Tuesday 27 June 2017

نبی کریم حضرت محمد ﷺ سے حقیقی محبت اور ناپاک حملوں سے ناموس رسالت کا دفاع




خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز  
فرمودہ مورخہ 21؍ستمبر 2012ء بمطابق  21؍تبوک 1391 ہجری شمسی
بمقام مسجد بیت الفتوح ۔مورڈن۔ لندن
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی : 
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا - 
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا -...
 (الاحزاب:58-57)
ان آیات کا یہ ترجمہ ہے کہ یقیناً اللہ اور اُس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی اُس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔ یقیناً وہ لوگ جو اللہ اور اُس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں، اللہ نے اُن پر دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی اوراُس نے اُن کے لئے رُسواکُن عذاب تیار کیا ہے۔ 
آجکل مسلم دنیا میں، اسلامی ممالک میں بھی اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے مسلمانوں میں بھی اسلام دشمن عناصر کے انتہائی گھٹیا، گھناؤنے اور ظالمانہ فعل پر شدید غم و غصّہ کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔ اس غم و غصہ کے اظہار میں مسلمان یقیناً حق بجانب ہیں۔ مسلمان تو چاہے وہ اس بات کا صحیح ادراک رکھتا ہے یا نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی مقام کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے لئے مرنے کٹنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ دشمنان اسلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو بیہودہ اور لغو فلم بنائی ہے اور جس ظالمانہ طور پر اس فلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اہانت کا اظہار کیا گیا ہے اس پر ہر مسلمان کا غم اور غصّہ ایک قدرتی بات ہے۔ 
وہ محسنِ انسانیت، رحمۃ للعالمین اور اللہ تعالیٰ کا محبوب جس نے اپنی راتوں کو بھی مخلوق کے غم میں جگایا، جس نے اپنی جان کو مخلوق کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے اس درد کا اظہار کیا اور اس طرح غم میں اپنے آپ کو مبتلا کیا کہ عرش کے خدا نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کیا تو ان لوگوں کے لئے کہ کیوں یہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کو نہیں پہچانتے، ہلاکت میں ڈال لے گا؟ اس عظیم محسنِ انسانیت کے بارے میں ایسی اہانت سے بھری ہوئی فلم پر یقیناً ایک مسلمان کا دل خون ہونا چاہئے تھا اور ہوا اور سب سے بڑھ کر ایک احمدی مسلمان کو تکلیف پہنچی کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور غلام صادق کے ماننے والوں میں سے ہیں۔ جس نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مقام کا اِدراک عطا فرمایا۔ پس ہمارے دل اس فعل پر چھلنی ہیں۔ ہمارے جگر کٹ رہے ہیں۔ ہم خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہیں کہ ان ظالموں سے بدلہ لے۔ اُنہیں وہ عبرت کا نشان بنا جو رہتی دنیا تک مثال بن جائے۔ ہمیں تو زمانے کے امام نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح ادراک عطا فرمایا ہے کہ جنگل کے سانپوں اور جانوروں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت خاتم الانبیاءؐ کی توہین کرنے والے اور اُس پر ضد کرتے چلے جانے والے سے ہم صلح نہیں کر سکتے۔ 
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: 
’’مسلمان وہ قوم ہے جو اپنے نبی کریمؐ کی عزت کے لئے جان دیتے ہیں۔ اور وہ اس بے عزتی سے مرنا بہتر سمجھتے ہیں کہ ایسے شخصوں سے دلی صفائی کریں اور اُن کے دوست بن جائیں جن کا کام دن رات یہ ہے کہ وہ اُن کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں اور اپنے رسالوں اور کتابوں اور اشتہاروں میں نہایت توہین سے اُن کا نام لیتے ہیں اور نہایت گندے الفاظ سے اُن کو یاد کرتے ہیں‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ یاد رکھیں کہ ایسے لوگ اپنی قوم کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں کیونکہ وہ اُن کی راہ میں کانٹے بوتے ہیں۔ اور مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ہم جنگل کے سانپوں اور بیابانوں کے درندوں سے صلح کر لیں تو یہ ممکن ہے۔ مگر ہم ایسے لوگوں سے صلح نہیں کر سکتے جو خدا کے پاک نبیوں کی شان میں بدگوئی سے باز نہیں آتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گالی اور بدزبانی میں ہی فتح ہے۔ مگر ہر ایک فتح آسمان سے آتی ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’ پاک زبان لوگ اپنی پاک کلام کی برکت سے انجامکار دلوں کو فتح کر لیتے ہیں۔ مگر گندی طبیعت کے لوگ اس سے زیادہ کوئی ہنر نہیں رکھتے کہ ملک میں مفسدانہ رنگ میں تفرقہ اور پھوٹ پیدا کرتے ہیں…‘‘۔ فرمایا کہ ’’ تجربہ بھی شہادت دیتا ہے کہ ایسے بدزبان لوگوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ خدا کی غیرت اُس کے اُن پیاروں کے لئے آخر کوئی کام دکھلا دیتی ہے‘‘۔        (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23 صفحہ385تا387)
اس زمانے میں اخباروں اور اشتہاروں کے ساتھ میڈیا کے دوسرے ذرائع کو بھی اس بیہودہ چیز میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ پس یہ لوگ جو اپنی ضد کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے مقابلہ کر رہے ہیں، انشاء اللہ تعالیٰ اُس کی پکڑ میں آئیں گے۔ یہ ضد پر قائم ہیں اور ڈھٹائی سے اپنے ظالمانہ فعل کا اظہار کرتے چلے جارہے ہیں۔
2006ء میں جب ڈنمارک کے خبیث الطبع لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیہودہ تصویریں بنائی تھیں تو اُس وقت بھی مَیں نے جہاں جماعت کو صحیح ردّعمل دکھانے کی طرف توجہ دلائی تھی وہاں یہ بھی کہا تھا کہ یہ ظالم لوگ پہلے بھی پیدا ہوتے رہے ہیں اور اس پر بس نہیں ہو گی۔ اس احتجاج وغیرہ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جو اَب مسلمانوں کی طرف سے ہو رہا ہے بلکہ آئندہ بھی یہ لوگ ایسی حرکات کرتے رہیں گے۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اُس سے بڑھ کر یہ بیہودگی اور ظلم پر اتر آئے ہیں اور اُس وقت سے آہستہ آہستہ اس طرف  ان کا یہ طریق بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ 
پس یہ ان کی اسلام کے مقابل پر ہزیمت اور شکست ہے جو ان کو آزادیٔ خیال کے نام پر بیہودگی پر آمادہ کر رہی ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یاد رکھیں کہ یہ لوگ اپنی قوم کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں۔ یہ بات ایک دن ان قوموں کے لوگوں پر بھی کھل جائے گی۔ ان پر واضح ہو جائے گا کہ آج جو کچھ بیہودہ گوئیاں یہ کر رہے ہیں، وہ ان کی قوم کے لئے نقصان دہ ہے کہ یہ لوگ خودغرض اور ظالم ہیں۔ ان کو صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کے علاوہ کسی بات سے سروکار نہیں ہے۔
 اس وقت تو آزادیٔ اظہار کے نام پر سیاستدان بھی اور دوسرا طبقہ بھی بعض جگہ کھل کر اور اکثر دبے الفاظ میں ان کے حق میں بھی بول رہا ہے اور بعض دفعہ مسلمانوں کے حق میں بھی بول رہا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ اب دنیا ایک ایسا گلوبل ویلیج بن چکی ہے کہ اگر کھل کر برائی کو برائی نہ کہا گیا تو یہ باتیں ان ملکوں کے امن و سکون کو بھی برباد کر دیں گی اور خدا کی لاٹھی جو چلنی ہے وہ علیحدہ ہے۔ 
امام الزمان کی یہ بات یاد رکھیں کہ ہر فتح آسمان سے آتی ہے اور آسمان نے یہ فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ جس رسول کی تم ہتک کرنے کی کوشش کر رہے ہو اُس نے دنیا پر غالب آنا ہے۔ اور غالب، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، دلوں کو فتح کر کے آنا ہے۔ کیونکہ پاک کلام کی تاثیر ہوتی ہے۔ پاک کلام کو ضرورت نہیں ہے کہ شدت پسندی کا استعمال کیا جائے یا بیہودہ گوئی کا بیہودہ گوئی سے جواب دیا جائے۔ اور یہ بدکلامی اور بدنوائی جو ان لوگوں نے شروع کی ہوئی ہے، یہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد ختم ہو جائے گی۔ اور پھر اس زندگی کے بعد ایسے لوگوںسے خدا تعالیٰ نبٹے گا ۔ 
یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں، ان میں بھی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اُن کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارا کام اس رسول پر درود اور سلام بھیجنا ہے۔ ان لوگوں کی بیہودہ گوئیوں اور ظلموں اور استہزاء سے اُس عظیم نبی کی عزت و ناموس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ تو ایسا عظیم نبی ہے جس پر اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے بھی درود بھیجتے ہیں۔ مومنوں کا کام ہے کہ اپنی زبانوں کو اس نبی پر درود سے تر رکھیں۔ اور جب دشمن بیہودہ گوئی میں بڑھے تو پہلے سے بڑھ کر درود و سلام بھیجیں۔  اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔  اَللّٰھُمَّ  بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔ یہی درود ہے اور یہی نبی ہے جس کا دنیا میں غلبہ مقدر ہو چکا ہے۔
پس جہاں ایک احمدی مسلمان اس بیہودہ گوئی پر کراہت اور غم و غصّہ کا اظہار کرتا ہے وہاں ان لوگوں کو بھی اور اپنے اپنے ملکوں کے ارباب حل و عقد کو بھی ایک احمدی اس بیہودہ گوئی سے باز رہنے اور روکنے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور دلانی چاہئے۔ دنیاوی لحاظ سے ایک احمدی اپنی سی کوشش کرتا ہے کہ اس سازش کے خلاف دنیا کو اصل حقیقت سے آشنا کرے اور اصل حقیقت بتائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے خوبصورت پہلو دکھائے۔ اپنے ہر عمل سے آپ کے خوبصورت اُسوہ حسنہ کا اظہار کر کے اور اسلام کی تعلیم اور آپ کے اسوہ حسنہ کی عملی تصویر بن کردنیا کو دکھائے۔ ہاں ساتھ ہی یہ بھی جیسا کہ مَیں نے کہا کہ درود و سلام کی طرف بھی پہلے سے بڑھ کر توجہ دے۔ مرد، عورت ، جوان، بوڑھا، بچہ اپنے ماحول کو، اپنی فضاؤں کو درود و سلام سے بھر دے۔ اپنے عمل کو اسلامی تعلیم کا عملی نمونہ بنا دے۔ پس یہ خوبصورت ردّعمل ہے جو ہم نے دکھانا ہے۔
باقی ان ظالموں کے انجام کے بارے میں خدا تعالیٰ نے دوسری آیت میں بتا دیا ہے کہ رسول کو اذیت پہنچانے والے یا اس زمانے میں حقیقی مومنوں کا دل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے حوالے سے تکلیف پہنچا کر چھلنی کرنے والوں سے خدا تعالیٰ خود نپٹ لے گا۔ ان لوگوں پر اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور اس لعنت کی وجہ سے وہ اور زیادہ گندگی میں ڈوبتے چلے جائیں گے۔ اور مرنے کے بعد ایسے لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ نے رُسواکُن عذاب مقدر کیا ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ ایسے بدزبان لوگوں کا انجام اچھا نہیںہوتا۔ پس یہ لوگ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی لعنت کی صورت میں اور مرنے کے بعد رُسواکُن عذاب کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچیں گے۔
 جو دوسرے مسلمان ہیں،ان مسلمانوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق یہ ردّ عمل دکھانا چاہئے کہ درود شریف سے اپنے ملکوں، اپنے علاقوں، اپنے ماحول کی فضاؤں کو بھر دیں۔ یہ ردّعمل ہے۔
یہ ردّ عمل تو بے فائدہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں میں اپنی ہی جائیدادوں کو آگ لگائی جائے یا اپنے ہی ملک کے شہریوں کو مارا جائے یا جلوس نکل رہے ہیں تو پولیس کو مجبوراً اپنے ہی شہریوں پر فائرنگ کرنی پڑے اور اپنے لوگ ہی مر رہے ہوں۔ 
اخبارات اور میڈیا کے ذریعے سے جو خبریں باہر آ رہی ہیں، اُن سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر شریف الطبع مغربی لوگوں نے بھی اس حرکت پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور کراہت کا اظہار کیا ہے۔ وہ لوگ جو مسلمان نہیں ہیں لیکن جن کی فطرت میں شرافت ہے انہوں نے امریکہ میں بھی اور یہاں بھی اس کو پسند نہیں کیا ۔ لیکن جو لیڈرشپ ہے وہ ایک طرف تو یہ کہتی ہے کہ یہ غلط ہے اور دوسری طرف آزادی اظہار و خیال کو آڑ بنا کر اس کی تائید بھی کرتی ہے۔ یہ دو عملی نہیں چل سکتی۔ آزادی کے متعلق قانون کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے۔ مَیں نے وہاں امریکہ میں سیاستدانوں کو تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ دنیا داروں کے بنائے ہوئے قانون میں سقم ہو سکتا ہے، غلطیاں ہوسکتی ہیں۔ قانون بناتے ہوئے بعض پہلونظروں سے اوجھل ہو سکتے ہیں کیونکہ انسان غیب کا علم نہیں رکھتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ اُس کے بنائے ہوئے قانون جو ہیں اُن میں کوئی سقم نہیں ہوتا۔ پس اپنے قانون کو ایسا مکمل نہ سمجھیں کہ اس میں کوئی ردّوبدل نہیں ہو سکتا، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ آزادیٔ اظہار کا قانون تو ہے لیکن نہ کسی ملک کے قانون میں، نہ یو این او (UNO)  کے چارٹر میں یہ قانون ہے کہ کسی شخص کو یہ آزادی نہیں ہو گی کہ دوسرے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرو۔یہ کہیں نہیں لکھا کہ دوسرے مذہب کے بزرگوں کا استہزاء کرنے کی اجازت نہیں ہوگی کہ اس سے دنیا کا امن برباد ہوتا ہے۔ اس سے نفرتوں کے لاوے ابلتے ہیں۔ اس سے قوموں اور مذہبوں کے درمیان خلیج وسیع ہوتی چلی جاتی ہے۔ پس اگر قانون آزادی بنایا ہے تو ایک شخص کی آزادی کا قانون تو بیشک بنائیں لیکن دوسرے شخص کے جذبات سے کھیلنے کا قانون نہ بنائیں۔ یو این او (UNO) بھی اس لئے ناکام ہو رہی ہے کہ یہ ناکام قانون بنا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا کام کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون دیکھیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دوسروں کے بتوں کو بھی برا نہ کہو کہ اس سے معاشرے کا امن برباد ہوتا ہے۔ تم بتوں کو برا کہو گے تو وہ نہ جانتے ہوئے تمہارے سب طاقتوں والے خدا کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کریں گے جس سے تمہارے دلوں میں رنج پیدا ہو گا۔ دلوں کی کدورتیں بڑھیں گی۔ لڑائیاں اور جھگڑے ہوں گے۔ ملک میں فساد برپا ہوگا۔ پس یہ خوبصورت تعلیم ہے جو اسلام کا خدا دیتا ہے، اس دنیا کا خدا دیتا ہے، اس کائنات کا خدا دیتا ہے۔ وہ خدا یہ تعلیم دیتا ہے جس نے کامل تعلیم کے ساتھ اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی اصلاح کے لئے اور پیار و محبت قائم کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین کا لقب دے کر تمام مخلوق کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
 پس دنیا کے پڑھے لکھے لوگ اور اربابِ حکومت اور سیاستدان سوچیں کہ کیا ان چند بیہودہ لوگوں کو سختی سے نہ دبا کر آپ لوگ بھی اس مفسدہ کا حصہ تو نہیں بن رہے۔ دنیا کے عوام الناس سوچیں کہ دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھیل کر اور دنیا کے ان چندکیڑوں اور غلاظت میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی ہاں میں ہاں ملا کر آپ بھی دنیا کے امن کی بربادی میں حصہ دار تو نہیں بن رہے؟
ہم احمدی مسلمان دنیا کی خدمت کے لئے کوئی بھی دقیقہ نہیں چھوڑتے۔ امریکہ میں خون کی ضرورت پڑی۔ گزشتہ سال ہم احمدیوں نے بارہ ہزار بوتلیں جمع کر کے دیں۔ اس سال پھر وہ جمع کر رہے ہیں۔ آجکل یہ ڈرائیو (Drive) چل رہی تھی۔ اُن کو میں نے کہا کہ ہم احمدی مسلمان تو زندگی دینے کے لئے اپنا خون دے رہے ہیں اور تم لوگ اپنی ان حرکتوں سے اور اُن حرکت کرنے والوں کی ہاں میں ہاں ملا کر ہمارے دل خون کر رہے ہو۔ پس ایک احمدی مسلمان کا اور حقیقی مسلمان کایہ عمل ہے اور یہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہم انصاف قائم کرنے والے ہیں اُن کے ایک طبقہ کا یہ عمل ہے۔ 
مسلمانوں کو تو الزام دیا جاتا ہے کہ وہ غلط کررہے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ بعض ردّعمل غلط ہیں۔ توڑپھوڑ کرنا، جلاؤ گھیراؤ کرنا، معصوم لوگوں کو قتل کرنا، سفارتکاروں کی حفاظت نہ کرنا، اُن کو قتل کرنا یا مارنا یہ سب غلط ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے معصوم نبیوں کا استہزاء اور دریدہ دہنی میں جو بڑھنا ہے، یہ بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ اب دیکھا دیکھی گزشتہ دنوں فرانس کے رسالہ کو بھی دوبارہ اُبال آیا ہے۔ اُس نے بھی پھر بیہودہ کارٹون شائع کئے ہیں جو پہلے سے بھی بڑھ کر بیہودہ ہیں۔ یہ دنیا دار دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ یہ دنیا ہی اُن کی تباہی کا سامان ہے۔
 یہاںمَیں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ دنیا کے ایک بہت بڑے خطّہ پر مسلمان حکومتیں قائم ہیں۔ دنیا کابہت سا علاقہ مسلمان کے زیرِ نگیں ہے۔ بہت سے مسلمان ممالک کو خدا تعالیٰ نے قدرتی وسائل بھی عطا فرمائے ہیں۔ مسلمان ممالک یو این او (UNO) کا حصہ بھی ہیں۔ قرآنِ کریم جو مکمل ضابطہ حیات ہے اس کے ماننے والے اور اس کو پڑھنے والے بھی ہیں تو پھر کیوں ہر سطح پر اس خوبصورت تعلیم کو دنیا پر ظاہر کرنے کی مسلمان حکومتوں نے کوشش نہیں کی۔ کیوں نہیں یہ کرتے؟ قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق کیوں دنیا کے سامنے یہ پیش نہیں کرتے کہ مذہبی جذبات سے کھیلنا اور انبیاء اللہ کی بے حرمتی کرنا یا اُس کی کوشش کرنا یہ بھی جرم ہے اور بہت بڑا جرم اور گناہ ہے۔ اور دنیا کے امن کے لئے ضروری ہے کہ اس کو بھی یو این او کے امن چارٹر کا حصہ بنایا جائے کہ کوئی ممبر ملک اپنے کسی شہری کو اجازت نہیں دے گا کہ دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھیلا جائے۔ آزادیٔ خیال کے نام پر دنیا کا امن برباد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن افسوس کہ اتنے عرصہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، کبھی مسلمان ملکوں کی مشترکہ ٹھوس کوشش نہیں ہوئی کہ تمام انبیاء، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ہر نبی کی عزت و ناموس کے لئے دنیا کو آگاہ کریں اور بین الاقوامی سطح پر اس کو تسلیم کروائیں۔ گو یو این او (UNO) کے باقی فیصلوں کی طرح اس پر بھی عمل نہیں ہو گا، پہلے کونسا امن چارٹر پر عمل ہو رہا ہے لیکن کم از کم ایک چیز ریکارڈ میں تو آجائے گی۔ او آئی سی (OIC) ، آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز جو ہے ، یہ قائم تو ہے لیکن ان کے ذریعہ سے کبھی کوئی ٹھوس کوشش نہیں ہوئی جس سے دنیا میں مسلمانوں کا وقار قائم ہو ۔ مسلمان ملکوں کے سیاستدان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہر کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر نہیں خیال تو دین کی عظمت کا خیال نہیں۔ اگر ہمارے لیڈروں کی طرف سے ٹھوس کوششیں ہوتیں تو عوام الناس کا یہ غلط ردّ عمل بھی ظاہر نہ ہوتا جو آج مثلاً پاکستان میں ہو رہا ہے یا دوسرے ملکوں میں ہوا ہے۔ اُن کو پتہ ہوتا کہ ہمارے لیڈر اس کام کے لئے مقرر ہیں اور وہ اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس قائم کرنے کے لئے اور تمام انبیاء کی عزت و ناموس قائم کرنے کے لئے دنیا کے فورم پر اس طرح اُٹھیں گے کہ اس دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ جو کہہ رہے ہیں سچ اور حق ہے۔ 
پھر مغربی ممالک میں اور دنیا کے ہر خطّے میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو رہ رہی ہے۔ مذہب کے لحاظ سے اور تعداد کے لحاظ سے دنیا میں مسلمان دوسری بڑی طاقت ہیں ۔ اگریہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے ہوں تو ہر لحاظ سے سب سے بڑی طاقت بن سکتے ہیں اور اس صورت میں کبھی اسلام دشمن طاقتوں کو جرأت ہی نہیں ہوگی کہ ایسی دل آزار حرکتیں کر سکیں یا اس کا خیال بھی لائیں۔ 
بہرحال علاوہ مسلمان ممالک کے دنیا کے ہر ملک میںمسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ یورپ میں ملینز (Millions) کی تعداد میں تو صرف ترک ہی آباد ہیں۔ صرف پورے یورپ میںنہیں بلکہ یورپ کے ہر ملک میں ملینز کی تعداد میں مسلمان آباد ہیں۔ اسی طرح دوسری مسلمان قومیں یہاں آباد ہیں۔ ایشیا سے مسلمان یہاں آئے ہوئے ہیں۔ یوکے میں بھی آباد ہیں۔ امریکہ میں بھی آباد ہیں۔ کینیڈا میں آباد ہیں۔ یورپ کے ہر خطے میں آباد ہیں۔ اگر یہ سب فیصلہ کر لیں کہ اپنے ووٹ اُن سیاستدانوں کو دینے ہیںجو مذہبی رواداری کا اظہار کریں۔ اور ان کا ا ظہا رنہ صرف زبانی ہوبلکہ اُس کا عملی اظہار بھی ہورہا ہو اور وہ ایسے بیہودہ گوؤں کی، یا بیہودہ لغویات بکنے والوں یا فلمیں بنانے والوں کی مذمت کریں گے تو ان دنیاوی حکومتوں میں ہی ایک طبقہ کھل کر اس بیہودگی کے خلاف اظہار خیال کرنے والا مل جائے گا۔ 
