے نوٹس لیا تو علی محمد باب دعویٰ سے دستبردار ہو گئے۔ (تاریخ نبیل صفحہ ۷۱ از نبیل زرندی تلخیص زینا سہراب جی)
اس پر حکومت نے انہیں رہا کر دیا لیکن کچھ عرصہ گذرنے کے بعد علی محمد باب اور اس کے مریدوں نے اپنی کارروائیاں پھر تیز کر دیں جس کی وجہ سے انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا۔

اسلامی شریعت کی منسوخی کا اعلان

اس دوران علی محمد باب کے سرگرم مرید مرزا حسین علی نوری المعروف بہاء اللہ کی سرکردگی میں ۱۸۴۸ء میں بدشت کے مقام پر بابی سربراہوں کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں علی محمد باب کی ایک مرید عورت ام سلمیٰ قرۃ العین طاہرہ نے پہلی دفعہ اسلام کی منسوخی کا اعلان کیا اور علی محمد باب کی رہائی کیلئے مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کانفرنس میں مرزا حسین علی نوری نے اپنے لئے بہاء کا لقب استعمال کیا۔ (قرن بدیع صفحہ ۶۵‘۶۶ از شوقی افندی ترجمہ سید ارتضیٰ حسین ناشر مؤسسۃ مطبوعات ملی بہائیاں پاکستان)
بدشت کانفرنس کے بعد بابیوں نے پرتشدّد کارروائیاں شروع کر دیں جس کے نتیجے میں ایران میں زبردست فسادات برپا ہوئے۔ اور بابی قلعہ بند ہو کر حکومت کے خلاف کئی ماہ تک لڑتے رہے ان معرکوں میں سرکردہ بابی مرزا حسین علی نوری ملا حسین بشروئی اور قرۃ العین پیش پیش تھے۔ انہوں نے اپنے جانثاروں کو حکومت کا لالچ دیا لیکن اس کے باوجود ان معرکوں میں بابیوں کو بری طرح ناکامی ہوئی۔

بابی شریعت البیان

ادھر قلعہ ماہ کو میں قید علی محمد باب نے شریعت کی کتاب ’’البیان‘‘ لکھنی شروع کی جسے قرآن مجید کا ناسخ قرار دیا (بابی تصور کے مطابق وحی آسمان سے نازل نہیں ہوتی بلکہ دل سے اٹھتی ہے) مگر اسے بھی مکمل نہ کر سکا۔ (ظہور مہدی و مسیح صفحہ ۴۱۱ بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)
البیان میں بابیوں کو جارحانہ اور پرتشدّد طریق اپنانے کی تلقین کی گئی ہے جیسا کہ عبدالبہاء نے لکھاہے۔
’’حضرت اعلیٰ (علی محمد باب) کا حکم البیان میں یہی ہے کہ جو لوگ آپ پر ایمان نہیں لائے اور آپ کی تصدیق نہیں کرتے ان کی گردنیں اڑا دی جائیں اور ان کا قتل عام کیا جائے اور علوم و فنون اور مذاہب عالم کی جتنی کتابیں ہیں ان کو جلا دیا جائے اور جتنے مقامات اور قبورانبیاء ہیں ان میں سے بھی کسی کو نہ چھوڑا جائے سب کو گرا دیا جائے‘‘۔ (مکاتیب عبدالبہاء جلد۲ صفحہ ۲۶۶ مطبع کردستان العلمیہ مصر ۱۹۱۰ء)
اسی طرح البیان کے بارہ میں بہاء اللہ و عصر جدید صفحہ ۵۲ عربی میں لکھا ہے۔ ان البیان قد اوحی الیہ ممن یظھرہ اللّٰہ یعنی من یظہرہ اللّٰہ (بہاء اللہ) ہی آپ کے الہام کا واحد منبع اور آپ کی محبت کا یگانہ مرکز ہیں۔

علی محمد باب کی وفات

بابیوں کی سرگرمیاں جب حکومت اور عوام کی نظر میں بہت زیادہ مخدوش اور پرُتشدّد ہو گئیں تو حکومت نے علی محمد باب کو تبریز سے لا کر جولائی ۱۸۵۰ء میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ علی محمد باب نے اپنی موت سے ایک روز قبل مایوس ہو کر اپنے مریدوں سے کہا کہ وہ خود ہی اسے قتل کر دیں اور انہیں یہ وصیت کی کہ جب تم سے میرے بارہ میں استفسار کیا جائے تو تقیہ سے کام لینا اور میرا انکار کر دینا اور مجھ پر لعنت بھیجنا۔ (نقطۃ الکاف صفحہ ۲۴۷ مرزاجانی کاشانی لندن ۱۹۱۰ء)

علی محمد باب کی جانشینی

باب نے اپنی وفات سے قبل بہاء اللہ کے چھوٹے سوتیلے بھائی مرزا یحییٰ صبح از ل کو اپنا جانشین مقرر کیا اور تمام ضروری کاغذات اور مہریں وغیرہ اس کے سپرد کر دیں۔ (نقطۃ الکاف صفحہ ۲۴۴ ایضاً)
علی محمد باب چونکہ اپنی خود ساختہ شریعت ’’البیان‘‘ نامکمل چھوڑ گئے تھے اس لئے صبح ازل نے ’’المستیقظ‘‘ نامی کتاب لکھی جسے ’’البیان‘‘ کا تتمہ قرار دیا۔ لیکن بہائیوں کا کہنا ہے کہ ’’المستیقظ‘‘ میں ’’البیان‘‘ کے حکموں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔بعد میں بہاء اللہ نے یحییٰ صبح ازل کو ’’دجال‘‘ قرار دیا۔

