Sunday 3 May 2015

لاہوری جماعت کے اعتراضات کے جوابات

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ا وّل رضی اللہ عنہ کی وفات پر جب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدرضی اللہ عنہ منصبِ خلافت پر متمکن ہوئے تو بعض لوگوں نے آپ کی بیعت نہ کی اور قادیان کو چھوڑ کر لاہور کو اپنا مرکز بناتے ہوئے اپنی ایک علیحدہ جماعت بنالی اور خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ سے وابستگی رکھنے والوں کے خلاف ایک مہم شروع کردی۔ یہ گروہ غیر مبایعین ، اہل پیغام ، پیغامی اور لاہوری احمدی جماعت کے نام سے معروف ہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے اس گروہ نے خلافت حقہ اسلامیہ سے وابستہ جماعت احمدیہ کے خلاف اپنے وساوس انٹرنیٹ پرپھیلانے کی مہم شروع کر رکھی ہے اور ساتھ ہی بڑی تعلّی سے دعویٰ کیا ہے کہ صرف لاہوری جماعت ہی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی اور تعلیمات کو صحیح اور اصل شکل میں پیش کر رہی ہے جبکہ خلافت سے وابستہ جماعت نے آپ کے دعاوی کو(نعوذباللہ) مسخ کرکے پیش کیا ہے ۔ بتوفیقِ الٰہی ان وساوس کا جواب ذیل میں دیا جاتاہے۔


اس مضمون کوPDF میں ڈاؤن لوڈ کریں


وسوسہ نمبر ایک

غیر مبایعین کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلا م ہرگزنبی نہ تھے اور آپ نے ہر گز کہیں نبوت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ آپ نے فرمایا کہ میں صرف مُحَدَّث ہوں یعنی وہ جس سے اللہ تعالیٰ بکثرت کلام کرتاہے ۔مگر ’’جماعت قادیان‘‘ نے خواہ مخواہ آپؑ کو نبی بنالیا ہے ۔

جواب

اس میں شک نہیں کہ شروع میں حضرت اقدس مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام مسلمانوں میں عام طورپرمشہور تعریف نبوت کو ہی صحیح تعریفِ نبوت خیال فرماتے رہے۔ آپ ۱۹۰۱ء تک یہی عقیدہ رکھتے رہے کہ چونکہ رسول اللہ ﷺخاتم النبیین ہیں اس لئے آپ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آ سکتا ، خواہ پرانا ہو یا نیا اورآپ اپنے الہامات میں موجود لفظ ’نبی‘ کی تاویل فرما دیتے اورکہتے کہ اس سے مراد صرف مُحَدَّث ہے ۔ آپ نے اس بات کا اظہار کئی جگہوں پر فرمایا۔ مثلاً ایک جگہ فرماتے ہیں :
’’۔۔۔قرآ ن کریم بعد خاتم النبیین کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا خواہ وہ نیا رسول ہو یا پرانا ہو کیونکہ رسول کوعلمِ دین بتوسط جبرائیل ملتاہے اور باب نزول جبرائیل بہ پیرایہ وحی ٔ رسالت مسدود ہے ‘‘۔(ازالہ اوہام حصہ دوم ۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۱۱۔مطبوعہ لندن)
مگر جب اللہ تعالیٰ نے آپ ؑ پر متواتر اور بارباروحی کے ذریعہ اصل حقیقت پوری طرح آشکار کر دی تو آپ ؑ نے باربار بتصریح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے واضح طورپر بتایاہے کہ میں فی الحقیقت نبی ہوں مگر یاد رہے کہ مَیں ظلّی نبی ہوں یعنی میں رسول اللہ ﷺکاامتی اورآپ تابع نبی ہوں اور بغیر کسی نئی شریعت کے ہوں۔
اس کے بعد آپ ہمیشہ ہی ہر اس شخص کو جو آپ کے نبی ہونے کے بارہ میں شک کرتاتھا ، اصرار کے ساتھ وضاحت سے بتاتے رہے کہ ان معنوں میں میں نبی ہوں۔ اور جہاں کہیں بھی آپ نے اس کے بعد نبوت کا انکار کیاہے ہمیشہ صرف ایسی نبوت کا انکار کیا ہے جونبی کریم ﷺ کی تابع نہ ہو آپ سے فیض یافتہ نہ ہواورنئی شریعت والی ہو۔آپ ؑ نے ’’ ختم نبوت‘‘ کے مروّجہ عام طورپرمفہوم میں وحی الٰہی سے کی جانے والی اس تبدیلی کا ذکر بڑی وضاحت سے فرمایاہے ۔چنانچہ حقیقۃ الوحی میں آپؑ پہلے ایک معترض کا ایک اعتراض درج کرتے ہیں اور پھراس کاجواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
’’سوال(۱) تریاق القلوب کے صفحہ ۱۵۷ میں (جو میری کتاب ہے) لکھاہے: اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گزرے کہ میں نے اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیح پرفضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک جزئی فضیلت ہے کہ جو غیرنبی کو نبی پر ہو سکتی ہے ۔ پھر ریویو جلد اول نمبر ۶ صفحہ ۲۵۷ میں مذکور ہے :خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے ۔ پھرریویو صفحہ ۴۷۸میں لکھاہے: مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میر ی جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتاہوں وہ ہرگز نہ کر سکتااوروہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہرگز د کھلا نہ سکتا ۔
خلاصہ اعتراض یہ کہ ا ن دونوں عبارتوں میں تناقض ہے ۔
الجواب: یاد رہے کہ اس بات کو اللہ تعالیٰ خوب جانتاہے کہ مجھے ان باتوں سے نہ کوئی خوشی ہے نہ کچھ غرض کہ میں مسیح موعود کہلاؤں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں بہتر ٹھیراؤں ۔ خدا نے میرے ضمیر کی اپنی اس پاک وحی میں آپ ہی خبر دی ہے جیساکہ وہ فرماتاہے قُلْ اُجَرِّدُ نَفْسِی مِنْ ضُرُوْبِ الْخِطَابِ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا تویہ حال ہے کہ میں کسی خطاب کو اپنے لئے نہیں چاہتا یعنی میرا مقصد اورمیری مراد ان خیالات سے برتر ہے۔ اور کوئی خطاب دینا یہ خدا کا فعل ہے۔ میرا اس میں دخل نہیں ہے۔
رہی یہ بات کہ ایساکیوں لکھا گیا اور کلام میںیہ تناقض کیوں پیدا ہو گیا، سو اس بات کوتوجہ کرکے سمجھ لوکہ یہ اُسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براہین احمدیہ میں میں نے یہ لکھا تھاکہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا، مگر بعد میں یہ لکھاکہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں۔ اس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگرچہ خد اتعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایاکہ تیرے آنے کی خبر خدا اوررسول نے دی تھی،مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پرجماہوا تھااورمیرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہونگے اس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پرحمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھا جوعام مسلمانوں کا تھااوراسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا ۔ لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الٰہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھاتوہی ہے ۔ اور ساتھ اس کے صدہانشان ظہور میں آئے اورزمین وآسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہو گئے اورخداکے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبرکرکے مجھے اس طر ف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح آنے والا میں ہی ہوں۔ ورنہ میرا اعتقاد تووہی تھا جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیانسبت ہے ؟وہ نبی ہے اور خداکے بزرگ مقربین میں سے ہے ۔اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کوجزئی فضیلت قرار دیتا تھا ۔ مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پرقائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیاگیامگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔۔۔۔۔۔۔ خلاصہ یہ کہ میری کلام میں کچھ تناقض نہیں ۔ میں توخداتعالیٰ کی وحی کا پیروی کرنے والا ہوں ۔ جب تک مجھے اس سے علم نہ ہوا میں وہی کہتا رہا جو اوائل میں میں نے کہا اور جب مجھ کو اس کی طرف سے علم ہوا تومیں نے اس کے مخالف کہا ۔ میں انسان ہوں۔ مجھے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں۔۔۔‘‘۔
 (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۱۵۲تا۱۵۴ )

اس سے ثابت ہوا کہ آپ ؑ نے نبوت کی عمومی تعریف میں خصوصاً اپنی نبوت کے بارہ میں اپنے سابقہ موقف میں وحی الٰہی کی بناء پر تبدیلی فرمائی تھی ۔ آپ پہلے اپنے آپ کونبی نہ سمجھتے تھے بلکہ اپنے الہامات میں جہاں جہاں ’’نبی‘‘ کا لفظ پاتے اس کی تاویل فرماتے ۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے باربار تصریح فرمائی کہ تو درحقیقت نبی ہے تو آپ ؑ نے علی الاعلان اس بات کا بار بار اظہار فرمایا۔
مگر غیر مبایعین حضور ؑ کے صرف سابقہ عقیدہ کو ہی پیش کرتے ہیں اور آپ کے وحی الٰہی کے تابع اس تصحیح شدہ عقیدہ سے جان بوجھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں جس کا آپ نے بڑے اصرار کے ساتھ بارباراعلان فرمایا۔ 

حضرت مسیح موعود ؑ کا نبوت پراصرار

الفضل انٹرنیشنل کے ۴؍فروری ۲۰۰۰ء میں خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس رضی اللہ عنہ کا جو مقالہ نشر ہوا ہے اس میں آپ نے حضور اقدس علیہ السلام کی متعدد تحریرات درج فرمائی ہیں جن میں حضورؑ نے باربار اپنی ظلی نبوت کااعلان فرمایا ہے ۔ خاکسار یہاں بعض مزید مفید حوالے درج کرتاہے جن میں سے بعض آپؑ کی عربی کتب سے ماخوذ ہیں۔یہ تحریرات مسئلہ نبوت کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ آپؑ کی اپنے آقا ومولیٰ محمد مصطفی ﷺ سے حد درجہ محبت وفدائیت پر بھی روشن دلیل ہیں ۔
(۱)۔ حضور اقدس علیہ السلام نے امریکی پادری ڈاکٹرجان الیگزانڈر ڈوئی (جو بعد میں آپ کی دعا ئے مباہلہ سے واصل جہنم ہوا)کو مخاطب کرکے فرمایا:
ترجمہ:واللہ ، میں ہی وہ مسیح موعود ہوں جس کے آخری زمانہ میں، جبکہ ضلالت پھیل جائے گی، آنے کا وعدہ دیا گیاہے۔ عیسیٰ یقیناًفوت ہو گیاہے اور مذہب تثلیث جھوٹ اورباطل ہے۔ توُ یقیناًاپنے دعویٰ نبوت میں اللہ پر افتراء کر رہا ہے ۔ نبوت تو ہمارے نبی کریم ﷺ پرختم ہو گئی۔ اور اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن جو سابقہ صحف سے بہتر ہے اوراب کوئی شریعت نہیں مگر شریعت محمدیہ۔ تاہم میں خیرالبشر ؐ کی زبانِ مبارک سے ’’نبی‘‘ کا نا م دیا گیاہوں اوریہ ظلّی بات ہے اور آپؐ کی پیروی کی برکات کا نتیجہ ہے ۔ میں اپنے آپ میں کوئی ذاتی خوبی نہیں دیکھتا بلکہ میں نے جو کچھ بھی پایاہے اُسی مقدس نفس کے واسطہ سے ہی پایاہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے میری نبوت سے مراد صرف کثرت مکالمہ و مخاطبہ لیاہے۔ اور اس پراللہ کی لعنت ہے جواس سے زائد چاہے یا اپنے آپ کوکچھ سمجھے یا اپنی گردن کو نبی اکرم ﷺکی نبوت کے جوئے سے باہر نکالے۔ ہمارے رسول خاتم النبیین ہیں اوران پر نبیوں کا سلسلہ اختتام کو پہنچا ۔ پس اب کسی کا حق نہیں کہ ہمارے رسول مصطفی ؐکے بعد مستقل طورپر نبوت کا دعویٰ کرے ۔ آپ ؐ کے بعد صرف کثرت مکالمہ و مخاطبہ باقی ہے اور اس کے لئے بھی یہ شرط ہے کہ آپ ؐ کا متبع ہو ۔ آپؐ کی پیروی کے بغیر یہ بات بھی ممکن نہیں۔ اوراللہ کی قسم مجھے یہ مقام نہیں ملا مگر مصطفوی شعاعوں کی پیروی کی بدولت اور میں مجازی طورپرنبی کانام دیا گیاہوں نہ کہ حقیقی طورپر ۔ پس یہاں نہ اللہ کی غیرت بھڑکتی ہے نہ اس کے رسول کی ۔ کیونکہ میں تو نبی (کریم ﷺ) کے پروں تلے پرورش پاتاہوں اور میرا یہ قدم نبی کریم ﷺ کے (مبارک) قدموں تلے ہے۔
مزید برآں یہ کہ میں نے اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کہا بلکہ میں نے تو اس کی پیروی کی ہے جومیرے رب کی طرف سے مجھے وحی کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد میں مخلوق کی دھمکیوں سے ڈرنے والا نہیں ۔ ہر کوئی اپنے عمل کے بارہ میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا اور کوئی چھپی ہوئی چیز بھی اللہ پر مخفی نہیں‘‘۔ (الاستفتاء ، ضمیمہ حقیقۃ الوحی صفحہ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲صفحات ۶۳۶ تا ۶۳۸)
(۲)۔ایک اور عربی تحریر میں فرماتے ہیں :
ترجمہ: یقیناًہم مسلمان ہیں ۔ اللہ کی کتاب فرقان پرہمار ا ایمان ہے ۔ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے آقاو مولا محمد (ﷺ) اس کے نبی اوررسول ہیں اور یہ کہ آپ بہترین دین لے کر آئے ہیں ۔نیز ہمارا ایمان ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں مگروہی جس نے آپ کے فیض سے پرورش پائی اور آپ کے وعدہ نے اسے ظاہر کیا۔ ۔۔۔۔۔۔ہمارے نزدیک ’’ختم نبوت ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کے کمالات ہمارے نبی جو کہ اللہ کے جملہ رسولوں اور انبیاء میں سب سے افضل ہیں ، پرختم ہو گئے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگامگر وہی جو آپ کی امت میں سے ہو اور آپؐ کے کامل ترین پیروکارو ں میں سے ہو اورجس نے آپ ؐہی کی روحانیت سے جملہ فیوض حاصل کئے ہوں اور آپ ؐ ہی کی روشنی سے روشن ہواہو۔ کیونکہ ایسی صورت میں کوئی غیر نہیں ہوتا اور نہ ہی غیرت کا کوئی سوال پیدا ہوتاہے اورکوئی اور نبوت نہیں بنتی اور نہ کوئی حیرت کی وجہ پیدا ہوتی ہے بلکہ احمد(ﷺ) ہی ہیں جو ایک اور آئینہ میں ہیں اورکوئی انسان اپنی اس تصویر پرغیرت نہیں کھاتا جو اسے اللہ تعالیٰ آئینے میں دکھاتاہے۔ شاگردوں اوربیٹوں پر بھلا کب غیرت بھڑکتی ہے۔۔۔۔
اس امت میں جس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا مگراس نے یہ عقیدہ نہ رکھا کہ وہ ہمارے آقا و مولا خیرالبشر محمد(ﷺ )سے تربیت یافتہ ہے اور یہ یقین نہ رکھا کہ وہ اس اسوہ حسنہ کی پیروی کئے بغیر کچھ چیز نہیں اوریہ کہ قرآن کریم پرسب شریعتیں ختم ہوگئیں توایسا شخص یقیناًہلاک ہو گیا اوراس نے اپنے آپ کو کافروں اوربدکاروں میں شامل کرلیا ۔
جوشخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے مگر یہ ایمان نہ رکھے کہ وہ آپ ؐ کی امت میں سے ہے اور یہ کہ اس نے جوکچھ بھی پایا آپ ؐ ہی کے فیضان سے پایا اور یہ کہ وہ آپ ؐ ہی کے بستان کا پھل ہے اور آپ ہی کی موسلادھار بارش کا قطرہ ہے اور آپ ہی کی چمکار کی لَو ہے تو ایسا شخص لعنتی ہے ۔ اس پراوراس کے انصار ومددگار اور پیروکار ہیں اللہ کی لعنت ہے ۔(مواہب الرحمن ۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۸۵تا ۲۸۷)
(۳)۔ ایک اورجگہ فرمایا :
ترجمہ: اے مردان میدان اور فقہاء زمان اور علماء عصرِ حاضر ، اور فضلاء عالَم ، آپ لوگ مجھے ایک ایسے شخص کے بارہ میں فتویٰ دیں جو کہتاہے کہ میں اللہ کی طرف سے ہوں اوراس کے لئے خدا کی حمایت اس طرح ظاہر ہوئی ہے جیسے چاشت کے وقت کا سورج،اور اس کی صداقت کے انوا ر اس طرح روشن ہیں جیسے چودھویں کا چاند ۔ نیز اس کی خاطر اللہ نے روشن نشان دکھائے ہیں اور جس کام کو بھی کرنے کا اس نے ارادہ کیا خدا اس میں اس کی مدد کے لئے کھڑا ہو گیا ۔ نیز ا س نے ا س کی دعاؤں کو سنا ، خواہ وہ احباب کے بارہ میں تھیں یا دشمنوں کے بارہ میں ۔ یہ بندہ کوئی بات نہیں کہتامگر وہی جو نبی کریم ﷺ نے کہی ہو اور وہ ہدایت سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکالتا ۔ یہ شخص کہتاہے کہ یقیناًاللہ نے مجھے اپنی وحی کے ذریعہ نبی کا نام دیاہے ، نیزقبل ازیں بھی ہمارے رسول مصطفی کی زبان مبارک سے مجھے نبی کا نام دیا گیاہے۔ اورنبوت سے اس کی مراد بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بکثرت شرف مکالمہ پاتاہے اور اللہ سے بکثرت غیبی خبریں پاتاہے اوربکثرت وحی پاتاہے۔ نیز کہتاہے کہ نبوت سے ہماری مراد وہ نہیں ہے جو پہلے صحائف میں ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسا درجہ ہے جو ہمارے نبی خیرالوریٰ کی پیروی کئے بغیر نہیں مل سکتا ۔ اورجس کوبھی یہ درجہ ملتاہے ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ ایسا کلام کرتاہے جوبہت زیادہ اور بہت واضح ہوتاہے ۔ مگرشریعت اپنی اصل حالت پر ہی رہتی ہے ۔ نہ اس سے کوئی حکم کم ہوتاہے ، نہ اس میں کسی ہدایت کی زیادتی ہوتی ہے۔ نیز یہ مدعی کہتاہے کہ میں نبی اکرم ؐ کی امت کا ایک فرد ہوں ، اس کے باوجود اللہ نے نبوت محمدیہ کے فیوض کے تحت مجھے نبی کا نام دیاہے، اوراس نے میری طرف وہ وحی کی جو اس نے کی ۔پس نہیں ہے میری نبوت مگر آپؐ ہی کی نبوت۔ اور نہیں ہیں میرے دامن میں مگر آپؐ ہی کے انوار اور آپؐ ہی کی شعاعیں۔ اگر آپؐ نہ ہوتے تومیں ہرگز کوئی قابلِ ذکر چیز نہ ہوتا اور نہ ہی اس لائق تھا کہ میرا نام لیاجاتا۔
نبی تو اپنے روحانی فیض سے پہچانا جاتاہے ۔ پس یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے نبی اکرمؐ کے فیض ظاہر نہ ہوتے جبکہ آپ ؐ سب نبیوں سے افضل اورفیض رسانی میں سب سے بڑھ کر اور درجہ میں سب سے اعلیٰ اور ارفع ہیں۔ اُس دین کی بھلاحقیقت ہی کیاہے جس کا نو ر دل کوروشن نہ کرے اور جس کی دوا پیاس نہ بجھائے اور جس کا وجود دلوں کو نہ گرمائے اور جس کی طرف کوئی ایسی خوبی منسوب نہ کی جاسکے جس کا ظاہر ہونا حجت تمام کردے۔
پھر ایسا دین چیز ہی کیا ہے جو مومن کو کفروانکار کرنے والے سے ممتاز نہ کر دے اور جس میں داخل ہونے والا ایسا ہی رہے جیسا کہ اس سے نکل جانے والا اور دونوں میں کوئی فرق ہی نظر نہ آوے ۔۔۔۔۔۔ جس نبی میں فیض رسانی کی صفت ناپید ہو اس کی سچائی پرکوئی دلیل قائم نہیں ہو سکتی اور اس کے پاس آ کر بھی کوئی اسے نبی نہیں کہہ سکتا ۔ اس کی مثال ایسے چرواہے کی سی نہیں جو اپنی بھیڑ بکریوں پر پتے جھاڑتا ہو اور انہیں پانی پلاتا ہو بلکہ وہ تو انہیں پانی اور چارہ سے دور رکھتاہے۔
اور تم جانتے ہو کہ ہمارا دین زندہ دین ہے اور ہمارے نبیؐ مُردوں کو جِلا بخشتے ہیں اور آپ ؐ آسمان سے اترنے والی بارش کی طرح عظیم الشان برکات لے کر آئے ہیں ۔ کسی دین کی مجال نہیں کہ وہ ان اعلیٰ صفات میں اس کے آگے دم مار سکے۔اس نہایت روشن دین کے سواکسی اور دین میں یہ طاقت ہی نہیں کہ وہ انسان سے اس کے حجابوں کا بوجھ اتارے اور اللہ تعالیٰ کے قصر اور اس کے دَر تک پہنچائے۔ اور اس بات میں شک کرنے والا اندھا ہی ہوگا‘‘۔ (الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲۔صفحہ ۶۸۸،۶۸۹)
(۴)۔ پھرآپ ؑ فرماتے ہیں:
’’۔۔۔اورمیں اسی کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیم ؑ سے مکالمہ و مخاطبہ کیا اور پھر اسحقؑ سے اوراسمعیلؑ سے اور یعقوب ؑ سے اور یوسفؑ سے اورموسیٰ ؑ سے اور مسیحؑ ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی ﷺ سے ایسا ہمکلام ہواکہ آپؐ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی، ایساہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شر ف بخشا ۔ مگریہ شرف مجھے محض آنحضرت ﷺ کی پیروی سے حاصل ہوا۔ اگر میں آنحضرت ﷺکی امت نہ ہوتا اورآپؐ کی پیروی نہ کرتا تو اگردنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ و مخاطبہ ہرگز نہ پاتا ۔ کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں ۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آ سکتا اوربغیر شریعت کے نبی ہو سکتاہے مگروہی جو پہلے امّتی ہو۔ پس اسی بناء پرمیں امتی بھی ہوں اورنبی بھی اور میر ی نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرتﷺ کی نبوت کا ایک ظل ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں ۔ وہی نبوت محمدیہ ہے جو مجھ میں ظاہرہوئی ہے۔ اور چونکہ میں محض ظلّ ہوں اور امّتی ہوں اس لئے آنجناب ؐ کی اس سے کچھ کسرِ شان نہیں۔۔۔‘‘۔ (تجلیات الٰہیہ ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۱۱،۴۱۲)
(۵)۔اسی طرح آپ نے تحریر فرمایاکہ :
’’یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوے میں نبی کا نا م سن کر دھوکہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویامیں نے اس نبوت کا دعویٰ کیاہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں ۔ میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت ﷺکے افاضۂ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا ۔ اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔ اور میر ی نبوت آنحضرت ﷺ کی ظل ہے نہ کہ اصلی نبوت اسی وجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیساکہ میرا نام نبی رکھا گیا ایساہی میرا 5 نام امتی بھی رکھا ہے تا معلوم ہو کہ ہرایک کمال مجھ کو آنحضرتﷺ کی اتباع اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے ‘‘۔ (حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۵۴۔ حاشیہ )
(۶)۔پھر فرمایا:
’’ ۔۔۔سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔(دافع البلاء ۔روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۳۱)
(۷)۔ نیزفرمایا:
’’ ۔۔۔دنیا میں کوئی نبی نہیں گزرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا ۔ سو جیسا کہ براہین احمدیہ میں خدا نے فرمایاہے میں آدمؑ ہوں، میں نوحؑ ہوں، میں ابراہیمؑ ہوں، میں اسحقؑ ہوں، میں یعقوب ؑ ہوں، میں اسماعیل ؑ ہوں ، میں موسیٰؑ ہوں ، میں داؤدؑ ہوں ، میں عیسیٰ ؑ ابن مریم ہوں ، میں محمد ﷺ ہوں یعنی بروزی طورپر جیساکہ خدا نے اسی کتاب میں یہ سب نام مجھے دئیے اور میری نسبت جَرِیُ اللّٰہِ فِی حُلَلِ الْاَنْبِیَاء فرمایا یعنی خدا کا رسول نبیوں کے پیرایوں میں ۔ سو ضرور ہے کہ ہرایک نبی کی شان مجھ میں پائی جاوے ۔۔۔۔۔۔‘‘۔(تتمہ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۲۱)
(۸)۔پھرآپؑ فرماتے ہیں:
’’نبوت اور رسالت کا لفظ خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں میری نسبت صدہا مرتبہ استعمال کیا ہے مگراس لفظ سے صرف وہ مکالمات مخاطبات الٰہیہ مراد ہیں جو بکثرت ہیں اور غیب پر مشتمل ہیں ۔ اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔ ہر ایک شخص اپنی گفتگو میں ایک اصطلاح اختیار کر سکتاہے ۔لِکُلٍّ اَنْ یَّصْطَلِحَ۔ سوخدا کی یہ اصطلاح ہے جوکثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھاہے یعنی ایسے مکالمات جن میں اکثر غیب کی خبریں دی گئی ہیں۔ اور لعنت ہے اس شخص پر جو آنحضرت ﷺ کے فیض سے علیحدہ ہو کر نبوت کا دعویٰ کرے ۔مگر یہ نبوت آنحضرت ﷺکی نبوت ہے نہ کوئی نئی نبوت اور اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ اسلام کی حقانیت دنیا پرظاہر کی جائے اورآنحضرت ﷺ کی سچائی دکھلائی جائے‘‘۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد ۲۳ مطبوعہ لندن صفحہ ۳۴۱)
(۹)۔ پھر تحریر فرمایا :
’’۔۔۔ میں اس کے رسول پردلی صدق سے ایمان لایاہوں اور جانتاہوں کہ تمام نبوتیں اس پرختم ہیں اوراس کی شریعت خاتم الشرائع ہے مگرایک قسم کی نبوت ختم نہیں یعنی و ہ نبوت جو اس کی کامل پیروی سے ملتی ہے اور جو اس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے ۔وہ ختم نہیں کیونکہ و ہ محمدی نبوت ہے یعنی اس کا ظل ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہے اور اسی کا مظہرہے اوراسی سے فیضیاب ہے۔۔۔‘‘۔(چشمہ معرفت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۴۰)

