Friday 10 November 2017

اسلام احمدیت سے مکرم بشیر احمد آرچرڈ کی زندگی میں زبردست تغیر





مکرم بشیر احمد آرچرڈ جماعت احمدیہ عالمگیر کے سب سے پہلے انگریز مبلغِ اسلام اور پہلے یورپین واقف زندگی ہیں۔ آپ نے اس وقت اسلام قبول کیا جب آپ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہندوستان میں برطانوی فوج کی ڈیوٹی سے فارغ ہوکر واپس اپنے گھر انگلینڈ آرہے تھے۔ آپ کوقادیان میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ انگلینڈ پہنچ کر آپ نے جماعت کے مرکزی مشن مسجد فضل سے رابطہ کیا اور اپنی زندگی اسلام کی خدمت کے لئے وقف کردی۔ آپ کے وقف کا عرصہ ۵۲ سال پر محیط ہے ،جس میں سے آپ نے ۱۸ سال انگلینڈ میں ، ۲۰سال سکاٹ لینڈ میں اور ۱۴سال ویسٹ انڈیز کے مختلف ممالک میں مبلغ کا فریضہ انجام دیا۔
مکرم آرچرڈ صاحب کے قبول اسلام کے بعد ان کی زندگی میں جو تغیر رونما ہوا اس بارہ میں آپ خود فرماتے ہیں کہ :۔
’’حقیقت یہ ہے کہ صرف مال چنداں خوشی اور قناعت نہیں دے سکتا۔ امن اور سکون بخشنا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آج مجھے وہ ذہنی اطمینان اور سکون قلب میسر ہے جو ایک زمانہ میں میرے خواب وخیال میں بھی نہ تھا۔
احمدیت کے طفیل ایک اورتغیر جو میری زندگی میں رونما ہوا وہ نمازوں کی باقاعدہ ادائیگی ہے۔ خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :۔ ذکرِ الٰہی سے قلوب طمانیت حاصل کرسکتے ہیں۔میں ابھی اس میدان میں مبتدی ہوں لیکن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں اور ملفوظات سے بہت کچھ پایا ہے۔ مجھے اس بات پر سخت تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان کہلانے والا ایک شخص جو خود کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرتا ہو وہ خدا تعالیٰ کے اس حکم کی نافرمانی کیونکر کرسکتا ہے اور فرض نمازوں کی ادائیگی سے کیسے غافل رہ سکتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ جب میں اسلام لانے کے بعد قادیان گیا تھا میں نے مسجد مبارک کے باہر نوٹس بورڈ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کا یہ ارشاد پڑھا کہ جس شخص نے گذشتہ دس برسوں میں ایک نماز بھی عمداً چھوڑی وہ سچا احمدی نہیں کہلا سکتا‘‘۔
(عظیم زندگی صفحہ ۱۰)
مکمل تحریر >>

Monday 23 October 2017

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عشق رسول کا نایاب واقعہ



برّصغیر پاک و ہند کے ممتاز ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ (ولادت 1886ء وفات 1947ء) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:۔
’’اب ایک ایسے شخص سے میرے ملنے کا حال سنیے جو اپنے فرقہ میں نبی سمجھا جاتا ہے اور دوسرے فرقہ والے خدا جانے اس کو کیا کچھ نہیں کہتے۔ یہ کون ہے۔ جناب مرزا غلام احمد قادیانی بانی فرقہ احمدیہ۔ ان سے میرا رشتہ یہ ہے کہ میری خالہ زاد بہن ان سے منسوب تھیں اس لئے یہ جب کبھی دلّی آتے تو مجھے ضرور بُلا بھیجتے اور پانچ روپے دیتے چنانچہ دو تین دفعہ ان سے میرا ملنا ہوا مگر میں یقین دلاتا ہوں کہ انہوں نے کبھی مجھ سے ایسی گفتگو نہیں کی جس کو تبلیغ کہا جا سکے۔ میں اس زمانے میں ایف اے میں پڑھتا تھا۔ زیادہ تر مسلمانوں کی تعلیم کا ذکر ہوتا تھا اور اس پر وہ افسوس ظاہر کیا کرتے تھے کہ مسلمان اپنی مذہبی تعلیم سے بالکل بے خبر ہیں اور جب تک مذہبی تعلیم عام نہ ہو گی اس وقت تک مسلمان ترقی کی راہ سے ہٹے رہیں گے۔
میرے ایک چچا تھے جن کا نام مرزا عنایت اللہ بیگ تھا۔ یہ بڑے فقیر دوست تھے۔ تمام ہندوستان کا سفر فقیروں سے ملنے کے لئے کیا۔ بڑی بڑی سخت ریاضتیں کیں۔ چنانچہ اس سے ان کی محنت کا اندازہ کر لیجئے کہ تقریباً چالیس سال تک یہ رات کو نہیں سوئے۔ صبح کی نماز پڑھ کر دو اڑھائی گھنٹے کے لئے سو جاتے ورنہ سارا وقت یادِ الٰہی میں گزارتے۔
ایک دن میں جو مرزا غلام احمد کے ہاں جانے لگا تو چچا صاحب قبلہ نے مجھ سے کہا ’’بیٹا میرا ایک کام ہے وہ کر دو اور وہ کام یہ ہے کہ جن صاحب سے تم ملنے جا رہے ہو ان کی آنکھوں کو دیکھو کہ کس رنگ کی ہیں۔‘‘ میں سمجھا بھی نہیں اس سے ان کا کیا مطلب ہے۔ مگر جب مرزا صاحب کے پاس گیا تو بڑے غور سے ان کی آنکھوں کو دیکھتا رہا۔ میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں سبز رنگ کا پانی گردش کرتا معلوم ہوتا ہے۔ اسی سلسلے میں مَیں نے خود بھی ان کو ذرا غور سے دیکھا کیونکہ اس سے پہلے جو میں ان کے پاس جاتا تھا تو ہمیشہ نیچی آنکھیں کر کے بیٹھتا تھا اس دفعہ میں نے دیکھا ان کا چہرہ بہت با رونق تھا سر پر کوئی دو  دو انگل کے بال ہیں۔ داڑھی خاصی نیچی ہے۔ آنکھیں جُھکی جُھکی ہیں۔ بات کرتے ہیں تو بہت متانت سے کرتے ہیں۔ مگر بعض وقت جھلا بھی جاتے ہیں۔ بہر حال وہاں سے واپس آنے کے بعد میں نے چچا صاحب قبلہ سے تمام واقعات بیان کئے۔’’فرحت دیکھو اس شخص کو بُرا کبھی نہ کہنا۔ فقیر ہے اور یہ حضرت رسولِ اکرم ﷺ کے عاشق ہیں۔‘‘میں نے کہا یہ آپ نے کیوں کر جانا۔ فرمایا:’’جو آنحضرت ﷺ کے خیال میں ہر وقت غرق رہتا ہے اس کی آنکھوں میں سبزی آ جاتی ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ سبز رنگ کے پانی کی ایک لہر ان میں دوڑ رہی ہے۔‘‘
میں نے اس وقت تو ان سے اس کی وجہ نہیں پوچھی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ سب فقراء اور اہلِ طریقت اس پر متفق ہیں کہ رسولِ اکرم ﷺ (کے روضہ) کا رنگ سبز ہے۔ اسی کا عکس آپ کے زیادہ خیال کرنے سے آنکھوں میں جم جاتا ہے۔‘‘
(عالمی ڈائجسٹ کراچی ، اکتوبر 1968ء صفحہ 73-74 )


















مکمل تحریر >>

Sunday 22 October 2017

چاند پر تھوکنے کی ناکام کوشش






چاند پر تھوکنے کی ناکام کوشش
خسوف و کسوف کے نشان کے بارہ میں
مولوی منظور چنیوٹی کے مغالطے

 ایچ ۔ایم ۔طارق


ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ نے تیرہ سو سال قبل بطور پیشگوئی امام مہدی کی صداقت کے دو عظیم نشان یہ بیان فرمائے تھے کہ چاند اور سورج کو رمضان المبارک کی خاص تاریخوں میں گرہن ہوگا۔ یہ نشان پوری آب و تاب کے ساتھ حضرت مرز ا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح موعود و امام مہدی کی سچائی کے گواہ بن کر رمضان ۱۳۱۱؁ھ (مطابق ۱۸۹۴؁ء) میں ظاہر ہوئے اور کئی بندگان خدا کی ہدایت کا موجب ہوئے ۔
۱۹۹۴؁ء میں ان نشانات پرایک صدی گزر جانے کے بعد جب اس مہدی موعود کی جماعت کی صداقت خوب کھل کر مخالفوں پراتمام حجت کررہی ہے اور اس جماعت میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں فوجوں کی صورت میں سعادت مند داخل ہو کر اس کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں ابھی بھی کچھ ایسے لوگ باقی ہیں جن پراس نشان کی حقیقت نہیں کھلی اوروہ اس غیر معمولی اورحیرت انگیز نشان پراعتراض کرکے بالفاظ دیگر چاند بلکہ سورج پربھی تھوکنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ ایسی کوشش کا انجام صاف ظاہر ہے اور یہی کچھ مولوی منظور چنیوٹی صاحب (جو اب ایم پی اے کے کہلوانے میں زیادہ فخر محسوس کرتے ہیں ) اور ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب’’ریٹائرڈ‘‘ جامع مسجدوکٹوریہ پارک مانچسٹر (جو اپنے آپ کو ڈائریکٹر اسلامک اکیڈمی آ ف مانچسٹر ظاہر کرتے ہیں) کے ساتھ ہو رہا ہے ۔جنہوں نے بزعم خویش برطانیہ میں مقیم’’قادیانیوں‘‘ کے چیلنج کا جواب دیتے ہوئے خسو ف کسوف (چاند سورج گرہن) کے نشان کو رسول اﷲ ﷺ کی بجائے امام محمد باقر کی پیشگوئی قرار دیاہے۔ اور یہ دعویٰ کیاہے کہ مرزا صاحب اس کے مصداق نہیں بن سکے۔
یہ رسالہ مولوی چنیوٹی صاحب کا تحریر کردہ ہے جس کا مقدمہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب نے لکھا ہے ۔ دونوں نے ایک دوسرے کی خوب دل کھول کر ستائش کی ہے ۔ 
مولوی چنیوٹی صاحب نے ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب کی کاوش کو ’’ایک نہایت ہی علمی ، تحقیقی ، وقیع اور بڑا مدلّل وجامع مقدمہ ‘‘ قرار دیاہے۔ جس میں اس پیشگوئی پر’’ایک نئے علمی انداز‘‘میں روشنی ڈالی گئی ہے جبکہ علامہ خالد محمود صاحب نے ’’سفیر ختم نبوت‘‘ چنیوٹی صاحب کواس مفید رسالہ کی تصنیف پر ’’لائق تبریک‘‘ قراردیاہے۔
اس جگہ ان دونوں حضرات کی اس تحقیق کی وقعت ظاہر کرنا اور ان کی نام نہاد ’’علمیت‘‘ کا پول کھولنا مقصودہے جس پراتراتے ہوئے اور دجل اور فریب کو کام میں لاتے ہوئے یہ کتابچہ ’’خسوف وکسوف ‘‘ انہوں نے تحریرکیا ہے۔ دیباچہ میں مولوی چنیوٹی صاحب نے چاند سورج گرہن کی رسول اﷲ ﷺ کی پیشگوئی کوامام محمد باقر کاقول بناکر پیش کر کے ا س حدیث کی اہمیت کم کرنے اور دنیاکو دھوکہ دینے کی جسارت کی ہے جس کا جواب آئندہ سطور میں پیش کیا جائے گا۔
٭……٭……٭

علمی و تحقیقی مقدمہ کی حقیقت

علامہ خالد محمود نے اپنے بے سروپا مقدمہ میں بزعم خویش جو ’’علمی نکات‘‘اٹھائے ہیں ان کی حیثیت محض عُذرِلنگ کے سوا کچھ نہیں۔ حقائق کے برخلاف ان کے متعصبانہ اور متضاد بیانات کاسارامدعا یہ ہے کہ ان کابس چلے تو ’’چاند سورج گرہن کے نشان‘‘ حضرت مرزا صاحب سے کسی طرح چھین کر دم لیں۔مگر جیساکہ انہوں نے خود اقرار کیاہے کہ ’’خدائی نمائندوں کے بارہ میں پیشگوئیاں زمین پر ان کے آسمانی جلال کا نشان ہوتاہے جس کا سامناکرنے کی کسی میں ہمت نہیں ہوتی‘‘۔ چنانچہ و ہ واقعی اس کوشش میں بے دست و پا اور بے بس ہو کررہ گئے ہیں کہ اس نشان کاجواب لا سکیں۔ باقی جہاں تک خدائی نمائندوں کے بارے میں پیشگوئیوں کا تعلق ہے منکرین کی طرف سے ان کو جھٹلایا جانا بھی ایک سنت مستمرہ ہے جیسے حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد سے قبل ایلیا کے آسمان سے اترنے کی پیشگوئی بائبل میں موجود تھی اور حضرت مسیحؑ کی وضاحت کے باوجود کہ حضرت یحیٰ ؑوہ ایلیا ہیں یہود نے انکارکیاتھا ۔ اسی طرح بائبل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائیوں میں سے ان کی مانند نبی برپا کرنے کی پیشگوئی تھی نیز حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے بعد احمد رسول اﷲ کے آنے کی خبر دی تھی باوجودیکہ یہ پیشگوئیاں ہمارے نبی حضرت محمدﷺ کے آسمانی جلال کانشان تھیں مگران کا سامناکرنے کی ہمت نہ ہونے کے باوجود یہود نے انکار اور تکذیب کی راہ اختیار کی تھی۔ سوچنے کی بات ہے کہ کہیں اس دور کے مسیح کے ساتھ امت مُسلمہ بھی وہی کاروائی تو دہرا نہیں رہی جیسا کہ قرآن شریف میں اسے مثیل امت یہود ٹھہرا کر پہلے سے یہ اشارہ کردیا گیاتھا۔
علامہ خالد محمود نے چاند سورج گرہن والی پیشگوئی کو ایک کمزور سند سے بیان شدہ پیشگوئی قرار دیاہے۔ ان لکیرکے فقیرمُلّانوں کو کون سمجھائے کہ جس حدیث کی پیشگوئی پوری ہو چکی اب اسکی سند کمزور قرار دینے سے کیاحاصل؟ البتہ و ہ عقلیں ضرورکمزور ہیں جو اسے سمجھنے سے قاصرہیں ورنہ کسی حدیث کی پیشگوئی کا پوراہو جانا اپنی ذات میں ایسی پختہ سند ہے جسے مزید کسی سند کی حاجت نہیں۔

عوامی پیرائے کے نشان

دوسرا سوال علامہ خالد محمود صاحب نے یہ اٹھایاہے کہ آسمانی نشان عوامی پیرائے میں ہونے چاہئیں۔یہ عجیب تواردہے کہ ہمیشہ سے منکرین اور مکذبین کی طرف سے بھی یہی اعتراض خدائی نمائندوں پرہوتا آیاہے ۔ چنانچہ کفارمکہ نے قرآن کے علمی معجزہ اور شق قمر جیسے نشان دیکھ کر بھی انکار کیا اور علامہ خالدمحمود صاحب کی طرح ’’عوامی پیرائے کا نشان‘‘ یا ’’تماشا دکھانے کا تقاضا‘‘کرتے ہوئے کبھی کوئی چشمہ جاری کرنے یا کھجور و انگور کا باغ پیدا کرنے کی خواہش کی۔ کبھی آسمان کا ٹکڑا ان پرگرانے یا خدا اور فرشتوں کو سامنے لے آنے کا مطالبہ کیا تو کبھی سونے کا گھر موجود ہونے یا آسمان پرچڑھ دکھانے کی پہیلی ڈالی مگر انہیں ایک ہی جواب دیا گاکہ (مجھ سے ممکن نہیں ۔ کیونکہ ) میں تو محض ایک بشر رسول ہوں (بنی اسرائیل :۹۱ تا ۹۴) یعنی میں اپنی مرضی سے نشان نہیں اتار سکتا۔ اور یہی اصول قرآن شریف نے دوسری جگہ بھی دہرایا ہے کہ نشانات تواﷲ کی طرف سے اس کی مرضی کے موافق اترا کرتے ہیں مگر جب وہ نشان آ جاتے ہیں تو بھی منکرایمان نہیں لایا کرتے ۔(انعام :۱۰)

