Tuesday 28 April 2015

جماعت احمدیہ مسلم کا مختصر تعارف

بانی

جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہیں۔ آپ نے اسلامی کیلنڈر کے مطابق تیرھویں صدی ہجری کے آخر اور چودھویں صدی کے شروع میں یہ دعویٰ فرمایا کہ میں وہی مسیح اور مہدی ہوں جس کا امت محمدیہ ﷺ چودہ سو برس سے انتظار کررہی ہے۔ اور میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو دوبارہ دنیا میں غالب کیا جائے۔

مقصد بعثت

آپ نے اس بات کی اچھی طرح وضاحت فرمائی کہ اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری دین، آنحضرت ﷺ خاتم النبیین اور قرآن کریم آخری شرعی کتاب ہے اور اس میں ہرگز کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ مسیح اور مہدی کا مقصد تو درحقیقت مسلمانوں کو اسلام پر دوبارہ قائم کرنا اور ایمان کو دلوں میں زندہ کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کی اتباع اور برکت کے طفیل اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ مقام عطا فرمایا ہے۔

مثیل مسیح

اس دعویٰ کے ساتھ ہی آپ نے قرآن کریم، احادیث نبویہ ﷺ اور امت کے مسلمہ بزرگوں کی تحریرات سے یہ ثابت کیا کہ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے والے حضرت مسیح ؑ آسمان پر زندہ موجود نہیں بلکہ وفات پاچکے ہیں اور امت محمدیہ ﷺ میں مبعوث ہونے والے مامور کو حضرت مسیح ؑ سے بہت سی مشابہتوں کی وجہ سے تمثیلی طور پر مسیح کا لقب دیاگیا ہے جیسا کہ کسی بڑے سخی کو حاتم طائی اور بہت بہادر کو شیر کہہ دیتے ہیں۔

مسیح اور مہدی ایک ہی وجود ہے

آپ نے ثابت کیا کہ مسیح اور مہدی ایک ہی وجود کے دو نام ہیں اور اس کی جو علامات قرآن کریم میں اشارۃً اور احادیث نبویہ ﷺ میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں اور بزرگان امت پر خدا نے انکشافات فرمائے وہ سب آپ کے زمانہ اور آپ کی ذات میں پورے ہورہے ہیں۔

انتظار اور ظہور

تیرہویں صدی کے آخر تک یہ علامات ایک ایک کرکے پوری ہورہی تھیں اور تمام عالم اسلام اس موعود کے انتظار میں گھڑیاں گن رہا تھا کہ آپ نے ۱۸۸۲ء میں خدا کے الہام سے ماموریت کا دعویٰ فرمایا اور اسلام کے حق میں تمام مذاہبِ باطلہ خصوصاً عیسائیت کے خلاف عظیم قلمی اور روحانی جہاد شروع کیا جس کی وجہ سے اس دور کے علماء نے اقرار کیا کہ اسلام کے تیرہ سو سال میں ایسی خدمت کسی نے نہیں کی اور آپ کو فتح نصیب جرنیل قرار دیا۔

جماعت کی بنیاد

۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو آپ نے ایک جماعت کی بنیاد رکھی اور پیشگوئیوں کے مطابق اس کا نام جماعت احمدیہ رکھا جس کے ابتدائی ممبر چالیس تھے اور اب کروڑہا تک اس کی تعداد پہنچ چکی ہے۔

نشانات

آپ کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی آسمانی اور زمینی نشانات دکھائے جن میں خصوصیت کے ساتھ ۱۸۹۴ء میں چاند سورج گرہن اور ۱۹۰۲ء میں طاعون کا نشان قابل ذکر ہیں۔ ان کا ذکر الٰہی نوشتوں میں موجود ہے۔ آپ کے دعویٰ کے بعد پیشگوئیوں کے مطابق آپ کی سخت مخالفت ہوئی اور آپ اور آپ کی جماعت کو سخت ابتلاؤں سے گزرنا پڑا۔ مگر وہ بتدریج اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے اور اب دنیا کے ایک سے نوے (۱۹۰) سے زیادہ ممالک میں جماعت احمدیہ کی مضبوط شاخیں قائم ہوچکی ہیں۔

خلافت احمدیہ

حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء (بمطابق ۱۴ شوال ۱۲۵۰ھ) کو قادیان میں پیدا ہوئے اور ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء (بمطابق ۲۴ ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ) کو آپ خدا کے حضور حاضر ہوگئے۔ آپ کے بعد جماعت احمدیہ میں خلافت کا سلسلہ جاری ہوا۔ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد جماعت نے اپنا مرکز ربوہ پاکستان میں بنایا۔

ملت واحدہ

اب جماعت کے پانچویں خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمدصاحب ہیں جن کی سکونت اس وقت لندن میں ہے اور وہاں سے اسلام کی اشاعت کی تمام کاروائیوں کی نگرانی فرمارہے ہیں۔ آپ کا خطبہ جمعہ اور دیگر اہم خطابات سیٹیلائیٹ کیے ذریعہ تمام دنیا میں دیکھے اور سنے جاتے ہیں۔ اور جماعت احمدیہ کے ذریعہ تمام قوموں اور علاقوں اور زمانوں کے افراد ملت واحدہ بن رہے ہیں۔

خدمات

جماعت احمدیہ نے اسلام کی جو عظیم الشان خدمات کی ہیں ان کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
* ۱۰۰ سے زائد زبانوں میں قرآن کریم اور احادیث رسول ﷺ کی اشاعت۔
* دنیا بھر میں ہزارہا مساجد کی تعمیر جن میں سپین میں ۷۰۰ سال کے بعد پہلی مسجد اور براعظم آسٹریلیا کی پہلی مسجد بھی شامل ہے۔
* دکھی انسانیت کی خدمت کے وسیع پروگرام جن میں ہسپتال، سکول ، کالج ، غرباء کے لئے مکانات اور موسمی امداد شامل ہے۔
* بوسنیا، بھارت، اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے لئے خطیر رقم اور دوسری امداد۔
* عالم اسلام کے وقار کو بلند کرنا، آزادی کی تحریکوں میں امداد خصوصاً تحریک پاکستان میں گرانقدر خدمات۔ مسلمانوں کے علمی، اخلاقی، تعلیمی اور اقتصادی معیار کو بڑھانے کی بھرپورکوشش جن کا غیرمتعصب مسلمان رہنماؤں کو بھی اعتراف ہے، جن کو جمع کریں تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔

شرائط بیعت

احمدیت کا پیغام انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلام اور عالم اسلام کی زندگی کا پیغام ہے۔ اس کی ایک دلیل وہ شرائط ہیں جن کو تسلیم کرکے ایک شخص جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہے ۔ ان کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ شرک سے اجتناب
۲۔ جھوٹ، زنا اور دیگر بدیوں سے بچنا
۳۔ نماز پنجگانہ اور تہجد کی ادائیگی، درود شریف اور استغفار پڑھنا اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء کرنا
۴۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو تکلیف نہ دینا
۵۔ اللہ کے ساتھ وفاداری اور اس کی رضا پر راضی رہنا
۶۔ قرآن کریم کی تعلیمات پر کاربند ہونا
۷۔ تکبر اور نخوت سے بچاؤ
۸۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا
۹۔ ہمدردی خلق
۱۰۔ امام مہدی سے پختہ تعلق
ان شرائط کو پڑھ کر خوب واضح ہوجاتا ہے کہ احمدیت کوئی نیا دین اور شریعت پیش نہیں کرتی۔ اور یہ شرائط قرآن و حدیث کہ خلاصہ کے طور پر اخذ کی گئی ہیں۔ جماعت احمدیہ کا کلمہ، ارکان دین، ارکان اسلام اور دیگر اصولی امور وہی ہیں جن پر امت مسلمہ کاربند ہے۔