بابیوں کی حکومت مخالف کارروائیاں

۱۶۔ اگست ۱۸۵۲ء کو چند بابیوں نے شاہِ ایران پر گولی چلا دی لیکن نشانہ خطاء گیا اور حملہ آور گرفتار کر لئے گئے۔ (بہاء اللہ و عصر جدید صفحہ ۳۱ از جے۔ای ایسلمنٹ بار ششم ۱۹۸۳ء بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)
شاہِ ایران پر قاتلانہ حملہ کے بعد حکومت نے بابیوں کو گرفتار کرنا شروع کیا جس پر اکثر بابی بھیس بدل کر دوسرے ملکوں میں بھاگ گئے اور بابی تحریک کے سربراہ صبح ازل بھی بغداد چلے گئے۔ چالیس بابی گرفتار ہوئے جن میں مرزا حسین علی نوری المعروف بہاء اللہ بھی تھے۔
چارماہ بعد روسی سفیر کی سفارش پر بہاء اللہ رہا ہوئے۔ (لوح ابن ذئب صفحہ ۴۲ از بہاء اللہ ناشر محفل روحانی ملّی بہائیاں کراچی)
روسی حکومت کی بہاء اللہ میں دلچسپی سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی سے زیادہ یہ سیاسی تحریک تھی۔
کچھ عرصہ بعد حکومت نے مرزا حسین علی نوری کو بھی بغداد بھجوا دیا لیکن انہوں نے وہاں بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اس پر حکومت نے انہیں قسطنطنیہ (ترکی) اور پھر ایڈریا نوپل بھیج دیا۔

بہاء اللہ اور صبح ازل میں اختلافات

جب بہاء اللہ اور صبح ازل میں اختلافات شروع ہوئے توبہاء اللہ نے دعویٰ کیا کہ باب نے ’’البیان‘‘ میں پیشگوئی کی تھی کہ میرے بعد من یظھرہ اللّٰہ (جسے خدا ظاہر کرے گا )آئے گا اور وہ میں ہوں اور مرزا یحییٰ صبح ازل باب کے حقیقی جانشین نہیں بلکہ اسے صرف لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے مقرر کیا گیا تھا تا ان کی توجہ بہاء اللہ سے ہٹ جائے اور وہ محفوظ رہے۔(مقالہ سیاح صفحہ ۵۵ عباس آفندی مترجم مصطفی رومی مطبوعہ دہلی)
سوال یہ ہے کہ یہ دھوکا باب نے دیا یا انکے جانشین یحییٰ صبح ازل نے یا بہاء اللہ نے؟
اس اختلاف کے بعد بابی مذہب دو فرقوں میں تبدیل ہو گیا بہاء اللہ کے پیروکار بہائی کہلائے اور صبح ازل کے ماننے والے ازلی کہلائے بہاء اللہ اور صبح ازل نے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کی ایک دوسرے کے خلاف حکومت کے پاس شکایات کیں۔ دونوں فرقوں میں تصادم کے نتیجہ میں بعض افراد قتل بھی ہوئے جس کا الزام دونوں ایک دوسرے پر لگاتے رہے۔ (Materials for the study of the Babi Religion E.E Brawn 1918)
بابیوں کے شدید اختلافات اور فتنہ فساد کی بناء پر ترکی حکومت نے بہاء اللہ اور اس کے ساتھیوں کو عکا فلسطین بھجوا دیا اور صبح ازل کو جزیرہ قبرص روانہ کر دیا۔ بہائی صبح ازل کو دجال اور قبرص کو جزیرہ شیطان قرار دیتے ہیں۔ (ظہور مہدی و مسیح صفحہ ۶۰۱۔ ۶۰۲ بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)

بہائی شریعت الاقدس

۱۸۷۳ء میں بہاء اللہ نے عکہ میں البیان کو منسوخ کر کے الاقدس لکھنی شروع کی ہر چند کہ یہ شریعت بھی بہائی تصور کے مطابق ان کی اپنی نازل کردہ اور خود ساختہ ہے۔ جس کے بارہ میں ان کا کہنا ہے کہ الاقدس کا ایک لفظ پڑھنا سب الہامی شریعتوں کے پڑھنے سے بہتر ہے۔ لیکن بہاء اللہ نے اسے اپنی زندگی میں شائع کیا نہ اس کے بیٹے اور جانشین عبدالبہاء نے اس کی اشاعت کی اجازت دی اور آج سو سال سے زائد عرصہ گذرنے کے بعد بھی بہت ہی محدود تعداد میں اسے شائع کیا گیا ہے۔

