Thursday 9 June 2016

مسائل رمضان



مسائل رمضان


مرتبہ: ظہور احمد بشیر ۔ لندن

روزہ کیاہے اوریہ کس پر فرض ہے ؟



روزہ اسلامی عبادات کا دوسرا اہم رکن ہے۔ یہ ایسی عبادت ہے جس میں نفس کی تہذیب، اس کی اصلاح اور قوت برداشت کی تربیت مدنظر ہوتی ہے۔ صوم (روزہ) کے لغوی معنی رکنے اور کوئی کام نہ کرنے کے ہیں۔ شرعی اصطلا ح میں طلوع فجر (صبح صادق) سے لے کر غروب آفتاب تک عباد ت کی نیت سے کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنے کا نام صوم یا روزہ ہے۔

روزہ کی تکمیل کے لئے یہ تین بنیادی شرائط ہیں۔ لیکن خدا کی خاطر اور اس کی رضا کے حصول کے لئے کھانے پینے اور جنسی خواہش سے رکنے کا حکم ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کے لئے بطور علامت ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

’’مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃً فِی اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہٗ وَ شَرَابَہٗ‘‘۔ ( بخاری کتاب الصوم )

یعنی جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے۔

اسی طرح ایک اور موقعہ پر فرمایا:

’’ روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ ہرقسم کی بیہودہ باتیں کرنے اور فحش بکنے سے رکنے کا مفہوم بھی اس میں شامل ہے۔ پس اے روزہ دار اگر کوئی شخص تجھے گالی دے یا غصہ دلائے تو تو اسے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘۔(بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول انی صائم اذاشتم)

جو شخص روزہ دار ہونے کے باوجود گالی گلوچ کرتا ہے تو اس کا روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنا ہے جس سے اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔پس اگر کوئی شخص ان امور اور آداب کا لحاظ نہیں رکھ سکتا جو روزہ کے لئے ضروری ہیں تو اس کے محض بھوکے پیاسے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ روزہ بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں۔ بلکہ یہ تو ایک عبادت ہے جو مقررہ شرائط سے ادا ہوتی ہے۔ کئی بدقسمت ان آداب صوم کا لحاظ نہ رکھ کر اس عبادت کے اعلیٰ ثواب سے محروم ہو جاتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کئی روزہ دار ہیں جن کو ان کے روزہ سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی رات کو اٹھ کر عبادت کرنے والے ہیں مگر ان کوسوائے بیداری اور بے خوابی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘۔ (ابن ماجہ کتاب الصیام، باب ما جاء فی الغیبۃ والرفث للصائم)

رمضان کے روزے ہر بالغ ، عاقل، تندرست، مقیم (یعنی جو حالت سفر میں نہ ہو) مسلمان مرد اورعورت پر فرض ہیں۔ مسافر اور بیمار کے لئے یہ رعایت ہے کہ و ہ دوسرے ایام میں ان روزوں کو پورا کرلیں جو اس ماہ میں ان سے رہ گئے ہیں۔ مستقل بیمار جنہیں صحت یاب ہونے کی کبھی امید نہ ہو یا ایسے کمزور و ناتواں ضعیف جنہیں بعد میں بھی روزہ رکھنے کی طاقت نہ ملے، اسی طرح ایسی مرضعہ (دودھ پلانے والی) اور حاملہ جو تسلسل کے ساتھ ان عوارض سے دوچار رہتی ہے ایسے معذور حسب توفیق روزوں کے بدلہ میں فدیہ ادا کریں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ روزہ رکھنے کی عمر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ کئی ہیں جو چھوٹے بچوں سے بھی روزے رکھواتے ہیں ۔ حالانکہ ہر ایک فرض اور حکم کے لئے الگ الگ حدیں اور الگ الگ وقت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک بعض احکام کا زمانہ چار سال کی عمر سے شروع ہو جاتا ہے۔ اور بعض احکام ایسے ہیں جن کا زمانہ سات سال سے بارہ سال تک ہے اور بعض ایسے ہیں جن کا زمانہ ۱۵ سے ۱۸ سال تک کی عمر کے بچے پر عائد ہوتا ہے اور یہی بلوغت کی حد ہے۔ ۱۵ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ اور ۱۸ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں۔ مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روز ہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے ۔ اور بجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر رعب ڈالتے تھے تو بچوں کی صحت کو قائم رکھنے اور ان کی قوت بڑھانے کے لئے روزہ رکھنے سے انہیں روکنا چاہئے۔ اس کے بعد جب ان کا وہ زمانہ آ جائے جب وہ اپنی قوت کو پہنچ جائیں جو ۱۵ سال کی عمرکا زمانہ ہے تو پھر ان سے روزے رکھوائے جائیں اور وہ بھی آہستگی کے ساتھ۔ پہلے سال جتنے رکھیں ، دوسرے سال اس سے زیاد ہ اور تیسرے سال اس سے زیادہ رکھوائے جائیں۔ اس طرح بتدریج ان کو روزوں کا عادی بنایا جائے‘‘۔(الفضل ۱۱؍ اپریل ۱۹۲۵ء)


روزہ کی اقسام



متعدد قسموں کے روزوں کا ذکر قرآن و حدیث میں پایا جاتا ہے مثلاً فرض روزے،نفلی روزے ۔ فرض روزوں کی مثال جیسے رمضان کے روزے،رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء، کفارۂ ظہار کے روزے، کفارۂ قتل کے روزے ،عمداً رمضان کاروزہ توڑدینے کی سزا کے ساٹھ روزے،کفارہ ٔ قسم کے روزے،نذر کے روزے ،حج تمتع یا حج قران کے روزے،بحالت احرام شکار کرنے کی وجہ سے روزہ ،بحالت ا حرام سرمنڈوانے کی وجہ سے روزہ ۔

دوسری قسم نفلی روزوں کی ہے جیسے شوال کے چھ روزے،عاشورہ کا روزہ، صوم داؤد ؑ یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار، یوم عرفہ کا روزہ ، ہر اسلامی مہینے کی ۱۳،۱۴،۱۵ تاریخ کا روزہ ۔

بعض دنوں میں روزہ رکھنا منع اورمکروہ ہے مثلاً صرف ہفتہ یا جمعہ کے دن کوخاص کرکے روزہ رکھنا، پارسیوں کی طرح نیروز و مہرگان کے دن روزہ رکھنا، صوم دہر یعنی بلا ناغہ مسلسل روزے رکھتے چلے جانا، عید کے دن اور ایام تشریق یعنی ۱۱،۱۲،۱۳ ذوالحجہ کو ر وزہ رکھنا سخت منع ہے۔


روزہ کب رکھنا چاہئے؟



رمضان کے روزوں کے لئے حکم ہے کہ لاَ تَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوُا الْہِلَالَ۔ جب تک ماہ رمضان کا چاند نظر نہ آجائے روزہ نہ رکھو۔ یہ رویت نظری بھی ہو سکتی ہے اور علمی بھی ۔ رویت علمی کی دو صورتیں ہیں ۔ایک یہ کہ شعبان کے پورے تیس دن گزر چکے ہوں یا باتفاق علماءِ امت سائنسی شواہد کی بناء پر ایسا کیلنڈر بنا لیاجائے جس میں چاند نکلنے کا پورا پورا حساب ہو اور غلطی کا امکان نہ رہے۔اس سلسلہ میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍جنوری ۱۹۹۶ء میں تفصیل سے رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ خطبہ جمعہ الفضل کے گذشتہ شمارہ(یکم؍نومبر۲۰۰۲ء) میں دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔

ریڈیو وغیرہ کے ذریعہ چاند نکلنے کی خبر شرعاً معتبر ہے۔اس کے مطابق حسب فیصلہ ارباب علم و اقتدار عمل کیا جائے گا لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جگہ جہاں چاند دیکھا گیاہے اور جہاں خبر پہنچی ہے دونوں کا افق اور مطلع ایک ہو۔ ورنہ یہ خبر قابل عمل نہ ہوگی۔

اگر فضا صاف نہ ہو ، ابر گہری دھند ہو تو رمضان کے چاند کی رؤیت کے ثبوت کے لئے ایک معتبر عادل آدمی کی گواہی قبول کی جا سکتی ہے لیکن افطار اور عیدالفطر منانے کے فیصلہ کے لئے کم ازکم دو عادل آدمیوں کی گواہی ضروری ہے۔(ترمذی کتاب الصوم باب الصوم بالشہادۃ)


روزہ کے لئے نیت ضروری ہے



جس شخص کا روزہ رکھنے کا ارادہ ہو اسے روزہ رکھنے کی نیت ضرور کرنی چاہئے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے:۔

جو صبح سے پہلے روزہ کی نیت نہ کرے اس کا کوئی روزہ نہیں۔(ترمذی کتاب الصوم)

نیّت کے لئے کوئی معین الفاظ زبان سے ادا کرنے ضروری نہیں ۔ نیت دراصل دل کے اس ارادے کا نام ہے کہ وہ کس لئے کھانا پینا چھوڑرہا ہے۔ نفلی روزہ میں دن کے وقت دوپہر سے پہلے پہلے (بشرطیکہ نیت کرنے کے وقت تک کچھ کھایاپیا نہ ہو)روزہ کی نیت کر سکتے ہیں۔اسی طرح اگرکوئی عذر ہو مثلاً رمضان کا چاندنکلنے کی خبر طلوع فجر کے بعد ملی ہو اور ابھی کچھ کھایا پیا نہ ہو تو اس وقت روزہ کی نیت کرسکتے ہیں اورایسے شخص کا اس دن کا روزہ ہو جائے گا۔


بیمار اور مسافر روزہ نہ رکھیں



اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ :

( فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّن ایّام اُخَر۔ وَعَلَی الّذِینَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْن)(البقرہ : ۱۸۵)

تم میں سے جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اسے اور دنوں میں یہ تعداد پوری کرنی ہوگی۔ اور ان لوگوں پر جو اس یعنی روزہ کی طاقت نہ رکھتے ہوں بطور فدیہ ایک مسکین کا کھانا دینا بشرط استطاعت واجب ہے۔

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے ۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پربھی تو عمل رکھنا چاہئے ۔ مَیں نے پڑھاہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگرکوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتاہے تو یہ معصیت ہے۔ کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضاہے ،نہ اپنی مرضی۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے ۔ جوحکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پرحاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔ اس نے تو یہی حکم دیاہے (مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ)۔ اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یا ایسی بیماری ہو، میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں ۔(الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴ مورخہ ۳۱؍جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۴)

اسی طرح فرمایا:۔

’’جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزہ رکھتاہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتاہے۔ خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے۔ خدا کے اس حکم پرعمل کرنا چاہئے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کازور دکھاکر کوئی نجات حاصل کر سکتاہے۔ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہویا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمباہو۔ بلکہ حکم عام ہے اوراس پرعمل کرنا چاہئے ۔ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے توان پر حکم عدولی کافتویٰ لازم آئے گا ‘‘۔(بدر جلد ۶ نمبر۴۲ ۔ مورخہ ۲۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۷)


سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں



حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں آنحضرت ﷺ نے اپنے ساتھیوں کا ہجوم دیکھا جس میں ایک شخص پر سایہ کیا جا رہا تھا۔ حضور ؐ نے سبب پوچھا توعرض کی گئی کہ روزہ دار کو سایہ کیا جا رہاہے۔رسول اللہ ؐ نے بڑے جلال سے فرمایا ’’لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ اَلصَّوْمُ فِی السَّفَر‘‘ کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔( بخاری کتاب الصوم)

آنحضرت ﷺ خود مسافر کا روزہ کھلوادیا کرتے تھے ۔ عمر وؓ بن امیہ ضمری بیان کرتے ہیں کہ میں آنحضرت ؐ کی خدمت میں ایک سفر سے حاضر ہوا۔ حضور نے فرمایا ’’ابو امیہؓ کھانے کا انتظار کرو‘‘۔ میں نے کہا حضور ؐ میں تو روزے سے ہوں۔ آپؐ نے ازراہ محبت فرمایا’’ادھر میرے قریب آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ مسافر کو اللہ تعالیٰ نے روزہ سے رخصت دی ہے اور آدھی نماز بھی اسے معاف کی ہے‘‘۔( سنن نسائی کتاب الصوم)

چنانچہ صحابہ کرام اور تابعین کرام کا بھی یہی طریق تھاکہ سفرمیں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے بلکہ روزہ رکھنا معیوب خیال کرتے تھے۔

حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ فرماتے ہیں کہ رمضان میں سفر میں روزہ رکھنے والا (خدا کے حکم کی نافرمانی کے لحاظ سے) اس شخص کی طرح ہے جو گھر میں رہ کر ( بلا عذر) روزہ نہیں رکھتا ۔(سنن ابن ماجہ)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں:

’’ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لاہور سے کچھ احباب رمضان میں قادیان آئے۔ حضرت صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپ مع کچھ ناشتہ کے ان سے ملنے کے لئے مسجد تشریف لائے۔ ان دوستوں نے عرض کیا کہ ہم سب روزے سے ہیں۔ آپ نے فرمایا ’’ سفر میں تو روزہ ٹھیک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رخصت پرعمل کرناچاہئے ۔ چنانچہ ناشتہ کروا کے ان کے روزے تڑوا دئے‘‘۔(سیرت المہدی حصہ دوم ، روایت ۳۷۸)


نیکی اللہ تعالیٰ کی رضا میں ہے



سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’ نیکی صرف رضا کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جسم میں سختی کے ساتھ نہیں۔ اور روزوں میں بھی جسمانی سختی خدا تعالیٰ کے پیش نظر ہے ہی نہیں۔ اور بہت سی باتیں ہیں جو پیش نظر ہیں مگر تکلیف دینا خدا کے پیش نظر نہیں ہے۔ پس جب خدا فرماتا ہے کہ چھوڑ دو تو چھوڑ دو ۔ جب خدا کہتا ہے رکھو تو رکھو۔ پس فرمایا ( مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا) جو بیمار ہو (اَوْ عَلٰی سَفَرٍ)یا سفر پر ہو( فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیاَّمٍ اُخَر) تو پھر رمضان میں روزے نہ رکھنا بعد میں رکھ لینا۔ (یُرِیْدُاللّٰہ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْر) اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ سختی کرو گے تو خدا بہت خوش ہوگا ۔ اپنی جان کو مصیبت میں ڈالا ہوا ہے تو اللہ بڑا راضی ہو گیا تم مصیبت میں پڑ گئے۔ اللہ تو تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے سختی نہیں چاہتا ۔۔۔۔۔۔ پس خدا کی وسیع نظر کے سامنے سرتسلیم خم کریں ۔جو اللہ چاہے، جس حد تک سختی ڈالے،اسی کو قبول کریں۔ اس سے آگے بڑھ کر زبردستی آپ خدا کو راضی نہیں کر سکتے‘‘۔( خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍ جنوری ۱۹۹۶ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ سفر کے لئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟ تو اس پر آپ ؑ نے فرمایا کہ:

’’قرآن کریم سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ( فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَر)یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے ۔ اس میں امر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ جس کو اختیار ہو نہ رکھے ۔ میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہ رکھنا چاہئے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیں اس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی حرج نہیں مگر (فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَر)کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہئے۔ سفر میں تکالیف اٹھا کر جو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا ۔ یہ غلطی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں امر اور نہی میں سچا ایمان ہے‘‘۔ (الحکم ۲۶؍ جنوری ۱۸۹۹ء)


سفر کی حد کیا ہے؟



اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:

’’ میرا مذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اوپر نہ ڈال لے ۔ عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں خواہ وہ دو تین کوس ہی ہو اس میں قصر و سفر کے مسائل پرعمل کرے۔ ’’اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَات‘‘ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں مگر کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھڑی اٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتاہے۔ شریعت کی بنا دقت پر نہیں ہے۔ جس کو تم عرف میں سفر سمجھو وہی سفر ہے ۔ اور جیسا کہ خدا کے فرائض پر عمل کیا جاتاہے ویسا ہی اس کی رخصتوں پر عمل کرنا چاہئے ۔ فرض بھی خدا کی طرف سے ہیں اور رخصت بھی خدا کی طرف سے‘‘۔ (الحکم جلد ۵، ۱۷؍ فروری ۱۹۰۱ء ص۱۳)


روزہ رکھ کر سفر شروع کرنا



حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:

’’ سفر کے متعلق میرا عقیدہ اور خیال یہی ہے ممکن ہے بعض فقہاء کو اس سے اختلاف ہو کہ جو سفر سحری کے بعد شروع ہو کرشام کو ختم ہو جائے وہ روزہ کے لحاظ سے سفر نہیں۔ سفر میں روزہ رکھنے سے شریعت روکتی ہے۔ مگر روزوں میں سفر کرنے سے نہیں روکتی۔پس جو سفر روزہ رکھنے کے بعد شروع ہو کر افطاری سے پہلے ختم ہو جائے وہ روزہ کے لحاظ سے سفر نہیں، روزہ میں سفرہے، سفر میں روزہ نہیں‘‘۔(الفضل ۲۵؍ ستمبر ۱۹۴۲ء)

سفر میں روزے کی چار صورتیں ہو سکتی ہیں :

(۱)۔۔۔ اگر سفر جاری ہو یعنی پیدل یا سواری پر اور چلتا جا رہاہو تو روزہ نہ رکھا جائے۔ کیونکہ اس صورت میں روزہ چھوڑنا ضروری ہے۔

