Sunday 26 April 2015

قیام پاکستان اور جماعت احمدیہ



تحریک آزادی پاکستان اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئےجماعت کی خدمات


جماعت احمدیہ کے دوسرے امام اور خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓ نے تحریک آزادی پاکستان کے دوران قدم قدم پر مسلمانوں کی نہ صرف علمی و نظری راہنمائی کی بلکہ ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہر ممکن عملی کوششیں بھی کیں۔
مسلمانوں کے خلاف ہندو کانگریس کے پلیٹ فارم سے اٹھنے والی تحریکات شدھی، ترک موالات، خلافت اور ہجرتوغیرہ سے مسلمانان ہند کو بروقت آگاہ کیا ۔
            انہیں خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے اخبار ’’مشرق‘‘گورکھ پور نے لکھا :۔
’’جتنے فرقے مسلمانوں میں ہیں سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہو رہے ہیں صرف ایک احمدی جماعت ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جمیعت سے مرعوب نہیں ہے اور خاص اسلامی کام سر انجام دے رہی ہے۔‘‘
                                                                                    (اخبار مشرق گورکھپور 23ستمبر1927ء)



حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمات


(1)    حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے 1928ء میں ’’نہرو رپورٹ پر تبصرہ ‘‘نامی کتاب لکھی جس میں مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کیا ۔
(2)    1930ءمیں پہلی گول میز کانفرنس کے موقعہ پر ایک بیش قیمت کتاب ’’ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل‘‘لکھ کر تقسیم کروائی۔
(3)    1931ء میں مسلمانانِ کشمیر کی حمایت اور ڈوگرہ مہاراج سے ان کے حقوق دلوانے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی گئی ۔حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی ملی خدمات اور سیاسی بصیرت اور قائدانہ صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر اس کمیٹی کی صدارت کےلئے علامہ محمد اقبال نے آپ کا نام پیش کیا ۔ آپ کی راہنمائی میں کشمیر کمیٹی اور جماعت احمدیہ نے کشمیر کے مسلمانوں کی ناقابل فراموش اور تاریخ ساز خدمات انجام دیں۔


قائد اعظم کی لندن سے واپسی کے لئے تحریک


1933ء میں قائد اعظم محمد علی جناح بر صغیر کے حالات سے مایوس ہو کر انگلستان چلے گئے ۔ ایسے وقت میں حضرت مرزا بشیر الدین  محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے اس معاملہ کی نزاکت کا احساس کرتےہوئے لندن میں مقیم مولانا عبد الرحیم صاحب درد کے ذریعہ قائد اعظم کو واپس ہندوستان آکر مسلمانوں کی سیاسی قیادت سنبھالنے کی تحریک فرمائی۔ یہ کوشش کامیاب ہوئی ، اس کا اعلان قائد اعظم نے جماعت احمدیہ کے مرکز بیت الفضل لندن میں خطاب کرتے ہوئے ان الفاظ میں اعلان فرمایا :۔
            “The eloquent persuasion of the Imam left me no escape,”
ترجمہ:۔ امام (مسجد لندن)کی وسیع و بلیغ ترغیب نے میرے لئے کوئی راہ بچنے کےلئے نہ چھوڑی۔ ‘‘
 (Madras Mail 7th April 1933)






کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں ہندوستانی وفد کی قیادت


23مارچ1940ء کو لاہور میں قرار دادِ پاکستان پاس ہوئی۔ اس کے بعد سر سٹیفورڈ کرپس ہندوستان آئے اور ہندوستان کی آزادی کےلئے ایک جدید فارمولا پیش کیا جسے مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے مسترد کر دیا ۔ جس کے نتیجہ میں ہندوستان کی آزادی ناممکن دکھائی دینے لگی ۔ انہی دنوں چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں ہندوستان وفد کے قائد کی حیثیت سے انگلستان جانا پڑا۔ آپ نے انگریز حکومت کے سامنے ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ ایسے مدلل اور پرشوکت الفاظ میں پیش کیا کہ دنیا بھر میں تہلکہ مچ گیا اور حکومت برطانیہ نے مجبورًا لارڈ ویول وائسرائے ہند کو انتقال اقتدار کا نیا فارمولا دینے کےلئے لندن طلب کیا۔
اس موقع پر ایک ہندو اخبار ’’پر بھات ‘‘نے لکھا کہ
            ’’ایک ایک ہندوستانی کو سر ظفر اللہ خان کا ممنون ہونا چاہیے کہ انہوں نے انگریزوں کے گھر جا کرحق بات کہہ دی ۔‘‘
                                                                   (اخبار پربھات 20فروری1945ء)



مسلم لیگ کی پر جوش حمایت

1945ء کے اواخر میں وائسرائے ہند سر ویول نے انتخابات کروانے کا اعلان کیا ان انتخابات میں ہندو کانگرس نے مسلمان علماء کے ذریعہ پاکستان اور مسلم لیگ کے خلاف پراپیگینڈہ کا ایک جال پھیلا دیا تا مسلم لیگ ان انتخابات میں ناکام ہو اور پاکستان کا قیام عمل میں نہ آسکے ایسے وقت میں حضرت امام جماعت احمدیہ نے یہ اعلان فرمایا  ’’آئندہ الیکشنوں میں ہر احمدی کو مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہیے۔ ‘‘
(الفضل 22اکتوبر1945ء)


پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب

باؤنڈری کمیشن میں جماعت احمدیہ کے عظیم سپوت حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے جو عظیم الشان خدمات سر انجام دیں ان خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے قائد اعظم نے آپ کو U.N.O.میں پاکستانی وفد کا قائد مقرر کیا اور پھر 25دسمبر 1947ء کو پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ کا قلمدان آپ کے سپرد کیا ۔چنانچہ نوائے وقت لکھتا ہے :۔
            ’’قائد اعظم نے خوش ہوکر آپ (چوہدر ی ظفر اللہ خان صاحب )کو  U.N.O.میں پاکستانی وفد کا قائد مقرر کر دیا۔۔۔۔آ پ نے ملک و ملت کی شاندار خدمات سر انجام دیں تو قائد اعظم انہیں پاکستان کے اس عہدہ پر فائز کرنے کےلئے تیار ہو گئے۔ جو باعتبار منصب وزیر اعظم کے بعد سب سے اہم اور وقیع عہدہ شمار ہوتا ہے ۔‘‘
                                                                   (نوائے وقت 24اگست1948ء)

 
مکمل تحریر >>

کیا ڈاکٹر عبد السلام نے پاکستان سے غداری کی ؟

مکرم ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی اگر صرف پاکستان کے لئے خدمات ہی کا جائزہ لے لیا جائے تو یہ اعتراض ختم ہو جاتا ہے کہ خدانخواستہ وہ پاکستان کے غدار تھے وغیرہ وغیرہ۔
اس ضمن میں مکرم ڈاکٹر صاحب موصوف کی چند خدمات کا تذکرہ ، ان پر لگے بے بنیاد اعتراض کا جواب دینے میں ممد ہونگی۔

 1۔  سائنسی مشیر اعلیٰ برائے صدر پاکستان ۔

اس حیثیت میں سلام صاحب نے بہت سے اقدام کئے جن سے پاکستان نے سائنس میں ترقی کی۔
۔   انہوں نے میزائل ریسرچ اور اس سے ملحقہ میدانوں میں ترقی کے لئے خلاء اور بالائی فضا کی تحقیقی کمیٹی’’ SUPARCO‘‘
(Space and Upper Atmosphere Research Commission ) کی بنیاد رکھی اور کچھ عرصہ اس کے چئیر مین بھی رہے
۔  سلام صاحب نے صدر ایوب خان کوآمادہ کیا کہ وہ’’PINSTECH‘‘
(Pakistan Institute of Nuclear Science and Technology)‘‘ کی منظوری اور ہدایت دے دیں۔ جو ایک تخلیقی سائنسی یادگار ہو اور جس کی بدولت پاکستان میں سائنسی تعلیمات کا احیاء ہو ۔ چنانچہ جلد ہی اسلام آباد میں نیلور کے مقام پر اس کا قیام عمل میں آگیا۔اور یہ ادارہ اب بھی قائم ہے۔
۔  1972ء میں جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی  بنیاد رکھی گئی اس میں سلام صاحب کا بطورمشیر سائنس صدر پاکستان کے اہم کردار تھا۔
۔   سلام صاحب نے 1974ء میں لاہور میں منعقدہ پہلی اسلامی کانفرنس کے موقع پر ’اسلامک سائنس فاؤنڈیشن‘کے قیام کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ اس فاؤنڈیشن کا قیام اعلیٰ سطح پر ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی کو اپنا ہدف بناتے ہوئے اسلامی ملکوں کی مدد سے عمل میں لایا جائے۔ فاؤنڈیشن کی سرپرستی اسلامی ممالک کریں۔

2۔   سلام صاحب کے قائم کردہ اعلیٰ بین الاقوامی ادارے۔

۔   سلام صاحب نے تیسری دنیا کے قابل سائنسدانوں کے لئے مزید اعلیٰ سائنسی استعدادوں کے حصول کی خاطر 1964ء میں ٹریسٹے (اٹلی)میں ایک بین الاقوامی مرکز برائے نظریاتی سائنس (Internationl Centre for Theoretical Physics)قائم کیا جس نے بے شمار سائنسدانوں کو اعلیٰ علم اور میعار حاصل کرنے کے قابل بنایا ۔ اس سے قبل 1962ء میں سلام صاحب نے صدر ایوب سے درخواست کی کہ حکومت پاکستان اس سنٹر کے قیام کی منظوری دے دے۔ لیکن ایوب خان کے مشیروں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا اور سلام صاحب کو اسے اٹلی میں قائم کرنے پر مجبور کر دیا۔ وہ یہ مرکز پاکستان میں قائم کرنا چاہتے تھے۔  آج ICTPٍمیں پچاس سے زائد ترقی پذیر ممالک کے سائنسدان تحقیقی کام کے لئے باقاعدگی سے حاضر ہوتے ہیں جن میں  پاکستانی سائنسدان بھی شامل ہیں۔
۔   ICTPکے بعد ڈاکٹر عبد السلام صاحب کا ایک اور زبردست کارنامہ سائنس اکیڈمی برائے تیسری دنیا ہے ، جسکا انکی کوششوں سے 1983ء کو قیام عمل میں آیا۔