پس مسلمان اگر اپنی اہمیت کو سمجھیں تو دنیا میں ایک انقلاب پیدا ہو سکتا ہے۔ وہ ملکوں کے اندر مذہبی جذبات کے احترام کے قانون بنوا سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ اس طرف توجہ نہیں ہے۔جماعت احمدیہ جو توجہ دلاتی ہے اُس کی مخالفت میں کمربستہ ہیں اور دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمان لیڈروں کو، سیاستدانوں کو اور علماء کو عقل دے کہ اپنی طاقت کو مضبوط کریں۔ اپنی اہمیت کو پہچانیں۔ اپنی تعلیم کی طرف توجہ دیں۔
یہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بیہودہ اعتراض کرتے ہیں، الزامات لگاتے ہیں اور جنہوں نے یہ فلم بنائی ہے یا اس میں کام کیا ہے ان کے اخلاقی معیار کا اندازہ تو میڈیامیں ان کے بارے میں جو معلومات ہیں اُن سے ہی ہو سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ کردار ایک قبطی عیسائی کا ہے جو امریکہ میں رہتا ہے، نکولا  بسیلے (Nakoula Basseley Nakoula) یا اس طرح کا اس کا کوئی نام ہے یا سام بسیلے (Sam Bacile) کہلاتا ہے۔ بہرحال اس کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی criminal background ہے۔ مجرم ہے ۔ یہ فراڈ کی وجہ سے 2010ء میں جیل میں بھی رہ چکا ہے۔ دوسرا آدمی جس نے فلم ڈائریکٹ کی ہے، یہ پورنوگرافیز موویز کا ڈائریکٹر ہے۔ اس میں جو اَور ایکٹر شامل ہیں وہ سب پورنو گرافکس موویز کے ایکٹر ہیں۔ تو یہ ان کے اخلاق کے معیار ہیں۔ اور پورنوگرافیز کی جو حدود ہیں وہ تو آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ لوگ کس گند میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اعتراض اُس ہستی پر کرنے چلے ہیں جس کے اعلیٰ اخلاق اور پاکیزگی کی خدا تعالیٰ نے گواہی دی۔ 
پس یہ غلاظت کر کے انہوں نے یقیناً خدا تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دی ہے اور دیتے چلے جا رہے ہیں۔ اسی طرح اس فلم کے سپانسر کرنے والے بھی خدا تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ ان میں ایک وہ عیسائی پادری بھی شامل ہے جو مختلف وقتوں میں امریکہ میںاپنی سستی شہرت کیلئے قرآن وغیرہ جلانے کی بھی کوشش کرتا رہا ہے۔  اَللّٰھُمَّ مَزِّ قْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَ سَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔
میڈیا میں بعض نے مذمّت کرنے کی بھی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں کے ردّعمل کی بھی مذمت کی ہے۔ ٹھیک ہے غلط ردّعمل کی مذمّت ہونی چاہئے لیکن یہ بھی دیکھیں کہ پہل کرنے والا کون ہے۔ 
بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ یہ سب کچھ مسلمانوں کی اکائی اور لیڈر شپ نہ ہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ دین سے تو باوجود عشقِ رسول کے دعویٰ کے یہ لوگ دُور ہٹے ہوئے ہیں۔ دعویٰ تو بیشک ہے لیکن دین کا کوئی علم نہیں ہے۔ دنیاوی لحاظ سے بھی کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی مسلمان ملک نے کسی ملک کو بھی پُرزور احتجاج نہیں کیا۔ اگر کیا ہے تو اتنا کمزور کہ میڈیا نے اس کی کوئی اہمیت نہیں دی۔اور اگر مسلمانوں کے احتجاج پر کوئی خبر لگائی بھی ہے تو یہ کہ ایک اعشاریہ آٹھ بلین مسلمان بچوں کی طرح ردّعمل دکھا رہے ہیں۔ جب کوئی سنبھالنے والا نہ ہو تو پھر اِدھر اُدھر پھرنے والے ہی ہوتے ہیں۔ پھر ردّعمل بچوں جیسے ہی ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ایک طنز بھی کردیا لیکن حقیقت بھی واضح کر دی۔ اب بھی خدا کرے کہ مسلمانوں کو شرم آ جائے۔
یہ لوگ جن کے دین کی آنکھ تو اندھی ہے، جن کو انبیاء کے مقام کا پتہ ہی نہیں ہے، جو حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام کو بھی گرا کر خاموش رہتے ہیں، اُن کو تو مسلمانوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جذبات کا اظہار بچوں کی طرح کا ردّعمل نظر آئے گا۔ لیکن بہرحال جیسا کہ میں نے کہا کہ 2006ء میں بھی میں نے توجہ دلائی تھی کہ اس طرف توجہ کریں اور ایک ایسا ٹھوس لائحہ عمل بنائیں کہ آئندہ ایسی بیہودگی کی کسی کو جرأت نہ ہو۔ کاش کہ مسلمان ملک یہ سن لیں اور جو اُن تک پہنچ سکتا ہے تو ہر احمدی کو پہنچانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے۔ چار دن کا احتجاج کر کے بیٹھ جانے سے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
پھر یہ تجویز بھی ایک جگہ سے آئی تھی، لوگ بھی مختلف تجویزیں دیتے رہتے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان وکلاء جو ہیں یہ اکٹھے ہو کر پٹیشن (Petition) کریں۔ کاش کہ مسلمان وکلاء جو بین الاقوامی مقام رکھتے ہیں اس بارے میں سوچیں، اس کے امکانات پر یا ممکنات پر غور کریں کہ ہو بھی سکتا ہے کہ نہیں یا کوئی اَورراستہ نکالیں۔ کب تک ایسی بیہودگی کو ہوتا دیکھتے رہیں گے اور اپنے ملکوں میں احتجاج اور توڑ پھوڑ کر کے بیٹھ جائیں گے۔ اس کا اس مغربی دنیا پر تو کوئی اثر نہیں ہو گا یا اُن بنانے والوں پر تو کوئی اثر نہیں ہو گا۔ اگر ان ملکوں میں معصوموں پر حملہ کریں گے یا تھریٹ (Threat) دیں گے یا مارنے کی کوشش کریں گے یا ایمبیسیز پر حملہ کریں گے تو یہ تو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ اس صورت میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر خود اعتراض لگوانے کے مواقع پیدا کر دیں گے۔
پس شدت پسندی اس کا جواب نہیں ہے۔اس کا جواب وہی ہے جو مَیں بتا آیا ہوں کہ اپنے اعمال کی اصلاح اور اُس نبی پر درُود و سلام جو انسانیت کا نجات دہندہ ہے۔ اور دنیاوی کوششوں کے لئے مسلمان ممالک کا ایک ہونا۔ مغربی ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنے ووٹ کی طاقت منوانا۔ بہر حال افرادِ جماعت جہاں جہاں بھی ہیں، اس نہج پر کام کریں اور اپنے غیراحمدی دوستوں کو بھی اس طریق پر چلانے کی کوشش کریں کہ اپنی طاقت، ووٹ کی طاقت جو ان ملکوں میں ہے وہ منوائو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوؤں کوبھی دنیا کے سامنے خوبصورت رنگ میں پیش کریں۔
آج یہ لوگ آزادیٔ اظہار کا شور مچاتے ہیں۔ شور مچاتے ہیں کہ اسلام میں تو آزادیٔ رائے اور بولنے کا اختیار ہی نہیں ہے اور مثالیں آجکل کی مسلمان دنیا کی دیتے ہیں کہ مسلمان ممالک میں وہاں کے لوگوں کو، شہریوں کو آزادی نہیں ملتی۔ اگر نہیں ملتی تو اُن ملکوں کی بدقسمتی ہے کہ اسلامی تعلیم پر عمل نہیں کر رہے۔ اسلامی تعلیم کا تو اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمیں تو تاریخ میں لوگوں کے بے دھڑک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہونے بلکہ ادب و احترام کو پامال کرنے اور اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر اور حوصلے اور برداشت کے ایسے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ میں چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ گو اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جُودو سخا کے واقعات میں بیان کیا جاتا ہے لیکن یہی واقعات جو ہیں ان میں بیباکی کی حد کا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوصلہ کا بھی اظہار ہوتاہے۔ 
حضرت جبیرؓ بن مطعم کی یہ روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک بار وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ کے ساتھ اور لوگ بھی تھے۔ آپ حنین سے آرہے تھے کہ بدوی لوگ آپ سے لپٹ گئے۔ وہ آپ سے مانگتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے آپ کو ببول کے ایک درخت کی طرف ہٹنے کے لئے مجبور کر دیا جس کے کانٹوں میں آپ کی چادر اٹک گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور آپ نے فرمایا میری چادر مجھے دے دو۔ اگر میرے پاس ان جنگلی درختوں کی تعداد کے برابر اونٹ ہوتے تو مَیں اُنہیں تم میں بانٹ دیتا اور پھر تم مجھے بخیل نہ پاتے اور نہ جھوٹا اور نہ بزدل۔ 
(صحیح البخاری کتاب فرض الخمس باب ماکان النبی ﷺ یعطی المؤلفۃ قلوبہم و غیرہم … 3148)
پھر ایک روایت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں تھا اور آپ نے ایک موٹے کنارے والی چادر زیب تن کی ہوئی تھی۔ ایک بدّو نے اس چادر کو اتنے زور سے کھینچا کہ اس کے کناروں کے نشان آپ کی گردن پر پڑ گئے۔ پھر اُس نے کہا: اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے اس مال میں سے جو اس نے آپ کو عنایت فرمایا ہے، میرے ان دو اونٹوں پر لاد دیں کیونکہ آپ مجھے نہ تو اپنے مال میں سے اور نہ ہی اپنے والد کے مال میں سے دیں گے۔ پہلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ پھر فرمایا۔ اَلْمَالُ مَالُ اللہِ وَاَنَا عَبْدُہٗ  کہ مال تو اللہ ہی کا ہے اور میں اُس کا بندہ ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا۔ مجھے جو تکلیف پہنچائی ہے اس کا بدلہ تم سے لیا جائے گا۔ اُس بدو نے کہا، نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم سے بدلہ کیوں نہیں لیا جائے گا؟ اُس بدو نے کہا اس لئے کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کے ایک اونٹ پر جَو اور دوسرے پر کھجوریں لاد دی جائیں۔ 
 (الشفاء لقاضی عیاض جزء اول صفحہ 74 الباب الثانی فی تکمیل اللہ تعالیٰ …الفصل و اما الحلم… دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
تو یہ ہے وہ صبر و برداشت کا مقام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور جو اپنوں سے نہیں دشمنو ں سے بھی تھا۔ یہ ہیں وہ اعلیٰ اخلاق ان میںجودو سخا بھی ہے اور صبر و برداشت بھی اور وسعتِ حوصلہ کا اظہار بھی ہے۔ یہ اعتراض کرنے والے جاہل بغیر علم کے اُٹھتے ہیں اور اُس رحمۃ للعالمین پر اعتراض کر دیتے ہیں کہ انہوں نے یہ سختی کی تھی اور فلاںتھا اور فلاں تھا۔
پھر قرآن کریم پر اعتراض ہے۔ یہ بھی سنا ہے کہ اس فلم میں لگایا گیا ہے۔ مَیں نے دیکھی تو نہیں، لیکن مَیں نے یہ لوگوں سے سنا ہے کہ یہ قرآنِ کریم بھی حضرت خدیجہ کے جو چچا زاد بھائی تھے، ورقہ بن نوفل، جن کے پاس حضرت خدیجہ آپؐ کو پہلی وحی کے بعد لے کر گئی تھیں انہوں نے لکھ کر دیا تھا۔ کفار تو آپ کی زندگی میں بھی یہ اعتراض کرتے رہے کہ یہ قرآن جو تم قسطوں میں اتار رہے ہو اگریہ اللہ کا کلام ہے تو یکدم کیوں نہیں اُترا؟ لیکن یہ بیچارے بالکل ہی بے علم ہیں بلکہ تاریخ سے بھی نابلد۔ بہر حال جو بنانے والے ہیں وہ تو ایسے ہی ہیں لیکن دو پادری جو اُن میں شامل ہیں جو اپنے آپ کو علمی سمجھتے ہیں وہ بھی علمی لحاظ سے بالکل جاہل ہیں۔ ورقہ بن نوفل نے تو یہ کہا تھا کہ کاش میں اُس وقت زندہ ہوتا جب تجھے تیری قوم وطن سے نکالے گی اور کچھ عرصے بعد اُن کی وفات بھی ہو گئی۔ 
(صحیح البخاری کتاب بدء الوحی باب 3حدیث نمبر3 )
پھر یہ جو پادری ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا تاریخ اور حقائق سے بالکل ہی نابلد ہیں۔ جومستشرقین ہیں وہ قرآن کے بارے میںاس بحث میں ہمیشہ پڑے رہے کہ یہ سورۃ کہاں اُتری اور وہ سورۃ کہاں اُتری۔ مدینہ میں نازل ہوئی یا مکہ میں؟ اس بات پر بھی بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اُس نے لکھ کر دے دیا تھا۔ اور قرآنِ کریم کا تو اپنا چیلنج ہے کہ اگر سمجھتے ہو کہ لکھ کر دے دیا توپھر اس جیسی ایک سورۃ ہی لا کر دکھاؤ۔
پھر جذبات کے احترام کا سوال پیدا ہوتا ہے تو اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں۔ باوجود اس علم کے کہ آپ سب نبیوں سے افضل ہیں، یہودی کے جذبات کے احترام کے لئے آپ فرماتے ہیں کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو۔ 
(صحیح البخاری کتاب فی الخصومات باب مایذکر فی الاشخاص و الخصومۃ…حدیث نمبر2411)
غرباء کے جذبات کا خیال ہے اور اُن کے مقام کی اس طرح آپ نے عزت فرمائی کہ ایک دفعہ آپ کے ایک صحابی جو مالدار تھے وہ دوسرے لوگوں پر اپنی فضیلت ظاہر کر رہے تھے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن کر فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہاری یہ قوت اور طاقت اور تمہارا یہ مال تمہیں اپنے زورِ بازو سے ملے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ تمہاری قومی طاقت اور مال کی طاقت سب غرباء ہی کے ذریعہ سے آتے ہیں۔  (صحیح البخاری کتاب الجھاد و السیرباب من استعان بالضعفاء و الصالحین فی الحرب۔ حدیث2896)
 آزادی کے یہ دعویدار، آج غرباء کے حقوق قائم کرتے ہیں۔ اُن کے حقوق کے تحفظ کیلئے کوشش کرتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے یہ کہہ کریہ حقوق قائم فرما دئیے کہ مزدور کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو۔ 
(سنن ابن ماجہ کتاب الرھون باب اجر الأجراء حدیث نمبر2443)
پس یہ اُس محسنِ انسانیت کا کہاں کہاں مقابلہ کریں گے۔ بیشمار واقعات ہیں۔ ہر پہلو خُلق کا آپ لے لیں، اس کے اعلیٰ نمونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نظر آئیں گے۔
پھر اور نہیں تو یہی الزام لگا دیا کہ نعوذ باللہ آپ کو عورتیں بڑی پسند تھیں۔
شادیوں پر اعتراض کیا توپھر اللہ تعالیٰ نے اس کا ردّ بھی فرمایا۔ اسے پتہ تھا کہ ایسے واقعات ہونے ہیں، ایسے سوال اُٹھنے ہیں تووہ ایسے حالات پیدا کر دیتا تھا کہ اُن باتوں کا ردّ بھی سامنے آگیا۔
اسماء بنت نعمان بن ابی جَون کے بارے میں آتا ہے کہ عرب کی خوبصورت عورتوں میں سے تھیں۔ وہ جب مدینہ آئی ہیں تو عورتوں نے انہیں وہاں جا کر دیکھا تو سب نے تعریف کی کہ ایسی خوبصورت عورت ہم نے زندگی میں نہیں دیکھی۔ اُس کے باپ کی خواہش پر آپ نے اُس سے پانچ صد درہم حق مہر پر نکاح کر لیا۔ جب آپ اُس کے پاس گئے تو اُس نے کہا کہ مَیں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم نے ایک بہت عظیم پناہ گاہ کی پناہ طلب کی ہے اور باہر آ گئے اور اپنے ایک صحابی ابو اُسید کو فرمایا کہ اس کو اس کے گھر والوں کے پاس چھوڑ آؤ۔ اور پھر یہ بھی تاریخ میں ہے کہ اس شادی پر اُس کے گھر والے بڑے خوش تھے کہ ہماری بیٹی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئی لیکن واپس آنے پر وہ سخت ناراض ہوئے اور اُسے بہت برا بھلا کہا۔
 (ماخوذ از الطبقات الکبریٰ لابن سعدالجزء الثامن صفحہ318-319ذکر من تزوج رسول اللہ ﷺ …/اسماء بنت النعمان۔  داراحیاء التراث العربی بیروت 1996)
تو یہ وہ عظیم ہستی ہے جس پر گھناؤنے الزام عورت کے حوالے سے لگائے جاتے ہیں۔ جس کا بیویاں کرنا بھی اس لئے تھا کہ خدا تعالیٰ کا حکم تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو لکھا ہے اگر بیویاں نہ ہوتیں، اولاد نہ ہوتی اور جو اولاد کی وجہ سے ابتلا آئے اور جن کا جس طرح اظہار کیا اور پھر جس طرح بیویوں سے حسنِ سلوک ہے، خُلق ہے، یہ کس طرح قائم ہو، اس کے نمونے کس طرح قائم ہو کے ہمیں پتہ چلتے۔ ہرعمل آپ کا خدا کی رضا کے لئے ہوتا تھا۔
 (ماخوذ ازچشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23صفحہ نمبر300)
 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں الزام ہے کہ وہ بہت لاڈلی تھیں اور پھر عمر کے حساب سے بھی بڑی غلط باتیں کی جاتی ہیں۔ لیکن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ یہ فرماتے ہیں کہ بعض راتوںمیں مَیں ساری رات اپنے خدا کی عبادت کرنا چاہتا ہوں جو مجھے سب سے زیادہ مجھے پیارا ہے۔ 
(الدر المنثور فی التفسیر بالماثورلامام السیوطی سورۃ الدخان زیر آیت نمبر4 جلد7 صفحہ350 دار احیاء  التراث العربی بیروت2001ء)
پس جن کے دماغوں میں غلاظتیں بھری ہوئی ہوں انہوں نے یہ الزام لگانے ہیں اور لگاتے رہے ہیں، آئندہ بھی شاید وہ ایسی حرکتیں کرتے رہیں، جیسے کہ میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے جہنم کو بھرتا رہے گا۔ پس ان لوگوں کو اور ان کی حمایت کرنے والوں کو خدا تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ وہ اپنے پیاروںکے لئے بڑی غیرت رکھتا ہے۔    (ماخوذ از تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ نمبر378)
 اس زمانے میں اُس نے اپنے مسیح و مہدی کو بھیج کر دنیا کو اصلاح کی طرف توجہ دلائی ہے۔ لیکن اگر وہ استہزاء اور ظلم سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ بھی بڑی سخت ہے۔ دنیا کے ہر خطّے پر آجکل قدرتی آفات آ رہی ہیں۔ ہر طرف تباہی ہے۔ امریکہ میں بھی طوفان آ رہے ہیں اور پہلے سے بڑھ کر آ رہے ہیں۔ معاشی بدحالی بڑھ رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے آبادیوں کو پانی میں ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ ان خطرات میں گھری ہوئی ہیں۔ پس ان حد سے بڑھے ہوؤں کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پھیرنے کی ضرورت ہے۔ ان سب باتوں کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پھیرنے والا ہونا چاہئے نہ یہ کہ اس قسم کی بیہودہ گوئیوں کی طرف وہ توجہ دیں۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ زمانے کا امام تنبیہ کر چکا ہے، کھل کر بتا چکا ہے کہ دنیا نے اگر اُس کی آواز پر کان نہ دھرے تو ان کا ہر قدم دنیا کو تباہی کی طرف لے جانے والا بنائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام جو بار بار دہرانے والا پیغام ہے، اکثر پیش ہوتا ہے، آج پھر مَیں پیش کردیتا ہوں۔ فرمایا کہ: 
’’یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے۔ پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے۔ اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے۔ اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خُون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے۔ اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اُس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی۔ اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی۔ اور اس کے ساتھ اَور بھی آفات زمین و آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہانتک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیرمعمولی ہوجائیںگی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گا۔ تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے۔ اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ دن نزدیک ہیں بلکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اَور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی، کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے۔ یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمّت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں۔ اگر مَیں نہ آیا ہوتا تو اِن بلائوں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدّت سے مخفی تھے ظاہر ہوگئے۔ جیسا کہ خدا نے فرمایا  وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا (بنی اسرائیل:16)۔ اور توبہ کرنے والے امان پائیں گے۔ اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم اِن زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔ انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہوگا۔ یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے… اے یورپ! تُو بھی امن میں نہیں۔ اور اے ایشیا! تُو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ مَیں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدّت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چُپ رہا۔ مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوںسُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی اَمان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے…‘‘ فرمایا ’’نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے۔ توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے۔ جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی۔ اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ‘‘۔   (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ نمبر268-269)
اللہ تعالیٰ دنیا کو بھی عقل دے۔ مکروہ اور ظالمانہ کاموں کے کرنے سے بچیں۔ اور ہمیں بھی اللہ تعالیٰ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ 