(۲)۔۔۔ اگر سفر کے دوران کسی جگہ رات کو ٹھہرنا ہے اور سہولت میسر ہے تو روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ یعنی روزہ رکھنے اور نہ رکھنے دونوں کی اجازت ہے جبکہ دن بھر وہاں قیام ہے۔

(۳)۔۔۔ سحری کھانے کے بعد گھرسے سفر شروع ہو اور افطاری سے پہلے پہلے سفر ختم ہو جائے یعنی گھر واپس آ جانے کا ظن غالب ہو توروزہ رکھنے اور نہ رکھنے دونوں کی اجازت ہے۔

(۴)۔۔۔ اگر دوران سفر کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنا ہے تو وہاں سحری کا انتظام کیا جائے اور روزہ رکھا جائے۔


دائمی مریض اور مسافر



دائمی مریض اور مسافر کے بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

’’جن بیماروں اور مسافروں کو امید نہیں کہ کبھی پھر روزہ رکھنے کا موقع مل سکے ۔ مثلاً ایک بوڑھا ضعیف انسان یا ایک کمزور حاملہ عورت جو دیکھتی ہے کہ بعد وضع حمل بسبب بچے کو دودھ پلانے کے وہ پھر معذور ہو جائے گی اورسال پھر اسی طرح گزر جائے گا ایسے اشخاص کے واسطے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں کیونکہ وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتے ۔ اور فدیہ دیں۔ فدیہ صرف شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہو سکتا ہے جو روزہ کی طاقت کبھی بھی نہیں رکھتے، باقی اور کسی کے واسطے جائز نہیں کہ صرف فدیہ دے کر روزے کے رکھنے سے معذور سمجھا جا سکے۔ عوام کے واسطے جو صحت پاکر روزہ رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں صرف فدیہ کاخیال کرنا اباحت کا دروازہ کھولنا ہے ۔ جس دین میں مجاہدات نہ ہوں وہ دین ہمارے نزدیک کچھ نہیں۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کے بوجھوں کو سر پر سے ٹالنا سخت گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ میری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ان کو ہی ہدایت دی جائے گی‘‘۔(فتاویٰ احمدیہ صفحہ ۱۸۳)


طالب علم اور روزہ



طالب علم جو امتحان کی تیاری میں مصروف ہے اس کے لئے روزہ رکھنے کے بارہ میں یہ ہدایت ہے کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے روزمرہ کی مصروفیات کو ترک کرنے کا ہمیں حکم نہیں دیا گیا ۔ اس لئے روز مرہ کے کام کی وجہ سے اگر ایک انسان کے لئے روزہ ناقابل برداشت ہے تو وہ مریض کے حکم میں ہے لیکن اس بارہ میں کلیۃً وہ اپنے اقدام کا خود ذمہ دار ہوگا اور اس سے اس کی نیت اور حالت کے مطابق اللہ تعالیٰ سلوک کرے گا گویا اپنے حالات کے بارہ میں فیصلہ دینے میں انسان آپ مفتی ہے۔۔۔۔۔(الفضل ۲۲؍ مئی ۱۹۲۲ء)


مزدور اور روزہ



سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض مزدور روزہ رکھنے میں تکلیف محسوس کرتے ہیں کیا وہ اس عذر کی بناء پر روزہ ترک کر سکتے ہیں؟۔

روزہ رکھنے سے کسی کو تکلیف نہیں ہوتی۔ قرآن مجید نے اس عذر کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی احادیث میں اس کی تصریح آئی ہے حالانکہ مزدور اس وقت بھی تھے۔ ہاں اگر کمزوری ہے اور روزہ ناقابل برداشت ہے تو یہ بیماری کے حکم میں ہے اور بیمار پر روزہ فرض نہیں ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں جب یہ سوال پیش کیا گیا کہ بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتا ہے کہ کاشتکاروں سے جب کہ کام کی کثرت ہوتی ہے مثلاً تخمریزی کرنا یا فصل کاٹنا ہے۔ اسی طرح مزدور جن کا گزراہ مزدوری پر ہے ان سب سے روزہ نہیں رکھا جاتا ان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟۔

اس پر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا : ’’اِنّماالاَعمالُ بالنّیات‘‘ یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں ۔ ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے۔ اگر کوئی اپنی جگہ مزدور رکھ سکتا ہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے پھر جب یُسر ہو رکھ لے‘‘۔(البدر ۲۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء)


حائضہ، مرضعہ اور حاملہ



حائضہ عورت روزہ نہیں رکھ سکتی۔ حائضہ کے بارہ میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہم حیض کے باعث روزے چھوڑ تی تھیں توہمیں بعد میں وہ روزے پورے کرنے کا ارشاد ہوتا تھا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام )

نفاس والی عورت کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ روزہ نہیں رکھ سکتی۔ لیکن جب بعد میں یہ عذر دور ہو جائیں یعنی حائضہ حیض سے پاک ہو جائے اور نفاس کے دن ختم ہوجائیں تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضاء واجب ہوگی۔ اور یہ روزے انہیں رکھنے ہونگے۔

مرضعہ اور حاملہ کے متعلق حدیث میں آتاہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز معاف کر دی ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ سے رخصت دی ہے‘‘۔ (ترمذی ابواب الصوم)

ؒ یعنی یہ دونوں اپنے عذر کے ختم ہونے کے بعد چھوڑے ہوئے روزے پورے کر لیں۔ اگر طاقت ہو تو فدیہ بھی دینا چاہئے جو اس بات کا کفارہ ہوگا کہ رمضان کی برکتوں والے مہینے میں وہ روزہ کی عبادت بجا لانے سے محروم رہی ہیں۔ اگر فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہیں تو روزے کافی ہیں۔

اگر کسی عورت کو ایسی حالت پیش آتی رہتی ہے کہ ایک وقت میں مرضعہ ہے اور دوسرے وقت میں حاملہ تو اس سے روزہ معاف ہے اور صرف فدیہ کافی ہے۔ اسی طرح شیخ فانی اور دائم المریض کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ جس کے لئے آئندہ روزہ رکھنے کا امکان صحت کے لحاظ سے کوئی نہیں تو صرف فدیہ ہی ادا کر دے۔


سحری کے آداب



حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :’’تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَۃٌ‘‘اے مسلمانو ! سحری کھایاکرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔

آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں: ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں ایک فرق سحری کھانا بھی ہے۔ مسلمان سحر ی کھا کر روزہ رکھتے ہیں اوراہل کتاب سحری نہیں کھاتے۔(سنن الدارمی،کتاب الصوم بابفضل السحور)

سحری کاوقت آدھی رات کے بعد سے فجر کے طلوع ہونے تک ہے لیکن آدھی رات کو اٹھ کر سحری کھا لینا مسنون نہیں۔ اصل برکت اتباع سنت میں ہے اورسنت یہ ہے کہ طلوع فجر سے تھوڑاپہلے انسان کھا پی لے ۔ آنحضرت ﷺ اورآپ ؐ کے صحابہ کرامؓ 5 کا یہی طریق تھا ۔ صحابہ کرامؓ بیان کرتے ہیں کہ: سحری کھانے کے بعد ہم نماز کیلئے کھڑے ہو جاتے تھے ۔(ترمذی کتاب الصوم باب تأ خیر السحور)یعنی سحری کے اختتام اور نماز فجر کے دوران بہت کم وقفہ ہوتا تھا۔

حضرت انسؓ ، حضرت زیدؓ بن ثابت سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز فجر کے لئے کھڑے ہوگئے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ سحری اور نماز فجر کے درمیان کتنا وقفہ ہوا کرتا تھا تو زید بن ثابتؓ نے جواب دیا کہ قریباً پچاس آیات پڑھنے کے برابر وقفہ ہوتاتھا۔(بخاری۔کتاب الصوم)

یعنی اندازاً دس سے پندرہ منٹ ۔ پچاس آیات کی تلاوت پر قریباً اتنا وقت خرچ ہوتا ہے۔

سحری کی تاکید کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے اس کی حکمت بھی بیان فرمائی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ :

’’ آنحضرت ﷺ نے فرمایا سحری کے کھانے کے ذریعہ دن کے روزہ ( کی مشقت) اور رات کی عبادت (میں جاگنے) کے مقابل پر قیلولہ کے ساتھ مدد چاہو‘‘۔(سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب ما جاء فی السحور)

ایک اورموقع پر آپ ؐنے فرمایا:’’ صبح کا یہ مبارک کھانا رات کے آخری حصہ میں کھایا کرو‘‘۔(الجامع الصغیرالجزء الاول حدیث ۳۲۹۲)

اسی طرح فرمایا :’’ سحری کیا کروخواہ ایک گھونٹ پانی ہی کیوں نہ ہو‘‘۔(الجامع الصغیر الجزء الاول حدیث نمبر ۳۲۹۳)


کیا سحری کھانا ضروری ہے؟



سحری کھائے بغیر روزہ رکھنے میں برکت نہیں لیکن اگر انسان کی اس وقت آنکھ کھلے جب فجر طلوع ہو چکی ہو اور سحری کھانے کا وقت نہ رہا ہو تو بغیر سحری کھانے کے روزہ رکھ لینا جائز ہے۔ لیکن بطور عادت کے ایسا کرنا پسندیدہ نہیں۔

اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم رکھنا بڑا ضروری ہے۔ ہر ایک نیکی کا کام اسی وقت نیکی کا کام ہو سکتاہے جب کہ وہ اللہ کے بیان کردہ احکامات اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق ہو۔ بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا آنحضرت ﷺ نے پسند نہیں فرمایا۔ بلکہ یہ فرمایا کہ’’ سحری کھایاکرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے‘‘۔


آنحضرت ﷺ کی سحری



رسول اللہ ﷺ کے خادم حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سحری کے وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ اے انس !میں نے روزہ رکھنا ہے مجھے کھانے کی کوئی چیز لا دو‘‘ ۔ حضرت انس کہتے ہیں میں کھجوریں اور ایک برتن میں پانی لے آیا۔ اور اس وقت حضرت بلالؓ کی پہلی اذان ہو چکی تھی۔ حضور نے فرمایا ’’ انس! دیکھو (مسجد میں) کوئی اورآدمی ہے جو میرے ساتھ سحری میں شامل ہو‘‘ ۔حضرت انسؓ نے زیدؓ بن ثابت کو بلایا تو انہوں نے کہا’’ میں تو ستّو پی کر روزہ رکھ چکا ہوں‘‘۔ حضور نے فرمایا ’’ہم نے بھی روزہ ہی رکھنا ہے‘‘۔ چنانچہ زیدؓ بن ثابت نے حضور ؐ کے ساتھ سحری کھائی۔ (سنن نسائی کتاب الصیام )

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور سحری میں کسی قسم کے تکلفات نہیں فرماتے تھے ۔ جو میسر ہوتاتھا اس سے روزہ رکھ لیتے تھے بلکہ ایک موقعہ پر آنحضورؐ نے فرمایا کھجور مومن کے لئے کتنی اچھی سحری ہے۔

آنحضرت ﷺ نے رمضان میں مسلمانوں کی سہولت کے لئے یہ انتظام فرمایا تھا کہ صبح کی دو اذانیں ہوتی تھیں۔ پہلی اذان حضرت بلالؓ فجرکے طلوع ہونے سے پہلے دیتے تھے جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اب سحری کا آخری وقت ہے جو شخص نماز تہجد ادا کر رہا ہے یا جو سویا ہوا ہے وہ بھی اٹھ کر سحری کھالے اوردوسری اذان حضرت ابن ام مکتومؓ اس وقت دیا کرتے تھے جب فجر طلوع ہو جاتی تھی اوراس کا مقصد سحری کے وقت کے ختم ہو جانے کا اعلان ہوتاتھا ۔ اس لئے حضور ؐ نے فرمایا کہ جب بلال اذان دے تو کھاتے رہا کرو اورجب ابن ام مکتوم اذان دے تو سحری ختم کر لیاکرو۔ (بخاری کتاب الصوم باب قول النبی لا یمنعکم من سحور کم اذان بلال)

لیکن اس میں گنجائش بھی رکھ دی کہ جب تک پوری طرح فجر نہ ہو جائے تو کھا پی سکتے ہیں خواہ اذان ہو رہی ہو۔ (سنن نسائی کتاب الصیام باب کیف الفجر)


افطاری کے آداب



روزہ کی افطاری کا وقت نہایت بابرکت گھڑی ہوتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اسے افطاری کے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری اس وقت ہوگی جب روزہ کی وجہ سے خدا سے اس کا لقاء ہوگا۔(ابن ماجہ کتاب الصیام باب ما جاء فی فضل الصیام)

پس افطاری کے وقت کے نہایت بابرکت لمحات کو ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ قبولیت دعا کے اس وقت میں دعائیں کرنی چاہئیں۔ آنحضرت ﷺ افطاری کے وقت یہ دعا کیاکرتے تھے :اللّٰھُمَّ اِنِّیْ لَکَ صُمْتُ وَ عَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ۔(ابوداؤدکتاب الصیام باب القول عند الافطار)

حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:جب دن چلا جائے اور رات آ جائے اور سورج ڈوب جائے تو روزہ افطار کر لو۔ ( بخاری کتاب الصوم، باب متی یحل فطر الصائم)

حضرت سہیل بن سعدؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :کہ روزہ افطار کرنے میں جب تک جلدی کرتے رہیں گے اس وقت تک خیر و برکت بھلائی اور بہتری حاصل کرتے رہیں گے۔( بخاری کتاب الصوم۔ باب تعجیل الافطار)

اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:’’ دین اسلام اس وقت تک مضبوط رہے گا جب تک لوگ روزہ جلدی افطار کرتے رہیں گے ۔ کیونکہ یہودی اور عیسائی روزہ افطار کرنے میں تاخیر کرتے تھے ‘‘۔(ابوداؤد کتاب الصوم۔باب مایستحب من تعجیل الفطر)

حضرت ابی اوفی ؓا ٓنحضرت ﷺ کے ایک سفر کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں اس سفر میں حضور ﷺ کے ہمراہ تھا ۔ غروب آفتاب کے بعد حضور ؐ نے ایک شخص کو افطاری لانے کا ارشاد فرمایا۔ اس شخص نے عرض کی کہ حضور ذرا تاریکی ہو لینے دیں۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ افطاری لاؤ۔ اس شخص نے پھر عرض کی کہ حضور ابھی توروشنی ہے۔ حضور ؐ نے فرمایا افطاری لاؤ ۔ وہ شخص افطاری لایا۔ آپ ؐ نے روز ہ افطار کرنے کے بعد اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تم غروب آفتاب کے بعد مشرق کی طرف سے اندھیرا اٹھتے دیکھو تو افطار کر لیاکرو۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الصوم باب بیان وقت انقضاء الصوم)


آنحضرت ﷺ کی افطاری



آنحضرت ﷺ روزہ افطار کرنے میں بھی کوئی تکلف نہیں فرماتے تھے ۔ حضرت انسؓ بن مالک جو آپ کے خادم خاص تھے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نماز مغرب سے قبل تازہ کھجور کے چند دانوں سے روزہ افطار فرماتے تھے ۔ اگر تازہ کھجور میسر نہ ہو تو خشک کھجور کھا کر ہی روزہ کھول لیتے اوراگر خشک کھجور بھی نہ ملتی تو پانی کے چند چلو بھر کر افطاری کر لیتے ۔(ابوداؤد ،کتاب ا لصوم، باب ما یفطر علیہ )

آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو بھی ایسی سادہ افطاری کی تلقین فرمائی ہے۔ آ پؐ نے فرمایا:

’’ جب تم میں سے کوئی افطاری کرے تو کھجور سے کرے کیونکہ یہ بہت خیر وبرکت رکھتی ہے اوراگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے روزہ کھولے جو طہارت مجسم ہے‘‘۔(ترمذی کتاب الزکوٰۃ باب فی الصدقۃ علی ذی القرابۃ)


روزہ افطار کروانے کا ثواب



آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو روزہ افطار کرائے اسے روزہ رکھنے والے کے برابر ثواب ملے گا لیکن اس سے روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

ایک دفعہ حضرت سعدؓ بن معاذ کے ہاں رسول اللہ ﷺ افطاری کے لئے تشریف لے گئے۔ آنحضرت ﷺ نے روزہ کھولا اور فرمایا ’’تمہارا کھانا نیک لوگوں نے کھایا اور فرشتوں نے دعائیں کیں‘‘۔ (ابن ماجہ کتاب الصیام باب فی ثواب من فطر صائما)


وہ امور جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے



عمداً یعنی جان بوجھ کر کھانے پینے اور جماع یعنی جنسی تعلق قائم کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ٹیکہ لگوانے اور جان بوجھ کر قے کرنے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

حدیث میں آتاہے کہ :اگر کسی روزہ دار کو بے اختیار قے آ جائے تو اس پر روزہ کی قضاء نہیں لیکن جو روزہ دار جان بوجھ کر قے کرتاہے تو وہ روزہ قضاء کرے۔ (ترمذی ۔ ابواب الصوم، باب ما جاء من استقاء عمداً)


جان بوجھ کر روزہ تو ڑنا



اللہ تعالیٰ کے محارم اور شعائراللہ کی تعظیم اور حفاظت ضروری ہے ۔ روزہ کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے بیمار، معذور اور مسافر کو رخصت دی ہے اس کے بعد بھی وہ شخص جو بغیر کسی ایسے عذر کے جس میں شریعت نے روزہ توڑ نے کی اجازت دی ہو جان بوجھ کر روزہ توڑے تو سخت گنہگار ہے اور سزا کا مستحق ہے۔ ایسے شخص پر اس روزہ کی قضاء کے علاوہ بغرض توبہ کفارہ واجب ہوگا۔ یعنی اسے متواتر ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے یا ساٹھ مسکینوں کو اپنی حیثیت کے مطابق کھانا کھلانا پڑے گا۔(ترمذی، ابواب الصوم، باب ما جاء فی کفارۃ الفطر فی رمضان)


