Wednesday 9 November 2016

علامہ اقبال اور ضرور ت مصلح


تحریر فرمودہ: مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل (مرحوم )

علامہ اقبال پروفیسر نکلسن کو اپنے مکتوب میں رقمطراز ہیں :
’’ہمیں ایک ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشری مسائل کی پیچیدگیاں سلجھائے  اور بین الملّی اخلاق کی بنیاد مستحکم و استوار کردے‘‘۔
( دیکھئے مکاتیب اقبال صفحہ ۴۶۰ تا۴۶۴)  
اور پھر اسی خط میں پروفیسر مکینزی کی کتاب انٹروڈکشن ٹو سوشیالوجی  کے دو پیراگراف لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ دو پیراگراف کس قدر صحیح ہیں۔ انہیں لفظ بلفظ نقل کردیتاہوں:
(۱)’’غالباً ہمیں پیغمبر  سے بھی زیادہ عہد نو کے شاعر کی ضرورت ہے  یا ایک ایسے شخص کی جوشاعری اور پیغمبری  کی دوگونہ صفات  سے متصف ہو‘‘۔
  (۲) ’’ہمیں ایسے شخص کی ضرورت ہے  جو درحقیقت روح القدس کاسپاہی ہو‘‘ ۔
یہ پیراگراف درج کرنے کے بعد علامہ اقبال تحریر فرماتے ہیں  :
’’میرے افکار  کامطالعہ کریں ۔ ہمارے عہدنامے اور پنچائتیں جنگ و پیکار   کو صفحہ ہستی سے  محو نہیں کر سکتیں کوئی بلند مرتبہ شخصیت ہی ان مصائب کا خاتمہ کر سکتی ہے اور اس شعر میں مَیں نے اسی کو مخاطب کیاہے   ؎
باز در عالم بیار ایاّمِ صلح
جنگجوئیاں را بدہ پیغامِ صلح
(مکاتیب اقبال جلد ۱ صفحہ ۴۶۰ تا ۴۶۴)   
کہ پھر دنیا میں صلح کے ایا م لا اورجنگجو قوموں کو صلح کا پیغام دے ۔
        پھر مکاتیب اقبال جلد ۱ صفحہ ۴۱ میں لکھتے ہیں :
’’کاش کہ مولانا  نظامی کی دعا اس زمانے میں مقبول ہو اور رسول اللہ صلعم پھرتشریف لائیں اور ہندی مسلمانوں پر اپنا دین بے نقاب کریں‘‘۔
یہ ضرورت نبوت کے قائل ہونے کا علامہ اقبال جیسے  آدمی کی طرف سے واضح اعتراف ہے  ۔ ان کے نزدیک  دنیامیں روحانی انقلاب  پیدا کرنا علماء کے بس کی بات نہیں کیونکہ اپنے زمانہ کے علماء   کی حالت کا نقشہ وہ یوں کھینچتے ہیں  ؎
مولوی بیگانہ از اعجازِ عشق
 ناشناس نغمہ ہائے سازِ عشق
(اسرار ورموز صفحہ ۶۸)   
مولوی عشق کے معجزے سے بیگانہ ہے اور عشق کے ساز کے نغموں سے ناشناس ہے ۔ واعظوں،  شیوخ اور صوفیاء کا حال دگرگوں یوں بیان کرتے ہیں     ؎
شیخ در عشقِ بتاں اسلام باخت
رشتۂ تسبیح را  زنّار ساخت
(اسرار ورموز صفحہ ۷۹)    
شیخ نے بتانِ مجازی کے عشق میں اسلام  کو ہار دیاہے اور تسبیح کے رشتہ کو زناّر بنا دیاہے ۔
واعظاں ہم صوفیاں منصب پرست
اعتبارِ ملّتِ بیضا شکست
 واعظ اور صوفی منصب پرست ہو گئے ہیں اور انہوں نے ملتِ بیضا کااعتبار توڑ دیاہے۔
واعظ ما چشم بر بتخانہ دوخت
مفتی ٔ دینِ مبیں فتویٰ فروخت
ہمارے واعظ نے نگاہ بتخانہ پرجمادی ہے تو مفتیٔ دین  نے فتویٰ فروخت کرنا شروع کر دیاہے۔
چیست یاراں بعد ازیں تدبیرِ ما
رخ سُوئے میخانہ دارد پیر ما 
اے دوستو ! اس کے بعد اب ہماری کیا تدبیر  ہو سکتی ہے  ۔ ہمارے پیر صاحب تومیخانہ کی طرف رخ کئے ہوئے ہیں ۔(اسرار و رموز صفحہ ۷۹)
اس کا علاج یہی تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی توجہ روحانی سے آپؐکاکوئی ظل اور بروز ظاہر ہوکر روحانی انقلاب کی نئے سرے سے  بنیاد رکھتا ۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے عین وقت پر مسیح موعود کو بھیج کر  امت محمدیہ کی دستگیری  فرمائی ۔ حضرت مرزا صاحب ؑ فرماتے ہیں  ؎
وقت تھا وقت ِ مسیحا  نہ کسی اور کاوقت
میں نہ آتاتوکوئی اور ہی آیا ہوتا
(ماخوذ از کتاب ’’شان خاتم النبیین‘‘ صفحہ ۸۱۔۸۳)





مکمل تحریر >>

Tuesday 8 November 2016

احمدیت اور اس کے اصول



(تحریر : مکرم مولانا عبدالرحمن صاحب مبشر (مرحوم) مصنّف کتاب ’ بشارات رحمانیّہ‘)