(الفضل انٹرنیشنل مورخہ 12 تا18اکتوبر 2012 جلد 19 شمارہ 41 صفحہ5تا9)
مکمل تحریر >>

Monday 12 June 2017

ختم نبوت کے بارے میں جماعت احمدیہ کی تشریح





8 فروری 1987ء کو منعقدہ مجلس سوال جواب میں شامل ایک غیر احمدی دوست نے سوال کیا کہ:
’’مولوی صاحبان سے یہ سُنا ہے کہ مرزاصاحب کوحضرت محمدرسول اﷲ ﷺکے بعدآخری نبی کہاجاتا ہے ۔ اِس بات کی وضاحت فرمائیں؟
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اﷲ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ :۔
’’…… یہ بات توہے ہی غلط کہ نعوذ باﷲ من ذالک ہم حضرت مرزاصاحب کوآخری نبی کہتے ہیں۔بالکل جھوٹ ہے۔
ہمارامسلک یہ ہے کہ زمانے کے لحاظ سے آخری ہونا کوئی فضیلت کامقام نہیں ہے۔یہ بنیادی مسلک ہے ۔ اِس پرغورہوجائے پھرباقی بات ساری سمجھ آجائے گی۔
ہم کہتے ہیں اِنسان کااِتفاقاً زمانے کے لحاظ سے بعدمیں ہونا اَورآخری ہوناکوئی فضیلت کی وجہ نہیں ۔ اَگریہ فضیلت کی وجہ ہوتوسب سے آخری اِنسان جودُنیامیں مَرے اُس کوسب سے زیادہ معزز ہونا چاہئے۔لیکن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ قیامت اشرارالنّاس پہ آئے گی۔(السنن الواردۃ فی الفتنۃ للدّانی: باب ماجاء أن السّاعۃ تقوم علٰی اشرارالنّاس۔ دلیل الفالحین للطرق ریاض الصالحین: مقدمۃ الشارح باب : باب الخوف)۔ 
سب سے زیادہ شریر لوگ ، بدمعاش اَورگندے لوگوں پرقیامت آئے گی وہ آخری ہوں گے ۔توآخری اِتّفاقاً گندا بھی ہو سکتا ہے اَوراِتّفاقاً اچھا بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن آخری ہونا فی ذاتہٖ کوئی خوبی کی بات نہیں ہے۔کلاس سے ایک آخری لڑکا نکلتا ہے اُس میں کیاخوبی ہے ؟
ہاں مضمون کے لحاظ سے آخری ہوجس کے بعد اَور کوئی نہ آتا ہو۔ مرتبہ کے لحاظ سے آخری ہو، مقام کے لحاظ سے تویہ ایک ایسی شاندار فضیلت ہے جس کادُنیامیں کوئی معقول آدمی اِنکارنہیں کرسکتا۔ توہماری بحث یہ چلتی ہے دوسرے علماء سے ۔
 ہم کہتے ہیں کہ اَگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم فضیلت کے مقام میں آخری ہیں توہم سوفیصدی متفق ہیں۔ آنحضورؐکے بعد کِسی کامقام ہی کوئی نہیں سوائے خداکے۔ اَﷲ اَورمحمدمصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم۔ اَوراِنسانی مرتبے کے لحاظ سے اَگراُونچائی کاتصوّر کریں توسب سے آخرپرحضورِاَکرم صلی اﷲ علیہ و سلم دِکھائی دیں گے ۔ اَور اَگر اَولیّت کومرتبے کے لحاظ سے پہلے سمجھیں توسب سے اَوّل بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم دِکھائی دیں گے۔ 
چنانچہ اَوّل اَورآخررسولِ اَکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کے لئے جب قرآن میں یاحدیث میں اِستعمال ہوتا ہے تو مرتبے میں اِستعمال ہوتا ہے نہ کہ زمانے میں،کیونکہ زمانے میں آپؐ اَوّل نہیں تھے۔ اُس کے باوجود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اَبھی آدم اپنی تخلیق کی مٹی میں کروٹیں بدل رہا تھا مَیں اُس وقت بھی خاتم النّبیّین تھا۔
( مسند احمدبن حنبل ؒ: حدیث عرباض بن ساریہ :حدیث نمبر16700:جلد4 صفحہ127۔ الطبعۃ الاولٰی : بیروت لبنان)
قرآنِ کریم آپ کواَوّل قرار دیتا ہے۔حضرت اِبراہیم علیہ السّلام کے لئے بھی لفظ اَوّل قرآنِ کریم اِستعمال فرماتا ہے۔ توزمانے کااَوّل توبالکل اِتّفاقی حادثات کی بات ہوتی ہے۔ مرتبے کااَوّل ہونا اَصل مقام ہے ۔ پس اَگرہمارا زور ہی اِس بات پرہے تومسیحِ موعود ؑ کوآخری کہہ کے ہم حاصل کیا کرسکتے ہیں ؟ ہم توکہتے ہی یہی ہیں کہ اِتّفاقاً آخری ہونا حقیقت میں باعثِ فضیلت ہی نہیں ہے۔
دوسرے ہم یہ کہتے ہیں کہ آخری جہاں جہاں فضیلت کے معنے رکھتا ہے وہاں وہاں ہم سو فیصدی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کوآخری مانتے ہیں ۔ مثلاًکتاب کاآخری ہونااِن معنوں میں کہ اِس کے بعد کوئی شریعت نازل نہیں ہونی ۔ حرفِ آخرہونا آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کاکہ آپ کاحکم قیامت تک نہیں ٹوٹے گا۔ حرفِ آخر اِس کواُردو میں کہتے ہیں ۔last wordانگریزی میں کہتے ہیں کہ جس کے بعد کوئی شخص ، کوئی authorityایسی نہ آسکے جواُس کے حکم کوتبدیل کردے ۔ اُس کی شریعت آخر،اُس کاحکم آخر، اُس کی سُنّت آخر، اُس کادین آخر! اِن سارے معنوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کوآخری نبی اَور خاتم النّبیّین مانتے ہیں اَوراُس کے لئے عقلی دلائل رکھتے ہیں۔
 تویہ جھوٹااِلزام ہے ہم پر،نعوذباﷲ من ذالک، بالکل جھوٹا اِلزام ہے کہ ہم آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کوفضیلت کے مقام پرآخری نہیں مانتے ۔
ہرعزّت اَور فضیلت کے مقام پرہم آنحضرت صلی اﷲ علیہ سلم کوآخری مانتے ہیں اَوراِن معنوں میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السّلام نے بارباراپنے دعوے کی وضاحت فرمائی ہے ۔فرماتے ہیں ہم نے توجو کچھ پایا ہے اُس سے پایاہے۔ ؂
سب ہم نے اُس سے پایاشاہد ہے تُوخدایا
وہ جس نے حق دِکھایا وہ مَہ لِقا یہی ہے 
کہ ہم نے توسب محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کے وسیلے سے پایا ہے اَوراَے خدا! تُوگواہ ہے اِس بات کاکہ اپنی طرف سے نہ ہم کچھ لائے ، نہ ہمیں کوئی فضیلت حاصل ہوئی اَورجس نے حق یعنی خدا دِکھایا ہے وہ محبوبِ اَزلی یہی محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم ہیں۔اَوراِسی مضمون کاشعر ہے۔ ؂
اُس نورپرفِدا ہوں اُس کاہی مَیں ہوا ہوں
وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں ،بس فیصلہ یہی ہے
……’اُس نُورپرفِدا ہوں اُس کاہی مَیں ہوا ہوں‘۔ مَیں تومحمدمصطفی ﷺکے حُسنِ اَزل پر، اُس کے نُورپرفِدا ہوچکا ہوں اَوراُسی کاہوگیا ہوں ۔ ’وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ‘۔ وہی ہیں ، مَیں ہے ہی کچھ نہیں ، میرا وجود ہی اُس کے اَندرمٹ چکا ہے کامل طورپر۔ یہ دعویٰ ہے جس کونعوذباﷲ من ذالک، گستاخی کادعویٰ اَوربرابر کی نبوّت کادعویٰ اَورمقابلے کادعویٰ بنا کرمسلمانوں کو مولوی اِشتعال دِلاتے ہیں اَوراِن بیچاروں کونہ اَپنے دین کاپتہ نہ کِسی اَورکے دین کا پتہ، اصل بات یہی ہے۔……۔
خَاتَم کے معنی
خَاتَم کامعنیٰ جواَصل لفظ ہے قرآنِ کریم میں اُس کامعنیٰ جماعت احمدیہ مختلف طریقے پر پرکھتی ہے، بتاتی ہے اُن کواَوریہ دعویٰ کرتی ہے کہ خَاتَم کے ہرمعنے پرجوثابت شدہ ہیں ہم یقین رکھتے ہیں اَورآپ نہیں رکھتے۔یہ مقابلہ کررہے ہیں ہم تومولویوں سے ۔وہ ہماری بات آپ تک پہنچنے نہیں دیتے۔ پاکستان گورنمنٹ نے ساری کتابیں ضبط کرلی ہیں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی بھی اَوراِس مضمون پرجوبھی کچھ لکھا جاتا ہے اُسے ضبط کرلیتے ہیں۔اَگرہماری بات بودی تھی، جھوٹی تھی، کھوکھلی تھی توحکومت کواپنے خرچ پرہماری باتیں لوگوں تک پہنچانی چاہئیں تھیں۔وہ روکیں کیوں ڈال رہے ہیں؟ ڈرتے ہیں۔ پتہ ہے یہ بات پہنچی تولوگ مان جائیں گے ……۔
ایک غیراحمدی مولوی صاحب سے دلچسپ گفتگو
ایک دفعہ ایک مولوی صاحب ربوہ تشریف لائے ۔ کئی دفعہ ایسا ہوا مگرایک دفعہ ایسا ہوا۔…… پُرانی بات ہے۔ مَیں خلیفہ اُس وقت نہیں تھا۔…… مَیں نے اُن سے کہا کہ آپ مجھ سے ختمِ نبوّت پہ بحث کرنے کے لئے آئے ہیں پہلے اُصول طے کرلیں۔ کہتے ہیں، کرو۔ مَیں نے کہا مَیں اِس بات پرمناظرہ کروں گاکہ ختمِ نبوّت پرمَیں کامل یقین رکھتا ہوں اَورآپ نہیں رکھتے۔ وہ تو ہڑبڑا اُٹھے۔ یہ اُلٹی بات، مَیں اِن کومجرم کرنے کے لئے آیا ہوں اَوریہ مجھے کہہ رہا ہے ، ملزم کررہا ہے کہ تم یقین نہیں رکھتے۔کہنے لگے ، کرومناظرہ !
مَیں نے کہا پہلے آپ مجھے بتائیں کہ وہ کون سا معنیٰ ہے آپ کے نزدیک جس پرآپ سمجھتے ہیں کہ مَیں یقین نہیں رکھتا اَورآپ رکھتے ہیں۔کہتے ’سب نبیوں کوختم کرنے والا‘۔ مَیں نے کہا پکّے ہوجائیں اچھی طرح اِس پہ ۔ ’پکّے پَیریں‘ کہتے ہیں ناں پنجابی میں۔ کہنے لگے پکّے پَیریں، پکّا ہوگیا اِس بات پہ۔ مَیں نے کہااَب بتائیں کِس طرح نبیوں کوختم کیا؟سب کوکیا؟ کہتے ہاں جی سب کوکیا۔ مَیں نے کہاحضرت عیسیٰ ؑ اُن میں شامل تھے؟تھوڑا ساڈرے، کہنے لگے ہاں تھے شامل۔مَیں نے کہا ختم کِس طرح کرتا ہے ایک آدمی دوسرے کو؟یاجسمانی طورپرقتل کرتا ہے یااُس کافیض ختم کرتاہے۔ تیسراتوکوئی معنیٰ نہیں ختم کا۔آپ کہتے ہیں کہ حضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و سلم سے پہلے جتنے نبی گزرے تھے وہ اَپنی موت آپ مَر گئے تھے اَورحضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و سلم نے خود توقتل نہیں کیااُن کو۔test case صرف ایک باقی تھایعنی حضرت مسیحؑ، وہ اِتّفاقاً زندہ رہ گئے تھے۔اَورحضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و سلم اُن کوختم کرنے سے پہلے جسمانی معنوں میں آپ ختم ہوگئے۔اِتناشیطانی عقیدہ ہے ، اِتنا ظالمانہ عقیدہ ہے کہ آپ کے ترجمے کی رُو سے مسیحؑ خاتَم ہیں، نہ کہ حضرت محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم۔
 مَیں نے کہاآپ اَب یہ سوچئے۔ آپ پہلے پیدا ہوئے ہیں ۔( مسیحؑ بھی پہلے پیدا ہوئے ۔) آپ کاایک بیٹا آپ کے سامنے پیدا ہوتا ہے ، آپ کے سامنے فوت ہوجاتا ہے اَورآپ اُس سے چالیس سال بعدفوت ہوتے ہیں توآپ بعد میں فوت ہوئے ہیں یا وہ بعد میں فوت ہوا ہے۔پہلے بھی آپ اَوربعد میں بھی آپ۔ یہ ہے خاتمیّت!؟آپ کابیٹا آپ کے سامنے پیدا ہواچند دِن رہ کے مَرگیا وہ کہاں سے خاتَم بن گیا؟توحضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کے متعلق آپ کایہ گستاخانہ عقیدہ ہے کہ نام اُن کاخاتَم تھالیکن تھے مسیحؑ خاتَم۔ کیونکہ ایک وقت میں یہ دونبی زندہ تھے۔ایک ختم ہوگیا،(جسمانی معنیٰ جولے رہے ہیں،) اَوردوسراختم نہیں ہوا۔ وہ جاری رہا۔وہ بہت بعد میں جاکے ختم ہوگا۔ توخاتم وہ ہوگا جس نے اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کووفات پاتے دیکھ لیا،نہ کہ وہ جوپہلے مَرگیا۔
دوسرامعنٰی ہے فیض کا، فیض بند کردیا۔ مَیں نے کہاآپ بتایئے کہ جب اُمّتِ محمدیہ صلی اﷲ علیہ و سلم موت کے کنارے پہ پہنچ جائے گی، جان کنی کی حالت میں ہوگی، جب اُس کے بچنے نہ بچنے کی باتیں ہورہی ہوں گی اُس وقت کون آکے بچائے گااُس کو؟مسیحؑ آسمان سے آئے گااَوربچائے گاکہ نہیں؟کہتے ہاں۔مَیں نے کہافیض کہاں ختم ہوا اُس کا؟اُس نے توفیض جاری کردیااَپنااُمّتِ محمدیہ میں۔ محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اُمّت اُس کے زیرِاِحسان آگئی۔اَگرنہ وہ بچاتاتواُمّت ختم تھی۔ تومحسنِ اعظم کون ہوا؟فیض رَساں کون ہوا؟اَورکِس نے فیض قبول کیا؟ جس کی اُمّت کوبچانے والا باہرسے آیا وہ توہمیشہ کے لئے اُس کے زیرِاِحسان آگیا۔ اِتناظلم۔ بجائے اِس کے کہ فیض ختم کرتے، اُس کے فیض کے نیچے آپؐ آگئے؟ نعوذباﷲ من ذالک۔اَب بتایئے آپ خاتَم مانتے ہیں یامَیں خاتَم مانتا ہوں؟
کہتے نہیں ،نہیں اِس کا ایک اَورمطلب بھی ہے ۔ مطلب ذراسُنیں کیسا عجیب ہے ۔کہتے ہیں بعض دفعہ ایک ذلیل سے آدمی سے بھی فائدے اُٹھالیتے ہیں لوگ، اُس پراِحسان کرتے ہیں ۔ بادشاہ کسی سے خدمت قبول کرلیتے ہیں اَوراُن کااِحسان ہوتا ہے ۔ حضرت محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم توبادشا ہ ہیں ۔ مسیحؑ سے اُس پہ اِحسان کرکے خدمت قبول کرلی۔
 مَیں نے کہا مولوی صاحب فرضی باتوں سے بات نہیں بنے گی۔ذراغورسے اِس مضمون کوپھر سوچیں۔ ایک بادشاہ خواہ کتنا عظیم الشان بادشا ہ ہو اَگروہ بھوکا مَررہا ہوکِسی شکارمیں ، کِسی جگہ گھوم کرتوکوئی اَدنیٰ سے اَدنیٰ آدمی روٹی کاایک ٹکڑا دے کر اُس کی جان بچاتا ہے تووہ محسن بن جاتا ہے اَورہمیشہ کے لئے وہ بادشاہ اُس کے ممنونِ اِحسان ہوتا ہے ۔ کہتا ہے کہ جومانگومَیں دیتا ہوں ۔ بعض کہتے ہیں کہانیوں میں، آدھی سلطنت میں شریک کرلیتا ہوں۔ وقت پڑے پرجوخدمت کرتا ہے وہاں خدمت لینے والا زیر ِاِحسان ہوتا ہے نہ کہ خدمت کرنے والا۔وہ خدمت اَورہے کہ بادشاہ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اَورآپ ایک سبزپتہ بھی لے کے چلے جائیں توبادشاہ قبول کرتا ہے ۔ یہ تونہیں کہ اُس کواِس کافائدہ پہنچا ہے ۔وہ اِحسان کے طورپر خدمت قبول کرتا ہے ۔آپ یہ مضمون نہیں بیان کررہے ۔ آپ یہ اِیمان رکھتے ہیں کہ اَگرمسیحؑ نازل نہ ہوتواُمّتِ محمدیہ ختم ہوجائے گی ، ہلاک ہوجائے گی۔اَوراُس کوبچانے والااُمّت میں سے ایک بھی شخص نہیں۔ مہدیؔ آچکا ہے پھربھی نہیں بچی۔ پھربھی مسیح کی ضرور ت ہے اَورجب تک وہ غیرقوم کانبی نہ آئے اُس وقت تک یہ اُمّت بچتی نہیں۔ آپ کہتے ہیں یہ اِحسان ہوگیا۔اُس پراِحسان ہوگیا۔……یہ جوعقیدہ ہے ،اُمّتِ محمدیہ کوہمیشہ کے لئے ذلیل ورسوا کرنے والا عقیدہ ہے ۔اَورخاتم مسیحؑ کومانتا ہے جس کاآخری فیض دُنیانے دیکھا۔ 
اَب زمانے کے لحاظ سے بھی دیکھیں! اَگرمسیحؑ آگیا، وہ پرانا مسیحؑ آگیا تو مؤرّخ کیا لکھے گا کہ آخری رسول جس نے بنی نوع اِنسان کوعظیم الشّان فیض پہنچایاتھاوہ کون تھا؟مسیح اِبنِ مریمؑ۔ وہ آیااَوراُمّت کے دِن پھرے اَوراُمّتِ محمدیہ کوغالب کرگیاساری دُنیاپر، فیضِ عظیم عطاکرگیا۔اِس لئے خاتَم توپھروہی بنتے ہیں ۔مَیں نے کہاکہ اِن دومعنوں میں ختم کردیا۔ اَب آپ بتایئے کہ کون ہے ؟
ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ لازماً مرچکے تھے اَورہرنبی مَرچکاتھارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی بعثت کے وقت۔ اِس لئے آپؐ خاتمِ کُلتھے۔
نمبردو:ہم مانتے ہیں کہ ہرنبی کافیض بھی ختم ہوچکاتھاصرف ایک نبی کافیض جاری تھاجومحمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کافیض تھااَور قرآنِ کریم کی دوسری آیت خاتمیت کے اِس مضمون کوخود بیان کررہی ہے اَورشک سے بالا بیان کررہی ہے ۔اِس کے بعد آپ کے پاس ہم پراِلزام رکھنے کی کیا بات رہ جاتی ہے؟ وہ ہے وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا(النساء:70)۔ ختمِ نبوّت کا جواِعلان کرنے والے مولوی ہیں یہ آیت بتاتے ہی نہیں آپ کو،یہ چھپاکررکھ لیتے ہیں۔اُن کوپتہ ہے کہ یہ سامنے آئی توختمِ نبوّت کامضمون کھل جائے گا۔ ہمارا سارا دھوکہ فریب ختم ہوجائے گا۔
اِس آیت میں وہ اِعلان ہے جومَیں نے اَبھی بیان کیا ہے۔ اِس آیت کا مضمون سمجھنے سے پہلے ایک اَوربات بھی سمجھ لیں وہ بھی مَیں نے مولوی صاحب سے کی اَورآپ کے سامنے بھی رکھتاہوں کہ خاتم کواَگراِسم فاعل کے طورپرلیں، دوسروں کوختم کرنے والا ،توخودکشی کرنے والاتونہیں ناں بنے گا۔ تمام نبیوں کوختم کرنے والااَگراَپنے آپ کوبھی ختم کرلے پھرتوقصّہ ہی ختم ہوگیا۔پھرتوتعریف کی بات ہی نہ رہی۔ قاتل دوسرے کومقتول بناتا ہے ۔ ضاربِ دوسرے کومضروب بناتا ہے ۔مارنے والادوسرے کومارتا ہے ۔ جواَپنے آپ کومارنے لگ جائے وہ توپھرپاگل پن کامضمون شروع ہوجاتا ہے۔وہ توتعریف کامضمون ہی نہیں رہتا۔وہ آیت جو مَیں نے اَب پڑھی ہے اُس میں وہ جواب ہے ۔ وہ آیت بیان فرماتی ہیمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ جوکوئی بھی اَﷲ کی اَوراِس رسول کی یعنی محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اِطاعت کرے ۔ باقی سب نبیوں پراِیمان لانافرض، لیکن اِس آیت نے سب نبیوں کی اطاعت کااعلان کردیا۔ یہ نہیں فرمایامَنْ یُطِعِ الرُّسُلَ ۔ فرمایا جوکوئی بھی محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اطاعت ،اَﷲ کے بعداِس رسول کی اطاعت کرے گا۔ کیا ہوگااُس سے ؟ اَب آپ سوچیے، کیاہوناچاہئے؟کوئی جرم کیا ہے اُس نے ؟ سزاملنی چاہئے؟ کیاجواب ہے ؟ نہیں ، اِنعام ملنا چاہئے۔ جوشخص بھی اَﷲ کی اطاعت کرے ، محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی اطاعت کرے ۔ آگے اِنعاموں کااَوراَنوارکادروازہ کھل جانا چاہئے۔ 
اِس سے پہلے ایک اَورسوال بھی اُٹھادیتا ہوں اُس پربھی سادہ دِل سے ، صاف دِل سے غورکرلیں۔ پہلے بھی تولوگ اَﷲ کی اَورنبیوں کی اطاعت کیا کرتے تھے۔اُن کوبھی اِنعام ملا کرتے تھے۔سب کوملتے تھے۔اَب جب اَﷲ کہہ رہا ہے کہ جواَﷲ اَوراِس نبی کی اطاعت کرے گااُس کے بعد کیا یہ اعلان ہوگا کہ اُس کوپہلوں سے کم اِنعام ملیں گے یاکم اَز کم اُتنے ملیں گے ۔اَگرکہیں گے کہ کم اِنعام ملیں گے توپتہ چلے گاکہ سب نبیوں سے کمتَرنبی آیا ہے، نعوذباﷲ من ذالک۔پہلے تمام نبیوں کی پیروی خدا کی پیروی کے بعدہرقسم کے اِنعامات کاوارث کردیتی تھی ۔ مگرقرآن یہ اِعلان کررہا ہے کہ اِس نبی کی پیروی سارے اِنعام نہیں دے گی، کچھ رکھ لے گی اَورکچھ دے گی توکیاثابت ہوگا؟اعلیٰ نبی آیا ہے یانعوذباﷲ من ذالک کمترنبی آیا ہے؟
اَب دیکھئے یہ آیت کیااعلان کرتی ہے ۔ پھرمضمون کھل جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہیمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ۔ اَب صرف یہی لوگ ہوں گے جواِنعام پانے والوں میں شمار کئے جائیں گے۔ دوسروں کافیض بنداِس کاجاری۔ اَوراِنعام پانے والے گروہ میں اَب صرف یہی لوگ شمار ہوں گے جومحمدمصطفی صلی اﷲ علیہ و سلم کی پیروی کریں گے۔
 اَب تشریح رہ جاتی ہے۔ باقی کون سے اِنعام؟ سارے اِنعام یاچنداِنعام؟پیروی سے ملنے والے اِنعام کیا ہیں؟ فرمایا مِنَ النَّبِیّٖنَنبیوں میں سے، وَالصِّدِّیْقِیْنَاَورصدیقوں میں سے، وَالشُّھَدَآءِ اَورشہیدوں میں سے،وَالصَّالِحِیْنَاَورصالحین میں سے، وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًایہ رفاقت ہے جوسب سے حَسین رفاقت ہے ۔اُمّتِ محمدیہ ایسے لوگوں میں شمار کی جائے جہاں نبوّت کے اِنعام بھی مل رہے ہوں، صدیقیت کے بھی مل رہے ہوں،شہادت کے بھی مل رہے ہوں، صالحیت کے بھی مل رہے ہوں۔ یہ ہے شان۔ یہ اعلان کیا ہے اِس آیت نے۔ اَورعلماء کہتے ہیں، نہیں۔ اُن سے پوچھیں توکہیں گے یہ اعلان ہے کہمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ جوشخص بھی اَﷲ اَوراِس رسول کی اِطاعت کرے گااُسے وہ سارے اِنعام نہیں ملیں گے جوپہلے نبیوں کی اطاعت سے ملا کرتے تھے۔پہلے نبیوں کی اطاعت سے نبوّت مل جایا کرتی تھی ۔ اِس نبی کی اطاعت کی فہرست سے ہم نے نبوّت کاٹ دی ہے۔ صرف صدّیق، شہیداَورصالح بنانے والانبی آیا اَوراِس کی اُمّت میں اَب کبھی نبوّت قائم نہیں ہوگی۔ یہ اعلان کررہی ہے۔اَگریہ اعلان سچا ہے توپھرمرتبہ اُونچا ہوگایاکم ہوگا؟پہلے نبی گَر،نبی آتے رہے اَب صرف کمتَردرجہ دینے والا نبی آیا ہے۔ نعوذباﷲ من ذالک۔ اِتنا گستاخانہ تصوّر ہے اَورقرآن کی آیت اِس تصوّر کوجھٹلارہی ہے۔
اَگراُمّتی نبی بھی بند ہے ، یہ ہے مسئلہ صرف توجہاں اُمّتیوں کاذکرکیا ہے وہاں سب سے پہلے فہرست میں نبیوں کاذکرکیوں کردیا؟مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ۔اِنعام پانے والے لوگوں میں یہ لوگ ہیں۔ اَوراِنعام پانے والے کون ہیں؟فہرست کیاشمارکی؟مِنَ النَّبِیّٖنَپہلے نبیوں کانام رکھا۔اِس لئے جماعت احمدیہ کاعقیدہ ہی سچی اطاعت کاعقیدہ ہے۔ سچے عشقِ محمد مصطفی ؑکاعقیدہ ہے اَورخالصۃً قرآنِ کریم پرمبنی ہے۔ایک اَدنیٰ بھی فساد اِس عقیدہ میں نہیں ہے۔ اَورجویہ بیان کرتے ہیں اُن میں ذراچھان بین کرکے آگے بڑھیں آپ کوفساد نظرآجائے گا۔گستاخی نظرآجائے گی۔ ……‘‘
٭……٭……٭





