Sunday 12 February 2017

حضرت مصلح موعود کی سیرت طیبہ کے چند پہلو ۔ واقعات کی روشنی میں



حضرت مصلح موعودؓ کی سیرت طیبہ کے چند پہلو ۔ واقعات کی روشنی میں
(مکرم مبشر احمد خالد صاحب مربی سلسلہ)

حضرت مصلح موعود کی ولادت باسعادت اﷲ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کی پیشگوئی کے نتیجہ میں ہوئی۔ جس میں خود اﷲ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود کی باون صفات بتائی ہیں۔ جو آپ کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلو اور عناوین بنتے ہیں۔
دراصل پیشگوئی مصلح موعود میں کسی انفرادی عظمت کے حامل ایک عظیم ہیرو کی پیدائش کا ذکر نہیں بلکہ اس میں ایک ایسے مذہبی راہنما کی پیدائش کی خبر دی گئی تھی جسے اس زمانہ کی ایک مذہبی و روحانی تحریک کا روح رواں بننا تھا اور جس کی تمام قوتیں اور فطری استعدادیں اُس تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے وقف ہو جانا تھیں اور جس نے اپنی ہمعصر دُنیا میں ہی نہیں بلکہ بعد کی دنیا میں بھی ایک بُلند اور درخشندہ نام اور وسعت پذیر کام اپنے پیچھے چھوڑنا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے زندگی کے ہر شعبہ میں وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیئے جو رہتی دنیا تک مشعلِ راہ کا کام دیں گے۔ پس ایسے انسان کی سیرتِ طیبہ کو صرف ایک مضمون میں بیان کرنا ناممکن امر ہے۔
حضرت فضلِ عمر جن بہترین اخلاق و عادات کے حامِل اور جن اعلیٰ صفات اور فضائل و محاسِن کے مالک تھے وہ اِتنے زیادہ اور اِس کثرت کے ساتھ ہیں کہ حضور کا سوانح نگار اُن کو اگر لکھنے بیٹھے تو اُس کے سامنے بِلا شُبہ حالات و واقعات کا ایک اَنبارِ عظیم ہو گاجن کے انتخاب میں اُسے بہت زیادہ مشکل اور دقت پیش آئے گی۔
قدرت نے بہت ہی فیاضی کے ساتھ آپ کو مختلف استعدادیں عطا فرمائیں اور ایسی عظیم الشان قابلیتوں اور لیاقتوں سے نوازا تھا جو بے نظیر اور بے عدیل تھیں۔ 
حضرت چوہدری سر محمد ظفراﷲ خان صاحب حضورِ انور ، مصلح موعود کی سیرتِ طیبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’آپ کا خلق خلقِ محمدی کا ظلّ اور عکس تھا۔ اس لئے بھی کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بنی نوع انسان کے لئے اسوۂ حسنہ تھے اور اس لئے بھی کہ آپ مثیلِ مسیح موعود ہونے کے لحاظ سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مشابہت تامہ رکھتے تھے۔ خلقِ محمدی ؐ کے بعض پہلوؤں کو قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا گیا ہے:
عزیزٌ علیہ ما عنتم حریصٌ علیکم بالمؤمنین رؤفٌ رحیم۔
یعنی بہت ہی شاق ہے اِس ہمارے رسول ؐ پر کہ تم لوگ کسی تکلیف میں مبتلا ہو ۔ یہ ہمارے رسول ؐ تمہاری بھلائی اور بہتری کے حد درجہ خواہاں ہیں اور آرزو مند ہیں اور ان کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور مومنوں کے ساتھ ان کا سلوک نہایت شفقت اور رحمت کا ہے۔ اِس خلق کا وافر نمونہ ہم نے حضرت مثیلِ مسیح موعود میں دیکھا اور اس کے مورد رہے۔
حضور ماں باپ سے بڑھ کر شفیق تھے۔ اس شفقت کا چشمہ ہر وقت اور ہر کَس کے لئے جاری تھا لیکن جن لوگوں نے تقسیمِ ملک کے دوران میں اور پھر ۱۹۵۳ء کے ہنگامے کے دوران میں حضور کی بے چینی اور بے قراری کو دیکھا اور حضور کی شفقت اور غم خواری کا مشاہدہ کیا وہ اس چشمے کے جوش اور گہرائی کا کچھ اندازہ کر سکتے ہیں۔
افراد کی بہتری اور بھلائی اور جماعت کی مضبوطی اور ترقی کا کوئی پہلو آپ کی نظر سے اوجھل نہ تھا اور یہ سب امور دن رات آپ کی توجہ کے جاذب رہتے تھے۔
آپ کی شفقت اور رحمت کے سمندر کا کنارا نہیں تھا۔ ایک طرف ان کا پیہم عملی اظہار اور دوسری طرف بارگاہِ ایزدی میں مسلسل فریاد اور التجا۔ اگر دن کا اکثر حصّہ خدمت اور ترقی اور بہبودی کی تدبیروں اور منصوبوں میں گزرتا تو رات کا اکثر حصّہ دعاؤں میں صرف ہوتا‘‘۔ 
(روزنامہ الفضل مؤرخہ ۱۷؍جون ۱۹۶۶ء صفحہ ۳)
اب ذیل میں حضرت مصلح موعود کی سیرتِ طیبہ پر مبنی چند واقعاتی نمونے پیش کئے جاتے ہیں:

عشقِ الٰہی

دسمبر ۱۹۹۰ء کو مجلس عاملہ خدا م الاحمدیہ پاکستان کے ساتھ ایک ملاقات میں محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے دوران گفتگو حضرت مصلح موعود کے دو ایمان افروز چشمدید واقعات سنائے۔
حضرت مصلح موعود کی حیات مقدسہ کے یہ دو واقعات محض واقعات ہی نہیں ہمارے لئے ایک درس ہیں اور ایک قابل تقلید نمونہ ہیں۔ ہم وہ واقعات اپنے الفاظ میں ہدیہ قارئین کرتے ہیں۔
حضرت مصلح موعود کے بارے میں صاحبزادہ صاحب نے اپنے ذاتی واقعات سناتے ہوئے فرمایا کہ ایک دفعہ کا میں رات کو سویا ہوا تھا۔ حضرت مصلح موعود کی باری امّ ناصر کے ہاں تھی۔ آدھی رات کو اچانک بڑے ہی دردناک رونے کی آواز سے میری آنکھ کُھل گئی۔ میں خوف سے سہم گیا کہ خدایا کیا ہوا ہے؟ کیونکہ کسی کے رونے کی بڑی دردناک آواز آرہی تھی۔ کچھ دیر بعد مجھے اندازہ ہوا کہ یہ تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی آواز ہے۔ تب میں نے دیکھا کہ آپ تہجد کی نماز ادا کر رہے تھے اور بڑے ہی کرب سے درد اور الحاح سے دعا کر رہے تھے اور ایسے رو رہے تھے جیسے ہنڈیا ابل رہی ہو۔
صاحبزادہ صاحب فرمانے لگے کہ بلا مبالغہ میں آدھ گھنٹہ تک جاگتا رہا اور حضور اتنے درد سے رو رو کر ایک ہی فقرہ ’’اھدنالصراط المستقیم‘‘ بار بار دہرارہے تھے۔ (ماہنامہ خالد فروری ۱۹۹۱ء صفحہ ۱۱)

عشقِ قرآن

صاحبزادہ صاحب نے حضرت مصلح موعود کے بارے میں ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک روز حضرت مصلح موعود گھر کے دالان میں ٹہل رہے تھے اور ہم بچے بھی گھر میں موجود تھے۔ آپ نے ہمیں بلایا اور فرمانے لگے کہ قرآن ایک بہت بڑا خزانہ ہے۔ جیسے سمندر میں غوطہ خور غوطہ مارتا ہے تو جو بہت محنت کرتاہے وہ موتی نکال کر لے آتا ہے اور جوتھوری محنت کرتا ہے وہ موتی نہیں تو سیپی ہی نکال لاتا ہے۔ اسی طرح تمہیں ابھی سے قرآن کریم پر غور و فکر اور تدبر کی عادت ڈالنی چاہیئے اور موتی نہیں تو سیپی ہی نکال کے لے آؤ۔ مگر تدبر کی عادت ضرور ڈالو۔ اس واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضور کو قرآن سے کس قدر عشق تھا اور آپ کس طرح بچوں کی تربیت کا ہر وقت خیال رکھتے تھے اور بچپن میں ہی قرآن کی طرف توجہ دلائی۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
(ماہنامہ خالد فروری ۱۹۹۱ء صفحہ ۱۲)

عشقِ رسول

برّ صغیر کے ممتاز ادیب سیّد ابُو ظفر نازش صاحب رضوی نے حضرت مصلح موعود …… کے وصال پر اپنا یہ چشم دید واقعہ اخبار میں شائع کیا:
’’۱۹۴۰ء میں مجھے ایک سیاسی مشن پر قادیان جانا پڑا۔ اُس زمانے میں ہندو اپنی سنگھٹنی شرارتوں کا ایک خاص منصوبہ بنا رہے تھے۔ اُس موقع پر مرحوم و مغفور امام صاحب جامع مسجد دہلی اور سیّد و مولائی خواجہ حسن نظامی صاحب اعلی اﷲ مقامہٗ اور دیگر چوٹی کے مُسلم اکابر نے مجھے نمائندہ بنا کر بھیجا کہ حضرت صاحب سے اِس باب میں تفصیلی بات چیت کروں اور اسلام کے خلاف اِس فتنے کے تدارک کے لئے اُن کی ہدایات حاصل کروں۔ یہ مشن بہت خفیہ تھا کیونکہ ہندوستان کے چوٹی کے مسلمان اکابر جہاں یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوؤں کے اُس ناپاک منصوبے کا مؤثر جواب مسلمانوں کی طرف سے صرف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد …… ہی دے سکتے ہیں۔ وہاں وہ عام مسلمانوں پر یہ ظاہر کرنا بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ حضرت صاحب کو اپنا رہبر تسلیم کرتے ہیں۔
مَیں اِس سلسلے میں قادیان تین دن مقیم رہا اور حضرت صاحب سے کئی تفصیلی ملاقاتیں کیں۔ اِس ملاقاتوں میں دو باتیں مجھ پر واضح ہو گئیں ایک یہ کہ حضرت صاحب کو اسلام اور حضور سرورِ کائنات علیہ السلام سے جو عشق ہے اُس کی مثال اِس دَور میں مِلنا محال ہے۔ دوسرے یہ تحفظِ اسلام کے ئے جو اہم نکات حضرت صاحب کو سوجھتے ہیں وہ کسی دیگر مُسلم لیڈر کے ذہن سے مخفی رہتے ہیں۔ میرا یہ مشن بہت کامیاب رہا اور مَیں نے دہلی جاکر جو رپورٹ پیش کی اُس سے مُسلم زعماء کے حوصلے بلند سے بلند تر ہو گئے‘‘۔ (روزنامہ الفضل ۱۴؍اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ۳)

تبلیغ کا ولولہ

مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب انور تحریر کرتے ہیں:
’’جب شہزادہ ویلز ہندوستان آیا تو وائسرائے کی طرف سے محتلف رؤسا اور لیڈروں کو اس کی ملاقات کے لئے کہا گیا۔ اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے دو شرطوں کے ساتھ ملاقات کرنے پر آمادگی کا اظہار فرمایا۔ ایک یہ کہ حضور اس کی بیوی کے ساتھ مصافحہ نہیں کریں گے۔ دوسرے یہ کہ حضور اسے ایک کتاب بطور تحفہ پیش کریں گے جس میں ’’دینِ حق‘‘ کی ’’دعوت‘‘ ہو گی۔ چنانچہ شہزادہ ویلز کے مشورہ کے ساتھ یہ دونوں حضور کی باتیں مان لی گئیں اور حضور نے ایسے تنگ وقت میں ایسی ضخیم کتاب تحریر فرمائی۔ پھر اسے چھپوایا گیا اور چاندی کی طشتری میں رکھ کر پیش کیا گیا۔ ایسے تھوڑے عرصہ میں اس قدر مدلل اور شاندار کتاب کی تصنیف حضور کی اولوالعزمی کا واضح ثبوت ہے‘‘۔ (ماہنامہ خالد فروری ۱۹۹۱ء صفحہ ۵۱)
مکرم صوفی علی محمد صاحب حضور سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میں احمدی ہو چکا تھا مگرابھی تک حضور سے میری ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ستمبر ۱۹۵۸ء کو مجھے مکرمی مولانا ابو المنیر نور الحق صاحب حضور سے ملانے کے لئے نخلہ لے گئے۔ اس ملاقات میں حضور نے جس شفقت سے مجھے نوازا وہ پیار اور محبت ابھی تک میرے ذہن پر نقش ہے اس موقع پر میں نے حضور ایدہ اﷲ تعالیٰ کو اپنی ایک پنجابی نظم پڑھ کر سنائی ۔نظم کا جب میں نے یہ شعر پڑھا ؂
اک دا نہیں کم سارے ہمتاں دکھا دیئے
اک اک بندہ سَو سَو احمدی بنا دیئے
تو حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اب یہ فقرہ ٹھیک نہیں رہا۔ جب میں نے کہا یہ تھا کہ ایک ایک احمدی سَو سَو احمدی بنائے تو اُس وقت جماعت عہد طفلی میں تھی اب خدا کے فضل سے جماعت شباب کی حالت میں ہے۔ اب میں احباب جماعت سے سَو کی بجائے ہزار کی توقع رکھتا ہوں اس لئے تم اپنے شعر میں سو کی بجائے ہزار لکھو۔ میں نے عرض کیا کہ حضور ہزار لکھنے سے شعر کا وزن ٹوٹ جاتا ہے ہنس کر فرمایا اچھا تم شعر میں سَو پڑھ لیا کرو مگر ساتھ ہی بتا دیا کرو کہ اب میرا ہزار احمدی بنانے کا مطالبہ ہے سَو کا مطالبہ توہماری ایک رشتہ دار عورت نے ہی پورا کر دکھایا تھا اس لئے اب مردوں سے میرا ہزار کا مطالبہ ہے۔ اس کے بعد میں نے درج ذیل اشعار پڑھے :
مصلح موعود دے کلیجے ٹھنڈ پا دئیے
بلھے شاہ دے وانگ نچ پیر نو منا دئیے
ہو کے ضرور رہنی فتح اسلام جے
مصلح موعود دا میں ادنیٰ غلام جے
صوفی علی محمد تے جنڈو وچہ مقام جے
وقف جدید وچ دتا ہویا نام جے
اس پر حضور نے فرمایا کہ دیہاتیوں میں پنجابی مادری زبان ہونے کی وجہ سے پسند کی جاتی ہے ان کی نظم اور نظم پڑھنا مجھے بہت پسند ہے اور فرمایا کہ یہ نظم چھپوا کر جلسہ سالانہ میں تقسیم کی جائے چنانچہ یہ نظم چھپوا کر جلسہ پر کافی تقسیم کی گئی اور حضور نے مجھے فرمایا کہ دیہاتی جماعتوں میں جاکر یہ ضرور سنایا کریں‘‘۔ (سوانح فضل عمر جلد نمبر۵ صفحہ ۴۲۳،۴۲۴)

غیرتِ دین

مکرم محمد بشیر احمد آف بنگلہ دیش حضور کی غیرتِ دین کا ایک واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں:
’’ایک واقعہ حضور کی غیرت دینی کا میں بغیر ذکر کئے رہ نہیں سکتا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور کو توحید اور اشاعت توحید کا کس قدر خیال تھا۔ ۱۹۲۱-۲۲ء کا واقعہ ہے کہ حضور …… شملہ تشریف لے گئے حضور جب بھی شملہ تشریف لے جاتے تو چہل قدمی کے لئے اپنے خدام کے ساتھ تشریف لے جاتے ایک مرتبہ اسی طرح حضور سیر کے لئے تشریف لے جارہے تھے ساتھ حضور کے کئی خدام بھی تھے۔ میرے والد صاحب حضور کے ہمراہ تھے۔ والد صاحب فرماتے ہیں کہ راستہ میں عیسائیوں کا بڑا گرجا بھی آیا حضور کے ایک ہمراہی نے اس گرجا کی طرف متوجہ کیا کہ اتنا صاف شہر ہے اور یہ گرجا انگریزوں کا کس قدر شکستہ ہے اگر انگریز اس کی مناسب مرمت کرلیں تو کتنا خوبصورت لگے گا والد صاحب کہتے ہیں کہ ان الفاظ کاسننا تھا کہ حضور کا رنگ سُرخ ہو گیا اور مڑ کر فرمانے لگے کہ میں تو چاہتا ہوں کہ ہر جگہ خدائے واحد کا نام پھیلے اور بیوت الذکربنیں اور تم یہ کہتے ہو کہ یہ گرجا نئے سرے سے تعمیر ہو۔ اﷲ اﷲ کتنی غیرت توحید کے لئے تھی‘‘۔
(الفضل ۱۴؍اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۵)
اپنے تو کیا غیر بھی آپ کی غیرتِ دینی اور دینِ حق کے دفاع کرنے کے جذبہ کے قدر دان تھے۔ چنانچہ سیّد ابو ظفر نازش صاحب رضوی نے حضرت مصلح موعودکی وفات پر آپ کے اس وصف کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا کہ:
’’افسوس ! کہ وُہ وجود جو انسانیت کے لئے سراپا اِحسان و مروّت تھا آج اِس دُنیا میں نہیں۔ وہ عظیم الشان سِپر آج پیوندِ زمین ہے جس نے مخالفینِ اسلام کی ہر تلوار کا وار اپنے سینے پر برداشت کیا مگر یہ گوارا نہ کیا کہ اسلام کو گزند پہنچے …… آپ نے دُنیا کے بے شمار ممالک میں چار سَو کے قریب مساجد تعمیر کرائیں۔ تبلیغِ اسلام کے لئے تقریباً یکصد مِشن قائم کئے جو عیسائیت کی بڑھتی ہوئی رَو کے سامنے ایک آہنی دیوار بن گئے۔ مختصر یہ کہ حضرت صاحب نے اپنی زندگی کا ایک ایک سانس اپنے مولیٰ کی رضا اور اسلام کی سَر بلندی کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ خُدا اُن سے راضی ہؤا وہ خدا سے راضی ہوئے‘‘۔ (روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ مورخہ ۱۴؍اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۳،۵)
حضرت شیخ غلام احمد واعظ …… فرمایا کرتے تھے کہ
’’ایک دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ آج کی رات بیت مبارک میں گزاروں گا اور تنہائی میں اپنے مولا سے جو چاہوں گا مانگوں گا۔ جب میں بیتمیں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص سجدے میں پڑا ہوا ہے اور الحاح سے رو رہا ہے اس کے اس الحاح کی وجہ سے میں نماز بھی نہ پڑھ سکا اور اس شخص کا اثر مجھ پر بھی طاری ہو گیا اور میں بھی دُعا میں محو ہو گیا اور میں نے دعا کی کہ ………… یہ شخص تیرے حضور سے جو کچھ بھی مانگ رہا ہے وہ اس کو دے دے اور کھڑا کھڑا تھک گیا کہ یہ شخص سر اٹھائے تو معلوم کروں کہ کون ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ سے پہلے وہ کتنی دیر سے آئے ہوئے تھے مگر جب آپ نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں محمود احمد صاحب ہیں۔ میں نے السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا اور پوچھا کہ آج اﷲ تعالیٰ سے کیا کچھ لے لیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے تو یہی مانگا کہ یاالٰہی! مجھے میری آنکھوں سے دین حق کو زندہ کر کے دکھا! اور یہ کہہ کر آپ اندر تشریف لے گئے‘‘۔ (الفضل ۱۶؍فروری ۱۹۶۸ء صفحہ۷)

احکام شریعت کی پابندی

مولانا محمد احمد جلیل صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ اس تعلق میں یوں تحریر کرتے ہیں:
تقسیم ملک سے پہلے قادیان کے زمانے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی گرمیوں میں ڈلہوزی تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ۱۹۳۲ء کی بات ہے حضور ڈلہوزی میں موتی ٹبہ نامی پہاڑی پر لارنس ہال کوٹھی میں مع اہل …… قیام فرما تھے۔ پرائیویٹ سیکریٹری کا عملہ اور دیگر کارکنان وغیرہ تھوڑے فاصلہ پر ٹیرہ ہال میں مقیم تھے۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب اور میرے والد مولوی محمد اسماعیل صاحب بھی ان دنوں ٹیرہ ہال میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب انگریزی تفسیر کے لئے اور میرے والد صاحب تفسیر کبیر کے سلسلہ میں حضور کے ہمراہ گئے ہوئے تھے۔ میں نے ان دنوں مولوی فاضل کا امتحان دیا۔ والد صاحب نے امتحان کے بعد مجھے بھی کچھ دنوں کے لئے وہاں بلا لیا۔
ٹیرہ ہال کے ساتھ میدان میں ایک بڑا خیمہ نصب تھا جس میں پانچوں نمازیں اور جمعہ ادا کیا جاتا تھا۔ برسات کا موسم تھا۔ نمازیں عموماًجمع ہوتی تھیں۔ ایک روز جب حضور مغرب کی نماز پڑھا چکے تو حضرت مولوی شیر علی صاحب نے حسب معمول عشاء کی اقامت شروع کی۔ حضور نے فرمایا کیا بارش ہو رہی ہے۔ جب باہر دیکھا گیا تو بارش نہیں ہو رہی تھی۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ نماز جمع کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور حضور نصف گھنٹہ کے قریب بیٹھے احباب سے گفتگو کرتے رہے۔ اس کے بعددوبارہ اقامت کہی گئی اور عشاء کی نماز ادا کی گئی۔ (ماہنامہ خالد فروری ۱۹۹۱ء صفحہ ۶۲)