نبی ٔمجازی اور نبی ٔحقیقی کا اصل مفہوم

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کے انکارمیں’’جماعت لاہور‘‘ کی طرف سے انٹرنیٹ پر ایک دلیل یہ دی گئی ہے کہ آپ نے خود فرمایاہے کہ میں مستقل نبی نہیں ہو ں بلکہ میں علی سبیل المجاز والاستعارہ نبی ہوں۔
اہل پیغام کا یہ دھوکہ کسی ایسے شخص پرتو شاید چل جائے جس نے حضور ؑ کی جملہ تحریرات نہ پڑھی ہوں مگران پرنہیں چل سکتا جنہوں نے حضرت اقدس ؑ کی جملہ تحریرات پڑھی ہوں اور جن کا آپ کی زبان یاقلم مبارک سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ پرسچاایمان ہو ۔ آپؑ نے خود ہرجگہ اپنے ’’غیرمستقل نبی‘‘ یا ’’مجازی نبی‘‘ یا علی سبیل الاستعارہ نبی‘‘ ہونے کی وضاحت فرمادی ہے ۔

اول

حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے آخری سفر لاہور کے دوران اپنی وفات سے چند روز قبل بعض معززین کو عشائیہ دیا جس میں آپ نے ایک خطاب فرمایا۔ آپ کی وفات سے تین روز قبل ’اخبار عام ‘لاہور نے یہ غلط خبر اڑائی کہ نعوذباللہ آپ نے اس لیکچر میں اپنے نبی ہونے کا انکار فرمایاہے ۔ حضور اقدس ؑ کو جونہی اس کا علم ہوا آپ نے فوراً اس اخبار کے مدیر کو ایک وضاحتی خط تحریر فرمایا ۔(یہ خط حضرت اقدسؑ نے۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کو لکھا تھا اور ’’اخبار عام‘‘میں ہی ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء میں آپ کی وفات کے روز شائع ہوا5 تھا)۔اس میں آپؑ نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا :
’’۔۔۔واضح ہو کہ اس جلسہ میں مَیں نے صرف یہ تقریر کی تھی کہ میں ہمیشہ اپنی تالیفات کے ذریعہ سے لوگوں کو اطلاع دیتا رہاہوں اوراب بھی ظاہر کرتاہوں کہ یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتاہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتاہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اور جس کے معنے ہیں کہ میں مستقل طورپر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتاہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپناعلیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتاہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتاہوں اور آنحضرت ﷺکی اقتداء اور متابعت سے باہر جاتاہوں، یہ الزا م صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا دعویٔ نبوت میرے نزدیک کفر ہے ۔ اور نہ آج سے بلکہ اپنی ہر کتاب میں ہمیشہ میں یہی لکھتا آیاہوں کہ اس قسم کی نبوت کامجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پرتہمت ہے۔ اور جس بنا پر میں اپنے تئیں نبی کہلاتاہوں وہ صرف اس قدرہے کہ میں خدا تعالیٰ کی ہمکلامی سے مشرف ہوں اور وہ میرے ساتھ بکثرت بولتااور کلام کرتاہے۔ اور میری باتوں کاجواب دیتاہے اور بہت سی غیب کی باتیں میرے پر ظاہر کرتاہے اور آئندہ زمانوں کے وہ راز میرے پرکھولتاہے کہ جب تک انسان کواُ س کے ساتھ خصوصیت کا قرب نہ ہو دوسرے پر5 وہ5 اسرار نہیں کھولتا۔ اورانہیں امور کی کثرت کی وجہ سے اس نے میرا نام نبی رکھا ہے ۔ سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اوراگر میں اس سے انکارکروں تو میرا گناہ ہوگا۔اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتاہے تو میں کیونکر انکار کر سکتاہوں۔ میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں۔
مگر میں ان معنوں سے نبی نہیں ہوں کہ گویا اسلام سے اپنے تئیں الگ کرتاہوں یا اسلام کا کو ئی حکم منسوخ کرتاہوں ۔ میر ی گردن اس جوئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا اور کسی کی مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا ایک شعشہ قرآن شریف کا منسوخ کرسکے ۔۔۔‘‘۔(اخبار عام ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء)
جہاں تک ’’نبی علی سبیل المجاز ‘‘ یا ’’نبی علی سبیل الاستعارہ‘‘ کا تعلق ہے تو گزشتہسطور میں مذکور حوالہ جات میں سے سب سے پہلے حوالہ میں آپ نے خود ہی وہیں اس کی وضاحت فرما دی ہے کہ:۔
’’ پس اب کسی کا حق نہیں کہ ہمارے رسول مصطفی ؐکے بعد مستقل طورپر نبوت کا دعویٰ کرے ۔ آپ ؐ کے بعد صرف کثرت مکالمہ و مخاطبہ باقی ہے اور اس کے لئے بھی یہ شرط ہے کہ آپ ؐکا متبع ہو ۔ آپؐ کی پیروی کے بغیر یہ بات بھی ممکن نہیں۔اوراللہ کی قسم مجھے یہ مقام نہیں ملا مگر مصطفوی شعاعوں کی پیروی کی بدولت اور میں مجازی طورپر نبی کا نام دیا گیاہوں نہ کہ حقیقی طورپر۔ پس یہاں نہ اللہ کی غیرت بھڑکتی ہے نہ اس کے رسول کی کیونکہ میں تو نبی کریم (ﷺ) کے پیروں تلے پرورش پاتاہوں اور میرا 5 یہ قدم نبی کریم ﷺ کے مبارک قدموں تلے ہے‘‘۔
کیا ان الفاظ میں حضورؑ نے خود ہی اپنے مجازی طورپر نبی ہونے کی وضاحت نہیں فرما دی کہ اس سے مراد یہ ہے کہ نہ میں مستقل (یعنی آزاد) نبی ہوں نہ شرعی میں نے رسول اللہ ﷺ کے زیر سایہ پرورش و تربیت پائی ہے اور آپؐ کے قدموں میں بیٹھنے کے طفیل ہی یہ مرتبہ مجھے ملاہے۔ ؂
اس نور پرفدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے، میں چیزکیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
پس جب اپنے مجازاً اور استعارۃً نبی ہونے کا مفہوم آپؑ خود بیان فرما رہے ہیں تو اہل پیغام کو قطعاً یہ حق نہ تھاکہ آپ کے کلمات مبارکہ کی تاویل کرتے خصوصاً ایسی تاویل جو آ پؑ کے بیان فرمودہ مفہوم کے سراسر خلاف ہو۔ یہ مذموم جسارت ، حددرجہ کی خیانت ہے اور خدا تعالیٰ کے دربار میں عجیب بے باکی۔

خود اُن کے گھر سے گواہ

اگر اہل پیغام کو حضوراقدس علیہ السلام کے یہ دو حوالے کافی نہ ہوں تو لیجئے ہم خود ان کے گھر سے گواہ پیش کردیتے ہیں ۔ ہماری مراد شیخ عبدالرحمن مصری صاحب سے ہے ۔انہوں نے جماعت احمدیہ سے اخراج کی سزا پانے سے پہلے کے زمانہ میں ایک بار ایک گواہی دی تھی جس میں وہ حضور اقدس ؑ کے ’’نبی علی سبیل المجاز‘‘ ہونے کی یہ تفسیر کرتے ہیں:
’’۔۔۔۔۔۔میں اب بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو علی سبیل المجاز ہی نبی سمجھتاہوں ، یعنی شریعت جدیدہ کے بغیرنبی ، اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کی بدولت اور حضوؐر کی اطاعت میں فنا ہو کر حضوؐر کا کامل بروز ہوکر مقام نبوت کو حاصل کرنے والا نبی۔ میرے اس عقیدہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تقاریر و تحریرات اور جماعت احمدیہ کا متفقہ عقیدہ تھا‘‘۔(عبدالرحمن ، ہیڈماسٹر مدرسہ احمدیہ ۲۴؍اگست ۱۹۳۵ء)

دوم

امر واقع یہ ہے کہ حقیقت و مجاز کے الفاظ کا استعمال ایک نسبتی اور اضافی امر ہے ۔ ایک چیز اپنی ذات میں ایک حقیقت ہوتی ہے مگر ایک دوسری چیز کی نسبت سے وہ حقیقت نہیں رہتی بلکہ مجاز قرار پاتی ہے ۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی کتب میں ’’حقیقی نبوت‘‘کی اصطلاح بعض مقامات پر تشریعی اور مستقل نبی کے معنوں میں استعمال فرمائی ہے اور بعض جگہ صرف تشریعی نبی کے معنوں میں ۔ ان معنوں اور اصطلاح میں ہم آپ ؑ کو حقیقی نبی قرار نہیں دیتے مگر ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا کامل ظل ہونے کے لحاظ سے آپ یقیناًکامل نبی تھے اور ’’کامل ظلّی نبوت‘‘بھی اپنی ذات میں ایک حقیقت ہے ، چنانچہ حضوراقدس ؑ فرماتے ہیں:
’’ایک قسم کی نبوت ختم نہیں یعنی وہ نبوت جو اس (یعنی آنحضرتﷺ) کی کامل پیروی سے ملتی ہے اورجو اس کے چراغ میں سے نور لیتی ہے۔ وہ ختم نہیں کیونکہ وہ محمدی نبوت ہے یعنی اس کا ظل‘‘۔(چشمہ ٔ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ۳۴۰)

’’حقیقی آدم‘‘ اور’’ حقیقی کتاب‘‘

مزید وضاحت کے لئے ہم ذیل میں حضرت اقدس ؑ کی ایسی تحریرات پیش کرتے ہیں جن میں آپ نے ’’حقیقی‘‘ اور ’’مجازی‘‘ کے الفاظ کا استعمال فرمایا ہے ۔ انشاء اللہ العزیز اس سے بات بالکل کھل جائے گی۔ آ پ فرماتے ہیں :
’’ہمارے نبیﷺ روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدمِ ثانی تھے ، بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعہ اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے‘‘۔(لیکچر سیالکوٹ ۔روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۰۷)
پھر آپؑ گزشتہ کتب سماویہ کا قرآن کریم سے موازنہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :
’’وہ کتابیں حقیقی کتابیں نہیں تھیں بلکہ وہ صرف چند روزہ کارروائی تھی۔ حقیقی کتاب دنیا میں ایک ہی آئی جوہمیشہ کے لئے انسانوں کی بھلائی کے لئے تھی‘‘۔(منن الرحمن ، روحانی خزائن جلد۹ صفحہ ۱۵۲)
اب ’’اہل پیغام‘‘ بتائیں کہ جب حضور اقدس ؑ کے نزدیک نبی اکرم ﷺ ہی آدم حقیقی تھے توکیاحضرت آدم ؑ اپنی ذات میں درحقیقت آدم نہ تھے؟ نیز جبکہ حضور ؑ کے نزدیک تورات ،زبور، انجیل وغیرہ حقیقی کتب نہیں توکیا ان کتابوں کو لانے والے رسول اپنی ذات میں حقیقی نبی نہ تھے؟
حق یہ ہے کہ حضرت آدم ؑ بھی حقیقی نبی تھے اور تورات و زبور وانجیل لانے والے انبیاء بھی حقیقی نبی تھے۔ ہاں حضرت آدم ؑ ، نبی اکرم ﷺ کے مقابلہ میں حقیقی نبی نہ تھے ۔ اس طرح حضرت موسیٰ ، داؤد ،عیسیٰ اوردیگر انبیاء علیہم السلام گو سب اپنی ذات میں حقیقی نبی تھے مگرنبی کریم ﷺ کے مقابلہ میں حقیقی نبی نہ تھے اور جب وہ حقیقی نبی نہ تھے تو اس نسبت سے مجازی نبی تھے !! اورانہی معنوں میں حضرت مسیح موعودؑ بھی مجازی نبی تھے اگرچہ اپنی ذات میں وہ حقیقی نبی تھے ۔


حقیقی مہدی یا مجازی مہدی؟!

آپ ؑ فرماتے ہیں:
’’حقیقی اور کامل مہدی دنیا میں صرف ایک ہی ہے یعنی محمد مصطفی ﷺ جو محض امّی تھا‘‘۔(اربعین نمبر ۲۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۶۰)
’’کامل اورحقیقی مہدی دنیا میں صرف ایک ہی آیا ہے جس نے بغیر اپنے ربّ کے کسی استاد سے ایک حرف نہیں پڑھا‘‘۔ (تحفہ گولڑویہ ، روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۲۵۵)
کیا اہلِ پیغام اس تحریر کی بنا پر حضور اقدس ؑ کے حقیقی مہدی ہونے سے انکار کردیں گے؟
بات یہ ہے کہ اگرچہ حضرت مسیح موعود ؑ بھی اپنی ذات میں حقیقی مہدی ہیں لیکن نبی کریم ﷺ کی نسبت سے دوسرے تمام انبیاء کی طرح آپ کی حیثیت بھی ایک ظلّی اورمجازی مہدی کی ہے ۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ اپنی ذات میں توحقیقی نبی ہیں لیکن نبی اکرم ﷺ کی نسبت سے آ پ مجازی نبی ہیں کیونکہ آ پ کو جو کچھ ملا وہ مجازی اور ظلی حیثیت ہی رکھتاہے۔ اسی لئے آپ نے اپنی کتاب’’ الاستفتاء‘‘ میں فرمایا :
’’سُمِّیْتُ نَبِیًّا مِنَ اللّٰہِ عَلٰی طَرِیْقِ الْمَجَازِ لَا عَلٰی وَجْہِ الْحَقِیْقَۃِ‘‘ کہ میرا نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجازکے طور پر نبی رکھا گیاہے نہ کہ حقیقی طورپر ۔ یعنی آپ نے مقام نبوت آنحضرت ﷺ کے طفیل اور واسطہ سے حاصل کیا اور آپ ظلّی نبی یا امّتی نبی ہیں، نہ کہ تشریعی یامستقل نبی جسے نبی اکرم ﷺ کی اتباع کی ضرورت نہ ہو۔
پس حضور کی تحریر میں ’’مجازی نبی‘‘ کے لفظ سے کسی کو نہ تو خود دھوکہ کھانا چاہئے اور نہ ہی دوسروں کو دھوکہ دینے کی کوشش میں حقیقت اور امرواقع کو جھٹلانے کی خیانت کرنی چاہئے کیونکہ یہاں ’’مجاز‘‘ کا لفظ نسبتی چیزہے ۔ جو مقام بھی کسی امتی کوملتاہے وہ اپنی ذات میں باوجود حقیقت ہونے کے ، نبی کریم ﷺ کی نسبت سے مجازی یا ظلی یا طفیلی حیثیت اختیار کر جاتاہے ۔کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’کوئی مرتبہ شرف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا ، بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی ﷺ کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ ہمیں جو کچھ ملتاہے ظلّی اور طفیلی طورپر ملتاہے‘‘۔(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۱۷۰)
یہ عبارت بالکل واضح ہے اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ امت میں جو شخص مومن ہو وہ ظلّی طور پر مومن ہوتاہے۔ جو ولی ہو ، محدث ہو ، غوث ہو، قطب ہو، محدث ہو ، وہ یہ مرتبہ اور مقام ظلّی طور پر ہی حاصل کرتاہے ۔ پس ظلّی کا لفظ جس طرح ان مراتب کے حقیقی ہونے کی نفی نہیں کرتا بلکہ صرف واسطہ کو ظاہر کرتاہے ، اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ کے لئے ’’ظلّی نبی‘‘ کی اصطلاح میں لفظ ’’ظلّی‘‘ صرف واسطہ کو ظاہر کرتاہے نہ کہ آپ کی نبوت کی نفی کرتاہے۔ یعنی اس سے صرف یہ مراد ہے کہ یہ مرتبہ آپؐ کو آنحضرت ﷺ کے طفیل ملا ہے۔

حقیقی مُحَدَّث یا مجازی مُحَدَّث؟

اہل پیغام ، ذرا توجہ فرمائیے! حضورؑ کی مندرجہ بالا تحریر کی رو سے تو ’’محدّثیت‘‘ بھی ظلی اور طفیلی طورپر ہی ملتی ہے اورحضرت اقدس بھی ظلی اور طفیلی طورپر ہی مُحَدَّث ٹھہرتے ہیں۔ پس آپ لوگ بتائیں کہ کیا آپ حضور اقدس ؑ کو صرف ظلّی اور مجازی اور طفیلی طور پر ہی ’’مُحَدَّث‘‘ مانتے ہیں یاحقیقی مُحَدَّث؟

حقیقی مسیح موعود یا مجازی مسیح موعود!؟

اسی طرح ’’اہل پیغام‘‘ سے درخواست ہے کہ حضور اقد س علیہ السلام کے درج ذیل اقتباس پر بھی ذرا غور فرمائیں:
’’یہ عاجز مجازی اورروحانی طورپر وہی مسیح موعود ہے جس کی قرآن اورحدیث میں خبر دی گئی ہے ‘‘۔ (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۳۱)
دیکھیں یہاں آپ ؑ نے اپنی مسیحیت کے بارہ میں بھی لفظ ’’مجاز‘‘ بالکل اسی طرح استعمال فرمایا ہے جیسے اپنی نبوت کے بارہ میں استعمال فرمایا ہے ۔
’’اہل پیغام‘‘ بتائیں کہ وہ حضور اقدس ؑ کو حقیقی مسیح موعود مانتے ہیں کہ صرف مجازی مسیح موعود؟مگر یاد رہے کہ انہیں اس بات سے مفرّ نہیں کہ حضرت اقدس ؑ کوواقعۃً حقیقی مسیح موعوداور حقیقی مہدی معہود مانیں کیونکہ آپ ؑ فرماتے ہیں:۔
’’جو شخص مجھے فی الواقع مسیح موعود و مہدی معہود نہیں سمجھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ‘‘۔ (کشتی نوح ۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۹)
حضور اقدس ؑ کی ان تحریرات سے بالکل واضح ہو گیاہے کہ غیر مستقل نبی، امتی نبی،ظلی نبی،مجازی نبی،بروزی نبی،طفیلی نبی،غیرحقیقی نبی ، ناقص نبی جیسی اصطلاحات سے آپ کی صرف یہ مراد ہے کہ آپؑ صاحبِ شریعت جدیدہ نبی نہیں یانبی کریم ؐ کی پیروی سے آزاد نبی نہیں ہیں بلکہ آپ نبی کریم ؐ کے کامل تابع نبی ہیں اور یہ کہ آپ کو یہ مرتبہ صرف اور صرف نبی کریم ﷺ کی کامل محبت اور کامل اتباع ہی کے طفیل ملاہے ۔ یہ خالص موھبت الٰہی تھی اورفیوض محمدیہ کا عظیم ثبوت ۔ ذٰلک فضلُ اللّٰہ یُؤْتِیہِ مَنْ یَشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیم ۔(سورۃالجمعۃ)