دعوت

اگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ سچا ہے تو پھر ہر ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ خدا کے مامور کی آواز پر لبیک کہے اور آنحضرت ﷺ کی وصیت کے مطابق امام مہدی کی بیعت کرے۔ یہ دعویٰ قرآن کریم کی روشنی میں پرکھنے کی ہم آپ کو خلوص دل کے ساتھ دعوت دیتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا سے دعا کریں کہ وہ آپ کی رہنمائی کرے اور حق کی راہ دکھائے۔ آمین!
مزید معلومات کے لئے درج ذیل کتب کا مطالعہ کریں: 
مکمل تحریر >>

جہاد کی حقیقت

جہاد کے لغوی معنی

جہاد۔ جہد سے مشتق ہے اور جہد کے معانی ہیں مشقت برداشت کرنا اور جہاد کے معنی ہیں کسی کام کے کرنے میں پوری طرح کوشش کرنا اور کسی قسم کی کمی نہ کرنا۔ (تاج العروس)
مولاناسید سلیمان ندوی صاحب لکھتے ہیں:۔
’’جہاد کے معنی عموماً قتال اور لڑائی کے سمجھے جاتے ہیں۔ مگر مفہوم کی یہ تنگی قطعاً غلط ہے ۔۔۔۔۔۔ لغت میں اس کے معنی محنت اور کوشش کے ہیں‘‘ (سیرۃ النبی جلد۵ صفحہ ۲۱۰ طبع اول۔ دارالاشاعت کراچی نمبر۱)

جہاد کی اقسام

قرآن اور حدیث سے جہاد کی چار بڑی اقسام ثابت ہوتی ہیں۔
۱۔ نفس اور شیطان کے خلاف جہاد ۲۔ جہاد بالقرآن یعنی دعوت و تبلیغ ۳۔جہاد بالمال ۴۔ جہاد بالسیف (دفاعی جنگ)

نفس اور شیطان کے خلاف جہاد

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔
وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70)
ترجمہ:۔ اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشتے ہیں۔
آنحضرت ﷺ نے ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پر فرمایا۔
’’تم جہاد اصغر یعنی چھوٹے جہاد سے لوٹ کر جہاد اکبر یعنی بڑے جہاد کی طرف آئے ہو (اور جہاد اکبر) بندہ کا اپنی خواہشات کے خلاف جہاد ہے‘‘۔(کنز العمال۔ کتاب الجہاد فی الجہاد الاکبر من الاعمال جلد۴حدیث۱۱۲۶۰۔ مطبوعہ مکتبہ التراث الاسلامي حلب)
جماعت احمدیہ کے افراد اس جہادمیں بھر پور حصہ لے رہے ہیں اور دوسرے مسلمانوں سے آگے ہیں۔ جس کا اعتراف غیر بھی کرتے ہیں۔
۱۔شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال لکھتے ہیں:۔
’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا‘‘ (زندہ رود۔ صفحہ۵۷۶از ڈاکٹر جاوید اقبال)
۲۔ مقبول الرحیم مفتی روزنامہ مشرق میں لکھتے ہیں:۔
’’جماعت احمدیہ کے اندر اہل، باصلاحیت اور محنتی افراد ہونے کا ایک سبب بلکہ اہم ترین سبب یہ ہے کہ انہوں نے پچھلی ایک صدی کے دوران ہر سطح پر ہر قسم کے جھگڑوں اور اختلافات سے کنارہ کشی کا راستہ اختیار کر کے اپنی جماعت اور جماعت کے افراد کی اصلاح و فلاح کے لئے منصوبہ بندی کے ساتھ کوشش و محنت کی ہے‘‘۔(روزنامہ مشرق۔ احمدی مسلم کشمکش کا حل مخاصمت یا مکالمہ از مقبول الرحیم مفتی ۲۴ فروری۱۹۹۴ء)
۳۔ شیخ محمد اکرم صاحب ایم اے لکھتے ہیں:۔
’’ان (مسلمانوں۔۔۔ ناقل) کے مقابلے میں احمدیہ جماعت میں غیرمعمولی مستعدی، جوش، خود اعتمادی اور باقاعدگی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تمام دنیا کے روحانی امراض کاعلاج ان کے پاس ہے‘‘۔ (موج کوثر۔ صفحہ۱۹۲)

جہاد بالقرآن

اس جہاد سے مراد یہ ہے کہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی فکر کی جائے نیز توحید کے قیام کے لئے بھر پور کوشش کی جائے اور قرآنی تعلیم کی نشر و اشاعت کی جائے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
فَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِيْنَ وَ جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا کَبِيْرًا‏ (الفرقان:۵۳)
ترجمہ:۔ پس تو کافروں کی بات نہ مان اور اس (یعنی قرآن کریم) کے ذریعہ سے ان سے جہاد کر۔
جماعت احمدیہ اس جہاد میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔
۱۔ مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر اخبار زمیندار لاہور نے لکھا:۔
’’گھر بیٹھ کر احمدیوں کو برا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان میں اور دیگر یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں‘‘ (اخبار زمیندار لاہور دسمبر ۱۹۲۶ء)
۲۔ حکیم عبد الرحیم صاحب اشرف مدیر رسالہ المنیر لائلپور لکھتے ہیں:۔
’’قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جوہر موجود ہیں ان میں اولین اہمیت اس جدو جہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ قرآن مجید کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں تثلیث کو باطل ثابت کرتے ہیں۔ سید المرسلین کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں اور جہاں کہیں ممکن ہو اسلام کو امن و سلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں‘‘ (ہفت روزہ المنیر لائل پور۔ صفحہ۱۰۔ ۲ مارچ۱۹۵۶ء)
۳۔ قاضی محمد اسلم صاحب سیف فیروز پوری بعنوان ’’دینی جماعتوں کے لئے لمحہ فکریہ‘‘ لکھتے ہیں:
’’قادیانیوں کا بجٹ کروڑوں روپوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ تبلیغ کے نام پر دنیا بھر میں وہ اپنے جال پھیلا چکے ہیں ان کے مبلغین دور دراز ملکوں کی خاک چھان رہے ہیں۔ بیوی ، بچوں اور گھر بار سے دور قوت لایموت پر قانع ہو کر افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤوں میں یورپ کے ٹھنڈے سبزہ زاروں میں، آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکہ میں قادیانیت کی تبلیغ کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں‘‘ (ہفت روزہ اہلحدیث لاہور ۱۱ ستمبر ۱۹۹۲ء۔ صفحہ ۱۱۔۱۲)
۴۔ جناب عبد الحق صاحب بھریا روڈ سندھ اپنے مضمون ’’علمائے اسلام سے گذارش‘‘ میں لکھتے ہیں:۔
’’قادیانی ٹیلیویژن پاکستان کے گھر گھر میں داخل ہو چکا ہے قرآن مجید کی تلاوت و تفسیر، درس احادیث، حمد و نعت اور تمام قوموں کے قادیانیوں خصوصا عربوں کو بار بار پیش کر کے قادیانی ہماری نوجوان نسل کے ذہن پر بری طرح چھا رہے ہیں‘‘۔ (ہفت روزہ الاعتصام ۲۴جنوری۱۹۹۷ء۔ جلد۴۹۔ شمارہ نمبر۴۔ صفحہ۱۷)
۵۔ مولوی منظور احمد صاحب چنیوٹی نے ایک انٹرویو میں کہا:۔
’’روسی زبان میں قادیانی جماعت نے قرآن کریم کا ترجمہ کروا کر پورے روس میں تقسیم کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ کم از کم سو زبانوں میں قادیانیوں نے تراجم شائع کروائے ہیں جو پوری دنیا میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔‘‘ (ہفت روزہ وجود کراچی۔ جلد نمبر ۲۔ شمارہ ۴۷۔ ۲۲ تا ۲۸ نومبر؁ ۲۰۰۰ء ۔ صفحہ ۳۱)