مکمل تحریر >>

Saturday 10 June 2017

پردہ کے بارہ میں حضور انور کا خواتین سے تاریخی خطاب




پردہ کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب ، لجنہ اماءاللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر بتاریخ 19 نومبر 2006

تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔
آپ لوگ یہاں اپنا اجتماع منعقد کرنے کے سلسلے میں جمع ہیں، جس کا آج آخری دن ہے۔ان اجتماعوں کا انعقاد اس غرض سے کیا جاتا ہے تا کہ یہاں احمدی عورتوں اور بچیوں کو دینی تعلیم وتربیت کیلئے مل بیٹھ کر تعلیمی، تر بیتی اور اصلاحی تقاریر اور ہدایات سن کر اپنے اندر کی کمزوریوں کو دُور کرنے کا موقع ملے۔ بچیوں اور بڑی عمر کی لڑکیوں کو اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ مختلف علمی پروگراموں میں حصہ لے کر اپنی علمی صلاحتیوں کومزید نکھارنے کا موقع ملے، ایک خاص ماحول میسر ہو جس میں اپنی اصلاح کے مزید بہتر راستوں کی نشاندہی کریں اور ان کے بارے میں سوچیں۔ جس قوم کی بچیاں، نوجوان لڑکیاں، عورتیں اس سوچ کے ساتھ ایک جگہ جمع ہوں جہاں وہ خالص دینی اور روحانی ماحول میں رہ کر پروگراموں میں حصہ لینا چاہتی ہوں، اپنا وقت گزارنا چاہتی ہوں اور گزار رہی ہوں،اس قوم کی نہ تو نسلیں برباد ہوتی ہیں، نہ ان پر کبھی زوال آتا ہے۔ پس آج خا لصۃً اﷲ کی خاطر ان نیک مقاصد کیلئے اگر کوئی عورت جمع ہوتی ہے تو وہ احمدی عورت ہے۔ اس لئے ہمیشہ اپنے اس مقام کو یاد رکھیں۔
جو علمی اور روحانی مائدہ آپ نے یہاں سے حاصل کیا ہے اور کر رہی ہیں اس سے فائدہ اٹھائیں کہ اسی میں آپ کی بقا ہے، اسی میں آپ کی نسلوں کی بقا ہے، اسی میں آپ کے خاندانوں کی عزت اور ان کی بقا ہے۔ا نسا ن کو کبھی خو د غر ض نہیں ہو نا چاہئے کہ صر ف ا پنی فکر ر ہے، صرف ا پنی ضر و ر یا ت کا خیا ل ر کھتا ر ہے، صر ف ا پنے جذبا ت کا خیا ل ر کھے۔ بلکہ دو سر و ں کی بھی فکر ہو نی چاہئے ، د و سر و ں کی ضر و ر یا ت کی خا طر قر با نی کی سو چ ہونی چاہئے ، د و سر و ں کے جذ با ت کا خیا ل بھی ر ہنا چاہئے۔صر ف ا پنی عز ت کا نہیں سو چنا چاہئے بلکہ ا پنے خا ند ا ن ا و ر جما عت کی عز ت کا خیا ل بھی ہر و قت ذ ہن میں ر ہنا چاہئے ۔
یہ با ت بھی ہر و قت ذ ہن میں ر ہنی چاہئے کہ میرا ایک بصیر خدا ہے جو ہر و قت مجھے د یکھ ر ہا ہے، میرا ایک علیم و خبیر خدا ہے جس کی نظر کی گہرائی میر ے پاتال تک کا بھی علم رکھتی ہے، میر ے ا ند ر تک گئی ہو ئی ہے،میر ی ہر با ت کی ا س کو خبر ہے، اس لئے کو ئی با ت اس سے چھپی نہیں ر ہ سکتی۔ ا و ر جب ا س کی ہر با ت پر نظر ہے، ا س کو ہر با ت کا علم ہے، ا س کو میرے ا ند ر ا و ر با ہر کے پل پل کی خبر ہے تو پھر جب میں یہ ا علا ن کر تی ہو ں کہ میں ایک احمدی مسلمان عورت ہوں تو ہمیشہ آپ کو یہ خیا ل ر ہے کہ مجھے ا ن با تو ں کی طر ف تو جہ د ینی چاہئے جو خد ا تعا لیٰ نے ا پنے پیا ر ے نبی ﷺ کے ذریعہ ہم تک پہنچا ئی ہیں۔ اگر کبھی ہم ا ن با تو ں کو کسی و جہ سے بھو ل گئے تو جب بھی یاد کر و ا ئی جا ئیں تو پھر ا ﷲ کے نیک بندوں کی طرح ا ن سے ا یسا معا ملہ کر نا چا ہئے جیسے ا ﷲ کے نیک بند ے کرتے ہیں ا و ر جن کے با ر ے میں خد ا تعا لیٰ فر ما تا ہے کہ وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَ بِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَاصُمًّاوَّ عُمْیَاناً(سورۃ الفرقان:74) یعنی و ہ لو گ کہ جب ا ن کے رب کی آ یا ت ا نہیں یا د د لا ئی جا تی ہیں تو ا ن سے بہر و ں اور ا ند ھو ں کا معا ملہ نہیں کر تے۔ 
  تو یقینا احمد ی عو ر ت جس کے د ل میں نیکی کا بیج ہے جس نے ا سے ا بھی تک ا حمد یت پر قا ئم ر کھا ہو ا ہے، جو و فاؤں کی پتلی ہے، جو د ین کی خا طر قربانی کا فہم رکھتی ہے، جو خلافتِ احمدیہ سے عشق و محبت کا تعلق ر کھتی ہے، اسے جب نصیحت کی جا ئے تو ا ند ھو ں ا و ر بہر و ں کی طرح سلو ک نہیں کرتی۔ ا گر حقیقی ا حمد ی ہے ا و ر یہی ہر ا حمد ی سے ا مید کی جا تی ہے کہ اسے ہر نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ ا ند ھو ں ا و ر بہر و ں کی طرح کا سلوک ا س سے ہو۔ پس جیسا کہ میں نے کہا، ایک احمدی کی یہی سو چ ہو نی چاہئے کہ میں نے ا ن با تو ں کی طر ف توجہ دینی ہے جو ا ﷲ ا و ر ا س کے رسول ﷺ نے ہمیں بتا ئی ہیں او ر یہی ایک مو من کی نشا نی ا و ر ایک مو من کی شان ہے۔ آپ جو عہد کر تی ہیں ،ہمیشہ ا س عہد کو ا پنے سا منے رکھیں۔ 
د یکھیں جب آنحضر ت ﷺ نے عو ر تو ں سے عہدِ بیعت لیا تو ا س میں مر د و ں کے عہدِ بیعت سے ز ا ئد با تیں ر کھیں، جن کا قر آ نِ کر یم میں ذ کر ملتا ہے۔جس میں شر ک سے بچنے کی طر ف تو جہ ہے،بر ا ئیو ں سے بچنے کی طر ف تو جہ ہے، ا و لا د کی صحیح تر بیت کر نے کی طر ف توجہ ہے ا و ر فر ما یا وَ لَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ (الممتحنہ:13)کہ نیک باتوں میں تیر ی نا فر ما نی نہیں کریں گی۔ تو ا ﷲ تعا لیٰ کو ئی ز بر د ستی نہیں کر ر ہا کہ ہر ایک سے ز بر د ستی یہ (عہد) لو ۔ ہا ں اگر مسلمان ہو نے کے لئے آ ئی ہیں تو پھر ا ن شر ا ئط کی پابندی کر نی بھی ضر و ر ی ہے جو ا سلا م میں شا مل ہو نے کیلئے ضر و ر ی ہیں۔ 
حضر ت مسیح مو عو د بھی جب عو ر تو ں سے بیعت لیتے تھے تو یہی نصیحت فر ما یا کر تے تھے۔ پس بعض دماغوں میں خا ص طو ر پر ا س ما حو ل میں آ کے، آ ج کل کے معا شر ے میں ہر جگہ ہی جویہ خیا ل آ جا تا ہے کہ ہم آزا د ہیں تو یاد رکھیں کہ ایک حد تک آ ز ا د ہیں۔لیکن جہاں آ پ کے د ین کے، شر یعت کے ا حکا ما ت کا تعلق ہے و ہا ں آ ز ا د نہیں ہیں۔ اگر جما عت میں شا مل ہو ئے ہیں تو ا ن شرائط کی بہر حا ل پا بند ہیں جو ا یک ا حمد ی کیلئے ضر و ر ی ہیں۔ د یکھیں ا بتد ا ء میں آنحضرت ﷺ کے زمانے میں جب ان عو ر تو ں نے بیعت کی تھی تو وہ معا شر ہ با لکل آ ز ا د تھا ، اس میں کو ئی قا نو ن نہیں تھا،آ ج کی بر ا ئیو ں سے ز یا د ہ ان میں برائیا ں مو جو د تھیں،تعلیم کی کمی تھی، چند ایک مگر وہ بھی معمو لی سا پڑ ھی لکھی تھیں ۔خد ا کے و جو د کا کوئی تصو ر نہ تھا، وہ صر ف بتو ں کو جا نتی تھیں، یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ علیم و خبیر اور بصیر خد ا کیا ہے؟
لیکن جب بیعت کی تو ا پنی ز ند گیو ں میں ایک انقلاب پید ا کر لیا۔جہا لت کے ا ند ھیر و ں سے نکل کر جب ا سلا م کی ر و شنی حا صل کی تو علم کی ر و شنی پھیلا نے کا منبع ایک عو ر ت بن گئی،پر دے و غیر ہ کی تما م ر عا ئت کے سا تھ بڑوں بڑ و ں کو دین کے مسا ئل سکھا ئے ا ور آنحضرت ﷺ سے یہ سر ٹیفیکیٹ حا صل کیا کہ د ین کا آدھا علم ا گر حا صل کر نا ہے تو عا ئشہ سے حا صل کر و۔
  مید ا نِ جنگ میں ا گر مثا ل قا ئم کی تو ا پنے پر د ے کے تقد س کو قا ئم ر کھتے ہوئے، ا پنی جر أت و بہا د ر ی کا مظاہر ہ کرتے ہو ئے ر و میو ں کی فو ج سے اکیلی ا پنے قیدی بھا ئی کو آ ز ا د کر و ا کے لے آ ئی ا و ر تا ر یخ میں ا س عورت کا ذ کر حضر ت خولہ کے نا م سے آ تا ہے۔پھر مد ینہ پر جب کفا ر کا حملہ ہو ا تو مرد اگر خند ق کھو د کر شہر کی ا س طرف سے حفا ظت کر ر ہے تھے تو گھرو ں کی حفا ظت عورتوں نے ا پنے ذ مّہ لے لی ا و ر جب یہو د یو ں نے جاسوسی کرنے کیلئے ا پنا ایک آ د می بھیجا کہ پتہ کر و تا کہ ہم اس طر ف سے حملہ کر یں ا و ر مد ینہ پر قبضہ کر لیں تو مر د تو اس جا سو س کے مقا بلے پر نہ آ یالیکن عو ر ت نے ا س کو زخمی کر کے ، ما ر کے با ند ھ د یاا و ر ا ٹھا کر اس کو با ہر پھینک د یا۔
جنگِ اُحد میں مسلما نو ں کے پا ؤں ا کھڑ گئے تو ا س و قت عو ر تیں ہی تھیں جنہو ں نے د ین کی غیر ت میں ا و ر آنحضرت ﷺ کی محبت میں ایک مثا لی کر د ا ر ا د ا کیا ا و ر وفا کی ایک مثا ل قا ئم کر د ی۔ پس یہ طا قت، یہ جرأت، یہ وفا ،یہ علم ان میں اسلا م کی تعلیم پر عمل کر نے ا و ر ا سے اپنی زند گیو ں کا حصہ بنا نے کی و جہ سے آ یا تھا۔ ا س لئے ہمیشہ یا د ر کھیں کہ اگربے نفس ہو کر ا پنے د ین کی تعلیم کو ا پنے ا و پر لا گو کر یں گی ، ا ﷲ تعا لیٰ کے تما م ا حکا مات پر عمل کر نے کی کو شش کر یں گی، خدا تعا لیٰ کی عبا د ت کی طر ف تو جہ پید ا کر یں گی تو آ پ میں د ین کی غیر ت بھی پید ا ہو گی ا و ر و فا بھی پیدا ہو گی ا و ر آپ ہر قسم کے کامپلیکس (Complex) سے بھی آ ز ا د ہو جا ئیں گی۔ و ر نہ ا س د نیاکی ر نگینیو ں میں ڈ و ب کر د نیا د ا ر و ں کی طر ح غا ئب ہو جا ئیں گی۔
  پس جس طر ح آنحضر ت ﷺ کے ز ما نہ کی عورت نے ا پنے ا ند ر یہ ا نقلا ب پید ا کیا کہ حقیقی مسلما ت بنیں، مومنا ت بنیں، قا نتا ت بنیں، تا ئبا ت بنیں، عابدات بنیں،آ پ نے بھی ا گر ا ن کے نقشِ قد م پر چلنا ہے تو پھر ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہو ئے ا سلا م کی تعلیم کو ا پنے ا و پر لا گو کر نا ہو گا۔ا گر یہ لا گو نہ کیا تو پھر آ پ مسلما ن نہیں کہلا سکتیں،ا گر آ پ نے اپنے ا یما نوں میں مضبو طی پید ا نہ کی او ر معا شر ے کی بر ا ئیو ں سے ا پنے آ پ کو نہ بچا یا تو مومنات نہیں کہلا سکتیں، ا گر فرمانبردا ر ی کے ا علیٰ معیا ر قائم نہ کئے تو قا نتا ت نہیں کہلا سکتیں،ا گر تو بہ ا و ر عبا د تو ں کی طر ف ہر و قت تو جہ نہ ر کھی تو تا ئبا ت او ر عا بد ا ت نہیں کہلا سکتیں ۔
  پس ا پنے جا ئز ے لیں کہ د عو ے کیا ہیں ا و ر عمل کیا ہیں ، ا پنے آ پ کو خو د Assessکر یں ، ا پنے خو د جائزے لیں۔ ہمیشہ ا س مقصد کو سا منے ر کھیں جو ا نسا ن کی پید ا ئش کا مقصد ہے۔ ا ﷲ کی ر ضا حا صل کر ناآپ کا
 مطمح نظر ہو۔ ا پنے لئے بڑ ے بڑ ے Targets بنائیں کہ Goal بنا ئیں جن کو حا صل کر نا ہے۔ا علیٰ مقاصد کی نشاندہی کر یں جن کی طر ف بڑھنا ہے۔جب آپ کے سا منے Targets بڑ ے ہو ں گے تو پھرآ پ ان کو حا صل کر نے کیلئے حقیقی کو شش کر یں گی۔ لڑکیاں بھی اپنے جائزے لیں اور مائیں بھی ا پنے جا ئز ے لیں۔ اس سے آ پ ا پنی بھی ا صلاح کر سکتی ہیں ا و ر ا پنی نسل کی بھی اصلاح کر سکتی ہیں،بچوں کی تر بیت بھی ا چھے ر نگ میں کر سکتی ہیں۔آ ج معا شر ے میں ا سلا م کے خلا ف ہر طر ف حملے ہو ر ہے ہیں،آ ج ا س کے د فا ع کیلئے ہر احمدی بچی، ہر ا حمد ی لڑ کی ا و ر ہر ا حمد ی عو ر ت کو ا سی طر ح مید ا نِ عمل میں آ نے کی ضر و ر ت ہے جس طر ح پہلے زمانے کی عورت آ ئی یا قر و نِ ا و لیٰ کی عو ر ت آ ئی،و ر نہ پھر آپ پوچھی جا ئیں گی کہ تمہارے سپرد کا م کیا تھا ا و ر تم نے کیا کیا؟ تمہا ر ے د عو ے کیا تھے اور تمہا ر ے عمل کیا تھے؟ 
آ ج عو ر ت کے حو ا لے سے ا سلا م پر حملے ہو ر ہے ہیں، بڑا Issue آ جکل جو ا ٹھا ہو ا ہے وہ حجا ب یا اسکا ر ف یا برقعہ کا مسئلہ ہے۔ مرد ا س کی لاکھ و ضا حتیں پیش کر یں، جتنی مر ضی ا س کی تو جیہیں پیش کر یں کہ ا سلا م میں پردہ کیو ں کیا جاتا ہے، جتنی مر ضی ا س کی Justification پیش کر یں اس کا صحیح جو ا ب ا گر کو ئی د ے سکتی ہے تو و ہ ایک با عمل ا و ر نیک احمد ی عو ر ت د ے سکتی ہے۔ پس بجائے کسی کا مپلیکس(Complex) میں مبتلا ہو نے کے، جر أتمند مسلما ن ا حمد ی عو ر ت کی طر ح ا پنے عمل سے ا و ر د لا ئل سے اس با ت کو ا پنے ماحو ل میں ، ا پنے معا شر ے میں پہنچا ئیں کہ یہ قرآ نی حکم ہما ر ی عز تو ں کیلئے ہے، ہما را شرف بحا ل کر نے کیلئے ہے، یہ کو ئی قید نہیں ہے۔ 
ا ن لو گو ں کی حا لت بھی د یکھ لیں۔ ایک طر ف تو یہ لو گ ا سلا م پر ا عتر ا ض کر تے ہیں کہ اس میں جبر ہے، سختی ہے، او ر د و سر ی طر ف خو د بھی کسی کے ذ ا تی معا ملا ت میں د خل ا ند ا ز ی کر رہے ہیں۔ ا گر کو ئی عو ر ت ا سکا ر ف لینا چاہتی ہے، حجاب لینا چا ہتی ہے تو ا ن سے کو ئی پو چھے کہ تمہیں کیا تکلیف ہے؟آ جکل کیو نکہ عمل تو ر ہا نہیں جنہوں نے حضر ت مسیح موعود کو نہیں ما ناا ن مسلما ن عور تو ں کی ا کثر یت پر د ہ نہیں کر تی تو ا سلا م ا نہیں کو ئی سز ا نہیں د یتا،کو ئی قا نو ن ا نہیں سز ا نہیں دے ر ہا۔ لیکن جو دین کی تعلیم پر عمل کر تے ہو ئے پر د ہ کر تی ہے اس پر کسی دو سر ے مذ ہب و ا لے کا کیا حق ہے کہ کہے کہ سخت قا نو ن بنا نا چا ہئے تاکہ و ہ پر د ہ نہ کر ے، اسکا ر ف نہ لے، سر نہ ڈھانپے۔ کل کو کہہ د یں گے کہ یہ تمہا ر ا لبا س ٹھیک نہیں ہے، شلو ا ر نہیں پہننی، فر ا کیں پہنو یا جین پہنویا میکسی یا کوئی ا یسی چیز پہنو ،ہمیں ا عتر ا ض ہے ا و ر پھر ا س پر بھی اعتر ا ض شر و ع ہو جا ئے گا ۔ پھر یہ کہہ د یں گے کہ چھو ٹی فرا کیں پہنو، اس طرح کی پہنو اور پھرمنی ا سکر ٹ پہنو ، پھر ننگے ہو جا ؤ۔ 
تو ا ن لو گو ں کا کسی عورت کی عزت سے کھیلنے کا کو ئی حق نہیں بنتا۔ یہ آ پ لو گ ہیں جنہو ں نے جو ا ب د ینے ہیں کہ تم کسی کے ذ ا تی معاملا ت میں د خل د ینے و ا لے کون ہو؟ ا ن سے پو چھیں کہ یہ بھی تو آ ز ا د ی سلب کر نے و ا لی با ت ہے۔ کسی کا لبا س ا س کا ذ ا تی معا ملہ ہے۔ یہ کیوں ا س کے لبا س پہننے کی آ ز ا د ی کو ختم کر نے کی کو شش کر ر ہے ہیں۔لیکن کیو نکہ ان کی حکو متیں ہیں،دنیا میں آجکل ا ن کا سکّہ چلتا ہے ا س لئے نا جا ئز ا و ر احمقا نہ باتیں کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑ ی عقل کی با ت کی ہے۔تو احمد ی عو ر ت نے ا پنی عز ت بھی قا ئم کر نی ہے ا و ر ہر ا یسے اعتر ا ض کا جو ا ب بھی د ینا ہے۔ ا س کیلئے تیا ر ہو جائیں۔
بعض عو ر تیں ا حمد ی کہلا کر بھی پتہ نہیں کیو ں کسی کامپلیکس(Complex) کا شکا ر ہو جا تی ہیں ۔ کسی نے بتا یا کہ ا یک عو ر ت نے کہا کہ میر ی بیٹی ا گر اسکا ر ف نہیں پہنتی یا جین ا و ر د و سر ا لبا س پہنتی ہے تو ا سے کچھ نہ کہو،وہ بڑ ی ڈ یسنٹ(Decent) ہے۔
ڈ یسنٹ کیو ں ہے؟ کہ ا س کی لڑ کو ں سے د و ستی نہیں ہے۔و ہ آ ز ا د ہے ،ا پنا ا چھا بر ا جا نتی ہے۔ تو یہ تو بچوں کی تر بیت خر ا ب کر نے والی بات ہے۔آ ج ا گر دوستی نہیں ہے تو کل کو د و ستی ہو بھی سکتی ہے، آ ج ا گر کسی برائی میں مبتلا نہیں ہے تو ا سی آ ز ا د ی سے فائدہ اٹھا تے ہوئے کسی بر ا ئی میں مبتلا ہو بھی سکتی ہے۔ا گر و ہ آ ز ا د ہے، ا پنا ا چھا برا جا نتی ہے ا و ر ا س با ت پر آ ز ا د ہے کہ اسلامی حکم یا قرآنی حکم پر دے پر عمل نہ کر ے تو پھر جما عت بھی آ ز ا د ہے،نظا مِ جما عت بھی آ ز ا د ہے،خلیفہ ٔو قت سب سے زیاد ہ اس کا حق رکھتا ہے کہ ا یسے لو گو ں کو پھر جما عت سے با ہر کر دے جنہو ں نے قرآنِ کریم کے بنیا د ی حکم کی تعمیل نہیں کرنی۔
اگر آپ ایک د نیا و ی کلب بھی جا ئن(Join) کرتے ہیں تو ا س کی بھی ممبر شپ کے کو ئی قو ا عدو ضو ا بط ہو تے ہیں۔ ا گر ا ن کو پو ر ا نہ کر یں تو ممبر شپ ختم ہو جا تی ہے۔ تو د ین کا معا ملہ تو خد ا کے سا تھ ایک با نڈ (Bond)ہے ایک عہدِ بیعت ہے۔ ا گر ا س کی و ا ضح تعلیم کے خلا ف عمل کر یں گی ا و ر اس کی تعلیم پر عمل کر نے سے ا نکا ر کر یں گی تو پھر ا گر آ پ کی لڑ کی کو یا آ پ کو یہ حق حاصل ہے کہ پر د ہ نہ کر یں تو پھر مجھے بھی یہ حق حا صل ہے ،اسی حق کی و جہ سے جو آ پ کو حا صل ہے کہ پھر ا یسے نافر ما نو ں کو جماعت سے نکال کربا ہر کر د و ں۔ مَیں تو ا ﷲ تعالیٰ کے حکم کی و جہ سے ا یسا کر و ں گا، ا س لئے کسی کو کو ئی شکو ہ بھی نہیں ہو نا چاہئے۔ یہاں میں ا نتظا میہ کو بھی یہ بتادوں کہ پہلے Stepمیں یہ جا ئز ہ لیں کہ کو ئی لڑ کی، کو ئی ایسی عورت عہد ید ا ر نہ ہو جو پر د ہ نہ کرتی ہو ا و ر ا گر با پر د کا م کر نے و ا لی نہیں ملتی تو ا س مجلس کو جس مجلس میں کام کرنے والی کو ئی بھی ا یسی نہیں ہے جو با پر د ہو کسی سا تھ کی مجلس کے سا تھ Attachکر د یں یا کوئی باپرد چاہے کم علم ر کھنے و ا لی ہو تو ا س کو کام سپر د کر د یں۔ا گر اس مجلس میں کوئی بھی نہیں ملتا جو ا سلا می حکم کہ’ ا پنے سر ا و ر با ل اور زینت کو ڈ ھا نپو‘ پر عمل کر ر ہی ہو ا و ر قر یب کو ئی مجلس بھی نہ ہو تو پھر ایسی مجلس کو ہی بند کر د یں۔ ا وّ ل تو مجھے امید ہے کہ یہ جو میں نے ا نتہا ئی صو ر ت پیش کی ہے ا یسی خو فنا ک شکل کہیں نہیں ہو گی۔ انشا ء ا ﷲ تعا لیٰ۔
 اﷲ کے فضل سے جما عت میں نیکیو ں میں آ گے بڑھنے و ا لی بے شما ر خو ا تین ہیں۔ ا گر بڑ ی عمر کی عو ر تو ں میں سے نہیں تو نوجو ا ن بچیوں میں سے مَیں د یکھ ر ہا ہوں کہ ا یسی ہیں جو منا فقت سے پا ک ہیں،جو کسی قسم کی منافقت نہیں کر تیں۔ بعض ا پنے گھر کے ما حو ل کی و جہ سے ایسی ہو ں گی لیکن بہت ساری ا یسی ہیں جو ا پنے بڑوں سے ز یا د ہ نیکیو ں پر قا ئم ہیں۔ کوشش کر تی ہیں کہ حجاب لیں،حیا ر کھیں۔ ا یم ٹی اے کیلئے ایک پر و گر ا م ا نہو ں نے بنا یا ہے جو ا بھی د کھا یا نہیں لیکن مَیں ر یکا ر ڈنگ د یکھ رہا تھااس میں ہما ر ی ا یک بچی نے جو ٹیچر بھی ہے، جب سکو ل میں حجا ب کا مسئلہ آ یا تو یہ کہا کہ مَیں سکول میں بھی سر ڈھانکوں گی کیو نکہ مَیں بچو ں کو سکو ل میں یہ نہیں سکھا نا چا ہتی کہ مَیں نے منا فقا نہ ر و یّہ یا د و ہر ا معیا ر ر کھا ہوا ہے۔ بچے مجھے با ہرا سکا ر ف میں د یکھ لیں گے تو کہیں گے کہ سکو ل میں کیو ں نہیں لیتی، سکول میں سر کیو ں نہیں ڈھا نکتی؟ و ہا ں ایک Discussion یہ بھی ہو ر ہی تھی کہ پرائمری سکول میں چھوٹے بچو ں کو پڑ ھا نے و ا لی ہماری ایک ٹیچر ہے و ہ سر نہیں ڈھانپتی۔ ٹھیک ہے جہا ں چھو ٹے بچے ہو ں ،عو ر تیں ہوں بے شک نہ ڈ ھا نپیں، کوئی حرج نہیں۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ جس بچی نے کہا کہ مَیں سکو ل میں بھی سر ڈھانکوں گی، اس کے سکول میں بڑے بچے ہوں۔
تو بہر حا ل پر د ہ ایک ا سلا می حکم بھی ہے ا و ر ایک احمد ی عو ر ت ا و ر نو جو ا ن لڑ کی کی شا ن بھی ہے ا و ر اس کا تقدّ س بھی ہے کیونکہ ا حمد ی عو ر ت کا تقدّ س بھی اسی سے قائم ہے،ا س کو قا ئم ر کھنا ضر و ر ی ہے۔ لیکن یا د ر کھیں کہ اسکا ر ف کے سا تھ نچلا لبا س بھی ڈھیلا ہونا چا ہئے۔
 اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ز ینت نظر نہ آ ئے۔بعض
 غیر ا ز جماعت لڑکیاں نظر آ جا تی ہیں، ا نہو ں نے اسکارف تو شاید ا س ری ا یکشن(Reaction) میں لیا ہو تا ہے کہ ہمیں کیو ں ا سکا ر ف لینے سے ر و کا جا رہا ہے۔ لیکن ان کا جو لباس ہوتا ہے وہ Tight جین ا و ر بلا ؤز پہنے ہوتے ہیں۔ ا س پر د ے کا کو ئی فا ئد ہ نہیں،و ہ تو منا فقت ہے۔ پر د ہ ایسا ہو جو پر د ہ بھی ہو ا و ر وقار بھی ہو۔