وہ امور جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا



روزہ کی شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے فقہاء نے ایک عمومی اصول لکھا ہے کہ وضو جسم سے کوئی چیز خارج ہونے سے ٹوٹتاہے اور روزہ جسم میں کوئی چیز داخل ہونے سے ٹوٹتا ہے۔ یعنی انسان کوئی چیز جان بوجھ کر کھا پی لے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص بھول کر کھا پی لے تو اس کا روزہ

علیٰ حالہٖ باقی رہے گا۔ اور کسی قسم کا نقص اس کے روزہ میں واقع نہیں ہوگا۔ اس بارہ میں آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے:اگرکوئی شخص بھول کر روزہ میں کھا پی لے تو اس سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ وہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ کھلا پلا رہا ہے۔( بخاری کتاب الصوم۔ باب الصائم اذا اکل او شرب نا سیا)

البتہ اگر کوئی شخص غلطی سے روزہ توڑ بیٹھے مثلاً روزہ یاد تھا لیکن یہ سمجھ کر روزہ کھول لیا کہ سورج ڈوب گیا ہے یا یہ کہ افطار کاوقت ہو چکا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ابھی تو سورج غروب نہیں ہوا اور نہ ہی افطار کا وقت ہوا ہے تو ایسی صورت میں اس کا روزہ مکمل نہیں ہوگا اور اس کی قضاء ضروری ہوگی لیکن اس غلطی کی وجہ سے نہ وہ گنہگارہے اور نہ اس پر کوئی کفارہ ہے۔

حضرت ابن عباسؓ روزہ دار کو یہ رعایت بھی دیتے ہیں کہ اگر ہنڈیا کا ذائقہ نمک مرچ وغیرہ چکھ کر تھوک دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

اگر کلی کرتے وقت بلا اختیار پانی کے چند قطرے حلق سے نیچے اتر جائیں تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح کان میں دو ا ڈالنے، بے اختیار قے آنے، آنکھ میں دوا ڈالنے ، نکسیر پھوٹنے ، دانت سے خون جاری ہونے ، مسواک یا برش کرنے، ،خوشبو سونگھنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح دن کے وقت سوتے میں احتلام ہو جانے کی وجہ سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔(سنن ابی داؤد،کتاب الصوم، باب فی الصائم یحتلم نہاراً فی شہر رمضان)

سرمہ لگانے سے متعلق ہدایت یہ ہے کہ عورت دن کے وقت سرمہ لگا سکتی ہے ۔ مرد کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے:کہ بحالت روزہ دن کو سرمہ نہ لگا البتہ رات کو لگا سکتے ہو۔ (سنن الدارمی، کتاب الصوم، باب الکحل للصائم)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’دن کو سرمہ لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے رات کو لگائے‘‘۔(البدر ۷؍ جون ۱۹۰۷ء)

جنابت کی حالت میں اگر نہانا مشکل ہو تو نہائے بغیر کھانا کھا کر روزہ کی نیت کر سکتا ہے او ر روزہ رکھا جا سکتا ہے۔

روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ کا استعمال غیر پسندیدہ ہے البتہ سادہ برش کرنا اور کلی کرنا جائز ہے۔ اسی طرح بیرونی اعضاء پر ٹنکچر کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اگر کوئی روز ہ دار کسی حادثہ میں مریض کو خون دے تو اس کے خون دینے سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا لیکن چونکہ ایسا کرنے سے کمزوری ہو جاتی ہے اس لئے روزہ کھول دینا چاہئے۔ خون دینا چونکہ انسانی جان کی حفاظت کے لئے بعض اوقات ضروری ہے اور روزہ تو بعد میں بھی رکھنے کی اجازت ہے اور خدا تعالیٰ نے یہ رعایت دی ہے اس لئے روزہ ایسی مجبوری کی صورت میں خون دینے کے لئے روک نہیں بننا چاہئے۔


فدیہ



عام ہدایت یہ ہے کہ انسان روزے بھی رکھے اور اگر استطاعت ہو تو فدیہ بھی دے۔ روزوں کا رکھنا فرض ہوگا اور فدیہ کا ادا کرنا سنت اور اس بات کا شکرانہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ عبادت کی توفیق بخشی ہے کیونکہ روزہ رکھ کر جو فدیہ دیتا ہے وہ زیادہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے کیونکہ روزہ رکھنے کی توفیق پانے پر خدا تعالیٰ کا شکرانہ ادا کرتا ہے۔

رمضان کے روزوں کا فدیہ اس شخص کیلئے ضروری نہیں جووقتی بیمار ہونے کی وجہ سے چند روزے چھوڑ دینے پر مجبور ہو گیا ہو۔ سوائے اس کے کہ وہ اس نیت سے فدیہ دے کہ اللہ تعالیٰ اسے بوجہ بیماری یا سفر چھوٹنے والے ان روزو ں کی قضاء کی توفیق بخشے اور رمضان کے ان روزوں کے اجر سے محروم نہ فرمائے جو بوجہ مجبوری اسے چھوڑنے پڑے۔

رمضان کے روزوں کا لازمی فدیہ صرف ایسے ذی استطاعت لوگوں کے لئے ہے جن کے متعلق یہ توقع نہیں کہ مستقبل قریب میں ان روزوں کی قضاء کر سکیں گے جیسے بوڑھا ضعیف جس کے قویٰ میں انحطاط شرع ہو چکا ہے یا کو ئی دائم المریض یا حاملہ اور مرضعہ (یعنی دودھ پلانے والی عورت) ہے۔ ایسے لوگوں کو اگر آسودگی حاصل ہو تو ہر روز ہ کے عوض ایک آدمی کا دو وقت کا کھانا یا اس کے برابر رقم کسی کو دے دینی چاہئے۔

اگر روک عارضی ہو اوربعد میں دور ہو جائے تو خواہ فدیہ دیا ہو یا نہ دیا ہو روزہ بہرحال رکھنا ہوگا کیونکہ فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہو جاتا بلکہ یہ تو محض اس بات کا بدلہ ہے کہ وہ ان دنوں میں باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس عبادت کو ادا نہیں کر سکا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک شخص نے سوال کیا کہ میں نے آج سے پہلے کبھی روزہ نہیں رکھا ، اس کاکیا فدیہ دوں؟۔ اس پرآپ نے فرمایا :

’’ خدا کسی شخص کو اس کی وسعت سے باہر دکھ نہیں دیتا ۔ وسعت کے موافق گزشتہ کا فدیہ دے دو۔ آئندہ عہد کرو کہ سب روزے رکھوں گا‘‘۔ (البدر جلد ۱،نمبر ۱۲, ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۱)


فدیہ کی مقدار



فدیہ کی مقدار کے متعلق اصولی ہدایت یہ ہے کہ( مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُم) (المائدہ :۹۰) جو تم بالعموم اوسطاً اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہو۔ یعنی اپنے اوسط معیار کے موافق کھانا کھلانا چاہئے۔

حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے اس کا اندازہ گندم کے لحاظ سے نصف صاع یعنی قریباً پونے دو سیر بیان کیاہے۔ یہ ایک فوت شد ہ روزے کا فدیہ ہوگا جو دو وقت کے کھانے کے لئے کفایت کرے گا۔


فدیہ کس کو ادا کیا جائے؟



یہ ضروری نہیں کہ فدیہ کسی ایسے غریب کو ہی دیا جائے جو روزہ رکھتا ہے۔ اصل مقصد مستحق و نادار کوکھانا کھلانا ہے خواہ وہ روزے رکھ سکتا ہو یا کسی عذرکی بنا پر نہ رکھ سکتا ہو۔اسی طرح فدیہ اسی پر واجب ہے جو ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو ورنہ ایک غیر مستطیع کے لئے ندامت، توبہ،استغفار ، دعا اور ذکر الٰہی کا ورد کفایت کرے گا۔ فدیہ کی رقم جماعتی انتظام کے تحت جمع کرانی چاہئے۔


اعتکاف اور اس کے مسائل



اعتکاف کے لغوی معنی کسی جگہ میں بند ہو جانے یا ٹھہرے رہنے کے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں ’’اَللَّبْثُ فِی الْمَسْجِدِ مَعَ الصَّوْمِ وَنِیَّۃِ الْاِعْتِکَافِ‘‘ یعنی عبادت کی نیت سے روزہ رکھ کر مسجد میں ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے۔

روز ہ کی طرح اعتکاف کا بھی وجود دیگر مذاہب میں ملتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:

( وَعَھِدْنَاإلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرْبَیْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَعِ السُّجُوْد)( البقرہ : ۱۲۶)

ہم نے ابراہیم ؑ اور ا سمٰعیلؑ کو تاکیدی حکم دیا تھا کہ میرے گھر (خانہ کعبہ) کو طواف کرنے اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک اور صاف رکھو۔

آنحضرت ﷺ کا بعثت سے قبل کے ایام میں دنیوی اشغال سے فارغ ہو کر غار حرا میں یاد خداوند ی میں مشغول رہنا بھی ایک رنگ میں اعتکاف ہی تھا۔ اعتکاف انسان جب چاہے اورجس دن چاہے بیٹھ سکتا ہے لیکن رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھنا مسنون ہے۔

آنحضرت ﷺ کے اعتکاف کے بار ے میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:

’’ آنحضرت ﷺ کا اپنی وفات تک یہ معمول رہا کہ آپ ؐ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔ آپ ؐ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات بھی اس سنت کی پیروی کرتی رہیں‘‘۔(صحیح مسلم، کتاب الاعتکاف باب اعتکاف العشر الاواخر)

آنحضرت ﷺ لیلۃ القدر کی تلاش کرنے والوں کو رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھنے کی ہدایت فرمایا کرتے تھے ۔ چنانچہ آپ ؐ نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ ’’ مجھے بتایا گیا ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں ہے ۔ تم میں سے جو شخص اعتکاف بیٹھنا چاہے وہ اس عشرہ میں بیٹھے ۔ چنانچہ صحابہؓ آپ ؐ کے ساتھ آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھتے ۔


اعتکاف کتنے دن بیٹھنا چاہئے



اعتکاف کے لئے کوئی میعاد مقرر نہیں۔ یہ بیٹھنے والے کی مرضی پر منحصر ہے، جتنے دن بیٹھنا چاہے بیٹھے ۔ تاہم مسنون اعتکاف جو آنحضرت ﷺ کے طرز عمل سے ثابت ہے یہ ہے کہ کم از کم دس دن کا ہو۔ حدیث میں ہے:

’’ حضورﷺہمیشہ ماہ رمضان میں دس دن اعتکاف بیٹھا کرتے تھے ۔ البتہ جس سال آپ ؐ کی وفات ہوئی اس سال آپ ؐ بیس دن کا اعتکاف بیٹھے‘‘۔


اعتکاف کب شروع ہوگا؟



اعتکاف بیس رمضان کی نماز فجر سے شروع کرنا چاہئے کیونکہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں واضح طور پر موجود ہے کہ آپ دس دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور دس دن اسی صورت میں مکمل ہوتے ہیں جبکہ بیس رمضان کی صبح کو اعتکاف میں بیٹھا جائے۔ اور عید کا چاند نظر آنے پر معتکف کا اعتکاف مکمل ہو جاتا ہے۔

آنحضرتﷺ نماز فجر کے بعد اپنے مُعتکَف میں قیام پذیر ہو جاتے ۔ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے: ’’ رسول اللہ ﷺ جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو

نماز فجر ادا کرنے کے بعد اپنے مُعتکَف میں جو اس غرض کے لئے تیار کیا جاتا چلے جایا کرتے تھے‘‘۔

حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:’’ اعتکاف بیسویں کی صبح کو بیٹھتے ہیں ۔ کبھی دس دن ہو جاتے ہیں اور کبھی گیارہ‘‘۔(الفضل ۳؍نومبر ۱۹۱۴ء)


اعتکاف کس جگہ پر کیا جا سکتا ہے



اعتکاف کے لئے موزوں اور مناسب جگہ جامع مسجد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے: (وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ)

کیونکہ مساجد ہی اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت کے لئے مخصوص ہیں اور احادیث میں مسجد میں ہی اعتکاف بیٹھنے کی تاکید ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :

اعتکاف صرف جامع مسجد میں ہوسکتا ہے ۔ (ابوداؤد کتاب الاعتکاف باب المعتکف یعود المریض)

چنانچہ سارے آئمہ اس رائے پر متفق ہیں کہ اعتکاف ایسی مسجد میں ہو سکتا ہے جس میں باجماعت نماز ہوتی ہو۔ گو مجبوری کی بناء پر مسجد کے باہر بھی اعتکاف ہو سکتا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

’’ مسجد سے باہر اعتکاف ہو سکتا ہے مگر مسجد والا ثواب نہیں مل سکتا۔ جب باقاعدہ عام مسجد میسر نہ آئے مثلاً کہیں اکیلا احمدی رہتاہے یا مقامی جماعت کے افراد کسی دوست کے گھر میں نماز ادا کرتے ہیں تو ایسی صورت میں اپنے گھر میں ایسی جگہ جو نماز کے لئے عام طور پر مخصوص کر لی گئی ہو اعتکاف بیٹھ سکتے ہیں۔ مجبوری کی حالت کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور وہ بندے کی نیت کے مطابق اعمال کا ثواب دیتا ہے‘‘۔

عورت بھی مسجد میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہے لیکن اگر کسی جگہ مسجد نہیں یا مسجد میں عورت کی رہائش کا معقول اور مناسب انتظام نہیں تو گھرمیں نماز کے لئے ایک الگ جگہ مخصوص کر کے وہاں اعتکاف بیٹھنا اس کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ اعتکاف کے دوران اگر عورت کے مخصوص ایام شروع ہو جائیں تو وہ اعتکاف ترک کر دے۔ اس حالت میں اس کا مسجد میں رہنا درست نہیں ہوگا۔


کیا اعتکاف کے لئے روزہ شرط ہے؟



عام حالات میں اعتکاف کے لئے روزہ ضروری شرط ہے۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ روزہ کے بغیر اعتکاف درست نہیں۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:

’’ لَا اِعْتِکَافَ اِلَّابِالصَوْم‘‘ کہ روزہ کے بغیر اعتکاف نہیں ہے۔آیت کریمہ(ثُمَّ اَتِمُّواالصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فَی الْمَسَاجِدِ) کا انداز بیان بھی اسی مسلک کی تائید کرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ تصریح کہیں نہیں ملتی کہ آنحضرت ﷺ یاآپؐ کے صحابہ کبھی روزہ کے بغیر اعتکاف بیٹھے ہوں۔ صحابہؓ میں سے حضرت ابن عباسؓ ، حضرت ابن عمرؓ اور آئمہ میں سے امام مالک ؒ ، امام ابو حنیفہؒ امام اوزاعیؒ کا یہی مسلک ہے کہ اعتکاف کے لئے روزہ ضروری ہے۔


مُعتکِف کن ضروریات کے لئے مسجد سے باہر جا سکتا ہے



معتکف کے لئے حوائج ضروریہ کے علاوہ کسی اوروجہ سے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں۔

حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ اعتکاف کی حالت میں سوائے انسانی حاجت کے گھرمیں نہیں آتے تھے۔(یہ امر یاد رہے کہ آنحضرت ﷺ کا گھر مسجد کے ساتھ ملحق تھا)۔

کلی انقطاع اعتکاف کا اعلیٰ درجہ ہے۔ حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ سنت یعنی آنحضرت ﷺ کے طریق کی متابعت یہ ہے کہ معتکف مسجد سے باہر نہ نکلے۔ نہ بیمار کی عیادت کے لئے اور نہ ہی جنازہ میں شامل ہونے کے لئے ۔ ہاں حوائج ضروریہ کے لئے باہر جا سکتا ہے۔ (ابوداؤد،کتاب الصیام،باب المعتکف یعود المریض)

انسانی حاجت سے مراد کیا ہے؟ اس کا ایک مفہوم بیت الخلاء جانا ہے۔ اس مفہوم پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ یہ ایسی ضرورت ہے جس کے لئے مسجد سے باہر آنا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر محلہ کی مسجد میں اعتکاف بیٹھا ہے تو جمعہ پڑھنے کے لئے جامع مسجد جانے کی بھی اجازت ہے اور اسے بھی حاجت انسانی سمجھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ باقی ضروریات مثلاً درس القرآن یا اجتماعی دعا میں شامل ہونے، کھانا کھانے، نماز جنازہ پڑھنے ، کسی عزیز کی بیمار پرسی کرنے یا کسی کی مشایعت کے لئے باہر آنے کی اجازت میں اختلاف ہے۔ اکثر ان اغراض کے لئے مسجد سے باہر آنے کو جائز نہیں سمجھتے اور اعتکاف کی روح بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ ان ثانوی اغراض کے لئے معتکف مسجد سے باہرنہ آئے بلکہ کلی انقطاع کی کیفیت اپنے اوپر وارد کرنے کی کوشش کرے اوراس قسم کی ترغیبات اور خواہشات کی قربانی دینے کا اپنے آپ کو عادی بنائے۔