جہاد بالمال

اللہ تعالیٰ کی راہ میں دین کی اشاعت کے لئے مال خرچ کرنے کو بھی جہاد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اس جہاد کا حکم ان الفاظ میں آیا ہے
وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ‌ؕ (التوبہ:۴۱)
ترجمہ:۔ اور اپنے اموال اور جانوں کے ذریعہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرو۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ اس جہاد میں بھی ایک بے مثال اور ممتاز مقام رکھتی ہے۔
۱۔ عبد الرحیم اشرف صاحب مدیر المنیر فیصل آباد نے لکھا:۔
’’ان (جماعت احمدیہ) کے بعض دوسرے ممالک کی جماعتوں اور افراد نے کروڑوں روپوں کی جائیدادیں صدر انجمن احمدیہ ربوہ اور صدر انجمن احمدیہ قادیان کے نام وقف کر رکھی ہیں‘‘ (ہفت روزہ المنیر۲مارچ۱۹۵۶ء۔ صفحہ۱۰)
۲۔ مولوی منظور احمد چنیوٹی صاحب نے ایک انٹرویو میں کہا:۔
’’ہر قادیانی اپنی آمدنی کا دسواں حصہ اپنے مذہب کی ترویج و اشاعت کے لئے قادیانی جماعت کو دیتا ہے، ہزاروں افراد اپنی جائیداد کے دسویں حصہ کے لئے وصیت کر چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ۵لاکھ روپے فی گھنٹہ کے حساب سے قادیانی جماعت نے T.V لیا ہوا ہے۔ ۲۴گھنٹے T.V چینل چلتا ہے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں‘‘۔( ہفت روزہ وجود کراچی۔ جلد۲۔ ۲۲ تا ۲۸ نومبر۲۰۰۰ء۔ شمارہ ۴۷۔ صفحہ۳۱)
۳۔ مسلک اہل حدیث کا ترجمان ہفت روزہ الاعتصام لکھتا ہے:۔
’’ایک تجزےے کے مطابق دنیا میں موجود ہر قادیانی اپنی ماہوار آمدنی کا دس فیصد رضاکارانہ طور پر اپنے مذہب کی تبلیغ پر صرف کرتا ہے۔ کسی ہنگامی ضرورت پر خرچ کرنا اس کے علاوہ ہے انہی ماہانہ فنڈز کی بدولت اس وقت ایک مستقل T.V اور ریڈیو اسٹیشن قائم کیا جاچکا ہے جس سے چوبیس گھنٹے قادیانیت کا تبلیغی مشن جاری رہتا ہے‘‘۔(اداریہ از حافظ عبد الوحید۔ الاعتصام ۱۱ فروری ۲۰۰۰ء۔ جلد۵۲۔ شمارہ ۵۔ صفحہ۴)

جہاد بالسیف یا دفاعی جنگ

جہاد کی چوتھی قسم دفاعی جنگ یا جہاد بالسیف ہے یعنی جب دشمن دینی اقدار کو ختم کرنے اور دین کو تباہ و برباد کرنے کے لئے دین پر حملہ آور ہو تو اس وقت دفاعی جنگ کرنے کو جہاد بالسیف کہتے ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسے جہاد اصغر قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا‌ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَـصْرِهِمْ لَـقَدِيْرُۙ‏ ۔ ۨالَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ‌ؕ (الحج:۴۰۔۴۱)
یعنی وہ لوگ جن سے (بلاوجہ) جنگ کی جارہی ہے ان کو بھی (جنگ کرنے کی) اجازت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے (یہ وہ لوگ ہیں) جن کو ان کے گھروں سے صرف ان کے اتنا کہنے پر کہ اللہ ہمارا رب ہے بغیر کسی جائز وجہ کے نکالا گیا۔
علماء نے دفاعی جنگ کی بعض شرائط بیان کی ہیں جن کی موجودگی کے بغیر یہ جہاد جائز نہیں۔ چنانچہ سید نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:۔
’’جہاد کی کئی شرطیں ہیں جب تک وہ نہ پائی جائیں جہاد نہ ہوگا‘‘(فتاویٰ نذیریہ جلد۳کتاب الامارۃ والجہاد صفحہ۲۸۲۔ناشر اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور)
مولانا ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر اخبار زمیندار لاہور نے درج ذیل شرائط کا ذکر کیا ہے:۔
’’۱۔ امارت ۲۔ اسلامی نظام حکومت ۳۔ دشمنوں کی پیش قدمی و ابتدا‘‘ (اخبار زمیندار ۱۴جون ۱۹۳۴ء)
خواجہ حسن نظامی نے جہاد کے لئے ۱۔ کفار کی مذہب میں مداخلت ۲۔امام عادل ۳۔ حرب و ضرب کے سامان کے ہونے کا ذکر کیا ہے۔ (رسالہ شیخ سنوسی)
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لکھا کہ :۔
۱۔مسلمانوں میں امام و خلیفہ وقت موجود ہو ۲۔ مسلمانوں میں ایسی جمیعت حاصل جماعت موجود ہو جس میں ان کو کسر شوکت اسلام کا خوف نہ ہو۔ (الاقتصاد فی مسائل الجہاد از مولوی محمد حسین بٹالوی صفحہ۵۱۔۵۲۔مطبع وکٹوریہ پریس)
خلاصہ یہ کہ علماء کے نزدیک جہاد بالسیف کے لئے پانچ شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے اور ان میں سے کسی ایک کے بھی نہ ہونے سے دینی قتال نہیں ہوسکتا اور وہ شرائط یہ ہیں کہ ۱۔امام وقت کا ہونا ۲۔اسلامی نظام حکومت ۳۔ ہتھیار و نفری جو مقابلہ کے لئے ضروری ہو ۴۔ کوئی ملک یا قطعہ ہو ۵۔دشمن کی پیش قدمی اور ابتدائ۔