3۔    نوبیل انعام ۔

کائنات کو یکجا رکھنے والی قوتوں کے متعلق ریسرچ کے سلسلے میں ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی رات دن کی محنت آخر پھل لائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے 1979ء میں آپ کو عالمی سطح پر سب سے قیمتی اور قابل فخر انعام نوبیل پرائز ملا ۔ آپ پہلے مسلمان اور واحد پاکستانی سائنسدان ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔
(ماخوذ از تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا کردار۔ از پروفیسر محمد نصر اللہ خان صاحب۔صفحہ 282تا315)
     مکرم ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی سوانح حیات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان اور تیسری دنیا کے لوگوں کی سائنسی ترقی کے کس قدر خواہشمند تھے اور صرف خواہش ہی نہیں بلکہ اس کے لئے انہوں نے عملی اقدامات بھی اٹھائے۔ یہ ایک قرض ہے جو پاکستانی قوم پر سلام صاحب کا ہے ، اور اس کو اتارنے کے لئے کم سے کم انکی کوششوں کا تو اعتراف کیا جانا چاہیے نہ کہ ان پر بے بنیاد الزامات لگانے چاہئیں۔
اگرچہ وہ ایک سچے مسلمان تھے تاہم اگر کسی کو اس پر یقین نہ بھی آئے تو بھی ان کی سائنس کے میدان میں خدمات ، پاکستان کے لئے خصوصاً اور مسلمانوں اور تیسری دنیا کے لئے عموماً ، ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔
مکمل تحریر >>

احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟

احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟ سوال یہ ہے کہ نیکی اور خوبی کے میدان میں وہ کون سی چیز ہے جو جماعت احمدیہ نے دنیا کو نہیں دی؟ کسی قوم یا جماعت کی دولت تو اس کے افراد ہوتے ہیں جن کے مجموعہ سے جماعت بنتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کردہ اس جماعت کو ایسے نابغہ ٔ روزگار افراد عطا فرمائے جن کی تعداد اپنی کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔ جماعت احمدیہ کا ہرفرد ہر جگہ خدمت انسانیت کے جذبہ سے سرشار ، اپنے اپنے ملک میں قوم اور انسانیت کی  خدمت میں مصروف ہے ۔ ہر ملک میں جماعت احمدیہ معاشرہ کی خدمت میں بھرپور طور پر شامل ہے ۔ اس عمومی خدمت کے علاوہ جس کا اعتراف ہر جگہ پر کیا جاتا ہے ، اس جماعت کی تاریخ گواہ ہے کہ جماعت کے خلفاء اور عمائدین نے اور ایسے افراد جماعت نے جن کو اللہ تعالیٰ نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں امتیازی مقام عطا کیا، اپنی خدمات کو قوم و ملک اور انسانیت کے لئے ہمیشہ وقف رکھا۔
            پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟ ہم کہتے ہیں کہ احمدیت کی تاریخ پر نظر کریں اور دیکھیں کہ کس طرح اس جماعت نے اپنے جگر گوشے دنیا کی خدمت کے لئے پیش کئے۔ خدمت کا کوئی میدان ہو، جماعت کے یہ سپوت مشرق و مغرب میں ہر میدان میں ایک نمایاں شان رکھتے ہیں۔ لسانیات کی دنیا میں حضرت شیخ محمد احمد مظہرصاحبؓ کی خدمات، افریقہ کی ترقی اور تعمیر میں شیخ عمری عبیدی صاحب کی خدمات، پاکستان کی معاشی اور اقتصادی ترقی اور استحکام میں حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی خدمات اور ملک کے دفاع اور حفاظت کے باب میں لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک صاحب ۔ لیفٹیننٹ جنرل عبد العلی ملک صاحب اور مجاہدین فرقان فورس کی خدمات کو کس طرح کوئی شریف انسان فراموش کر سکتا ہے ؟ سائنس کے  میدان میں ڈاکٹر پروفیسر عبدالسلام صاحب نے جو کام کیا اور جو نام کمایا وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ارض پاکستان کے اس نامور سپوت نے نوبیل انعام حاصل کر کے پاکستان کا ہی نہیں سارے عالَم اسلام کا سر فخر سے بلند کر دیا اور پھر انعام کی ساری رقم وطن عزیز اور سائنس کی ترویج میں وقف کر کے قربانی کی ایک روشن مثال قائم کی۔ اس احمدی سائنسدان نے مسلمانوں کو ایک حوصلہ اور عزم بخشا ، اعتماد عطا کیا اور ترقی کا جذبہ دیا۔ وطن عزیز کے قیام اور استحکام کی خدمت ، عالمگیر افق پر عدل و انصاف اور قانون کی خدمت اور سب سے بڑھ کر یہ متعدد اسلامی ملکوں کو آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرنے میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ کی خدمات دنیا کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جا چکی ہیں۔ کون صاحب علم ہے جو اس فرزندِ احمدیت کی ان ہمہ گیر ، بے لوث اور امتیازی خدمات سے لا علمی کی جُرأت کر سکے۔ سوائے ان بے بصیرت ملاؤں کے جن کے بارہ میں پاکستان کی عدالت عالیہ کے چیف جسٹس منیر کو یہ الفاظ کہنے پڑتے تھے کہ
            ’’چوہدری ظفر اللہ خان نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالت تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ شرمناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے ۔‘‘
                         (رپورٹ تحقیقاتی عدالت، فسادات پنجاب 1953صفحہ 209شائع کردہ حکومت پنجاب)
مکمل تحریر >>

غیر احمدیوں کا اسلام اور غیر احمدیوں کا کفر

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:۔
”اس وقت تک مسئلہ کفر و اسلام پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔ میں نے خود اس مضمون پر ایک مختصر سا رسالہ کلمۃ الفصل گذشتہ سال لکھا تھا جو چھپ چکا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک اس مسئلہ پر کچھ اور لکھنے کی گنجائش ہے کیونکہ گاہے گاہے مختلف مقامات سے اس مسئلہ کے متعلق یہاں سوالات پہنچتے رہتے ہیں اور گو عام طور پر اب اس کو حل شدہ سمجھا جاتا ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک کسی مسئلہ کو نہایت سہل طریق سے بوضاحت نہ بیان کیا جائےوہ نہیں سمجھ سکتے ۔ اس لئے میرا ارادہ ہے کہ نہایت مختصر اور عام فہم پیرایہ میں اس پر کچھ لکھا جاوے تا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ہمارے گم کردہ راہ احباب کے لئے یہ ہدایت کا سامان ہو۔
چونکہ باریکیوں میں پڑنے اور تفصیلات میں جانے سے عوام کےلئے مضمون اور بھی مشتبہ ہوجاتا ہے ، اس لئے میں انشاء اللہ تعالیٰ ایسی تمام پیچیدہ باتوں سے پرہیز رکھوں گا۔ وما توفیقی الا باللہ ۔
میں نےاپنے فہم کے مطابق مسئلہ کفر و اسلام کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ ایک تو یہ کہ غیر احمدیوں کا اسلام کیسا ہے اور کن معنوں میں وہ مسلمان ہیں اور کن میں مسلمان نہیں ۔ دوسرے یہ کہ غیر احمدیوں کو کافر کہنے سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے ۔