تا ہم بعض فقہاء نے کہا ہے کہ حوائج ضروریہ میں کچھ وسعت ہے۔ بعض اور ضرورتوں کے لئے معتکف مسجد سے باہر جا سکتاہے۔ بعض روایات سے بھی اشارۃً اس کی تائید ہوتی ہے کہ انسان کسی اور ضرورت کے پیش نظر بھی مسجد سے باہر جا سکتا ہے۔ مثلاً ایک بار حضرت صفیہؓ رات کو آپ سے ملنے گئیں اور دیر تک باتیں کرتی رہیں اور جب واپس ہوئیں تو آپ ؐ انہیں گھر تک پہنچانے آئے حالانکہ یہ گھر مسجد سے کافی دور تھا۔(ابوداؤد ، باب المعتکف یدخل البیت لحاجۃ)

حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ:’’ اعتکاف کے دوران جب بھی قضائے حاجت کے لئے گھرآتی اور گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو چلتے چلتے اس کی طبیعت پوچھ لیتی‘‘۔(ابن ماجہ،کتاب الصوم باب فی المعتکف یعودالمریض)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیادت مریض کے جواز کے بارہ میں جو لکھا ہے اسکا بھی غالباً یہی مطلب ہے کہ ایسے رنگ میں عیادت جائز ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ معتکف اپنے دنیوی کاروبار کے متعلق بات کر سکتا ہے یا نہیں۔ تو آپ ؑ نے فرمایا : ’’سخت ضرورت کے وقت کر سکتا ہے اور بیمار کی عیادت کے لئے اورحوائج ضروریہ کے واسطے باہر جا سکتا ہے‘‘ (بدر ۲۱؍ فروری ۱۹۰۷ء)

بعض باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ انسان کو ان کے کرنے یانہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے لیکن اگران کو کیا جائے تو پھر ضروری شرائط کے ساتھ ان کی

بجا آوری مشروط ہے۔ اعتکاف کا بھی یہی حال ہے۔ آپ چاہیں تو اعتکاف بیٹھیں اور چاہیں تو اپنے حالات کے پیش نظر ترک کریں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ مسنون اعتکاف کی نیت سے اعتکاف بھی بیٹھیں اور پھر اپنی مرضی کو بھی اس میں دخل انداز ہونے دیں۔

پس مسنون اعتکاف وہی ہے جو آنحضرت ﷺ کے طریق کے مطابق ہو اور جو حدیثوں سے ثابت ہو اور وہ یہ ہے کہ رمضان کا آخری عشرہ آپ ؐ مسجد میں روزہ سے گزارتے اورحوائج ضروریہ کے علاوہ باقی کسی ضرورت سے مسجد سے باہر نہ آتے ۔


فطرانہ کب ادا کیاجائے؟



صدقۃ الفطر رمضان کے داخل ہونے سے ہی واجب ہوجاتا ہے تاہم اس کی ادائیگی عید کی نمازسے قبل یکم شوال تک ضروری ہے۔ بہتر یہی سمجھا جاتا ہے کہ غرباء کو عید کی تیاری کے لئے پہلے فطرانہ دے دیا جائے تا کہ وہ عید کی خوشیوں میں برابر کے شریک ہو سکیں۔حضرت ابن عمرؓ کے متعلق آتا ہے کہ آپ عید سے ایک یا دو دن قبل فطرانہ ادا فرماتے تھے۔


فطرانہ کی شرح کیا ہے؟



فطرانہ کے طور پر ہر فرد پر ایک صاع کھجور یاان کے برابر قیمت ادا کرنی مقرر ہے۔ صاع عربوں میں ماپ کا ایک پیمانہ ہے جس میں د و (۲) رِطل ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک صاع میں کل آٹھ پاؤنڈ ہوئے۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے صدقۃ الفطر ایک صاع کھجور یا جَو ہر آزا د و غلام ، ہرمرد و عورت اور ہرچھوٹے بڑے مسلمان پر فرض فرمایا تھا اورحکم دیا تھا کہ لوگوں کے عید کی نماز کے لئے جانے سے پہلے یہ ادا کیا جائے۔

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ یہ بھی بیان فرماتے ہیں کہ جؤ ، کھجور، منقہ وغیرہ کا ایک صاع صدقۃ ا لفطر میں ہر کس کی طرف سے دیا جاتا تھا۔

ہماری جماعت میں حالات کے مطابق گندم کی جوقیمت ہواس لحاظ سے ایک صاع یعنی قریباً دو سیر گندم کی قیمت کا انداز ہ کر کے رقم معین کر دی جاتی ہے۔ اور اس کی ادائیگی کا اعلان کر دیا جاتاہے۔ جیسے یہاں برطانیہ میں فطرانہ کی شرح فی کس ڈیڑھ پاؤنڈ سٹرلنگ مقرر کی گئی ہے۔


(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل۸؍نومبر، ۱۵؍نومبر۲۰۰۲ء)
مکمل تحریر >>

Monday 9 May 2016

قائلینِ وفاتِ مسیح





۱۔ مشہور و معروف بزرگ مالکی مسلک کے پیشوا حضرت امام مالک ؒ (۹۰ھ تا۱۷۹ھ)کے متعلق لکھا ہے:
’’وَالْاَکْثرُ ان عیسٰی لم یَمُت وقال مالک مَات‘‘
(مجمع بحار الانوار صفحہ ۲۸۶ از علامہ شیخ محمد طاہر زیر مادہ حکم مطبع لمنشی نول کشور)
یعنی اکثر لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں مرے لیکن حضرت امام مالکؒ کا قول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔
۲۔ رئیس المحدثین حضرت علامہ ابن قیم متوفی (۷۵۱ھ) ’’زاد المعاد‘‘ میں جسمانی رفع کے عقیدے کا رد کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:۔
’’وامّا ما یُذکر عن المسِیح انہ رفع الی السّماء ولہ ثلاثۃٌ وثلاثون سنۃً فھذا لا یعرف لہٗ اثر متصل یجِب المصِیر الیہ‘‘
(زاد المعاد فی ھدی خیرالعباد الجزء الاول از امام علامہ شمس الدین ابی عبداللہ محمد بن عبدالملک المشہور بابن قیم صفحہ۲۰ طبع بالمطبعۃ المیمنیۃ بمصر)
ترجمہ:’’وہ جومسیح علیہ السلام کے متعلق روایت ہے کہ جب انہیں آسمان پر اٹھایا گیا تو ان کی عمر تینتیس برس کی تھی، تو اس کے متعلق کوئی متصل سند کی حدیث نہیں ملتی کہ جس پر اعتماد کی جا سکے۔‘‘
(ترجمہ از سید رئیس احمد جعفری زادالمعاد مترجم جلد اول ۔ نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی ۔ دسمبر۱۹۸۶ء)
اسی کتاب میں دوسری جگہ علامہ ابن قیم فرماتے ہیں:۔
’’فالانبیائُ انّما اسْتقرّت ارواحُھم ھناک بعد مفارِقۃِ الابدانِ‘‘
(زاد المعاد الجزء الاول صفحہ۳۰۴)
یعنی معراج کی رات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنیاء سے ملاقات کی تو یہ ان انبیاء کی روحیں تھیں جنہوں نے جسم عنصری سے جدا ہو کر آسمانوں میں قرار پکڑا تھا۔
اسی طرح علامہ ابن قیم اپنی کتاب ’’مدارج السالکین ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ولو کان موسٰی وعیسٰی علیھماالسلام حیَّیْنِ لکانا من اَتْبَاعِہ‘‘
(مدارج السالکین الجزء الثانی صفحہ۴۹۶- لابن قیم (۶۹۱تا ۷۵۱ھ ) دارالکتب العلمیۃ بیروت ۔ لبنان ۔ الطبعۃ الثانیۃ ۱۴۰۸ھ ۔ ۱۹۸۸ء)
اور اگر موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو لازما ًآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں سے ہوتے۔
۳۔ ساتویں صدی ہجری کے عظیم بزرگ صوفی، الشیخ الاکبر العارف باللہ مصنف’’فتوحات مکیہ(متوفی ۶۳۸ھ)‘ ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:۔
’’رَفْعُ عیسیٰ  علیہ السلام اتِّصالُ روحِہ عند المُفارقۃِ عن العالم السّفلِی بالعالم العَلویِّ‘‘
(تفسیر القرآن الکریم للشیخ الاکبر العارف باللہ العلامہ محی الدین ابن عربیؒ ۔ المتوفی سنۃ ۶۳۸ھ ۔ تحقیق وتقدیم الدکتور مصطفی غالب۔ المجلد الاول صفحہ ۲۹۶ زیر آیت بل رفعہ اللہ الیہ)
یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کا رفع دراصل ان کی روح کے عالم سفلی سے جدا ہو کر عالم علوی میں قرار پکڑنے کا نام ہے۔
پھر اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:۔
’’وجب نُزولُہ فی آخرِالزّمان بتعلّقہ ببدنٍ آخَر‘‘
(تفسیر ابن عربی حوالہ مذکور)
یعنی آپؑ کا نزول آخری زمانے میں ایک دوسرے جسم کے ساتھ تعلق پکڑکر ہونا ضروری ہے۔ گویا وہ اسرائیلی مسیح کی آمد کے نہیں بلکہ غیر اسرائیلی مسیح کی آمد کے منتظر ہیں۔
۴۔پانچویں صدی کے مجدد، مشہور و معروف عالم دین، بلند پایہ محدث اور فقیہہ علامہ ابن حزم (متوفی۴۵۶ھ) اپنی کتاب ’’المحلّی‘‘ میں وفات مسیح کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’وان عیسٰی علیہ السلام لم یُقْتَل ولم یُصْلب ولکن توفاہ اللہ عزوجل ثم رفعہ الیہ ۔ وقال عزوجل (وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَاصَلَبُوہُ) وقال تعالیٰ(اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیّ) وقال تعالیٰ عنہ انہ قال (وکَنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ وَاَنْتَ عَلیٰ  کُلِّ شَیْٔ  قَدِیْرٌ) وقال تعالیٰ (اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا ) فالوفاۃ قسمان : نوم، وموت فقط، ولم یرد عیسیٰ  علیہ السلام بقولہ (فلما توفیتنی)وفاۃ النوم فصح انہ انما عنی وفاۃ الموت‘‘۔
(المحلّی لابی محمد علی بن احمد بن سعید بن حزم المتوفی سنۃ ۴۵۶ھ۔ الجزء الاول صفحہ۲۳ مسئلہ نمبر۴۱)
یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ قتل ہوئے اور نہ صلیب پر مارے گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی اور پھر اپنے حضور رفعت بخشی۔ اور خدائے عزوجل کے قرآن مجید میں یہ فرمان ہیں  (وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَاصَلَبُوہُ)(اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیّ) (وکَنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ وَاَنْتَ عَلیٰ  کُلِّ شَیْٔ  قَدِیْرٌ) (اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا ) وفات کی فقط دو اقسام ہیں: نیند اور موت(اس کے علاوہ اور کوئی قسم بیان نہیں ہے۔) اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول فلما توفیتنیمیںنیند مراد نہیں ہے۔ پس واضح ہوتا ہے کہ یہاں صرف طبعی موت مراد ہے۔
علامہ ابن حزم اسی کتاب کے مسئلہ نمبر ۴۳ میں واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات جن انبیاء سے ملاقات کی تھی، یہ ان کی روحیں تھیں نہ کہ مادی اجسام، چنانچہ فرماتے ہیں:۔
’’ففِی ھذاالْخبر مکانُ الارْواحِ وان ارواحُ الانْبِیائِ فی الجنّۃ‘‘
(المحلّی لابن حزم صفحہ ۲۵ مسئلہ نمبر ۴۳)
یعنی معراج والی حدیث میں ارواح کے ساتھ ملاقات کرکے روحوں کی جگہ کا بیان ہے اور وہ یہ ہے کہ یقیناانبیاء کی روحیں جنت میں ہیں۔
اسی طرح حضرت امام ابن حزم ؒ کے بارے میں حضرت امام جلال الدین سیوطیؒ نے لکھا ہے :۔
’’وتمسّک ابن حزم بظاھر الآیۃ وقال بمَوتہ۔‘‘
(حاشیہ بین السطور جلالین مع کمالین صفحہ۱۰۹ زیر آیت فلما توفیتنی)
یعنی امام ابن حزم نے اس آیت کو ظاہر پر حمل کیا ہے اور توفی کا معنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت بیان فرمایا ہے۔
۵۔علامہ ابن الوردی فرماتے ہیں:۔
’’وقالت فِرقۃٌ نزولُ عیسیٰ  خروجُ رجلٍ یَشبہُ عیسیٰ  فی الفضلِ والشّرفِ کما یُقال لِلرَّجُلِ الْخَیْرِ ملَک وللشریر شیطَانٌ تشبیھا بھما ولا یُراد الاعیانُ ‘‘
(خریدۃ العجائب وفریدۃ الغرائب صفحہ۲۶۳ تالیف سراج الدین ابی حفص عمر بن الوردی (۶۸۹ھ تا۷۴۹ھ ) الطبعۃ الثانیۃ طبع بمطبعۃ بمصر زیر عنوان ذکر نزول عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام )
اور ایک گروہ کہتا ہے کہ نزول عیسیٰ سے مراد ایسے شخص کی آمد ہے جو فضیلت اور شرف میں عیسیٰ سے مشابہ ہو ۔ اور جس طرح اچھے آدمی کو فرشتہ اور برے کو شیطان کہہ دیتے ہیں اور اس سے مراد فرشتہ وشیطان نہیں بلکہ ان سے مشابہت ہوتی ہے۔
علامہ ابن الوردی صاحب ، خود مفتی صاحب کی طرح حیات مسیح اور ان کے دنیا میں دوبارہ آمد کے قائل ہیں اس لیے انہوں نے خود اس قول کی تصدیق نہیں کی لیکن پھر بھی وہ اس امر کو تسلیم کر رہے ہیں کہ مسیح ناصری کی وفات اور مثیل مسیح کا عقیدہ ان کے زمانے میں امت میں موجود تھا۔
۶۔مشہور عالم دین شیخ محمد اکرم صاحب صابری اپنی کتاب ’’اقتباس الانوار‘‘(تالیف۱۱۳۰ھ)میں لکھتے ہیں:۔
’’ایک فرقے کا عقیدہ یہ ہے کہ مہدی آخرالزمان حضرت عیسیٰ بن مریم ہوںگے‘‘
(اقتباس الانوار صفحہ ۱۶۶ از شیخ محمد اکرم قدوسیؒ مترجم کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری۔(اشاعت دوم ۱۴۰۹ھ))