ہندوستان میں جہاد بالسیف اور علماء زمانہ

۱۔ اہل حدیث کے مشہور عالم و راہنما سید نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:۔
’’جبکہ شرط جہاد کی اس دیار میں معدوم ہوئی تو جہاد کرنا یہاں سبب ہلاکت و معصیت ہوگا‘‘ (فتاویٰ نذیریہ جلد۳کتاب الامارۃ والجہاد صفحہ۲۸۵۔ناشر اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور)
۲۔ مولوی محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں:۔
’’اس زمانہ میں بھی شرعی جہاد کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ اس وقت نہ کوئی مسلمانوں کا امام موصوف بصفات و شرایط امامت موجود ہے اور نہ ان کو ایسی شوکت و جمیعت حاصل ہے جس سے وہ اپنے مخالفوں پر فتح یاب ہونے کی امید کرسکیں‘‘ (الاقتصاد فی مسائل الجہاد از مولوی محمد حسین بٹالوی صفحہ۷۲۔مطبع وکٹوریہ پریس)
۳۔ حضرت سید محمد اسماعیل صاحب شہیدسے ایک شخص نے انگریزوں سے جہاد کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:۔
’’ایسی بے رو ریا اور غیر متعصب سرکار پر کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں ہے اس وقت پنجاب کے سکھوں کا ظلم اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ ان پر جہاد کیا جائے‘‘ (سوانح احمدی۔ صفحہ۵۷۔ مرتبہ محمد جعفر تھانیسری صوفی پرنٹنگ اینڈ پبلشنگ کمپنی لمیٹڈ اسلامیہ سٹیم پریس لاہور)
۴۔ خواجہ حسن نظامی صاحب لکھتے ہیں:۔
’’انگریز نہ ہمارے مذہبی امور میں دخل دیتے ہیں نہ اور کسی کام میں ایسی زیادتی کرتے ہیں جس کو ظلم سے تعبیر کر سکیں۔ نہ ہمارے پاس سامانِ حرب ہے ایسی صورت میں ہم لوگ ہر گز ہر گز کسی کا کہنا نہ مانیں گے اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالیں گے،، (رسالہ شیخ سنوسی۔ صفحہ۱۷)
۵۔ مفتیان مکہ کے فتاویٰ کے بارہ میں شورش کاشمیری مدیر چٹان لکھتے ہیں:۔
’’جمال دین ابن عبد اللہ، شیخ عمر، حنفی مفتی مکہ معظمہ، احمد بن ذنبی شافعی مفتی مکہ معظمہ اور حسین بن ابراہیم مالکی مفتی مکہ معظمہ سے اس مطلب کے فتوے حاصل کئے گئے کہ ہندوستان دارالسلام ہے‘‘ (کتاب سید عطاء اللہ شاہ بخاری مؤلفہ شورش کاشمیری۔ صفحہ۱۴۱۔ مطبع چٹان پرنٹنگ پریس۔ ۱۹۷۳ء)
۶۔ سرسید احمد خان صاحب لکھتے ہیں:۔
’’مسلمان ہمارے گورنمنٹ کے مست امن تھے کسی طرح گورنمنٹ کی عملداری میں جہاد نہیں کر سکتے تھے‘‘ (اسباب بغاوت ہند مؤلفہ سرسید احمد خان صفحہ۳۱۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور)

حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد بالسیف کو کیوں ملتوی کیا؟

حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد کے التوا کا اعلان اپنی طرف سے ہر گز نہیں فرمایا بلکہ آنحضرت ؐ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ مسیح موعود اور امام مہدی کے زمانہ میں مذہبی جنگوں کا التوا ہو جائے گا۔ چنانچہ فرمایا:۔
’’یَضَعُ الْحَرْبَ‘‘ (وہ جنگ کو موقوف کر دے گا) (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم)
اسی طرح فرمایا
اس کے زمانہ میں جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے گی۔ (الدر المنثور فی التفسیر بالماثور از امام جلال الدین سیوطی۔ دارالمعرفۃ بیروت لبنان)
ان پیشگوئیوں میں یہ اشارہ تھا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اس جہاد کی شرائط موجود نہیں ہوں گی۔ چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جو مسیح اور مہدی ہونے کے مدعی تھے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے عین مطابق قتال کی شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کے عارضی التوا کا اعلان فرمایا۔ آپ نے لکھا:۔
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کیلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر
کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر
فرما چکا ہے سید کونین مصطفیٰ
عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا
یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا
اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے
(تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷۔ صفحہ ۷۷۔۷۸)
پھر آپ فرماتے ہیں:۔
’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس زمانہ میں اور اس ملک میں جہاد کی شرائط مفقود ہیں ۔۔۔ امن اور عافیت کے دور میں جہاد نہیں ہوسکتا‘‘ (تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷۔ صفحہ ۸۲)
پس حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد بالسیف کو منسوخ قرار نہیں دیا بلکہ آنحضرتؐ کی پیشگوئی کے مطابق اس کی شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کے عارضی التوا کا اعلان فرمایا۔ اور یہ بھی بیان فرمایاکہ اگر جہاد بالسیف کی شرائط موجود ہوں تو پھر یہ جہاد بھی ضروری ہے۔ آپ نے واضح فرمایا
’’ہم (اہل اسلام کو) یہ بھی حکم ہے کہ دشمن جس طرح ہمارے خلاف تیاری کرتا ہے ہم بھی اس کے خلاف اسی طرح تیاری کریں‘‘ (حقیقۃ المہدی۔ روحانی خزائن جلد۱۴۔ صفحہ۴۵۴)
نیز یہ قرآنی اصول بیان فرمایا کہ
’’اگر دشمن باز نہ آئیں تو تمام مومنوں پر واجب ہے کہ ان سے جنگ کریں‘‘ (نور الحق حصہ اول۔ روحانی خزائن جلد۸۔ صفحہ۶۲)

جہاد بالسیف اور جماعت احمدیہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں جہاد بالسیف کے التوا کا اعلان فرمایا وہاں یہ بھی فرمایا کہ جب اس جہاد کی شرائط موجود ہوں گی تو یہ جہاد بھی ہوگا۔ چنانچہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد جب حالات تبدیل ہوئے تو جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ نے فرمایا:۔
۱۔’’ایک زمانہ ایسا تھا کہ غیر قوم ہم پر حاکم تھی۔ اور وہ غیر قوم امن پسند تھی۔ مذہبی معاملات میں وہ کسی قسم کا دخل نہیں دیتی تھی اس کے متعلق شریعت کا حکم یہی تھا کہ اس کے ساتھ جہاد جائز نہیں‘‘
۲۔’’اب حالات بالکل مختلف ہیں اب اگر پاکستان سے کسی ملک کی لڑائی ہو گئی تو حکومت کے ساتھ (تائید میں) ہوکر ہمیں لڑنا پڑے گا اور حکومت کی تائید میں ہمیں جنگ کرنی پڑے گی‘‘
۳۔’’جیسے نماز پڑھنافرض ہے اسی طرح دین کی خاطر ضرورت پیش آنے پر لڑائی کرنا بھی فرض ہے‘‘
۴۔’’جن امور کو اسلام نے ایمان کا اہم ترین حصہ قرار دیا ہے ان میں سے ایک جہاد بھی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا کہ جو شخص جہاد کے موقع پر پیٹھ دکھاتا ہے وہ جہنمی ہوجاتا ہے‘‘
۵ ’’جب کبھی جہاد کا موقع آئے تو ۔۔۔ اس میدان میں بھی ہم سب سے بہتر نمونہ دکھانے والے ہوں‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۰ء۔ صفحہ۹۔۱۲۔۱۴)
پاکستان کے ہر مشکل وقت میں احمدی مجاہدین نے شاندار کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ۔ نمونۃً ملاحظہ ہوں:۔
۱۔ جماعت احمدیہ کے دوسرے امام اور صدر کشمیر کمیٹی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مولانا سید حبیب صاحب مدیر ’’سیاست‘‘ لاہور نے لکھا :۔
’’میں ببانگ دہل کہتا ہوں کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب صدر کشمیر کمیٹی نے تندہی محنت، ہمت ،جانفشانی اور بڑے جوش سے کام کیا ہے اور اپنا روپیہ بھی خرچ کیا اور اس کی وجہ سے میں انکی عزت کرتا ہوں‘‘ (تحریک قادیان۔ صفحہ۴۲۔ مطبع مقبول عام پریس لاہور)
۲۔قیام پاکستان کے معاً بعد کشمیر میں ہونے والی لڑائی میں احمدی مجاہدین نے ’’فرقان بٹالین‘‘ کی صورت میں بھر پور حصہ لیا۔
چنانچہ گلزار احمد صاحب فدا ؔ ایڈیٹر اخبار جہاد سیالکوٹ نے۱۶جون ۱۹۵۰ء میں لکھا :۔
’’فرقان بٹالین نے مجاہدین کشمیر کے شانہ بشانہ ڈوگرہ فوجوں سے جنگ کی اور اسلامیان کشمیر کے اختیار کردہ مؤقف کو مضبوط بنایا‘‘ (اخبار جہاد سیالکوٹ۔ ۱۶ جون ۱۹۵۰ء)
۳۔ میجر جنرل اختر حسین ملک صاحب:۔ ان کے متعلق ۱۹۶۵ء کی جنگ میں شاندار خدمات پر ہفت روزہ الفتح کراچی اپنے کالم مااحوال واقعی میں لکھتا ہے:۔
’’۱۹۶۵ء کی جنگ میں انہوں نے انتہائی دانشمندی، اعلیٰ ماہرانہ صلاحیتوں اور بہادری سے کام لیتے ہوئے دشمن کے چھکے چھوڑا دئے ۔۔۔ فوجی ماہرین کا کہنا ہے اگر کمان اختر ملک کے پاس رہتی تو کشمیر فتح ہوگیا تھا‘‘( ہفت روزہ الفتح کراچی۔ ۱۳تا ۲۰ فروری ۱۹۷۶ء۔ صفحہ۸)
۴۔ میجر جنرل افتخار جنجوعہ شہید:۔ آپ نے۱۹۶۵ء میں رن کچھ میں اور ۱۹۷۱ء کی جنگ میں چھمب کے محاذ پر زبردست کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔ چھمب افتخار آباد کے نام سے موسوم ہوکر آج بھی آپ کی یاد تازہ کر رہا ہے۔
۵۔ برگیڈئیرعبد العلی ملک ہلال جرأت: ؁۱۹۶۵ء کی جنگ میں چونڈہ کے محاذ پر ٹینکوں کی عظیم جنگ میں پاکستانی فوج کی کمان کی اور ایسے کارنامے سرانجام دئیے کہ تاریخ حرب کے ماہرین حیران و ششدر رہ گئے۔ (امروز لاہور۔ ۲۳ اگست ۦ؁۱۹۶۹ء)
پس جماعت احمدیہ کسی بھی جہاد کے میدان میں نہ صرف پیچھے نہیں بلکہ اتنی آگے ہے کہ کوئی دوسرا اس کی دھول کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ خواہ وہ اصلاح نفس کا جہاد ہو یا دعوت قرآن کا۔ وہ مالی جہاد ہو یا جہاد بالسیف۔ ہر میدان میں اس جماعت نے کامیابیوں کے وہ جھنڈے نصب کئے ہیں کہ دشمن بھی اس کے معترف ہیں۔
مکمل تحریر >>

