Saturday 9 July 2016

دعویٰ نبوت کے انکار و اقرار میں تطبیق

اعتراض : مرزا صاحب نے کئی جگہ نبی ہونے سے انکار کیا ہے اور دعویٰ نبوت کو کفر قرار دیا ہے۔لیکن کئی جگہ اپنے آپ کو نبی کی صورت میں پیش کیا ہے۔
جواب : چونکہ نبی کی اقسام ہیں: تشریعی اور غیر تشریعی۔اس لئے پہلی قسم کا نبی ہونے سے آپؑ نے انکار کیا۔اور دوسری قسم کا نبی ہونے کا اس شرط کے ساتھ اقرار کیا ہے کہ آپؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی بھی ہیں۔چنانچہ آپؑ اپنے آخری خط میں جو اخبار عام مورخہ26؍مئی 1908 ء میں شائع ہوا لکھتے ہیں:۔
’’یہ الزام جو میرے پر لگایا جاتا ہے۔کہ مَیں اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں سمجھتااور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعتِ اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں یہ الزام میرے پر صحیح نہیں۔بلکہ ایسا دعویٰ میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ ہمیشہ سے اپنی ہر کتاب میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اِس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے‘‘۔
اِس کے بعداپنی نبوت کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں:۔
’’جس بناء پر مَیںاپنے تئیں نبی کہلاتا ہوں،وہ صرف اس قدر ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی ہم کلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتا اور کلام کرتا ہے اور میری باتوں کا جواب دیتا ہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتا ہے اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پر کھولتا ہے کہ جب تک انسان کو اسکے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو دوسرے پر وہ اسرار نہیں کھولتا اور انہی امور کی کثرت کی و جہ سے اُس نے میرا نام نبی رکھا ہے۔سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کرسکتا ہوں۔میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دُنیا سے گزر جائوں گا‘‘
  (خط مندرجہ اخبار عام26؍مئی1908ء)
اور اشتہار ’’ایک غلطی کے ازالہ‘‘میں فرماتے ہیں:۔
’’جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیںہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں۔مگر ان معنوں سے کہ مَیں نے اپنے رسولِ مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔بلکہ انہیں معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پُکارا ہے۔سو اب بھی مَیں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا‘‘۔
  (ایک غلطی کاازالہ روحانی خزائن جلد18صفحہ211-210)

اور پھر نزول المسیح  حاشیہ صفحہ3پر تحریر فرماتے ہیں:۔
’’اس نکتہ کو یادرکھو کہ میں رسول اور نبی نہیں ہوں یعنی باعتبار نئی شریعت اور نئے دعویٰ اور نئے نام کے۔اور میں رسول اور نبی ہوں یعنی باعتبار ظلیّتِ کاملہ کے۔میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے‘‘۔ (نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد18صفحہ381حاشیہ)
پس نبوت کے اقرار اور انکار میں وجوہ مختلف ہیں۔لہٰذا اس میں کوئی تناقض نہیں۔
مکمل تحریر >>

حقیقت نصف قطعہ نوٹ بجواب مرزا غلام احمد قادیانی ٹیکس چور

ایک جاہل نے اپنی طرف سے بڑا علمی اعتراض کیا ہے کہ مرزا صاحب نے مولانا حکیم نورالدین سے پانچ سو روپے کو نصف نوٹ کروا کر دو دفعہ میں اس لیے منگوایا کہ ٹیکس بچایا جاسکے ، اب اس کی حقیقت ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ کتنی بڑی جہالت کا ثبوت دیا ہے اس شیطان کی نسل نے یہ اعتراض کر کے ۔

اعتراض کے لیے جو خط کا حوالہ دیا ہے وہ درج ذیل ہے ۔
"آج نصف قطعہ نوٹ پانچ سو روپیہ پہنچ گیا چونکہ موسم برسات کا ہے اگر براہ مہربانی دوسرا ٹکڑہ رجسٹری شدہ خط میں ارسال فرمائیں تو روپیہ کسی قدر احتیاط سے پہنچ جاوے"
خاکسار غلام احمد از قادیان 11 جولائی 1887 .
(مکتوبات احمدیہ ج 5 ح 2 ص 35 )

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ برٹش انڈیا میں یہ قانون تھا کہ نوٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ پہلی دفعہ میں پوسٹ کیا جاتا تھا اور دوسرا حصہ بعد میں بھیجا جاتا تھا ، اس کا ثبوت یہ ہے کہ Reserve Bank Of India کی ویب سائٹ پر یہ بات اس طرح موجود ہے ۔
British India Notes facilitated inter-spatial transfer of funds. As a security precaution, notes were cut in half. One set was sent by post. On confirmation of receipt, the other half was despatched by post.

https://rbi.org.in/Scripts/pm_britishindia.aspx




یہ ہے اصل بات لیکن جن کے نصیب میں کافر ہونا لکھا ہے وہ ایسے اعتراض کر کے ساتھ گالیاں نکالتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قرآن حدیث سے بات کرنے کو ان کے پاس کوئی چیز موجود نہیں ۔۔

اعتراض والے کی زبان اس لنک پر دیکھی جاسکتی ہے کہ کیسے کفر اور جہالت میں پاگل ہوا پڑا ہے۔۔
http://ahtisaab.blogspot.hk/2015/04/blog-post_27.html

مکمل تحریر >>

Wednesday 6 July 2016

مسائل عیدالفطر





ماہ رمضان کے گزرنے پر یکم شوال کو روزوں کی برکات حاصل کرنے کی توفیق پانے کی خوشی میں عیدالفطر منائی جاتی ہے ۔ نماز عید کا اجتماع ایک رنگ میں مسلمانوں کی ثقافت اور دینی عظمت کا مظہر ہوتا ہے اس لئے مرد وعورت اوربچے سب شامل ہوتے ہیں۔

*۔۔۔حضرت امّ عطیہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں ارشاد فرماتے تھے کہ ہم عیدین کے دن سب لوگ عورتیں، بچے عید پر جائیں ۔ یہاں تک کہ حائضہ عورتوں کو بھی عید اور اس کی دعامیں شامل ہونے کاحکم ہوتا البتہ وہ نمازمیں شامل نہیں ہوتی تھیں۔ بلکہ اتنا تاکیدی ارشاد اس بارہ میں فرمایا کہ اگر کسی لڑکی کے پاس اوڑھنی نہ ہو تو وہ کسی سہیلی سے مانگ لے اورعید پر ضرور جائے۔(بخاری و مسلم ، کتاب العیدین)