قبولیتِ دُعا

اﷲ تعالیٰ سے زندہ تعلق کا ایک عملی ثبوت یہ کہ وہ اپنے پیاروں کی بڑی کثرت سے دُعائیں قبول کرتاہے۔ حضرت مصلح موعود کی قبولیت دعاکے ہزاروں واقعات میں سے نمونہ کے طور پر صرف چند ایکتحریر کئے جاتے ہیں۔
مکرم ملک حبیب الرحمن صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی انسپکٹر لکھتے ہیں:
’’۱۹۳۸-۳۹ء کی بات ہے کہ مجھے ہر ماہ معدہ میں درد کا شدید دورہ ہونا شروع ہوا۔ بہت علاج کئے مگر کوئی افاقہ نہ ہوا اور میں بالکل لاچار ہو گیا۔ آخر تنگ آکر میں امرتسر میڈیکل ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ مختلف اقسام کے ٹیسٹ کئے جانے کے بعد ڈاکٹروں نے فیصلہ دیا کہ مجھے اپنڈے سائٹس ہے اور پتے میں پتھری بھی ہے لہٰذا دونوں آپریشن ہوں گے جس سے میں سخت گھبرا گیا اور موقع پاکر ہسپتال سے نکل کر سیدھا قادیان پہنچا اور اپنے آقا کے حضور تمام حالات عرض کئے۔ حضور نے ازراہ شفقت فرمایا کہ آپ کو اپنڈے سائٹس قطعاً نہیں ہے۔ ہاں پتے میں پتھری ہو سکتی ہے۔ میں دعا کروں گا۔ اس پر میں مطمئن ہو کر واپس اپنی ڈیوٹی پر چلا گیا اور معمولی دیسی وہومیو پیتھک علاج شروع کیا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے تین ماہ کے اندر مجھے کافی افاقہ ہوا اور کچھ عرصہ کے بعد بیماری کا نام و نشان نہ رہا اور باوجود سخت بد پرہیزی کے آج تک یہ تکلیف دوبارہ نہیں ہوئی۔ یہ سب حضور کی دعاؤں کے طفیل اﷲ تعالیٰ کا فضل تھا ورنہ یہ دوائیں تو میں پہلے بھی ایک عرصہ تک استعمال کرتا رہا تھا۔ (ماہنامہ خالد فروری ۱۹۹۱ء صفحہ ۵۲)
مکرم میاں روشن دین صاحب صراف آف اوکاڑہ لکھتے ہیں:
’’۱۹۳۷ء کا واقعہ ہے کہ میرا لڑکا ضیاء الدین احمد ٹائیفائیڈ سے بیمار ہو گیا اور میں اسے لے کر قادیان چلا گیا۔ یہ وہ دن تھے جب حضور نے سورۃ یونس سے سورۃ کہف تک درس دیا تھا۔ حضور نے فرمایا کہ دعا کے لئے یاد دہانی کرواتے رہنا۔ کئی ڈاکٹر صاحبان بھی درس کی وجہ سے آئے ہوئے تھے۔ مثلاً ڈاکٹر حاجی خان صاحب کراچی، ڈاکٹر حضرت سیّد عبدالستار شاہ صاحب، ڈاکٹر عنایت اﷲ شاہ صاحب اور ڈاکٹر محمد الدین صاحب یہ سب علاج بھی کرتے رہے۔ آخر سب نے مشورہ دیا کہ اسے لاہور لے جائیں۔ حضور کی خدمت میں ڈاکٹروں کا مشورہ رکھا گیا چنانچہ آپ نے فرمایا کہ مجھے لا کر دکھادیں۔ چنانچہ میں بچہ کو اٹھا کر لے گیا تو حضور نے دعا فرماتے ہوئے اجازت دی کہ لے جاویں اور فرمایا کہ میں دعا کرتا رہوں گا۔ وہاں لے جانے پر میو ہسپتال کے سرجن نے مایوس ہو کر کہہ دیا کہ یہ لڑکا نہیں بچے گا اسے واپس لے جاؤ۔ چنانچہ بچہ کو واپس لے آئے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود کی دعاؤں سے یہ کرشمہ دکھایا کہ پیٹ میں جو غدودیں پیپ سے بھر گئی تھیں ان کی پیپ ناف کے ذریعہ خارج ہوتی گئی اور لڑکا خدا تعالیٰ کے فضل سے صحت یاب ہو گیا۔حضرت مولانا غلام رسول صاحب امرتسر سے قادیان جارہے تھے اور حضرت اماں جان بھی اسی گاڑی پر دہلی سے قادیان تشریف لے جارہی تھیں۔ حضرت مولوی صاحب نے ضیاء الدین کو حضرت اماں جان کے پاس بھجوادیا اور فرمایا کہ یہ لڑکا حضرت خلیفۃ المسیح کی دعا کا زندہ معجزہ ہے‘‘۔ (ماہنامہ خالد فروری ۱۹۹۱ء صفحہ ۵۲)
سیّد اعجاو احمد شاہ صاحب انسپکٹر بیت المال لکھتے ہیں:
’’۱۹۵۱ء کا واقعہ ہے کہ مَیں ربوہ تھا۔ مجھے برادر خورد عزیز م سیّد سجاد احمد صاحب کی طرف سے جڑانوالہ سے تار ملا۔ ’’والد صاحب کی حالت نازک ہے جلدی پہنچو‘‘۔ نمازِ مغرب کے قریب مجھے تار ملا مغرب کی نماز میں حضور نماز پڑھا کر واپس تشریف لے جانے لگے تو مَیں نے عرض کیا۔ ’’جڑانوالہ سے چھوٹے بھائی کا تار ملا ہے۔ ابا جی کی حالت نازک ہے۔ کل صبح جاؤں گا حضور دعا فرماویں‘‘۔ حضور نے فرمایا ’’ اچھا دعا کروں گا‘‘۔ حضور پر نور کے ان چار لفظوں میں وہ سکینت تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ اگلی صبح کو جڑانوالہ پہنچا۔ والد صاحب محترم چارپائی پر حسبِ معمول پان چبا رہے تھے۔ بھائی سے شکوہ کیا کہ تم نے خوامخواہ تار دے کر پریشان کیا تو اس نے کہا کہ کل مغرب کے بعد سے ابا جی کی حالت معجزانہ طور پر اچھی ہونی شروع ہوئی اور خطرہ سے باہر ہوئی ورنہ مغرب سے پہلے سب علاج بے کار ثابت ہو کر حالت خطرہ والی از حد تشویشناک تھی۔ پھر مَیں نے بتلایا کہ مَیں نے کل مغرب کے بعد حضور سے عرض کیا تھا۔ (روزنامہ الفضل ۱۷؍اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ۴)
مکرم محمد عمر بشیر احمد صاحب بنگلہ دیش تحریر کرتے ہیں:
’’۱۹۵۶ء کا واقعہ ہے کہ حضور …… کراچی تشریف فرما تھے۔ ان دنوں میرے والدین بھی ڈھاکہ سے کراچی آئے ہوئے تھے۔ حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ میرے والد صاحب کو گلے میں کئی دنوں سے سخت تکلیف تھی وہاں کے احمدی اور غیر احمدی معروف ڈاکٹروں کو دکھایا گیا ہر ایک نے اس تکلیف پر تشویش کا اظہارکیا اور کہا کہ اپریشن کے بغیر کوئی علاج نہیں ہے اور اپریشن بھی کم کامیاب ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں سخت فکر لاحق ہوئی۔ ہم حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی درخواست کی حضور نے فرمایا اچھا میں دعا کروں گا۔ والدہ صاحبہ نے اسی وقت حضور سے کہا کہ حضور ان کو یہاں تکلیف ہے۔ حضور نے جب نظر اٹھائی اور گلے کو دیکھا تو والدہ صاحبہ کہنے لگیں۔ حضور ابھی دعا فرما دیں حضور مسکرادیئے اور دعا فرمائی۔ خدا شاہد ہے کہ اسی وقت حضور نے توجہ فرمائی اور ابھی والدہ صاحبہ اور والد صاحب حضور کی کوٹھی سے باہر گئے ہی تھے کہ والد صاحب کہنے لگے کہ مجھے آرام محسوس ہوتا ہے اور جب گلے پر ہاتھ لگا کر دیکھا تو نہ وہاں گلٹی تھی اور نہ ہی درد تھا یہ تھا زندہ معجزہ حضور کا اﷲ تعالیٰ سے تعلق کا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کی صداقت …… مصلح موعود اپنے مسیح نفس سے بیماروں کو شفاء دے گا‘‘۔ 
’’میری والدہ صاحبہ ڈھاکہ میں ۱۹۵۴ء میں سخت بیمار ہو گئیں۔ ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کر دیا۔ کرنل خلیفہ تقی الدین احمد صاحب جو اس وقت مشرقی پاکستان میں سرجن تھے ان کے مشورہ اور تعاون سے والدہ صاحبہ کو ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ بظاہر بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ حضور کی خدمت میں برابر تاریں دینی شروع کیں۔ اگلی رات کو حالت اور نازک ہو گئی۔ ڈاکٹر جواب دے گئے ایک پروفیسر صاحب کہنے لگے اب دعا کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ آپ لوگ سورۃ یٰسین پڑھیں ربوہ سے جواب آیا کہ حضور دعا فرماتے ہیں اﷲ تعالیٰ شفا عطا فرمائے گا۔ حالت سنبھلنے لگی اور اگلی صبح جو ڈاکٹر صاحبان مایوس ہو کر چلے گئے تھے وہ کہتے ہیں کہ ہم تو یقین کر چکے تھے کہ آپ لوگ ہسپتال سے چلے گئے ہوں گے کیونکہ مریض کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی یہاں آکر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ ان کی شفایابی ایک معجزہ ہے معجزہ کیوں نہ ہوتا جبکہ مریض کے حق میں اس مسیح نفس کی دعائیں ہیں جس نے بہتوں کو شفا دینی تھی۔‘‘
’’ایک دوست کو اپنی ملازمت کا خطرہ پیدا ہو گیا اور اس کو معلوم ہو گیا کہ وہ برطرف یا معطل کر دیا جائے گا۔ اس نے حضور …… کی خدمت میں جوابی تار کیا اور تار دیتے ہی بڑے پُر یقین انداز میں کہنے لگا کہ حضور سے اگر جواب آگیا کہ حضور نے میرے لئے دعا فرمائی ہے تو یقینا میرا خدا میری مدد کرے گا۔ ایک ہفتہ کے بعد جب اسی دوست سے ملاقات ہوئی اور دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اسی رات اسے حضور کی طرف سے جواب آگیا تھا۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اور حضور …… کی دعاؤں کی برکت سے وہ ملازمت پر بحال ہے۔ خود میری اپنی زندگی میں ایسے کئی محیر العقول واقعات رونما ہوئے جو میرے لئے ازدیادِایمان اور دوسروں کے لئے ہدایت کا موجب ہوئے‘‘۔ (الفضل ۱۹؍اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۵)
حضرت مصلح موعود …… فرمایا کرتے تھے:
’’جب سعودی ، عراقی، شامی اور لبنانی، تُرک، مِصری اور یمنی سو رہے ہوتے ہیں مَیں اُن کے لئے دُعا کر رہا ہوتا ہوں‘‘۔ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۵ء صفحہ۹)

دوسروں کی تکلیف کا اظہار

حضرت مصلح موعود نے ساری زندگی دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھا اور جب بھی جماعت کے کسی فرد کو تکلیف میں دیکھا اپنے آرام کو ترک کر دیا اور اس کی تکلیف کو دُور کرنے کی سعی دُعا اور دوا دونوں طرح سے کی۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے مندرجہ ذیل شعر میں اپنے بڑے بھائی جان پیارے بھائی حضرت مصلح موعود کی علالت کے دوران احباب جماعت کو دُعا کی یوں تحریک فرمائی: ؂

قوم احمد جاگ تُو بھی جاگ اُس کے واسطے
اَن گنت راتیں جو تیرے درد سے سویا نہیں
محترم مرزا رفیق احمد صاحب حضرت مہر آپا کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’ایک گرم اور حبس والی رات، گیارہ بجے دروازہ کھٹکا، ان دنوں بجلی ابھی ربوہ میں نہیں آئی تھی۔ حضور لالٹین کی روشنی میں صحن میں لیٹے ہوئے کتاب پڑھ رہے تھے۔ حضور نے مجھے کہا کہ دیکھو کون ہے؟ میں نے دریافت کیا اور آکر حضور سے کہا:’’ایک عورت ہے و ہ کہتی ہے کہ میرے خاوند کو حضور نے دوائی دی تھی اس سے بہت افاقہ ہو گیا تھا، مگر اب طبیعت پھر خراب ہو گئی ہے، دوائی لینے آئی ہوں‘‘۔آپ نے فرمایا!’’کمرہ میں جاؤ فلاں الماری کے فلاں خانے سے فلاں دوائی نکال لاؤ‘‘گرمی مجھے بہت محسوس ہوتی ہے اور یہ موسم میرے لئے ہمیشہ ناقابلِ برداشت رہا ہے۔ اپنی اس کمزوری کی بنا پر میں کہہ بیٹھی:’’یہ کوئی وقت ہے، میں اسے کہتی ہوں کہ صبح آجائے اندر جاکر تو حبس سے میرا سانس نکل جائے گا‘‘۔اس پر حضور نے بڑے جلال سے فرمایا!’’تم اس اعزاز کو جو خدا نے مجھے دیا ہے چھیننا چاہی ہو! ایک غرض مند میرے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے آتا ہے، یہ خدا کی دی ہوئی عزت ہے کہ مجھے خدمت کا موقع ملتا ہے، اسے میں ضائع کر دوں تو قیامت کے دن خدا کو کیا شکل دکھاؤں گا، میں خود جاتا ہوں‘‘میں نے کہا:’’آپ نہ جائیں، گرمی بہت ہے، میں چلی جاتی ہوں‘‘حضور نہ مانے اور خوداندر گئے اور دوائی لے کر اسے دی اور ساتھ ہی اسے ہدایت کی کہ صبح آکر اپنے خاوند کی خیریت کی خبر دے‘‘۔
(ملت کا فدائی صفحہ ۴۹،۵۰)
مکرم لطیف احمد خان دفترپرائیویٹ سیکرٹری ایک واقعہ تحریر کرتے ہیں کہ:
’’۱۹۴۱ء کا واقعہ ہے کہ حضور ڈلہوزی میں تھے وہاں سے ایک دن سیر کے لئے دیان کنڈ جو ایک اونچی پہاڑی تھی تشریف لے گئے۔ وہاں چائے کا بھی پروگرام تھا۔ مگر اتنے میں بارش ہونی شروع ہو گئی اور ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی۔ میں اور خان میر خان صاحب اور نذیر احمد صاحب ڈرائیور آگ جلانے میں مصروف تھے مگر لکڑیوں کے گیلا ہونے کی وجہ سے بڑی دقت تھی اور پتھروں کے چولہے پر جھکے پھونکیں مار رہے تھے کہ اتنے میں حضور خود دو چار سوکھی لکڑیاں لئے ہوئے تشریف لے آئے اور ہمارے سروں پر چھتری کر دی۔ ہم نے وہ لکڑیاں رکھ کر آگ جلائی اور جب تک پانی ابل نہیں گیا حضور چھتری کا سایہ کئے دُھویں میں ہمارے پاس ہی کھڑے رہے‘‘۔ (ماہنامہ خالد فروری ۱۹۹۱ء صفحہ ۵۲)
مکرم مرزا رفیق احمد صاحب (ابن حضرت فضل عمر) بیان کرتے ہیں کہ:
’’حضور کے کمرہ میں خاندان کے کسی فرد کی خواہش پر قالین بچھوایا گیا۔ اتفاق سے ایک دن کوئی دیہاتی خاتون حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہوئیں ان کے گرد آلود پاؤں کی وجہ سے قالین پر نشان پڑ گئے۔ حضور نے محسوس فرمایا کہ آپ کے اس عزیز (جن کی خواہش پر یہ قالین بچھایا گیا تھا) کے چہرہ پر کچھ ناپسندیدگی کے آثار ہیں۔ اس خاتون کے جانے کے بعد حضور نے وہ قالین اسی وقت وہاں سے یہ کہتے ہوئے نکلوا دیا کہ میں اسے اپنے اور اپنی جماعت کے درمیان حائل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا‘‘۔ (سوانح فضل عمر جلد۵ صفحہ ۴۱۲،۴۱۳)
مکرم محمد عبداﷲ صاحب آف قلعہ صوبہ سنگھ تحریر کرتے ہیں کہ:
’’ایک دوسرا واقعہ یہ ہے کہ مَیں چھاؤنی نوشہرہ سے کچھ دنوں کی رخصت لے کر قادیان آیا تھا۔ میری بیوی کے گلے میں خنا زیر کی گلٹیاں تھیں جن کا آپریشن کروا کر خارج بھی کروا دی گئیں تھیں مگر گلٹیاں پھر نمودار ہو گئیں۔ حضرت اُمّ طاہر صاحبہ کے ساتھ ہمارے پرانے تعلقات تھے میری بیوی جب ان سے ملیں تو انہوں نے کہا کہ حضرت صاحب اس مرض کا علاج کرتے ہیں اور حضور کوئی مرہم استعمال کرنے کے لئے دیں گے۔ میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا۔ ارشاد فرمایا کہ میں نے تو اس مرض کا کبھی کوئی مرہم تیار نہیں کیااور نہ ہی علاج کیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور کی معمولی سی توجہ سے شفاء ہو جائے گی۔ حضور کے پاس ڈاکٹر حشمت اﷲ صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ ارشاد فرمایا کہ مجھے یاد دلانا، ان کے واسطے دوائی تیار کر کے بذریعہ پارسل نوشہرہ بھیج دی جائے گی۔ چنانچہ جب ہم واپس نوشہرہ چھاؤنی پہنچے تو کچھ دنوں کے بعد ایک پارسل حضور کی جانب سے موصول ہوا جس میں ایک بند ڈبیا میں سفید رنگ کا پوڈر تھا۔ حسبِ ہدایت وہ کچھ دن استعمال کیا گیا جس کے استعمال سے گلٹیاں غائب ہو گئیں اوراب تک اس کا نام و نشان نہیں اور کبھی نہیں اُبھریں۔ الحمدﷲ۔ یہ تھا حضور عالی کا اپنے ناچیز خادموں کے ساتھ مربیانہ سلوک‘‘۔
(سوانح فضل عمر جلد ۵ صفحہ ۴۰۹،۴۱۰)
مکرم محمد عبداﷲ صاحب ڈرائیور سعود آباد کراچی لکھتے ہیں:
’’قادیان دارالامان کا ذکر ہے اس زمانہ میں حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے اور میں حضور کی کار کا ڈرائیور تھا۔ میاں نذیر احمد صاحب ڈرائیور ان دنوں لمبی چھٹی پر تھے۔ میں نے مولانا درد صاحب مرحوم سے عرض کیا کہ مجھے اس وقت ایک سو روپے کی کی ضرورت ہے۔ آپ حضور سے بطور قرضہ دلا دیں اور پھر تنخواہ میں سے کاٹ لیں۔ درد صاحب نے فرمایا کہ تم سیّدہ اُمّ طاہرہ صاحبہ سے عرض کرو وہ بندوبست فرمادیں گی۔ سو میں نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ذکر کیا کہ آپ بطور قرضہ ایک سو روپیہ حضور سے دلا دیں میں تنخواہ سے وضع کرادوں گا۔ انہوں نے بڑی شفقت سے فرمایا کہ اچھا میں بندوبست کردوں گی۔ دوسرے یا تیسرے دن مجھے دفتر سے مبلغ ۷۵ روپے ملے اور ساتھ ہی حضور کا یہ ارشاد موصول ہوا کہ یہ عطیہ ہے۔ قرضہ واپس کرنا تمہارے لئے مشکل ہو گا۔ گھر کے خرچ تو بدستور ہوں گے لہٰذا اسی رقم سے اپنی ضرورت پوری کرو‘‘۔
’’حضور موٹر میں بیٹھے ہوئے اگر کچھ تناول فرماتے تو ڈاکٹر حشمت اﷲ خان صاحب کو اس چیز کا ایک حصہ دے کر فرماتے کہ عبداﷲکے منہ میں ڈال دو کہ سیٹرینگ وہیل سے ہاتھ اٹھانا اس کے لئے مشکل ہو گا ۔(واضح رہے کہ کار میں ڈاکٹر صاحب ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا کرتے تھے)‘‘۔ (الفضل مورخہ ۲۷؍مئی ۱۹۶۶ء صفحہ ۴)
مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب (ناظر دیوان) اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:
’’۲۶؍جولائی ۱۹۳۱ء کو حضرت مصلح موعود نے قادیا ن سے شملہ تک وہ تاریخی سفر کیا جس میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ جبکہ حضورکی شملہ میں قیام گاہ ’’فیئرویو‘‘ کوٹھی میں ہندوستان کے تمام مسلم قابلِ ذکر لیڈر جمع ہوئے اور سر محمد اقبال صاحب کی تجویز اور تمام کے تمام جمع شدہ لیڈروں کی تائید اور اتفاق سے حضور اس کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ راقم الحروف کو اس سفر میں حضور کے ہمراہیوں میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی۔ جس روز ہم شملہ پہنچے تو سفر کی تھکان کی وجہ سے مجھے نیند آگئی۔ ابھی کھانا نہیں کھایا تھا جب کھانے کاوقت ہوا حضور کھانے کے کمرہ میں تشریف لے گئے۔ خاکسار وہاں نہ تھا حضور نے سیّد محمد یٰسین صاحب (حضور کے باورچی) کو بھجوایا کہ ظہور احمد نہیں ہے اسے ڈھونڈ کر لاؤ۔ وہ آئے مجھے جگایا کہ حضور انتظار فرما رہے ہیں جلدی چلو۔ میں نے جلدی ہاتھ منہ دھویا اور حاضر ہو گیا چھوٹی عمر تھی ناتجربہ کار تھا، ڈرتا ہوا گیا کہ حضور ناراض ہوں گے۔ میرے پہنچتے ہی حضور نے مسکراتے ہوئے سیّد محمد یٰسین صاحب کو فرمایا، سب آگئے ہیں اب کھانا لے آؤ۔ بعد میں مَیں نے دیکھا کہ حضور کا یہ طریق تھا کہ سفر میں حضور اپنے تمام ہمراہیوں کے آرام کا چاہے وہ کسی درجہ کے ہوں ہر طرح سے خیال رکھتے۔ سب کا انتظار کر کے کھانا شروع فرماتے اور اگر کوئی ساتھی باہر کام پر گیا ہوتا تو خادم کو بار بار تاکید فرماتے کہ ان کا کھانا رکھ چھوڑنا تا کہ جب واپس آئیں تو کھا سکیں‘‘۔ (سوانح فضل عمر جلد ۵ صفحہ ۴۱۴، ۴۱۵)
مکرم محمد عمر بشیر احمد صاحب آف بنگلہ دیش تحریر کرتے ہیں کہ:
’’حضور بلا لحاظہ فرقہ و مذہب ہر ایک کا درد رکھتے تھے۔ چنانچہ ۱۹۵۴ء اور ۱۹۵۵ء کے ہولناک سیلاب کے موقعہ پر جب کہ حضور لنڈن میں تھے۔ مرکز کو یہ حکم دیا کہ مشرقی پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے ایک گرانقدر رقم ارسال کی جائے اور ساتھ مکرم کیپٹن خورشید احمد صاحب جو اس وقت مشرقی پاکستان کے امیر تھے کو ارشاد فرمایا کہ فوری طور پر امداد ی کام شروع کر دیا جائے اور ان تمام کاموں کی حضور کو باقاعدہ رپورٹیں بجھوائی جائیں۔ حضور کے ارشاد کے ماتحت فوری طور پر کام شروع کر دیا گیا۔ اﷲ تعالیٰ کے فضٗ سے ہمارے ان امدادی کاموں کا اچھا اثر ہوا۔ ہمارے ان امدادی کاموں کی نیک شہرت کی وجہ سے صوبائی’’ریڈ کراس‘‘ نے بھی ہمیں دوائیاں دودھ وغیرہ مہیا کیا۔ ہمارے ان تمام امدادی کاموں کا ذکر مشرقی پاکستان کے اخباروں اور وہاں کے سیاسی لیڈروں نے علی الاعلان کیا۔ اس سلسلہ میں وہاں کے کئی سیاسی لیڈروں نے تعاون کیا۔ خصوصاً چوہدری غلام قادر صاحب مرحوم سابق ممبر صوبائی اسمبلی اور مکرم ابو حسین سرکار صاحب سابق وزیر اعلیٰ مشرقی پاکستان جناب سیّد عزیز الحق صاحب اور جناب ہاشم الدین احمد صاحب سابق وزراء مشرقی پاکستان نے جماعت کے ان امدادی کاموں کوبہت سراہا۔ مکرم غلام قادر صاحب چوہدری ممبر اسمبلی نے اپنے کئی پبلک لیکچرز میں ان باتوں کا اعتراف کیا‘‘۔
(الفضل مورخہ ۱۹؍اپریل ۱۹۶۶ء)