امت محمدیہ میں آنے والے مہدی و مسیح کی علامات

آخری زمانہ میں جہاں فرقہ بندی، فتنہ و فساد، دجالوں و کذابوں کے ظہور اور ان کے ذریعہ ہونے والی تباہی و بربادی کی خبر دی گئی ہے وہاں اس امت مرحومہ کو ہلاکت سے بچانے کے لئے عیسیٰ بن مریم جیسے عظیم الشان وجود کے نجات دہندہ بن کر ظاہر ہونے کی بھی بشارت دی گئی ہے جسے امام مہدی کے لقب سے بھی نوازا گیا ہے جیسے آنحضرت ﷺ نے فرمایا :۔
لا المھدی الا عیسی بن مریم (ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدة الزمان)
یعنی عیسیٰ ہی مہدی ہوں گے۔ اس آنے والے موعود کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر اس کی علامات و نشانات، ظہور کا مقام اور ملک تک بیان کر دئیے گئے ہیں جن کا اجمالی تذکرہ پیش ہے۔

مسیح موعود و مہدی معہود کی ذاتی علامات

خاندان

احادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا موعود فارسی الاصل ہو گا۔ چنانچہ جب آیت و اخرین منھم لما یلحقوا بھم (الجمعہ:62:4) نازل ہوئی تو نبی کریم ﷺ سے یہ سوال کیا گیا کہ آخرین کون لوگ ہیں۔ اس پر آپ نے مجلس میں موجود حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:۔
”اگر ایمان ثریا پر بھی چلا جائے گا تو ضرور اہل فارس میں سے کچھ اشخاص یا ایک شخص اسے واپس لے آئے گا“(بخاری کتاب التفسیر زیر آیت و آخرین منھم)
حضرت بانی جماعت احمدیہ کا خاندان اس پیشگوئی کے عین مطابق فارسی الاصل ہے اور آپ کے شدید مخالف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی آپ کا فارسی الاصل ہونا تسلیم کیا ۔(اشاعۃ السنہ نمبر۷ صفحہ۱۹۳)

آنے والے موعود کا نام

آنحضرت ﷺ نے فرمایا:۔
”اللہ تعالیٰ اہل بیت میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جس کا نام میرا نام اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کا نام ہوگا“ (ابو داؤد کتاب المہدی)
اس حدیث میں آنے والے موعود کی آنحضرت ﷺ کے ساتھ کامل موافقت کا ذکر کیا گیا ہے اور مراد یہ ہے کہ مہدی کی صفات آنحضرت ﷺ جیسی ہوں گی اور وہ آنحضرت ﷺ کی سیرت کے مطابق لوگوں کو ہدایت دے گا۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفتن جلد۹ حدیث ۵۴۵۲)
علاوہ ازیں اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مہدی کی ظاہری نام کے لحاظ سے بھی آنحضرت ﷺ سے موافقت ہوگی۔ چنانچہ احادیث میں مہدی کا نام ”احمد“ بھی لکھا ہے۔
(کتاب الفتن باب فی سیرۃ المہدی صفحہ ۹۸ از حافظ ابو عبداللہ نعیم بن حماد)
قرآن کریم اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ایک نام احمد بھی تھا۔ چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی کا اصل نام احمد ہی ہے جیسا کہ الہامات میں بھی بار بار اللہ تعالیٰ نے آپ کو احمد کے نام سے خطاب فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا یَا اَحمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیکَ(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر۵ صفحہ۵۵۰)

آنے والے موعود کا حلیہ

آنحضرت ﷺ نے بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے والے مسیح کا حلیہ یہ بیان فرمایا کہ:۔
”وہ سرخ رنگ کے گھنگریالے بال اور چوڑے سینے والے تھے“(بخاری کتاب الانبیاءباب واذکر فی الکتاب مریم)
لیکن آپ نے امت محمدیہ میں دجال کے بالمقابل ظاہر ہونے والے مسیح کا حلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
”اس کے بال لمبے اور رنگ گندمی ہوگا“ (بخاری کتاب اللباس باب الجعد)
دونوں مسیحوں کے الگ الگ حلیے بیان کرنے سے صاف ظاہر ہے کہ آنے والا مسیح اور مسیح ناصری علیہ السلام جدا جدا وجود ہیں۔ آنے والے موعود کے حلیہ کے متعلق یہ بھی ذکر ہے کہ :۔
”مہدی کی پیشانی کشادہ اور ناک اونچی ہوگی“(ابو داؤد کتاب المہدی حدیث نمبر۷)
حضرت بانی جماعت احمدیہ کا حلیہ بعینہ اس کے مطابق ہے۔

شادی اور اولاد

مسیح موعود کی ایک علامت یہ بیان ہوئی ہے کہ :۔
”وہ شادی کریں گے اور ان کی اولاد ہوگی“(مشکوٰة کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ)
جہاں تک حضرت مسیح موعود کی اس علامت کا تعلق ہے کہ وہ شادی کریں گے اور ان کے ہاں اولاد ہو گی اس سے مراد یہ ہے کہ مسیح موعود مجرد نہیں رہیں گے بلکہ شادی کریں گے اور مبشر اولاد پائیں گے جو ان کا مشن اور کام جاری رکھنے والی ہوگی۔ چنانچہ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود کی شادی بھی ہوئی اور آپ کو خدا نے دین کی عظیم الشان خدمات بجا لانے والی اولاد بھی عطا فرمائی۔