غیر احمدیوں کا اسلام

مضمون اول کے لئے سب سے پہلے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے کے واسطے لفظ ”اسلام”اپنے اندر صرف ایک مفہوم رکھتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا یا بالفاظ دیگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کا لفظ صرف اپنی حقیقت کے لحاظ سے مستعمل تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی قوم آنحضرتﷺ سے پہلے مسلم کے نام سے موسوم نہیں ہوئی اور نہ ہی مذہب نے آنحضرتﷺ سےپہلے اسلام کانام پایا۔گو حقیقت کے لحاظ سے پہلے مذاہب بھی اسلام ہی تھے اور گذشتہ انبیاء کے پیرو بھی مسلمان تھے لیکن جیسا کہ تاریخ اس امر پر شاہد ہے ، وہ کبھی اس نام سے موسوم نہیں ہوئے ۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ گذشتہ تمام مذاہب بوجہ قیود زمانی اور مکانی کے کامل نہ تھے ۔ اس لئے ان پر اسم ذات یا علم کے طور پر اسلام کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ۔
لیکن نبی کریم  ﷺ وہ مذہب لائے جو ان قیود سے آزاد ہے اور آپؐ  کی لائی ہوئی شریعت ہر طرح سے کامل شریعت ہے ۔ اس لئے آپؐ کی بعثت  سے یہ تبدیلی واقع ہوئی کہ آپ کا لایا ہوا مذہب نہ صرف حسب دستور سابق اپنی حقیقت کے لحاظ سے اسلام ہوا بلکہ علمیت کے طور پر اس کا نام بھی اسلام رکھا گیا۔ اسی طرح آپ کے منسوب ہونے والے لوگوں کا نام مسلمان ہوا۔ گویا کہ آپؐ کی بعثت کی وجہ سے اسلام کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ ایک وہی پرانے حقیقی مفہوم کے لحاظ سے اور دوسرے بطور علم یعنی اسم ذات کے ۔ گویا بجائے ایک کے دو دائرے قائم ہو گئے۔ ایک حقیقت کا اور دوسرا علمیت کا۔ اَ ب یہ بالکل ظاہر ہے کہ علمیت کے دائرہ پر زمانہ کا کوئی اثر نہیں۔ وہ اسی طرح قائم رہے گا، جیساکہ ایک دفعہ ہو چکا ۔ یعنی آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہونے والی قوم ہمیشہ سے ہی مسلمان کہلائے گی ۔ اور جو کوئی بھی کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھے گا اس دائرہ کے اندر آجائے گا لیکن حقیقت کا دائرہ جو علمیت کے دائرہ کے اندر ہے اس کا یہ حال نہیں بلکہ حقیقت کے متعلق سنت اللہ یہی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ مدہم ہوتی جاتی ہے ۔ چنانچہ اسی غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام میں مجددین کے سلسلہ کو جاری فرمایا ہے ۔ تا حقیقت پر جو میل آجاوے وہ اسے دھوتے رہیں اور حقیقت کو روشن کرتے ہیں لیکن اسلام پر ایک وقت ایسا بھی مقدر تھا جب اس کی حقیقت بالکل محو ہو جانی تھی اور ایمان دنیا سے کامل طور پر اٹھ جانا تھا ۔ (جیسا کہ لو کان الایمان معلقا بالثریا (صحیح بخاری ۔ کتاب التفسیر سورۃ الجمعہ )اور بعض دیگر احادیث نبوی و آیات قرآنیہ سے ظاہر ہے )ایسے وقت کے لئے نبی کریم ؐ کی دوسری بعثت صفت احمدیت کے ما تحت اپنے ایک نائب کے ذریعہ مقدر تھی ۔ اس نائب کا دوسرا نام مہدی اور مسیح ہے ۔ وہ محمد رسول اللہ کا نائب ، مسیح اور مہدی دنیا میں آیا اور اس نے مطابق سنت مرسلین پھر حقیقت اسلام کا دائرہ قائم کیا۔ اس لئے اب جو شخص اس کو قبول نہیں کرتا اور اس کی تکذیب کرتا ہے وہ حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج ہے لیکن اگر وہ کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہے تو وہ علمیت کے دائرہ سے خارج نہیں اور کوئی شخص حق نہیں رکھتا کہ اسے مطلقاً دائرہ اسلام سے خارج قرار دے یا غیر مسلم کے نام سے پکارے ۔ وہ مسلم ہے اور حق رکھتا ہے کہ اس نام سے پکارا جائے مگر ہاں نائب ختم الرسل کے انکار نے اُسے بیشک حقیقت کے دائرہ سے خارج کر دیا ہے ۔
خوب یاد رکھو کہ اب آسمان کے پردے کے نیچے محمد ؐ رسول اللہ کے سوائے کسی شخص کی ایسی شان نہیں ہے کہ اس کا انکار انسا ن کو ہر قسم کے اسلام سے خارج کر دے ۔ مسیح موعود ؑ خواہ اپنی موجودہ شان سے بھی بڑھ کر شان میں نزول فرماوے مگر اس کا انکار اس کے منکرین کو صرف حقیقت اسلام کے دائرہ سے خار ج کرسکتا ہے ۔ اس سے زیادہ ہر گز نہیں ۔ میں اپنے ذوق اور تحقیقات کی بناء پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ سے اتر کر باقی تمام انبیاء سے افضل یقین کرتا ہوں اور اس کے ثبوت کے لئے بفضل تعالیٰ اپنے پاس نہایت قوی دلائل رکھتا ہوں۔ جن کے بیان کا یہ موقع نہیں مگر پھر بھی میرا یہی ایمان ہے کہ مسیح موعود ؑ کا انکار مطلقاً اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں کر سکتا ۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ اصل چیز تو حقیقت ہے علمیت کا دائرہ کوئی چیز نہیں تو میں اس سے متفق نہیں ہوں گا۔ کیا خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل ہونا ۔ محمد ؐرسو ل اللہ کو خاتم النبیین یقین کرنا۔ قرآن کریم کو خدا کا کلام اور کامل شریعت جاننا اور اسلام جیسے پیارے نام کی طرف منسوب ہونا کچھ بھی نہیں؟ یقینا ً ہے اور بہت کچھ ہے ۔ خدا تعالیٰ تو نکتہ نواز ہے ۔ وہ رحم کرنے پر آئے تو اس نام کی طرف نسبت رکھنا ہی بہت کچھ ہے  ۔ بھلابتاؤ تو سہی کہ اگر علمیت کا دائرہ کچھ نہیں تو کس چیز نے غیر احمدیوں کو ہندوؤں ، یہودیوں اور عیسائیوں کی نسبت ہمارے بہت زیاد ہ قریب کر رکھا ہے ۔ غرض یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیئے  کہ مسیح موعودؑ کا انکار صرف حقیقت اسلام سے خارج کرتا ہے مطلقاً اسلام سے خارج نہیں کرتا۔
یہی وجہ ہے کہ  حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں اپنے منکروں کو اسلام کے دائرہ سے خارج بیان فرمایا ہے وہاں بعض جگہ بڑے بڑے صاف الفاظ میں انکو مسلمان بھی لکھا ہے ۔ بعض نادان اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود ؑ پر اعتراض کر دیتے ہیں کہ کہیں آپ کچھ لکھتے ہیں اور کہیں کچھ ۔ وہ اتنا نہین سوچتے کہ جب خاتم النبیین کی بعثت نے اسلام کو دو دائروں میں تقسیم کیا ہے تو پھر یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص باوجود ایک دائرہ سے خارج ہو جانے کے دوسرے دائرہ کے اندر داخل رہے ۔ غرض حضرت مسیح کے کلام میں کوئی تناقض نہیں ہاں ہمارے بعض احباب کی عقلوں پر پردہ ہے کہ وہ ایسی موٹی بات نہیں سمجھ سکتے ۔ میں چیلنج کرتا ہوں تمام غیر مبایعین احباب کو کہ وہ مجھے یہ دکھا دیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں حقیقت اسلام کا ذکر فرماتے ہوئے اپنے منکروں کو مسلمان کہا یا لکھا ہو ۔اسی طرح میرا یہ بھی دعویٰ ہے کہ کوئی صاحب ایسا حوالہ بھی پیش نہیں کر سکتے کہ جس میں حضرت مسیح موعو  د ؑ نے عام طور پر قومی رنگ میں ذکر فرماتے ہوئے اپنے منکروں کو مسلمان کے سوا کسی اور نام سے یاد کیا ہو۔ حالانکہ میں بفضلِ خدا ایک نہیں بیسیوں حوالے پیش کر سکتا ہوں جن میں حضرت مسیح موعود ؑ نے غیر احمدیوں کو مسلمان کہا اور لکھا ہے ۔ اور نیز بیسیوں ایسے حوالے جن میں آپ نے بڑی وضاحت کے ساتھ غیر احمدیوں کے اسلام سے انکار کیا ہے ۔ فتدبّروا۔
میں نے اپنے رسالہ کلمۃ الفصل میں کافی ذخیرہ ایسے حوالوں کا جمع کر دیا ہے جس کو موقع ملے وہ اس رسالہ کو دیکھے ۔ یہاں صرف نمونہ کے طور پر دیکھئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام عبد الحکیم خان مرتد کو لکھتے ہیں :۔
“خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا۔ وہ مسلما ن نہیں ہے ۔ اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے ۔”
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 167)
(تذکرہ صفحہ519)
اس تحریر میں حضرت مسیح موعود  نے کس وضاحت کے ساتھ اپنے منکرین کو اسلام سے خارج قرار دیا ہے ۔ مخالف ہزار سر پیٹے اس تحریر کی صفائی کو مکدر نہیں کر سکتا۔
پھر آپنے اپنی 26دسمبر1906ء والی تقریر میں غیر احمدیوں کی نسبت فرمایا کہ :۔
“اللہ تعالیٰ اب ان لوگوں کو مسلمان نہیں جانتا جب تک وہ غلط عقائد کو چھوڑ کر راہ راست پر نہ آجاویں۔ اور اس مطلب کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے ۔”
(احمدی اور غیر احمدی میں کیا فرق ہے ؟۔روحانی خزائن جلد20صفحہ 492)
دیکھئے حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک غیر احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ جب تک وہ مسیح موعود پر ایمان لا کر اپنے عقائد کو درست نہ کریں۔
پھر آپ اپنی کتاب اربعین نمبر 4 صفحہ 11(روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 441حاشیہ)پر تحریر فرماتے ہیں کہ :
“جب میں دہلی گیا تھا ۔ اور میاں نذیر حسین غیر مقلد کو دعوت دین اسلام کی گئی تھی ۔ تب ان کی ہر ایک پہلو سے گریز دیکھ کر اور ان کی بد زبانی اور دشنام دہی کو مشاہدہ کر کے آخری فیصلہ یہی ٹھہرا یا گیا تھا کہ وہ اپنے اعتقاد کے حق ہونے کی قسم کھا لے۔ پھر اگر قسم کے بعد ایک سال تک میری زندگی میں فوت نہ ہوا تو میں تمام کتابیں اپنی جلا دوں گا اور اس کو نعوذباللہ حق پر سمجھ لوں گا لیکن وہ بھاگ گیا۔”
دیکھئے اس تحریر میں حضرت مسیح موعود ؑ نے کس دھڑلے کے ساتھ مولوی نذیر حسین کے مقابلہ میں صرف اپنے عقائد کو ہی اسلام قرار دیا ہے اور مولوی مذکور کو جو غیر احمدیوں میں دین اسلام کا ایک رکن سمجھا جاتا تھا اسلام سے خارج بتایا ہے ۔ ایسے اور بھی بہت سے حوالے ہیں مگر اس مختصر سے مضمون میں ان کی گنجائش نہیں ۔ اس قسم کے حوالوں کے مقابلہ میں دوسری قسم کے بھی بیسیوں حوالے ہیں۔ جن کو عند الضرورت پیش کیا جا سکتا ہے ۔ خلاصہ کلا م یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقت کی رو سے ہمیشہ اپنے منکروں کو اسلام سے باہر قدم رکھنے والے سمجھا ہے مگر ہاں اسمیؔ اور رسمیؔ طور پر ان کو مسلمان بھی کہا اور لکھا ہے ۔ اس حقیقت کو حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک الہام بھی خوب واضح کر رہا ہے ۔ جو یہ ہے ۔
“چُو دَور ِ خسروی آغاز کردند
مسلماں را مسلماں باز کر دند”
(ترجمہ :۔ جب مسیح السلطان  کا دور شروع کیا گیا تو مسلمانوں کو جو صرف رسمی مسلمان تھے نئے سرے سے مسلمان بنانے لگے ۔ )
(حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد22صفحہ 110)
(تذکرہ صفحہ 514-562طبع2004)
اس میں جناب باری تعالیٰ نے غیر احمدیوں کو صاف طور پر مسلمان بھی کہا ہے ۔ اور پھر صاف طور پر ان کے اسلام کا انکار بھی کیا ہے ۔ پس اب ہم مجبور ہیں کہ غیر احمدیوں کو عام طور پر ذکر کرتے ہوئے مسلمان کے نام سے یاد کریں۔ کیونکہ کلام الٰہی صاف طور پر حضرت مسیح موعود ؑ کے منکروں کو مسلمان کے نام سے پکار رہا ہے ۔ اسی طرح اب خواہ کوئی کتنا ہی بڑا انسان غیر احمدیوں کو مسلمان سمجھے۔ ہم مجبور ہیں کہ اس کی ایک نہ سنیں کیونکہ وہی کلام الٰہی واضح اور غیر تاویل طلب الفاظ میں ان کے اسلام کا انکا ر کر رہا ہے ۔ فتدبّروا۔

