Thursday 16 July 2015

بشارت احمد مع تصدیق احمدیت

بشارت احمد مع تصدیق احمدیت از سید بشارت احمد وکیل ہائیکورٹ امیر جماعت احمدیہ ۔


مکمل تحریر >>

فاتح قادیان یا گستاخ اکھیں ؟

 مولوی مشتاق احمد چشتی کی کتاب فاتح قادیان کا جواب ، فاتح قادیان یا گستاخ اکھیں از ہادی علی چوہدری ۔


مکمل تحریر >>

محمدی بیگم کے نکاح کی پیشگوئی پر ایک نظر

مکرم معظم جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاٖحب کی پر معارف و حقائق تقریر جو سالانہ جلسہ 1936 پر ہوئی ۔

مکمل تحریر >>

Thursday 25 June 2015

ہمارا مذہب بجواب قادیانی مذہب

یہ کتاب پروفیسر الیاس برنی کی کتاب قادیانی مذہب کے جواب میں مولانا علی محمد اجمیری صاحب نے لکھی تھی ۔۔


مکمل تحریر >>

Tuesday 23 June 2015

قولِ سدید بجواب ختم نبوت کامل

یہ کتاب شفیع احمد صاحب نے مفتی محمد شفیع دیوبندی کی کتاب ختم نبوت کامل کے جواب میں لکھی تھی ۔


مکمل تحریر >>

Saturday 20 June 2015

کیا مرزا صاحب نے رمضان کا احترام نہ کیا ؟

اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ مرزا صا حب رمضان کا احترام نہ کیا کرتے تھے ایک بار امرتسر میں رمضان کے ایام میں تقریر کرتے ہوئے چائے پی اور ایک مرتبہ ایک مہمان روزہ کی حالت میں آپ کے پاس آیا جبکہ دن کا بیشتر حصہ گزر چکا تھا۔آپ نے اس شخص کا روزہ کھلوا دیا۔ان واقعات سے مرزا صاحب کی روزہ سے دشمنی اور ارکان اسلام کی بے حرمتی کا الزام لگایا جاتا ہے ۔



پہلا واقعہ جس کا معترض نے ذکر کیا ہے اس وقت آپؑ امرتسر میں مسافر تھے اور خدا تعالیٰ نے مسافر پر روزہ فرض نہیں کیا اسی طر ح دوسرا واقعہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ آنے والا مہمان مسافر تھا اور مسافر کو خدا تعالیٰ نے روزہ رکھنے سے منع فرما یا ہے۔
چنانچہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ مسافر کو رخصت دیتے ہو ئے فرما تا ہے:۔

مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ

(البقرة 185)

ترجمہ :۔ جو بھى تم مىں سے مرىض ہو ىا سفر پر ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اتنى مدت کے روزے دوسرے اىام مىں پورے کرے
حدیث :۔ حدیث شریف میں ہے ۔

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ شَطْرَ الصَّلاَةِ ، وَعَنِ الْمُسَافِرِ وَالْحَامِلِ أَوِ الْمُرْضِعِ الصَّوْمَ

 یعنی اللہ تعالیٰ مسافر پر روزے اور نصف نماز کا حکم اٹھا دیا ہے ۔
(مسند أحمد بن حنبل – (ج 4 / ص 347)
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ ، فَرَأَى زِحَامًا وَرَجُلا قَدْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ ، فَقَالَ : مَا هَذَا ؟ فَقَالُوا : صَائِمٌ. فَقَالَ : لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِي السَّفَرِ
(صحيح البخاري کتاب الصوم باب قول النبي صلى الله عليه و سلم لمن ظلل عليه واشتد الحر  ليس من البر الصوم في السفر ) 
ترجمہ :۔ یعنی آنحضرت ﷺ ایک سفر پر تھے ۔ اس دوران آپؐ نے لوگوں کا ہجوم دیکھا اور ایک شخص دیکھا جس پر سایہ کیا گیا تھا ۔ آپؐ نے دریافت فرمایا اسے کیا ہوا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ روزہ دار ہے ۔ تو آپؐ نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔

خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ ، فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ عُسْفَانَ ، ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ ، فَرَفَعَهُ إِلَى يَدِهِ لِيُرِيَهُ النَّاسَ ، فَأَفْطَرَ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ ، وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ
(صحيح البخاري کتاب الصوم باب من أفطر في السفر ليراه الناس )

ترجمہ :۔ یعنی آنحضرت ﷺ مدینہ سے روزہ رکھ کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے مقام عسفان پر پہنچ کر حضورﷺ نے پانی منگوایا۔اور پھر پانی کو دونوں ہاتھوں سے اس غرض سے اونچااٹھایا کہ سب لوگ آ پ کو پانی پیتے ہوئے دیکھ لیں پھر آپ نے روزہ کھول  دیا اور یہ واقعہ رمضان کے مہینہ میں ہوا۔

ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اس سنت سے قطعی طور پر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اگر کوئی مسافر رمضان میں عام لوگو ں کے سامنے کھائے پیئے تو اس میں کوئی قابل ِ اعتراض بات نہیں اور اس پر عدم احترام رمضان کا خود ساختہ نعرہ لگانا جا ئز نہیں۔
 حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی امر تسر میں اپنے آقا کی اس سنت پر عمل فرمایا اور لوگوں کے سامنے سفر کی حا لت میں چائے پی لی ۔
مکمل تحریر >>