اہل عرب اور چاند سورج گرہن

رسالہ زیر نظر میں ایک اور مسئلہ علامہ خالد محمود صاحب نے یہ اٹھایا ہے کہ چونکہ چاند سورج گرہن کی پیشگوئی کی مخاطب’’امت امیّہ‘‘ یعنی لکھنے پڑھنے سے عاری عرب قوم تھی جو علامہ صاحب کے خیال میں حساب کی رو سے چاند اور سورج گرہن کی تاریخیں نہ جانتی تھی اور اس زمانہ کے لوگ فلکی و جغرافیائی نظام اور علم ہیئت سے ناواقف تھے اس لئے ان کے نزدیک رمضان کی پہلی رات کا گرہن لگنے سے مراد یکم رمضان ہی ہو سکتی تھی نہ کہ گرہن کی تاریخوں تیرہ ، چودہ اور پندرہ میں سے پہلی یعنی تیرہ تاریخ ۔ علامہ صاحب کے نزدیک دین فطرت کا کوئی ایسا انداز نہیں ہوتا کہ اس تک صرف ایک خاص طبقہ کی ہی رسائی ہو اور عام لوگ اسے نہ جان سکیں۔
علامہ صاحب کا یہ سارا اصول ہی خود ساختہ ہے۔ یہ سوال اٹھاتے ہوئے شاید و ہ بھول گئے ہیں کہ عرب کی اس اُمّی اور ان پڑھ قوم کو جو معجزہ دیا گیا وہ ان کے اس اصول کے برخلاف قرآن شریف کی فصاحت و بلاغت کا علمی معجزہ تھا حالانکہ علامہ صاحب کے اصول کے مطابق عرب کی اَن پڑھ قوم کو ’’عوامی پیرائے‘‘ کاکوئی نشان دیا جانا چاہئے تھا جیسا کہ وہ جاہل قوم مطالبہ کر رہی تھی ۔جبکہ قرآن شریف نے اس علمی معجزہ کو ’’کتاب مکنون‘‘ قرار دیا ۔(الواقعہ:۷۸ تا ۸۰)۔یعنی اپنے مضامین و معانی کے لحاظ سے عوام کی نظروں سے اوجھل ، چھپی ہوئی اور پوشیدہ کتاب جس تک صرف ’’المُطَہَّرُون ‘‘یعنی پاک کئے گئے لوگوں کی رسائی ہو سکتی ہے ۔
مزید برآں قرآنی اصول کے مطابق پیشگوئیاں کئی استعارات سے پرُہوتی ہیں اور متشابہات کا رنگ رکھتی ہیں۔ غیرمطہر اور کج فہم لوگ ان کی تاویلیں کرکے فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ مگر مطہر اور علم میں راسخ لوگ ان پیشگوئیوں کی حقیقت جان کر ان پر ایمان لاتے ہیں۔ اور یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہے عطا فرما دے ۔
ڈاکٹر صاحب موصوف نے یہ کہہ کر کہ عربوں کو چاند سورج گرہن کی تاریخوں کابھی علم نہ تھا ، اپنے وضع کردہ قاعدے میں ایک اور زیادتی یہ کی کہ اپنی امیّت اور جہالت ’’امت امیہ‘‘ کے سرتھوپ دی ہے۔ اگرچہ یہ سوال چنداں لائق پذیرائی نہیں لیکن چونکہ ایک نیا شوشہ ہے اس لئے اس کا رَدّ ضروری ہے۔ دراصل یہ علامہ صاحب کی تاریخ بلکہ جغرافیہ سے بھی لاعلمی کی منہ بولتی مثال ہے۔ عرب لوگ بیشک لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے مگر دنیا کی تہذیب کے چھٹے ہزار سال پرہوتے ہوئے وہ اتنے بھی بے خبر محض اور لاعلم نہ تھے کہ انہیں چاند سورج گرہن کی تاریخوں کا بھی پتہ نہ ہو۔ بالخصوص جبکہ ان کے مہ و سال چاند کی تاریخوں کے گرد گھومتے تھے اور جبکہ ان کے ماحول میں اہل بابل نے دو ہزار سال قبل مسیح میں چاند اور سورج کے مداروں کا تعین کرکے ان کے میل اور گرہنوں کااندارج کیا اورسال کو بارہ قمری مہینوں میں تقسیم کرکے تقویم کو موسموں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے تیرھواں مہینہ بڑھادیا ۔ عربوں میں بھی یہود کے اثر سے یہی نظام جاری تھا۔
(’’عرب‘‘ ول ڈیورانٹ مترجم یاسرجواد صفحہ ۱۹۲،۱۹۳۔ اکرم آرکیڈ ۲۹ ٹمپل روڈ لاہور)
اسی طرح پندرھویں صدی قبل مسیح میں عراق عرب میں عمالقہ کی ایک نہایت ترقی یافتہ سلطنت قائم تھی۔سب سے پہلے انہی عمالقہ نے علم الفلک کی ایجاد کی تھی اور ستاروں اور آسمان کی حرکت کا پتہ لگایاتھا۔ پھرعرب میں یہود اور صابی قوم (ستارہ پرست) بھی آباد تھیں او ر یہ دونوں قومیں علم النجوم اور ہیئت سے آشنا تھیں۔ اہل عرب نے ان صابیوں سے بھی علم نجوم حاصل کیا اور اس میں اس قدر ترقی کی کہ ان کو اس علم میں اہل عجم پر ترجیح دی گئی ہے ۔ چنانچہ عربوں نے چاند(جس کی تاریخوں پر ان کا مدار تھا )کا اتنا گہرا مطالعہ کیا تھاکہ پہلی رات کے چاند سے لے کرمہینے کے ختم ہونے تک ہر تین راتوں کے لئے ان کے ہاں ایک الگ نام مقرر ہے جیساکہ ایک عرب شاعر کہتاہے ؂ 
ثُمَّ لَیَالِیَ الشَّہْرِ قِدْمًا عَرَّفُوْا
کُلُّ ثَلَاثٍ بِصِفَاتٍ تُعْرَفٗ
یعنی عربوں نے مہینہ کی چاند راتوں کوقدیم زمانہ سے پہچان رکھاہے اور ہر تین راتیں خاص صفات کے ساتھ معروف ہیں۔ چنانچہ گرہن کی راتیں ۱۳،۱۴،۱۵ ’’لیالی البیض‘‘ (یعنی سفید اور روشن راتیں) کے نام سے معروف تھیں۔ تو چاند مہینہ کی آخری تین راتیں ’’المحاق‘‘کہلاتی تھیں جیساکہ شاعر کہتاہے ؂
ثُمَّ الْمُحَاقُ لِاِنْمِحَاِق بَادِیْ
یعنی پھر آخری تین راتیں محاق کیونکہ یہ واضح ہے کہ ان راتوں میں چاند دکھائی نہیں دیتا ۔
(بلوغ الارب جلد ۴ صفحہ ۲۷۹ ۔ تالیف محمود شکری الوسی ترجمہ ڈاکٹر پیر محمد حسن۔ مرکزی اردو بورڈ۔ ۳۶ جی گلبرگ لاہور)
اس لئے جب عربوں کو مخاطب کر کے چاند سورج گرہن کی پیشگوئی بیان کی گئی تو ان کے لئے یہ بات ہرگز ناقابل فہم نہیں تھی ۔ چنانچہ اس امر کے تاریخی شواہد موجود ہیں کہ حضرت امام باقر ؒ دوسری صدی ہجری میں جب یہ روایت بیان فرما رہے تھے تو مخاطبین کو علامہ خالد صاحب کے مفروضہ کے مطابق بالکل بھی یکم رمضان اور پندرہ رمضان کی تاریخوں کاگمان نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس چاند سورج گرہن کی معروف تاریخوں کی طرف ہی دھیان گیا ۔ چنانچہ شیعہ مسلک کے رئیس المحدثین علامہ یعقوب کلینی نے اپنی معتبر کتاب الجامع الکافی میں روایت کیا ہے کہ امام محمد باقر نے جب ان نشانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مہدی کے وقت سورج کو درمیان ماہ اورچاند کو آخرماہ میں گرہن ہوگا تو مخاطبین میں سے ایک شخص نے فوراً سوال کیا کہ اے امام! کہیں اس کے برعکس تاریخیں تونہیں۔ یعنی چاند کو درمیان ماہ اور سورج کو آخر ماہ میں (جوفی الواقعہ گرہن کی تاریخیں ہوتی ہیں)۔
(الفروع من الجامع الکافی کتاب الروضہ صفحہ ۱۰۰ مطبع نولکشور)
ان حقائق سے ثابت ہے کہ چاند سورج گرہن کی پیشگوئی ان تاریخوں میں ہی پوری ہونی مقدر تھی جن میں ازل سے گرہن لگتاآیاہے۔ اور نہ صرف حضرت امام باقر کے زمانہ سے لے کر تیرھویں صدی ہجری تک کے اہل فہم و فراست مخاطبین یہی مفہوم مراد لیتے رہے بلکہ گرہن کی معروف تاریخوں میں یہ واقعہ ہوگا جیسے حافظ لکھوکے والے نے احوال الآخرۃ میں لکھا ؂ 
تیرھویں چن ستیہویں سورج گرہن ہوسی اسی سالے 
 اندر ماہ رمضانے لکھیا ہک روایت والے 
اسی طرح حضرت نعمت اﷲ شاہ ولی اور علامہ عبدالعزیز پرہاروی ملتانی نے بھی پہلی اور درمیانی تاریخ کا یہی مفہوم بیان کیا اور سب سے بڑھ کر یہ واقعاتی شہادت ہے کہ عین انہی تاریخوں میں نشان کسوف وخسوف ظہور میں آیا اور مقررہ تاریخوں میں رسول اﷲ کی پیشگوئی نے پورا ہو کر خود اپنی حقیقت آشکار کر دی۔ 
اور یہ نشان نبی کریم ﷺ کی صداقت کا شاندار نشان بنا ۔ اس جگہ علامہ خالد محمود صاحب کے اٹھائے گئے اس نئے شگوفے کی بیخ کنی ضرور ی سمجھی گئی ہے ورنہ بفرض محال پیشگوئی کی مخاطب ’’امت امیہ‘‘ کو اگرعلم ہیئت سے واقفیت نہ بھی ہوتی تو بھی پیشگوئی کے ظہور کے وقت چونکہ خود بخود حقیقت کھل جایاکرتی ہے اس لئے بوقت پیشگوئی اس کا سمجھ میں نہ آنا کو ئی مضر بات نہیں۔ جیسے رسول خدا ﷺ کورؤیا میں اپنی ہجرت کی جگہ کھجوروں والی دکھائی گئی اور آ پ اسے یمامہ سمجھتے رہے مگرہجرت ہونے پرپتہ چلا کہ دراصل مدینہ مراد تھا۔(بخار ی کتاب المناقب)
پس پیشگوئی کے وقت اس کا مفہوم واضح ہونا نہ صرف ضروری نہیں بلکہ پیشگوئیوں میں اکثر استعارہ غالب ہونے کی وجہ سے ایسا ہی ہوا کرتاہے ۔ واقعہ حدیبیہ اس کی دوسری مثال ہے جس میں رسول اﷲ ﷺ نے ایک رؤیا کی بناپر یہ سمجھا کہ اس سال آپ عمرہ ادا کر یں گے ۔ مگر وہ پیشگوئی اس سال پوری نہ ہوئی بلکہ اگلے سال پوری ہوئی۔
  علامہ خالد محمود صاحب نے یہ بھی نہیں سوچا کہ’’ امّت امیہّ‘‘ نے آئندہ ہمیشہ کے لئے اَن پڑھ نہیں رہنا تھا بلکہ جو رسول ان میں معلّمِ کتاب و حکمت بن کرآیا اس کا کام ہی ان کی امّیت دور کرنا بھی تھا اور قرآن شریف نے جب گردش محوری(یٰسین :۴۱) ، چاند سورج گرہن کے ذکر (القیامۃ : ۹،۱۰)، اور سیاروں کی منازل اور ماہ و سال کے حساب (یونس:۶) کے بارے میں تعلیم فرما دی تو امت کی امّیت کم از کم چاند سورج گرہن کے بارے میں توزائل ہوگئی اور پھر اس نشان نے تو آخری زمانہ میں پورا ہوناتھا جیساکہ چودھویں صدی میں ظاہر ہوا۔ علوم کے پھیلاؤ کے اس زمانہ میں تو علم ہیئت ا س قدر ترقی کر چکا ہے کہ آپ جیسامولوی بھی تسلیم کر رہا ہے کہ چاند گرہن ۱۳،۱۴ ،۱۵ اور سورج گرہن ۲۷،۲۸،۲۹ کو ہی لگا کرتاہے (فَلَا اِعْتَرَاض) 
مولوی چنیوٹی صاحب اور علامہ خالد صاحب دونوں نے ایک اور حدیث بھی چاند سورج گرہن کے خلاف پیش کی ہے حالانکہ وہ بجائے خود ا س نشان کی ایک تائید ی گواہ ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے فرزند گرامی حضرت ابراہیم کی وفات پر جب سورج گرہن ہوا تو بعض لوگوں کے توہمات کی تردید کرتے ہوئے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ چاند اور سورج اﷲ کے نشانوں میں سے دو نشان ہیں لیکن ان کو کسی کی موت یا زندگی کے باعث گرہن نہیں ہوتا۔
ا ب اس حدیث کے الفاظ کتنی صفائی سے چاند سورج گرہن کو دونشان قراردے کر ہمارے موقف کی تائید و تصدیق کرتیـ ہیں۔ کیونکہ قرآن وحدیث گواہ ہیں کہ آیات اور نشانات ہمیشہ خدا ئی نمائندوں کی سچائی کے لئے ہی ظاہر ہواکرتے ہیں ، کسی کی موت یازندگی کانشان نہیں ہوتے ۔
اور حدیث کے ان الفاظ سے ڈاکٹر صاحب بھی حدیث کسوف وخسوف کے برخلاف کوئی استدلال نہیں کرسکے۔ چنانچہ انہوں نے بے باکی سے یہودی احبار کی طرح حدیث کے ترجمہ میں صریحاً تحریف کر ڈالی۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ تھے ’’لَا یَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ اَحَدٍ لَا لِحَیَاتِہٖ‘‘۔ یعنی کسی کی موت یاحیات پر ان کو گرہن نہیں لگتا۔ مگر انہوں نے حیات کایہ ترجمہ نامعلوم کس لغت سے کیاہے کہ ’’نہ کسی کی آمد کانشان ہیں‘‘۔ یہ ترجمہ سراسر ایک علمی خیانت اور واضح بددیانتی ہے جسے ایک معمولی عربی جاننے والابھی سمجھ سکتاہے ( اور اس کے لئے پی ۔ایچ۔ ڈی ہونا بھی شرط نہیں)۔
ڈاکٹر خالد محمود صاحب نے خود یہ تسلیم کیاہے کہ جب تک دنیا ہے نظام فلکی سے ٹکراؤ ممکن نہیں۔ پھرعالم ہو کر مرزا صاحب کی مخالفت میں یکم اور پندرہ تاریخ کو چاند سورج گرہن کا ایک متضاد اور جاہلانہ تصور پیش کرکے خود اپنے ’’گرگٹ‘‘ ہونے کاثبوت دیا ہے ۔ یہ تصور نہ صرف عقل اور سائنس اور سنت الٰہی کے قواعد و ضوابط کے برخلاف ہے بلکہ قرآن شریف کے بیان کے بھی مخالف ہے ۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتاہے۔ لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِی لَھَا اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَاالَّیْلَ سَابِقُ النَّہَارِ کَلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ (یٰسین :۴۱) کہ سورج کبھی چاند کو پکڑ نہیں سکے گا ، نہ رات دن سے بڑھ سکے گی بلکہ یہ سب سیارے اپنے مدارمیں تیر رہے ہیں اورتیرتے رہیں گے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتاہے فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِاللّٰہِ تَبْدِیْلاً (فاطر:۴۴) ۔ پس چاند کی پہلی رات کو گرہن لگنے کامطلب سنّتِ مستمرہ اور قانون قدرت میں تبدیلی ہے۔اس قانون اور سیاروں کی گردش محوری کے ٹوٹ جانے کا دوسرا نام قیامت اور اس عالم کی ہلاکت و بربادی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ حدیث میں ہرگز یہ نشان بیان نہیں ہو رہا کہ مہدی کے آنے پراتمام حجت سے بھی پہلے دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی۔

چاند سورج گرہن کے خارق عادت ہونے سے مراد

اب سوال یہ رہ جاتاہے کہ اگر چاند سورج گرہن کا نشان قانون قدرت کے مطابق مقررہ تاریخوں میں ہی ظاہر ہونا تھا تو پھر اس ارشاد کا کیا مطلب ہے کہ ’’لم تکونا منذ خلق اﷲ السمٰوٰت والارض‘‘ فیعنی جب سے اﷲ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو پیدا کیا کبھی اس طرح یہ نشان ظاہر نہیں ہوئے ۔ تو یاد رکھنا چاہئے کہ ان الفاظ میں اس عظیم نشان کی یکتائی اور ایسی انفرادیت بیان کرنا مقصود ہے جو قانون قدرت کے اندر رہ کر حاصل ہو۔ اور وہ یہ کہ کبھی اس سے پہلے کسی ایسے مدعی مہدویت کے حق میں یہ نشان اپنی مخصوص تاریخوں میں رمضان میں ظاہر نہیں ہوا ہوگا، جسے اُس مدعی نے بطور ثبوت اپنے حق میں پیش کیا ہو۔ 
ڈاکٹر خالد محمود صاحب نے اپنے مقدمہ اور مولوی چنیوٹی صاحب نے اپنے رسالہ کسوف و خسوف کے پیش لفظ کو انتہائی بغض وعداوت سے بے سروپا لغو اعتراضات کا ملغوبہ بنا دیاہے۔ خود کاشتہ پودا ، حضرت مرزا صاحب کے مختلف دعاوی اور چودھویں صدی میں ظہور مسیح نیز مسیح و مہدی کی جدا شخصیتیں ۔ ان تمام اعتراضات کے جوابات جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہونے والے جوابی لٹریچر میں باربار دئے جا چکے ہیں ۔ اس جگہ خسوف و کسوف کے بارے میں اعتراضات کا جواب مقصود ہے اس لئے یہاں یہی مضمون مقدم رکھا جائے گا۔

چودھوی صدی اور امام مہدیؑ

البتہ اسی حدیث کسوف وخسوف کے ہمہ جہتی عظیم نشان کے حوالے سے ضمناً چودھویں صدی میں مسیح و مہدی کے ظہور کا ثبوت پیش کرکے چنیوٹی صاحب کو گھر تک پہنچانے کے لئے ان کا ایک اور چیلنج بھی جھوٹا ثابت کرنا ضروری معلوم ہوتاہے اور وہ یہ کہ چاند سورج گرہن کو مہدی کا نشان قرار دیا گیا تھا اور یہ نشان حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کے بعد ٹھیک چودھویں صدی کے سر پر رمضان ۱۳۱۱؁ھ میں ظاہر ہوا۔ غور کرو کہ اس نشان کا پہلی تیرہ صدیوں میں کسی مدعی کا اپنے حق میں پیش نہ کرنا اور چودھویں صدی کے سر پر اس وقت اس نشان کا پورا ہونا جب ایک دعویدار مسیح و مہدی موجود ہے ا س امر کاکافی و شافی ثبوت ہے کہ مسیح ومہدی کی صدی چودھویں صدی کے سوا کوئی نہیں۔ یہی وہ امر جسے خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت بھی سچا ثابت کررہی ہے ۔
مولوی چنیوٹی صاحب نے کِذب بیانی کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کی طرف یہ بات منسوب کی ہے کہ جماعت چودھویں صدی کو آخری صدی قرار دیتی ہے اور پھر خود ہی اس پر بغلیں بجاتے ہیں کہ پندرھویں صدی شروع ہو گئی لہذا احمدی جھوٹے !۔
اگر مولوی صاحب بانی ٔ جماعت احمدیہ یا ان کے خلفاء میں سے کسی ایک کاحوالہ بھی چودھویں صدی کے آخری ہونے کے متعلق ثابت کر دیں تو منہ مانگا انعام پائیں ورنہ ان سے گزارش ہے کہ ایسے بے دریغ جھوٹے الزام لگانے میں حیا سے کام لیاکریں کہ آپ کے نام کے ساتھ ایم پی اے کے علاوہ مولوی کا لفظ بھی تو لگا ہے ۔ اصل سوال یہ ہے کہ جب مولوی صاحب نے چودھویں صدی کے مجددکو مانا ہی نہیں تو پھر وہ کس ڈھٹائی سے پوچھتے ہیں کہ پندرھویں صدی کا مجدد کون؟۔
ہمارے نزدیک تو جب چودھویں صدی کا مجدد مسیح موعود و مہدی ٔ موعود ثابت ہو گیا اور اس کے ذریعہ خلافت علی منہاج النبوۃ کا سلسلہ بھی قائم ہو گیا تو جب تک یہ خلافت قائم رہے گی مجددیت کا سلسلہ اسی میں مدغم رہے گا اور ہر صدی کے سر پر موجود جماعت احمدیہ کا خلیفہ اپنے دینی و روحانی کا رناموں کے لحاظ سے مجدد وقت بھی ہوگا ۔ جیسے خلفاء راشدین مجدد وقت بھی تھے اور ان کی موجودگی میں کسی اور مجدد کی ضرورت نہ تھی۔
چنیوٹی صاحب کے پیش لفظ کے بارے میں ان دو چند وضاحتوں کے بعد اب ہم ان کی بے سروپا مغالطہ آرائیوں کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں۔

٭……٭……٭

حدیث رسول یا قولِ محمد باقر ؒ

پہلا مغالطہ انہوں نے یہ دینے کی کوشش کی ہے کہ دارقطنی میں درج چاند اور سورج گرہن کی پیشگوئی حدیث رسول نہیں بلکہ امام محمد باقر ؒ کاقول ہے اور اسے حدیث ثابت کرنے والے کے لئے انہوں نے دس ہزار روپے کے انعامی چیلنج کا وعدہ کیا ہے (جیساکہ اپنے باطل دعووں کی اہمیت جتلانے کے لئے یہ ان کا پرانا وطیرہ ہے )۔ حالانکہ مولوی چنیوٹی صاحب کے ایسے بلند بانگ دعوے بجائے سستی شہرت اور ان کی علمیت کے ثابت کرنے کے الٹا اُن کی جہالت کو ظاہر کررہے ہیں کہ ایک عالم ہو کر انہیں یہ بھی خبر نہیں کہ اصطلاحاً حدیث کی تعریف کیا ہے ۔ اور یہ کہ امام دارقطنی جیسے عظیم محدث نے اپنی سنن دارقطنی امام باقر ؒ کے اقوال جمع کرنے کی خاطر تصنیف نہیں فرمائی بلکہ اس میں احادیث رسول جمع کی ہیں…………۔ اور یہ حدیث باقاعدہ باب صلوٰۃ الکسوف میں نمبر ۱۰ پر درج کی ہے۔ اگر وہ اسے حدیث نہ سمجھتے تو اسے احادیث میں شمار نہ فرماتے ۔
کاش مولوی صاحب موصوف میں خدا خوفی ہوتی کہ وہ رسول اﷲﷺ کی ایک ایسی جلیل القدر پیشگوئی پر (جو پوری ہو کر خدا کی فعلی شہادت سے سچی ثابت ہو چکی ہے) بے باکی سے معترض نہ ہوتے ۔ نہ ہی امام دارقطنی پر حملہ کرتے کہ انہوں نے ایک قولِ تابعی کو حدیث بنا دیا ۔ اب مولوی چنیوٹی صاحب کا جاہلانہ چیلنج توڑنے سے پہلے اول ان کو فن حدیث کی الف ب اور حدیث کی تعریف ازسر نو یاد کروانی ہوگی(جسے وہ جماعت احمدیہ کے بغض و عداوت میں بھلا ہی چکے ہیں)۔