غیر احمدیوں کا کفر

ا ب میں مضمون کی دوسری شق کو لیتا ہوں اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے منکروں پر کس قسم کا کفر عاید ہوتا ہے ۔ سو اس کے متعلق جہاں تک قرآن شریف کی آیتوں اور حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریروں اور احادیث نبوی سے پتہ چلتا ہے وہ یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کا منکر اسی طرح الٰہی مؤاخذہ کے نیچے ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کے دیگر رسولوں کے منکرین ہیں کیونکہ باری تعالیٰ کی طرف سے جتنے بھی مامورین آتے ہیں ان کا مقصد اعلیٰ یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر لوگوں کی طرف سے صرف زبانی اقرار نہ ہو بلکہ ایمان و یقین کے درجہ تک پہنچ کر مخلوق کے رگ و ریشہ میں رچ جائے اور انسان کا عرفان ذات حق تعالیٰ کے متعلق اس قدر مستحکم ہو جائے کہ خداتعالیٰ کا صفاتی وجود ہر جگہ محسوس و مشہود ہو کیونکہ اس کے بغیر گناہ سے چھٹکارہ نہیں اور گناہ سے پاک ہونے کے بغیر نجات نہیں۔یہ غلط ہے کہ سب رسولوں کا نئی شریعت لانا ضروری ہے ۔ بنی اسرائیل میں موسیٰ علیہ السلام کے بعد سینکڑوں ایسے نبی ہوئے جن کو کوئی شریعت نہیں دی گئی بلکہ وہ توریت کے خادم تھے ۔ خود حضرت مسیح موعود ؑ نے براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 138پر لکھا ہے کہ نبی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ صاحب شریعت نبی کا متبع نہ ہو۔ غرض اس بات کو خوب یاد رکھنا چاہئے کہ ہر ایک رسول کی اصل حیثیت ایک منجی کی ہوتی ہے اور وہ تمام ایک کشتی تیار کرتے ہیں جس کے اندر بیٹھنے والے تمام خطرات سے نجات پا جاتے ہیں۔وہ کشتی یہی ایمان کی کشتی ہوتی ہے مگر لبوں تک محدود رہنے والا ایمان نہیں بلکہ وہ ایمان جو مومن کے رگ و ریشہ کے اندر سرایت کرجاتا اور اسے یقین کی مستحکم چٹان پر قائم کر دیتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے یہ حدیث نبوی کہ لَوْ کَانَ الْاِیْمَان ُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَا لَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ۔اگر زبانی اقرار کا نام ایمان رکھا جاوے تو پھر اس حدیث کے کوئی معنی ہی نہیں بنتے کیونکہ زبانی اقرار والا ایمان تو تمام مسلمان کہلانے والے لوگوں میں ہمیشہ پایا جاتا رہا ہے ۔ سو ماننا پڑتا ہے کہ اس جگہ وہ ایمان مراد ہے جو خدا کی ہستی کو محسوس و مشہود کروا دیتا ہے اور گناہوں کو آگ کی طرح جلا کر خاک کر دیتا اور انسان کو ایک نئی زندگی بخشتا ہے ۔ سو اس لحاظ سے تو تمام مامورین کا انکار منکرین کے غیر مومن ہونے پر مہر لگا نے والا ہوتا ہے مگر پھر بھی کفر کی اقسام ہیں جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں۔ سو جاننا چاہئے کہ کفر دو قسم کا ہوتا ہے ۔ ایک ظاہری کفر اور ایک باطنی کفر۔ ظاہر کفری سے یہ مراد ہے کہ انسان کھلے طور پر کسی رسول کا انکار کردے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور نہ مانے ۔ جس طرح یہود نے مسیح ناصری کا کفر کیا یا جس طرح نصاریٰ نے نبی کریم  ﷺ کو خدا کی طرف سے رسول نہ مانا اور باطنی کفر یہ ہے کہ ظاہر ًا طور پر تو انسان کسی نبی یا رسول     کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے کا اقرار کرے اور اس کی امت میں اپنے آپ کو شمار کرتا ہو لیکن درحقیقت (اللہ تعالیٰ کی نظر میں)وہ اس نبی کی تعلیم سے بہت دور جا پڑا ہو اور اس کی پیشگوئیوں پر پورا پورا ایمان نہ لائے اور جس شخص پر ایمان لانے کا خدا نے حکم دیا ہو ۔ اس کی تکذیب کرے اور اس نبی کے احکام پر کار بند نہ ہو یا اگر ہو تو صرف قِشر پر گرا رہے اور حقیقت سے دور ہو۔ غرض صرف رسمی طور پر اس کی طرف منسوب کیا جائے۔ جیسا کہ مسیح  ناصری کا زمانہ پانے والے یہود کا حال تھا ۔ گو وہ ظاہرًا طور پر  تورات کے حامل تھے اور موسیٰ کی اُمت میں اپنے آپ کو شمار کرتے تھے لیکن درحقیقت وہ موسیٰ کی طرف صِرف رسمی طور پر منسوب تھے ۔ چنانچہ اس حقیقت  کو مسیح ناصری کی بعثت نے بالکل مبرہن کر دیا اور یہ بات بالکل ظاہر ہو گئی کہ حقیقت میں یہود موسیٰ کی تعلیم سے بہت دور جا پڑے تھے اور انہوں نے تورات کو پس پشت ڈال رکھا تھا اور ان کا موسیٰ کی اُمت میں ہونےکا دعویٰ صرف ایک زبانی دعویٰ تھا جو آزمانے پر غلط نکلا۔ حضر ت مسیح کی بعثت سے پہلے تمام بنی اسرائیل موسیٰ کی تعلیم پر کار بند ہونے کے مدعی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے مسیح کو نازل فرما کر سچوں اور جھوٹوں میں تمیز پیدا کر دی اور اس بات پر الٰہی مہر لگ گئی کہ اکثر بنی اسرائیل اپنے دعوے میں جھوٹے تھے۔ پس یہود نے مسیح کے انکار سے اپنے اوپر دو کفر لئے ۔ ایک مسیح کا  ظاہری کفر اور دوسرے موسیٰ یا یوں کہیے کہ مسیح سے پہلے گذرے ہوئے تمام انبیاء کا باطنی کفر۔ یہی حال نبی کریم ﷺ کا زمانہ پانے والے نصاریٰ کا ہے ۔ جنہوں نے آپ کا انکار کر کے اس بات پر بھی مہر لگا دی کہ وہ مسیح ناصری پر ایمان لانے کے دعوے میں جھوٹے تھے اور اس کی تعلیم کو دلوں سے بھلا چکے تھے ۔ پس انہوں نے بھی دو قسم کا کفر کیا ۔ ایک ہمارے آنحضرت ﷺ کا ظاہری کفر اور دوسرے مسیح ناصری اور اس سےپہلے کے تمام انبیاء کا باطنی کفر۔ اب یہ مسئلہ بالکل صاف ہے کہ ایک رسول کے انکار سے باقی تمام رسولوں کا انکار لازم آتا ہے ۔ ہاں ہم یہ نہیں کہتے کہ ایک رسول کا ظاہری کفر باقی رسولوں کا بھی ظاہری کفر ہے کیونکہ جیسا کہ میں بتا آیا ہوں ظاہری کفر زبانی انکار سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس لئے بغیر کسی کی طرف سے زبانی انکار کے اس پرظاہری کفر کا فتویٰ عائد کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ۔ ایک شخص اگر کہتا ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں اور وہ کلمہ گو ہے ۔ تو پھر ہمارا کوئی حق نہیں کہ ہم اس کو ظاہری کفر کے لحاظ سے نبی کریم  ﷺ کا کافر کہیں ۔ ہاں اگر وہ کسی اور مامور من اللہ کا ظاہری کفر اپنے اوپر لیتا ہے تو پھر بے شک جیساکہ میں ابھی ثابت کر آیا ہوں اس نے نبی کریم  ؤ کا بھی باطنی کفر کیا ۔ کیونکہ ایک رسول کے ظاہری کفر سے باقی رسولوں کا باطنی کفر لازم آتا ہے ۔ ہر ایک رسول کی بعثت بذات خود زبان حال سے پکار رہی ہوتی ہے کہ اس سے پہلے کے انبیاء بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ خود ذات باری تعالیٰ کا باطنی کفر دنیا میں شروع ہو چکا ہے ۔ مسیح ناصری کا دنیا میں آنا اس بات پر گواہ تھا کہ موسیٰ کی قوم نے موسیٰ کا باطنی کفر شروع کر رکھا تھا ۔ پھر آخر مسیح کی بعثت نے ثابت کر دیا کہ امت موسویہ میں واقعی  اکثر دھاگے کچے تھے جو ذرا سے جھٹکے سے ٹوٹ گئے ۔ اسی طرح مسیح محمدی کی بعثت دلیل ہے اس بات پر کہ امت محمدیہ میں خود محمد (ﷺ)کا کفر شروع ہے مگر وہی باطنی کفر کیونکہ ظاہری کفر ان پر عائد نہیں ہو سکتا جب تک وہ اسلام سے ظاہرًا طور پر ارتداد کی راہ نہ اختیار کریں۔ پس اب ہماری پوزیشن بالکل صاف ہے ۔ ہم غیر احمدیوں کو حضرت مسیح موعود کا کافر سمجھتے ہیں۔ آپ کے سوا کسی اور رسول کے وہ ظاہری کافر نہیں اور نہ ہم ان کو کہتے ہیں مگر ہاں مسیح موعود کا کفر ہم کو اتنا ضرور بتا رہا ہے کہ آپ کے منکرین میں محمد رسول اللہ ﷺ کا بھی باطنی کفرشروع ہے۔
فریق مخالف  نے مسئلہ کفر و اسلام بے ہودہ جھگڑوں سے پیچیدہ کر دیا ہے ورنہ بات بالکل صاف ہے ۔ کون کہتا ہے کہ غیر احمدی نبی کریم ﷺ کے ظاہری کافر ہیں ۔ ہمارا سر پھرا ہے کہ ہم کہیں غیر احمدی محمد رسول اللہ کے ظاہری طور پر کفر کرنے والے ہیں۔ اس کے تو یہ معنی ہوں گے کہ غیر احمدی آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کے مدعی بھی نہیں اور یہ بالبداہت غلط ہے ۔ خدا را ہماری طرف وہ بات منسوب نہ کرو جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے ۔ ہم تو غیر احمدیوں کو صرف مسیح موعود ؑ کا کافر سمجھتے ہیں اور بس ۔ چونکہ اور کسی رسول کا انہوں نے ظاہرًا طور پر انکار نہیں کیا۔ بلکہ ایمان لانے کے مدعی ہیں اس لئے وہ مسیح موعود ؑ کے سوا کسی اور رسول کے مطلقاً کافر نہیں کہلا سکتے ۔ ہاں انہوں نے مسیح موعود کے انکار سے محمد رسول اللہ ﷺ اور باقی گذشتہ انبیاء کا باطنی کفر اپنے اوپر ضرور لے لیا ہے بلکہ خود خدا تعالیٰ کا کفر سہیڑ لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ حقیقۃ الوھی میں فرماتے ہیں:۔
“جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔”
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 168)
جس کا یہی مطلب ہے کہ میرا ظاہری کفر خدا اور رسول کا باطنی کفر ہے ۔ فتدبر۔
تعجب ہے کہ ہمارے غیر مبایعین احباب حضرت مسیح موعود ؑ کے کفر کو بالکل معمولی بات سمجھتے ہیں حالانکہ محمد رسول اللہ سے اتر کر باقی تمام رسولوں کے کفر سے مسیح موعود ؑ کا کفر زیادہ سخت اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو زیادہ بھڑکانے والا ہے ۔ جیسا کہ حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں:۔
“فی الحقیقت دو شخص بڑے ہی بد بخت ہیں اور انس و جن میں اُن سا کوئی بھی بد طالع نہیں۔ ایک وہ جس نے خاتم الانبیاء کو نہ مانا۔ دوسرا وہ جو خاتم الخلفاء پر ایمان نہ لایا۔”
(الھُدٰی۔روحانی خزائن جلد 18صفحہ 250)
خلاصہ تمام مضمون کا یہ ہوا کہ ہم مسیح موعود پر ایمان نہ لانے کی وجہ تمام غیر احمدیوں کو حقیقت اسلام کے دائرہ سے خارج سمجھتے ہیں مگر چونکہ وہ قشر پر قائم ہیں۔ اِس لئے علمیت کے دائرہ سے انکو خارج قرار دینا صحیح نہیں۔ جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود ؑ غیر احمدیوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:۔
“جس اسلام پر تم فخر کرتے ہو یہ رسم اسلام ہے نہ حقیقت اسلام۔”
(نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد18صفحہ 476)
اسی طرح غیر احمدیوں کو ہم مسیح موعود ؑ کے انکار کی وجہ سے کافر سمجھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسیح موعود ؑ کے ظاہرًا طور پر کافر ہیں اور محمد رسول اللہ اور باقی رسولوں کے باطنی کافر، اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے مسیح موعود کی اس تحریر میں کہ :۔
“کفر دو قسم پر ہے ۔(اول)ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے ۔اور آنحضرت ﷺ کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔(دوم)دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعودؑ کو نہیں مانتا۔”
اور پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ :۔
“اگر غور سے دیکھا جاوے تو یہ دونوں قسم کے کفرایک ہی قسم میں داخل ہیں۔”
پھر اسی کتاب کے صفحہ 163پر لکھا ہے کہ :۔
“جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا ۔”
(حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد22صفحہ 185)
ان سب حوالوں پر یک جائی طور پر نظر ڈالنے سے صاف پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ظاہری کفر کو باطنی طور پر محمد رسول اللہ ﷺ بلکہ خود ذات باری تعالیٰ کا کفر قرار دے رہے ہیں۔ وھو المراد۔”
                                                                                                                (مطبوعہ الفضل 5،6ستمبر1916ء بحوالہ مضامین بشیر جلد اول صفحہ 7تا15)
مکمل تحریر >>