شیخ محمد اکرم صاحب کا چونکہ اپنا عقیدہ حیات مسیح کا ہے اس لیے انہوں نے اس روایت کے ضعف کا ذکر کیا ہے۔ بہرحال اس حوالے سے اتنا تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے زمانے میں ایک فرقہ اسرائیلی مسیح کی دوبارہ آمد کا قائل نہیں تھا۔
۷۔مشہور شیعہ عالم قمی (متوفی۳۸۱ھ) وفات مسیح کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’ولَم یقدِروا علی قتْلہ وصلبہ لانھم لو قدروا علی ذالک کان تکْذیبا لقولہ تعالیٰ ولٰکن رَّفع اللّہ الیہ بعد ان توفّاہ‘‘
(اکمال الدین واتمام النعمۃ جلداول صفحہ۳۳۲ تالیف شیخ الطائفہ صدوق علیہ الرحمۃ ۔ کتابفروشی اسلامیہ، تہران)
اور وہ (یعنی یہودی مسیح کے قتل اور ان کو صلیب دینے پر قدرت نہ پا سکے کیونکہ اگر وہ اس پر قادر ہو جاتے تو اللہ کی بات جھوٹی نکلتی لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو طبعی طور پر وفات دی اور اس کے بعد ان کو رفعت بخشی۔
۸۔ مفسر قرآن علامہ الاستاذ شیخ مفتی محمد عبدہ (۱۸۳۹تا۱۹۲۵ء) مفتی مصر اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن الکریم‘‘ میں زیر آیت یعیسیٰ  انی متوفیک لکھتے ہیں:۔
’’فالْمتبادر فی الآیۃ انی ممیتک وجاعلُک بعد الموتِ فی مکانٍ رفیع عندی کما قال فی ادریس علیہ السلام وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا۔ ھذا ما یفھمہ القاری الخالی الذھن من الرّوایات والاقوال لانہ ھوالمتبادرُمن العبارۃ وقد ایدناہ بالشواھد من الآیات ولکن الْمفسّرین قد حوّلوا الکلام عن ظاھرہ لیَنطبقَ علی ما اعطتْھم الروایات من کَون عیسیٰ  رفع الی السّماء بجسدِ ہ ‘‘
(تفسیرالقرآن الحکیم لاستاذ مفتی محمد عبدہٗ جز ثالث صفحہ۳۱۶ زیر آیت انی متوفیک)
ترجمہ: اس آیت کا مفہوم ظاہر ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے موت دینے والا ہوں اور موت کے بعد اپنی جناب میں ایک عزت ورفعت والی جگہ میں رکھنے والا ہوں۔ جس طرح حضرت ادریس علیہ السلام کے بارہ میں فرمایا کہ ہم نے اسے عزت والے مقام پر جگہ دی …… ہر قاری جو روایات اور اقوال سے خالی الذہن ہو اس آیت کا یہی مفہوم سمجھتا ہے اور یہی اس عبارت سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور ہم اس مفہوم کے حق میں آیات قرآنیہ کو بطور گواہ لائے ہیں ۔ لیکن مفسرین نے اس کلام کو ظاہر سے پھیرا ہے۔ تاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسمانی رفع الی السماء کے متعلق جو ان کے پاس روایات ہیں ان کی تطبیق کر سکیں۔
اسی آیت کی تفسیر میں اس سے آگے مفتی محمد عبدہ صاحب لکھتے ہیں:۔
’’والطّریقۃ الثّانیۃ ان الآیۃ علی ظاھرھا وان التوفی علی معناہ الظّاھر الْمتبادر وھو الْاماتَۃ العادیّۃ وان الرفع یکون بعدہ وھو رفْع الروح‘‘
(حوالہ مذکورہ صفحہ۳۱۷)
اور دوسرا طریق یہ ہے کہ آیت کے مفہوم کو ظاہر ا ً  مانا جائے۔ اس صورت میں توفی کے ظاہر و باہر معنی طبعی موت ہی ہیں اور یقینا رفع جو اس توفی کے بعد ہے وہ صرف روح ہی کا رفع ہے۔
۹۔علامہ احمد المصطفیٰ المراغی جو ازہر یونیورسٹی کے رئیس تھے، وفات مسیح کے قائل ہیں۔ چنانچہ اپنی تفسیر میں انی متوفیک کے تحت انہوں نے علماء کے دو اقوال لکھے ہیں۔دوسرا قول یہ لکھاہے:۔
’’ان الآیۃ علی ظاہرھا ، وان التّوفی ھوالاماتۃ العَادیۃ ، وان الرفع بعدہ للرّوح … والمعنی ۔ انی ممیتک وجاعلُک بعد الموت فی مکانٍ رفیعٍ عندی کما قال فی ادریس علیہ السلام ورفعْناہُ مکَانًا علیّا ۔ وحدیث الرّفع والنّزول آخر الزمان حدیث آحادٌ یتعلق بامرٍ اعتقادیّ ، والامور الاعتقادیّۃ لا یوخذ فیھا الّا بالدّلیل القاطعِ من قرآنٍ او حدیثٍ متواترٍ ، ولا یُوجدھنا واحدٌ منھما ‘‘
(تفسیر المراغی تالیف احمد مصطفی المراغی زیر آیت متوفیک)
 یعنی آیت سے ظاہری معنی مراد ہیں اور توفی سے طبعی موت مراد ہے۔ اور اس موت کے بعد رفع سے روحانی رفع مراد ہے۔ اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں تجھے موت دینے والا ہوں طبعی موت کے بعد بلندمقام میں رکھنے والا ہوں جس طرح حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں آیت مذکور ہے کہ ہم نے ان کو بلند مقام پر رفعت دی۔  اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع اور آخری زمانے میں نزول کی احادیث احاد ہیں۔ جو اعتقادی امور سے متعلق ہیں اور اعتقادی امور کی بنیاد تو قرآن کریم یا احادیث متواترہ کے قطعی دلائل پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور یہاں ان دونوں میں سے یعنی قرآن کریم اور احادیث متواترہ میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔ 
۱۰۔علامہ سید محمد رشید رضامفتی مصر (۱۸۶۵ء تا ۱۹۳۵ ء ) مدیر رسالہ المنار مصری ، انہوں نے اپنے استاد مفتی مصر محمد عبدہ سے علم حاصل کیا اور ’’الارشاد والالدعوۃ‘‘ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے ۔ حکومت مصر نے ان کی قابلیت کی وجہ سے ان کو مفتی مصر مقرر کر دیا۔یہ اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن الحکیم‘‘ میں زیر آیت انی متوفیک وفاتِ مسیح کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’فالمتبادر فی الآیۃ انّی ممیتکَ وجاعلُک بعد الموت فی مکان رفیع عنْدی کما قال فی ادریس علیہ السلام وَرَفَعْنَا ہُ مَکَانًا عَلِیًّا‘‘
(تفسیر القرآن الحکیم الشہیربتفسیر المنار از علامہ محمد رشید رضا زیر آیت انی متوفیک المجلد الثالث صفحہ۳۱۶)
یعنی اس آیت سے ظاہر ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے طبعی موت دینے ولا ہوں اور طبعی موت کے بعد اپنی جناب میں ایک عزت و رفعت والی جگہ میں رکھنے ولا ہوں۔ جیسا کہ حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے اسے عزت والے مقام پر جگہ دی۔
۱۱۔ علامہ محمود  شلتوت صاحب مفتی مصر نے نہایت وضاحت و صراحت اور شد و مد سے وفات عیسیٰ ٰ کا فتویٰ دیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:۔
’’والمَعنی ان اللّہ توفی عیسٰی ورفعہ الیہ وطھّرہ من الذین کفرُوا ۔وقد فسّر الالوسی قولہ تعالیٰ ’’انّی متوفّیک‘‘ بوجوہٍ منھا ۔ وھواظھرھا۔ انی مستوفٍ اجلک وممیتک حتْفَ انفِک لا اسلّط علیک من یقْتُلک …… وظاہر ان الرّفع الذی یکون بعد التّوفیۃ۔ ھورفْعُ المکانۃ لا رفْع الجسد …… فمِن این تُؤْخذ کلمۃُ السّماء من کلمۃٍ(الیہ)؟ اللّھم ان ھذاالظّلم للتّعبیر القرآنیّ الواضح خضُوعا لقِصص وروایات لَّم یقم علی الظن بھا  فضلا عن الیقین ۔ برھان ولا شبہ برھان‘‘
(الفتاویٰ للامام الاکبر محمود شلتوت صفحہ۵۳،۵۴)
ترجمہ: انی متوفیک کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات دی، عزت دی اور کافروں کے الزامات سے پاک کیا۔ علامہ الوسی نے اپنی تفسیر میں انی متوفیک کے کئی معنی کیے ہیں ان میں سے سب سے مضبوط معنی یہ ہیں کہ میں تیری عمر پوری کرکے تجھے طبعی طورسے وفات دوں گا۔ اور میں تجھ پر ایسے لوگوں کو مسلط نہیں کروں گا جو تجھے قتل کر دیں۔ پھر رفع کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔  ظاہر ہے کہ وہ رفع جو توفی کے بعد ہو سکتا ہے وہ رفع مرتبہ ہی ہے نہ کہ رفع جسمانی ۔ پھر رفع سماوی کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ  میں آسمان کا کوئی لفظ موجود نہیں ۔ پھر جسمانی رفع کے قائلین کی طرف سے آسمان کا لفظ کہاں سے لیا جاتا ہے۔ یقینا یہ قرآن کے ایک واضح مفہوم کے ساتھ زیادتی ہے ۔ محض ایسے قصے اور ظنی روایات قبول کرتے ہوئے جن پر کوئی دلیل تو کیا دلیل کا کوئی ادنی سا شائبہ بھی نہیں۔
۱۲۔ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والے (متوفی ۱۹۰۱ء) بھی وفات مسیح کے قائل تھے۔ چنانچہ ’’اشارات فریدی‘‘ میں لکھا ہے:۔
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ہو رہا تھا۔ ایک شخص نے دریافت کیا کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے تھے یا معروف موت کے بعد آپ کی روح مرفوع ہوئی۔ آپ نے فرمایا کہ باقی انبیاء اور اولیاء کی طرح مرفوع ہوئے ہیں۔ ‘‘
(اشارات فریدی مقابیس المجالس مترجم اردو کپتان واحد بخش سیال صفحہ۷۳۱ مقبوس نمبر ۶۰ بروز یکشنبہ ۲۰ ذیقعد ۶ا۱۳ھ)
۱۳۔ مشہور عالم دین اور مدرسہ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل علامہ عبیداللہ سندھی صاحب (متوفی ۱۹۴۴ء) اپنی تفسیر ’’الہام الرحمن فی تفسیر القرآن‘‘(اردو ترجمہ) میں فرماتے ہیں:۔
’’مُمِیْتُکَ : تجھے مارنے والا ہوں ۔ یہ جو حیات عیسیٰ لوگوں میں مشہور ہے یہ یہودی کہانی۔ نیز صابی من گھڑت کہانی ہے۔ مسلمانوں میں فتنہ عثمان کے بعد بواسطہ انصار بنی ہاشم یہ بات پھیلی اور یہ صابی اور یہودی تھے…… قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ عیسیٰ نہیں مرا اور وہ زندہ ہے اور نازل ہو گا۔ ‘‘
(الہام الرحمن فی تفسیر القرآن اردو ترجمہ صفحہ۲۴۰، ۲۴۱ زیر آیت انی متوفیک آل عمران :۵۶)
  ۱۴۔  غلام احمد پرویز ایڈیٹر طلوع اسلام کراچی اور اہل قرآن کے عظیم عالم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
’’باقی رہا عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ آپ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے۔ تو قرآن سے اس کی بھی تائید نہیں ہوتی، بلکہ اس میں ایسے شواہد موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے دوسرے رسولوں کی طرح اپنی مدت عمر پوری کرنے کے بعد وفات پائی۔‘‘
(شعلۂ مستور صفحہ۸۰)
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے کی تائید قرآن کریم کی آیات سے نہیں ملتی ۔ بلکہ اس کے برعکس آپ کے’’ گذر جانے‘‘ اور وفات پا جانے کی شہادت قرآن میں موجود ہے۔ ‘‘
(شعلۂ مستور صفحہ۸۲،۸۳)
علاوہ ازیں موجودہ وقت میں اہل قرآن فرقہ کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوسرے انبیاء کی طرح وفات پاچکے ہیں اور اب تک آسمان پر زندہ نہیں ہیں۔
  ۱۵۔مشہور عالم لیڈر شیخ الہند مولانا ابوالکلام آزاد (۱۸۸۸ء تا۱۹۵۸ء ) فرماتے ہیں:۔
’’بلاشبہ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ عقیدہ اپنی نوعیت میں ہر اعتبار سے ایک مسیحی عقیدہ ہے اور اسلامی شکل ولباس میں نمودار ہوا ہوا ہے۔‘‘
(نقش آزاد صفحہ۱۰۲ مولف غلام رسول مہرطابع شیخ نیاز احمد، مطبع علمی پرنٹنگ پر یس ہسپتا ل روڈ لاہور ناشر کتاب منزل لاہور )
۱۶۔مسلمانانِ برصغیر کے عظیم راہنماسید احمد خان صاحب (۱۸۱۷ء تا۱۸۹۸ء)بانیٔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے متعلق چار جگہ ذکر آیا ہے…… مگر چونکہ علماء اسلام نے بہ تقلید بعض فرق نصاریٰ کے قبل اس کے کہ مطلب قرآن مجید پر غور کریں یہ تسلیم کر لیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں اس لیے انہوں نے ان آیتوں کے بعض الفاظ کو اپنی غیر محقق تسلیم کے مطابق کرنے کی بے جا کوشش کی ہے۔‘‘
(تفسیر القرآن مع تحریر فی اصول التفسیر از سر سید احمد خان صاحب تفسیر سورۃ آل عمران حصہ دوم صفحہ۴۱،۴۳)
مذکورہ حوالہ جات مفتی صاحب کے حیات مسیح پر نام نہاد اجماع کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ بزرگان دین اور علمائے امت کے ان اقتباسات سے روز روشن کی طرح ثابت ہو رہا ہے۔ کہ ہر زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے ببانگ دہل وفات مسیح کا اعلان کیا۔ اور وفات مسیح کے قائلین میں اگر ان لوگوں کو بھی شامل کر لیا جائے جو ان بزرگوں اور علماء کے پیرو کارتھے تو بلاشبہ یہ تعداد لاکھوں ، کروڑوں تک جا پہنچتی ہے۔ 