آنحضرت ؐ کیسے عید مناتے تھے


عید کے اس بابرکت تہوارکے لئے بھی آنحضرت ﷺ نے آداب سکھائے اور ہدایات دیں۔ عید کے دن آنحضرت ﷺ خاص صفائی کا اہتمام فرماتے۔ غسل فرماتے، مسواک اورخوشبو کا استعمال کرتے اور صاف ستھرا لباس زیب تن فرماتے ۔ اگر میسر ہو تو نئے کپڑے پہنتے۔ مسلمانوں کے اس قومی و مذہبی تہوارمیں شمولیت کے لئے آنحضرت ﷺ خاص تحریک فرماتے تھے۔

*۔۔۔آنحضرت ﷺ عیدالفطر کے روز صبح کچھ طاق عدد میں کھجوریں تناول فرما کر عید پر جاتے تھے۔ البتہ عیدالاضحی کے دن آپ قربانی کے گوشت سے کھانا شروع کرتے تھے۔ آپ ؐ کا معمول تھا کہ ایک راستے سے عیدگاہ تشریف لاتے اور دوسرے راستے سے واپس تشریف لے جاتے تاکہ مسلمانوں کے تہوار کی عظمت لوگوں پرظاہر ہو اورباہم ملاقات اورخوشی کے زیادہ مواقع میسر آ ئیں۔ اوردونوں راستوں پر آباد لوگ آپ ؐ کی برکت حاصل کر سکیں۔

*۔۔۔عید کے دن کھیل او ر ورزشی مقابلے بھی ہوتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ عید کے موقع پر اہل حبشہ ڈھال اور برچھی سے اپنے کھیل اورمہارت کے فن دکھاتے۔ شاید میں نے آنحضرت ؐ سے کہا یا آپ ؐ نے خود فرمایا کہ کیا ان کے کھیل کرتب دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا ہاں! تب آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اس طرح کہ میرا رخسار آپ کے رخسار کے ساتھ تھا۔ آپ ؐ کھیلنے والوں کا خوب حوصلہ بڑھاتے رہے۔ پھر میں خود ہی تھک گئی تو آپ ؐ نے مجھے فرمایا بس کافی ہے؟ میں نے کہا: ہاں ۔ آپؐ نے فرمایا اچھا تو جاؤ۔

*۔۔۔حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ عید کے دن انصار کی دو لڑکیاں میرے پاس بیٹھی جنگ بعاث کے نغمے سنا رہی تھیں۔ آنحضرت ﷺ تشریف لائے تو آپ بسترپر آ کر دوسری طرف منہ کر کے لیٹ گئے ۔ تھوڑی دیر بعد حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے تو ان لڑکیوں کو گاتے دیکھ کر مجھے ڈانٹا اور فرمایا رسول اللہ ﷺ کے گھر میں شیطانی گانا؟ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا :اے ابوبکرؓ ہر قوم کی عید کا ایک دن ہوتاہے اوریہ ہماری عید کا دن ہے۔

*۔۔۔اچھے کھانے ، خوبصورت کپڑے اورکھیل کود تو ظاہری خوشی کے اظہارکے طریقے ہیں ۔ ایک مسلمان کی حقیقی خوشی اور سچی عید تو یہ ہے کہ اس کاخدا اس سے راضی ہو جائے۔ اس لئے تیس دن کے روزے رکھنے کے بعد عید کے روز مسلمان خدا تعالیٰ کے شکرانہ کے طورپر دو رکعت نماز عید بھی ادا کرتے ہیں۔ عید کی دو رکعت نماز کسی بھی کھلے میدان یا عیدگاہ میں زوالِ شمس سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ حسب ضرورت عید کی نماز جامع مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے ۔ عید کی نماز باجماعت ہی پڑھی جا سکتی ہے اکیلے جائز نہیں۔

*۔۔۔احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ عیدین کے موقع پر عیدگاہ تشریف لے جاتے اور سب سے پہلا کام یہ کرتے کہ نماز شروع فرماتے ۔ نمازسے فراغت کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے اورلوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے۔ حضور ؐ ان کو وعظ و نصیحت فرماتے ، ضروری احکام کا اعلان فرماتے اور پھر ا س سے فارغ ہو کر گھر واپس جاتے۔

*۔۔۔عید کے خطبہ میں عورتوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور ان تک آواز پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو امام علیحدہ طورپر بھی عورتوں کو خطاب کر سکتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک عید کا خطبہ دیا اس کے بعد آپ عورتوں کی صفوں کے پاس تشریف لائے۔ حضرت بلالؓ آپؐ کے ساتھ تھے۔ آپ ؐنے ان کو وعظ ونصیحت فرمائی۔ خاوندوں کی اطاعت کی اور زبان درازی سے بچنے کی تلقین فرمائی اور صدقہ دینے کی تحریک کی۔ حضور ؐ کی اس تحریک پر عورتیں ہاتھوں، کانوں اور گلے کے زیور اتار اتار کر حضرت بلالؓ کی چادر میں ڈالنے لگیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ؐ واپس تشریف لائے۔

*۔۔۔نماز عید میں نہ تکبیر ہوتی ہے نہ اذان۔ نماز عید کا وقت سورج کے نیزہ بھرآسمان پر جانے کا ہے۔ موسم کے حالات کے لحاظ سے عید کا وقت لوگوں کی سہولت کو مدنظر رکھ کر مقررکرنا چاہئے۔ عام طورپر عید الفطر نسبتاً تاخیر سے اور عیدالاضحی جلدی پڑھی جائے یہی سنت ہے۔

*۔۔۔نماز عید کی دونوں رکعات میں بلند آواز سے قراء ت کی جاتی ہے۔ آنحضرت ﷺ جب مسجد میں پہنچتے تو اذان و اقامت کے بغیرہی نمازشروع فرما دیتے اور سنت یہی ہے کہ ان میں سے کوئی فعل نہ کیا جائے۔ آپؐاور آپؐ کے صحابہؓ جب عیدگاہ پہنچتے تو عید سے قبل کوئی نفل وغیرہ نہ پڑھتے اور نہ بعد میں پڑھتے اور خطبہ سے پہلے نماز شروع کرتے۔ پہلی رکعت میں سات مسلسل تکبیریں کہتے اور ہر دو تکبیروں کے درمیان ایک ہلکا سا وقفہ ہوتا۔ تکبیرات کے درمیان آپ ؐ سے کوئی مخصوص ذکر مروی نہیں۔ ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کرتے تھے۔ جب تکبیریں ختم فرماتے تو قراء ت شروع کرتے۔ یعنی سورہ فاتحہ پھر اس کے بعد سورہ ق و القرآن المجید، ایک رکعت میں پڑھتے اور دوسری رکعت میں اقتربتِ الساعۃ وانشق القمر پڑھتے۔ بسااوقات آپ ؐ دو رکعتوں میں سبح اسم ربک الاعلی اور ھل اتٰک حدیث الغاشیۃ پڑھتے ۔جب قراء ت سے فارغ ہو جاتے تو تکبیر کہتے اور رکوع میں چلے جاتے۔ پھر ایک رکعت مکمل کرتے اور سجدہ سے اٹھتے ۔ پھر پانچ بار مسلسل تکبیریں مکمل کر لیتے تو قرأت شروع کر دیتے۔ اس طرح ہر رکعت کے آغاز میں تکبیریں کہتے اور بعد میں قرأت کرتے ۔