ایک اہم سوال

اسی طرح ’’اہل لاہور‘‘ سے التماس ہے کہ درج ذیل دو اہم امور کا جواب دیں۔
اول ۔۔۔یہ کہ اگر حضور اقدس ؑ فی الواقع اور درحقیقت نبی نہ تھے تو آپ نے باربار لگاتار اور بڑی تاکید و اصرارکے ساتھ اپنے نبی ہونے کا اعلان کرکے کیوں امت مسلمہ میں ایک قیامت برپاکردی اور خود اپنے ہاتھ سے اپنے مشن کے خلاف روکیں کھڑی کردیں؟ سارے عالم اسلام بلکہ دوسرے ادیان کو بھی اپنے خلاف کیوں بھڑکایا؟ ایسی حرکت تو ایک عام سلیم العقل شخص بھی نہیں کرتا چہ جائیکہ وہ شخص ایساکرے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل علم کی بنا پر اس زمانہ کی اصلاح کے لئے چنا تھا؟ کیا ان لوگوں کو خبر نہیں کہ آپ کا دعوی ٔنبوت ہی تو تھا جو آپ پر ایمان لانے کی راہ میں لوگوں کے لئے سب سے بڑی روک بن کر کھڑا ہو گیا تھا ؟ کیا انہوں نے پڑھا نہیں کہ بڑے بڑے جبہ پوش جو پہلے آپ کے ثنا خوان تھے (جن میں مولوی محمد حسین بٹالوی سرفہرست ہیں) آپ کے دعوی ٔ نبوت سے ہی تو سیخِ پا ہوتے تھے اور کتنے ہی ایسے تھے جوآپ سے باربار مطالبہ کرتے رہے کہ صرف نبوت کا دعویٰ واپس لے لو تو ہم فوراً تمہارے ساتھ ہوجاتے ہیں؟
پس ہمارا سوال یہ ہے کہ حضور ؑ نے کیوں ایسا دعویٰ کیاجس کی آپ لوگوں کے زعم میں ایک وہم و خیال سے زیادہ حقیقت نہ تھی اورکیوں اس طرح ساری دنیا کو اپنے آپ سے متنفر کردیا اور یوں غلبہ اسلام کے دن بظاہر دور کردئیے ؟ ان مولویوں کے مطالبہ پر آپ نے اپنا دعویٰ ٔ نبوت کیوں واپس نہ لے لیا تاکہ یہ سب مولوی ، سجادہ نشین اورمفتیان دین اپنے پیروکاروں سمیت فوج درفوج آپ کے جھنڈے تلے جمع ہو جاتے اور آپ ان کے ساتھ مل کر ان کے شانہ بشانہ غلبہ اسلام کے لئے کوشاں ہو جاتے جیسا کہ ’’اہل پیغام‘‘ نے جماعت مبایعین سے علیحدہ ہونے کے بعد ایسی بے سود کوششیں کیں؟
دوم۔۔۔ قطع نظر اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کی کیا حقیقت ہے اور کون سی شکل ہے، بات یہ ہے کہ جب آپؑ نے اپنی نبوت پر اس حد تک اور ا س زور کے ساتھ ،باربار اور مسلسل اصرار کیاہے تو آپ کی پیروی میں ’’اہل پیغام‘‘ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اورجو آ پؑ نے کہا ویسا کیوں نہیں کہتے اور جیسے آپ نے باربار اعلانات فرمائے ویسے اعلان یہ لوگ کیوں نہیں کرتے ؟آپؑ کی طرح پورا اور مکمل سچ کیوں نہیں بولتے ؟ اس میں سے کچھ بتاکر باقی کیوں چھپا دیتے ہیں؟آقا تو تا دم آخریں یہی اعلان کرتا رہا کہ ’’میں خداکے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا‘‘۔مگر یہ عجیب خدام ہیں کہ آقا ؑ کی نبوت کے انکار میں اتنے بے باک ہیں ۔اس بات کو ویسے ہی گناہ نہیں سمجھتے جسے آقا مرتے دم تک سمجھتا رہا۔ کیاان لوگوں کو اس مداہنت نے دنیا کے ہاں کچھ فائدہ دیا یا وہ سمجھتے ہیں کہ خداکے ہاں یہ بات انہیں کوئی فائدہ دے گی؟ ہرگز، ہرگزنہیں ۔ کیونکہ مداہنت خدا کو پسند نہیں ۔
یہ لوگ گمان کرتے تھے کہ ا س ’’ اقدام ‘‘ سے دوسرے مسلمان انہیں اپنی صفوں میں شامل ہونے دیں گے ۔ چنانچہ انہیں خوش کرنے کے لئے انہوں نے حضرت اقدس ؑ کی نبوت کا ہی انکار کر دیا حالانکہ اللہ اور اس کا رسول اس بات کے زیادہ حقدار تھے کہ یہ لوگ انہیں خوش کرتے ۔ مگر نتیجہ کیانکلا؟ یہ لوگ دوسرے مسلمانوں کی نظر میں کافر کے کافر ہی رہے اور ’’مُذَبْذبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ ‘‘ ہو کر نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ۔

خدا کے نام پر التماس

اس وسوسہ کے ردّ کے آخری حصہ میں ’’اہل پیغام ‘‘ سے درخواست ہے کہ خدا کے لئے ذرا ٹھنڈے دل سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے کچھ سوچیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ حضور اقدس ؑ کے درج ذیل الہامات پر بھی خدارا ذراغور کریں کہ یہ بہت ڈرانے والے الہامات ہیں۔
۱۔۔۔۔’’وَقالُوا لَسْتَ مُرْسَلًا قُلْ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْکِتَابِ‘‘(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۹۴)
ترجمہ : اور انہوں نے کہا تورسول نہیں ہے۔ تو کہہ دے میرے اور تمہارے درمیان اللہ بطور گواہ کافی ہے ، نیز وہ بھی جس کے پاس کتاب کا علم ہے ۔
۲۔۔۔۔’’وَیَقُولُ الْعَدُوُّ لَسْتَ مُرْسَلًا۔ سَنَأْخُذُہٗ مِنْ مَارِنٍ أَوْ خُرْطُوْمٍ‘‘۔(اربعین نمبر ۲ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۳۸۲)
ترجمہ: اور دشمن کہتاہے کہ تو رسول نہیں ہے ۔ ہم عنقریب اسے اس کی ناک یا تھوتھنی سے پکڑیں گے ۔
نیزان سے بڑے دردِ دل سے التماس ہے کہ درج ذیل آیات کریمہ کو پوری توجہ سے اور خدا سے ڈرتے ہوئے پڑھیں تا اس میں مذکور وعید کے نیچے نہ آویں۔
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ حَقًّا وَاَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا‘‘۔(النساء :۱۵۱،۱۵۲)
ترجمہ : یقیناًوہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کر دیں گے اور چاہتے ہیں کہ اس کے بیچ کی کوئی راہ اختیار کریں یہی لوگ ہیں جو پکے کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لئے رُسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔


وسوسہ نمبر ۲

’’اہل پیغام‘‘ کا دوسرا وسوسہ یہ ہے کہ خلفاء اور جماعت مبایعین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کی تشریح بالکل آپ کی منشا کے خلاف کی ہے کیونکہ ان لوگوں نے درحقیقت آپ ؑ کو مستقل یعنی آزاد نبی تصور کر لیا ، دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دیا اور اپنے آپ کوامت مسلمہ سے الگ سمجھ لیا ۔ اس کے باوجود دھوکہ دیتے ہوئے یہی کہتے ہیں کہ ہم نے حضور اقدسؑ کوکبھی نبی کریم ؐ کی پیروی سے آزادنبی قرار نہیں دیا ، نہ ہی کسی مسلمان کو کافر کہا ہے سوائے اس کے جو ہماری تکفیر کر کے خود کافر بن جائے۔
اپنے اس الزام کی تائید میں’’اہل پیغام‘‘ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جماعت مبایعین نے دیگر مسلمانوں سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کر لئے ہیں۔ نہ ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں ، نہ ان کا جنازہ ادا کرتے ہیں ، نہ ان سے شادیاں کرتے ہیں۔
نیز لکھاہے: ’’قادیانی حضرات‘‘ آپ سے اس بارہ میں کہیں گے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی نے تو دوسرے مسلمانوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے منع فرمایا تھا !
مگر امر واقع یہ ہے کہ آپؑ نے صرف مخصوص حالات میں دوسرے مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے یعنی صرف ایسے لوگوں کے پیچھے جو آپؑ کو کافر کہتے ہیں۔ جو تکفیر نہیں کرتے ان کے پیچھے نماز سے منع نہیں فرمایا۔
مندرجہ بالا اعتراضات بالکل اسی طرح انٹرنیٹ پر درج ہیں۔

جواب

حق یہ ہے کہ خلفاء احمدیت یا جماعت مبایعین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کو ہرگز ہرگز غلط رنگ میں پیش نہیں کیا ، نہ بگاڑا ہے ، نہ ہی آپ کو کبھی ’’آزاد نبی‘‘ قراردیا ہے ، نہ ہی دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دیاہے ، نہ ہی امت مسلمہ سے اپنے آپ کو الگ قرار دیاہے، نہ ہی آپؑ کی تعلیمات سے سرمو انحراف کیا بلکہ بعینہ ان پرعمل کیاہے ۔مسئلہ نبوت تو گذشتہ سطور میں ذکر ہو چکا ۔باقی آئندہ سطور میں انشاء اللہ اس وقت روز روشن کی طرح کھل جائے گی جب ہم ان حقائق کو حسب ذیل عناوین اور ترتیب کے تحت پیش کریں گے : غیر احمدیوں سے شادی بیاہ ، غیر احمدیوں کا جنازہ ، مسئلہ تکفیر اور نمازباجماعت ۔

غیر احمدیوں سے شادی بیاہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام غیراحمدیوں سے شادی بیاہ کے ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں:
۔۔۔(۱)۔۔۔
’’غیر احمدیوں کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے کیونکہ اہل کتاب عورتوں سے بھی تو نکاح جائز ہے بلکہ اس میں تو فائدہ ہے کہ ایک اور انسان ہدایت پاتاہے ۔ اپنی لڑکی کسی غیراحمدی کو نہ دینی چاہئے ۔ اگر ملے تو بے بیشک لو ۔ لینے میں حرج نہیں اور دینے میں گناہ ہے‘‘۔ (الحَکَم جلد ۱۲ پرچہ ۲۷ صفحہ ۱ تا ۳۔ تاریخ ۱۴؍اپریل ۱۹۰۸ئ، ملفوظات جلد ۱۰ صفحہ ۲۳۰)
یہاں آپ ؑ نے’’بلکہ اس میں توفائدہ ہے کہ ایک اورانسان ہدایت پا تاہے‘‘ فرما کر اپنے اس فتویٰ کی حکمت بھی بیان فرما دی ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت ،مرد کے مقابلہ میں جلد اور زیادہ اثر قبول کرتی ہے جبکہ وہ مرد پر اپنا اثر کم ڈال سکتی ہے۔ پس اگر ایک احمدی مرد کسی غیر احمدی لڑکی سے شادی کرے گا تو وہ آہستہ آہستہ اس کی نیک سیرت سے متأثر ہو کر احمدی ہو جائے گی ۔ لیکن اگر ایک احمدی بچی کسی غیر احمدی شخص سے بیاہی جائے گی تو اس بات کا غالب امکان ہے کہ وہ اس کے زیر اثر احمدیت سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے یا اس کی اولاد خاوند کے زیر اثر غیر احمدی ہو جائے ۔
۔۔۔(۲)۔۔۔
اسی طرح آپ ؑ نے ایک اشتہار دربارہ رشتہ ناطہ دیا جس میں فرمایا :
’’۔۔۔ظاہر ہے کہ جو لوگ مخالف مولویوں کے زیر سایہ ہو کر تعصب اور عناد اور بخل اور عداوت کے پورے درجہ تک پہنچ گئے ہیں ان سے ہماری جماعت کے نئے رشتے غیرممکن ہو گئے ہیں جب تک کہ وہ توبہ کرکے اسی جماعت میں داخل نہ ہوں۔ اور اب یہ جماعت کسی بات میں ان کی محتاج نہیں۔ مال میں ،دولت میں،علم میں ، فضیلت میں ، خاندان میں ، پرہیز گاری میں، خداترسی میں سبقت رکھنے والے اس جماعت میں بکثرت موجود ہیں اور ہر ایک اسلامی قوم کے لوگ اس جماعت میں پائے جاتے ہیں توپھر اس صورت میں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگوں سے ہماری جماعت نئے تعلق پیدا کرے جوہمیں کافر کہتے اور ہمار ا نام دجال رکھتے یا خود تو نہیں مگر ایسے لوگوں کے ثناخواں اور تابع ہیں ۔ یاد رہے کہ جو شخص ایسے لوگوں کو چھوڑ نہیں سکتا وہ ہماری جماعت میں داخل ہونے کے لائق نہیں ۔ جب تک پاکی اور سچائی کے لئے ایک بھائی بھائی کو نہیں چھوڑ ے گا اور ایک باپ بیٹے سے علیحدہنہیں ہوگا تب تک وہ ہم میں سے نہیں۔
سو تمام جماعت توجہ سے سن لے کہ راستباز کے لئے ان شرائط پر پابند ہونا ضروری ہے ۔۔۔‘‘۔(اشتہار ۷؍جون ۱۸۹۸ء بعنوان’’اپنی جماعت کے لئے ضروری اشتہار‘‘۔ مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحہ ۵۰،۵۱)
۔۔۔(۳)۔۔۔
’’ایک شخص کی درخواست پیش ہوئی کہ میری ہمشیرہ کی منگنی مدت سے ایک غیر احمدی کے ساتھ ہو چکی ہے ۔اب اس کو قائم رکھنا چاہئے یا نہیں؟ فرمایا: ’’ناجائز وعدہ کو توڑنا اور اصلاح کرنا ضروری ہے ۔ آنحضرت ﷺنے قسم کھائی تھی کہ شہد نہ کھائیں گے ۔ خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ ایسی قسم کو توڑ دیا جاوے ۔ علاوہ ازیں منگنی تو ہوتی ہی اسی لئے ہے کہ اس عرصہ میں تمام حسن و قبح معلوم ہو جاویں۔ منگنی نکاح نہیں ہے کہ اس کو توڑنا گناہ ہو‘‘۔ (اخباربدر پرچہ ۷؍جون ۱۹۰۷ء ۔ ملفوظات جلد ۹صفحہ ۳۰۰،۳۰۱)
۔۔۔(۴)۔۔۔
ایک مرتبہ ایک دوست نے بذریعہ خط حضور اقدس ؑ سے عرض کی کہ میری غیر احمدی ہمشیرہ اپنے غیر احمدی بیٹے کے لئے میری بیٹی کا رشتہ مانگتی ہے۔ مجھے کیا کرناچاہئے ؟اس پر حضور اقدسؑ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کو جواب لکھوایا ۔ حضرت مفتی صاحبؓنے اس دوست کو لکھا کہ :
’’برادرم مکرم ! السلام علیکم۔ آپ کا خط ملا ۔ حضرت صاحب(مسیح موعودؑ ) کی خدمت میں ایک مناسب موقع پر پیش ہوا۔ حضرت فرماتے ہیں کہ یہ امر بالکل ہمارے طریق کے برخلاف ہے کہ آپ اپنی لڑکی ایک ایسے شخص کو دیں جو کہ اس جماعت میں داخل نہیں۔ یہ گناہ ہے ۔
فرمایا :ان کو لکھو یہی آپ کے واسطے امتحان کاوقت ہے ۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنا چاہئے ۔ صحابہؓ نے دین کی خاطر باپوں اور بیٹوں کو قتل کر دیا تھا۔ کیا تم دین کی خاطر اپنی بہن کو ناراض بھی نہیں کر سکتے؟
فرمایا :آپ کی بہن اور اس کا بیٹا بالغ عاقل ہیں۔ خدا کے نزدیک وہ مجرم ہیں کہ سلسلہ حقہ میں داخل نہیں ہوتے۔ ان کو سمجھاؤ ۔اگر سمجھ جائیں تو بہتر ورنہ خدا کو کسی کی کیا پرواہ ہے ۔پس یہ قطعی حکم ہے کہ جو لڑکا احمدی نہ ہو اس کو لڑکی دینا گناہ ہے۔والسلام ۔ عاجز محمد صادق عفا اللہ عنہ ۔ از قادیان ۱۹۰۷۔۴۔۱۷۔ (مکتوب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بنام مولوی فضل الرحمن صاحب۔ قصبہ ہیلاں ضلع گجرات)
کیاجماعت مبایعین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انہی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں؟

غیر احمدیوں کا جنازہ

جہاں تک غیر احمدیوں کی نماز جنازہ کا تعلق ہے تو یاد رہے کہ جماعت مبایعین اس بارہ میں بھی سو فیصد ی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات پرعمل کرتی ہے ۔ اس ضمن میں آپ کے چند فتاوی ٰ پیش ہیں:
۔۔۔(۱)۔۔۔
ایک بار آپؑ نے فرمایا :
’’رسول اللہ ﷺ نے ایک منافق کو کرتہ دیا اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھی۔ ممکن ہے اس نے غرغرہ کے وقت توبہ کر لی ہو۔ مومن کا کام ہے کہ حسن ظن رکھے ۔ اسی لئے نماز جنازہ کا جواز رکھاہے کہ ہرایک کی پڑھ لی جائے ۔ ہاں اگرسخت معاند ہو یافساد کا اندیشہ ہو توپھرنہ پڑھنی چاہئے ۔ ہماری جماعت کے سر پر فرضیت نہیں ہے ۔بطوراحسان کے ہماری جماعت دوسرے غیر از جماعت کا جنازہ پڑھ سکتی ہے ‘‘۔ (بدرجلد ۱پرچہ ۳ صفحہ ۱۸،۱۹۔ تاریخ ۱۴؍نومبر ۱۹۰۲ء ۔ ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۱۵۴)
۔۔۔(۲)۔۔۔
’’ایک صاحب نے پوچھا کہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہے اوراکثر مخالف مکذب مرتے ہیں ، ان کا جنازہ پڑھا جاوے کہ نہ؟ فرمایا کہ : ’’یہ فرض کفایہ ہے۔ اگرکنبہ میں سے ایک آدمی بھی چلا جاوے تو ہو جاتاہے۔ مگر اب یہاں ایک توطاعون زدہ ہے کہ جس کے پاس جانے سے خدا روکتاہے۔ دوسرے وہ مخالف ہے ۔خواہ نخواہ تداخل جائز نہیں ہے۔ خدا فرماتاہے کہ تم ایسے لوگوں کو بالکل چھوڑ دو اوراگر وہ چاہے گاتو ان کو خود دوست بنا دے گا یعنی مسلمان ہو جاویں گے ۔ خدا تعالیٰ نے منہاج نبوت پراس سلسلہ کو چلا یاہے ۔ مداہنہ سے ہرگز فائدہ نہ ہو گا بلکہ اپنا حصہ ایمان کا بھی گنوا ؤ گے ‘‘۔(بدر جلد ۲پرچہ ۱۷ صفحہ ۱۲۹،۱۳۰۔ مورخہ ۱۵؍مئی ۱۹۰۳ء۔ ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۴۰۵)
۔۔۔(۳)۔۔۔
’’سوال ہوا کہ جو آدمی اس سلسلہ میں داخل نہیں اس کا جنازہ جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا : ’’اگر اس سلسلہ کا مخالف تھا اور ہمیں برا کہتا اور سمجھتاتھا تواس کا جنازہ نہ پڑھو اور اگر خاموش تھا اور درمیانی حالت میں تھا تو اس کا جنازہ پڑھ لینا جائز ہے بشرطیکہ نماز جنازہ کاامام تم میں سے کوئی ہو ۔ ورنہ کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘ ۔
فرمایا :’’ اگر کوئی ایسا آدمی جو تم میں سے نہیں اور اس کاجنازہ پڑھنے اور پڑھانے والے غیر لوگ موجود ہوں اور وہ پسند نہ کرتے ہوں کہ تم میں سے کوئی جنازہ کاپیش امام بنے اور جھگڑے کا خطرہ ہو تو ایسے مقام کوترک کر و اور اپنے کسی نیک کام میں مصروف ہو جاؤ‘‘۔ (الحکم جلد ۶نمبر۱۶۔ صفحہ ۷ پرچہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۲ء ۔ ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۷۶،۲۷۷)
۔۔۔(۴)۔۔۔
ایک اور موقعہ پر فرمایا :
’’اگرمُتَوَفّیّٰٰ بالجہر مکفّر اور مکذّب نہ ہو تو اس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں کیونکہ علاّم الغیوب خداکی پاک ذا ت ہے‘‘۔ فرمایا :’’ جو لوگ ہمارے مکفّرہیں اور ہم کو صریحاً گالیاں دیتے ہیں ان سے السلام علیکم مت لو اور نہ ان سے مل کر کھانا کھاؤ ۔ ہاں خریدوفروخت جائز ہے۔ اس میں کسی کا احسان نہیں‘‘۔
’’جو شخص ظاہر کرتاہے کہ میں نہ اُدھر کاہوں اور نہ اِدھر کا ہوں اصل میں وہ بھی ہمارا مکذب ہے ۔ اور جو ہمارا مُصَدِّق نہیں اور کہتا ہے کہ میں ان کو اچھا جانتا ہوں وہ بھی مخالف ہے ۔ ایسے لوگ اصل میں منافق طبع ہوتے ہیں ۔ ان کا یہ اصول ہوتا ہے کہ با مسلماں اللہ اللہ، با ہند و رام رام۔ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہوتا ۔بظاہر کہتے ہیں کہ ہم کسی کا دل دکھانا نہیں چاہتے۔ مگر یاد رکھو کہ جو شخص ایک طرف کا ہوگا اس سے کسی نہ کسی کا دل ضرور دکھے گا‘‘۔(بدر جلد ۲پرچہ ۱۴ صفحہ ۱۰۵۔ مورخہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء ۔ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۲۹۴)
۔۔۔(۵)۔۔۔
اسی طرح اخبار’’ الحَکَم‘‘ میں مذکور ہے :
’’مرزا امام الدین جو اپنے آپ کو ہدایت کنندہ قوم لال بیگیاں مشہورکرتااورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا ۶؍جولائی کو فوت ہو گیا۔ چنانچہ اس کے جنازہ پر رسمی طورپر ہمارے معزز و مکرم دوست سید محمد علی شاہ صاحب بھی چلے گئے اورجنازہ پڑھ لینے کے پیچھے آپ کو اپنے اس عمل پر تاسّف ہوا اور آپ نے ذیل کا توبہ نامہ شائع کیا جو ہم ناظرین’’ الحَکَم‘‘ کی دلچسپی کے لئے درج کرتے ہیں کہ :
’’میں بذریعہ توبہ نامہ ہذا اس امر کو شائع کرتا ہوں کہ میں نے سخت غلطی کی ہے اور وہ یہ کہ میں نے غلطی سے مرزا امام الدین کا جو ۶؍جولائی کوفوت ہواہے اور جس نے اپنی کتابوں میں ارتداد کیاہے جنازہ پڑھا ۔ پس میں بذریعہ اشتہار ہذا یہ توبہ نامہ شائع کرتاہوں اور ظاہر کرتاہوں کہ میں امام الدین اور ان لوگوں سے بیزار ہوں جواس کے جنازہ میں شامل ہوئے اوربالآخر دعائے جنازہ واپس لیتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے اپنے گناہ کو واپس لیتاہوں اور خداتعالیٰ سے اپنے اس گناہ کی مغفرت چاہتا ہوں۔ خاکسار ۔ محمد علی شاہ۔۔۔
اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ:
’’ کوئی شخص کسی بات پر ناز نہ کرے۔ فطرت انسان سے الگ نہیں ہوا کرتی۔ جس فطرت پرانسان اول قدم مارتاہے پھر وہ اس سے الگ نہیں ہوتا۔ یہ بڑے خوف کامقام ہے۔ حسن خاتمہ کے لئے ہر ایک کو دعاکرنی چاہئے۔ عمرکا اعتبار نہیں ۔ ہر شئے پر اپنے دین کو مقدم رکھو۔ زمانہ ایساآ گیا ہے کہ پہلے تو خیالی طورپر اندازہ عمرکا لگایا جاتاتھامگر اب تو یہ بھی مشکل ہے ۔ دانشمند کو چاہئے کہ ضرور موت کاانتظام کر ے ۔ میں اتنی دیر سے اپنی برادری سے الگ ہوں ۔میرا کسی نے کیابگاڑ دیا؟ خدا تعالیٰ کے مقابل پرکسی کو معبود نہیں بنانا چاہئے۔
ایک غیر مومن کی بیمار پرسی اور ماتم پرسی تو حسن اخلاق کانتیجہ ہے لیکن اس کے واسطے کسی شعائر اسلام کو بجا لانا گناہ ہے۔ مومن کاحق کا فرکو دینا نہیں چاہئے اور نہ منافقانہ ڈھنگ اختیار کرنا چاہئے‘‘۔ (الحکم جلد ۷پرچہ ۲۶ صفحہ ۱۰،۱۱ تاریخ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۳ء ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۴۴،۴۶)
جماعت مبایعین حضرت اقدس علیہ السلام کی انہی وصایا اورفتاویٰ پر اہل دنیا کی طعن و تشنیع سے بے پرواہ بدل و جان عمل کررہی ہے۔ چنانچہ عام طورپر ہم غیر احمدیوں کے جنازے پڑھنے سے احتراز کرتے ہیں لیکن استثنائی حالات میں ایسے غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھ بھی لیتے ہیں جو مخالف و مکذب ومکفر نہ ہوں بشرطیکہ امام احمد ی ہو۔ مثلاً حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے عہد خلافت میں ایک یورپین ملک میں ایک غیر احمدی فوت ہو گیا ۔ اس کے ورثاء وہاں نہ تھے اور نہ ہی کوئی اور مسلمان کہ اس کا جنازہ پڑھ سکے ۔ احمدی احباب کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے یہ صورتحال حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں پیش کی تو آپؒ نے فرمایا کہ اس کاجنازہ آپ لوگ پڑھیں کیونکہ کوئی مسلمان بغیر نماز جنازہ کے دفن نہیں ہونا چاہئے۔ چنانچہ احمدی احباب نے اس غیراحمدی کی نماز جنازہ پڑھی۔