Saturday 25 April 2015

پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی جھوٹی فتح کی حقیقت

اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تفسیر نویسی کا چیلنج دیا۔ جب پیر مہر علی شاہ گولڑوی مقابلہ میں آئے تو آپؑ نے گویا مقابلہ سے راہ ِ فرار اختیار کی۔

 

1896ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب “انجام آتھم”میں جن سجادہ نشینوں کو دعوت ِ مباہلہ دی تھی ان میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی کا نام بھی تھا۔کچھ عرصہ بعد پیر صاحب میدان ِ مخالفت میں آگئے اور جنوری 1900ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اردو میں “شمس الھدایۃ فی اثبات حیات المسیح “نامی کتاب شائع کی جو درحقیقت ان کے ایک مرید مولوی محمد غازی کی تالیف کردہ تھی ۔
حضرت مسیح موعودؑ نے 20جولائی 1900کو پیر مہر علی شاہ گولڑوی صا حب کو حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لئےتفسیر نویسی میں علمی مقابلہ کرنے کے لئے دعوت دی کہ لاہور میں ایک جلسہ کرکے اور قرعہ اندازی کے ذریعہ قرآن شریف کی کو ئی سورۃ نکال کر دعا کرکے چا لیس آیات کے حقا ئق اور معارف فصیح اور بلیغ عربی زبان میں فریقین عین اسی جلسہ میں سات گھنٹے کے اندر لکھ کر تین اہل علم کے سپرد کریں جن کا اہتمام اور انتخاب پیر صا حب کے ذمہ ہوگا۔