*۔۔۔آنحضرت ﷺ جب نماز مکمل کر لیتے تو فارغ ہونے کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ،لوگ صفوں میں بیٹھے ہوتے توآپ ؐ انہیں وعظ و نصیحت فرماتے۔ عیدگاہ میں کوئی منبر نہ تھا جس پر چڑھ کر وعظ فرماتے ہوں ،نہ مدینہ کامنبر یہاں لایاجا سکتاتھا بلکہ آپ ؐزمین پر کھڑے ہو کر تقریر کرتے۔

*۔۔۔حضرت جابرؓ بتاتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے ساتھ عید کے دن نماز میں حاضر ہوا تو آپ ؐ نے خطبہ سے پہلے اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھائی۔ اس سے فارغ ہو کر حضرت بلالؓ کے کندھے کاسہارا لے کر کھڑے ہو گئے اور اللہ سے ڈرنے کا حکم فرمایا۔ اس کی اطاعت کی رغبت دلائی اور نصیحت کی اور پھر انعامات خداوندی وغیرہ یاد دلائے۔ پھر آپؐ خواتین کی طرف تشریف لے گئے اورانہیں نصیحت کی۔

*۔۔۔حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں عید اور جمعہ ایک ہی دن اکٹھے آ گئے۔ آپ ؐ نے نماز عید پڑھائی اور پھر فرمایا عید کی نماز جمعہ کا بدل ہے اس لئے اگر کوئی شخص جمعہ کی نماز کے لئے نہ آنا چاہے تو اسے اجازت ہے۔ البتہ ہم انشاء اللہ وقت پرجمعہ پڑھیں گے۔(سنن ابن ماجہ الجزء الاول کتاب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیھا۔ باب ما جاء فیما اذا اجتمع العیدان فی یوم)

اگر عید کی نماز پہلے دن زوال سے پہلے نہ پڑھی جا سکے تو عیدالفطر دوسرے دن اور عیدالاضحیہ تیسرے دن زوال سے پہلے پڑھی جا سکتی ہے۔

نفلی روزے۔ شوال کے چھ روزے


حضرت ابوایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد (عید کا دن چھوڑ کر) شوال کے چھ روزے رکھے اس کا اتنا ثواب ملتاہے جیسے اس نے سال بھر کے روزے رکھے ہوں۔(مسلم کتاب الصیام، باب استحباب صوم ستۃ ایام من شوال)

نفل وہ زائد عبادت ہے جو بندہ خوشی سے اپنے مولا کو راضی کرنے کے لئے بجا لاتا ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ بندہ کی نفلی عبادت سے بہت خوش ہوتا ہے۔ رسو ل اللہﷺ نے ایک حدیث قدسی بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ برابر میرا قرب حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔(بخاری)

نفلی روزوں کا بھی بہت ثواب ہے جو مختلف مواقع پر آنحضرت ﷺ نے نفلی روزوں کی تحریک کرتے ہوئے بیان فرمایا۔ چنانچہ حدیث مذکور ہ بالا میں رمضان کے تیس روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے کا ارشاد فرمایا اوراس کا ثواب سال بھر کے روزوں کے برابر بتایا۔ حساب کی زبان میں اس میں یہ سرّ ہے کہ ایک نیکی کا ثواب اللہ تعالیٰ دس گنا عطا فرماتا ہے اور ۳۶ روزوں کا ثواب ۳۶۰ دنوں کے برابر بنتا ہے جو قریباً ایک سال کا عرصہ ہے ۔

لیکن اصل حکمت رمضا ن کے فرض روزوں کے ساتھ شوال کے نفلی روزوں میں نیکی کا تسلسل ہے اوراس امر کی تربیت ہے کہ رمضان کا مجاہدہ اوراس کی عبادات صرف ایک مہینہ تک محدود نہ رہیں بلکہ سار ے سال پر پھیل جائیں اور رمضان کے علاوہ باقی ایام میں بھی ان نیکیوں کی عادت رہے۔ اورظاہر ہے جسے رمضان کے بابرکت مہینہ کا یہ نتیجہ حاصل ہو جائے اس کا سارا سال کیا سارازمانہ اور ساری عمر رمضان ہے جس میں وہ رمضان کی برکتیں حاصل کرتا چلا جائے گا۔

ماہ رمضان کے اس تسلسل کو دوران سال جاری رکھنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ہر مہینے میں تین روزے رکھتا ہے وہ صوم الدھر یعنی سال بھر کے روزے رکھنے والے کے برابر ہے۔

*۔۔۔حضرت ابوہریرہؓ کو آنحضرت ﷺ نے جو تین وصیتیں فرمائی تھیں ا ن میں سے ایک یہ تھی کہ ہر مہینہ میں تین نفلی روزے رکھنا۔ (ترمذی)

*۔۔۔حضرت ابوذرؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے فرمایا اے ابوذر! جب تم مہینہ میں سے تین دن کے روزے رکھنا چاہو تو ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ تاریخوں کے روزے رکھنا (ترمذی) لیکن ان تاریخوں کے علاوہ بھی آنحضرت ﷺ سے ہر مہینہ کے نفلی روزے رکھنے حضرت عائشہؓ کی روایت سے ثابت ہیں۔ (ترمذی)

*۔۔۔نفلی روزہ کے لئے رات کو نیت کرنا ضروری نہیں۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لا کر پوچھتے کہ ناشتہ کے لئے کوئی چیز ہے ؟ میں کہتی کہ نہیں ہے تو آپ ؐفرماتے اچھا میں روزہ رکھ لیتاہوں ۔(ترمذی)