مسئلۂ تکفیر

جہاں تک مسئلہ تکفیر کا تعلق ہے تو اس ضمن میں ’’اہل پیغام‘‘ کے سامنے ہم حضرت اقدس ؑ کا درج ذیل اقتباس پیش کرنے پرہی اکتفا کرتے ہیں اور ان سے التماس کرتے ہیں کہ اسے ذرا غور سے پڑھیں کہ آپ لوگوں نے اسے بھلا دیا ہے۔
حضوراقدس علیہ السلام معترضین کے مطاعن کا جواب ارشاد فرماتے ہوئے پہلے ایک معترض کا اعتراض یوں درج کرتے ہیں :
’’سوال:حضور عالی نے ہزاروں جگہ تحریر فرمایا ہے کہ کلمہ گو اوراہل قبلہ کوکافر کہنا کسی طرح صحیح نہیں ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ علاوہ ان مومنوں کے جوآپ کی تکفیر کرکے کافربن جائیں صرف آپ کے نہ ماننے سے کوئی کافر نہیں ہو سکتا۔ لیکن عبدالحکیم خان کو آ پ لکھتے ہیں کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے ۔ اس بیان اور پہلی کتابوں کے بیان میں تناقض ہے ۔ یعنی پہلے آپ تریاق القلوب وغیرہ میں لکھ چکے ہیں کہ میرے نہ ماننے سے کوئی کافرنہیں ہوتا۔ اوراب آپ لکھتے ہیں کہ میرے انکار سے کافر ہو جاتاہے‘‘۔ اس کے جواب میں آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’الجواب: یہ عجیب بات ہے کہ آپ کافر کہنے والے اور نہ ماننے والے کو دو قسم کے انسان ٹھیراتے ہیں حالانکہ خدا کے نزدیک ایک ہی قسم ہے کیونکہ جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ اسی وجہ سے نہیں مانتا کہ وہ مجھے مفتری قرار دیتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ علاوہ اس کے جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا کیونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی پیشگوئی موجودہے یعنی رسول اللہ ﷺنے خبر دی تھی کہ آخری زمانہ میں میری امت میں سے ہی مسیح موعود آئے گا۔ ۔۔۔۔۔۔ پھرجب کہ دو سو مولوی نے مجھے کافر ٹھیرایا اور میرے پر کفر کا فتویٰ لکھا گیا اور انہی کے فتوے سے یہ بات ثابت ہے کہ مومن کو کافرکہنے والا کافر ہو جاتاہے اورکافرکومومن کہنے والا بھی کافر ہو جاتاہے تو اب اس بات کا سہل علاج ہے کہ اگر دوسرے لوگوں میں تخم دیانت اور ایمان ہے اور وہ منافق نہیں ہیں تو ان کو چاہئے کہ ان مولویوں کے بارے میں ایک لمبا اشتہار ہرایک مولوی کے نام کی تصریح سے شائع کردیں کہ یہ سب کافر ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کافر بنایا ۔ تب میں ان کو مسلما ن سمجھ لوں گا بشرطیکہ ان میں کوئی نفاق کا شبہ نہ پایا جاوے اور خدا کے کھلے کھلے معجزات کے مُکذّب نہ ہوں ۔ ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے’’ اِنَّ المُنَافقِینَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّار‘‘۔(النساء ۱۴۶) یعنی منافق دوزخ کے نیچے کے طبقے میں ڈالے جائیں گے ۔اور حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ ’مَا زَنَا زانٍ وَھُو مُؤمنٌ وَمَا سَرَقَ سَارقٌ وَھُوَ مُؤمِنٌ‘ یعنی کوئی زانی زناکی حالت میں اورکوئی چور چوری کی حالت میں مومن نہیں ہوتا۔ پھرمنافق نفاق کی حالت میں کیونکر مومن ہو سکتاہے ۔ اگر یہ مسئلہ صحیح نہیں ہے کہ کسی کوکافر کہنے سے انسان خود کافر ہو جاتاہے تو اپنے مولویوں کافتویٰ مجھے دکھلا دیں میں قبول کر لوں گا ۔ اوراگر کافر ہو جاتاہے تو دو سومولوی کے کفرکی نسبت نام بنام ایک اشتہار شائع کردیں ۔ بعد اس کے حرام ہوگا کہ میں ان کے اسلام میں شک کروں بشرطیکہ کوئی نفاق کی سیرت ان میں نہ پائی جائے‘‘۔(حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۶۷تا ۱۶۹)


نماز با جماعت

جماعت مبایعین کا غیراحمدیوں کے پیچھے خواہ وہ مُکفّر ومُکذّب ہوں یا نہ ہوں نماز نہ پڑھنا بھی خالصۃً حضور اقدس ؑ کی تعلیمات کے مطابق ہے۔ انٹرنیٹ پر ’’اہلِ پیغام‘‘ کا یہ کہنا کہ حضور ؑ نے صرف تکفیر کرنے والوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیا ہے ،ایک باطل دعویٰ ہے ۔ اس کی قطعاً کوئی بنیاد نہیں ۔ حضور ؑ کے ارشادات اس ضمن میں ملاحظہ ہوں۔

امام الصلوٰۃ کے بارہ میں عام ارشاد ات

نماز باجماعت میں امام جو کردار ادا کرتاہے اس کی نزاکت بیا ن کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا:
’’پرہیز گار کے پیچھے نماز پڑھنے سے آدمی بخشا جاتاہے ۔ نماز تو تمام برکتوں کی کنجی ہے ۔ نماز میں دعا قبول ہوتی ہے۔ امام بطور وکیل کے ہوتا ہے۔ اس کا اپنا دل سیاہ ہو تو پھر وہ دوسروں کو کیا برکت دے گا‘‘۔ (الحکم جلد۵ پرچہ ۲۸ صفحہ ۳،۴۔ تاریخ ۳۱؍جولائی ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۱۸)
’’نماز دعا اور اخلاص کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ۔ مومن کے ساتھ کینہ جمع نہیں ہوتا ۔ متقی کے سوا دوسرے کے پیچھے نماز کو خراب نہیں کرنا چاہئے‘‘۔ (الحکم جلد ۵ پرچہ ۱۰ صفحہ ۹۔ تاریخ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۲۲۵)

غیر احمدیوں کے پیچھے نماز

عام غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارہ میں حضورؑ کے بعض ارشادات ملاحظہ ہوں۔
’’ایک شخص نے بعد نماز مغرب بیعت کی اور عرض کیا کہ ’’الحَکَم‘‘ میں لکھا ہوا دیکھا ہے کہ غیر از جماعت کے پیچھے نماز نہ پڑھو!؟ فرمایا: ٹھیک ہے۔ اگر مسجد غیروں کی ہے تو گھر میں اکیلے پڑھ لو۔ کوئی حرج نہیں۔ اور تھوڑی سی صبر کی بات ہے ۔ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مسجدیں برباد کرکے ہمارے حوالہ کردے گا ۔ آنحضرت ﷺکے زمانہ میں بھی کچھ عرصہ صبر کرنا پڑا تھا‘‘۔ (بدر جلد ۱ پرچہ ۵،۶۔ صفحہ ۳۷۔تاریخ ۲۸؍نومبر و ۵؍دسمبر ۱۹۰۲ء ۔ ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۲۴۰،۲۴۱)
*۔۔۔’’کسی نے سوال کیا کہ جو لوگ آپؑ کے مرید نہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے آپؑ نے اپنے مریدوں کو کیوں منع فرمایا ہے ؟ حضرتؑ نے فرمایا : ’’جن لوگوں نے جلد بازی کے ساتھ بدظنی کرکے اس سلسلہ کو جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے ردّ کر دیاہے اوراس قدر نشانوں کی پرواہ نہیں کی اور اسلام پر جو مصائب ہیں اس سے لا پرواہ پڑے ہیں، ان لوگوں نے تقویٰ سے کام نہیں لیا۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتاہے’اِنَّمَا یَتَقبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْن‘۔ خدا صرف متقی لوگوں کی نماز قبول کرتاہے ۔ اس واسطے کہا گیاہے کہ ایسے آدمی کے پیچھے نماز نہ پڑھو جس کی نماز خود قبولیت کے درجہ تک پہنچنے والی نہیں‘‘۔ (الحکم جلد ۵ پرچہ ۱۰ صفحہ ۸۔ تاریخ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۲۱۵)
*۔۔۔ایک اور موقعہ پر فرمایا:
’’صبر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز مت پڑھو ۔ بہتری اور نیکی اسی میں ہے اور اسی میں تمہاری نصرت اور فتحِ عظیم ہے اور یہی اس جماعت کی ترقی کا موجب ہے۔ دیکھو دنیا میں روٹھے ہوئے اور ایک دوسرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن کو چاردن منہ نہیں لگاتے اور تمہاری ناراضگی اور روٹھنا تو خدا کے لئے ہے ۔ تم اگر ان میں رَلے مِلے رہے تو خدا تعالیٰ جو خاص نظر تم پر رکھتاہے وہ نہیں رکھے گا ۔ پاک جماعت جب الگ ہو تو پھر اس میں ترقی ہوتی ہے ‘‘۔(الحکم جلد ۵ پرچہ ۲۹۔ صفحہ ۳،۴۔ تاریخ ۱۰؍اگست ۱۹۰۱۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۲۱)
اے خدا کے پاک مسیح موعودؑ ! تو نے کیا ہی سچ اور حق فرمایا ۔ تیری دی ہوئی بشارت کے عین مطابق وہ جماعت جو تیری ان تعلیمات پر عمل پیرا رہی خدا نے اس میں برکت پر برکت ڈالی ۔ ان کی باربار نصرت کی۔ انہیں فتح عظیم کے بعد فتح عظیم عطا کی ۔ مگر وہ گروہ جس نے تیری ان وصایا کو پسِ پشت ڈال دیا اور غیروں میں ’’رَلے مِلے‘‘رہنے پر زور دیا ان سے برکت چھین لی گئی اور ناکامی و نامرادی ان کا مقدر بن گئی ۔

مخالف و معارض کے پیچھے نماز

حضور علیہ السلام نے فرمایا :
’’مخالف کے پیچھے نماز بالکل نہیں ہوتی ۔ پرہیز گار کے پیچھے نماز پڑھنے سے آدمی بخشا جاتا ہے۔ نماز تو تمام برکتوں کی کنجی ہے ۔ نماز میں دعا قبول ہوتی ہے ۔ امام بطور وکیل کے ہوتاہے۔ اس کا اپنا دل سیاہ ہو تو پھر وہ دوسروں کو کیا برکت دے گا‘‘۔ (الحکم جلد ۵ پرچہ ۲۸۔ صفحہ ۳،۴۔ تاریخ ۳۱؍جولائی ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۱۸)

مکفر و مکذب کے پیچھے نماز

’’دو آدمیوں نے بیعت کی ۔ ایک نے سوال کیا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا : ’’وہ لوگ ہم کو کافر کہتے ہیں ۔ اگر ہم کافر نہیں ہیں تو و ہ کفر لوٹ کر ا ن پر پڑتاہے۔ مسلمان کو کافر کہنے والا خود کافر ہے۔ اس واسطے ایسے لوگوں کے پیچھے نماز جائز نہیں‘‘۔(بدر جلد ۱نمبر ۳۹ صفحہ ۲ مورخہ ۱۵؍دسمبر ۱۹۰۵ء ۔ ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۲۸۲)

متردّد کے پیچھے نماز

’’ اہل پیغام‘‘ نے انٹرنیٹ پر بڑی بے باکی سے اعلان کیا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان لوگوں کے پیچھے نماز سے منع نہیں فرمایا جو نہ تکذیب کرتے ہیں نہ تکفیر بلکہ بین بین ہیں۔ لیجئے ایسے متردّد لوگوں کے بارہ میں حضورؑ کے فتاویٰ ملاحظہ فرمائیے:
۔۔۔(۱)۔۔۔
’’پھر ان کے درمیان جو لوگ خاموش ہیں وہ بھی انہیں میں شامل ہیں ۔ ان کے پیچھے بھی نماز جائزنہیں کیونکہ وہ اپنے دل کے اندر کوئی مذہب مخالفانہ رکھتے ہیں جوہمارے ساتھ بظاہر شامل نہیں ہوتے ‘‘۔ (بدر جلد ۱نمبر ۳۹ صفحہ ۲ مورخہ ۱۵؍دسمبر ۱۹۰۵ء ۔ ملفوظات جلد ۸ صفحہ ۲۸۲)
۔۔۔(۲)۔۔۔
’’ سوال ہواکہ اگر کسی جگہ امام نماز حضور ؑ کے حالات سے واقف نہیں تواس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں؟ فرمایا :’’ پہلے تمہارا فرض ہے کہ اسے واقف کرو ۔ پھر اگر تصدیق کرے تو بہتر ورنہ اس کے پیچھے اپنی نماز ضائع نہ کرو۔ اوراگر کوئی خاموش رہے ، نہ تصدیق کرے نہ تکذیب کرے تو وہ بھی منافق ہے۔ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو‘‘۔ (الحکم جلد ۶ نمبر ۱۶ صفحہ ۷ پرچہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۲ء ۔ ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۷۷)
۔۔۔(۳)۔۔۔
اسی طرح حضرت اقدس ؑ نے ایک اور موقع پر فرمایا :
’’ بعض لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ ایسے لوگ جوبرا نہیں کہتے مگر پورے طورپر اظہار بھی نہیں کرتے محض اس وجہ سے کہ لوگ برا کہیں گے ، کیا ان کے پیچھے نماز پڑھ لیں؟ میں کہتاہوں ہرگز نہیں۔ اس لئے کہ ابھی تک ان کے قبول حق کی راہ میں ایک ٹھوکر کا پتھر ہے اور وہ ابھی تک اسی درخت کی شاخ ہیں جس کا پھل زہریلا اورہلاک کرنے والا ہے۔ اگر وہ دنیا داروں کو اپنا معبود اور قبلہ نہ سمجھتے تو ان سارے حجابوں کو چیر کر باہر نکل آتے اور کسی کے لعن طعن کی ذرا بھی پرواہ نہ کرتے اور کوئی خوف شماتت کا انہیں دامنگیر نہ ہو تا بلکہ وہ خدا کی طرف دوڑتے ۔ پس تم یاد رکھو کہ تم ہر کام میں دیکھ لو کہ اس میں خدا راضی ہے یا مخلوقِ خدا۔ جب تک یہ حالت نہ ہو جاوے کہ خدا کی رضا مقدم ہو جاوے اور کوئی شیطان اور رہزن نہ ہو سکے اس وقت تک ٹھوکر کھانے کا اندیشہ ہے‘‘ ۔(الحکم جلد ۵ پرچہ ۳۷۔ صفحہ ۱تا ۳۔ تاریخ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۶۱)
۔۔۔(۴)۔۔۔
ایک عرب دوست قادیان تشریف لائے اور بیعت کے بعد ایک عرصہ تک حضور اقدس ؑ کی صحبت سے فیضیاب ہوتے رہے۔ پھر اپنے ملک جانے سے قبل انہوں نے حضور اقدس علیہ السلام سے نماز کے بارہ میں خصوصی طورپر دریافت کیا۔ اس کی تفصیل ’’الحکم ‘‘ میں یوں درج ہے:
’’سیدعبداللہ صاحب عرب نے سوال کیا کہ میں اپنے ملک عرب میں جاتاہوں وہاں میں ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں؟
فرمایا ’’مصدقین کے سوا کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھو‘‘۔
عرب صاحب نے عرض کیا : وہ لوگ حضورؑ کے حالات سے واقف نہیں ہیں۔ اور ان کو تبلیغ نہیں ہوئی ؟فرمایا: ’’ان کو پہلے تبلیغ کر دینا پھر یا وہ مصدق ہو جائیں گے یا مکذب‘‘۔
عرب صاحب نے عرض کیا کہ ہمار ے ملک کے لوگ بہت سخت ہیں اور ہماری قوم شیعہ ہے ؟ فرمایا :’’تم خدا کے بنو ۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کا معاملہ صاف ہو جائے اللہ تعالیٰ آ پ اس کا متولی اور متکفل ہو جاتاہے ‘‘۔ (الحکم جلد ۵ نمبر ۳۵ صفحہ ۶۔ تاریخ ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۱ء ۔ ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۴۲،۳۴۳)
۔۔۔(۵)۔۔۔
اسی طرح ایک اورمجلس میں فرمایا :
’’جو شخص ظاہر کرتاہے کہ میں نہ اُدھر کا ہوں نہ اِدھر کا ہوں اصل میں وہ بھی ہمارا مکذب ہے۔ اور جو ہمارا مصدق نہیں اورکہتاہے کہ میں ان کو اچھا جانتاہوں وہ بھی مخالف ہے ۔ ایسے لوگ اصل میں منافق طبع ہو تے ہیں ۔ ان کا یہ اصول ہوتاہے کہ ’با مسلماں اللہ اللہ، با ہندو رام رام ‘۔ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہوتا ۔ بظاہر کہتے ہیں کہ ہم کسی کا دل دکھانا نہیں چاہتے مگر یاد رکھو کہ جوشخص ایک طرف کا ہو گااس سے کسی نہ کسی کا دل ضرو ر دُکھے گا‘‘۔(بدر جلد ۲ پرچہ ۱۴ صفحہ ۱۰۵ تاریخ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۳ء ۔ ملفوظات جلد ۵ مطبوعہ لندن صفحہ ۲۹۴)
۔۔۔(۶)۔۔۔
’’خان عجب خان صاحب تحصیلدار نے حضرت اقدس ؑ سے استفسار کیا کہ اگر کسی مقام کے لوگ اجنبی ہوں اور ہمیں علم نہ ہو کہ وہ احمدی جماعت میں ہیں یا نہیں توان کے پیچھے نماز پڑھی جاوے کہ نہ؟
فرمایا ’’ ناواقف امام سے پوچھ لو ۔اگر وہ مصدق ہو تو نماز اس کے پیچھے پڑھی جاوے ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک الگ جماعت بنانا چاہتاہے اس لئے اس کے منشاء کی کیوں مخالفت کی جاوے۔ جن لوگوں سے وہ جدا کرنا چاہتاہے باربار ان میں گھسنا یہی تو اس کے منشاء کے مخالف ہے ‘‘۔ (البدر جلد ۲ پرچہ ۵ صفحہ ۳۴ ،۳۵۔ تاریخ ۲۰؍فروری ۱۹۰۳ء ۔ ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۳۸)
’’اہل پیغام‘‘ کو ڈرنا چاہئے کہ وہ منشاء الٰہی کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو ہمیں واضح نصیحت فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک الگ جماعت بنانا چاہتاہے اس لئے اس کی منشاء کے خلاف کیوں کیا جائے۔ مگر’’اہل پیغام‘‘ اس نصیحت کے برخلاف عمل پر مصر ہیں اور بار بار پھر ان لوگوں میں ’’گھسنا‘‘ چاہتے ہیں ۔ ان کی یہ جسارت واقعی بڑی حیران کن ہے ؟
۔۔۔(۷)۔۔۔
تردّد میں پڑے لوگوں کے پیچھے نماز کے بارہ میں اس وقت تک ہم نے حضور اقدس ؑ کے جو ارشادات پیش کئے ہیں وہ جماعت کے ان اخبارات سے ماخوذہیں جو حضور اقدس ؑ کے زمانہ میں حضور ؑ اور جماعت کے ترجما ن تھے ۔ بلا شبہ یہ حوالہ جات ایسے واضح ہیں کہ ہر بات پوری طرح کھل گئی ہے ۔ تاہم آخر پر اب حضور اقدس ؑ کا ایک ایسا ارشاد پیش کیا جاتاہے جو آپؑ نے اپنے قلم مبارک سے اپنی ایک کتاب میں درج فرمایاہے ۔ یہ بڑا انذاری ارشادہے اورایسا واضح اور قطعی ہے کہ اس کا سمجھنا کسی پر مشکل نہیں اور نہ ہی کوئی اس کی بے جاتاویل کرسکتاہے سوائے اس کے جسے عناد وحسد اور تکبر نے پوری طرح اندھا کر دیا ہو۔
حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کو جو الہامات ہوئے ان میں ایک الہام درج ذیل آیت قرآنیہ کی شکل میں تھا:’’تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَہَبٍ وَّ تَبَّ‘‘۔ اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں :
’’اس کلام الٰہی سے ظاہر ہے کہ تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہے اس لئے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے۔ کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتاہے ؟ پس یاد رکھو کہ جیساکہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پرحرام ہے اور قطعی حرام ہے کہکسی مکفّر اور مکذّب یا متردّد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو ۔ اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ اِمَامُکُمْ مِنْکُم یعنی جب مسیح نازل ہوگا توتمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلا م کرتے ہیں بکلّی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔ پس تم ایساہی کرو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ خد ا کا الزام تمہارے سر پرہو اور تمہارے عمل حبط ہو جائیں اور تمہیں کچھ خبر نہ ہو ۔ جو شخص مجھے دل سے قبول کرتاہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتاہے اور ہریک حال میں مجھے حَکَم ٹھیراتاہے اور ہریک تنازعہ کا مجھ سے فیصلہ چاہتاہے۔ مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پاؤ گے ۔ پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں ہے کیونکہ وہ میری باتوں کوجومجھے خدا سے ملی ہیں عزّت سے نہیں دیکھتا۔ اس لئے آسمان پراس کی عزّت نہیں ‘‘۔ ( اربعین نمبر ۳ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۷۔ صفحہ ۴۱۷حاشیہ)


وسوسہ نمبر ۳

انٹرنیٹ پرایک وسوسہ یہ پھیلایاگیاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’الوصیت‘‘ میں خود فرمایاہے کہ’’ انجمن‘‘ ہی میرے بعد میرا خلیفہ ہوگی!