آنیوالے موعود کی عمر

زیادہ تر ثقہ روایات میں مسیح موعود کی مدت قیام چالیس سال بیان کی گئی ہے اور حضرت مرزا صاحب نے قمری لحاظ سے 76 سال عمر پائی ہے۔ 40 سال کی عمر میں آپ پر الہام کا آغاز ہوا اور الہام کے بعد بھی اسی کے لگ بھگ آپ نے زمانہ پایا۔

مقام ظہور

آنحضرت ﷺ نے مسیح موعود کا مقام ظہور دمشق سے مشرقی جانب بیان فرمایا ہے۔ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)
اسی طرح مہدی کی راہ ہموار کرنے والی جماعت کا تعلق بھی مشرق ہی سے بیان کیا گےا ہے۔ (ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی)
مندرجہ بالا احادیث میں آنے والے موعود کا مقام ظہور دمشق سے مشرق (یعنی ہندوستان) بتایا گیا ہے اور حضرت بانی جماعت احمدیہ مدعی مسیحیت و مہدویت کا مقام ظہور قادیان ہندوستان دمشق سے مشرق کی جانب واقع ہے۔

مسیح موعود کے زمانہ کی علامات

(۱) دابۃ الارض

امام مہدی کے زمانہ کی ایک علامت دابۃ الارض بیان کی گئی ہے۔(مسلم کتاب الفتن باب فی الاٰیات التی تکون قبل الساعۃ)
دابۃ کے معنی جانور یا کیڑا کے ہوتے ہیں علامہ توربشتی متوفی ۶۳۰ھ نے اس سے طاعون کا کیڑا مراد لیا ہے۔(عقائد مجددیہ الصراط السوی ترجمہ عقائد توربشتی از علامہ شہاب الدین توربشتی منزل نقشبندیہ کشمیری بازار لاہور)
اس زمانہ میں حضرت مرزا صاحب نے اللہ سے علم پاکر طاعون کی پیشگوئی فرمائی جس کے مطابق طاعون سے ایک ایک ہفتہ میں تیس تیس ہزار آدمی لقمہء اجل بن گئے اور لاکھوں افراد طاعون کا شکار ہوئے۔

(۲)۔ یاجوج ماجوج کا خروج

مسیح موعود کے زمانہ کی ایک علامت یاجوج ماجوج کا خروج ہے۔ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)
یاجوج ماجوج دجال کا سیاسی بہروپ ہے جس کے معنی آگ سے کام لینے والی طاقتوں کے ہیں۔ آج کی طاقت ور اور ترقی یافتہ مغربی اقوام ہی یاجوج ماجوج ہیں۔ چنانچہ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے لکھا۔
کھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حدب ینسلون

(۳) غیر معمولی زلازل کا آنا

اسی طرح حدیث میں آخری زمانہ کی علامت میں مشرق اور مغرب اور عرب میں خسف ہونا بیان کیا گیا ہے۔ (مسلم کتاب الفتن باب فی الایات التی تکون قبل الساعۃ)
یہاں خسف سے مراد خوفناک زلزوں کا آناہے اور حضرت بانی جماعت احمدیہ کے زمانہ میں یہ علامت بھی پوری ہوئی اور آپ کی بیان کردہ پیشگوئیوں کے عین مطابق ایسے ایسے خوفناک زلزلے آئے کہ زمین تہہ و بالا ہو گئی اور ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔

(۴) جدید سواریوں کی ایجاد

قرآن کریم میں آخری زمانہ کی ایک علامت اونٹنیوں کا متروک ہونا بھی بیان کی گئی ہے۔ (التکویر:81:5)
اسی طرح حدیث میں مسیح موعود کے زمانہ کی ایک علامت یہ بیان کی کہ اونٹوں کا استعمال (تیز رفتاری کے لئے) متروک ہو جائے گا۔(مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ بن مریم)
مسیح موعود کے زمانہ میں یہ علامت بھی پوری ہو چکی ہے اور گزشتہ ایک صدی سے جدید سواریاں‘ موٹریں ریل اور جہاز وغیرہ ایجاد ہوئے۔ اور مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہونے والے دجال کے گدھے سے بھی یہی سواریاں مراد ہیں جیسا کہ احادیث میں بیان فرمودہ تفصیلی علامات سے ظاہر ہے۔

مسیح موعود اور مہدی معہود کے کام

احادیث میں مسیح اور مہدی کے کام بھی ایک جیسے بتائے گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح اور مہدی ایک ہی شخص کے دو لقب ہیں۔

(۱) حکم عدل

بخاری کتاب الانبیاءباب نزول عیسیٰ میں روایت ہے کہ :مسیح موعود حکم اور عدل بن کر آئے گا۔ مراد یہ ہے کہ وہ انصاف کے ساتھ امت کے مذہبی اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے امت مسلمہ میں موجود اختلافات کا حل پیش فرمایا اور ایسی جماعت تیار کر دی جس نے تمام اختلافات ختم کر کے اتحاد و یگانگت کا بے مثال نمونہ پیش کیا۔

(۲) کسر صلیب

وہ کسر صلیب کرے گا۔ یعنی عیسائی مذہب کا جھوٹ ظاہر کر دے گا۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ الٰہی تقدیر میں مسیح موعود کی آمد عیسائیت کے غلبہ کے زمانہ میں مقدر تھی اسلام کو مسیح موعود نے دلائل و براہین سے عیسائیت پر غالب کر دکھانا تھا۔ چنانچہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود نے عیسائیت کے خلاف ایسی عظیم الشان خدمات سر انجام دیں جن کا اعتراف کرتے ہوئے مولوی نور محمد صاحب نقشبندی نے یہاں تک لکھا کہ حضرت مرزا صاحب نے عیسائیت کے خلاف ایسے عظیم الشان دلائل پیش کئے کہ ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دی۔(دیباچہ از مولوی نور محمد نقشبندی قرآن شریف مترجم۔ نور محمد آرام باغ کراچی)

(۳) قتلِ خنزیر

خنزیر کو قتل کرے گا۔ یعنی دشمنانِ اسلام کو علمی میدان میں شکست دے کر غلبہ حاصل کرے گا۔ کیونکہ حدیث میں آخری زمانہ کے علماءسوءکو بھی ان کے بد خصائل‘ نقالی‘ بد عملی اور جھوٹ کے باعث بندر اور سؤر کے الفاظ سے یاد کیا گیا ہے۔(کنز العمال جلد نمبر۷ صفحہ۲۸۰ حدیث۳۸۷۳۷ حلب)
یہ کارنامہ بھی حضرت بانی جماعت احمدیہ نے سر انجام دیا اور تمام مذاہب کے بڑے بڑے لیڈروں کو علمی اور روحانی میدان میں اسلام کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی اور اسلام کی فوقیت کو ظاہر کیا۔

(۴) التواءقتال

مسیح موعود کا ایک کام یضع الحرب لکھا ہے۔(بخاری کتاب الانبیاءباب نزول عیسیٰ)
یعنی وہ جنگ کو موقوف کردے گا جس سے مراد یہ ہے کہ مسیح موعود مذہب کی خاطر جنگ نہیں کرے گا۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ کے زمانہ میں چونکہ اسلام کے خلاف تلوار کی بجائے قلم اور دلائل سے حملے کئے جارہے تھے اس لئے آپ نے اسلام کے دفاع اور اس کی برتری کے لئے بالمقابل قلمی جہاد کیا اور جہاد بالسیف کی شرائط مفقود ہونے کی وجہ سے حدیث کے عین مطابق اس کے التواءکا اعلان فرمایا۔