احمدیت خدا کا ایک قائم کردہ سلسلہ ہے جو اسی اصل اسلام کا دوسرا نام ہے۔ جسے آج سے تیرہ سو سال قبل ہادی برحق حضرت محمد عربی  ﷺ (فداہ روحی) نے خدا کے حکم سے قائم کیاتھا۔ اگر یہ سلسلہ جیسا کہ سمجھا جاتا ہے نعوذباللہ اسلام کی ضد یاا س کا مخالف ہوتا تو اس کے ایسے اصول ہوتے جو اسلام کے سراسر خلاف ہوتے۔ جیسا کہ بہائیت اور عیسائیت وغیرہ کے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں۔
 اسلام کے پانچ بڑے اصول جیسا کہ آپ کو معلوم ہے یہ ہیں۔ (اول) کلمہ شہادت یعنی گواہی دینا کہ اللہ ایک ہے اور محمد ﷺاس کے رسول ہیں۔ (دوم) نماز کا قائم کرنا۔ (سوم) زکوٰۃ دینا (چہارم) رمضان شریف کے روزے رکھنا(پنجم) اگر توفیق ہو تو حج کرنا۔ 
اسی طرح اسلام نے جن باتوں پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے وہ یہ ہیں (1)اللہ تعالیٰ پر(2)اس کے فرشتوں پر(3)اس کے رسولوں پر (4) اس کی کتابوں پر (5) بعث بعد الموت پر (6) اور تقدیر پریقین رکھنا۔ یہی اصل الاصول ہیں۔جو اعتقادات اور اعمال کا مرکزی دائرہ ہیں۔ باقی تمام فروعات ہیں جو اِن کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ 
جماعت احمدیہ کے بعینہٖ بغیر کسی قسم کے فرق کے مذکورہ بالا عقائد ہیں اور ایسے شخص کے لئے جوان عقائد پر سختی سے پابند نہ ہو جماعت احمدیہ کے دروازے بکلی بند ہیں۔ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ اپنی کتاب ’’ایام الصلح‘‘ کے صفحہ 87پر فرماتے ہیں۔
 ’’اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور سیدنا حضرت محمدمصطفی ﷺ اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں۔ کہ جو کچھ اللہ جلّ شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرّہ کم کرے یا ایک ذرّہ زیادہ کرے یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے۔ اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لاالہ الا اللّہ محمّد رسول اللّہ اور اس پر مریں اور تمام انبیاء علیہم السلام اور تمام کتابوں پر جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ایمان لاویں اور صوم وصلوٰۃ او زکوٰۃ وحج اور اسی طرح خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں۔ غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالح کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا۔ اور وہ امور جواہل سنت کی اجماع سے اسلام کہلاتے ہیں۔ ان سب کا ماننا فرض ہے اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں۔ کہ یہی ہمارا مذہب ہے۔‘‘ 
چنانچہ جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے اسلام کے تمام اصولوں پر عملی رنگ میں سختی سے کاربند ہے اور انہیں اصولوں کو دنیا میں رائج کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ مخالفین اسلام کی دشمنی کا باعث بھی یہی ہے کہ یہ جماعت انہیں اپنے راستے میں روڑا نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ باقی تمام اسلامی جماعتوں کو چھوڑ کر صرف اور صرف اس جماعت کے درپے آزار نظر آتے ہیں۔ اور جہاں کہیں اس جماعت سے کسی قسم کا مقابلہ ہو تو تمام غیر مسلم جماعتیں اس کے خلاف محاذ میں جمع ہوتی ہیں۔ پس یہ بات بھی اس جماعت کے صحیح اسلامی جماعت ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ مذکورہ بالا حوالہ سے آپ پر واضح ہو گیا ہوگا کہ جماعت احمدیہ صحیح معنوں میں اسلامی جماعت ہے اور مخالفین احمدیت کا اسے اسلام کے خلاف قرار دینا سراسر بہتان اور ظلمِ عظیم ہے۔ 
جماعت احمدیہ کے مخصوص عقائد جو اسے دوسری جماعتوں سے ممتاز کرتے ہیں یہ ہیں۔
 (اول) اس جماعت کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کے متعلق قرآن کریم میں رسولا الیٰ بنی اسرائیلآیا ہے وہ فوت ہو چکے ہیں۔ وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئیں گے اور اس عقیدہ کی بنیاد قرآن و حدیث اور تاریخی ثبوتوں پر ہے۔ 
(دوم) حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانے میں مامور ہو کر آئے ہیں اور آپ ہی وہ مسیح موعود ہیں۔ جن کی پیشگوئی احادیث میں آئی ہے۔ بلکہ ادیان کل کے موعود ہیں۔ 
(سوم) آپ اس صدی کے مجدد ہیں اور آنحضرت ﷺ کا فرمان کہ ان اللّٰہ یبعث لہذہ الامۃ علیٰ رأسکل مائۃ سنۃمن یجدد لہا دینھا (ابن ماجہ) یعنی اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر اس امت میں ایک شخص کھڑا کرے گا ۔ جو اس دین کی تجدید کرے گا۔ یہ پیشگوئی آنجنابؐ کی جس طرح گذشتہ صدیوں میں پوری ہوئی۔ اسی طرح اب بھی ہو گئی ہے ۔ اورہمیشہ ہوتی رہے گی۔
 (چہارم) آنحضرت خاتم النبیین ہیں۔ یعنی آپ ہی کے ذریعہ سے اب انسان تمام کمالات روحانیہ حاصل کر سکتا ہے۔ جس طرح آپ ؐپر نبوت ختم ہے اسی طرح ولایت، کرامت، شرافت، بلکہ انسانیت بھی آپ ؐ پر ختم ہے اور یہ تمام کمالات جو بنی نوع کی ذاتی اصلاح یا دوسروں کی اصلاح و درستگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب آپ ہی کے ذریعہ اور پیروی سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ 
چنانچہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے جہاں کہیں نبوت یا رسالت کے الفاظ اپنے متعلق استعمال کئے ہیں وہاں اس بات کو ہر جگہ واضح کیا ہے کہ یہ تمام کمالات مجھے اسی منبع فیض وبرکات سے حاصل ہوئے ہیں جن کا نام نامی اسم گرامی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہے حضور اپنی کتاب ’’حقیقۃ الوحی‘‘ کے صفحہ 116پر فرماتے ہیں۔
 ’’ وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذرّیت شیطان ہے۔ کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیاگیا ہے جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے ہم کافر نعمت ہوںگے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اس نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے پائی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں۔ اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منوّر رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں۔ ‘‘ 
پس آپ کی نبوت آنحضرت ؐ کی نبوت کی غیر نہیں اور خاتم النبیین کے اعلیٰ اعزاز کی حقیقت واضح کرنے والی ہے۔ 
(پنجم) قرآن کریم میں کوئی حکم یا آیت منسوخ نہیں اس کا ایک ایک حرف اسی طرح قابل عمل ہے جس طرح وہ قابل تلاوت ہے۔
 (ششم) خدا تعالیٰ اب بھی اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے جیسا کہ پہلے کیا کرتا تھا۔ اور اب بھی وہ اپنے برگزیدہ لوگوں کو دنیا کی طرف مصلح بنا کر بھیجتا ہے جیسا کہ پہلے بنا کر بھیجا کرتا تھا جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مَنَ الْمَلٰئِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ اللہ تعالیٰ چنتا ہے فرشتوں اور انسانوں میں سے رسول۔
 (ہفتم) اسلام کی تعلیم اپنی صداقت اور دلائل کے رو سے لوگوں کے دلوں کو فتح کرے گی اس کیلئے ظاہری زور یعنی تلوار چلانے کی ضرورت نہیں۔ اور لا اکراہ فی الدین( دین میں کوئی جبر نہیں) والا حکم اب منسوخ نہیں ہوگیا بلکہ واجب العمل ہے پس ایسا جہاد … جس میں تلوار کے ذریعہ سے کسی کو اپنے عقیدہ کا قائل کروانا مقصود ہو ہر گز ہرگز جائز نہیں کیونکہ تلوار کی حکومت جسم پر ہوگی روح پر ہر گز نہیں ہو سکتی۔ اور اسلام انسانی روح پر اپنی حکومت کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ اسلام نے تو ظاہری اقرار اور باطنی انکار کا نام منافقت رکھا ہے اور اس کی سزا دوزخ کا سب سے نچلا حصہ قرار دیا ہے۔ پس تلوار کے ذریعہ مذہب پھیلانا اسلام کے منشاء کے سراسر خلاف ہے اور ایسا مہدی جو اسلام کو تلوار کے ذریعہ سے غلبہ دے کبھی نہیں آئے گا۔ ہاں حسب ضرورت بعض شرائط کے ساتھ جہاد بالسیف بھی جائز ہے اور اس کا حکم منسوخ نہیں ہے اور نہ ہوگا۔
 (ہشتم) تمام مسلمانان عالم بلکہ تمام دنیا کی اصلاح خواہ وہ معاشرتی، تمدنی، عملی یا اعتقادی ہو۔ اب احمدیت سے وابستہ ہے اور وہ سنہری اصول جو احمدیت نے اس بارے میں دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں جو اصل اسلام ہی کے اصول ہیں ان پر چلنے سے دنیا کی نجات ہے۔ 
(نہم) احمدیہ جماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ دوسرے مذاہب کی عیب چینی کرنے کی بجائے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنی چاہئیں۔ کیونکہ کسی کی کمزوری بیان کرنے سے اپنی بڑائی ثابت نہیں ہوسکتی۔ بلکہ ہماری تعلیم کی برتری ہی ہمارے مذہب کی برتری ثابت کرسکتی ہے۔ ہاں جوابی طور پر مجبواراً اگر دوسرے کی اعتقادی کمزوریاں اور مذہبی خامیاں بیان کرنی پڑیں تو ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ مگر وہ بھی ایسی قوموں کے مقابلہ میں جن کا کام ہی ہمیشہ بد گوئی اور بد زبانی کرنا ہو۔ ورنہ نہیں اور یہی دنیا میں قیام امن کا ذریعہ ہے۔ جس پر یہ جماعت کاربند ہے۔ 
(دہم) خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر زمانہ اور ہر قوم میں جتنے بھی مامور اور مصلح آئے ہیں۔ وہ سب واجب الاحترام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت تمام مصلحین کو خاص عزت کی نگاہ سے دیکھتی اور ہر جگہ علی الاعلان اس کا ذکر کرتی ہے۔ 
(یازدہم) اس جماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منکر اور اس کے دین کے مخالف اگر وہ انہیں اپنی رحمت کاملہ سے بخش نہ دے۔ ایک ایسے مقام پر رکھے جائیںگے جسے ہم جہنم کہتے ہیں۔ اور جس میں آگ اور شدیدسردی کا عذاب ہو گا۔ جن کی غرض محض تکلیف دینا نہیں ہو گی۔ بلکہ اس میں ان لوگوں کی آئندہ اصلاح مد نظر ہو گی۔ حتیٰ کہ وہ دن آجائے جب اللہ تعالیٰ کا رحم جو ہر چیز پر غالب ہے۔ ان کو ڈھانپ لے اور یأتی علیٰ جہنم زمان لیس فیہا احد و نسیم الصبا یحرک ابوابہا (تفسیر معالم التنزیل زیر آیہ فاماالذین شقوا الخ) جہنم پر ایک وقت ایسا آئے گا جب کہ اس میں ایک متنفس بھی نہیں رہے گا اور باد صبا اس کے دروازے کھٹکھٹائے گی۔کا وعدہ پورا ہو جائے۔ 
یہ عقائد جو اختصاراً میں نے یہاں درج کئے ہیں۔ صحیح اور قابل قبول ہیں اور ان کی رو سے تمام مذاہب باطلہ پر اسلام کی صداقت اور برتری ثابت کر کے ان کے متبعین کو اسلام کی طرف مائل کیا جاسکتا ہے۔ 