*۔۔۔نفلی روزہ کھولنے کے لئے وہ کفارہ نہیں جو فرض روزے کا ہے ۔ آنحضرت ﷺ ام ھانیؓ کے پاس تشریف لائے اور پانی منگوایا۔ حضور ؐ نے پانی پی کر برتن ان کوواپس کیا تو انہوں نے حضور ؐ کا بچاہواپانی پی لیا۔ پھر عرض کی کہ حضور ؐ مجھے تو روزہ تھا ۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا یہ قضا کا روز ہ تو نہیں تھا۔ امّ ھانیؓ نے کہا نہیں۔ فرمایا پھر کوئی حرج نہیں ۔ نیز فرمایا ’’ نفلی روزے والا اپنے نفس کا خود امین ہوتاہے چاہے تو روزہ پورا کر ے چاہے افطار کرے ‘‘۔ (ترمذی)

لیکن اگر روزہ افطارکرے تو اس کے بدلے ایک روزہ رکھنا ہوگا۔

*۔۔۔*۔۔۔*
(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍جنوری ۱۹۹۸ء تا۵؍فروری ۱۹۹۸ء)
مکمل تحریر >>

Sunday 3 July 2016

مناظرہ مابین جماعت احمدیہ و شیعہ اثناعشریہ



مناظرہ مہت پور : یہ مناظرہ مابین اہل تشیع و جماعت احمدیہ ایک نہایت دلچسپ مناظرہ ہے ، مناظرہ ۱۹۳۶ میں چار دن تک جاری رہا ، جماعت احمدیہ کی طرف سے مولانا ابو العطاء جالندھری اور شیعہ احباب کی طرف سے مرزا یوسف حسین مناظر تھے ، مناظرہ چار موضوعات پر طے پایا جو درج ذیل ہیں ۔
۱ ۔ صداقت مسیح موعود  مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
۲ ۔ مسئلہ متعہ النساء
۳ ۔ اثبات نبوت بعد از حضرت محمد ﷺ
۴ ۔ تعزیہ داری

اول و سوم میں مدعی جماعت احمدیہ تھی اور دوم و چہارم میں مدعی شیعہ تھے ۔ اس مناظرہ میں جماعت احمدیہ کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔
Download Munazara Mehat Pur