بڑاجواب

نہایت افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ان لوگوں نے حضور اقدس ؑ کے اس ارشاد کو اس کے سیاق و سباق سے الگ پیش کیا ہے اور یوں تحریف الکَلِم عن مواضعہ کی مکروہ جسارت کی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ راشد اور انجمن میں زمین و آسمان کافرق ہے۔’’اہل پیغام‘‘ کے لیڈر یقیناًاچھی طرح جانتے ہوں گے انہیں جاننا چاہئے کہ امر واقع یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے رسالہ ’’الوصیت‘‘ میں اپنے قرب وفات اور اپنے بعد خلافت قائم ہونے کا ذکر ایک ہی عنوان کے تحت اور ایک ہی وقت میں فرمایاہے جبکہ ’’انجمن‘‘ کے کاموں کا ذکر ایک علیحدہ عنوان کے تحت اور دوسرے وقت میں کیاہے ۔ اس اجمال کی تفصیل درج ذیل ہے۔

رسالہ الوصیت کا تجزیاتی مطالعہ

یاد رکھنا چاہئے کہ موجودہ کتاب ’’الوصیت‘‘ کے ٹائیٹل سمیت ۳۴ صفحات ہیں اور یہ تین مختلف حصوں اور تین مختلف عناوین پرمشتمل ہے۔
پہلا حصہ: یہ اصل ’’وصیت ‘‘ہے اور ۲۴صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کی تصنیف حضور اقدس ؑ نے ۲۰؍دسمبر ۱۹۰۵ء کو مکمل فرمائی اور ۲۴؍دسمبر کو اسے شائع فرما دیا ۔ اسی حصہ میں آپ نے اپنی وفات کے دن قریب آ جانے کا ذکر فرمایاہے اور احباب جماعت کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ میرے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ قدرت ثانیہ (خلافتِ حقہ) ظاہر کرے گا۔
نیز فرمایا ہے کہ ایک فرشتے نے مجھے میری قبر کی جگہ رؤیا میں دکھائی ہے اور ایک اور جگہ دکھا کر بتایا ہے کہ یہ بہشتی مقبرہ ہے اور جماعت کے صلحاء اس میں دفن ہونگے ۔
اس حصہ اوّل کے مندرجات کچھ آگے چل کر ہم ذرا تفصیل سے زیر بحث لائیں گے۔
حصہ دوم: کتاب’’الوصیت‘‘ کے دوسرے حصہ کا عنوان ’’ضمیمہ متعلقہ رسالہ الوصیت ‘‘ہے جو سات صفحات پر مشتمل ہے ۔ جیساکہ اس کے نام سے ظا ہر ہے اس حصہ کو حضور نے بعد میں تحریرفرما کر اصل’’ رسالہ الوصیت ‘‘کے ساتھ ملحق کیا ۔ اسے حضورؑ نے ۶؍جنوری ۱۹۰۶ء کوتحریر فرمایا ہے اور اسی ماہ و سال میں مجلہ ریویو آف ریلیجنز اردو میں شائع کیا ۔
اس حصہ میں آپ ؑ نے ان صلحاء کے لئے جو اس بہشتی مقبرہ میں دفن ہونگے مختلف نصائح اور شرائط درج فرمائی ہیں ۔ نیز اس کمیٹی کے لئے نصائح اور تعلیمات درج کی ہیں جواس بہشتی مقبرہ کے کاموں کی نگران ہوگی۔ اس کمیٹی کا نام حضور نے’’ انجمن کارپرداز مصالح قبرستان‘‘ تجویز فرمایا۔ اس نام کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ اس میں حضور ؑ نے اس انجمن کے دائرہ کار اور دائرہ اختیار کو خوب واضح فرمادیا ہے۔
ہم آئندہ سطورمیں اس حصہ میں مذکور شرائط اور نصائح ذرا تفصیل سے درج کرکے تبصرہ کریں گے ۔ انشاء اللہ۔
حصہ سوم: یہ حصہ صرف تین صفحات پرمشتمل ہے ۔ یہ انجمن کے پہلے اجلاس کی رپورٹ پرمشتمل ہے جو حضرت مولوی حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ کی صدارت میں ہوا۔

حصہ اول کا خلاصہ

جیسا کہ پہلے بیان کیا گیاہے اسی حصہ میں حضور اقدس ؑ نے اپنی وفات کے دن قریب آ جانے کی خبر دی ہے اورجماعت کو تسلی دیتے ہوئے فرمایاہے کہ خدا میرے بعد قدرت ثانیہ تمہارے لئے بھیج دے گا ۔ چنانچہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے انبیاء کے ساتھ یہ سنت قدیمہ ہے کہ :
’’۔۔۔۔۔۔ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتاہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اورتشنیع کا موقعہ دے دیتاہے۔ اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کرچکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتاہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتاہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔
غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتاہے۔
(۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت دکھاتاہے۔
(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیداہوجاتاہے اوردشمن زور میں آ جاتے ہیں اورخیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور ا ن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کر تاہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتاہے ۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتاہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتاہے جیساکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے ۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کانمونہ دکھایا اوراسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھا م لیا اوراس وعدہ کو پورا کیاجو فرمایا تھا وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جمادیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔
۔۔۔سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتاہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھلادے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کردیوے ۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اوراس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا ۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں ۔ لیکن میں جب جاؤں گا تو پھرخدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیساکہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے۔ اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتاہے کہ میں اس جماعت کو جوتیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دو ں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تابعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے ۔ وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے ۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی ۔ میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اوروجود ہونگے جو دوسری قدرت کا مظہرہونگے ۔سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو ۔ اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہوکردعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایساقادر خدا ہے‘‘۔(الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۴ تا ۳۰۶)
پھراس کے بعد اسی حصہ اول میں بہشتی مقبرہ کے سلسلہ میں انجمن کی ضرورت کے ضمن میں فرماتے ہیں:
’’اس قبرستان کی زمین موجودہ بطور چندہ کے میں نے اپنی طرف سے دی ہے لیکن اس احاطہ کی تکمیل کے لئے کسی قدر اور زمین خریدی جائے گی جس کی قیمت اندازاً ہزار روپیہ ہوگی ۔۔۔۔۔۔ سو پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اس قبرستان میں مدفون ہونا چاہتاہے و ہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف کے لئے چندہ داخل کرے ۔۔۔۔۔۔ بالفعل یہ چندہ اخویم مکرم مولوی نورالدین صاحب کے پاس آنا چاہئے ۔ لیکن اگر خداتعالیٰ نے چاہا تو یہ سلسلہ ہم سب کی موت کے بعد بھی جاری رہے گا ۔ اس صورت میں ایک انجمن چاہئے کہ ایسی آمدنی کا روپیہ جو وقتاً فوقتاً جمع ہوتارہے گا اعلائے کلمہ اسلام اور اشاعت توحید میں جس طرح مناسب سمجھیں خرچ کریں ‘‘۔ ( الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۸)

حصہ دوم کا خلاصہ

قبل ازیں ہم یہ اشارہ کرچکے ہیں کہ اس حصہ میں حضرت اقدس ؑ نے ان صلحاء جماعت کے لئے کچھ مزید شرائط درج کی ہیں جو اپنے اموال اور جائیدادوں کا ایک حصہ اشاعت اسلام کے لئے وقف کرنے کے لئے تیار ہوں اور یوں نظام وصیت میں داخل ہو کر ’’بہشتی مقبرہ ‘‘ میں دفن ہونے کے خواہشمند ہوں۔
اسی طرح اس حصہ میں آپؑ نے ’’بہشتی مقبرہ‘‘کے کاموں اور ان موصیان کے اموال کے حساب کتاب اور نگرانی کرنے والی اس ’’انجمن‘‘ کے لئے بھی مزید ہدایات درج کی ہیں ۔ یہ کل ۲۰شرائط ہیں ان میں سے چند اہم شرائط درج ذیل ہیں:
*.... ’’انجمن جس کے ہاتھ میں ایسا روپیہ ہوگا اس کواختیار نہیں ہوگاکہ بجز اغراض سلسلہ احمدیہ کے کسی اور جگہ وہ روپیہ خرچ کرے اور ان اغراض میں سے سب سے مقدم اشاعت اسلام ہوگی ۔ اور جائز ہوگاکہ انجمن باتفاق رائے اس روپیہ کوتجارت کے ذریعہ سے ترقی دے‘‘۔ (شرط نمبر ۹)
*.... ’’انجمن کے تمام ممبر ایسے ہونگے جو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوں اور پارسا طبع اوردیانت دار ہوں۔ او ر اگرآئندہ کسی کی نسبت یہ محسوس ہوگا کہ وہ پارسا طبع نہیں ہے یا یہ کہ وہ دیانتدار نہیں یایہ کہ وہ ایک چالباز ہے اوردنیا کی ملونی اپنے اندر رکھتاہے تو انجمن کا فرض ہوگا کہ بلا توقف ایسے شخص کو اپنی انجمن سے خارج کر ے اوراس کی جگہ اورمقرر کرے‘‘۔( شرط نمبر ۱۰)
*.... ’’ چونکہ انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے اس لئے انجمن کو دنیاداری کے رنگوں سے بکلی پاک رہنا ہوگا اوراس کے تمام معاملات نہایت صاف اور انصاف پرمبنی ہونے چاہئیں‘‘۔(شرط نمبر ۱۳)
*.... ’’یہ ضروری ہوگاکہ مقام اس انجمن کاہمیشہ قادیان رہے کیونکہ خدا نے اس مقام کو برکت دی ہے۔ اور جائز ہوگا کہ وہ آئندہ ضرورتیں محسوس کر کے اس کام کے لئے کوئی کافی مکان تیار کریں‘‘۔( شرط نمبر ۱۵)
*.... اسی حصہ دوم کے آخرپر آپ ؑ فرماتے ہیں:
’’ میں یہ نہیں چاہتا کہ تم سے کوئی مال لوں اور اپنے قبضہ میں کر لوں بلکہ تم اشاعت دین کے لئے ایک انجمن کے حوالے اپنے مال کروگے اوربہشتی زندگی پاؤ گے ‘‘۔(الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۳۲۵۔۳۲۶۔ ۳۲۹)

منطقی نتائج

’’الوصیت ‘‘کے حصہ اول و دوم میں مذکوراہم امور کایہ خلاصہہے جسے پڑھنے کے بعد ایک دیانتدار شخص لازمی درج ذیل نتائج اخذ کرے گا :
۱۔۔۔: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اصل رسالہ الوصیت (یعنی حصہ اول) تحریر اور شائع فرمانے کے تقریباً دو ہفتوں بعد اس کا حصہ دوم تحریر فرما کر طبع فرمایا اور اسے الوصیت کا ضمیمہ قرار دیا۔
۲۔۔۔: حصہ اول میں آپ ؑ نے اپنی وفات کے دن قریب آ جانے اور وفات کے بعد قدرت ثانیہ کے ظہور کی خبردی ۔ پھر اسی حصہ اول ہی میں آپ نے اس کمیٹی یعنی انجمن کے قیام کی ضرورت کا ذکر فرمایا جس نے بہشتی مقبرہ کے کام اور اموال سنبھالنے تھے ۔جیسا کہ اس کے نام سے بھی عیاں ہے ۔
۳۔۔۔: باوجودیکہ آپؑ نے اس حصہ اول میں اپنے قرب وفات اور ’’ انجمن‘‘ کے قیام کا بھی ذکر فرمایا ہے مگر آپ نے یہاں قطعاً یہ نہیں فرمایا کہ ’انجمن‘ آپ ؑ کی خلیفہ ہوگی۔
۴۔۔۔: بلکہ اس کے برعکس آپؑ نے (اس حصہ اول میں ) اپنے قرب وفات کا ذکر فرما کر قدرت ثانیہ کے ظہور کی بشارت دی ہے ۔ پھر یہ بتانے کے لئے کہ ظہور قدرت ثانیہ سے آپ ؑ کی کیا مراد ہے ، آپ ؑ نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی مثال دی تاکہ کسی قسم کا التباس واشکال نہ رہے ۔ گویا بتایاکہ جیسے
نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک فردِ واحد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بطور خلیفہ کھڑا کیا ، ایسے ہی میرے بعد بھی فردی خلافت ہی ہوگی یعنی ایک فرد واحد میرا خلیفہ ہوا کرے گا نہ کہ کوئی انجمن یاکمیٹی۔ ’’انجمن ‘‘ کو ہرگزقدرت ثانیہ قرار نہیں دیا جاسکتا کہ ابوبکر سے مشابہت رکھتی ہو ۔
۵۔۔۔: ’’انجمن‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلیفہ قرار نہیں دی جاسکتی کیونکہ ’’انجمن‘‘ تو آپ ؑ کی زندگی میں ہی موجود تھی اور آ پؑ کے ساتھ کام کر رہی تھی ۔ مگر حضور ؑ تو فرماتے ہیں ’’وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں‘‘۔
۶۔۔۔:جماعت احمدیہ کو ’’قدرت ثانیہ ‘‘ کے بغیر چارہ نہیں ۔ بالفاظ دیگر جماعت احمدیہ میں خلافت کا وجود لازمی وحتمی ہے کیونکہ حضور ؑ اعلان فرماتے ہیں کہ انبیاء کی وفات کے بعد ’’ قدرت ثانیہ‘‘ کا ظہور خدا کی قدیم سنت ہے اور’’ اب ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کردیوے ‘‘۔
اس سے اہل لاہور کا یہ دعویٰ بھی باطل ہو گیا کہ احمدیت میں خلافت کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی ۔
۷۔۔۔: نیز یہ بھی طے ہوگیا کہ جماعت احمدیہ میں فردی خلافت ہمیشہ رہنی چاہئے کیونکہ آپ قدرت ثانیہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ ’’ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی‘‘۔
اس سے اہل پیغام کا یہ دعویٰ بھی باطل ہو گیا کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے بعد کسی کو خلیفہ منتخب کرنے کی حاجت نہیں ۔
۸۔۔۔: یہ جملہ امور مجموعی طورپر یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ ؑ کے ارشاد : ’’چونکہ انجمن خدا کے مقرر کردہ خلیفہ کی جانشین ہے اس لئے انجمن کو دنیادار ی کے رنگوں سے بکلی پاک رہنا ہوگا ‘‘ کا ہرگز یہ مطلب نہ تھا کہ ’’انجمن‘‘ آپ ؑ کے بعدعام معروف معنی میں آپ کی خلیفہ سمجھی جائے گی ۔ اس سے آپ ؑ کی مراد صرف اتنی تھی کہ ’’انجمن‘‘بہشتی مقبرہ کے معاملات اور اموال کی نگرانی میں آپ کی نیابت کرے گی جیسا کہ اس نام سے عیاں ہے جو آپ ؑ نے اس انجمن کو دیا یعنی ’’انجمن کارپرداز مصالح قبرستان‘‘۔ سواس انجمن کا دائرہ کار صر ف اور صر ف بہشتی مقبرہ کے انتظامات و اموال تک محدود تھا ۔
پس کجا یہ کہ ’’انجمن ‘‘بہشتی مقبرہ اور اس کے انتظامات اور اموال کی نگرانی کرنے میں حضور اقدس ؑ کی مددگار اور مشیر کے طورپر کام کرے اور کجا یہ کہ و ہ خود کو خلیفۃ المسیح سمجھ بیٹھے ۔

بابرکت مقام سے فرار

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر بڑا فضل کیا تھا کہ انہیں حضرت مسیح موعودؑ کے قرب سے نوازا۔ حضور ؑ نے ذرہ نوازی کرتے ہوئے جماعت کے کاموں میں انہیں اپنا معین و مددگار بننے کا شرف بخشا مگر یہ الٹے کفران نعمت کر بیٹھے ۔ یہاں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ’’خلیفۃ اللہ کی جانشین ، انجمن‘‘ کے دفاع کا دعویٰ کرنے والے یہ لوگ مسیح پاک کی مبارک بستی قادیان دارالامان سے بھاگ نکلے۔
لاہور میں جا کر ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا لی اور مسیح پاک کا یہ واضح ارشادبھلا دیا کہ ’’یہ ضروری ہوگاکہ مقام اس انجمن کا ہمیشہ قادیان رہے کیونکہ خدا نے اس مقام کو برکت دی ہے ‘‘۔
مگر وہ جماعت جوخلفاء احمدیت کے تابع ہے ( اور جسے اب یہ لوگ ہمارے اور اپنے آقاحضرت مسیح موعودؑ کے مخالفین کی نقل کرتے ہوئے قادیانیت،قادیانیت کہہ کر پکارتے ہیں ) اس مبارک مقام قادیان دارالامان سے نہایت ہولناک حالات کے باوجود ہمیشہ چمٹی رہی اور برکت پاتی رہی۔ اس نے بڑی دلیری سے اور بڑی قربانیاں دے کر اس مقام کی حفاظت کی خصوصاًتقسیم ہند کے خونی فسادات کے دوران، اورمسیح پاک کی وصیت کے مطابق قادیان ہی کو اپنا مرکز بناکر وہیں سے اسی ’’انجمن‘‘ کوچلارہی ہے جس کی بنیاد اس مردِ خدا نے خود رکھی تھی۔

نصیحت ہے غریبانہ

’’اہل پیغام‘‘ کے انٹرنیٹ پر پھیلائے ہوئے شبہات کے جواب سے اب ہم بحمداللہ فارغ ہو چکے۔ خدا گواہ ہے کہ ہماری اس گفتگو کا مقصد کسی کا دل دکھانا نہ تھا بلکہ ہمار امقصد صرف اور صرف دو امور تھے ۔
اول ۔ یہ کہ حق کے دفاع کے فرض سے حق با ت کہہ کر سبکدوش ہو جائیں خواہ وہ کسی کو قدرے کڑوا لگے۔
دوم۔ یہ کہ سرور دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف کسی طرح بھی منسوب ہونے والوں میں سے جس کوبچایاجا سکتاہے بچایاجائے ۔
اور چونکہ سچی اور پرخلوص نصیحت ضرور فائدہ دیتی ہے اور ہم دونوں جماعتوں کے پیارے مسیح موعود علیہ السلام بھی فرماتے ہیں کہ: جس کی فطرت نیک ہے آئے گا وہ انجام کار، اس لئے لاہور کے اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں سے صدق دل سے التماس ہے کہ وہ خدا کے لئے اس کی فعلی شہادت پر ذرا نظرکریں ، یعنی یہ دیکھیں کہ خداتعالیٰ نے ہم دونوں گروہوں سے کس طرح کا سلوک کیاہے تا وقت ہاتھ سے نکل جانے سے پہلے پہلے انہیں علم ہو جائے کہ حق کس کے ساتھ ہے ۔
اے بھائیو! قرآن کریم تو باربار اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتاہے کہ جب بھی حق و باطل آپس میں ٹکرائیں گے تو یہ محال ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل حق کو چھوڑ کر اہل باطل کی مدد کرے ۔ ہو نہیں سکتا کہ یہ دونوں فریق معرکہ آراء ہوں پھر اللہ تعالیٰ طیب و خبیث میں فرق نہ کردے۔ اگروہ ایسا نہ کرے تودنیا اندھیرہو جائے،ہر بات مشتبہ ہو جائے اور مخلوق گمراہی اورکفرکے گڑھے میں پڑی رہے حالانکہ اللہ اپنے بندوں کے لئے کفروضلالت پسند نہیں کرتا۔
قرآن کریم نے متعددمقامات پر اس سنت الٰہی کا ذکرکیاہے ۔ چنانچہ فرمایا : ’’کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ‘‘۔(سورۃ المجادلہ۲۲) یعنی اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ ضرور مَیں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔
پھر فرمایا :’’اِنَّا لَنَنْصُرُرُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ ‘‘ ۔ (مومن :۵۲) یقیناًہم اپنے رسولوں کی اور اُن کی جو ایمان لائے اِس دنیا کی زندگی میں بھی مدد کریں گے اور اُس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔
نیز کفار کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :
’’اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَأتِی الْاَرْض نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا اَفَہُمُ الْغَالِبُوْن‘‘(انبیاء :۴۵)۔ پس کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم (ان کی )زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں؟ تو کیا وہ پھر بھی غالب آسکتے ہیں؟
سو خدا را دیکھیں کہ ہم دونوں فریقوں میں سے کس کو خداکی طرف سے نصرت کے بعد نصرت اور فتح کے بعد فتح اور ترقی کے بعد ترقی نصیب ہوتی رہی ہے اور ہو رہی ہے ۔ کیا یہ سچ نہیں کہ وہ گروہ جو’’ اہل پیغام‘‘ کے راہنماؤں کی نظر میں حق پر تھا برکتوں سے محروم کر دیا گیا ۔ ان کی زمین کم سے کم ہوتی چلی گئی ۔مگر وہ گروہ جسے ’’اہل پیغام ‘‘کے راہنماؤں نے ’’اہل باطل‘‘ قرار دیا اس کوملنے والی کا میابیوں کا شمار تو اب امر محال ہوگیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے فتح کے بعد فتح رکھ دی ۔ ہر میدان میں ان کا ساتھ دیا۔ انہیں اتنا بڑھایا اور پھلدار کیا کہ اب وہ دنیا کے کونے کونے میں پائے جاتے ہیں اور کروڑوں تک جا پہنچے ہیں اور بڑی تیزی سے شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ عددی اکثریت و برتری اپنی ذات میں کوئی معنی نہیں رکھتی مگر خاکسار تو یہاں حق و باطل کے درمیان ہونے والے اس معرکہ کے نتیجہ کی طرف توجہ مبذول کرا رہا ہے۔ کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ فتح ، اہل باطل کے نصیب میں آوے اور شکست اہل حق کا مقدر بن جائے؟ ہرگز نہیں۔ عقل اس کو رد ّ کرتی ہے، قرآن اس کے مخالف ہے، تاریخ انبیاء اس کے خلاف گواہ کھڑی ہے ۔
کیا تم نے دیکھا نہیں کہ وہ فریق جو تمہارے اکابر کے نزدیک ’’باطل‘‘ پرتھا اور ’’کمزور ‘‘ تھا وہ باوجود مشکلات کے مسلسل بڑھتا ، پھولتا اور پھلتا رہا اس کھیتی کی طرح جو اپنی کونپل نکالے پھر اُسے مضبوط کرے پھر وہ موٹی ہوجائے اور اپنے ڈنٹھل پر کھڑی ہوجائے اور کاشتکاروں کو خوش کردے تاکہ خدا ان کی وجہ سے کفار کو غیظ دلائے۔ یا اس کی مثال اس شجرہ طیبہ کی سی ہے جس کی جڑیں زمین میں خوب پیوستہ ہیں اوراس کی شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ۔ وہ اپنا پھل ہروقت اپنے رب کے حکم سے دیتاہے۔
مگر وہ فریق جو آپ کے اکابر کی نظر میں حق پر تھا ، طاقتور تھااور شروع میں عددی غلبہ بھی رکھتا تھا وہ فریق مسلسل انحطاط کا شکار رہا حتیٰ کہ اس شجرہ ٔ خبیثہ کی طرح ہو گیا جو اپنی اصل زمین سے اکھاڑ دیا گیاہو اور اسے کوئی استقرار نصیب نہ ہو ۔
آخر پر بڑے درد کے ساتھ مسیح پاک علیہ السلام ہی کے اس درد بھرے شعر کو دہرا کر عرض کرتاہوں ؂
ہمیں کچھ کیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غریبانہ
کوئی جو پاک دل ہووے دل وجاں اس پہ قرباں ہے
اعتراف: خاکسار نے اس مضمون کی تیاری میں حضرت قاضی محمد نذیر لائلپوری صاحب مرحوم کی تحریرات خصوصاً کتاب ’’غلبۂ حق‘‘ سے استفادہ کیا ۔ جزاہ اللہ احسن الجزاء۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگ ہستیوں کی نیکیوں اور خوبیوں کا ہمیں اور ہماری نسلوں کو وارث بنائے ۔آمین۔
نوٹ: حضور اقدس ؑ کی کتب و ملفوظات سے اقتباس شدہ حوالہ جات لندن میں طبع شدہ ایڈیشن کے مطابق ہیں۔
(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل۲۵؍فروری،۳؍مارچ،۱۰؍مارچ ۲۰۰۰ء )
 