بہاء اللہ کا دعویٰ الوہیت

بہاء اللہ نے اپنی نسبت لکھا ہے:۔
’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا الْمَسْجُوْنُ الْفَرِیْدُ‘‘ (کتاب مبین از بہاء اللہ صفحہ ۲۸۶)
مجھ اکیلے قیدی کے سوا کوئی معبود نہیں۔
الاقدس اور دوسری الواح میں بہاء اللہ نے اپنے آپ کو مالک قدر‘ سمیع‘بصیر‘ عالم الغیب‘ موجد عالم اور خالق اشیاء قرار دیا ہے۔
بہاء اللہ کے دعویٰ کے بارہ میں محفوظ الحق علمی لکھتے ہیں:۔
’’اہل بہاء نے کبھی نہیں کہا کہ نبوت ختم نہیں ہوئی اور (بہاء اللہ) موعود کل ادیان نبی یا رسول ہے بلکہ اس کا ظہور مستقل خدائی ظہور ہے۔‘ ‘ (کوکب ہنددہلی ۲۴ جون ۱۹۲۸ء)
بہاء اللہ کے بیٹے اور جانشین مرزا عباس آفندی نے لکھا ہے۔
’’پہلے دن انبیاء کے دن کہلاتے تھے لیکن یہ دن یوم اللہ ہے۔‘‘ (ظہور مہدی و مسیح صفحہ ۴۹۷ بہائی پبلشنگ ٹرسٹ کراچی)
بہائی بہاء اللہ سے دعائیں کرتے ہیں۔ (دروس الدیانۃ درس نمبر۹ ۱۔از محمد علی قائنی مصر ۳۴۱ ۱ ھ صفحہ ۲۸)
اسی طرح بہائی بہاء اللہ کی قبر کو سجدہ بھی کرتے ہیں۔ (بہجۃ الصدور ۔از مرزا علی حیدر صفحہ۲۵۸)
اوران کا قبلہ بہاء اللہ کا مزارہے ۔

بہاء اللہ کی وفات اور بہائیوں میں اختلاف

بہاء اللہ نے ۱۸۹۲ء میں عکہ میں وفات پائی اپنی وفات سے قبل اپنے بیٹے عباس آفندی المعروف عبدالبہاء کو بہاء اللہ کے جانشین ہونے کی وصیت کی اور یہ لکھا کہ عباس آفندی کے بعد دوسرابیٹا مرزا محمد علی جانشین ہو گا اور اس کے بعد ہر پلوٹھابیٹا یا جس کے بارہ میں ولی امر اللہ یعنی موجود بہائی لیڈر وصیت کر جائے وہ جانشین ہو گا۔ لیکن بہاء اللہ کی وفات کے بعد جانشین کے بارہ میں اس کے دونوں بیٹوں میں اختلاف ہو گیا اور بہائیت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور بہاء اللہ کی یہ خواہش اور وصیت بھی پوری نہ ہو سکی۔ اور امن کا ڈھنڈورا پیٹنے والی بہائیت کے اختلافات نفرت اور دشمنی کی شکل اختیار کر گئے۔ دونوں کے مرید آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے پر بہاء اللہ کی تحریرات میں تحریف کا الزام لگانے لگے۔ (Materials for the study of the Babi Religion Page. 156)

الاقدس کی تعلیمات سے انحراف

بہاء اللہ کے بیٹے اور جانشین عبدالبہاء نے یورپ کے دورے کئے اور بہاء اللہ کی تعلیمات کو یورپین معاشرے کے مطابق ڈھالنا شروع کیا مثلاً بہاء اللہ نے اقدس میں لکھا ہے کہ ’’دو شادیوں کی اجازت ہے‘‘۔ (کتاب اقدس صفحہ ۴۴ نمبر ۶۳)
چنانچہ خود بہاء اللہ نے دو شادیاں کیں-
لیکن عبدالبہاء نے صرف ایک شادی کی اجازت دی۔ (کتاب اقدس صفحہ۲۰۸)
اس طرح بہاء اللہ نے نماز با جماعت کے حکم کو منسوخ کیا ہے۔ (کتاب اقدس صفحہ۲۸ نمبر ۱۲)
لیکن عبدالبہاء مسلمانوں کی مساجد میں جا کر ان کے ساتھ نماز باجماعت پڑھتا رہا۔
(Baha'u'llah and the new era by J.E. Esslemont P.82 Bahai Publishing Trust Wilmette,illinois)
عبدالبہاء نے ۱۹۲۱ء میں وفات پائی اس کی نرینہ اولاد نہ تھی اس لئے اس نے اپنے نواسے شوقی آفندی کو جانشین مقرر کیا حالانکہ بہاء اللہ کی وصیت کے مطابق عبدالبہاء کے چھوٹے بھائی محمد علی جانشینی کے حقدار تھے۔
شوقی آفندی کا رجحان مذہب کی طرف نہیں تھا مثلاً انہوں نے دیگر بہائی لیڈروں کے برخلاف اصرار کے باوجود داڑھی نہیں رکھی۔ لوگوں سے میل ملاقات کی بجائے وہ تحریر کے کام میں مصروف رہا۔ شوقی آفندی پر ۱۹۵۷ء میں اچانک دل کا حملہ ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اس کی کوئی اولاد نہ تھی اور نہ ہی اسے وصیت لکھنے کا موقعہ ملا۔ اس کی وفات کے بعد بہائیت پھر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ایک حصہ شوقی آفندی کی بیوی روحیہ خانم کے ساتھ مل گیا اور دوسرا میسن ریمی کے ساتھ۔ آخر ۱۹۶۳ء میں بیت العدل کا قیام عمل میں آیا جس کے ۹ ممبر ہوتے ہیں اور اب یہی بہائیت کی سربراہی کرتے ہیں۔ بہائیوں کے نزدیک بیت العدل کے رکن اپنی ذات میں معصوم نہیں ہوتے لیکن بیت العدل اور اس کے فیصلوں کو معصوم سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح بہائیت کا ایک بنیادی اصول مرد عورت میں مساوات ہے لیکن بیت العدل کے نوارکان میں ایک بھی رکن عورت نہیں۔
مندرجہ بالا مختصر جائزہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بابیت اور بہائیت کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک کلچر یا سیاسی تحریک کا نام ہے ایک عیسائی عیسائیت یاہندو ہندومت پر قائم رہتے ہوئے بھی بہائی ہو سکتا ہے۔ دہلی میں ان کی عبادت گاہ بہائی ٹمپل ہے تو یورپ میں بہائی چرچ۔ بہائیت دراصل اسلام کے مٹانے کا مذموم مقصد لے کر آئی جس نے آسمانی شریعت قرآن کریم کو منسوخ قرار دیا۔اور مذہب سے آزادی دے کر اباحت کا دروازہ کھولا ہے۔ تا کہ بے دین اور مذہب سے بیزار لوگوں کو اس تحریک میں شامل کیا جا سکے۔ چونکہ اپنے عقائد اور عزائم کو مخفی رکھنا اس تحریک کے بنیادی بارہ اصولوں میں شامل ہے اس لئے بعض اوقات کم علم مسلمان بہائیت کے فریب میں آ جاتے ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام الناس اس تحریک کے عزائم سے مطلع ہوں تا یہ تحریک اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔
مکمل تحریر >>