مکمل تحریر >>

Saturday 2 July 2016

مسلمان کی تعریف اور جماعتِ احمدیہ کا مؤقف کتاب



مسلمان کی تعریف اور جماعتِ احمدیہ کا مؤقف

کتاب: محضر نامہ




دُنیا بھر میں یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ کسی فرد یا گروہ کی نَوع معیّن کرنے سے قبل اس نَوع کی جامع و مانع تعریف کر دی جاتی ہے جو ایک کسوٹی کا کام دیتی ہے اور جب تک وہ تعریف قائم رہے اِس بات کا فیصلہ آسان ہو جاتا ہے کہ کوئی فرد یا گروہ اس نَوع میں داخل شمار کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اِس لحاظ سے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ اِس مسئلے پر مزید غور سے قبل مسلمان کی ایک جامع و مانع متفق علیہ تعریف کی جائے جس پر نہ صرف مسلمانوں کے تمام فرقے متفق ہوں بلکہ ہر زمانے کے مسلمانوں کا اس تعریف پر اتفاق ہو۔ اِس ضمن میں مندرجہ ذیل تنقیحات پر غور کرنا ضروری ہو گا۔
ا : کیا کتاب اﷲ یا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے مسلمان کی کوئی تعریف ثابت ہے جس کا اطلاق خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں بِلا استثناء کیا گیا ہو؟ اگر ہے تو وہ تعریف کیا ہے؟
ب  : کیا اس تعریف کو چھوڑ کر جو کتاب اﷲ اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمائی ہو اور خود آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں اس کا اطلاق ثابت ہو۔ کسی زمانہ میں بھی کوئی اَور تعریف کرنا کسی کے لئے جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟
ج  : مذکورہ بالاتعریف کے علاوہ مختلف زمانوں میں مختلف علماء یا فرقوں کی طرف سے اگر مسلمان کی کچھ دوسری تعریفات کی گئی ہیں تو وہ کون کون سی ہیں؟ اور اوّل الذکر شِق میںبیان کردہ تعریف کے مقابل پر ان کی کیا شرعی حیثیت ہو گی؟
د  : حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں فتنۂ اِرتداد کے وقت کیا حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یا آپؐ کے صحابہ ؓ نے یہ ضرورت محسوس فرمائی کہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں رائج شدہ تعریف میںکوئی ترمیم کریں؟
ر  : کیا زمانۂ نبوی ؐ یا زمانۂ خلافتِ راشدہ میں کوئی ایسی مثال نظر آتی ہے کہ کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ کے اِقرار کے اور دیگر چار ارکانِ اسلام یعنی نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج پر ایمان لانے کے باوجود کسی کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہو؟
س  : اگر اِس بات کی اجازت ہے کہ پانچ ارکانِ اسلام پر ایمان لانے کے باوجود کسی کو قرآن کریم کی بعض آیات کی ایسی تشریح کرنے کی وجہ سے جو بعض دیگر فرقوں کے علماء کو قابلِ قبول نہ ہو دائرۂِ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے یا ایسا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے جو بعض دیگر فرقوں کے نزدیک اِسلام کے منافی ہے تو ایسی تشریحات اور عقائد کی تعیین بھی ضروری ہو گی تاکہ مسلمان کی مثبت تعریف میں یہ شِق داخل کر دی جائے کہ پانچ ارکانِ اسلام کے باوجود اگر کسی فرقہ کے عقائد میں یہ یہ اُمور داخل ہوں تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا۔
ص  : پنج ارکانِ اسلام پر ایمان کے باوجود اگر مسلمان فرقوں کی تکفیر کا کوئی ایسا دروازہ کھول دیا جائے جس کا ذکر شِق ’’ر‘‘ میں ہے توایسے تمام اُمور پر نظر کرنا عقلاً اور اِنصافاً ضروری ہے جن پر بِناء کرتے ہوئے مختلف علماء نے اپنے فرقہ کے علاوہ دیگر فرقوں کو قطعاً کافر، مُرتد یا دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا ___مثال کے طور پر چند اُمور درج ذیل کئے جاتے ہیں:
ا  : قرآن کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے کا عقیدہ۔(اشاعرہ۔ حنابلہ)
ب  : آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بَشر نہیں بلکہ نُور یقین کرنا۔(بریلوی)
ج  : آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو نُور نہیں بلکہ بَشر یقین کرنا۔(اہلحدیث)
د  : آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق یہ ایمان رکھنا کہ حاضر ناظر بھی ہیں اور عالم الغیب بھی۔ (بریلوی)
ھ  : یہ ایمان رکھنا کہ فوت شدہ بزرگان سے امداد طلب کرنا جائزہے اور بہت سے وفات یافتہ اَولیاء یہ طاقت رکھتے ہیں کہ عندالطلب کسی کی مُراد پوری کر سکتے ہیں۔(بریلوی)
و  : یہ عقیدہ رکھنا کہ قرآن کے سوا شریعت میں کوئی اَور چیز مُعتبر نہیں لہٰذا ہم سُنّتِ رسول ؐ اور احادیث رسول ؐ کی پیروی کے پابند نہیں خواہ کیسے ہی تواتر اور قوی روایات سے ہم تک پہنچی ہوں۔ (چکڑالوی۔ پرویزی)
ز  : یہ عقیدہ رکھنا کہ قرآن کے تیس پاروں میں درج سُورتوں کے علاوہ بھی کچھ سُورتیں ایسی نازل ہوئی تھیں جن میں حضرت علی کرّم اﷲ وجہہٗ کا ذکر پایا جاتا تھا لیکن وہ سُورتیں ضائع کر دی گئیں لہٰذا جو قرآن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہؤا تھا وہ مکمل صورت میں ہم تک نہیں پہنچا۔ (غالی شیعہ)
ح: یہ عقیدہ رکھنا کہ جماعت خانوں میں پنجوقتہ نماز کی بجائے کسی بزرگ کی تصویر سامنے رکھ کر مُناجات کرنا جائز ہے اور خدا سے مخاطب ہونے کی بجائے اس بزرگ کی تصویر سے مخاطب ہو کر دُعا کرنی جائز ہے اور یہی دُعا نماز کے قائم مقام ہے۔ (اسمٰعیلی فرقہ)