حدیث کی اصطلاحی تعریف

حنفی فقہ کے مشہور امام حضرت علامہ علی بن سلطان قاری، حدیث کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اصطلاحاً قول رسولؐ ، آپ کے فعل اور تقریر (آپ کے سامنے کئے گئے کام) کو حدیث کہتے ہیں۔ اسی طرح صحابہ اور تابعی کے قول کوبھی حدیث کہا جاتاہے۔
(شرح نخبۃ الفکر فی مصطلحات اھل الاثر صفحہ ۱۶۔ مکتبہ اسلامیہ میزان مارکیٹ کوئٹہ ۱۳۹۷؁ھ)
مگر بات صرف اتنی نہیں ۔ یہ روایت تو آئندہ زمانہ کی ایک عظیم پیشگوئی پر مشتمل ہے جیسا کہ خود چنیوٹی صاحب نے تسلیم کیاہے اور کوئی شخص آئندہ کی خبر از خود نہیں دے سکتا۔ اندریں حالات محدثین کے فیصلہ کے مطابق بوجہ پیشگوئی ہونے کے یہ موقوف حدیث بھی مرفوع حکمی حدیث کہلائے گی جیسا کہ علماء فن حدیث نے اس کی صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ھُنَاکَ صُوَرٌمِنَ المَوْقُوْفِ فِی اَلْفَاظِھَا و شَکْلِھَا……اَنَّہَامِنَ الْمَوْقُوْفِ لَفْظاً المَرْفُوْعُ حُکْماً وَ مِنْ ھٰذِہٖ الصُّوَرِ…… الاَخْبَارُ عَنِ الْاُمُوْرِ الْاٰ تِیَۃِ‘‘۔ (تیسیر مصطلح الحدیث ڈاکٹر محمود طحان صفحہ ۱۳۰،۱۳۱۔ فاروقی کتب خانہ بیرون گیٹ ملتان)
یعنی موقوف حدیث کی الفاظ اور شکل کے لحاظ سے کئی صورتیں ہیں جن میں لفظاً موقوف حدیث ، مرفوع حدیث کے حکم میں ہوتی ہے۔ ان صورتوں میں ایک آئندہ آنے والے حالات کے بارے میں خبر دیناہے ۔
یہی بات علامہ علی بن سلطان محمد القاری نے بھی لکھی ہے ۔
(شرح نخبۃ الفکر صفحہ ۱۷۰،۱۷۱۔ مکتبہ اسلامیہ میزان مارکیٹ کوئٹہ ۱۳۹۷؁ھ)

روایت امام محمد باقر ؒکی سند

رہی یہ بات کہ امام باقر ؒ نے قال رسول اﷲ کے الفاظ استعمال نہیں کئے اس کی وجہ علامہ شمس الدین ذھبی نے حضرت امام باقر ؒ کے حالات میں کھول کر بیان کر دی ہے اور وہ یہ کہ حضرت امام محمد باقر ؒ کا یہ الگ انداز ہے کہ وہ اپنے باپ اور دونوں دادا (حسن و حسین رضی اﷲ عنہما) اور پڑدادا حضرت علیؓ سے مُرسل روایات کرتے ہیں۔ یعنی اپنے اور ان بزرگ آباء کے مابین واسطہ اور سند کے بیان کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔ اور یہ کوئی عیب یا قابلِ اعتراض بات نہیں بلکہ علامہ ذھبی نے حضرت امام باقر ؒکو کثیرالحدیث ثقہ تابعی تسلیم کیاہے ۔(تہذیب التہذیب جز ۹ صفحہ ۳۱۱ عبدالتواب اکیڈمی ملتان)
اب کہاں ہیں مولوی چنیوٹی صاحب جو امام محمد باقر ؒکی اس روایت کو حدیث ثابت کرنے پر دس ہزار کے انعامی چیلنج کی ڈینگ ہانک رہے تھے۔ علامہ ذھبی نے تو ان کے خلاف ڈگری کردی لیکن اگر یہ مان جائیں تو ’’مولوی‘‘ کیسے ثابت ہوں۔ ’’ملا آں باشد کہ چپ نشود‘‘۔ 
مولوی صاحب کہتے ہیں کہ اس روایت کے ساتھ قال رسول اﷲ ﷺ دکھاؤ۔ تو آئیے مولوی صاحب آخری اتمام حجت کے طور پر ہم آپ کو خود امام محمد باقرؒ کا یہ اصولی فیصلہ بھی سنا دیتے ہیں۔ جب امام باقر ؒ سے ان کی حدیث مرسل بلاحوالہ ٔ سند کے بارہ میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جب میں کوئی حدیث بیان کرتاہوں اور اس کی سند کو بیان نہیں کرتا تو اس کی سند اس طرح ہوتی ہے کہ مجھ سے میرے پدر بزرگوار نے بیان کیا اور ان سے میرے جدِّ نامدار امام حسین علیہ السلام نے اور ان سے ان کے جدّامجد جناب رسالتماب ﷺ نے فرمایا اور آپ سے جبریل امین نے بیان کیا اور ان سے خدا وند عالم نے ارشاد فرمایا۔
(کتاب الارشاد صفحہ ۲۸۴۔ بحوالہ بحارالانوار حصہ چہارم از ملا محمد باقر مجلسی۔ مترجم ڈاکٹر محمد حبیب الثقلین النقوی درحالات امام باقر محفوظ یک ایجنسی مارٹن روڈ کراچی )
اب کہاں ہیں چنیوٹی صاحب اور کہاں گیا ان کاانعامی چیلنج ؟
اس پہلے مغالطہ کا جواب دیتے ہوئے آخر میں ہم مولوی صاحب کے اس مطالبہ کو بھی پورا کر دیتے ہیں کہ کسی کتاب سے یہ حدیث دکھاؤ!
متعدد بزرگان سلف اور محدثین میں سے اس وقت بطور نمونہ ایک اہل سنت کا مستند حوالہ اور ایک شیعہ مسلک کاحوالہ پیش کیا جاتاہے جنہوں نے اس روایت کو باقاعدہ سند کے ساتھ بطور حدیث بیان کیاہے ۔
۱…… سپین کے مشہور مفسر علامہ شمس الدین قرطبی متوفّیٰ ۶۷۱؁ھ (اگر امام دارقطنی کا لحاظ نہیں تو علامہ قرطبی کا پایہ تو مولوی صاحب کو مسلم ہے جیساکہ ان کے رسالہ کے صفحہ ۱۶سے ظاہر ہے) نے اپنی کتاب التذکرہ فی احوال الموتٰی و امور الآخرۃ صفحہ ۶۱۹ مطبوعہ ۳۰ شارع عبدالخالق ثروت قاہرہ میں زمانہ مہدی کی علامات بیان کرتے ہوئے دارقطنی کی یہ حدیث مکمل سند کے ساتھ بصیغہ حدّثنا نقل کی ہے اور پوری اس روایت کے حدیث ہونے پرصاد کیاہے۔
اہل شیعہ کے رئیس المحدثین امام محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی نے الفروع من الجامع الکافی میں امام محمد باقر سے یہ حدیث مع سند صیغہ ٔتحدیث میں بیان کی ہے۔ (الفروع من الجامع الکافی کتاب الروضہ صفحہ ۱۰۰ مطبع نولکشور) ۔
اسی طرح شیعہ مسلک کے محدث اکبر علامہ قُمِّی (مُتوفّٰی ۳۸۱ھ) نے بھی چاند سورج گرہن کے اس نشان پرمشتمل حدیث صیغہ ٔ تحدیث میں حضرت امام محمدباقر ؒ سے اپنی کتاب اکمال الدین میں بیان کی ہے ۔ کیا اس تمام تحقیق حق کے بعد مولوی چنیوٹی صاحب میں یہ اخلاقی جرأت ہے کہ وہ اپنے چیلنج کو یوں پاش پاش ہوتے دیکھ کر مرد میدان بن کر انعامی چیلنج کا اپناوعدہ پوراکریں ۔ مگر ’’چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں‘‘ ۔ جن مولوی صاحب کا ہاتھ ہمیشہ سے خدا نے یدِ سُفلیٰ بنایا ہے وہ اب یدِعُلیا کیسے ہو سکتاہے۔ یہ تو ممکن نہیں۔ ایک ہی طریق ہے کہ اگر مولوی موصوف میں خدا ترسی ہے تو توبہ کرے، ورنہ پھر خدائی فیصلہ کا انتظار کرے۔

حضرت مرزا صاحب اور علامات مسیح و مہدی

دوسرا مغالطہ: مولوی چنیوٹی صاحب کا دوسرا مغالطہ انکا یہ بے بنیاددعویٰ ہے کہ مرزا صاحب کے حق میں مسیح و مہدی کی نشانیاں پوری نہیں ہوئیں۔ یعنی وہی گھِساپِٹا اعتراض جو ہر زمانہ کے منکرین اپنے مامور کے وقت پر کرتے چلے آئے ہیں ۔ اس کے مقابل پر حضرت مرزا صاحب کا ڈنکے کی چوٹ یہ دعویٰ ہے کہ منہاج نبوت کے مطابق جو ثبوت چاہومجھ سے لے لو۔یعنی آپ اپنی سچائی ثابت کرنے کے لئے تمام وہ اصولی دلائل پیش کرنے کو تیار ہیں جن سے گزشتہ انبیاء کی سچائی بالاتفاق ثابت ہے بلکہ آپ نے تمام ایسے نشانات قرآن و سنت سے موافق اپنے اوپر چسپاں کر کے دکھائے ۔ جن کا تفصیلی مطالعہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں کیا جا سکتاہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسیح و مہدی کی نشانیاں دراصل نبی کریمﷺ کے رؤیاء و کشوف کے حوالے سے احادیث میں بیان ہوئی ہیں ۔ یہ پیشگوئیاں استعاروں سے پُرہیں اور تعبیر طلب ہیں جبکہ مولوی حضرات ان کو ظاہر پر محمول کر کے انکار کر بیٹھے ہیں۔

راویوں کا ضعف

مولوی چنیوٹی صاحب نے دارقطنی کی روایت کی سند کے دو راویوں عمرو بن شمر اور جابر جعفی پراعتراض کیاہے کہ ان کی روایت بوجہ ضعف قابل قبول نہیں۔ہمار ا پہلا اور آخری اٹل جواب تووہی ہے جوخود حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ وہ حدیث جو لفظاً لفظاً پوری ہو کر اپنی سچائی ثابت کر چکی ہو اس کی سند کی بحث کی کیا حاجت اور ضرورت؟ ۔ کیاجھوٹـے کبھی سچ نہیں بو ل سکتے اور اگر ایک جھوٹا دن کے وقت گواہی دے کہ سورج نکلا ہواہے توکیا آپ اس لئے انکار کردیں گے کہ اس نے کبھی جھوٹ بولا تھا۔ پس و ہ بات جو پوری ہو چکی اور خدا کی فعلی شہادت اسے ثابت کرچکی اسے کوئی احمق ہی ضعیف یاناقابل قبول کہے گا۔
امام دارقطنی جیسے بلند پایہ محدّث کے ہاں قبول کئے گئے راویوں پراعتراض کر کے مولوی چنیوٹی صاحب نہ دوبارہ چاند پر تھوکنے کی جسارت کی ہے کہ یہ ان کی عادت ہی ہو چلی ہے اس لئے اس کا نتیجہ بھی بھگتناہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ ’’امیرالمومنین فی الحدیث‘‘ امام دارقطنی جیسے صاحب فن اور ناقدِ حدیث جو اپنی کتاب ’’التَّتَبّع‘‘ میں امام بخاری اورمسلم پر بھی تنقیدکرتے ہیں اور حدیث کی کمزوریوں اور علل و اسقامکاواقف ان سے بڑھ کر اورکوئی نہیں اور بقول علامہ ذھبی جو تنقید حدیث میں معتدل مزاج منصف ہیں۔ آخر انہوں نے ماہر فنِّ حدیث ہو کر ا س حدیث کی بلاوجہ تو سند قبول نہیں کرلی بلکہ بڑی بصیرت کے ساتھ یہ فیصلہ کیا اور اپنی تصنیف کتاب الضُّعفاء و المَتْروکین میں یہ عقدہ خود حل کردیا کہ عمرو بن شمر جب جابر اور جعفر بن محمد سے روایت کرے تو بے شک ناقبل قبول ہے۔ لیکن جابر جعفی جب آئمہ اہلبیت سے روایت کرے تو قابل قبول ہے۔
(کتاب الضعفاء و المتروکین تالیف علامہ ابوالحسن دارقطنی مؤسسہ الرسالہ)
یہ ہے وہ اصول جس کی بنا پر امام صاحب نے باوجود ضعف کے ان راویوں کی روایت قبول کی ہے اور امام صاحب کے اس فیصلہ کی سچائی اور صفائی پر چاند اور سورج گرہن کے نشان خودگواہ بن چکے ہیں۔ لیکن اگر چنیوٹی صاحب اس راوی کو کذّاب کہنے پر مصر ہیں تو ساتھ ہی انہیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس کذّاب سے بڑا غیب دان اور ولی اﷲ کوئی نہیں جس نے تیرہ سوسال پہلے ایسی پیشگوئی کی جو چودھویں صدی میں آ کرمن و عن پوری ہو گئی۔

غیر معمولی گرہن

تیسرا مغالطہ: تیسرا مغالطہ مولوی چنیوٹی صاحب نے یہ پیش کیا ہے کہ روایت کے مطابق لازم ہے کہ جب سے آسمان اور زمین بنے ہیں کبھی بھی ایسا گرہن نہ لگا ہو جبکہ مرزا صاحب کے زمانہ کاگرہن یہ خصوصیت نہیں رکھتا تھا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث میں’’ لَمْ تَکُوْنَا ‘‘مؤنث کا صیغہ ہے جس سے مراد آیتین ہیں نہ کہ خسوف۔ اور مراد یہ ہے کہ ایسا نشان کبھی ظہور میں نہیں آیا۔ اگر یہ معنی ہوتے جو مولوی صاحب نے مراد لئے تو ’’لَمْ یَکُوْنَا‘‘ کے الفاظ مذکر صیغہ میں ہوتے کہ ایساگرہن پہلے کبھی نہیں ہوا ۔
مزید برآں ہمارامطالبہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے لئے ا س نشان کے ظہور سے پہلے کسی ایسے گرہن کی مثال پیش کی جائے جسے کسی مدعی مہدویت نے اپنی سچائی کے ثبوت کے لئے پیش کیا ہو۔حضرت مرزا صاحب کا اس نشان کی نظیر لانے کی صورت میں گزشتہ ایک صدی سے ہزار روپیہ کا انعامی چیلنج موجود ہے مگر آج تک کوئی ایسی نظیر نہیں لاسکا۔ پس اس گرہن کو خارق عادت مانے بغیر چارہ نہیں ہے۔

چاند گرہن کی پہلی رات سے مراد

 چوتھا مغالطہ:چوتھا مغالطہ مولوی چنیوٹی صاحب کا یہ ہے کہ روایت کے الفاظ میں رمضان کی راتوں میں سے پہلی رات گرہن لگنے کا ذکر ہے جبکہ خسوف گرہن کی راتوں میں پہلی رات تیرہ تاریخ کوہوا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نشان ان صاحب بصیرت لوگوں کے لئے تھا جو لفظی بحث کی بجائے اس مضمون کا ادراک رکھتے ہیں کہ خسوف گرہن کی راتوں کے سوا نہیں ہوتا اور رمضان کی پہلی رات کی نفی تو اَفْصَحُ الْعَرَب ہمارے پیارے رسول ﷺ نے پہلی کے چاند ’’ہِلَال‘‘ کی بجائے لفظ’’قَمَر‘‘ استعمال کرکے خود فرما دی۔ پہلی رات کے چاند کے لئے نبی کریم ﷺ ہمیشہ’’ہلال‘‘ کالفظ ہی استعمال کرتے تھے اور یہ محاورہ اتنا عام ہے کہ ہمارے ہاں بھی رؤیت ہلال کمیٹی ہی پہلی کا چاند تلاش کرتی ہے نہ کہ رؤیت قمر کمیٹی۔
حضرت مرزا صاحب کی مخالفت میں پہلی رات کے چاند کوگرہن لگنے کا اصرار کرتے ہوئے یہ بھول ہی گئے کہ یہ مطالبہ نہ صرف قانون قدرت کے خلاف ہے بلکہ خلاف عقل بھی ہے کہ جو ہلال رؤیت ہلال کمیٹی کو نظر نہیں آتا گرہن لگ کر وہ کیا دکھائی دے گا اور اسے نشان کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ۔