مکمل تحریر >>

محمدی بیگم سے شادی کی پیشگوئی

محمدی بیگم و الی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی جو اپنی تمام شرائط اور تفصیلات کے ساتھ لفظاً لفظاً پوری ہو ئی۔ نیز اس پیشگوئی کا مقصود بھی کما حقہٗ حاصل ہوا۔

 معزّز قارئین! خدا تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَهَا (الاحزاب: ۳۸) کہ جب زیدؓ نے حضرت زینبؓ کو طلاق دیدی تو ہم نے آپؐ کے ساتھ (آسمان پر) اس کا نکاح پڑھ دیا۔


یہی لفظ زَوَّجْنٰکَھَا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعا لیٰ نے محمّدی بیگم کے بارہ میں فرمایا۔ وہاں شرائط کے تحقق کے باعث حضرت زینبؓ کا نکاح ہو گیا۔مگر پھر بھی مخالفین اس پر اعتراض کرنے سے باز نہ آئے اور آج تک اس پر ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔یہاں شرائط کے عدمِ تحقق کی وجہ سے محمّدی بیگم کا نکاح نہ ہوا، تو مخالفین اس پر بھی اعتراضات کر تے ہیں۔پس نکاح کا ہونا یا نہ ہونا باعثِ اعتراض نہیں بلکہ اس کا باعث وہ فطری بغض ہے جو روزِ اوّل سے معاندین و مکذّبین کے شاملِ حال رہا ہے۔لیکن جہاں تک اہلِ بصیرت کا تعلق ہے انہوں نے اس پیشگوئی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت و حقانیّت کی ایک بیّن دلیل سمجھا اور آپ ؑ پر ایمان لائے۔ حتیٰ کہ اس خاندان سے تعلق رکھنے والے بیسیوں افراد بھی حلقہ بگوشِ احمدیّت ہوئے۔مگر راشد علی اور’’ علماء ھم‘‘اپنے شیوہ استہزاء و تمسخر سے باز نہ آئے۔
اس پیشگوئی کے بارہ میں یہ بات مدِّنظر رکھنی چاہئے کہ یہ ایک وعیدی پیشگوئی تھی جولازماً توبہ اور رجوع سے مشروط تھی۔اور اس کا اصل مقصود متعلقہ لوگوں کے لئے عبرت اور اصلاح کے سامان مہیاّ کرنا تھا۔

پیشگوئی کا پس منظر

اس پیشگوئی کا سبب محمدی بیگم کے والد مرزا احمد بیگ اور اس کے دوسرے رشتہ دار تھے۔ یہ لوگ چچا کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بھی رشتہ دار تھے ۔ان کی حالت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب ’’ آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ میں یوں بیان فرماتے ہیں
’’خدا تعاالیٰ نے میرے چچیرے بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں( احمد بیگ وغیرہ) کو ملحدانہ خیالات اور اعمال میں مبتلا اور رسومِ قبیحہ اور عقائدِ باطلہ اور بدعات میں مستغرق پایا اور ان کو دیکھا کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے تابع ہیں اور خدا تعالیٰ کے وجود کے منکر اور فسادی ہیں۔‘‘( ترجمہ عربی عبارت ۔آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد ۵صفحہ۵۶۶)
پھر فرمایا
’’ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ ایک شخص روتا ہوا آیامیں اس کے رونے کو دیکھ کر خائف ہوا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کسی کے مرنے کی اطلاع ملی ہے؟ اس نے کہا نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت بات ہے۔میں ان لوگوں کے پاس بیٹھا ہو اتھا جو دینِ خداوندی سے مرتد ہو چکے ہیں ۔ پس ان میں سے ایک نے آنحضرت ﷺ کو نہایت گندی گالی دی۔ ایسی گالی کہ میں نے اس سے پہلے کسی کافر کے منہ سے بھی نہیں سنی تھی اور میں نے انہیں دیکھا کہ وہ قرآنِ مجید کو اپنے پاؤں تلے روندتے اور ایسے کلمات بولتے ہیں جن کے نقل کرنے سے زبان کانپتی ہے۔اور وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی خدا نہیں۔ خداکا وجود محض ایک مفتریوں کا جھوٹ ہے۔ ‘‘(ترجمہ عربی عبارت۔ آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد ۵صفحہ۵۶۸)

نشان طلبی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’ان لوگوں نے خط لکھا جس میں رسولِ کریمﷺ اور قرآن مجید کو گالیاں دیں اور وجودِ باری عزّ اسمہٗ کا انکار کیا اور اس کے ساتھ ہی مجھ سے میری سچائی اور وجودِ باری تعالیٰ کے نشانات طلب کئے اور اس خط کو انہوں نے دنیا میں شائع کر دیا* اور ہندوستان کے غیر مسلموں کی بہت مدد کی اور انتہائی سرکشی دکھائی۔‘‘ (ترجمہ عربی عبارت۔ آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۵۶۸) *یہ خط عیسائی اخبار چشمۂ نور۔اگست ۱۸۸۷ ؁ء میں شائع ہوا تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا

ان کی نشان طلبی پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائے قادرِ مطلق کے حضور ان لفاظ میں دعا کی
’’ یا ربّ انصرعبدک واخذل اعدائک......۔‘‘( آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد ۵صفحہ۵۶۸)
ترجمہ:۔ میں نے کہا اے میرے خدا! اپنے بندے کی مدد کر اور اپنے دشمنوں کو ذلیل کر......۔

خدا تعالیٰ کا جواب

اللہ تعالیٰ نے اس دردمندانہ دعا کو قبول کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً اطلاع دی کہ
’’ میں نے ان کی بدکرداری اور سرکشی دیکھی ہے۔پس میں عنقریب ان کومختلف قسم کے آفات سے ماروں گا اور آسمان کے نیچے انہیں ہلاک کروں گا اور عنقریب تو دیکھے گا کہ میں ان سے کیا سلوک کرتا ہوں اورہم ہر چیز پر قادر ہیں۔ میں ان کی عورتوں کو بیوائیں، ان کے بچوں کو یتیم اور گھروں کو ویران کر دوں گا۔تاکہ وہ اپنے کئے کی سزا پائیں لیکن میں انہیں یک دم ہلاک نہیں کروں گا بلکہ آہستہ آہستہ تاکہ وہ رجوع کریں اور توبہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں اور میری لعنت ان پر اور ان کے گھر کی چاردیواری پر، ان کے بڑوں پر، اور ان کے چھوٹوں پر،ان کی عورتوں اور مردوں پر اور ان کے مہمانوں پر جو ان کے گھروں میں اتریں گے،نازل ہونے والی ہے اور وہ سب کے سب ملعون ہونے والے ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائیں اور ان سے قطع تعلق کریں اور ان کی مجلسوں سے دور ہوں وہ رحمتِ الہٰی کے تحت ہوں گے۔‘‘ (ترجمہ از عربی عبارت۔ آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد ۵صفحہ۵۷۰،۵۶۹)
اس خاندان کے بارہ میں یہ ایک عمومی انذار پر مبنی الہام تھا ۔لیکن اس کے بعد خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوان لوگوں کے بارہ میں جس معیّن پیشگوئی پر اطلاع بخشی اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا
’’انہی ایاّم میں مرزا احمد بیگ والد محمّدی بیگم صاحبہ نے ارادہ کیا کہ اپنی ہمشیرہ کی زمین کوجس کا خاوند کئی سال سے مفقود الخبرتھا اپنے بیٹے کے نام ہبہ کرائے ، لیکن بغیر ہماری مرضی کے وہ ایسا کر نہیں سکتا تھا ۔اس لئے کہ وہ ہمارے چچا زاد بھائی کی بیوہ تھی ۔ اس لئے احمد بیگ نے ہماری جانب بعجز و انکسار رجوع کیا۔ اور قریب تھا کہ ہم اس ہبہ نامہ پر دستخط کر دیتے لیکن حسبِ عادت استخارہ کیا تو اس پر وحی الہٰی ہوئی جس کا ترجمہ یوں ہے۔’’ اس شخص کی بڑی لڑکی کے رشتہ کے لئے تحریک کراور اس سے کہہ! کہ وہ تجھ سے پہلے دامادی کا تعلق قائم کرے اور اس کے بعد تمہارے نور سے روشنی حاصل کرے۔ نیز اس سے کہو کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ زمین جو تو نے مانگی ہے دیدونگا اور اس کے علاوہ کچھ اور زمین بھی، نیز تم پر کئی او ر رنگ میں احسان کروں گا بشرطیکہ تم اپنی لڑکی کا مجھ سے رشتہ کردو اور یہ تمہارے اور میرے درمیان عہد و پیمان ہے جسے تم اگر قبول کرو گے تو مجھے بہترین قبول کرنے والا پاؤ گے۔اور اگر تم نے قبول نہ کیا تو یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس لڑکی کا کسی اور شخص سے نکاح نہ اس لڑکی کے حق میں مبارک ہو گا اور نہ تمہارے حق میں۔ اور اگر تم اس ارادہ سے باز نہ آئے تو تم پر مصائب نازل ہوں گے اور آخری مصیبت تمہاری موت ہوگی اور تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مرجاؤ گے بلکہ تمہاری موت قریب ہے جو تم پر غفلت کی حالت میں وارد ہوگی اور ایسا ہی اس لڑکی کا شوہر بھی اڑہائی سال کے اندر مر جائے گا اور یہ قضائے الٰہی ہے۔‘‘ پس تم جو کچھ کرنا چاہو کرو میں نے تمہیں نصیحت کر دی ہے۔‘‘(ترجمہ عربی عبارت۔ آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن جلد صفحہ۵۷۳۔۵۷۲)
قارئینِ کرام! جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ کو اس کی توحید سب سے پیاری ہے اور اس کے بعد پھر وہ ذات سب سے پیاری ہوتی ہے جو اس دنیا میں اس کی توحید کی علمبردار ہوتی ہے ۔ان سب کے لئے وہ بیحدغیرت دکھاتا ہے ۔اور جہانتک اس معاشرے کا تعلق ہے جس کی یہاں بحث ہو رہی ہے جس میں یہ خاندان تھا،تو اس میں ایک مرد کے لئے سب سے ز یادہ جائے غیرت اس کے گھر کی عورت ہوتی ہے۔خدا تعالیٰ کے کاموں کی حکمتیں تو وہی جانتا ہے لیکن اس جگہ جو حالات نظر آتے ہیں۔ ان کے پیشِ نظر یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی غیرت کو بھڑکانے کے سامان کئے تھے بعینہٖ اسی طرح خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کی غیرت کی جگہوں کو ضرب لگائی تاکہ وہ نصیحت اور عبرت حاصل کریں اور توبہ کرتے ہوئے اس کی طرف رجوع کریں۔ ان لوگوں نے چونکہ ذاتِ باری تعالیٰ اور محبوبِ باری تعالیٰ حضرت محمّد مصطفی ﷺ کی شان میں گستاخیاں کی تھیں جن کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح میں غیرت کا ایک الاؤ بھڑک رہا تھا۔آپ ؑ کے دل سے خدا تعالیٰ کی توحید کے لئے اور اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمّد مصطفی ﷺکے لئے ناموس کے لئے التجائیں اٹھتی تھیں۔ بالآخر خدا تعالیٰ نے آپ ؑ کو الہاماً یہ خبر دی
’’کذّبوا بآیٰتنا وکانوا بھا یستھزء ون فسیکفیکھم اللّٰہ و یردّھا الیک لا تبدیل لکلمات اللّٰہ۔‘‘(اشتہار ۱۰ جولائی ۱۸۸۸ ؁ء)
ترجمہ:۔ان لوگوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹلایا ہے اور ان کے ساتھ ٹھٹھا کرتے رہے ہیں۔پس اللہ تعالیٰ ان کے مقابلہ میں تیرے لئے کافی(سپر) ہو گا۔(یعنی انہیں عذاب دے گا)اور اس عورت کو تیری طرف لوٹائے گا۔خدا کے کلمات بدل نہیں سکتے۔‘‘
پھر ۱۵ جولائی والے اشتہار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حسبِ ذیل الہام بھی درج کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’رأیت ھذہ المرأۃ و أثر البکاء علٰی وجھھا فقلت أیّتھا المرأۃ توبی توبی فانّ البلاء علی عقبک والمصیبۃ نازلۃ علیک یموت و یبقٰی منہ کلابٌ متعدّدۃ۔‘‘ (اشتہار ۱۵ جولائی ۱۸۸۸ء۔حاشیہ تبلیغ رسالت جلد ۱ صفحہ۱۲۰)
ترجمہ:۔ میں نے اس عورت (یعنی محمّدی بیگم کی نانی) کو( کشفی حالت میں) دیکھا اور رونے کے آثار اس کے چہرے سے ظاہر تھے۔پس میں نے اس سے کہا کہ اے عورت توبہ کر ! توبہ کر! کیونکہ بلا تیری اولاد پر ہے۔اور مصیبت تجھ پر نازل ہونے والی ہے۔ ایک مرد مر جائے گا اور اس کی طرف کتّے باقی رہ جائیں گے۔
پس اس امر کو بنیادی طور پر یاد رکھنا چاہئے کہ الہام ’’یردّھا الیک لا تبدیل لکلمات اللہ‘‘ توبہ نہ کرنے کی شرط سے مشروط ہے۔ اس کی وضاحت ۱۵ جولائی والے الہام سے ہوتی ہے۔ یعنی توبہ کے وقوع میں آنے سے پیشگوئی کا یہ حصہ جو محمّدی بیگم کی واپسی سے تعلق رکھتا ہے ٹل سکتا تھا۔
چنانچہ جب محمّدی بیگم کے باپ نے ان کا نکاح دوسری جگہ کر دیا تو پیشگوئی کے مطابق محمّدی بیگم کا والد مرزا احمد بیگ نکاح کرنے کے بعدچھ ماہ کے عرصہ میں پیشگوئی کی میعاد کے اندر ہلاک ہو گیا۔اس کی ہلاکت کا اس خاندان پرگہرا اثر پڑااور وہ پہلے سے بتائی ہوئی تقدیرِ الہٰی سے بیحد خوفزدہ ہوئے۔اسی اثر کے تحت محمّدی بیگم کے خاوند مرزا سلطان محمد نے بھی توبہ کی اور رجوع الیٰ اللہ کیا۔ اس پیشگوئی میں ابتدائی طور پر ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بات داخل فرمائی تھی کہ
’’...... میں انہیں یک دم ہلاک نہیں کروں گا۔بلکہ آہستہ آہستہ تاکہ وہ رجوع کریں اور توبہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔‘‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس پیشگوئی کی اصل غرض اس خاندان کی توبہ اور اصلاح تھی۔اوریہی اس پیشگوئی کا حقیقی محور تھا۔جب تک شرط قائم رہی خدا تعالیٰ کی تقدیر قہری رنگ میں پوری ہوئی اور مرزا احمد بیگ اس کا نشانہ بنا۔ اس سے عبرت حاصل کرکے رجوع الیٰ اللہ کرنے والوں پر خدا تعالیٰ کی تقدیرِعفو جاری ہوئی۔ لا تبدیل لکلمات اللہکا یہی معنیٰ ہے کہ جب کوئی توبہ کرتا ہے اوراللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ اس کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ اس کو معاف کرتا ہے۔ اس کی اس تقدیر میں تبدیلی نہیں ہوتی۔پس اس خاندان کی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ سے خدا تعالیٰ کے نہ تبدیل ہونے والے کلمات قائم رہے اور اس پیشگوئی کا مقصود پورا ہو گیا۔ اور اس کے دوسرے حصے جو مشروط تھے وہ ٹل گئے۔چونکہ محمّدی بیگم کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف واپسی عدمِ توبہ کی شرط سے مشروط تھی اوریہ واپسی اس کے خاوند کے مرنے اور محمّدی بیگم کے بیوہ ہونے کے بعدہی ممکن تھی اس لئے پیشگوئی میں اس سے نکاح کی شق غیر مشروط نہ تھی۔جب اس کے خاوند نے شرطِ توبہ سے فائدہ اٹھایا تو خدا تعالیٰ کے عفو کے تحت آ کر موت سے بچ گیا۔اسی وجہ سے نکاح جو اس کی موت سے معلق اور مشروط تھا وہ ضروری الوقوع نہ رہا ۔
اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا یہ اجمالی نقشہ ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے، میعاد کے اندرمرزا سلطان محمّد کی موت نہ ہونے کا سبب اس کی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ تھا۔ الہٰی قوانین میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وعید کی پیشگوئی، خواہ اس میں شرط کا بیان نہ بھی ہو، ہمیشہ عدمِ توبہ کے ساتھ مشروط ہوتی ہے۔لہذا وہ لازماًتوبہ اور رجوع سے ٹل جاتی ہے ۔لیکن جہانتک اس پیشگوئی کا تعلق ہے ،اس میں خدا تعالیٰ نے توبہ کی شرط بیان فرما دی تھی۔ اس لئے محمّدی بیگم کے خاوند کی توبہ اور رجوع الیٰ سے نکاح والی شق ٹل کر کالعدم ہو گئی۔ پس خدا تعالیٰ کے الہامات پر کسی شخص کو یہ اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں کہ نکاح کیوں وقوع میں نہ آیا۔

مرزا احمد بیگ اور اس کے داماد کی موت کی میعاد میں اختلاف کی حکمت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا احمد بیگ کو مخاطب کر کے لکھا تھا کہ
’’آخرالمصائب موتک تموت الیٰ ثلاث سنین بل موتک قریب‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام۔روحانی خزائن۔جلد صفحہ۵۷۳)
ترجمہ:۔ آخری مصیبت تیری موت ہے اور تو تین سال بلکہ اس سے قریب مدّت میں مر جائے گا۔
اسی جگہ محمّدی بیگم کے خاوند کے لئے اڑہائی سال کی مدّت بیان کی گئی ہے۔واقعات کے لحاظ سے’’ موتک قریب‘‘ کا الہام اس طرح پورا ہوا کہ مرزا احمد بیگ اپنی لڑکی کا نکاح مرزا سلطان محمّدسے کرنے کے بعدپیشگوئی کے مطابق چھ ماہ کے عرصہ میں ہی ہلاک ہو گیا۔ یہ ہلاکت اس کی بیباکی اور شوخی میں بڑھ جانے کا نتیجہ تھی۔ورنہ ممکن تھا کہ اس کا داماد پہلے مر جاتا۔ نیز اس میں یہ اشارہ تھا کہ اگر مرزا احمد بیگ کی موت اپنے داماد سے پہلے واقع ہو جائے تو پھر مرزا سلطان محمّد توبہ کر کے ضرور بچ جائے گا اور اس کے بارہ میں پیشگوئی ٹل جائے گی۔’’آخرالمصائب موتک ‘‘ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا احمد بیگ کی موت اس خاندان پرمصیبتوں میں سے آخری مصیبت ہو گی اور اس سے عبرت کے سامان ہونگے اور وہ خاندان دیگر مصیبتوں سے بچ جائے گا اور پیشگوئی کی اصل غرض یعنی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ اور اصلاح پوری ہوگی۔ 

مرزا سلطان محمّد کی توبہ

مرزا سلطان محمّد کی توبہ کی وجہ سے جب اس کی موت نہ ہوئی تو بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ اس کی موت پیشگوئی کے مطابق واقع نہیں ہوئی تو اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اعلان فرمایا
(ا) ’’ فیصلہ تو آسان ہے۔ احمد بیگ کے داماد سلطان محمّد سے کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘(انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۳۲ حاشیہ)
(ب) ’’ضرور ہے کہ یہ وعید کی موت اس سے تھمی رہے جب تک کہ وہ گھڑی نہ آ جائے کہ اس کو بیباک کر دے۔ سو اگر جلدی کرنا ہے تو اٹھواس کو بے باک اور مکذّب بناؤ اور اس سے اشتہار دلاؤ اور خدا کی قدرت کا تماشا دیکھو۔‘‘(انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۳۲ حاشیہ)
یہ دونوں اعلان ظاہر کرتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس چیلنج کے بعد اگر مرزا سلطان محمّد کسی وقت شوخی اور بے باکی دکھاتے یا مخالفین ان سے تکذیب کا اشتہار دلانے میں کامیاب ہو جاتے تو پھر اس کے بعد اس کی موت کے لئے جو میعاد خدا تعالیٰ قائم فرماتا وہ قطعی فیصلہ کن اور تقدیرِ مبرم ہوتی اور اس کے مطابق لازماًاس کی موت واقع ہوتی۔اورپھر اس کے بعد محمّدی بیگم کا نکاح حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ضروری اور اٹل ہو جاتا۔اس تفصیل کو جاننے کے بعد کسی کا یہ کہنا کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی بالکل بے بنیاد اور جھوٹ ہے۔