اپنے عقیدت مندوں سے حسنِ سلوک

حضرت مصلح موعود کی حیاتِ طیبہ کا مطا لعہ کرنے سے ہزاروں ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے آپ کا اپنے عقیدت مندوں سے حسنِ سلوک ۔ اُن کی دلجوئی، قدردانی اور ان کی خواہشات کا احترام اور ہمدردی کے جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔ صرف چند واقعات پیش کئے جاتے ہیں:
ایک خادم سلسلہ کی قدردانی اور عزت افزائی کا نظارہ دیکھئے:
’’جناب خانصاحبفرزند علی صاحب امام ……احمدیہ لندن مبلغِ ……۱۰؍اپریل ۱۹۳۳ء کو بارہ بجے کی ٹرین سے قریباً پانچ سال کے بعد تشریف لائے۔ سٹیشن پر احباب کثیر تعداد میں اپنے مجاہد بھائی کے استقبال کے لئے جمع تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی باوجود ناسازیٔ طبع اور بہت نقاہت کے اپنے خادم کی عزت افزائی کے لئے اسٹیشن پر تشریف لے گئے ……‘‘
’’جب خان صاحب مسجد مبارک میں پہنچے تو شیخ یوسف علی صاحب پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے کسی سے وضوکے لئے پانی لانے کو کہا مگر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بنفس نفیس اندر جاکر پانی کا لوٹا بھر لائے‘‘۔ (الفضل صفحہ ۱،۱۳؍اپریل ۱۹۳۳ء)
مکرم میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ امیر ضلع گوجرانوالہ تحریر کرتے ہیں:
’’۱۹۴۶ء کا ذکر ہے کہ میں بعارضہ ٹائیفائیڈ بیمار ہو گیا۔ چار ہفتہ کے بعد بخار ٹوٹا لیکن اُس روز میرا ایک جوان لڑکا فوت ہو گیا۔ باوجود لوگوں کے منع کرنے کے میں اس کے جنازہ کے ہمراہ پیدل قبرستان تک چلا گیا۔ جو میرے مکان سے قریباً پون میل کے فاصلہ پر ہے۔ گھر واپس آکر تکان کی وجہ سے ٹائیفائیڈ کا دوسرا حملہ ہو گیا جو کہ بہت شدید تھا بچنے کی کوئی امید نہ رہی۔ حضور کو جب میری بیماری کی خبر ملی تو میرے گھر والوں کو تحریر فرمایا کہ ہر روز میری حالت سے حضور کی خدمت میں اطلاع دی جاوے تاکہ حضور دعا کر سکیں۔ چنانچہ یہ سلسلہ جاری رہا اور اﷲ تعالیٰ نے حضور کی دعاؤں کی طفیل شفا عطا کی۔ مجے یہ خیال نہ تھا کہ میرا حضور سے کوئی ایسا تعلق ہے یا کوئی ایسی خدمت میں نے کی ہو جس کی وجہ سے حضور کو اس خاد م کا اس قدر خیال ہو۔ حضور کے اس سلوک کی وجہ سے ہر شخص جس کو حضور کی خدمت کا موقعہ ملا وہ یہی سمجھتا ہے کہ جو تعلق حضور کا اس سے ہے اور کسی سے نہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضور اپنے ہر خادم سے ایسا تعلق رکھتے تھے کہ وہ سمجھتا تھا کہ یہ تعلق حضور کا اور کسی سے نہیں اور یہ حضور کی ذرہ نوازی کا نتیجہ تھا‘‘۔
(الفضل ۱۲؍جون ۱۹۶۶ء صفحہ ۵)
قادیان کے احمدیوں کی عید کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے حضور کے ارشاد پر ایک عام دعوت ہوئی۔ اخبار الفضل اس مبارک تقریب کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’عید الفطر سے ایک روز قبل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ عید کے دن کوئی ایسی تقریب ہونی چاہیئے جس کے ماتحت تمام مقامی احمدی مشترک کھانا کھائیں اور لنگر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جاری فرمودہ متبرک سلسلہ ہے وہاں سے غرباء اور مساکین کو کھانا دیا جائے اس کے علاوہ جو دوست اپنا خرچ دے کر اس دعوت میں شریک ہونا چاہیں انہیں بھی شامل کر لیا جائے۔ اس فہرست میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ نے بعد میں جملہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی شامل کرنے کااعلان فرمایا …… قریباً ساڑھے چار ہزار احمدیوں کو عید کے دن شام کے وقت پلاؤ، آلو گوشت اور روٹی پر مشتمل کھانا کھلایا گیا۔ جس میں قلیل حصہ ان لوگوں کا تھا جنہوں نے خرچ دیا تھا اور کثیر حصہ غرباء کا تھا …… اس انتظام کی وجہ سے یہ عید قادیان میں اپنی قسم کی پہلی عید تھی۔ آئندہ کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ کا خیال ہے کہ عید الفطر کے موقع پر اس قسم کی دعوت کا انتظام کیا جایا کرے اور بروقت انتظامات شروع کر کے یہ کوشش کی جائے کہ جملہ مقامی احمدی اور مہمان اس میں شامل ہوں‘‘۔
(الفضل ۲۱؍جنوری ۱۹۳۴ء صفحہ ۱)
حضرت حافظ روشن علی صاحب بہت ہی مخلص اور فدائی خادم اور خلافت ثانیہ میں ابتدائی علماء و مبلغین کے استاد تھے ۲۳؍جون ۱۹۲۹ء کو وفات پاگئے۔ حضور کو ان کی وفات کی اطلاع بذریعہ تار کشمیر میں ملی۔ حضور نے جوابی تار میں فرمایا:
’’مولوی شیر علی صاحب کا تار حافظ روشن علی صاحب کی وفات کے متعلق پہنچا۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔ مجھے بہت ہی افسوس ہے کہ میں وہاں موجود نہیں ہوں تاکہ اس قابل قدر دوست اور زبردست حامیِ دین حق کی نماز جنازہ خود پڑھا سکوں۔ حافظ صاحب مولوی عبدالکریم صاحب ثانی تھے اور اس بات کے مستحق تھے کہ ہر ایک احمدی انہیں نہایت ہی عزت و توقیر کی نظر سے دیکھے انہوں نے دین حق کی بڑی بھاری خدمت سرانجام دی ہے اور جب تک یہ مقدس سلسلہ دنیا میں قائم ہے انشاء اﷲ ان کا کام کبھی نہ بھولے گا۔ ان کی وفات ہمارے سلسلہ اوردین حق کے لئے ایک بڑا صدمہ ہے لیکن ہمیشہ ایسے ہی بڑے صدمے ہوتے ہیں جنہیں اگر صبر کے ساتھ برداشت کیا جائے تو وہ خداتعالیٰ فضلوں کے جاذب بن جاتے ہیں۔ ہم سب فانی ہیں لیکن جس کام کے لئے ہم کھڑے کئے گئے ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کا کام ہے جو موت و حیات کاپیدا کرنے والا ہے اور وہ غیر معلوم اسباب کے ذریعہ اپنے کام کی تائید کرے گا ……
میں احباب کے ساتھ سرینگر میں نماز جنازہ پڑھوں گا اگر لاش کے متغیر ہو جانے کا خوف نہ ہوتا تو التوائے تدفین کی ہدایت دیکر میں اس آخری فرض کو ادا کرنے کے لئے خود قادیان آتا۔ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں پر جو ہم سے رُخصت ہو گئے ہیں اور ان پر جو زندہ ہیں اپنی رحمتیں نازل فرمائے‘‘ (الفضل ۲۸؍جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۱)
اس طرح ایک اور واقع ہے کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی شادی ہوئی تو دعوت ولیمہ کے موقع پر قادیان کے سارے باشندے اپنا حق سمجھتے ہوئے از خود شامل ہو گئے۔ جس کے نتیجہ میں یہ فیصلہ ہوا کہ حاضرین میں سے ایک تعداد آج رات کھانے میں شریک نہ ہو۔ بلکہ جو لوگ بغیر بلائے کے اپنا حق سمجھتے ہوئے آگئے ہیں ان کو بھی محروم نہ رکھا جائے اور یہ لوگ ان کو کھانا کھلانے کی ڈیوٹی اپنے ذمہ لے لیں۔ چنانچہ اس طرح سے جس قدر کھانا تیار تھا وہ دوسرے لوگوں کو کھلادیا گیا اور جس قدر کھانا بچ رہا اس کے متعلق حضور نے فیصلہ فرمایا کہ اب جو دوست کھانا کھلا رہے تھے وہ سب اکٹھے بیٹھ جائیں اور جس قدر بھی کھانا موجود ہے اس کو سب مل کر کھالیں اور ان لوگوں کی کل پھر باقاعدہ دعوت ہو گی۔ چنانچہ حضور بھی بغیر کسی امتیاز کے ان احباب کے درمیان لائن میں بیٹھ گئے اور ایک ایک برتن میں دو دو تین تین احباب کوکھانے کا موقع ملا۔ حضور کے ساتھ بھی ایک اور دوست ایک ہی تھالی میں سے کھاتے رہے‘‘۔ (ماہنامہ خالد فروری ۱۹۹۱ء صفحہ۵۱)

خدام کے لئے تکریم

حضرت مصلح موعود کا دستور یہی رہا ہے کہ اپنے خدام کو مخاطب کرتے وقت ’’صاحب‘‘ کا لفظ ضرور استعمال فرماتے۔ چنانچہ بیشتر دفعہ مکرم چوہدری برکت علی خان صاحب وکیل المال کے لئے جب لفافہ پر نوٹ لکھا تو ’’چوہدری برکت علی خان صاحب‘‘ پورا نام لکھ کر کوئی ہدایت دی اور ایک ادارہ کے افسر کو اس طور پر ہدایت دی کہ اپنے ماتحت کارکنوں کے نام کے ساتھ ’’صاحب‘‘ کا اعزازی لفظ ضرور استعمال کیا کریں۔ دیکھیں میں نے آپ کا نام تین چار دفعہ لکھا ہے یا پکارا ہے۔ میرا بھلا کتنا وقت زیادہ لگ گیا ہو گا اور مجھے بھلا کتنی دقت ہوئی ہو گی۔ کچھ بھی نہیں۔
(الفضل ۱۶؍فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۳)

حضور کی ذرّہ نوازی

مکرم محمد نصیب صاحب عارف حویلیاں ضلع ہزارہ تحریر کرتے ہیں کہ:
’’گزشتہ جنگِ عظیم میں جاپان کی لڑائی میں جاپانیوں کی قید سے رہائی کے بعد جب خاکسار سنگاپور میں پونے پانچ سال رہنے کے بعد ہندوستان ۱۹۴۵ء کے آخر میں پہنچا تو حضور کی ملاقات سے مشرف ہونے کا موقع ملا۔ ملاقات کے لئے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے صرف پانچ منٹ ملے تھے اور یہ بھی بہت زیادہ سمجھ کے دئے گئے تھے کہ زندگی اور موت کی کشمکش کے بعدوطن کو واپسی کے بعد موقع ملا تھا۔غرض حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ قید کا عرصہ کچھ اِس رنگ میں گزارا تھا کہ گویا یہ عاجز سنگا پور میں ایک مربی یا مبلغ کی صورت میں گیا تھا۔ وہاں جہاں قید کی سختیوں اور صعوبتوں میں وقت گزرا وہاں ساتھ ساتھ جماعتی کاموں کا موقع بھی میسّر آیا تھا۔ ان کاموں کی تفصیل مَیں نے حضور کی خدمت میں عرض کی تو حضور نے اس عاجز کو اسی شفقت اور محبت سے نوازا جیسے ایک کامیاب مبلغ کو جو بیرونی ممالک سے واپسی پر حضور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوتا ہے تو حضور اس کو نوازتے ہیں۔ حضور نے کوائف کو بغور سُنا اور بہت سے مزید حالات جاپانیوں کی قید کے دریافت فرمائے۔ ادھر پانچ پانچ منٹ کے وقفہ کے بعد وقت کے ختم ہونے کی گھنٹی بجتی رہی۔ مگر حضور ان کوائف میں اتنے محو تھے کہ اجازت مرحمت نہ فرماتے اور خوشنودی کا اظہار فرماتے ہوتے۔ جزاکم اﷲ احسن الجزاء۔فرمایا اور رخصت کی اجازت فرمائی۔ ملاقات کے کمرہ سے باہر آنے پر کارکنان بہت حیران تھے کہ اتنا وقت کیوں لگ گیا مگر یہ عاجز حضور انور کی قدردانی اور شفقت پر بے حد سرشار تھا جو اتنے عرصہ بعد ملاقات پر نصیب ہوئی۔ فالحمدﷲ علیٰ ذالک۔
مکرم لطیف احمد خان صاحب دفتر پرائیویٹ سیکرٹری بیان کرتے ہیں:
’’۱۹۴۲ء میں حضور پالم پور تشریف لے گئے۔ وہاں سے ایک دن حضور کا پروگرام بیج ناتھ ٹرپ کا بنا۔ چونکہ کاروں میں جگہ کم تھی اس لئے حضور نے خاکسار اور مرزا فتح الدین صاحب سپرنٹنڈنٹ کو فرمایا کہ آپ بس پر آجائیں ہم وہاں انتظار کریں گے۔ پہلے تو ہمارا ارادہ نہ جانے کا ہوا کیونکہ بس کی آمد کی امید نہ تھی۔ سڑک ٹوٹی ہوئی تھی مگر پھر ہم دونوں اس وجہ سے کہ حضور نے ارشاد فرمایا ہے کہ کھانے پرانتظار کریں گے پیدل چل پڑے۔ ڈیڑھ بجے ڈاک بنگلا میں پہنچے تو حضور کھانا تناول فرما رہے تھے ہمیں دیکھ کر مسکراکر فرمایا کہ انتظار کر کے کھانا شروع کیا ہے۔ اتنی دیر کیوں ہو گئی۔ ہم نے عرض کیا کہ بس نہیں آئی ہم پیدل آئے ہیں۔ چنانچہ اسی وقت حضور نے پیالوں میں کھانا ڈال کر اپنے ہاتھ سے ہمیں دیا۔ سبحان اﷲ جب شفقت کے یہ نظارے آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو آنکھوں سے آنسو آجاتے ہیں کہ ہمارا آقا کتنا بلند اخلاق اور اپنے خدام پر کس قدر مہربان تھا۔ (ماہنامہ خالد فروری ۱۹۹۱ء صفحہ ۵۱)
حضرت چوہدری سر محمد ظفراﷲ خان صاحب حضور کی شفقت اور دلجوئی و ہمدردی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’جب حضور کا وصال ہوا تو یہ عاجز کئی سمندر پار تھا اور آخری دیدار کی کوئی صورت میسّر نہ آسکتی تھی۔ اُدھر اس علاقے کی مخلص جماعتیں حد درجہ غم خواری اور تسلی کی محتاج تھیں۔ دل بلبلاتا تھا لیکن دماغ کہتا تھا تم بے شک لاڈلے مرید تھے۔ باپ سے جدائی ہوئی تو تمہیں اس یقین سے تسکین اور ڈھارس ہوئی کہ مَیں یتیم نہیں ہوں میرا نہایت شفیق باپ موجود ہے اور فوراً اِس شفقت کااظہار یہ ہوا کہ ڈلہوزی سے حضور کا تار آیا میری انتظار کرو مَیں اپنے ناظر اعلیٰ کا جنازہ خود پڑھاؤں گا۔ ستمبر کا شروع تھا۔ بارشوں سے پہاڑی رستے بند ہو رہے تھے۔ قادیان کے نواح میں موٹر کا سفر دشوار تھا لیکن اندھیرے سویرے کیچڑ اور پانیوں میں سے گزرتے وہ سراپا شفقت آقا اپنے خادم کے لئے دعائے مغفرت کے لئے پہنچا پھر اپنے مبارک قلم سے مزید مخلص نوازی کرتے ہوئے کتبے کی عبارت رقم فرمائی جس میں تحریر فرمایا کہ مرحوم کے اخلاص اور محبت کی یاد اب تک دل کو گرما دیتی ہے۔ وہاں سے مفارقت ہوئی تو تم نے پھر اسی یقینسے تسکین پائی کہ میرا آقا باپ سے بڑھ کر شفیق ہے۔ تعزیت نامے میں حضور نے فرمایا چند دن پہلے مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ ظفراﷲ خاں، عبداﷲ خان، اسد اﷲ خان میرے سامنے چھوٹی عمر میں گھر کے بچوں کی طرح لیٹے ہوئے ہیں اور مَیں سمجھتا ہوں یہ میرے بیٹے ہیں اور میں ان سے اسی طرح بات کر رہاہوں جیسے گھر میں ماں باپ بچوں سے کرتے ہیں اور فرمایا اس میں ان کی والدہ کی وفات کی طرف اشارہ تھا کہ جب اﷲ تعالیٰ ایک ابوۃ یا مامتا کو ہٹا لیتا ہے تو اُس کی جگہ دوسری مہیا فرما دیتا ہے۔ پھر اس مخلص خادمہ کے کتبے کی عبارت بھی دستِ مبارک سے تحریر فرمائی اور اس میں رقم فرمایا مرحومہ صاحبۂ رؤیا و کشوف تھیں۔ رؤیا کی بناء پر ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت اپنے خاوند سے پہلے کی اور پھر خلافتِ ثانیہ میں بھی رؤیا کی بنا پر اپنے خاوند سے پہلے بیعت کی۔ غربا پروری کی صفت سے متصف اور کلمۂ حق کے پہنچانے میں نڈر تھیں۔ اب آج تم بیشک یتیم بھی ہو گئے اور باپ کی دعاؤں سے محروم بھی ہو گئے۔ تم جس قدر بلبلاؤ جائز مگر اپنے رب کی طرف جھکو اور اسی کو اپنا مرہم اور غم خوار بناؤ۔ تم ہی آج یتیم نہیں ہوئے ایک جہان یتیم ہوا ہے۔ تم اپنا غم دباؤ اور اپنے ارد گرد کے یتیموں کی غم خواری کرو جن کی نظر میں تم بڑے بھائی ہو جس سے انہیں تسلی اور غم خواری کی امید اور توقع ہے‘‘۔ (الفضل ۱۷؍جون ۱۹۶۶ء)