پھر مجھے پتہ چلا ہے کہ ایک جگہ عورتیں بیٹھی ہو ئی تھیں تو ایک عہد ید ا ر عو ر ت نے د و سر ی کو کہا کہ حالات کی وجہ سے ا ب پر د ے میں ہمیں کچھRelaxہو نا چاہئے، ا تنی سختی نہیں کر نی چا ہئے۔ٹھیک ہے Relax
ہو جا ئیں تو جس طر ح مَیں نے پہلے کہا ہے کہ پھر وہ ا پنا حق استعما ل کر یں ا و ر مَیں ا پنا حق ا ستعما ل کر و ں گا۔ یہ تو نہیں ہے کہ آ پ ا پنے حق لیتی رہیں او ر میرا حق کہیں کہ تم استعمال نہ کرو۔ میں نے تو بہر حا ل ا س حکم کی پا بند ی کروانی ہے انشاء اﷲ تعالیٰ، جو قرآنِ کر یم میں ا ﷲ تعالیٰ نے ہمیں د یا ہے۔ نہیں تو جیسا کہ مَیں نے کہاد ر و ا ز ہ کھلا ہے جو جا نا چا ہتا ہے چلا جا ئے۔ 
  مجھے یہ سمجھ نہیں آ تی کہ یہ کا مپلیکس (Complex) کس و جہ سے ہے،کیسا ہے، کیو ں ہے؟ یہا ں کی لو کل برٹش عو ر تیں بھی ہیں، یورپ میں ا و ر جگہ بھی ا حمد ی ہو تی ہیں، لڑکیا ں بھی ہیں، جما عت میں د ا خل ہو ر ہی ہیں۔ انہو ں نے تو اسکا ر ف پہننا شر و ع کر د یا ہے،ا پنے سر ڈھانکنے شر و ع کر د ئیے ہیں ا و ر آ پ لو گو ں میں سے بعض ا یسی ہیں جو ا حسا سِ کمتر ی کا شکا ر ہو ر ہی ہیں۔ا بھی کل ہی یہا ں کی ایک ا نگر یز لڑ کی جو چند د ن پہلے ا حمد ی ہو ئی ہے مجھے ملی ہے، اس کو تو اسکا ر ف یا حجا ب کی کوئی عادت نہیں تھی لیکن اس نے بڑ ا ا چھا حجا ب لیا ہو ا تھا۔ یہ لوگ تو ا س خو بصو ر ت تعلیم پر عمل کر نے کیلئے ا سے قبو ل کر ر ہے ہیں او ر ہما ر ی بعض خو ا تین ا حسا سِ کمتر ی کا شکا ر ہیں ا س پر سو ا ئے اِ نَّا لِلّٰہِ کے ا و ر کیا کہا جا سکتا ہے۔ 
اگر کسی کے ذ ہن میں یہ خیا ل ہوکہ ا س طر ح سختی سے جما عت کم ہو گی،جما عت سے لو گ د وڑ نا شر و ع ہو جائیں گے تو یا د ر کھیں کہ جما عت کم نہیں ہو گی۔ ا یسی تما م عو ر تیں بھی ا گر چھو ڑ د یں تو ا ﷲ میا ں کا و عد ہ ہے اور ا س کے مطا بق وہ نئی قومیں عطا فر ما ئے گا۔ یہا ں کے بر ٹش لوگو ں میں سے بھی جو عو ر تیں آ ئی ہیں، احمدی ہوئی ہیں بڑی مخلص ہیں ا و ر آ ئند ہ بھی ان لو گو ں میں سے ہی آ پ دیکھیں گی کہ قطر ا تِ محبت ٹپکیں گے جو اسلا م او ر ا سلام کی تعلیم سے محبت کر نے و ا لے ہو ں گے۔ا بھی جس کا میں نے ذ کر کیا ہے کہ کل ہی مجھے ملی ہیں ا و ر بہت ساری ا یسی ہیں، اس وقت یہا ں میرے سامنے بیٹھی ہوئی ہیں جو خو د احمد ی ہو ئی ہیں ا و ر پھر احمدیت میں تر قی کر تی چلی گئیں۔ یہا ں آ پ کی صد ر صا حبہ ہیں یہ بھی تو پا کستا نی نہیں ، جرمن ہیں ،پر د ہ کر تی ہیں ، بر قعہ پہنتی ہیں ا ن کو تو کو ئی کامپلیکس نہیں۔تو جیسا کہ مَیں نے ذ کر کیا ہے و ہ خا تو ن جو شاید عہد ید ا ر بھی ہے، وہ پر د ے میں Relaxہو نا چاہتی ہے۔ ا صل با ت جو مَیں سمجھتا ہوں یہ ہے کہ بنیا د ی طو ر پر و ہ اعتراض مجھ پر کر نا چا ہتی ہے کہ مَیں پردے کے معاملہ میں سختی کر تا ہو ں۔ا س قسم کے لو گ جو گو ل مو ل باتیں کر تے ہیں یہ بھی منا فقا نہ حر کت ہے ، پس ا پنے آپ کو سنبھا لیں۔ ا و ر ا ن نئی ا حمد یو ں سے میں کہتا ہوں جو ا ن قو مو ں میں سے آ ر ہی ہیں کہ ا گر یہ پید ا ئشی احمد ی ا پنے پر ا سلا می تعلیم لا گو نہیں کر نا چا ہتیں تو ان کو نہ دیکھیں، آ پ آ گے بڑ ھیں ا و ر ا ن لو گو ں کیلئے نمونہ بن جائیں ا و ر آ گے بڑ ھ کر ا سلا م ا و ر ا حمد یت کے حسن او ر خوبیو ں کو ا س ما حو ل میں پھیلا ئیں۔
پر د ہ ا و ر حیا ہر ز ما نے میں، ہر مذ ہب کی تعلیم ر ہی ہے۔ حضر ت مو سیٰ کے و قت میں بھی قر آ ن کریم میں جن د و عورتوں کا ذکر ہے کہ وہ ایک طر ف کھڑ ی تھیں، اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا رہی تھیں تو وہ پردہ اور حیا کی وجہ سے ہی کھڑی تھیں کہ مر د جب فا ر غ ہو جا ئیں گے تب ہم آ گے جا ئیں گی۔
پس حیا کو ا یما ن کا حصہ سمجھیں ا و ر یہی ہمیں سکھا یا گیا ہے۔عیسا ئی عو ر تیں شر و ع ز ما نے میں پر د ہ کر تی تھیں، اپنے لبا س ڈھا نکے ہو ئے پہنتی تھیں،با ئبل میں پردے کی یہ تعلیم کئی جگہ د ر ج ہے۔ا گرآ ج عیسا ئی پر د ہ نہیں کر ر ہے جن کو د یکھ کر آ پ متا ثر ہو ر ہی ہیں تو و ہ ا پنے د ین کو بھو ل ر ہے ہیں۔ا گر ا پنے د ین کو یا د ر کھیں ،ا س پر عمل کر یں توبیشما ر بر ا ئیا ں جو ا ن لوگو ں میں ر ا ہ پا گئی ہیں وہ ختم ہو جا ئیں۔ یہا ں میں آ پ کی تسلی کیلئے، جن لوگو ں کو کا مپلیکس ہے ا ن کیلئے با ئبل میں سے چند حوالے پیش کر د یتا ہو ں، ایک حوالہ ہے:۔
ـ’’عو ر ت مرد کا لبا س نہ پہنے ا و ر نہ مر د عو ر ت کی پوشاک پہنے کیو نکہ جو ا یسے کا م کر تا ہے و ہ خداوند تیر ے خد ا کے نز د یک مکر و ہ ہے۔‘‘(استثناء باب 22آیت 5)
ا س کی ٹر انسلیشن میں شاید دقّت پیش آ ئے ا س لئے مَیں اصل ا نگلش versionبھی پڑ ھ د یتا ہو ں۔ 
"A woman must not wear men's clothing, nor a man wear women's clothing, for the Lord your God detests anyone who does this."(Deuteronomy 22:5)
پھر با ئبل میں لکھا ہے:۔
"حسن د ھو کا ا و ر جما ل بے ثبا ت ہے۔ لیکن و ہ عو ر ت جو خد ا و ند سے ڈ ر تی ہے ستو د ہ ہو گی۔"
(امثال باب 31آیت 30) 
ا س کا ا نگلش تر جمہ یہ ہے:۔
"Favour is deceitful, and beauty is vain: but a woman that feareth the Lord, she shall be praised."( Proverbs 31:30)
پھر ایک جگہ لکھا ہے:۔
’’ا سی طر ح عو ر تیں حیا د ا ر لبا س سے شر م ا و ر
 پر ہیز گا ر ی کے سا تھ ا پنے آ پ کو سنو ا ر یں نہ کہ بال گو ندھنے اور سونے اور موتیوں اور قیمتی پو شا ک سے۔بلکہ نیک کا مو ں سے جیسا خد ا پر ستی کا ا قر ا ر کر نے و ا لی عو ر تو ں کو منا سب ہے۔‘‘(۱۔ تیمتھیس باب 2آیت 10,9)
"ٰI also want women to dress modestly, with decency and propriety, not with braided hair or gold or pearls or expensive clothes, but with good deeds, appropriate for women who profess to worship God." (Timothy 2:9-10)
پھر ایک ہے:۔
’’جو مر د سر ڈ ھنکے ہو ئے دعا یا نبو ت کر تا ہے و ہ اپنے سر کو بے حر مت کر تا ہے ا و ر جو عو ر ت بے سر ڈھنکے دعایا نبوت کرتی ہے و ہ ا پنے سر کو بے حر مت کر تی ہے کیونکہ و ہ سر مُنڈی کے بر ا بر ہے۔ ا گر عو ر ت او ڑ ھنی نہ اوڑھے تو بال بھی کٹائے۔ اگر عو ر ت کا با ل کٹا نا یا سر منڈ ا نا شر م کی بات ہے تو ا و ڑھنی اوڑھے۔ ا لبتہ مر د کو ا پنا سر ڈ ھا نکنا نہ چاہئے کیو نکہ و ہ خد ا کی صور ت ا و ر ا س کا جلا ل ہے مگر عورت مر د کا جلال ہے۔‘‘
(1۔ کرنتھیوں باب 11آیت 4 تا 7) 
تو اسلا م پر تو یہ لو گ ا عتر ا ض کر تے ہیں۔ ا س کے علا و ہ یہ ضمنی با ت بھی آ گئی کہ مر د کو عو ر ت سے
Superior تو یہ لو گ سمجھتے ہیں۔کیو نکہ مر د کا ا پنا ایک مقا م ہے عو ر ت کا مقا م نہیں۔ تو بہر حا ل یہ تو ضمنی با ت تھی، ا س و قت تو بحث نہیں ہو سکتی۔ ا س کا ا نگلش Version یہ ہے کہ:۔
"Any man who prays or prophesies with something on his head,disgraces his head, but any woman who prays or prophesies with her head unveiled disgraces her head. It is one and the same thing as having her head shaved. For if a woman will not veil herself, then she should cut off her hair; but if it is disgraceful for a woman to have her hair cut off or to be shaved, she should wear a veil. For a man aught not to have his head veiled, since he is the immage and reflection of God; but woman is the reflection of man."
(Corinthians 11: 4 - 7) 
تو یہ سب د یکھنے کے بعد آ پ لو گو ں کو مضبو ط ہو نا چاہئے، مز ید مضبو ط ہو نا چاہئے کہ آ پ تو ا پنی تعلیم پر عمل کر نے والی ہیں جو ا سلام کی خو بصو ر ت تعلیم ہے ا و ر جو زند ہ خد ا کے سا تھ تعلق جو ڑ نے و ا لی ہے۔جبکہ یہ مغر بی معا شر ہ مذ ہبی د یو ا لیہ ہو چکا ہے، ا پنے د ین کی ہد ا یا ت کو بھلا بیٹھا ہے۔پس ا ن کو کہیں کہ ہما ر ے خلا ف با تیں کرنے کی بجا ئے، مضمو ن لکھنے کی بجا ئے، قا نو ن بنا نے کی بجا ئے، بیا ن د ینے کی بجا ئے ا پنی فکر کر و، ہما ر ے سر ننگے کر نے کی بجا ئے جو ہم ا پنی خو شی سے ڈھا نپتی ہیں، اپنی تعلیم کے مطا بق ا پنی عو ر تو ں کے سر ڈ ھا نپو۔ 
  پس مَیں د و با ر ہ یہ کہتا ہو ں کہ بجا ئے یہ کہنے کے کہ پر د ہ میں نر می کر و یا مجھے ڈ ھکے چھپے ا لفا ظ میں یہ کہنے کے کہ پر د ہ کے معا ملہ میں سختی کر تا ہے ،ا پنے ا حسا سِ کمتری کو ختم کر یں جن میں بھی یہ ا حسا سِ کمتر ی ہے ا و ر اس تعلیم پر عمل کر یں جو اﷲ تعا لیٰ نے ہمیں د ی ہے۔ اﷲ تعا لیٰ نے مر د ا و ر عو ر ت د و نوں کو بر ا ئیو ں سے بچنے کی تلقین کی ہے۔مر د کو عو ر ت سے پہلے ا س با ت کی تلقین کی ہے کہ ا پنی نگا ہیں نیچی ر کھو، ا پنی نظر یں نیچی ر کھو۔ پھر عورت کو حکم د یا ہے کہ نظر یں نیچی ر کھو۔ ا و ر مر د میں عورت کی نسبت کیونکہ بیبا کی زیادہ ہو تی ہے ا س لئے عو ر ت کو حکم د یا کہ گو کہ نظر نیچی ر کھنے ا و ر شر م گا ہو ں کی حفا ظت کرنے کا د و نو ں کو حکم ہے تا ہم مر د کی فطر ت کی و جہ سے تمہا ر ے لئے بہتر یہ ہے کہ تم ا پنی ز ینت کو ڈ ھا نکو تا کہ مرد کی بے محابا ا ٹھی ہو ئی نظر سے بچ سکو۔
بعض لو گ یہ بھی ا عترا ض کر تے ہیں کہ پہلے خلفا ء نے پر د ہ کے با ر ہ میں ا تنی سختی نہیں کی تھی تو چند حو ا لے و ہ بھی میں آ پ کے سامنے رکھ دیتا ہوں تا کہ تسلی ہو جائے۔
حضر ت مسیح مو عو د فر ما تے ہیں:۔
’’یو ر پ کی طر ح بے پر د گی پر بھی لو گ ز و ر د ے رہے ہیں لیکن یہ ہر گز منا سب نہیں۔ یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجو ر کی جڑ ہے۔ جن مما لک نے ا س قسم کی آز ا د ی کو ر و ا ر کھا ہے ذ ر ا ا ن کی اخلاقی حا لت کا ا ند ا ز ہ کرو۔ ا گر ا س کی آ ز ا د ی اور بے پر د گی سے ا ن کی عفت او ر پا کد ا منی بڑھ گئی ہے توہم ما ن لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں ۔ لیکن یہ با ت بہت ہی صا ف ہے کہ جب مر د ا و ر عورت جو ا ن ہو ں ا و ر آزاد ی ا و ر بے پر د گی بھی ہو تو ا ن کے تعلقا ت کس قد ر خطر نا ک ہو ں گے۔ بد نظر ڈ ا لنی ا و ر نفس کے جذبا ت سے ا کثر مغلو ب ہو جا نا ا نسا ن کا خا صہ ہے۔ پھر جس حا لت میں کہ پر د ہ میں بے ا عتد ا لیا ں ہوتی ہیں ا و ر فسق و فجو ر کے مر تکب ہو جا تے ہیں تو آ ز ا د ی میں کیا کچھ نہ ہو گا۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ104، جدید ایڈیشن) 
پھر حضر ت خلیفۃ ا لمسیح ا لثا نیؓ کا بھی ا س با ر ہ میں ایک بیان ہے، فر ما تے ہیں:۔
’’ شر عی پر د ہ جو قر آ ن شر یف سے ثا بت ہے یہ ہے کہ عو ر ت کے با ل، گر د ن ا و رچہر ہ کا نو ں کے آ گے تک ڈھکا ہو ا ہو۔ ا س حکم کی تعمیل میں مختلف مما لک میں اپنے حا لا ت ا و ر لبا س کے مطا بق پر د ہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
(الفضل مؤرخہ 3؍ نومبر 1924ء) 
  پھر فر ما تے ہیں کہ:۔
’’ہا تھ کے جو ڑ کے ا و پر(ہاتھ کا اشارہ کر کے بتایا کہ ’’یہاں سے‘‘) سا ر ے کا سارا حصہ پر د ہ میں شا مل ہے۔‘‘
 (الازھار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ 150) 
پھر حضر ت خلیفۃ ا لمسیح ا لثا لث ؒ کا بیا ن بھی بڑا سخت ہے، یہ بھی غور سے سن لیں۔ نا ر و ے میں لجنہ سے خطا ب کرتے ہو ئے فر ما یا تھا:۔
’’میں ا یسی خو ا تین سے جو یہاں پر د ہ کو ضر و ر ی نہیں سمجھتیں پو چھتا ہو ں کہ ا نہو ں نے پر دہ کو ترک کر کے ا سلا م کی کیا خد مت کی ہے …………آ ج بعض یہ کہتی ہیں کہ ہمیں یہا ں پر د ہ نہ کر نے کی ا جا ز ت د ی جا ئے۔پھر کہیں گی کہ ننگ دھڑ نگ سمند ر میں نہانے ا و ر ر یت پر لیٹنے کی ا جا زت دی جائے۔پھر کہیں گی شا د ی سے پہلے بچہ جننے کی ا جا ز ت د ی جا ئے۔ مَیں کہو ں گا پھر تمہیں دوزخ میں جانے کیلئے بھی تیا ر ر ہناچاہئے…… و ہ ا پنے آپ کو ٹھیک کر لیں قبل ا س کے کہ خد ا کا قہر نا ز ل ہو۔‘‘
(دورہ مغرب اگست 1980ء صفحہ 239,238) 
حضر ت خلیفۃ ا لمسیح الر ا بعؒ فر ما تے ہیں کہ:۔
’’……کیو نکہ میں محسو س کر ر ہا تھا کہ د نیا میں ا کثر جگہ پر د ہ ا س طر ح غا ئب ہو ر ہا ہے کہ گو یا اس کا وجو د ہی کوئی نہیں ا ور اس کے نتیجے میں جو ا نتہا ئی خو فنا ک ہلا کتیں سا منے کھڑ ی قو م کو آ نکھیں پھاڑے دیکھ ر ہی ہیں، ا ن ہلاکتو ں کا کو ئی ا حسا س نہیں ہے۔ما ں با پ ا پنی بے عملی او ر غفلتو ں کے نتیجے میں اپنی نئی نسلو ں کو ا یک معا شر تی جہنم میں جھو نک ر ہے ہیں ا و ر کو ئی نہیں جو ا س کی پر و ا ہ کرے۔یہ صورتِ حا ل سا ر ی د نیا میں ا تنی سنگین ہو تی جار ہی ہے کہ مجھے خیا ل آ یا کہ ا گر ا حمد یو ں نے فوری طور پر اسلام کے دفاع کا جھنڈ اا پنے ہا تھ میں نہ لیا تو معا ملہ حد سے آ گے بڑ ھ جا ئے گا…………‘‘۔
پھر آ پ نے فر ما یا:۔
’’…………پھر ا یسی خو ا تین ہیں جن کو با ہر تو نکلنا پڑتا ہے لیکن و ہ سنگھا ر پٹا ر کر کے نکلتی ہیں۔ ا ب کا م کا سنگھا ر پٹا ر سے کیا تعلق ہے؟…………‘‘۔
پھر آ پ فر ما تے ہیں:۔
’’…………عو ر تیں سمجھتی ہیں کہ اگر ہم ا س د نیا میں جہا ں سے پر د ے ا ٹھ ر ہے ہیں ا پنی سہیلیو ں کے سامنے بر قع پہن کر جا ئیں گی تووہ کہیں گی کہ یہ ا گلے و قتو ں کی ہیں، پگلی ہیں، پا گل ہو گئی ہیں ، یہ کو ئی برقعو ں کا ز ما نہ ہے او ر یہی بات مر د و ں کو بھی تکلیف د یتی ہے۔ حا لا نکہ و ہ اس بات کو بھو ل جا تے ہیں کہ عز تِ نفس ا و ر د و سر ے کا کسی کی عز ت کر نا ا نسا ن کے ا پنے کر د ا ر سے پید ا ہو تا ہے۔د نیا کی نظر میں لبا س کی کو ئی بھی حیثیت نہیں ر ہتی۔ اگر کو ئی آ د می صاحبِ کر د ا ر ہو تو ا س کی عز ت پید ا ہو تی ہے ا و ر یہ عزت سب سے پہلے ا پنے نفس میں پید ا ہو نی چا ہئے۔‘‘
(خطبات طاہر جلد اوّل صفحہ 361تا 367) 
پھر آ پ نے فر ما یا:۔ 
’’یہا ں پر و ر ش پا نے و ا لی بچیا ں اپنے سر کے بالوں کے بارے میں ایک ذ ہنی ا لجھن میں مبتلا ہیں۔و ہ سمجھتی ہیں کہ با لو ں کو ڈھانک کر رکھنا ایک د قیا نو سی با ت ہے (بڑ ی Backwardness ہے)۔ا س لئے و ہ اﷲ تعالیٰ کی طر ف نیم دلی سے قد م ا ٹھا تی ہیں نہ کہ بشاشتِ قلبی سے۔ و ہ د ر ا صل یہ کہہ رہی ہوتی ہیں کہ اے خدا توہمیں ا سی طو ر سے قبو ل فر ما لے کہ ہم د و پٹہ ا و ڑ ھے ہو ئے ہیں مگر ا س طور سے جس طور سے یہودی اپنے سر کی پشت پر ایک چھوٹی سی" چپنی نما "ٹوپی پہنے ہو ئے ہو تا ہے۔پس تو اپنی طر ف ا ٹھا ہو ا یہ ا دھو ر ا قد م بھی قبو ل فر ما لے۔ لیکن ا گر آپ سب کچھ خد ا کی خا طر کر تی ہیں تو پھر یہ بالکل نا منا سب ہے۔یا د ر کھیں کہ عو ر توں کے خد و خا ل کا سب سے دلکش حصہ ا ن کے با ل ہو تے ہیں، بالخصوص جب کہ و ہ سا منے کی طر ف لٹکے ہو ئے ہو ں۔بعض لڑکیوں کو مَیں نے د یکھا کہ جب و ہ د و پٹہ ا پنے سر پر کھینچتی ہیں تو ا یسے طر یق سے کہ جس سے ا ن کے با ل سا منے کی طر ف جھک آئیں……۔ (آ پ یہ د یکھیں کہ) کیا مَیں خد ا تعا لیٰ کی ز یا د ہ پر و ا ہ کر تی ہو ں یا ا نسا نو ں کی؟‘‘
(بچوں کی اردو کلاس مؤرخہ 06.06.98) 
تو یہ تھے مختلف خلفا ء کے ا و ر حضر ت مسیح مو عود کے بیا ن۔ بعض لو گو ں میں جو یہ سو چ پید ا ہو گئی ہے کہ فلاں خلیفہ نے تو ا یسا نہیں کہا تھا ا و ر فلا ں خلیفہ کہہ ر ہا ہے۔ تو پہلی با ت یہ ہے کہ آ پ لو گ بغیر علم کے خلفا ء پر بد ظنی کر ر ہی ہیں کہ نعو ذ با ﷲ وہ ا ﷲ تعا لیٰ کے بنیا د ی حکم پر عمل نہیں کر و ا نا چا ہتے تھے۔ جتنے خلفا ء پہلے گز ر ے ہیں میں نے سب کا بیا ن پڑھ د یا تا کہ آ پ لو گو ں میں سے جس کسی کے ذ ہن میں بھی یہ غلط فہمی یا خنّا س تھا تو وہ د و ر ہو جا ئے۔ 
د و سر ی با ت یہ کہ بعض حا لا ت میں کو ئی خلیفہ کسی بات پر ز یا د ہ ز و ر د یتا ہے ا و ر کو ئی کسی با ت پر۔ اس لئے یہ کہنا کہ پہلے خلیفہ نے ا س با ر ہ میں یہ با ت کی تھی، تم بھی اس با ر ے میں ا سی طر ح کر و یہ تو خلا فت کو پا بند کر نے والی با ت ہے ا و ر اس کی بے ا د بی ہے ا و ر یہ ظا ہر کر تی ہے کہ آ پ نے بیعت صر ف معا شر ے کے د با ؤ ، ما ں با پ کے د با ؤ ، خا و ند کے د با ؤ یا بچو ں کے د با ؤ کی و جہ سے کی ہے،د ل سے نہیں کی ۔ ا گر د ل سے بیعت کی ہوتو تما م معرو ف فیصلو ں پر عمل کر نے کا جو عہد آپ نے کیا ہے و ہ آ پ کے سا منے ہو ا و ر کبھی ا یسی با ت نہ نکلے کہ یہ فیصلہ کیوں کیا ا و ر یہ فیصلہ کیو ں نہیں کیا؟میں پھر و ا ضح کر د و ں کہ و ہ چند ایک لو گ میر ے ز یا د ہ مخاطب ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں، سارے نہیں کہ اگر حضرت مسیح مو عو د کی جما عت سے منسلک ر ہنا ہے تو قر آنِ کر یم او ر حضرت محمد ﷺ کے و ا ضح ا حکا ما ت کی پا بند ی کر نی ہو گی ۔پھر جیسا کہ حضر ت خلیفۃ ا لمسیح ا لر ا بعؒ نے فر ما یا تھا د و عملی نہیں چلے گی۔ یا خد ا سے ڈ ر یں یا بند ے سے ڈ ر یں۔
پس آ ج ہر احمد ی عو ر ت کی غیر ت کا تقا ضہ یہ ہے کہ بجا ئے لو گو ں سے ڈ ر نے کے آ ج جبکہ ا س معاشرے میں اسلا م کے خلا ف نفر تو ں کے بیج بو ئے جا رہے ہیں، طو فانِ بد تمیز ی پید ا کر نے کیلئے فضا ہمو ا ر کی جا ر ہی ہے ، اعلان کر کر کے ہر ا یک کو بتا ئیں کہ تم چا ہے جتنی مر ضی پابند یا ں لگا لوہما ر ے د لو ں سے ، ہما ر ے چہرو ں سے، ہمار ے عملو ں سے ا س خو بصو ر ت تعلیم کو نہیں چھین سکتے اور ا گر تم لو گ مذ ہب سے د و ر جا ر ہے ہو، د و ر ہٹ رہے ہو، تبا ہی کے گڑ ھے میں گر ر ہے ہو تو ہم تمہارے سا تھ اس جہنم میں گر نے کیلئے تیا ر نہیں ہیں۔ بلکہ ہم د عا کر تے ہیں کہ خد ا تعا لیٰ ا نسا نیت کو ا پنے بر ے کرتوتو ں ا و ر عملو ں کے بھیا نک ا نجا م سے بچا ئے۔آ ؤ او ر ہما ر ے سا تھ شامل ہو جا ؤ۔ا و ر ہما ر ے سا تھ شا مل ہو کر ا ﷲ کے حکموں پر عمل کر تے ہو ئے ا س کی ر ضا حاصل کر نے کی کو شش کروکہ ا سی میں تمہا ر ے د لو ں کا سکو ن اور تمہا ر ی نسلو ں کی بقا ہے۔ مجھے ا مید ہے کہ ہر با غیر ت احمدی عو ر ت جس کے د ل میں کبھی ہلکا سا بھی اﷲ تعا لیٰ کے کسی حکم کے با ر ے میں کو ئی شائبہ پید ا ہو تا ہے و ہ ا س کو ا پنے د ل سے نو چ کر با ہر پھینک دے گی ا و ر حقیقی مسلمات، مو منا ت، قانتا ت، تا ئبا ت ا و ر عابدات میں شا مل ہو جا ئے گی۔ اﷲ کرے کہ ا یسا ہی ہو۔ آ مین۔
اﷲ تعالیٰ آپ سب کو خیریت سے اپنے اپنے شہروں میں لے کر جائے،گھروں میں لے کر جائے۔ اﷲ حافظ و ناصر ہو۔
 ( الفضل انٹرنیشنل 5 جنوری تا 11 جنوری 2007 )