مکمل تحریر >>

جناب شیخ عبدالقادر صاحب کاایک نایاب تحقیقی مقالہ



ذبیح اللہ کون تھا؟
کیا حضرت ہاجرہ لونڈی تھیں؟
کتاب موسیٰ کی تصدیق سے کیا مراد ہے؟
’’ کلام حق‘‘ کے مقالہ کا جواب


(مکرم و محترم جناب شیخ عبد القادر صاحب۔ لاہور)

’’ کلام حق‘‘ راسخ الاعتقاد مسیحیت کا واحد علمبردار ماہنامہ ہے۔ اس کے شمارہ ستمبر ، اکتوبر 1983ء میں ایک مضمون شائع ہوا ہے ۔ جس کا عنوان ہے:۔
’’ قربانی کے لئے کون پیش کیا گیا؟۔ اسماعیل یا اضحاق‘‘
مضمون نگار نے دعویٰ کیا ہے کہ 
’’ اسماعیل، ابراہیم کا بیٹا تھا لیکن وہ لونڈی سے پیدا ہوا تھا جو ابراہیم کی بیاہتا بیوی نہ تھی۔ اس کی اصل بیوی سارہ تھی لہٰذا ذبیح اللہ اضحاق تھا نہ اسماعیل، کیونکہ لونڈی کی اولاد جائز وارث نہیں ہوتی‘‘۔
اس دعویٰ کے جواب میں گذارش ہے کہ مضمون نگار کا موقف تعاملِ دین ابراہیم کے سر اسر خلاف ہے۔ 
تورات کھول کر دیکھئے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے۔ جن میں آٹھ ان کی دو بیویوں کی اولاد اور چار دو لونڈیوں کی اولاد سے تھے۔ (پیدائش 35/23-26) کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ بنی اسرائیل کا 1/3حصہ جائز وارث نہیں۔ وہ محروم الارث ہے کیونکہ وہ تو لونڈیوں کی اولاد ہے۔ کیا اہل کتاب نے بنی اسرائیل کے لئے پیمانہ اور رکھا ہے ، بنی اسرائیل کے لئے اور؟
حضرت یوسف علیہ السلام بازارِ مصر میں بطور غلام بیچے گئے۔ اس کے بعد ان کو نبوت ملی۔ کیا وہ اور ان کی اولاد داغِ غلامی کی وجہ سے انعام خداوندی سے محروم تھے۔ یہی نہیں۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں بنی اسرائیل جلا وطن ہو کر غلامی میں چلے گئے۔ ستر سال کی بد ترین غلامی کے بعد بارہ میں سے دو فرقے واپس لوٹے۔ انہی کی نسل سے آگے چل کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیداہوئے کیا غلامی کے باعث یا جسمانی لحاظ سے وہ محروم الارث تھے؟ اور پھر یہاں تو معاملہ ہی مختلف ہے۔ 
حضرت ہاجرہ اصالتاً لونڈی نہ تھیں۔ جیوئش انسائیکلو پیڈیا اور یونیورسل انسائیکلو پیڈیا ملاحظ کریں۔ آئمہ بنی اسرائیل کیا سمجھتے تھے؟ لکھا ہے کہ ان کے ہاں دو مکتب فکر تھے پہلے کی ر وسے ہاجرہ فرعون مصر کی بیٹی تھیں۔ حضرت سارہ کو مجبوراً بادشاہ کے محل میں رہنا پڑا۔ سارہ کی بزرگی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معجزات دیکھ کر ہاجرہ اس درجہ متاثر ہوئیں کہ انہوں نے ایک انقلاب آفرین اور تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ 
’’ بادشاہ کے گھر میں شہزادی بن کر رہنے سے یہ بہتر ہے کہ میں سارہ کے گھر میں اس کی لونڈی بن کر رہوں گی‘‘
اس فیصلہ کے نتیجہ میں ہاجرہ کو سارہ کی خدمت میں پیش کر دیا گیا۔ 
’’ اسے بطور لونڈی قبول فرمائیں‘‘
یہ ہے لونڈی بننے کی حقیقت۔ جو خود زمانۂ قدیم کے علماء ربانیین نے بیان کی اور مدرش میں آج بھی درج ہے۔ مدرش یہود کی کتاب حدیث و تفسیر ہے۔ اس میں بائیبل کے دس صحیفوں کی شرح ہے۔ آج سے پندرہ سو سال پہلے اسے ضبطِ تحریر میں لایا گیا۔ مدرش میں ہاجرہ کی جس غلامی کا ذکر ہے، اس پر ہزار آزادیاں قربان ہیں۔ 
قرآن حکیم کی سورۂ الصافات دیکھئے اول غلام حلیم کی بشارت ہے اور اسی کے متعلق ذبیح اللہ ہونے کے واقعہ کا ذکر ہے۔ اس کے بعد فرمایا:۔
و بشرناہ باسحٰق (الصافات آیت: ۱۱۳(
صاف ظاہر ہے کہ بروئے قرآن ذبیح اللہ والا واقعہ اسحاق سے پہلے ہو چکا تھا۔ اور پھر قرآن حکیم میں اسحاق کو غلام علیم کہا گیا اور بڑے بیٹے اسماعیل کو غلام حلیم۔ اس سیبھی معلوم ہوتا ہے کہ ذبیح اللہ بڑا بیٹا تھا۔ چھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اس کے برعکس تورات میں ایک عجیب تضاد ہے۔ لکھا ہے کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کر دو۔ اور پھر لکھا ہے۔ اکلوتا اضحاق ہے۔ ظاہر ہے کہ اکلوٹا بڑا بیٹا ہو سکتا ہے۔ چھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تورات میں زمانہ قدیم میں تحریف ہو چکی تھی۔ یعنی اسماعیل کی جگہ اضحاق لکھ دیا گیا۔ علمائے بائیبل تسلیم کرتے ہیں کہ ہاجرہ اور اسماعیل تورات کے بیانات عصبیت اور قومی تعصبات کے آئینہ دار ہیں۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ پلوٹھے کو چھوڑ کر دوسرا بیٹا اکلوتا ہو۔ 
مِدرش نے اس بات کو واضح کر دیا کہ ہاجرہ اسیرانِ جنگ والی لونڈی نہ تھیں۔ بلکہ ان کی یہ عظیم الشان اور بے مثال قربانی تھی کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی خاطر شہزادی سے لونڈی بننا قبول کیا۔ ہاجرہ کی اس عظیم قربانی کے نتیجہ میںوہ خلیل اللہ کے عقد میں آئیں، اسماعیل پیدا ہوئے اور پھر اسماعیل نے ذبیح اللہ والی قربانی پیش کی۔ بڑے ہوئے تو بیت اللہ کی بنیاد پر باپ بیٹے نے کعبۃ اللہ کی تعمیر کی اور ان کی نسل سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوئے۔ جو کہ خدا تعالیٰ کی تقدیروں میں غایت الغایات تھے۔ 
اس عظیم الشان پس منظر کو مضمون نگار غلامی کے طعن سے داغدار کرنا چاہتے ہیں حالانکہ خدا کی نظر میں آقا و غلام سب برابر ہیں۔ (کلسیوں 3/11)
یہ ہے عیسائیت کی تعلیم جو کہ انجیل میں درج ہے  جسے خود عیسائیت کے علمبرداروں نے نظر انداز کر دیا۔ (گلتیوں 4/23)
اب یونیورسل جیوئش انسائیکلو پیڈیا کے اقتباس کا ترجمہ پیش ہے۔ زیر لفظ ہاجرہ (Hagar) لکھتے ہیں:۔
’’ بائیبل کے سکالرز ہاجرہ کے بارہ میں تورات کی کہانیوں کو بنی اسرائیل اور عرب قبائل کے تعلقات اور باہمی تعصبات کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ بنی اسماعیل کو قرابت دار تو سمجھا جاتا مگر درجہ میں اسرائیل سے کمتر قرار دیا جاتا۔ ‘‘
اسی تسلسل میں لکھا ہے کہ:۔
’’ علماء بنی اسرائیل (ربانیین) نے ہاجرہ کے بارہ میں اپنے نکتۂ نظر کو بہت جلد تبدیل کر لیا۔ پہلا خیال یہ تھا کہ ہاجرہ ایک خدا پرست اور خدا ترس خاتون تھی جو کہ اصالتاً مصری شہزادی تھی۔ اس نے سارہ کے بارہ میں معجزات دیکھ کر فیصلہ کیا کہ وہ سارہ کے گھر میں لونڈی بن کر رہنا اپنے گھر میں مالکہ بن کر رہنے سے بہر حال بہتر ہے۔‘‘
دوسرے علماء نے ہاجرہ میں ذَم کے پہلو تلاش کئے اور تنقیص کی۔ فاضل مضمون نگار بھی یہود کے نقشِ قدم پر ذَم کے پہلو تلاش کر رہے ہیں۔ مقصد واضح ہے کہ نسل اسماعیل میں جو عظیم المرتبت بطلِ جلیل پیدا ہوا اسے لونڈی کی اولاد قرار دے کر محروم الارث ثابت کیا جائے لیکن اس کے برعکس ربانی علماء نے کیا کہا ایک حوالہ گذر چکا۔ اب جیوئش انسائیکلو پیڈیا کا حوالہ ملاحظہ ہو۔’’ ہاجرہ ربانی لٹریچر میں‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے:۔
’’ مدرش میں ہے کہ ہاجرہ فرعون مصر کی لڑکی تھی۔ فرعون نے جب وہ معجزات دیکھے جو سارہ کی خاطر اللہ تعالیٰ نے ظاہر کئے تو اس نے کہا کہ ہاجرہ کے لئے اپنے گھر کی مالکہ بن کر رہنے کی بہ نسبت سارہ کے گھر میں لونڈی بن کر رہنا زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ اس جذبہ کے تحت ہاجرہ کو سارہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اسی واقعہ کے پیش نظر لفظ ہاجرہ کے معنے بیان کئے گئے۔ یہ گویا ھا اَجر ہے جس کے معنے ہیں یہ انعامِ (خداوندی) ۔‘‘
آگے لکھا ہے:۔
’’ ہاجرہ کے دوسرے معنے آراستہ کرنے اور زینت دینے کے ہیں۔ چونکہ یہ خاتون تقویٰ تقدس اور اعمالِ صالحہ کے زیور سے آراستہ تھیں اس لئے ہاجرہ کے نام سے موسوم ہوئیں۔‘‘
پھر لکھا ہے:۔
’’ شادی کی تجویز پر ہاجرہ متذبذب تھیں۔ سارہ نے ترغیب دی۔ ’’ تُو کتنی خوش قسمت ہے کہ ایک بزرگ انسان سے تیرا عقد ہو رہا ہے۔ تجھے خوش ہونا چاہیے‘‘۔
اسی تسلسل میں ہے:۔
’’ہاجرہ کی وفاداری اس لحاظ سے بھی قابل تعریف مانی گئی کہ (خدا تعالیٰ کے حکم پر ) حضرت ابراہیم نے اسے الگ کر کے دور دراز بھیج دیا۔ پھر بھی اس نے عقد نکاح اور شادی کے معاہدہ کو آخری دم تک قائم رکھا۔‘‘
اس نوٹ میں ہے کہ علماء ربانیین کے گروہ اول کے نزدیک حضرت ہاجرہ غایت درجہ تقویٰ و طہارت اور خدا شناسی کا نمونہ تھیں۔ جو خلیل اللہ کے عہد کی یادگار ہے۔ آگے چل کراسی مضمون میں ہے کہ 
’’ جب سارہ فوت ہو گئیں تو اسحق، ہاجرہ کو اپنے باپ کے گھر میں لانے کے لئے روانہ ہوئے‘‘
رشی یہود کے سب سے بڑے عالم دین اور مفسر توراۃ ہیں۔ شرح کتاب پیدائش میں لکھتے ہیں ہاجرہ اصالتاً شہزادی تھی۔ اسے حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ کی بزرگی کے پیش نظر بطور لونڈی پیش کیا گیا۔ 
یہ ہیں حضرت ہاجرہ کے مناقب۔ مضمون نگار کی یہ کوشش کہ داغِ غلامی سے اسے داغدار کیا جائے۔ بے سود ہے۔ 
رسالتماب صلی اللہ علیہ و سلم کی جدہ ماجدہ عصر ابراہیم میں ایک مثالی نمونہ تھیں۔ ایک عظیم خاتون جس نے قربانی کے فلسفہ کو عملی رنگ دے دیا۔ جو شہزادی سے لونڈی بن گئی۔ اس کے بیٹے نے خود کو قربانی کے لئے پیش کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کیا۔ اور ذبیح اللہ کی نسل میں اس بطلِ جلیل کی ولادت ہوئی جس کی ساری زندگی ’’ ذبح عظیم‘‘ سے عبارت ہے۔ صلی اللہ علیہ و سلم۔
مضمون نگار نے ایک عجیب و غریب دعویٰ اور بھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں ذبیح اللہ کا نام نہیں آیا۔ لیکن تورات میں ’’ اضحاق‘‘ مرقوم ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔
’’ قرآن مجید نے تورات کی تصدیق مصدقا لما بین یدیہ کہہ کر کر دی ہے اور یہ بتا دیا ہے کہ بنی اسرائیل یا مسیحیوں کے پاس الہام کی صورت میں جو کچھ بھی موجود ہے۔ درست اور صداقت پر مبنی ہے بلکہ ہدایت اور نور ہے۔‘‘
اس طرح اضحاق کی قربانی کی تصدیق ہو گئی۔ اضحاق کی عظمت اور فضیلت پر مہر لگا دی گئی۔ 
صاحبِ مضمون نے آیہ قرآنی کا حوالہ دیا ہے۔ اس کے سیاق و سباق کو نہیں دیکھا۔ سورۂ انعام میں یہ ذکر ہے۔ فرمایا:۔
’’ تُو اس سے کہہ دے کہ وہ کتاب جو موسیٰ لائے تھے۔ وہ لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی۔ اس کو کس نے اتارا تھا؟ تم اسے ورق ورق کر رہے ہو۔ اس کو ظاہر بھی کرتے ہو اور بڑے حصہ کو چھپاتے ہو…… اور یہ قرآن ایک (عظیم الشان) کتاب ہے جسے ہم نے اتارا اوروہ برکات کی جامع ہے اور جو (کلام) اس سے پہلے تھا۔ اس کی تصدیق کرنے والی ہے۔‘‘ (۹۲:۹۳)
ان آیات مبارکہ میں یہ امر واضح کر دیا گیا ہے کہ تورات محفوظ نہیں ہے۔ اس کا بڑا حصہ پردۂ اخفاء میں ہے۔ وہ جامع صورت میں موجود نہیں۔ جبکہ قرآن کتاب موسیٰ کی تصدیق کے لئے آیا ہے۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔ تورات میں حیاۃ الآخرۃ کا کوئی ذکر نہیں۔ قیامت۔ جنت اور دوزخ کا کوئی بیان نہیں۔ تورات کی یہ تعلیم ورق ورق ہے۔ کسی حد تک طالمود میں ملتی ہے۔ یہود کا دعویٰ ہے کہ عزرا فقیہ نے تورات کی تدوینِ نو کے وقت 94صحیفے مرتب کئے۔ صرف 24 عوام پر ظاہر کئے۔ باقی ستر چھپا لئے گئے۔ وہ خواص کے لئے ہیں۔ (صحیفہ عزرا چہارم باب 14)
اس طرح تورات کا وہ حصہ جس میں حیاۃ الآخر کا ذکر تھا۔ نظروں سے مستور ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حیاۃ الآخرۃ کی تعلیم تورات میں مفقود اور طالمود میں موجود ہے۔ اسی طرح قرآن کا دعویٰ ہے کہ وہ اہل کتاب کے اختلافات میں حکم ہے۔ پس قرآن نے غلط حصوں کی تصدیق نہیں کی۔ اس کلام کی تصدیق فرما دی جو کلیم اللہ پر نازل ہوا۔ یا جو تشریحات کلیم اللہ نے قلمبند کی ہیں۔ اس کی تصدیق کی ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے کہ حیاۃ الآخرۃ کتاب موسیٰ کا نکتۂ مرکزی ہے۔ جبکہ موجودہ تورات میں یہ ذکر مفقود ہے۔ 
ایک اور مثال ملاحظہ ہو۔ تورات میں ہے کہ اضحاق ذبیح اللہ ہے۔ قرآن نے بتایا کہ ذبیح اللہ غلام حلیم ہے جبکہ اسحاق غلام علیم تھے۔ پس قرآن نے غلام علیم اور غلام حلیم کے ذکر میں بین اشارہ کر دیا کہ ذبیح اللہ بڑا بھائی ہے چھوٹا بھائی نہیں۔ 
حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کے بارہ میں تورات کے بیانات میں سخت تضاد ہے۔ تورات میں ان کے محامد بھی ہیں۔ اور ذم کے پہلو بھی۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ تورات تغیر و تبدل کا تختۂ مشق رہی ہے۔ اب اس میں اوراق پریشان ہیں۔
تورات کے بعض حقائق مدرش میں درج ہیں۔ جن میں یہاں تک ذکر ہے کہ سارہ کی وفات کے بعد اسحاق خود گئے اور ہاجرہ کو لے آئے اور اپنے باپ کا گھر آباد کیا۔ مدرش سے معلوم ہوتا ہے ۔ ہاجرہ اسیرانِ جنگ والی لونڈی نہیں تھی بلکہ فرعون مصر کی بیٹی تھی۔
جبکہ تورات میں بتکرار لونڈی کا طعن ہے۔ اور یہ لکھا ہے کہ عہد کا فرزند اضحاق ہے نہ کہ اسماعیل۔
تورات کے کسی قدیم نسخہ کا ایک حوالہ یہودیوں کی کتاب جوبلی میں درج ہے۔ یہ کتاب 2100سال پرانی ہے۔ تورات کے موجودہ متن میں ہے کہ اپنے اکلوتے کو قربان کر دو۔ کتاب جوبلی میں اکلوتے کی جگہ پلوٹھے کا لفظ ہے۔ ظاہر ہے کہ اکلوتا یا پلوٹھا اضحاق نہیں ہو سکتے۔ صرف اسماعیل ہو سکتے ہیں۔ اس کے با وصف تحریف کا کمال یہ ہے کہ تورات کی رو سے ذبیح اللہ ااسماعیل نہیں اسحاق ہے۔ 
مضمون نگار نے یہ بحث بھی اٹھائی ہے کہ صدر اول میں اکابر صحابہ مانتے تے کہ ذبیح اللہ اسحاق ہیں نہ اسماعیل۔ اس کا جواب ہم ’’ جامعہ احمدیہ‘‘ ربوہ کے ’’مجلہ الجامعہ‘‘کے ایک مضمون میں دے چکے ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دونوں طرح کی روائیتں ملتی ہیں۔ ذبیح اللہ اسحاق تھے۔ اسماعیل ذبیح اللہ تھے۔ صاف ظاہر ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے پہلے خیال سے رجوع کر لیا تھا۔ تفسیر ابن کثیر میں اختلاف روایات کی تفصیل درج ہے۔ ظاہر ہے کہ تورات کے اثر کی وجہ سے اسحاق ؑ کو ذبیح اللہ کہتے۔ جب تورات پر تحقیق ہوئی اور قرآن حکیم پر تدبر تو پہلے خیال سے رجوع فرما لیا۔ 
الغرض صاحبِ مضمون نے جو بحث اٹھائی ہے وہ حقائق کے خلاف ہے۔ حضرت ہاجرہ اگر لونڈی تھیں ان کو جو مقام ملا لونڈی ہونا اس میں حارج نہیں۔ اگر وہ شہزادی تھیں تو تاریخ میں ایک درخشاں مثال بن گئیں۔ ایک شہزادی نے لونڈی بننا قبول کر لیا۔ اس قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اسے خلیل اللہ کے عقد میں دے دیا۔ اسماعیل ذبیح اللہ قرار پائے۔ ان کی ذریت میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے۔ معراج انسانیت کا یہ نمونہ تاریخ میں منفرد ہے۔ 
مضمون کے آخر میں ایک بہت دلچسپ اور تازہ انکشاف ملاحظہ ہو۔ کتاب مقدس کے بعض اقتباسات جو کہ چرچ میں بطور اسباق اور ادعیہ کے بکثرت پڑھے جاتے ہیں۔ ان کا نیا ترجمہ امریکہ میں شائع ہوا ہے۔ اس میں بعض دلچسپ تبدیلیاں ہیں۔ مثلاً پولوس کے خط رومیوں میں جہاں ذکر ہے۔ ’’ ہمارا ایک باپ ہے وہ ابراہیم ہے‘‘۔ اس سے آگے ہلالی خطوط میں یہ عبارت ہے۔
And Sarah and Hagar as our Mothers
اور سارہ اور ہاجرہ ہماری مائیں ہیں۔ (نیوز ویک 24اکتوبر 1984ء ) 
اس سے معلوم ہوتا ہے جبکہ عیسائیت میں ہاجرہ کو مسلسل نظر انداز کیا گیا۔ اب اسے امہات المومنین میں شامل کر لیا گیا یہ ایک نیک اور خوشگوار تبدیلی ہے جو چرچ کے ایک حصہ میں پیدا ہو رہی ہے۔ 


(انصار اللہ ربوہ مئی 1984ء ) 
مکمل تحریر >>

برہانِ ہدایت یعنی علماء جماعت احمدیہ کے تبلیغی واقعات

برہانِ ہدایت : اس کتاب کے مصنف مولوی ابو ظفر عبدالرحمٰن مبشر صاحب جماعت احمدیہ کے نہایت قابل اور مشہور علماء میں سے تھے ، مرحوم نے اس کتاب میں نہایت محنت سے جماعت احمدیہ کے بزرگان اور علماء کے تبلیغی واقعات اس انداز سے جمع فرمائے ہیں کہ ایک عام پڑھنے والا انسان بھی دلائل سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یہ کتاب ہر احمدی کی تبلیغی تربیت کے لیے نہایت قیمتی ہے اور غیروں کے لیے بھی یکساں مفید ہے ۔

ڈائون لوڈ کرنے لیے یہاں کلک کریں Download


مکمل تحریر >>

تفاسیر القرآن کا تحقیقی موازنہ

تفاسیر القرآن کا تحقیقی موازنہ : اس کتاب میں برہان احمد ظفر درانی صاحب نے نہایت محنت سے تفاسیر میں موجود مشہور غلط قصے کہانیوں پر تبصرہ کے ساتھ ان کی صحیح تفسیربھی پیش فرمائی ہے ۔ کتاب میں ناسخ و منسوخ ، حروف مقطعات ، ہاروت ماروت ، اصحاب کہف اور اصحاب فیل کے علاوہ انبیاء کے قرآنی واقعات کے بارہ میں اہم بحث کی گئی ہے ۔

ڈائون لوڈ کرنے لیے یہاں کلک کریں Download


مکمل تحریر >>

مقالہ بشاراتِ محمدیہ ؐ از مکرم و محترم جناب شیخ عبد القادر صاحب





               بشاراتِ محمدیہ ﷺ
(مکرم و محترم جناب شیخ عبد القادر صاحب۔ لاہور)