حضرت مسیح موعودؑ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہو ئے فرما تے ہیں:۔
“لاہور میں جو ایک قابل شرم کارروائی پیر مہر علی شاہ صاحب سے ہوئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے بذریعہ ایک پُرفریب حیلہ جوئی کے اُس مقابلہ سے انکار کر دیا جس کو وہ پہلے منظور کر چکے تھے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب میری طرف سے متواتر دنیا میں اشتہارات شائع ہوئے کہ خدا تعالیٰ کے تائیدی نشانوں میں سے ایک یہ نشان بھی مجھے دیا گیا ہے کہ مَیں فصیح بلیغ عربی میں قرآن شریف کی کسی سُورة کی تفسیر لکھ سکتا ہوں اور مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم دیا گیا ہے کہ میرے بالمقابل اور بالمواجہ بیٹھ کر کوئی دُوسرا شخص خواہ وہ مولوی ہو یا کوئی فقیر گدی نشین ایسی تفسیر ہرگز لکھ نہیں سکے گا اور اس مقابلہ کے لئے پیر جی موصوف کو بھی بُلایا گیا تا وہ اگر حق پر ہیں تو ایسی تفسیر بالمقابل بیٹھ کر لکھنے سے اپنی کرامت دِکھلاویں یا ہمارے دعویٰ کو قبول کریں۔ تو اوّل تو پِیر جی نے دُور بیٹھے یہ لاف مار دی کہ اِس نشان کا مقابلہ مَیں کر وں گا۔ لیکن بعد اس کے اُن کو میری نسبت بکثرت روائتیں پہنچ گئیں کہ اس شخص کی قلم عربی نویسی میں دریاکی طرح چل رہی ہے اور پنجاب و ہندوستان کے تمام مولوی ڈر کر مقابلہ سے کنارہ کش ہو گئے ہیں تب اُس وقت پیرجی کو سُوجھی کہ ہم بے موقعہ پھنس گئے۔ آخر حسب مثل مشہور کہ مرتاکیا نہ کرتا انکار کے لئے یہ منصوبہ تراشا کہ ایک اشتہار شائع کر دیا کہ ہم بالمقابل بیٹھ کر تفسیر لکھنے کے لئے تیار تو ہیں مگر ہماری طرف سے یہ شرط ضروری ہے کہ تفسیر لکھنے سے پہلے عقائد میں بحث ہو جائے کہ کس کے عقائد صحیح اور مسلّم اور مدلّل ہیں اور مولوی محمد حسین بٹالوی کہ جو نزول مسیح میں انہیں کے ہم عقیدہ ہیں اس تصفیہ کے لئے منصف مقرر کئے جائیں پھر اگر مولوی صاحب موصوف یہ کہہ دیں کہ پیر جی کے عقائد صحیح اور مسیح ابن مریم کے متعلق جو کچھ انہوں نے سمجھا ہے وُہی ٹھیک ہے تو فی الفور اُسی جلسہ میں یہ راقم ان کی بیعت کرے اور اُن کے خادموں اور مُریدوں میں داخل ہو جائے اور پھر تفسیر نویسی میں بھی مقابلہ کیا جائے۔ یہ اشتہار ایسا نہ تھا کہ اُس کا مکر اور فریب لوگوں پر کُھل نہ سکے آخر عقلمند لوگوں نے تاڑ لیا کہ اس شخص نے ایک قابلِ شرم منصوبہ کے ذریعہ سے انکار کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بعد بہت سے لوگوں نے میری بیعت کی اور خود اُن کے بعض مُرید بھی اُن سے بیزار ہو کر بیعت میں داخل ہوئے۔ یہاں تک کہ ستّر ہزار کے قریب بیعت کرنے والوں کی تعداد پہنچ گئی اور مولویوں اور پیرزادوں اور گدی نشینوں کی حقیقت لوگوں پر کُھل گئی کہ وہ ایسی کارروائیوں سے حق کو ٹالنا چاہتے ہیں۔ منہ”
(نزول المسیح ۔روحانی خزائن جلد18حاشیہ ص431تا432)
ایک دوسرے موقع پر آپؑ فرماتے ہیں:۔
“چونکہ میں اپنی کتاب انجام آتھم کے آخیر میں وعدہ کر چکا ہوں کہ آئندہ کسی مولوی وغیرہ کے ساتھ زبانی بحث نہیں کرونگا اس لئے پیر مہر علی شاہ صاحب کی درخواست زبانی بحث کی جو میرے پاس پہنچی میں کسی طرح اس کو منظور نہیں کر سکتا افسوس کہ انہوں نے محض دھوکا دہی کے طور پر باوجود اس علم کے کہ میں ایسی زبانی بحثوں سے برکنار رہنے کے لئے جن کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا خدا تعالیٰ کے سامنے وعدہ کر چکا ہوں کہ میں ایسے مباحثات سے دور رہونگا پھر بھی مجھ سے بحث کرنے کی درخواست کردی ۔ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ ان کی درخواست محض اس ندامت سے بچنے کے لئے ہے کہ وہ اس اعجازی مقابلہ کے وقت جو عربی میں تفسیر لکھنے کا مقابلہ تھا اپنی نسبت یقین رکھتے تھے۔ گویا عوام کے خیالات کو اور طرف الٹا کر سُرخرو ہو گئے اور پردہ بنا رہا۔
ہر ایک دل خدا کے سامنے ہے اور ہر ایک سینہ اپنے گناہ کو محسوس کر لیتا ہے۔ لیکن میں حق کی حمایت کی وجہ سے ہر گز نہیں چاہتا کہ یہ جھوٹی سُرخروی بھی اُن کے پاس رہ سکے اس لئے مجھے خیال آیا کہ عوام جن میں سوچ کا مادہ طبعًا کم ہوتا ہے وہ اگرچہ یہ بات تو سمجھ لیں گے کہ پیر صاحب عربی فصیح میں تفسیر لکھنے پر قادر نہیں تھے اسی وجہ سے توٹال دیا لیکن ساتھ ہی انکو یہ خیال بھی گذریگا کہ منقولی مباحثات پر ضرور وہ قادر ہونگے تبھی تو درخواست پیش کر دی۔ اور اپنے دلوں میں گمان کریں گے کہ اُن کے پاس حضرت مسیح کی حیات اور میرے دلائل کے رد میں کچھ دلائل ہیں اور یہ تو معلوم نہیں ہوگا کہ یہ زبانی مباحثہ کی جرأت بھی میرے ہی اس عہد ترک بحث نے اُن کو دلائی ہے جو انجام آتھم میں طبع ہو کر لاکھوں انسانوں میں مشتہر ہو چکا ہے۔ لہذا میں یہ رسالہ لکھ کر اس وقت اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر وہ اس کے مقابل پر کوئی رسالہ لکھ کر میرے ان تمام دلائل کو اول سے آخر تک توڑ دیں۔ اور پھر مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی ایک مجمع بٹالہ میں مقرر کرکے ہم دونوں کی حاضری میں میرے تمام دلائل ایک ایک کرکے حاضرین کے سامنے ذکر کریں اور پھر ہر ایک دلیل کے مقابل پر جس کو دہ بغیر کسی کمی بیشی اور تصرف کے حاضرین کو سُنا دیں گے۔ پیر صاحب کے جوابات سُنا دیں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہیں کہ یہ جوابات صحیح ہیں اور دلیل پیش کردہ کی قلع قمع کرتے ہیں تو میں مبلغ پچاس روپیہ انعام بطور فتحیابی پیر صاحب کو اسی مجلس میں دے دونگا۔اگر پیر صا حب تحر یر فر ما ئیں تو میں یہ مبلغ روپیہ پہلے سے مولو ی محمد حسین صا حب کے پا س جمع کر ا دوں گا مگر یہ پیر صاحب کا ذمہ ہوگا کہ وہ مولوی محمد حسین صاحب کو ہدایت کریں کہ تا وہ مبلغ پچاس روپیہ اپنے پاس بطور امانت جمع کرکے باضابطہ رسید دیدیں اور مندرجہ بالا طریق کی پابندی سے قسم کھا کران کو اختیار ہوگا کہ وہ بغیر میرے اجازت کے پچاس روپیہ پیر صاحب کے حوالہ کر دیں۔ قسم کھانے کے بعد میری شکایت اُن پر کوئی نہیں ہوگی۔ صرف خدا پر نظر ہوگی جس کی وہ قسم کھائیں گے۔ پیر صاحب کا یہ اختیار نہیں ہوگا کہ یہ فضول عذرات پیش کریں کہ میں نے پہلے سے ردّ کرنے کے لئے کتاب لکھی ہے۔ کیونکہ اگر انعامی رسالہ کا انہوں نے جواب نہ دیا تو بلا شبہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ وہ سیدھے طریق سے مباحثات پر بھی قادر نہیں۔
(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17ص36)
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے ایک اشتہار 15دسمبر 1900 میں بالقاء ربانی تفسیر لکھنے کی ایک اور تجویز پیش کی اور فرما یا:۔
“افسوس کہ علمی نشان کے مقابلہ میں نادان لوگوں نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی نسبت ناحق جھوٹی فتح کا نقارہ بجا دیا اور مجھے گندی گالیاں دیں اور مجھے اس کے مقابلہ پر جاہل اور نادان قرار دیا۔ گویا مَیں اس نابغہ وقت اور سحبان زمان(معنی, فصیح و بلیغ لوگ.ناقل) کے رعب کے نیچے آکر ڈر گیا ورنہ وہ حضرت تو سچے دل سے بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لئے طیّار ہو گئے تھے اور اسی نیت سے لاہور تشریف لائے تھے۔ پر مَیں آپ کی جلالتِ شان اور علمی شوکت کو دیکھ کر بھاگ گیا اے آسمان جھوٹوں پر لعنت کر آمین۔ پیارے ناظرین کاذب کے رسوا کرنے کے لئے اسی وقت جو ۷/دسمبر۱۹۰۰ءء روز جمعہ ہے خدا نے میرے دل میں ایک بات ڈالی ہے اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کا جہنم جھوٹوں کے لئے بھڑک رہا ہے کہ مَیں نے سخت تکذیب کو دیکھ کر خود اس فوق العادت مقابلہ کے لئے درخواست کی تھی۔ اور اگر پیر مہر علی شاہ صاحب مباحثہ منقولی اور اس کے ساتھ بیعت کی شرط پیش نہ کرتے جس سے میرا مدعا بکلّی کالعدم ہو گیا تھا تو اگر لاہور اور قادیاں میں برف کے پہاڑ بھی ہوتے اور جاڑے کے دن ہوتے تو مَیں تب بھی لاہور پہنچتا اور ان کو دکھلاتا کہ آسمانی نشان اس کو کہتے ہیں۔ مگر انہوں نے مباحثہ منقولی اور پھر بیعت کی شرط لگا کر اپنی جان بچائی اور اس گندے مکر کے پیش کرنے سے اپنی عزت کی پرواہ نہ کی۔ لیکن اگر پیرجی صاحب حقیقت میں فصیح عربی تفسیر پر قادر ہیں اور کوئی فریب انہوں نے نہیں کیا تو اب بھی وہی قدرت اُن میں ضرور موجود ہوگی۔ لہٰذا مَیں اُن کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اسی میری درخواست کو اس رنگ پر پورا کر دیں کہ میرے دعاوی کی تکذیب کے متعلق فصیح بلیغ عربی میں سورة فاتحہ کی ایک تفسیر لکھیں جو چار ۴ جز سے کم نہ ہو اور مَیں اسی سورة کی تفسیر بفضل اللہ وقوتہ اپنے دعویٰ کے اثبات کے متعلق فصیح بلیغ عربی میں لکھوں گا۔ انہیں اجازت ہے کہ وہ اس تفسیرمیں تمام دنیا کے علماء سے مدد لے لیں۔ عرب کے بلغاء فصحاء بلالیں۔ لاہور اور دیگر بلاد کے عربی دان پروفیسروں کو بھی مدد کے لئے طلب کر لیں۔ 15دسمبر1900 سے ستر70 دن تک اس کام کے لئے ہم دونوں کو مہلت ہے ایک دن بھی زیادہ نہیں ہوگا۔ اگر بالمقابل تفسیر لکھنے کے بعد عرب کے تین نامی ادیب ان کی تفسیر کو جامع لوازم بلاغت و فصاحت قرار دیں اور معارف سے پُر خیال کریں تو مَیں پانسو رو 500رو پیہ نقد ان کو دوں گا۔ اور تمام اپنی کتابیں جلا دوں گا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا۔ اور اگر قضیہ برعکس نکلا یا اس مدت تک یعنی ستر۷۰ روز تک وہ کچھ بھی لکھ نہ سکے تو مجھے ایسے لوگوں سے بیعت لینے کی بھی ضرورت نہیں اور نہ روپیہ کی خواہش صرف یہی دکھلاؤں گا کہ کیسے انہوں نے پیر کہلاکر قابل شرم جھوٹ بولا اور کیسے سراسر ظلم اور سفلہ پن اور خیانت سے بعض اخبار والوں نے ان کی اپنی اخباروں میں حمایت کی۔ مَیں اس کام کو انشاء اللہ تحفہ گولڑویہ کی تکمیل کے بعد شروع کر دوں گااور جو شخص ہم میں سے صادق ہے وہ ہر گز شرمندہ نہیں ہوگا۔ اب وقت ہے کہ اخباروں والے جنہوں نے بغیر دیکھے بھالے کے ان کی حمایت کی تھی ان کواس کام کیلئے اٹھاویں۔ ستر70 دن میں یہ بات داخل ہے کہ فریقین کی کتابیں چھپ کر شائع ہو جائیں۔ منہ
(اربعین روحانی خزائن جلد 17 ص 448تا450)
اس اعلان کے مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی خاص تا ئید سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے مدت معینہ کے اندر23فروری1901 کو اعجاز المسیح کے نام سے فصیح و بلیغ عربی زبان میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر شا ئع کردی اور اس تفسیر کے لکھنے کی غرض یہ بیان فرما ئی کہ تا پیر مہر علی شاہ صا حب کا جھوٹ ظاہر ہو کہ وہ قرآن کا علم رکھتا ہے۔لیکن پیر صا حب کو گھر بیٹھ کر بھی بالمقابل تفسیر لکھنے کی جر أت نہ ہو ئی۔
مکمل تحریر >>

Friday 24 April 2015

مسیح ابن مریم یا غلام احمد قادیانی ؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپؑ ابن مریم کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ آپ چراغ بی بی صاحبہ کے بیٹے ہیں ۔