Sunday 3 May 2015

احمدی کا مبارک امتیازی نام

اے عزیزو اس قدر کیوں ہو گئے تم بے حیا
 کلمہ گو ہو کچھ تو لازم ہے تمہیں خوفِ خدا
انیسویں صدی کے آخری سال کا واقعہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے ۴؍نومبر ۱۹۰۰ء کو اشتہار دیا کہ ملک میں مردم شماری ہونے والی ہے جس میں ہر فرقہ اپنے لئے جو نام پسند کرتا ہے وہی نام سرکاری کاغذات میں لکھوائے گا۔ اس وقت تک پنجاب اور ہندوستان میں تیس ہزار مخلصین شامل ہوچکے تھے اس لئے حضرت اقدس علیہ السلام نے اس اشتہار میں اعلان فرمایا:
’’و ہ نام جو اس سلسلہ کے لئے موزوں ہے جس کو ہم اپنے لئے اور اپنی جماعت کے لئے پسند کرتے ہیں وہ نام مسلمان فرقہ احمدیہ ہے اور جائز ہے کہ احمدی مذہب کے مسلمان کے نام سے بھی پکاریں۔‘‘
اس نام کا پس منظر یہ بیان فرمایا کہ
’’ہمارے نبی ﷺ کے دو نام تھے ایک محمدﷺ اور ایک احمدﷺ۔۔۔ اسم محمد جلالی نام تھا۔۔۔ لیکن اسم احمد جمالی نام تھا جس سے یہ مطلب تھا کہ آنحضرت ﷺ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائیں گے ۔۔۔ اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمدیہ رکھا جائے تا اس نام کو سنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے‘‘۔ (’اشتہار واجب الاظہار‘ بحوالہ مجموعہ اشتہارات حضرت مسیح موعودؑ حصہ سوم صفحہ ۳۵۶۔۳۶۶)
۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کو دہلی میں ایک صاحب نے حضرت اقدسؑ سے عرض کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے، آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا ہے؟ یہ بات ھو سمّٰکم المسلمین (الحج:۷۹) کے برخلاف ہے۔ اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا:
’’اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے ۔ لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آ چکا ہے اسلام کے تہتر فرقے ہوگئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ انہی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہؓ کو سّب و شتم کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے ازواجِ مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں۔ اولیاء اللہ کو برا کہتے ہیں۔ پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔ خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہتے ہیں اور پھر بھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔ بلادِ شام میں ایک فرقہ یزیدیہ ہے جو امام حسینؓ پر تبرّہ بازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ اسی مصیبت کو دیکھ کر سلف صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی ، حنبلی وغیرہ تجویز کئے۔ آجکل نیچریوں کا ایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت ، دوزخ، وحی، ملائک سب باتوں کا منکر ہے یہاں تک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم ﷺ کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سن کر یہ قصے لکھ دیئے ہیں۔ غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے لئے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا‘‘۔
مزید ارشاد فرمایا:
’’ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے۔ اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو۔ خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔ بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہوسکتی۔ امام شافعیؒ اور حنبلؒ وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہو گئی تھیں۔ اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی۔ ہزارہا گندے آدمی ملے جلے رہتے۔ یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چاردیواری کے تھے۔ اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہو جاتا کہ بدعتی اور غیربدعتی میں تمیز نہ ہوسکتی۔ اب بھی ایسا زمانہ آگیا ہے کہ گھر گھر ایک مذہب ہے۔ ہم کو مسلمان ہونے سے انکار نہیں، مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھا گیا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
’’جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں، ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں۔ میں کوئی بدعت نہیں لایا۔ جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے ایسا ہی احمدی بھی نام ہے بلکہ احمد کے نام میں اسلام کے بانی احمد ﷺ کے ساتھ اتصال ہے اور یہ اتصال دوسرے ناموں میں نہیں۔ احمد، آنحضرت ﷺ کا نام ہے۔اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے۔ حدیث شریف میں محمدی رکھا گیا ہے۔ بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوتا ہے۔ احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے۔ آج کل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اول آخر کبھی نہیں ہوا۔ اس واسطے کوئی نام ضروری تھا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو مسلمان ہیں، وہ احمدی ہیں۔‘‘ (بدر ۳؍نومبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲۔۴، بحوالہ ملفوظات حضرت مسیح موعود ؑ جلد ۴ صفحہ ۵۰۰۔۵۰۲ جدید ایڈیشن)
خدا تعالیٰ نے اس مبارک نام کو قبولیت کا ایسا عالمی شرف بخشا ہے کہ حیرت آتی ہے۔ مصر سے دائرۃ المعارف الاسلامیہ کے نام سے ضخیم انسائیکلوپیڈیا شائع ہوئی ہے جس میں الاحمدیہ ہی کے زیر عنوان بہت قیمتی نوٹ چھپا ہے۔ علاوہ ازیں مجلتہ الازھر شعبان ۱۳۷۸ھ (فروری ۱۹۵۹ء) میں مدیر مذہبیات الدکتور محمد عبداللہ کے قلم سے جماعت احمدیہ کے جرمن قرآن پر تبصرہ کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا گیا ہے ’’نشرت ھذہ الترجمہ البعثۃ الاحمدیہ‘‘۔
پاکستان میں ’’اردو انسائیکلوپیڈیا‘‘ ، ’’اردو جامع انسائیکلوپیڈیا‘‘ اور ’’شاہکار انسائیکلوپیڈیا‘‘ بالترتیب فیروز سنز لاہور، غلام علی اینڈ سنز لاہور اور شاہکار بک فاؤنڈیشن کراچی کی طرف سے منظر عام پر آ چکے ہیں ان سب میں احمدی نام موجود ہے۔ حضرت قائد اعظم کی پریس ریلیز اخبار ڈان (DAWN) کی ۸ اکتوبر ۱۹۴۵ء کی اشاعت میں درج ذیل الفاظ میں چھپی:
"Ahmadiyya Community to support Muslim League"
ڈاکٹر سر محمد اقبال نے لکھا ’’جہاں تک میں نے اس تحریک کے منشا کو سمجھا ہے احمدیوں کا اعتقاد ہے کہ مسیح کی موت ایک عام فانی انسان کی موت تھی‘‘ (’اقبال اور احمدیت صفحہ ۹۰ مرتبہ بشیر احمد ڈار ناشر آئینہ ادب چوک مینار انارکلی لاہور)
پاکستان کے محقق و مؤرخ شیخ محمد اکرام صاحب ایم۔اے نے ’’موجِ کوثر‘‘ میں، جسٹس منیر اور جسٹس کیانی نے ’’رپورٹ تحقیقاتی عدالت‘‘ میں۔ جناب اصغر علی گھرال صاحب ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور نے اپنی کتاب ’’اسلام یا ملاّ ازم‘‘ میں بے دریغ احمدی ہی کا نام استعمال کیا ہے۔
پاکستانی پریس قیام پاکستان سے لے کر آج تک بے شمار مرتبہ یہ مبارک نام استعمال کرچکا ہے مثلاً’’ پاکستان ٹائمز‘‘ (۱۳؍نومبر ۱۹۸۰ء)،’’ مشرق‘‘ (۳۰ جون ۱۹۷۴ء) ’’نوائے وقت‘‘ (۱۲ ؍اپریل ۱۹۶۰ء)، ہفت روزہ ’’رضاکار ‘‘لاہور (۲۴ مئی ۱۹۷۳ء)۔