مکمل تحریر >>

حقیقی اسلامی پردہ



حقیقی اسلامی پردہ 
(حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے ایک انگریزی مضمون سے ترجمہ کیا گیا )
" کلکتہ کے ایک عیسائی اخبار میں ایک نہایت ہی شرمناک خط چھپاہے جس نے اسلامی دنیاکے احساسات کو سخت صدمہ پہنچایا ہے ۔کاتب خط نے اس پردہ کومدنظر رکھتے ہوئے جوکہ بعض لوگوں کاخود ساختہ ہے اور قرآن کریم کی تعلیم اور آنحضرت ﷺکاعمل کہیں بھی اس کی تائید نہیں کرتا، قرآن کریم کی تعلیم اور بانیٔ اسلام کے مقدس ذات پرنہایت غیر مہذبانہ اورشرافت سے گرے ہوئے حملے کئے ہیں ۔ ہم ہمیشہ سے ایسے دلآزار اعتراضات عیسائی صاحبان سے سنتے چلے آئے ہیں مگر غضب تویہ ہے کہ جو کچھ بھی صاحب مذکور نے ہمارے آنحضرت ﷺکی ذات اور قرآن کریم کی تعلیم کے متعلق لکھا ہے۔اس کی بنا عیسائی صاحبان نے اس نامکمل اور فاسد علم پر رکھی ہے جو ان کو اسلام کی تعلیم کے متعلق ہے۔ ہم اس ظلم کی شکایت جو انہوں نے ہمارے محبوب و مقدس آقا کی پاک ذات پر فحش اعتراض کرکے کیاہے کسی دنیوی گورنمنٹ سے نہیں کرتے۔ بلکہ ہم اپنا مقدمہ 
رب العالمین کی درگاہ میں پیش کرتے ہیں(کہ ہمارے آقا مسیح موعودؑ نے بھی ایک موقع پر یہی کہا تھا۔ میں دنیا میں مقدمات کرنے کے لئے نہیں آیا)۔
ہم اس حملہ کو جو کہ اس نے آنحضرت ﷺ پر کیاہے نظرانداز کرتے ہوئے اس کے اعتراضات کوجو اس نے پردہ پر کئے ہیں نقل کرتے ہیں۔ وہ لکھتاہے:
’’جب ہم کسی مسلمان کو پردہ کے عملی نقائص اور برائیوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو کہ اس کا نتیجہ ہیں اور اس بنیاد اور وجہ کی کمزوری کو جس پر پردہ کی تمام عمارت کھڑی ہوئی ہے ظاہر کرتے ہیں ۔ تو ہمارے سامنے قرآن کریم کو پیش کرتے ہوئے کہتاہے کہ میرے لئے یہ ناممکن ہے کہ میں اس تعلیم میں جو کہ قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ نے ہمیں دی ہے کوئی نقص نکالوں۔مگر ایک معاملہ فہم اور دوراندیش انسان پر فوراً اس دلیل کی بیہودگی ظاہر ہو جاتی ہے ۔یہ کیسا صریح ظلم ہے کہ انسانیت کے ایک طبقہ کو ان تمام حقوق اور فوائد سے محروم کر دیا جاوے جو کہ دوسرے طبقہ کو حاصل ہیں۔ دونوں طبقوں کے درمیان ایک قسم کی دیوار حائل ہے ۔ کتنی بے گناہ جانیں ہیں جو کہ اس منحوس رسم پر دہ پر عمل کرنے کے باعث قبر کا منہ دیکھ چکی ہیں۔ ان بے چاریوں کو سالہاسال تک ایک محدود جگہ میں رہنا پڑتاہے اور ان کی عمر کابہت سی حصہ اس زہریلی ہوا میں گزرتاہے جو کہ ان کی صحت کے لئے مہلک ہوتی ہے۔ میں تو جب چاہوں اور جہاں چاہوں اپنی صحت کے قیام کے لئے جا سکتاہوں ۔ میں تو تمام پبلک نمائشیں اور تھیٹر دیکھوں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ میری لڑکی یابیوی یا بہن میرے ساتھ جا سکے ؟ اس سے بڑھ کر بے ہودہ اور شرمناک تعلیم کیا ہو سکتی ہے اگر کوئی تہذیب سے گری ہوئی رسم دنیا میں ہے تو یہی رسم پردہ ہے‘‘۔
یہ ہے وہ اعتراض جو کہ پردہ پرکیا گیاہے اور اس سے ظاہر ہے کہ کیسی قابل افسوس ناواقفیت اس کو قرآن کریم کی تعلیم سے ہے ۔ وہ مذکورہ بالا پردہ کو قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرتاہے مگر تمام قرآن کریم کو چھان مارو، آنحضرت ﷺکی احادیث کو ایک ایک کرکے دیکھ جاؤ تم کوایک حدیث اور ایک آیت بھی ایسی نہیں ملے گی جو کہ ایسے پردہ کی تعلیم دیتی ہو جس کا حوالہ ہمارے عیسائی دوست نے دیاہے۔ اگراس کے خیال باطل میں کوئی ایسی آیت یا حدیث ہے توہم ڈنکے کی چوٹ سے کہتے ہیں کہ وہ اس کو دنیا کے سامنے پیش کرے۔ قرآن کریم جس پردہ کا حکم دیتاہے وہ مختصراً ذیل میں درج کیا جاتاہے۔
’’مومن مردوں کو کہہ دو کہ غض بصر سے کام لیں اور اپنے فروج کی حفاظت کریں اس طرح سے پاکیزگی قلب میں ترقی کریں گے ۔ اﷲ تعالیٰ کوعلم ہے اس کاجووہ کرتے ہیں اور اسی طرح ایمان والی عورتوں کو بھی کہہ دو کہ وہ اپنی آنکھوں کو نیچا رکھا کریں اور اپنے فروج کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کیاکریں مگر ہاں جو محبوراً ظاہر ہو اور وہ گریبانوں کو اپنی چھاتیوں پررکھیں اور اپنی زینت کو سوائے اپنے خاوند، والد ، اپنے خاوند کے والد، اپنے بیٹے یا اپنے خاوند کے لڑکوں ، اپنے بھائی ، اپنے بھتیجے ، اپنے بھانجے یا اپنی خاص عورتوں یا اپنی لونڈیوں یا ایسے مردوں سے جن کو عورتوں کی ضرورت نہیں یا ان بچوں کوجو ابھی سن بلوغت کو نہیں پہنچے کسی پر ظاہر نہ کریں۔ اور وہ چلتے وقت اپنے قدم کوزور سے زمین پر نہ ماریں تا کہ ان کی پوشیدہ زینت زیور وغیرہ ظاہرہوں اور اﷲ تعالیٰ کی طرف اپنی تمام توجہ کو لگا دو ۔ اے ایمان والو تا کہ اس کے نتیجے میں تم کوخوشی اور کامیابی حاصل ہو‘‘۔
یہ ہیں وہ احکام جن پر اسلامی پردہ کی بناہے اور ان کی مختصر تشریح یہ ہے :
۱……اس حکم کا اثر مرد وعورت دونوں پر یکساں ہے اور یہ حصۂ پردہ صرف عورتوں کے لئے مخصوص نہیں بلکہ مرد بھی اس میں شامل ہیں۔
۲……انہیں اپنے فروج کی حفاظت کرنی چاہئے ۔ اس حکم میں بھی مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔
۳…… انہیں اپنی( عام رائے یہ ہے کہ اس سے مراد ہاتھ اور چہرہ ہے ) زینت ظاہر نہیں کرنی چاہئے مگر ہاں جو محبوراً ظاہر کرنی پڑتی ہے ۔
۴……انہیں اپنے گریباں اپنی چھاتیوں پر ڈالنے چاہئیں۔
۵……چلتے ہوئے انہیں اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہیں مارنے چاہئیں تاکہ ان کے زیورات ظاہر نہ ہوں۔
یہ ہے وہ پردہ جس کا اسلام حکم دیتاہے۔ اور ہر ایک پڑھنے والے پر یہ بات واضح ہے کہ اس اسلامی پردہ میں جو کہ اوپر ذکرکیاگیاہے اس پردہ کا نشان تک نہیں پایاجاتا جس پر صاحب مذکور نے اظہار نفرت کیاہے اورجس کو اپنی کم علمی کے باعث آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کی طرف منسوب کیاہے ۔ اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ عورتوں کو قیدیوں کی طرح علیحدہ مکانوں میں رکھا جائے اور نہ ہی یہ چاہتاہے کہ وہ اپنے گھر کی چاردیواری میں ہی محبوس رہیں۔ ان کو آزادی ہے کہ وہ ضرورت کے وقت باہر جائیں اوراپناکام کریں ہاں ان کو کچھ احتیاطات کرنے کاحکم ہے جو کہ موجب ہیں پاکدامنی اور پاکیزگی کا اورجن کے مدنظر ایک نہایت ہی پاکیزہ مقصدہے اس مقصد کا ذکر اسی آیت میں ہی پایا جاتاہے جس میں احکام پر دہ مذکورہیں اور وہ یہ ہے کہ تا کہ وہ زیادہ پاکیزہ ہوں۔
پس اسلامی پردہ کا واحد مقصد دل کو تمام برے خیالات سے پاک اور محفوظ رکھنا ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ پردہ صرف عورتوں کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کا احاطہ مردوں کوبھی گھیرے ہوئے ہے کیونکہ اسلامی پردہ کے دو حصے ہیں ۔نگاہوں کو نیچا رکھنااور ہاتھ اور چہرے کے علاوہ باقی تمام زینت کو پوشیدہ رکھنا ۔
پہلے حصہ میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں اور دوسرا حصہ جیسا کہ مضمون سے ظاہر ہے صرف عورتوں کے لئے مخصوص ہے۔
اسلام کی تعلیم کی خصوصیات میں سے ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ برائی کو جڑ سے اکھیڑتا ہے یعنی جذبات کے ابھرنے کے موجبات اور مسببات کوہی بند کر تاہے۔ اسلام مسلمانوں کو صرف یہ نہیں سکھاتا کہ تم جذبات اور شہوات کامقابلہ کرو بلکہ وہ سکھاتاہے کہ تم ان باتوں سے بھی اجتناب اختیار کرو جو سبب ہوتے ہیں شہوات اور جذبات کے ابھرنے کا۔
مذکور ہ بالا اسلامی پردہ اسی اصول پر مبنی ہے اور یہی مقصد اس کے مدنظر ہے۔ اسلامی پردہ محض صفائی قلب کے لئے ہے ۔ اگر یورپ اور دوسرے عیسائی ممالک میں اس پر عمل ہوتا تو وہ برائیاں جو آجکل ………… پائی جاتی ہیں اس سے بچ جاتے اورتمام وہ برے نتائج جس کو وہ بھگت رہے ہیں اورجنہوں نے انسانی خوشنماچہروں پر ایک دھبہ لگایاہواہے اس سے محفوظ رہتے۔ یہ بھی خوب ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اسلامی پردہ عورتوں کی جائز آزادی میں مخل نہیں ہوتا۔ وہ کام کے لئے اپنے گھروں سے باہر جا سکتی ہیں۔ وہ اپنی صحت کے قیام کے لئے سیر یاکوئی اورورزش کما ل آزادی سے کر سکتی ہیں۔
اورتمام وہ باتیں جو ان کو محفوظ کرتی ہیں بشرطیکہ وہ ان کی پاکدامنی کا خون نہ کریں ان میں وہ پوری آزادی سے حصہ لے سکتی ہیں۔ وہ لیکچروں میں شامل ہو سکتی ہیں ، وہ تمام کاروبار کر سکتی ہیں، وہ بیماروں کی تیمارداری کر سکتی ہیں خواہ وہ بیمار مرد ہو یا عورت۔ وہ دوران جنگ میں بطور دایا کے کام کر سکتی ہے ۔ وہ ہر ایک با ت جو ان کی پاکدامنی کے خلاف نہیں ہے مذکورہ بالا پردہ میں رہ کر کرسکتی ہیں او ر سچ تو یہ ہے کہ اسلام میں عورتوں کو اپنی مغربی ممالک کی بہنوں سے بہت زیادہ حقوق حاصل ہیں۔مگر ان احتیاطات کے ساتھ جو کہ میں نے اوپر ذکر کر دی ہیں اور بعض وہ احتیاطیں آدمیوں پر بھی لازم ہیں۔
پس یہ احتیاطات اور قیود عورتوں کے لئے لعنت نہیں جیساکہ عیسائی صاحبان کا خیال ہے بلکہ بہت بڑی برکات کا موجب ہیں ۔ اگر یورپ اور دوسرے ممالک چاہتے ہیں کہ ان برکات کا ان کوعلم ہو اور وہ اس میں حصہ لے سکیں تو وہ ان کو ایک دفعہ آزما کر تو دیکھیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جو احتیاطات اسلام نے عورتوں کے لئے رکھی ہیں وہ واحد علاج ہیں ان برائیوں کاجس میں آج یورپ کی سوسائٹی مبتلا ہے ۔
یورپ کی نجات اسی پرموقوف ہے کہ وہ اسلامی احکام پر عمل پیرا ہو اور وہ دن دور نہیں ہیں کہ جب یورپ مجبورہوگا کہ نجات حاصل کرنے کے لئے اسلام کے سکھائے ہوئے راستہ پر قدم زن ہو۔
اسلامی تاریخ پرنظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے
 کہ وہ حد سے بڑھی ہوئی قیود کو جن میں بعض مسلمان ممالک کی عورتیں آج کل مقید ہیں ۔ آنحضرت ﷺ کے زمانہ مبارک میں کہیں ان کانام ونشان تک نہ تھا ۔حفضہ بن سیرین جو کہ آنحضرت ﷺکے زمانہ کے بعد ہوئیں وہ فرماتی ہیں:
’’آج ہم اپنی لڑکیوں کو عید کے دن باہر جانے نہیں دیتے مگرایک عورت آئی جو کہ بنی خلف کے محل میں آ کر اتری۔ میں اس کو دیکھنے کے لئے گئی۔ اس نے مجھے بتایاکہ اس کابہنوئی آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہو کر بارہ جنگوں میں لڑا۔ چھ میں اس کی بہن اپنے خاوند کے ساتھ جنگ میں شامل تھی اور چھ میں نہیں تھی۔ اور اس عورت نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ہم جنگوں میں جایاکرتی تھیں اور بیماروں کی تیمارداری اور زخمیوں کہ مرہم پٹی کیاکرتی تھیں ۔ اس عورت نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ سے سوال کیاگیا کہ اگرایک عورت کے پاس کوئی سامان پردہ یعنی چادر وغیرہ نہ ہو تو کیا اس پر گناہ تو نہیں اگر وہ نماز کو مسجد میں چلی جاوے۔ آنحضرت ﷺ نے جواب دیا کہ اس کی دوسری بہن اس کو چادر دے دے یا دونوں ایک ہی چادر میں نماز کے لئے مسجد میں چلی جاویں۔
ربیع جو کہ معوذ بن عفرا کی صاحبزادی ہیں وہ فرماتی ہیں ۔ ہم آنحضرتﷺ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتی تھیں اور ہم اپنے مردوں کو پانی وغیرہ مہیا کرتی تھیں اور ان کی خدمت کرتی تھیں اور مُردوں اور زخمیوں کومدینہ شریف میں واپس لاتی تھیں۔
آنحضرت ﷺ کا یہ دستور العمل تھا کہ جنگ کے موقعہ پر اور دوسرے سفروں کے موقعہ پر ایک بیوی کو ضرور ساتھ لے جاتے تھے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ جو کہ آنحضرت ﷺ کی سب سے پیاری بی بی تھیں اور حضرت ام سلیمہ ؓ احدکے دن مشکوں میں پانی لا لا کرمَردوں کودیتی تھیں اور ام سلیط ؓ کی یہ ڈیوٹی تھی کہ وہ مشکوں کی مرمت کرتی تھیں ۔ فاطمۃ الزھراؓ جو کہ آنحضرت ﷺ کی سب سے پیاری صاحبزادی تھیں وہ احد کے دن آنحضرتﷺ کے زخموں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔
خلفاء الراشدین کے زمانہ میں بھی عورتیں جنگ میں شریک ہوتی تھیں جیساکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ام حرام ؓCyprus کی مہم میں شامل ہوئی تھیں اور جب جنگ سے واپس آرہی تھیں توسمندر سے پار ہو کر کنارہ پرپہنچ کر اپنے گدھے سے گر کر فوت ہوگئیں۔
عورتیں کھیل اور تماشا وغیرہ بھی دیکھ سکتی ہیں بشرطیکہ اس کھیل یاتماشا میں شرافت سے گری ہوئی کو ئی بات نہ ہو ۔ مگر اس قیوداوراحتیاطات کے ساتھ جن کی تفصیل اوپربوضاحت کی گئی ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں اپنے گھر کے دروازے پر آنحضرت ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو کر حبشی مسلمانوں کے جنگی کرتب اورکھیل کو دیکھ رہی تھی جب مسجد نبوی میں وہ کھیل رہے تھے۔ اور بعض اوقات عورتیں آکر حضرت عائشہ صدیقہ ؓکے پاس گاتی بجاتی تھیں اور آنحضرتﷺ اس کو برا نہیں مناتے تھے ۔
الغرض وہ پردہ جو اسلام نے سکھایا ہے وہ عورتوں کی صحیح آزادی میں مخل اورحارج نہیں ہوتا اور اگر یہی پردہ دوسرے مہذب ممالک میں رواج پکڑ جائے تو اس سے سوسائٹی کوبہت سے فائدے حاصل ہو سکتے ہیں اور عورتوں کی جائزآزادی بھی قائم رہ سکتی ہے۔
(ریویوآف ریلیجنز(اردو) ۔۱۹۱۹؁ء،جلد ۱۸ نمبر ۷ صفحہ ۲۳۶ تا ۲۴۳)
مکمل تحریر >>