محترم بھائیو! حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو جب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا کہ اٹھو اور دنیا کی اصلاح کرو تو سوائے تعمیل حکم کے آپ کیلئے اور کونسی راہ ہوسکتی ہے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں     ؎
اس میں میرا جرم کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا
کون ہوں تا رد کروں حکم شہہ ذوالاقتدار
اب تو جو فرماں ملا اس کا ادا کرنا ہے کام
گرچہ میں ہوں بس ضعیف وناتوان و دلفگار
خدا را آپ اتنا تو سوچیں کہ کیا مفتری انسان کبھی بارور اور کامیاب ہو سکتا ہے۔ اور کبھی عالم الغیب خدا اس کی تائید اور تصدیق میں وہ نشانات ظاہر کرسکتا ہے۔ جو کسی سچے موعود کے بارے میں گزشتہ صحیفوں میں مرقوم ہوں۔ مثلاً دار قطنی کی حدیث ان لمہدینا اٰیتین (الحدیث) کے مطابق 1311ہجری میں سورج اور چاند کو رمضان شریف کے مہینہ میں گرہن لگنا،دمدار ستارے کا ظاہر ہونا، پھر مسلم کی حدیث ولیترکن القلاص فلا یسعی علیہا کہ مسیح موعود ؑ کے زمانہ میں ایک ایسی سواری نکلے گی کہ اونٹ بیکار ہو جائیں گے، کے مطابق ریل اور دوسری تیز رفتار سواریوں کا ایجاد ہونا پھر صلیبی مذہب کا اطراف عالم میں پھیلنا، یاجوج ماجوج آگ کے ہتھیار استعمال کرنے والی آگ بگولا ہونے والی اور آگ سے ہی تمام کاروبار کرنے والی قوم کا اونچی اور نیچی جگہوں پر پھیلنا۔ پھر دریاؤں کا پھاڑے جانا اور نہروں کا نکالا جانا ، اسی طرح صحائف کا پھیلنا، اخبارات کا کثرت سے شائع ہونا، طاعون کا پڑنا، زلازل کا آنا، جنگوں کی کثرت ، کیازمین وآسمان کا اس قدر آپ کے زمانے میںنشانات ظاہر کرنا اہل تقویٰ کی چشم بصیرت کھولنے کیلئے کافی نہیں؟ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں مفتری کے ناکام ونامراد مرنے اور اس کے ذلت سے بے یارومددگار مارے جانے کے متعلق جو قوانین بیان کئے ہیں۔ ان کا برعکس ہونا یعنی بجائے ناکام ونامراد مارے جانے کے آپ کا بامراد وکامیاب زندگی گزارنا اور اسلام کے فدائیوں کی ایک عظیم الشان جماعت پیدا کرنا۔ جن کے متعلق مخالف وموافق سب کا یک زبان ہو کر گواہی دینا کہ یہ جماعت اسلام کی بڑی خدمت کرنے والی فعال جماعت ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے ساتھ سچے مامورین جیسا سلوک ہونا ہر موقع پر خداتعالیٰ کا آپ کی سپر بننا۔ کیا یہ سب باتیں کسی مفتری کو میسر آسکتی ہیں۔ چشم فلک نے کبھی ایسا نظارہ نہیں دیکھا کہ   ؎
 ذلت ہیں چاہتے یہاں اکرام ہوتا ہے
 کیا  مفتری کا یہی  انجام  ہوتا ہے 
ایک اور نظارہ ملاحظہ فرماویں کہ جسے مفتری کہا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حضور نہایت جسارت سے یہ التجا کرتا ہے کہ    ؎
اے قدیر و خالق ارض و سما
اے رحیم و مہرباں و راہنما
اے کہ میداری تو بر دِلہا نظر
اے کہ از تو نیست چیزے مستتر
گر تومے بینی مرا بر فسق و شر
گر تو دید ہستی کہ ہستم بد گوہر
پارہ پارہ کن منے بد کار را
شاد کن ایں زمرہ اغیار را
آتش افشاں بر در و دیوار من
شمنم باش وتباہ کن کارمن
در مرا از بندگانت یافتی
قبلہ من آستانت یافتی
در دل من آں محبت دیدہ
کز جہاں آں راز را پوشیدہ
بامن از روئے محبت کارکن
اندکے افشاء آں اسرار کن
(حقیقۃ المہدی صفحہ 1)
مگرہوتا کیا ہے بجائے اس کے خدا تعالیٰ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا اور اس کے دشمنوں کو خوش کرتا۔ ہر ایک قوم ہر ایک فریق کے خدا ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے۔ اور ان میں سے تھوڑا تھوڑا حصہ الگ کر کے حضرت مرزا صاحب کو طاقتور اور مضبوط بنا دیتا ہے حتیٰ کہ دشمن بھی آپ کی ترقی کو دیکھ کر دم بخود رہ جاتا ہے۔ پھر بجائے اس کے کہ آپ کے دشمن اپنی آنکھوں سے آپ کے در ودیوار پر آگ برستے دیکھتے۔ الٹا پھولوں کی بارش ہوتی دیکھتے ہیں۔ اور مال و دولت سے آپ کو مالامال کردیا جاتا ہے۔ نیک اور پاک اولاد سے آپ کو خوشحال کیا جاتا ہے۔ پھر آپ کو یہاں تک ترقی ملتی ہے کہ بے اختیار کہنا پڑتا ہے۔
گڑھے میں تُو نے سب دشمن اتارے 
ہمارے  کردیئے  اونچے  منارے
ان تمام باتوںکو دیکھتے ہوئے کیا کوئی عقلمند آپ کو مفتری قرار دے سکتا ہے؟ ہر گز، ہر گز نہیں۔ اور اس پر طرفہ یہ کہ آپ مفتری قرار دینے والوں کو للکار کر کہتے ہیں کہ جاؤ اگر تمہیں میری صداقت پر اب بھی شبہ ہے تو اپنے مولیٰ سے اپنے پیدا کرنے والے سے پوچھو۔ سینکڑوں سعیدالفطرت احکم الحاکمین کے دربار میں سر بسجود ہو کر اور رو رو کر حقیقت حال دریافت کرتے ہیں وہاں سے سب کو یہی جواب ملتا ہے جاؤ جلدی کرو اور اسے جا کر قبول کرو۔ وہ ہمارا محبوب ہے۔ ہمارافرستادہ ہے۔ سچا ہے۔ آپ ان تمام رؤیاء وکشوف کو خود میری اس کتاب بشارات رحمانیہ میں ملاحظہ فرمائیںگے اور اگر خدانخواستہ اس سے بھی آپ کی تسلی نہ ہوتو پھرآپ خود ان لوگوں کی طرح اپنے مولا کے حضور التجائیں کریں وہ حقیقت حال واضح کر دے گا۔  …مبارک وہ جو اب بھی سمجھے اور خداتعالیٰ کے پاک اور سچے مامور کے دامن سے وابستہ ہو کر فلاح دارین حاصل کرے۔‘‘