احمدیت کے مخالف لٹریچر میں بھی مدت سے احمدی نام کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ جناب ملک محمد جعفر خان نے احمدیت کی مخالفت میں جو کتاب لکھی ہے اس کا نام ہی ’’احمدیہ تحریک‘‘ رکھا ہے۔
مفکر احرار چوہدری افضل حق نے ’’فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیوں‘‘ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کو زبردست خراج تحسین ادا کرتے ہوئے انہیں احمدی کے ہی نام سے یاد کیا ہے۔ مولوی ظفر علی خان مدیر ’’زمیندار‘‘ نے ۱۹؍مارچ ۱۹۳۶ء کو تقریر کرتے ہوئے کہا کہ:
’’احمدیوں کی مخالفت کا احرار نے محض جلب زر کے لئے ڈھونگ رچا رکھا ہے۔‘‘ (تحریک مسجد شہید گنج صفحہ ۱۶۹۔ مؤلفہ جانباز مرزا)
نامور اہل حدیث عالم میر ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے ’’پیغام ہدایت در تائید پاکستان و مسلم لیگ‘‘ کے صفحہ ۱۱۲، ۱۱۳ پر کئی بار احمدی کا لفظ استعمال کیا۔ نیز لکھا:
’’احمدیوں کا اس اسلامی جھنڈے (تحریک پاکستان مراد ہے۔ ناقل) کے نیچے آ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔‘‘
’’اور اس امر کا اقرار کہ احمدی اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہیں ، مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی ہے‘‘
یہ حیرت انگیز واقعہ مجسٹریٹ درجہ اول کوئٹہ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے کہ نام نہاد ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے مولوی تاج محمد صاحب نے ۲۱؍دسمبر ۱۹۸۵ء کو بیان دیا کہ:
’’ یہ درست ہے کہ حضور رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جو آدمی نماز پڑھتا تھا، اذان دیتا تھا یا کلمہ پڑھتا تھا اس کے ساتھ مشرک یہی سلوک کرتے تھے جو اب ہم احمدیوں سے کر رہے ہیں۔‘‘
غرضیکہ کہاں تک بیان کیا جائے احمدی کا مبارک نام عرب و عجم اور احمدی اور غیر احمدی حلقوں میں قریباً ایک صدی سے استعمال ہو رہا ہے اور جماعت احمدیہ کی دائمی پہچان اور شناخت بن چکا ہے۔ اس ضمن میں قارئین الفضل کو یہ چونکا دینے والا انکشاف یقیناً ورطہ حیرت میں ڈال دے گا کہ سیاسی ملاؤں نے ۱۹۵۲ء کی ایجی ٹیشن کے دوران یہ فتوی دیا کہ:
’’مرزائی چونکہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی بجائے احمدی کہلاتے ہیں ۔۔۔ لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دے۔‘‘ (احراری اخبار ’’آزاد‘‘ لاہور ۱۱؍ستمبر ۱۹۵۲ء صفحہ۹ کالم ۲، مطالبہ نمبر)
اس ضمن میں مولوی عبدالحامد بدایونی صاحب نے ۹ جولائی ۱۹۵۲ء کو مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی کے زیر عنوان آرام باغ میں جو تقریر کی اس کا خلاصہ اخبار ‘‘آزاد‘‘ ۱۳؍جولائی ۱۹۵۲ء نے صفحہ نمبرایک پر پہلی سطر میں نہایت درجہ جلی قلم سے حسب ذیل الفاظ میں شائع کیا:
’’مرزائی اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کی بجائے احمدی کہلاتے ہیں ان کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔
نیز رپورٹ میں مزید لکھا کہ:
’’آپ نے اس تجویز کو پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی دلیل یہ ہے کہ مرزائیوں نے اپنے آپ کو کبھی مسلمان نہیں کہلایا وہ خود اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔‘‘ (صفحہ۱ کالم۲)
اب ان سیاسی ملاؤں کی حالیہ قلابازی ملاحظہ ہو کہ پچھلے دنوں پاکستان کی نگران حکومت نے جب یہ شوشہ چھوڑا کہ پاکستانی سفارتخانوں کو یہ ہدایت کی جا رہی ہے کہ پاسپورٹوں میں قادیانی کی بجائے احمدی کا لفظ استعمال کیا جائے تو پاکستان کے علاوہ برطانیہ میں مقیم سیاسی ملاؤں نے بھی ایک زبردست ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اس ضمن میں روزنامہ جنگ لندن ۱۴ جنوری ۱۹۹۷ء نے صفحہ۷ پر ایک مفصل رپورٹ شائع کی جس کی دوہری سرخی یہ تھی:
’’قادیانیوں کو احمدی لکھنے کے فیصلے پر برطانیہ بھر کے علماء کا احتجاج۔نگران حکومت نے فیصلہ واپس نہ لیا تو مسلمان میدان میں آنے پر مجبور ہوں گے۔ دینی رہنماؤں کا ردّعمل‘‘
ازاں بعد لندن کے اخبار ’’دی نیشن‘‘ ۲۴ تا ۳۰؍ جنوری ۱۹۹۷ء کے صفحہ۵ پر لندن کی مرکزی جماعت اہل سنت کی اپیل پر ’’یوم تاجدار ختم نبوت‘‘ منائے جانے کی خبر اشاعت پذیر ہوئی جس میں کہا گیا کہ:
’’قادیانی دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو پھر انہیں شعائر اسلام استعمال کرنے کی اجازت دینا تعلیمات مصطفوی سے انحراف ہے۔‘‘
بالفاظ دیگر ’’احمدی‘‘ کا نام شعائر اسلام میں سے ہے اس لئے جماعت احمدیہ کے لئے اس کا استعمال تعلیمات مصطفوی سے انحراف کے مترادف ہے۔ حالانکہ ایک صدی سے خود ان حضرات کے اکابر و اصاغر یہ نام استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر امت مسلمہ ’’یوم تاجدار ختم نبوت‘‘ منانے والے سیاسی ملاؤں اور طالع آزماؤں سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ اعلان کریں کہ جماعت کے لئے احمدی کا لفظ استعمال کرنے والوں کو کیا تعلیمات مصطفوی سے منحرف اور باغی قرار دیتے ہیں؟؟ علامہ شبلی نعمانی نے کیا خوب کہا تھا
کرتے ہیں مسلمانوں کی تکفیر شب و روز
 بیٹھے ہوئے کچھ ہم بھی تو بیکار نہیں ہیں
پاکستان کے فاضل ادیب و کالم نویس جناب عنایت حسین صاحب بھٹی نے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور (۲۰ جنوری ۱۹۹۷ء) میں سیاسی ملاؤں کے اس طرز عمل پر ایک نہایت دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’مولوی صاحبان نے احتساب کرانے کا بیڑہ اٹھایا تھا اور الیکشن سے لاتعلقی کا اعلان فرمایا۔ وہ احمدی اور قادیانی مسئلہ میں الجھ گئے یا الجھا دیئے گئے اور حسب سابق پٹڑی سے اتر گئے۔ لیکن مولوی حضرات سے ایک سوال کرنے کی جرأت کروں گا کہ قادیانی سوائے پاکستان کے پوری دنیا میں احمدی کہلاتے ہیں۔ پورے افریقہ میں ان کے مشن ہیں جو لوگوں کو تبلیغ کرکے ان کے مذاہب تبدل کرکے ان کو احمد کا نام دیتے ہیں۔ پورے یورپ اور دیگر ممالک میں وہ احمدی کہلاتے ہیں حتیٰ کہ بھارت میں بھی ان کو احمدی کہا جاتا ہے۔ مگر صرف پاکستان میں احمدی نہ کہا گیا تو کیا فرق پڑے گا۔ یہاں ایک لطیفہ سنئے کہ فیصل آباد کے گھنٹہ گھر پر ایک سکھ چڑھ گیا اور بارہ بجنے میں پانچ منٹ پر اس نے گھڑیال کا پنڈولم پکڑ لیا اور کہنے لگا اب میں زیادہ نہیں بجنے دوں گا۔ لوگ ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ سردار جی جب ساری دنیا کی گھڑیوں پر بارہ بج جائیں گے تو اگر ایک گھڑیال میں نہ بجے تو کیا فرق پڑے گا۔ مولوی حضرات سے گزارش ہے کہ قرآن میں ارشاد پروردگار ہے لا اکراہ فی الدین دین میں جبر نہیں، آپ سیاست کو چھوڑ کر دین کی تبلیغ کیوں نہیں کرتے۔ لوگوں کو دلائل سے قائل کیجئے کہ صحیح اسلام کیا ہے، دنیا میں اپنے تبلیغی مشن بھیجیں تاکہ لوگ صحیح دین سے متعارف ہوں، ڈنڈے سے کام تو وہ لیتا ہے جس کے پاس دلائل نہ ہوں۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍مئی ۱۹۹۷ء تا ۵؍جون ۱۹۹۷ء)
مکمل تحریر >>