بیمار پُرسی

حضرت منشی اروڑا خان صاحب کی عیادت کے لئے حضور ہسپتال تشریف لے گئے اور اخبار الفضل اس خُلقِ کریمانہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’جمعہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح مع ڈاکٹر حشمت اﷲ صاحب آپ کی کوٹھری میں گئے، نبض دیکھی گئی چمچے کے ذریعہ دودھ دیا گیا، آنکھیں کھُلی تھیں بخار زور کا تھا ہوش بجا نہ تھے، سانس اُکھڑی ہوئی تھی، حضرت خلیفۃ المسیح جمعہ کے دن سے عصر کیوقت تک کوئی ڈیڑھ گھنٹہ منشی صاحب کے پاس اسی کوٹھڑی میں بیٹھے رہے۔ مناسب دوائیں وغیرہ دی گئیں مگر ہوش بجا نہ ہوئے‘‘۔
(الفضل یکم نومبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۷)
ایسے بے شمار واقعات میں سے ایک اور درج ذیل ہے:
’’قادیان ۱۵؍جون ۔ آج صبح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ ابو عبیداﷲ جناب حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی کی عیادت کے لئے نور ہسپتال میں تشریف لے گئے۔ حافظ صاحب گزشتہ پانچ ماہ سے بعارضہ فالج بیمار ہیں اور نور ہسپتال میں دو ماہ سے بغرضِ علاج داخل ہیں لیکن ابھی تک بیماری میں کوئی نمایاں افاقہ نہیں ہوا …… قریباً نصف گھنٹہ تک حضور ازراہِ نوازی ہسپتال میں تشریف فرما رہے اور حافظ صاحب کے حالات بغور سُنتے رہے……‘‘۔
(الفضل ۱۷؍جون ۱۹۳۷ء صفحہ۲)
مکرم ملک صلاح الدین صاحب قادیان لکھتے ہیں:
’’۱۹۴۵ء میں ڈلہوزی ترجمۃ القرآن انگریزی کے کام کے لئے حضرت مولوی شیر علی صاحب اور مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم اے لگے ہوئے تھے۔ حضرت مولوی صاحب کا غدوہ قدامیہ کی سوزش سے اچانک پیشاب بند ہو گیا۔ حضور نے خاص توجہ سے حضرت ڈاکٹر حشمت اﷲ صاحب سے علاج کرایا اور خود بھی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور باقاعدہ اطلاع منگواتے رہے‘‘۔
’’بعض خاندانوں سے قدیم تعلقات ہونے کی وجہ سے حضور ان کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے۔ شدید علالت کے باوجود حضور نے ان کے جذبات کا خیال رکھا۔ بعض جنازے (جنازہ گاہ تک چل کر نہ جاسکنے کی وجہ سے) قصر خلافت میں پڑھائے۔ ایک جنازہ کی نماز کے وقت تو حضور کھڑے بھی نہیں ہو سکتے تھے اور پہرہ داروں نے حضور کو سہارا دیا ہوا تھا‘‘۔
(سوانح فضل عمر جلد ۵ صفحہ ۴۱۶،۴۱۷)

غیروں سے حسنِ سلوک

حضرت مصلح موعود کے اعلیٰ اخلاق سے صرف آپ کے معتقدین نے ہی فیض نہیں اٹھایا بلکہ غیروں نے اور مخالفینِ سلسلہ نے بھی وافر حصّہ پایا۔ اس تعلق میں صرف چند واقعات پیش ہیں:
’’ایک موقع پر قادیان میں حضور کو علم ہوا کہ پنڈت ملاوامل صاحب کی دکان اچھی نہیں چل رہی اور ان کو مالی دقت درپیش ہے۔ اس پر حضور نے اس امر کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ہندو لوگ اور خصوصاً یہ خاندان بطور امداد مانگنے کو پسند نہیں کرتے۔ حضور نے مجھے ارشاد فرمایا کہ ان کی دکان پر جاکر جو عام استعمال ہونے والی دوائیں ان کے پاس تیار شدہ موجود ہوں اور فروخت نہ ہوتی ہوں وہ 300/400روپے کی قیمت کی خرید لو۔ ان کے بتائے ہوئے نرخ کے متعلق ان سے کسی رعایت کا مطالبہ نہ کیا جاوے۔ اس طرح کسی حد تک ان کی امداد ہو جائے گی اور ان کو امداد کا احساس بھی نہ ہو گا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اس سے اس طور پر خفیہ احسان فرمایا کہ ان کو اپنے محسن کا پورے طور پر علم بھی نہ ہونے دیا‘‘۔ (ماہنامہ خالد فروری ۱۹۹۱ء صفحہ۵۱)
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب پانی پتی تحریر کرتے ہیں کہ:
’’۱۹۲۴ء میں جب حضرت صاحب لندن تشریف لے گئے تو واپسی پر آپ پانی پت کی طرف سے گزرے۔ اس کا اعلان الفضل میں پہلے سے ہو گیا تھا۔ وقت مقررہ پر پانی پت کے احمدی حضور کو خوش آمدید کہنے کے لئے اسٹیشن پر آئے۔ شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی کے فرزند جناب خان صاحب خواجہ سجاد حسین بھی آپ کی آمد کی خبر سُن کر اسٹیشن پر آپ سے ملنے آئے۔ جب گاڑی اسٹیشن پر آکر رکی تو تمام احمدی احباب حضور سے شرف مصافحہ حاصل کرنے اور آپ کی زیارت کرنے کے لئے فوراً اُس درجہ میں چڑھ گئے جس میں حضور سوار تھے۔ میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ مولانا حالی کے لڑکے خواجہ سجاد حسین صاحب بھی آپ سے ملنے اسٹیشن پر آئے ہوئے ہیں اور نیچے پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں وہ غیر احمدی ہیں اگر آپ ان سے ملنا چاہیں تو میں ان کو اندر درجے میں بلا لوں۔ حضرت صاحب نے فرمایا نہیں میں خود نیچے اتر کر ان سے ملوں گا۔ یہ فرما کر فوراً حضور کھڑے ہوئے اور پلیٹ فارم پر اتر کے خواجہ صاحب سے نہایت تپاک کے ساتھ ملے اور گاڑی کے روانہ ہونے تک برابر ان سے باتیں کرتے رہے انہوں نے پانی پت کی بالائی تحفہ کے طور پر پیش کی جو حضورنے نہایت خندہ پیشانی سے قبول کی‘‘۔(ماہنامہ انصار اﷲ جنوری ۱۹۶۶ء صفحہ ۲۴)
امیر امان اﷲ شاہ افغانستان جس کے عہد میں کئی احمدی شہید کئے گئے ۱۹۲۷ء میں ہندوستان کے دورہ پر آیا۔ اس موقع پر جماعت احمدیہ کی طرف سے خیر مقدمی پیغام بھیجا گیا۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے تحریر فرمایا:
’’جماعت احمدیہ اور اس کے مقدس امام کی طرف سے میں ہزمیجسٹی امیر کابل کی خدمت میں ان کے سرزمین ہند میں (جو کہ جماعت احمدیہ کے مقدس مان کی جائے پیدائش ہے) ورود کے موقع پر نہایت خلوص سے خیر مقدم کہتا ہوں۔
ہم ہز میجسٹی کی وفادار احمدی رعایا افغانستان کے ساتھ اس دعا میں متحد ہیں کہ ہز میجسٹی کا سفر یورپ نہایت کامیابی کے ساتھ سرانجام پائے اور آپ اپنی مملکت میں سالماً خانماًواپس تشریف لائیں۔
بہ سر رفتنت مبارک باد
بسلامت روی و باز آئی‘‘
(شیر علی سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الثانی)
اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اخبار انقلاب نے لاہور لکھا:
’’ہمیں یہ معلوم کر کے بے انتہا مسرت ہوئی کہ جماعت احمدیہ قادیان کے امام صاحب نے اعلیٰ حضرت شہریار غازی افغانستان کے ورود ہند پر اعلیٰ حضرت کی خدمت میں خیر مقدم کا محبت آمیز پیغام بھیج کر اپنی فراخدلی کا ثبوت دیا ہے اور قادیان کے جرائد نے اس پیغام کو نہایت نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔
آج سے کچھ مدت پیشتر دو تین احمدیوں کے رجم پر جماعت احمدیہ اعلیٰ حضرت شہریار افغانستان کی حکومت کی سخت مخالف ہو گئی تھی اور ان دنوں میں امام جماعت اور جرائد قادیان نے نہایت تلخ لہجے میں حکومت افغانستان کے خلاف احتجاج کیا تھا……
یہ نہایت قابل تعریف بات ہے کہ امام جماعت احمدیہ نے اس ہنگامی وجہ اختلاف کو فراموش کر کے مہمان محترم کا خیر مقدم کیا۔ اس طرز عمل کا اثر ایک طرف عام مسلمانان ہند پر بہت اچھا ہو گا۔ دوسری طرف افغانستان میں رہنے والے احمدیوں کے تعلقات اپنے بادشاہ اور اس کی حکومت کے ساتھ زیادہ خوشگوار ہو جائیں گے ……‘‘ (الفضل ۲۳؍دسمبر ۱۹۲۷ء)
’’ایک دفعہ ایک سخت مخالف غیر از جماعت کسی کام کے سلسلہ میں حضرت مصلح موعود سے ملنے کے لئے ربوہ آئے۔ ان کی حضرت ام ناصر صاحبہ سے قریبی رشتہ داری بھی تھی اس لئے سیدھے وہاں پہنچے اور پیغام بھجوایا کہ میں نے حضرت صاحب سے ملنا ہے مجھے وقت لے دیں۔ مگر انہوں نے غیرت کی وجہ سے جواب دیا:
’’یوں تو آپ میرے خاوند کو گالیاں دیتے ہیں مگر جب کام ہوتا ہے تو سفارش کروانے آجاتے ہیں۔ میں نہ صرف یہ کہ پیغام نہ دوں گی بلکہ آپ سے ملنا بھی پسند نہیں کرتی‘‘۔
وہ صاحب ادھر سے مایوس ہو کر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری گئے اور وہاں سے کوشش کر کے ملاقات کا وقت لے لیا۔ کچھ دیر بعد حضور حضرت اُمّ ناصر صاحبہ کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ انہی صاحب کے لئے اکرام ضیف کے طور پر ایک دوڈش مزید تیار کر دو۔ وہ کھانا میرے ساتھ کھائیں گے۔
حضرت اُمّ ناصر صاحبہ نے ان کا پیغام اور اپنا جواب بتایا تو حضور نے فرمایا تم نے تو اپنی غیرت کا اظہار کر دیا ہے مگر اب وہ میرے مہمان ہیں اور رسول اﷲ ؐنے مہمان کی بڑی عزت رکھی ہے۔ وہ گالیاں دے کر اپنے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں اور میں نے سنت رسول ؐ پر چل کر اپنے اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے‘‘۔ (ماہنامہ خالد فروری ۱۹۸۷ء صفحہ ۵۸)
’’ایک شخص تھا ’’فخر الدین ملتانی‘‘ ایک فتنہ کا بانی مبانی۔ اس نے اپنی زبان سے ، قلم سے حضرت محمود اور آپ کے اہل کے خلاف انتہائی سب و شتم اور بہتان طرازی سے کام لیا۔ اس کی اشتعال انگیزی حد سے بڑھی ہوئی تھی اور اس کا دل حضرت مسیح موعود کے خاندان اور حضرت مصلح موعود کے لئے بغض و عناد سے بھرا ہوا تھا لیکن جب وہ فوت ہو گیا تو اس کی بیوی حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنی مالی تنگی اور سامان خورونوش سے تہی دستی کا ذکر کرتے ہوئے امداد کی درخواست کی۔ باوجود اس کے کہ فخر الدین ملتانی اور اس کے ساتھیوں کے فعل سے احمدیوں اور حضور کے دل زخمی تھے اور اس کا پیدا کردہ فتنہ جاری تھا مگر یہ مجسم حلم وجود، شفقت ورأفت کا پیکر اس کنبے کی زبوں حالی درد سے بھر گیا اور ہمدردی خلق کا چشمہ آپ کے دل میں موجزن ہوا اور آپ نے ان کے لئے سامان خورونوش فراہم کرنے کا انتظام کیا جبکہ فخر الدین کے نام نہاد دوست اس کی کوئی بھی مالی مدد نہ کر سکے۔
حضور نے اعلان فرمایا تھا کہ آپ سوائے اپنے رشتہ داروں یا واقفین کے دوسرے احباب جماعت کے نکاحوں کا اعلان کرنے کی فرصت نہ نکال سکیں گے لیکن جب فخر الدین ملتانی کے لڑکے نے کہا کہ اگر اس کی ہمشیرہ کا نکاح خود حضور پڑھانا منظور فرماویں تو تب ہی اس کا رشتہ احمدیوں میں ہو سکتا ہے ورنہ کوئی احمدی اس کا رشتہ قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو گا تو آپ نے یہ درخواست قبول کرتے ہوئے فخر الدین کی لڑکی کے نکاح کا اعلان خود فرمایا‘‘۔ (مجلۃ الجامعہ مصلح موعود نمبر صفحہ ۱۵۴)
قادیان میں ایک ڈاکٹر گوربخش سنگھ تھے۔ وہ جماعت سے عناد رکھتے تھے بلکہ سر خیل معاندین تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ:
’’میری بھانجی ایف اے میں تعلیم پاتی تھی اور اس نے فلاسفی کا مضمون لیا ہوا تھا۔ اس مضمون میں وہ کمزور تھی قادیان میں سوائے احمدیہ جماعت کے افراد کے اور کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ تھا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ مکرم عبدالسلام صاحب اختر فلاسفی میں ایم۔اے ہیں۔ میرے ان کے والد ماسٹر علی محمد صاحب بی اے بی ٹی سے اچھے مراسم تھے۔ چنانچہ میں ان کے پاس حاضر ہوا اور اپنی بھانجی کے لئے عبدالسلام صاحب کو ٹیوشن پڑھانے کی اجازت دینے کی درخواست کی۔ ماسٹر صاحب فرمانے لگے میرا بیٹا عبدالسلام واقف زندگی ہے اور اس کے وقت کا ایک ایک منٹ حضرت صاحب کے حکم کے تحت ہے۔ اگر حضرت صاحب اجازت دے دیں تو وہ بخوشی یہ خدمت بجا لا سکتا ہے۔ ان دنوں میں میں نے حضرت صاحب اور جماعت کے خلاف کچھ مقدمات کئے ہوئے تھے اور میرے تعلقات حضور کے ساتھ کشیدہ تھے۔ لہٰذا میں حضرت صاحب کی خدمت میں مکرم عبدالسلام صاحب کو اجازت دینے کے لئے کہنا نہ چاہتا تھا لیکن جب پڑھانے کا کوئی اور انتظام نہ ہو سکا تو مجبوراً میں نے حضور کی خدمت میں اپنی غرض کے لئے ایک رقعہ لکھا۔ حضور نے اس پر بخوشی عبدالسلام صاحب کو جانے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ مکرم عبدالسلام صاحب کئی ماہ تک میری بھانجی کو پڑھاتے رہے۔ میں نے ان کو ٹیوشن فیس دینا چاہی لیکن انہوں نے کہا کہ میں حضرت صاحب کے حکم کے تحت بطور ڈیوٹی پڑھا رہا ہوں اس کا معاضہ لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔ نتیجہ نکلنے پر یہ لڑکی بہت اچھے نمبروں میں پاس ہوئی اور میں ایک تھال میں مٹھائی اور مبلغ دس روپے لے کے عبدالسلام صاحب کے گھر پہنچا۔ انہوں نے کہا میں یہ مٹھائی اور روپے نہیں لے سکتا۔ اگر آپ چاہیں تو حضرت صاحب کے پاس لے جائیں۔ میں نے وہ مٹھائی حضور کی خدمت میں بھجوائی۔ حضور نے بچی کو مبارکباد دی اور فرمایا کہ آپ ہمارے پڑوسی ہیں۔ میں نے جو بچی کی پڑھائی کا انتظام کیا ہے وہ کسی معاوضے کے لئے نہیں تھا۔ حضور نے مٹھائی دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ذریعہ تقسیم کرادی اور رقم مجھے واپس کر دی‘‘۔ (مجلۃ الجامعہ مصلح موعود نمبر صفحہ ۱۵۱)
’’جماعت احمدیہ کے ایک دیرینہ معاند اور ایک بہت بڑے اخبار نویس بیمار ہو کر مری میں صاحب فراش تھے۔ وہ فالج کی بیماری میں مبتلا تھے اور نہایت کسمپرسی کے عالم میں اپنی زندگی کے آخری دن گزار رہے تھے۔حضرت مصلح موعود کو علم ہوا تو آپ برداشت نہ کر سکے اور ڈاکٹر غلام مصطفی صاحب کو بغرض علاج بھجوایا اور ادویہ کے لئے اپنی جیب خاص سے رقم مرحمت فرمائی۔ اس سلسلہ میں جناب عبدالحکیم صاحب عمر کا بیان ہے کہ:
’’ایک سال پیشتر جب آغا صاحب (شورش کاشمیری صاحب مدیر چٹان۔ناقل) سخت علیل تھے۔ قادیانیوں کے روحانی پیشوا (مراد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث) نے ایک پیغام کے ذریعے آپ کو غیر ملکی دوائیوں کی پیشکش کی …… مولانا ظفر علی خان کی علالت کے دنوں میں جبکہ وہ مری میں مقیم تھے، قادیانیوں کے روحانی پیشوا سے مولانا کو بھی اس قسم کی پیشکش کی گئی تھی‘‘۔
(نوائے وقت ۳۰؍اکتوبر ۱۹۷۵ء)
پیشگوئی مصلح موعود میں آپ کی ایک علامت دل کے حلیم ہونے پر مذکورہ بالا واقعات شاہد ہیں۔ اس حوالہ سے ایک اور واقعہ مکرم مولانا محمد احمد جلیل صاحب یوں قلمبند کرتے ہیں:
’’۱۹۳۳ء میں جب حضور ڈلہوزی میں قیام فرما تھے اور وہیں پر حضور کی ڈاک جایا کرتی تھی۔ وہاں پر ڈاکخانہ کا جو عملہ تھا ان میں سے بعض احراری مزاج کے تھے اور وہ پرائیویٹ سیکرٹری کی ڈاک میں کچھ گڑ بڑ کرتے تھے۔ دفتر پرائیویٹ سیکریٹری کی طرف سے اعلیٰ حکام سے اس بات کی شکایت کی گئی۔ جس پر ان کی انکوائیری ہوئی کچھ دنوں کے بعد ڈاکخانہ کے عملہ کے کچھ لوگ حضور سے ملنے آئے۔ آپ نے ان سے ملاقات کی اور انہیں چائے وغیرہ پیش کی۔ ہم کمرے کے باہر سے دیکھ رہے تھے کہ دوران گفتگو وہ لوگ ناشائستگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور بلند آواز سے اور آداب کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے باتیں کر رہے ہیں۔ ہمیں باہر سے ان پر شدید غصہ آرہا تھا کہ انہیں روکا کیوں نہیں جاتا مگر حضور پر نور کا یہ حال تھا کہ آپ بڑے پیارے اور بڑے آرام سے ان کی باتوں کا جواب دے رہے تھے اور ان کی ناشائستہ گفتکو پر کسی رنگ میں ناراضگی کا اظہار نہ فرمایا‘‘۔ (ماہنامہ خالد فروری ۱۹۹۱ء صفحہ ۶۳)