(ماخوذ از کتاب بشارات رحمانیہ)


مکمل تحریر >>

Tuesday 11 October 2016

شان اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بانی جماعت احمدیہ کی نظر میں




جماعت احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے عوام الناس میں نفرت اور اشتعال پھیلانے کے لئے حضرت بانی ٔجماعت احمدیہ پر ایک الزام یہ لگایا
 جاتا ہے کہ آپ نے اہلِ بیت کی توہین کی ہے۔ یہ الزام سراسر غلط اور حقائق مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ اہلِ بیت سے بے حد محبت اور عشق رکھتے تھے۔ ذیل میں حضرت بانی جماعت احمدیہ کی چند تحریرات پیش کی جاتی ہیں۔ جس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کو اہل بیت سے کس قدر محبت تھی اور آپ کی نظر میں ان کا کتنا عظیم الشان مقام اور مرتبہ ہے۔

حضرت علیؓ اور آپ کے اہل بیت


’’حضرت علی رضی اللہ متقی، پاک اور خدائے رحمان کے محبوب ترین بندوں میں سے تھے۔
آپ ہم عصروں میں سے چنیدہ اور زمانے کے سرداروں میں سے تھے۔ آپ اللہ کے غالب شیر اور مردِ خدائے حنان تھے آپ کشادہ دست پاک دل اور بے مثال بہادر تھے۔

میدان جنگ میں انہیں اپنی جگہ سے ہٹایا نہیں جا سکتا تھا۔ خواہ دشمنوں کی فوج بھی آپ کے مقابل پر ہوتی۔ آپ نے اپنی عمر سادگی میں گزاری۔ اور آپ زھد و ورع میں بنی نوع انسان کی انتہاء کو پہنچے ہوئے تھے۔ اپنی جائیداد کا عطیہ دینے اور لوگوں کے مصائب کو رفع کرنے میں اور یتامیٰ اور مساکین اور ہمسائیوں کی خبر گیری میں آپ مرد اول تھے۔ آپ معرکہ ہائے رزم میں ہر طرح کی بہادری میں نمایاں تھے اور شمشیر و سنان کی جنگ میں کارہائے نمایاں دکھلانے والے تھے۔ بایں ہمہ آپ بڑے شیریں اور فصیح اللسان تھے۔آپ کی گفتگو دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی تھی۔ ذہنوں کے زنگ دور ہوجاتے تھے اور دلیل کے نور سے مطلع چکا چوندھ ہوجاتا تھا۔

آپ ہر قسم کے اسلوب کلام پر قادر تھے اور جس نے بھی آپ کا اس میدان میں مقابلہ کیا تو اسے ایک مغلوب آدمی کی طرح عذر خواہ ہونا پڑا۔ آپ ہر کار خیر میں اور اسالیب فصاحت و بلاغت میں کامل تھے۔ اور جس نے بھی آپ کے کمالات کا انکار کیا گویا وہ بے حیائی کی راہ پر چل پڑا۔ آپ بے قراروں کی دلجوئی کے لئے تیار رہتے۔ قانع اور غربت سے پریشان کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے تھے اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے تھے۔ بایں ہمہ آپ قرآن کریم کا جام نوش کرنے میں سر فہرست تھے اور قرآن کے دقائق کے ادراک میں آپ کو ایک عجیب فہم عطا ہوا تھا۔

میں نے آپ کو نیند کی حالت میں نہیں بیداری کی حالت میں دیکھا ہے کہ آپ نے خدائے علیم کی کتاب کی تفسیر مجھے عطا کی ہے اور فرمایا یہ میری تفسیر ہے۔ اور اب یہ تمہارے سپرد کی جاتی ہے۔ پس جو تمہیں دیا جاتا ہے اس پر خوش ہو جاؤ۔ چنانچہ میں نے ایک ہاتھ بڑھایا اور وہ تفسیر لے لی۔ اور خدائے معطی و قدیر کا شکر ادا کیا۔ میں نے آپ کو بہت مضبوط جسم والا اور پکے اخلاق والا متواضع اور منکسر، شگفتہ رو اور پُر نور پایا۔

اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ بہت پیار اور محبت سے پیش آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سچے مخلصوں کی طرح اظہار محبت کیا۔ اور آپ کے ساتھ حسن اور حسین دونوں اور سید الرسل خاتم النبیین بھی تھے۔

اور آپ کے ساتھ ایک خوبصورت، نیک اور بارعب ، مبارک، پاکباز، قابلِ تعظیم، نوجوان، باوقار، ماہ رخ، پُرنور خاتون بھی تھیں۔ میں نے انہیں بہت غمگین پایا۔ وہ اپنے غم کو چھپائے ہوئے تھیں اور میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ یہ فاطمۃ الزھراؓ ہیں۔ پھر وہ میرے پاس تشریف لائیں جبکہ میں لیٹا ہوا تھا۔ سو میں اٹھ بیٹھا اور انہوں نے میرا سر اپنی گود میں رکھ دیا اور اظہار لطف و کرم فرمایا۔ اور میں نے محسوس کیا کہ میرے بعض دکھوں اور غموں پر آپ اس طرح غمگین و مضطرب ہوئیں جس طرح محبت و رافت و احسان رکھنے والی مائیں اپنے بیٹوں کے مصائب پر بے قرار ہو جاتی ہیں۔ تب مجھے بتایا گیا کہ دینی تعلق کی بنا پر میں بمنزلہ آپ کے فرزند کے ہوں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ آپ کا غم ان مظالم کی طرف اشارہ ہے جو مجھے قوم اور اہلِ وطن اور دشمنوں کی طرف سے پہنچنے والے ہیں۔