ط  : یہ عقیدہ رکھنا کہ پنج تن پاک اور چھ دیگر صحابہ ؓ کے سوا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے تمام صحابہ ؓ بشمولیت خلفائے راشدینِ ثلاثہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان رضوان اﷲ علیہم اجمعین سب کے سب اِسلام سے برگشتہ ہو چکے تھے اور عیاذاً باﷲ منافق کا درجہ رکھتے تھے۔ نیز یہ عقیدہ کہ پہلے تین خلفاء نعوذ باﷲ غاصب تھے اِس لئے ان پر تبّرا کرنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ (شیعہ)
ی  : کسی بزرگ کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ خدا اس میں عارضی یا مُستقل طور پر حلول فرما چکا ہے۔(حلولی فرقہ)
مندرجہ بالا تنقیحات پر غور کرنا اِس لئے ضروری ہے کہ قطعی اور ٹھوس شواہد سے یہ ثابت ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے متعلق مختلف مسلمان فرقوں کے علماء اور مجتہدین قطعی فتویٰ صادر فرما چکے ہیں کہ ایسے عقائد کے حامل خواہ دیگر ضروریاتِ دین پر ایمان بھی رکھتے ہوں یقینا دائرۂ اسلام سے خارج ہیں اور اُن کے کُفر میں شک کرنے والا بھی بِلا شُبہ خارج از اسلام قرار دیا جائے گا۔
اِس ضمن میں بعض فتاویٰ ضمیمہ نمبر ۴ میں ملاحظہ فرمائیے۔
مندرجہ بالا اُمور کی روشنی میں ہم پُر زور اپیل کرتے ہیں کہ اگر حقیقتاً عقل اور انصاف کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اسلام میں جماعتِ احمدیہ کی حیثیت پر غور فرمانا مقصود ہے یا اسلام میں آیت خاتم النّبییّن کی کسی تشریح کے قائل ہونے والے کسی فرد یا فرقہ کی حیثیت کا تعیّن کرنا مقصود ہے تو پھر ایسا پیمانہ تجویز کیا جائے جس میں ہر منافی اسلام عقیدہ رکھنے والے کے کُفر کو ماپا جاسکتا ہو اور اس پیمانہ میں جماعتِ احمدیہ کے لئے بہرحال کوئی گنجائش نہیں۔
مندرجہ بالا تمام سوالات کے بارے میں جماعتِ احمدیہ کے مؤقف کا خلاصہ یہ ہے کہ:
اوّل: جماعتِ احمدیہ کے نزدیک مسلمان کی صرف وہی تعریف قابلِ قبول اور قابلِ عمل ہو سکتی ہے جو قرآنِ عظیم سے قطعی طور پر ثابت ہو اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم سے قطعی طور پر مروی ہو اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں اسی پر عمل ثابت ہو۔ اِس اصل سے ہٹ کر مسلمان کی تعریف کرنے کی جو بھی کوشش کی جائے گی وہ رخنوں اور خرابیوں سے مبرّا نہیں ہو گی بالخصوص بعد کے زمانوں میں (جب کہ اسلام بٹتے بٹتے بہتّر فرقوں میں تقسیم ہو گیا) کی جانے والی تمام تعریفیں اس لئے بھی ردّ کرنے کے قابل ہیں کہ ان میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے اور بیک وقت اُن سب کو قبول کرنا ممکن نہیں ___اور کسی ایک کو اختیار کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ اس طرح ایسا شخص دیگر تعریفوں کی رُو سے غیر مسلم قرار دیا جائے گا اور اس دَلدَل سے نکلنا کسی صورت میں ممکن نہیں رہے گا۔ جسٹس محمد منیر نے ۱۹۵۳ء کی انکوائری کے دَوران جب مختلف علماء سے مسلمان کی تعریف پر روشنی ڈالنے کے لئے کہا تو افسوس ہے کہ کوئی د۲و عالم بھی کسی ایک تعریف پر متفق نہ ہو سکے۔ چنانچہ اِس بارے میں جسٹس منیر صاحب افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:-
’’علماء کی طرف سے کی گئی مختلف تعریفوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے کیا اِس امر کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم کسی قسم کا تبصرہ کریں سوائے اس کے کہ کوئی بھی د۲و عالمانِ دین اِس بنیادی مسئلہ پر متفق نہیں ___اگر ہم بھی ایک عالمِ دین کی طرح اپنی طرف سے ایک تعریف کریں اور وہ باقی تمام تعریفوں سے مختلف ہو تو ہم خود بخود دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائیں گے ___اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی طرف سے کی گئی تعریف اختیار کریں تو ہم اس عالم کے نظریہ کے مطابق تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسری ہر تعریف کے مطابق کافر‘‘۔ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات ۱۹۵۳ء صفحہ ۲۱۷،۲۱۸)
جسٹس منیر جس نتیجہ پر پہنچے ہیں اس سے یہ امر قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ مسلمان کی تعریف کے بارہ میں رپورٹ کی تدوین تک کبھی کوئی ایسا اجماع نہیں ہؤا جسے سَلفِ صالحین کی سَند حاصل ہو لہٰذا آج اگر کوئی بظاہر متفق علیہ تعریف پیش کی جائے تو اسے اُمّت کی اجماعی تعریف ہر گز قرار نہیں دیا جائے گا اور اُسے سلفِ صالحین کی سند حاصل نہیں ہو گی۔
پس جماعتِ احمدیہ کا مؤقف یہ ہے کہ مسلمان کی وہی دستوری اور آئینی تعریف اختیار کی جائے جو حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ مُبارک سے ارشاد فرمائی اور جو اسلامی مملکت کے لئے ایک شاندار چارٹر کی حیثیت رکھتی ہے جس کے لئے ہم تین احادیثِ نبویہ صلی اﷲ علیہ وسلم پیش کرتے ہیں:-
۱- حضرت جبریل علیہ السلام آدمی کے بھیس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور حضور ؐ سے پوچھا:
’’یَامُحَمَّدُ اَخْبِرْ نِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ: اَلْاِسْلَامُ اَنْ تَشْھَدَ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اﷲِ وَتُقِیْمَ الصَّلٰوۃَ وَتُؤْتِی الزَّکٰوۃَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ البَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا۔ قَالَ صَدَقْتَ۔ فَعَجِبْنَالَہٗ یَسْئَلُہٗ وَیُصَدِّقُہٗ۔ قَالَ: فَاَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَانِ۔ قَالَ: اَنْ تُؤْمِنَ بِاﷲِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہ! وَرُسُلِہ! وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ قَالَ صَدَقْتَ‘‘۔