’’فی النِّصْف مِنْہ‘‘ سے مراد

مولوی صاحب موصوف نے سورج کی تاریخوں کے بارہ میں بھی یہی اعتراض دہرایاہے کہ روایت میں رمضان کے ’’نصف‘‘میں گرہن لگنے کے الفاظ ہیں اور ۲۸؍تاریخ آخری تین تاریخوں کاوسط تو کہلا سکتی ہے نصف نہیں۔ اس کاجواب یہ ہے کہ ا س جگہ نصف کا لفظ زیادہ جامع اور فصیح ہے کیونکہ یہاں نصف سے مراد گرہن کی تاریخوں کا نصف ہے جس سے درمیانی تاریخ کے علاوہ گرہن کے معین وقت پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔ یعنی سورج گرہن ایسے طور پر ظاہر ہوگا کہ ایام کسوف کو نصف نصف کر دے گا ۔ اور کسوف کے دنوں میں دوسرے دن کے نصف سے تجاوز نہیں کرے گا کہ وہی نصف کی حد ہے جبکہ محض وسط کے لفظ سے یہ معنے پیدا نہیں ہوتے۔ اور یہ عجیب اور حیرت انگیزمعجزہ ہے کہ سورج گرہن کے نشان کا ظہور گرہن کے درمیانی دن اٹھائیس رمضان کے بھی درمیانی حصہ یعنی ۹بجے دن سے گیارہ بجے کے درمیان ہوا ۔ اس لحاظ سے نصف کے لفظ کی حکمت بھی سمجھ میں آ جا تی ہے ۔
پانچواں مغالطہ:پانچواں مغالطہ مولوی چنیوٹی صاحب نے یہ دیاہے کہ رمضان کی تیرہ اور اٹھائیس تاریخ کو اس سے پہلے کئی بار گرہن لگ چکا ہے جبکہ روایت کے مطابق ایساواقعہ اس سے پہلے نہیں ہونا چاہئے تھا۔
پہلے بھی واضح کیا جا چکاہے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان شرائط کے ساتھ پہلے کبھی ایسا نشان رونما نہیں ہوا ہوگا۔ یعنی یہ کہ امام مہدی کے دعویدار کے حق میں رمضان کی ان تاریخوں میں گرہن لگے ہوں اور اسے ایک مدعی مہدویت نے اپنی سچائی کے ثبوت کے طورپر پیش کیاہو۔
مولوی صاحب کی اطلاع کے لئے مزیدتحریر ہے کہ ہیئت دانوں نے تحقیق سے ثابت کیاہے کہ کم وبیش ہر بیس بائیس سال میں ایک سال یامتواتر دو سال ایسے آتے ہیں جبکہ چاند سورج کو رمضان کے مہینہ میں دنیا میں کسی نہ کسی حصہ میں گرہن لگتاہے لیکن کسی معین جگہ سے ، رمضان کی ان معین تاریخوں میں ، دونوں گرہن کا نظرآنا اس واقعہ کو غیرمعمولی اور نایاب بنا دیتا ہے ۔ چنانچہ گزشتہ دو صدیوں کے گرہنوں کامطالعہ کرنے کے بعد سائنسدان اس نتیجہ پرپہنچے ہیں کہ دو سو سال میں د س ایسے گرہن ہوئے ہیں ۔ ان میں سے ۱۸۹۴؁ء کا چاند و سورج گرہن ہی ایسا منفرد ہے کہ صرف وہ قادیان سے مقررہ تاریخوں میں نظر آ سکتاہے جہاں امام مہدی ؑ ہونے کا مدعی اپنی تائید میں اسے پیش کر رہا تھا۔ اور یہ صفت اسے واقعی ایک غیر معمولی نشان گرہن بنادیتی ہے ۔
چھٹا مغالطہ: چھٹا مغالطہ مولوی چنیوٹی صاحب کایہ ہے کہ انہوں نے چند مدعیان نبوت کے نام لکھ کر یہ ظاہر کیا ہے کہ ان کے زمانہ میں بھی ان تاریخوں میں رمضان میں چاند سورج کو گرہن لگاتھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ایسانشان پہلے کسی مدعی کے حق میں ظاہر ہو چکا ہے توکیا مولوی موصوف اس کو بطور امام مہدی قبول کر چکا ہے۔ ہرگز نہیں۔ ایسے جھوٹے مدعیان کوتو امت کے کسی ایک فرد نے بھی ان نشانوں کی وجہ سے سچا تسلیم نہیں کیا نہ ہی ان مدعیان نے گرہن کے یہ نشان اپنی تائید میں پیش کئے اور نہ مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔’’مدعی سست گواہ چست‘‘کی شاید اس سے بہتر مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔
یاد رکھنا چاہئے کہ حدیث کے الفاظ ’’لِمَھْدِینَا‘‘ میں لام منفعت کا ہے ۔ پس یہ نشان امام مہدی کی تائید و صداقت کے لئے مقرر ہیں۔ اگرکسی نے اپنی تائید کے لئے پیش نہیں کیا تو بھی وہ نشان اس کے لئے قرار نہیں پا سکتا بلکہ یہ صرف مہدی ٔ برحق کاہی نشان ہے۔ اور دیکھئے حضرت مرزا صاحب کس شان تحدی سے یہ نشان حلفاً اپنی تائید میں پیش کرتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں:
’’مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری تصدیق کے لئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیاہے ………… یہ وہی نشان ہے جس کی نسبت آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں وعدہ دیا گیا تھا اور وہ یہ ہے :
قُل عِنْدی شَھَادۃ مِنَ اللّٰہ فَھَل اَنْتُم مُؤمِنون۔ یعنی ان کوکہہ دے کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے کیاتم اسکو مانو گے یا نہیں…………غرض میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر قسم کھا سکتاہوں کہ یہ نشان میری تصدیق کے لئے ہے‘‘۔(تحفہ گولڑویہ صفحہ ۵۳،۵۴)
اس رسالہ میں مولوی صاحب نے بجا طورپر ماہر تاریخ ہونے سے انکار کرکے پہلی دفعہ مغالطہ سے کام نہیں لیا بلکہ ایک سچی حقیقت کا اعتراف کیاہے۔ کاش انہیں تاریخ کا علم ہوتا تووہ جانتے کہ ان تما م مدعیان نبوت کاانجام قرآنی معیار کے مطابق ہلاکت اور تباہی وبربادی کے سواکچھ نہیں تھا۔ یہ مولوی صاحب کا ہی حوصلہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی دشمنی میں ان مدعیان کے گواہ بن بیٹھے ہیں ۔ سچ ہے کند ہم جنس باہم جنس پرواز‘۔
ساتواں مغالطہ:ساتواں مغالطہ مولوی چنیوٹی صاحب نے لفظ ’’قَمَر‘‘ کی لغوی بحث کے حوالے سے پیش کیاہے کہ یہ لفظ پہلی رات کے چاند کے لئیـ بھی استعمال ہوتاہے۔ 
اس کا جواب تو یہی ہے کہ اگر یہ سچ ہے تومولوی صاحب کلام عرب سے کوئی ایک ایسی مثال پیش کر دیں جہاں پہلی رات کے چاند کے لئے ہلال کی بجائے قمر کا لفظ استعما ل ہواہو۔ مولوی صاحب موصوف کا لسان العرب کا پیش کردہ ادھورا حوالہ بھی انہیں چنداں مفیدنہیں بلکہ الٹا ہمارے مؤقف کی تائید کرتاہے کیونکہ اس کا ماحصل یہ ہے کہ ’’قَمَر‘‘ کا نام پہلی تین راتوں میں ’’ہلال‘‘ ہے جبکہ اس کے بعد وہ ’’قَمَر ‘‘کہلاتاہے۔
اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ہم کہیں مرد اپنی عمر کے ابتدائی دو تین سالوں میں بچہ کہلاتاہے مگراس کے باوجود کوئی عقل مند دو تین سالہ بچے کے لئے مرد کالفظ استعمال نہیں کرے گا۔ پس اگرحدیث رسول میں پہلی رات کو ہی گرہن لگنا مقصود تھا توافصح العرب رسول عربی ﷺ کی شان سے بعید تھاکہ آپ ہلال کو چھوڑ کر قمر کالفظ استعمال فرماتے جبکہ قرآ ن شریف بھی پہلی کے چاند کے لئے ہلال کی جمع (اھلّہ) کالفظ استعمال کرتاہے اور رسول خدا ﷺ نے خود احادیث میں متعدد مرتبہ ہلال کا لفظ پہلی کے چاند کے لئے استعمال فرمایا مگر کبھی ایسے چاند کو قمر نہیں فرمایا۔ مزید برآں حضرت امام محمد باقر ؒکی روایت میں کسوف کا قرینہ دلالت کرتاہے کہ اس سے مراد مکمل چاند ہے جس کو گرہن لگ سکتاہے نہ کہ ہلال جسے قانون قدرت کے مطابق گرہن لگنا ممکن ہی نہیں ۔
چاند کی پہلی رات کی کیفیت مراد ہوتو اس کے لئے کوئی اہل لغت قمر کا لفظ استعمال نہیں کرتا کیونکہ مولوی صاحب موصوف کی بیان کردہ لغت لسان العرب کے مطابق بھی اس کا نام ہلال ہی ہے ۔ پس قمر کے ساتھ لفظ کسوف کے قرینہ کی موجودگی میں کوئی صاحب فہم رمضان کی پہلی تاریخ کے ہلال کو گرہن لگنا مراد نہیں لے سکتا کیونکہ یہاں گرہن کی معمول کی تاریخوں ۱۳،۱۴،۱۵ میں سے پہلی تاریخ مراد لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

سنن دارقطنی کا درجہ 

 آٹھواں مغالطہ:آٹھواں مغالطہ مولوی چنیوٹی صاحب نے یہ دینے کی کوشش کی ہے کہ مرزا صاحب نے سنن دارقطنی کو صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے برابر کرنے کے لئے اسے صحیح دارقطنی کے طورپر پیش کیاہے۔
مولوی صاحب کی دیگر کذب بیانیوں کی طرح اس اتّہام کی قلعی بھی خود مرزا صاحب کے بیان فرمودہ مسلک سے خوب کھل جائے گی کہ محض صحیح کہلانے سے کوئی کتاب صحیح بخاری یا مسلم کے برابر کیسے ہو سکتی ہے ۔ لیکن پہلے مولوی صاحب یہ بتائیں کہ کیا سنن اربع صحاح کہلا کر بھی بخاری و مسلم کے برابر ہیں؟ کیا صحیح ابن عوانہ ، صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبّان صحیح کہنے کہلانے سے بخاری ومسلم کے برابر شمار ہو تی ہیں اور صحاح ستہ میں شامل سمجھی جاتی ہیں ؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر سنن دارقطنی محض صحیح کہنے سے کس طرح بخاری و مسلم کے برابر ہو جائے گی۔ دراصل یہ مولوی چنیوٹی صاحب کی سخت علمی خیانت اوردھوکہ دہی ہے یا پھر جماعت کے لٹریچر سے بے خبری اور لاعلمی ہے کیونکہ حضرت مرزا صاحب نے کبھی بھی دارقطنی کو بخاری و مسلم کے برابر درجہ نہیں دیا۔ ہاں اپنی ذاتی اصطلاح میں امام دارقطنی کے بلند پایہ کے باعث ان کی سنن کو صحیح کہا ہے ۔ وَلِکُلٍّ اَنْ یَّصْطَلِحَ ۔ورنہ درجہ صحت کے لحاظ سے حضرت مرز ا صاحب نے دارقطنی کو نہ صرف بخاری ومسلم سے کم تر بلکہ دیگر کتب صحاح ستہ کے بھی بعد تیسرے درجہ میں اس کا ذکر فرمایاہے ۔ اور کبھی بھی صحاح ستہ میں اسے شامل نہیں فرمایا۔ آپ نے اپنی بصیرت خداداد سے کتب حدیث کی جودرجہ بندی فرمائی اس کے مطابق اول درجہ پر بخاری کی وہ احادیث ہیں جو قران کے مخالف نہیں ۔ دوسری کتاب صحیح مسلم ہے جب تک قرآن اور صحیح بخاری کے مخالف نہ ہو اور تیسرے درجہ پر ترمذی ، ابن ماجہ ، مؤطا، نسائی، ابوداؤد، دارقطنی وغیرہ کتب حدیث ہیں۔
(ملاحظہ ہو کتاب آریہ دھرم صفحہ ۸۷)
حضرت مرزا صاحب نے کتب حدیث کی درجہ بندی کرتے ہوئے اپنی کتاب آریہ دھرم میں دارقطنی کے ساتھ صحیح کا لفظ استعمال نہ کر کے صاف ظاہر فرما دیاکہ جہاں ایک دو جگہ صحیح کا لفظ استعمال ہواہے وہ معروف اصطلاح سے ہٹ کر اپنے لغوی معنی میں یا محض ذاتی اصطلاح کے طور پر ہے ۔
مولوی چنیوٹی نے اپنی تاریک فطرت کا اظہار کرتے ہوئے اور سادہ لوح عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے امام دارقطنی کی تائید میں بلند پایہ ائمہ ، محدثین اور ناقدین کے تمام تعریفی حوالوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کے خلاف علامہ عینی کا ایک ایسا حوالہ پیش کیاہے جسے علماء سلف پہلے ہی سختی سے رد ّکر چکے ہیں۔ اس حوالہ کا ایک حصہ یہ ہے کہ امام دارقطنی سے فاتحہ سے پہلے بِسْمِ اللّٰہ جہراً پڑھنے کی احادیث کی صحت کے بارہ میں (جو انہوں نے اپنی سنن دارقطنی میں بیان کی ہیں) استفسار کیا گیا تو انہوں نے برملا اعتراف کیاکہ ان میں سے ایک حدیث بھی صحیح نہیں ۔ اب ظاہر ہے کہ یہ حوالہ تو امام صاحب کی تنقید کی بجائے ان کی تائید کرتاہے کہ انہوں نے کمال صفائی سے اور سچائی سے غیر صحیح حدیث کو صحیح قرار نہیں دیا اور یہی اس امام عالی شان کی دیانت ہے جو ان کا رتبہ اور بڑھا دیتی ہے ۔ اگروہ کمزور احادیث کو صحیح قرار دے کر پیش کرتے تو یہ بات موجب اعتراض ہو سکتی تھی۔ لیکن صحت و سقم جانتے ہوئے اسے ظاہر کردینا تو بجائے خود وسعت علم کی نشانی ہے نہ کہ جائے اعتراض۔ مگر پھر بھی اس حوالہ میں سنن دارقطنی پرعلامہ عینی نے جو تنقید کی ہے اسے علماء حدیث نے ہرگز قبول نہیں کیا۔ چنانچہ علامہ شمس الحق عظیم آبادی شارح دارقطنی لکھتے ہیں:
’’شیخ بدرالدین عینی رحمۃ اﷲ نے النہایۃ شرح ہدایہ میں قرأت کی بحث میں علامہ دارقطنی کے کے بارے میں جو کچھ تنقید کی ہے و ہ کمزور قرار دئے جانے کے لائق ہے اور قابلِ التفات نہیں بلکہ یہ تبصرہ ان کی بے ادبی اور قلتِ حیاء کی علامت ہے۔ کیونکہ جب متقدمین میں سے بڑے بڑے امام جن میں محمد عبدالغنی مصری، امام حاکم نیشاپوری، امام طبری، علامہ خطیب بغدادی اور امام زھری جیسی بلند پایہ شخصیات شامل ہیں اور متاخرین میں سے علامہ سمعانی ، علامہ ابن اثیر ، علامہ ذھبی اور علامہ نووی جیسے ائمہ نے دارقطنی کو ثقہ قرار دے کر ان کی تعریف کی ہے توان عظیم الشان علماء کے مقابلہ میں تنہا شیخ عینی رحمۃ اﷲ کی کیاوقعت باقی رہ جاتی ہے‘‘۔
(سنن دارقطنی صفحہ ۹ مع التعلیق المغنی مطبوعہ دارالمحاسن للطباعۃ ۲۴۱
 شارع الجیش القاہرہ)
مناسب معلوم ہوتاہے کہ یہاں امام دارقطنی اور ان کی کتاب کے حق میں ان آراء کا بھی ذکر کر دیا جائے جن کے بارے میں مولوی چنیوٹی صاحب نے یا تو اخفاء کر کے بددیانتی سے کام لیا ہے یا پھر وہ ان آراء سے بے خبر محض ہیں۔

امام دارقطنی کا بلند مقام

(۱)امام حاکم نیشاپوری متوفی ۴۰۵؁ھ :محدثین اور راویوں کے حالات پرمشتمل مشہور کتاب تذکرۃ الحفاظ میں امام ذھبی نے مستدرک حاکم کے مؤلف علامہ حاکم نیشاپوری کا یہ قول درج کیاہے :
’’امام دارقطنی حفظ فہم اور ورع میں یکتائے روزگار تھے ۔ نیز قراء اور نحاۃ(علم نحو) کے امام تھے ۔ میں نے ۳۶۷؁ھ میں چار ماہ بغداد میں قیام کیا ۔ اس سلسلہ میں اکثر ان سے ملنے کااتفاق رہا۔ میں نے جیسے سنا تھا ان کواس سے بھی زیادہ پایا ۔ میں نے علل حدیث اور شیوخ کے متعلق ان سے بہت سے سوالات حل کئے۔ ان کی متعدد مفید تصانیف ہیں…………میں شہادت دیتاہوں کہ انہوں نے اپنے پیچھے روئے زمین پراپنے جیسا کوئی آدمی نہیں چھوڑا‘‘۔
(تذکرۃ الحفاظ اردو جلد ۳ طبقہ ۱۲ صفحہ ۶۷۰ ۔ زیر لفظ دارقطنی )
(۲) امام علامہ علی بن سلطان محمد القاری متوفی ۱۰۱۴؁ھ۔ فرماتے ہیں:
’’(امام ) دارقطنی نے اہل بغداد کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ اے اہل بغداد ! تم مت گمان کرو کہ کوئی شخص رسول اﷲ ﷺ پر میری زندگی میں جھوٹ بولنے کی جسارت کرسکتاہے‘‘۔
(شرح نخبۃ الفکر صفحہ ۱۲۳ ۔مکتبہ اسلامیہ مارکیٹ کوئٹہ ۱۳۹۷؁ھ)
(۳) حافظ ابوبکر خطیب بغدادی متوفی (۴۶۳؁ھ) کے نزدیک:
’’مشہور امام دارقطنی ایک نابغہ ٔ روزگار وجود تھے ۔ آپ امام وقت تھے ۔ علم حدیث اور اس کی کمزوریوں کی پہچان، علم اسماء الرجال اور راویوں کے صدق و امانت اور عدالت و صحت کی جانچ آپ پر ختم ہے۔ آپ کو رؤیا میں بتایا گیا کہ دارقطنی جنت میں بھی امام کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں‘‘۔
(الاکمال فی اسماء الرجال از علامہ خطیب زیر دارقطنی)
(۴) علامہ ابن منصور سمعانی متوفی ۵۶۲؁ھ کے مطابق:
’’امام دارقطنی ان ماہر حفاظ میں سے ہیں جو کثرت سے روایت کرتے ہیں اور حافظہ میں ان کو بطور ضرب المثل پیش کیا جاتاہے گویا اپنی مثال آپ ہیں‘‘۔(الانساب جز ثانی صفحہ ۴۳۸ دارالحنان) 
(۵)علامہ نووی شارع مسلم متوفی ۶۷۶ ؁ھ کا بیان ہے کہ :
’’حفاظ حدیث کی وہ جماعت جن کی تصانیف نے بہت شہرت پائی اور عظیم الفائدہ ہیں ان میں دارقطنی بھی شامل ہیں‘‘۔(سنن دارقطنی مع التعلیق المغنی صفحہ ۹ دارالمعرفہ بیروت)
(۶)علامہ حافظ عمادالدین ابن کثیر متوفی ۷۷۴؁ھ فرماتے ہیں:
’’احادیث پر نظر ،تنقید اور ان کی فنی کمزوریوں کو جانچنے کے اعتبار سے امام دارقطنی نہایت بلند پایہ امام تھے ۔ اپنے زمانہ میں فن اسماء الرجال علل اور جرح و تعدیل کے امام اور فن روایت و درایت میں مکمل دستگاہ رکھتے تھے ‘‘۔(الہدایہ والنہایۃ جلد ۱۱ صفحہ ۳۱۷ مکتبہ معارف بیروت)
(۷)علامہ شمس الدین ذھبی متوفی ۷۴۸ ؁ھ کی رائے ہے کہ :
’’دارقطنی کی وسعت علم، قوت، حافظہ اور فہم کے آگے انسان کو سر جھکانا پڑتاہے۔ اگر آپ چاہیں کہ اس عظیم امام کی مہارت علم معلوم کریں تو ان کی کتاب العلل کا مطالعہ کریں ۔ آپ حیران و ششدر اور طویل تعجب میں مبتلا ہو کر رہ جائیں گے ‘‘۔
(تذکرۃ الحفاظ جلد ۳ صفحہ ۱۸۹ مطبع دائرہ المعارف نظامیہ حیدرآباد دکن ۱۳۳۴؁ھ)
آخر میں مولوی چنیوٹی صاحب نے یہ سوال اٹھایاہے کہ کیا مرزا صاحب کے نصیب میں ذخیرہ ٔ حدیث میں صرف یہی ایک روایت رہ گئی ہے اور یہ کہ احادیث کے مطابق مرزا صاحب میں علامات مسیح پوری نہیں ہوتیں۔
کا ش مولوی صاحب کو چشم بصیرت عطا ہوتی تو وہ دیکھتے کہ مرزا صاحب کی صداقت کے حق میں تو سارا قرآن اور تمام ذخیرہ ٔ احادیث شہادت دے رہاہے تبھی تومرزا صاحب ڈنکے کی چوٹ یہ اعلان کرتے ہیں کہ منہاج نبوت پر جو ثبوت چاہو مجھ سے لے لو۔
حضرت مرزا صاحب کا مجددانہ کارنامہ تو یہ ہے کہ آپ نے بخاری کی پیشگوئی کے مطابق
 کسر صلیب کرتے ہوئے قرآن کی تیس آیات سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت کرکے دکھائی جس سے باطل دجالی مذہب کی ساری عمار ت دھڑام سے زمین پر آ گری اور بقول مولوی نور محمد نقشبندی:
’’آپ نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دی یہاں تک کہ ان کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا‘‘۔
(دیباچہ معجز نما کلاں قرآن شریف مترجم ۔ از مولانا شاہ اشرف علی تھانوی ۔نور محمد مالک کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی)
آپ ہی وہ منفرد مدعی ہیں جو مسلم کی حدیث کے مطابق دمشق کے عین مشرق میں قادیان میں تشریف لائے ۔وہی مشرق جہاں سے رسول اﷲ نے فتنے پھوٹنے کی خبر دی تھی اورجہاں دجال کے ساتھ دلائل سے مقابلہ کر کے علمی اور روحانی میدان میں اسے شکست دی جانی تھی۔بخاری میں دین کے لئے جنگوں کو موقوف کردینے کی خبر آ پ کے ذریعہ پوری ہوئی۔ حضرت مرزا صاحب ہی وہ مسیح موعود ہیں جو بخاری میں بیان فرمودہ اس حلیہ کے عین مطابق تشریف لائے جو رسول اﷲ ﷺ نے عالم رؤیا میں دجال کے پیچھے طواف کعبہ کرتے ہوئے دیکھا اور جو مسیح ناصری کے حلیہ سرخ رنگ اور گھنگھریالے با ل سے جدا حلیہ ہے یعنی گندمی رنگ اور سیدھے بال ۔ آپ کے طواف کعبہ سے مراد اسلام کی حفاظت تھی سو وہ آپ سے ظہور میں آئی۔ آپ نے ایک ایسی جماعت کی بنیاد رکھی جس کے بارے میں علامہ اقبال بھی کہہ اٹھے کہ تمام مسلما ن فرقوں میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت احمدیہ میں ہے ۔
پس آ ج دنیا کا امن اور نجات اسی جماعت سے وابستہ ہے ۔ آج جس قدر فتنے اور خرابیاں تمام عالم اور بالخصوص عالم اسلام میں آپ کو دکھائی دیتی ہیں ان کا ایک ہی علاج ہے کہ آسما ن سے جو روحانی قیادت اتاری گئی ہے اسے قبول کر لیا جائے ۔ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ کے ماموروں کو قبول کرنے والے ہی مصائب اورفتنوں سے بچائے جاتے ہیں۔ پس آج بھی نجات کی یہی ایک راہ ہے ۔
مولوی چنیوٹی صاحب کہتـے ہیں کہ ایک صدی بعد جماعت احمدیہ کے موجودہ امام کو بھی ملک چھوڑ کر برطانیہ پناہ لینی پڑی۔ وہ یہ غور نہیں کرتے کہ مرزا صاحب تن تنہا مسیح و مہدی کا دعویٰ لے کر کھڑے ہوئے تھے اور اعلان کیا تھا کہ میرے خدا نے مجھے بتایاہے کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔ اور آج جماعت احمدیہ ۱۵۸ممالک میں کروڑوں کی تعداد میں پہنچ چکی ہے ۔ مولوی صاحب کو عیسائی اور یہودی بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں مگر جماعت احمدیہ کا وہ حدود پھلانگ جانے والا اضافہ ان کو نظر نہیں آتا جو چند سالوں میں لاکھوں سے ہوتا ہوا کروڑوں میں داخل ہو رہا ہے اور جماعت احمدیہ اپنی دوسری صدی کے آغاز میں ہی اپنے اندر فوجوں کے داخلے کے حسین نظارے دیکھ رہی ہے جو قرآن شریف کے بیان کے مطابق فتح ونصرت کے نقارے قرار دئے گئے ہیں۔ صر ف۱۹۹۹؁ء کے اس سال میں جماعت احمدیہ میں ایک کروڑ آٹھ لاکھ سے زائد افراد دنیا بھر سے داخل ہوئے۔ فالحمدﷲ علی ذلک۔
ترقیات میں یہ تیزی ہمارے موجودہ امام کی اس ہجرت کے بعد دیکھنے میں آئی ہے جو پاکستان کے پیش آمدہ حالات میں سنت رسول کے مطابق ان کو کرنی پڑی ، جو اپنی ذا ت میں خود ایک نشان ہے نہ کہ جائے اعتراض۔ کیونکہ ہجرت مدینہ کی طرح اس ہجرت کی برکات اور فتوحات بھی عظیم الشان ہیں جن کے نتیجہ میں یورپ میں ایک انقلاب رونما ہو رہاہے اور مغرب اسلام کے سورج کے طلوع کا نظارہ پیش کررہاہے۔آج لندن سے MTA (مسلم ٹی وی احمد یہ) انٹرنیشنل کی نشریات ساری دنیا میں جا رہی ہیں اور اسلام کا پیغام کُل عالم میں پہنچایا جا رہاہے ۔ آج جماعت احمدیہ سو سے زیادہ زبانوں میں قرآن مجید کی منتخب آیات کے تراجم شائع کرچکی ہے اور۵۳زبانوں میں مکمل تراجم قرآن شائع ہو کر مختلف ممالک اور اقوام کے ہاتھوں میں ہیں ۔ کیا یہ حیرت انگیز انقلاب نہیں کہ وہ تنہا آواز آج ۱۵۸ممالک میں کروڑوں آوازوں میں بدل چکی ہے ۔ مولوی حضرات تعاقب کرتے کرتے تھک گئے پر جماعت احمدیہ کی ترقی کو نہ روک سکے اور نہ روک سکیں گے ۔ بے شک یہ ترقیات حسد کی آگ بھڑکائیں گی اور بھڑکا رہی ہیں جس میں جلنا دشمنان احمدیت کا مقدربن چکاہے ۔کیا حکومتوں کی سرپرستی کے باوجود مخالفین کی یہ ناکامیاں اور جماعت کی واضح کامیابیاں اس کی سچائی کا نشان نہیں۔ یقینا ہے ۔مگر بصیرت والی آنکھ کے لئے ۔فاعتبروا یا اولی الابصار۔