پاکستان کے اہم فرقے

احادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدیہ پر ایک ایسا وقت آئے گا جبکہ یہ مختلف فرقوں میں بٹ جائے گی۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:۔

’’بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی اور ایک فرقہ کے سوا باقی سب ناری ہوں گے ۔ صحابہ نے پوچھا یہ ناجی فرقہ کون سا ہے تو حضورؐ نے فرمایا جو میری اور میرے صحابہ کی سنت پر قائم ہوگا‘‘۔ (ترمذی کتاب الایمان باب افتراق ھذہ الامۃ)

اس حدیث کے عین مطابق امت فرقوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ بنیادی طور پر دو بڑے گروہ ہیں۔ ۱۔ اہل سنت والجماعت، ۲۔ شیعہ

اہل سنت والجماعت


اہل سنت والجماعت چاروں خلفاء راشدین کو برحق مانتے ہیں۔ ان کے دو بڑے گروہ ہیں۔ ا۔ مقلد، ب۔ غیر مقلد

مقلد


قرآن کریم اور سنت کو سمجھنے کے لئے بزرگان امت اور فقہاء کرام کی تقلید کو واجب قرار دیتے ہیں۔ مقلدین کے مشہور فقہی مسلک چار ہیں:

۱۔ حنفی ۲۔ شافعی ۳۔ مالکی ۴۔ حنبلی

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے ائمہ کی متابعت کو پسند فرمایا ہے:۔

’’میرے خیال میں یہ چاروں مذہب اللہ تعالیٰ کا فضل ہیں۔ اور اسلام کے واسطے ایک چار دیواری‘‘۔(ملفوظات جلد اول۔ صفحہ۵۳۴)

حنفی


حضرت امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت (ولادت بمقام کوفہ ۸۰ھ وفات ۱۵۰ھ) کے پیروکار ہیں۔ پاک و ہند اور بعض دیگر ممالک میں زیادہ تر اسی مسلک کے مسلمان ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کرلیں‘‘۔ (ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی روحانی خزائن جلد۱۹۔ صفحہ۲۱۲)

پاکستان میں حنفیوں کے دو مشہور مکاتب فکر ہیں۔

۱۔ بریلوی ، ۲۔ دیوبندی

بریلوی


مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی (۱۴ جون ۱۸۵۶۔۲۸ اکتوبر۱۹۲۱) اس فرقہ کے بانی تصور کئے جاتے ہیں جو کہ قصبہ بریلی (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ احمد رضا خان صاحب کو ان کے مرید حضور پرنُور، عظیم البرکت، امام اہلسنت، مجدد مأۃ حاضرہ وغیرہ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ فاتحہ خوانی، چہلم، گیارہویں، عرس، سجدۂ تعظیمی، تصور شیخ، مجالس میلاد النبی میں آنحضور کو حاضر ناظر جان کر کھڑے ہوکر درود پڑھنے کا ان میں خوب رواج ہے۔ اکثر سجادہ نشین اور گدی نشین اسی مسلک کے ہیں۔

عقائد:۔ ۱۔ آنحضور ﷺ نور ہیں۔ آپ کا سایہ نہیں تھا۔ خدا نے اپنے نور کا ایک حصہ کاٹ کر آپ کو بنادیا۔ جبکہ دیوبندی اور اہل حدیث بشریت پر زور دیتے ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نورانی بشر تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ تو کہہ کہ میں صرف تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں (فرق صرف یہ ہے) کہ میری طرف وحی نازل کی جاتی ہے‘‘۔(الکہف:۱۱۱)