   (مسلم کتاب الایمان باب نمبر ۱)
۲- ’’جَائَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ اَھْلِ نَجْدٍ ثَائِرَالرَّأْسِ نَسْمَعُ دَوِیَّ صَوْتِہٖ وَلَا نَفْقَہُ مَا یَقُوْلُ حَتّٰی دَنَافَاِذَا ھُوَ یَسْأَلُ عَنِ الْاِسْلَامِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خمْسُ صَلٰوَتٍ فِی الْیَوْمِ وَاللَّیْلَۃِ فَقَالَ ھَلْ عَلَیَّ غَیْرُ ھَا؟ قَالَ لَااِلَّا اَنْ تَطَوَّعَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصِیَامُ رَمَضَانَ قَالَ ھَلْ عَلَیَّ غَیْرُہٗ؟ قَالَ لَا اِلَّا اَنْ تَطَوَّعَ قَالَ وَذَکَرَلَہٗ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الزَّکَاۃَ قَالَ ھَلْ عَلَیَّ غَیْرُھَا؟ قَالَ لَا اِلَّا اَنْ تَطَوَّعَ قَالَ فأَدْبَرَالرَّجُلُ وَھُوَ یَقُوْلُ وَاﷲِ لَاأَزِیْدُ عَلٰی ھٰذَا وَلَا أَنْقُصُ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَفْلَحَ اِنْ صَدَقَ‘‘۔
  (صحیح بخاری کتاب الایمان باب الزکاۃ من الاسلام)
ترجمہ حدیث نمبر ۱:  کہ اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم! مجھے اِسلام کے بارے میں مطلع فرمائیں۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تُو گواہی دے کہ اﷲ کے سوا اَور کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں نیز یہ کہ تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور اگرراستہ کی توفیق ہو تو بیت اﷲ کا حج کرو۔ اس شخص نے کہا کہ حضور ؐ نے بجا فرمایا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہمیں اس پر تعجب آیا کہ سوال بھی کرتا ہے اور جواب کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ پھر اُس شخص نے پوچھا کہ مجھے ایمان کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ آپ اﷲ پر ایمان لائیں۔ اُس کے فرشتوں ، اُس کی کتابوں، اُس کے رسُولوں پر ایمان لائیں نیز یومِ آخر پر ایمان لائیں اور قضاء و قدر کے بارے میں خیر و شر پر بھی ایمان لائیں۔ اُس شخص نے کہا کہ آپ نے درست فرمایا ہے۔
ترجمہ حدیث نمبر ۲:  اہلِ نجدمیں سے ایک شخص پراگندہ بالوں والا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا ہم اس کی آواز کی گنگناہٹ تو سُنتے تھے مگر اس کی باتوں کو نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ وہ شخص زیادہ قریب ہو گیا تو معلوم ہؤا کہ وہ حضور ؐ سے اِسلام کے بارے میں دریافت کر رہا ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاکہ دن اور رات میں پانچ نمازیں مقرر ہیں۔ اس نے کہا کہ ان پانچ کے علاوہ اَور بھی نمازیں ہیں؟ حضور ؐ نے فرمایا کہ نہیں بجز اس کے کہ تم بطور نفل ادا کرنا چاہو۔ حضور ؐ نے پھر فرمایا کہ رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے پوچھا کہ رمضان کے روزوں کے علاوہ اَور بھی روزے فرض ہیں؟ حضورؐ نے فرمایا نہیں سوائے اس کے کہ تم بطور نفل رکھنا چاہو۔ پھر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے سامنے زکوٰۃ کا ذکر فرمایا۔ اس نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی اَور ہے؟ حضور ؐ نے فرمایا کہ نہیں سوائے اس کے کہ تم بطور نفل زیادہ ادا کرنا چاہو۔ وہ شخص مجلس سے اُٹھ کر چل پڑا اور یہ کہہ رہا تھا کہ بخدا مَیں ان احکام پر نہ زیادہ کروں گا اور نہ ان میں کمی کروں گا ___رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ اپنے اس قول میں سچّا ثابت ہؤا تو ضرور کامیاب ہو جائے گا۔
’’مَن صَلّٰی صَلٰوتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَ اَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذٰلِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِیْ لَہٗ ذِمَّۃُ اﷲِ وَذِمَّۃُ رَسُوْلِہٖ فَـلَا تُخْفِرُوا اﷲَ فِیْ ذِمَّتِہٖ‘‘۔
    (بخاری کتاب الصلٰوۃ باب فضل استقبال القبلۃ)
’’جس شخص نے وہ نماز ادا کی جو ہم ادا کرتے ہیں۔ اُس قبلہ کی طرف رُخ کیا جس کی طرف ہم رُخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے جس کے لئے اﷲ اور اُس کے رسول کا ذمّہ ہے۔ پس تم اﷲ کے دئے ہوئے ذمّے میں اس کے ساتھ دغا بازی نہ کرو‘‘۔ ۱؎
ہمارے مقدس آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ احسانِ عظیم ہے کہ اس تعریف کے ذریعہ آنحضور ؐ نے نہایت جامع و مانع الفاظ میں عالمِ اسلامی کے اتحاد کی بین الاقوامی بُنیاد رکھ دی ہے اور ہر مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ اِس بُنیادکو اپنے آئین میں نہایت واضح حیثیت سے تسلیم کرے ورنہ اُمّتِ مُسلمہ کا شیرازہ ہمیشہ بکھرا رہے گا اور فتنوں کا دروازہ کبھی بند نہ ہو سکے گا___قرونِ اُولیٰ کے بعد گزشتہ چودہ صدیوں میں مختلف زمانوں میں مختلف علماء نے اپنی من گھڑت تعریفوں کی رُو سے کُفر کے جو فتاوٰی صادر فرمائے ہیں ان سے ایسی بھیانک صورتِ حال پیدا ہوئی ہے کہ کسی ایک صدی کے بزرگانِ دین، علمائے کرام، صوفیاء اور اولیاء اﷲ کا اسلام بھی ان تعریفوں کی رُو سے بچ نہیں سکا اور کوئی ایک فرقہ بھی ایسا پیش نہیں کیا جاسکتا جس کا کُفر بعض دیگر فرقوں کے نزدیک مسلّمہ نہ ہو۔ اِس ضمن میں ضمیمہ نمبر ۵ لف ھٰذا کیا جاتا ہے۔