پھر میرے پاس حسن اور حسین آئے اور انہوں نے بھائیوں کی طرح میرے ساتھ محبت اور غم خواری کا اظہار کیا۔

اور یہ بیداری کے کشوف میں سے ایک کشف تھا اور اس پر چند سال گزر چکے ہیں۔ مجھے حضرت علی، حسن اور حسین کے ساتھ ایک لطیف قسم کی مشابہت ہے جس کا راز مشرق اور مغرب کا خدا ہی جانتا ہے۔

میں حضرت علی اور ان کے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا ہوں اور جو ان کا دشمن ہے میں اس کا دشمن ہوں‘‘۔
(ترجمہ از عربی سر الخلافۃ۔ روحانی خزائن۔ جلد۸۔ صفحہ ۳۵۸۔۳۵۹)

حضرت علیؓ حاجت مندوں کی امیدگاہ تھے


بے شک حضرت علی حاجت مندوں کی امید گاہ تھے اور سخیوں کے لئے نمونہ اور بندوں کے لئے حجۃ اللہ تھے ۔ آپ اپنے زمانہ کے لوگوں میں سب سے بہتر تھے اور تمام دنیا کو منور کرنے کے لئے خدا کا نور تھے۔ ۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ حق حضرت علی مرتضیٰ کے ساتھ تھا اور جنہوں نے آپ کے زمانہ میں آپ سے جنگ کی انہوں نے بغاوت اور سرکشی کی‘‘۔ (ترجمہ از عربی سر الخلافۃ۔ روحانی خزائن۔ جلد۸۔ صفحہ ۳۵۲۔۳۵۳)

حضرت علیؓ جامع فضائل


’’علی تو جامع فضائل تھا اور ایمانی قوت کے ساتھ توام تھا۔ پس اس نے کسی جگہ نفاق کو پسند نہیں کیا اور اپنے قول اور فعل میں کبھی منافقانہ طریق نہیں برتا اور ریا کاروں میں سے نہ تھا‘‘۔ (حجۃ اللہ۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۲۔ صفحہ ۱۸۲)

حضرت امام حُسین ؓ و حسنؓ ائمۃ الہدیٰ


’’حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحب کمال اور صاحب عفت اور عصمت اور ائمۃ الہدیٰ تھے اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آل تھے‘‘۔

(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن۔ جلد۱۵۔ صفحہ ۳۶۴۔۳۶۵ حاشیہ)

ہم حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما دونوں کے ثنا خواں ہیں


’’حضرت حسنؓ نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیا کہ خلافت سے الگ ہوگئے۔ پہلے ہی ہزاروں خون ہو چکے تھے۔ انہوں نے پسند نہ کیا کہ اور خون ہوں۔ اس لئے معاویہ سے گذارہ لے لیا۔ چونکہ حضرت حسنؓ کے اس فعل سے شیعہ پر زد ہوتی ہے اس لئے امام حسنؓ پر پورے راضی نہیں ہوئے۔ ہم تو دونوں کے ثنا خواں ہیں۔ اصلی بات یہ ہے کہ ہر شخص کے جدا جدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں۔ انہوں نے امن پسندی کو مدنظر رکھا اور حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔ دونوں کی نیت نیک تھی۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘۔
(ملفوظات۔ جلد۴۔ صفحہ ۵۷۹۔۵۸۰)

حضرت امام حُسین ؓ سردارانِ بہشت میں سے


’’حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں سے ہے جن کو خداتعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کردیتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجبِ سلبِ ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہوگیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہوگیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔ اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے ان کاقدر مگر وہی جو ان میں سے ہیں۔ دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسینؓ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسینؓ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے۔ اور جو شخص حسینؓ یا کسی اور بزرگ کی جو آئمہ مطہّرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے۔ وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے‘‘۔(مجموعہ اشتہارات۔ جلد ۳۔ صفحہ ۵۴۵)

حضرت امام حسینؓ کی شہادت


’’امام حسینؓ کو دیکھو کہ ان پر کیسی کیسی تکلیفیں آئیں۔ آخری وقت میں جو ان کو ابتلاء آیا تھاکتنا خوفناک ہے لکھا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ستاون برس کی تھی اور کچھ آدمی ان کے ساتھ تھے۔ جب سولہ یا سترہ آدمی ان کے مارے گئے اور ہر طرح کی گھبراہٹ اور لاچاری کا سامنا ہوا تو پھر ان پر پانی کا پینا بند کر دیا گیا۔ اور ایسا اندھیر مچایا گیا کہ عورتوں اور بچوں پر بھی حملے کئے گئے اور لوگ بول اٹھے کہ اس وقت عربوں کی حمیت اور غیرت ذرا بھی باقی نہیں رہی۔ اب دیکھو کہ عورتوں اور بچوں تک بھی ان کے قتل کئے گئے اور یہ سب کچھ درجہ دینے کے لئے تھا‘‘۔(ملفوظات۔ جلد۵۔ صفحہ ۳۳۶)

حضرت امام حسینؓ سے غیر معمولی عشق


ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعودؑاپنے باغ میں ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے آپؑ نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم سلمہا اور ہمارے بھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا ’’آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں‘‘ پھر آپؑ نے بڑے دردناک انداز میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات سنائے آپؑ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپؑ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپؑ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپؑ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا:۔

’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے پر کروایا۔ مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا‘‘

اس وقت آپ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپؑ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا۔

(روایت حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم ۔ سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ صفحہ۳۶۔۳۷)

حضرت بانی جماعت احمدیہ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں

جان و دلم فدائے جمال محمدؐ است
خاکم نثار کوچۂ آل محمدؐ است

( درثمین فارسی۔ صفحہ  ۸۹ )

میری جان اور دل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال پر فدا ہے اور میری خاک آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کوچہ پر نثار ہے۔