نقل کردہ از :
الفضل انٹرنیشنل ۱۵ ؍اکتوبر۱۹۹۹  تا۲۱؍اکتوبر ۱۹۹۹
الفضل انٹرنیشنل ۲۲ ؍اکتوبر ۱۹۹۹ تا۲۸؍اکتوبر ۱۹۹۹
مکمل تحریر >>

Saturday 30 September 2017

شان اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم




شان اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی نظر میں
جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے عوام الناس میں نفرت اور اشتعال پھیلانے کے لئے حضرت بانی ٔجماعت احمدیہ پر ایک الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ آپ نے اہلِ بیت کی توہین کی ہے۔ یہ الزام سراسر غلط اور حقائق مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت بانیءجماعت احمدیہ اہلِ بیت سے بے حد محبت اور عشق رکھتے تھے۔ ذیل میں حضرت بانیء جماعت احمدیہ کی چند تحریرات پیش کی جاتی ہیں۔ جس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کو اہل بیت سے کس قدر محبت تھی اور آپ کی نظر میں ان کا کتنا عظیم الشان مقام اور مرتبہ ہے۔


حضرت علیؓ اور آپ کے اہل بیت




’’حضرت علی رضی اللہ متقی، پاک اور خدائے رحمان کے محبوب ترین بندوں میں سے تھے۔

آپ ہم عصروں میں سے چنیدہ اور زمانے کے سرداروں میں سے تھے۔ آپ اللہ کے غالب شیر اور مردِ خدائے حنان تھے آپ کشادہ دست پاک دل اور بے مثال بہادر تھے۔

میدان جنگ میں انہیں اپنی جگہ سے ہٹایا نہیں جا سکتا تھا۔ خواہ دشمنوں کی فوج بھی آپ کے مقابل پر ہوتی۔ آپ نے اپنی عمر سادگی میں گزاری۔ اور آپ زھد و ورع میں بنی نوع انسان کی انتہاء کو پہنچے ہوئے تھے۔ اپنی جائیداد کا عطیہ دینے اور لوگوں کے مصائب کو رفع کرنے میں اور یتامیٰ اور مساکین اور ہمسائیوں کی خبر گیری میں آپ مرد اول تھے۔ آپ معرکہ ہائے رزم میں ہر طرح کی بہادری میں نمایاں تھے اور شمشیر و سنان کی جنگ میں کارہائے نمایاں دکھلانے والے تھے۔ بایں ہمہ آپ بڑے شیریں اور فصیح اللسان تھے۔آپ کی گفتگو دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی تھی۔ ذہنوں کے زنگ دور ہوجاتے تھے اور دلیل کے نور سے مطلع چکا چوندھ ہوجاتا تھا۔

آپ ہر قسم کے اسلوب کلام پر قادر تھے اور جس نے بھی آپ کا اس میدان میں مقابلہ کیا تو اسے ایک مغلوب آدمی کی طرح عذر خواہ ہونا پڑا۔ آپ ہر کار خیر میں اور اسالیب فصاحت و بلاغت میں کامل تھے۔ اور جس نے بھی آپ کے کمالات کا انکار کیا گویا وہ بے حیائی کی راہ پر چل پڑا۔ آپ بے قراروں کی دلجوئی کے لئے تیار رہتے۔ قانع اور غربت سے پریشان کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے تھے اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے تھے۔ بایں ہمہ آپ قرآن کریم کا جام نوش کرنے میں سر فہرست تھے اور قرآن کے دقائق کے ادراک میں آپ کو ایک عجیب فہم عطا ہوا تھا۔

میں نے آپ کو نیند کی حالت میں نہیں بیداری کی حالت میں دیکھا ہے کہ آپ نے خدائے علیم کی کتاب کی تفسیر مجھے عطا کی ہے اور فرمایا یہ میری تفسیر ہے۔ اور اب یہ تمہارے سپرد کی جاتی ہے۔ پس جو تمہیں دیا جاتا ہے اس پر خوش ہو جاؤ۔ چنانچہ میں نے ایک ہاتھ بڑھایا اور وہ تفسیر لے لی۔ اور خدائے معطی و قدیر کا شکر ادا کیا۔ میں نے آپ کو بہت مضبوط جسم والا اور پکے اخلاق والا متواضع اور منکسر، شگفتہ رو اور پُر نور پایا۔

اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ بہت پیار اور محبت سے پیش آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سچے مخلصوں کی طرح اظہار محبت کیا۔ اور آپ کے ساتھ حسن اور حسین دونوں اور سید الرسل خاتم النبیین بھی تھے۔

اور آپ کے ساتھ ایک خوبصورت، نیک اور بارعب ، مبارک، پاکباز، قابلِ تعظیم، نوجوان، باوقار، ماہ رخ، پُرنور خاتون بھی تھیں۔ میں نے انہیں بہت غمگین پایا۔ وہ اپنے غم کو چھپائے ہوئے تھیں اور میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ یہ فاطمۃ الزھراؓ ہیں۔ پھر وہ میرے پاس تشریف لائیں جبکہ میں لیٹا ہوا تھا۔ سو میں اٹھ بیٹھا اور انہوں نے میرا سر اپنی گود میں رکھ دیا اور اظہار لطف و کرم فرمایا۔ اور میں نے محسوس کیا کہ میرے بعض دکھوں اور غموں پر آپ اس طرح غمگین و مضطرب ہوئیں جس طرح محبت و رافت و احسان رکھنے والی مائیں اپنے بیٹوں کے مصائب پر بے قرار ہو جاتی ہیں۔ تب مجھے بتایا گیا کہ دینی تعلق کی بنا پر میں بمنزلہ آپ کے فرزند کے ہوں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ آپ کا غم ان مظالم کی طرف اشارہ ہے جو مجھے قوم اور اہلِ وطن اور دشمنوں کی طرف سے پہنچنے والے ہیں۔

پھر میرے پاس حسن اور حسین آئے اور انہوں نے بھائیوں کی طرح میرے ساتھ محبت اور غم خواری کا اظہار کیا۔

اور یہ بیداری کے کشوف میں سے ایک کشف تھا اور اس پر چند سال گزر چکے ہیں۔ مجھے حضرت علی، حسن اور حسین کے ساتھ ایک لطیف قسم کی مشابہت ہے جس کا راز مشرق اور مغرب کا خدا ہی جانتا ہے۔

میں حضرت علی اور ان کے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا ہوں اور جو ان کا دشمن ہے میں اس کا دشمن ہوں‘‘۔ (ترجمہ از عربی سر الخلافۃ۔ روحانی خزائن۔ جلد۸۔ صفحہ ۳۵۸۔۳۵۹)



حضرت علیؓ حاجت مندوں کی امیدگاہ تھے




بے شک حضرت علی حاجت مندوں کی امید گاہ تھے اور سخیوں کے لئے نمونہ اور بندوں کے لئے حجۃ اللہ تھے ۔ آپ اپنے زمانہ کے لوگوں میں سب سے بہتر تھے اور تمام دنیا کو منور کرنے کے لئے خدا کا نور تھے۔ ۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ حق حضرت علی مرتضیٰ کے ساتھ تھا اور جنہوں نے آپ کے زمانہ میں آپ سے جنگ کی انہوں نے بغاوت اور سرکشی کی‘‘۔ (ترجمہ از عربی سر الخلافۃ۔ روحانی خزائن۔ جلد۸۔ صفحہ ۳۵۲۔۳۵۳)



حضرت علیؓ جامع فضائل




’’علی تو جامع فضائل تھا اور ایمانی قوت کے ساتھ توام تھا۔ پس اس نے کسی جگہ نفاق کو پسند نہیں کیا اور اپنے قول اور فعل میں کبھی منافقانہ طریق نہیں برتا اور ریا کاروں میں سے نہ تھا‘‘۔"حجۃ اللہ۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۲۔ صفحہ ۱۸۲"



حضرت امام حُسین ؓ و حسنؓ ائمۃ الہدیٰ




’’حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحب کمال اور صاحب عفت اور عصمت اور ائمۃ الہدیٰ تھے اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آل تھے‘‘۔(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۵۔ صفحہ ۳۶۴۔۳۶۵ حاشیہ)



ہم حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما دونوں کے ثنا خواں ہیں




’’حضرت حسنؓ نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیا کہ خلافت سے الگ ہوگئے۔ پہلے ہی ہزاروں خون ہو چکے تھے۔ انہوں نے پسند نہ کیا کہ اور خون ہوں۔ اس لئے معاویہ سے گذارہ لے لیا۔ چونکہ حضرت حسنؓ کے اس فعل سے شیعہ پر زد ہوتی ہے اس لئے امام حسنؓ پر پورے راضی نہیں ہوئے۔ ہم تو دونوں کے ثنا خواں ہیں۔ اصلی بات یہ ہے کہ ہر شخص کے جدا جدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں۔ انہوں نے امن پسندی کو مدنظر رکھا اور حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔ دونوں کی نیت نیک تھی۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘۔(ملفوظات۔ جلد۴۔ صفحہ ۵۷۹۔۵۸۰)



حضرت امام حُسین ؓ سردارانِ بہشت میں سے




’’حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں سے ہے جن کو خداتعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کردیتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجبِ سلبِ ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہوگیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہوگیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔ اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے ان کاقدر مگر وہی جو ان میں سے ہیں۔ دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسینؓ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسینؓ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے۔ اور جو شخص حسینؓ یا کسی اور بزرگ کی جو آئمہ مطہّرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے۔ وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے‘‘۔(مجموعہ اشتہارات۔ جلد ۳۔ صفحہ ۵۴۵)



حضرت امام حسینؓ کی شہادت




’’امام حسینؓ کو دیکھو کہ ان پر کیسی کیسی تکلیفیں آئیں۔ آخری وقت میں جو ان کو ابتلاء آیا تھاکتنا خوفناک ہے لکھا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ستاون برس کی تھی اور کچھ آدمی ان کے ساتھ تھے۔ جب سولہ یا سترہ آدمی ان کے مارے گئے اور ہر طرح کی گھبراہٹ اور لاچاری کا سامنا ہوا تو پھر ان پر پانی کا پینا بند کر دیا گیا۔ اور ایسا اندھیر مچایا گیا کہ عورتوں اور بچوں پر بھی حملے کئے گئے اور لوگ بول اٹھے کہ اس وقت عربوں کی حمیت اور غیرت ذرا بھی باقی نہیں رہی۔ اب دیکھو کہ عورتوں اور بچوں تک بھی ان کے قتل کئے گئے اور یہ سب کچھ درجہ دینے کے لئے تھا‘‘۔(ملفوظات۔ جلد۵۔ صفحہ ۳۳۶)



حضرت امام حسینؓ سے غیر معمولی عشق



ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعودؑاپنے باغ میں ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے آپؑ نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم سلمہا اور ہمارے بھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا ’’آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں‘‘ پھر آپؑ نے بڑے دردناک انداز میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات سنائے آپؑ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپؑ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپؑ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپؑ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا:۔

’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے پر کروایا۔ مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا‘‘

اس وقت آپ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپؑ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا۔

(روایت حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم ۔ سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ صفحہ۳۶۔۳۷)

حضرت بانی جماعت احمدیہ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں


جان و دلم فدائے جمال محمدؐ است

خاکم نثار کوچۂ آل محمدؐ است


(درثمین فارسی۔ صفحہ ۸۹)

میری جان اور دل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال پر فدا ہے اور میری خاک آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کوچہ پر نثار ہے۔
مکمل تحریر >>