غیر معمولی ذہانت

پیشگوئی مصلح موعود میں اﷲ تعالیٰ نے آپ کی ایک خوبی یہ بیان فرمائی ہے کہ ’’وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا‘‘ پیشگوئی کی یہ علامت بھی آپ کے اندر کمال درجے پر نظر آتی ہے۔ آپ کی نقطہ رسی، بصیرت افروزی اور عرفان کی نور افشانیوں کا یہ عالم تھا کہ آپ کی تصنیفات و تحقیقات کا قاری نہ صرف وجد کرنے لگتا تھا بلکہ خود اُس کی ذہنی بینائی اور فکری بصیرت بھی بڑھ جاتی ہے اور اُس کا ذہن اور دماغ نقطہ رس اور معنٰی آفرین بن جاتا ہے حضور کی اِن خوبیوں کا اعتراف غیر بھی کئے بغیر نہ رہ سکے۔ چنانچہ اُردو کے مایہ ناز محقق جناب نیاز احمد صاحب فتح پوری تفسیر کبیر کی جلد سوئم کے مطالعہ کے بعد لکھتے ہیں:
’’آپ کی تبحرِ علمی۔ آپ کی وسعتِ نظر۔ آپ کی غیر معمولی فکر و فراست، آپ کا حسنِ استدلال، آپ کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں اِس وقت تک بے خبر رہا۔ کاش! کہ میں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا‘‘۔ (بحوالہ الفضل ۱۷؍نومبر۱۹۶۳ء صفحہ۳)
یہاں حضور کی غیر معمولی فکر و فراست اور ذہانت اور حافظہ کے چند واقعات پیش کئے جاتے ہیں۔
مکرم مولانا عبدالرحمن صاحب پرائیویٹ سیکرٹری بیان کرتے ہیں:
’’اﷲ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی حافظہ عطا فرمایا تھا۔ ایک مرتبہ جب کئی ماہ کے بعد کچھ ڈاک حضور کی خدمت میں پیش کی گئی تو خاکسار کے پہلے خط کے پیش کرنے پر فرمایا کہ یہ خط تو چھ ماہ سے آیا ہوا ہے۔ خاکسار نے عرض کی یہ درست ہے لیکن موقع نہ مل سکا۔ جب خاکسار اس کا خلاصہ عرض کرنے لگا تو بھی فرمایا مضمون مجھے یاد ہے اور جواب لکھوا دیا۔ یہ واقعہ حضور کی کمال یاداشت کا معمولی واقعہ ہے۔ دوسرے موقعوں پر بھی خطوط کا خلاصہ سنانے کی نوبت بہت کم آتی تھی۔ فریسندہ کا نام سنتے ہی ارشاد فرمادیا کرتے تھے‘‘۔ (ماہنامہ خالد فروری ۱۹۹۱ء صفحہ۵۱)
مکرم میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ ایک واقعہ یوں تحریر کرتے ہیں:
’’غالباً ۱۹۴۴ء کا واقعہ ہے۔ میں اپنے چند دوستوں کے ہمراہ ستمبر کی تعطیلات میں ڈلہوزی گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی …… بھی آرام کی خاطر اپنے چند احباب کے ساتھ وہاں تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ میرے ہمراہیوں میں سے ایک صاحب چوہدری غلام مصطفی صاحب تھے۔ ایڈووکیٹ تھے جوکہ آجکل گوجرانوالہ پریکٹس کرتے ہیں۔ انہوں نے ۱۹۳۵ء میں حضور اور ان کی پارٹی کو لنڈن میں کھانے پر مدعو کیا تھا۔ جب کہ حضور مذہبی کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے وہاں گئے ہوئے تھے۔ جمعہ کے روز میں نے چوہدری صاحب اور اپنے دیگر ہمراہیوں کو کہا کہ وہ بھی ساتھ چلیں تاکہ حضور کی بابرکت صحبت سے فائدہ اٹھائیں۔ جمعہ کی نماز ختم ہو جانے کے بعد میں نے اپنے ہمراہیوں کو کہا کہ وہ حضور کے قریب آ جائیں تاکہ اُن کا تعارف کراسکوں۔ چوہدری غلام مصطفی صاحب جب قریب ہوئے اور میں نے ان کا تعارف حضور سے کرانا چاہا تو حضور نے فرمایا میں چوہدری صاحب کو خوب اچھی طرح جانتا ہوں۔ انہوں نے ………… میں ہمیں کھانے پر بلایا تھا۔ حالانکہ اس واقعہ کو قریباً ۱۹ سال ہو چکے تھے اور اُس وقت چوہدری صاحب کی عین جوانی کی عمر تھی اور طالب علمی کا زمانہ تھا اور اب بالوں میں کافی سفیدی آچکی تھی لیکن حضور نے فوراً انہیں پہچان لیا اور ان کا نام بھی بتا دیا۔ حالانکہ وہ حضور کو ایک ہی دفعہ پہلے ملے تھے‘‘۔ (الفضل ۱۱؍جون ۱۹۶۶ء صفحہ ۵)
مکرم شیخ محمد اسمٰعیل صاحب پانی پتی تحریر فرماتے ہیں:
’’ہر معاملہ کو بڑے غور سے سننے اور ہر کاغذ کو نہایت احتیاط سے دیکھنے کی جو عجیب و غریب لیاقت اور قابلیت حضرت صاحب میں تھی اس کا ایک نمونہ ذیل کے واقعہ میں پڑھئے اور تعجب کیجئے۔
جب ۱۹۵۴ء میں میری عزیزہ حور بانو کا نکاح ربوہ میں مولوی قمر الدین صاحب انسپکٹر اصلاح و ارشاد نے پڑھا تو نکاح کے فارم میں ایک اندراج غلطی سے واقعہ کے خلاف ہو گیا۔ اس فارم پر حضرت میاں بشیراحمد صاحب جیسے محتاط بزرگ کے بھی تصدیق کے دستخط تھے اور یہ فارم درجہ بدرجہ مولوی قمر الدین صاحب کارکن صیغہ متعلقہ ناظر صاحب امور عامہ اور پرائیویٹ سیکرٹری کی نظروں سے گذرا مگر کسی ایک شخص کی بھی توجہ اس موٹی غلطی کی طرف مبذول نہ ہوئی جو اس فارم کی خانہ پری کرتے وقت سہواً ہو گئی تھی۔ مگر جس وقت آخر میں یہ فارم حضرت صاحب کی خدمت میں ملاحظہ کے لئے پیش کیا گیا تو فوراً حضرت صاحب نے اس غلطی کو پکڑ لیا اور ان سے سب سے جواب طلب کیا جنہوں نے اس فارم کو دیکھنے اور پڑھنے اور دستخط کرنے کے بعد پاس کیا تھا۔ میں نے حضرت صاحب کے ہر معمولی سے معمولی کاغذ کوبھی اس قدر احتیاط کے ساتھ دیکھنے پر تعجب میں رہ گیا اور آج تک حیران ہوں‘‘۔ (ماہنامہ انصار اﷲ جنوری ۱۹۶۶ء صفحہ ۲۸)
مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ بیان کرتے ہیں:
’’جولائی ۳۱ء میں شملہ کے مقام پر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام ہوا۔ مسلم اکابرین ہند کی درخواست پر حضرت امیر ……خلیفۃ المسیح الثانی …… کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ حضور ابھی شملہ میں مقیم تھے۔ (راقم الحروف کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ اس سفر میں حضور کے ہمراہیوں میں شامل تھا) کہ ایک روز گورنمنٹ آف انڈیا کے چند مسلم افسر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ شملہ میں دو بڑی مساجد یعنی جامعہ مسجد اور کشمیری مسجد کے امام ایک دوسرے کے معاند بنے ہوئے ہیں اور سٹیج پر ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب ان کے مقتدیوں میں بھی اختلاف پیدا ہو رہا ہے۔ آپ مسلمانوں کے خیر خواہ اور ہمدرد ہیں۔ اس معاملہ میں ضرور دخل دیں اور علماء کی صلح کرادیں۔ حضور نے اس درخواست کو منظور فرماتے ہوئے کوشش کا وعدہ فرمایا۔
حضور نے ہر دو امام صاحبان کو مختلف اوقات میں اپنی قیامگاہ ’’فیرویو‘‘میں مدعو کیا۔ ان کی باتین سُنیں۔ ایک دوسرے کے خلاف وہ جو الزامات لگا رہے تھے ان کا علم حاصل کر کے اپنا مقصد ’’صلح‘‘ بیان کیا۔ وہ حضرات جو ایک دوسرے کیخلاف نہ صرف یہ کہ کفر کے فتوے لگاتے تھے بلکہ ایک چھت کے خیمے میں جمع ہونا بھی کفریقین کرتے تھے۔ ان کوحضور نے اپنی مخلصانہ مدلل گفتگو کے بعد اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ ’’فیرویو‘‘ میں اکٹھے ہو کر بالمشافہ بات چیت کریں۔
اس کے بعد ہر دو علماء کو حضور نے ایک روز رات کے کھانا پر مدعو کیا۔ کھانے کے بعد گفتگو شروع ہوئی جس میں بعض اوقات شدید تلخی بھی پیدا ہوئی۔ یہ مجلس کئی گھنٹے جاری رہی۔ جب برخواست ہوئی تو صورت یہ تھی کہ دونوں امام صاحبان ایک دوسرے سے مصافحہ ہی نہیں بلکہ معانقہ کرنے کے بعد گھروں کو روانہ ہوئے اور مخالفانہ تقریروں کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ مسلم اکابرین نے حضور کا شکریہ ادا کیا کہ حضور کی کوشِش سے مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہو گیا۔ (فضل عمر نمبر الفضل ۱۹۶۶ء صفحہ ۴۸)
ایک احراری لیڈر چوہدری افضل حق نے حضرت مصلح موعود کی ذہانت کے متعلق یوں گواہی دی:
’’جس قدر روپے احرار کی مخالفت میں قادیان خرچ کر رہا ہے اور جو عظیم الشان دماغ اس کی پُشت پر ہے وہ بڑی سے بڑی سلطنت کو پل بھر میں درہم برہم کرنے کے لئے کافی تھا‘‘۔
(اخبار مجاہد۱۰؍اگست ۱۹۳۵ء)
مکرم ملک حبیب احمد صاحب ڈپٹی انسپکٹر سکولز اس حوالہ سے ایک واقعہ تحریر کرتے ہیں کہ:
’’ شجاع آباد میں کئی دفعہ مشہور احراری لیڈر قاضی احسان احمد صاحب ۔ میرے پاس آیا کرتے تھے دو تین دفعہ انہوں نے کہا کہ آپ کے خلیفہ صاحب اس قدر ذہین ہیں اور ان کا دماغ اتنا اعلیٰ ہے کہ ہماری سکیمیں فیل کر دیتے ہیں۔ میں انہیں کہتا کہ یہ ٹھیک ہے لیکن تھوڑا سا آگے بڑھو اور یہ کہو کہ اﷲ تعالیٰ کی امداد ان کے ساتھ ہے جو آپ کو کچھ کرنے ہی نہیں دیتی لیکن چونکہ انہیں اس امر سے اتفاق نہ تھا لہٰذا موضوع سخن بدل جاتا‘‘۔ (الفضل ۲۰؍مارچ ۱۹۶۶ء صفحہ ۵)
انکساری
مذکورہ بالا تمام صِفات اور محاسِن سے متصف ہونے کے باوجود حضرت مصلح موعود کی طبیعت میں عاجزی و انکساری اور تواضع کی خوبیاں پائی جاتی تھیں جن کا درج ذیل عملی واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
’’۲۷؍جنوری ۱۹۲۸ء چوہدری فتح محمد صاحب ایم اے کے ہاں دعوت ولیمہ تھی جس میں اکثر معززین جماعت اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ مدعو تھے جس کمرہ میں نشست گاہ کا انتظام تھا۔ وہاں دو لکڑی کے تخت بچھے تھے جن پر حضرت اقدس کے لئے نشست گاہ بنائی گئی اور چونکہ وہ کافی لمبے چوڑے تھے اس لئے حضور کے ساتھ اور بھی کئی اصحاب بیٹھ سکتے تھے۔ باقی کمرہ میں دیگر اصحاب کے بیٹھنے کے لئے فرش کیا گیا لیکن جب حضور کمرہ میں تشریف لائے اور اس جگہ رونق افروز ہونے کی درخواست کی گئی تو حضور نے یہ دیکھ کر وہ جگہ کمرہ کے دوسرے فرش سے کسی قدر اونچی ہے وہاں بیٹھنا پسند نہ کیا اور فرمایا اور دوست نیچے بیٹھیں تو میں اوپر کس طرح بیٹھ سکتا ہوں اور نچلے فرش پر بیٹھ گئے‘‘۔ (الفضل ۳۱؍جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ۲)
مکرم شیخ محمد اسمٰعیل صاحب پانی پتی رقم طراز ہیں:
’’ایک دعوت میں جس میں مَیں بھی حاضر تھا منتظمین نے حضرت صاحب کے بیٹھنے کے لئے خاص الخاص اہتمام کیا۔ دری پر ایک قالین بچھائی۔ ایک بڑا گاؤ تکیہ لگایا۔ کھانے کی کئی پلیٹیں آپ کے آگے دستر خوان پر قرینے سے لا کر رکھیں۔ جب حضرت صاحب تشریف لائے تو آپ نے اس سازو سامان اور خاص انتظام و انصرام کو دیکھ کر فرمایا کہ ’’یہ تکیہ میرے لئے خاص طور پر کیوں لگایا گیا ہے اور یہ قالین خاص میرے لئے کیوں بچھائی گئی ہے؟ اٹھاؤ دونوں چیزوں کو جس طرح اور تمام احباب بیٹھے ہوئے ہیں میں بھی سب کے ساتھ اسی طرح بیٹھوں گا۔
حکم کی تعمیل میں دونوں چیزیں فوراً اٹھائی گئیں اور حضور سب لوگوں کے ساتھ دری پر بیٹھ گئے اور بیٹھتے ہی اپنے دائیں بائیں بیٹھنے والے اصحاب سے فرمایا کہ آپ صاحبان اتنے الگ الگ اور دُور دُور کیوں بیٹھے ہیں۔ میرے پاس آکر بیٹھیں۔ پھر فرمایا کہ یہ چار پانچ پلیٹیں میرے سامنے کیوں لا کر رکھی گئی ہیں جب کہ تمام حاضرین کے سامنے ایک ایک پلیٹ ہے یہ سب اٹھاؤ اور صرف ایک پلیٹ رہنے دو۔ میں کوئی دیو تو نہیں جو چار پانچ پلیٹیں بھر کر کھاؤں گا۔ اس کے بعد جب منتظمین نے کھانا تمام مہمانوں کے آگے رکھ دیا تو حضور نے بلند آواز سے فرمایا کہ کیا کھانا سب دوستوں کے پاس پہنچ گیا ہے۔ اس پر ایک صاحب نے کھڑے ہو کر کہا کہ ’’حضور میرے آگے کھانا نہیں آیا‘‘اس پر حضور نے منتظمین کو ہدایت کی کہ ’’ان صاحب کو فوراًکھانا پہنچاؤ‘‘ایک دو منٹ کے بعد حضور نے پھر ان صاحب کو مخاطب کر کے بلند آواز سے پوچھا کہ ’’کیا آپ کو کھانا پہنچ گیا‘‘جب ان صاحب نے کہا کہ ’’ہاں حضور پہنچ گیاہے‘‘تب حضور نے احباب سے فرمایا کہ الحمدﷲ کہہ کر کھاناشروع فرمائیں‘‘۔ (ماہنامہ انصار اﷲ جنوری ۱۹۶۶ء صفحہ۷)
حضورکی عاجزی اور انکساری کا ایک اور واقعہ روزنامہ الفضل میں اس طرح رقم کیا گیا ہے:
’’…… حضور (بیت) احمدیہ بیرون دہلی دروازہ میں تشریف لائے جہاں احمدیہ جماعت لاہور کے احباب کثیر تعداد اور بعض بیرونی احباب بھی حضور سے شرفِ نیاز حاصل کرنے کے لئے جمع تھے۔ حضور نے سب کو مصافحہ کرنے کا موقع عطا فرمایا اور پھر فرش مسجد پر بیٹھ گئے۔ چونکہ مجمع زیادہ تھا اور سب احباب حضور کی زیارت نہ کر سکتے تھے اس لئے یہ خواہش کی گئی کہ حضور کرسی پر رونق افروز ہوں لیکن جب کرسی لائی گئی اور حضور سے اس پر بیٹھنے کے لئے عرض کیا گیا تو حضور نے پسند نہ فرمایا۔ احباب کے اشتیاق کو دیکھ کر جب پھر کرسی پر بیٹھنے کے لئے عرض کیا گیا تو حضور نے فرمایا میں یہ تو پسند نہیں کرتا کہ سب احباب فرش پر بیٹھے ہوں اور میں کرسی پر بیٹھوں لیکن چونکہ احباب کی خواہش ہے کہ مجھے دیکھ سکیں اس لئے میں کھڑا ہو جاتا ہوں اور باوجود اس کے کہ بیماری کی وجہ سے میری صحت کمزور ہے اور میرے لئے تقریر کرنا مشکل ہے مگر احباب کو کچھ سنا بھی دیتا ہوں۔ چنانچہ حضور نے کھڑے ہو کر آیت لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کی نہایت لطیف تفسیر بیان فرمائی‘‘۔
پس حقیقت یہ ہے کہ حضرت مصلح موعود اپنی سیرت و کردار کے لحاظ سے دینِ حق کی جلیل القدر ہستیوں میں سے ایک خاص قابلِ قدر اور امتیازی خصوصیت رکھنے والی ہستی تھے۔ جس پر احمدیت کو بڑا نازو فخر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کے مبارک وجود کے ذریعہ دینِ حق کی بنیادوں کو مستحکم کیا اور اسے کامیابی کے راستہ پر ڈال دیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے جس درخت کی تخمریزی کی تھی اُسے آپ نے بڑھنے پھلنے اور پھولنے کے قابل بنایا اور جو نُور وہ لے کر آئے تھے اُس کو دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلانے کا موجب بنے ؂
اِک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملّت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
مکمل تحریر >>

Sunday 5 February 2017

کشمیر کمیٹی کی شاندار اسلامی خدمات اور اُس کے نقّاد



کشمیر کمیٹی کی شاندار اسلامی خدمات اور اُس کے نقّاد
(از قلم جناب مولوی دوست محمد صاحب شاہد)



آل انڈیا کشمیر کمیٹی 

۱۹۳۱ء کی تحریکِ آزدی کشمیر میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی سنہری خدمات ایسی بے مثال‘ ناقابلِ فراموش اور عظیم الشان ہیں کہ تاریخِ آزادیٔ کشمیر لکھنے والا کئی غیر جانبدار اور مؤرخ اس کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ یہ متّحد ہندوستان میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھا جس کے پلیٹ فارم پر کلکتّہ سے لے کر لاہور تک اور ایبٹ آباد سے لے کر بمبئی تک تمام مشہور مسلمان لیڈر (جن میں سیاسی زعماء‘ صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں کے منتخب ارکان‘ وکلاء‘ مذہبی رہنما‘ صحافی‘ پروفیسر‘ ڈاکٹر‘ رئیس غرضیکہ ہر طبقہ اور ہر خیال کے لوگ شامل تھے) اپنے مظلوم‘ بے بس اور ستم رسیدہ کشمیری بھائیوں کی امداد و اعانت کے لئے جمع ہو گئے۔

کمیٹی کے بعض ممتاز ارکان

اس ملک گیر ادارہ کے بعض ممتاز اور باقاعدہ ممبروں کے اسماء گرامی یہ تھے:۔ مسٹر ایچ۔ ایس سُہر وردی بار ایٹ لاء کلکتّہ۔ مولانا ابوظفر وجیہہ الدین آف کلکتہ‘ ایم محمد علی بخش صاحب سیکرٹری مسلم فیڈریشن بھٹی‘ مولانا ابو یوسف صاحب اصفہانی بمبئی‘ ڈاکٹر شفاعت احمد خان صاحب الٰہ آباد‘ میاں سیّد جعفر شاہ صاحب شاہ آباد‘ سیّد کشفی صاحب نظامی رنگون‘ مولانا حسرتؔ موہانی صاحب کانپور‘ڈاکٹر ضیاء الدین احمد صاحب ایم۔ ایل۔ اے ایبٹ آباد‘ نواب ابراہیم خاں صاحب نواب آف کنج پورہ ایم۔ ایل ۔ اے کرنال‘ مولانا محمد شفیع صاحب داؤدی پٹنہ‘ چوہدری عبدالمتین صاحب سلہٹ آسام‘ جناب مشیر حسین صاحب قدوائی لکھنؤ‘ جناب سیّد غلام بھیک صاحب نیرنگ پلیڈر انبالہ‘ سیّد حبیب شاہ صاحب ایڈیٹر سیاست لاہور‘ مولوی نور الحق صاحب پروپرائٹر مسلم آؤٹ لک لاہور‘ سیّد محسن شاہ صاحب ایڈوکیٹ لاہور‘ مولانا غلام رسول صاحب مہرؔ مدیر ’’انقلاب‘‘ شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال صاحب بار ایٹ لاہور‘ خان بہادر شیخ صاحب ریٹائر سیشن جج لاہور‘ آنریبل نواب ذوالفقار علی خان صاحب ایم۔ ایل۔ اے لاہور‘ ملک برکت علی صاحب ایڈوکیٹ لاہور‘ حاجی شمس الدین صاحب لاہور‘ میاں فیروزالدین صاحب سیکرٹری خلافت کمیٹی لاہور‘ مولانا عبدالمجید صاحب سالکؔ مدیر ’’انقلاب‘‘ لاہور‘ سیّد عبدالقادر صاحب پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور‘ شمس العلماء خواجہؔ حسن نظامی صاحب دہلی‘ حاجی سیٹھ عبداﷲ ہارون صاحب ایم۔ ایل۔ اے کراچی‘ مولانا سیّد محمد اسماعیل صاحب غزنوی امرتسری‘ مولانا مظہر الدین صاحب ایڈیٹر ’’الامان‘‘ دہلی‘ شیخ محمد صادق صاحب ایم۔ ایل۔ اے امرتسر‘ مولانا عقیل الرحمن صاحب ندوی سہارنپور‘ ایم حسام الدین صاحب آنریری مجسٹریٹ امرتسر‘ شیخ فضل حق صاحب ایم۔ ایل ۔ اے پریزیڈنٹ میونسپل کمیٹی بھیرہ‘ مولانا سیّد میرک شاہ صاحب فاضل دیو بند ایس۔ ایم عبداﷲ صاحب نائب صدر میونسپلٹی دہلی‘ سیّد ذاکر علی شاہ صاحب لکھنؤ۔

حضرت امامِ جماعتِ احمدیّہ کا انتخاب صدر کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے

آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام ۲۵؍جولائی ۱۹۳۱ء کو شملہ میں مُسلِم زعماء کی ایک نمائندہ کانفرنس کے دَوران ہؤا اور ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کی تحریک بلکہ اصرار پر حضرت امام جماعت احمدیہ صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد (رضی اﷲ عنہ) نے اِ س کمیٹی کی عنانِ قیادت سنبھالی۔ جونہی آپؓ میدانِ عمل میں آئے ہندوستان کا ہندو پریس سخت غضبناک ہو کر یکا یک میدانِ مخالفت میں اُتر آیا۔

ہندو پریس کا زہریلہ پروپیگنڈا

اِس ضمن میں اخبار ’’ملاپ‘‘ کے صرف تین اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں:۔ 
(۱) ’’ کشمیر کے متعلق سرمحمد اقبال‘ خواجہ حسن نظامی‘ قادیانی مرزا اور ’’انقلاب‘‘ و ’’مسلم آؤٹ آ ف لک‘‘ نے خفیہ اور اعلانیہ سرگرمیوں کا اظہار نہ کیا ہوتا تو ہندو دیکھتے کہ کشمیر کے مسلمان واقعی سخت تکلیف میں ہیں اور اُن کے حقوق خطرہ میں ہیں تو وہ بلا پس و پیش دربارِ کشمیر کو مجبور کرتے کہ ان کے مستحق کو اُس کا حق نہ دیا جائے۔‘‘ (ملاپ۔ ۲۰؍اگست ۱۹۳۱ء صفحہ۵)
(۲) ’’مرزائی قادیانی نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی اِسی غرض سے قائم کی ہے تاکہ کشمیر کی موجودہ حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے اور اِ س غرض کے لئے انہوں نے کشمیر کے گاؤں گاؤں میں پروپیگنڈا کیا․․․․․ انہیں روپیہ بھیجا۔ اُن کے لئے وکیل بھیجے۔ شورش پیدا کرنے والے واعظ بھیجے۔ شملہ میں اعلیٰ افسروں کے ساتھ ساز باز کرتا رہا۔‘‘ (ملاپ یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء صفحہ۵)
(۳)’’کشمیر میں قادیانی شرارت کی آگ لگائی۔ واعظ گاؤں گاؤں گھومنے لگے۔ چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ چھپوا دئے گئے۔ اُرد ومیں بھی اور کشمیری زبان میں بھی اور اُ نہیں ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر مُفت تقسیم کیا گیا۔ مزید برآں روپیہ بھی بانٹا گیا۔‘‘ (ملاپ ۳۰؍ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ۵)