مرزا سلطان محمّد کی توبہ کا قطعی ثبوت

مرزا سلطان محمّد نہ صرف یہ کہ حقیقۃً توبہ کر چکے تھے بلکہ اس پیشگوئی کی صداقت کے مصدّق بھی تھے ۔نیز یہ بھی کہ اس کی تصدیق پر نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قائم رہے بلکہ صدقِ دل سے اپنی موت تک اس پر ثبات دکھایا،اس کا ثبوت یہ ہے کہ کتاب ’’انجامِ آتھم‘‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مذکورہ بالا چیلنج کے شائع ہونے پرآریوں اور عیسائیوں میں سے بعض لوگ ان کے پاس پہنچے اور انہیں ایک خطیر رقم دینے کا وعدہ کیا تا وہ حضرت اقدس ؑ پر نالش کریں۔
مرزا سلطان محمّد جن سے محمّدی بیگم کی شادی ہوئی انہوں نے نہ صرف یہ کہ توبہ کی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عقیدتمندبن گئے اور اس پیشگوئی کی صداقت کے گواہ بنے۔ان کی گواہی انتہائی وزنی اور حتمی اس لئے ہے کہ ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی موت اور پھر اس کی بیوہ کے اپنے نکاح میں آنے کی پیشگوئی کی تھی اور اپنی متعدد کتب و اشتہارات میں اس کا ذکر بھی فرمایا تھا ، ان کو تو آپ ؑ سے طبعاً دشمنی اور عناد ہونا چاہئے تھا۔لیکن وہ چونکہ نیک فطرت انسان تھے اس لئے انہوں نے کسی منفی جذبے کو اپنی فطری سچائی پر غالب نہ آنے دیا۔ اس کا ناقابلِ ردّ ثبوت یہ ہے کہ حافظ جمال احمد صاحب فاضل مبلغِ سلسلہ نے ان کا ایک انٹرویو لیا جواخبار الفضل۔ ۹؍۱۳ جون ۱۹۲۱ ؁ء میں ’’مرزا سلطان محمّد صاحب کا ایک انٹرویو‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے بیان کیا کہ
’’میرے خسر جناب مرزا احمد بیگ صاحب واقع میں عین پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئے، مگر خدا تعالیٰ غفور الرحیم ہے، اپنے دوسرے بندں کی بھی سنتا ہے اور رحم کرتا ہے......... میں ایمان سے کہتا ہوں کہ یہ نکاح والی پیشگوئی میرے لئے کسی قسم کے بھی شکّ و شبہ کا باعث نہیں ہوئی۔ باقی رہی بیعت کی بات، سو میں قسمیّہ کہتا ہوں کہ جو ایمان اور اعتقاد مجھے حضرت مرزا صاحب پر ہے میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی جو بیعت کر چکے ہیں اتنا نہیں ہو گا۔.......باقی میرے دل کی حالت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے وقت آریوں نے لیکھرام کی وجہ سے اور عیسائیوں نے آتھم کی وجہ سے مجھے لاکھ لاکھ روپیہ دینا چاہا، تا میں کسی طرح مرزا صاحب پر نالش کروں۔ اگر میں وہ روپیہ لے لیتا تو امیر کبیر بن سکتا تھا۔ مگر وہی ایمان اور اعتقاد تھا جس نے مجھے اس فعل سے روکا۔‘‘(الفضل ۱۳/۹ جون ۱۹۲۱ء)
مرزا سلطان محمّد صاحب کا یہ بیان ان کی زندگی میں ہی شائع ہوا۔انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کو مومنانہ سوچ اور بصیرت کی نظر سے دیکھا توباوجود ایک طرح سے فریقِ مخالف ہونے کے ، خود اس کی صداقت کے گواہ بن گئے۔چونکہ وہ حقیقی توبہ کر چکے تھے اور پیشگوئی کی صداقت کے قائل تھے اس لئے وہ اس گراں بہا لالچ دئے جانے پر بھی کسی قسم کی بے باکی اور شوخی کے لئے تیّار نہ ہوئے۔
اسی طرح حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدؓ کی مرزا سلطان محمّد صاحب سے ملاقات کے بارہ میں حلفیہ شہادت ہے ۔اس ملاقات میں انہوں نے بعینہٖ انہی جذبات کا اظہار کیا جو مذکورہ بالا انٹرویو میں بیان ہوئے ہیں۔
حضرت مولوی ظہورحسین مجاہدِ بخارا نے مرزا سلطان محمّد سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے یہ حلفیہ شہادت دی کہ انہوں نے بتایا کہ
ان کے پاس مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری بھی آئے تھے اور شدید اصرار کیا کہ وہ انہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک ایسی تحریر دیدیں جس میں یہ بیان ہو کہ یہ پیشگوئی غلط ثابت ہوئی۔مرزا سلطان محمّد نے بیان کیا کہ’’ مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب یہی رٹ لگاتے رہے جس پر میں نے ایسی تحریر دینے سے صاف طور پرانکار کر دیا اور وہ بے نیلِ مرام واپس چلے گئے۔...... حضرت مرزا صاحب کے متعلق میری عقیدت ہی تھی جس کی وجہ سے میں نے ان کی ایک بھی نہ مانی۔ ... ... عیسائی اور آریہ قوم کے بڑے بڑے لیڈروں نے بھی مجھ سے اس قسم کی تحریر لینے کی خواہش کی مگر میں نے کسی کی نہ مانی اور صاف ایسی تحریر دینے سے انکار کرتا رہا۔‘‘
علاوہ ازیں انہوں نے اپنے ایک احمدی دوست کے نام اپنے ایک خط میں بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ وہ لکھتے ہیں
’’از انبالہ چھاؤنی ۲۱؍۳؍۱۳
برادرم سلّمہٗ
نوازش نامہ آپ کا پہنچا ۔یاد آوری کا مشکور ہوں۔ میں جناب مرزا جی صاحب مرحوم کو نیک ۔بزرگ۔ اسلام کا خدمت گذار۔ شریف النفس۔خدا یاد پہلے بھی اور اب بھی خیال کررہاہوں۔ مجھے ان کے مریدوں سے کسی قسم کی مخالفت نہیں ہے۔ بلکہ افسوس کرتا ہوں کہ چند ایک امورات کی وجہ سے ان کی زندگی میں ان کا شرف حاصل نہ کر سکا۔
نیازمند سلطان محمّد از انبالہ

پیشگوئی کی عین مطابق، محمدی بیگم کے والد مرزا احمد بیگ کی موت سے اس خا ندان کی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ کا نتیجہ تھا کہ اس میں سے بہت سے افراداس پیشگوئی کے مصدّق ہو کر حلقہ بگوشِ احمدیّت ہو ئے۔ جن کی تفصیل ذیل میں درج ہے۔
۱۔اہلیہ مرزا احمد بیگ صاحب (والدہ محمّدی بیگم۔ یہ موصیہ تھیں)
۲۔ ہمشیرہ محمّدی بیگم
۳ ۔مرزا محمّد احسن بیگ جو مرزا احمد بیگ کے داماد ہیں اور اہلیہ مرزا احمد بیگ کے بھانجے ہیں
۴ ۔عنایت بیگم ہمشیرہ محمّدی بیگم
۵ ۔مرزا محمّد بیگ صاحب پسر مرزا احمد بیگ صاحب
۶۔مرزا محمود بیگ صاحب پوتا مرزا احمد بیگ صاحب
۷ ۔دختر مرزا نظام دین صاحب اور ان کے گھر کے سب افراد
۸۔مرزا گل محمّد پسر مرزا نظام دین صاحب
۹۔اہلیہ مرزا غلام قادر صاحب ( موصیہ تھیں)
۱۰۔محمودہ بیگم ہمشیرہ محمّدی بیگم صاحبہ
۱۱۔مرزا محمّد اسحاق بیگ صاحب ابن مرزا سلطان محمّد صاحب۔
یہ سب محمدی بیگم کے بالکل قریبی رشتہ دار ہیں اوریہ سب اس پیشگوئی کے بعد اس کی صداقت کو دیکھ کر حلقہ بگوشِ احمدیت ہوئے ۔ ان میں سے مرزا اسحق بیگ صاحب ، محمدی بیگم کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ کی منشا کے عین مطابق اس پیشگوئی کے عملاً وقوع کی شہادت دی بلکہ اس کے علمی پہلوؤں پر بھی ایک جامع بحث کی۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں
’’ بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
احبابِ کرام ! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ‘
پیشتر اس کے کہ میں اپنا اصل مدّعا ظاہر کروں، یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ واﷲ میں کسی لالچ یا دنیوی غرض یا کسی دباؤ کے ماتحت جماعتِ احمدیہ میں داخل نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ایک لمبے عرصہ کی تحقیقِ حق کے بعد اس بات پر ایمان لایا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب اپنے ہر دعوٰی میں صادق اور مامور من اﷲ ہیں اور اپنے قول وفعل میں ایسے صادق ثابت ہوئے ہیں کہ کسی حق شناس کو اس میں کلام نہیں ہو سکتا۔آپ کی تمام پیشگوئیاں ٹھیک ٹھیک پوری ہوئیں۔یہ الگ سوال ہے کہ بعض لوگ تعصّب یا نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض پیشگوئیوں کو پیش کر کے عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ مثلاً ان میں سے ایک پیشگوئی مرزا احمد بیگ صاحب وغیرہ کے متعلق ہے۔اس پیشگوئی کو ہر جگہ پیش کر کے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کا پورا ہونا ثابت کرو۔حالانکہ وہ بھی صفائی کے ساتھ پوری ہو گئی۔ میں اس پیشگوئی کے متعلق ذکر کرنے سے پیشتر یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی تھی اور ایسی انذاری پیشگوئیاں خدا تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ اس لئے کرایا کرتا ہے کہ جن کے متعلق ہوں ان کی اصلاح ہو جائے۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ ماَ نُرْسِلُ بِالاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا کہ ہم انبیاء کو نشانات اس لئے دیتے ہیں کہ لوگ ڈر جائیں۔
اس میں اﷲ تعالیٰ نے یہ اصل بیان فرما دیا کہ ایسی انذاری پیشگوئیاں لوگوں کی اصلاح کی غرض سے کی جاتی ہیں۔ جب وہ قوم اﷲ تعالیٰ سے ڈر جائے اور اپنی صلاحیّت کی طرف رجوع کرے تو اﷲ تعالیٰ اپنا معلّق عذاب بھی ٹال دیتا ہے۔جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ نیز حضرت موسٰی ؑ کی قوم کے حالات وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْھِمُ الرِّجْز سے ظاہر ہے۔اس صورت میں انذاری پیشگوئی کا لفظی طور پر پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔یہی نقشہ یہاں نظر آتا ہے کہ جب مرزا صاحبؑ کی قوم اور رشتہ داروں نے گستاخی کی ، یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی ہستی سے انکار کیا، نبی کریمﷺ اور قرآنِ پاک کی ہتّک کی اور اشتہار دے دیا کہ ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے تو اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ کے مامور کے ذریعہ پیشگوئی فرمائی۔اس پیشگوئی کے مطابق میرے نانا جان مرزا احمد بیگ صاحب ہلاک ہو گئے اور باقی خاندان ڈر کر اصلاح کی طرف متوجّہ ہو گیا۔جس کا ناقابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثر نے احمدیّت قبول کر لی۔تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی صفتِ غفورالرحیم کے ماتحت قہر کو رحم میں بدل دیا۔
میں پھر زور دار الفاظ میں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہو گئی۔
میں ان لوگوں سے جن کو احمدیّت قبول کرنے میں یہ پیشگوئی حائل ہے عرض کرتا ہوں کہ وہ مسیح الزمان ؑ پر ایمان لے آئیں۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، یہ وہی مسیحِ موعود ؑ ہیں جن کی نسبت نبی کریم ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی اور ان کا انکار نبی کریمﷺ کا انکار ہے۔حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے کیا درست فرمایا ہے
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیّت کا ہوں حصار
اِک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا
پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار
خاکسار مرزا محمّد اسحٰق بیگ، پٹی ضلع لاہور حال وارد چک ۱۶۵۔۲بی۔‘‘
(مطبوعہ ۔الفضل ۲۶ فروری ۱۹۳۲ صفحہ ۹)
الغرض یہ پیشگوئی وعیدی پیشگوئیوں کے اصولوں کے عین مطابق ،خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی تفصیلات کے ساتھ پوری ہوئی ۔ نیز اس کی اصل غرض بھی پوری ہوئی یعنی اس خاندان کی اصلاح ہوئی اور وہ اللہ تعالی کی طرف لوٹ آئے۔ ایک ہی فرد کی ہلاکت سے باقی سارے خاندان نے عبرت حاصل کی۔ان میں سے بعض نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عجزو نیاز سے خط بھی لکھے اور دعا کی درخواست کی۔ان خطوط کا ذکر آپ ؑ نے اپنی کتاب ’’حقیقۃ الوحی‘‘(روحانی خزائن۔جلد۲۲ صفحہ۱۹۵) میں کیا ہے۔


پیشگوئی کا تجزیہ

اس پیشگوئی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو عملاً اس کے پانچ حصے ہیں۔جن میں سے پہلے تین حصے لفظاً پورے ہوئے اور وعیدی پیشگوئی ہونے کی وجہ سے باقی دو حصے مرزا سلطان کی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ سے ٹل گئے۔کیونکہ وعیدی پیشگوئیوں کے بارہ میں سنت اللہ یہ ہے کہ وہ توبہ کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں۔لہٰذا پیشگوئیوں کے اصول اوران کے بارہ میں سنت اللہ کی رو سے نفسِ پیشگوئی پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا۔
پیشگوئی کے یہ پانچ حصے جوحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ اور ’’شہادۃ القرآن‘‘ سے مأخوذ ہیں، درجِ ذیل ہیں۔
حصہ اوّل:۔اگر مرزا احمد بیگ اپنی بڑی لڑکی کا نکاح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے نہ کرے گاتو پھر وہ اس وقت تک زندہ رہے گا کہ اپنی اس لڑکی کا نکاح کسی دوسری جگہ کرے۔
حصہ دوم:۔نکاح تک وہ لڑکی بھی زندہ رہے گی۔
حصہ سوم:۔ دوسری جگہ نکاح کرنے کے بعد مرزا احمد بیگ تین سال کے اندر بلکہ بہت جلد ہلاک ہو جائے گا۔
حصہ چہارم:۔ دوسری جگہ نکاح کے بعد اس لڑکی کا خاوند اڑہائی سال کے اندر ہلاک ہو جائے گا۔(بشرطیکہ وہ توبہ اور رجوع الیٰ اللہ نہ کرے کیونکہ وعیدی پیشگوئی لازماً مشروط بعدمِ توبہ ہوتی ہے۔)
حصہ پنجم:۔خاوند کی ہلاکت کے بعد وہ لڑکی بیوہ ہوگی۔اور بیوہ ہونے کے بعد حضرت اقدس کے نکاح میں آئے گی۔یعنی پیشگوئی کا یہ آخری حصہ اس لڑکی کے خاوند کی موت سے مشروط تھا۔
نشان اوّل:۔ پیشگوئی کا پہلا حصہ بطور نشان اوّل پورا ہوگیا۔ اگر محمّدی بیگم کا باپ اس کا نکاح کرنے سے پہلے وفات پا جاتا تو پیشگوئی کاحصہ اوّل پورا نہ ہوتا مگر یہ صفائی کے ساتھ پورا ہوا۔ کیونکہ پیشگوئی یہ تھی کہ’’تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مر جاؤ گے بلکہ تمہاری موت قریب ہے۔‘‘
نشان دوم:۔پیشگوئی کے دوسرے حصہ کے مطابق لڑکی نکاح تک زندہ رہ کر نشان بنی۔ اگر وہ نکاح سے پہلے مر جاتی تو پیشگوئی کا دوسرا حصہ بھی پورا نہ ہوتا۔ مگر یہ حصہ بھی نہایت صفائی کے ساتھ پورا ہوا۔
نشان سوم:۔دوسری جگہ نکاح کے بعد لڑکی کا باپ چھ ماہ کے عرصہ میں ہلاک ہو گیا۔ اگر اس کی موت تین سال سے تجاوز کر جاتی تو پیشگوئی کایہ حصہ بھی پورا نہ ہوتا۔لیکن یہ حصہ بھی نہایت صفائی کے ساتھ پورا ہوا۔
اس طرح یہ تینوں حصے پورے ہو کر اس پیشگوئی کی صداقت کے نشان بن گئے۔

باقی دو حصوں کا ظہور

پچھلے دو حصے اس طرح ظہور پذیر ہوئے کہ محمّدی بیگم کے خاوند مرزا سلطان محمّد پر اپنے خسر کی موت سے سخت ہیبت طاری ہوئی اور اس نے توبہ اور استغفار کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کیااور وعیدی پیشگوئی کی شرطِ توبہ سے فائدہ اٹھا کر موت سے بچ گیا۔ شرطِ توبہ سے فائدہ اٹھا نے کے باعث اس سے موت تو ٹل گئی لیکن پیشگوئی کی اصل غرض یعنی
’’تاکہ وہ رجوع کریں اور توبہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں‘‘
بڑے جلال اور کمال کے ساتھ پوری ہوئی۔جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ کی وجہ سے ان سے وہ عذاب ٹل گیا تھا جو حضرت یونس علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ان پر چالیس دن پورے ہو جانے کے بعد لازماً وارد ہونے والا تھا۔
چونکہ مرزا سلطان محمّدکی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ سے اس سے موت ٹل گئی اور حضرت اقدس سے محمّدی بیگم کا نکاح اس کے بیوہ ہو جانے سے مشروط تھا اس لئے اب اس کا وقوع میں آنا ضروری نہ رہا۔اس طرح پیشگوئی کے یہ آخری دو حصے اس کی اصل غرض کے حاصل ہو جانے کے رنگ میں پورے ہوئے۔
اب نکاح کا وقوع صرف اس بات سے معلق ہو کررہ گیا کہ مرزا سلطان محمّد از خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں کسی وقت بیباکی اور شوخی دکھائے اور پیشگوئی کی تکذیب کرے۔یہ تکذیب محض امکانی تھی ،ضروری الوقوع نہ تھی۔اور نکاح کے اس طرح معلق ہونے کی حد بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی تک ہی تھی۔مگر محمّدی بیگم کا خاوند مرزا سلطان محمّد، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی توبہ پر قائم رہا اور بعد میں بھی۔ اسی طرح اس خاندان کے دوسرے افراد نے بھی اصلاح کر لی تو اس وعیدی پیشگوئی کی اصل غرض جو اس خاندان کی اصلاح تھی پوری ہو گئی۔کیونکہ اس خاندان کے افراد نے الحاد اور دہریّت کے خیالات کو ترک کر دیا اور اسلام کی عظمت کے قائل ہو گئے اور ان میں سے اکثر نے احمدیت کو قبول کیا۔یہاں خدا تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ
مَا کَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ‏ (الانفال:۳۴)
ترجمہ:۔ اللہ ان لوگوں کو عذاب دینے والا نہیں ہے اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔
خدا تعالیٰ کے اس قانون کے مطابق اب مرزا سلطان محمّد پر عذاب صرف اسی صورت میں نازل ہو سکتا تھا کہ وہ توبہ کو توڑ دیتا اور پیشگوئی کی تکذیب کر دیتا اور پھر اس کی موت کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے نئی میعاد مقرر ہوتی۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب انجامِ آتھم کے صفحہ۳۲ پر نکاح کی پیشگوئی کومرزا سلطان محمّد کی طرف سے آئندہ اس پیشگوئی کی تکذیب کرنے اور بیباکی اور شوخی دکھانے سے اور اس کے لئے نئی میعاد مقرر ہونے سے معلق قرار دے دیا۔ایسا ہونا اس لئے ضروری تھا کہ یہ امکان ابھی باقی تھا کہ مرزا سلطان محمّد کسی وقت اگرتکذیب کر دیتا تو پیشگوئی میں لوگوں کے لئے اشتباہ پیدا ہو جاتا۔
وعیدی پیشگوئی کی اصل غرض چونکہ توبہ اور استغفار اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع دلانا اور خدا تعالیٰ کی عظمت کا سکّہ دلوں پر بٹھانا اور اصلاح ہوتی ہے اس لئے جب یہ شرط پوری ہو جائے تو پھر سنت اللہ کے مطابق عذاب بالکل ٹل جایا کرتا ہے ۔ اور اگر انہوں نے توبہ پر قائم نہ رہنا ہو تو پھر سنت اللہ یوں ہے کہ عذاب میں اس وقت تک تاخیر ہو جاتی ہے کہ وعیدی پیشگوئی کے متعلقین پھر بے باکی اور شوخی دکھاتے ہوئے توبہ توڑ دیں۔چنانچہ ملاحظہ فرمائیں

حضرت یونس علیہ السلام اور وعیدی پیشگوئی

کتبِ تفاسیر میں لکھا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم کو وعید کرتے ہوئے یہ پیشگوئی کی تھی کہ
’’انّ اجلکم اربعون لیلۃ‘‘
ترجمہ:۔تمہاری مدّت چالیس راتیں ہیں۔
لیکن قوم نے توبہ کر لی اور عذاب ٹل گیا۔ چنانچہ لکھا ہے
’’فتضرّعوا الیٰ اللّٰہ و رحمھم و کشف عنھم‘‘ ( تفسیر کبیر از حضرت امام رازیؒ ۔جلد ۵ صفحہ ۴۲)
ترجمہ:۔ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑائے تو اس نے ان پر رحم کیا اور ان سے عذاب دور کر دیا۔
ایسا ہی مضمون تفسیر فتح البیان۔سورہ الصافّات۔زیر آیت’’ فساھم فکان من المدحَضین‘‘ بھی بیان ہوا ہے۔(ملاحظہ فرمائیں۔جلد۸ صفحہ ۱۲۸۔مطبوعہ دار الفکر العربی )
چونکہ یہ لوگ اپنی توبہ اور رجوع الیٰ اللہ میں مخلص تھے اور اس پر پھر ہمیشہ قائم رہے اس لئے ان سے عذاب بھی مستقلاً ٹلا رہا اور خدا تعالیٰ نے ان سے اپنی پہلی سنت کے مطابق معاملہ کیا۔
خدا تعالیٰ کی دوسری سنت کا سلوک فرعون اور آلِ فرعون میں دکھائی دیتا ہے کہ آلِ فرعون جب عذاب آنے پرحضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کرتی تھی اور ایمان لانے کا وعدہ کرتی تھی تو خدا تعالیٰ ان سے عذاب ٹال دیتا تھا۔ پھر چونکہ وہ اپنے وعدہ پر قائم نہیں رہتی تھی اس لئے پھر عذاب میں پکڑی جاتی تھی۔ بالآخرآلِ فرعون مع فرعون توبہ پر قائم نہ رہنے کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا تعاقب کرنے پرموعودہ عذاب میں پکڑی گئی اور سمندر میں غرق ہو گئی۔ اس قوم سے خدا تعالیٰ نے اپنی دوسری سنت یعنی تأخیرِ عذاب کے مطابق سلوک کیا۔