جناب پال ارنسٹ ’’ کلام حق ‘‘ کے خصوصی مقالہ نگار ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بشارات کے بارہ میں ایک عرصہ سے خامہ فرسائی کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک تورات میں رسالتماب صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے کوئی پیشگوئی نہیں ہے۔ جناب پال ارنسٹ کی ایک ایک دلیل کو ہم توڑ چکے ہیں۔ اب ہمارے جواب میں انہوں نے سلسلۂ مضمون شروع کیا ہے۔ عنوان ہے۔
’’ وادیٔ فاران اور جلوۂ فاران کا جواب ‘‘
(کلام حق کاشمارہ ۔ جون، جولائی، اگست 1982 ء ملاحظہ ہو ) 
داستان طویل ہے۔ صرف اشارات پر اکتفا کر رہا ہوں۔ ہمارے دلائل ، پال صاحب کی بحث کا خلاصہ اور اس کا جواب درج ذیل ہے۔ 
’’علامہ پال ارنسٹ ‘‘کا پہلا اعتراض یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وصیت میں کوئی پیشگوئی نہیں ہے۔ 
’’ خداوند سینا سے آیا۔ اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی۔ ‘‘ (استثناء 33/2)
اس میں سارے ماضی کے صیغے ہیں۔ سینا اور شعیر کی تجلی کا تعلق زمانہ گذشتہ سے ہے۔ فاران کا تعلق زمانہ آئندہ سے کیسے ہو سکتا ہے۔؟
اس کا جواب یہ ہے کہ تورات میں عبرانی متن مخدوش ہے Good News بائیبل 1976 ء کے حاشیہ میں ہے Hebrew unclearکہ عبرانی الفاظ غیر واضح ہیں۔ جیسا کہ آگے یہ واضح کر دیا جائے گا ۔ متبادل متن یہ ہے ۔ وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آتا ہے۔ گویا ماضی نہیں مضارع ہے۔ 
یہودیوں کی شائع کردہ تورات پر نوٹ ہے ۔ 
Heb Mimind Eshdath Obscure
عبرانی الفاظ ’’ میمنوا شداتھ‘‘ غیر اواضح اور مبہم ہیں۔ 
مسوراہی علماء نے جب تورات پر اعراب لگائے تو انہوںنے مزید ابہام ڈال دیا۔ دس ہزار واحد ہے۔ حرف ’’ب ‘‘ پر ایک نقطہ لگا کر اسے جمع بنادیا۔ اور ’’دسوں ہزار‘‘ کر دیا۔ 
دنیائے عیسائیت کے عظیم عالم آر۔ ایچ ۔ چارلس نے ’’ دی اپو کرفا آف اولڈ ٹیسٹا منٹ‘‘ میں صحیفہ حنوک کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔ اس صحیفہ میں تورات کی پیشگوئی حنوک پیغمبرسے منسوب ہے بایں الفاظ :۔
And behold ! He cometh with ten thousands of his holy ones, to execute Judjement upon all, and to destroy all the ungoldy : 1:9
تورات میں ہے کہ کلیم اللہ نے وفات سے پہلے برکت دی۔ اور دس ہزار قدوسیوں کا ذکر کیا۔ صحیفہ حنوک میں ہے کہ حنوک پیغمبر نے مندرجہ بالا الفاظ سے برکت دی۔ 
آر ۔ ایچ۔ چارلس نے صحیفہ حنوک کے اس حوالے پر مندرجہ زیل نوٹ دیا ہے: ۔
’’ صحیفہ حنوک میں استثناء 33/2 کے مسوراہی متن کی صدائے بازگشت ہے۔ فرق یہ ہے کہ مروجہ متن تورات میں ہے۔ وہ قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ اور صحیفہ حنوک نے تورات کا ایسا متن درج کیا ہے جس میں عبرانی لفظ ’’اٰتا‘‘ وارد ہوا ۔ یعنی ’وہ آتا ہے‘ ۔ جبکہ دوسرے متنوں میں ’’ اٰتہ‘‘ ہے یعنی ’’ وہ آیا‘‘ صحیفہ حنوک کے مرتب نے اصل متن اٰتا کی تصدیق کی۔ اور اتہ کو درست نہیں سمجھا۔ ‘‘
(The Apocrypha of Old Testament p. 172 )
اس حوالے سے صاف ظاہر ہے کہ تورات کے متن میں اختلاف ہے۔ ’’ قدوسیوں کے ساتھ آتا ہے۔ ‘‘متن بھی بہت پرانا ہے اور صحیفہ حنوک کا مصدقہ ہے۔ 
ساتویں صدی قبل مسیح میں حبقوق پیغمبر ہوئے ہیں۔ آپ نے بھی تورات کی اس بشارت کو دہرایا۔ آپ کے سامنے جو تورات تھی۔ اس میں تجلی فاران کا ذکر بطور پیشگوئی ہے۔ کوئی قصہ ماضی نہیں ۔ حبقوق کے صحیفہ میں ہے:۔ 
The Lord wil come with many thousands of his holly angels . 
یہ نیو انگلش بائیبل کا اقتباس ہے۔ گویا بروئے انجیل یہ ایک پیشگوئی ہے اور یہ بھی ہے کہ یہ پیشگوئی آدم کی ساتویں پشت میں برپا ہونے والے حنوک پیغمبر سے وقت سے چلی آتی ہے۔ ‘‘
(خط یہودا 1/14)
ان شواہد سے ظاہر ہے کہ دس ہزار کے ذکر میں ایک عظیم الشان بشارت ہے۔ یہودیوں کی تحریف نے اسے قصہ ماضی بنا دیا۔ انبیاء نبی اسرائیل اور صلحاء یہود نے بتایا کہ یہ ماضی کا واقعہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک پیشگوئی ہے جو نسل آدم میں بڑے تواتر سے چلی آتی ہے۔ 
(۲)
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ’’ دس ہزار‘‘ ترجمہ عبرانی کی رو سے سراسر غلط ہے۔ اور ’’ لاکھوں‘‘ ہونا چاہئے۔ اس کے جواب میں ہم نے گڈ نیوز بائیبل (Good News Bible ) کو بطور شہادت پیش کیا۔ 
گڈ نیوز بائیبل دنیا کی ننانوے بائیبل سوسائٹیوں کا مصدقہ ترجمہ ہے جو کہ 1976ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ پاکستان بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ گڈ نیوز بائیبل میں بشارت تورات کا ترجمہ بایں الفاظ ہے
And shone on his people from mount Paran. Ten thousand angels were with him, a flaming fire at his right hand.
’’ اور خداوند کوہ فاران سے اپنے لوگوں پر جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار فرشتے اس کے ساتھ تھے۔ اس کے داہنے ہاتھ پر ایک شعلۂ نور تھا۔ ‘‘
حاشیہ میں ہے:۔ 
Probable text ten thousand…… right hand, hebrew unclear.
دس ہزار سے داہنے ہاتھ تک کا عبرانی متن غیر واضح ہے زیادہ درست متن ’’ دس ہزار‘‘ ہے۔ 
اب آئیے ایک نظر متن پر ڈالتے ہیں۔ 
متن کے غیر واضح ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ’’ دس ہزار ‘‘ کے لئے عبرانی متن میں ’’ رب ب تھ‘‘ ہے۔ یہ ۳۳ باب کی دوسری آیت ہے۔ اس میں جمع کے لئے ’’ واؤ ‘‘ نہیں ہے۔ متن کو مشتبہ کرنے کے لئے علماء نے رب ب تھ کی دوسری ’’ بے‘‘ پر ایک علامت لگا دی کہ یہاں واؤ بھی پڑھو۔ عجیب بات یہ ہے کہ آیت ۱۷ میں’’ رب ب و تھ‘‘ ہے گویا واؤ موجود ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ آیت ۲ میں رب ب تھ جمع نہیں بلکہ واحد ہے۔ 
یہ علامت واؤ مسوراہی علماء نے عہد وسطیٰ میں لگائی۔ یہ متن کا حصہ نہیں ہے۔ 
دوسرا اشتباہ صیغہ میں ہے۔ بشارت کے الفاظ صحیفہ حنوک میں دہرائے گئے۔ وہاں مضارع کا صیغہ ہے۔ انجیل میں دہرائے گئے وہاں بھی مضارع ہے۔ ّیہودا 1/14)
عیسائی دنیا کے عظیم عالم آر۔ ایچ۔ چارلس نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ تورات کے متن میں ایک متبادل قرأت اٰتا موجود تھی۔ موجودہ متن میں اتہ کوہے۔ اس کے معنے ہیں ۔ ’’ آیا‘‘ ۔ صحیفہ حنوک نے اٰتا کو صحیح سمجھا۔ اسے نقل کیا ہے اس کے معنے ہیں ۔ ’’ آتا ہے‘‘
ظاہر ہے جیسا کہ گڈ نیوز بائیبل کے حاشیہ پر ہے۔ متن غیر واضح ہے۔ ’’ دس ہزار‘‘ کو ’’ دس ہزاروں‘‘ بنا دیا۔ ’’ آتا ہے‘‘ کو ’’آیا‘‘ کر دیا۔ ایک غلطی گڈ نیوز بائیبل کے علماء نے نکال دی۔ دوسری غلطی کی نشاندہی آر۔ ایچ۔ چارلس نے کر دی۔ 
اب پال ارنسٹ کا تبصرہ ملاحظہ ہو:۔
’’ صرف  1976ء والے گڈ نیوز ترجمے میں ’’ دس ہزار فرشتے‘‘ ترجمہ کیا گیا۔ اور اس کے حاشیہ میں یہ نوٹ لکھا ہے کہ یہ قیاسی متن کا ترجمہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل عبرانی متن کا ترجمہ لاکھوں کروڑوں ہی ٹھیک ہے۔‘‘
تبصرہ کے یہ الفاظ قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں۔ 
گڈ نیوز بائیبل کے حاشیہ میں ’’ دس ہزار ‘‘ کے لئے probable textکے الفاظ ہیں۔ اس کے معنے اصل سے زیادہ قریب ہیں۔ زیادہ درست متن کے ہیں۔ علامہ صاحب جان بوجھ کر ’’ کلام حق ‘‘ کے قارئین کو ’’ کلام ناحق ‘‘ سنا رہے ہیں۔ اصل حقیقت سے خود بھی دور ہیں۔ لوگوں کو بھی دور لے جا رہے ہیں۔ 
(۳)
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اردو بائیبل کے علماء نے ’’ دس ہزار ترجمہ‘‘ کیوں کیا۔ پال ارنسٹ کہتے ہیں۔ یہ ترجمہ کی مجبوری تھی۔ مراد اس سے ’’ دس ہزار‘‘ نہیں بلکہ ’’ ہزارہا‘‘ ہے۔ 
ان کو مجبوراً ایسا کرنا پڑا ……دس ہزار در اصل ہزارہا کے معنوں میں ہے۔ 
یہ سفید جھوٹ ہے۔ 1870ء میں مرزا پور میں مطبوعہ اردو بائیبل ملاحظہ ہو۔ استثناء 33/2 میں ’’ دس ہزار‘‘ واحد ہے۔ آگے چل کر 33/17 میں ’’ دسوں ہزار‘‘ جمع ہے۔ اردو مترجمین کے نزدیک ’’ رب ب تھ‘‘ اور ’’ رب ب و تھ‘‘ واحد اور جمع ہیں۔ تورات کے ایک ہی ورق پر یہ لفظ پہلے واحد اور پھر جمع کی صورت میں آیا۔ 
اردو بائیبل 1870 ء کا ترجمہ ہے:۔
’’ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ ‘‘
آگے چل کر آیت نمبر 17کا ترجمہ یہ ہے:۔ 
’’ وے افرائیم کے دَسوں ہزار ہیں۔ ‘‘
صاف ظاہر ہے ۔ ترجمہ کی کوئی مجبوری نہیں تھی۔ دونوں لفظ موجود ہیں۔ واحد اور جمع۔ پہلے فقرہ میں واحد ہے آگے چل کر ’’ جمع ‘‘ ہے۔
فرمائیے۔ جناب پال ارنسٹ کو عبرانی زیادہ آتی ہے یا اردو بائیبل کے مترجمین اور دنیا کی ننانوے بائیبل سوسائٹیوں کو؟ سوچ سمجھ کر جواب دیجئے۔ 
پورے عہد نامہ عتیق کا ترجمہ کرنے والے کیا پال ارنسٹ جتنی عبرانی بھی نہیں جانتے تھے؟ پال ارنسٹ کی عبرانی شناسی کا پندار ٹوٹ چکا ہے۔ 
(۴)
فاران سے کیا مراد ہے؟ اس پر بھی پال ارنسٹ نے تبصرہ کیا ہے۔ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مکہ کی ایک پہاڑی کا نام فاران ہے۔ لیکن یہ پہاڑی مراد نہیں ہو سکتی۔ کیوں نہیں ہو سکتی اس کا کوئی جواب نہیں۔ ہم فاران پر سیر حاصل بحث کر چکے ہیں۔ اب ہم ایک حدیث کے درج کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ 
حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ سے بیہقی میںیہ روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ تورات کے آخری حصہ کے ایک جملہ کا عربی ترجمہ یوں ہے۔ 
خدا آیا یا جلوہ گر ہوا۔ طور سینا سے اور نمودار ہوا ساعیر سے اور خود کو ظاہر کیا۔ جبالِ فاران سے۔ 
اور فاران ایک عبرانی نام ہے……اس سے مراد جبال بنی ہاشم ہیں۔ جن میں سے ایک پہاڑ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم عبادت و ریاضت کے لئے تشریف لے جاتے۔ اور وہیں وحی کی ابتدا ہوئی۔ پس فاران سے مراد مکہ کے تین پہاڑ ہیں۔ ایک کا نام ابو قیس، دوسرا قعیقان اور تیسرا حرا۔ حرا گویا مشرقی فاران ہے اور قعیقان سے بطن وادی کی جانب ملا ہوا ہے اور اس کو شعب بن ہاشم کہتے ہیں۔ اور اسی جگہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت ہوئی۔
(بحوالہ نور الابصار فی مناقب اٰل بیت النبی المختار تصنیف الشیخ سید مومن بن حسن مومن الشبلنجی صفحہ23)
اس حوالے سے ظاہر ہے کہ جبال مکہ، جبال فاران ہیں۔ یہ ان کاایک قدیمی نام ہے۔ 
(۵)
اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ انبیائے بنی اسرائیل نے تورات کے الفاظ سے کیا سمجھا؟
بشارات تورات کو انبیائے بنی اسرائیل برابر دہراتے رہے۔ حضرت سلیمان ؑ کے غزل الغزلات ملاحظہ ہوں:۔
’’ تیرے محبوب کو دوسروں پر کیا فضیلت ہے۔کہ تُو ہمیں اس طرح قسم دیتی ہے۔‘‘
جواب ملاحظہ ہو:۔
’’ میرا محبوب سرخ و سفید ہے۔ وہ دس ہزار میں افضل ہے۔‘‘
اس غزل کے آخر میں ہے:۔
’’اور وہ سراپا حسن انگیز (محمدیم) ہے۔  اے یروشلم کی بیٹیو میرا محبوب ایسا ہے۔ میرا پیارا ایسا ہے۔ ‘‘
(غزل الغزلات 5/9-16کیتھولک بائیبل 1958ء)
غزل کے شروع میں ہے:۔
’’جیسی تیرے لطیف عطروں کی خوشبو ۔ سو تیرا نام ہے۔‘‘ (1/3)
آگے استعارہ کے رنگ میں فرستادہ حق کی امت بول رہی ہے۔ 
’’ اے یروشلم کی بیٹیو! مَیں سیاہ فام پر جمیلہ ہوں۔ قیدار کے خیموں کی مثل اور سلمہ کے پردوں کی مانند۔‘‘ (1/5 کیتھولک بائیبل 1958ء)
قیدار حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بیٹے کا نام ہے۔ آنحضرت ﷺ بنو قیدار میں سے تھے۔ یہاں سلمہ کا لفظ غیر واضح ہے۔ بعض نے سمجھا ’’ سلیمان کا محل‘‘مراد ہے۔ سلم کے معنے سلامتی۔ سلمہ سلامتی والا۔ مراد یہ ہے کہ امت قیدار سلامتی کے گھر اور اس پر ڈالے گئے پردوں سے وابستہ ہے۔
غزل سے ظاہر ہے کہ محبوب سلیمان کا نام عطر میں بسا ہوا ہے ۔ اس کی امت دار السلام اور بنو قیدار سے متعلق ہے وہ محمدیم ہے۔ یعنی سراپا محمد۔ آنحضرت ﷺ بنو قیدار سے تھے۔ کعبۃ اللہ سے وابستہ امت کے آپ محبوب و مقصود تھے۔ 
اردو بائیبل 1870ء مطبوعہ مرزا پور میں غزل اول پر سرنامہ ملاحظہ ہو:۔
’’ کلیسیا کے مسیح پر عاشق ہونے کی بابت اس بیان میں کہ وہ اپنی بد صورتی مان لیتی اور منت کرتی کہ مسیح کے گلے میں شامل ہونے کے لئے راہنمائی پاوے۔ مسیح اے گڈریوں کے خیموں تک راہ بتلاتا۔ اور اپنا پیار دکھلا کے کئی ایک لطیف وعدے اس سے کرتا ہے۔ کلیسیا اور مسیح ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔‘‘
اس کے برعکس جناب پال ارنسٹ کہتے ہیں:۔