حضرت مسیح موعودؑ و مہدی موعودؑ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
  ’’اسی امت میں سے عیسیٰ بننے والا ابن مریم کیونکر کہلا سکے وہ تو مریم کا بیٹا نہیں ہے حالانکہ حدیثوں میں ابن مریم کا لفظ آیا ہے پس یاد رہے کہ یہ دسوسہ جو نادانوں کے دلوں کو پکڑتا ہے قرآن شریف میں سورة تحریم میں اس شبہ کاازالہ کردیا گیا ہے جیسا کہ سورة تحریم میں اس امت کے بعض افراد کومریم سے مشابہت دی گئی ہے اور پھر اس میں عیسیٰ کی روح کے نفخ کا ذکر کیا گیا ہے جس میں صریح اشارہ کیا گیا ہے کہ اس امت میں سے کوئی فرد اوّل مریم کے درجہ پر ہوگا اور پھر اس مریم میں نفخ روح کیا جائے گا تب وہ اس درجہ سے منتقل ہوکر ابن مریم کہلائے گا اور اگر کوئی مجھ سے سوال کرے کہ اگر یہی سچ ہے تو پھر تمہارے الہامات میں بھی اس کی طرف کوئی اشارہ ہونا چاہئے تھا اس کے جواب میں میں کہتا ہوں کہ آج سے پچیس برس پہلے یہی تصریح میری کتاب براہین احمدیہ حصص سابقہ میں موجود ہے اور نہ صرف اشارہ بلکہ پور ی وضاحت سے کتاب براہین احمدیہ حصص سابقہ میں ایک لطیف استعارہ کے رنگ میں مجھے ابن مریم ٹھہرایا گیا ہے چاہئے کہ اوّل وہ کتاب ہاتھ میں لے لو اور پھر دیکھو کہ اس کی اوائل میں اوّل میرا نام خدا تعالیٰ نے مریم رکھا ہے اور فرمایا ہے یَا مَرْیَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃ یعنی اے مریم تواور تیرے دوست جنت میں داخل ہو۔ پھر آگے چل کر کئی صفحوں کے بعد جو ایک مدت پیچھے لکھے گئے تھے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے یَامَرْیَمُ نَفَخْتُ فِیْک مِنْ لَّدُنِّیْ رُّوْحَ الصِّدْقِ یعنی اے مریم میں نے تجھ میں صدق کی روح پھونک دی۔ پس یہ رُوح پھونکنا گویا روحانی حمل تھا کیونکہ اس جگہ وہی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو مریم صدیقہ کی نسبت استعمال کئے گئے تھے جب مریم صدیقہ میں روح پھونکی گئی تھی تو اس کے یہی معنے تھے کہ اس کو حمل ہوگیا تھا جس حمل سے عیسیٰ پیدا ہوا ۔ پس اس جگہ بھی اسی طرح فرمایا کہ تجھ میں رُوح پھونکی گئی گویا یہ ایک روحانی حمل تھا ۔ پھر آگے چلکر آخر کتاب میں مجھے عیسیٰ کرکے پکارا گیا ۔ کیونکہ بعد نفخ ربانی مریمی حالت عیسیٰ بننے کیلئے مستعد ہوئی جس کو استعارہ کے رنگ میں حمل قرار دیا گیا۔ پھر آخر اسی مریمی حالت سے عیسیٰ پیدا ہوگیا۔ اسی رمز کیلئے کتاب کے آخر میں میرانام عیسیٰ رکھا گیااور کتاب کے اوّل میں مریم نام رکھا گیا۔
اب شرم اور حیا اور انصاف اور تقویٰ کی آنکھ سے اوّل سورة تحریم میں اس آیت پر غور کرو جس میں بعض افراد اس امت کو مریم سے نسبت دی گئی ہے اور پھر مریم میں نفح روح کاذکر کیا گیا ہے جو اس حمل کی طرف اشارہ کرتا ہے جس سے عیسیٰ پیدا ہونے والا ہے۔ پھر بعد اس کے براہین احمدیہ حصص سابقہ کے یہ تمام مقامات پڑھو اور خدا تعالیٰ سے ڈرکر خوف کرو کہ کس طرح اُس نے پہلے میرانام مریم رکھا اور پھر مریم میں نفخ رُوح کا ذکر کیا اور آخر کتاب میں اسی مریم کے رُوحانی حمل سے مجھے عیسیٰ بنا دیا۔ اگر یہ کاروبار انسان کاہوتا تو ہرگز انسان کی قدرت نہ تھی کہ دعوے سے ایک زمانہ دراز پہلے یہ لطیف معارف پیش بندی کے طور پراپنی کتاب میں داخل کردیتا۔ تم خود گواہ ہوکہ اُس وقت اور اس زمانہ میں مجھے اس آیت پر اطلاع بھی نہ تھی کہ میں اس طرح پرعیسیٰ مسیح بنایا جاؤں گا۔ بلکہ میں بھی تمہاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔ اور باوجود اس بات کے کہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور جو قرآن شریف کی آیتیں پیشگوئی کے طور پر حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب تھیں وہ سب آیتیں میری طرف منسوب کردیں اور یہ بھی فرما دیا کہ تمہارے آنے کی خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے مگر پھر بھی میں متنبہ نہ ہوا۔ اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میں نے وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طو ر پر لکھ دیا او ر شائع کردیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ اور میری آنکھیں اس وقت تک بالکل بند رہیں جب تک کہ خدا نے بار بار کھول کر مجھ کو سمجھا یا کہ عیسیٰ بن مریم اسرائیلی توفوت ہوچکاہے اوروہ واپس نہیں آئے گا اس زمانہ اور اس امت کیلئے تو ہی عیسیٰ بن مریم ہے۔ یہ میری غلط رائے جو براہین احمدیہ حصص سابقہ میں درج ہوگئی یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک نشان تھا اور میری سادگی اورعدم بناوٹ پر گواہ تھا مگر اب میں اس سخت دل قوم کا کیا علاج کروں کہ نہ قسم کو مانتے ہیں نہ نشانوں پر ایمان لاتے ہیں اور نہ خدا تعالیٰ کی ہدایتوں پرغور کرتے ہیں۔ آسمان نے بھی نشان دکھلائے او رزمین نے بھی مگر ان کی آنکھیں بند ہیں اب نہ معلوم خدا انہیں کیادکھلائے گا۔‘‘
(بر اہین احمد یہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21ص110-112)
’’سورة تحریم میں اشارہ کیا گیا ہے کہ بعض افراداس امت کے ابن مریم کہلائیں گے کیونکہ اوّل مریم سے اُن کو تشبیہ دے کر پھر مریم کی طرح نفخ رُوح اُن میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اوّل وہ مریمی وجود لے کر اور اس سے ترقی کر کے پھر ابن مریم بن جائیں گے۔ جیسا کہ براہین احمدیہ میں خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں اوّل میرا نام مریم رکھا اور فرمایا۔
یَا مَرْیَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃ
۔ یعنی اے مریم تو اور تیرے دوست بہشت میں داخل ہو جاوٴ۔ اور پھر فرمایا۔ یَامَرْیَمُ نَفَخْتُ فِیْک مِنْ رُّوْحِ الصِّدْقِ یعنی اے مریم مَیں نے صدق کی رُوح تجھ میں پھونک دی (گویا استعارہ کے رنگ میں مریم صدق سے حاملہ ہوگئی) اور پھر آخرمیں فرمایا۔ یَا عِیْسٰی اِ نِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ یعنی اے عیسیٰ! مَیں تجھے وفات دونگا اور اپنی طرف اُٹھاوٴں گا۔ پس اس جگہ مریمی مقام سے مجھے منتقل کر کے میرا نام عیسیٰ رکھا گیا اور اسطرح پر ابن مریم مجھے ٹھیرایا گیا تا وہ وعدہ جو سورہ تحریم میں کیا گیا تھا پورا ہو۔‘‘
(لیکچر لا ہو ر روحا نی خزائن جلد 20ص186-187)



مکمل تحریر >>

Sunday 15 March 2015

قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کا حوالہ دیا جاتا ہے اورالزام لگا دیا جاتا ہے کہ اس میں قرآن کی توہین ہے ۔۔
'' اس نشان کا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں '' 
( سراج منیر ، روحانی خزائن جلد 12 ، صفحہ 78 )


اس الہام کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود یہ بیان فرمائی کہ
’’ خدا کے منہ کی باتیں ۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے منہ کی باتیں۔ اس طرح کےضمائر کے اختلاف کی مثالیں قرآن شریف میں موجود ہیں۔ ‘‘
(ملفوظات جلد ۹صفحہ ۳۰۸ )

مکمل تحریر >>

عبداللہ آتھم کی موت سے متعلق پیشنگوئی



پادری عبداللہ آتھم وہ بدبخت شخص ہے جس نے اسلام کو اور بانی اسلام ﷺ کو نعوذ باللہ جھوٹا ثابت کرنے کے لئے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے ساتھ مناظرہ کیا تھا، جو ’’ جنگِ مقدّس‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع شدہ ہے۔ اس مناظرے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام اور بانی اسلام کی حقّانیت کو عقلی ، نقلی ، تاریخی ،واقعاتی اور روحانی دلائل کے ساتھ کما حقّہٗ ثابت فرمایا۔اس طرح اسلام کو ایک کھلا کھلا غلبہ نصیب ہوا۔اسی شکست خوردہ پادری عبداللہ آتھم نے ،جس کی وکالت آج ڈاکٹر راشد علی ،اور اس کے ہمنواوغیرہ کرتے ہیں ، ایک کتاب ’’اندرونہ بائیبل‘‘ بھی لکھی تھی جس میں اس نے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمّد مصطفی ﷺ کو ( معاذ اللہ) دجّال لکھا تھا۔ اس پر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اپنے آقا کی غیرت میں تڑپ کر خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر ایک پیشگوئی کا انکشاف فرمایا۔ آپ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’ آج رات جو مجھ پر کھلا وہ یہ ہے کہ جبکہ میں نے بہت تضرّع اور ابتہال سے جنابِ الہٰی میں دعا کی کہ تُو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ سو اس نے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلّت پہنچے گی۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ اور جو شخص سچ پر ہے اور سچّے خدا کو مانتا ہے اس کی عزّت ظاہر ہو گی۔....‘‘ (جنگِ مقدّس۔ آخری پرچہ۔روحانی خزائن جلد ۶صفحہ۲۹۱،۲۹۲)

الہامی الفاظ ’’ہاویہ میں گرایا جائے گا‘‘ کا مفہوم اجتہاد کی رو سے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے یہ سمجھا کہ عبداللہ آتھم بسزائے موت ہاویہ( دوزخ) میں گرایا جائے گا۔ چنانچہ اسی پیشگوئی کے آخر میں آپ فرماتے ہیں۔

’’ میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پرہے وہ آج کی تاریخ سے پندرہ ماہ میں بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ مجھے ذلیل کیا جائے۔ روسیاہ کیا جائے۔ میرے گلے میں رسّہ ڈال دیا جائے۔ مجھ کو پھانسی دی جائے۔ میں ہر سزا اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔‘‘

یہ پیشگوئی ایسی پر ہیبت تھی کہ پادری عبد اللہ آتھم لرز کر رہ گیا۔یہ اس کی طرف سے رجوع الیٰ الحق کا آغاز تھا۔ اور اس کے بعد، مرتے دم تک اس نے ایک لفظ بھی اسلام یا آنحضرت ﷺ کے خلاف نہ لکھا۔اس نے اس حد تک رجوع الیٰ الحق کیا کہ وہ دلی طور پر عیسائیوں کے عقیدہ ’ الوہیّتِ مسیح ‘ سے بھی متفق نہ رہا۔ چنانچہ اس نے اخبار’’ نور افشاں‘‘ ۲۱ ستمبر ۱۸۹۴ء کی اشاعت میں یہ اعلان بھی شائع کر ایا کہ وہ عیسائیوں کے عقیدہ ابنیّت و الوہیّت کے ساتھ متّفق نہیں۔ اس کے خوف سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کو بھی اطلاع دی۔ جس کا ذکر آپ ؑ نے اپنی کتاب ’’ انوار الاسلام صفحہ ۲،۳‘‘ پر تحریر فرمایا۔

پس عبداللہ آتھم نے پیشگوئی کے الہامی الفاظ ’’ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے‘‘ سے فائدہ اٹھایا اسلئے خدا تعالیٰ نے اسے مہلت دی اور وہ پندرہ ماہ کے اندر نہ مرا۔ اس عرصہ میں وہ انتہائی ہمّ و غم میں مبتلا رہا یہانتک کہ اس پر دیوانہ پن کی حالت طاری ہو گئی اور وہ مسلسل اسی اذیّت ناک حالت میں رہا۔ اس کی اس حالت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’الہامی پیشگوئی کے رعب نے اس کے دل کو ایک کچلا ہوا دل بنا دیا۔ یہانتک کہ وہ سخت بے تاب ہو ا اور شہر بشہر اور ہر ایک جگہ ہراساں اور ترساں پھرتا رہا اور اس مصنوعی خدا پر اس کا توکّل نہ رہا جس کو خیالات کی کجی اور ضلالت کی تاریکی نے الوہیّت کی جگہ دے رکھی ہے۔ وہ کتّوں سے ڈرا اور سانپوں کا اس کو اندیشہ ہوا اور اندر کے مکانوں سے بھی اس کو خوف آیا اور اس پر خوف اور وہم اور دلی سوزش کا غلبہ ہوا اور پیشگوئی کی پوری ہیبت اس پر طاری ہوئی اور وقوع سے پہلے ہی اس کا اثر اس کو محسوس ہوا اور بغیر اس کے کہ کوئی اس کو امرتسر سے نکالے آپ ہی ہراسان و ترسان و پریشان اور بے تاب ہو کر شہر بشہر بھاگتا پھرا۔ اور خدا نے اس کے دل کارام چھین لیا اور پیشگوئی سے سخت متاثر ہو کر سراسیموں اور خوفزدوں کی طرح جا بجا بھٹکتا پھرا اور الہامِ الہٰی کا رعب اور اثر اس کے دل پر ایسا مستولی ہوا کہ راتیں ہولناک اور دن بیقراری سے بھر گئے۔....... اس کے دل کے تصوّروں نے عظمتِ اسلامی کو ردّ نہ کیا بلکہ قبول کیا۔ اس لئے وہ خدا جو رحیم و کریم اور سزا دینے میں دھیما ہے اور انسان کے دل کے خیالات کو جانچتا اور اس کے تصوّرات کے موافق اس سے عمل کرتا ہے اس نے اس کو اس صورت پر بنایا جس صورت میں فی الفور کامل ہاویہ کی سزا یعنی موت بلا توقف اس پر نازل نہ ہوتی۔ اور ضرور تھا کہ وہ کامل عذاب اس وقت تک تھما رہے جب تک کہ وہ بے باکی اور شوخی سے اپنے ہاتھ سے اپنے لئے ہلاکت کے اسباب پیدا نہ کرے اور الہامِ الہٰی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا تھا کیونکہ الہامی عبارت میں شرطی طور پر عذابِ موت کے آنے کا وعدہ تھا ۔نہ مطلق بلاشرط وعدہ۔‘‘ ( انوار الاسلام ۔روحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۴، ۵)