(۵) تقسیم اموال

وہ مال تقسیم کرے گا مگر کوئی اسے قبول نہیں کرے گا۔(بخاری کتاب الانبیاءباب نزول عیسیٰ)
مراد یہ ہے کہ وہ قرآنی معارف اور دین کے حقائق کو بیان کرے گا مگر دنیا انہیں قبول نہیں کرے گی۔ چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے قرآنی معارف اور حقائق پر مشتمل 84 سے زائد کتب لکھ کر روحانی خزائن دنیا میں تقسیم کئے لیکن دنیا کے لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں۔

(۶) قتلِ دجال

مسیح موعود کا ایک کام دجال کا مقابلہ کر کے اسے ہلاک کرنا تھا۔ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال)
دجال سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والے کو کہتے ہیں اور اپنی کثرت سے ساری زمین پر پھیل جانے والے اور سامانِ تجارت سے روئے زمین کو ڈھانک دینے والے گروہ کو بھی دجال کہا گیا ہے۔ (لسان العرب)
یہ صفات عیسائی قوم کے دینی علماءمیں بدرجہ اتم موجود ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ کو خدا بنا کر سب سے بڑے جھوٹ کا ارتکاب کیا اور اپنے دجل کا جال ساری دنیا میں پھیلا دیا۔ چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اس دجال کا خوب مقابلہ کیا اور اسے شکستِ فاش دی۔

(۷) مسیح موعود کا حج

حدیث میں مسیح موعود کے حج کرنے کی پیشگوئی بھی موجود ہے ۔(بخاری کتاب الانبیاءباب واذکر فی الکتاب مریم)
جس سے مراد کعبہ کی عظمت کا قیام اور اسلام کی حفاظت ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے رویاءمیں مسیح کو دجال کے ساتھ طوافِ کعبہ کرتے دیکھا جس کی تعبیر یہ کی گئی کہ مسیح موعود کی بعثت کی غرض کعبہ کی عظمت اور اسلام کی حفاظت ہوگی۔(مظاہر الحق شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد۵ کتاب الفتن باب علامات القیامۃ)
چنانچہ مسیح موعود علیہ السلام کو اسلام کی خدمت کی یہ توفیق بھی خوب عطا ہوئی۔

مہدی کی سچائی کے دو نشانات

حدیث میں مہدی کی سچائی کے دو نشانات رمضان کے مہینہ میں خاص تاریخوں پر چاند اور سورج کو گرہن لگنا تھا۔(دار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ الخسوف والکسوف)
چنانچہ مشہور اہل حدیث عالم حافظ محمد لکھو کے والے ان نشانات کی تاریخوں کا یوں ذکر کرتے ہیں۔
”تیرھویں چن ستیویں سورج گرہن ہوسی اس سالے“ (احوال الاخرت منظوم پنجابی مصنفہ ۱۳۰۵ھ صفحہ۲۳ زیر عنوان علامات قیامت کبریٰ)
چنانچہ یہ نشان اس حدیث کے عین مطابق رمضان ۱۳۱۱ھ بمطابق ۱۸۹۴ءمیں معینہ تاریخوں پر ظاہر ہوا اور حضرت مرزا صاحب نے بڑی شان اور تحدی سے اسے اپنے حق میں پیش کرتے ہوئے لکھا:۔
”ان تیرہ سو برسوں میں بہتیرے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا مگر کسی کے لئے یہ آسمانی نشان ظاہر نہ ہوا .... مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری تصدیق کے لئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا ہے“۔ (تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۱۴۲۔۱۴۳)
اللہ تعالیٰ ہمیں موعود مسیح اور مہدی کو قبول کرنے اور اس کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بخشے۔ آمین
مکمل تحریر >>

Sunday 26 April 2015

قیام پاکستان اور جماعت احمدیہ



تحریک آزادی پاکستان اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئےجماعت کی خدمات


جماعت احمدیہ کے دوسرے امام اور خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓ نے تحریک آزادی پاکستان کے دوران قدم قدم پر مسلمانوں کی نہ صرف علمی و نظری راہنمائی کی بلکہ ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہر ممکن عملی کوششیں بھی کیں۔
مسلمانوں کے خلاف ہندو کانگریس کے پلیٹ فارم سے اٹھنے والی تحریکات شدھی، ترک موالات، خلافت اور ہجرتوغیرہ سے مسلمانان ہند کو بروقت آگاہ کیا ۔
            انہیں خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے اخبار ’’مشرق‘‘گورکھ پور نے لکھا :۔
’’جتنے فرقے مسلمانوں میں ہیں سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہو رہے ہیں صرف ایک احمدی جماعت ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جمیعت سے مرعوب نہیں ہے اور خاص اسلامی کام سر انجام دے رہی ہے۔‘‘
                                                                                    (اخبار مشرق گورکھپور 23ستمبر1927ء)



حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمات


(1)    حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے 1928ء میں ’’نہرو رپورٹ پر تبصرہ ‘‘نامی کتاب لکھی جس میں مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کیا ۔
(2)    1930ءمیں پہلی گول میز کانفرنس کے موقعہ پر ایک بیش قیمت کتاب ’’ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا حل‘‘لکھ کر تقسیم کروائی۔
(3)    1931ء میں مسلمانانِ کشمیر کی حمایت اور ڈوگرہ مہاراج سے ان کے حقوق دلوانے کے لئے ایک کمیٹی قائم کی گئی ۔حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی ملی خدمات اور سیاسی بصیرت اور قائدانہ صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر اس کمیٹی کی صدارت کےلئے علامہ محمد اقبال نے آپ کا نام پیش کیا ۔ آپ کی راہنمائی میں کشمیر کمیٹی اور جماعت احمدیہ نے کشمیر کے مسلمانوں کی ناقابل فراموش اور تاریخ ساز خدمات انجام دیں۔


قائد اعظم کی لندن سے واپسی کے لئے تحریک


1933ء میں قائد اعظم محمد علی جناح بر صغیر کے حالات سے مایوس ہو کر انگلستان چلے گئے ۔ ایسے وقت میں حضرت مرزا بشیر الدین  محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے اس معاملہ کی نزاکت کا احساس کرتےہوئے لندن میں مقیم مولانا عبد الرحیم صاحب درد کے ذریعہ قائد اعظم کو واپس ہندوستان آکر مسلمانوں کی سیاسی قیادت سنبھالنے کی تحریک فرمائی۔ یہ کوشش کامیاب ہوئی ، اس کا اعلان قائد اعظم نے جماعت احمدیہ کے مرکز بیت الفضل لندن میں خطاب کرتے ہوئے ان الفاظ میں اعلان فرمایا :۔
            “The eloquent persuasion of the Imam left me no escape,”
ترجمہ:۔ امام (مسجد لندن)کی وسیع و بلیغ ترغیب نے میرے لئے کوئی راہ بچنے کےلئے نہ چھوڑی۔ ‘‘
 (Madras Mail 7th April 1933)






کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں ہندوستانی وفد کی قیادت


23مارچ1940ء کو لاہور میں قرار دادِ پاکستان پاس ہوئی۔ اس کے بعد سر سٹیفورڈ کرپس ہندوستان آئے اور ہندوستان کی آزادی کےلئے ایک جدید فارمولا پیش کیا جسے مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے مسترد کر دیا ۔ جس کے نتیجہ میں ہندوستان کی آزادی ناممکن دکھائی دینے لگی ۔ انہی دنوں چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں ہندوستان وفد کے قائد کی حیثیت سے انگلستان جانا پڑا۔ آپ نے انگریز حکومت کے سامنے ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ ایسے مدلل اور پرشوکت الفاظ میں پیش کیا کہ دنیا بھر میں تہلکہ مچ گیا اور حکومت برطانیہ نے مجبورًا لارڈ ویول وائسرائے ہند کو انتقال اقتدار کا نیا فارمولا دینے کےلئے لندن طلب کیا۔
اس موقع پر ایک ہندو اخبار ’’پر بھات ‘‘نے لکھا کہ
            ’’ایک ایک ہندوستانی کو سر ظفر اللہ خان کا ممنون ہونا چاہیے کہ انہوں نے انگریزوں کے گھر جا کرحق بات کہہ دی ۔‘‘
                                                                   (اخبار پربھات 20فروری1945ء)