اہلِ کشمیر کو دھمکیاں

ہندو پریس نے کشمیر کو بھی ڈرایا دھمکایا اُن کی خیر اسی میں ہے کہ اِ س تحریک سے ہاتھ کھینچ لیں اور جو حقوق طلب کئے جا رہے ہیں اُن سے انکارکر دیں۔ چنانچہ ملاپؔ (۱۴؍اگست ۱۹۳۱ء صفحہ۵) نے لکھا کہ:۔
’’کشمیر ی مسلمانوں کو بھی دیکھنا چاہئیے کہ وہ کن ٹھگوں کے پنجہ میں پھنس گئے ہیں اور کس طرح اپنے مہاراجہ کے خلاف ایک بھاری سازش کے پُرزے بنے ہوئے ہیں۔ یہ حالات اُن کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کو اب پرائسچت (کفّارہ) کے طور پر یہ اعلان کرنا چاہئیے کہ وہ کِسی قسم کے حقوق کا مطالبہ فی الحال نہیں کرتے۔ جس حالت میں وہ اب ہیں اسی حالت میں رہیں گے۔‘‘

برطانوی حکومت پر دباؤ

مگر جب ہندوؤں کا یہ داؤ بھی نہ چل سکا تو انہوں نے برطانوی حکومت پر زور دینا شروع کیا کہ وہ ’’اِس فتنہ‘‘ کو مٹائے اور کشمیر کے اندر جو شورش برطانوی ہند کے مسلمانون کی شہ پر برپا کی جا رہی ہے کچل کر رکھ دے۔ چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے گورنمنٹ کو یہ کہہ کر متوجہ کیا:۔ 
’’حیرانی یہ ہے کہ ریاست کشمیر کے خلاف شملہ میں بیٹھ کر جو سازش کی جا رہی ہے یہ اسی پروگرام کی ایک مدّ ہے۔ حیرانی ہے کہ ریاستِ کشمیر کے خلاف اُسی حکومت کے پایۂ تخت میں بیٹھ کر سازش کی جا رہی ہے جس حکومت نے ریاست کشمیر کے حکمرانوں سے یہ معاہدہ کر رکھا ہے کہ وہ بیرونی دشمنوں سے کشمیر کی حفاظت کرے گی۔‘‘ (ملاپؔ ۱۱؍اگست ۱۹۳۱ء صفحہ۵)
ازاں بعد آریہ سوراجیہ سبھا پنجاب نے وائسرائے ہندولنگٹن کو اِسی مضمون کا تار بھیجا:۔ 
’’برٹش انڈیا کے مسلمان بالعموم اور پنجابی مسلمان بالخصوص کشمیر در بار کے خلاف ایک بالکل بناوٹی اور باطلانہ بے بنیاد ایجی ٹیشن جو اچھی نیّت پر مبنی نہیں ہے پھیلا رہے ہیں۔ وہ ہندو مسلمانوں میں باہمی کشیدگی کی آگ مشتعل کر رہے ہیں۔ نیز ریاست کے اندر پولیٹیکل انقلاب کی انگیخت کر رہے ہیں۔ اُن کی سرگرمیاں امنِ عوام کے لئے نہایت خطرناک ہیں۔ آپ سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ آپ اِ ن تمام ایجی ٹیٹروں پر جن میں اینگلور انڈین اخبارات بھی شامل ہیں پُورے زور سے دباؤ ڈالیں اور اس ایجی ٹیشن کی روک تھام کے لئے انسداد فرمائیں۔‘‘ (ملاپؔ ۲۰؍اگست ۱۹۳۱ء صفحہ۶)
اِس کے بعد ایک طرف حکومتِ ہند کو یہ کہہ کہہ کر بھڑکانے کی کوشش کی ’’کشمیر کے چاروں طرف مسلمان حکومتیں ہیں کشمیر میں اگر اسلامی جھنڈا لہرایا تو گورنمنٹ کے لئے خطرہ ہو گا۔‘‘(ملاپؔ ۱۸؍اگست ۱۹۳۱ء صفحہ۱۶) دوسری طرف انگلینڈ میں وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا کیا گیا کہ کشمیر ایجی ٹیشن پان اسلامک تحریک کا ایک جُزو ہے۔ چونکہ مسلمان ایک وسیع اسلامی فیڈریشن قائم کرنا چاہتے ہیں اس لئے وہ کشمیر کا علاقہ بھی اپنے قبضے میں کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور اُن کی طرف سے اِس بات پر اتنا زور دیا گیا کہ پارلیمنٹ کے بعض انگریز ممبر بھی اس پروپیگنڈا کا شکار ہو گئے (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب ’’مسئلہ کشمیر اور ہندو سبھائی‘‘مؤلفہ جناب ملک فضل حسین صاحب)

حکومتِ ہند اور ڈوگرہ راج کا طرزِ عمل 

اِن حالات میں حکومتِ ہند نے ریاستِ کشمیر کے سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے سے ابتداً بالکل انکار کر دیا اور بعد کو تو انگریزی حکومت کا ایک وہ عنصر کھلم کھلا جماعت احمدیہ کے خلاف اُٹھ کھڑا ہؤا اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے خواب دیکھنے لگا۔ جہاں تک ڈوگرہ راج کا تعلق تھا مہاراجہ کے ہندو مشیروں نے طوفانِ مخالفت برپا کر کے کشمیر کمیٹی کو ناکام بنانے کی تیاریاں شروع کر دیں اور اپنے ایجنٹوں کا ایک جال سا بچھا دیا۔ 

شاندار کامیابی

الغرض قدم قدم پر اندرونی اور بیرونی مخالفتوں اور مزاحمتوں کے کوہِ گراں کھڑے کئے گئے مگر خدا کے فضل و کرم سے تحریک آزادیٔ کشمیر کا کارواں آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا اور ریاست کے تشدّد‘ حکومتِ ہند کی بے نیازی اور ہندو سرمایہ کی پُشت پناہی کے باوجود غیر آئینی ذرائع سے نہیں بلکہ اور ریاستی قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے ایک مختصر سی مدّت میں کشمیر میں محبوس انسانیت نے آزادی کا سانس لینا شروع کر دیا۔ وہ بے بس کشمیری مسلمان جونہایت شرمناک طریق پر انسانیت کے ابتدائی حقوق سے محروم کر دئیے گئے اور بقول سرایلین بینزجی (سابق وزیر خارجہ ریاست کشمیر) سچ مچ بے زبان مویشیوں کی طرح ہانکتے جا رہے تھے‘ شہریت کے ابتدائی حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسمبلی قائم ہوئی اور مسلمانوں کے لئے ریاستی سیاست میں حصّہ لینے کی راہیں کھل گئیں۔

کمیٹی کی زرّیں خدمات پر دوسروں کا خراجِ تحسین

کشمیر کمیٹی کا یہ عظیم الشان ملّی اور اسلامی کارنامہ ہمیشہ آبِ زر سے لکھا جائے گا جس کی عظمت و ہیّت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ بتانا کافی ہے کہ ان ممبروں کے سوا جو مفکّرِ احرار جناب چوہدری افضل حق صاحب کے بیان کے مطابق شروع ہی سے اس کی ’’تخریب میں لگ گئے تھے‘‘ (’’تاریخِ احرار‘‘ صفحہ۱۶۳) کشمیر کمیٹی کے اکثر و بیشتر ممبر اختلافِ مسلک کے باوجود صدر کشمیر کمیٹی (حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃ المسیح ـالثانیؓ) کی تعریف میں ہمیشہ رطب اللّسان رہے اور آپ کی بے لوث مساعی اور مخلصانہ جدّو جہد کو خراجِ تحسین ادا کیا۔ 

کشمیر کمیٹی کی خدمات مدیرِ’’سیاست‘‘ کی نظر میں

مثلاً اخبار ’’سیاست‘‘ کے مدیرِ شہیر مولانا سیّد حبیب صاحب نے اپنی کتاب ’’تحریک قادیان‘‘ میں لکھا:۔
’’مظلومینِ کشمیر کی امداد کے لئے صر دو جماعتیں پیدا ہوئیں۔ ایک کشمیر کمیٹی‘ دوسری احرارؔ۔ تیسری جماعت نہ کسی نے بنائی نہ بنا سکی۔ احرار پر مجھے اعتبار نہ تھا اور اب دنیا تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر کے یتامیٰ مظلومین اور بیواؤں کے نام سے روپیہ وصول کر کے احرار شیرِ مادر کی طرح ہضم کر گئے۔ ان میں سے ایک لیڈر بھی ایسا نہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس جُرم کا مرتکب نہ ہؤا ہو۔ کشمیر کمیٹی نے اُنہیں دعوتِ اتحادِ عمل دی مگر اِس شرط پر کہ کثرتِ رائے سے کام ہؤااور حساب باقاعدہ رکھا جائے۔ انہوں نے دونوں اصولوں کو ماننے سے انکار کر دیا۔ لہذا میرے لئے سوائے ازیں چارہ نہ تھا کہ مَیں کشمیر کمیٹی کا ساتھ دیتا۔ اور مَیں ببانگِ دُہل کہتا ہوں کہ مرزابشیرالدین محمود احمد صاحب صدر کشمیر کمیٹی نے تندہی‘ ہمّت‘ جانفشانی اور بڑے جوش سے کام کیا اور اپنا روپیہ بھی خرچ کیا۔ اور اس کی وجہ سے مَیں اُن کی عزّت کرتا ہوں۔‘‘ (صفحہ۴۲)

اخبار ’’انقلاب‘‘ اور کشمیر کمیٹی

اِس سلسلے میں اخبار انقلابؔ کی رائے کئی لحاظ سے نہایت وقیع اور مستند سمجھی جا سکتی ہے خصوصاً اس لئے کہ خود مفکّرِ احرار نے ’’تاریخِ احرار‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’خدا جزائے خیر دے ’’انقلاب‘‘ کو کہ اُس نے دیانتداری کے سارے تقاضوں کو پُورا کیا اور ساری تحریک میں اپنے انداز اور پالیسی کے پیشِ نظر ایک ہی روش پر قائم رہا۔‘‘ (تاریخِ ؔاحرار صفحہ ۸۸-۸۷)
اخبار انقلابؔ نے تحریکِ آزادی کے دَوران کشمیر کمیٹی کی سنہری خدمات پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھا:۔
’’آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے مسلمانانِ کشمیر کے شہداء‘ پسماندوں اور زخمیوں کی امداد اور ماخوذینِ بَلا کی قانونی اعانت میں جس قابلِ تعریف سرگرمی‘ محنت اور ایثار کا ثبوت دیا ہے اُس کو مسلمانانِ کشمیر کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔اب تک اس کمیٹی کے بے شمار کارکن اندرونِ کشمیر مختلف خدمات میں مصروف ہیں اور ہزارہا روپیہ مظلومین و ماخوذین کی امداد میں صرف کر رہے ہیں․․․․ کشمیر کمیٹی کے مختلف شعبے ہیں۔ بہت سا روپیہ پروپیگنڈا پر صرف ہوتا ہے اور بہت سا روپیہ امدادِ مظلومین اور اعانتِ ماخوذین اور مصارفِ مقدّمات اور قیامِ دفاتر کے سلسلہ میں خرچ کیا جاتا ہے۔ کشمیر کے تقریباً تمام قابلِ ذکر مقامات پر کشمیر کمیٹی کے کارکن مصروفِ عمل ہیں۔‘‘(انقلاب ۱۱؍مارچ ۱۹۳۲ء صفحہ۴)
نیز لکھا:۔
’’جب سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی ہے اُس نے نہایت اخلاق سے مسلمانانِ کشمیر کی ہر ممکن طریق سے امداد کی ہے اور سینکڑوں تباہ حال مسلمانوں کو ہلاکت سے بچا لیا ہے۔ اگر اس کے راستے میں بعض لوگ رُکاوٹ نہ ڈالتے تو مسلمانانِ کشمیر نے اپنے حقوق حاصل کر لئے ہوتے۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے کشمیر کمیٹی کو مالی امداد دینے میں بہت کم توجہ کی ہے حالانکہ حقیقی اور ٹھوس کام کشمیر کمیٹی ہی کر رہی ہے۔ چنانچہ اِس بات کے ثبوت میں ہم اِس وقت مسلمانانِ راجوری کی ایک مراسلت درج کرتے ہیں جس میں انہوں نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کاشکریہ ادا کیا ہے۔ اِس قسم کے بیسیوں مراسلات ہم کو کشمیر کے مختلف سے موصول ہو چکے ہیں جن میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی خدمات کا سچّے دل سے اعتراف کیا گیا ہے۔ مسلمانانِ راجوری کا مراسلہ یہ ہے:۔
’’ہم مسلمانانِ راجوری آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہی ایک کمیٹی ہے جو ہر گلی کوچہ میں غریب اور ناتواں مسلمانوں کی خبر لے رہی ہے۔ ہم ایک ایسے ویران جنگل کے رہنے والے ہیں جن کا خبر گیراں تحت الثریٰ سے لَوح محفوظ تک سوائے ذاتِ باری کے اَور کوئی نہیں مگر اِ س کمیٹی نے ہماری دستگیری میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی اور ہم پر بخوبی واضح ہو چکا ہے کہ کمیٹی کی نظر نہایت باریک ہے۔ ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اے زمین و آسمان کے خالق اور دنیا و مافیہا کے ناظم! ہماری اِس ممّد و معاون کمیٹی کو جو آج آڑے وقت میں ہمارے کام آ رہی ہے مضبوط رکھ خصوصاً صدر صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے احسانات تمام فرقوں کے مسلمان کسی صُورت میں بھی بُھول نہیں سکتے۔ ہمارے بہت سے مصائب کا اِس کمیٹی کی مہربانی سے کچھ نہ کچھ ازالہ ہو گیا ہے اور ابھی بہت ہی مشکلات موجو د ہیں۔ اگر یہ کمیٹی اپنی پوری کوشِش جاری رکھنے میں سرگرم رہی تو انشاء اﷲ ایک نہ ایک دن اِن مصائب سے ہم نجات حاصل کر لیں گے۔‘‘ (انقلابؔ ۴؍اپریل ۱۹۳۲ء)
اِسی طرح اِنقلابؔ نے۲۳؍جولائی ۱۹۳۲ء کی اشاعت میں لکھا:۔
’’آل انڈیا کشمیر کمیٹی نیک باشندگانِ کشمیر کی جو بے لَوث خدمت گزشتہ ایک سال کی مدّت میں انجام دی ہے اس کے شکریہ سے مسلمان کبھی عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔ اگر اس کمیٹی کا کام نہایت قابل‘ تجربہ کار‘ ہوشمند عہدہ داروں کے ہاتھ میں نہ ہوتا تو خدا جانے ہمارے مظلوم کشمیری بھائیوں کو کس قدر شدید تکالیف سے دو چار ہونا پڑتا۔ اِس کمیٹی نے اپنے وسیع ذرائع و وسائل سے کام لے کر مسلمانانِ کشمیر کے مطالبات کی حمایت میں عالمگیر پروپیگنڈا کیاجس نے انگلستان کے جرائد و عمائد بلکہ اربابِ حکومت تک متأثر ہوئے اور ہر شخص پر اِن مطالبات کا حق بجانب ہونا ثابت ہو گیا۔ اِس کے علاوہ کشمیر کمیٹی نے سب سے زیادہ اہم خدمات خود کشمیر میں انجام دیں۔ شہداء و مجروحین کے متعلّقین کی مالی امداد کی۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کا انتظام کیا۔ کشمیر کے گوشے گوشے میں کارکنوں کی تنظیم اور ماخوذین کی قانونی امداد کیلئے نہایت قابل اور ایثار پیشہ اور بیرسٹر بھیجے جنہوں نے بلا معاوضہ تمام مقدّمات کی پَیروی کی اور بے شمار مظلوموں کو ظلم و ستم کے نیچے سے چُھڑا دیا۔‘‘

مخالفت برائے مخالفت

حضرت امام جماعت احمدیہ نے کشمیر کمیٹی سے کیوں استعفاء دیا اس کی تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے مدیر انقلابؔ مولانا عبدالمجید سالکؔ لکھتے ہیں:۔
’’جب احرار نے احمدیوں کے خلاف بلا ضرورت ہنگامہ آرائی شروع کر دی اور کشمیر کی تحریک میں متخانف عناصر کی ہم مقصدی وہم کاری کی وجہ سے جو قوّت پیدا ہوئی تھی اس میں رخنے پڑ گئے تو مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفاء دے دیا اور ڈاکٹر اقبال اس کے صدر مقرر ہوئے کمیٹی کے بعض ممبروں اور کارکنوں نے احمدیوں کی مخالفت محض اس لئے شروع کر دی کہ وہ احمدی ہیں۔ یہ صورتِ حال مقاصد کشمیر کے اعتبار سے سخت نقصان دِ ہ تھی۔ چنانچہ ہم نے کشمیر کمیٹی کے ساتھ ہی ساتھ ایک کشمیر ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جس میں سالکؔ‘ مہرؔ‘ سیّد حبیب‘منشی محمد الدین فوقؔ (مشہور کشمیری مؤرخ) مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کے احمدی اور غیر احمدی رفقاء سب شامل تھے۔ ایسوسی ایشن کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ مبادا کشمیر کمیٹی آگے چل کر احرار ہی کی ایک شاخ بن جائے اور وہ متانت و سنجیدگی رفو چکر ہو جائے جس سے ہم اب تک کشمیر میں کام لیتے رہے ہیں بہرحال تھوڑا بہت کام ہوتا رہا لیکن کچھ مدّت کے بعد نہ کمیٹی رہی نہ ایسوسی ایشن۔‘‘ (سرگزشتؔ صفحہ۳۴۲)

تصویر کا دُوسرا رُخ

تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی نسبت خالص کانگرسی نقطۂ نگاہ

یہ ہیں آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور اُن کے خلاف متحارب طاقتوں کے صحیح خدو خال جن کی تفصیلات پر مستند اور محفوظ ریکارڈ اور مسلم پریس میں شائع شدہ مضامین کی روشنی میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور مزید لکھا جا سکتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ اکثر احباب جب تحریکِ آزادیٔ کشمیر پر خامہ فرسائی کرتے اور گوہر افشانی فرماتے ہوئے ۱۹۳۱ء کے انقلابی دَور پر آتے ہیں تو اُن کا قلم شاید غیر شعوری طور پر جادۂ صواب سے ہٹ کر اُس راہ پر چل پڑتا ہے جس کی نسبت جناب مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کا یہ فتویٰ ہے کہ:۔
’’احیاءِ حق کے واسطے کذب درست ہے مگر تا امکان تعریض سے کام لیوے۔ اگر ناچار ہو تو کِذب صریح سے بولے۔‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ کامل صفحہ۴۶۰)
’’احیاءِ حق‘‘کا پرچم لہرانے والے محقّقین و ’’مؤرخین‘‘ جونہی اِس منزل پر آ پہنچتے ہیں تو وہ بیچارے مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ اِ س دَورِ تاریخ کا مطالعہ اصلی واقعات و حقائق کی بجائے خالصۃً کانگریسی نقطۂ نگاہ سے فرمائیں اور پھر اس کے مطابق اپنے قیاسات‘ تخیّلات اور مفروضات کی پُوری عمازت اُستوار کر کے اُس پر تاریخ آزادیٔ کشمیر کا سائن بورڈآویزاں کر دیں۔ 
تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی نسبت کانگرسی نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ:۔
(۱)کشمیر کا ڈوگرہ راج ۱۹۳۱ء کی تحریک کے آغا ز ہی میں مسلمانوں کو حقوق دینے کے لئے بے قرار تھا۔ 
(۲)اصل شرارت انگریزی حکومت کی کھڑی کی ہوئی تھی۔ انگریز دراصل چاہتا تھا کہ کانگرس کے (نام نہاد) ہندو مُسلم اتّحاد کو ضرب کاری لگائے اور گول میز کانفرس کے دَوران گاندھی جی کے مشن کو ناکام بنائے۔
(۳)اس مقصد کی تکمیل کے لئے انگریز ’’ کشمیر کے مسلمان کو استعمال کے لئے چُن لیا۔‘‘ بالفاظِ دیگر اُس زمانہ میں جمّوں‘ و کشمیر کے تمام مسلمان لیڈر انگریز ہی کے اشارے ہر کام کر رہے تھے اور دانستہ یا نادانستہ برطانوی سازش کی تکمیل میں مصروف عمل تھے۔ 
(۴)اِس سلسلہ میں جو لوگ شملہ میں کشمیر کمیٹی کی بنیاد کے لئے جمع ہوئے وہ سب ’’سرکاری مسلمان‘‘ تھے اس موقع پر ’’گورنمنٹ آف انڈیا نے کوشش کی کہ وہ اپنے فرستادہ لوگوں کی معرفت کام لے۔ چنانچہ ان عناصر نے علّامہ اقبالؔ کو لیپا پوتی کر کے اپنے ساتھ ملا لیا۔‘‘ (سوانح سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری صفحہ ۸۸ مؤلفہ شورشؔ کاشمیری)
ع قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا

’’رئیس الاحرار‘‘ اور تحریکِ آزادیٔ کشمیر کا پس منظر

آل انڈیا نیشنل کانگریس کے اس زاویۂ نگاہ کی ٹھیک ٹھیک ترجمانی کانگرس کے مشہور خاندانی کارکن رئیس الاحرار مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی کی خود نوشت یا دداشت بآسانی ہو سکتی ہے۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ:۔
’’۱۹۳۱ء جب گانگرس اور گورنمنٹ کے درمیان گاندھی اِردن پیکٹ ہؤا تو یکایک کشمیر میں اِس طرح تحریکِ کشمیر کا آغاز ہؤاکہ جمّوں میں کسی ہندو سنیاسی نے قرآن شریف کی توہین کی ہے 1؂ جبکہ ایک مسلمان سپاہی پولیس لائن میں قرآن شریف پڑھ رہا تھا۔ اِس واقعہ کا مشہور ہونا تھا کہ تمام کشمیر میں مسلمانوں کے جزبات قابو سے باہر ہو گئے اور حکومتِ کشمیر کو دو ۲ بار گولی چلانی پڑی۔ جب حالات بہت نازک ہو گئے تو مہاراجہ کشمیر نے مولانا ابو الکلام آزادؔ کو بُلانے سے یہ سمجھا گیا کہ مہاراجہ کا ذہن غیر فرقہ وارانہ ہے۔ مولانا سے مہاراجہ نے یہ بھی کہا کہ مَیں مسلمان عوام کے معقول مطالبات پُورنے کرنا چاہتا ہوں جن کی آبادی نوّے فیصدی ہے لیکن وہ دفتری حکومت کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ کی ملاقات کے باوجود کشمیری مسلمان عوام مطمئن نہ ہوئے۔ ہندو مسلم فرقہ واریت 2؂ شباب پر آ گئی۔شروع جولائی میں چوہدری افضل حق مرحوم جو کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے جیل سے رہا ہو کر آئے تھے۔ انہوں نے احرار راہنماؤں سے کہا کہ کشمیر کا فتنہ انگریز نے شروع کرایا ہے تاکہ ہندو مسلم اتحاد کی موجودہ فضا برباد ہو جائے۔ انگریز نے کشمیر کے مُسلمانوں کو استعمال کے لئے چُن لیا ہے۔ تمام ساتھیوں نے چوہدری صاحب کی یہ بات سُن کر ٹال دی۔ انگریز نے کشمیر کے ابتدائی ہنگامہ سے فائدہ اُٹھا کر اپنے بااعتماد آدمی ہری کرشن کول کو کشمیر کا وزیراعظم بنا دیا۔ دوسری طرف لاہوری قادیانی مرزائیوں نے کشمیری مسلمانوں کی ہمدردی میں سارے ہندوستا ن میں زہر آلود پروپیگنڈا شروع کر دیا اور کشمیر کے نئے لیڈر سامنے آ گئے۔ جن کی رہنمائی شیخ عبد اﷲ 3؂ کر رہے تھے۔ ۲۴؍جولائی ۱۹۳۱ء کو شملہ میں سر فضل حسین 4؂ کے اشارے سے سرکاری 5؂ مسلمانوں کا اجتماع ہؤا جس میں کشمیر کے دس نئے لیڈربھی شریک ہوئے۔ اِس جلسہ میں مرزا بشیر الدین محمودخلیفۂ قادیان کو کشمیر کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔ مسٹر عبدالرحیم دردؔ کو جو خلیفہ کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے کشمیر کمیٹی کا جنرل سیکرٹری ۴؂بنایا گیا۔ شملے سے ہی مرزا محمود نے اعلان کیا کہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں نے مجھے اپنا رہنما تسلیم کر لیا ہے۔ اس لئے مَیں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ۱۴؍اگست۱۹۳۱ء کو تمام ہندوستان میں ’’یومِ کشمیر‘‘ منایا جائے 6؂ مسٹر عبدالرحیم دردؔ نے ہندوستان کے تمام مشہور علماء‘ فضلاء‘ وکلاء‘ اور ڈاکٹروں کو خطوط لکھے کہ آپ کو کشمیر کمیٹی کا ممبر بنایا گیا ہے۔ ہندوستان کے تما م لوگ حقیقتِ حال سے ناواقف تھے۔ کسی نے کشمیر کمیٹی کی سیاسی سازش کی طرف توجہ نہ کی سوائے مجلس احرار کے راہنماؤں کے کسی نے بھی عبدالرحیم دردؔپرائیویت سیکرٹری مرزا محمود کو انکار کا خط ملا۔ 
۱۴؍اگست ۱۹۳۱ء کو گاندھی جی7؂ راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے لندن روانہ ہو گئے۔ مَیں اُسی وقت کشمیر کمیٹی کا وجود عمل میں آیا۔ ٹھیک گاندھی جی کی روانگی کے وقت ۱۴؍اگست۱۹۳۱ء کو کشمیر ڈے منانے کا اعلان کیا گیا تاکہ ہندو مسلم اتحاد پر گاندھی جی کے لندن پہنچنے سے پہلے ہی ضرب لگائی جائے۔ مَیں‘ مولانا سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری اور شیخ حسام الدین بمبئی میں تھے۔ ہم نے کانگرسی لیڈروں سے خاص کر مولانا ابوالکلام آزاد سے کشمیر کے مسئلے میں بات کی۔ مولانا نے فرمایا کہ مہاراجہ کشمیر خود چاہتا ہے کہ کشمیر میں کچھ ہو‘ تا کہ مسلمانوں کے مطالبوں کو پُورا کیا جا سکے۔ ہم نے موجودہ کشمیر کمیٹی کی سیاسی سازش‘ ڈاکٹر اقبال کی کشمیر کمیٹی میں شمولیت‘ سرفضل حسین کی سرپرستی اور انگریزی حکومت کی بدنیّتی‘ فرقہ وارانہ فسادات اور ہندو مسلمان اتحاد کے بارے میں مولانا آزاد سے تفصیلی گفتگو کی تو مولانا آزاد نے سب باتیں سُن کر کہا کہ احرار کو فرقہ وارانہ اتحاد کے لئے مسئلہ کشمیر کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہئیے اور مہاراجہ کشمیر کے سامنے ریاست کی ترقی کے لئے جمہوری مطالبات رکھے جائیں ۔ میرا یقین ہے کہ مہاراجہ صاحب تھوڑی سی جدّوجہد کے بعد جمہوری مطالبات کو قبول کر لیں گے احرار رہنماؤں نے محسوس کیا کہ کشمیر کمیٹی کی وجہ سے تمام مسلمان مرزائی او قادیانی ہو جائیں گے۔ ہندو مسلمان اتحاد کو سخت دھکا لگے گا۔ مولانا مظہر علی نے مسئلہ کشمیر میں احرار کے شامل ہونے اعلان کر دیا۔ مولانا مظہر علی کو تحریک کشمیر کا ڈکٹیٹر بنا دیا گیا۔ مولانا مظہر علی صاحب نے تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی کہ ہم سب کو مل کر کشمیر کا سیاسی مسئلہ حل کرنا چاہئیے ورنہ کمشیر کمیٹی ملک کی سیاسی صورتحال خطرناک بنا دے گی۔ مہاراجہ صاحب کو لکھا گیا کہ ہم آپ کے خلاف نہیں اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ کشمیر عوام اور آپ کے تعلقات خراب ہوں ہم آپ کو گدّی سے اُتارنے کے حق میں نہیں ہیں8؂ کیونکہ مرزائیوں کی کشمیر کمیٹی انگریز کے اشارے پر آپ کو گدّی سے اُتارنے کے لئے زمین میں ہموار کر رہی ہے۔ احرار کا مقصد کشمیر میں ریاست کے باشندوں کو ایسے حقوق دلانا ہے جس سے کشمیر کے باشندے اقتصادی‘ تعلیمی ترقی کر سکیں مگر افسوس کشمیر کے اس پس منظر کو اُس وقت کوئی نہ سمجھتا تھا‘‘ (’’رئیس الاحرار اور ہندوستان کی جنگِ آزادی ‘‘ مرتبہ عزیزالرحمان جامی لدھیانوی صفحہ ۱۵۶ تا۱۵۹)

’’کانگریسی مؤرخ‘‘ کی فسانہ طرازی

قارئین! ’’ کانگریسی مؤرخ‘‘ کی فسانہ طرازی ملاحظہ فرمائیں اور غور کریں کہ کانگرسی مولانا کیا فرما رہے ہیں آپ کے ’’ارشاد گرامی‘‘ کا خلاصہ یہ ہے کہ ۱۹۳۱ء کی تحریک آزادی کے دوران برطانوی ہندو اور ریاست جمّوں کشمیر تمام مشہور مسلمان لیڈر انگریز کے ہاتھ پر بِک گئے تھے اور اُس مجلس کے سوا جس نے ۲۹ ؍دسمبر ۱۹۲۹ء کو ہندوؤں کی سیاسی جماعت آل انڈیا نیشنل کانگرس کے اجلاس لاہور میں خود کانگرس ہی کے سٹیج پر جنم لیا تھا اس سازش سے کوئی نہ بچ سکا۔

قدرت کاانتقام 

قدرت کا انتقام دیکھئے احراری لیڈر اگرچہ کانگریسی لیڈروں کے مشورہ سے اِس تحریک میں شامل ہوئے تھے مگر جونہی گاندھی جی کو اِس کی خبر پہنچی اُنہوں نے جھٹ یہ اعلان کر دیا کہ یہ لوگ انگریز کے اشاروں پر ہنگامہ آرائی کر رہے ہیں چنانچہ مفکّر احرار چوہدری افضل حق صاحب تحریر فرماتے ہیں:۔
’’مہاتما گاندھی بڑے دھرتے کا آدمی ہے جس کے برخلاف ہو جائے اس کو خاک میں ملا کر چھوڑتا ہے ․․․․․ لندن میں آپ نے سُنا کہ احرار کشمیر پر چڑھ دوڑے۔ رئیس ہندو اور احرار مسلمان تھے ہماری تحریک کوآسانی سے فرقہ وارانہ رنگ دیا جا سکتا تھا مگر اس مردِ دانا نے اِس بات سے پہلو بچایا لیکن اعلان کیا اور تحریک انگریز کی تقویت کے لئے شروع کی گئی ہے۔ اُس زمانہ میں اس داؤں سے کوئی بچتا تھا۔ اِس داؤں کا گہاؤ گہرا ہؤا۔ سب ہندو مسلمانوں کا کانگریسی شعبے کی نظر سے دیکھنے لگے۔ جو تھوڑے بہت کانگریسی ہم میں شامل میں تھے اُداس ہو کر اُباسیاں لینے لگے9؂․․․․․․․ کانگریسی مسلمان کا ذہن بے حد متشکک اور متشدد ہے ۱۹۳۰ء سے پہلے تو لوگوں کو سی۔ آئی۔ڈی اور انگریز کے ایجنٹ کا الزام لگانا عام تھا۔ کانگریسی مسلمان اپنے دعویٰ اور عمل میں مخلص ہوتے ہیں مگر وہ دوسروں کو ہمیشہ بدعقل اور دوسروں کا آلۂ کار سمجھتے ہیں․․․․․ پھر ان کانگریسی احباب نے اَور غضب ڈھایا اس دروغ بے فروغ کو دنیا میں اُچھالا کہ احرار نے گلگت انگریزوں کو دُلایا۔ کئی سادہ مزاج اس سفید جھوٹ کو سچ سمجھ کرپیٹ پکڑ آئے کہ بھیا احرار والو! کہیں یہ غضب نہ کرنا کہ گلگت انگریزوں کو دلوا دو مَیں نے کہا کہ حضرت! یہ گلگت ہے کہاں؟ یوے کہ کشمیر میں ہی ہو گا۔ تو پھر مَیں نے کہا کہ بتائیے کہ کشمیر آزاد حکومت ہے؟ بولے: نہیں!انگریزوں کے ماتحت ہے۔ تو مَیں نے کہا کہ جب ساری ریاست ہی انگریزوں کے ماتحت ہے تو اس کا حصہ بھی انگریزوں کے ماتحت ہے اس کے لینے دینے کا سوال کیاہے۔ جُھوٹی خبروں کے احرار اور تکرار کوبھی پروپینگنڈے کے فن10؂ کا اہم جزُو قیاس کیا جاتا ہے۔ انسان کچھ وقت کے لئے دروغ بے فروغ کو بھی سچّائی جان سمجھنے لگ جاتا ہے بعض وقت تو دوسروں کے کہے بے وقوف بن کر اپنی پگڑی میں ہاتھی ٹٹولنے لگ جاتا ہے کیونکہ معتبر کہہ دیتا ہے کہ بھلے مانس تیری پگڑی میں ہاتھی ہے۔ کانگریسی مسلمانوں نے بھی بعض کے کان میں یہی پھونک دیا کہ بھیّا مسلمانو! احرار انگریز کے ایجنٹ ہیں۔ یہ ریاست کے گلکت دلا رہے ہیں․․․․ ہمارے خلاف پروپیگنڈہ اُس گروہ کا بھی کام تھاجو خلافت اور کانگرس میں ہمارا سردار اور طبقۂ اولیٰ تھا۔‘‘ (تاریخِ احرار صفحہ۶۰ تا ۶۲)

تاریخِ پاکستان اور کانگرسی مسلمان

حق یہ ہے کہ اگر تحریکِ آزادیٔ کشمیر کانگریس کی امامت میں مرتّب کرنا ہی صحیح نگاری ہے تو آزادیٔ کشمیر کی تاریخ ہی کا نہیں بلکہ مُسلم لیگ اور پاکستان کی تاریخ کا بھی خدا حافظ ہے۔ 
آئیے بے شمار مثالوں میں سے بطور نمونہ رئیس الاحرار مولوی حبیب الرحمن صاحب کی یہ تقریر پڑھیئے:۔
’’مُسلم لیگ کے ممبر جو تم کو اسلام کے نام پر کانگرس سے الگ ہونے کو کہتے ہیں یہ وہ مسلمان ہیں جنہوں نے پچھلی جنگ میں تُم کو فوج بھرتی کرا کر تُرکوں سے لڑا دیا تھا۔ اور تمہارے ہاتھوں میں عراق کو‘ بغداد کو‘ فلسطین کو ترکوں سے لے کر انگریزی جھنڈے کے نیچے کر دیا۔ اس لئے یہ مسلمان جھوٹے ہیں۔ تم اِن کی امامت کا اعتبار نہ کرو۔ یہ اسلام کے حقیقی دشمن ہیں۔ یہ کانگرس سے اپنے اغراض کے لئے تُم کو جدا کرنا چاہتے ہیں۔ کہ اسلام کے لئے۔ تم یہ کہتے ہو کہ مجھے کانگریس نے روپے سے خرید لیا ہے سب سے زیادہ روپیہ انگریز کے پاس ہے اور اس کے بعد مسلم لیگ کے صدر مسٹر محمد علی جناح اور راجہ محمود آباد کے پاس۔ ‘‘ (رئیس الاحرار صفحہ ۲۰۲)
مولوی صاحب موصوف نے ایک بار قائداعظم محمد علی جناح سے کہا کہ:۔
’’آپ کے ٹوڈی مسلمانوں کے حلقہ سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں اور انگریز جب چاہتا ہے اپنے مفاد کے لئے ٹوڈی مسلمانوں کو آپ کے ساتھ کر دیتا ہے۔’’ (رئیس الاحرار صفحہ ۹۳)
مولوی ظفر علی صاحب کا بیان ہے کہ:۔
’’میرٹھ میں مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی صدرِ مجلس احرار اِس قدر جوش میں آئے کہ دانت پیستے جاتے تھے‘ غصّہ میں آ کر ہونٹ چباتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ دس ہزار جیناؔ اور شوکؔ اور ظفرؔ جواہر لال نہرو کی جُوتی کی نوک پر قربان کئے جا سکتے ہیں۔‘‘ (چمنستان صفحہ ۱۹۵)
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے کانگریس کے معتبر راویوں کی معلومات یہ ہیں:۔
’’بلا شُبہ پاکستان کا تخیّل ’’سیاسی الہام‘‘ مگر ’’ربانی الہام‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’قصرِ بکنگھم کا الہام‘‘ ہے۔ جو ڈاکٹر اقبال کو بھی ہؤا تھا․․․․․․․․․ جب وہ لندن سے قریب ہی زمانہ میں واپس تشریف لائے تھے۔ اور وہ یہ الہام دوبارہ اس وقت پھر ہؤا جب کہ مسلم لیگ کا وفد جو زیرِ سرکردگی چوہدری خلیق الزمان مصر اور لندن کا حج کرنے گیا تھا۔ اُس نے ہندوستان آ کر بمبئی اُترنے کے ساتھ ہی پہلے انٹرویو میں اِس چیز کو ظاہر کر دیا تھا اور جس کو عرصہ کے بعد مسٹر جناح نے اپنایا اور لاہور میں پیش کرنے کی اجازت دی۔‘‘
(’’تحریکؔ پاکستان پر ایک نظر‘‘ از حضرت علّامہ الحاج مولانا محمد حفیظ الرحمن صاحب سیوہاروی ناظمِ اعلیٰ مرکزیہ جمیعۃ علماء ہند‘‘)

پنڈت موتی لال نہرو ’’آل انڈیا مسلم کشمیر کانفرنس‘‘ کی صدارت پر 

بالآخر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ وہی رئیس الاحرار جنہوں نے ۱۹۳۱ء میں خطّۂ کشمیر پر ’’مرزائیت‘‘ کے چھا جانے کے خوف سے حضرت امام جماعت احمدیّہ کے صدر کشمیر کمیٹی منتخب کئے جانے پر صدائے احتجاج بلند کی۔ ۱۹۲۸ء میں موتی لال نہرو کو آل انڈیا مسلم کشمیر کانفرنس کی مسندِ صدارت پر بٹھا چکے تھے۔ چنانچہ مولوی حبیب الرحمن صاحب کی سوانح عمری میں لکھا ہے:۔
’’۱۹۲۸ء میں آل انڈیا مسلم کشمیر کانفرنس لدھیانہ میں ہوئی۔ اُس کی صدارت کے لئے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے خواجہ محمد یوسف صاحب کے ذریعے پنڈت موتی لعل نہرو کو کشمیر کانفرنس کا صدر بنایا۔ کانفر س میں بڑے بڑے مسلمان کشمیری تاجروں نے پنڈت موتی لعل کی گاڑی اپنے ہاتھ سے کھینچی۔ ایک لاکھ ہندو اور مسلمان نے اس کانفرس میں شرکت کی۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ نہرو رپورٹ کی وجہ سے پنجاب میں پنڈت موتی لعل نہرو کی ہندوؤں‘ سکّھوں اور مسلمانوں میں سخت مخالفت ہو رہی تھی۔ لیکن رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کو اِس تدبیرِ سیاست نے ہوا کا رُخ پلٹ دیا۔ پنجاب کے عام ہندو مسلمان اور سکّھوں نے پنڈت جی کی تعریف کرنا شروع کی۔ پنجاب کے اخبارات کا رُخ بھی بدل گیا۔ پنڈت موتی لعل مولانا کی اِس تدبیرِ سیاست سے بہت خوش ہوئے اور جب تک زندہ رہے برابر پنڈت جی نے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کو اپنے دوستوں اور خاص مشیروں کی فہرست میں رکھا۔‘‘ (رئیس الاحرار صفحہ ۷۵-۷۴)
اِس سنسنی خیز انکشاف کے بعد بلا تامّل تسلیم کر لینا پڑتا ہے کہ اگر کشمیر کمیٹی کی صدارت جماعت کے امام ہمام کی بجائے موتی لعل نہرو کے جانشینوں میں سے کسی کو سونپ دی جاتی ہے تو نہ اس کو انگریز کی بنائی ہوئی کمیٹی کہا جاتا نہ اُس کے بانیوں کو ’’سرکاری مسلمانوں‘‘ کے خطاب سے نوازا جاتا اور نہ یہ سوال اُٹھائے جانے کی ضرورت پیش آتی کہ ہندو صدارت سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ لاحق ہو گیا ہے کیونکہ ’’رئیس الاحرار‘‘ اور ’’امیر شریعت احرار‘‘ دونوں ہی مسلمانوں کے پُورے زور سے یہ یقین دلا چکے تھے کہ:۔
’’تم ہندوؤں سے ڈرتے ہو کہ ہمیں کھا جائیں گے۔ ارے! جو مُرغے کی ایک ٹانگ نہیں کھا سکتا وہ تمہیں کیا کھائے گا۔ ڈرنا ہندوؤں کو چاہیئے کہ تم سے کمزور ہیں۔ وہ صرف چھ صوبوں میں ہیں۔ تمام سرحدات پر تم رہتے ہو․․․․․ بھائی پر مانند اگر بُزدلی کی بات کرنا ہے تو وہ سچّا ہے۔‘‘ (رئیس الاحرار صفحہ ۲۰۵)
’’سبحان اﷲ! کہتے ہیں ہندو ہم کو کھا جائے گا۔ مسلمان پُورا اُونٹ کھا جاتا ہے پُوری بھینس کھا جاتا ہے۔ اُس کو ہندو کیسے کھا سکتا ہے جو چڑیا بھی نہیں کھا سکتا۔‘‘ (تقریر سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری بمقام ایبٹ آباد ضلع ہزارہ۔ رسالہ ترجمانؔ اسلام لاہور۲۲؍ ستمبر۱۹۶۱ء صفحہ ۱۲
’’مُرغے کی ایک ٹانگ‘‘ یا ’’ چڑیا تک نہ کھا سکنے والا‘‘ اور ’’اہنسا کا پُجاری‘‘ آج کس طرھ کروڑوں دل جیتے جاگتے مسلمانوں کو ہڑپ کرنے کی فکر میں ہے، اِس کے کے متعلق اب کچھ کہنے کی ضرورت نہیں 
ع ناطقہ سر بگربیاں ہے اسے کیا کہئیے!