Monday 28 August 2017

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ختم نبوت




حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ختم نبوت
از قلم : حضرت خلیفۃ المسیح الرابع  مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ
یہ عقیدہ کہ آنحضرتﷺ بطور آخری نبی مبعوث ہو کر گزر بھی گئے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ کہ آپ ﷺ کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام بحیثیت نبی اللہ نازل ہوں گے، متضاد عقائد ہیں جو ایک ہی وقت میں درست تسلیم نہیں کئے جا سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دو متغائر امور کا ملغوبہ  قرونِ وسطیٰ کے بعض علماء کی اختراع ہے ورنہ نزول قرآن کے وقت تو ان دونوں کا باہمی تعلق کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ 
ایک نا واقف غیر مسلم قاری کی خاطر ہم اس مسئلہ کا تاریخی پس منظر بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں مبادا وہ سمجھ ہی نہ سکے کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ آیت خاتم النبیّین قرآن کریم کی بنیادی آیات میں سے ہے جو اپنے اندر بہت گہرے معانی رکھتی ہے اور جس کی کئی پہلوؤں سے تفسیر کی جاسکتی ہے لیکن اس آیت کے کسی ایک مفہوم میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ چنانچہ ملاؤں کا یہ موقف کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چوتھے آسمان پر اس وجہ سے اٹھائے گئے تھے کہ آیت خاتم النبیّین کا نزول ابھی مقدر تھا، حددرجہ مضحکہ خیز اور ڈرامائی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بجسد عنصری آسمان پر چڑھ جانے کا نہ توآیت خاتم النبیّین سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کسی اور آیت سے۔ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اٹھانے کا خداتعالیٰ کو خیال تک نہ گزرا۔ سارا قرآن کریم اور آنحضرتﷺ کی احادیث خدا کی مقدس ذات کو اس لغو فعل سے مبرا قرار دیتی ہیں کیونکہ ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے کا ذکر تک نہیں ملتا۔ اس لئے علماء کا یہ اصرار کہ خدا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس لئے آسمان پر اٹھا لیا تھا تا کہ قرآن کریم کی آیت خاتم النبیّین کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مشکل کا پیشگی حل تلاش کیا جائے ایک سفید جھوٹ اور قرآن کریم پر ایک بے بنیاد الزام ہے۔ چنانچہ یہ ملاّں ہی ہے جس نے ازخود یہ مسئلہ کھڑا کیا اور پھر خود ہی اسے خدا کے نام پر حل کرنے کی کوشش کی۔ ملاؤں کے اس خود ساختہ اور بے بنیاد خیال کو قرآن کریم کی ایک بنیادی آیت سے منسلک کر دینا ایک خوفناک گستاخی ہے۔ جن وجوہات کی بنا پر قرون وسطیٰ کے مذہبی عمائدین نے یہ مسائل کھڑے کئے اور فریب دہی کے ایسے طریق اختیار کئے جن سے بالکل غیر متعلقہ مسائل کو باہم خلط ملط کر دیا گیا، اس وقت اس بحث کا بنیادی موضوع ہیں۔ اس پس منظر میں علماء کی ان بے سود کوششوں کے ذکر کے بعد ہمیں امید ہے کہ ان امور کو ذہن میں رکھتے ہوئے قاری اس مسئلہ کو خوب سمجھ سکے گا۔ 
اس حقیقت کے باوجود کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے یا اترآنے کا قرآن کریم کی آیت خاتم النبیّین سے دور کا بھی واسطہ نہیں، علماء یہی رٹ لگا رہے ہیں کہ ان دونوں میں ایک یقینی تعلق موجود ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ چونکہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نیا نبی مبعوث نہیں ہوسکتا اس لئے آپﷺ کے بعد عیسیٰ بن مریم نبی اللہ آسمان سے زمین پر واپس لائے جائیں گے۔ گو قدامت پسند مسلمانوں کو یہ من گھڑت نظریہ پسند ہے کہ نئی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آنحضر تﷺ کے ایک امتی کی بجائے کسی پرانے نبی کو مبعوث کیا جا رہا ہے لیکن ان کے اس جوش و خروش میں عوام ہرگز شریک نہیں۔ کوئی معمولی سی عقل رکھنے والا انسان بھی اس قسم کے دجل کو خدائے قادر و حکیم کی طرف ہرگز منسوب نہیں کر سکتا۔ یہ حرکت صرف ملاّں ہی کر سکتے ہیں اور بعینہٖ یہی کچھ وہ کر بھی رہے ہیں۔ ان کے خیال میں آنحضرتﷺ کے آخری نبی ہونے کے عقیدہ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس دنیا میں واپسی کے نظریہ سے جوڑ کر انہوںنے بزعم خود خداتعالیٰ کی ارفع ذات کو ان عواقب سے بچا لیا ہے جو ختم نبوت کے قبل از وقت اعلان سے پیدا ہوئے تھے۔ انہیں یہ بھی یقین ہے کہ اس طرح انہوں نے خدائے عزوجل کو تناقض کے مخمصہ سے بچا لیا ہے۔ ایسی سوچ ایک نادان ملاّں ہی کی ہو سکتی ہے اور اسی پر جچتی ہے۔ لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا کی ذات کے متعلق یہ کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ نعوذ باللہ وہ کسی کو اس علم کے باوجود کہ یہ وعدہ پورا نہیں ہو گا، آخری نبی قرار دے دے۔ پھر اپنے اس وعدہ کو اس طرح پورا کرنے کی کوشش کرے کہ ایک پرانے نبی کو اس آخری نبی کی وفات کے بعد دنیا میں بھیج دے۔ یہ تو محض تمسخر ہوا۔ یوں ملّاں خداتعالیٰ کو اپنی خود ساختہ کسوٹی پر پرکھتا ہے اور تضاد کا شرمناک فعل   خدائے قدوس کی طرف منسوب کر دیتا ہے اور پھر خود ہی اس کا دفاع بھی کرتا ہے۔ ملّاںکی یہ بیہودہ کوشش بلا مقصد نہیں۔ اس کے نزدیک تو یہ ایک ایسا اعلیٰ منصوبہ ہے جس میں بہت سے فوائد مضمر ہیں۔ 
یہ نظریہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب کی لعنتی موت سے بچا کر دشمنوں کی طرف سے آپ ؑ  کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ اس موقع پر ذرا یہودیوں کی جھنجھلاہٹ کا تصور کیجئے جبکہ انہیں پتہ چلا ہو گا کہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام ان کے چنگل سے نکل کراچانک ہوا میں غائب ہو گئے ہیں (بشرطیکہ چوتھے آسمان پر، جہاں وہ گئے ہیں، ہوا کا کوئی وجود بھی ہو)۔ لیکن اس سے خداتعالیٰ کیلئے ایک اور چھوٹا سا مسئلہ ضرور کھڑا ہو گیا ہو گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کب اور کیوں زمین پر واپس لایا جائے گا۔ انہیں قیامت تک اس آسمانی قرار گاہ میں کسی صورت بھی تنہا تو نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ خداتعالیٰ کے نزدیک تو کوئی مسئلہ نہیں ہے البتہ ملّاں کا یہ خود ساختہ مسئلہ اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ اس تضاد کو کیسے حل کیا جائے کہ آنحضرتﷺ کے آخری نبی ہونے کے باوجود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بحیثیت نبی اللہ دوبارہ مبعوث ہونے پر بھی ایمان لانا ضروری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ملّاں آیت خاتم النبیّین کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خیالی صعود سے جوڑتا ہے اور یہ کام وہ ایسی چالاکی سے کرتا ہے کہ عام مسلمان اس کی اس چال کو سمجھ نہیں سکتا۔ وہ اپنے موقف کی یوں تعمیرکرتا ہے:
.1  حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک خاص مقصدکی خاطر آسمان پر اٹھائے گئے اور انجام کار وہ
    زمین پر واپس لائے جائیںگے۔ 
.2  آخری نبی کے ظہور کے بعد کسی پرانے نبی کا نزول خاتمیت کی مہر کو نہیں توڑتا۔ 
.3  خدائی فرمان میں تضاد پیدا کئے بغیر آخری زمانہ میں ایک نبی کی ضرورت بھی پوری ہو
    جائے گی۔ 
بعض لوگ ایک تیر سے دو شکار کرنا بھی جانتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ اپنے ذہن کی کجی کو خدا کی طرف منسوب کر کے ایک نا قابل معافی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ لغو اور عجیب و غریب قصہ گھڑ کر دیگر فوائد کے علاوہ سب سے بڑافائدہ ملّاں یہ حاصل کرنا چاہتا ہے کہ وہ خودکسی نہ کسی طرح الٰہی فرستادہ کی اطاعت سے بچ جائے۔ یوں ایک طرف تو نبوت سے ہمیشہ ہمیش کیلئے جان چھوٹ گئی تو دوسری طرف جاہل مسلمانوں پر ملّاں کے مکمل اقتدار کے کھو جانے کا خوف بھی جاتا رہا۔ یہ عقیدہ کہ دو ہزار سالہ پرانا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا، دراصل اس بات کا ضامن ہے کہ اب کوئی بھی نہیں آئے گا اور سادہ لوح مسلمانوں پر وہ اپنا آمرانہ اقتدار ہمیشہ کیلئے برقرار رکھ سکے گا۔ 
مردے دنیا میں کبھی واپس نہیں آیا کرتے۔ کیونکہ جو شخص ایک دفعہ اس جہان فانی سے کوچ کر جائے وہ دوبارہ واپس نہیں آیا کرتا۔ خدا گزرے ہوئے لوگوں کو کبھی اس دنیا میں لوٹا یا نہیں کرتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جسمانی آمد کے قائل خواہ قیامت تک ان کا انتظار کرتے رہیں وہ کبھی نہیں آئیں گے اور نہ ہی ملّاں کبھی مسلمانوں کے جذبات سے کھیل کر حاصل ہونے والے اقتدار سے دستبردار ہو گا یعنی وہ ملاّں جو رحم و کرم کے نام تک سے واقف نہیں۔ بے چارے   مسلم عوام بے فائدہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے واپس آنے کے انتظار کے دھوکہ میں مبتلا رہیں گے جن کے ہاتھ میں ان کے دکھوں کے تیر بہدف علاج کا شیریں پیالہ ہوگا۔ ان مسلم ملاؤں کی آمرانہ حکومت کے ہاتھوں اسلام صدیوں تک پستا ہی چلا جائے گا۔ 
مزید برآں ہمارے خیال میں خاتمیت محمدی کے باوجود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کے سوال پر ملاّں کا مجوزہ حل ہر لحاظ سے ناقابل عمل ہے۔ موسوی امت کے کسی نبی کو بعد میں آنے والی مسلم امت کے مختلف النوع مسائل کے حل کیلئے مستعار لینا کسی طور سے بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ مسلمان علماء یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک مستعار نبی تو امت محمدیہ میں مبعوث ہو کر دراصل خاتم النبیّین آنحضرتﷺ کی خاتمیت کے نقوش کو ملیا میٹ کر دے گا نہ کہ وہ نبی جو اسی امت میں پیدا ہو کر آنحضرتﷺ کے روحانی فرزند کی حیثیت سے مبعوث ہو۔ 
علاوہ ازیں مندرجہ بالا جائزہ کی روشنی میں یہ بھی پیش نظر رہے کہ زیر بحث مسئلہ کے ضمن میںمحض وقت کی تقدیم و تاخیر کی بنیاد پر کسی نبی کے پرانے یا نئے ہونے کے بارہ میں فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایک نبی اپنی پہلی صفات کے ساتھ ہی دوبارہ دنیا میں آتا ہے تب تو اس کا آنا واقعی دوسری بعثت کہلائے گا لیکن اگر وہ اپنی ظاہری جسمانی خصوصیات اور فطری صلاحیتوں کے حوالہ سے مکمل طور پر تبدیل کر دیا جائے اور اس کا اپنے دشمنوں سے سلوک بنیادی طور پر پہلے سے مختلف ہو تو کسی صورت میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہی پرانا نبی دوبارہ مبعوث ہوا ہے۔ علاوہ ازیں جس روحانی مقام کا وہ حامل ہے، جو پیغام وہ لایا ہے، جو معجزات اس سے وقوع پذیر ہوتے ہیں اور جو تمام بنی نوع انسان کیلئے حکم و عدل ہے، اس کی تو انجیل میں مذکور مسیحؑ کی ذات سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس عیسیٰ کے نزول کا وعدہ آنحضرتﷺ نے دیا تھا ان کی تو پوری شخصیت ہی مسیح ناصری ؑ سے یکسر مختلف ہے۔ موعود عیسیٰ سے اسرائیلی نبی حضرت عیسیٰ      علیہ السلام ہرگز مراد نہیں کیونکہ نہ تو وہ تورات کے تابع ہو ں گے اور نہ ہی انجیل کے جس کی تعلیم انہوں نے خود دی تھی۔ اس طرح ان کی عمل داری صرف اسرائیل کے گھرانہ تک محدود نہیں ہو گی۔ ان تمام حقائق کے باوجود اگر علماء یہ اصرار کریں کہ موعود عیسیٰ وہی اسرائیلی مسیح ہے تو انہیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا میں دوبارہ آنے سے قبل ان کی حالت بالکل تبدیل ہو جائے گی۔ نیز انہیں نبوت کی نئی ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔ اس صورت میں اگر یہ نئی نبوت نہیں تو پھر کیا ہے؟ کوئی ملّاں تسلیم نہیں کرے گاکہ مندرجہ بالا خصوصیات کا حامل عیسیٰ اس وقت تک اسلام میں شامل نہیں سمجھا جائے گا جب تک آنحضرتﷺ کی مہر ختمیت میں گنجائش نہ نکالی جائے۔ اس صورت میں ان کے لئے صرف یہی رستہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ بغیر کسی تبدیلی کے دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ ان کی دوبارہ آمد پر شجراسلام سے ان کی اس طرح پیوندکاری کی جائے گی کہ وہ ایک ایسے مصلح کے طور پر پرورش پا سکیںجسے عالمگیر مسلم نبی کہا جا سکے۔ ہم ملّاں کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی حضرت عیسیٰ ؑ امت مسلمہ میں اجنبی ہی ہوں گے اور اپنے اسرائیلی تشخص کو چھوڑ نہیں سکیں گے۔ ان کی حیثیت اس پیوند کی سی ہوگی جسے کسی اور نوع کے درخت سے جوڑ دیا جائے۔ اگر کنول کی چیری کے درخت سے پیوندکاری ہو سکتی ہے یا جھڑبیری کی انناس سے، تو صرف اسی صورت میں اسلام سے قبل کے نبی کا اسلام کے درخت سے پیوند کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا کیا فائدہ؟ کیونکہ پیوند شدہ تنا اپنی اصل نہیں چھوڑ سکتا۔ اس لئے اسلام کے ساتھ جڑ جانے کے باوجود حضرت عیسیٰ ؑ کی حیثیت اسرائیلی نبی کی ہی رہے گی۔ 
پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مسلمانوں میں جسمانی نزول کے باوجود ان کی اصلی حیثیت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ قرآن کریم کے بیان کے مطابق وہ ہمیشہ اسرائیلی نبی ہی رہیں گے۔ اگر وہ کبھی آ بھی جائیں تو کوئی بھی جنونی مسلمان عالِم ان کے دعویٰ کو صرف اسی قرآنی تعلیم کی بنا پر بآسانی ردّ کر سکتا ہے۔ بلکہ انہیں تو مفتری قرار دے کر ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کس بنا پر انہوں نے اس قرآنی ارشاد کو منسوخ کر دیا کہ وہ تو محض بنی اسرائیل کے نبی ہیں۔ پس جب تک قرآن کریم انہیں اسرائیلی نبی قرار دیتا رہے گا ان کی یہ حیثیت کبھی تبدیل نہیں ہو سکے گی۔ آپؑ صرف اسرائیلی نبی تھے اور ہمیشہ اسرائیلی نبی ہی رہیں گے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ 
رَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ  (اٰل عمران50 : 3)
ترجمہ : وہ رسول ہو گا بنی اسرائیل کی طرف۔
آجکل بنیاد پرستوں نے توہین رسالت کا مسئلہ کھڑا کر کے مسلم عوام کے جذبات کو بہت زیادہ مشتعل کر دیا ہے۔ اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کو جتنا خطرہ یہودیوں سے درپیش تھا اس سے کہیں زیادہ متعصب مسلمانوں کے ہاتھوں درپیش ہو گا۔ علاوہ ازیں اپنی پہلی بعثت کے مقابلہ میں دوسری بعثت کے دوران آپ ؑ کو پہلے سے بھی زیادہ مختلف قسم کے خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے وقت میں یہودی جتنے فرقوں میں بٹے ہوئے تھے آج عالم اسلام تنگنظری اور مذہبی جنون کی وجہ سے ان سے کہیں زیادہ بٹا ہوا اور تفرقہ کا شکار ہے۔ 
اگر کبھی حضرت عیسٰیؑ اس دنیا میں آ گئے تو آپ ؑکی زندگی کو بیشمار خطرات لاحق ہوں گے خواہ آپؑ کسی بھی مسلمان مملکت میں نازل ہوں۔ مثلاً اگر آپؑ ایران میں نازل ہوئے تو یہ بات واضح ہے کہ آپؑ کو اپنے مذہبی عقائد کی بنا پر سخت امتحان میں سے گزرنا پڑے گا۔ کیا آپ ؑبارہ اماموں پر ایمان رکھتے ہیں یا نہیں۔؟ کیا آپ ؑکا حضرت ابوبکر۔ حضرت عمر۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت پر ایمان ہے؟ کیا آپؑ حضرت علی ؓ کی خلافت بلا فصل پر ایمان رکھتے ہیں؟ ان کے جواب میں اگر حضرت عیسٰیؑ کے عقائد شیعہ عقائد کے مطابق بھی ہوئے تب بھی بارہویں امام کی غیبوبت کے مسئلہ پر آپ ؑکی زندگی خطرے سے باہر نہیں ہو گی۔ آپ ؑسے پوچھا جائے گاکہ آپ ؑنے اکیلے زمین پر آنے کی جرأت کیسے کی جبکہ بارہواں مقدس امام (المہدی) ابھی کہیں چھپا ہوا ہے۔ چنانچہ آپؑ کو بارہویں امام کی تصدیق کے بغیر ہی نازل ہو جانے پر مورد الزام ٹھہرا کر اور جھوٹا قرار دے کر سزا دی جا ئے گی۔ لیکن اگر آپؑ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت کو صحیح سمجھنے کی وجہ سے مجرم گردانے گئے تب تو آپؑ یقینا مفتری قرار پائیں گے اور شیعہ قانون کے تحت آپؑ کی سزا ئے موت عام ضابطہ کی کارروائی ہو گی۔ 
تا ہم اگر مندرجہ بالا عقائد پر ایمان رکھتے ہوئے حضرت عیسٰی ؑ کسی سنی علاقہ میں نازل ہوئے تو زمین پر قدم رکھتے ہی آپؑ کو واپس آسمان پر بھجوا دیا جائے گا۔ لیکن سنی نظریات رکھنے کے باوجود بھی آپ ؑکی زندگی خطرہ سے خالی نہیں ہو گی۔ کیونکہ وہاں موجود ہر سنی فرقہ آپؑ سے اپنے عقائد کی تصدیق چاہے گا ورنہ کاذب قرار دے کر ردّ کر دے گا۔ یہ خیال مشکل ہے کہ جونہی حضرت عیسٰی ؑ ان ممالک میں تشریف لائیں گے تو یا توفوراً بریلوی اعتقادات تسلیم کر لیں گے یا وہابی بنیاد پرست بن جائیں گے۔ ان دونوں میںسے کس کے عقائد کو آپ ؑدرست قرار دے کر اپنائیں گے؟ ہر صورت میں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپؑ کو موت کے اس پروانہ پر دستخط کرنا ہوںگے جو ان دو فرقوں کے علماء میں سے کوئی ایک آپؑ کے خلاف جاری کرے گا۔ 