پس بحیثیت محمد بن عبد اللہ آپؐ بشر تھے تو بحیثیت محمد رسول اللہؐ نور تھے۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں:۔

؂ نور لائے آسمان سے خود بھی وہ اک نور تھے
قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار

۲۔ بریلوی حضرات کے نزدیک آنحضرت ﷺ غیب کا علم رکھتے تھے۔ قرآن کریم اس کی تردید فرماتا ہے۔ فرمایا:

’’اگر میں غیب کا واقف ہوتا تو بھلائیوں میں سے اکثر اپنے لئے جمع کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی‘‘۔ (الاعراف:۱۸۹)

آپ کو غیب کا علم نہ تھا سوائے اس غیب کے جس کی اللہ تعالیٰ آپ کو اطلاع کردے۔ اگر آپ کو ہر قسم کا علم غیب ہوتا تو طائف کی وادی میں تکالیف سے اپنے آپ کو بچا لیتے۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان کی فوراًتردید فرمادیتے۔ غزوہ احد میں نقصان نہ پہنچتا۔۷۰ حفاظ شہید نہ ہوتے۔ صحابہ کے وفود جاسوسی کے لئے روانہ نہ کرنے پڑتے۔

۳۔ حضورؐ کے نام پر انگوٹھے چوم کر آنکھوں کو لگاتے ہیں۔

۴۔ اذان کے ساتھ صلوۃ و سلام کا ورد بآواز بلند کرتے ہیں۔

۵۔ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا گناہ سمجھتے ہیں۔ آمین بالجہر کہنا ناجائز قرار دیتے ہیں۔ تراویح ۲۰ رکعت ادا کرتے ہیں۔

بریلوی سیاسی تنظیمیں


(i)۔ جمیعت علماء پاکستان (نورانی)۔ (ii)۔ انجمن حزب الاحناف (iii)۔ جمیعت المشائخ۔ (vi)۔ عوامی تحریک کے بانی ڈاکٹر طاہر القادری بھی بریلوی مسلک رکھتے ہیں۔

دیوبندی


حنفیوں کادوسرا بڑا گروہ دارالعلوم دیوبند کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ اس مدرسہ کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی (۱۸۳۲ء تا ۱۸۸۰ء) تھے۔ ان کے بعد علامہ رشید احمد گنگوہی مدرسہ کے سرپرست اور مفتی بنے۔ ان کے فتوے ’’فتاوٰی رشیدیہ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی وفات ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مباہلہ کے نتیجہ میں ہوئی۔ انہیں ’خاتم الاولیاء والمحدثین‘ اور ’بانیٔ اسلام کا ثانی‘ کا خطاب دیا گیا۔ ان کے بعد مولوی اشرف علی تھانوی، مولوی محمود الحسن، مولوی بشیراحمد عثمانی شیخ الاسلام ، مفتی کفایت اللہ اور مولوی سید حسین احمد مدنی وغیرہ نے دیوبند مسلک کی بہت خدمت کی۔

دیوبندی احباب فاتحہ خلف الامام کو جائز سمجھتے ہیں واجب نہیں مانتے آنحضرت ؐ کو بشر اور معراج جسمانی مانتے ہیں اور رسوم اور بدعات سے متنفر ہیں

مولوی اشرف علی تھانوی کی مجلس میں احمدیوں کے بارے میں کسی شخص نے کہا ’’حضرت ان لوگوں کا دین بھی کوئی دین ہے، نہ خدا کو مانیں نہ رسول کو‘‘ حضرت نے معاً لہجہ بدل کر ارشاد فرمایاکہ ’’یہ زیادتی ہے، توحید میں ہمارا ان کا کوئی اختلاف نہیں، اختلاف رسالت میں ہے۔ اور اس کے بھی صرف ایک باب میں یعنی عقیدہ ختم رسالت میں۔ بات کو بات کی جگہ پر رکھنا چاہئے‘‘۔ (سچی باتیں از عبد الماجد دریابادی۔ صفحہ۲۱۳۔ نفیس اکیڈمی۔ اسٹریچن روڈ کراچی نمبر۱)

مگر علامہ نانوتوی صاحب کے بیان سے تو یہ فرق بھی کالعدم ہو جاتا ہے۔مولوی قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں:۔

’’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا‘‘(تحذیر الناس صفحہ۲۸۔ مطبع مجتبائی دہلی)

مشہور دیوبندی عالم علامہ عبید اللہ سندھی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:۔

’’یہ جو حیات عیسیٰ لوگوں میں مشہور ہے یہ یہودی کہانی نیز صابی من گھڑت کہانی ہے۔۔۔۔ قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ عیسیٰ نہیں مرا‘‘۔ (الہام الرحمان فی تفسیر القرآن۔ صفحہ۲۴۰)

تبلیغی جماعت، مجلس احرار، مجلس تحفظ ختم نبوت، کے اکابرین بھی دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔

غیر مقلد


ان کے دو بڑے گروہ ہیں،i۔ اہل قرآنii۔ اہل حدیث

اہل قرآن


انہیں مخالفین چکڑالوی اورپرویزی بھی کہتے ہیں۔ ان کے ایک عالم مولوی عبد اللہ چکڑالوی کا مناظرہ اہل حدیث مولوی محمد حسین بٹالوی سے ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی‘‘ میں فریقین کی انتہا پسندی کا ذکر کر کے اصل حقیقت کو واضح فرمایا ہے۔ اس فرقہ میں دوسرے مشہور عالم دین غلام احمد پرویز ہیں جنہوں نے دیگر کئی کتب کے علاوہ تفسیر قرآن بھی لکھی ہے۔اہل قرآن احادیث کے منکر ہیں اور حدیث کے کسی حکم کو نہیں مانتے۔ حتیٰ کہ نماز کی پابندی بھی ضروری نہیں سمجھتے۔بقول ان کے نماز کا قرآن کریم میں معین ذکر نہیں۔

اہل حدیث


احادیث کی پابندی میں غلو کرتے ہوئے اسے قرآن پر قاضی قرار دیتے ہیں۔

عقائد: چاروں خلفاء کو برحق مانتے ہیں۔ ائمہ کا احترام بھی کرتے ہیں مگر ائمہ کی تقلید ذاتی و شخصی کے قائل نہیں۔ رسوم و بدعات سے دور ہیں۔ آمین بالجہر، رفع یدین، آٹھ رکعات تراویح، قرأت خلف الامام اور خطبہ جمعہ میں وعظ وغیرہ ان کے مخصوص عقائد ہیں۔ نواب محمد صدیق حسن خان صاحب، مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی، مولوی محمد حسین بٹالوی، مولوی ثناء اللہ امرتسری اور مولوی ابراہیم سیالکوٹی قابل ذکر علماء ہیں۔

مولوی ثناء اللہ امرتسری نے جماعت احمدیہ کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے اپنی تفسیر ثنائی میں لکھا:۔

’’نظام عالم میں جہاں اور قوانین خداوندی ہیں یہ بھی ہے کہ کاذب مدعی نبوت کی ترقی نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ جان سے مارا جاتا ہے۔ ۔۔۔ دعوی نبوت کاذبہ مثل زہر کے ہے جو کوئی زہر کھائے گا ہلاک ہوگا‘‘۔ (مقدمہ تفسیر ثنائی جز اول صفحہ۱۷۔ مطبع چشمہ نور امرتسر)

اہل حدیث میں سے ایک گروہ جماعت المسلمین کہلاتا ہے اس کے بانی علامہ مسعود احمد عثمانی ہیں۔ اسی طرح جہادی تنظیم ’’جماعۃ الدعوۃ‘‘ جس کا مرکز مرید کے میں ہے کا تعلق بھی اہل حدیث سے ہے۔

جماعت اسلامی


۲۶ اگست ۱۹۴۱ء کو اسلامیہ پارک چوبرجی لاہور میں بانی جماعت سید ابوالاعلی مودودی (۱۹۰۳ء تا ۱۹۷۹ء) کی رہائش گاہ پر اس جماعت کی بنیاد رکھی گئی۔مودودی کا نظریہ تھا کہ اصلاح معاشرہ کے لئے اقتدار کا حصول ضروری ہے۔ آپ لکھتے ہیں:

’’جو کوئی حقیقت میں خدا کی زمین سے فتنہ و فساد کو مٹانا چاہتا ہو اور واقعی یہ چاہتا ہو کہ خلق خدا کی اصلاح ہو تو اس کے لئے محض واعظ اور ناصح بن کر کام کرنا فضول ہے۔ اسے اٹھنا چاہئے اور غلط اصول کی حکومت کا خاتمہ کر کے غلط کار لوگوں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر صحیح اصول اور صحیح طریقے کی حکومت قائم کرنی چاہئے‘‘۔ (حقیقت جہاد از سید ابوالاعلیٰ۔صفحہ۷۔ مطبوعہ ۱۹۶۴ لاہور)

سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب ناقدانہ ذہن کے مالک تھے آپ کے نزدیک اسلام کے پھیلانے میں تلوار کا بڑا دخل تھا۔ لکھتے ہیں:

’’لیکن جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی ۔۔۔ تو دلوں سے رفتہ رفتہ بدی و شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا ۔۔۔ روحوں کی کثافتیں دور ہو گئیں۔ ۔۔۔ ایک صدی کے اندر چوتھائی دنیا مسلمان ہو گئی تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام کی تلوار نے ان پردوں کو چاک کردیا جو دلوں پر پڑے ہوئے تھے‘‘۔ (الجہاد فی الاسلام صفحہ۲۱۶۔ ادارہ ترجمان القرآن لمیٹڈ اردو بازار لاہور)

امہات المومنین حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کو تنقید کا نشانہ بنایا اور لکھا کہ:

’’یہ نبی ﷺ کے مقابلہ میں کچھ زیادہ جری ہو گئیں تھیں۔ اور حضور سے زبان درازی کرنے لگی تھیں‘‘ (ہفتہ وار ایشیا لاہور ۱۹ نومبر ۱۹۶۷ء۔جلد۱۶ شمارہ۴۵۔ صفحہ۱۷)