مسلم لیگ کی پر جوش حمایت

1945ء کے اواخر میں وائسرائے ہند سر ویول نے انتخابات کروانے کا اعلان کیا ان انتخابات میں ہندو کانگرس نے مسلمان علماء کے ذریعہ پاکستان اور مسلم لیگ کے خلاف پراپیگینڈہ کا ایک جال پھیلا دیا تا مسلم لیگ ان انتخابات میں ناکام ہو اور پاکستان کا قیام عمل میں نہ آسکے ایسے وقت میں حضرت امام جماعت احمدیہ نے یہ اعلان فرمایا  ’’آئندہ الیکشنوں میں ہر احمدی کو مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہیے۔ ‘‘
(الفضل 22اکتوبر1945ء)


پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب

باؤنڈری کمیشن میں جماعت احمدیہ کے عظیم سپوت حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے جو عظیم الشان خدمات سر انجام دیں ان خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے قائد اعظم نے آپ کو U.N.O.میں پاکستانی وفد کا قائد مقرر کیا اور پھر 25دسمبر 1947ء کو پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ کا قلمدان آپ کے سپرد کیا ۔چنانچہ نوائے وقت لکھتا ہے :۔
            ’’قائد اعظم نے خوش ہوکر آپ (چوہدر ی ظفر اللہ خان صاحب )کو  U.N.O.میں پاکستانی وفد کا قائد مقرر کر دیا۔۔۔۔آ پ نے ملک و ملت کی شاندار خدمات سر انجام دیں تو قائد اعظم انہیں پاکستان کے اس عہدہ پر فائز کرنے کےلئے تیار ہو گئے۔ جو باعتبار منصب وزیر اعظم کے بعد سب سے اہم اور وقیع عہدہ شمار ہوتا ہے ۔‘‘
                                                                   (نوائے وقت 24اگست1948ء)

 
مکمل تحریر >>

کیا ڈاکٹر عبد السلام نے پاکستان سے غداری کی ؟

مکرم ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی اگر صرف پاکستان کے لئے خدمات ہی کا جائزہ لے لیا جائے تو یہ اعتراض ختم ہو جاتا ہے کہ خدانخواستہ وہ پاکستان کے غدار تھے وغیرہ وغیرہ۔
اس ضمن میں مکرم ڈاکٹر صاحب موصوف کی چند خدمات کا تذکرہ ، ان پر لگے بے بنیاد اعتراض کا جواب دینے میں ممد ہونگی۔

 1۔  سائنسی مشیر اعلیٰ برائے صدر پاکستان ۔

اس حیثیت میں سلام صاحب نے بہت سے اقدام کئے جن سے پاکستان نے سائنس میں ترقی کی۔
۔   انہوں نے میزائل ریسرچ اور اس سے ملحقہ میدانوں میں ترقی کے لئے خلاء اور بالائی فضا کی تحقیقی کمیٹی’’ SUPARCO‘‘
(Space and Upper Atmosphere Research Commission ) کی بنیاد رکھی اور کچھ عرصہ اس کے چئیر مین بھی رہے
۔  سلام صاحب نے صدر ایوب خان کوآمادہ کیا کہ وہ’’PINSTECH‘‘
(Pakistan Institute of Nuclear Science and Technology)‘‘ کی منظوری اور ہدایت دے دیں۔ جو ایک تخلیقی سائنسی یادگار ہو اور جس کی بدولت پاکستان میں سائنسی تعلیمات کا احیاء ہو ۔ چنانچہ جلد ہی اسلام آباد میں نیلور کے مقام پر اس کا قیام عمل میں آگیا۔اور یہ ادارہ اب بھی قائم ہے۔
۔  1972ء میں جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی  بنیاد رکھی گئی اس میں سلام صاحب کا بطورمشیر سائنس صدر پاکستان کے اہم کردار تھا۔
۔   سلام صاحب نے 1974ء میں لاہور میں منعقدہ پہلی اسلامی کانفرنس کے موقع پر ’اسلامک سائنس فاؤنڈیشن‘کے قیام کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ اس فاؤنڈیشن کا قیام اعلیٰ سطح پر ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی کو اپنا ہدف بناتے ہوئے اسلامی ملکوں کی مدد سے عمل میں لایا جائے۔ فاؤنڈیشن کی سرپرستی اسلامی ممالک کریں۔

2۔   سلام صاحب کے قائم کردہ اعلیٰ بین الاقوامی ادارے۔

۔   سلام صاحب نے تیسری دنیا کے قابل سائنسدانوں کے لئے مزید اعلیٰ سائنسی استعدادوں کے حصول کی خاطر 1964ء میں ٹریسٹے (اٹلی)میں ایک بین الاقوامی مرکز برائے نظریاتی سائنس (Internationl Centre for Theoretical Physics)قائم کیا جس نے بے شمار سائنسدانوں کو اعلیٰ علم اور میعار حاصل کرنے کے قابل بنایا ۔ اس سے قبل 1962ء میں سلام صاحب نے صدر ایوب سے درخواست کی کہ حکومت پاکستان اس سنٹر کے قیام کی منظوری دے دے۔ لیکن ایوب خان کے مشیروں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا اور سلام صاحب کو اسے اٹلی میں قائم کرنے پر مجبور کر دیا۔ وہ یہ مرکز پاکستان میں قائم کرنا چاہتے تھے۔  آج ICTPٍمیں پچاس سے زائد ترقی پذیر ممالک کے سائنسدان تحقیقی کام کے لئے باقاعدگی سے حاضر ہوتے ہیں جن میں  پاکستانی سائنسدان بھی شامل ہیں۔
۔   ICTPکے بعد ڈاکٹر عبد السلام صاحب کا ایک اور زبردست کارنامہ سائنس اکیڈمی برائے تیسری دنیا ہے ، جسکا انکی کوششوں سے 1983ء کو قیام عمل میں آیا۔

3۔    نوبیل انعام ۔

کائنات کو یکجا رکھنے والی قوتوں کے متعلق ریسرچ کے سلسلے میں ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی رات دن کی محنت آخر پھل لائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے 1979ء میں آپ کو عالمی سطح پر سب سے قیمتی اور قابل فخر انعام نوبیل پرائز ملا ۔ آپ پہلے مسلمان اور واحد پاکستانی سائنسدان ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔
(ماخوذ از تعمیر و ترقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کا کردار۔ از پروفیسر محمد نصر اللہ خان صاحب۔صفحہ 282تا315)
     مکرم ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی سوانح حیات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان اور تیسری دنیا کے لوگوں کی سائنسی ترقی کے کس قدر خواہشمند تھے اور صرف خواہش ہی نہیں بلکہ اس کے لئے انہوں نے عملی اقدامات بھی اٹھائے۔ یہ ایک قرض ہے جو پاکستانی قوم پر سلام صاحب کا ہے ، اور اس کو اتارنے کے لئے کم سے کم انکی کوششوں کا تو اعتراف کیا جانا چاہیے نہ کہ ان پر بے بنیاد الزامات لگانے چاہئیں۔
اگرچہ وہ ایک سچے مسلمان تھے تاہم اگر کسی کو اس پر یقین نہ بھی آئے تو بھی ان کی سائنس کے میدان میں خدمات ، پاکستان کے لئے خصوصاً اور مسلمانوں اور تیسری دنیا کے لئے عموماً ، ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔
مکمل تحریر >>