آپؑ کو معتوب کرنے کی وجہ صرف یہی نہیں ہو گی کہ آپؑ کا تعلق کسی اور فرقہ سے ہے بلکہ آپؑ کی سزائے موت کی بنیاد آپؑ کے جھوٹے دعوی ٔ نبوت پر ہوگی۔ مخالفین کی دلیل یہ ہو گی کہ کوئی بھی سچا نبی جھوٹے عقائد نہیں رکھ سکتا۔ ہر فرقہ حضرت عیسیٰ ؑ کو اپنے عقائد کی کسوٹی پر پرکھے گا نہ کہ اپنے عقائد کو ان کی کسوٹی پر۔ 
پھر یہ سوال اٹھے گا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کس فقہی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں؟ آپ حضرت امام مالکؒ۔ امام ابوحنیفہؒ۔ امام شافعیؒ یا امام احمد بن حنبلؒ میں سے کس مسلک کی پیروی کریں گے؟ چونکہ آپؑ کو فقہی اختلافات کا پہلے سے کوئی علم نہیں ہوگا اس لئے اس گورکھ دھندے میں پھنس کر آپ ؑخود کو بے یارومددگار پائیں گے۔ اس وقت ممکن ہے آپ ؑیہ خواہش کریں کہ کاش! میں زمین پر واپس ہی نہ آیا ہوتا۔ بالآخر آپؑ جس فرقہ کو بھی چنیں گے اس کے مخالف 71فرقے آپ کو رد کر دیں گے۔ مزید برآں آیت قرآنی کہ ’’آپؑ صرف بنی اسرائیل کے رسول ہیں‘‘ کی روشنی میں کیا تمام فرقے آپ ؑکو رد کرنے کا اختیار نہیں رکھتے؟ 
ممکن ہے کہ ہجوم میں سے کوئی سر پھرا جنونی یہ نعرہ بھی بلند کر دے کہ ’’آپؑ وہیں واپس چلے جائیے جہاں سے آپؑ آئے ہیں۔‘‘ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ؑسے سختی سے یہ مطالبہ بھی کیا جائے کہ ’’براہِکرم آپؑ اپنے جہاز کا رخ اسرائیل کی طرف موڑ لیجئے۔‘‘ اور یہ بھی کہا جائے کہ ’’اگر آپ ؑ اتنے ہی بہادر ہیں کہ آپؑ دوبارہ یہودی عدالت کا سامنا کر سکتے ہوں تو جائیے وہاں جا کر اپنا تشخص ثابت کیجئے۔‘‘
انسان سوچتا ہے کہ ان تازہ ترین بدلے ہوئے حالات میں خداتعالیٰ کیا ارشاد فرمائے گا۔ کیا وہ فرشتوں کو حکم دے گا کہ جلدی سے جا کر حضرت عیسیٰ ؑکو بچاؤ اور انہیں واپس اپنی اسی آسمانی قرارگاہ پر پہنچا دو یا خداتعالیٰ انہیں مسلم یا یہودی علماء کے رحم و کرم پر چھوڑدے گا؟ کیا آپ ؑ اسرائیل میں اسرائیلی سپاہیوں کے ہاتھوں دوبارہ مصلوب ہوں گے یا پھر کسی مسلم جلّاد کے ہاتھوں تختہ دار پر لٹکا دیئے جائیں گے؟ ان تمام سوالات کا جواب مستقبل ہی دے سکتا ہے بشرطیکہ آپؑ اس دکھ بھری دنیا میں دوبارہ تشریف لے آئیں۔ قصہ مختصر، آپ کی بعثت ثانیہ بھی بعثت اولیٰ سے کہیں بڑھ کر ناکا م ہو گی۔ 
ہم خلوص نیت سے قاری کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ جب مذہب کی تشریح کسی معقولیت کے بغیر کی جائے اور ایمان سے عقل کا خانہ خالی ہو جائے تو بے حقیقت افسانے اور بے بنیاد روایات جنم لیا کرتی ہیں اور مذہب کے شعور سے عاری ٹھیکیدار خدائی حکمتوں کو مضحکہ خیز رنگ میں پیش کرنا شروع کر دیا کرتے ہیں۔ بے شک قرون وسطیٰ کے بڑے بڑے علماء جو ان پیشگوئیوں کا صحیح مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے جائز طور پر معذور قرار دیئے جا سکتے ہیں کیونکہ ان کا دور ایک مختلف دور تھا اور کائنات کے متعلق ان کا علم محض ظنّی تھا۔ لیکن عصرِ حاضر کے دقیانوسی علماء جو روشن خیالی کے اس جدید دور میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے ان کیلئے تو ہرگز کوئی جواز نہیں کہ وہ ان پیشگوئیوں کی ایسی غلط تفسیر کریں۔ خدا کے سچے بندے حضرت عیسٰی ؑ کی مقدس روح یقینا اپنے رب کی طرف لوٹ گئی تا وہ اپنے مقررہ اعلیٰ روحانی مقام پر قرارپکڑے۔ لیکن وہ عیسیٰ جس کے یہ منتظر ہیں وہ تو محض ان کے ذہنوں کی خام خیالی ہے۔ کسی کو اس سے کیا غرض کہ یہ خیالی وجود صلیب پر لٹکایا جائے، خنجر سے مارا جائے یا ہزار بار پھانسی دے دیا جائے۔ حضرت عیسیٰؑ کا جسمانی رفع اور ان کا آسمان میں کسی جگہ محفوظ رہنا اور مستقبل میں بطور نبی ان کا دوبارہ ظہور، انسانی عقل و فہم پر نہایت شاق گزرتا ہے۔ اس پر مستزادیہ کہ ایسی احمقانہ بات خدائے علیم و حکیم کی طرف منسوب کرنے کی جرأت کی جائے۔ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ ایسے لوگوں کے دماغ کس مادہ سے بنے ہوئے ہیں؟ 
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس وہم سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا حاصل کر لیں اور وہ ملّاں بھی جو اس میں رنگ آمیزی کرتے رہے ہیں نظروں سے اوجھل ہو جائیں۔ ان لوگوں کے دور کے خاتمہ ہی سے دراصل احیائے اسلام کا دور شروع ہوگا۔ 
آخری لیکن نہایت اہم اعترض اس نظریہ پر یہ اٹھتا ہے کہ اگر بنی اسرائیل کے ایک نبی کو کسی طرح تراش خراش کر امت مسلمہ کا نبی قرار دے بھی دیا جائے تو قدامت پسند علماء یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کی زمین سے غیرحاضری کے زمانہ میں قرآن کریم کا آنحضرتﷺ کے ساتھ ساتھ حضرت عیسیٰؑ پر بھی نزول ایک ناممکن اور ناقابل قبول امر ہے۔ تنقید کا یہ زاویہ علماء کیلئے بہت سے مشکل سوال اٹھاتا ہے۔ سب سے اہم سوال تو حضرت عیسیٰؑ کے حلقۂ اسلام میں داخل ہونے کا ہے۔ کب اور کس نے انہیں بتایا کہ نیچے صفحۂ زمین پر سب سے بڑا اور عظیم بنی ظاہر ہو گیا ہے۔ کیا آپؑ نے آنحضرتﷺ کی سچائی کی فوراً تصدیق کر دی تھی اور مومن بن گئے تھے؟ اگر آپ واقعۃً یہ خبر سنتے ہی فوراً ایمان لے آئے تھے تو آپؑ پہلے خلائی مومن ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قرآن کریم کا علم حاصل کئے بغیر آپؑ نے اس پر عمل کرنا کہاں سے سیکھا؟ 
لہٰذا یہ بنیادی سوال کہ کیا قرآن کریم حضرت عیسیٰؑ پر براہ راست خداتعالیٰ کی طرف سے جبرائیل ؑ کی وساطت سے نازل کیا گیا تھا، بہت ہی اہم ہے اور اس کا جواب دیا جانا اتنا ہی ضروری بھی ہے۔ اگر تو قرآن کریم آپؑ پر اس وقت نازل کیا گیا جب آپؑ ابھی آسمان پر ہی تھے تو اس صورت میں آپ ؑیقینا آنحضرتﷺ کی نبوت میں شریک ہو جاتے ہیں جیسا کہ حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰؑ کی نبوت میں شریک تھے اور دونوں کا مقام و مرتبہ تقریباً ایک جیسا ہی تھا۔ اور اگر قرآن کریم براہ راست آپ ؑپر جبرائیل ؑکے ذریعہ نازل نہیں کیا گیا تھا تو زمین پر نزول سے پہلے آپ ؑکے ایمان کی نوعیت کیا ہو گی؟ کیا اس وقت تک آپ ؑ اپنی گزشتہ تعلیم پر ہی کاربند ہوں گے۔ حالانکہ خداتعالیٰ کب کا اسلام کو تمام بنی نوع انسان کیلئے آخری عالمگیر مذہب قرار دے چکا ہے۔ یا کیا آپ ؑسے کوئی استثنائی سلوک روا رکھا گیا ہو گا اور بانی ٔ اسلامﷺ کے مبعوث ہونے کے بعد بھی آپ ؑکو اسلام قبول نہ کرنے کی اجازت دی گئی ہو گی؟ بصورت دیگر اس منطقی نتیجہ سے ہرگز کوئی مفر نہیں کہ قرآن کریم آپ ؑ پر کسی نہ کسی طرح ضرور نازل ہوا ہو گا۔ 
کیا ملّاں یہ تجویز کریں گے کہ حضرت عیسیٰؑ کو یہ پیغام جبرائیل کی بجائے آنحضرتﷺ نے ہی بنفس نفیس پہنچایا ہو گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کا پیغام اپنے صحابہ کو پہنچایا تھا اس وقت توکوئی درمیانی واسطہ موجود نہیں تھا۔ جبرائیل ؑکے ذریعہ جو بھی آنحضورﷺ پر نازل کیا جاتا تھا آپﷺ براہ راست اسے اپنے صحابہ کو پہنچا دیا کرتے تھے۔ لیکن قرون وسطیٰ کے ملاّؤںکے مطابق حضرت عیسیٰؑ تو اس وقت کہیں آسمان پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا آنحضرتﷺ سے براہ راست کوئی رابطہ بھی نہ تھا۔ اس لئے اب دو ہی راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو یہ سمجھنا چاہئے کہ جب تک حضرت عیسیٰؑ زمین پر واپس نہیں آجاتے اس وقت تک آپؑ وحی ٔ قرآن سے بالکل بے خبر ہوں گے۔ یا پھر قرآن کریم حضرت عیسیٰؑ کو آنحضرتﷺ کی طرف سے ایک پیغام کی صورت میں مل جائے۔ لیکن حضرت عیسیٰؑ تک ان کے خلا میں ہونے کی حالت میں قرآن کریم کا پیغام ان تک پہنچایا کیسے جا سکے گا جب تک کہ جبرائیل کو پھر اس کام پر مامور نہ کیا جائے۔ الغرض یہ منظر ایسا گستاخانہ اور توہین آمیز ہے جسے ایک سچا مومن ایک لمحہ کیلئے سوچ بھی نہیں سکتا۔ ذرا تصور تو کریں کہ جبرائیل ؑآنحضرتﷺ پر قرآن کریم اتار رہے ہیں اور پھر آنحضرتﷺ سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کو قرآن کریم دوبارہ سنائیں تا کہ وہ اسے خداتعالیٰ کی بجائے آنحضرتﷺ کی طرف سے بطور پیغام حضرت عیسٰی ؑکو پہنچا سکیں۔ 
اب ہم حضرت عیسٰی ؑکے اسلام قبول کرنے کے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ آپؑ پر قرآن کریم نازل نہ ہونے کے باعث آنحضرتﷺ پر آپ ؑ کا ایمان انوکھا اور مبہم ہو تب بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ آپ ؑایک بے عمل مسلمان ہوں گے جو قرآنی تعلیمات سے نا آشنا ہوں۔ آپ ؑکے بالمقابل عام مسلمان جہالت کے باوجود آپ ؑسے بہتر مسلمان ہونے کا دعویٰ کر سکیں گے۔ پس جب ایسے عیسٰی ؑکا زمین پر نزول ہو گا تو بڑے بڑے مسلم علماء اور عمائدین انہیںکیسے خوش آمدید کہہ سکیں گے۔ لہٰذا اسلام کے متعلق اپنی لاعلمی دور کرنے کیلئے انہیں امام مہدی علیہ السلام کے حضور فی الفور حاضر ہو کر وقت ضائع کئے بغیر بیعت کرنا ہو گی۔ لیکن اسلام قبول کرنے کے معًا بعد کیا آپؑ کو باہم متصادم مسلم فرقوں پر حکم و عدل تسلیم کر لیا جائے گا؟ کب اور کون آپ ؑ کو اسلام کی اس رنگ میں تعلیم دے گا کہ آپ ؑ ایسی عظیم الشان ذمہ داریوں سے کما حقہ  عہدہ برآ ہو سکیں؟
اگر علماء اس بات پر مصر ہوں کہ حضرت عیسٰی ؑکے زمین پر نزول سے پہلے ہی انہیں آسمان پر ایک مسلمان نبی کی حیثیت سے دوبارہ مامور کر دیا گیا ہو گا تو اس صورت میں انہیں قبل از اسلام زمانہ کا نبی کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟ 
خلاصۂ کلام یہ کہ قبل از اسلام کے ایک نبی کو مستعار لینے کا مطلب یہ ہے کہ آخری نبیﷺ کے مبعوث ہونے کے بعد یا تو انہیں آسمان پر ہی اسلام کے نبی کی حیثیت سے مامور کیا جائے گا یا زمین پر اترنے کے بعد پہلے انہیں مسلمان بنایا جائے گا اور پھر بطور نبی مامور کیا جائے گا۔ 
اندورنی تضادات کا حامل ایسا بے سروپا نظریہ خواہ دنیا کو کتنا ہی لغو اور غیر معقول نظر کیوں نہ آئے کٹر اور قدامت پرست علماء کو اس کی ذرا بھی پروا نہیں۔ ان کے نزدیک آسمانی پیشگوئی کی تفہیم میں دلائل اور معقولیت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوا کرتا۔ یہ لوگ پیشگوئیوں کو ظاہر پر محمول کرتے ہیں اور نہیں سوچتے کہ اس طرح اسلام کو کس قدر نقصان پہنچتا ہے۔ یہی دیوانگی دراصل ان کے     فکر و تدبر، امیدوں اور خواہشات میں پائے جانے والے انتشار کا باعث ہے۔ 
المختصر یہ کہ قبل از اسلام کے ایک اسرائیلی نبی کو مستعار لینا اتنا مفید نہیں جتنا علماء سمجھتے ہیں۔ ان کی کمال درجہ کی ہٹ دھرمی کا کیا کہنا! وہ آسمانوں سے اترنے والے ایک اسرائیلی نبی کو تو قبول کرنے کیلئے تیار ہیںلیکن امت مسلمہ میں جنم لینے والے کسی نبی کو قبول کرنے کیلئے ہرگزتیار نہیں۔ وہ ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑکی دوبارہ آمد کے اس من گھڑت قصہ سے انہیں اور بہت سے فوائد حاصل ہو جاتے ہیں۔ آسمانوں سے نازل ہونے والے عیسیٰ عام بشر نہیں ہوں گے بلکہ زمین پر اترنے سے پہلے وہ ایسی فوق البشر طاقتیں حاصل کر چکے ہوں گے جن کا اس سے قبل انبیاء کی پوری تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ 
ظاہر ہے کہ حضرت عیسٰی ؑکا یہ خیالی نقشہ علماء نے اپنے اسی میلان کے نتیجہ میں تخلیق کیا ہے جس میں وہ پیشگوئیوں کے ظاہری الفاظ پر حد سے زیادہ زور دیتے ہیں۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دلائل اور عقل کو رد کر دینے کی احمقانہ کوشش کی وجہ سے انہیں کتنی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اسلام کا جو رہا سہا وقار اور عزت ہے آخری زمانہ میں اس کو بچانے کی ذمہ داری وہ حضرت عیسٰی ؑپر ڈال دیتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ حضرت عیسٰی ؑہی دجّال کے خلاف پورے کرہ ٔارض میںتن تنہا حملہ آور ہوں گے۔ اس خوفناک اور یک چشم کانے دجّال کو شکست دینے اور ہلاک کر دینے کے بعدحضرت عیسٰی ؑتمام دنیا کی حکومتوں کی چابیاں مسلمانوں کے حوالہ کریں گے۔ نیز جمعشدہ بے بہا دولت اور خزائن بھی ان میں تقسیم کر دیں گے۔ اس طرح دجّال کی لڑائی میں ہاتھ آنے والا تمام مال غنیمت مسلم امت کے قدموں میں ڈھیر کر دیا جائے گا۔ 
لوگوں کے سیاسی اور اقتصادی مسائل حل کرنے کے بعد حضرت عیسٰی ؑان پیشگوئیوں کی طرف توجہ دیں گے جن کا تعلق مذہب سے ہے۔ وہ اپنی مہم کا آغاز عیسائیت پر حملہ سے کریں گے۔ چنانچہ دنیا میں ہر قسم کی صلیب کو توڑنا خواہ وہ کسی چیز کی بنی ہوئی ہو، آپؑ کا فرض منصبی ہو گا اور صلیب کی تلاش میں آپؑ ہر خانقاہ، ہر گرجا، ہر معبد اور ہر راہب کے ٹھکانے پر جائیں گے اور ہر شہر کے ہر گلی کوچے میں گھومیںگے۔ وہ ہر رہگیر کو گھور گھور کے دیکھیں گے۔ خواتین شایدان کی خاص جستجو کا مرکز بنیں گی۔ کیونکہ حضرت عیسٰی ؑاُن کی اس قبیح عادت سے بخوبی واقف ہوں گے کہ وہ اپنے جواہرات اور زیورات پر صلیب کندہ کروا لیتی ہیں۔ وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہوں گے کہ خواتین صلیبوں کو اپنی گردن میں لٹکائے رکھتی ہیں۔ چنانچہ آپؑ ان کی ہر چوڑی، ہر کڑے، ہر لاکٹ اور ہر بُندے کو جس پر صلیب کا نشان ہو گا چھین لیں گے۔ افسوس ان خواتین پر جو حضرت عیسٰی ؑکے راستہ میں آنے کی جرأت کریں گی۔ لیکن یہ بے چاری قابل رحم خواتین کہاں جا کر چھپ سکیں گی کیونکہ حضرت عیسٰی ؑتو ہر گھر میں داخل ہوں گے۔ ہر زیور والی الماری اور صندوق کی تلاشی لیں گے۔ ہر دیوار اور ہر کونے کو چھان ماریں گے۔ چنانچہ تمام ظاہری صلیبیں توڑ پھوڑ کر دنیا سے نابودکر دی جائیں گی۔ آپ ؑجب تک یہ فرض پوری طرح ادا نہ کر لیں چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ یہ ہے وہ تصور جو قدامت پسند مسلمان حضرت عیسٰی ؑکی آمدِثانی کی غرض کے حوالہ سے رکھتے ہیں بشرطیکہ ان کی آمدِثانی اس رنگ میں واقعۃً وقوع پذیر بھی ہو۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ تثلیث کی اس نشانی کو مکمل طور پر نابود کرنے کے بعد حضرت عیسٰی ؑان دوسرے فرائض کی طرف توجہ دیں گے جن کا ذکر آسمانی پیشگوئیوں میں ملتا ہے بشرطیکہ انہیں ظاہری معنوں پر محمول کیا جائے۔ آپ بلا توقف دنیا میں موجود ہر غیر مسلم کو قتل کرنا شروع کریں گے۔ ان لوگوں کے پاس صرف ایک ہی رستہ ہو گا کہ یا تو مسلمان ہو جائیں یا مرنے کیلئے تیار ہو جائیں۔ قتل کرنے کے لئے آپؑ ایک انوکھا طریق اختیار کریں گے۔ آپؑ کسی افسانوی اژدہا کی طرح منہ سے آگ پھینکیں گے، اگرچہ دیومالائی کہانیاں بھی اس قسم کے تصور کی متحمل نہ ہوں۔ آپ کی دہکتی ہوئی سانس کے اثر سے کوسوں میل دور موجود کافر بھی جل کر راکھ ہو جائیں گے اور آپ کی تلوار کی زد میں آنے والوں کے سر قلم کر دیئے جائیں گے۔ ان کو حضرت عیسٰی ؑ فوراً ہی شناخت کر لیں گے کیونکہ ہر کافر کی پیشانی پر واضح طور پر ’الکافر‘ کا لفظ ابھر آئے گا۔ اس طرح آپ کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ سوائے مسلمانوں کے اور ان عیسائیوں کے جو اس وقت عیسائی نہیں رہے ہوںگے اور ان کے پاس عبادت کیلئے ایک بھی صلیب نہیں رہے ہو گی۔ اس خیالی عیسٰی ؑکے اس بے مثال قتل عام کے بعد کرۂ ارض بدبو اور شدید سڑاند سے بھر جائے گا جو مقتولوں اور جل کر مرے ہوئے انسانوں کی لاشوں سے اٹھ رہی ہو گی۔ اس کے بعد پردہ گر جائے گا۔ نفرت مزید نفرت کو جنم دے گی اور خونریزی مزید خونریزی کا باعث بنے گی۔ 
حضرت عیسٰی ؑکی آخری ظالمانہ کارروائی روئے زمین سے سؤروں کی نسل کو نابود کرنا ہو گی۔ سؤروں کیلئے کوئی جائے پناہ باقی نہ رہے گی۔ تمام سؤر بمع ’اہل و عیال‘ ہلاک کر دیئے جائیں گے۔ دہکتی ہوئی سانس اور ہاتھ میں تلوار تھامے حضرت عیسٰی ؑشہر شہر، گاؤں گاؤں، گلی گلی، گھر گھر اور ہر باڑہ میں چھپے ہوئے ان بد ذاتوں کو تلاش کرتے پھریں گے۔ وہ ان کی تلاش میں تمام جھاڑیوں کو چھانٹ ماریں گے اور پھر جنوبی امریکہ کے گھنے جنگلات میں ان کا شکار کریںگے۔ ان کے  حملہ سے نہ تو چین بچ پائے گا اور نہ ہی جاپان۔ بلکہ سؤر کی تلاش میں جنوبی بحرالکاہل کے جزائر جہاں اس کا گوشت مرغوب غذا شمار ہوتا ہے کو بھی خوب کھنگالا جائے گا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ ساری انسانی تاریخ میں کسی نبی نے ایسا خونی اور غلیظ کام نہیں کیا جو قدامت پسند علماء حضرت عیسٰی ؑکی طرف منسوب کرتے ہیں۔ یہ وہ سلوک ہے جو مسلمانوں نے آنحضرتﷺ کے گہری حکمتوں پر مبنی کلام کے ساتھ روارکھا ہے۔ افسوس کہ یہ لوگ اس پیشگوئی کی گہرائی میں جا کر اس کی روح کو سمجھنے میں یکسر ناکام رہے ہیں۔ 