مودودی صاحب کے نزدیک حضرت ابوبکرؓ سے ایسی حرکت سرزد ہوئی جو اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ (ترجمان القرآن جلد۱۲۔ نمبر۲۔ صفحہ۴)

حضرت عمرؓ کے بارہ میں لکھا:۔ ’’خلیفہ رسول جن کے قلب سے وہ جذبہ اکابرین پرستی جو زمانہ جاہلیت کی پیداوار تھا محو نہ ہو سکا‘‘۔ (ترجمان القرآن جلد۱۷۔ نمبر۴۔ صفحہ۲۸۸)

ان کے نزدیک حضرت عثمانؓ نے ’’اپنے رشتہ داروں کو بڑے بڑے اہم عہدے عطا کئے اور ان کے ساتھ دوسری رعایات کیں‘‘۔ (خلافت و ملوکیت صفحہ۱۰۶۔ از ابوا لاعلیٰ مودودی۔ادارہ ترجمان القرآن اچھرہ لاہور)

حضرت علیؓ کے بارہ میں لکھا کہ: ’’قاتلین عثمان۔۔۔ ان کے ہاں تقرب حاصل کرتے چلے گئے‘‘۔ (خلافت و ملوکیت صفحہ۱۰۶)

مولانا مودودی صاحب قیام پاکستان کے خلاف تھے۔ چنانچہ لکھا کہ:۔

’’پس جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہو جائیں۔۔۔ اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہوگا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی‘‘ (سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحہ۱۳۲)

وفات مسیح کے بارہ میں لکھتے ہیں:۔

’’قرآن کی روح سے زیادہ مطابقت اگر کوئی طرز عمل رکھتا ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ رفع جسمانی کی تصریح سے بھی اجتناب کیا جائے اور موت کی تصریح سے بھی ۔۔۔ اس کی کیفیت کو اسی طرح مجمل چھوڑ دیا جائے جس طرح خود اللہ تعالیٰ نے مجمل چھوڑ دیا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن جلد اول صفحہ۴۲۱۔ سورۃ النساء زیر آیت ۱۵۹)

شیعہ


شیعہ حضرات کا بنیادی عقیدہ خلافت علی بلافصل ہے۔ ان کے متعدد فرقے ہیں مگر پاکستان میں سب سے مشہور فرقہ اثنا عشریہ ہے ان کو ’’امامیہ‘‘ بھی کہتے ہیں یہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کا ارشاد ہے کہ ’’ائمہ اثنا عشر نہایت درجہ کے مقدس اور راست باز اور ان لوگوں میں سے تھے جن پر کشف صحیح کے دروازے کھولے جاتے ہیں‘‘ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد۳۔ صفحہ۳۴۴)

شیعہ تفاسیر:۔ ۱۔ تفسیر صافی ۲۔تفسیر قمی ۳۔مجمع البیان ۴۔ منہج الصادقین ۵۔ عمدۃ البیان ۶۔ تفسیر امام حسن عسکری

کتب احادیث: (۱) کافی، اس کے تین حصے ہیں (i)اصول کافی (ii) فروع کافی (iii) کتاب الروضہ،(۲)۔ تہذیب الاحکام (۳)۔ فقہ من لایحضرہ الفقیہً (۴) الاستبصار (۵)۔ نہج البلاغہ (ملفوظات، مکتوبات حضرت علیؓ)

عقائد:۔ i۔ اصول دین:۔ توحید، عدل، نبوت، امامت، قیامت۔

ii۔ فروع دین:۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، خمس، حج، جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تولا (اہل بیت سے محبت)، تبراء (دشمنِ اہل بیت سے بیزاری)

حضرت علیؓ کے علاوہ دیگر خلفاء راشدین کی خلافت کا ثبوت

۱۔ ’’اللہ نے تم میں سے ایمان والوں اور مناسب حال عمل کرنیوالوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنادے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا۔ اور جو دین ان کے لئے پسند کیا ہے وہ ان کے لئے اسے مضبوطی سے قائم کر دے گا۔ اور ان کے خوف کی حالت کو امن کی حالت میں تبدیل کر دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے۔ اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دئے جائیں گے‘‘۔ (النور:۵۶)

قرآن مجید کی اس آیت (استخلاف) میں سلسلہ خلفاء کا ذکر ہے نہ کسی صرف ایک خلیفہ کا جو حضرت محمد ﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے ذریعہ قائم ہوا۔ اور پہلے تینوں خلفاء پر وہ تمام نشانیاں جو خلیفہ برحق کی بیان کی گئی ہیں پوری ہوئیں۔

آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جھوٹے مدعیان نبوت مرتدین اور منکرین زکوٰۃ کی وجہ سے دین اسلام خطرہ میں پڑ گیا اور قرآن کریم غیر مدون تھا متواتر جنگوں میں صحابہ اور حفاظ کی اکثریت کی شہادت کے سبب قرآن کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا۔ حضرت ابوبکر نے تائید الٰہی سے مرتدین، رومیوں اور کاذب نبیوں کو شکست دی۔ اور جمع قرآن کمیٹی کے ذریعہ ایک جلد میں جمع کروا کر ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا۔