مکمل تحریر >>

Friday 23 September 2016

حضرت مفتی محمد صادق ؓ کی مولانا شبلی نعمانی سے دلچسپ ملاقات



کتاب لطائف صادق سے ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مفتی محمد صادق ؓ  نے  اکتوبر۱۹۱۰ میں لکھنؤکے دار العلوم ندوہ کی سیر کے دوران  علامہ شبلی سے بھی ملاقات کی ، مولانا شبلی بڑے اخلاق سے پیش آئے اور پوچھنے لگے کہ کیا یہ بات سچ ہے کہ آپ لوگ مرزا صاحب مرحوم کو نبی مانتے ہیں؟ مفتی صاحب نے جواب میں واضح کیا کہ ہم مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں لیکن بغیر کسی جدید شریعت کے اور احادیث میں بھی آنے والے کا نام نبی اللہ رکھا گیا ہے ، اس وضاحتی بیان کے بعد پوچھا کہ  ’’ آپ عربی زبان کے فاضل ہیں آپ خود ہی بتلائیں کہ جو شخص خدا تعالیٰ سے بکثرت غیب کی خبریں پائے اسے عربی زبان میں نبی نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں‘‘۔علّامہ نے عربی لغت اور علم کلام کے اس بنیادی اور فیصلہ کن سوال کے جواب میں بلا تامّل فرمایا:۔
’’ہاں بے شک لغوی لحاظ سے ایسے شخص کو نبی ہی کہا جائے گا اور عربی لغت میں اس لفظ کے یہی معنیٰ ہیں لیکن عوام اس مفہوم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے گھبراتے ہیں اور اعراض کرتے ہیں‘‘۔
حضرت مفتی صاحب کا بیان ہے :۔’’اس کے بعد گفتگو کا رخ پلٹ گیا اور مولوی شبلی صاحب فرمانے لگے کہ میں مدت سے ایک بہت مشکل اور اہم مسئلہ کے متعلق سوچ رہا ہوں مگر کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کیا جائے ۔اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم طلبہ کو صرف عربی علوم پڑھاتے ہیں تو اُن میں وہ پرانی سستی ،کمزوری اور پست ہمتی نہیں جاتی جو آجکل کے مسلمانوں کے لاحق حال ہو رہی ہے۔لیکن اگر ان طلباء کو انگریزی علوم کا ایک معمولی چھینٹا بھی دے دیا جاتاہے تو اس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ دین اور مذہب کو بالکل چھوڑ بیٹھتے ہیں ۔اسی لئے حیران ہوں کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں ۔؟
البتہ میں نے آپ صاحبان کی جماعت میں یہ خوبی دیکھی ہے کہ اس کے ممبر انگریزی خواں بھی ہیں اور دین کے بھی پورے طور پر پابند ہیں ‘‘۔
(’’لطائف صادق‘‘ صفحہ 98-99  ، مرتبہ مولانا شیخ محمد اسماعیل پانی پتی صاحب )




مکمل تحریر >>

بریلوی اوردیوبندی دونوں ہی گستاخ نکلے




مولوی حق  نواز صاحب دیو بندی نے ۲۷ اگست ۱۹۷۹؁ء کو ’’ منا ظرہ جھنگ‘‘کے دورا ن بریلوی عالم مولوی نظام الدین ملتانی کی کتاب  ’’  انو ا ر شریعت  ‘‘ کے صفحہ ۳۸ کاایک اہم حوا لہ پیش کیا ۔ اس صفحہ پر یہ سوا ل درج ہے کہ مسیح علیہ السلام لوگوں کی ہدایت کے لئے دوبا رہ اتریں گے حضرت محمد مصطفی ﷺ دوبارہ نہیں آئیں گے  پس افضل کون ہوا ۔اس سوال کے جواب میں لکھا ہے ۔’’ د وبا رہ وہی بھیجا جا تا ہے جو پہلی دفعہ ناکا میاب رہا ہو‘‘ ۔ مولوی حق نواز صاحب دیوبندی کو اگر یہ معلوم ہوتاکہ ان کے ’’ خاتم الفقہا ء والمحدثین ‘‘ انور شاہ کشمیری کا بھی یہی نقطہ نگاہ تھا تو وہ بریلوی عالم کے اس اقتباس کو پیش کرنے کی ہر گز جرأت نہ کرتے مگر انہوں نے غالباً لا علمی میں دھڑلّے سے اس پر زبردست تنقید کی اور یہ کہتے ہو ئے نہ صرف بریلوی عالم بلکہ انورشاہ کشمیری کے با طل عقیدہ کو ضرب کا ری سے پاش پاش کردیا کہ:’’  میرے قابل ِ محترم سامعین سوچئے پہلا لفظ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے  لئے  استعما ل کیا جا رہا ہے ۔ دوبا رہ وہی آ ئے جو پہلی دفعہ ناکامیاب رہے ۔ کو ن ہے  دنیا میں وہ بندہ جو کسی پیغمبر کو رسالت کے کا م میں ناکا میاب کہے ۔ میں فاضل مخا طب سے پوچھوں گا کہ آج  تک اس دنیا کی کسی کتاب میں کسی معتبر عالم کسی مفکر و محدّث نے یہ لکھا کہ عیسیٰ علیہ السلام ناکا میاب واپس گئے اس لئے  اب دوبارہ اپنی رسالت کی تکمیل کے لئے آ ئیں گے۔ دوسرا لفظ استعما ل کیا ہے  کہ جو امتحان میں فیل ہو اس کو دوبا رہ امتحان میں بلایا جاتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام پہلے فیل ہو گئے اور اب دوبارہ بلایاجا رہا ہے۔ کہ وہ یہود کے ڈر کے مارے رسالت کا کام سرانجام نہ دے سکے۔ مسلمانو ! قرآ ن کہتا ہے۔ ويقتلون النبيين بغير حقّ  یہود نے انبیاء کو ناحق شہید تو کردیا لیکن انہیں سچ کہنے سے رسالت کے کا م پہنچانے سے اللہ کے احکام بیان کرنے سے اور رب ذوالجلال کی توحید کو بیان کرنے سے انہیں دنیا کی کوئی طاقت روک نہ سکی ۔ شہید تو ہو  گئے  ان کے وجود آرے سے چرادئیے گئے ، ان کو ہجرتوں پہ مجبور تو کردیا لیکن کسی پیغمبر نے اپنے رسالت کے کام میں کوتاہی نہیں کی اور یہاں بتلایاجارہا ہے  کہ پیغمبر یہود کے ڈر کے ما رے اپنا کام ادھورا چھوڑگئے معاذاللہ ۔ اوراب وہ دوبارہ اس کام کوپورا کرنے کے لئے آ ئیں گے ۔ میرا فاضل مخاطب پر سوال ہے کہ آ ج تک کسی مسلما ن نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے اپنا یہ عقیدہ پیش کیا ہے کہ ناکام واپس گئے ۔ کیا کوئی رسول اپنی رسالت میں نا کا م واپس جا سکتا ہے اور کیا اب دوبارہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام امام الا نبیاء کے امتی بن کے آ ئیں گے یا اپنے کام رسالت کو سر انجام دینے کے لئے آ ئیں گے۔ اگر وہ امام ِ الا نبیا ء کے امتی بن کے آ ئیں گے تو پہلا کام ادھورا رہ گیا اب تو امام الا نبیاء کے دین کا کام کرنا ہے اپنی رسالت تو ادھوری کی ادھوری رہ گئی اور اگر اس کو پورا کریں گے تو ختم نبوت کا انکا ر لازم آیا۔ اس لحاظ سے بھی یہ بات خطرناک ہے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت کے خلاف ہے ‘‘
(منا ظرہ جھنگ صفحہ ۱۳۱ تا ۱۳۳ نا شر مکتبہ فریدیہ ساہیوال  )