’’غزل الغزلات میں در اصل میاں بیوی کی محبت کا نمونہ پیش کیا گیا۔ یعنی ایک مرد کی صرف ایک بیوی ہونا چاہیے۔ اس میں نہ کوئی پیشگوئی ہے اور نہ کسی پیغمبر کے آنے کی اس میں کوئی خبر پائی جاتی ہے۔‘‘
جواباً گذارش ہے کہ پال ارنسٹ کا یہ تبصرہ سراسر غلط ہے برا ہو تعصب کا کہ وہ آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا ہے۔ انہی غزلات میں یہ عبارت ملاحظہ ہو۔
’’ حضرت سلیمان کے گھر میں رانیاں ساٹھ ہیں۔ حرمیں اسّی‘‘ ۔ (غزل الغزلات 6/8)
بتائیے ! تعدد ازدواج ہے یا ایک مرد کی ایک بیوی پر حصر۔ کیا یہی مطالعۂ بائیبل ہے۔ جس پر علامہ پال ارنسٹ کو فخر ہے۔ غزل اول کے علاوہ اب غزل پنجم کا سر نامہ ملاحظہ ہو:۔
’’ اس بیان میں کہ مسیح کلیسیا کے نام لے کے اسے جگاتا ہے۔ کلیسیا مسیح کی محبت سے حظ اٹھا کے عشق میں بیمار ہو جاتی ہے۔ مسیح کی خوبصورتی کا تفصیل وار بیان ہونا۔‘‘
ان سر ناموں سے ظاہر ہے کہ 
چرچ کے نزدیک اس غزل میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے۔ سراپا عشق انگیز (محمدیم) مسیح کی تعریف کے لئے آیا ہے۔ 
پال ارنسٹ صاحب سرے سے بشارت کے منکر ہیں۔ جبکہ غزل الغزلات کے ہر باب پر یہ سر نامہ مرقوم ہے کہ یہ کلیسیا اور مسیح کے لئے پیشگوئی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ پیشگوئی مسیح کے لئے نہیں بلکہ سراپا محمدؐ کے لئے ہے ﷺ۔ 
بتائیے! سچا کون ہے؟ آپ کے گھر کا معاملہ ہے۔ 
’’ کلام حق ‘‘ والے بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس حوالے میں پیشگوئی ہے یا نہیں۔ 
(۶)
ایک پھلجڑی  ’’عبرانی زبان‘‘ کی بھی چھوڑی گئی ہے۔ عبرانی لغت میں حرفِ خیھ ہے۔ اس کے نیچے حرفِ ح کے سب الفاظ آتے ہیں۔ مثلاً حبرون  بھی حروف خیھ سے ہے۔ حمدان کو بھی حرف خیھ سے لکھا گیا ہے۔ ان کو ح سے پڑھیں گے نہ کہ حرف خ سے۔ اسی طرح محمدیم میں حرفِ خیھ ہے۔ پادری صاحب کہتے ہیں۔ یہ محمدیم نہیں ۔ مخمدیم ہے۔ ان کو اتنا پتہ نہیں کہ عبرانی میں ’’حٰمد ‘‘روٹ سے ’’ حمدان‘‘ ہے۔ یہ اسم معرفہ ہے۔ یہ نام اردو بائیبل میں ’’ خمدان‘‘ نہیں ۔ بلکہ’’ حمدان‘‘ کی صورت میں آیا ہے۔ (پیدائش 36/26)
بتائیے! پال ارنسٹ درست تلفظ کرتے ہیں یا علماء بائیبل ۔ یہ کون علامہ ہیں؟ جو ننانوے بائیبل سوسائٹیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ جو کلیسیا کی شرح مندرجہ بائیبل کو نہیں مانتے۔ جو پاکستان بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور کے منظور شدہ ترجمہ میں کیڑے نکالتے ہیں اور علماء کے تلفظ کو بھی درست نہیں مانتے۔ 
(۷)
پال ارنسٹ کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ عبرانی میں ’’ محمد‘‘ نہیں ’’ مخمد‘‘ ہے۔ یہ بات سرا سر دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ تلفظ اور لہجہ کے فرق سے روٹ بدل تو نہیں جاتا ۔ جیسے پشتو میں ’’ محمد‘‘ کے لہجے کے فرق کے باعث ’’ مخمد‘‘ کہتے ہیں۔ ح اور خ کی درمیانی آواز میں۔  جس کا نام محمد ہو۔ اسے ’’ مخمدے‘‘ کر کے بلاتے ہیں۔ دکنی لہجہ میں ’’قانتہ ‘‘  کو ’’ خانتہ‘‘ کہیں گے۔ اس سے سہ حرفی روٹ تو نہیں بدل جاتا۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بستی الخلیل کو بائیبل میں حبرون کیا گیا۔ اسے خبرون کیوں نہیں پڑھتے۔ 
عبرانی میں حٰمد مادہ ہے۔ اس سے حمدان اسم معرفہ ہے اسے بائیبل میں خمدان کیوں نہیں لکھا گیا؟ اگر ’’ حبرون‘‘ اور ’’ حمدان‘‘ درست ہے تو ’’ محمدیم‘‘ کیوں درست نہیں۔ 
بنی اسرائیل کے تلفظ میں بالفرض اگر ’’ محمد‘‘ کو ’’ مخمد‘‘ بولتے ہیں تو روٹ اس کا ’’ حمد‘‘ ہی رہے گا ۔ لب و لہجہ کے فرق سے لغت کی حقیقت تبدیلی تو نہیں ہو جاتی۔ پادری صاحب تلفظ کے تغیر کو اٹھا کر لغت میں لے آئے ہیں یہ ان کی بنیادی غلطی ہے۔ یاد رہے کہ 
محمدیم  میں ’’ یم ‘‘ جمع کی نہیں بلکہ عظمت اور شان کی ہے۔ جیسے بعلیم، الوہیم میں ہے۔ لفظ ’’ محمدیم‘‘ بائیبل میں صرف ایک ہی مرتبہ یعنی زیر بحث آیت غزل الغزلات میں آیا ہے۔ دوسری جگہ نہیں۔ اس لفظ کے آخر میں ’’ یم‘‘ استعمال ہونے کی مترجمین بائیبل کو نہیں چاہئے تھا کہ وہ اس کا ترجمہ کرتے جیسے بعلیم اور الوہیم کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ حضرت سلیمان کے خطاب وِ کل محمدیم کے معنے ہیں ۔ وہ ہستی مطلق محمد عظیم ہے۔ وہ ہر لحاظ سے اور ہر پہلو سے محمد صاحب ِ عظمت ہے۔ وہ سراپا محمد ہے۔ اس بشارت کو حبقوق نبی نے دہرایا ہے۔ 
’’ خدا جنوب سے آتا ہے۔ اور قدوس کوہ فاران سے اس کا جلال آسمان پر چھا گیا۔ اور زمین اس کی حمد سے معمور ہو گئی۔ اس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی۔‘‘ (حبقوق 3/3-4)
(۸)
یہاں سے واضح رہے کہ جیسے عربی میں حمد سے محمد ہے۔ اسی طرح عبرانی میں حٰمد سے محمٰد ہے۔ یہ مذکر ہے۔ معنے ہیں ۔ ’’ جسے کوئی چاہتا ہے۔‘‘ (لغات عبرانی اردو۔ از پادری ولیم ہوپر زیر لفظ حمد صفحہ119)
اب محمد کے بعد یم لگا دیجئے۔ عظمت کے معنے پیدا ہو جائیں گے جیسے الوہ سے الوہیم ، بعل سے بعلیم۔ نفتالی سے نفتالیم ۔ ظاہر ہے کہ ’’ محمدیم‘‘ کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ جیسے الوہیم، بعلیم، نفتالیم کا ترجمہ ہم نہیں کرتے۔ 
(۹)
یہ عجیب بات ہے کہ عبرانی عہد عتیق میں ’’ محمدیم‘‘ یکتا اور منفرد ہے۔ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے زیر نظر غزل میں ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے کا نام نفتالی ہے۔ اسے انجیل میں دو دفعہ ’’ نفتالیم‘‘ لکھا گیا۔ (متی 4/14-15)
ظاہر ہے کہ ’’ یم‘‘ عظمت کے لئے ہے۔ نفتالیم کا ترجمہ نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح غزل سلیمان میں محمدیم کے ترجمہ کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سراپا محمدؐ ہے۔ 
یہ سادہ ترجمہ ہر لحاظ سے درست ہے۔ 
چیلنج کا جواب 
پال ارنسٹ کہتے ہیں۔ ’’محمدیم کا معنوی لحاظ سے لفظ ’’محمدؐ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ‘‘
یہ تو ہم بتا چکے ہیں ۔ یہ لفظ در اصل محمدیم ہے۔ اس کا روٹ حمد ہے۔ محمدیم کے معنے عشق انگیز کے ہیں۔ محمد کے معنے ہیں جس کی بے انتہا تعریف کی جائے۔ حسن و احسان کے پیش نظر تعشق کے رنگ میں ، جو سراپا تعریف ہو ۔  ؎
محمد ہست برہان محمد 
فرمائیے ! معنوی تطابق ہے یا نہیں؟
سامی زبانوں میں ’’ حمد‘‘ روٹ کے قریب قریب دو ہی معنے ہیں۔ جو عربی میں ہیں۔ آنکھیں بند کر لی جائیں۔ تو سورج بھی نظر نہیں آتا۔ آنکھیں کھولئے۔ نور علم کو دیکھئے۔ ہمارے سامنے عبرانی انگریزی کی لغت ہے۔ السنہ سامیہ کے تقابلی مطالعہ کی سب سے بڑی ڈکشنری۔ عظیم علماء کا سرمایہ۔ ڈاکٹر فرانس براؤن نے اسے از سر نو مرتب کیا۔ 1955ء میں آکسفورڈ سے شائع ہوئی۔ اس میں حٰمد روٹ نکالئے اس کے نیچے لکھا ہے۔ 
’’ عبرانی میں حٰمد آرامی میں حَمَد سریانی میں احمودا عربی میں حَمِدَ سبائی کتبات میں یہ لفظ حمدم کی صورت میں ہے۔‘‘
اس ڈکشنری میں سامی زبانوں میں ’’ حمد‘‘ کے جو معنے دئیے ہیں ۔ ان میں اشتراک ہے۔ یہ لغت کی سب سے بڑی سند ہے۔ آپ کا دعویٰ ہے کہ لفظ محمد سے عبرانی لفظ کا کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ عبرانی میں حمد نہیں خمد ہے۔ یہ کتنی بڑی علمی غلطی ہے۔ 
ماہرین السنہ سامیہ، عربی کے حَمِد روٹ میں سامی زبانوں کو مشترک قرار دیتے ہیں۔ 
عبرانی کا حٰمد اور عربی کا حمد ایک ہی ہے۔ 
افسوس! مذہبی تعصب کے باعث مقصدیت ختم ہو چکی۔ مطمع نظر یہ ہے کہ کہیں کوئی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں ثابت نہ ہو جائے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ 
(۱۰)
بشاراتِ تورات کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سات سو سال بعد حضرت حبقوق نبی نے دہرایا۔ صحیفہ حبقوق میں ہے :۔ 
’’ خداوند جنوب سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آئے گا۔‘‘ (کیتھولک بائیبل 1925ء حبقوق 3/3)
یہاں ماضی نہیں ، مضارع ہے۔ پال ارنسٹ کہتے ہیں ۔ یہ استقبال بمعنے ماضی ہے۔ 
عجیب تضاد ہے۔ آنے والے مسیح کے لئے بصیغہ ماضی جو اشارات ہیں وہاں استقبال مراد ہے۔ آنے والے عظیم الشان پیغمبر کے لئے بصیغہ استقبال اگر کوئی پیشگوئی ہے۔ اسے عہد رفتہ پر چسپاں کر لو ۔  ؎
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ارشاد ہوتا ہے ۔ اس میں کوئی پیشگوئی نہیں ہے۔ بلکہ یہ بات ماضی کے واقعات کے بارہ میں ہے لیکن حبقوق نبی کے صحیفہ میں ہے:۔
’’ کیونکہ رؤیا مقررہ وقت کے لئے ہے۔ وہ سر انجام ہو گا۔ اور خطا نہ کرے گا۔ اگر چہ دیر بھی کرے۔ تو بھی انتظار کرتے رہنا۔ کیونکہ وہ یقینا وقوع میں آئے گا۔ اور تاخیر نہ کرے گا۔ ‘‘ (2/3-4)
اس کے بعد تجلی فاران کی پیشگوئی درج ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے۔ 
(۱۱)
ہم نے لکھا تھا کہ تورات کی پیشگوئی کو نہ صرف انبیاء بنی اسرائیل نے دہرایا ۔ بلکہ اس کے الفاظ عبرانی کے ادبیات عالیہ میں شامل ہو گئے اور ایک محاورہ بن گئے۔ مثلاً یشوع بن سیراخ میں ہے۔ ’’ دس ہزار‘‘ کے نعرہ سے ’’داؤد ‘‘ کی توصیف کی گئی ۔ زبو رمیں ہے:۔
’’ تیرے آس پاس ایک ہزار (جاں نثار)  گر جائیں گے اور تیرے دہنے ہاتھ کی طرف دس ہزار لیکن (ویران کرنے والی ہلاکت ) تیرے نزدیک نہ آئے گی۔ ‘‘ (زبور 91/7)
حضرت داؤد کے جان نثار اسے کہتے ہیں:۔
’’ اگر ہم آدھے مارے جائیں تو بھی (ہمارے دشمنوں کو ) کچھ پروا نہ ہو گی۔ کیونکہ تُو ہم میں سے ’’دس ہزار‘‘ کے برابر ہے۔ ‘‘ (سموئیل نمبر ۲   18/3)
یہاں وہی محاورہ بول رہا ہے جو تورات میں ہے ۔ اس کے داہنے ہاتھ ’’دس ہزار‘‘ قدسی ہیں۔ اس کے جواب میں پال ارنسٹ نے اول استہزا سے کام لیا۔ 
’’ شیخ صاحب کی بولی میں ہر حوالے میں دس ہزار کا لفظ بشارت تورات کا عطیہ ہے۔‘‘
اب بائیبل میں ’’ دس ہزار دشمنوں‘‘ ۔’’دس ہزار بھیڑوں‘‘ ۔ ’’ دس ہزار توڑے چاندی‘‘ کی مثالیں دے کر کہتے ہیں:۔
’’ اے شیخ صاحب کس طرح بشارت تورات بنائیں گے؟‘‘
اسے کہتے ہیں  کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ۔ بھان متنی نے کنبہ جوڑا۔ 
 پال ارنسٹ نے دوسری بات یہ کہی ۔ صحیفہ یشوع بن سیراخ میں ’’ دس ہزار ‘‘ کا نعرہ داؤد کے ہاتھوں دس ہزار مارے جانے والوں کے بارے میں ہے۔ 
پال ارنسٹ کا یہ استدلال درست نہیں ۔ کتاب مقدس کے الفاظ یہ ہیں۔
شاؤل نے مارا ہزاروں کو ۔ داؤد نے مارا لاکھوں کو ۔   (سموئیل نمبر ۱  18/7)
اگر نعرۂ توصیف میں دشمنوں کو ذکر ہوتا تو دس ہزار کی بجائے لاکھوں کے نعرے سے توصیف کی جاتی۔ داؤد کے داہنے ہاتھ دس ہزار جان نثاروں کا ذکر اور دس ہزار کے نعرے سے توصیف۔ بشارتِ تورات کی صدائے بازگشت ہے۔ لہٰذا تورات کے متن میں ’’ دس ہزار‘‘ کے الفاظ حقیقی ہیں ۔ ’’ لاکھوں‘‘ مراد لینا درست نہیں ہے۔ 
پال ارنسٹ حوالوں کے انبار میں حقائق کو یوں چھپاتے ہیں جیسے آنجناب موافق کتاب نہیں بلکہ مخالفِ حقائق ہیں ۔ 
ہمارے جواب میں جویائے حق کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ 
حرف آخر
پال ارنسٹ کے مضمون کا حرف آخر:۔
’’شیخ صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ تورات کے غزل الغزلات تک ایک سراپائے محمد، تعریف پیغمبر کا انتظار ہے۔ان کا یہ دعویٰ بھی بالکل غلط ہے۔ حق یہ ہے کہ پیدائش سے ملاکی تک سراپا نجات مسیحا کا انتظار ہے۔‘‘
اس کے جواب میں گذارش ہے کہ انتظار کرنے والے پال ارنسٹ نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے علماء کے کہنے پر حضرت یحیٰ علیہ السلام سے پوچھا:۔
کیا تُو آنے والا مسیح ہے؟ آپ نے جواب دیا ۔ میں تو المسیح نہیں ہوں۔ تب انہوں نے اس سے پوچھا۔ پھر کیا تو الیاس ہے؟ اس نے کہا۔ کہ میں نہیں ہوں۔ پھر کیا تو النبی ہے جس کا ہمیں انتظار ہے۔ اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ (یوحنا 1/20-22)
اردو بائیبل مطبوعہ سوسائٹی آف سینٹ پال روما 1958ء میں ’’ النبی ‘‘ کا لفظ ہے۔ اور نیو انگلش بائیبل کے الفاظ ہیں 
Are you the prophet we await?
کیا تُو وہ پیغمبر ہے۔ جس کا ہمیں انتظار ہے۔ 
پال ارنسٹ صرف مسیحا کے انتظار کے قائل ہیں۔ انجیل میں ہے ۔ کاہن، لاوی اور عوام الناس ، مسیحا کے علاوہ ایک عظیم الشان پیغمبر’’ النبی‘‘ کے لئے بھی چشم براہ ہیں۔ 
اب بتائیے! پال ارنسٹ سچے ہیں یا انجیل مقدس۔

(انصار اللہ نومبر 1982ء صفحہ20تا31) 

مکمل تحریر >>