کیا گوشت خوری ایک ظالمانہ فعل ہے؟


 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک مضمون بعنوان’’گوشت خوری پرایک مختصر نوٹ‘‘ ریویوآف ریلیجنزاردو ۱۹۱۹ء جلد ۱۸ نمبر ۱۰ میں شائع ہوا۔ یہ مضمون آج کے حالات میں بھی بہت اہمیت رکھتا ہے اسلئے ذیل میں آپ کا یہ مفید مضمون ہدیہ ٔ قارئین کیا جاتا ہے ۔

 خوراک کے لحاظ سے دنیامیں دوبڑے گروہ پائے جاتے ہیں ۔ ایک وہ جوگوشت کھانے کو ایک ظالمانہ کام سمجھتے ہیں اور صرف سبزیوں وغیرہ پر گزارہ کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ دوسرے وہ جو باستثناچند جانوروں کے جن کاگوشت طبی لحاظ سے انسان کے جسم اورروح کے لئے مضر ہے باقی تمام جانوروں کا گوشت استعمال کرنے کو ایسا ہی جائز قرار دیتے ہیں جیسا سبزیوں کا استعمال۔ اول الذکر جماعت میں زیادہ تر ہندو اور بدھ مذہب کے لوگ ہیں لیکن ان خیالات کااثر حال میں یورپین ممالک میں بھی پھیلتا نظرآتاہے کیونکہ ہم کو ہمارے ان مبلغوں سے اطلاع ملی ہے جو یورپ میں کام کرتے ہیں کہ وہاں کے بعض تعلیم یافتہ لوگ اس خیال کی طرف مائل نظرآتے ہیں کہ گوشت خوری ایک ظالمانہ کام ہے جس سے ہر شریف آدمی کو پرہیز لازم ہے۔ ہم کو اس بات سے تعلق نہیں کہ یہ لوگ کس مذہب و ملت کے ہیں اور یہ کہ آیا یہ لوگ مذہباً اپنے آپ کو کسی ایسے مذہب کی طرف تو منسوب نہیں کرتے کہ جو گوشت خوری کو جائز اور حلا ل قرار دیتاہے اور جس کے بانی اور بزرگ ہمیشہ قولاً اور فعلاً گوشت خوری کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ کیونکہ ہمارا کام غلط عقائد اور غلط خیالات کی اصلاح ہے۔ پس خواہ ایسے لوگ مذہباً کسی ہی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں ہم ان کی طرف توجہ کریں گے۔ غرض گوشت خوری پر ایک مبسوط مضمون لکھے جانے کی ضرورت ہے جس میں اس کی حکمت اور اس کے فوائد پر مفصل علمی بحث ہو اور جس میں تاریخی واقعات کی مدد سے یہ ثابت کیا جاوے کہ انسانی بقا اور ترقی کے لئے گوشت خوری بھی ایک حد تک ضروری اور لابُدی ہے مگر ہم شروع میں ہی یہ بتا دیناچاہتے ہیں کہ ہمارا یہ موجودہ مضمون اس ضرورت کو پورا کرنے والا نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے ہم کسی اور مناسب وقت پر لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ موجودہ مضمون میں ہم گوشت خوری کے متعلق جو اسلامی تعلیم ہے صرف اس کو پیش کرنا چاہتے ہیں اور مختصر الفاظ میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس کے اندر کونسی حکمت مدنظر رکھی گئی ہے۔ مگر اصل مضمون شروع کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتاہے کہ اصولی طورپر اسلامی احکام پرایک سرسری نظر ڈالی جاوے اور دیکھا جاوے کہ اسلامی شریعت کی بنیاد کس اصول پر ہے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’جَعَلنٰکُم اُمَّۃً وَّسَطًا‘ یعنی اے مسلمانو! تم وسطی امت بنائے گئے ہو۔ یعنی تم افراط و تفریط کی راہوں سے الگ کر کے وسطی طریقوں پر چلائے گئے ہو ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے تمام احکام میں یہی اصول چلتاہے۔ اور درحقیقت اگر عقلاً بھی دیکھا جاوے تو یہ ایک نہایت زرّیں اصول ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر امر میں دو انتہائی نقطے ہوتے ہیں اورایک وسطی مقام ہوتا ہے اور وہ انتہائی نقطے گو بعض حالات میں مفید ثابت ہوں لیکن بعض میں سخت نقصان دہ اور ضرررساں نکلتے ہیں ۔ مثلاً مجرم کی پاداش کے متعلق ایک یہود کا اصول ہے جو تورات سے ماخوذہے کہ ہر صورت میں جرم کی سزا ضرور ی ہے اورکسی صورت میں بھی عفو جائز نہیں۔ اور دوسرے مسیحیوں کا اصول ہے کہ بدی کا مقابلہ مطلقاً نہ کرناچاہئے بلکہ ہر حالت میں عفو اور درگزر سے کام لینا چاہئے ۔ اب یہ دو انتہائی نقطے ہیں جو ان مذاہب نے اختیار کئے ۔ حالانکہ دنیا میں ہمارا تجربہ اور عقل ان دونوں کو باطل قرار دیتاہے کیونکہ نہ تو ہر حالت میں سزا دینے کاا صول قاعدہ کلیہ کے طورپر مفید کہلا سکتاہے اور نہ ہی عفو و درگزر کا اصول ہر حالت میں مفید صورت میں چلایا جا سکتاہے۔ بلکہ ان کے درمیان ایک مقام ہے جو اصل قاعدہ بننے کے قابل ہے اوراسی کو اسلام نے اختیار کیاہے۔ چنانچہ فرمایا ’’جَزَآئُ سَیِّئَۃ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ‘‘ یعنی تمام جرائم کی سزا ہے لیکن اگر عفو سے اصلاح کی امیدہو توعفو کو اختیار کرنا چاہئے۔

