Sunday 25 January 2015

مرزا صاحب کے حج پر نہ جانے پر اعتراض

ایک شخص نے عرض کی کہ مخالف مولوی اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب حج کو کیوں نہیں جاتے؟

فرمایا:۔

یہ لوگ شرارت کے ساتھ ایسا اعتراض کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم دس سال مدینہ میں رہے۔ صرف دو دن کا راستہ مدینہ اور مکہ میں تھا مگر آپ نے دس سال میں کوئی حج نہ کیا۔ حالانکہ آپ سواری وغیرہ کا انتظام کر سکتے تھے۔ لیکن حج کے واسطے صرف یہی شرط نہیں کہ انسان کے پاس کافی مال ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہ ہو۔ وہاں تک پہنچنے اور امن کے ساتھ حج ادا کرنے کے وسائل موجود ہوں۔ جب وحشی طبع علماء اس جگہ ہم پر قتل کا فتویٰ لگا رہے ہیں اور گورنمنٹ کا بھی خوف نہیں کرتے تو وہاں یہ لوگ کیا نہ کریں گے لیکن ان لوگوں کو اس امر سے کیا غرض ہے کہ ہم حج نہیں کرتے۔ کیا اگر ہم حج کریں گے تو وہ ہم کو مسلمان سمجھ لیں گے؟ اور ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے؟ اچھا یہ تمام مسلمان علماء اوّل ایک اقرار نامہ لکھ دیں کہ اگر ہم حج کر آویں تو وہ سب کے سب ہمارے ہاتھ پر توبہ کر کے ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہمارے مرید ہو جائیں گے۔ اگر وہ ایسا لکھ دیں اور اقرار حلفی کریں تو ہم حج کر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے واسطے اسباب آسانی کے پیدا کر دے گا تاکہ آئندہ مولویوں کا فتنہ رفع ہو۔ ناحق شرارت کے ساتھ اعتراض کرنا اچھا نہیں ہے۔ یہ اعتراض ان کا ہم پر نہیں پڑتا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی پڑتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی صرف آخری سال میں حج کیا تھا۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ248)
مکمل تحریر >>

Saturday 24 January 2015

مرزا صاحب کے ریشمی ازار بند پہننے پر اعتراض کا جواب

معترضہ عبارت :
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صاحبزادے ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ  فرماتے ہیں:۔
’’والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعودعموماً ریشمی ازار بند استعمال فرماتے تھے کیونکہ آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا ، اس لئے ریشمی ازار بند رکھتے تھے تاکہ کھلنے میں آسانی ہواورگرہ بھی پڑجائے تو کھولنے میں دقت نہ ہو ، سوتی ازار بند میں آپ سے بعض اوقات گرہ پڑجاتی تھی تو آپ کو بڑی تکلیف ہوتی تھی ‘‘۔
(سیرۃ المہدی حصہ اول ص :142روایت 64)

جواب:۔
واضح ہونا چاہیے کہ بیماری کی صورت میں ریشم پہننا حرام نہیں ۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے بیماری کی صورت میں ریشم استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔

عَنْ أَنَسٍ قَالَ  رَخَّصَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ وَعَبْدِ الرَّحْمٰنِ فِي لُبْسِ الْحَرِيرِ لِحِكَّةٍ بِهِمَا
(بخاری کتاب اللباس )
ترجمہ :۔ حضرت انسؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم  ﷺ نے حضرت زبیر اورحضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنھما کو خارش کی وجہ سے ریشم پہننے کی اجازت دی۔

اورسیرت المہدی کی مندرجہ بالا روایت کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام  کو کثرت پیشاب کی شکایت تھی ۔آپ کو پیشاب جلدی جلدی آتا تھا۔اسی لئے ریشمی ازار بند رکھتے تھے تاکہ کھلنے میں آسانی ہواور گرہ بھی پڑ جائے تو کھلنے میں دقت نہ ہو  ۔
مکمل تحریر >>

Friday 23 January 2015

آج سے میں احمدی بھی ہوں اور مرزائی بھی

مولانا دوست محمد شاہد صاحب ایک واقعہ درج فرماتے ہیں کہ
'' یہ عاجز دفتری کام میں مصروف تھا کہ یکایک حضرت مولانا ( مولانا عبدالمالک خاں ) کی السلام علیکم کی آواز سنائی دی اور آپ ایک باریش بزرگ کے ساتھ کمرہ شعبہ تاریخ میں تشریف لائے اور فرمایا میں انہیں تم سے ملانے کے لیے لایا ہوں ۔ میرے معزز مہمان کے پاس وقت بہت تھوڑا ہے ۔ کوئی ایک مختصر سی بات سنا دیجیے ۔ میں نے ان بزرگ پر نگاہ ڈالی تو حق تعالیٰ کی طرف سے میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ یہ سیال شریف والوں کے مرید ہیں مگر ہیں بہت شریف مزاج ۔ یہ ذہن میں آتے ہی خاکسار نے عرض کیا خدا کے فضل و کرم سے آپ بھی آنحضرتﷺ کو احمد یقین کرتے ہیں لہٰذا میری ادب کے ساتھ یہ درخواست ہے کہ آپ اپنے تئیں ہمیشہ احمدی کہا کریں ۔ جھٹ بولے میں احمدی تو ہوں مرزائی ہرگز نہیں ۔ یہ سنتے ہی میں نے انیسویں صدی کے نامور چشتی بزرگ حضرت خواجہ شمس الدین ؒ سیال شریف کے حسب ذیل ارشادات و ملفوظات عالیہ ان کے مطالعہ کے لیے سامنے رکھ دئیے ۔ ان میں لکھا تھا :