مکمل تحریر >>

Thursday 22 September 2016

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجنے کا فلسفہ





اخبارالفضل قادیان دارالامان  کے خاتم النبیین نمبر 1932 سے ایک نایاب مضمون ''الددر البھيّ في حقیقة الصلوۃ علی النبيّ'' یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجنے کا فلسفہ پیش خدمت ہے جس کے مصنف مولانا غلام رسول راجیکی ؓ ہیں ۔


















           

مکمل تحریر >>

Wednesday 21 September 2016

حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کی حاضرجوابی کا دلچسپ واقعہ



یہاں صرف ایک واقعہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

’’وہاں (یعنی کشمیر میں) ایک بوڑھے آدمی تھے۔ انہوں نے بہت سے علوم و فنون کی حدود یعنی تعریفیں یاد کر رکھی تھیں۔ بڑے بڑے عالموں سے کسی علم کی تعریف دریافت کرتے۔ وہ جو کچھ بیان کرتے یہ اس میں کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتے کیونکہ پختہ الفاظ تعریفوں کے یاد تھے۔ اس طرح ہر شخص پر اپنا رعب بٹھانے کی کوشش کرتے۔ ایک دن سردربار مجھ سے دریافت کیا کہ مولوی صاحب! حکمت کس کو کہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ شرک سے لے کر عام بداخلاقی تک سے بچنے کا نام حکمت ہے۔ وہ حیرت سے دریافت کرنے لگے کہ یہ تعریف حکمت کی کس نے لکھی ہے؟ میں نے دہلی کے ایک حکیم سے جو حافظ بھی تھے اور میرے پاس بیٹھے تھے، کہا کہ حکیم صاحب! ان کو سورۃ بنی اسرائیل کے چوتھے رکوع کا ترجمہ سُنا دو جس میں آتا ہے  ذَلِكَ مِمَّا أَوْحَى إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ  ۔ پھر تو وہ بہت ہی حیرت زدہ سے ہو گئے‘‘۔
(حیاتِ نور باب سوم ، صفحہ 174)




مکمل تحریر >>

Tuesday 16 August 2016

ادبی و مذہبی سرقہ کی ایک حیرت انگیز مثال

حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک پرانی موحدانہ نظم مطبوعہ الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۲۸  ؁ء کو اہلحدیثوں کے اخبار تنظیم اہلحدیث لاہور کے تازہ پرچہ مورخہ ۳۰ جون ۱۹۲۱ ؁ء میں صفحہ اول پر جلی طور پر شائع کیا گیا ہے۔ بعض اشعار میں بھونڈا تغیر کیا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام کا ذکر تک نہیں کیا گیا ۔ بلکہ ندیم شاعر کے نام سے نظم کو منسوب کیا گیا ہے ۔ قارئین ملاحظہ فرما کر فتویٰ دیں:۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک بہت پرانی نظم 

اک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے 
چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے 
چھوڑنی ہو گی تجھے دنیائے فانی ایک دن 
ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے 
مستقل رہنا ہے لازم اے بشر تجھ کو سدا
رنج و غم ، یاس والم فکر وبالا کے سامنے 
بارگاہِ ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو
مشکلیں کیا چیز ہیں مشکلکشا کے سامنے 
حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر 
کربیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے 
چاہئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش دوئی 
سر جھکا بس مالک ارض و سما کے سامنے 
چاہئے نفرت بدی سے اور نیکی سے پیار 
ایک دن جانا ہے تجھ کو بھی خدا کے سامنے 
راستی کے سامنے کب تک جھوٹ پھلتا ہے بھلا 
قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے 
(الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۲۸  ؁ء )

کربیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے !

اک نہ ایک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے 
چل نہیں سکتی کسی کی کچھ فنا کے سامنے 
چھوڑنی ہو گی تجھے دنیائے فانی ایک دن 
ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے 
مستقل رہنا ہے لازم اے بشر تجھ کو سدا 
رنج و غم سوازلم ، فکر وبلا کے سامنے 
حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر 
کربیاں سب حاجتیں حاجب روا کے سامنے 
چاہئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش دوئی 
سرجھکالے مالک ارض و سما کے سامنے 
چاہئے نفرت ،بدی اور نیکی سے پیار 
اک نہ ایک دن پیش ہو گا تو خدا کے سامنے 
راستی کے سامنے کب جھوٹ پھلتا ہے ندیم 
قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے 
(تنظیم اہلحدیث لاہور ۳۰ جون ۱۹۶۱  ؁ء )





مکمل تحریر >>