اب یہ ایک ایسا اصول ہے کہ جو وسطی ہے اور یہی قاعدہ بننے کے قابل ہے ۔ غرض اسلام نے تمام امور میں افراط اور تفریط کی راہوں سے ہم کوبچاکر وسطی طریق پر چلایاہے۔ اس جگہ یہ بتا دینا ضروری معلوم ہوتاہے کہ بعض اوقات وسطی طریق بظاہر قابل اعتراض معلوم ہوتاہے اور انتہائی مقاموں میں سے کوئی ایک مقام درست اور صحیح نظر آتاہے ۔ جیساکہ اوپرکی مثال سے ظاہر ہے کہ مسیحیوں کایہ اصول کہ کسی صورت میں بھی بدی کامقابلہ نہ کیا جاوے بظاہر بہت خوشگوار نظر آتا ہے۔ مگرذرا غور سے دیکھو اور اس کے نتائج پر نظرڈالو اور تجربہ کی روشنی میں اس کا امتحان کرو توفوراً اس کا بودہ پن نظرآنے لگتاہے۔ اس لئے ہم کو اپنی ظاہری نظر پراعتماد نہ کرناچاہئے بلکہ ان اصول کو استعمال میں لاناچاہئے جو کسی چیز کی خوبی اور سقم کا پتہ لگانے کے لئے بطور معیارکے ہیں اور وہ یہ ہیں ۔ اول عقل، دوئم مشاہدہ ، سوئم تجربہ۔ یہ تین ایسے چراغ ہیں کہ ان کی روشنی کے نیچے کوئی اندھیرا قائم نہیں رہ سکتا اور ہر چیز کاحسن و قبح روز روشن کی طرح نظر آنے لگتاہے۔مجردعقل بعض اوقات دھوکہ دیتی ہے ۔مگر جب اس کے ساتھ مشاہدہ کی مدداورتجربہ کی شہادت مل جاتی ہے توپھریہ ایک قابل اعتبار چیزہو جاتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اسلام ہمیشہ وسطی مقام کواختیار کرتاہے اور انتہائی طریقوں سے الگ رہنے کی تعلیم دیتاہے اوراگر کسی موقع پروسطی مقام اور انتہائی نقطوں کے درمیان شک و شبہ پیدا ہو جاوے اور بظاہر ہم کو وسطی مقام قابل اعتراض نظرآئے اور انتہائی طریقوں میں سے کوئی طریق زیادہ درست اور پسندیدہ معلوم ہو تو پھراسکو عقل، مشاہدہ اورتجربہ کی متحدہ شمع کے سامنے پیش کرناچاہئے جہاں اس کاتمام حسن و قبح عیاں ہوجائے گااورکوئی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے گی۔
اس مختصر سی تمہید کے بعد ہم گوشت خوری کے متعلق اسلام کی تعلیم پیش کرتے ہیں اور پھر اس پران اصول کے ماتحت نظرڈالیں گے جو ہم نے حق کی شناخت کے لئے اوپر بیان کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے’’کُلُوا وَاشْربُوا وَلاَ تُسرِفوا‘‘۔ یعنی اے مسلمانو! جوچیزیں ہم نے تمہارے لئے حلال کی ہیں وہ سب کھاؤ پیو لیکن ان میں سے کسی ایک قسم پر خاص زور نہ دو یعنی ایسانہ کرو کہ صرف گوشت ہی کھاتے رہو یا یہ کہ صرف سبزیاں ہی کھاؤ اور گوشت قطعاً ترک کردو بلکہ حالات کے مطابق خوراک کھاؤ ۔
یہ وہ تعلیم ہے جو کھانے پینے کے بارہ میں ہم کو اسلام سکھاتاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کھانے کے معاملہ میں کسی چیز کے استعما ل میں اسراف نہ ہوناچاہئے ۔ یعنی اگر کسی جگہ کے حالات اورآب و ہوا وغیرہ اس بات کے مقتضی ہیں کہ گوشت اور سبزی ایک مقدار میں کھائی جاوے (جیساکہ منطقہ معتدلہ میں) تو اسی طرح کھاؤ اور اگر کسی جگہ کی آب وہوا اور حالات یہ چاہتے ہیں کہ سبزی پر زیادہ زور ہو اورگوشت کم استعمال ہو تو پھرایسا ہی کرنا چاہئے جیساکہ منطقہ حارہ میں اور اگر کسی آب وہوا میں گوشت پر زیادہ زور دینامناسب ہو تو وہاں یہی کرنا چاہئے جیسا کہ منطقہ منجمدہ اور اس کے قریب کے علاقہ جات میں۔ غرض جوبھی کسی جگہ وہاں کے حالات کے ماتحت اسراف کی تصریف اور اس کی حد ہو اس سے بچنا چاہئے اور وسطی طریق کو اختیار کرنا چاہئے۔ یہ تو ملکی لحاظ سے تقسیم ہے ۔ اسی طرح بعض افراد کی طبائع میں بھی بعض ذاتی خصوصیات ہوتی ہیںیعنی کسی طبیعت کے لئے سبزی کی کثرت کی ضرورت ہو گی تو کسی کے لئے گوشت کی اورپھر کوئی ایسی بھی طبیعت ہوگی جس کے لئے دونوں کا ایک جیسا استعمال مفید ہوگا اور ان طبائع کے مطابق ہر ایک کے لئے الگ الگ اسراف کی حد ہوگی جس کے مطابق ہر ایک کو عمل کرنا چاہئے ۔
اب جبکہ ہم کو اس معاملہ میں اسلامی تعلیم کاعلم ہو گیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ ایک وسطی تعلیم ہے جو افراط اور تفریط سے الگ ہے۔ یعنی نہ تو ہم کو خواہ مخواہ گوشت خوری پر زور دینے کو کہا گیا ہے اور نہ ہی گوشت خوری سے بالکل علیحدگی کا حکم دیا گیا ہے بلکہ حالات کے مطابق بین بین کی مناسب راہ اختیار کرنے کو کہا گیاہے اور یہی وسطی تعلیم کا مدعا ہے۔ اب ہم نے دیکھنایہ ہے کہ آیا یہ وسطی تعلیم درست اور پسندیدہ اور بنی نوع انسان کے لئے مفید ہے یا اس معاملہ میں انتہائی نقطوں میں سے کوئی مقام قابل ترجیح ہے ؟ گویا اس لحاظ سے تین گروہ ہو گئے۔
اوّل وہ لوگ جو گوشت کھانا ناجائز قرا ر دیتے اور ایک ظالمانہ کارروائی خیال کرتے ہیں ۔
دُوسرے وہ لوگ جو گوشت خوری پر اس قدر زور دیتے ہیں کہ گویا سبزیوں کے استعمال سے کنار ہ کش ہو گئے ہیں۔
تیسرے وہ لوگ جو گوشت اور سبزیاں ہردو کا استعمال ضرور ی جانتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کی نامناسب کثرت کو ناپسند کرتے ہیں اور موخرالذکر گروہ وسطی امت ہے۔
ان تینوں جماعتوں میں سے کون سی جماعت حق پر ہے اور ان تینوں طریقوں میں سے کون سا طریقہ بنی نوع انسان کے لئے مفید ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر اب ہم نے غور کرنا ہے اور تینو ں کو عقل، مشاہدہ اور تجربہ کی روشنی کے سامنے رکھ کر دیکھناہے۔ مگر اس سے پیشتر ذیل کے حقائق کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے ۔
(۱)۔الف۔۔۔:انسان اشرف المخلوقات ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی اس مخلوقات میں سے جو عرف عام میں جاندار کے نام سے موسوم ہوتی ہے انسان کا درجہ سب سے اعلیٰ ہے۔
ب۔۔۔:اگر کوئی جائز ضرورت پیش آوے تو ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کر دینا چاہئے جیساکہ قانون قدرت میں ہمارا مشاہدہ ہے ۔
ج۔۔۔: اخلاقی زندگی جسمانی زندگی سے افضل ہے۔
د۔۔۔:اقوام کی زندگی کا رتبہ افراد کی زندگی سے بالاتر ہے۔