نیز تحریر فرمایا

’’یہ غیر ممکن ہے کہ خدا اپنے قراردادہ وعدہ کو بھول جائے کیونکہ شرائط کا لحاظ رکھنا صادق کے لئے ضروری ہے اور خدا اصدق الصادقین ہے۔ ہاں جس وقت مسٹر عبداللہ آتھم اس شرط کے نیچے سے اپنے تئیں باہر کرے اور اپنے لئے شوخی اور بے باکی سے ہلاکت کے سامان پیدا کرے تو وہ دن نزدیک آ جائیں گے اور سزائے ہاویہ کامل طور پر نمودار ہوگی اور یہ پیشگوئی عجیب طور پر اپنا اثر دکھائے گی۔‘‘( انوار الاسلام ۔روحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۵)

ان تحریروں سے یہ بات بالکل کھل جاتی ہے کہ عبداللہ آتھم نے پیشگوئی میں مذکور شرط ’’ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے‘‘ سے فائدہ اٹھایا اور ابتدائی طور پر خدا تعالیٰ کے رحم کے نیچے آگیا۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اس کو اس صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے غیر مبہم الفاظ میں تنبیہہ کردی تھی کہ اب اس پیشگوئی کی معیّن اور آخری صورت یہ ہے کہ بے باکی اور شوخی کے ظہور پر یعنی رجوع الیٰ الحق کے ماننے سے انکار کرنے پر یا رجوع الیٰ الحق کی صورت کو کسی تدبیر سے مشتبہ بنانے کی صورت میں اس کی ہلاکت کے دن نزدیک آجائیں گے اور پھر موت کے ذریعہ سزائے ہاویہ کا وہ جلد شکار ہو جائے گا۔ اور پیشگوئی کا اثر غیر معمولی رنگ میں ظاہر ہو گا۔گویا اب یہ پیشگوئی پادری ڈپٹی عبداللہ آتھم کی بے باکی اور شوخی سے معلّق ہو گئی۔

ادھر حالات یہ پیدا ہوئے کہ جب عبداللہ آتھم رجوع الیٰ الحق کی شرط سے فائدہ اٹھا کر پندرہ ماہ کے اندر مرنے سے بچ گیا تو عیسائیوں نے اپنی جھوٹی فتح کا نقارہ بجایا، جلوس نکالے اور خوب شور وشرّ اور ہنگامہ آرائی کی اور مسیحِ موعود علیہ السلام کی شان میں گستاخانہ رویّہ اختیار کیا اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی اور آپ ؑ سے بغض رکھنے والے راشد علی جیسے لوگ بھی ان کے ہمنوا بن گئے۔ ان حالات میں خدا تعالیٰ سے الہام پا کر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے عبداللہ آتھم کو مباہلہ کا چیلنج دیا اور اس کے ساتھ ایک ہزار روپیہ کا انعام بھی رکھا۔اس دعوتِ مباہلہ میں آپ ؑ نے اسے یہ بھی لکھا کہ اگر وہ

’’...... تین مرتبہ ان الفاظ کا اقرار کریں کہ اس پیشگوئی کے عرصہ میں اسلامی رعب ایک طرفۃ العین کے لئے بھی میرے دل پر نہیں آیا اور میں اسلام اور نبی اسلام ؐکو نا حق سمجھتا رہا اور سمجھتاہوں اور صداقت کا خیال تک نہیں آیا اور حضرت عیسٰی ؑ کی ابنیّت اور الوہیّت پر یقین رکھتا رہا اور رکھتاہوں اور ایسا ہی یقین جو فرقہ پروٹسٹنٹ عیسائی رکھتے ہیں اور اگر میں نے خلافِ واقعہ کہا ہے اور حقیقت کو چھپایا ہے تو اے قادر! مجھ پر ایک برس میں عذابِ موت نازل کر۔ اس دعا پر ہم آمین کہیں گے اور اگر دعا کا ایک سال تک اثر نہ ہوا اور وہ عذاب نازل نہ ہوا جو جھوٹوں پر نازل ہوتا ہے تو ہم ہزار روپیہ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کو بطور تاوان دیں گے۔‘‘ (انوارالاسلام ۔صفحہ ۶)

یہ ایک فیصلہ کن اور جامع پیشکش تھی جس سے نہ فرار کی کوئی راہ اس کے لئے باقی رہتی تھی اور نہ حق کو چھپانے کا کوئی حیلہ۔ اس پیشکش کے آخر میں آپؑ نے یہ بھی فرمایا

’’پس یقیناً سمجھو کہ اسلام کو فتح حاصل ہوئی اور خدا تعالیٰ کا ہاتھ بالا ہوا اور کلمہ اسلام اونچا ہوا اور عیسائیت نیچے گری۔‘‘

پادری عبداللہ آتھم نے اس سے گریز کی راہ اختیار کی تو آپ نے اسے دو ہزار روپیہ کا چیلنج دیا۔ اس کو بھی قبول کرنے کی ا س میں جرات نہ ہوئی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنے رجوع الیٰ اللہ کو ظاہر کرنے کی بھی ہمّت نہ کر سکا۔ اس پر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اس کو تیسرا چیلنج دیا جوتین ہزار روپیہ کا تھا۔اس میں آپ نے اس پر حجّت تمام کرنے کے لئے اسے مؤکّد بعذاب قسم کھانے کی بھی تحریض کی۔

پادری عبداللہ آتھم نے اس چیلنج پر اپنے دو عذر پیش کئے۔ اوّل یہ کہ قسم کھانا ان کے مذہب میں ممنوع ہے۔ دوم یہ کہ پیشگوئی کے زمانہ میں وہ ڈرے تو ضرور ہیں مگر پیشگوئی کے اثر سے نہیں بلکہ اس لئے کہ کہیں ان کو قتل نہ کر دیا جائے۔

حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اس کے دونوں عذرات اپنے ایک اور اشتہار میں جس میں چار ہزار انعام دینے کا وعدہ تھا ، توڑ دئیے۔ پادری عبداللہ آتھم اس کا کوئی جواب نہ دے سکا۔ اس اشتہار میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اس سلسلہ میں اپنا آخری الہام درج فرمایا کہ

’’خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ میں بس نہیں کروں گا جب تک قوی ہاتھ نہ دکھلادوں اور شکست خوردہ گروہ کی سب پر ذلّت ظاہر نہ کر دوں۔‘‘

آپ نے اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے یہ حتمی نوٹ لکھاکہ

’’اب اگرآتھم صاحب قسم کھا لیویں تو وعدہ ایک سال قطعی اور یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے۔ اور اگر قسم نہ کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا۔ جس نے حق کا اخفاء کرکے دنیا کو دھوکا دینا چاہا۔.....‘‘(اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ۔مندرجہ انوار الاسلام )

اس اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ کے بعد عبداللہ آتھم قسم کھانے پر آمادہ نہ ہوا بلکہ اس کاقسم سے انکار کمال کو پہنچ گیا۔ اس کے بعد حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے یکے بعد دیگرے تین اشتہار اور بھی دئیے جن میں سے آخری اشتہار ۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ ء کو دیا گیا۔ اس میں آپ ؑ نے آخری اور فیصلہ کن الفاظ تحریر فرمائے کہ

’’اگر پادری صاحبان ملامت کرتے کرتے ان ( آتھم) کو ذبح بھی کر ڈالیں، تب بھی وہ میرے مقابل پر قسم کھانے کے لئے ہرگز نہیں آئیں گے کیونکہ وہ دل میں جانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔ میری سچائی کے لئے یہ نمایاں دلیل کافی ہے کہ آتھم صاحب میرے مقابل پر میرے مواجہہ میں ہرگز قسم نہیں اٹھائیں گے اگرچہ عیسائی لوگ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں۔ اگر وہ قسم کھا لیں تو یہ پیشگوئی بلاشبہ دوسرے پہلو پر پوری ہو جائے گی۔ خدا کی باتیں ٹل نہیں سکتیں۔‘‘(اشتہار۔۳۰ دسمبر ۱۸۹۵ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ۲۰۴)

حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے آتھم کو قسم کھانے کے علاوہ نالش کرنے کی بھی ترغیب دی تھی، لیکن آ تھم نے نہ قسم کھائی اور نہ نالش کی اور اس طریق سے بتادیا کہ ضرور اس نے رجوع بحق کیا تھا اور چونکہ اس نے علانیہ طور پر زبان سے اس رجوع کا اظہار نہیں کیا اس لئے خدا نے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑا۔ اور اخفائے حق کی سزا میں آخری اشتہار سے جو ۳۰ دسمبر کو شائع ہوا، سات ماہ کے اندر گرفتِ الہٰی میں آ گیا اور ۲۶ جولائی ۱۸۹۶ ء کو حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کی سچائی اور عیسائیّت کی شکست کو ظاہر کر گیا۔

یہ پیشگوئی چونکہ رجوع الیٰ الحق کی شرط کے ساتھ مشروط تھی اس لئے اس نے جس حدّ تک اس شرط سے فائدہ اٹھایا، اس حدّ تک اسے بصورتِ موت ہاویہ میں گرنے سے مہلت مل گئی گو جب تک وہ زندہ رہا عملاًایک دوزخ میں ہی رہا۔ لیکن حق کو چھپانے کی وجہ سے بالآخر وہ خدا تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہ سکا اور پیشگوئی کی صداقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہوا بسزائے موت ہاویہ میں گرایا گیاِ ۔
مکمل تحریر >>