فتاوٰی کُفر کی حیثیت

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان فتاوٰی کُفر کی کیا حیثیت ہے اور کیا کوئی عالمِ دین اِنفرادی حیثیت سے یا اپنے فرقہ کی نمائندگی میں کسی دوسرے فرد یا فرقہ پر کُفر کا فتویٰ دینے کا مجاز ہے یا نہیں اور ایسے فتاوٰی سے اُمّتِ مسلمہ کی اجتماعی حیثیت پر کیا اثر پڑے گا؟
جماعتِ احمدیہ کے نزدیک ایسے فتاوٰی کی حیثیت اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہ بعض علماء کے نزدیک بعض عقائد اِس حد تک اسلام کے منافی ہیں کہ ان عقائد کا حامل عند اﷲ کافر قرار پاتا ہے اور قیامت کے روز اس کا حَشر نشر مسلمانوں کے درمیان نہیں ہو گا۔ اِس لحاظ سے ان فتاوٰی کو اِس دُنیا میں محض ایک انتباہ کی حیثیت حاصل ہے اور جہاں تک دُنیا کے معاملات کا تعلق ہے کسی شخص یا فرقے کو اُمّتِ مُسلمہ کے وسیع تر دائرہ سے خارج کرنے کا اہل یا مجاز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ معاملہ خدا اور بندے کے درمیان ہے اور اس کا فیصلہ قیامت کے روز جزا سزا کے دن ہی ہو سکتا ہے۔ دُنیا کے معاملات میں ان فتاوٰی کا اطلاق اُمّتِ مُسلمہ کی وحدت کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور کسی فرقے کے علماء کے فتویٰ کے پیش نظر کسی دوسرے فرقہ یا فرد کو اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جاسکتا۔
یہ مؤقف کہ ایک فرقہ کے کُفر کے بارہ میں اگر باقی تمام فرقوں کا اتفاق ہو جائے توایسی صورت میں دائرۂ اسلام سے اس فرقہ کا اخراج جائز قرار دیا جاسکتا ہے اِس بناء پر غلط اور نامعقول ہے کہ (جیسا کہ ضمیمہ میں درج شُدہ فتاوٰی کے مطالعہ سے ظاہر ہو گا) عملاً مسلمانوں کے ہر فرقہ میں کچھ نہ کچھ اعتقادات ایسے پائے جاتے ہیں جن کے متعلق اکثرفرقوں کا یہ اتفاق ہے کہ ان کا حامل دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور یہ صورتِ حال آسمانی حَکم و عَدل کا تقاضہ کرتی ہے۔
اگر آج بعض اختلافات کی بناء پر جماعتِ احمدیہ کے خلاف دیگر تمام فرقوں کا اتفاق ممکن ہے تو کل اہلِ تشیع کے خلاف ان کے بعض خصوصی عقائد کے بارے میں بھی ایسا ہوناممکن ہے اور اہلِ قرآن اَلموسُوم چکڑالوی یا پرویزی کے متعلق بھی ایسا ہو سکتا ہے اور اہلِ حدیث ، وہابی یا دیوبندیوں کے بعض عقائد کے متعلق بھی دیگر فرقوں کے علماء کا عملاً اتفاق ہے۔ پس سوادِ اعظم کا لفظ ایک مبالغہ آمیز تصور ہے۔ کسی ایک فرقہ کو خاص طور پر مدِّنظر رکھا جائے تو اس کے مقابل پر دیگر تمام فرقے سوادِ اعظم کی حیثیت اختیار کر جائیں گے اور اِس طرح باری باری ہر ایک فرقہ کے خلاف بقیہ سوادِ اعظم کا فتویٰ کُفر ثابت ہوتا چلا جائے گا۔
ہمارے نزدیک یہ فتاوٰی ظاہر پر مبنی ہیں اور فی ذاتہا ان کو جنت کا پروانہ یا جہنم کا وارنٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جہاں تک حقیقتِ اسلام کا تعلق ہے حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے الفاظ میں ہم حقیقی مسلمان کی تعریف درج کرتے ہیں:-
’’اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اِس آیتِ کریمہ میں اُس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اﷲ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے۔ مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہو جاوے۔
’’اِعتقادی‘‘ طور پر اِس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خداتعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے اور ’’عملی‘‘ طور پر اِس طرح سے کہ خالصاً  ِﷲ حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق اور ہر یک خدا داد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لاوے مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبودِ حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے …
اَب آیاتِ ممدوحہ بالا پر ایک نظرِ غور ڈالنے سے ہرا یک سلیم العقل سمجھ سکتا ہے کہ اِسلام کی حقیقت تب کسی میں متحقق ہو سکتی ہے کہ جب اس کا وجود معہ اپنے تمام باطنی و ظاہری قویٰ کے محض خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کی راہ میں وقف ہو جاوے اور جو امانتیں اس کو خداتعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں پھر اسی مُعطیٔ حقیقی کو واپس دی جائیں اور نہ صرف اِعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اِسلام اور اس کی حقیقتِ کاملہ کی ساری شکل دکھلائی جاوے یعنی شخص مدعیٔ اسلام یہ بات ثابت کر دیوے کہ اس کے ہاتھ اور پیر اور دِل اور دماغ اور اس کی عقل اور اس کا فہم اور اس کا غضب اور اس کا رحم اور اس کا حِلم اور اس کا عِلم اور اس کی تمام رُوحانی اور جسمانی قوتیں اور اس کی عزت اور اس کا مال اور اس کا آرام اور سرور اور جو کچھ اس کا سَر کے بالوں سے پَیروں کے ناخنوں تک باعتبار ظاہر و باطن کے ہے یہاں تک کہ اس کی نیّات اور اس کے دِل کے خطرات اور اس کے نفس کے جذبات سب خدا تعالیٰ کے ایسے تابع ہو گئے ہیں کہ جیسے ایک شخص کے اعضاء اُس شخص کے تابع ہوتے ہیں۔ غرض یہ ثابت ہو جائے کہ صدقِ قدم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اس کا ہے وہ اس کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہو گیا ہے اور تمام اعضاء اور قویٰ الٰہی خدمت میں ایسے لگ گئے ہیں کہ گویا وہ جوارح الحق ہیں۔
اور ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات بھی صاف اور بدیہی طور پر ظاہر ہو رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں زندگی کا وقف کرنا جو حقیقتِ اسلام ہے د۲و قسم پر ہے۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرایا جاوے اور اس کی عبادت اور محبت اور خوف اور رجا میں کوئی دوسرا شریک باقی نہ رہے اور اُس کی تقدیس اور تسبیح اور عبادت اور تمام عبودیّت کے آداب اور احکام اور اوامر اور حدود اور آسمانی قضا و قدر کے امور بہ دل و جان قبول کئے جائیں اور نہایت نیستی اور تذلّل سے ان سب حُکموں اور حدّوں اور قانونوں اور تقدیروں کو بارادتِ تام سَر پر اُٹھا لیا جاوے اور نیز وہ تمام پاک صداقتیں اور پاک معارف جو اُس کی وسیع قدرتوں کی معرفت کا ذریعہ اور اُس کی ملکُوت اور سلطنت کے علو مرتبہ کو معلوم کرنے کے لئے ایک واسطہ اور اُس کے آلاء اور نعماء کے پہچاننے کے لئے ایک قوی رہبر ہیں بخوبی معلوم کر لی جائیں۔
دوسری قسم اﷲ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کی یہ ہے کہ اُس کے بندوں کی خدمت اور ہمدردی اور چارہ جوئی اور باربرداری اور سچی غمخواری میں اپنی زندگی وقف کردی جاوے۔ دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئے دُکھ اُٹھاویں اور دوسروں کی راحت کے لئے اپنے پر رَنج گوارا کر لیں۔
اِس تقریر سے معلوم ہؤا کہ اِسلام کی حقیقت نہایت ہی اعلیٰ ہے اور کوئی انسان کبھی اِس شریف لقب اہلِ اسلام سے حقیقی طور پر ملقّب نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنا سارا وجود معہ اس کی تمام قوتوں اور خواہشوں اور ارادوں کے حوالہ بخُدا نہ کر دیوے اور اپنی انانیّت سے معہ اُس کے جمیع لوازم کے ہاتھ اُٹھا کر اُسی کی راہ میں نہ لگ جاوے۔
پس حقیقی طور پر اُسی وقت کسی کو مسلمان کہا جائے گا کہ جب اُس کی غافلانہ زندگی پر ایک سخت انقلاب وارد ہو کر اُس کے نفس امّارہ کا نقشِ ہستی مع اُس کے تمام جذبات کے یک دفعہ مِٹ جائے اور پھر اِس موت کے بعد مُحسن ﷲ ہونے کے نئی زندگی اُس میں پیدا ہو جائے اور وہ ایسی پاک زندگی ہو جو اُس میں بجُز طاعتِ خالق اور ہمدردیٔ مخلوق کے اَور کچھ بھی نہ ہو۔
خالق کی طاعت اِس طرح سے کہ اُس کی عزت و جلال اور یگانگت ظاہر کرنے کے لئے بے عزّتی اور ذ  ّلت قبول کرنے کے لئے مُستعد ہو اور اُس کی وحدانیت کا نام زندہ کرنے کے لئے ہزاروں موتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو اور اس کی فرمانبرداری میں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو بخوشیٔ خاطر کاٹ سکے اور اُس کے اَحکام کی عظمت کا پیار اور اس کی رضاجوئی کی پیاس گناہ سے ایسی نفرت دلاوے کہ گویا وہ کھا جانے والی ایک آگ ہے یا ہلاک کرنے والی ایک زہر ہے یا بھَسم کر دینے والی ایک بجلی ہے جس سے اپنی تمام قوتوں کے ساتھ بھاگنا چاہئے۔ غرض اس کی مرضی ماننے کے لئے اپنے نفس کی سب مرضیات چھوڑ دے اور اس کے پیوند کے لئے جانکاہ زخموں سے مجروح ہونا قبول کرلے اور اس کے تعلق کا ثبوت دینے کے لئے سب نفسانی تعلقات توڑ دے۔
اور خلق اﷲ کی خدمت اِس طرح سے کہ جس قدر خلقت کی حاجات ہیں اور جس قدر مختلف وجوہ اور طُرق کی راہ سے قسّامِ اَزل نے بعض کو بعض کا محتاج کر رکھا ہے اِن تمام امور میں محض  ِﷲ اپنی حقیقی اور بے غرضانہ اور سچّی ہمدردی سے جو اپنے وجود سے صادر ہو سکتی ہے ان کو نفع پہنچاوے اور ہر یک مدد کے محتاج کو اپنی خدا داد قوت سے مدد دے اور اُن کی دُنیا و آخرت دونوں کی اصلاح کے لئے زور لگاوے ___
سو یہ عظیم الشان لِلّٰہی طاعت و خدمت جو پیار اور محبت سے ملی ہوئی اور خلوص اور حقیّتِ تامہ سے بھری ہوئی ہے یہی اسلام اور اِسلام کی حقیقت اور اِسلام کا لُبِّ لُباب ہے جو نفس اور خلق اور ہَوا اور ارادہ سے موت حاصل کرنے کے بعد ملتا ہے‘‘۔
(آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۸ تا ۶۲)

٭٭٭

مکمل تحریر >>