اس پیشگوئی میں مسیح موعود کا اصل کام یہ بتایا گیا ہے کہ وہ انسانی معاشرہ کو غیر انسانی طرزعمل اور ان بدعا دات سے پاک کرے جو سؤر کے ساتھ مخصوص ہیں۔ بہت سے جانور اور پرندے زندہ رہنے کے لئے کسان کی محنت پر انحصار کرتے ہیں لیکن محض کھیل تماشے کی خاطر فصلوں اور درختوں کو برباد نہیں کیا کرتے۔ تباہ و برباد کرنے کی اس خصلت میں سؤر منفرد ہے۔ خشکی کے تمام جانور وں میں صرف سؤر ہی اپنے مردہ بچوں کو کھا جانے کے اعتبار سے بد نام ہے۔ خون کا پیاسا شیر یا سفاک بھیڑیا اپنے مردہ بچوں کے پاس بھوک سے مر توسکتا ہے لیکن ان کو کھا جانے کا خیال اس کے دل میں نہیں آسکتا۔ حتیٰ کہ کتے بھی اپنے مردہ پلّوں کو نہیں کھاتے۔ یاد رہے کہ سؤر سبزی خور جانور ہے تاہم کسی بہیمانہ خصلت کی بنا پر وہ اپنے ہی مردہ بچوں کی لاشوں کوبڑے شوق سے ہڑپ کر  جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی میں یہ پیغام مضمر تھا کہ ان انسانوں کی بگڑی ہوئی عادات کے خلاف ایک مقدس جنگ لڑی جائے جو کمزوروں کی نسل کشی اور ان کے حقوق غصب کرنے میں حد سے بڑھے ہوئے ہیں۔ سؤروں کی اپنے بچوں کو کھا جانے کی قبیح عادت کو موجودہ زمانہ میں بچوں کے ساتھ نامناسب سلوک سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ بچوں سے بدسلوکی خواہ اپنے بچوں سے ہو یا اوروں کے بچوں سے، بہرحال ایک خصلت ہے۔ آج کل چونکہ یہ مسئلہ ہمارے معاشرہ میں عام بحث کا موضوع بن گیا ہے اس لئے اس کی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔ کسی اور جانور کو اس برائی میں انسانوں سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ 
انبیاء کا مقصد ہمیشہ برائی کے خلاف جہاد رہا ہے اس لئے اگر عیسٰی ؑبن مریم کا آنا استعارۃً خیال کیا جائے تو ان کی آمد کوئی عجیب بات نہیں۔ لیکن وہ عیسٰی ؑ جنہیں ملاّیت نے بت بنا رکھا ہے اور جو لفظاً سؤروں کو قتل کریںگے ایسے ہی عیسیٰ کی انہیں ضرورت ہے اوراس کیلئے وہ چشم براہ ہیں۔ اور جونہی ان کی آنکھوں کا یہ تارا نازل ہو کر عالم حیوانات سے سؤروں کا خاتمہ کر دے گا تو وہ زبردست خراجِ تحسین کا حقدار ٹھہرے گا اور اس کے آخری پُر شوکت اور جلالی ایام عزّت و تکریم سے یاد کئے جائیں گے۔ 
سمندروں، پہاڑوں اور وادیوں سے ’عیسیٰ زندہ باد‘ کا نعرہ بلند ہو گا۔ آپ کی قتل و غارتگری پر گرجوں کی گھنٹیاں تو خاموش رہیں گی لیکن مسجد کے مینار ے اس صدا سے ضرور گونج اٹھیں گے۔ ’’اللہ اکبر اللہ اکبر، ہمارا منجی عیسیٰ زندہ باد۔‘‘
بالآخر حضرت عیسٰی ؑکو دنیا سے کوچ کرنے سے پہلے ایک اور اہم کام سر انجام دینا ہو گا جس کیلئے آپ کو ملّاں کی مدد کی ضرورت پیش آئے گی۔ بقول ان ملّاؤں کے آپ ؑ کو ہمیشہ ہی ملّاں کا مفاد پیش نظر رہا اور اب چاہئے کہ ملاّں بھی کم از کم ایک مرتبہ تو حضرت عیسٰی ؑکا خیال کرے۔ ان عالمگیر کارناموں کے بعد آپ ؑکا ملّاں سے صرف اتنا مطالبہ ہو گا کہ وہ شادی کروانے میں ان کی مدد کریں۔ اتنے قتل و غار ت اور خونریزی کے بعد شادی ان کیلئے یقینا ایک بہت خوشگوار تبدیلی ہو گی۔ اگر ملاّں حضرات کو آسمانی پیشگوئیوں کو ظاہری معنوں میں لفظاً پورا کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو اب انہیں حضرت عیسٰی ؑکیلئے نہایت شاندار اور خوبرو دوشیزہ تلاش کرنی ہو گی جس سے حضرت عیسٰی کے ہاں اولاد بھی پیدا ہو۔ لیجئے ! اب حضرت عیسیٰ ؑشادی کیلئے تیار ہیں۔ لیکن اس مقدّس کام کیلئے کسی بڑے ملّاں کی ضرورت بھی ہو گی جو نکاح پڑھا سکے اور آپ ؑکے ہونے والے سسر سے دریافت کرے کہ کیا وہ اپنی دختر نیک اختر کا ہاتھ حضرت عیسیٰ ؑکے ہاتھ میں دینے کے لئے راضی ہے۔؟ اس منظوری کے بعد بالآخر حضرت عیسٰی ؑکی باری آئے گی جو اپنی رضا مندی ظاہر کریںگے۔ یہ کتنی مسرّت اور انبساط کے لمحات ہوں گے۔ کتنی سر مستی کی حالت ہو گی۔ دو ہزار سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ مجرد رہنے کے بعد آپؑ کھڑے ہوں گے اور فرمائیں گے ’’مجھے قبول ہے۔ میرے عزیز ملّاں۔ مجھے قبول ہے‘‘۔ آپ ؑکے کارہائے نمایاں کا جشن منانے کیلئے اس سے بہتر اور کونسا طریق ہو سکتا ہے۔ شمال سے جنوب۔ مشرق سے مغرب ہر جگہ آپ ؑکی تعریف میں گیت گائے جائیں گے۔ اس خوشی کے موقع پر شادی کے نغمات کی سریلی آوازوں سے پوری فضا معمور ہو جائے گی۔ اب حضرت عیسٰی ؑکا صرف ایک یہ کام باقی رہ جائے گاکہ آپ ؑاپنے پلوٹھے کی پیدائش کا انتظار کریں گے جس کے بعد مزید بیٹوں اور بیٹیوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اس طرح دو ہزار سال یا اس سے بھی زیادہ عمر ہونے کے باوجود آپ ؑکے ہاں بچوں کی پیدائش ان تمام معجزات سے بڑھ کر ایک معجزہ ہو گی جو آپؑ اُس وقت تک دکھا چکے ہوں گے۔ آپ ؑکی روح تو ہمیشہ سے توانا رہی ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؑکا جسم بھی کچھ کم طاقتور نہ ہو گا۔ کتنا عظیم الشان معجزہ ہو گا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ا ٓپؑ قوی سے قوی تر ہوتے چلے جائیں گے۔ جبکہ آپؑ کا بڑھاپا پہلی بعثت میں ہی کہیں دفن ہو چکا ہو گا۔ بالآخر موت کی گھڑی آپہنچے گی لیکن یہ موت بھی کیسی شاندار اور قابل رشک ہو گی۔ مبارک وہ دن جب آپؑ پید ا ہوئے اور مبارک وہ گھڑی جب آپؑ کی وفات ہو گی۔ 
حضرت عیسٰی ؑکی یہ وہ دلفریب داستان ہے جو اگر حقیقت کا روپ دھار لے تو ملّاں حضرات تمام اسلامی مدارس میں اسے سال ہا سال نسلاً بعد نسلٍ دہراتے چلے جائیں گے۔ 
جاہل مادہ پرست علماء نے آسمانی پیشگوئیوں کا جو حشر کیا ہے مذہب کی پوری تاریخ میں اس سے زیادہ دلخراش مثال نہیں ملتی۔ لیکن یہ بات صرف مسلم علماء سے ہی مخصوص نہیں ہے۔ جب بھی کسی بھی جگہ ملّائیت مذہبی نظام پر قابض ہو جاتی ہے تو وہ اسی طرح حقائق کو افسانوں اور دیومالائی کہانیوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ جب انسان اپنے ایمان کو عقلِ سلیم اور شعور سے عاری ملائیت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے جو صحیح اور غلط میں امتیاز نہ کر سکے تو اسے ہمیشہ اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ملائیت کا کردار کچھ بھی کیوں نہ ہو معقولیت نام کی کوئی چیز ان کے ہاں نہیں پائی جاتی۔ 
دنیا کے تمام مذہبی لیڈروں میں سب سے زیادہ افسوسناک حالت مسلم ملائیت کی ہے۔ اسلام کی آخری فتح کیلئے ان کی لاحاصل تمنائیں دراصل پیشگوئیوں کی حد درجہ غلط توجیہات پر مبنی ہیں جن کی حیثیت کسی سراب یا واہمہ سے زیادہ نہیں۔ اسلام تو درکنار یہ تو اب کسی معمولی سی مذہبی تنظیم کی قیادت کے اہل بھی نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کسی نبی کی اطاعت کے اہل رہے ہیں خواہ پرانا نبی ہو یا نیا۔ 
حضرت عیسٰی ؑ کے زورِبازو سے حاصل ہونے والی اسلام کی آخری فتح کے بارہ میں علماء کا تصور انہیں اسلام کی آخری فتح کی جدوجہد میں کسی بھی قسم کا کردار ادا کرنے سے فارغ کر دیتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان علماء کو ایک نبی کی نہیں بلکہ ایک غلام جنّ کی ضرورت ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جس قسم کے عیسیٰ کی وہ امید لگائے بیٹھے ہیں تمام سلسلہ انبیاء میں آج تک کبھی کوئی ایک بھی ایسا مبعوث نہیں ہوا۔ قرآن کریم یا دیگر الہامی کتب میں کسی بھی ایسے نبی کا ذکر نہیں ملتا جو اپنی قوم کے غلبہ کیلئے تن تنہا لڑاہو اور اس کی قوم ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھی رہی ہو۔ یہی مطالبہ یہود نے حضرت موسیٰؑ سے کیا تھا لیکن اسے ردّ کر دیا گیا تھا۔ اگر کسی مذہب کی آخری فتح بغیر قربانی اور بغیر کسی محنت کے حاصل ہو سکتی ہے تو پھر کسی نبی کی ضرورت ہی کیا ہے۔ نبی تو ہمیشہ قربانیوں کی طرف ہی بلایا کرتا ہے۔ ان علماء کا اس قسم کے شاہ خرچ عیسیٰ کا تصور کسی جنّ بھوت کے تصور کے مشابہ تو ہو سکتا ہے لیکن ایک آسمانی مصلح کے مشابہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ان کا اصل مسئلہ ایک پرانے یا نئے نبی میں سے کسی ایک کے انتخاب کا نہیں بلکہ جنّ اور نبی میں سے کسی ایک کے انتخاب کا ہے۔ ان کا یہ طرز عمل ایک مشہور الف لیلوی داستان کی یاد تازہ کرتا ہے۔ 
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جادو گر، پھیری والے کے لباس میں بغداد کی گلیوں میں یہ آواز لگاتا پھرتا تھا کہ ’’پرانے چراغ کے بدلے نئے چراغ لے لو۔پرانے چراغ کے بدلے نئے چراغ لے لو۔‘‘ بہت سی خواتین یہ آواز سن کر باہر آگئیں تا کہ پرانے چراغ کے بدلے نیا چراغ حاصل کر سکیں۔ ان کے خیال میں واقعۃً یہ ایک اچھا سودا تھا۔ تاہم اس میں ایک استثناء بھی تھا اور وہ یہ کہ ان خواتین میں سے ایک کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے پرانے چراغ میں جو اس نے اس جادوگر کو دے دیا، ایک لامحدود طاقتوں والا جنّ مقیّد ہے۔ اس کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس چراغ کا مالک جنّ کا مالک بھی بن جاتا ہے۔ اس دھوکہ باز پھیری والے کی دلچسپی چراغ میں مقیّد جنّ سے تھی نہ کہ چراغ سے۔ اگر لاکھوں نئے چراغوں کے بدلے ایک پرانا چراغ حاصل کر کے جنّ پر قبضہ ہو جائے تو اس سے بہتر اور کونسا سودا ہو سکتا ہے۔ 
امر واقعہ یہ ہے کہ ملّاں کی دلچسپی نہ تو آنحضرتﷺ کے روشن کردہ نئے نورانی چراغ سے ہے اور نہ ہی موسوی امت کے پرانے چراغ سے۔ انہیں تو صرف اس شاہ خرچ عیسیٰ سے دلچسپی ہے جو ان کی خیالی دنیا میں محصور ہے۔ ان کی نظر میں آسمانی مشعل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ نہ تو انہیں نبی کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کی کوئی پرواہ۔ انہیں تو صرف ایک غلام جنّ کی ضرورت ہے جو ان کے اشاروں پر دنیا بھر کی دولت ان کے قدموں میں ڈھیر کر دے۔ 
ان کی تمنا تو صرف یہ ہے کہ وہ پوری دنیا پر سیاسی اور اقتصادی اقتدار حاصل کر لیں جس کے حصول کیلئے ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ انہیں صرف اسی کام میں مہارت ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کا گلا کاٹتے اور خون بہاتے رہیں۔ 
کسی مسلم ملک میںملاّں کا لایا ہوا خونی انقلاب دوسروں کو کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ کر دے۔ یہ انقلاب کسی طرح بھی طاقت کے توازن کو نہیں بگاڑ سکتا۔ سائنسی اور تکنیکی ترقی کے بغیر دنیا پر غلبہ کا خواب، اقتصادیات اور صنعت میں انقلاب لائے بغیر طاقت کے موجودہ توازن کو بدلنے کی خواہش اور اسی طرح جدید ترین اور حساس سامان حرب کو خود بنانے کی قابلیت حاصل کئے بغیر دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو چیلنج کرنا پاگل پن کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ا س مقصد کے حصول کیلئے تمہارے پاس ہے ہی کیا؟ 
ان ملاّؤں کو خوب جان لینا چاہئے کہ اسلام کے مقدس بانی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیمالشان پیشگوئیوں کو دیدہ دلیری سے مسخ کر نے کی اس گھناؤنی حرکت کی سزا انہیں ضرور ملے گی۔ ان ملاّؤں اور ان کے حواریوں کے مقدر میں سوائے ناکامی اور تباہی کے اور کچھ نہیں۔ یہ وہ سزا ہے جو انہیں خدائی حکمت کو مسخ کرنے کی جسارت کی پاداش میں بہرحال بھگتنا ہو گی۔ انہیں چاہئے کہ وہ چپ چاپ وقت گزرنے دیں اور اپنے کان آسمان سے اترنے والے عیسیٰ کے قدموں کی آہٹ سننے کی طرف لگائے رکھیں۔ یاد رکھیں کہ وہ نسلاً بعد نسلٍ اسی امید اور انتظار میں جیئیں گے اور اسی حسرت کے ساتھ مریں گے۔ لیکن ان کو ان کی کج فہمی اور قول و فعل کے تضاد کے جال سے نکالنے والا کبھی نہیں آئے گا۔ ہر لمحہ اور ہر پل جو گزرتا ہے وہ ان کے دلوں سے خدا کا خوف ختم کرتا جا رہا ہے۔ دیانتداری، انصاف،بے لوث قربانی، باہمی اخوت اور دوسروں کی املاک کا احترام جیسے اخلاق قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔ ان کا ذکر تو بڑے زور شور سے کیا جاتا ہے لیکن انہیں اپنایا نہیں جاتا۔ ان کے متعلق جوش و خروش تو بہت دکھایا جاتا ہے اور بڑے پیار اور محبت سے اخلاق عالیہ کا ذکر تو کیا جاتا ہے لیکن صرف خیال کی حد تک۔ 
چوری، ڈاکہ، قتل، بچوں سے بدسلوکی، اغوا، زنا، بدکاری، عصمت فروشی اور دھوکہ دہی جیسے جرائم کی وہی لوگ پولیس میں رپورٹ درج کرواتے ہیں جو ان کا شکار ہوتے ہیں اور جن کے ساتھ یہ سانحہ گزرا ہوتا ہے۔ باقی لوگ اسی گندے ماحول میں رہ کر ہی اس غلیظ زندگی سے صلح کر لیتے ہیں۔ مزید برآں امن و سلامتی کے نام نہاد محافظ ہی دن دہاڑے اجتماعی زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ رشوت، بددیانتی اور کھلے بندوں دیدہ دلیری سے قانون شکنی کی جسارت ان اعلیٰ عدالتوں کے ان منصفین کا شیوہ ہے جو انصاف کے محافظ سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے معاشرہ میں یہی سلامتی کے رکھوالے لوگوں کے ناحق قتل اور شر کی اشاعت کے ذمہ دار ہیں جس کی وجہ سے     فتنہ و فساد روزمرہ کا دستور بن جاتے ہیں۔ تا ہم یہ عجیب بات ہے کہ ابھی تک یہ معاشرہ اچھے اور برے کی تمیز سے عاری نہیں ہوا۔ معاشرہ جس برائی کو جنم دیتا ہے اسی سے نفرت بھی کرتا ہے۔ جن خوفناک جرائم کا مرتکب ہوتا ہے انہی سے کراہت بھی محسوس کرتا ہے۔ اپنی ہی پھیلائی ہوئی گندگی سے گھن بھی کھاتا ہے۔ اپنی ہی پیداکردہ برائیوں کی جگہ جگہ اور ہمہ وقت مذمت بھی کی جاتی ہے۔ ان برائیوں پر اس زورشور اور تکرار سے تنقید اور لعنت ملامت کی جاتی ہے کہ اس کی بازگشت اقتدار کے اونچے ایوانوں سے لے کر غریب کی کٹیاتک سنائی دیتی ہے۔ حیرت ہے کہ اس کے باوجود روز مرہ کی زندگی میں معاشرہ کے ہر طبقہ میں اور ہر سطح پر ان برائیوں کو بلا تردداختیار بھی کیا جاتا ہے۔ ان کا عمل ان کے قول سے متصادم ہوتاہے۔ اس جھوٹ کے ساتھ وہ زندہ رہتے ہیں اور اس موت کا مزہ وہ روز چکھتے ہیں جسے وہ زندگی کا نام دیتے ہیں۔ کہاں ہیں اسلامی اقدار کے پاسدار اور کہاں ہیں تہذیب کے علمبردار؟ کیا اِن میںسے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو ان تلخ حقائق کو دیکھ کر اپنے آرام اور سکون کا ایک لمحہ بھی قربان کر سکے؟ آخر ان کے نزدیک اس صورتِحال کی اہمیت ہی کیا ہے، اور اگر ہو بھی تو ملاّں کی بلا سے! ایسے معاشرہ میں اس سے کیا فرق پڑ سکتا ہے جسے یہ یقین دلادیا گیاہو کہ خدائی تقدیر بالآخر ضرور ظاہر ہو گی اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اپنی آسمانی قرار گاہ سے زمین پر نازل ہو کر مسلمانوں کو حکومت و اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچا دیں گے اور مسلمان ہی اس وقت سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے۔ اس طرح ملاّں مسلم عوام کو اس وقت تک لوریاں دے کر سلاتے رہیں گے جب تک مغرب کی عیسائی دنیا کا خدا ان سے منہ موڑ کر پوری شان سے مشرق کے مسلمانوں کا آقا بن کر جلوہ گر نہ ہو جائے۔ ملاّں کو کیا پڑی ہے کہ اپنے مریدوں کے ریوڑ کے اخلاقی دیوالیہ پن کی فکر کرے، ان کی اصلاح کی کوشش کرے اور ان کی بیمار اور مایوس اخلاقی حالت کے علاج کی بے سود کوشش کرتا پھرے۔ بس صبر اور انتظار ہی اس کا واحد علاج ہے۔ پس اس گھڑی کا انتظار کرتے رہو۔ اور اگر بغرض محال یہ تقدیر پوری ہو جائے تو وہ لمحہ کتنا خوف ناک ہو گا ! خدا کی پناہ اس سے بڑھ کر اور کیا بدبختی ہو سکتی ہے کہ مخلوق خدا ملّاں کے  زیر تسلط آجائے۔ کیا حضرت عیسیٰ نعوذ باللہ اتنا گر سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ اور کیا وہ ایسے صریح جرم میں کبھی شریک ہو سکتے ہیں؟ نہیں۔ ہرگز نہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام ہوں یا خدا کا کوئی اور نبی، وہ کبھی اس حد تک نہیں گر سکتا کہ ایسے بدکردار لوگوں کی حمایت میں بھی کھڑا ہو جائے۔ یہ کام تو اقتدار کے بھوکے اور لوگوں کے سفلی جذبات سے کھیلنے والے ان سیاستدانوں کو ہی زیب دیتا ہے جنہیں  درندہ صفت انسان تو کیا، درندوں کا حاکم بننے میں بھی تامّل نہیں ہواکرتا۔ ایسے شخص کو خواہ  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مدد حاصل ہو یا نہ ہو، اپنے نا پاک عزائم کی تکمیل کے لئے وہ اپنے زعم میںمقدس نبیوں کے کندھوں پر سوار ہو کر بھی اپنا مطلب نکالنے سے نہیں ہچکچاتا۔ 
ملاّں کے خواب تو پاگلوں کی حرکات سے بھی زیادہ احمقانہ ہوتے ہیں لیکن کیا یہ خواب کبھی شرمندہ ٔ تعبیرہو سکتے ہیں۔ ایسے خواب کبھی بھی تاریکی کو روشنی میں تبدیل نہیں کر سکتے اور نہ ہی کبھی ان سے کوئی نیا دن طلوع ہو سکتا ہے۔ یہ نئی سحر ہی ہے جو اس قسم کے خوابوں کا تاروپود بکھیر دیا کرتی ہے۔ ملاّں کو ہمیشہ کیلئے سونے دیں اور اسے اپنے ذہن کے نہاں خانوں میں اقتدار کی لا محدود خواہشیں اور اس کے فریب اور وہم سے بہلنے دیں۔مگر کا ش! مسلمان بیدار ہو جائیں اور ملّاں کو یونہی قیامت تک خوابِ خرگوش کے مزے لینے دیں۔ اور ملاّں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی گہری نیند میں ڈوبا رہے اور خدا کے لئے آنحضرتﷺ کی امّت کو تنہا چھوڑ دے تا اسے پھر سے دن کی روشنی دیکھنا نصیب ہو۔

انتخاب از کتاب : الہام، عقل، علم اور سچائی  
مکمل تحریر >>