پیشگوئی میں اجتہادی خطا

بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی طرف سے شرط کے مذکور نہ ہونیکی وجہ سے یا شرط کی طرف سے بھول ہو جانے کے باعث پیشگوئیوں میں اجتہادی خطا واقع ہو سکتی ہے۔ ایسی اجتہادی خطا قابلِ اعتراض نہیں ہوتی۔چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام سے وحی الہٰی کے سمجھنے میں اجتہادی غلطی ہوئی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ‌ؕ (ہود:۴۱)
ترجمہ:۔ یہانتک کہ جب ہمارا فیصلہ آ پہنچا اوربڑے جوش سے چشمے پھوٹ پڑے تو ہم نے (نوحؑ سے )کہا کہ اس (کشتی) میں ہر قسم کے جوڑوں میں سے دو دو سوار کر اور اپنے اہل کو بھی سوائے اس کے جس کے خلاف فیصلہ گزر چکا ہے اور (اسے بھی سوار کر) جو ایمان لایا ہے۔
اوراس سے قبل حضرت نوح علیہ السلام کو یہ حکم دیا جا چکا تھا
وَلَا تُخَاطِبْنِىْ فِىْ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا‌ؕ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ‏ ۔ (ہود: ۳۸)
ترجمہ:۔اور جن لوگوں نے ظلم کیا ان کے بارہ میں مجھ سے کوئی بات نہ کر۔یقیناً وہ غرق کئے جانے والے ہیں۔
حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا جب غرق ہونے لگا تو انہوں نے خدا تعالیٰ کو اس کا وعدہ یاد دلایا اور کہا
اِنَّ ابْنِىْ مِنْ اَهْلِىْ وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَـقُّ ۔(ہود:۴۶)
ترجمہ:۔ یقیناً میرا بیٹا بھی میرے اہل سے ہے اور تیرا وعدہ ضرور سچّاہے۔ (یعنی اسے وعدہ کے مطابق بچنا چاہئے)
یہ وعدہ یاد دلانے میں حضرت نوح علیہ السلام کو پیشگوئی کی اس شرط سے ذہول ہوگیاجو ’’ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ‘‘ ا ور ’’وَلَا وَلَا تُخَاطِبْنِىْ فِىْ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا‌ؕ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ‏ ‘‘کے الفاظ میں بیان ہوئی تھی۔ اور وہ غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ خدائی وعدہ کے مطابق میرا یہ بیٹا بھی غرق ہونے سے بچنا چاہئے لیکن ان کا یہ اجتہاد درست نہ تھا۔اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کے وعدہ یاد دلانے پر انہیں یہ جواب دیا کہ
إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ  (ہود :۴۷)
ترجمہ:۔یقیناً وہ تیرے اہل میں سے نہیں ۔بلاشبہ وہ تو سراپا ایک ناپاک عمل تھا۔پس مجھ سے وہ نہ مانگ جس کا تجھے کچھ علم نہیں۔میں تجھے نصیحت کرتا ہوں مبادا تو جاہلوں میں سے ہو جائے۔
پس پیشگوئی کرنے والے سے کسی شرط کا نظر انداز ہو جانا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اپنے دعاوی میں من جانب اللہ نہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا سلطان محمّد کے متعلق اڑہائی سالہ میعاد گزر جانے کے بعداس پیشگوئی کے شرطِ توبہ والے الہام یعنی ’’ایّتھا المرأۃ توبی توبی فانّ البلاء علی عقبک و المصیبۃ نازلۃ علیک‘‘کے نظر انداز ہو جانے کی وجہ سے اصل پیشگوئی کے الہامی الفاظ’’لا مبدّل لکلمات اللّٰہ‘‘کے پیش نظر اجتہاد کیا کہ پیشگوئی میں تأخیر ڈال دی گئی ہے ،یہ ٹلی نہیں۔اس لئے آپ ؑ نے اس قسم کی عبارتیں یقین اور وثوق پر مشتمل تحریر فرمائیں کہ محمّدی بیگم کا خاوند ضرور مرے گا اور وہ بیوہ ہو کرآپ ؑ کے نکاح میں آئے گی۔ایسی عبارتیں کسی جدید الہام پر مبنی نہ تھیں کیونکہ پیشگوئی کی اڑہائی سالہ میعاد گزر جانے کے بعد ۱۹۰۶ ؁ء تک آپؑ کو اس بارہ میں کوئی نیا الہام نہیں ہوا اور الہام ’’لا تبدیل لکلمات اللّٰہ‘‘جس اشتہار میں درج تھااسی کے تتمّہ میں پیشگوئی کی الہامی شرط توبہ بھی ’’ایّتھا المرأۃ توبی توبی۔۔۔۔‘‘ والے الہام میں درج تھی مگر اس شرط کی طرف عدمِ توجہ کی وجہ سے حضرت اقدسؑ نے یہی اجتہاد کیا کہ سلطان محمّد کسی وقت ضرور توبہ توڑ دے گا۔پھر اس کے نتیجہ میں وہ ہلاک ہوگااور اس کے بعد محمّدی بیگم ضرور آپؑ کے نکاح میں آئے گی۔یہ اجتہاد کرنے کا آپؑ کو بہرحال حق تھا اور آپ ؑ نے الہامات کے الفاظ کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ اجتہاد فرمایا کہ سلطان محمّدکا توبہ کو توڑنا ضروری ہے۔اس لئے پیشگوئی فی نفسہٖ ٹلی نہیں بلکہ اس کی موت میں صرف تأخیر ہوئی ہے ، مگر خدا تعالیٰ نے آپؑ کو اس اجتہاد پر قائم نہ رہنے دیا اور ۱۶ فروری ۱۹۰۶ ؁ء کو آپؑ پر یہ الہام نازل فرمایا
’’تکفیک ھذہٖ الامرأۃ‘‘ (تذکرہ۔صفحہ۵۹۶ ۔ایڈیشن ۱۹۶۹ء۔مطبوعہ الشرکۃ الاسلامیہ ربوہ)
کہ تمہارے لئے یہ عورت جو تمہارے نکاح میں ہے کافی ہے۔ اس الہام کے نزول پر آپؑ نے اپنے اجتہاد میں اصلاح فرما لی اور تتمہ حقیقۃ الوحی میں صاف لکھ دیا کہ
’’جب ان لوگوں نے شرط (توبہ۔ناقل) کوپورا کر دیا تو نکاح فسخ ہو گیا یا تأخیر میں پڑ گیا۔‘‘
اس جدید اجتہاد سے جو نئے الہام کی روشنی میں کیا گیا اب حضرت اقدسؑ کا درمیانی زمانہ کا اجتہاد جس میں آپؑ نے محمّدی بیگم کے خاوند کے توبہ توڑنے کو اور اس کے بعد نکاح کو ضروری قرار دیا تھا،قابلِ حجّت نہ رہا۔
پس یہ پیشگوئی اپنی الہامی شرائط کے مطابق ظہور پذیر ہوئی۔لہٰذااس کے بارہ میں الہامات پر کسی قسم کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری اجتہاد بھی سنت اللہ کے عین مطابق تھا۔ اس لئے اس پر بھی کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا۔اس نئے الہام کی وجہ سے درمیانی زمانہ کے اجتہاد جو سلطان محمّد کی موت کو ضروری اور اس کے بعدنکاح کو مبرم قرار دیتے تھے ،اس شرط کے ساتھ مشروط سمجھے جائیں گے کہ اگر کسی وقت سلطان محمّداز خود توبہ توڑ دے تو اس کی ہلاکت اور پھر اس کے بعدحضرت اقدسؑ کا محمّدی بیگم سے ضرورنکاح ہوگا ورنہ نہیں۔پس جدید اجتہاد کی بنا پر پیش کردہ عبارتیں اوپر کی شرط سے مشروط ہوگئیں۔اس لئے اب عبارتوں کی ترتیب حسبِ ذیل ہوگی۔

عبارتوں کی ترتیب

۱:۔(اگر مرزا سلطان محمّد کسی وقت توبہ توڑ کر پیشگوئی کی تکذیب کرے )تو اس عورت کا اس عاجز کے نکاح میں آ جانا یہ تقدیرِ مبرم ہے۔جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لئے الہامِ الٰہی میں یہ کلمہ موجود ہے۔لا تبدیل لکلمات اللہ یعنی میری بات ہرگز نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے۔(اعلان ۶ ستمبر ۱۸۹۶ ؁ء)
۲:۔ ’’ایک حصہ پیشگوئی کایعنی احمد بیگ کا میعاد کے اندر فوت ہو جانا حسبِ منشائے پیشگوئی صفائی سے پورا ہو گیا اور دوسرے کی انتظار ہے۔‘‘ (بشرطیکہ مرزا سلطان محمّد توبہ توڑ دے اور پیشگوئی کی تکذیب کرے) (تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن۔جلد۱۷ صفحہ۱۵۴)
۳:۔ ( اگر کسی وقت سلطان محمّد توبہ توڑ کر میری زندگی میں پیشگوئی کی تکذیب کرے تو) ’’یاد رکھو کہ اس کی دوسری جزو پوری نہ ہوئی تو میں ہر یک بد سے بدتر ٹھہروں گا۔اے احمقو ! یہ کسی انسان کا افتراء نہیں، یہ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں۔ یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کا سچّا وعدہ ہے۔وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں۔‘‘(ضمیمہ انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۳۳۸)
۴:۔ ( اگر کسی وقت میری زندگی میں سلطان محمّد نے توبہ توڑ دی تو)’’جس وقت یہ سب باتیں پوری ہو جائیں گی ......اس دن......نہایت صفائی سے(مخالفین کی) ناک کٹ جائے گی اور ذلت کے سیاہ داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں اور سؤروں کی طرح کر دیں گے۔‘‘(ضمیمہ انجامِ آتھم۔ روحانی خزائن جلد ۱۱صفحہ۳۳۷)
۵:۔ ’’وحی الٰہی میں یہ نہیں تھا کہ دوسری جگہ بیاہی نہیں جائے گی۔یہ تھا کہ ضرور ہے اوّل دوسری جگہ بیاہی جائے.....خدا اس کو تیری طرف لے آئے گا۔‘‘(بشرطیکہ اس کا خاوند توبہ نہ کرے یا توبہ کر کے توڑ دے)( الحکم۔ ۳۰ جون۱۹۰۵ ؁ء)


پیشگوئی پر اعتراضات کے جوابات

اعتراض اوّل:۔

حضرت مرزا صاحب نے ’’ازالہ اوہام‘‘ میں ۱۸۹۱ ؁ء میں لکھا کہ خدا تعالیٰ ہر طرح سے اس کو ( یعنی محمّدی بیگم کو)تمہاری طرف لائے گا۔باکرہ ہونے کی حالت میں یا بیوہ کر کے اور ہر ایک روک کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔ کوئی نہیں جو اس کام کو روک سکے۔‘‘
تو ایسا لکھنے کے باوجود درمیانی روکیں کیوں نہ اٹھائی گئیں؟
الجواب:۔ محمّدی بیگم باکرہ ہونے کی حالت میں اس وجہ سے نکاح میں نہ آئی کہ اس کے باپ نے شوخی کی راہ اختیار کر کے اس کا نکاح مرزا سلطان محمّد آف پٹی سے کر دیا۔اس کا یہ عمل پیشگوئی کے اس حصہ کو پورا کرنے کی بنیاد بن گیا جو ایسی صورت میں اس کی ہلاکت کے بارہ میں تھا۔چنانچہ وہ چھ ماہ کے اندر مر گیا۔اس سے محمّدی بیگم کے خاوند پر پیشگوئی کی ہیبت طاری ہو گئی اور اس نے توبہ اور استغفار سے کام لیا اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی اپنی اس توبہ پر قائم رہا اور آپ ؑ کے بعد بھی۔پس اس کے اس شرطِ توبہ سے فائدہ اٹھانے کی وجہ سے نکاح والا حصہ منسوخ ہو گیا۔یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اجتہاد تھا کہ سب روکیں اٹھا دی جائیں گی، نہ کہ الہام۔
جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے ’’ مَا کَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ‏ ‘‘( الانفال:۳۴) کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان کو عذاب دے جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں۔یعنی توبہ و استغفار کی روک کو جبراً اٹھانا اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے۔ چونکہ مرزا سلطان محمّدنے اس شرط سے فائدہ اٹھاکر اس پیشگوئی کی اصل غرض کو پورا کر دیا تھا اس لئے اس کے دوسرے حصے کے نفوذ کی ضرورت نہیں تھی لہٰذا وہ حصہ ٹل گیا۔

اعتراض دوم:۔

مرزا صاحب اسی کتاب میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ
’’اس کے بعد اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی۔ یہانتک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیت بھی کر دی گئی۔ اس وقت گویا یہ پیشگوئی آنکھوں کے سامنے آگئی اور یہ معلوم ہو رہا ہے کہ آخری دم ہے کل جنازہ نکلنے والا ہے۔تب میں نے اس پیشگوئی کی نسبت خیال کیا کہ شاید اس کے اور معنے ہوں گے جو میں نہ سمجھ سکا۔تب اسی حالت میں قریب الموت مجھے الہام ہوا۔ الحق من ربّک فلا تکن من الممترین۔ یعنی یہ بات تیرے رب کی طرف سے سچ ہے تو کیوں شک کرتا ہے۔‘‘(ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۷۹۸)
اس سے ظاہر ہے کہ اس الہام نے تصدیق بھی کر دی تھی کہ نکاح ضرور ہو گا مگر پھر نکاح کیوں وقوع میں نہ آیا؟
الجواب:۔اس الہام کے الفاظ سے صاف واضح ہے کہ اس کا مقصود صرف یہ ہے کہ پیشگوئی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا برحق امر ہے ،اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ۔ لہٰذا آپؑ کو نفسںِ پیشگوئی میں شک نہیں کرنا چاہئے۔ اس الہام سے یہ ظاہر کرنا مقصود نہ تھا کہ پیشگوئی کا ظہور کس رنگ میں ہو گا۔ کیونکہ ’’ازالہ اوہام‘‘ ۱۸۹۱ ؁ء کی کتاب ہے ۔ اس کے بعد مرزا احمد بیگ ہلاک ہو گیا اور پیشگوئی کے اس حصہ کا سچّا اور برحق ہونا روزِ روشن کی طرح ثابت ہو گیا۔دوسرا حصہ یعنی مرزا احمد بیگ کے داماد کی موت اور اس کی لڑکی کابیوہ ہوجانے کے بعد حضرت اقدس سے نکاح، پیشگوئیوں کے اصول کے مطابق ٹل گیا اور اس طرح پیشگوئی کی اصل غرض یعنی اس خاندان کی اصلاح وقوع میں آئی۔ایسی پیشگوئیوں میں مخفی شرائط کے باعث محو و اثبات ہوتا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
يَمْحُوْا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُ‌ۖ ۔(الرعد :۴۰)
ترجمہ:۔ اللہ جو چاہے مٹا دیتا ہے اور قائم بھی رکھتا ہے۔

اعتراض سوم:۔

نکاح آسمان پر پڑھا جا چکا تھا تو تأخیر میں کیسے پڑ گیا۔
الجواب:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ’’ نکاح آسمان پر پڑھاگیا‘‘ الہام ’’زوّجنٰکھا‘‘ کا یہ مفہوم ظاہر کرنے کے لئے کہے گئے تھے کہ نکاح اس وعیدی پیشگوئی کا ایک حصہ ہے۔آپؑ اجتہاداً اسے مبرم سمجھتے رہے یعنی یہ امر کہ محمّدی بیگم کا خاوند مرزا سلطان محمّد کسی وقت توبہ توڑ دے گا۔حالانکہ اس بارہ میں آپ ؑ کو کوئی جدید الہام نہیں ہوا تھا۔آخری الہام جو ہوا وہ ’’ تکفیک ھٰذہٖ الإمرأ ۃ ‘‘ تھا۔ کہ یہ عورت جو آپؑ کے نکاح میں ہے ،آپؑ کے لئے کافی ہے۔ اس سے یہ قوی فیصلہ ہو گیا کہ محمّدی بیگم سے نکاح کا وقوع منسوخ ہو گیا ہے۔
چونکہ تکذیب کرنے اور توبہ توڑنے کا عقلی امکان ابھی باقی تھا اس لئے آپؑ نے تتمہ حقیقۃ الوحی میں یہ توجیہہ کی کہ نکاح فسخ ہو گیا ہے یا تأخیر میں پڑ گیا ہے۔لیکن بعد کے واقعات نے یہ شہادت دی کہ عند اللہ یہ پیشگوئی ٹل چکی تھی اس لئے بعد میں آپؑ نے اخبار بدر ۲۳ اپریل ۱۹۰۸ ؁ء میں یہ شائع فرما دیا کہ یہ پیشگوئی ٹل گئی ہے۔ اور وعیدی پیشگوئی کا ٹل جاناآیت’’ يَمْحُوْا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُ‌ۖ ‘‘ کے مطابق ہوا ہے۔
ما سوا اس کے کہ الہام ’’ زوجنٰکھا ‘‘ کا مفہوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ قرار دیا کہ بعد واپسی کے ہم نے اس سے تیرانکاح کر دیا۔(انجامِ آتھم۔صفحہ۶۰) اور یہ نکاح سلطان محمّد کی توبہ کی وجہ سے وقوع میں نہ آیاتاہم ایک دوسری تعبیر سے بھی یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہو گئی کہ اس کے بعدحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ’’ مسیح موعود‘‘ کا منصبِ جلیل عطا ہوا۔نکاح کے تعبیری معنے منصبِ جلیل کے ملنے کے ہیں۔ چنانچہ ’’تعطیرالانام ‘‘ میں لکھا ہے۔
’’النکاح فی المنام یدلّ علی المنصب الجلیل۔‘‘ ترجمہ:۔خواب میں نکاح کسی بڑے منصب کے ملنے پر دلالت کرتا ہے۔
ماسوا اس کے طبرانی اور ابنِ عساکر نے ابو امامہ سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ
’’ان رسول اللہﷺ قال لخدیجۃ اما شعرتِ انّ اللہ زوّجنی مریم ابنۃ عمران و کلثوم اخت موسٰی و امرأۃ فرعون قالت ھنیئاً لک یا رسول اللہ۔‘‘(تفسیر فتح البیان۔جلد۷ صفحہ۱۰۰۔مطبو عہ دارالفکر العربی)
ترجمہ:۔رسول اللہﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ نے میرا نکاح (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ) مریم بنت عمران، موسیٰ علیہ السلام کی بہن کلثوم اور فرعون کی بیوی کے ساتھ کر دیا ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ! آپ کو مبارک ہو۔
نبی کریم ﷺ کے یہ تینوں نکاح آسمانی تھے جن کی تعبیر اس رنگ میں پوری ہوئی کہ ان عورتوں کے خاندانوں کے بہت سے لوگ آنحضرت ﷺ پر ایمان لے آئے۔اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی پر ایمان لا کرمرزا احمد بیگ کے خاندان کے بہت سے افراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع میں آ گئے جن میں سے بعض کے اسماء پہلے درج کئے جا چکے ہیں۔
پس جس خاندان کے ساتھ اس پیشگوئی کا براہِ راست تعلق تھا وہ تو اس پیشگوئی کے مصدّق ہو گئے مگردوسرے اس پر محض اپنا بغض ظاہر کر رہے ہیں اور اس پیشگوئی کی آخری شق کو پورا کرنے میں مصروف ہیں۔

اعتراض چہارم:۔

یہ پیشگوئی الہامی تھی تونکاح کے لئے حضرت مرزا صاحب نے خطوط وغیرہ کے ذریعہ کوشش کیوں کی؟
الجواب:۔پیشگوئی کو پورا کرنے کی کوشش کرنا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ مثلاً
ا:آنحضرت ﷺ کو جنگِ بدر کی فتح کا وعدہ دیا گیا تھا ۔ اس کے باوجود آپ ؐ نے مقابلہ کے لئے ہر ممکن تیاری اور کوشش بھی کی اور دعائیں بھی انتہائی تضرّع وابتہال اور گریہ و زاری کے ساتھ کیں۔
ب:حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ کنعان کی زمین انہیں دی جائے گی۔لیکن اس زمین کے حصول کیلئے آپؑ کی قوم نے کوشش نہ کی۔یہ ایک ناپسندیدہ امر تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ زمین ان پر چالیس سال کے لئے حرام کر دی گئی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ
يٰقَوْمِ ادْخُلُوْا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِىْ کَتَبَ اللّٰهُ لَـکُمْ ( المائدہ:۲۲)
ترجمہ:۔ اے میری قوم! ارضِ مقدّسہ(کنعان) میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ چھوڑی ہے۔
یہاں’’کَتَبَ اللّٰهُ لَـکُمْ‘‘ کے الفاظ صریحاً پیشگوئی پر دلالت کر رہے ہیں ۔ مگر قوم نے جواب یہ دیا کہ
فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ‏ (المائدہ:۲۵)
ترجمہ:۔ پس جا تو اور تیرا رب دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔
اس پر خدا تعالیٰ نے ان پر وہ زمین چالیس سال کے لئے حرام کر دی اور ان کیلئے سرگردان پھرنا مقدّر کر دیا۔کیا معترضین کے نزدیک ان کا یہ جواب ایک پسندیدہ امر ہے ؟ سچ یہ ہے کہ پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے کوشش نہ کرنا یقیناً ناپسندیدہ امر ہے ۔اس کو پورا کرنے کی کوشش کرنا خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق اور اس کی تقدیر کے رخ پر چلنے کے مترادف ہے اور یہی سنتِ انبیاء ہے۔پس پیشگوئی پر یہ اعتراض کہ اس کو پورا کرنے کے لئے کوشش کیوں کی؟بہرحال ایک ناپسندیدہ سوال ہے۔
مکمل تحریر >>

Friday 1 May 2015

نبی پاک ﷺ کی 12 لڑکیاں اور 11 لڑکے تھے ؟

ایک اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اٹھایا جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے  سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے غلطی کی ہے اور جو حوالہ دیا جاتا ہے وہ یہ ہے ،
'' دیکھو ہمارے پیغمبرِ خدا کے ہاں ۱۲ لڑکیاں ہوئیں ۔ ''  (ملفوظات جلد 3 صفحہ 372 )



اس اعتراض کی حقیقت یہ ہے کہ ملفوظات خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ سے لکھی کوئی کتاب نہیں بلکہ اس میں وہ فرمان شامل کر کے شائع کیے گئے تھے جو ان کے صحابہ نے سن کر تحریر کیے ، اور جہاں سے یہ اعتراض لیا گیا ہے وہاں اس خطاب کو لکھنے والے صاحب خود یہ بتا رہے ہیں کہ یہ خطاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اندرونہ خانہ خواتین سے فرمایا جہاں ان کے ساتھ بچے بھی تھے اور اسے دروازے سے باہر کھڑے ہو کر لکھا گیا ، جس کی وجہ سے غلطی کا امکان ظاہر ہے ۔ ذیل میں ملفوظات جلد 3 صفحہ 369 کا عکس اس بات کے ثبوت میں دیا جا رہا ہے کہ اس خطاب کو لکھنے والے صاحب نے  بچوں  کے شور کا بتا کر خود غلطی کے امکان کو ظاہر کر دیا ہے ۔


ایک دوسرا اعتراض بھی اس طرح کا کیا جاتا ہے کہ ایک اور غلطی  سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے کی ہے اور اس کے لیے یہ حوالہ دیا جاتا ہے ۔
'' تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے گھر میں گیارہ لڑکے پیداہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہوگئے تھے '' 
( روحانی خزائن ۔  جلد ۲۳- چشمہ مَعرفت: صفحہ 299 )
 اس کا جواب یہاں دیکھا جا سکتا ہے
مکمل تحریر >>