(۲)۔۔۔علاوہ جسمانی اثر کے خوراک کاایک نہایت گہرا اثر انسان کے اخلاق پر بھی پڑتا ہے ۔ یہ صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس کی تائید میں نہایت مضبوط طبی اور تاریخی شہادات موجود ہیں جن کاانکار نہیں کیا جا سکتا اور سائنس نے اس علم کو اس حد تک یقینی بنادیاہے کہ اب کوئی بے وقوف ہی ہوگا کہ جو اس سے انکار کرسکے۔ ہر قسم کی خوراک الگ الگ اپنا اثر دکھاتی ہے جو انسان کے جسم اور اخلاق دونوں میں ظاہر ہوتاہے اور یہ اثر گو بعض خاص افراد میں بعض خصوصیات کی وجہ سے زیادہ نمایاں طور پر ظاہر نہ ہو۔ لیکن اقوام کے اخلاق میں ان کا ظہور پذیر ہونا بالکل یقینی اور قطعی ہوتاہے کیونکہ کسی قوم کے اخلاق سے اس قوم کے اکثر افراد کے اخلاق مراد ہوتے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی خاص قسم کی خوراک انسان کے رنگ میں زردی پیدا کرنے والی ہے تو اس خوراک کے استعمال کرنے والی قوم کے اکثر افراد میں یہ صفت ظاہر ہو کر اس قوم کی قومی خصوصیت بن جائے گی یا مثلاً اگر کسی خوراک میں انسان کے اندر عجلت اور بے صبری پیدا کرنے والی خصوصیت ہے تو اس خوراک کے استعمال کرنے والی قوم میں یہ صفات بطور قومی خلق کے ہو جائیں گی خواہ بعض افراد ان کمزوریوں سے آزاد ہوں۔ خلاصہ کلام یہ کہ خوراک انسان کے جسم اور اخلاق پر گہرا اثر کرتی ہے۔لیکن چونکہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ یہ اثر ہر فرد میں نمایاں طورپر ظاہر ہو کیونکہ بعض افراد میں بعض ذاتی خصوصیات ہوتی ہیں یا ان کے اندر اس اثر کا مقابلہ کرنے والی باتیں فطرتاً موجود ہوتی ہیں اس لئے ہم ہر فرد کے متعلق تو نہیں مگر اکثرافراد کے متعلق یقینی طورپر فتویٰ لگاسکتے ہیں کہ وہ اس کے اثر کے نیچے آ ئیں گے اور چونکہ کسی قوم کے اکثر افراد میں جوبات پائی جاتی ہے وہی اس قوم کا قومی خلق کہلاتاہے اس لئے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ خوراک کا اثر قومی خلق میں نمایاں طورپر ظاہر ہوتاہے ۔
اب ہم اصل بحث کو لیتے ہیں ۔ طبی لحاظ سے یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچی ہوئی ہے کہ گوشت خوری کا اثر انسان میں شجاعت،بہادری ، جوش و خروش اور سختی اور اسی قسم کی دوسری صفات کے رنگ میں ظاہر ہوتاہے اور سبزیوں کااثر نرمی ، حلم اور صبرو برداشت اور اسی قسم کے دوسرے صفات کے رنگ میں ظہور پذیرہوتاہے ۔یہ ایک طبی تحقیق ہے اور صرف ایک تھیوری کے طورپر نہیں بلکہ مشاہدہ اور تجربہ کے معیار سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو چکی ہے۔ حیوانات میں دیکھ لو گوشت خور اور سبزی خور حیوانات علی الترتیب انہی صفات سے متصف نظرآئیں گے ۔ اس جگہ تفصیلات کی گنجائش نہیں ورنہ حیوانات میں اس رنگ کی تحقیقات کرنا اور ہر ایک قسم کے حیوانات کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر اس کی خوراک کے لحاظ سے اس کی صفات کا معائنہ کرنا ایک نہایت دلچسپ مضمون ہے اور اہل علم نے اس کے متعلق بڑی تحقیقاتیں کی ہیں اور نہایت مفید معلومات اور تجارب کا ذخیرہ پیدا کیا ہے۔ جانوروں سے ہٹ کر انسان پر نظر ڈالیں تویہاں بھی یہ فرق نمایاں طورپر نظر آتاہے یعنی اگر گوشت خوری پر ناجائز اور نامناسب زور دینے والی اقوام میں بہادری، جرات، جوش اور سخت دلی کی صفات نظرآتی ہیں تو صرف سبزی کھانے والی اقوام میں یہ صفات قومی اخلاق کے طورپر مفقود ہیں اور ان کی جگہ نرمی ، حلم، برداشت اور تحمل کی صفات پائی جاتی ہیں۔
جن لوگوں نے تاریخ پر اس لحاظ سے نظر ڈالی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ امتیاز کسی خاص اقوام تک محدود نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی خوراک کاامتیاز موجود ہے وہاں ساتھ ساتھ قومی اخلاق میں بھی خوراک کے مناسب حال امتیازات موجود ہیں۔ہم اس ضمن میں کسی خاص قوم کا نام لیناپسند نہیں کرتے اور نہ اس جگہ ان تفصیلات کی گنجائش ہے۔ مگر ہر شخص جو اپنے طورپر تحقیق کر ے گا وہ یقیناًیقیناًاسی نتیجہ پرپہنچے گاجو ہم نے اوپر بیان کیاہے یعنی گوشت خوری پر ناروا زور دینے والی اقوام بلند ہمت دلیر بہادرمگرجوشیلی اور سخت دل نظرآئیں گی اور سبزیوں کا نامناسب طور پر زیادہ استعمال کرنے والی اور گوشت سے بالکل الگ رہنے والی اقوام نرم، حلیم ، صابر مگر بزدل اورکم ہمت نکلیں گی۔ ہاں اس تحقیقات کے لئے اس بات کومدنظر رکھناضروری ہے جو ہم نے اپنے شروع مضمون میں ہی بیان کر دی تھی یعنی گوشت اور سبزی کے استعمال کی حد ملک کی آب وہوا اور استعمال کنندگان کے حالات کے مطابق ہوگی مثلاً انگلستان میں گوشت کے استعمال کی جومناسب حدہے جس سے اوپراس ملک میں اسراف ہوگاوہ اس حد سے بڑھ کر ہے جو مثلاً افریقہ کے وسط میں ہے ۔اگر افریقہ کارہنے والا اسی قدر گوشت کھاتاہے جو ایک انگریز اپنے ملک میں کھاتا ہے تو وہ اس بارہ میں اسراف کرتاہے اور اس کے اندر گوشت کے ناروا استعمال سے جو اخلاقی کمزوریاں پیداہوجاتی ہیں ضرورظاہر ہونگی۔ اوراگر ایک انگلستان کا باشندہ اتنی سبزیاں کھاتاہے جو ایک وسط افریقہ کے باشندے کومناسب ہے اورگوشت سے پرہیز کرتاہے تو وہ ان خوبیوں کو کھو بیٹھے گا جو گوشت کے جائز استعمال سے پیدا ہوتی ہیں اور ان کمزوریوں کو اپنے اندرپیداکر لے گا جو سبزی کے ناواجب استعمال کانتیجہ ہوتی ہیں ۔غرض ہر آب وہوا کے لئے الگ اسراف ہے ۔ اسی طرح بعض طبائع بھی اپنی الگ الگ خصوصیات رکھتی ہیں اس لئے اس معاملہ میں تحقیقات کرنے والوں کو لازم ہے کہ تحقیقات کے وقت ان باتوں کو نظرانداز نہ کردیں کیونکہ اگر وہ ایساکریں گے تو ان کی تحقیقات کے نتائج یقیناًغلط ہونگے۔ہاں ان باتوں کی جائز مراعات رکھتے ہوئے جو تحقیقات کی جائے گی وہ یقیناًاسی نتیجہ پر پہنچائے گی جو ہم نے اوپر بیان کیاہے یعنی گوشت خوراقوام بشرطیکہ وہ گوشت کاناروااستعمال کرتی ہوں بہادری اور جری توہونگی مگر ساتھ ہی بیہودہ جوش و خروش ظاہر کرنے والی اور سخت دل بھی ہونگی۔ اور سبزیوں پرنامناسب زوردینے والی اقوام یعنی وہ اقوام جو باوجود ضرورت کے گوشت سے پرہیز کرتی ہیں حلیم اور نرم دل تو بے شک ہونگی مگر ساتھ ہی کم ہمت اور بزدل بھی ہونگی ۔ یہ ایک نہایت دلچسپ مضمون ہے اور تاریخ پڑھنے والوں سے ہم بڑے زور کے ساتھ تحریک کرتے ہیں کہ وہ تاریخ کے مطالعہ کے وقت ان امور کو مدنظررکھیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان کی محنت رائیگاں نہ جاوے گی بلکہ وہ نہایت دلچسپ مفیداور علمی معلومات کا ذخیرہ جمع کر سکیں گے ۔ ہاں اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ صرف خوراک ہی نہیں جو انسان کے اخلاق پراثر رکھتی ہے بلکہ اخلاق پراثر ڈالنے والی چیزیں اور بھی ہیں اور ان کونظرانداز کرناغلط نتائج پیدا کرے گا۔
تاریخ سے پتہ لگتاہے کہ گوشت خور اقوام کا جب کبھی صرف سبزی کھانے والی اقوام سے مقابلہ پڑاہے تو گوشت کھانے والوں کاپلّہ بھاری رہاہے اوروہ ہمیشہ غالب آئے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی اور وجوہات پیدا ہو گئی ہوں جنہوں نے اس اثر کو وقتی طورپر دبا دیاہو۔ ہاں جہاں مستقل مزاجی اور محنت اور توجہ کے ساتھ کسی کام پر لگے رہنے کامقابلہ ہو تووہاں گوشت پر زیادہ زور دینے والی قوم ہمیشہ پیچھے نظر آئے گی اور سبزی کا استعما ل کرنے والی اقوام نمایاں حیثیت حاصل کر لیں گی ۔ یہ باتیں صرف دعویٰ کے طور پرنہیں ہیں بلکہ ان کی مدد میں تاریخی شہادتیں اور زمانہ حال کی علمی اور طبی تحقیقاتیں موجود ہیں مگر اس جگہ ان تفصیلات کی گنجائش نہیں۔
اب جب یہ ظاہر ہوگیاکہ :
(۱)۔۔۔:گوشت کااستعمال جہاں بعض اخلاقی خوبیوں کا پیدا کرنے والا ہوتا ہے وہاں اس کا ناروا استعمال بعض اخلاقی کمزوریوں کو بھی پیداکرتاہے اور اسی طرح سبزیوں کا استعمال جہاں بعض اخلاقی خوبیاں بھی پیدا کرتاہے وہاں گوشت کو بالکل ترک کر کے سبزیوں پرناواجب زور دینا بعض اخلاقی کمزوریاں بھی پیدا کر نے والا ہوتاہے۔
(۲)۔۔۔:خوراک کا یہ اثر گوبعض افراد میں بعض وجوہات سے نمایاں طورپر ظاہر نہ ہو لیکن قومی خلق کے طور پر اس کا ظہور پذیر ہونا یقینی اور قطعی ہوتاہے اور گو ہر فرد بشر کے اخلاق پوری طرح خوراک کے زیر اثر نہ ہوں لیکن ہر قوم کے اخلاق پوری طرح خوراک کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ ان دو نتائج کے اخذ کرنے کے بعد جو اوپر کے بیان سے واضح طورپر پیدا ہوتے ہیں ہم اصل مضمون کو لیتے ہیں۔
گوشت خوری کیاہے ؟ ہم اس کاجواب سبزی کھانے والوں کی طرف سے دیتے ہیں ۔ گوشت خوری کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی جاندار مخلوق کو صرف اس غرض سے ہلاک کیا جائے کہ اس کا گوشت انسان کے پیٹ میں جاوے۔ کیا یہ ظلم نہیں؟ ۔(ہمارا جواب ) نہیں یہ ظلم نہیں بدیں وجہ۔
گوشت خوری کے یہ معنی ہیں کہ ایک جاندار کی زندگی کاخاتمہ کیا جاوے بہت درست! گویا ہم اللہ کی مخلوق میں سے جو بمقابلہ انسان کے بہت کم درجہ کی ہے ایک فرد کی جسمانی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں ۔ اس میں تین باتیں یاد رکھنے کے قابل ہیں:
(۱)۔۔۔انسان کے مقابلہ میں بہت کم درجہ کی مخلوق کی زندگی۔
(۲)۔۔۔ ایک فرد کی زندگی۔
(۳)۔۔۔اس فرد کی جسمانی زندگی۔
یہ تین چیزیں ہم لیتے ہیں اور بے شک اگر بغیر جائز اور معقول وجہ کے ہم لیں تو ہماری سخت غلطی ہوگی اور ہمارا یہ فعل ایک ناقابل معافی جرم ہوگا۔ اور اسی لئے اسلام جانوروں کی جان لینا تو درکنار ان کو بے جا طورپر مشقت اور تکلیف میں ڈالنے سے بھی نہایت سختی کے ساتھ روکتاہے مگر گوشت خوری کا معاملہ ایک اور قسم کامعاملہ ہے ۔ اس میں ہم
بے شک اللہ کی مخلوقات میں سے ایک فرد کی جسمانی زندگی لیتے ہیں مگر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کس ضرورت کے لئے لیتے ہیں اور کس کے لئے لیتے ہیں؟ ظاہرہے کہ(۱) اشرف المخلوقات کی(۲)اجتماعی(۳) اخلاقی زندگی کے بقا کے لئے لیتے ہیں ۔ پس کون عقلمند ہے جو اس قربانی پر اعتراض کرے ۔
غور کرو ایک طرف اشرف المخلوقات کی زندگی ہے اوردوسری طرف اس سے بہت کم درجہ کی مخلوق کی زندگی ہے۔ پھر ایک طرف انسان کی قومی اور اجتماعی زندگی اور دوسری طرف حیوانات میں سے کسی فرد کی زندگی۔پھر ایک طرف انسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی ہے اوردوسری طرف حیوانات میں سے کسی فرد کی جسمانی زندگی ۔ میں تو کہتاہوں کہ اگرانسانوں میں سے کسی فرد کی جسمانی زندگی کی بقا کے لئے بھی حیوانات کی اجتماعی جسمانی زندگی کی قربانی درکار ہو تو کوئی عقلمند اس قربانی سے نہیں رکے گا اور ہم عملاً دنیا میں دیکھتے ہیں کہ کوئی نہیں رکتا۔ کیا اگرکسی سبزی خورکے بدن پر ایک زخم ہو تو وہ اس میں ایسی دوا نہیں ڈلوائے گا جوکیڑے مارنے والی ہو۔ ظاہر ہے کہ وہ ایسا ضرور کرے گا اور ہرگز اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ اتنے جاندار کیڑوں کی زندگی اس کے آرام کے لئے جاتی ہے کیونکہ وہ اشرف المخلوقات ہے اور باقی مخلوقات اس کے فائدہ کے لئے ہیں۔ پس اگرکسی وقت اس کے فائدہ کے لئے کسی اور مخلوق کی زندگی کی اسے ضرورت ہوگی تو وہ اسے لینے سے دریغ نہ کرے گا۔ دیکھو مثلاً پانی میں بے شمار باریک کیڑے ہوتے ہیں لیکن چونکہ پانی انسان کی جسمانی زندگی کے لئے ضروری ہے اس لئے کوئی ایسا شخص پانی کے استعمال سے اس وجہ سے نہیں رکتاکہ اس کے استعمال سے بے گنا ہ کیڑوں کی جان جاتی ہے۔