'' آپ کے پوتے صاحب زادہ محمد امین صاحب آئے ۔ آپ نے پوچھا اے بیٹے کون سی سورت پڑھتے ہو ؟ انہوں نے کہا سورتِ نور ۔ آپ نے تبسم فرماتے ہوئے یہ شعر   ؎
صورت مرزے یار دی ساری سورت نور
والشّمس ، والضحٰی  پڑھیا  رب غفور 
بندہ نے عرض کیا مرزا سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا ۔ رسولِؐ خدا ۔ اور تینوں مذکورہ سورتیں آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔ پھر فرمایا ۔ عاشقوں کا دستور ہے کہ وہ اپنے معشوق کو مرزا یا رانجھا کہہ  کر یاد کیا کرتے ہیں ۔ ''
( مرآت العاشقین  ، صفحہ ۲۷۲ )


وہ بزرگ یہ عبارت پڑھتے ہی پورے جوش سے فرمانے لگے ۔ آج سے میں احمدی بھی ہوں اور مرزائی بھی اور ساتھ ہی بتایا کہ میرا مسلک چشتی ہے اور میں سیال شریف سے تعلق ارادت رکھتا ہوں ۔ ''
مکمل تحریر >>

Thursday 22 January 2015

کتاب تفسیر ابن عباس کی حقیقت

"تنوير المقباس من تفسير ابن عباس " کے نام سے  مشہور تفسیر سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے ثابت نہیں ہے بلکہ   یہ جھوٹے طریق سے مروی اور من گھڑت تفسیر ہے جسے  کذب بیانی کرتے ہوئے سیدنا ابن عباسؓ سے منسوب کردیا گیا ہے۔ اس تفسیر کے شروع میں اس کی جو سند لکھی ہوئی ہے اس میں کلبی کا ابو صالح اور ابو صالح کا سیدنا ابن عباسؓ سے روایت کرنا ظاہر کیا گیا ہے اور یہ طریق سب سے زیادہ بدنام ترین اور جھوٹے راویوں پر مبنی ہے ۔


اب علماء کی اس سند کے بارے میں رائے آپ کو دکھاتے ہیں ، اس بارے میں بہت سے عربی حوالہ جات ہیں لیکن ہم نے کوشش کی ہے کہ صرف اردو حوالہ جات کو آپ کی آسانی کے لیے پیش کیا جائے ۔
امام جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر درمنثور کے آخر پر اس سند کے بارے میں یوں بیان فرمایا ہے ۔
'' کلبی کو ( علماء جرح و تعدیل نے) کذب سے متہم کیا ہے۔ وہ بیمار ہوئے ۔ تو انہوں نے اپنی حالت مرض میں اپنے اصحاب کو بتایا۔جو کچھ بھی میں نے تمہیں ابوصالح سے بیان کیا ہے وہ سب جھوٹ ہے۔ '' ( تفسیر در منثور مترجم جلد ششم ، صفحہ 1203 )


بریلوی مسلک کے مولانا احمد رضاخان صاحب  نے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے لکھا ہے 
'' یہ تفسیر کہ منسوب بسیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہے نہ اُن کی کتاب ہے نہ اُن سے ثابت، یہ بسند محمد بن  مروان عن الکلبی عن ابی صالح مروی ہے اور ائمہ دین اس سند کو فرماتے ہیں کہ یہ سلسلۂ کذب ہے۔" (فتاویٰ رضویہ جلد 29، صفحہ 396)


اور دیوبندی مسلک کے مولانا محمد تقی عثمانی صاحب، اپنی معروف کتاب "علوم القرآن" میں لکھتے ہیں
"ہمارے زمانے  میں ایک کتاب"تنویر المقباس فی تفسیر ابن عباس" کے نام سے شائع ہوئی ہے جسے آج کل عموماً "تفسیر ابن عباس" کہا اور سمجھا جاتا ہے، اور اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو گیا ہے، لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں کیونکہ یہ کتاب محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباسؓ کی سند سے مروی ہے جسے محدثین نے ''سلسلۃ الکذب'' (جھوٹ کا سلسلہ) قرار دیا ہے لہٰذا اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔'' ( علوم القرآن ، صفحہ 458 )


اسی طرح غلام احمد حریری صاحب نے بھی اپنی کتاب '' تاریخ تفسیرومفسرین '' کے صفحہ 81 پر تفسیر ابن عباس کی سند کی حقیقت واضح کر کے اسے غیر معتبر ثابت کیا ہے۔


مکمل تحریر >>

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کے الزام کا جواب

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کے الزام کا جواب از ہادی علی چوہدری ۔۔

مکمل تحریر >>

احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک

احمدیہ تعلیمی پاکٹ بک از قاضی محمد نزیر صاحب فاضل

مکمل تحریر >>

احمدیہ تبلیغی پاکٹ بک

احمدیہ تبلیغی پاکٹ بک از جناب ملک عبدالرحمٰن صاحب خادم

مکمل تحریر >>

کتاب تفہیمات ربانیہ بجواب عشرہ کاملہ

کتاب تفہیمات ربانیہ از قلم مولانا ابو العطاء صاحب فاضل جالندھری ایک بہترین جواب ہے منشی محمد یعقوب صاحب پٹیالوی کی کتاب عشرہ کاملہ کا ، جو منشی صاحب نے اس دعویٰ کے شاتھ شائع کی تھی کہ ان کی کتاب لاجواب ہے ، مولانا ابو العطاء صاحب نے اپنی اس کتاب میں عشرہ کاملہ کے تمام اعتراضات کو توڑ پھوڑ دیا ہے اور حضرت مسیح موعود و امام مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی صداقت کے دلائل بھی پیش کیے ہیں ۔

مکمل تحریر >>