****************************
1؎ تحریک آزادی ڈوگرہ راج کے سالہاسال کے بے پناہ مظالم کا ردّعمل تھا اور مسلمان اپنے مطالبات برسوں سے کرتے آ رہے تھے مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی تھی۔ مندرجہ بالا واقعہ ۵؍جون ۱۹۳۱ء کا ہے جو غلط رنگ میں لکھا گیا ہے۔ دراصل توہینِ قرآن کا ارتکاب کسی سنیاسی نے نہیں کیا ایک ہندو سارجنٹ نے کیا تھا مگر تحریک آزادی تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے نئے دَور کا آغاز اس سے چند ہفتہ قبل ۲۹؍ اپریل ۱۹۳۱ء کو ہؤا جبکہ جمّوں میں ایک آریہ ڈپٹی انسپکٹر پولیس نے ایک مسلمان خطیب کو خطبۂ عید سے روک دیا۔ 
2؎ اس کے برعکس مجلس احرار نے ۱۵؍اگست ۱۹۳۱ء کو یہ قرار داد پاس کی کہ ’’مجلسِ احرار کشمیر ایجی ٹیشن کو ہندو مسلم مسئلہ تصور نہیں کرتی۔‘‘ (’’ رئیسؔ الاحرار‘‘ صفحہ ۱۶۰)
3؎ بقول ’’رئیس الاحرار‘‘ ’’شیخ عبداللہ کو لاہور مرزائیوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں پوری مدد دی۔۔۔۔ اُنہیں آئندہ کشمیر میں اپنے مقاصد مین استعمال کرنے کے لئے اُن کا تعلق کشمیری عوام میں کشمیری راہنما کی حیثیت سے کرایا‘‘
4؎ ’’میاں صاحب سرفضل حسین ہندوئوں کی نظر میں اورنگزیب کا بروز تھے۔۔۔۔۔میاں صاحب کئی انگریز اعلیٰ افسروں کو ذلیل کر کے نکال کر چکے تھے جس کو ذرا سرکش پاتے تھے اُس کی سرکوبی پر آمادہ ہو جاتے تھے میاں صاحب کی یہ ادا انگریز کو نہ بہاتی تھی (تاریخ ؔاحرار صفحہ ۱۸۴-۱۸۵)
5؎ اِن ’’سرکاری مسلمانوں‘‘ کے اسماء گرامی اِس مقالہ کے شروع میں دئے جا چکے ہیں۔ انہیں مقتدر شخصیتوں کی نسبت چوہدری افضل حق لکھتے ہیں:۔ 
’’کچھ عافیت گوش مسلمان شملے کی بلندیوں سے بادل کی طرح ۔۔۔۔ اِن خانہ بربادرئوسا اور امراء نے غضب یہ بڑھایا کہ مرزابشیر محمود قادیانی کو اپنا قائد تسلیم کر لیا۔ جمیعۃ العلماء نے یہ کیا کہ اس بشیر کمیٹی سے تعاون کا اعلان کر دیا‘‘ (تاریخ احرار صفحہ۳۷)
6؎ واقعہ یہ ہے کہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے پہلے اجلاس میں موجود مسلم لیڈروں نے ہی یہ متفقّہ فیصلہ کیا تھا کہ ۱۴؍ اگست کو یومِ کشمیر منایا جائے لہذا مزعومہ اعلان جس کی طر اُوپر اشارہ کیا گیا ہے ایک مَن گھڑت بات کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ احرار نے یورمِ کشمیر بار بار منایا (تاریخ احرار صفحہ ۱۴)
7؎ جنہیں زعمائے احرار اپنا ’’گورُو ‘‘سمجھتے تھے۔ (تاریخ احرار صفحۃ ۳۷)
8؎ سی لئے تو احراری نمائندے ریاست کے شاہی مہمان کی حیثیت سے سرینگر میں تشریف فرما رہے ہیں۔ (تاریخ احرار صفحہ ۴۶)
9؎ مفکّرِ احرار چوہدری افضل حق صاحب نے اپنے احراری سُورمائوںکی شجاعت اور بہادری کا نقشہ بایں الفاظ میں کھینچا ہے۔‘‘ (تاریخِؔ احرار صفحہ ۱۱۱)
10؎ کتاب ’’سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری‘‘ کے احراری مصنّف لکھتے ہیں:۔
احرار کسی بھی تخلیق فکر کے مظہر نہ تھے مگر ایجی ٹیشن اور پروپیگنڈا کے فن میں بے مثال تھے۔‘‘ 
(’’سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری‘‘ صفحہ ۲۰۸)
****************************
( ماہنامہ الفرقان ، مارچ 1968 )
مکمل تحریر >>

Wednesday 4 January 2017

مولانا محمد شفیع اوکاڑوی کا ادبی سرقہ



مولانا محمد شفیع اوکاڑوی نے اپنی کتا ب ''ذکر جمیل'' جو کہ پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی سیرت کے بارے میں ہے ، ایک فارسی شعر کو علامہ اقبال کی طرف منسوب کر کے لکھا ہے لیکن اصل میں وہ علامہ اقبال کا لکھا نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود اور امام مھدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی کتاب براھین احمدیہ سے لیا گیا ہے ، وہ فارسی شعر یہ ہے 'مصطفیٰ آئینۂ روئے خداست , منعکس دروے ہماں خوئے خداست' اس کا اردو ترجمہ یہ ہے کہ ' مصطفیٰ تو خدا کے چہرہ کے آئینہ ہیں ، ان میں خدا کی صفات منعکس ہیں ' یہ ہے وہ خوبصورت کلام جو عشق رسول کی ایک بہترین مثال ہے ، لیکن افسوس کہ مولوی صاحب نے صرف دنیا سے خوف کر کے اس شعر کے لکھنے والے کا نام نہیں لیا اور اقبال کا نام لکھ کر سیرت نبوی کے نیک کام میں بھی جھوٹ سے کام لیا ۔




مکمل تحریر >>

فارسی الہام کا حوالہ اور سکین




بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے فرمایا ہے ( ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۵۹۸) کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو فارسی زبان میں الہام '' ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چہ کنم '' ہوا۔ اس کا حوالہ دو؟یہ الہام کتاب کوثر النبی ؐباب الفاء میں ہے ، حوالہ پیش خدمت ہے ۔







مکمل تحریر >>

محمدی بیگم کے بیٹے کا ایک اہم تاریخی مضمون

بسم اﷲ الرحمن الرحیم 
احباب کرام! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ! 
پیشتر اس کے کہ میں اپنا اصل مدعا ظاہر کروں، یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ وﷲ میں کسی لالچ یا دنیوی غرض یا کسی دباؤکے ماتحت جماعت احمدیہ میں داخل نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ایک لمبے عرصہ کی تحقیق حق کے بعد اس بات پر ایمان لایا ہوں کہ حضرت مرزا صاحبؐ اپنے ہر دعویٰ میں صادق اور مامور من اﷲ ہیں۔ اور اپنے قول و فعل میں ایسے صادق ثابت ہوئے ہیں کہ کسی حق شناس کو اس میں کلام نہیں ہو سکتا۔ آپ کی تمام یپشگوئیاں ٹھیک ٹھیک پوری ہوئیں۔ یہ الگ سوال ہے کہ بعض لوگ تعصب یا نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض پیشگوئیوں کو پیش کر کے عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ مثلاً ان میں سے ایک پیشگوئی مرزا احمد بیگ صاحب وغیرہ کے متعلق ہے اس پیشگوئی کو ہر جگہ پیش کر کے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کا پورا ہونا ثابت کرو۔ حالانکہ وہ بھی صفائی کے ساتھ پوری ہو گئی۔ میں اس پیشگوئی کے متعلق ذکر کرنے سے پیشتر یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی تھی اور ایسی انذاری پیشگوئیاں خدا تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ اس لئے کرایا کرتا ہے کہ جن کے متعلق ہوں ان کی اصلاح ہو جائے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ ہم انبیاء کو نشانات اس لئے دیتے ہیں کہ لوگ ڈر جائیں۔
اس میں اﷲ تعالیٰ نے یہ اصل بیان فرما دیا ہے کہ ایسی انذاری پیشگوئیاں لوگوں کی اصلاح کی غرض سے کی جاتی ہیں۔ جب وہ قوم اﷲ تعالیٰ سے ڈر جائے اور اپنی اصلاحیت کی طرف رجوع کرے تو اﷲ تعالیٰ اپنا معلق عذاب بھی ٹال دیتا ہے، جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ نیز حضرت موسیٰؑ کی قوم کے حالات وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْھِمْ الرِّجْزُ(اعراف :۱۳۵)  سے ظاہر ہے۔ اس صورت میں انذاری پیشگوئی کا لفظی طور پر پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ یہی نقشہ یہاں نظر آتا ہے کہ جب مرزا صاحبؐ کی قوم او ررشتہ داروں نے گستاخی کی، یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی ہستی سے انکار کیا، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور قرآن پاک کی ہتک کی اور اشتہار دے دیا کہ ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے تو اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ کے مامور کے ذریعہ پیشگوئی فرمائی۔ اس پیشگوئی کے مطابق میرے نانا جان مرزا احمد بیگ صاحب ہلاک ہو گئے، اور باقی خاندان ڈر کر اصلاح کی طرف متوجہ ہو گیا۔ جس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثر نے احمدیت قبول کر لی۔ تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی صفتِ غفور الرحیم کے ماتحت قہر کو رحم سے بدل دیا۔
چونکہ اس پیشگوئی کا تعلق میرے والد صاحب ( مرزا سلطان محمد بیگ صاحب آف پٹی ) کے ساتھ بھی تھا اس لیے وہ بھی خوف میں مبتلا ہوئے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے  مرزا صاحب سے حسن عقیدت کے متعلق مختلف اوقات پر اپنا اظہار خیال بذریعہ خطوط فرمایا نہ صرف خیال ظاہر فرما دیا بلکہ معاندین سلسلہ کے اکسانے پر انہیں صاف جواب دے دیا۔ مثلاً ہندوئوں عیسائیوں اور مسلمانوں نے ہزاروں روپے کا لالچ دے کر اس بات کی کوشش کی۔ کہ آپ اس امر کا اعلان کر دیں کہ وہ پیشگوئی کی وجہ سے نہیں ڈرے لیکن آپ نے ہر گز ان کی بات نہ مانی۔
احمدیت کے متعلق ان کی حسن عقیدت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جس طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ، کے والد ابو طالب بعض دینوی مشکلات کی وجہ سے نبی کریم ﷺ کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے تھے ۔ لیکن حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ ، کو بیعت کر لینے سے نہیں روکا تھا۔ اسی طرح جب میں بھی خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیزکی بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہوا تو آپ بجائے کسی قسم کی طعن و تشنیع کرنے کے خوش ہوئے۔ اگرچہ میرے والد صاحب کا تا حال احمدیت میں داخل نہ ہونا پیشگوئی کے پورے ہونے میں کسی طرح بھی مانع نہیں ہو سکتا تھا۔ تاہم خدا تعالیٰ نے یہ روک بھی دور کر دی۔ اور مجھے اللہ تعالیٰ نے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی فالحمدللہ علی ذلک ۔ 
میں پھر زور دار الفاظ میں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی بھی پوری ہو گئی۔
میں ان لوگوں سے جن کو احمدیت قبول کرنے میں یہ پیشگوئی حائل ہے عرض کرتا ہوں کہ وہ مسیح الزمان پر ایمان لے آئیں۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، یہ وہی مسیح موعود ہیں جن کی نسبت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی اور ان کا انکار نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا انکار ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا ہی درست فرمایا ہے۔ ؂
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے 
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار 
اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا 
پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار 
خاکسار مرزا محمد اسحٰق بیگ، پٹی ضلع لاہور۔ حال وارد چک نمبر ۱۶۵۔ ۲ بی ‘‘

مکمل تحریر >>

Sunday 11 December 2016

علامہ نیاز فتحپوری اور جماعت احمدیہ


میں اور احمدی جماعت

(نیازفتحپوری)
جب سے میں نے احمدی جماعت کے متعلق اظہار خیال شروع کیا ہے اسی وقت سے مجھے یقین ہے کہ دنیا کو سب سے پہلے یہی جستجو ہوگی کہ وہ شخص جو اپنے عقائد کے لحاظ سے دہریہ یا ملحد قسم کا انسان ہے کیوں احمدی جماعت کی موافقت کر رہا ہے اور مرزا غلام احمد صاحب کیا کیوں اس قدر معترف ہے اور اسی کے ساتھ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس جستجو میں کتنی بد گمانیاں پیدا ہوگئیں ۔ چنانچہ اس دوران میں جو خطوط ہندوستان پاکستان کے دور دراز گوشوں سے موصول ہوئے اُن سے میرے اس خیال کی تصدیق ہوتی ہے ۔
نمونہ کے طورپر ایک خطہ ملاحظہ ہو یہ خط چمن کے ایک صاحب شیخ عبدا للہ کا ہے لکھتے ہیں کہ
’’ اخبار والے ہمیشہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ کوئی ایسا مضمون ہاتھ آجائے کہ خریداروں میں زبردست اضافہ ہو جائے ۔ اس لئے آپ کی موجودہ قلابازی پر کوئی تعجب نہیں ۔ پہلے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ آپ دہریہ ہیں اب یہ خیال ہے کہ آپ مرزائی قادیانی ہوگئے ہیں یا ان سے کوئی رشوت عظیم کھائی ہے لہذا آپ کی باتیں کوئی وز ن نہیں رکھتیں جب تک آیات قرآنی اور حادیث اس کی تائید میں نہ ہوں ۔ آئندہ اگر نگار میں قادیانی مذہب کی حمایت کا ارادہ ہو تو قرآن و حدیث سے لیس ہو کر میدان میں آئیں ‘‘
اس سلسلہ میں تین الزام مجھ پر عائد کئے جاتے ہیں ایک یہ کہ اس سے میرا مقصود صرف نگار کی توسیع اشاعت ہے ۔ دوسرے یہ کہ میں احمدی ہوگیا ہوں لیکن بدنامی کے اندیشہ سے اسے کھل کر ظاہر نہیں کرتا۔ تیسرے یہ کہ تبلیغ احمدیت کے لئے مجھے احمدی جماعت کی طرف سے (ان کے الفاظ میں ) ’’کوئی رشوت عظیم‘‘ ملی ہے ۔
ان میں کوئی خیال ایسا نہیں جو انوکھا ہو ۔ کیوں کہ دنیائے صحافت و تبلیغ میں ایسی متعدد مثالیں موجودہیں کہ محض ذاتی اغراض کی بناء پر لوگوں نے اپنا Greed بدل دیا ۔ مذہب بدل دیا، اپنی وطینت و قومیت بدل دی ۔ لیکن جس حد تک نگار اور میری ذات تعلق ہے اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہناچا ہتا کہ 
 گفتہ بودی ہمہ زرق اندوفریب اندروفسوس 
سعدی آں نیست ولیکن چوتو فرمائی ہست
ساری دنیا کو معلوم ہے کہ نگار کا ایک خاص حلقہ ہے ۔ ان حضرات کا جو ادب سیاست و مذہب ہر چیز میں آزادی فکر و خیال کے حامی ہیں اسی لئےاس وقت بھی جب پورے ہندوستان میں میرے اور نگار کے خلاف الزام دہریت و الحاد کا طوفان برپا تھا ۔ نگار کی اشاعت پر کوئی اثر نہیں پڑا اور ایک اچھی خاصی جماعت میری ہمنوا ہوگئی ۔
اسی لئے ظاہر ہے کہ اس صورت میں حمایت احمدیت میں میرا کچھ لکھنا ، نگار کے لئے باع نقصان ہی ہو سکتا تھا نہ کہ نفع بخش کیونکہ اس طرح لوگوں کو یہ خیا ل پیدا ہوسکتا تھا کہ میں مذہب کے باب میں رجعت پسند ہوگیا ہوں اور وہ نگار سے دست کش ہو جاتے بنابریں یہ قیاس کرنا کہ یہ سب کچھ میں توسیع اشاعت نگار کے لئے کررہا ہوں ۔ کسی طرح درست نہیں ہو سکتا ۔ اب رہا یہ پہلو کہ اس سے مقصود یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس طرح احمدیت جماعت میں نگار کے زیادہ خریدارپیدا ہو جائیں گے ۔ سو یہ بھی نہایت کمزور پہلوہے ۔ کیونکہ اول تو احمدی جماعت کو اس کی چنداں ضرورت ہی نہیں اور ان کا پروپنگیڈہ کرے دوسرے یہ کہ احمدی جماعت مشکل ہی سے باور کر سکتی ہے کہ میں کسی وقت احمدی ہو سکتا ہوں ، کیونکہ جس حد تک عقائد کا تعلق ہے میرے اور ان کے درمیان کافی اختلاف ہے ۔ رہی تیسری بات ’’رشوت عظیم‘‘ کی سو اس سلسلہ میں  سب سے پہلے یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہیں رشوت دینے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ جب کہ ان کے سارے کام بغیر رشوت کے ہی اچھی طرح چل رہے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ حقیقت کے لحاظ سے بھی یہ الزام غلط ہے اورمیرا یہ کہنا غلط نہیں ہوسکتا کیونکہ بصورت دیگر کم ازکم احمدی جماعت تو یقینا سمجھ جاتی  کہ میں کس قدر جھوٹا و لغو انسان ہوں کہ باوجود رشوت لینے کے میں اس سے انکار کر رہا ہوں اور میں ان کی نگاہ میں اپنے آپ کو ذلیل کرنا پسند نہ کرتا ۔
بہرحال اس قسم کی بد گمانیوں کی پرواکئے بغیر میں ایک بار پھر نہایت صداقت کے ساتھ یہ ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ میں تو ان کی عملی زندگی کا یقینا مداح ہوں اور اگر میں بانی احمدیت کی تعریف کرتا ہوں تو اسی لئے کہ وہ مسلمانوں صحیح راستہ پر کھنیچ لائے اور احساس اجتماعی کا وہ زبردست ولولہ اپنی جماعت میں پیدا کر گئے جس کی نظیرمسلمانوں کی کسی دوسری جماعت میں نہں ملتی ۔ 
رہا یہ مطالبہ کہ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اس جماعت کے معتقدات پر گفتگو کروں ۔۔۔۔ تو مجھے اس مطالبہ پر سخت حیرت ہے کیوں کہ جب تک پہلے یہ نہ ثابت کر دیا جائے کہ احمدی جماعت قرآن و حدیث کی تعلیمات سے منحرف ہے اس وقت تک قرآن و حدیث سے استدلال کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ بلکہ میں تو الرغم اس الزام کے یہ دیکھتا ہوں کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات پر عمل کرنے کا جو جذبہ ان مین پایا جاتا ہے وہ دوسری مسلم جماعتوں میں نظر ہی نہیں آتا ۔ 
سب سے بڑا الزام جو ان پر قائم کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ختم نبوت کے قائل نہیں ۔ حالانکہ اس کے زیادہ لغو اور غلط بات اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی ۔ مرزا غلام احمد نہ صرف یہ کہ رسو ل خدا ﷺ کو خاتم النبین سمجھتے تھے ۔ بلکہ شریعت رسول کو بھی آخری شریعت تسلیم کرتے تھے ۔ حیرت ہی کہ لوگوں کو ان کی طرف سے کیوں یہ غلط خیال قائم ہو گیا اور ان کی تصنیفات کا مطالعہ کئے بغیر محض دوسروں کے کہنے پرکیوں یقین کر لیا گیا ۔ 
اس سلسلہ میں ضرور ایک بات بحث طلب ہے کہ مہدی موعود یا مثیل مسیح ہونے کے سلسلہ میں انہوں جو کچھ کہا ہے وہ کس حد تک قابل قبو ل ہے سو میں اس کا زیادہ اہمیت نہیں دیتا کیونکہ اگر میں ان روایات کو درست نہ سمجھوئوں جو مہدی موعود اور ظہور دجال کے متعلق بیان کی جاتیں ہیں تو بھی یہ حقیقت بدستور اپنی جگہ پرقائم ہے ۔ کہ مرزا صاحب نے اسلام کی بڑی گراں قدر خدمات سرانجام دیں ۔ اور اصل چیز یہی ہے۔
 جس حد تک عقائد کا تعلق ہے ۔ عامتہ المسلین اور ان کے درمیان کوئی اختلا ف نہیں ۔ دونوں خدا کی وحدانیت کے قائل ہیں ۔ دونوں رسول اللہ کو خاتم النبین سمجھتے ہیں ۔ دونوں قرآن کو خدا کا کلام جانتے ہیں ۔ دونوں استناد بل حدیث پر عامل ہیں ۔دونو ں بقاء روح ، حیاب بعد الموت ، حشر ونشر، جزاوو سزا ، بہشت دوزخ اور معجزہ وغیرہ کے قائل ہیں ۔
اس لئے عام مسلمانوں کو تو ان کے خلاف کہنے کا کچھ مواقع ہی نہیں ۔ رہی یہ بات کہ آپ کیوں یہ بات مانیں کہ مرزا صاحب مجدد تھے مہدی موعود تھے ۔ مثیل مسیح تھے وغیرہ وغیرہ ۔ سو اول تو اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اگر ہو بھی تو بھی آپ کا انکار کے لئے معقول وجہ موجود نہیں ۔ سوائے اس کے کہ آپ یہ کہیں کہ ایسا یقین کرنے کو ہمارا جی نہیں چاہتا برخلاف اس کے وہ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں متعدد روایات ایسی پیش کرتے ہیں جن کی صحت سے آپ کو بھی انکار نہیں اورپھر اس کو بھی جانے دیئجے ۔ خود مرزا صاحب کی زندگی اور ان کا کردار بجائے خود ان کے دعویٰ کا زبردست ثبوت ہے ۔ مشکل تو میرے لئے ہے کہ میرے نزدیک خدا ،رسول ، قرآن ، معجزہ، روح، معاد ، وحی الہام وغیرہ تمام مسائل کا مفہوم کچھ اورہے ۔ جو یقینا احمدی اور غیراحمدی دونوں جماعتو ں کے بالکل علیحدہ ہے ۔ لیکن آپ باوجود اس  کے کہ میرزا صاحب کو برا کہنے کی کوئی دلیل اپنے پاس نہیں رکھتے انکے مخالف ہیں ۔ اور میں ا ن کے بہت سے معتقدات کا اصولاً قائل نہیں ان سے محبت کرتاہوں ، ان کی بڑی عظمت اپنے دل مین پاتا ہوں ، میں ان کو بہت بڑا انسان سمجھتا ہوں ۔ ایسا کیوں ہے ؟ غالباً اس لئے کہ آپ حقیقت کو ڈھونڈتے ہیں کتابوں میں ، میں اس کی جستجو کرتا ہوں دلوں میں ۔ اورمرزا غلام احمد کے دل میں نے اسی حقیقت  کو جلوہ گر پایا ۔ 
مجھے روایات مین نہ اُلجھائے ورنہ میں وہی عقل ہرزہ کار کی باتیں شروع کر دو نگا جو چالیس سال کی کوشش کے بعد بھی مجھے نہ انسان بنا سکیں کسی اور کو ، حالانکہ مرزا صاحب نے اپنی بہت سی سمجھ میں نہ آنے والی باتوں ہی سے نہ جانے کتنے حیوانوں کو انسان بنا دیا ۔
دلشتان مابین الخل و الخمر
(نگار ، دسمبر 1960 صفحہ 28 تا 30)

انتخاب از : ملاحظات نیاز فتحپوری





مکمل تحریر >>