Thursday 1 June 2017

رمضان المبارک کے روزوں کے متعلق چند بنیادی مسائل




سیدنا حضرت مرز ا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سورۃ البقرہ کی آیت ۱۸۵ تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’فرماتاہے چند گنتی کے دن ہیں جن میں روزے رکھنا تم پر فرض کیا گیاہے ۔ ہاں جو تم میں سے بیمار یامسافر ہو اس کے لئے اَور دنوں میں اس تعداد کا پورا کرناضروری ہوگا۔
 ﴿اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ اور فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ﴾ کے الفاظ صاف طورپر بتاتے ہیں کہ یہ روزے جن کا حکم دیا جا رہا ہے نفلی نہیں بلکہ واجب ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ اگرکوئی بیمار یامسافر ہو تو اسے بہرحال بعد میں اس تعداد کو پورا کرنا ہوگا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب رمضان کے دنوں میں مَیں بیمار تھا یاسفر پرگیاہوا تھا تو اب رمضان کے بعدمَیں کیوں روزے رکھوں ۔جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ میں رمضان المبارک کے روزوں کا ذکرنہیں بلکہ صرف عام طورپرروزے رکھنے کا ذکر ہے وہ غلطی پر ہیں۔ اگر ان کی یہ بات صحیح ہے تو فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کاکوئی مطلب نہیں رہتا۔ اول تو یہاں اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتسے ہی معلوم ہوتاہے کہ یہاں صرف ایسے ہی روزوں کا ذکر کیا جا رہاہے جن کے لئے شریعت کی طرف سے بعض ایاّم مقرر ہیں۔ دوسرے اَیَّامًا مَّعْدُوْدَات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایاّم کسی خاص مہینہ سے متعلق ہیں ۔ پسکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ سے عام نفلی روزے مراد لینا کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتا۔
کن لوگوں پر رمضان کے روزے فرض نہیں
پھر اس بارہ میں اﷲ تعالیٰ یہ ہدایت دیتاہے کہ جو شخص بیماریا مسافر ہو اسے بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔ بلکہ اوردنوں میں اس کمی کوپورا کرناچاہئے ۔ مَیں نے اپنے تجربہ کی بنا پر یہ بات دیکھی ہے کہ رمضان کے بارہ میں مسلمانوں میں افراط و تفریط سے کام لیا جاتاہے ۔ کئی دفعہ تعلیم یافتہ لوگوں کو مَیں نے دیکھاہے کہ وہ رمضان کی برکات کے قائل ہی نہیں اور بغیر کسی بیماری یا عذر شرعی کے روزہ کے تارک ہیں ۔ اور دوسرے و ہ لوگ ہیں جو سارا اسلام روزہ ہی میں محدود سمجھتے ہیں ۔ اور ہر بیمار ، کمزور، بوڑھے ، بچے ، حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت سے بھی یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ ضرور روزہ رکھے خواہ بیماری بڑھ جائے یا صحت کونقصان پہنچ جائے ۔ یہ دونوں افراط وتفریط میں مبتلاہیں۔
اسلام کا یہ ہرگز منشاء نہیں کہ وہ انسان کو اس راستہ سے ہٹادے جو اس کی کامیابی کا ہے۔ اگر تو شریعت چٹی ہوتی یاجرمانہ ہوتا تو پھر بیشک ہر شخص پر خواہ وہ کوئی بوجھ اٹھا سکتا یانہ اٹھاسکتا اس کا اٹھانا ضروری ہوتا ۔جیسے حکومت کی طرف سے جرمانہ کردیا جائے تواس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جس پر جرمانہ کیا گیاہے اس میں ادا کرنے کی استطاعت بھی ہے یا نہیں بلکہ جس پر جرمانہ ہواسے خواہ گھر بیچنا پڑے ، بھوکا رہنا پڑے ،جرمانہ کی رقم ادا کرنا اس کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام کے احکام چٹّی نہیں بلکہ وہ انسان کے اپنے فائدہ کے لئے ہیں اور ان پرعمل کرنے سے خود انسان کو ہی آرام میسر آتا ہے۔ اور اس کی ترقی کے راستے کھلتے ہیں۔ جن مذاہب ے شریعت کو چٹیّ قرار دیاہے ان کے ماننے والوں کے لئے تو ضروری ہے کہ خواہ کچھ ہو وہ اپنے مذہبی ا حکام کو ضرور پورا کریں ۔ لیکن جس مذہب کے احکام کی غرض محض انسانی فائدہ ہو اس میں نفع ونقصان کا موازنہ ہوتاہے اور جو صورت زیادہ مفید ہو اسے اختیار کر لیا جاتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے بعض احکام کے سلسلہ میں بعض شرائط مقر ر کر دی ہیں تا کہ اگروہ شرائط کسی میں پائی جائیں تووہ اس حکم پرعمل کرے اور اگرنہ پائی جائیں تو نہ کرے۔ یہ شرائط صرف جسمانی عبادت کے لئے ہی نہیں بلکہ مالی عبادت کے لئے بھی ہیں۔ جیسے زکوٰۃ ہے اور وطنی قربانی اور اتّصال و اتّحاد کی کوشش کے لئے بھی ہیں جیسے حج ہے ۔ اسی طرح اورجتنے مسائل اسلام سے تعلق رکھتے ہیں اورجتنے احکام فرض ہیں ان سب کے لئے یہ شرط ہے کہ جب انسان کو طاقت ہو انہیں ضرو ر ادا کرے لیکن جب اس کی طاقت سے بات بڑھ جائے تو وہ معذور ہے ۔ اگر حج انسان کے مالدار ہونے اور امن و صحت کی شرط سے مشروط ہے ۔اگر زکوٰۃ کے لئے یہ شرط ہے کہ ایک خاص مقدار میں کسی کے پاس ایسا مال ہو جو اس کی ضروریات سے ایک سال بڑھا رہے ۔ اگر نماز کے لئے یہ شرط ہے کہ جوکھڑا نہ ہو سکے بیٹھ کر اور جو بیٹھ نہ سکے لیٹ کر نماز ادا کرے تو رمضان کے لئے بھی یہ شرط ہے کہ اگر انسان مریض ہو ، خواہ اسے مرض لاحق ہو چکاہو یا ایسی حالت میں ہوجس میں روزہ رکھنا اسے یقینی طورپر مریض بنا سکتاہو جیسے حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت ہے یاایسا بوڑھا شخص ہے جس کے قویٰ میں انحطاط شروع ہو چکا ہے یا اتنا چھوٹا بچہ ہے جس کے قویٰ نشوونما پا رہے ہیں تواسے روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔
مسافر اور بیمار کا روزہ رکھنا ایساہی لغو ہے جیسے حائضہ کا روزہ رکھنا ۔ کون نہیں جانتا کہ حائضہ کاروزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں بلکہ بیوقوفی اور جہالت ہے ۔ یہی حال بیمار اور مسافر کاہے ۔ اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں ۔ اسی طر ح وہ بوڑھا جس کے قویٰ مضمحل ہو چکے ہوں اور روزہ اسے زندگی کے باقی اشغال سے محروم کردیتاہو اس لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں۔پھر وہ بچہ جس کے قویٰ نشوونما پا رہے ہیں اور آئندہ پچاس ساٹھ سال کے لئے وہ طاقت کا ذخیرہ اپنے اندر جمع کر رہا ہے اس کے لئے بھی روزہ رکھنا نیکی نہیں ہو سکتا ۔ مگر جس میں طاقت ہـے اورجو رمضان کا صحیح معنوں میں مخاطب ہے وہ اگرروزہ نہیں رکھتا توگناہ کا مرتکب ہوتاہے ۔
بچوں سے روزہ رکھوانا 
یہ امریاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیاہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کرانی چاہئے۔مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بیوقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزہ رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہوگا۔یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمرنشوونما کی ہوتی ہے ۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے اُس وقت ان کوروزہ کی مشق ضرور کروانی چاہئے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے ۔ اور ہرسال چند روزے رکھوانے چاہئیں یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہوجائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمرہے ۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی اجازت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے دی تھی ۔ اس عمر میں توصرف شوق ہوتاہے ۔ اس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگریہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمرایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہئے کہ بچوں کو جرأت دلائیں کہ وہ کچھ روزے رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں۔ اور دیکھنے والوں کوبھی اس پراعتراض نہ کرنا چاہئے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا توآئندہ نہیں رکھ سکے گا۔
اسی طرح بعض بچے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں ۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں توبتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں ۔ مَیں سمجھتاہوں کہ ایسے بچے روزوں کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچہ غالباً پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتاہے۔ لیکن اگروہ میرے ان الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پرظلم کرے گا اور نہ خداتعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پرآپ ظلم کرے گا ۔ اسی طرح اگرکوئی چھوٹی عمرکابچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ ا س پرطعن کریں تو وہ اپنی جان پرظلم کریں گے ۔
روزہ کے بارہ میں افراط و تفریط
بہرحال ان باتوں میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے جہاں شریعت روکتی ہے وہاں رک جاناچاہئے اور جہاں حکم دیتی ہے وہاں عمل کرنا چاہئے۔مگر مسلمان اس وقت اعتدال کو ترک کر بیٹھے ہیں ۔ ان میں یا تو وہ لوگ ہیں جو روزہ ہی نہیں رکھتے اور یا وہ لوگ ہیں جوروزہ کے ایسے پابند ہیں کہ بیماری اور سفر میں بھی اسے ضرور ی سمجھتے ہیں اور بعض تو اس میں ایسی شدت اختیارکر لیتے ہیں کہ وہ چھوٹے بچوں سے بھی روزہ رکھواتے ہیں اوراگروہ توڑنا چاہیں توتوڑنے نہیں دیتے ۔ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں کہ سات سات آٹھ آٹھ سال کے بچوں نے روزے رکھے توماں باپ نے ان کی نگرانی کی کہ وہ روزہ توڑ نہ دیں یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔ بے شک روزہ کاادب و احترام ان کے دلوں میں پیدا کرنا ضروری ہے اور انہیں بتاناچاہئے کہ اگروہ سارا دن روزہ نہیں رکھ سکتے توروزہ رکھیں ہی نہیں لیکن یہ کہ اگر وہ رکھ لیں تو پھرتوڑیں نہیں خواہ مرنے لگیں، نہایت ظالمانہ فعل ہے اور اسلا م کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے۔
غرض ایک طرف تو مسلمانوں میں ایسے لوگ ہیں جو روزہ کے بارہ میں اس قدر سختی کرتے ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو روزوں کی ضرورت ہی کے قائل نہیں بالخصوص تعلیمیافتہ طبقہ اسی خیال کا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں مَیں نے اخبارات میں پڑھا تھا کہ ایک شخص ٹرکی یا مصر سے یہاں آیا ۔ وہ تقریریں کرتا پھرتا تھا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اس زمانہ میں ہوتے تو ضرور روزہ کی شکل بدل دیتے ۔ اس لئے ہمیں بھی بدل دینی چاہئے کیونکہ وہ زمانہ اَور تھا اور یہ اَور ہے۔ اور اس کی صورت وہ یہ پیش کرتا تھا کہ روزہ کی حالت میں روٹی نہ کھائی جائی بلکہ صرف کچھ کیک اور بسکٹ وغیرہ کھا لئے جائیں ۔ غرض ایک طبقہ افراط کی طرف چلا گیاہے تو دوسرا تفریط کی طرف۔ حالانکہ اسلام ایک وسطی مذہب ہے اور وہ جہاں بیمار اور مسافر کو اجازت دیتاہے کہ وہ بیماری اور سفرکی حالت میں روزہ نہ رکھیں وہاں ہر بالغ اور باصحت مسلمان پر یہ واجب قرار دیتاہے کہ وہ رمضان کے روزے رکھے اور ان مبارک ایام کواﷲ تعالیٰ کی عبادت اور تسبیح و تحمید اور قرآن کریم کی تلاوت اور دعاؤں اور ذکرالٰہی میں بسر کرے تا کہ اسے اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔
بہرحال روزہ کے بارہ میں شریعت نے نہایت تاکید کی ہے اور جہاں اس کے متعلق حد سے زیادہ تشدد ناجائز ہے وہاں حد سے زیادہ نرمی بھی ناجائز ہے۔ پس نہ تو اتنی سختی کرنی چاہئے کہ جان تک چلی جائے اورنہ اتنی نرمی اختیار کرنی چاہئے کہ شریعت کے احکام کی ہتک ہو اور ذمہ داری کوبہانوں سے ٹال دیا جائے ۔ مَیں نے دیکھا ہے کئی لوگ محض کمزوری کے بہانہ کی وجہ سے روزے نہیں رکھتے اوربعض توکہہ دیتے ہیں کہ اگرروزہ رکھا جائے تو پیچش ہو جاتی ہے ۔ حالانکہ روزہ چھوڑنے کے لئے یہ کوئی کافی وجہ نہیں کہ پیچش ہوجایاکرتی ہے ۔ جب تک پیچش نہ ہو انسان کے لئے روزہ رکھنا ضروری ہے ۔ جب پیچش ہو جائے تو پھربے شک چھوڑ دے۔ اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں روزہ رکھنے سے ضعف ہو جاتاہے۔ مگریہ بھی کوئی دلیل نہیں ۔صرف اس ضعف کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہے جس میں ڈاکٹر روزہ رکھنے سے منع کرے ۔ ورنہ یوں تو بعض لوگ ہمیشہ ہی کمزور رہتے ہیں توکیاوہ کبھی بھی روزہ نہ رکھیں ۔ مَیں اڑھائی تین سال کا تھا جب مجھے کالی کھانسی ہوئی تھی۔ اسی وقت سے میری صحت خراب ہے ۔ اگر ایسے ضعف کوبہانہ بناناجائز ہو تو میرے لئے تو شاید ساری عمرمیں ایک روزہ بھی رکھنے کاموقع نہیں تھا۔ ضعف وغیرہ جسے روزہ چھوڑنے کابہانہ بنا یاجاتاہے اسی کی برداشت کی عادت ڈالنے کے لئے تو روزہ رکھا جاتاہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے قرآ ن کریم میں آتاہے کہ نماز بدی اوربے حیائی سے روکتی ہے ۔ اس پرکوئی شخص کہے کہ مَیں نماز اس لئے نہیں پڑھتا کہ اس کی وجہ سے بدی کرنے سے رک جاتاہوں۔ پس روزہ کی تو غرض ہی یہی ہے کہ کمزوری کوبرداشت کرنے کی عادت پیدا ہو ورنہ یوں توکوئی بھی یہ کہہ سکتاہے کہ مَیں اس لئے روزہ نہیں رکھتاکہ مجھے بھوک اور پیاس کی تکلیف ہو تی ہے ۔ حالانکہ اس قسم کی تکالیف کو برداشت کی عادت پیدا کرنے ہی کے لئے روزہ مقرر کیاگیاہے۔جو شخص روزہ رکھے کیاوہ چاہتاہے کہ فرشتے سارا دن اس کے پیٹ میں کباب ٹھونستے رہیں ۔ وہ جب بھی روزہ رکھے گا اسے بھوک اور پیاس ضرور برداشت کرنی پڑے گی اور کچھ ضعف بھی ضرور ہوگا۔ اور اسی کمزوری اور ضعف کو برداشت کرنے کی عادت پیدا کرنے کے لئے روزہ رکھایا جاتاہے۔ بے شک روزہ کی اور بھی حکمتیں ہیں جیسے ایک حکمت یہ ہے کہ روزہ رکھنے سے غرباء اور فاقہ زدہ لوگوں کی اعانت کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے ۔ مگر بہرحال روزہ اس لئے نہیں رکھا جاتا کہ انسان کو تکلیف ہی نہ ہو اور وہ کوئی ضعف محسوس نہ کرے بلکہ اس لئے رکھا جاتاہے کہ اسے ضعف برداشت کرنے کی عادت پیداہو۔ پس ضعف کے خوف سے روزہ چھوڑنا ہرگزجائزنہیں ۔ سوائے اس کے کہ کوئی بوڑھا ہوچکاہے یا ڈاکٹر اس کے ضعف کوبھی بیماری قرار دے چکاہو۔ ایسی صورت میں بیشک روزہ نہیں رکھناچاہئے۔مگر ضعف کے متعلق ظاہری ڈیل ڈول اور صورت سے بھی کوئی نتیجہ نہیں نکالنا چاہئے۔ بعض لوگ بظاہر موٹے تازے ہوتے ہیں اور چلتے پھرتے بھی ہیں لیکن دراصل وہ بیمار ہوتے ہیں اور ان کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہوتا۔بالخصوص جن لوگوں کو دل کی بیماری ہو ایسے لوگوں کے لئے بھوک پیاس کابرداشت کرنا سخت خطرناک ہوتاہے ۔ پس کمزوری یاضعف کا فیصلہ بظاہردیکھنے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ دیکھنا ہوگاکہ ڈاکٹرکیاکہتاہے ۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے ڈاکٹر بھی دیانت داری سے کام نہیں لیتے ۔ ذرا کوئی شخص دوچار بار جھک کر سلام کردے توجوچاہے ڈاکٹر سے لکھوا لے۔ ظاہرہے کہ ایسے سرٹیفکیٹ کاکیا اعتبار ہو سکتاہے لیکن اگرحقیقی طورپر ڈاکٹر کسی کومشورہ دے کہ اس کے لئے روزہ رکھنا مضرہے تو گو وہ بظاہر تندرست بھی نظرآئے اس کے لئے روز ہ رکھنا جائز نہیں ہوگا۔
بیمار اور مسافر کے روزہ کے متعلق
 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ
حضرت اقد س مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ بیمار اور مسافر کے لئے روزہ جائز نہیں ۔چنانچہ آ پ نے ایک دفعہ فرمایا :