حضرت عمرؓ کے زمانہ میں رومیوں و ایرانیوں کو شکست ہوئی، بھاری اکثریت نے اسلام قبول کیا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں باقی ماندہ علاقے فتح ہوئے، قرآن کی مختلف قرأتیں ختم کر کے قریش کی ایک ہی قرأت پر لکھا اور مختلف ملکوں میں ارسال کیاگیا۔ پس تینوں خلفاء کے ذریعہ دین مضبوط ہوا۔ قرآن کریم کی تدوین و اشاعت ہوئی۔ خوف امن سے بدل گیا۔ اندرونی و بیرونی دشمن سے ڈر کر انہوں نے شرک نہیں کیا۔ اس لئے تینوں خلفاء برحق تھے۔

۲۔ ’’جب اللہ کی مدد اور کامل غلبہ آئے گا اور تو اس بات کے آثار دیکھ لے گا کہ اللہ کے دین میں لوگ فوج در فوج داخل ہوں گے‘‘۔(النصر:۲،۳) یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو یہ بشارت دی ہے کہ دین اسلام میں لوگ فوج در فوج داخل ہوں گے۔ اگر تین چار آدمیوں کے علاوہ تمام ایمان لانے والے منافق تھے تو پھر وہ کون سی فوجیں تھیں جو دین اسلام میں داخل ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں افراد آنحضرت ؐ پر صدق دل سے ایمان لائے اور انہی لاکھوں افراد نے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کی بیعت کی۔ ان خلفاء کے زمانہ میں بھی لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اور انہیں خلفاء کو برحق تسلیم کیا۔ پس اگر خلفاء ثلاثہ کا انکار کیا جائے تو آنحضرت ﷺ کی رسالت کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔

شیعہ کتب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے متعلق حوالہ جات

۱۔ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ کی تفسیر میں حدیث آنحضرتؐ نے سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا جب ایمان ثریا ستارے پر چلا جائے گا تو مسلمان کی قوم میں سے بنوفارس اسے واپس لائیں گے۔ (تفسیر مجمع البیان از علامہ طبری زیر آیت سورۃ جمعہ و اخرین منھم)

۲۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تصدیق کے دو عظیم نشان رمضان کے مہینہ میں چاند اور سورج کو گرہن لگے گا۔ (فروع الکافی جلد۳ کتاب الروضہ صفحہ۱۰۰،۱۰۱۔ و بحار الانوار جلد۵۳ صفحہ۲۱۴)

۳۔ امام قائم ۔۔۔ جس کے لئے زمین سمیٹ دی جائے گی۔۔۔۔ بطور ایک منادی آسمان سے صدا کرے گا جس کو اللہ تعالیٰ تمام اہل ارض کو سنا دے گا۔ (بحار الانوار جلد۵۲۔ صفحہ۳۲۱،۳۲۲۔ از علامہ محمد باقر مجلسی۔بیروت)

۴۔ حضرت امام جعفرؓ صادق فرماتے ہیں کہ مہدی کو امام قائم اس لئے کہتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد کھڑا ہوگا ۔۔۔۔ (بحار الانوار جلد۵۱۔ صفحہ۳۰۔ بیروت)

۵۔ امام مہدی اپنے آپ کو آدم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد وغیرہ قرار دے گا۔ (بحار الانوار جلد۵۳۔ صفحہ۹۔ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان)

۶۔ امام ابو عبد اللہ جعفر صادق نے فرمایا کہ امام مہدی کے ساتھ ۳۱۳ اصحاب ہوں گے ۔ ان کے علاقے مختلف مگر مقصد ایک ہوگا۔ (بحار الانوار جلد۵۳۔ صفحہ۳۱۰،۳۱۱)

۷۔ امام جعفرؓ نے فرمایا ’’تم میں سے جو شخص متقی بنے وہ اہل بیت میں سے ہے‘‘۔ (تفسیر الصافی از علامہ فیض کاشانی جلد۱۔ صفحہ۸۹۰۔ تہران)

۸۔ جس نے اپنے وقت کے امام کو نہ پہچانا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ (بحار الانوار جلد۵۱۔ صفحہ۱۶۰۔ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان)

۹۔ ’’انا خاتم الانبیاء و انت یا علی خاتم الاولیائ‘‘۔ (تفسیر صافی از ملا محسن فیض کاشانی۔ الاحزاب آیت خاتم النبیین)

میں خاتم الانبیاء اور اے علی تو خاتم الاولیاء ہے۔

ذکری فرقہ


یہ لوگ اللہ کے ذکر پر زیادہ زور دیتے ہیں بلکہ اس کو نماز کاقائم مقام سمجھتے ہیں۔ اس فرقہ کے بانی سید محمد جونپوری ۱۴۴۳ء میں جونپور (انڈیا) میں پیدا ہوئے ان کو یہ لوگ امام مہدی مانتے ہیں۔ علماء کی مخالفت پر آپ سندھ کے علاقہ ٹھٹھہ، مکران، اور خراسان گئے۔ جہاں ان کے پیروکار اب بھی آباد ہیں۔ نیز گوادر اور تربت اسی طرح کراچی اور اندرون سندھ میں بعض مقامات پر ان کی آبادیاں ہیں۔ بلوچوں کے غیر تعلیم یافتہ اور پسماندگان لوگ زیادہ تر اس فرقے کے پیروکار ہیں۔
مکمل تحریر >>