پس جب انسان کی جسمانی زندگی کے بقا کے لئے حیوانات کی قربانی کی جاتی ہے اور کوئی شخص اس پرمعترض نہیں حتی کہ سخت ترین سبزی خور بھی روزانہ اپنے ہاتھوں سے یہ قربانی کرتے ہیں توانسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی کے بقا کے لئے اگرکسی حیوان کی جسمانی زندگی کی قربانی کی ضرورت ہو تواس سے رکنا ایک ابلہانہ بات ہے ۔ یہ رحم ایک جھوٹا رحم ہے اور اسی قسم کارحم ہے کہ کوئی شخص اپنے زخم کے کیڑوں کو اس واسطے نہ ہلاک کرے کہ ان کی جان جاتی ہے اور اس طرح اپنے آپ کو ہلاک کردے ۔ اس رحم کے یہ معنی ہیں کہ دو چیزوں کو رحم کی ضرورت ہے ۔ ایک انسان کو اورایک حیوان کو۔ اور دونوں میں سے صرف ایک پررحم ہو سکتاہے بلکہ ایک پررحم کرنے کا یہ نتیجہ ہے کہ دوسرے کو ہلاک کیاجاوے یعنی اگر حیوان پررحم ہو تو انسان کی جان جاتی ہے اور اگر انسان پررحم ہو تو حیوان کی جان لینی پڑتی ہے۔ اب بتاؤ ان میں سے کس کواختیارکرو گے؟ کیاانسان کوہلاک ہونے دو گے صرف اس لئے کہ کسی حیوان کی جان بچ جاوے۔ اگرایسا کرو گے تو تم قانون قدرت و قانون فطرت کے خلاف چلو گے اور اس صورت میں تم رحیم نہیں ہوگے بلکہ ظالم کہلاؤ گے ۔ انسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی کے لئے جیساکہ سبزی ضروری ہے ویسا ہی گوشت کا مناسب استعمال بھی ضروری ہے ۔ پس کیا انسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی پر موت وارد کرو گے اسلئے کہ کسی حیوان کی جسمانی زندگی کو نقصان نہ پہنچے۔ دیکھو خوراک کا اثر انسان کے اخلاق پر یقینی اور قطعی ہے ۔ یہ ممکن ہے کہ کسی خاص فرد میں ظاہر نہ ہو یہ بھی ممکن کہ کسی قوم میں یہ فوراً ظہور پذیر نہ ہو مگر آہستہ آہستہ یہ اپنا اثر پیدا کرتاہے اور بالآخر یقیناًیقیناًقومی خلق میں اپنا رنگ ظاہر کرتاہے طبی تحقیقات اور تاریخی شہادت اس کے مؤید ہیں اور کوئی عقلمند نہیں جو اس سے انکار کر سکے۔ ایک ظاہر بین شخص جس کی نظرعام طور پر صرف محسوسات تک محدود ہوتی ہے ان باتوں کو نہیں دیکھ سکتا مگر یہ ہر وقت اپناکام کر رہی ہوتی ہیں اور اسی قسم کے اثرات بالآخر اقوام کی کایا پلٹ دیتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ کوئی قوم جری ہے تو کوئی بزدل ۔ کوئی جوش اور امنگ والی ہے تو کوئی ڈھیلی اور مدھم۔ پھر کوئی صبر اور برداشت والی ہے تو کوئی جلد باز اور غیرمستقل مزاج ۔ پھر کوئی سخت گیر اور سخت دل ہے تو کوئی حلیم اورنرم دل ہے۔ غرض کوئی کسی طرف جھکی ہوئی ہے تو کوئی کسی طرف۔ کیا خالق ہستی نے ان کوا س رنگ پرچلایاہے؟ نہیں بلکہ خدا کی طرف سے تو سب کو اعلیٰ اور معتدل اخلاق کی طاقتیں ودیعت کی گئی ہیں اور یہ صرف بیرونی تاثیرات ہیں کہ جو کسی کو ایک طرف جھکا دیتی ہیں تو کسی کو دوسری طرف ۔ پس ان پرغورکرنا اور ان کی حقیقت کو سمجھنا ہمارا فرض ہے اور ہم کو لازم ہے کہ ایسے طریق اختیار کریں کہ ہمارے فطری قویٰ اورفطری طاقتیں تمام کی تمام معتدل راستہ پرنشوونما پائیں اور کوئی قوت نامناسب طور پر حد اعتدال سے گزر کر دوسروں کو اپنے نیچے نہ دبا لے ۔ اگر ہم اس معاملہ میں غفلت کریں گے تو اس کا لازمی نتیجہ ہماری اجتماعی اخلاقی موت ہوگی۔ ان طرق میں سے ہماری خوراک کادرست ہونا بھی ایک نہایت زبردست طریق ہے ۔
پس چاہئے کہ شراب استعمال کرنے والی اقوام غورکریں کہ اس کا استعمال ان کے اجتماعی اخلاق پر بالآخر کیا اثرات پیدا کر ے گا اور کر رہا ہے۔سؤر کھانے والی اقوام سوچیں کہ سؤر کاگوشت ان کو بحیثیت مجموعی کیا بنا دے گااور بنا رہا ہے ۔ سبزیوں پر زور دینے والی اور گوشت کو کلیۃً ترک کردینے والی اقوا م تدبر سے کام لیں کہ اس اسراف کاکیا نتیجہ ہوگا اور ہو رہا ہے ۔ گوشت کا نامناسب استعمال کرنے والی اقوام خیال کریں کہ یہ عاد ت ان کو کس طر ف لے جا رہی ہے۔ بغیر غوراور تدبر کے یونہی رحم رحم پکارناآسان ہے مگرخدارا غور توکرو کہ اس رحم کے کیامعنی ہیں۔ اس کے معنی ہیں انسان پرظلم کرنا۔ ایک حیوان جو انسان ہی کی خاطربنایاگیاہے اس کے گلے پرچھُری پھرتی ہوئی تم کو تکلیف دیتی ہے لیکن انسان کی اجتماعی اخلاقی زندگی پر موت وارد کرنا تم کو بھلا معلوم ہوتاہے۔ اس کی کیاوجہ ہے ؟ یہی کہ حیوان کی جسمانی زندگی نکلتے ہوئے تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو لیکن انسان کی اجتماعی اخلاقی موت دیکھنے کے لئے تمہاری ان آنکھوں میں طاقت نہیں۔ ایک مذبوح جانور تمہارے سامنے تڑپتاہے اور تمہارا دل بھر آتاہے لیکن نسل انسانی کی اخلاقی زندگی کی مذبوحی حرکات تمہیں نظر نہیں آتیں اس لئے تم کواس کی پرواہ نہیں ۔ سنو! تم ایک معمولی سپاہی کی زندگی پر جھوٹا ترس کھا کر ایک نہایت آزمودہ کار اور قابل جرنیل کو اپنے ہاتھوں سے کھو رہے ہو۔ نہیں یہ مثال بھی غلط ہے کیونکہ ایک سپاہی اورجرنیل میں پھربھی کوئی نسبت ہے لیکن ایک حیوان کی جسمانی زندگی اور نسل انسانی کی اخلاقی زندگی کے درمیان سچ پوچھوتو کوئی نسبت ہی نہیں۔ پس نتائج پرغورکرو۔ جھوٹے جذبات کے پیچھے نہ چلو۔ خداداد عقل مشاہد ہ اور تجربہ کی روشنی میں اپنی نظرسے کام لو ۔ پھر تم اشیا ء کی کنہ تک پہنچو گے اور تمہاری نظر حقائق کے پاتال کو چھیدتی ہوئی نکل جائے گی۔
ہاں یہ بھی تو غور کرو کہ کوئی مذہب و ملت ایسا نہیں کہ جس کے سلف گوشت خوری سے پرہیز کرتے ہوں اور صرف سبزیوں پر گزارہ کرتے ہوں۔ آج ہندو مذہب سبزی خوروں میں سب سے نمایاں حیثیت رکھتاہے مگر کون جانتاہے کہ ہندوؤں کے بزرگ اور ان کے مذہب کے بانی گوشت کھاتے اور خوب کھاتے تھے۔ یورپ کے عیسائیوں میں اسوقت بعض سبزی خور ی کی طرف مائل نظرآتے ہیں اور گوشت خوری کو ظلم قرار دیتے ہیں مگر کیایہ سچ نہیں کہ مسیحیت کا بانی گوشت خورتھا اوربنی اسرائیل کے تمام گزشتہ انبیاء گوشت کھاتے تھے۔ یہ اس لئے کہ وہ لوگ اس حقیقت کوسمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ ایک جانور کی جسمانی زندگی نسل انسانی کی اخلاقی زندگی کے مقابلہ میں قربان کردینے کے قابل ہے۔
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۴؍جون۱۹۹۹ء تا۱۰؍جون ۱۹۹۹ء)
مکمل تحریر >>