’’جوشخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزہ رکھتاہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتاہے۔ خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ بیمار اور مسافر روزہ نہ رکھے ۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے ۔ خدا کے اس حکم پرعمل کرنا چاہئے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کرسکتاہے ۔ خداتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹاہو یا لمبا بلکہ حکم عام ہے اور اس پرعمل کرنا چاہئے ۔ مریض اورمسافر اگرروزہ رکھیں گے توان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا ‘‘۔(فتاویٰ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صفحہ ۱۳۲،۱۳۳)
روزہ نہ رکھنے والوں کی طرف سے فدیہ دینے کے احکام 
پھرفرماتا ہے وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کو بڑی دقّت پیش آئی ہے اور انہوں نے اس کے کئی معنی کئے ہیں۔ یہ دقت زیادہ تر اس وجہ سے پیش آئی ہے کہ یُطِیْقُوْنَہٗ میں جوہٗکی ضمیر استعمال ہوئی ہے اس کے مرجع کی تعیین میں اختلاف پایا جاتاہے ۔ بعض نے اس کامرجع صوم کوقرار دیاہے اور بعض نے فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کو۔ 
شاہ ولی اﷲ صاحب نے اس کو ’’الفوز الکبیر ‘‘ میں اس طرح حل کیاہے کہ یُطِیْقُوْنَہٗ میں ’’ہٗ‘‘ کی ضمیر﴿ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ﴾ کی طرف گئی ہے۔ اس پر یہ اعتراض پڑتاتھا کہ یہ اضمار قبل الذکر ہے یعنی ضمیر پہلے آ گئی ہے اورمرجع بعد میں ہے حالانکہ مرجع پہلے ہونا چاہئے تھا ۔ اس کا جواب انہو ں نے یہ دیا ہے کہ فِدْیَۃ کامقام چونکہ نَحْوًا مقدم ہے یعنی وہ مبدا ہے اس لئے اس کی ضمیر اس کے ذکرسے پہلے آ سکتی ہے۔
دوسر ا اعتراض یہ پڑتاہے کہ فِدْیَۃٌ مؤنث ہے اور ضمیر مذکر۔ اس کا جواب یہ دیا ہے کہ فِدْیَۃ، طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کا قائم مقام ہے اور وہ مذکر ہے ۔ اس لئے فِدْیَۃکی طرف بھی مذکر کی ضمیر پھر سکتی ہے۔
اس بنا پرانہوں نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ ان لوگوں پرجوفدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہوں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دینا واجب ہے۔ ان کے نزدیک اس آیت میں صدقۃ الفطر کی طرف اشارہ ہے جواسلام میں نماز عید سے پہلے ادا کرنا ضروری قراردیا گیاہے تا کہ غرباء بھی عید کی خوشی میں شریک ہوسکیں۔
(۲)دوسرے معنے اس کے یہ کئے جاتے ہیں کہ مومنوں میں سے جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں وہ روزوں کے ساتھ ساتھ ایک مسکین کاکھانا بطورفدیہ بھی دے دیا کریں ۔ لیکن رسول کریم ﷺکے عمل اوراحادیث سے چونکہ یہ بات ثابت نہیں کہ روزہ دارفدیہ بھی دے اس لئے یہ معنے تسلیم نہیں کئے جا سکتے۔ اس کے علاوہ عقلی طورپر یہ معنے اس لئے بھی ناقابل قبول ہیں کہ فدیہ تو اس پر ہونا چاہئے جو روزہ نہ رکھ سکے ۔ جو شخص باقاعدہ روزے رکھ رہاہے اس پر فدیہ کیسا؟ ہاں اگر کو ئی شخص اس شکریہ میں کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے اس عبادت کے بجا لانے کی توفیق بخشی ہے روزہ رکھ کر ایک مسکین کوکھانا بھی دے دیاکرے تووہ زیادہ ثواب کا مستحق ہے کیونکہ اس نے روزہ بھی رکھااورایک مسکین کو کھانا بھی کھلایا۔ مگر بہرحال وہ ایک زائد نیکی ہوگی ۔ قرآن کریم کسی کو اس بات کا پابند قرار نہیں دیتا کہ وہ روزہ بھی رکھے اور ایک مسکین کوکھانا بطورفدیہ بھی کھلائے ۔
(۳) مفسرین نے اس آیت کے ایک معنے یہ بھی کئے ہیں کہ یُطِیْقُوْنَہٗ سے پہلے لا محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے وَعَلَی الَّذِیْنَ لاَ یُطِیْقُوْنَہٗ اور ہٗ کی ضمیر کا مرجع وہ صَوْم کوقرار دیتے ہیں ۔ یعنی وہ لوگ جوروزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں وہ ایک مسکین کاکھانا بطور فدیہ دے دیا کریں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس جگہ لَا اسی طرح محذوف ہے جس طر ح آیت یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا (نساء آیت ۱۷۷) میں تَضِلُّوْاسے پہلے بھی لَا محذوف ہے اور آیت کے معنے یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ یہ باتیں اس لئے بیان کرتاہے تا کہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ۔ گو یہ بھی کہا جا سکتاہے کہ یہاں لَا مقدر نہیں بلکہ ایک مضاف محذوف ہے اور اصل عبارت یوں ہے کہ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ مَخَافَۃَ اَنْ تَضِلُّوْایعنی اﷲ تعالیٰ تمہارے لئے یہ باتیں تمہارے گمراہ ہوجانے کے خدشہ کی بنا پر بیان کرتاہے۔
(۴) بعض نے اس آ یت کا یوں حل کیاہے کہ عربی زبان میں اَطَاقَ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ کسی شخص نے کام تو کیا مگر بہت مشکل اور مصیبت سے ۔ گویا جب کوئی شخص اپنے نفس کو انتہائی مشقت میں ڈالے بغیرکوئی کام سرانجام دینے کی اپنے اندر طاقت نہ رکھتا ہو تواس کے لئے اَطَاق کا لفظ استعمال کیا جاتاہے ۔ اس مفہوم کے لحاظ سے اَلَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ سے وہ لوگ مراد ہیں جو روزہ سے سخت تکلیف اٹھاتے ہیں اور جن کی بدنی طاقت بالکل زائل ہوجاتی ہے بلکہ بعض دفعہ غشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے جیسے بوڑھے یادل کے مریض یا اعصابی کمزوری کے شکار یا حاملہ اور مرضعہ ۔ ایسے لوگ جو بظاہر توبیمار نظر نہیں آتے لیکن روزہ رکھنے سے بیمار ہوجاتے ہیں اُن کویہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ روزہ رکھنے کی بجائے ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ اپنی طرف سے دے دیا کریں ۔ ان معنوں کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ قرطبی نے یُطِیْقُوْنَہٗ کی ایک 
قرا ء ت یُطَوِّقُوْنَہ ٗبھی بیان کی ہے۔ یعنی جو لوگ صرف مشقت سے روزہ نبھا سکتے ہیں۔ اورجن کی صحت روزہ رکھنے سے غیر معمولی طورپر خراب ہوجاتی ہے وہ بے شک روزے نہ رکھیں ہاں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دیا کریں ۔
میرے نزدیک چونکہ اَطَاقَ باب اِفْعَال میں سے ہے اور باب اِفْعَال کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ سلب کے معنے دیتاہے اس لئے وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ کے یہ معنے ہونگے کہ وہ لوگ جن کی طاقت کمزور ہوگئی ہے یعنی قریباً ضائع ہوگئی ہے وہ بیشک روزہ نہ رکھیں مگر چونکہ ان کا روزہ نہ رکھنامحض اجتہادی امر ہوگا، مرض ظاہرکے نتیجہ میں نہیں ہوگا بلکہ صرف متوقع کمزوری کے نتیجہ میں ہوگااوراجتہادمیں غلطی بھی ہو سکتی ہے اس لئے انہیں چاہئے کہ اپنی اجتہادی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے اگر ان کو فدیہ دینے کی طاقت ہوتو ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ ان دنوں میں دے دیا کریں تاکہ ان کی غلطی کے ا مکان کا کفارہ ادا ہوتا رہے۔ 
(۵) ایک اور معنے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھ پر کھولے ہیں وہ یہ ہیں کہ یُطِیْقُوْنَہٗ میں ہٗ کی ضمیر روزہ کی طرف پھرتی ہے ۔ اور مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جن کی بیماری شدید ہے یا جن کا سفر پُرمشقت ہے وہ تو بہرحال فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَر کے مطابق دوسرے ایام میں روزے رکھیں گے۔ لیکن وہ لوگ جو کسی معمولی مرض میں مبتلا ہیں یا کسی آسانی سے طے ہونے والے سفر پر نکلے ہیں اگر وہ طاقت رکھتے ہوں توایک مسکین کا کھانا بطورفدیہ بھی دے دیا کریں۔ اس وجہ سے کہ ممکن ہے انہوں نے روزہ چھوڑنے میں غلطی کی ہو۔ وہ آپ کوبیمار سمجھتے ہوں لیکن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ان کی بیماری ایسی نہ ہوکہ وہ روزہ ترک کرسکیں۔ یا و ہ اپنے آپ کو مسافر سمجھتے ہوں لیکن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ان کا سفر، سفر ہی نہ سمجھا گیا ہو۔ 
پس چونکہ ان کی رائے میں غلطی کا ہروقت امکان ہے اس لئے ایسے بیماروں اور مسافروں کوچاہئے کہ ان میں سے جولوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہوں و ہ دوسرے ایام میں فوت شدہ روزوں کو پورا کرنے کے علاوہ ایک مسکین کو کھانا بھی دے دیا کریں۔ تا کہ ان کی اس غلطی کا کفارہ ہوجائے ۔
اوراگر یُطِیْقُوْنَہٗ میں ہٗ کی ضمیر کامرجع فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ کوہی قرار دیا جائے جیساکہ شاہ 
ولی اﷲ صاحبؒ نے لکھا ہے تو پھر بجائے اس کے کہ اس حکم کو صدقۃالفطر پرمحمول کیا جائے اس آیت کا فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ سے تعلق ہوگا۔ اور اس کے یہ معنے ہونگے کہ اگرچہ مریض اور مسافر کو یہ اجازت ہے کہ وہ اور دنوں میں روزہ رکھ لیں لیکن ان میں سے وہ لوگ جن کو آسودگی حاصل ہو اور وہ ایک شخص کو کھانا کھلا سکتے ہوں انہیں چاہئے کہ ایک مسکین کاکھانا بطور فدیہ رمضان دے دیاکریں۔ اگر طاقت نہ ہو تو پھر تو فدیۂ رمضان دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ لیکن اگر طاقت ہوتو خواہ وہ بیمار ہوں یامسافر انہیں ایک مسکین کاکھانا بطورفدیہ ٔ رمضان دینا چاہئے ۔اگر روک عارضی ہواور وہ بعد میں دورہو جائے توروزہ تو بہرحال رکھناہوگا۔ فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہو جاتا بلکہ یہ محض اس بات کا فدیہ ہے کہ ان مبارک ایام میں وہ کسی جائز شرعی عذر کی بنا پر باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ عبادت ادا نہیں کرسکے ۔ آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ایک عارضی اور ایک مستقل۔فدیہ بشرط استطاعت دونوں حالتوں میں دینا چاہئے ۔ پھرجب عذر دو ر ہو جائے تو روزہ بھی رکھنا چاہئے۔ غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دے دے بہرحال سال دو سال یاتین سال کے بعد جب بھی اس کی صحت اجازت دے اسے پھر روزے رکھنے ہونگے ۔ سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اورصحت ہونے کے بعد وہ ارادہ ہی کرتارہا کہ آج رکھتاہوں ، کل رکھتاہوں کہ اس دوران میں اس کی صحت پھر مستقل طورپر خراب ہوجائے ۔ باقی جو بھی کھانا کھلانے کی طاقت رکھتاہو اگروہ مریض یا مسافر ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ رمضان میں ایک مسکین کاکھانا بطورفدیہ دے اور دوسرے ایام میں روزے رکھے ۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مذہب تھا اور آپ ہمیشہ فدیہ بھی دیتے تھے اور بعد میں روزے بھی رکھتے تھے اور اسی کی دوسروں کو تاکید فرمایا کرتے تھے ۔
اس آیت میں جو اَلَّذِیْنَ کا لفظ استعمال ہواہے یہ دو کا بدل یا قائم مقام ہوسکتاہے۔ اوّل ان مومنوں کا جن کا ذکر یٰآاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ میں کیا گیاہے۔ دوم ان لوگوں کا جن کا ذکر فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍ میں ہے۔
اگر اسے یٰآاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کا بدل سمجھا جائے تواس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ وہ لوگ جو ضعف کی وجہ سے روزے سے سخت تکلیف اٹھاتے ہیں اور اپنے نفس پر بڑی مشقت برداشت کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ روزہ رکھنے کی بجائے ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دیا کریں۔
اگر دوسر ا بدل لیں تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ وہ مریض اور مسافر جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں وہ فدیہ دیں اور پھر دوسرے دنوں میں روزے بھی رکھیں کیونکہ بعض امراض ایسی ہوتی ہیں یا بعض سفر ایسے ہوتے ہیں جن میں یہ اشتباہ ہوتاہے کہ آیا اس میں روزہ ترک کیا جا سکتاہے یا نہیں؟ حدیث میں آیاہے کہ مشکوک اشیاء بھی محارم ہی کے نیچے ہوتی ہیں کیونکہ جومشکوک تک پہنچتاہے وہ آہستہ آہستہ محارم تک بھی پہنچ جاتاہے ۔پس اگر یہ دونوں باتیں مشکوک ہوں توایسے مسافراور مریض کوچاہئے کہ فدیہ دے دے اور رخصت سے فائدہ اٹھائے اوربعد میں روزے بھی رکھ لے ۔ اس میں ایسی بیماری والا جس کی بیماری مشتبہ ہو یاایسا سفر والا جس کا سفر مشتبہ ہو،مراد ہیں۔ ان میں سے جو طاقت رکھتے ہوں ان پر فدیہ دینا لازم ہے کیونکہ ممکن ہے انہوں نے اپنے اجتہا د میں غلطی کی ہو۔ اورجیساکہ مَیں نے بتایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کابھی یہی مذہب تھا کہ ایسے لو گ دوسرے ایام میں روزہ رکھیں اور رمضان کے دنوں میں فدیہ دیں۔
پھر فرمایا ہے فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ جو شخص پوری بشاشت اور شوق کے ساتھ نیکی کا کوئی کام کرتاہے تو خواہ وہ ابتدا میں تکلف کے ساتھ ہی ایساکرے اور اسے اپنے نفس پر ایک رنگ میں بوجھ ہی محسوس ہو تب بھی اس کا نتیجہ اس کے لئے اچھا ہی نکلے گا ۔ یعنی وہ نیکی اس کے لئے بہترین نتائج پیدا کرنے والی ثابت ہوگی ۔ 
عربی زبان میں تَطَوَّعَ کالفظ اس وقت استعمال ہوتاہے جب اپنے نفس پر بوجھ ڈال کر کسی حکم کی اطاعت کی جائے۔ اور تکلف سے بشاشت کا اظہار کیا جائے۔ پس فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ میں ا ﷲ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو شخص پورے شرح صدر کے ساتھ کسی نیکی میں حصہ نہ لے سکے اسے چاہئے کہ کم از کم اپنے نفس پر بوجھ ڈالتے ہوئے ہی اس میں حصہ لے اور اپنے چہرہ پر تکلف سے بشاشت پیدا کرے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ اسکے لئے خیر اور برکت کے راستے کھول دے گا یعنی نیکیوں میں ترقی کرتے کرتے اسے ایسا مقام میسر آجائے گا کہ نیکی اس کی غذا بن جائے گی اور نیک تحریکا ت پر عمل اس کے لئے ایسا ہی آسان ہو جائے گا جیسے اعلیٰ درجہ کے مومنوں کے لئے آسان ہوتا ہے۔
لیکن اس کے علاوہ تَطَوَّعَ کے معنے محاورہ میں غیر واجب کام کے نفلی طورپر کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور امام راغب نے اپنی مشہور کتاب مفردات میں اس کی تصریح کی ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہونگے کہ جو شخص نفلی طورپر کوئی نیک کام کرے گا تویہ اس کے لئے بہت بہتر ہوگا۔ یعنی رمضان میں روزے رکھنے یا ایک مسکین کوکھانا کھلانے کاحکم تو ہم نے دے دیاہے لیکن اگرکوئی شخص ثواب کی نیت سے اس میں کوئی زیادتی کرنا چاہے تواسے اس کا اختیار ہے۔ مثلاً وہ اختیاررکھتاہے کہ ایک کی بجائے دومساکین کو کھانا بطورفدیہ دے دے۔ یاوہ اختیار رکھتاہے کہ روزہ بھی رکھے اور حصول ثواب کے لئے ایک مسکین کوکھانا بھی کھلاتارہے۔ یا رمضان کے روزوں کے علاوہ نفلی طورپر دوسرے ایام میں بھی روزے رکھے۔ یہ سب حصول ثواب کے ذرائع ہیں جن میں ہرمومن اپنی اپنی طاقت کے مطابق حصہ لے کراﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرسکتاہے ۔
پھرفرمایا وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌلَکُمْ ۔ اس کے بعض لوگ یہ معنی کرتے ہیں کہ اگر تم روزہ رکھو تویہ تمہارے لئے بہترہے۔ مگر یہ صحیح نہیں ۔ اگر یہ معنے ہوتے تو اِنْ تَصُوْمُوْاکہناچاہئے تھا نہ کہ اَنْ تَصُوْمُوْا۔ اس کے صحیح معنے یہ ہیں کہ اگر تم علم رکھتے ہو تو سمجھ سکتے ہوکہ روزہ رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے یعنی ہم نے جس حکم کے لئے یہ تمہید اٹھائی تھی وہ کوئی معمولی حکم نہیں بلکہ ایک غیر معمولی خیر اور برکت رکھنے والا حکم ہے۔ اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم اسے پوری توجہ سے سنو اور اس پرعمل کرو‘‘۔
(تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعود ؓ سورۃ البقرہ زیر آیت ۱۸۵)

مکمل تحریر >>